Pages

Friday 5 July 2024

Manzoor E Nazar By Jiya Abbasi Complete Romantic New Novel

Manzoor E Nazar By Jiya Abbasi Complete Romantic New Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Manzoor E Nazar By Jiya Abbasi Complete Romantic Novel 


Novel Name: Manzoor E Nazar

Writer Name: Jiya Abbasi

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ ہاتھ سے ٹرالی دھکیلتی آگے بڑھ رہی تھی مال میں آئے کافی وقت گزر چکا تھا مگر اسے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ تاہم گھر کے لیے ضروری سامان لے کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی جہاں بل کی ادائیگی کے لیے ایک لمبی قطار لگی تھی۔ 

وہ بیزاری سے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر وقت دیکھتی اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ اتوار ہونے کی وجہ سے مال میں معمول کے مطابق زیادہ رش تھا۔ 

لوگ ادھر سے اُدھر اپنی اپنی ٹرالی کو دھکیلتے سامان لینے میں مصروف تھے۔ وہ چاروں طرف نظر گھماتی اپنی ٹرالی کو آگے بڑھانے لگی قطار میں کمی تیزی سے واقع ہو رہی تھی کاؤنٹر پر کھڑا لڑکا تیزی سے اپنے ہاتھوں کو کام میں لا رہا تھا۔ 

وہ ٹرالی کو لیے کاؤنٹر کے سامنے آرکی اور ٹرالی سے سامان نکالتی کاؤنٹر پر رکھنے لگی کہ اچانک ہی اسے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی اس نے جونہی نظر اُٹھا کر دیکھا تو کاؤنٹر پر کھڑا لڑکا بے باکی سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 

غصّے کی ایک شدید لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ اس وقت برقعے میں تھی حتہ کہ اس نے نقاب بھی لیا ہوا تھا مگر اس سب کے باوجود وہ لڑکا یوں گھور رہا تھا جیسے کوئی ماڈل اس کے سامنے کھڑی ادائیں دیکھا رہی ہو۔ 

غصّے سے گھورتے اس نے کھری کھری سنانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ فائرنگ کی آواز نے پورے ماحول میں سکتہ طاری کر دیا۔

مال کے داخلی دروازے سے اندر آتے وہ پنتیس چھتیس افراد میں سے ایک شخص نے ہوائی فائرنگ کر کے سب کو دہشت و خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ سب اپنی اپنی گن ہاتھ میں لیے مال میں پھیلتے چلے گئے۔ عورتوں بچوں کو یرغمال بنا کر بندوق ان کے سروں پر تان دی تھی۔ 

" کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔ اگر کسی نے زرا سی بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو اُس کو یہیں بھون کر رکھ دینگے۔" فائر کرنے والا آدمی کہتا ہوا آگے بڑھا اور کیشیر کے پاس آکر رک گیا۔

" وہ جلدی سے اپنی ٹرالی پیچھے گھسیٹتی دو قدم دور ہوئی تھی۔" 

" تیرا مالک کہاں ہے؟ " اس آدمی نے کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر پوچھا۔

" ج۔۔جی۔۔ وہ تو بس مہینے میں ایک ادہ بار ہی چکر لگا کر حساب کتاب دیکھتے ہیں۔" کیشیر ہکلاتا ہوا بولا۔

" ہنہہ !! لگتا ہے تیرے مالک کو اپنا دھندا کچھ عزیز نہیں ہے اور نہ ہی تم ملازموں کی کوئی پرواہ ہے تبھی تو ہمارے دادا کے ہاتھوں تم لوگوں کو موت کے منہ اُتارنے کا انتظام کر رکھا ہے۔" وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولا اور اس لڑکے کو گریباں سے پکڑ کر سر سے اوپر اُٹھ دیا۔

سب اس لڑکے کے آنے والے خوفناک منظر کا سوچ کے لرزنے لگے تھے۔ وہ آدمی لڑکے کو ہوا میں اُٹھائے دور زمین پر اچھالتا کہ اس سے پہلے کسی کی گرج دار آواز نے سب کے دل دہلا کر رکھ دیے۔ 

" چھوڑ دو اسے غفار۔" اس گرج دار آواز کے بعد ماحول میں سکوت طاری ہو گیا تھا۔ ماحول میں چھائے سکوت کو اس شخص کے بوُٹ کی آواز نے توڑا تھا۔ دراز قد، ورزشی جسم، کالے بال، کالی گہری آنکھیں، مغرور ناک سرخ سفید رنگت کا حامل وہ شخص کسی ریاست کا بادشاہ لگتا تھا۔مگر وہاں موجود لوگوں کو وہ "ملک الموت" ہی لگ رہا تھا۔ وہ چلتا ہوا اپنے آدمی کے پاس آیا۔ اس شخص کے کہتے ہی غفار لڑکے کو نیچے اُتار کر ادب سے ایک طرف ہوگیا تھا۔ وہ شخص آگے بڑھتا ہوا کیشیر کی طرف آیا۔ 

وہ ابھی تک کاؤنٹر کی طرف ہی کھڑی تھی۔ اس دل دہلا دینے والے ماحول نے سب کو ماؤف کر دیا تھا کوئی بھی شخص کچھ سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا۔ وہ شخص سرسری سی نظر اس لڑکی پر ڈالتا کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے سے مخاطب ہوا۔

" اگر آج شام تک تمہارا مالک میرے اڈے پر حاضری دینے نہ آیا تو بتا دینا اُسے کل کی صبح صرف اُسے نہیں بلکہ اُس کے پورے خاندان کو نصیب نہیں ہوگی۔"سمجھ میں آیا کچھ یا اپنے طریقے سے سمجھاؤں؟ "

"ج۔۔۔ جی۔۔ جی سمجھ گیا " کردم دادا "۔ کیشیر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

کردم دادا نے ایک بار پھر سرسری نظر اس لڑکی پر ڈالی جو ان لوگوں کی طرف ہی متوجہ تھی۔ وہ پلٹ کر خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا مگر جاتے جاتے ایک بار پھر دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے رک کر اس لڑکی کی طرف دیکھا تھا جس کی نظریں بھی اسی پر جمی تھیں۔ وہ دروازہ عبور کرتا باہر نکل گیا۔ اس کے ماتحت بھی اس کے پیچھے چل دیے۔

ان کے جاتے ہی ماحول کا سکتہ ٹوٹا تھا لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی سب اپنا اپنا سامان وہیں چھوڑ کر مال سے باہر نکلنے کے لیے خارجی دروازے کی طرف بھاگے۔

وہ بھی سامان وہیں چھوڑتی خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ 

۔***********۔

وہ تھکی ہاری گھر میں داخل ہوئی آج کہ واقعے نے اس پر بھی خوف طاری کر دیا تھا۔ وہ ابھی بھی اس واقع کو سوچ رہی تھی جب ماں کی آواز اسے سوچ کی دنیا سے باہر لائی۔

" کتنی دیر لگا دی " آئینور " تم نے۔۔ میں کتنا پریشان ہوگئ تھی اور دیکھو خالی ہاتھ آئی ہو جب کچھ لیا ہی نہیں تو تم اتنی دیر سے کہاں تھیں؟ "

رخسار بیگم نے اسے دیکھتے ہی پریشانی سے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔

" کچھ نہیں ماما بس آپ کو تو پتا ہے نہ مجھے کچھ اتنی جلدی پسند نہیں آتا۔ میں پورا مال میں گھوم کر آ گئی لیکن کچھ پسند نہیں آیا اس لیے دیر ہو گئی اور بغیر کچھ خریدے ہی واپس آگئی۔"

آئینور نے رخسار بیگم کو پریشان دیکھ کر سچ بتانا مناسب نہ سمجھا ورنہ وہ اور پریشان ہو جاتیں۔

" اچھا چلو ٹھیک ہے تم منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔"

" جی ٹھیک ہے۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ رخسار بیگم بھی کھانا لگانے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔

۔***********۔ 

کمرے میں آکے وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا نقاب اُتارنے لگی تھی کہ تبھی اس کے ذہن میں اس لڑکے کا خیال آیا جو کاؤنٹر پر کھڑا اسے گھور رہا تھا۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھنے لگی نقاب سے جھانکتی آنکھیں اتنی حسین تو نہ تھیں کہ مقابل نظریں نہ ہٹا پائے مگر نہ جانے کیوں غلطی سے بھی جب کوئی ایک نظر ان پر ڈالتا تھا تو دوبارہ نظر ڈالنے سے خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ یہ آنکھیں ہرن جیسی بڑی اور حسین تو نہ تھیں درمیانی آنکھیں تھیں البتہ لمبی ضرور تھیں۔ یہ گہری بھوری آنکھیں ایک ایسی کشش رکھتی تھیں کہ نقاب پوش ہونے کے بعد بھی مقابل نظریں جمانے پر مجبور ہوجاتا تھا۔

" یہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں نقاب کرنے کے باوجود گھورتے رہتے ہیں پتا نہیں کیا نظر آتا ہے۔ نفس پرست کوئی دین ایمان ہی نہیں ہوتا ان کا۔" آئینور سر جھٹکتی برقعہ اُتارنے لگی ساتھ میں بڑبڑا بھی رہی تھی تبھی کھانے کے لیے بلانے آتی رخسار بیگم کے کانوں میں اس بڑبڑاہٹ پہنچی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔

" کیا ہوا کیوں بڑبڑا رہی ہو کچھ ہوا ہے؟؟ " انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا جو الماری میں گھسی برقعہ رکھ رہی تھی۔

"کچھ نہیں بس مال میں وہ کیشیر مجھے ایسے گھور رہا تھا جیسے میں کوئی چلتی پھرتی ماڈل ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا نقاب میں بھی ان لڑکوں کو کیا نظر آتا ہے جو یوں گھور رہے ہوتے ہیں۔" وہ جھنجھلاہٹ سے کہتی بیڈ پر جاکے بیٹھ گئی۔

" اصل میں ان لڑکوں کا قصور نہیں ہے میری بیٹی کی آنکھوں میں ہی ایسی کشش ہے جو سامنے والے کو نظریں نہ ہٹانے پر مجبور کر دیتی ہے۔" رخسار بیگم اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔

"ماں کی اندھی محبت... ایسی بھی کوئی ہرن جیسی بڑی آنکھیں نہیں کے لوگ ان سے نظر نہ ہٹا سکیں ہاں لمبی ضرور ہیں لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔" آئینور نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ اس کے اسطرح بولنے پر رخسار بیگم مسکراہٹ دباتی گویا ہوئیں۔

" کشش کا تعلق چہرے کے نقوش سے نہیں ہوتا۔ یہ ایک الگ شے ہے۔ جو عام سے نقوش میں بھی جان ڈال دیتی ہے۔ انھیں خوبصورت، جاذب نظر بنا دیتی ہے۔ اچھے سے اچھے نقوش والے میں اگر اللّٰه کشش نہ رکھے تو وہ کبھی نظروں کو بہا نہیں سکتا اور عام سے عام نقوش والے میں اگر اللّٰه کشش ڈال دے تو اسے منظورِ نظر بنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔" 

رخسار بیگم کی باتوں نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں وہ ہر ایک کے منہ سے اپنی تعریف سنتی آئی تھی نقاب کرنے کے باوجود مردوں کو اپنی طرف متوجہ پایا تھا۔ یہ کشش ہی تو تھی جو برقعہ پہن کر بھی وہ خوبصورت لگتی تھی۔

" اب کیا ہوا کہاں کھو گئیں؟ " اس کو خاموش بیٹھا دیکھ رخسار بیگم نے پوچھا۔ 

" کچھ نہیں آپ نے کھانا لگا دیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔"

" ارے ہاں میں تمہیں کھانے کے لیے ہی بلانے آئی تھی مگر باتوں میں بھول ہی گئی۔" رخسار بیگم نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

" کوئی بات نہیں آپ چلیں میں بس ہاتھ منہ دھو کر آئی۔" وہ مسکرا کر کہتی واش روم میں چلی گئی۔ رخسار بیگم بھی" ٹھیک ہے" کہتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ 

۔***********۔

ہاتھ میں ریموٹ پکڑے صوفے پر بیٹی وہ مسلسل چینلز بدلنے میں لگی تھی تبھی اس کی نظروں سے ایک نیوز چینل گزرا جس پر آج مال میں ہونے والے واقع کی خبر چل رہی تھی جس میں یہ بھی بتایا جارہا تھا اس واقعے کے بعد کچھ عرصے کے لیے مال کو بند کردیا ہے۔ 

" ہنہہ !! یہ نیوز والے بھی پوری واردات ہونے کے بعد خبر پہنچاتے ہیں تب کہاں تھے جب وہ گینگسٹر مال میں گھسے تھے۔" وہ سوچ ہی رہی تھی جب رخسار بیگم کی آواز پر فوراً چینل بدل دیا۔

" بیٹا میں سوچ رہی تھی کچھ دنوں کے لیے لاہور جا کر تمارے پاپا سے مل آئیں۔" رخسار بیگم ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔

" وہ بھی تو کراچی آ سکتے ہیں نا مگر جب اُنہیں ہماری پرواہ نہیں ہے تو ہم کیوں جائیں؟ رہنے دیں اُنہیں وہاں اکیلا۔" اس نے تلخی سے کہتے ہوئے ٹی وی بند کر دیا۔

" بُری بات آئینور وہ باپ ہیں تمہارے۔" رخسار بیگم نے اسے ڈپٹا۔

" ہاں جسے اپنی فیملی کی پرواہ تک نہیں۔" آئینور نے تلخی سے کہا۔

" اچھا ان باتوں کو چھوڑو لیکن یاد رکھنا ہم ضرور ایک دو دن میں جائینگے بس۔" رخسار بیگم نے دوٹوک انداز میں کہا تو وہ بس منہ بسور کر رہ گئی۔

" اچھا ایک اور بات تو سنو۔" رخسار بیگم اس بار اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوئیں۔

" جی۔" وہ چائے پیتے ہوئے بولی۔

"وہ پڑوس میں بخت باجی ہیں نا "۔۔۔ وہ رکیں تھوک اندر نگلا۔

" ہاں ہیں تو پھر؟ " وہ بے نیازی سے بولی۔

" تو انہوں نے تمہارے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا ہے۔" وہ ایک سانس میں اپنی بات مکمل کر گئیں۔ 

آئینور آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔ غصّے کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ چائے کا کپ ٹرے میں رکھتی وہاں سے اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔

"مطلب بخت باجی کو انکار کرنا ہے۔" رخسار بیگم اس کو جاتا دیکھ گہرا سانس لیتے ہوئے بڑبڑائیں۔ 

۔***********۔

" دادا ڈرگز ابھی اڈے پر نہیں پہنچے پاشا کے آدمی نے اپنے آدمیوں کے زریعے بحری جہاز پر حملہ کر کے اپنے قبضے میں کرلیا۔"

کردم ساحلی سمندر کے قریب والے اڈے پر تھا جب غفار نے آکر اسے خبر دی۔ وہ تیش سے سامنے موجود ٹیبل پر ہاتھ مارتا اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے دھاڑا۔

" تم لوگوں سے ایک کام بھی ٹھیک سے نہیں ہوسکتا۔" اس کی دھاڑ پر غفار دو قدم پیچھے ہوا۔

" سارا کام خراب کر کے رکھ دیا۔ اس پاشا کو تو میں اب کسی صورت میں نہیں بخش نے والا جنگ کا آغاز اس کی طرف سے ہوا ہے مگر ختم میں کرونگا۔" 

" معلوم کرو وہ آگے کیا لایا عمل طے کرنے جارہا ہے۔ کوئی تو اس کی دُکھتی رگ ہوگی؟ " کردم ہاتھ سے ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔

" دادا میں نے معلوم کیا ہے اس کی بھانجی ہے جو کراچی گئی ہوئی ہے۔ آج لاہور واپس آرہی ہے۔ مرحوم بھائی بھابھی کی ایک لوتی نشانی ہے۔" اس نے کہتے ہوئے ایک تصویر اس کے سامنے کی۔ غفار کی دی ہوئی خبر اور اس تصویر کو دیکھتے ہی ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی۔

" ٹھیک ہے۔ معلوم کرو یہ لاہور جہاز کے زریعے آرہی ہے یا ٹرین کے زریعے؟ "

" دادا میں ساری معلومات حاصل کر کے آیا ہوں۔ وہ ٹرین کے سفر کی زیادہ شوقین ہے ٹرین سے واپس لاہور آرہی ہے۔" غفار کی بات پر فاتحانہ مسکراہٹ سے بولا۔

"بہت خوب !! تو کب آرہی ہے پھر ہماری مہمان؟ "

" دادا دو بجے کی ٹرین سے۔"

کردم دادا نے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی جو ڈیرھ بجا رہی تھی۔ 

" ٹھیک ہے۔ گاڑی نکالوں اپنی مہمان کو لینے میں خود جاؤں گا۔"

"جی دادا " غفار مودبانہ انداز میں کہتا وہاں سے چلا گیا۔

کردم ہاتھ میں تصویر پکڑے دیکھتا ہوا بولا۔

" تمہیں یہ دشمنی بہت مہنگی پڑے گی پاشا۔" وہ حقارت سے کہتا اسٹیشن جانے کے لیے نکل گیا۔ 

۔**********۔

لاہور کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی کتنی ہی یادیں کسی فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے سے گزریں۔ رخسار بیگم کے کہنے پر مجبوراً اسے ہتھیار ڈالنے پڑے اور آج وہ لاہور کے اسٹیشن پر کھڑی اپنی زندگی کے بارے ميں سوچنے لگی تھی۔ کتنی بے رنگ زندگی تھی اس کی۔ جس جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ کر لڑکیاں اپنی خوبصورت زندگی کے جواب سجاتی ہیں اس نے اس عمر میں اپنے اندر ویرانیوں کو پایا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی جس کی شکل پر معصومیت اور مسکراہٹ میں شرارتی پن کا راج تھا وہیں اس کی گہری بھوری آنکھوں کی اُداسی سب سے مخفی رہی تھی۔ 

" کیا ہوا ؟ " سامان ہاتھ میں لیے رخسار بیگم نے اس کا شانا ہلایا تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی۔

" کچھ نہیں۔ سارا سامان لے لیا ؟ " اس نے فوراً بعد بدلی۔

"ہاں !! بس ٹیکسی دیکھ لوں پھر چلتے ہیں۔ تم یہاں رکو میں ٹیکسی دیکھتی ہوں۔"

" ٹھیک ہے۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی وہیں کھڑی ہوکر رخسار بیگم کو جاتی دیکھتی رہی۔

۔***********۔

کردم اور اس کے آدمی عام سے حلیے میں بلیوٹوتھ کانوں میں لگائے چاروں طرف پھیل چکے تھے۔

" ایک ایک کے اوپر نظر رکھو پاشا اُسے ایسے نہیں آنے دے گا ضرور اُس کی حفاظت کیلئے اپنے ماتحت بھیجے ہونگے۔"

"پر دادا یہاں تو سب عام سے لوگ ہیں وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔" غفار کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

تبھی کردم کی نظر برقعہ پہنے کھڑی لڑکی پر پڑی تو فوراً اپنے ماتحتوں سے بولا۔

"جتنی نقاب پوش خواتین ہیں سب کو دیکھو۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ہی ایک ہو۔" کردم کہتا ہوا اس لڑکی کی طرف بڑھا جو دنیا جہاں سے بےنیاز سر جھکا کر کھڑی تھی۔

کردم نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب موڑا۔ آنکھوں میں حیرت لیے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی اور یہ ہی حال سامنے کھڑے کردم کا تھا۔ وہ حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا وہ ہی شناسا آنکھیں جن کی کشش میں وہ جکڑ رہا تھا۔ فوراً سر جھٹکتا اپنا ہاتھ اس کے نقاب کی طرف بڑھادیا۔ اس کا ارادہ چہرہ دیکھنے کا تھا۔ نقاب ہٹانے کیلئے اس نے ہاتھ نقاب پر رکھا ہی تھا جب غفار کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔

" دادا لڑکی مل گئی ہے۔ ہم نے اسے گاڑی میں ڈال دیا ہے۔"

" ٹھیک ہے۔" وہ کہتا ہوا فوراً اس کا بازو چھوڑتا مڑ کر چلا گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ رہی تھی۔ خوف کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑگئ۔ مال کا منظر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے لہرایا وہ جھرجھری لیتی جب ایک بار پھر اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا تو فوراً ڈرکر مڑی۔

" چلو ٹیکسی مل گئی۔" رخسار بیگم کو سامنے دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ آئینور اثبات میں سر ہلاتی ان کے ساتھ چل دی۔


۔***********۔


وہ گھر میں داخل ہوئیں تو گھر میں چند چیزوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ گھر خالی تھا کوئی ذی روح موجود نہ تھی۔ آئینور استہزائیہ مسکراہٹ سے رخسار بیگم کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی۔

" دیکھ لیا نا آپ نے؟ اُنہیں پتا تھا ہم آرہے ہیں۔ لینے آنا تو دور گھر میں ہی موجود نہیں ہیں۔ اوپر سے آپ جانتی ہیں نا گھر کا سامان کہاں گیا ہوگا ؟ "

رخسار بیگم اس کی بات کو نظر انداز کرتی اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ وہ بھی منہ بسورتی ان کے پیچھے چل دی۔

" تم ایک کام کرو یہ سامان کمرے میں رکھو جب تک میں کچن میں کچھ کھانے کو دیکھتی ہوں۔"

" کوئی فائدہ نہیں ماما "۔۔۔ کچھ نہیں ملے گا کچن میں۔"

" لڑکی !! یہ بدتمیزی اپنے باپ کے سامنے مت کرنا سمجھی۔" وہ اسے ڈانٹتی کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ وہ بھی منہ بسورتی سامان کمرے میں رکھنے چلی گئی۔

کچن میں پہنچ کر رخسار بیگم نے کیبنٹس کھولے مگر کچھ بھی ایسا سامان موجود نہ تھا جس سے وہ کھانا بنا سکتیں یا کوئی ایسی چیز جو وہ کھا کر اپنی بھوک مٹاتیں۔ وہ ایک گہرا سانس لیتی کچن سے باہر نکل آئیں۔

" کیا ہوا کچھ ملا کھانے کو؟ " رخسار بیگم کو کچن سے باہر آتے دیکھ آئینور نے فوراً پوچھا۔

وہ نفی میں سر ہلاتی بولیں۔ " لگتا ہے باہر سے ہی کچھ لانا پڑے گا۔"

" ویری گڈ !! غلطی ہماری ہی ہے آتے وقت کھانا ساتھ لانا چاہیئے تھا۔" آئینور کا غصّہ سے بُرا حال ہو رہا تھا۔

" اب کیا کریں؟ " رخسار بیگم نے پوچھا بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ لمبے سفر کے بعد تھکن بھی محسوس ہورہی تھی ساتھ ہی بھوک سے بُرا حال بھی ہو رہا تھا۔

" آپ یہاں رکیں میں بازار سے کچھ لے کر آتی ہوں۔" آئینور کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" نہیں اکیلے نہیں جاؤ ساتھ چلتے ہیں۔ باہر سے ہی کچھ کھا کر تھوڑا سامان بھی خرید لینگے۔" رخسار بیگم نے مشورہ دیا۔

" ٹھیک ہے۔" آئینور اثبات میں سر ہلاتی برقعہ پہننے چلی گئی۔


۔***********۔


قریب ہی ریسٹورینٹ سے کھانا کھانے کے بعد وہ بازار چلی گئیں۔ رات کے کھانے کے لیے سبزی اور کچھ پھل خرید کر وہ گھر کی جانب روانہ ہوگئی تھیں۔ گھر کے قریب پہنچی ہی تھیں جب گھر کے باہر بھیڑ جمع دیکھی۔

چند آدمی کالے کپڑے زیب تن کیے کسی آدمی کو گھسیٹتے ہوئے زبردستی جیپ میں ڈال رہے تھے۔

" یہ تو پاپا ہیں۔" آئینور نے خوفزدہ چہرے سے رخسار بیگم کی طرف دیکھا۔

" یااللّٰه یہ لوگ کون ہیں؟ اور اسلم کو کہاں لے جا رہے ہیں؟؟ " رخسار بیگم کے چہرے پر بھی خوف کے سائے لہرانے لگے تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ جا چکے تھے۔ جو لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ جانے لگے۔

" ماما آپ یہ سامان لے کر اندر جائیں اور تالا لگا لے گا کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولے گا۔ میں ابھی آئی۔"

" تم پاگل ہو نور !! کہاں جارہی ہو؟ " وہ اسے روکتی ہوئی بولیں۔

" تو کیا کروں۔۔۔ اُن کی لاش کا انتظار کروں؟ " وہ کرب سے بولی۔

" اللّٰه نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہو۔" انہوں نے دہل کر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

" تو بس پھر مجھے جانے دیں ورنہ وہ لوگ نکل جائینگے۔" آئینور نے گاڑی کو دور جاتا دیکھ کر کہا مگر ابھی بھی وہ گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی۔

" ٹھیک ہے پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔"

" نہیں آپ یہیں پر ہماری واپسی کا انتظار کریں۔ انشاءاللّٰه !! میں پاپا کو ساتھ لے کر ہی آؤں گی۔" آئینور کا انداز دوٹوک تھا۔ رخسار بیگم کو نہ چاہتے ہوئے ماننا ہی پڑا۔

" ٹھیک ہے۔ اللّٰه تمہیں اپنی امان میں رکھے۔"

" آمین " آئینور کہتی آگے بڑھ گئی قریب ہی اسے ایک ٹیکسی نظر آگئ تھی۔

" بھائی صاحب اس گاڑی کے پیچھے جانا ہے۔" آئینور نے دور جاتی گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو بہت دور جانے کی وجہ سے اب دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔

" ٹھیک ہے بیٹھیں۔" ٹیکسی ڈرائیور کے کہتے آئینور بیٹھ گئی۔

" بھائی زرا جلدی۔۔ گاڑی نکلنی نہیں چاہیئے۔" اس کے کہتے ہی ڈرائیور نے ٹیکسی کی رفتار تیز کر دی۔

جیپ مختلف مقامات سے گزرتی جارہی تھی۔ وہ بھی انہی کی تقلید کرتے جارہے تھے۔ جیپ آگے جاکے ایک محل نما بنگلے کے سامنے رکی۔ گاڑی کے رکتے ہی دروازے پر کھڑے گارڈ نے دروازہ کھول دیا۔ گاڑی اندر کی جانب بڑھی اور دروازہ ایک بار پھر بند ہوگیا۔

آئینور ٹیکسی میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ٹیکسی کو بنگلے سے تھوڑا فاصلے پر رکوا کر ٹیکسی سے نیچے اُتری۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پیسے دے کر وہ پیدل ہی بنگلے کی سمت چلنے لگی۔

آس پاس ایسے ہی بنگلے بنے تھے۔ وہ چاروں طرف نظریں گھماتی اس بنگلے کے سامنے آ رکی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ بیل پر ہاتھ رکھا۔ اس دوران اسے بہت سے خدشات نے ان گہرا تھا۔ دل ہی دل میں آیت لکرسی پڑھتی اللّٰه سے دل میں ڈھیروں دُعائیں مانگتی بالآخر اس نے بیل بجا دی۔

دروازے پر کھڑے گارڈ نے دروازے میں بنی چھوٹی سی کھڑکی سے باہر دیکھا اس کھڑکی سے بس اس گارڈ کی آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں مگر وہ باہر کھڑی آئینور کو صاف دیکھ سکتا تھا۔

" اے لڑکی !! چلی جا یہاں سے کہیں اور جا کہ بھیک مانگ۔" گارڈ نے گھورتے ہوئے کہا۔

گارڈ کی بات پر آئینور حیرت سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر ایک نظر خود کو دیکھا۔ اس وقت اسے شدید غصّہ چڑھا تھا مگر پھر گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ وہ اسے برقعے میں دیکھ کر کوئی بھکارن سمجھ رہا تھا۔

" یہ بڑے گھر کے لوگ اتنے پیسے تو ہوتے نہیں اپنے لیے مکمل لباس خرید سکیں۔ کہیں سے آستین غائب ہے تو کبھی گھٹنوں سے نیچے کا کپڑا کم پڑ جاتا ہے۔ آیا بڑا مجھے بھکارن بولنے والا۔" آئینور نے جل کر سوچا بولی کچھ نہیں۔ ابھی زیادہ ضروری کام باپ تک پہنچنا تھا۔

" میں کوئی بھکارن نہیں سمجھے اور دروازہ کھولو مجھے میرے پاپا کے پاس جانا ہے جسے تم لوگ ابھی پکڑ کر لائے ہو۔" آئینور نے اس بار رعب سے کہا۔

" کیوں اپنے باپ کے ساتھ تجھے بھی مرنے کا شوق چڑھا ہے؟ " گارڈ نے طنزیہ کہا۔

" مجھے تم سے بات نہیں کرنی اپنے مالک کو جا کر بولو اسلم کی بیٹی آئی ہے۔"

" چلی جا یہاں سے۔ کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہے؟؟ " گارڈ نے ایک بار پھر سے چلے جانے کا کہا۔

" مجھے بس میرے پاپا کے پاس جانا ہے۔ جاکر اپنے مالک کو بتاؤ میری آمد کا۔" وہ بھی آئینور تھی ڈر کے پیچھے ہٹنا نہیں سیکھا تھا۔

گارڈ تاسف سے اسے دیکھتا دروازے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر دروازے کی کھڑکی پر نظر آیا اب کی بار اس نے خاموشی سے دروازہ کھول دیا۔

" لگتا ہے اپنے مالک سے بات کرکے آیا ہے اور اس نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔۔ یہاں تک آ تو گئی ہوں نہ جانے آگے کیا ہو اللّٰه جی بس حفاظت کرنا۔" آئینور دل میں دعا کرتی اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔

اندر قدم رکھتے ہی اسے پورچ دکھائی دیا تھا۔ جہاں جیپ کے علاوہ تین نئے ماڈل کی کار بھی کھڑی تھیں۔ گارڈ کی تقلید کرتی بنگلے کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھی وہاں ایک اور آدمی کھڑا تھا۔ سب اپنے اپنے کام کی نوعیت کے حساب سے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ گارڈ اس آدمی کے ساتھ آگے جانے کا کہہ کر واپس دروازے کی طرف چلا گیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی اس آدمی کے سامنے آئی۔ اس آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے چلنے کا کہا وہ اس کی تقلید کرتی ڈرائینگ روم میں آگئی۔ وہ اس کو صوفے پر بیٹھنے کا کہہ کر باہر چلا گیا۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

" پاپا کہاں ہیں؟ نظر کیوں نہیں آرہے؟ کہیں ان لوگوں نے کچھ۔۔۔ نہیں نہیں۔" وہ سوچ ہی رہی تھی جب ڈرائینگ روم میں پھیلی کلون کی خوشبو نے اسے اپنی طرف متوجہ کرا۔ اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو آنکھوں میں حیرت در آئی ایسی ہی حیرانی سامنے والے کی آنکھوں میں بھی تھی۔ وہ اسے دیکھتی اپنی جگہ بیٹھی ساکت رہ گئی تھی مگر اگلے ہی لمحے سنبھل کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ شخص بھی اب بےتاثر چہرے لیے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ چکا تھا لیکن آئینور کو بیٹھنے کا نہیں کہا تھا۔

وہ بھی بیٹھنے نہیں آئی تھی جلد از جلد اپنے باپ کو لے کر جانا چاہتی تھی اس لیے کھڑے کھڑے ہی بنا کوئی تمہید باندھنے گویا ہوئی۔

" میرے پاپا کہاں ہیں؟ " بغیر کسی خوف کے سوال کیا گیا۔

سامنے بیٹھا شخص ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کافی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اپنی طرف یوں تکتا پا کر وہ زچ ہوئی تو اس بار نام لے کر با آواز بلند اُسے مخاطب کیا۔

" مسٹر کردم !! میں آپ سے پوچھ رہی ہوں پاپا کہاں ہیں میرے اور انہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ " کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔

" جب میرا نام معلوم ہے، یہ بھی معلوم ہے تمہارے پاپا کو یہاں لایا گیا ہے، تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کیوں لایا گیا ہے۔"

اب کی بار آئینور خاموش رہی۔ کیونکہ اس کے دماغ میں ایک نہیں کئیں وجہ موجود تھیں جن میں سے ایک کا چناؤ مشکل تھا۔

" کیا ہوا۔۔ خاموش کیوں ہوگئی؟ " وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

" نہیں مجھے نہیں معلوم اُنہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے اور آپ لوگ اُن سے کیا چاہتے ہیں۔" وہ اعتماد سے بولی۔

کردم نے غور سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ خود کو برقعے میں چھپائے بس نقاب سے جھانکتی دو پُرکشش آنکھیں۔ جو فِل وقت اسے غصّے سے دیکھ رہی تھیں۔

" لگتا نہیں ہے تم جیسی لڑکی اس جیسے آدمی کی بھی بیٹی ہوسکتی ہے۔ خیر !! کام کی بات پر آتے ہیں۔

تمہارے باپ جوئے میں پچاس لاکھ ہارا ہے جس کو ادا کرنے کی تین ماہ کی مہلت طلب کی تھی اُس نے۔ ان تین ماہ میں میرے آدمیوں نے کئیں بار جا کر اسے یاد دہانی کروائی اور آج پورے تین ماہ ہوچکے ہیں مگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو اُٹھا لیا اس کے گھر سے۔ اب تک تو میرے آدمی اُس کا قصہ ہی ختم کر دیتے مگر تم آگئیں۔ اپنے شرابی جواری باپ کی فرمانبردار بیٹی بن کر۔" کردم کی بات پر اس کی آنکھوں میں نمی اُتر نے لگی تھی جسے اس نے فوراً پیچھے دھکیلا تھا۔

" آپ کو آپ کے پیسے مل جائینگے لیکن میرے پاپا کو چھوڑ دیں۔" آئینور ہنوز کھڑی تھی۔ کردم نے بھی اُسے بیٹھنے کا کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

" مجھے جتنا وقت دینا تھا دے چکا ہوں۔ ویسے بھی کافی وقت برباد کر چکی ہو میرا اب جاسکتی ہو۔ چند منٹ کی زندگی بھی تمہارے باپ کو تمہاری ان بکواس باتوں کی وجہ سے مل گئی اب جاؤ یہاں سے تمہارے باپ کی لاش تمہارے گھر پہنچا دی جائے گی۔" کردم کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔

" نہیں دیکھیں کچھ وقت اور دے دیں بس ایک ہفتہ میں آپ کے سارے پیسے لوٹا دونگی۔" وہ بے بسی سے بولی جبکہ وہ خود بھی جانتی تھی اتنی بڑی رقم وہ ایک ہفتے میں کہیں سے نہیں لاسکتی۔

آئینور کی بات پر وہ کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا۔

" چلو تم اتنا کہہ رہی ہو تو ایک ڈیل کرتے ہیں۔" مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔

" کیسی ڈیل؟ " آئینور الجھی۔

" تمہارے باپ کی جان کے بدلے میں تم۔" یہ کہتے ہوئے چہرہ بالکل سنجیدہ تھا پہلے والی مسکراہٹ اب غائب تھی۔

" مطلب میری جان؟ ٹھیک ہے آپ مجھے مار کر اپنا حساب برابر کرلیں۔" وہ بغیر کسی خوف کے بولی۔

کردم حیرت سے اسے دیکھنے لگا جو بڑے آرام سے اپنی جان لینے کی بات کر رہی تھی۔

" میں تمہاری جان کی نہیں۔۔ تمہاری بات کر رہا ہوں۔ اپنے باپ کو بچانا ہے تو خود کو مجھے سونپ دو ورنہ گھر جاکر اپنے باپ کی لاش کا انتظار کرو۔"

کردم کی بات نے اسے سن کردیا۔ آئینور کو لگا کسی نے اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔ وہ سفید پڑنے لگی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔

" میں کوئی داشتہ نہیں ہوں۔" وہ بہت ضبط سے بولی۔ غصّے کو ضبط کرتی سرخ آنکھیں وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔

" میرے پاس مزید تمہاری کوئی بکواس سنے کا وقت نہیں جو فیصلہ کرنا ہے جلدی کرو۔" کردم نے بیزاری سے کہا۔

آئینور خاموش کھڑی اپنے پیروں کو دیکھتی رہی ایک طرف باپ کی جان تھی دوسری طرف عزت۔

عزت کو چُنا تو باپ کی جان جائے گی۔ باپ کو چُنا تو اللّٰه کو ناراض کر بیٹھے گی فیصلہ مشکل تھا مگر کسی ایک کا چُناؤ لازم تھا۔ وہ گہرا سانس لیتی گویا ہوئی۔

" ٹھیک ہے۔ آپ میرے پاپا کو چھوڑ دیں۔" آئینور کہہ کر رکی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔

کردم دلچسپی سے اس کے جھکے سر کو دیکھنے لگا تبھی وہ چہرہ اُٹھا کر پھر گویا ہوئی۔

"مگر آپ کو مجھ سے نکاح کرنا ہوگا۔"

" کیااا !! دماغ ٹھیک ہے تمہارا ؟ تم خود چل کر یہاں آئی ہو۔۔ سوچو میں اگر چاہوں تو تم اور تمہارا باپ کبھی یہاں سے واپس نہ جاسکیں۔۔ ایک موت کے منہ میں ہوگا تو دوسرا میری خواب گاہ میں۔ کیا کر لو گی تم؟؟۔۔ کچھ نہیں۔" کردم نے اسے باور کرایا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔

"دیکھیں میں اپنی بیوی بنانے کا نہیں بول رہی بس نکاح کر لیں کیونکہ یہ سب میرے لیے گناہ ہے اور اپنے باپ کو مرتے میں دیکھ نہیں سکتی۔ میں ویسے بھی آپ کے کسی مہمان یا آپ سے جڑے کسی شخص کے سامنے نہیں آؤں گی تو اس نکاح کے بارے میں بھی کسی کو پتا نہیں چلے گا پھر جب آپ مجھے آزاد کرنا چاہیں تو طلاق دے دے گا بس۔" وہ بے بسی سے بولی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر آنے کے لیے تیار تھے۔

کردم خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ آئینور کی آنکھوں میں آئی نمی وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوا۔

" ٹھیک ہے لیکن اس نکاح کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کے تم میری بیوی ہو۔ سمجھی؟ "

" بالکل۔" آئینور نے ہامی بھری۔

" ٹھیک ہے اب جاؤ۔" کردم کہہ کر مڑنے لگا تو آئینور فوراً بولی۔

" اور پاپا اُن کو تو چھوڑ دیں۔"

" جب نکاح ہوگا تو وہ بھی آزاد ہو جائے گا۔"

" دیکھیں اُن کو چھوڑ دیں آج رات آٹھ بجے آپ گھر آجائے گا ہم قاضی صاحب کے ساتھ ہی آپ کا انتظار کریں گے۔۔ فرار ہونے کا سوال ہی نہیں۔۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں آپ کیا کیا کرسکتے ہیں۔"

" کافی سمجھدار ہو۔" کردم اس کی بات سے محظوظ ہوا تھا۔

" ٹھیک ہے باہر جاؤ تمہیں تمہارا باپ باہر کھڑا ہی مل جائے گا۔"

" ٹھیک ہے۔" آئینور اثبات میں سر ہلاتی جانے لگی تھی جب کردم کی آواز پر رکی۔

" سنو !! نام کیا ہے تمہارا ؟ "

" آئینور۔"

" ہممم !! تو محترمہ آئینور صاحبہ زرا بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو صرف تمہارا باپ نہیں تم بھی جان سے جاؤ گی۔ سمجھی؟؟ "

" جی۔" آئینور نے بے تاثر چہرے سے کہا۔

" ہمم !! جاؤ اب۔" کردم کے کہتے ہی آئینور باہر چلی گئی۔ کردم اس کی پُشت کو دیکھتا بڑبڑایا۔ "آئینور" پھر موبائل اُٹھا کر غفار کو کال کی اور اسلم کو چھوڑنے کا بول کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔


۔***********۔


گھر پہنچ کر وہ غصّے سے باپ کو دیکھنے لگی جسے یہ تک نہیں معلوم تھا وہ بچ کیسے گیا۔ بس اپنی زندگی کی خوشی میں ہاتھ میں شراب لیے گنگناتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

" کیا ہوا ہے نور۔۔ جب سے آئی ہو کچھ بول ہی نہیں رہی بتاؤ گی بھی بات کیا ہے ؟ " رخسار بیگم کو اس کی خاموشی سے چڑ ہو رہی تھی کیونکہ وہ جب سے آئی تھی بس باپ کو غصّے سے گھورنے کے علاوہ ایک لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا۔

" رات آٹھ بجے میرا نکاح ہے۔ تیاری کر لے گا قاضی صاحب کو بُلا کر نکاح پڑھانے کی۔" آئینور نے ایسے بتایا جیسے موسم کا حال بتا رہی ہو مگر رخسار بیگم کے لیے یہ بات گویا کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔

" کیا !! یہ کیا بول رہی ہو ؟ کس سے نکاح ہے؟ مجھے بتاؤ آخر ہوا کیا ہے؟؟ بولو اس طرح تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔" اسے کچھ نہ بولتے دیکھ وہ پریشانی سے بولیں۔

" اپنے باپ کی جان کے بدلے خود کو بیچ آئی ہوں۔۔ سن لیا آپ نے؟ " آئینور نے چلا کر کہا۔ رخسار بیگم اپنی جگہ ششدر رہ گئیں۔

" جوئے بازی میں پچاس لاکھ ہارے ہیں جس کو ادا کرنے کا وقت بھی انہوں نے گنوا دیا۔ وہ لوگ تو انہیں مار کر اپنا پیسہ وصول کر لینا چاہتے تھے۔ مگر پھر اس کردم دادا نے یہ شرط رکھی کہ اگر میں خود کو اُسے سونپ دوں تو وہ پاپا کو چھوڑ دے گا۔" آئینور نے تھکے تھکے سے انداز میں بتایا۔

" کیا !! " رخسار بیگم کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ایک ہی دن میں اور ابھی کیا کیا دیکھنا باقی تھا۔

" ہاں پاپا کی جان کی قیمت کے بدلے وہ میرا وجود حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میں یہ سب نہیں کر سکتی تھی اس لیے اُس نے مجھے اتنی مہلت دے دی کہ وہ مجھ سے نکاح کرلے گا اور جب اُس کا دل بھر جائے گا تو مجھے چھوڑ دے گا۔"

" پر اگر انہوں نے اس سب کے بعد بھی اسلم کو مار دیا تو؟ " رخسار بیگم نے خدشہ ظاہر کیا۔

" یہ کام تو وہ اب بھی کر سکتے تھے پاپا کو وہ پکڑ کر لے گئے تھے اور میں خود چل کے اُن لوگوں کے پاس گئی تھی۔

اگر ایسا ہوتا تو پاپا اپنے پیروں پر نہ آتے اور نہ ابھی تک میری عزت محفوظ رہتی۔" آئینور کافی غصّے میں تھی اس لیے لہجہ تلخ ہوتا جارہا تھا۔

" پر وہ تم سے نکاح کیوں کر رہا ہے؟ " رخسار بیگم خاصی الجھ گئی تھیں۔ سب کچھ سمجھ سے باہر تھا۔

" آپ کو کیا لگتا ہے۔۔ یہاں کوئی فلم چل رہی ہے کہ اُس نے مجھے کہیں کسی بازار میں دیکھ میری محبت میں شدید گرفتار ہوگیا اور اب میرے باپ کو مارنے کے بہانے سے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔" آئینور نے جل کر کہا۔

" وہ مرد ہے مرد۔۔ یہ نہیں دیکھتا سامنے کھڑی عورت کیسی ہے؟؟ کیا ہے؟؟ اُسے بس اپنی ہوس پوری کرنی ہوتی ہے۔ وہ اچھے سے جانتا ہے اتنی بڑی رقم ہم ادا نہیں کرسکتے۔ پاپا کو بھی جان سے مار کر کونسا اُن کو پیسے مل جانے ہیں اس لیے انہوں نے مجھے بَلی کا بکرا بنا لیا۔" وہ استہزائیہ ہنسی۔

رخسار بیگم افسوس سے اس کو دیکھنے لگیں۔

" آخر ماں باپ کی غلطیوں کی سزا اولاد ہی تو بھگتتی ہے۔ مجھے بھی اب اپنے باپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہے۔" ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھ سے بہہ گیا۔ رخسار بیگم بھی آنسو بہاتی اسے دیکھتی رہیں۔


۔***********۔


" دادا پاشا کا فون ہے۔" کردم اپنے کمرے میں تھا جب غفار نے آکر اطلاع دی۔

" آووو !! تو اسے خیال آ ہی گیا۔" کردم نے محظوظ ہوتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔ " ہیلو۔"

" ہیلو !! کردم دادا میری بھانجی کو چھوڑ دو اس سب میں اُسے بیچ میں مت گھسیٹو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے اُس سے نہیں۔" کردم کے ہیلو بولتے ہی پاشا بےبسی سے بولا۔

" اُسے بیچ میں لانے والے تم ہی ہو۔ تم میرا جہاز آذاد کر دو تمہاری بھانجی بھی صحیح سلامت تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔" کردم نے کہتے ہی فون کاٹ دیا۔

پاشا بس ہیلو ہیلو ۔۔۔کرتا رہ گیا۔

" صحیح اس کی دُکھتی رگ پر پاؤ رکھا ہے۔ دیکھو کیسے مچھلی کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے۔ اب معلوم ہوگا کس سے دشمنی مول لی ہے۔" کردم نے حقارت سے کہا۔

" دادا ایک بات پوچھوں؟ " غفار ہچکچاتے ہوئے گویا ہوا۔

" پوچھو۔" کردم نے مصروف سے انداز میں کہا۔

" آپ نے اسلم کو جانے کیوں دیا؟ مطلب آپ کے کہنے پر ہی تو اُٹھا کر لائے تھے۔" غفار کی بات پر ایک دلکش مسکراہٹ کردم کے ہونٹوں کو چھو گئ۔

" کردم دادا کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ رات کو گاڑی تیار رکھنا آٹھ بجے اسلم کے گھر جانا ہے۔"

" جی دادا۔" غفار مودبانہ انداز میں کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

کردم لائٹ بند کرتا بیڈ پر لیٹ گیا اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے ایسا کیوں کیا۔ کتنی ہی پری پیکر اس کے ایک اشارے کی منتظر رہتی تھیں اور وہ ایک ایسی لڑکی سے نکاح کرنے جا رہا تھا جس کی آنکھوں کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں تھا پھر کیا تھا جو اسے اپنی طرف کھینچتا تھا۔

" ہنہہ !! صرف وقتی کشش ہے جو مجھے اُس کی طرف کھینچ رہی ہے بس ایک دفعہ اُسے حاصل کر لوں پھر ایک دو دن میں ہی فارغ کر دونگا۔" وہ سر جھٹکتا بڑبڑاتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگا۔


۔**********۔


" نور بیٹا سوچ لو کوئی اور حل بھی تو نکل سکتا ہے۔" آئینور آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی جب رخسار بیگم اس کے کمرے میں آکر گویا ہوئیں۔

وہ رخسار بیگم کی بات پر بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئی بس خاموشی سے خود کو آئینے میں دیکھتی رہی۔

آج اس نے کالے کپڑے زیب تن کیے تھے۔ میک اپ کے نام پر آنکھوں میں کاجل لگائے ہلکی سی پینک لپ اسٹک لگائے کہیں سے بھی وہ دلہن نہیں لگ رہی تھی جس کا کچھ دیر بعد نکاح ہونے جا رہا تھا۔

" آئینور میں تم سے بات کر رہی ہوں۔" اس کے جواب نہ دینے پر اب کی بار وہ زور دے کر بولیں۔

" آپ کے پاس کوئی حل ہے؟ " آئینور نے پلٹ کر سوال کیا۔

" ہم بھاگ بھی جائیں تو وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا ابھی وہ صرف پاپا کی جان لیتا لیکن ہماری اس حرکت کے بعد وہ ہم میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑے گا۔" آئینور نے بے بسی سے کہا۔

" تو کوئی تو حل ہوگا؟ ہم پولیس کو بول دیتے ہیں۔" رخسار بیگم نے ایک امید لیے کہا۔

" ایسے لوگوں کا پولیس بھی کچھ نہیں کرسکتی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے اور آپ فکر نہ کریں کچھ دن کی بات ہے پھر میں آزاد اور اس کے بعد ہم کراچی چلے جائینگے۔" آئینور نے انہیں پُرسکون کرنا چاہا۔

" مگر "۔۔۔

" اگر مگر اب کچھ نہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے آپ ہی تو چاہتی تھیں میں شادی کر لوں تو دیکھیں آج میری شادی ہے۔" رخسار بیگم کچھ بولنا چاہ رہی تھیں مگر آئینور نے ان کی بات کاٹ دی۔

" میں نے کبھی نہیں چاہا تھا تمہاری شادی یوں ہو کتنے ارمان تھے تمہاری شادی کے پر سب ادھورے رہ گئے۔" وہ غمگین لہجے میں بولیں۔

" آپ تو یوں پریشان ہو رہی ہیں جیسے میں سچ میں رخصت ہو رہی ہوں کہا نہ صرف کچھ دن پھر وہ مجھے طلاق دے دے گا۔"

" اور اس کے بعد۔۔۔ اس کے بعد کون ایک طلاق یافتہ سے شادی کرے گا؟ " آئینور کی بات پر اب کی بار رخسار بیگم کو غصّہ آ گیا۔

" تو آپ سے کس نے کہا میں شادی کروں گی؟ نہ تو مجھے پہلے شادی میں کوئی دلچسپی تھی نہ اب۔" آئینور نے اطمینان سے کہا۔ رخسار بیگم بس اسے تاسف سے دیکھتی رہ گئیں۔


۔***********۔


گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔ وہ بار بار گھڑی میں وقت دیکھتا آٹھ بجنے میں بس اب دس منٹ ہی باقی تھے جب گاڑی ایک درمیانے طبقے کے گھر کے سامنے جا رکی۔ غفار نے فوراً گاڑی سے باہر نکل کر کردم دادا کے لیے دروازہ کھولا۔ بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ ماحول پر چھا رہا تھا۔

وہیں اندر کمرے میں بیٹھی آئینور تک گاڑی کے روکنے کی آواز با آسانی پہنچ گئی تھی اور وہیں اس کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں ایک انجانے خوف کے تحت۔

رخسار بیگم نے بھی گاڑی کی آواز سن کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ دروازہ کھلا اور ایک خوش شکل مرد اندر داخل ہوا۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی۔

رخسار بیگم حیران سی اُسے دیکھ رہی تھیں کچھ اور حالات ہوتے تو شاید ایسا داماد ملنے پر وہ خوش ہوتیں جو بالکل کسی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا مگر وہ کیسے بھول سکتی تھیں سامنے کھڑا مرد کوئی شہزادہ نہیں ایک گینگسٹر ہے جو ان کی بیٹی کو اُس کے باپ کی جان کے بدلے صرف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ان دونوں کو لیے اندر آگئیں۔ قاصی صاحب بھی پہلے سے موجود تھے اور اپنے ہمراہ کچھ گواہوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔

اسلم اب بھی سب سے بےنیاز بیٹھا تھا۔ جسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کی بیٹی کی زندگی میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

رخسار بیگم آئینور کے چہرے پر لال دوپٹے کا گھونگھٹ ڈالے باہر لے آئی تھیں۔

حق مہر میں بھی رخسار بیگم نے اسلم کی جوئے میں ہاری رقم لکھوائی تھی۔ جس کی ادائیگی ہونی ہی نہیں تھی۔ ساری کاروائی کے بعد قاصی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا اور آئینور دیکھتے ہی دیکھتے "آئینور اسلم" سے "آئینور کردم عباس" بن گئی۔

نکاح کے پیپرز پر سائن کرتے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھ سے بہہ گیا۔

اس دوران کردم بالکل خاموش تماشائی بنا تھا۔ اکثر کردم کی نظر اُٹھتی اور آئینور کے لال دوپٹے سے جھلکتے آنکھ مچولی کرتے چہرے پر پڑتی دوپٹے کے پیچھے سے اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا لیکن جتنا بھی نظر آ رہا تھا کردم کی دل کی دنیا میں ہلچل سی مچا رہا تھا۔

نکاح ہوتے ہی کردم اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی۔

" اب ہمیں چلنا چاہیئے۔" کردم نے آئینور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

" بس ایک منٹ۔" رخسار بیگم کہہ کر آئینور کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں۔ اس کے سر سے لال دوپٹہ ہٹا کر سفید چادر اوڑھا دی۔

" اپنا خیال رکھنا۔" رخسار بیگم نے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ بھی آنسو بہاتی ان کے گلے سے لگ گئی۔

" آپ فکر نہیں کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔" آئینور نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

" انشاءاللّٰه !! " رخسار بیگم آنسو صاف کرتیں اسے باہر لے آئیں۔

کردم نے اس کی طرف دیکھا چہرہ اب بھی چادر سے چھپا ہوا تھا۔

آئینور چلتی ہوئی اپنے باپ کے سامنے آگئی۔ جو اب بھی بےحس بنا تھا۔ جسے یہ تک پرواہ نہیں تھی کہ اس کی جان کی خاطر اس کی بیٹی اس دلدل میں پھنسی ہے۔ ایک نظر باپ کے چہرے پر ڈالی کہ شاید پھر دیکھنا نصیب ہو نہ ہو۔ وہ نہیں جانتی تھی آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رخسار بیگم کو تو تسلی دے دی تھی پر خود کو سمجھانا مشکل تھا۔ خود کو اللّٰه کے حوالے کرتی اسلم کے گلے لگ گئی۔

"پاپا۔" ۔۔۔آنسو بہاتی وہ سسکی۔

یہ پہلی دفعہ تھا جب اسلم کو یوں پاپا کہہ کر پکار رہی تھی اور یہ بھی پہلی دفعہ تھا کہ اسلم نے بھی باپ کی شفقت سے بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔

یہ سب دیکھ کر کردم کو کوفت ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی اور نہ چاہتے ہوئے بھی آئینور ان کے پیچھے چل دی۔ گاڑی میں بیٹھ کر ایک نظر آئینور نے اپنے گھر پر ڈالی رخسار بیگم بھی دروازے پر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ غفار نے زن سے گاڑی وہاں سے نکالی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی رخسار بیگم کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ بےبسی سے اس راستے کو دیکھتی رہیں پھر گہرا سانس لیتی دروازہ بند کر کے اندر چلی گئیں۔


۔***********۔


گھر پہنچتے ہی غفار نے کردم کے لیے دروازہ کھولا۔ گاڑی سے باہر نکل کر اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیے گو آئینور کو اپنے ہمراہ لے جانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وہ خود ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کے پیچھے چلتی گھر کے اندر چلی گئی۔

" دیکھا !! میں نے کہا تھا نا آج ضرور کچھ خاص ہے تبھی دادا اتنا تیار ہو کر گھر سے نکلے تھے اور ہم لوگوں کو بھی ساتھ لے کر نہیں گئے۔"

پورچ میں گاڑی لگاتے گارڈ نے اپنے ساتھی سے کہا۔

" رحمت تو اپنے دماغ کو اتنی ہی زحمت دیا کر جتنی ضرورت ہو۔" رحیم نے اس بات کو ہوا میں اڑایا۔ جس پر فاروق نے بھی قہقہہ لگایا۔

" اچھا اگر میں غلط ہوں تو پھر وہ لڑکی کون ہے جو دادا کے ساتھ اندر گئی ہے؟ " رحمت نے ان کی توجہ آئینور کی طرف کروائی۔

" یار چھوڑو نا !! یہ تو ہر دوسرے دن کی کہانی ہے دادا کی خواب گاہ میں ہر دوسرے تیسرے دن نئی لڑکی ہوتی ہے۔" فاروق نے بیزاری سے کہا۔

"ہاں لیکن وہ لڑکی کچھ عجیب نہیں تھی؟ مطلب آج تک جتنی بھی لڑکیاں آئی ہیں وہ کبھی ایسے پردے میں تو نہ آئیں۔" رحمت کا اشارہ آئینور کی چادر کی طرف تھا۔

" ااےےے !! کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں؟ " رحیم نے حیران ہوتے ان دونوں کی طرف دیکھا۔

" کون؟ " دونوں ہم آواز بولے۔

" ابے وہ ہی جو آج اسلم کو لینے آئی تھی۔ اس کی بیٹی وہ بھی تو برقعے میں تھی۔" رحیم نے اندازہ لگایا۔

"مجھے لگتا ہے تم دونوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔" فاروق نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

" ابے تو جانتا نہیں ہے ان مشرقی گھریلو لڑکیوں کو۔۔۔ باپ، بھائی، شوہر یہاں تک کہ اولاد کی جان بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔"

" لیکن اگر یہ وہ ہی ہے تو دادا اتنا تیار ہوکر خود اسے لینے کیوں گئے؟ کسی اور کو بھی بھیج سکتے تھے اور اگر کوئی اور کام بھی تھا تو ہمیں ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے؟ " رحمت کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔ اس کی باتوں نے سب میں تجسس پیدا کردیا تھا۔

" میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ وہ ہی ہے اور اپنے باپ کی جان کے بدلے کردم دادا کے ساتھ رات گزارنے کا وعدہ کیا ہوگا۔ دیکھنا کل صبح ہی چلی جائے گی۔" رحیم نے یقین سے کہا۔

" پر دادا اسے خود لینے کیوں گئے؟ خود بھی آسکتی تھی یا دادا کسی کے کو کہہ کر اسے لینے بھیج دیتے۔" رحمت ابھی بھی الجھا ہوا تھا۔

" اس سب کے بارے ميں اب غفار ہی بتا سکتا ہے۔" فاروق نے کہا۔

" ابے چھوڑ ایک نمبر کا چمچہ ہے کردم دادا کا کبھی منہ سے نہیں اگلے گا۔" رحیم نے منہ بسور کر کہا۔ اس کے اس طرح شکل بنانے پر دونوں کا قہقہہ اُبلا۔


۔**********۔


کردم لاؤنج میں داخل ہو کر آئینور کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا جو اس کے عقب میں ہی چل رہی تھی۔

" سیڑھیاں چڑھ کر پہلے سے دوسرا کمرہ میرا ہے جا کر آرام کرو۔ مجھے ابھی کچھ کام ہے تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔" آئینور نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس طرح سر ہلانے سے آئینور کے چہرے پر آیا چادر کا گھونگھٹ بھی ہلنے لگا تھا۔ کردم نے ناگواری سے اس کو دیکھا۔ آئینور کی چادر سے اسے الجھن ہو رہی تھی۔

وہ چادر کو سنبھالتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ آئینور کے جاتے ہی کردم غفار کی طرف متوجہ ہوا۔ جو ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا۔

" آج جو کچھ بھی ہوا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیئے خاص کر نکاح کی۔۔ سمجھ گئے؟ "

" جی دادا۔" غفار سر جھکائے بولا۔

" ٹھیک ہے اب تم بھی جاکر آرام کرو۔" کردم کہتا ہوا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

غفار بھی سر ہلاتا باہر نکل گیا۔


۔**********۔

وہ اس وقت کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ باہر چلتی ہوا سیدھا اس کے چہرے کو چھو رہی تھی۔ جس سے اس کا کالا دوپٹہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ چند شرارتی لٹیں اس کے چہرے پر اٹکلیاں کر رہی تھیں۔ اس نے ان شرارتی لٹوں کو ہٹانے کی زرا سی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے آج کے بارے ميں سوچ رہی تھی۔

" ایک ہی دن بس ایک ہی دن میں اس کی زندگی نے کس طرح پلٹا کھایا تھا۔ جس رشتے سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی آج اسی رشتے میں ایک ان چاہے مرد کے ساتھ بندھ گئی تھی۔ اسے بس آج کی رات کے گزر جانے کا انتظار تھا۔ انتظار کی سولی پر لٹکنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسے آج معلوم ہو رہا تھا۔ وہ گھڑیاں گنتی اس رات کے گزر جانے کے انتظار میں تھی۔ کہ شاید کل کی صبح اس کی زندگی کو پھر سے معمول پر لے آئے۔ شاید ایک ہی رات میں کردم اس سے بیزار ہو جائے۔ "شاید" مگر وہ نہیں جانتی تھی قسمت نے ابھی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا تھا۔"

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم کھڑی تھی۔ جب کردم دروازہ کھول کر اندر آیا۔

اس کی نظر سیدھا آئینور پر پڑی۔ جو اس کی آمد سے بےخبر دروازے کی طرف پُشت کیے کھڑی تھی۔ کردم نے صوفے پر پڑی اس کی چادر کو دیکھا جو کمرے میں آکر وہ اُتار چکی تھی۔

کردم نے گلا کھنکھار کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ مگر وہ اس کے گلا کھنکھارنے پر بھی نہ مڑی تو وہ غصّے سے اپنے کمرے میں موجود کیبنٹ کی طرف بڑھا اور شراب کی بوتلیں نکال کر اتنی زور سے کیبنٹ کا دروازہ بند کیا کہ آئینور کو متوجہ ہونا ہی پڑا۔

اس نے مڑ کر دیکھا تو کردم ٹیبل پر جھکا شراب کی بوتلیں رکھ رہا تھا۔ شراب کو دیکھتے ہی آئینور کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔

کردم جیسے ہی شراب کی بوتلیں ٹیبل پر رکھ کر سیدھا کھڑا ہوا اس کی نظر سیدھا آئینور کے چہرے پر پڑی۔ جو اسی کی جانب متوجہ تھی۔

سامنے کھڑے شباب نے شراب کو بھلا دیا۔ کردم کی نظریں اس کے چہرے سے پلٹنا بھول گئیں۔

"کیا کوئی اتنا معصوم بھی ہوتا ہے؟ " اس کے دل نے سوال کیا۔

وہ اب تک آئینور سے نکاح کے فیصلے کو اپنی بیوقوفی اور محض وقتی کشش سمجھ رہا تھا۔ وہ نہیں سمجھ پارہا تھا اس نے یہ فیصلہ کیوں اور کس لیے کیا؟۔۔۔حالانکہ کسی کی جان لینا ان کے لیے مشکل تو نہ تھا پھر کیوں اس لڑکی کے ساتھ سودا کر بیٹھا، کیوں اس کی نکاح کی بات پر ہامی بھری "کیوں"۔۔؟

" کیونکہ یہ لڑکی سات پردوں میں بھی ایسی کشش رکھتی تھی کہ مقابل کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکے۔ اس کی نظروں میں ہی ایسی کشش تھی کہ چہرہ دیکھے بغیر کردم جیسے انسان کو اس سے نکاح کرنے پر مجبور کر دیا۔"

"وہ عام سے نقوش کی لڑکی کتنی پُرکشش اور خوبصورت لگتی تھی۔ کوئی اس وقت اگر کردم سے پوچھتا تو وہ بتاتا اُس نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اوپر سے گوری دمکتی رنگت پر کالا لباس اس پر چارچاند لگا رہا تھا۔ وہ کالے کپڑوں میں اور بھی جازب نظر لگتی تھی۔ پھر اس وقت تو وہ کردم کی منظورِ نظر بنی ہوئی تھی۔ جس کے بس ایک ہی اشارے کی لڑکیاں منتظر رہتی تھیں۔"

مگر !! سامنے کھڑی لڑکی بھی آئینور تھی۔ جسے کردم جیسے وجیہٰہ شخص میں زرا بھی دلچسپی نہ تھی۔

کردم کو یوں اپنی طرف تکتا پاکر آئینور نہ چاہتے ہوئے بھی گویا ہوئی۔

" اگر آپ یہ سوچ کے مجھے یہاں لائے ہیں کہ آپ کی ایلیٹ کلاس کی بیہودہ لڑکیوں کی طرح میں آپ کا اس شراب نوشی میں ساتھ دونگی اور بیہودہ اداؤں سے آپ کا دل لبھاؤں گی تو آپ کی سوچ غلط ہے۔ اگر آپ کو شراب پینی ہے تو مجھے کوئی اور کمرہ بتادیں میں وہاں چلی جاتی ہوں۔" آئینور کو شراب نوشی سے بے انتہا نفرت تھی اور کردم سے یہ بات کہتے ہوئے بھی اس نے اپنے چہرے پر آئی ناگواری چھپائی نہیں تھی۔

کردم جو آئینور کو دیکھتے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ آئینور کی بات نے اُسے فوراً حال میں لاپٹکھا تھا۔ اسے یکدم غصّہ چڑھا۔ ہونٹ بھینچے وہ لمبے لمبے قدم اُٹھاتا لمحوں میں آئینور اور اپنے درمیان کا فاصلہ طے کرتا اس تک پہنچا تھا۔

کردم کو اپنے قریب آتا دیکھ وہ ڈر کر ہٹی نہیں وہیں کھڑی سر اُٹھائے اُسے دیکھ رہی تھی۔ کردم کا قد آئینور سے کافی لمبا تھا اس لیے سر اُٹھا کر اُسے دیکھنا پڑ رہا تھا۔

کردم نے غصّے سے آئینور کا بازو دبوچ کر بیڈ پر پھینکا۔

بیڈ پر گرنے کی وجہ سے آئینور کے بال آگے کو آگئے۔ دوپٹہ بھی سر سے اُتر چکا تھا۔

اس نے چہرہ موڑ کے کردم کی طرف دیکھا جو غصّے سے مٹھیاں بھیچے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کردم نے آگے بڑھ کر ایک بار پھر اس کا بازو دبوچا۔

"میں نے کہا تھا نا۔۔۔ اپنی حد نہیں بھولنا۔"

" تم میری بیوی بن کر یہاں نہیں آئی ہو۔ اپنی زبان کو لگام دو آئندہ میرے سامنے نہ چلے۔" کردم اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

آئینور کی آنکھوں میں خوف نہیں تھا۔ بےبسی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ بےبسی کے مارے آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ لڑکی ہونے کے باوجود اس کو رونے سے سخت چڑ تھی۔ مگر چاہتے ہوئے بھی وہ آنکھوں میں اُترتی نمی کو روک نہیں پارہی تھی۔ اس لیے بار بار پلکیں جھپکا کر چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آنکھوں میں آئی نمی کی وجہ سے گہری بھوری آنکھیں کانچ کی طرح چمکنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں آئی نمی کردم سے چھپی نہیں تھی۔ وہ اس کا بازو چھوڑتا پیچھے ہوا۔

" سو جاؤ۔" سخت لہجے میں کہتا وہ ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ آئینور خاموشی سے اس کی پُشت کو بس گھورتی رہے گئی۔

کردم ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو آئینور واقعی اُسے بیڈ پر سوتی ملی۔ وہ پورے دن کی تھکی ہاری تھی۔ اس لیے اُسے زرا وقت نہیں لگا نیند کی آغوش میں اُترنے کیلئے۔

کردم خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ شراب کا گلاس لبوں سے لگائے نظریں سامنے موجود بیڈ پر سوئے وجود پر جمی تھیں۔ وہ اس کی طرف ہی چہرہ کیے بیڈ پر دائیں جانب لیٹی تھی۔ سائڈ لیمپ کی روشنی میں نظر آتا اس کا دمکتا چہرہ اور دمک اٹھا تھا۔

آئینور کا معصوم چہرہ سوتے ہوئے اور بھی معصوم لگ رہا تھا۔ کردم کا سارا غصّہ اس کی معصوم صورت دیکھ کر کہاں جا چھپا تھا وہ خود نہیں سمجھ سکا۔ وہ گلاس ٹیبل پر رکھتا اُٹھ کر بیڈ پر بائیں جانب آ بیٹھا۔

اس کے بیڈ پر بیٹھتے ہی آئینور نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ بہت حساس تھی۔ کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہی آنکھیں کھول لیں۔

کردم نے اس کی طرف دیکھا نیند سے سرخ ہوتی آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ کردم خاموشی سے برابر میں لیٹ گیا۔

اس کو لیٹتے دیکھ آئینور نے بھی واپس آنکھیں بند کرلیں۔ آئینور کی نیند سے بھاری ہوتی سانسوں کی آواز کردم کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔

کردم نے اس کی طرف کروٹ لی۔ تکیے پر دھرا آئینور کا ہاتھ اُٹھا کر اپنی کمر پر رکھ لیا۔

آئینور اس کی ساری حرکتیں محسوس کر رہی تھی۔ وہ نیند کی کچی تھی۔ کردم اس کی نیند میں خلل پیدا کر رہا تھا۔ اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگی مگر آنکھیں بند کیے لیٹی رہی کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کردم سے دوبارہ الجھنا نہیں چاہتی تھی۔

ادھر کردم کی نظریں آئینور کے چہرے کے ایک ایک نقوش سے ہوتی گز رہی تھیں۔ جیسے کچھ " کھوج " رہی ہو۔

" کیا ہے آخر اس عام سے چہرے میں؟۔۔۔ جو اسے اتنا پُرکشش، اتنا جازب نظر بنا رہا ہے !! آخر کیا؟ "

وہ سوچتا ہوا آئینور کے چہرے پر نظر جمائے خود بھی نیند کی آغوش میں اُترتا چلا گیا۔


۔***********۔


صبح اس کی آنکھ کھلی تو خالی خالی نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہاں ہے؟۔۔۔ مگر !! جیسے ہی نیند کا خمار اُترا تلخ حقیقت زہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح اُبھری۔ وہ اُٹھ بیٹھی اور سر جھکائے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اس کے سر جھکانے سے اس کے کالے سیاہ سلکی بال کسی آبشار کی طرح آگے کو آگئے تھے۔ چہرہ مزید چھپ گیا تھا۔

ادھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے تیار ہوتے کردم کی نظریں آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس پر جمی تھیں۔ سیاہ کالے سلکی بالوں کے اس منظر کو اس نے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔

رات بھر سونے کے باوجود اس کے بال خراب نہیں ہوئے تھے۔ چہرہ اُٹھا کر وہ بال ہاتھوں سے سمیٹتی جوڑے کی شکل میں لانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بال بار بار کھل کر اس کی کمر پر بکھر جاتے۔

کردم آئینے میں اسے دیکھتا اندازہ لگا سکتا تھا۔ اس کے بال بہت سلکی ہیں۔ تبھی رات بھر سونے کے باوجود خراب نہیں ہوئے۔

تنگ آکر آئینور نے کوشش ترک کردی بال بندنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بیزاری سے نظریں کمرے میں گھماتی اس کی نظر کردم پر پڑی جو آئینے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔

آئینور کے دیکھنے پر کردم نے اس کی جانب سے فوراً نظریں پھیر لیں۔

اس کو تیار ہوتا دیکھ آئینور نے گھڑی پر نظر ڈالی جس میں نو بج رہے تھے۔ وہ کبھی اتنی دیر تک نہیں سوتی تھی لیکن کل کی بھاگ دوڑ نے کچھ زیادہ ہی تھکا دیا تھا۔ اس کی نظر سامنے ٹیبل پر پڑی جہاں ناشتے کے خالی برتن رکھے تھے۔ مطلب وہ ناشتہ کر چکا تھا۔ وہ اُٹھ کر باتھ روم چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باتھ روم سے باہر آئی تو کردم باہر جانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔

" کیا یہ مجھے گھر نہیں بھیجے گا؟۔۔ کیا کروں خود پوچھوں؟ " وہ اسے دیکھتی ابھی اسی تذبذب میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

" آجائیں۔"

کردم نے کہا تو ایک ادھیڑ عمر خاتون اندر آئیں اور کھانے کے برتن سمیٹنے لگیں۔ برتن اُٹھا کر انہوں نے ایک نظر آئینور پر ڈالی ان کی آنکھوں میں حقارت صاف واضح تھی۔

آئینور ان کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ ان کی نظروں کا مطلب وہ سمجھ گئی تھی۔ لیکن اسے غصّہ نہیں آیا۔ اسے یہ ادھیڑ عمر خاتون اچھی لگی تھیں۔ آئینور ان کی طرف دیکھتی دھیرے سے مسکرا دی۔

کردم اس کی ساری حرکتیں آئینے میں سے دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ میں بریف کیس اُٹھائے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

وہ جو کچھ دیر پہلے آئینور کو حقارت سے دیکھ رہی تھیں۔ آئینور کے چہرے پر مسکراہٹ کو دیکھ۔۔۔ اپنی آنکھوں میں حیرت لیے برتن اُٹھاتی باہر چلی گئیں۔

اُن کے جاتے ہی آئینور نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھا کردم وہاں تو کیا۔۔۔ کمرے میں ہی موجود نہیں تھا۔ اس کی ساری توجہ اُن خاتون کی طرف تھی۔ اس لیے کردم کو کمرے سے باہر نکلتے نہیں دیکھا۔

" افففف !! وہ تو چلا گیا۔ اب میں یہاں اکیلی کیا کروں؟ "

آئینور منہ بسورتی بند دروازے کو دیکھنے لگی۔


۔***********۔


کردم لاؤنج میں آیا تبھی اس کی نظر کمرے سے نکل کر برتن ہاتھ میں لیے کچن میں جاتی خاتون پر پڑی تو اُنہیں پکار بیٹھا۔

" سیما خالہ !! " کردم چل کر اُن کے پاس آیا۔

" جی بیٹا !! " وہ حیران ہوتی اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔۔کیونکہ کردم کم ہی ان سے مخاطب ہوتا تھا جب کوئی ضروری کام ہو ورنہ اس کے کھانے پینے کا انہیں پتا تھا۔ اس لیے کردم کو انہیں مخاطب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔

" اُسے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو پوچھ لے گا۔ جو مانگے دے دے گا۔" کردم بےتاثر چہرے سے کہتا لاؤنج سے نکل گیا۔

سیما خالہ حیرت سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔ اُنھیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا یوں لگا شاید کچھ غلط سنا ہے۔ آج تک اس کی خواب گاہ میں جتنی لڑکیاں آئیں ان سے اس کا تعلق بس رات گزارنے تک ہوتا۔ اس کے بعد " وہ کب گئیں؟۔۔۔کیسے گئیں؟۔۔۔ کیا کر رہی تھیں۔" کبھی کردم نے کسی کے بارے میں نہ پوچھا نہ کچھ بولا۔

" یہ پہلی لڑکی تھی !! جس کے بارے ميں کردم نے انہیں کہا تھا۔" اپنی حیرت کو قابو کرتیں وہ کچن میں چلی گئیں۔


۔***********۔


آئینور کچن میں آئی تو سیما خالہ برتن دھو رہی تھیں۔ اس نے اُن کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔

" اسلام علیکم !! " سیما خالہ جو برتن دھونے میں مصروف تھیں اس آواز پر حیران ہوتے ہوئے پلٹیں۔

" وعلیکم اسلام !! " بےتاثر چہرے سے سلام کا جواب دیتیں وہ اب اسے کھوجتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

کالا لباس زیب تن کیے وہ انتہا کی سادگی پسند، معصوم سی لڑکی کہیں سے بھی بناوٹی نہیں لگ رہی تھی۔

" یہ پہلی لڑکی تھی جو اتنے خلوص سے سلام کر رہی تھی"۔۔۔ ورنہ یہاں آنے والی ایک رات کی لڑکیوں کی نہ تو " ادائیں" سنبھلتی تھیں نہ" نخرے" کجا کہ سیدھے منہ بات کرنا تو دور کی بات۔۔۔!!

آئینور اپنی گہری بھوری آنکھوں (جن ميں مسکراتے وقت شرارت سی ناچ رہی ہوتی تھی) اور نرم و ملائم لبوں پہ مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھ رہی تھی۔

سیما خالہ کی آنکھوں کے پل پل بدلتے تاثرات سے وہ محظوظ ہو رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔

" کچھ چاہیئے؟ " سیما خالہ نے بےتاثر چہرے سے پوچھا۔

"جی !! مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ ویسے مجھے کچھ بنا تو نہیں آتا پر آپ میری مدد کر دینگی تو میں بنا لونگی۔" آئینور نے شان سے اپنا پھوڑ پن بتایا۔

" تم بیٹھو میں دیتی ہوں۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔ وہ اسے گھورتی ناشتہ بنانے لگ گئیں۔

" میں آپ کی مدد کر دوں؟ " آئینور اُٹھ کر ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اپنا پھوڑ پن بتانے کے بعد مدد کی پیشکش کی۔

" جب کچھ بنانا نہیں آتا تو میری کیا مدد کرو گی؟ " انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

" آپ بتائیں کیا کرنا ہے میں کروں گی۔" وہی مسکراہٹ سے جواب دیا گیا۔

سیما خالہ اسے دیکھتی مسکرا دیں۔۔۔ ان کی مسکراہٹ دیکھ آئینور کی مسکراہٹ بھی گہری ہوگئی۔

لوگوں کا دل کیسے جیتنا ہے اسے اچھے سے آتا تھا۔ " بس دو میٹھے بول !! "

ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی وہ ناشتہ لیے ڈائننگ ٹیبل پر آگئی۔

" آپ بھی آئیں نا !! " آئینور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

" نہیں !! میں ناشتہ کر چکی ہوں۔" سیما خالہ ٹیبل پر ناشتے کے برتن رکھتی بولیں۔

" تو کیا ہوا !! میرے ساتھ بیٹھ ہی جائیں۔" آئینور کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ وہیں بیٹھ گئیں۔۔۔اب وہ اس کو کھاتے دیکھ کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔

سیما خالہ کی نظروں کو خود پر جمی دیکھ کر آئینور گویا ہوئی۔

" کیا ہوا ؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟ "

" لگتی تو اچھے بھلے گھرانے سے ہو پھر ایسی بھی کیا بات ہوگی کہ تم۔۔۔۔" دانستہ طور پر سیما خالہ نے بات ادھوری چھوڑی۔

آئینور ان کی بات کا مطلب سمجھ گئی۔ اسی لمحے اس کی آنکھوں میں شرارتی چمک اُبھری۔ مسکراہٹ دبائے چہرے پر دنیا جہاں کی مظلومیت طاری کیے، آنکھوں کے کنارے سے نہ نظر آتے آنسوؤں کو صاف کرتی، کل کی ساری روادوا کسی فلسفیانہ انداز میں سیما خالہ کے گوش گزار کرنے لگی۔

" اور بس ایک بیٹی کیسے اپنے باپ کو مرتا دیکھ سکتی تھی بس۔۔۔۔اس ہی لیے۔۔۔اس ہی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا اور اب آپ کے سامنے ہوں۔" ایک بار پھر نہ نظر آنے والے آنسو آنکھ کے کنارے سے صاف کیے۔

سیما خالہ اس کی باتوں سے واقعی جزباتی ہوتی آنسو بہا رہی تھیں۔

" کتنی ہمت والی ہے تو میری بچی !! اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار چکا ہوتا۔ یہ بُرے لوگ ایسے ہی دوسروں کی بےبسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔" سیما خالہ آنسو صاف کرتی ہوئی بولیں۔

مجھے لگا تھا وہ صبح ہی مجھے طلاق دے کر گھر بھیج دے گا۔۔۔" مگر !! " گہرا سانس لیا۔

" شاید اپنے پاپا کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ابھی باقی ہے۔"

اپنی اداکاری پر آئینور ہنسی کو دباتی اداسی سے گویا ہوئی۔

" تو فکر مت کر میری بچی !! اللّٰه سب ٹھیک کرے گا۔" سیما خالہ نے تسلی دی۔

" جی !! آپ ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔ پر ابھی مجھے گھر جانا ہے۔ پتا نہیں کتنے دن اور یہاں رکنا پڑے !! ۔۔۔ سوچ رہی ہوں گھر سے کچھ ضروری سامان اور ایک دو جوڑے لے آؤں۔"

"ہاں !! ٹھیک ہے کردم تو ویسے بھی شام میں ہی گھر آتا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہو آؤ۔" سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی بولیں۔

" ٹھیک !! میں کمرے سے چادر لے آؤں۔" آئینور کہتی کمرے کی جانب چل دی۔


۔***********۔


" دادا مال اڈے پر پہنچ چکا ہے۔ پاشا نے جہاز آزاد کر دیا۔"

کردم گاڑی میں بیٹھا دروازے کے شیشے سے باہر گزرتے مقامات کو دیکھ رہا تھا جب غفار اس سے گویا ہوا۔

" ہنہہ !! آزاد تو اُسے کرنا ہی تھا۔ آخر اس کی دکھتی رگ جو ہمارے ہاتھ میں تھی۔" کردم ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔

"اب اس لڑکی کا کیا کرنا ہے دادا ؟ " غفار نے پاشا کی بھانجی کی طرف اشارہ کیا۔

" کرنا کیا ہے !! ہم اپنے مہمان کی اچھے سے خاطر تواضع کرتے ہیں۔ اس کی بھی کرینگے۔ آخر پاشا کو بھی تو پتا چلے ہم کتنے مہمان نواز ہیں۔" کردم نے معنی خیزی سے کہا۔

" دادا پھر ابھی کہاں جانا ہے؟ " غفار نے پوچھا۔

" وہیں پرانے گودام کی طرف۔" کردم نے کہتے ہوئے نظریں پھر باہر گزرتے منظر کی جانب مبذول کرلیں۔


۔***********۔


آئینور گھر آئی تو پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ توقع کے عین مطابق اسلم گھر پر موجود نہیں تھا مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ رخسار بیگم بھی گھر پر موجود نہ تھیں۔ گھر خالی چھوڑ کر وہ کہاں چلی گئیں؟ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اچانک عقب سے رخسار بیگم کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی۔

" آئینور تم !! "

" ہاں میں !! گھر کھلا چھوڑ کر۔۔ آپ کہاں گئی تھیں ؟ " آئینور نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

" وہ میں زرا فرحانہ باجی کی بیٹی سے ابرو بنوانے کیلئے گئی تھی۔" رخسار بیگم کہتی ہوئی صوفے پر جا بیٹھی۔

" کیا !! گھر کھلا چھوڑ کر آپ ابرو بنوانے چلی گئیں۔" آئینور رخسار بیگم کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی۔

" ہاں تو اس گھر میں کچھ چرانے لائق ہے ہی کیا جو گھر کو تالا لگاتی۔" وہ منہ بسورتی گویا ہوئیں۔

" وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ یہ ابرو بنوانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ جانتی ہیں نا "کبیرہ گناہ" ہے۔ابرو بنانے والے پر اللّٰه کی لعنت ہوتی ہے۔ ہماری زندگی میں خوبصورتی سے زیادہ اللّٰه کی ناراضگی اہم ہونی چاہیئے۔ مگر افسوس ہم لوگ اللّٰه کی ناراضگی سے زیادہ خوبصورتی کو فوقیت دیتے ہیں جبکہ اللّٰه کی بنائی ہوئی چیز کو ہم سنوارتے نہیں بلکہ بگاڑتے ہیں۔ ایک بار بھنویں بنوانے کے بعد ہمیں بار بار بنوانے کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اللّٰه کی عطا کی ہوئی بھنویں اگر ہم انھیں ہاتھ نہ لگائیں تو اپنی اصل صورت ساری زندگی نہیں کھوتیں۔ کتنی بار سمجایا ہے آپ کو۔" آئینور نے تاسف سے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ خود نہیں بنواتی تھی۔ درحقیقت اُسے ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ رخسار بیگم کو بھی ہمیشہ سمجھایا کرتی تھی لیکن وہ ہمیشہ اس کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیتیں کہ اللّٰه معاف کرنے والا ہے۔

ابھی بھی وہ بیزاری سے اس کو دیکھ رہی تھیں۔

" تم واپس آگئی ہو یا واپس جاؤ گی؟ " اس کی بات کو نظر انداز کرتیں انہوں نے بات بدلی۔

" سامان لینے آئی ہوں نہ جانے اور کتنے دن وہاں گزارنے پڑیں۔" آئینور ان کے بات بدلنے کو سمجھ گئی۔ اس لیے منہ بسور کر جواب دیا۔

" اچھا !! مجھے تمہیں کچھ دینا تھا۔" رخسار بیگم صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولیں۔

" کیا !! " آئینور نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

" ایک منٹ۔" رخسار بیگم کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں ایک مخملی ڈبیا لیے کمرے سے باہر آئیں۔ آئینور نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔

"یہ پہن لو !! اب تمہاری شادی ہوگئی ہے اور ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ شادی کے بعد سب لڑکیاں ناک میں لونگ پہنا کرتی ہیں۔" رخسار بیگم نے مخملی ڈبیا اس کی طرف بڑھائی جس میں ایک نازک سی ہیرے کی لونگ چمک رہی تھی۔

وہ بہت ہی نازک تھی۔ نہ ہونے کے برابر۔۔

مگر !! اس میں لگا ہیرا پوری آب و تاب سے چمکتا اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔

" کیا !! بالکل بھی نہیں میں ہر گز یہ نہیں پہنوں گی۔۔ اور کونسی شادی؟ یہ کوئی شادی نہیں ہے صرف کچھ دنوں کی بات ہے اس کے بعد سب پہلے جیسا ہو جائے گا۔" آئینور کو رخسار بیگم کی بات پر یکدم غصّہ چڑھا۔

" اگر میں کہوں یہ " ماہا " کی ہے !! کیا تب بھی نہیں پہنو گی؟ " رخسار بیگم کی بات پر اس نے اب کی بار غور سے اس چمکتی لونگ کو دیکھا حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔

" یہ۔۔ یہ کہاں سے آئی۔" آئینور حیرت سے چمکتی لونگ کو دیکھ کر بولی۔ یہ وہی تھی وہ پہچان گئی۔ کتنی ہی یادیں تازہ ہوئیں تھیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ سایا لہرایا۔ مسکراتے لب، ناک میں چمکتی ہیرے کی لونگ، آنکھوں میں شرارت لیے" اس کی ماہا "۔۔۔ یکدم آئینور کی آنکھیں نم ہوئیں۔

"میں نے اسے یہاں کے ایک بینک میں بہت پہلے ہی رکھوا دیا تھا۔ آج سب سے پہلا کام اسے وہاں سے نکالنے کا کیا تاکہ تمہاری امانت تم تک پہنچا دوں۔ اسلم کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ اس نے تو باقی سارا زیور جوئے بازی کی نظر کر دیا بس یہ ہی ایک امانت رہ گئی تھی میرے پاس۔" رخسار بیگم نے افسوس سے کہا۔

اُن کی بات پر نم آنکھوں سے اُنھیں دیکھتی ہاتھ سے ڈبیا جھپٹنے کے سے انداز میں لے کر کمرے میں چلی گئی۔


۔***********۔

گودام میں داخل ہوتا وہ اس کے سامنے آیا جو رسی میں جکڑے کرسی پر بے سود پڑی تھی۔

کردم اس کے سامنے کرسی رکھتا بیٹھ گیا۔ ہاتھ اُٹھا کر غفار کو اشارہ کیا اس کے اشارہ کرتے ہی غفار نے پانی سے بھری بالٹی اُٹھا کر اس لڑکی پر پھینک دی۔ پانی چہرے پر پڑتے ہی وہ ہوش میں آئی تھی۔

اس نے آس پاس دیکھا گودام میں چند ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے سامان کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس کے سر پہ لگا بلب ادھر سے اُدھر جھول رہا تھا۔

جس میں سامنے بیٹھے کردم کا چہرہ بامشکل ہی نظر آرہا تھا۔ کردم کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھ چہرے پر خوف کے سائے لہرائے تھے۔

" تمہاری رہائی کا وقت آگیا۔ چلو اب تمہیں آزاد کر کے باہر کی کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع دیا جائے۔" کردم کہتے ہوئے اُٹھا اور غفار کو دیکھتے ہوئے پھر گویا ہوا۔

" ہماری مہمان کو باحفاظت ان کے گھر چھوڑوا دینا۔" یہ کہہ کر وہ خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا مگر دروازہ عبور کرنے سے پہلے وہ رکا، پلٹا اور ایک دلخراش چیخ نے کمرے میں چھائے سکوت کو توڑ دیا۔

کردم کی پسٹل سے گولی نکی تھی اور اس کے بازو کو چھوتی ہوئی اسے خونم خون کر گئی۔ غفار اس کی رسی کھول چکا تھا۔ وہ بہتی آنکھوں سے کردم کی طرف دیکھتی خون کو مزید بہنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

" آئندہ کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے پاشا ہزار بار سوچے گا کہ کردم سے الجھنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔" وہ حقارت سے کہتا ہوا گودام سے باہر نکل گیا۔ غفار نے آدمیوں سے کہہ کر اس لڑکی کو گاڑی میں ڈلوایا اور پاشا کی جانب روانہ کر دیا۔


۔**********۔


دروازہ کھلا اور گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔ غفار نے گاڑی کے رکتے ہی کردم کی جانب کا دروازہ کھولا۔ کردم نے باہر نکلتے ہی اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔

سیما خالہ جو کچن سے باہر نکل رہی تھیں۔ کردم کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ ہکا بکا رہ گئیں۔

آج پہلی دفعہ تھا کہ کردم دوپہر میں ہی گھر آگیا تھا۔ ورنہ شام سے پہلے اس کی آمد ممکن نہ تھی اور کبھی تو پوری رات بھی گھر نہ آتا۔

کردم سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں داخل ہو کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کی متلاشی نظر اُس چہرے کو ڈھونڈ رہی تھی جو جانتی ہی نہیں تھی کہ کم بختی اس کی آمد کیلئے منتظر کھڑی ہے۔

اُسے کمرے میں موجود نہ پا کر وہ باتھ روم کی طرف بڑھا۔ مگر !! وہ وہاں بھی موجود نہ تھی۔ کردم کو یکدم ہی غصّہ چڑھا۔

" کہاں جا سکتی ہے؟۔۔ کہیں مجھے دھوکا دے کر باپ بیٹی کا بھاگ جانے کا ارادہ تو نہیں؟ " کردم سوچتا ہوا کمرے میں لگے انٹرکام کی جانب بڑھا۔

" سیما خالہ فوراً میرے کمرے میں آئیں۔" اس کے کہتے ہی سیما خالہ کسی جن کی طرح حاضر ہوئی تھیں۔ کردم نے کبھی ایسے غصّے میں بات نہیں کی تھی اس لیے وہ پریشان ہوتی دوڑی چلی آئیں۔

" کیا ہوا بیٹا؟ " کردم کو ادھر سے اُدھر ٹہلتے دیکھ انہوں نے پریشانی ہوتے پوچھا۔

" آئینور کہاں ہے؟ " کردم کے چہرے اور لہجے کی سختی نے انھیں سُن کر دیا۔ آج سے پہلے کردم نے کبھی کسی کے بارے میں یوں نہیں پوچھا تھا۔ بلکہ اس سے پہلے آئی لڑکیاں رات گزرنے کے بعد کب گئیں۔۔۔ کیسے گئیں۔۔۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔

" وہ کچھ سامان لینے اپنے گھر گئی ہے۔" سیما خالہ نے بامشکل تھوک نگلتے ہوئے بتایا۔

" کس کے ساتھ گئی ہے؟ " سختی ہنوز قائم تھی۔

" جی !! پتا نہیں۔ شاید ٹیکسی میں۔۔۔ گھر سے تو کوئی گاڑی لے کر نہیں گئی۔" سیما خالہ ڈرتے ڈرتے بتایا۔

" رحیم کو بولیں فوراً اسلم کے گھر جا کر اسے واپس لے کر آئے۔" کردم غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔


۔************۔


رخسار بیگم کمرے میں آئیں تو آئینور اپنا سامان سے بھرا بیگ جو وہ کل ہی کراچی سے لائی تھی کھولے بیٹھی تھی۔ سامان اب تک بیگ میں ہی تھا۔ ایک ہی دن میں اتنا کچھ ہوگیا تھا کہ سامان تک بیگ سے نکالنے کا وقت نہ ملا اور اب تو یہ بیگ وہ اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔ جس میں چند کپڑے اور کتابوں کے کچھ نہیں تھا۔

رخسار بیگم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا وہ لونگ ناک میں پہن چکی تھی۔ رخسار بیگم مسکراتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئیں۔

وہ جانتی تھیں۔۔۔ اسے خود کو سنبھالنا آتا تھا۔ وہ جلد ہی اپنے دکھ درد کو چھپا لیتی تھی ابھی بھی بےتاثر چہرے سے اپنے سامان کو دیکھ رہی تھی۔

" اہمم !! تو اپنے شوہر سے پوچھ کر آئی ہو یا ایسے ہی آگئیں؟ " رخسار بیگم نے گلا کھنکھارتے ہوئے پوچھا۔

آئینور ان کی بات کو نظر انداز کرتی الماری سے برقعہ نکالنے لگی۔

" میں نے کچھ پوچھا ہے۔ اپنے" شوہر " کی اجازت سے آئی ہو؟ " اس بار رخسار بیگم نے شوہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اور اس پر ہی آئینور کی " بس" ہو چکی تھی۔ وہ ایکدم پھٹ پڑی۔

" کیا شوہر شوہر لگا رکھا ہے؟۔۔۔ نہیں ہے وہ میرا شوہر سن لیا آپ نے۔۔۔ نہیں ہے وہ میرا شوہر۔" آئینور نے چلاتے ہوئے کہا۔ چلانے کے باعث اس کا تنفس پھولنے لگا تھا۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتی خود کو پُرسکون کرنے لگی۔

اچھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کل رات نکاح کر کے اُس کے ساتھ رخصت ہوئی تھیں۔ رخسار بیگم نے جتانے والے انداز میں کہا۔

" میرے نزدیک اس نکاح کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ مجھے بس اس کی ہوس کو پورا کرنا ہے اور کچھ نہیں۔" آئینور نے تلخی سے کہا۔

" واہ !! ابھی تو تم مجھے صرف ابرو بنوانے پر کبیرہ، صغیرہ گناہ کا فرق سمجھا رہی تھیں۔ اور خود کیا کر رہی ہو۔۔۔ اللّٰه کے بنائے ہوئے رشتے کی توہین۔" رخسار بیگم کی بات پہ آئینور نے اچنبھے سے ان کی طرف دیکھا۔

" توہین اور وہ بھی میں نے؟۔۔۔ آپ اچھے سے جانتی ہیں ماما۔۔۔ یہ نکاح کیوں ہوا ہے۔" آئینور کو رخسار بیگم کی بات پر غصّہ آنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی آواز میں تیزی در آئی۔

" ہاں میں اچھے سے جانتی ہوں کہ کیوں ہوا ہے لیکن۔۔۔ نکاح۔۔نکاح ہوتا ہے۔ جن بھی حالت میں ہوا ہو۔ کائنات میں بنے والا یہ پہلا رشتہ ہے جس کو اللّٰه نے اپنے خزانوں میں سے ایک ایک خزانہ کہا ہے اور تم۔۔تم کیا کر رہی ہو؟۔۔۔ اس رشتے کی توہین۔ کردم کی میں بات نہیں کرتی مگر تم تو تھوڑا بہت دین کو سمجھتی ہو نا؟ "

رخسار بیگم اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولیں۔ آئینور بس خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی تو وہ پھر گویا ہوئیں۔

" جب تک اس کے نکاح میں ہو ایک بیوی ہونے کے سارے فرض ادا کرو پھر بھلے کردم تمہیں طلاق دے تو الگ ہوجانا مگر جب تک اس کے نکاح میں ہو اس رشتے کی عزت کرو تاکہ اللّٰه کے سامنے سرخرو ہو سکو۔" رخسار بیگم جانتی تھیں اسے کیسے سمجھنا ہے اس لیے اپنی بات اسی کے انداز میں سجھائی۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے وہ سمجھا رہی تھی۔

آئینور خفگی سے انھیں دیکھے جا رہی تھی کہ تبھی باہر دروازے پر لگی بیل بجکی آواز آئی۔

" میں دیکھتی ہوں۔" رخسار بیگم کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ آئینور بس انھیں جاتے دیکھتی رہی پھر سر جھٹکتی برقعہ پہننے لگی۔ اس کا ارادہ شام تک رکنے کا تھا مگر رخسار بیگم کی باتوں نے اسے الجھا کر رکھ دیا تھا۔ ابھی وہ برقعہ پہن ہی رہی تھی جب رخسار بیگم واپس کمرے میں بھاگتی ہوئی آئیں۔

" نور !! کردم نے اپنا آدمی تمہیں لینے بھیجا ہے۔" رخسار بیگم کے کہنے پر وہ حیران رہ گئی کیونکہ سیما خالہ اسے بتا چکی تھیں کہ وہ شام میں ہی گھر آتا ہے اور اب اچانک۔۔ حیران ہونا بنتا تھا۔

" ٹھیک ہے !! میں چلتی ہوں۔" آئینور ان کے گلے سے لگ کر بولی پھر ان سے الگ ہوتی اپنے قدم کمرے سے باہر کی جانب بڑھائے ہی تھے کہ ایک بار بھر رخسار بیگم کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

" مجھے یقین ہے تم میری بات اچھی طرح سمجھ گئی ہونگی کیونکہ۔۔۔ تم اس عورت کی بیٹی ہو جس نے خو ایک شرابی جواری اور زانی سے محبت کی۔"

الفاظ تھے یا نشتر جو رخسار بیگم نے آئینور کے دل پہ پیوست کیے تھے۔ وہ ضبط سے مٹھیاں بھیچے باہر نکل گئی۔ رخسار بیگم بس افسوس سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔


۔************۔


" کردم دادا تم نے اچھا نہیں کیا تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔" پاشا غصّے سے بھپرے ہوئے تھا۔ سامنے بیٹھی بھانجی کی حالت نے دل چیر کر رکھ دیا تھا۔ جو آنسو بہاتی بازو میں اُٹھتی تکلیف کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

پاشا اس کے سامنے دوزانو بیٹھتے ہوئے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرلیا۔

" سونیا !! زیادہ درد ہو رہا ہے؟" پاشا نے نرمی سے پوچھا۔ اس نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" تم فکر نہیں کرو !! میں اپنی گڑیا کی یہ حالت کرنے والے کو چھوڑوں گا نہیں۔ ایسی سزا دونگا کہ روح تک کانپ جائے گی اس کردم دادا کی۔" پاشا ہنکار بھرتا ہوا بولا۔ سونیا آنسو بہاتی پاشا کو دیکھنے لگی۔


۔***********۔


وہ برقعہ ہاتھ سے اُٹھائے کسی ریاست کی شہزادی کی طرح سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ یہ جانے بغیر اوپر کھڑے کردم کی خونخوار نظریں اس پہ ہی جمی ہیں۔ اس کو اوپر آتا دیکھ وہ کمرے میں چلا گیا۔

آئینور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی اسے کردم کھڑا نظر آگیا۔ اسے دیکھتے ہی رخسار بیگم کی باتیں آئینور کے دماغ میں گھومنے لگیں۔ وہ سر جھٹکتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب کردم نے بازو سے پکڑ کر اسے صوفے پر پٹخ دیا۔

" تم کس سے پوچھ کر باہر گئی تھیں۔ کان کھول کر سن لو آئندہ اگر بغیر اجازت ایک قدم بھی باہر نکالا تو تم سمیت تمہارے گھروالوں کو بھی نہیں بخشوں گا۔ سمجھی؟ "

نقاب سے جھانکتی آنکھیں بےتاثر تھیں اور لب خاموش۔

کردم غصّے سے اسے گھورتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

آئینور خالی خالی نظروں سے بند دروازے کو دیکھنے لگی۔ اس نے کردم کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ وہ تو ابھی تک رخسار بیگم کی باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ جن کی باتوں نے اس کی دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا تھا۔


۔************۔


" آپ نے تو کہا تھا یہ جناب شام میں گھر آتے ہیں۔ تو آج کیا غروبِ آفتاب دوپہر میں ہی ہو گیا جو جلدی تشریف لے آئے؟ " آئینور برقعہ اُتار کر سیدھا کچن میں آئی جہاں سیما خالہ کھانے بنانے میں لگی تھیں۔ کمر پر ہاتھ رکھے وہ انھیں گھورتے ہوئے گویا ہوئی۔

" مجھے تو لگ رہا ہے آج سورج ہی مغرب سے نکلا ہے کیونکہ آج تک جو نہیں ہوا وہ تمہارے آتے ہی ہونے لگا ہے۔

اے لڑکی !! سیدھے سیدھے بتا کوئی کالا جادو تو نہیں جانتی تو؟ " سیما خالہ مشکوک نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولیں۔

" کیا بول رہی ہیں؟ کیا نہیں ہوا اب تک اور یہ جلدی کیوں آگئے؟ " آئینور نے ناسمجھی سے سیما خالہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" باخدا !! میں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ کردم مجھ پر غصّہ کرے مگر آج تمہاری وجہ سے وہ بھی ہوگیا۔ یہ ہی نہیں آج سے پہلے کردم کبھی اتنی جلدی گھر نہیں آیا وہ شام کو آتا اور رات میں پھر نکل جاتا لیکن آج دوپہر میں ہی آ گیا اور تو اور آج سے پہلے اس نے کبھی کسی لڑکی کے بارے میں مجھے یوں ہدایت نہیں دی۔

ایک تم ہی ہو جس کے آتے ہی کایا پلٹ گئی۔ سچ سچ بتا کیا جادو کیا ہے؟ " سیما خالہ واقعی آئینور کو لے کر مشکوک ہوگئی تھیں۔

" یہ سب اس لیے کہ باقی لڑکیوں کے ساتھ ان کا کوئی مالی لین دین نہیں پر مجھے یہاں پیسوں کے متبادل لایا گیا ہے تو جب تک یہ اپنے پیسے مجھ سے وصول نہیں کرلیتے تب تک شاید میری جان نہیں چھوڑنے والے۔" آئینور نے جل کر کہا۔

" ہاں !! شاید یہ ہی وجہ ہو۔" سیما خالہ سمجھتے ہوئے بولیں۔

" شاید نہیں پکا یہ ہی وجہ ہے۔ دیکھ لے گا آپ۔" آئینور کہتی کچن سے باہر نکل گئی۔ سیما خالہ بھی اپنے کام میں لگ گئیں۔


۔************۔


" دیکھا میں نے کہا تھا نہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ لڑکی اپنے گھر چلی گئی تھی۔ لیکن کردم دادا نے گاڑی بھیج کر واپس بلا لیا۔" رحمت لان میں لگی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

" یہ ہی نہیں آج تو دوپہر میں ہی گھر آگئے ورنہ شام سے پہلے واپسی ناممکن ہی ہوتی تھی ہماری۔" فاروق نے بھی لقمہ دیا۔

" صحیح کہہ رہے ہو اب تو ضرور غفار سے اگلوانا پڑے گا۔ آخر معاملہ ہے کیا۔" رحیم نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

" بتا ہی نہ دے۔" رحمت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

" میں بھی اگلواکے ہی دم لونگا۔" رحیم کہتا ہوا اُٹھا اور غفار کی جانب بڑھ گیا۔

" ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔چار اور یہ پانچ۔" رحمت ہاتھ میں پہنی گھڑی میں ٹائم دیکھتے بول رہا تھا۔ کہ جبھی اس کے پانچ بولتے ہی رحیم گال پر ہاتھ رکھے واپس آیا۔ گال پر ہاتھ کا نشان چھپا تھا۔ جو غفار کا عطا کردہ تھا۔

وہ دونوں اپنی ہنسی دباتے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور وہ غصّے سے کھولتا کرسی کو لات مارتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ مگر اپنے پیچھے ان کے اُبلتے قہقہوں کی آواز باخوبی سنی تھی۔


۔************۔


شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ وہ نماز ادا کر کے کمرے میں آئی تو کردم کو سوتا پایا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی جو سات بجا رہی تھی۔ آئینور نے آواز دے کر کردم کو اُٹھانا چاہا مگر وہ نہ اُٹھا۔ وہ بیڈ کی طرف بڑھی اور ہاتھ سے اس کے شانے کو زور سے ہلایا۔

کردم نے آنکھیں کھولیں تو سامنے بےتاثر چہرہ لیے آئینور کھڑی تھی۔ کردم نے نظر پھیر کر گھڑی کی طرف دیکھا پھر آئینور کو۔

یہ پہلی دفعہ تھا کسی نے اسے یوں اُٹھایا تھا۔ ورنہ سیما خالہ ہی اسے دروازہ بجا کر اُٹھایا کرتی تھیں۔ وہ خاموشی سے اُٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔

کردم کے جاتے ہی آئینور نے اس کے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے اور خود بھی کمرے سے باہر نکل گئی۔

وہ باتھ روم سے باہر نکلا تو اپنے کپڑے بیڈ پر دیکھ حیران ہوتا ڈریسنگ روم میں چلا گیا تھا۔ کپڑے بدلنے کے بعد واپس آیا کہ تبھی آئینور ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوتی دکھائی دی۔ صوفے کے سامنے رکھی ٹیبل پہ ٹرے کو رکھ کر وہ واپس جا ہی رہی تھی جب کردم کی آواز پر رک گئی۔

" یہ سب کرنے کی وجہ؟۔۔۔ کہیں تم نے اس نکاح کو سر پر سوار تو نہیں کر لیا؟۔۔۔ اگر تم یہ سوچ رہی ہو یہ سب کر کے اس گھر میں اور میرے دل میں جگہ بنالو گی تو یہ خیال دماغ سے باہر نکال پھینکو کیونکہ میں جلد ہی تمہیں فارغ کر دونگا۔"

کردم کی بات پر آئینور پلٹی۔ تیکھی نظریں اس پر جمائے، چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے وہ گویا ہوئی۔

"میں یہ سب اس نکاح کے احترام میں کر رہی ہوں۔ جو اللّٰه کا بنایا ہوا پاکیزہ رشتہ ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں ایک بدکردار آدمی کے دل میں اور اس حرام کی کمائی کے گھر میں جگہ بنانے کیلئے یہ کر رہی ہوں تو۔۔۔ یہ خیال اپنے دماغ سے باہر نکال پھینکے۔ کیونکہ میں جلد ہی یہاں سے فارغ ہونا چاہتی ہوں۔" اسی کے انداز میں جتاتے ہوئے باور کرایا کہ اس کے نزدیک اس کی کیا حیثیت ہے۔

اس کی تیز زبان کردم کو غصّے سے آگ بگولا کر گئی۔ کردم غصّے سے لب بھینچے اس کی جانب بڑھا بازوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا۔ آئینور چہرہ اُٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔

" سمجھتی کیا ہو خود کو بہت پارسا ہو؟ میں چاہتا تو کل تم اور تمہارا باپ یہاں سے صحیح سلامت واپس نہیں جاسکتے تھے۔ ساری پارسائی کل ہی نکال دیتا لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

مگر !! اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ کر نہیں سکتا اب بھی چاہوں تو تمہارے باپ کو اس کی آخری آرام گاہ کا سفر کرا سکتا ہوں۔ یہ بات جتنی جلدی دماغ میں بیٹھالو اتنا اچھا ہے۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

" عزت، زلت، موت، زندگی خالق کے اختیار میں ہے خلق کے نہیں۔" وہ بےخوفی سے کہہ کر خود کو چھڑاتی باہر نکل گئی۔ کردم مٹھیاں بھینچے اس کو جاتے دیکھتا رہا۔ وہ چاہ کر بھی اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچا پا رہا تھا۔ نہ جانے کیسی بےخوفی تھی ان آنکھوں میں۔ وہ سر جھٹکتا صوفے پر بیٹھ گیا۔


۔*************۔

وہ واپس کمرے میں آئی تو کردم کھانا ختم کر اب باہر جانے کی تیاری میں تھا۔ آئینور صوفے پر بیٹھ کر اس کے تیار ہونے کا انتظار کرنے لگی۔

کردم جو سر جھکائے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہاتھ پر گھڑی باندھ رہا تھا۔۔۔ آئینور کی نظریں خود پر محسوس کرتا سر اُٹھا کر آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھا۔

وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" کیا ہوا۔۔؟ " کردم نے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" کچھ نہیں۔۔۔ کیا ہونا ہے؟ " آئینور نے کندھے اچکائے۔

کردم جانچتی نظروں سے اس کے عکس کو دیکھنے لگا۔ کہ تبھی کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو اسے یاد آئی۔ (مطلب وہ بیویوں کی طرح اس کے تیار ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔)

" کتنے سال کی ہو تم؟ " کردم اس کی طرف مڑتے ہوئے گویا ہوا۔

" ہیںں !! کیا؟ " آئینور نے اچنبھے سے پوچھا۔

" بہری ہو جو سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔؟ میں نے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے؟" کردم نے پھر پوچھا۔

" آپ سو رہے تھے۔۔۔؟ آپ کے سامنے تو نکاح نامے پر عمر لکھوائی تھی۔" آئینور اسی کے انداز میں بولی۔

" تم۔۔۔" کردم غصے سے اس کی طرف بڑھا۔

کردم کو اپنی طرف آتا دیکھ آئینور کھانے کی ٹرے اُٹھا کر ہنستی ہوئی کمرے سے باہر بھاگ گئی۔

اسے باہر جاتے دیکھ کردم موٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ آئینور کی بات پر اسے یاد آیا تھا۔ اُس نے نکاح نامے پر اپنی عمر انیس سال لکھوائی تھی۔ جب کہ کردم پینتیس سال کا تھا۔ وہ پورے سولہ سال چھوٹی تھی۔ مگر پہلی گفتگو کے دوران اسے کوئی پچیس سالہ لڑکی ہی لگی تھی۔ جو اپنے باپ کی جان بچانے کے لیے بےخوفی سے اس سے بات کر رہی تھی۔

کردم نفی میں سر ہلاتے خود بھی کمرے سے نکلتا سیڑھیاں اُتر کر لاؤنج میں آگیا۔۔۔ لاؤنج میں آکر اس کی نظر آئینور پر پڑی جو سیما خالہ کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ اس مسکراہٹ میں بےپناہ معصومیت تھی۔

وہ ایک نظر اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔

کردم کو باہر جاتے دیکھ آئینور بھی اس کے پیچھے لپکی۔

غفار گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ کردم گاڑی میں بیٹھنے لگا جب اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس کرتے چہرہ موڑ کر دیکھا۔۔۔ داخلی دروازے پر دوپٹے سے چہرہ چھپائے آئینور کھڑی تھی۔

کردم سرسری سی نظر اس پہ ڈالتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی آگے بڑھی تو ایک بار پھر کردم نے کسی احساس کے تحت مڑ کر پیچھے دیکھا۔

مگر !! اب وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ اند جا چکی تھی۔ اس کہ جانے کا انتظار کیے بغیر۔ گاڑی گھر سے باہر نکل گئی۔

کردم بھی سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر آئینور نے انجانے میں اسے سمجھا دیا کہ۔۔۔ وہ یہ سب اس نکاح کے احترام میں کر رہی ہے۔ کردم کے لیے نہیں۔


۔*************۔


"مجھے معاف کر دینا آئینور !! ماہا کا ذکر کرنا تمہیں تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ تمارے جانے کے بعد کل رات میں سکون سے سو نہیں سکی۔

مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ۔۔۔ کہ ایک ہی دن میں یہ سب یوں اچانک کیسے ہوسکتا ہے؟ ساری رات سوچنے کے بعد میں ایک ہی نتیجے پر پہنچی سکی۔۔۔

مجھے یقین ہے نور !! ماہا کہ ساتھ جو ہوا وہ تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔ وقت پھر اپنے آپ کو نہیں دھورائے گا۔ کیونکہ تم۔۔۔۔ تم ماہا نہیں نور ہو۔

تم سمجھتی ہو یہ تمہارے باپ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ لیکن !! مجھے لگتا ہے یہ اللّٰه کا کوئی اور ارادہ ہے۔

شاید !! اللّٰه نے تمہیں کسی خاص مقصد کے لیے چنا ہے۔"

رخسار بیگم کرسی پر بیٹھی اپنی سوچوں میں آئینور سے مخاطب تھیں۔ نظریں کھڑکی سے باہر اُفق پہ نظر آتے مہتاب پر جمی تھیں۔ اس کے جانے کے بعد ایک پل بھی تو سکون سے نہیں رہے سکی تھیں۔ کیونکہ اچھے سے جانتی تھیں۔ انہوں نے آئینور کی دُکھتی رگ پہ پاؤں رکھ دیا ہے۔


۔*************۔


ماحول میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اوپر سے لاہور میں بڑھتی ٹھنڈ نے اور سناٹا سا پیدا کر دیا تھا۔

اپنے گرد شال لپیٹے، وہ ٹیرس میں لگے جھولے پر بیٹھی فلک پر نظر آتے چودہویں کے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں ہر تاثر سے پاک تھیں۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے ماضی کو سوچتی اپنے رب سے مخاطب تھی۔

"میں نے جتنا ممکن ہوسکا خود کو نامحرم مردوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا، بچا کر رکھا۔ مگر پھر بھی میں اس دلدل میں پھنس گئی۔ آخر یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔ کہ جو شخص دوسری عورتوں کو بےآبرو کرے اس کی اپنی اولاد محفوظ رہے۔

سب سمجھتے ہیں، اس مسکراہٹ کے پس منظر میں خوشگوار لمحات پوشیدہ ہیں۔ مگر !!

اس کھوکھلی مسکراہٹ کے پیچھے کچھ تلخ حقیقتوں کا پہرا ہے۔

بظاہر ہنستی مسکراتی نظر آنے والی زندگی کا مطلب یہ تو نہیں انسان بھرپور طریقے سے اپنی زندگی کو جی رہا ہے۔زندگی گزارنے کو زندگی جینا تو نہیں کہتے۔

میری زندگی کے گزرے چند سال مجھے صدیوں پر مُحیط لگے۔ اس بےمقصد سی زندگی کا مقصد سمجھ نہیں آتا میرے مولا۔ بے رنگ زندگی میں سکون تو ہے۔ لیکن۔۔۔ پھر بھی مزید جینے کی خواہش نہیں۔

یااللّٰه !! یا تو اس زندگی کی کوئی منزل دکھا دے۔ یا اس زندگی کو اصل منزل تک پہنچا دے۔"

آئینور سر اُٹھائے فلک پر نظر آتے چاند کو دیکھتی رہی۔ یہاں بیٹھے اسے کافی وقت گزر چکا تھا۔ یونہی بیٹھے سردی کا احساس بڑھنے لگا تو وہ اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ وہ کراچی کی رہنے والی، لاہور کی سردی کیسے برداشت کرتی۔۔۔ اور لاہور تو ویسے بھی اسے کبھی راس نہ آیا تھا۔ بقول آئینور کردم کی صورت اب بھی وہ اس کی زندگی میں طوفان لے آیا تھا۔


۔************۔


وہ سب اس وقت بیٹھک میں موجود تھے۔ مرکزی نشست پر آغا حسن بیٹھا اڈوں پر موجودہ صورتحال سے آگاہی حاصل کرتا کردم سے مخاطب ہوا۔

" تمہارے اور پاشا کے درمیان یہ سب کیا چل رہا ہے۔ جمشید بتا رہا تھا۔ اس نے جہاز پر قبضہ کر لیا تھا۔" آغا حسن نے ایک نظر جمشید پر ڈال کر کردم سے پوچھا۔

" جب جمشید سے معلوم ہوگیا تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟" اس نے کڑی نظر جمشید پر ڈال کر سخت لہجے میں کہا۔

" مگر تمہارے اور پاشا کے درمیان ایسا کیا ہوگیا ہے جو یوں دشمنی پر اُتر آئے؟۔۔۔ یوں گینگ کے بندوں کا ایک دوسرے سے دوشمنی مول لینے میں ہم سب کا ہی نقصان ہے۔" اب کی بار وہاں بیٹھا خاقان ابراہیم گویا ہوا۔

"بالکل !! " راشد ملک نے بھی لقمہ دیا۔

"مجھے نہیں معلوم اس نے یہ سب کیوں اور کس لیے کیا۔۔۔"

" میں بتاتا ہوں۔" پاشا اندر آتا کردم کی بات کاٹتے ہوئے گویا ہوا۔ سب لوگ چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگے۔ وہ کردم کے فوراً قریب پہنچا اور کمر کے پیچھے چھپا خنجر نکال کر اس پہ وار کیا۔

کردم نے بروقت کھڑے ہوتے خنجر کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اس کے حملے کو ناکام بنا تھا۔ سارے نفوس کھڑے اپنی جگہ ششدر رہ گئے۔

خاقان ابراہیم اور جمشید پہلے ہوش میں آئے۔ وہ فوراً آگے بڑھے اور پاشا کو پیچھے سے پکڑ کر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس لیے نہیں کہ کردم پر حملہ کیا تھا۔۔۔ بلکہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے، کردم دادا اس کو موت کے گھاٹ اتارنے میں زرا دیر نہ لگاتا۔ کردم دادا جیسی طاقت ان میں سے کسی میں نہ تھی۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی کردم دادا سے الجھتا نہیں تھا۔ مگر پاشا سے یہ غلطی سرزد ہو گئی تھی۔

" کردم دادا میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔ تو نے سونیا پر گولی چلا کر اچھا نہیں کیا۔" وہ خود کو چھڑوانے کی سعی کرتا ساتھ میں چیخ بھی رہا تھا۔

کردم جو مٹھیاں بھیچے کھڑا تھا۔ پاشا کی بات سنتے ہی گویا ہوا۔

"شروعات تم سے ہوئی اور اختتام میں نے کر دیا۔"

"میں نے نہیں۔۔۔ تم نے شروع کیا ہے سب۔ میری رکھیل کو اُٹھالیا۔۔۔ تو میں نے تمہارے جہاز پر قبضہ کر لیا۔" پاشا چلایا۔

" ہنہہ !! میں نے اُسے نہیں اُٹھایا۔ وہ خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔" کردم ہنکار بھرتا ہوا بولا۔

" کردم دادا !! میں چھوڑوں گا نہیں۔ سونیا پر گولی چلانے کی تمہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اور جہاں تک رہی میری رکھیل کی بات تو۔۔۔ ہر اس لڑکی کو تم سے چھین لوں گا جو تمہاری منظورِ نظر بنے گی۔" خود کو چھڑوا کر وہ کردم کے مقابل کھڑا ہوا۔

پاشا کی بات پر کردم کی نظروں کے سامنے آئینور کا سراپا لہرایا۔ سر جھٹک کر پاشا کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا۔

" تم صرف باتیں کر سکتے ہو۔ کردم دادا کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔" کردم نے کہہ کر ایک نظر سب کی طرف دیکھا پھر ایک کہر آلود نظر اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔

" یہ تو وقت بتائے گا کردم دادا۔۔۔ کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ کیا نہیں۔" کردم کو باہر جاتے دیکھ پاشا نے کدورت سے سوچا۔

باقی سارے نفوس افسوس سے اسے دیکھتے خود بھی باہر نکل گئے۔


۔************۔


آئینور لاؤنج میں بیٹھی کتابوں میں سر دے ہوئے تھی۔ (جن کو وہ کراچی سے اپنے ساتھ ہی لے آئی تھی) ساتھ ہی چائے سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔

سیما خالہ سونے جا چکی تھیں۔ اس لیے وہ اپنی بوریت کو ختم کرنے کے لیے کتابیں لے کر بیٹھ گئی۔

کافی دیر یونہی کتابوں سے مغز ماری کرنے کے بعد آئینور نے سر اُٹھا کر دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا تو بارہ بج رہے تھے۔ کتابیں سمیٹ کر وہ اٹھنے لگی کہ تبھی پورچ سے اسے گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی۔

کتابوں کو وہیں چھوڑ آئینور چائے کا کپ اُٹھا کر کچن میں رکھنے چلی گئی۔ واپس آ کر کتابیں ہاتھوں میں اُٹھا کر مڑی ہی تھی کہ کردم گھر میں داخل ہوتا نظر آیا۔

کردم نے چہرہ موڑ کر ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر سیدھا سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔

آئینور بھی کتابیں اُٹھائے سیڑھیاں چڑھتی کمرے کی جانب آگئی۔

دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا گلے میں بندھی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر رہا تھا۔ آئینور نے اندر آکر کتابیں ٹیبل پر رکھیں۔ مڑ کر کردم کی طرف دیکھا جو اب ہاتھ پر بندھی گھڑی اُتار رہا تھا۔

آئینور کی نظر سیدھا اس کے دائیں ہاتھ پر پڑی جس کی ہتھیلی پر خون جما ہوا تھا۔

ماتھے پر یکدم بل پڑے، تیزی سے کردم کی طرف بڑھی، اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر متفکر سی گویا ہوئی۔

" یہ کیسے ہوا؟ آپ۔۔۔ آپ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں گئے؟ دیکھیں تو کتنا گہرا کٹا ہے۔ کتنا خون بہہ گیا ہوگا۔ اگر کچھ ہوجاتا تو؟ " آئینور بولتی ہی چلی جارہی تھی۔ چہرے پر پریشانی، فکر مندی صاف ظاہر تھی۔

کردم کو اس وقت وہ اپنے ہواسوں میں نہیں لگی۔

" اتنی سی چوٹ سے کوئی مرتا نہیں ہے۔" کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوا۔

کردم کی بات پر آئینور یکدم اپنے ہواسوں میں لوٹتی اس کا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہوئی۔

" سوری !! وہ میں۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔" آئینور کو سمجھ نہ آیا کیا بولے۔

" آپ کچھ لگا لیں ہاتھ پر سردی کی چوٹ زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ میں۔۔۔ میں فرسٹ ایڈ باکس لاتی ہوں۔" آئینور نظریں جھکائے بولتی مڑ کر کمرے سے جانے لگی کہ کردم کی آواز پر رک گئی۔

" ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں ہی رکھا ہے۔" کردم کہتا ہوا کپڑے بدلنے ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ آئینور یونہی کھڑی ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو دیکھتی رہی۔ اسی لمحے میں ماضی کی کئی تلخ یادیں تازہ ہوئیں۔

وہ سر جھٹکتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آئی۔ جھک کر فرسٹ ایڈ باکس دراز سے نکال کے بیڈ پر جاکے بیٹھ گئی۔

کردم ڈریسنگ روم سے نکلا تو اسے بیڈ پر بیٹھے اپنا منتظر پایا۔

" لاؤ مجھے دو۔" اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

آئینور نے خاموشی سے فرسٹ ایڈ باکس کھولا اور کردم کا ہاتھ پکڑ کر خود ہی دوا لگانے لگی۔

کردم حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مگر مقابل کا چہرہ ہر تاثر سے پاک تھا۔

آئینور خود پر اس کی نظروں کو محسوس کر رہی تھی۔ مگر نظر انداز کیے اپنے کام میں لگی رہی۔ دوا لگانے کے بعد وہ اب پٹی باندھ رہی تھی۔

کردم اسی کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا جب اس کی نظر آئینور کی ناک میں چمکتی چھوٹی سی لونگ پر پڑی۔ لونگ میں لگا ہیرا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ زیور کے نام پہ بس ایک یہی چیز پہنی ہوئی تھی۔

" کل تک تو نہیں تھی۔ یقیناً آج اپنے گھر سے پہن کر آئی ہے۔" کردم اسے دیکھ کر سوچنے لگا۔

آئینور پٹی باندھ کر اُٹھنے لگی تو کردم نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔

" تم ڈاکٹر بن رہی ہو؟ " وہ ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھتے ہوئے بولا۔ پٹی کو دیکھ کر یہ ہی لگ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر نے باندھی ہے۔

" نہیں۔" بےتاثر چہرے سے جواب دیا۔

کردم نے ٹیبل پر رکھی کتابوں کو ایک نظر دیکھا پھر آئینور کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" پھر کس سے سیکھا پٹی باندھنا؟ "

آئینور جواب دیے بغیر اُٹھ گئی۔ فرسٹ ایڈ باکس کو اس کی جگہ پر رکھا پھر مڑ کر کردم کو دیکھتی گویا ہوئی۔

" جب مرہم لگانے والے ہاتھ نہ ہوں۔۔۔ تو خود ہی زخموں پر مرہم رکھنا پڑتا ہے۔" سنجیدگی سے کہتے وہ باتھ روم میں چلی گئی۔

آئینور کے جواب میں الجھا، وہ ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھتا رہ گیا۔


۔************۔


آئینور کی آنکھ کھلی تو کردم کو برابر میں سوتا پایا۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔ ایک نظر گھڑی پر ڈالتی، وہ اپنے اور کردم کے کپڑے نکال کر باتھ روم چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو کردم کو یونہی سوتا دیکھ آئینور بیڈ کی طرف بڑھی اور کندھے سے ہلا کر اُٹھانے لگی۔

کردم نے آنکھیں کھول کر ایک نظر اسے پھر گھڑی کو دیکھا جس میں آٹھ بج رہے تھے۔

" آپ تیار ہو جائیں میں ناشتہ لاتی ہوں۔" آئینور کہہ کر کمرے سے نکلتی کچن میں چلی آئی۔

" سیما خالہ ناشتہ تیار ہے؟ " ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیار سے پوچھا۔

" ہاں کردم کو اُٹھا دیا۔ " سیما خالہ نے پیار سے اسکے گال تھپکے۔

"جی !! اُٹھا دیا اُس کھڑوس کو۔" آئینور نے منہ بسور کر کہا۔

" لڑکی !! شوہر کو کھڑوس کہہ رہی ہو شرم کرو۔" سیما خالہ نے اسے گھوری سے نوازا۔

" اچھا اب ناشتہ دے دیں ورنہ وہ ہٹلر پھر شروع ہو جائے گا۔" آئینور نے منہ بنا کر کہا۔

سیما خالہ نے تاسف سے سر ہلایا اور ناشتے کی ٹرے اسے پکڑا دی۔

"چلو اب جلدی جاؤ۔"

"جی۔" آئینور اثبات میں سر ہلاتی ٹرے تھامے کمرے کی جانب چل دی۔

کمرے میں داخل ہوئی تو کردم تیار کھڑا تھا۔ آئینور نے ناشتہ ٹیبل پر رکھ دیا۔

" ناشتہ کر لیں۔" آئینور کہہ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کردم بھی ناشتے کے لیے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ مگر دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہونے کے باعث کردم بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے لگا۔

آئینور ناگواری سے اسے دیکھتی رہی پھر جب برداشت سے باہر ہوگیا تو اُٹھ کر اس پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔

" لائیں میں آپ کی مدد کر دوں۔" آئینور اس کی طرف نوالہ بڑھاتی ہوئی بولی۔

" مجھے ہمدردی نہیں چاہیئے۔۔۔ میں خود کھا سکتا ہوں۔۔۔ اور تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں جب مجھے لگے گا میری قیمت وصول ہوگئی تو تمہیں یہاں سے چلتا کردوں گا۔" کردم اس کا ہاتھ ہٹاتا کوفت سے بولا۔

" اول تو یہ۔۔۔ مجھے بے صبری سے انتظار رہے گا اس دن کا۔ اور دوئم یہ کہ۔۔۔ بائیں ہاتھ سے کھانا ممنوع ہے۔ اس لیے آج میرے ہاتھ سے کھا لینگے تو زہر نہیں مل جائے گا اس میں۔"

آئینور نے کہہ کر پھر نوالہ کردم کی طرف بڑھایا۔ اس بار کردم نے بغیر کسی چوں چرا کے اس کے ہاتھ سے کھا لیا۔ کردم کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ خود پر اس کی نظروں کو محسوس کرتی وہ جلدی جلدی کھلانے لگی۔

کردم کو یکدم پھندا لگا۔ ہاتھ سے نوالہ چھوڑتے، آئینور نے پانی کا گلاس اُٹھا کر اس کے ہونٹوں سے لگا دیا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس کی کمر بھی سہلا رہی تھی۔

" تم نے کسی ریس میں حصّہ لے رکھا ہے جو ایک کے بعد ایک نوالہ منہ میں ڈال رہی ہو۔۔۔؟ کھلا رہی ہو تو صحیح سے کھلاؤ۔" کردم اسے گھورتے ہوئے گویا ہوا۔

" سوری !! " آئینور نے منہ بسور کر کہا۔ کردم سر جھٹک کر رہ گیا۔

" ہنہہ !! ایک تو کھلا رہی ہوں اوپر سے لاڈ صاحب کے نخرے ختم نہیں ہو رہے۔" اس نے جل کر سوچا ساتھ ہی گھوری سے نوازنا نہیں بھولی۔


۔************۔


" تم نے کردم دادا سے پنگا لے کر اچھا نہیں کیا۔ یوں تم نے کردم دادا کے ساتھ ساتھ باقی گینگ کے بندوں کو بھی اپنے خلاف کر لینا ہے۔"

پاشا اپنے گھر پر موجود تھا جب جمشید اس کے پاس چلا آیا۔۔۔ اور اب وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھا کل رات کے حوالے سے بات کا آغاز کر رہا تھا۔

" تم صبح صبح صرف یہ کہنے آئے ہو؟ " پاشا چڑتے ہوئے گویا ہوا۔

" ارے یار !! میں تو تمہارے فائدے کی بات کرنے آیا ہوں۔ تم اس طرح دن دھاڑے کردم سے دشمنی مول لے کر اپنے لیے مشکل پیدا کر رہے ہو۔ کوئی ایسا راستہ تلاش کرو کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" جمشید چہرے پر مکرو مسکراہٹ سجائے بولا۔

" مطلب کہنا کیا چاہتے ہو اور اس سب سے تمہیں کیا فائدہ؟ " پاشا نے اچنبھے سے پوچھا۔

" کردم دادا کی طرف میرے بھی بہت سے حساب کتاب نکلتے ہیں۔ میری بھی کئی منظورِ نظر کو اس نے اپنا دیوانہ بنا کر ان کو چھوڑ دیا۔ اوپر سے دادا کا چہیتا بھی ہے۔ کئی دفعہ کردم دادا کی وجہ سے دادا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ بس تب سے میں نے بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔ مگر اکیلے اس کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔ اس لیں میں صحیح موقعے کی تلاش میں تھا۔ تاہم اب تم ہو نا میرے ساتھ، ایک سے بھلے دو۔" جمشید نے تفصیل بتا کر پاشا کی طرف دیکھا جو غور سے اسے سن رہا تھا۔

" اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے میں تمہارا ساتھ دونگا ؟" پاشا نے بھنویں اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" وہ اس لیے کہ اکیلے تو تم بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چونکہ تمہیں اپنی بھانجی کا بدلہ لینا ہے تو تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں نا دشمن کا دشمن دوست بس وہی کہانی ہے۔" جمشید مسکراتے ہوئے بولا۔

پاشا اس کی بات سے محظوظ ہوتا دھیرے سے مسکرا دیا۔

" مگر کردم دادا کو نقصان پہنچانا اتنا آسان نہیں۔ اس کے تو آگے پیچھے بھی کوئی نہیں کہ ہم اس کی دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ سکیں۔

اور دوسرے طریقوں سے نقصان پہنچانے میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ ابھی سونیا کو اُٹھایا تھا کل کو پھر کسی کو اُٹھالے گا۔" پاشا نے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔

" کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہوگا۔ جس سے ہم کردم دادا کو گھٹنوں کے بل لاسکیں۔ بس ہمیں صحیح موقعے اور وجہ کی تلاش میں رہنا ہے۔" جمشید پُر سوچ انداز میں بولا۔

" ٹھیک کہتے ہو۔" پاشا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

" چلو اب میں چلتا ہوں اور بھی بہت کام ہیں۔" جمشید کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ مگر جاتے جاتے پاشا کو گہری سوچ میں مبتلا کر گیا۔


۔************۔


" افففف !! حد ہے، یہ نہیں کے کپڑوں کو اُٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دیں۔ اُتار کر فرش پر ہی پھینک دیے۔"

کردم کو دروازے تک چھوڑ کر آئینور واپس کمرے میں آئی تھی۔ بوریت کے باعث وہ کمرے کا سامان ترتیب سے رکھتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی تھی۔

اس نے ڈریسنگ روم میں قدم رکھا ہی تھا جب کردم کا شب خوابی کا لباس نیچے پڑا دیکھا۔ وہ منہ بناتی کپڑے اُٹھانے لگی۔ ساتھ میں بڑبڑا بھی رہی تھی۔

"ویسے ماما ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ اگر میں تھوڑا گھر کا کام کاج سیکھ لیتی تو آج مجھے اتنی بوریت نہ ہوتی یوں گھر میں رہ کر وقت گزر جاتا۔"

" خیر !! اب کچھ تو اپنی بوریت ختم کرنے کے لیے کرنا ہی ہوگا۔ چلیے آئینور صاحبہ آج ان لاڈ صاحب کے کپڑے دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ جانے کتنے کتنے دن پُرانی جرابیں اور بنیان پہنی رکھتے ہیں۔" آئینور خود کلامی کرتی کردم کے میلے کپڑے اُٹھا کر باتھ روم میں چلی گئی۔ اب جو بھی تھا، رخسار بیگم کی نصیحت پر عمل پیرا ہونا ہی تھا۔


۔************۔

" تم نے سونیا کہ ساتھ ٹھیک نہیں کیا کردم دادا۔ "

کردم اس وقت آغا حسن کے گھر پر موجود تھا۔ پاشا کی حرکت کے بعد آغا اس موضوع پر کردم سے بات کرنا چاہتا تھا اس لیے صبح ہی فون کر کے اُسے ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا۔

" یہ سب پاشا نے شروع کیا تھا۔ ویسے بھی تم اچھے سے جانتے ہو، میں کسی کڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا۔ سونیا کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی، صرف گولی ہی تو چھو کر گزری ہے۔۔۔ میں نے تھوڑی اُسے چھوا ہے جو وہ آگ بگولہ ہو رہا ہے۔" کردم کہتا ہوا ہولے سے مسکرایا۔

" ہاں جانتا ہوں۔۔۔ لیکن پھر بھی تمہیں سونیا کو بیچ میں نہیں لانا چاہیے تھا۔ یوں گینگ کے بندوں کا آپس میں لڑنا ٹھیک نہیں۔ دادا تک اگر اس بات کی خبر پہنچ گئی تو ہم سب کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔" آغا حسن نے آگاہ کرنا چاہا۔

" ہنہہ !! جانتا ہوں۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس نے میرے جہاز پر قبضہ کیا تو ہی میں نے سونیا کو اُٹھایا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو وہ مجھے کمزور سمجھتا جو مجھے ہرگز قبول نہیں۔" کردم ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔

" اس نے تمہارے جہاز پر قبضہ اس لیے کیا کیونکہ تم نے اس کی رکھیل کو اُٹھا لیا تھا۔" آغا حسن جتاتے ہوئے بولا۔

میں نے نہیں اُٹھایا۔ پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہہ رہا ہوں، وہ خود آئی تھی۔ میں کسی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا کہ ان کو اُٹھاتا پھروں۔" آغا کی بات نے کردم کو تیش دلا دیا۔

" اچھا غصّہ کیوں کرتے ہو، بس اب کوشش کرنا کہ پاشا اور تمہارے درمیان مزید بدمزگی پیدا نہ ہو۔" آغا نے سمجھانا چاہا۔

" یہ بات تم مجھے نہیں اس پاشا کو بولو اور اب میں چلتا ہوں سارے کام چھوڑ کر تمہاری یہ فضول باتوں کو سنے آیا تھا۔" کردم سر جھٹکتا کھڑا ہوگیا۔ آغا سے بغل گیر ہو کر وہ باہر کی جانب چل دیا۔

آغا تاسف سے نفی میں سر ہلاتا اسے جاتے دیکھتا رہا۔


۔************۔


آئینور ڈریسنگ روم میں کھڑی کردم کے کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھی جب باہر سے آتی گولی کی آواز پر ایک پل کے لیے سُن ہوگئی۔

کپڑوں کو وہیں پھینکتی وہ کھڑکی کی طرف آئی جہاں سے گھر کے پیچھے کا منظر نظر آتا تھا۔

نیچے جھانک کر دیکھا تو زمین پر ایک بے جان وجود پڑا ہوا تھا، جس کے خون سے زمین بُری طرح رنگ چکی تھی۔

کردم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کھڑا لاش کو ٹھکانے لگانے کی ہدایت دے رہا تھا۔ آج وہ پھر جلدی گھر آگیا تھا اور آتے ہی ایک کارنامہ انجام دے دیا تھا۔

آئینور پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی خون کو تو کبھی کردم کو دیکھ رہی تھی کہ تبھی کسی احساس کے تحت کردم نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا۔

مگر !! وہاں کوئی ذی روح کو موجود نہ پایا۔ سر جھٹک کر وہ پھر سے ہدایت دینے لگا۔

آئینور فوراً کمرے میں واپس آئی۔ ایک سنسناہٹ سی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ رہی تھی۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک کمبل تانے بیڈ پر لیٹ گئی۔

کردم کمرے میں داخل ہوا تو نظر سیدھا کمبل میں چھپے وجود پر پڑی۔ کمبل میں پیدا ہوتا رہا ارتعاش آئینور کے جاگنے کی گواہی دے رہا تھا۔

کردم کے چہرے پر مدہم سی مسکراہٹ در آئی۔ اس کا شک یقین میں بدل گیا۔

" اچھا ہے !! بہت زبان چلتی ہے، اب میرے سامنے تھوڑا ڈر کے تو رہے گی۔"

کردم مسکراتے ہوئے سوچتا باتھ روم میں چلا گیا۔


۔************۔


" اسلم کب تک ایسے ہی رہو گے تم۔۔۔؟ کبھی تم نے اپنے بچوں کا بھی نہیں سوچا۔ یہ خودغرضی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ " اسلم شراب کے نشے میں کل رات کا نکلا آج شام کو گھر میں آیا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر رخسار بیگم پھٹ ہی پڑی۔

" کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟ " اسلم بیزاری سے بولا۔

" ہاں تم کیا کرو گے، آخر تم کر ہی کیا سکتے ہو۔۔۔؟ سوائے جوئے بازی اور شراب نوشی کے۔ رخسار بیگم زہر خند لہجے میں بولیں۔

" اب تو ہوش کے ناخن لے لو اسلم۔ ماہا نے تمہاری وجہ سے موت کو گلے لگا لیا۔ نور بھی تمہاری وجہ سے ایک غنڈے کے نکاح میں بند گی، مگر۔۔۔ مگر تمہیں اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔ کتنے ارمان تھے نور کی شادی کو لے کر مگر سب ختم ہوگیا، وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔" اب کے رخسار بیگم کہتے ہوئے رو پڑی۔ لہجے میں بےبسی اُتر آئی تھی۔ اسلم کی خودغرضی ان کا دل جلاتی تھی۔ اب بھی ان کی بات کو سنی ان سنی کرتا وہ کمرے میں چلا گیا۔ رخسار بیگم بھی دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی کچن کی طرف بڑھ گئیں۔


۔************۔


وہ بیڈ پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بس کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی سیدھا اس کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ ماحول میں خاموشی کا راج تھا، جسے اس کی آواز نے توڑا تھا۔

" کردم ؟ "

آئینور نے اس کو مخاطب کیا جو بائیں جانب آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا۔

" ہممم !! "

" اور کتنے دن مجھے یہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا ؟ " آئینور کی بات پر کردم نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اس کی جانب چہرہ موڑا، وہ ابھی بھی چھت کو گھور رہی تھی۔

کردم کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر سخت لہجے میں گویا ہوا۔

" میں اس بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا، جب مجھے لگے گا تمہارا کام اب ختم ہوگیا تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا، اس لیے آئندہ مجھ سے یہ سوال مت کرنا۔" کردم کہہ کر خاموش ہو گیا۔

کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ کچھ دیر آئینور کو یونہی دیکھتا رہا، اسے لگا تھا اس کی بات پر وہ کچھ اُلٹا بولے گی مگر۔۔۔ وہ خاموش رہی شاید سوگئی تھی۔ کردم بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا اور جلد ہی نیند کی آغوش میں اُترتا چلا گیا۔


۔************۔


وقت دن اور دن ہفتوں میں بدل رہا تھا۔ آئینور گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی اور اس قید کے باعث دن بدن چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی۔

ابھی بھی وہ کمرے میں موجود ٹی وی پر کوئی نیوز چینل لگائے بیٹھی تھی۔ جب کردم باتھ روم سے باہر نکلا۔ ایک اُچٹتی نظر اس پر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

" آج اپنے کچھ ڈھنکے کپڑے لے آنا۔ رات ہمیں کہیں دعوت پر جانا ہے۔" کردم آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ جو اس کی موجودگی کو نظر انداز کرے ہوئے تھی۔

" اول تو میرے پاس کپڑے موجود ہیں، مجھے آپ کی حرام کمائی کے کپڑے نہیں چاہیئے اور دوئم یہ کہ میں کسی بیہودہ محفل کا حصّہ بن کر کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتی۔" آئینور ٹی وی پر نظریں جمائے بولی۔ اس کی بات پر جبڑے بھینچے کردم اس کی طرف مڑا۔

" تمہیں کیا لگتا ہے، بہت خوبصورت ہو۔۔۔؟ کہ ہر مرد تمہیں دیکھے گا؟ " کرخت لہجے میں کہتے وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔

" خوبصورت کا تو پتا نہیں مگر عورت ضرور ہوں، اور آپ سے زیادہ اس بات کو کون اچھے سے جان سکتا ہے۔۔۔؟ جو بنا دیکھے مجھے حاصل کرنا چاہتا تھا۔"

آئینور کہتے ہوئے ٹی وی بند کرتی اُٹھ گئی۔ کردم مٹھیاں بھینچے اس کی جانب بڑھا اور بازوؤں سے دبوچ کر اپنی خونخوار نظریں اس کے چہرے پر جمائے بولا۔

" آج تو بول دیا اور میں نے سن لیا، مگر !! آئندہ یہ بکواس کی تو زندہ زمین میں گاڑ دونگا، اپنی اوقات مت بھولو۔۔۔ سمجھی۔"

اس کو صوفے پر پھینکتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ آئینور ناگواری سے اس کی پشت کو دیکھتی اُٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی۔


۔************۔


اس وقت تمام نفوس بیٹھک میں موجود تھے۔ سب کردم اور پاشا کے مسئلے کو کافی دنوں سے زیرِ بحث لانا چاہتے تھے اور بالآخر آج یہ موقع ہاتھ آ ہی گیا۔ سب اپنی نشست سنبھالے بیٹھے تھے جب کردم دروازہ دھکیلتا اندر آیا اور اپنی نشست کو سنبھالتا اس پر براجمان ہوا۔

پاشا نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی اس دن کے بعد سے آج ان کا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ چمشید نے ایک نظر کردم پر ڈال کر چہرہ پاشا کی طرف موڑا چہرے پر محظوظ سی مسکراہٹ تھی۔

" کردم تمہارا ہی انتظار تھا۔ مجھے لگتا ہے اب اُس مسئلے پر بحث شروع کرنی چاہیے۔" آغا حسن دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملائے ٹیبل پر رکھتے آگے کو آیا اور ایک نظر سب پر ڈالتے گویا ہوا۔

" اگر دیکھا جائے تو۔۔۔۔" آغا روکا ایک نظر پاشا پر ڈالی پھر دوبارہ سے گویا ہوا۔

"سب اس بات کو اچھے سے جانتے ہیں کہ کردم دادا لڑکیوں کے معاملے میں زبردستی کا قائل نہیں ہے۔ اگر وہ کہہ رہا ہے کہ "رمشا " (پاشا کی رکھیل) خود اس کے پاس آئی تھی تو یقیناً یہ بات درست ہوگی، اور غلطی پاشا کی ہے، جو اتنی سی بات۔۔۔" آغا بول ہی رہا تھا جب پاشا بھڑک اُٹھا۔

" اگر یہ اتنی سی بات ہے تو ٹھیک ہے آج رات میرے گھر "روبینہ" (آغا حسن کی بیوی) کو بھیج دینا۔"

" زبان سنبھال کے بات کرو۔" آغا غرایا۔

" پاشا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تم نے بھی تو راشد کی رکھیل کو اپنے پاس رکھا تھا، اس نے تو یوں ہنگامہ برپا نہیں کیا۔ تم بس رائی کا پہاڑ بنا رہے ہو۔" خاقان ابراہیم نے ماحول کی نزاکت کو دیکھتے سمجھانا چاہا مگر پاشا کو اس کی بات نے مزید بھڑکا دیا۔

" تم تو اپنی بکواس بند ہی رکھو، ورنہ "صوفیہ" (خاقان کی بیٹی) کو لے جا کر کوٹھے پر بیٹھا دونگا۔"

" تم حد پار کر رہے ہو اپنی اوقات مت بھولو۔" خاقان اس سے بھی تیز دھاڑا۔

" اچھا تو کیا کرو گے تم؟" پاشا ٹیبل پر ہاتھ مارتا کھڑا ہو گیا۔

" سونیا کو گولی صرف چھو کر گزری تھی، ایسا نہ ہو صوفیہ کی جگہ وہ کوٹھے پر دکھائی دے۔" خاقان خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

ماحول میں تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ کردم خاموش بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا۔ جو ایک دوسرے کی عزتوں کو اچھالنے میں لگے تھے۔ بات کردم اور پاشا کی تھی جو رخ بدل کر گھر کی عورتوں پر چلی گئی تھی۔ یہاں سب کا ذکر تھا، بس نہیں تھا تو آئینور کا نہیں تھا۔ سب کی عزتوں کو پامال کیا جارہا تھا، اگر کسی کی عزت محفوظ تھی تو وہ کردم کی تھی۔

وہ جو کچھ دیر پہلے آئینور پر دعوت میں شرکت نہ کرنے پر غصّہ تھا، اب اُس کا کسی کی نظروں میں نہ آنے والا فیصلہ درست لگ رہا تھا۔ گو یہ پہلی بار نہیں دیکھ رہا تھا کہ یوں گھروں کی عزتوں کو محفل میں اچھالا جارہا تھا۔ لیکن آج آئینور کے وجود نے اسے یہ سب محسوس کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اور بھی ناجانے کیا سوچتا کہ جمشید کے مخاطب کرنے پر اپنی سوچوں سے باہر آیا۔

" کردم دادا آپ ان کو روکتے کیوں نہیں؟ " جمشید اس کی طرف جھکا ہوا بول رہا تھا۔ کردم بغیر کوئی جواب دیئے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔

" پہلے تم لوگ یہ طے کر لو آج رات کس کی عورت کس کے ساتھ رہ گی، پھر دوسروں کے مسائل حل کرنے بیٹھنا۔" کردم ناگواری سے کہتا باہر نکل گیا۔

اس کی بات پر ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ سب خاموشی سے اسے جاتے دیکھتے رہے۔

" لو جس کے لیے بیٹھک میں جما تھے، وہ تو چلا گیا۔" جمشید نفی میں سر ہلاتا بڑبڑانے لگا۔


۔************۔


" کیا ہوا اتنی خاموش کیوں بیٹھی ہو؟ " آئینور جو کچن میں اُداس بیٹھی تھی، اس کو خاموش پا کر سیما خالہ نے پوچھا۔

"میں تنگ آ گئی ہوں اس قید سے، اُس دن کے بعد سے میں رخسار ماما سے ملنے نہیں گئی، فون پر بات ہوتی ہے مگر۔۔۔ اب میرا دل اُن سے ملنے کو چاہتا ہے۔" آئینور آہ بھرتے ہوئے بولی۔

" تو مل آؤ جا کر اُن سے۔" سیما خالہ سبزی کاٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولی۔

" کیسے مل آؤں؟ وہ کھڑوس لاڈ صاحب جانے دیں تو مل کر آؤں نا۔" آئینور منہ بسور کر بولی۔

"شرم کرو لڑکی شوہر ہے، کچھ تو عزت کر لو۔" سیما خالہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے رعب جمانے کی کوشش کی۔

" کم از کم اُس غنڈے کو میرا شوہر بول کر بار بار اس تلخ حقیقت کا تو سامنہ مت کریں۔" کردم کے لیے شوہر لفظ سنتے ہی آئینور کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔

" لڑکی تم اس کے بارے ميں کچھ نہیں جانتی۔ میرا کردم دل کا بُرا نہیں ہے، بس حالات نے اُسے ایسا کر دیا۔" سیما خالہ تاسف سے اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔

"کیوں ؟ ایسا کیا ہوا تھا ان کے ماضی میں جو یوں غلط راستے پر نکل پڑے؟ " آئینور نے بھنویں اُچکا کر پوچھا۔

آئینور کے سوال پر سیما خالہ کا سبزی کاٹتا ہاتھ رکا، وہ یکدم شش وپنج میں مبتلا ہوگئی، آیا کہ بتانا چاہیئے یا نہیں۔

آئینور غور سے ان کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی، ان کو پریشان دیکھ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھتی گویا ہوئی۔

"اگر آپ نہیں بتانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔"

"نہیں وہ دراصل۔۔۔" سیما خالہ بول ہی رہی تھیں کہ وہ ان کی بات کے درمیان میں بولی۔

"جب ہم کسی کے " ہم راز " بن جائیں، تو اُس راز کو راز رکھنا ہمارا فرض ہے۔" آئینور مسکرا کر کہتی وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ سیما خالہ گہرا سانس ہوا کہ سپرد کرتی پھر سے سبزی کاٹنے لگیں۔


۔************۔

گلاس ہاتھ میں پکڑے وہ دھیرے دھیرے وسکی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔ اطراف میں مرد اور عورتیں رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس ہاتھوں میں گلاس پکڑے ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے، مگر اس کی نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔

" اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟ "

کردم جو اپنی سوچوں میں غرق تھا، آواز سن کر وہ چونکا، چہرہ موڑ کر دیکھ تو آغا حسن اس کے دائیں جانب صوفے پر بیٹھتا پوچھ رہا تھا۔

" کچھ نہیں۔" کردم وسکی کا گھونٹ لیتا ہوا بولا۔

" آج تو پاشا نے حد ہی کر دی۔" آغا حسن پاشا کی بات یاد کرتا ہوا بولا۔

" تم ہی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے، ورنہ میں تو اس کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔۔۔ کوجاکہ اس سے صلح کرتا۔" کردم نے کہہ کر سر جھٹکا۔

" تم ٹھیک کہ رہے ہو، اس پاشا کی خبر دادا کو کرنی پڑے گی، کہیں ایسا نہ ہو یہ ہمیں ہی کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔" آغا حسن پُر سوچ انداز میں بولا۔

" اپنی بات کرو، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔" کردم کہہ کر بائیں جانب دیکھنے لگا، جہاں سے خاقان ابراہیم اور راشد ملک ان ہی کی طرف آ رہے تھے۔

" کیا ہو رہا؟ "

خاقان ابراہیم اور راشد ملک نے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ساتھ ہی راشد ملک نے بیچ میں رکھی ٹیبل پر سے وسکی کی بوتل اُٹھا کر گلاس بھرا۔

" کچھ نہیں اور بتاؤ آج کی دعوت کیسی لگی؟ " آغا نے بات بدلی۔

"ہمیشہ کی طرح زبردست۔" خاقان ابراہیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"جمشید نہیں آیا؟ " راشد ملک نے اطراف میں نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔

"ایسا ہو سکتا ہے بھلا ؟ کہیں دعوت ہو اور وہاں جمشید موجود نہ ہو، وہ رہا وہاں۔"

آغا نے کہتے ہوئے جمشید کو پاس آنے کا اشارہ کیا جو ان سے تھوڑا دور ایک "عافیہ" نام کی لڑکی سے باتوں میں مشغول تھا۔ آغا کے اشارہ کرنے پر وہ عافیہ کے ہمراہ ان کے پاس چلا آیا۔

"ہیلو !! کیسے ہیں آپ سب؟ " عافیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سب نے مسکرا کر اسے جواب دیا سوائے کردم کے، اس کی نظریں بار بار گھڑی پر پڑ رہی تھیں جس کی سوئیاں بارہ کے ہندسے دیکھا رہی تھی۔

"پاشا نہیں آیا ؟"

جمشید راشد ملک کے بغل میں بیٹھتا ہوا بولا۔ جبکہ عافیہ کردم کے بائیں جانب آکر بیٹھ گئی۔

" اُس کا تو نام بھی مت لو میرے سامنے آجائے تو ابھی شوٹ کر دوں۔" خاقان نے رقابت سے کہا۔

" یار !! کیوں اتنا سنجیدہ ہو رہے ہو؟ یہ سب پہلی بار تو نہیں ہے۔ ایسے چھوٹے موٹے اختلافات تو ہوتے رہتے ہیں گینگ کے بندوں کے درمیان۔" جمشید نے سمجھانا چاہا۔

" تم کیوں اس کی اتنی طرفداری کر رہے ہو؟ " کردم نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" کیا تم لوگ پھر ان باتوں کو لے کر بیٹھ گئے، ابھی صرف مزے کرو۔" راشد نے بدمزگی پیدا ہونے کے ڈر سے بات بدلی۔

" آپ کیوں بار بار گھڑی کو دیکھ رہے ہیں؟ کہیں جانا ہے کیا؟ " عافیہ نے نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کردم سے پوچھا۔

"ہاں کچھ ضروری کام ہے۔" کردم نے خوش لہجے میں جواب دیا۔

" اس وقت تمہیں کیا ضروری کام پڑ گیا؟ " خاقان ابراہیم نے بھنویں اُچکا کر پوچھا۔

"میری کچھ طبیعت خراب ہے بس اس لیے۔" کردم ہاتھ میں پکڑا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔

" تو یہ بولو کہ طبیعت ٹھیک نہیں، کام کا بہانہ کیوں بنا رہے ہو؟ " خاقان اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔

" ارے یار !! تھوڑا سا انتظار کرو پھر دیکھنا تمہاری طبیعت کیسے ٹھیک ہوتی ہے۔ ناچنے والی بس آتی ہی ہونگی۔" آغا حسن نے اس شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ باقی سب بھی مسکرا دیئے۔

"ہم ہیں نہ آپ کی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے۔"

عافیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ کردم کے بازو پر رکھ دیا۔ کردم نے ناگواری سے اس ہاتھ کو دیکھا اور لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔

" نہیں میں اب چلتا ہوں۔" کردم کہتا ہوا اُٹھنے لگا جب عافیہ نے ہاتھ میں پکڑا گلاس اس پر اُلٹ دیا۔

" اوہ !! سوری غلطی سے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔" عافیہ کہتے ہوئے اس کا کوٹ صاف کرنے لگی۔

" اس کی ضرورت نہیں۔" کردم نے غصّہ ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو ہٹایا۔

" ارے !! تمہارا کوٹ تو سارا خراب ہوگیا، جاؤ واش روم میں جا کر صاف کر لو۔" آغا یکدم پریشان ہوا۔

کردم بغیر کچھ کہے اُٹھ کھڑا ہوا اور واش روم کی سمت چل دیا۔

" کردم کچھ کھنچا کھنچا سا نہیں رہنے لگا؟ کچھ دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں۔" خاقان جو کب سے کردم پر غور کر رہا تھا اُس کے جاتے ہی گویا ہوا۔

"وہ پہلے کونسا گھل مل کر رہتا تھا۔" آغا نے شانے اچکا کر کہا تو سب مسکرا دیئے۔

" آپ لوگ باتیں کریں میں زرا اپنے دوستوں سے مل لوں۔" عافیہ مسکرا کر کہتی وہاں سے اُٹھ گئی۔

سب اپنے آپ میں مصروف تھے۔ وہ سب کی نظروں سے بچتی بچاتی واش روم کے دروازے کے سامنے آ کھڑی ہوئی جہاں کردم اپنا کوٹ صاف کر رہا تھا۔

کردم کی پُشت دروازے کی طرف تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر مڑکر دیکھا تو یکدم ماتھے پر بل پڑ گئے۔ عافیہ دروازے کو لاک لگاتی، قدم اُٹھائے اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔

" یہاں کیا کر رہی ہو؟ " کردم غصّے پر قابو پاتے گویا ہوا۔

" اتنا بھی کیا غصّہ؟ "

"خیر !! میں سوچ رہی تھی کیوں نہ آج کی رات ساتھ گزاریں۔" عافیہ نے کہتے ہوئے کردم کے گلے میں بانہیں ڈالنی چاہیں۔

مگر !! کردم نے بروقت اس کی کلائیوں کو تھام کر روکا اور ایک جھٹکے سے اسے سائڈ پر کرتا بغیر کچھ بولے واش روم کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

عافیہ کی باتوں نے اسے غصّہ دلا دیا تھا۔ حالانکہ یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تھا، اور نہ ہی اس نے ایسی دعوتوں کو کبھی رد کیا تھا۔

مگر !! نہ جانے کیوں آج اسے غصّہ آ گیا تھا۔ وہ اپنی اس بدلتی کیفیت پر خود بھی حیران و پریشان تھا۔

کردم واپس ہال میں آیا تو سب باتوں میں مصروف تھے۔ وہ آگے بڑھتا اُن لوگوں کے پاس پہنچ گیا۔

" اب میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔" کردم نے ہاتھ پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔

"بول تو ایسے رہے ہو جیسے گھر پر تمہارے بیوی بچے رو رہے ہوں۔" آغا نے کہتے ہوئے قہقہہ لگایا جس پر باقی سب نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

کردم نے غصّے سے انھیں گھورا۔ وہ اب انھیں کیا بتاتا کہ اب وہ اکیلا نہیں ہے، کوئی ہے جو اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ اس کے لیے نہ سہی اس نکاح کے احترام میں سہی۔

" تم لوگ اپنی بکواس اپنے پاس ہی رکھو، میں چلتا ہوں۔" کردم کہہ کر سب سے مصافحہ کرتا باہر نکل گیا۔


۔************۔


گاڑی گھر کے اندار آ کر رکی۔ کردم نے شیشے کے پار اندرونی دروازے کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو توقع کے برعکس آج وہ وہاں نہیں تھی۔

"ہنہہ !! آج اس نکاح کا احترام یاد نہیں آیا۔" کردم نے تلخی سے سوچا پھر گہرا سانس لیتے گاڑی سے نکل کر اندر کی جانب چل دیا۔

لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کردم سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی طرف آ گیا۔

کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ خواب گاہ میں اندھیرے کا راج تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ جلائی تو خواب گاہ میں روشنی جگمگا اٹھی۔

مگر !! آئینور یہاں نہیں تھی، بیڈ خالی پڑا تھا۔ لب بھینچے وہ تیزی سے اپنی خواب گاہ سے باہر آیا کہ تبھی ساتھ والے کمرے کے دروازے سے باہر آتی باتوں کی آواز پر رک گیا۔ ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تو اس کمرے کی بھی تمام تر لائٹس بند تھیں۔ ایک کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی سیدھا اُس ایک وجود پر پڑ رہی تھی جو جائے نماز بچھائے اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھی۔ چاند کی روشنی میں نظر آتا اس کا پُرنور چہرہ کردم کو کچھ دیر کے لیے ساکت کر گیا۔ وہ دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اسے بھول گیا تھا کہ وہ کہاں ہے، کیا ہے، یاد تھا تو بس سامنے مصلے پر بیٹھا شخص اور اس کا پُرنور چہرہ۔۔۔ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد وہ اپنی خواب گاہ میں واپس چلا گیا۔

آئینور نے سلام پھیر کر کسی انجانے احساس کے تحت دروازے کی طرف دیکھا جہاں اب کوئی نہیں تھا۔ وہ دعا مانگ کر جائے نماز رکھتی اس کمرے سے نکل خواب گاہ میں داخل ہوئی۔

ابھی اس نے خواب گاہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ کردم کو صوفے پر بیٹھا دیکھ چونک پڑی۔

"بڑی جلدی واپس آگئے، مجھے تو لگا پوری رات گھر نہیں آئینگے۔" آئینور بیڈ پر بیٹھتی گویا ہوئی۔

کردم جو آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا، آئینور کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" کہو تو واپس چلا جاتا ہوں۔" اس کی بات پر کردم بدمزہ ہوتے ہوئے بولا۔

" نہیں !! میں کیوں کہوں گی ایسا؟ آپ کا گھر ہے جب دل چاہے آئیں جب چاہے چلے جائیں۔" آئینور نے کندھے اُچکائے۔

کردم بس اسے گھورنے کے رہ گیا۔

"ویسے رقص و سرور کی محفلیں تو اب شروع ہوتی ہیں نا؟ " آئینور نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے پوچھا۔

" تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ خود اُس دعوت کا حصّہ بنا نہیں چاہتی تھیں، اور اب جب میں بھی واپس آ گیا ہوں تو تمہاری تفتیش شروع ہوگئی۔" کردم سخت لہجے میں بولا۔

"ویسے کافی اچھا وقت گزار کر آئیں ہیں۔" آئینور اس کی بات کو نظر انداز کرتی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی، نظریں کردم کی شرٹ پر جمی تھیں۔

کردم نے اس کی نظروں کی سمت دیکھا۔ جہاں لپ اسٹک کا نشان تھا۔

"یہ نشان۔۔۔ یقیناً آغا کے گھر سے نکلتے وقت جس لڑکی سے ٹکرایا تھا اُسی کے ہونٹوں کا نشان ہوگا۔"

کردم نے سوچتے ہوئے آئینور کی طرف دیکھا جو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"یہ نشان۔۔۔"

"مجھے نیند آرہی ہے۔" آئینور اس کی بات کاٹتی جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔

" کچھ نہ کرکے بھی اس نظروں میں غلط ثابت ہو گیا۔" کردم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔

"ہنہہ !! پہلے کونسا اس کی نظروں میں اچھا تھا۔" اپنی ہی سوچ کی نفی کرتا وہ اُٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔


۔************۔


" اسلم تو پہلے دس ہزار دے تبھی میں تیرے ساتھ اگلی بازی کھیلوں گا۔" وہ سب ٹیبل کے گرد بیٹھے شراب نوشی میں مصروف تھے۔ جب ان میں سے ایک اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

" اے اسد !! کہاں نہ دے دونگا، تو ابھی کھیل شروع کر۔" اسلم نشیلی آواز میں بولا۔

"دیکھ اگر تو ہار گیا نا اس بار تو دوگنا پیسہ دینا ہوگا۔ وہ بھی سود سمیت۔ سمجھا؟ " اسد دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔

" ہاں ہاں دے دونگا، بہت پیسہ ہے میرے پاس۔" شراب کا گلاس منہ سے لگاتے اسلم نے ایک بار پھر بازی لگائی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس بار "جان" کے علاوہ نہ تو پیسے ہیں نہ بیٹی۔


۔*************۔


آسمان پر پھیلتی سورج کی کرنیں نئے دن کو خوش آمدید کر رہی تھیں۔ جہاں اتنے دنوں سے موسم سرما کی یخ بستہ ٹھنڈی ہوائیں سب کو ٹھڑ نے پر مجبور کر رہی تھیں وہیں آج آسمان کا سینہ چیرتے ہوئے سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ تاہم کردم کے بنگلے میں موجود ایک شخص اس سب سے بےنیاز لان میں لگی گھانس پر لیٹا زور و شور سے گانا گانے میں مشغول تھا۔

"رس کے بھرے تورے نییییین۔"

رحمت جو شدومد سے گانا گانے میں مصروف تھا۔ اس کی چلتی زبان کو رحیم کے تھپڑ نے بریک لگایا۔

"ابے او !! کیا صبح صبح گلا پھاڑ پھاڑ کے نحوست پھیلا رہا ہے۔"

" تو تجھے کیا؟ ویسے بھی "بے نمازی" کے گھر اب " نمازی" آ تو گئی ہے رحمت پھیلانے۔" رحمت اسے گھورتے ہوئے بولا۔

" کیا مطلب؟ " رحیم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

" آج فجر کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو بی بی صاحبہ اس کمرے کی کھڑکی سے نماز پڑھتی نظر آئیں۔" رحمت رازداری سے بولا۔

"واقعی !! کیسی دیکھتی ہے؟ " رحیم نے اشتیاق سے پوچھا۔

"مجھے کیا پتہ، کھڑکی کے پردے پر اُس کی پرچھائی نظر آ رہی تھا۔" رحمت منہ بناتے ہوئے بولا۔

"درفٹے منہ !! بول تو یوں رہا ہے جیسے اُسے دیکھ آیا ہو۔" رحیم کا سارہ اشتیاق ٹھنڈا پڑ گیا۔

"مجھے لگتا ہے کردم دادا اُس کی آنکھوں پہ فدا ہو گیا، تبھی تو اُسے اپنے پاس رکھا ہے۔" رحمت پُر سوچ انداز میں بولا۔

" لگتا تو مجھے بھی یہی ہے کہ دادا اُس پردہ دار خاتون پر دل ہار بیٹھے ہیں، لیکن۔۔۔" رحیم بولتے بولتے خاموش ہوا۔

" کیا لیکن؟ ڈرامے نہ کر جلدی بتا۔" رحمت کو تجسس ہوا۔

"لیکن وہ لڑکی ایسی تو نہیں لگتی جو بغیر نکاح کے کسی غیر مرد کے ساتھ رہے۔" رحیم رحمت کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

" کہہ تو تو ٹھیک رہا ہے لیکن غفار منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں اور کردم دادا ایسا بندہ نہیں جو کسی سے نکاح کرے، بھلا اُسے کیا کمی ہے عورتوں کی۔" رحمت نے کہتے ہوئے آنکھ ماری۔

"ہاں یہ بات تو ہے۔" رحیم اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

"چل مجھے فاروق سے کچھ بات کرنی ہے میں چلا۔" رحمت کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور پھر سے اپنا سابقہ کام زور و شور سے شروع کرتا آگے بڑھ گیا۔

"من آنگن پہ عشق ہے طاری۔۔۔"

" گا تو ایسے رہا ہے جیسے کوئی انعام ملنے والا ہو۔" رحیم بڑبڑاتے ہوئے خود بھی اُٹھ گیا۔


۔*************۔


خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی اس نے کھڑکی کے پردوں کو ایک طرف کیا۔ پردے ہٹتے چھن سے آتی سورج کی کرنیں سیدھا کردم کے چہرے پر پڑیں۔ چہرے پر محسوس ہوتی تپش کے باعث کردم نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر سورج کی کرنوں نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

اس نے چہرہ موڑ کر بائیں جانب دیکھا جہاں آئینور کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" یہ کیا طریقہ ہے سوتے سے اُٹھانے کا؟ " کردم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔

" نوکر نہیں ہوں آپ کی۔ جو مجھے یوں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔" آئینور اسے گھورتی ہوئی بولی۔

" اب صبح صبح مت شروع ہو جاؤ دماغ کھانے۔" کردم بیزاری سے بولا، جس پر آئینور کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

"میں !! میں دماغ کھاتی ہوں؟ "

" کوئی شک ؟" کردم نے بھنویں اُچکائیں۔

" اگر اتنا ہی آپ کا دماغ کھاتی ہوں تو پھر آزاد کیوں نہیں کر دیتے مجھے؟ " وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

" اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ پہلے اپنے قیمت تو ٹھیک سے وصول کر لوں پھر آزاد بھی کر دوں گا۔" کردم بیڈ پر سے اُٹھتا ہوا بولا۔

" آپ کے لیے یہ قیمت اتنی بڑی بھی نہیں ہے۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی نوٹوں کی گڈیاں ایک ہی رات میں کوٹھے کی عورتوں پر نچھاور کی جاتی ہوں۔" اب کی بار آئینور کے لہجے میں طنز شامل تھا۔ کردم غصّے سے اس کی طرف بڑھا، بال ہاتھ سے دبوچتے وہ غرایا۔

"ہزار بار کہہ چکا ہوں اپنی حد میں رہا کرو مگر تمہیں میری بات پلے کیوں نہیں پڑتی؟ ویسے بھی یہ فیصلہ تمہارا تھا۔ میں تو تمہیں ایک رات کے بعد ہی شاید واپس بھیج دیتا مگر۔۔۔ نکاح کے ذریعے ایسی کئی راتوں کا انتخاب تمہارا تھا۔ اس لیے اب بھگتوں۔"

کردم نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ آئینور توازن برقرار نہ رکھ سکی اور سیدھا فرش پر جا گری۔ سر وہاں موجود ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا تھا جس کے باعث ماتھے سے خون بہہ نکلا مگر۔۔۔ وہاں پرواہ کسے تھی۔ کردم نے جھک کر اس کا منہ دبوچ کے اپنے سامنے کیا۔

" ایک بات ذہن نشین کر لو۔ تم اپنے باپ کی وجہ سے اور اپنی مرضی سے یہاں موجود ہو، اس لیے اب یہ زبان میرے سامنے دوبارہ نہ چلے۔" کردم ایک جھٹکے سے اس کا چہرہ اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کرتا کھڑا ہو گیا۔

" اور ہاں !! بے فکر رہو کچھ ہی دنوں میں تم اس گھر سے باہر ہوگی۔" وہ کہہ کر جانے لگا کہ آئینور کی آواز نے اس کے قدم وہیں روک دیئے۔

" آخر کس کو یقین دلا رہے ہیں آپ۔۔۔ مجھے یا خود کو؟ اگر آپ کو نکالنا ہوتا تو اب تک یہ کام سر انجام دے چکے ہوتے، بار بار یہ کہہ کر آپ صرف خود کو دلاسا دے رہے ہیں۔"

آئینور اس کے مقابل کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ ضبط کے باعث آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

کردم خاموش کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔ ماتھے سے نکلتا خون رخسار تک آگیا تھا۔ مگر چہرے پر تکلیف کے آثار تک نہ تھے۔ لیکن اس کی گہری بھوری آنکھوں میں برسوں کی تھکن تھی۔ جو کردم کو اپنی سحر میں جکڑ رہی تھی۔

جن آنکھوں میں کرب سب سے مخفی رہا کرتا تھا۔ آج وہ کردم سامنے عیاں ہو رہا تھا۔

وہ ہوش کی دنیا میں تب آیا جب آئینور اپنی بات کہہ کر باہر چلی گئی، اور کردم۔۔۔ لب بھینچ کر رہ گیا۔


۔************۔


" لڑکی یہ سب کیسے ہوا کچھ بتاؤ گی بھی؟ " سیما خالہ اس کی پٹی کرتیں فکر مند لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔

" کیا سیما خالہ بولا تو ہے گر گئی، اب ایک ہی بات کیوں بار بار پوچھ رہی ہیں۔" آئینور ان کے بار بار پوچھنے پر چڑ کر بولی۔

" ارے !! ایسے کیسے گر گئی، کیا آنکھیں بند کر کے چل رہی تھی؟ " سیما خالہ نے اسے لتاڑا۔

"افففف !! آپ کے لاڈ صاحب کا کیا دھرا ہے سب، اب خوش؟ " آئینور نے اب کی بار سچ بتانے میں عافیت جانی۔

"ضرور تم نے ہی کچھ کہا ہو گا جو اس نے تمہارا یہ حال کر دیا۔" سیما خالہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔

"میں نے !! میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ یہ آج آپ لوگوں کو ہو کیا گیا ہے؟ وہ بول رہے ہیں، میں اُن کا دماغ کھاتی ہوں اور آپ بول رہی ہیں میں نے ہی کچھ کیا ہوگا واہ۔۔۔ سب مجھ بیچاری پر ہی الزام لگا دو۔"

آئینور خفگی سے انھیں دیکھتی ہوئی بولی جو پٹی کرنے کے بعد اب اس کے ساتھ ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی تھیں۔

" تو میری بچی کیا میں نہیں جانتی، ایک زبان ہی تو ہے جو اللّٰه نے تمہیں گز بھر کی دی ہے۔"

" کیا !! آپ میرے چھوٹے قد پر چوٹ کر رہی ہیں؟ " اب کی بار آئینور کی شکل رونے والی ہوئی۔

"میں تو بس تماری زبان کی تعریف کر رہی ہوں۔"

"رہنے دیں بس۔۔۔ آپ کے لاڈ صاحب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔" آئینور منہ بنا کر بولی۔

"ویسے بولا کیا تھا جو اس نے تمہیں اس حال میں پہنچا دیا؟ " سیما خالہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھنے لگیں۔

"میں نے تو بس۔۔۔ ایک دو باتیں بولی تھیں۔" آئینور نے کہتے ہوئے نظریں چرائیں۔

" اور وہ ایک دو باتیں کیا تھیں؟ " سیما خالہ نے پھر پوچھا تو اب کی بار آئینور نے شرافت کے ساتھ اپنی اور کردم کی ساری باتیں ان کے گوش گزار کر دیں۔

"یااللّٰه لڑکی !! یہاں میں دعا کرتی ہوں کے تم کردم کے دل میں گھر بنا لو وہاں تم اُس کے گھر سے ہی بھاگنے کے منصوبے تیار کرتی رہتی ہو۔ نہ جانے کب عقل آئے گی تمہیں۔" سیما خالہ اسے دیکھتی تاسف سے نفی میں سر ہلانے لگیں۔

" اب اگر تم نے اُس سے جھگڑا کیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ سمجھی؟" اب کی بار انہوں نے غصّے سے گھورتے ہوئے اسے دھمکایا۔ جس پر آئینور بس منہ بسور کر ہی رہ گئی۔


۔************۔


وہ اس وقت اپنے اڈے پر موجود کرسی پہ بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے سوچوں میں گم تھا۔ گھر سے وہ بغیر ناشتہ کیے ہی یہاں آ گیا تھا۔ آئینور کی باتوں نے اُس کے غصّے کو اور ہوا دی تھی۔ جس کے باعث غصّہ کسی صورت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

"ہنہہ !! سمجھتی کیوں نہیں اگر اسے چھوڑنا ہی ہوتا تو ایک رات میں ہی فارغ کر دیتا مگر۔۔۔ غلطی میری ہی ہے۔ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس سے دل لگا بیٹھا۔ سوچا تھا وقتی کشش ہے۔ کچھ دن ساتھ گزارنے کے بعد سارا خمار اتر جائے گا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے خود سے دور کرنا مشکل ہو گیا ہے۔" سوچتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا شراب کا گلاس لبوں سے لگایا۔

" ایسا نہیں چل سکتا، کچھ کرنا ہی ہوگا۔ اب یا تو وہ میری زندگی میں ہمیشہ کے لیے آئے گی یا بہت دور چلے جائے گی۔"

کردم خود کلامی کرتا اُٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔ جہاں اور بھی کام اس کے منتظر تھے۔


۔***********۔


" تم سے میں نے کہا تھا کردم دادا سے اپنے تعلقات ٹھیک کرو مگر تم تو سب کو ہی اپنے خلاف کر کے بیٹھ گئے۔" پاشا ساحلی اڈے پر موجود تھا جب جمشید ایک بار پھر اس کے سر جا پہنچا۔

" تم کو میں بیوقوف نظر آتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو مجھے سب کے سامنے صرف کردم دادا سے معافی مانگنی پڑتی جو مجھے ہرگز قبول نہیں تھا۔"

" اس لیے تم نے سب کو اپنے خلاف کر لیا۔" چمشید فوراً پاشا کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

"ہاں اب میں سب سے مشترکہ معزرت کر لوں گا یوں مجھے صرف کردم کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا اور نہ ہی اُن باتوں کے لیے معافی مانگنی پڑے گی جو میں نے کردم دادا کے ساتھ کیا تھا۔" پاشا نے کہتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگا دی۔

" کیا بیوقوفی ہے !! اس سے بہتر تھا کہ تم صرف کردم سے معافی مانگ لیتے یوں سب سے معافی نہ مانگتے پھرتے۔" جمشید کا دل اس کی عقل پر ماتم کرنے کو چاہا۔

"جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اس لیے بس دیکھتے جاؤ میں کرتا کیا ہوں۔" پاشا نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر جمشید بس سر پٹ کر ہی رہ گیا۔


۔***********۔

آسمان پر چھائے کالے بادلوں میں ماہتاب کہیں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ صبح کے برعکس اب سردی شدت پکڑ چکی تھی۔ ایسے میں دوسرے کمرے میں موجود کردم شراب نوشی کے مزے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، جب آئینور نماز ادا کرنے کے لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ کردم کے ہاتھ میں شراب کا گلاس دیکھ آئینور کے قدم وہیں تھم گئے۔ وہ جو اپنی خواب گاہ میں آئینور کے آنے سے پہلے یا اس کے سونے کے بعد ہی شراب پیتا تھا۔ اب دوسرے کمرے میں، اس کے سامنے پی رہا تھا۔ وہ واپس کمرے سے نکلنے لگی کہ کردم کی آواز پر ناچار مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو شراب کا گلاس ہونٹوں سے لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

کردم کی نظر سیدھا اس کے ماتھے پر بندھی پٹی کی طرف گئی۔ کردم کو اپنے غلطی پر ندامت محسوس ہوئی۔

" مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"

"بولیں !! "

" پہلے بیٹھ جاؤ۔"

کردم کے کہنے پر نا چاہتے ہوئے بھی آئینور بیڈ پر بیٹھ گئی۔

" تم جانتی ہو نا تمہیں یہاں کیوں اور کس حیثیت سے لایا گیا تھا؟ "

" جی۔" آئینور نے آنکھیں گھوما کر کہا۔

" کس حیثیت سے؟ " وہ دلچسپی سے اسے دیکھتا پوچھنے لگا۔

" تاوان !! "

مختصر سا جواب دیا۔۔۔ مگر کردم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلا گیا۔

" اب میں اس میں کچھ ردوبدل کرنا چاہتا ہوں۔"

" کیا مطلب؟ " اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

گلاس رکھ کر کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آیا اور شانوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔

" اب میں تمہیں اپنی بیوی کی حیثیت سے یہاں رکھنا چاہتا ہوں اور ہاں انکار کی گنجائش نہیں۔" فیصلے کے ساتھ حکم بھی نازل ہوا۔

" کیوں؟ "

آئینور نے اچنبھے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کیونکہ مجھے تم چاہیئے ہو صرف تم۔ تم میری عادت بن گئی ہو یا شاید محبت، لیکن میں بس اب تمہیں اپنے پاس چاہتا ہوں۔" کردم اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

" ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں اور آپ دو الگ راستوں کے مسافر ہیں، جن کی منزل کبھی ایک نہیں ہو سکتی۔" آئینور سرد لہجے میں بولی۔ جو وہ نہیں چاہتی تھی وہ ہو گیا تھا۔

"میں یہ سب نہیں جانتا۔ اس لیے اب یہ تم پر ہے کہ اپنی مرضی سے یہاں رہو یا زبردستی مگر تمہیں اب ادھر ہی رہنا ہے ہمیشہ میرے ساتھ، میرے پاس۔" کردم نے کہتے ہوئے اسے بازوؤں میں اُٹھا لیا۔

"چھوڑو مجھے۔" آئینور نے خود کو چھڑوانے کیلئے ہاتھ پیر چلائے۔ اس کی مزاحمت کا اثر لیے بنا وہ کمرے سے نکل کر اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔

اور ادھر نیچے کھڑی سیما خالہ کا چہرہ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر کھل اُٹھا۔

"ماشاءاللّٰه !! یونہی اللّٰه دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔"

وہ دل سے دعا دیتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

اللّٰه نے دل پھیر دیا تھا۔ وہ نکاح جیسے حلال رشتے میں بندھ گیا تھا تو حرام میں اب سکون کہاں ملتا۔

"بے شک نکاح کر کے انسان اپنا آدھا ایمان شیطان سے بچا لیتا ہے۔"


۔************۔


کانوں میں پڑتی شور کی آواز نے اسے نیند سے بیدار کردیا۔ نظریں گھما کر دیکھا تو آئینور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی نظر آئی۔ اسے غصّے سے چیزوں کو پٹختا دیکھ کردم چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

" کل رات کا غصّہ ان بے جان چیزوں پر کیوں اُتار رہی ہو؟ " کردم کہتا ہوا بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

آئینور تیکھی نظروں سے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو گھورتی بغیر کوئی جواب دیئے کمرے سے باہر نکل گئی۔ کردم بھی ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے باتھ روم میں چلا گیا۔

آئینور ناشتے کی ٹرے لیے دوبارہ کمرے میں آئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ آئینور ایک نظر اس پر ڈالتی آگے بڑھ گئی۔ ناشتے کی ٹرے صوفے کے سامنے لگی ٹیبل پر رکھ کر وہ جانے لگی کہ کردم پکار بیٹھا۔

" سنو !! "

آئینور نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" ادھر آؤ۔" حکم صادر ہوا۔ آئینور بے تاثر چہرہ لیے اس کی جانب بڑھی۔

"یہ ٹائی باندھ دو۔" کردم نے کہتے ہوئے ٹائی اس کی جانب بڑھائی۔

آئینور نے حیران ہوتے ہوئے ٹائی ہاتھ میں تھام لی۔ اب کہاں وہ چار فٹ آٹھ انچ کی لڑکی اور کہاں وہ دراز قامت مرد۔

"ہنہہ !! ان کے ٹائی باندھنے کے لیے ایک عدد اسٹول کی ضرورت پڑے گی۔"

آئینور بڑبڑاتے ہوئے ٹائی کو دیکھنے۔ اس کی بڑبڑاہٹ کردم نے بخوبی سن لی تھی۔ مسکراتے ہوئے ایک ہاتھ آئینور کی کمر میں ڈال کر اسے ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھا دیا۔

" اب باندھ لو۔"

آئینور اسے گھوری سے نوازتی ٹائی باندھنے لگی۔

" کس سے سیکھا ٹائی باندھنا ؟ " کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوا۔

"ماما جب پاپا کے باندھا کرتی تھیں تو اُن کو دیکھ کے مجھے بھی آ گیا۔"

آئینور کا چہرہ بے تاثر تھا۔ مگر آنکھوں میں کرب کی داستان رقم تھی، جو کردم سے چھپی نہیں تھی۔ ٹائی باندھتے ہی وہ ٹیبل سے اُتر کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

" تمہاری ہر تکلیف کو تم سے دور کردوں گا نور۔"

کردم اس کو جاتے دیکھ بڑبڑایا۔ ہاتھ میں گھڑی باندھتا ناشتے کے لیے صوفے پر بیٹھ گیا۔


۔************۔


موبائل کان سے لگائے وہ مسلسل کسی کو کال ملانے میں مصروف تھا۔ مگر مقابل نے بھی گویا قسم کھائی ہوئی تھی فون نہ اُٹھانے کی۔

" اوے !! عادی تیری گرل فرینڈ پھر کال نہیں اُٹھا رہی کیا؟ " عمران بیڈ پر لیٹتا ہوا اسے چڑانے لگا۔

" بکواس بند کرو اپنی۔" عادی اسے گھوری سے نوازتا پھر فون کی جانب متوجہ ہوگیا۔

"رہنے دے عمران بچے کو کیوں تنگ کر رہا ہے۔ عادی تو آرام سے اپنی گرل فرینڈ کو فون ملا۔" سمیر مسکراہٹ دباتے ہوئے گویا ہوا۔

تم دونوں بکواس بند کرلو ورنہ میں ہاسٹل کے وارڈن سے کہہ کر دوسرے روم میں چلا جاؤں گا۔

وہ دانت پیستے ہوئے بولا اور بیڈ سے اُٹھ کر روم سے باہر نکل گیا۔ اور اُن دونوں کے قہقہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔


۔************۔


کردم دروازے کو دھکیلتا اندر داخل ہوا تو بیٹھک میں سب ہی نفوس اپنی جگہ براجمان تھے۔ وہ بنا کسی پر نظر ڈالے آگے بڑھتا اپنی نشست سنبھال کے بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی پاشا اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے گویا ہوا۔

"میں اپنے رویے کے لیے شرمندہ ہوں اس لیے تم سب سے معافی مانگتا ہوں، اور اُمید کرتا ہوں کہ تم سب اپنا دل بڑا کر کے مجھے معاف کر دو گے۔ آج یہ بیٹھک بھی خاص اسی لیے آغا حسن سے کہہ کر رکھوائی ہے، امید کرتا ہوں اسے میری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر سب اپنا بڑاپن دکھاتے ہوئے معاف کر دینگے۔"

پاشا کہہ کر اپنی نشست پر واپس بیٹھ گیا تو آغا حسن گلا کھنکھار کر گویا ہوا۔

" اب اگر پاشا اپنی غلطی پر شرمندہ ہے تو ہمیں بھی اسے معاف کر دینا چاہیے۔ مجھے اب اس سے کوئی گلہ نہیں، باقی آپ سب کیا کہتے ہیں، پاشا کو ایک اور موقع دینا چاہیے کیا نہیں؟ " آغا نے کہتے ہوئے سب کی طرف دیکھا۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" سب سے پہلے خاقان ابراہیم نے بولا۔

"مجھے بھی لگتا ہے ایک موقع دینا چاہیے۔" راشد ملک نے کہا جس پر جمشید نے بھی تائید کی۔

"بالکل۔"

" کردم دادا تم کیا کہتے ہو؟ " آغا حسن نے خاموش بیٹھے کردم سے پوچھا۔

" بالکل !! تم لوگوں کو معاف کر دینا چاہیے، کیونکہ وہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔

مگر !! میرا اور پاشا کا معاملہ الگ ہے اس لیے جب تک وہ مجھ سے اپنے عمل کی معافی نہیں مانگتا میرے اور پاشا کے درمیان اختلاف قائم رہے گا۔"

وہ بھی کردم تھا مقابل کو جھکانا جانتا تھا۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کی بات پر جمشید نے ایک جتاتی نظر پاشا پر ڈالی، جو صبط کیے بیٹھا تھا۔

" اب پاشا نے معافی مانگ تو لی ہے۔ بہتر ہو گا کردم دادا تم بھی اپنی ضد چھوڑ دو۔" جمشید کردم کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

" تم سے کسی نے رائے نہیں مانگی۔ بہتر ہے اپنی رائے اپنے پاس رکھو۔" کردم سخت لہجے میں بولا۔ اپنی توہین پر جمشید بس ضبط کر کے رہ گیا۔

" کردم دادا اگر چاہتا ہے کہ پاشا اس سے معافی مانگے تو مجھے لگتا ہے پاشا کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔" آغا حسن پاشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"ہاں !! یہ کوئی بڑی بات نہیں ویسے بھی اس جھگڑے سے پہلے دونوں بہت اچھے دوست تھے۔" خاقان ابراہیم نے بھی آغا کی بات سے اتفاق کیا۔

" تم کیا کہتے ہو راشد؟ " کردم راشد کی جانب رخ موڑ کر پوچھنے لگا۔

"مجھے بھی لگتا ہے پاشا کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے معافی مانگنے میں۔" راشد ملک بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ جس پر کردم نے فاتحانہ مسکراہٹ سے پاشا کی جانب دیکھا۔

پاشا نے ایک نظر سب پر ڈالی۔ سب اسی کی جانب متوجہ تھے۔ جب کوئی چارہ نظر نہ آیا تو کردم کی طرف دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ جس کی نظریں پاشا پر ہی جمی تھیں۔

"میں اپنے ہر عمل کی معافی چاہتا ہوں کردم دادا۔"

" ٹھیک ہے۔ امید کرتا ہوں آئندہ تم ایسا نہیں کرو گے۔" کردم مسکراتے چہرے سے بولا۔

پاشا اثبات میں سر ہلاتا واپس بیٹھ گیا مگر۔۔۔ دل میں پکا ارادہ باندھ چکا تھا، اپنی توہین کے بدلہ لینے کا۔


۔*************۔


"میں کہتی تھی نا۔ بیوی کی قربت بہت زورآور ہوتی ہے، جو برے سے برے مرد کو بدل نے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تمہاری محبت نے بھی کردم کو بدل کر رکھ دیا۔" سیما خالہ خوشی سے نہال ہوتے ہوئے بولیں۔

وہ اس وقت کچن میں کھڑی کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔آئینور بھی ان کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ ساتھ میں ان کی باتوں پر عجیب و غریب منہ بھی بنا رہی تھی۔

" ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر بیوی کی محبت و قربت اتنی زورآور ہوتی تو پاپا آج ایک اچھے انسان ہوتے۔" آئینور دوکھ سے بولی۔

"بچے فکر کیوں کرتی ہو۔ دیکھنا اللّٰه سب ٹھیک کر دے گا۔" سیما خالہ اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔ وہ یہی سمجھی تھیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کے سبب آئینور افسرده ہے، لیکن وہ نہیں جانتی تھیں، کیا غم وہ اپنے اندر لیے بیٹھی ہے۔

ادھر آئینور کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی۔ وہ خود پر ضبط کرتی ان سے الگ ہوئی اور بغیر کوئی جواب دیئے واپس کام میں لگ گئی۔

جس رشتے سے دور بھاگتی تھی۔ اب وہ ہی اس کا مقدر بن گیا تھا۔ پہلے ایک اُمید تھی کردم اُسے آزاد کر دے گا لیکن۔۔۔ اب تو وہ بھی ختم ہو گئی۔ تاہم اس نے صبح ہی فیصلہ کر لیا تھا، کہ جیسے بھی صحیح اسے اس رشتے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہوگا۔


۔*************۔


"دنیا چھونا چاہے مجھ کو یوں

جیسے ان کی ساری کی ساری میں

دنیا دیکھے روپ میرا

کوئی نہ جانے بیچاری میں


ہائے، ٹوٹی ساری کی ساری میں

تیرے عشق میں ہوئی آواری میں

ہائے، ٹوٹی ساری کی ساری میں

تیرے عشق میں ہوئی آواری میں۔۔۔


نائٹ کلب میں جلتی بجھتی مدہم سی روشنی میں گانے کے بول پر رقصں کرتی لڑکیاں ہر نظر کو دیوانہ بنا رہی تھیں، کچھ شراب کا اثر تھا تو کچھ سامنے رقص کرتے شباب کا۔


کوئی شام بلائے

کوئی دام لگائے

میں بھی اوپر سے ہنستی

پر اندر سے ہائے۔۔۔


کیوں درد چھپائے بیٹھی ہے

کیوں تو مجھ سے کہتی ہے

میں تو خود ہی بکھرا ہوا۔۔۔


ہائے، اندر اندر سے ٹوٹا میں

تیرے عشق میں خود ہی سے روٹھا میں

ہائے، اندر اندر سے ٹوٹا میں

تیرے عشق میں خود ہی سے روٹھا میں۔۔۔"


ان میں سے ایک لڑکی رقص کرتی صوفے پر بیٹھے کردم کے پیچھے آگئی۔ بانہیں پیچھے سے گردن میں ڈال کر چہرہ کردم کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس سب سے بے نیاز کردم وائن پیتا سامنے کھڑے ویٹر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

بغل میں بیٹھا آغا حسن مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ لڑکی کردم کو چھوڑ کر اب آغا حسن کی گود میں آ بیٹھی، چہرے پر ہاتھ پہرتی واپس اُٹھ کر اپنی ساتھیوں کے ساتھ رقص کرنے میں مشغول ہوگئی۔

" تم کیا سوچ رہے ہو؟ اب تو تمہیں خوش ہونا چاہیئے پاشا نے تم سے معافی مانگ لی۔" آغا حسن اب اس کی جانب دیکھتا گویا ہوا۔

"میں خوش ہوں آخر اسے معافی مانگنی پڑی۔ اسے لگا تھا، تم سب سے معافی مانگ کر وہ اپنی اور میری لڑائی کو دبا جائے گا۔۔۔ تو وہ شاید بھول گیا، جہاں اس کی سوچ ختم ہوتی ہے وہیں سے میری شروع ہوتی ہے۔ کسے کہاں لا کر مارنا ہے میں اچھے سے جانتا ہوں۔" کردم نے کہہ کر گلاس ہونٹوں سے لگایا۔

" اچھا اب تو اس نے معافی مانگ لی نا، اب چھوڑو اور آج رات کے اس جشن کا بھرپور انداز سے فائدہ اٹھاؤ۔" آغا حسن نے کہہ کر گلاس اس کے سامنے کیا۔

کردم نے اپنا گلاس اس کے گلاس سے ٹکرا کر واپس ہونٹوں سے لگا لیا۔ نظریں ابھی بھی سامنے کھڑے ویٹر پر جمی تھیں۔


۔*************۔


ہوٹل کے روم میں موجود وہ جہازی سائز بیڈ پر مسلسل چھت کو گھور رہا تھا، جب دروازہ کھلنے کی آواز اس کی سماعتوں میں ٹکرائی۔

اسی طرح لیٹے آنکھیں گھما کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں جمشید کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی پاشا کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔

" اور کیسا لگا تمہیں کردم سے معافی مانگ کر؟ " جمشید جلانے والی مسکراہٹ لیے اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

" تم میرا دماغ کہانے کیوں چلے آتے ہو۔" بیزاری سے کہتے وہ اُٹھ بیٹھا۔

" ہاں !! اب تو تمہیں میری موجودگی سے بیزاری ہی محسوس ہوگی۔ آخر منہ کی جو کھا کر آئے ہو۔"

"مجھے اس بارے ميں بات نہیں کرنی۔" پاشا سخت لہجے میں بولا۔

" ظاہر ہے۔ اب تم کچھ بولنے لائق جو نہیں رہے۔ سارے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، وغیرہ وغیرہ۔" جمشید کے چہرے پر ہنوز مسکراہٹ قائم تھی۔

"ہنہہ !! اس بار وہ بھلے ہی جیت گیا ہو۔ مگر اگلی بار جیت میری ہی ہونی ہے۔" پاشا ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔

"چلو اگلی بار بھی دیکھ ہی لینگے۔"

" اب اگر تمہاری بکواس پوری ہوگئی ہو تو جاؤ یہاں سے ویسے بھی میری مہمان آتی ہی ہوگی۔" پاشا گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

" اووو !! لگتا ہے بہت ہی کوئی خوبصورت رات گزرنے والی ہے۔ جبھی اتنی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہو۔" جمشید کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

" تم جا رہے ہو یا دھکے دے کر نکالوں؟ "

" بہت ہی کوئی بے مروت ہو۔ جا رہا ہوں کل ملاقات ہوگی۔ شب بخیر۔" جمشید منہ بنا کر کہتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

" تم نے اچھا نہیں کیا کردم دادا۔ اس بے عزتی کی قیمت تم بہت جلد ادا کرو گے۔" پاشا اس کی پشت کو گھورتا ہوا بڑبڑایا۔ پھر سر جھٹکتا واپس بیڈ پر لیٹ گیا۔


۔************۔


وہ بیڈ پر لیٹی نیند کی وادیوں میں گم تھی۔ کراچی میں وہ روز دس بجے ہی سو جایا کرتی تھی، پر لاہور آ کر کردم سے نکاح کے بعد اس کی زندگی بدل کر رہ گئی تھی۔ گو کردم جلدی گھر آ جاتا تھا، مگر جب کبھی اسے دیر ہو جاتی تو آئینور کو جاگ کر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ لیکن آج اس نے کردم کا انتظار کرنے جیسی غلطی نہیں کی تھی۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی سو گئی تھی۔ مگر یہ قسمت کہاں اتنی مہربان ہوتی ہے۔

ابھی وہ اور بھی نیند کے مزے لیتی کہ خواب گاہ کا دروازہ کھولتا کردم اندر داخل ہوا۔ کسی کی آمد کو محسوس کرتے ہی آئینور نے نیند سے خمار آلود آنکھیں کھول دیں۔ چہرہ موڑ کر خالی خالی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں کردم کھڑا اپنی نشیلی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

آئینور اس کو دیکھتی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ بھی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آ بیٹھا۔ کردم کے پاس سے آتی شراب کی بدبو پر آئینور نے ناگواری سے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔

" آج تم نے میرا انتظار نہیں کیا۔" کردم دو انگلیوں سے اس کا چہرہ اپنی جانب کرتا نشیلی آواز میں بولا۔

" کیوں !! تم کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ہو جو تمہارا انتظار کرتی؟ " آئینور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جل کر کہا، جس پر کردم کا قہقہہ ابل پڑا۔

"مجھے اچھا لگتا ہے جب تم یوں میرا انتظار کرتی ہو، میرا خیال کرتی ہو، ماما بھی کرتی تھیں لیکن۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔" کردم کہہ کر خاموش ہوگیا اور اپنا سر آئینور کی گود میں رکھ کر لیٹ گیا۔

آئینور نے اسے ہٹایا نہیں۔ وہ چہرے پر الجھن لیے اس کی باتوں پر غور کر رہی تھی، جب ایک بار پھر کردم گویا ہوا۔

" نور !! تم۔۔۔ مجھے چھوڑ کر مت جانا۔"

کردم نے کہہ کر اس کا بائیں ہاتھ تھاما اور اپنے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

آئینور خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔

" کہاں گئیں اس کی ماما؟ "

خود کلامی کرتے اس نے نظر اُٹھا کر گھڑی کی جانب دیکھا۔ دو بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ پھر کردم کی طرف دیکھا جو نشے کے باعث جلدی ہی سو گیا تھا۔ دھیرے سے اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروا کر، آرام سے سر کے نیچے تکیہ رکھتی، اُٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی۔

وضو بنا کر واپس آئی، ایک نظر کردم پر ڈالی جو سوتے ہوئے بھی کہیں سے معصوم نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس وقت بھی ایک مغرور دیوتا ہی ثابت ہو رہا تھا۔ نظریں اس پر سے ہٹاتی، وہ لائٹ بند کر کے خواب گاہ سے باہر نکل گئی۔

ابھی اُس کو گئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب سائڈ ٹیبل پر پڑا آئینور کا موبائل بجنے لگا۔ کردم جو نیند کی آغوش میں تھا موبائل پر آتی کال کے باعث آنکھیں کھولنے پر مجبور ہو گیا۔

"نور فون اُٹھاؤ۔" مسلسل بجتی بیل پر کردم جھنجھلا کر بولا۔ اندھیرے کے باعث کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ بس موبائل کی روشنی تھی، جو خواب گاہ میں اجالا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ جب کافی دیر آئینور کا کوئی جواب نہ ملا تو کردم نے ہاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل پر پڑا فون اُٹھایا۔

نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں سے موبائل کی اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھا تو ساری نیند بھک سے اڑھ گئی۔ اس نے فون کان سے لگا کر مقابل کی آواز سنی چاہی۔

" ہیلو !! "

دوسری طرف سے آتی مردانہ آواز نے کردم کا دماغ ہی گھما دیا۔

" کون؟ "

کردم غصّہ ضبط کرتا اپنی بھاری آواز میں پوچھنے لگا۔ لیکن مقابل نے بھی جواب دینے کے بجائے کال ہی کاٹ دی۔ کردم نے اب کی بار خود اس نمبر پر کال کی۔ بیل جا رہی تھی۔ مگر مقابل نے فون اُٹھانا ضروری نہ سمجھا۔ اس کا سارا نشہ ہوا ہوگیا تھا۔ وہ غصّے سے موبائل کو گھور رہا تھا کہ اسی وقت خواب گاہ کا دروازہ کھلا۔

موبائل کی مدھم روشنی میں کردم کو جاگتا دیکھ، آئینور نے آگے بڑھ کر کمرے کی لائٹ جلا دی۔ مڑ کر کردم کی طرف دیکھا جو لال انگارا ہوتی آنکھوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

" کہاں تھی تم؟ " کردم نے سخت لہجے میں پوچھا۔

"وہ میں تہجد پڑھ ۔۔۔" آئینور کے بات پوری کرنے سے پہلے ہی وہ اس کی بات کاٹ گیا۔

" یہ عادی کون ہے؟ " وہ جو حیران ہوتی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے سوال پر یکدم ہی چہرے کے تاثر بدل گئے۔

اس کو خاموش کھڑا دیکھ کردم اٹھ کر اس کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔

" کچھ پوچھا ہے میں نے۔" کردم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

"میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔"

آئینور بے تاثر چہرے سے کہتی سائڈ سے نکلنے لگی کہ کردم نے بازو سے دبوچ کر اپنے سامنے کیا۔

"جو پوچھا ہے بس اس کا جواب دو۔"

"میری ذات کا معاملہ میرے اور میرے اللّٰه کے درمیان ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں یہ پوچھنے والے؟ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔

"میں کون ہوں؟ ابھی بتاتا ہوں۔"

کردم اس کا بازو تھامے خواب گاہ سے باہر لے آیا، اور گھسیٹنے کے سے انداز میں اسے لیے تیزی سے سڑھیاں اُترنے لگا۔

"چھو۔۔۔ چھوڑو۔۔۔ چھوڑو مجھے۔"

آئینور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی ساتھ میں چلا بھی رہی تھی۔ کردم اس کی چیخ و پکار کا اثر لیے بنا آگے بڑھتا رہا۔

سیما خالہ جو اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ شور کی آواز سنتے ہی کمرے سے باہر نکل آئیں۔ سامنے دیکھا تو کردم آئینور کو کھینچتا ہوا سٹور روم کی طرف لے جا رہا تھا۔

"بیٹا !! بیٹا چھوڑ دو اسے کیا کر رہے ہو، اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں سمجھا دوں گی۔ بچی ہے کر دی ہوگی کوئی نادانی۔" سیما خالہ ان کے پیچھے چلتی بے بسی سے بولیں۔

آئینور بھی خود کو چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ مگر کردم کسی کی بھی سنے بغیر سٹور روم کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ایک ہاتھ سے کنڈی کھول کر دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر گھوپ اندھیرے کا راج تھا۔

کردم نے مڑ کر آئینور کو دیکھا جو خود کو چھڑانے کی نام کوشش میں آدھی ہوگئی تھی۔ بازو سے اسے کھینچ کر سٹور کے اندر دھکیل دیا۔ وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی سیدھا فرش پر جا گری تھی۔

" اب تمہیں معلوم ہوگا کہ کون ہوں میں۔" کردم نے شعلہ بار آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔ باہر سے کنڈی لگا کر وہ سیما خالہ کی طرف مڑا۔

" اب یہ صبح سے پہلے یہاں سے باہر نہ نکلے۔" اتنا کہہ واپس اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔

سیما خالہ بے بسی سے بند دروازے کو دیکھ رہی تھیں، جہاں وہ دروازہ پیٹنے میں لگی تھی۔

سیما خالہ آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتیں وہاں سے چلی گئیں۔ وہ چاہ کر بھی اس کی مدد نہیں کر سکتی تھیں۔

ادھر آئینور جب دروازہ پیٹتے پیٹتے تھک گئی تو وہیں دیوار سے لگ کر بے آواز آنسو بہانے لگی۔ اسے اندھیرے سے نہیں اپنی قسمت پر رونا آ رہا تھا۔ اس سٹور کی طرح وہ اپنی زندگی میں بھی تنہا رہ گئی تھی۔


۔*************۔


"مجھے دھوکہ دینے چلی تھی سالی۔" کمرے میں آتے ہی کردم نے غصّے سے ٹیبل کو ٹھوکر ماری۔ غصّے کے مارے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔

"شکل سے کتنی شریف لگتی ہے لیکن۔۔۔ وہ بھی باقی عورتوں کی طرح ہی نکلی۔ اچھا ہوا وقت رہتے اس کا اصلی چہرہ میرے سامنے آ گیا۔" صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ سلگائی۔ اندر کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

"مجھے دھوکہ دینے چلی تھی مجھے۔۔ کردم دادا کے نام سے ابھی پوری طرح آشنا نہیں ہوئی۔ مجھے دھوکہ دینے والے کا میں وہ حال کرتا ہوں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ مجھ سے بے وفائی کی ایسی سزا دونگا کہ ساری زندگی یاد رکھے گی۔"

رقیب کا سوچتے ہی اس کی کنپٹی سلگنے لگی تھی۔ ابھی ابھی تو وہ محبت جیسے جذبے سے آشنا ہوا تھا کجا کہ یہ بے وفائی۔

" تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا نور۔ اس کی سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔ وہاں لے جاکے ماروں گا کہ ساری زندگی محبت کو، اپنوں کو ترسوں گی۔" کردم سگریٹ کا دھواں اڑاتا تصورات میں آئینور سے مخاطب تھا۔

پوری رات اس کی اب یونہی گزر جانی تھی۔ کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر جس کی تکلیف محسوس کرتا وہ اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی تپش سے آئینور کو بھی جھلسا رہا تھا۔


۔*************۔


"دیکھ سب ٹھیک سے ہونا چاہیے۔ وہ بس آنے والا ہوگا۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی نا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔"

" تم بس بے فکر رہو اسد میاں !! کام ہو جائے گا۔ اور کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔" جوئے کے اڈے میں موجود ملازم شراب کی بوتل اور گلاس اسد کے سامنے رکھ کر کمینگی سے مسکراتے ہوئے بول رہا تھا۔ کہ عین اسی سمے سامنے سے آتے اسلم پر نظر پڑی تو ٹرے ہاتھ میں اُٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔

اسلم نے دور سے ہی ایک ٹیبل پر اسد کو بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے قدم بڑھاتا اسی سمت چلا آیا۔ اس کو دیکھتے ہی اسد مسکرانے لگا۔

" آؤ آؤ !! یقیناً آج میرا پیسہ مجھے سود سمیت لوٹا دو گے۔"

" ہاں ہاں !! دے دونگا پر اس سے پہلے ایک ایک بازی ہو جائے۔" اسد کی بات پر پہلے تو اسلم بھوکلا گیا پھر خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوا۔

" ہاں کیوں نہیں !! شروع کرو۔" اسد نے کہتے ہوئے اپنے دائیں سمت دیکھا جہاں سے وہی ملازم مسکراتا ہوا ہاتھ میں ٹرے اُٹھائے ان ہی کی طرف آ رہا تھا۔

" یہ لو اسلم میاں !! آج تمہارے لیے خاص انگریزی شراب لایا ہوں۔" ملازم اس کے پاس آ کر مسکراتے ہوئے بولا۔

" ارے واہ !! دل خوش کر دیا آج تو نے۔" اسلم نے کہہ کر گلاس اُٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔

اسد نے فاتحانہ مسکراہٹ سے ملازم کی طرف دیکھا۔ جو مسکرا کر سر کو اثبات میں جنبش دیتا وہاں سے واپس چلا گیا۔


۔**************۔


جہاں صبح کے اجالے چاروں طرف پہل چکے تھے۔ وہیں سٹور روم میں ابھی بھی اندھیرے کا راج تھا۔ باہر سے آتی چہل پہل کی آواز وہ بخوبی سن سکتی تھی۔

رات اس کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ ابھی بھی دیوار سے ٹیک لگائے وہ سوچوں میں گم تھی کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر متوجہ ہوتے دروازے کی طرف دیکھا۔

سیما خالہ دروازے کھولے چوکھٹ پہ کھڑی تھیں۔ بےبسی سے اسے دیکھتی آگے آئیں اور اس کے پاس ہی دو زانو ہو کر بیٹھ گئیں۔

آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے، وہ جو اس سے رات کے بارے ميں پوچھنا چاہ رہی تھیں، اس کی حالت دیکھ کر زہن میں اُٹھتے سارے سوالوں کو دبا کر بس اتنا ہی بولیں۔

"چلو اُٹھو باہر چل کر ناشتہ کر لو، چلو شاباش۔"

سیما خالہ کے کہنے پر بھی اس کے وجود میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ بس خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھتی رہی۔

" تمہیں اپنے گھر جانا تھا نا۔ کردم نے کہا ہے تم آج اپنے گھر چلی جاؤ۔"

اب کی بار آئینور نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ اگلے ہی لمہے یہ حیرت خوشی میں بدل گئی۔

" سچ !! آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ اس نے واقعی ایسا کہا ہے؟ کیا۔۔۔ کیا اس نے مجھے آزاد کردیا؟ "

آئینور نے خوش ہوتے ہوئے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔

سیما خالہ کو سمجھ نہ آیا کیا جواب دیں۔ اس لیے بس اثبات میں گردن ہلا دی۔

"دیکھا میں نے کہا تھا نا۔ ایک دن میری دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔ بالآخر آج میری جان چھوٹ گئی۔"

آئینور خوشی سے کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اور قدم سٹور روم سے باہر کی جانب بڑھا دیے۔

سیما خالہ بھی اس کے پیچھے ہی چل رہی تھیں۔ اس کے چہرے سے جھلکتی خوشی کو دیکھ کر، اس کے لیے زندگی بھر کی خوشیوں کے لیے دعائیں کرنے لگی۔

" ناشتہ کر لو پھر رحیم کے ساتھ اپنے گھر چلی جانا۔" سیما خالہ اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر بولیں۔

" نہیں آج تو میں ماما کے ہاتھوں کا بنایا ناشتہ کروں گی۔ مہینہ ہونے کو آیا۔ اُن کے ہاتھوں کا ناشتہ کئے بغیر۔"

وہ اپنی ہی دھن میں بولی جا رہی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ کسی اور کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی ہے۔

" آج میرے ہاتھ کا کر لو پھر کل سے اپنی ماما کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کر لینا۔ میری پیاری بیٹی نہیں ہو؟ "

ان کی بات پر آئینور کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔ مڑ کر سیما خالہ کے پاس آئی اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر محبت بھرے لہجے میں بولی۔

"چلیں ٹھیک ہے۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ آج آخری بار آپ کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کرنا چاہیے۔ آپ ناشتہ تیار کریں میں بس ابھی فریش ہو کر آئی۔"

ان کے گال پر بوسہ دیتی وہ مسکراتے ہوئے اوپر کمرے میں چلی گئی۔ سیما خالہ افسوس سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔

وہ خوش تھی کہ آج وہ واپس جا رہی ہے۔ مگر۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی، کیا قیامت کی گھڑی وہاں اس کا انتظار کر رہی ہے۔


۔*************۔

گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وہ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی، دور سے ہی نقاب سے جھانکتی آنکھوں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے باہر لشکر جما تھا۔

" یہاں کیا ہو رہا ہے؟ "

اس نے خوفزدہ نظروں سے گھر کے باہر کھڑے لوگوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ایسا ہی منظر کراچی سے لاہور آنے کے بعد اس نے دیکھا تھا۔ اور تب اس نے اپنی شناخت کھو دی تھی۔ پر آج کھونے کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اب وہ اپنے باپ کا قرض نہیں اُتار سکتی تھی۔ اب وہ خود کو بیچ نہیں سکتی تھی۔

" ادھر ہی روک دو۔"

" جی بیگم صاحبہ۔" رحیم کے "بیگم صاحبہ" کہنے پر چونک کر اس کی طرف دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔

گھر سے کچھ قدم کے فاصلے پر گاڈی رکوا کر وہ باہر نکل آئی۔ ایک ایک قدم اُٹھاتی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی، لوگوں کی آوازیں بھی صاف اس کے کانوں میں پہنچ رہی تھیں۔

" لگتا ہے کسی نے دشمنی میں زہر دیا ہے۔"

وہاں کھڑی ایک عورت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

"ارے بس بہن ایسے لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ کہتے ہیں نہ اللّٰه کی لاٹھی بے آواز ہے۔"

"صحیح کہہ رہے ہیں بھائی آپ۔ گناہ گاروں کا انجام آخر کو یہ ہی ہوتا ہے۔"

آئینور کے لیے مزید سنا دشوار ہو گیا۔ اسے لوگوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کسی انہونی کے گزر جانے کا خوف۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی لوگوں کی بھیڑ کو چیرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ لوگوں کے آنے جانے کے باعث دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر سے آتی رونے کی آواز سے یوں لگ رہا تھا کہ ابھی دل بند ہو جائے گا۔ جیسے ہی اس نے قدم بڑھا کر چوکھٹ کو پار کرنا چاہا سامنے پڑی باپ کی لاش کو دیکھ کر وہیں ساکت رہ گئی۔ لاش کے برابر میں بیٹھی رخسار بیگم بین کرتی آنسو بہا رہی تھیں۔

"پپ۔۔۔ پاپا۔" وہ چیختے ہوئے اپنے باپ کی طرف بھاگی جو اب بے جان پڑا اپنی آخری آرام گاہ میں اُترنے کو تھا۔


۔************۔


"بیٹا مجھے لگتا ہے۔ تمہیں بھی اس کے پاس جا کر مل آنا چاہیے۔ آخر کو اُس کا باپ مرا ہے۔" کردم جو سیڑھیاں چڑھتا اُوپر جارہا تھا۔ سیما خالہ کی بات پر وہیں رک گیا۔

"جس عورت نے میری پرواہ نہیں کی، میں اُس کے مرے ہوئے باپ کی فکر کروں؟ " وہ مڑے بغیر ہی بولا۔

"دیکھو بیٹا میں نہیں جانتی کہ بات کیا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ بچی غصّے کی تیز ضرور ہے، بولتے ہوئے بھی یہ نہیں دیکھتی سامنے والے کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ مگر وہ دل کی بُری نہیں ہے۔ اور جس طرح اُس کے گھر والوں نے اُس کی پرورش کی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ لڑکی کوئی غلط کام نہیں کرسکتی۔" سیما خالہ جھجھکتے ہوئے بولیں۔

ان کی بات پر آئینور کا سراپا اس کے سامنے لہرایا۔ ایک دم دل نے سیما خالہ کی بات پر اتفاق کیا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ بنا کچھ کہے سر جھٹکتا اپنی خواب گاہ کی جانب بڑھ گیا۔

سیما خالہ بھی اس کو جاتے دیکھ واپس کچن میں چلی گئیں۔


۔************۔


" کیا واقعی کوئی غلط فہمی ہے۔ کیا ایسا نہیں جیسا نظر آ رہا تھا۔ پر اس نے بھی تو کوئی جواب نہیں دیا تھا میرے پوچھنے پر۔" وہ کھڑکی سے باہر جگمگاتی عمارتوں پر نظریں جمائے کھڑا آئینور کو سوچ رہا تھا۔

آج صبح ہی رخسار بیگم کی کال آئینور کے موبائل پر موصول ہوئی تھی۔ انہوں نے ہی کردم کو اسلم کی وفات سے آگاہ کیا تھا۔ مگر موت کی وجہ نہیں بتائی تھی۔

سب جانے کے بعد اسے پہلی فکر آئینور کی ہوئی تھی۔ جس نے اپنے باپ کی جان بچانے کے لیے اپنی پرواہ تک نہ کی تھی۔

" کاش وہ سب غلط فہمی ہی ہو نور۔ ورنہ شاید اب میں یہ سب برداشت نہ کر پاؤ۔ کیونکہ تمہیں کھونے کی ہمت میں اپنے اندر مفقود پاتا ہوں۔"


۔************۔


گاڑی کو تھوڑا فاصلے پر روک کر، وہ سامنے بنے اس درمیانی طبقے کے گھر کو دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ تبھی دو عورتیں اسے گھر سے باہر نکلتی نظر آئیں۔ وہ سر گاڑی کی سیٹ سے ٹکائے ان کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ عورتیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، وہ گاڑی سے نکلتا سیدھا گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔ وہ ہاتھ سے دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ گھر میں خاموشی کا راج تھا۔ آگے بڑھتا دائیں جانب بنے کمرے کے پاس سے گزر ہی رہا تھا کہ اسے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ بنا کسی آہٹ کے دروازہ کھول کر دیکھا تو آئینور گھٹنوں پہ سر ٹکائے دبی دبی آواز میں رو رہی تھی۔

کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے کردم تھا۔

آئینور کا آنسوں سے تر چہرہ دیکھتے ہی وہ جو بے اختیار ہو کر اس کی طرف قدم بڑھ رہا تھا۔ اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کے تاثرات دیکھ کر قدم خود بخود وہیں رک گئے۔

" کیا یہ مجھے اپنے باپ کی موت کا زمہ دار سمجھ رہی ہے؟ "

رحیم کے زریعے اسے معلوم ہو گیا تھا، اسلم کو کسی نے زہر دیا ہے۔ مگر اُس کی موت کا زمہ دار اسے ہی سمجھا جا سکتا ہے، یہ اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔

"نور میں۔۔۔"

ابھی وہ آگے بول ہی رہا تھا کہ عقب سے آتی آواز پر رک گیا۔ کوئی پیچھے کھڑا اس سے سوال کر رہا تھا۔

" کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ "

مردانہ آواز پر کردم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رخسار بیگم کے ساتھ ایک نوعمر لڑکے کو کھڑا دیکھ کر چونکا۔ وہ چہرے سے ہی پندرہ سولہ سال کا لگ رہا تھا۔ لیکن سنے والا اس کی آواز سن کر اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا ہے۔ اس کی بھاری آواز سے کسی بھرپور مرد کا ہی گمان ہوتا تھا۔

" تم۔۔۔" رخسار بیگم کو اسے یہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔

" آپ اس آدمی کو جانتی ہیں؟ "

" آں !! ہاں عادی وہ۔۔۔" رخسار بیگم کو سمجھ نہ آیا اسے کیا جواب دیں۔

ادھر کردم ان کے عادی کہنے پر چونک اُٹھا تھا۔ اس لڑکے کو غور سے دیکھتے یکدم اسے پچھتاوے نے آن گہرہ تھا۔ آئینور کے ساتھ اپنا کل رات کا رویہ یاد کر کے اسے ندامت محسوس ہوئی۔

" تو اس کا فون آ رہا تھا کل رات۔۔۔ لیکن یہ ہے کون؟ "

" تم کون ہو؟ " سوچنے کے ساتھ ہی کردم نے سوال داغا۔

" یہ سوال میرا ہے۔۔۔ تم کون ہو؟ "

" آاااہ !! بیٹا یہ عدیل ہے۔ نور کا بھائی۔۔۔ اور عادی یہ کردم دا۔۔۔ میرا مطلب یہ کردم ہے۔ نور کا شوہر۔"

بات بگڑتی دیکھ رخسار بیگم نے فوراً تعارف کرایا۔

کردم جہاں حیران سا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہیں عدیل شاکڈ سا کبھی اسے تو کبھی آئینور کو دیکھ رہا تھا۔

" آپی کیا یہ سچ ہے؟ "

اس نے آئینور کو مخاطب کیا جو ان سب سے بے نیاز بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ وہ بغیر کوئی جواب دیئے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

" آپی۔۔۔ آپی۔۔۔"

عدیل فوراً اس کے پیچھے لپکا۔

" بیٹا تم کھڑے کیوں ہو۔۔۔ آؤ بیٹھو۔"

ان دونوں کے جاتے ہی رخسار بیگم کردم سے مخاطب ہوئیں۔

"نہیں میں بیٹھنے نہیں آیا۔۔۔ اسلم کی موت کا پتا چلا، سن کر افسوس ہوا۔"

اس کی بات پر رخسار بیگم حیران ہوتی اسے دیکھنے لگیں۔ جو پیسوں کی خاطر اُس کی جان لینے جا رہا تھا۔ آج کھڑا اُس کی موت پر اظہارِ افسوس کر رہا تھا۔

ان کے اس طرح دیکھنے پر کردم کو اپنا آپ احمقانہ لگا۔

" بس بیٹا جیسی اللّٰه کی مرضی۔"

رخسار بیگم اپنی حیرت پر قابو پاتی فوراََ بولیں۔

" کچھ معلوم ہوا آپ کو۔۔۔ کس نے زہر دیا؟ "

" نہیں !! اب اس سے فرق بھی نہیں پڑتا۔ جانے والے کونسا واپس لوٹ آئینگے۔"

" آپ چاہیں تو میں معلوم کروا سکتا ہوں۔ پھر آپ جو چاہیں اسلم کے قاتلوں کو سزا دیں۔"

کردم کی بات پر رخسار بیگم مسکرا دیں۔

" نہیں بیٹا !! ہم انسان کون ہوتے ہیں کسی کو سزا دینے والے۔ یہ اختیار تو صرف اللّٰه کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بہتر سزا تجویز کرے گا، اسلم کے قاتلوں کی۔"

رخسار بیگم کی بات پر وہ خاموش ہوگیا۔

" تم نور کو لینے آئے ہو؟ "

اس کو خاموش کھڑا دیکھ رخسار بیگم نے پوچھا۔

" وہ میں۔۔۔"

کمرے سے آتی چیخوں کی آواز پر کردم یکدم بولتے بولتے رکا۔ آواز آئینور کی تھی۔

"نکلو۔۔۔ اکیلا چھوڑ دو مجھے۔"

اس کی چیخ و پکار سن کر دونوں جلدی سے دوسرے کمرے کی طرف بڑھے۔

" نور کیا کر رہی ہو۔۔۔ سنبھالو خود کو۔"

اندر آتے ہی رخسار بیگم نے آئینور کو پکڑا، جو عدیل کو دھکے دیتے ہوئے کمرے سے نکال رہی تھی۔

" آپی یہ کیا کر رہی ہیں؟ میں بھائی ہوں آپ کا۔" عدیل بےبسی سے بولا۔

" اس بھائی لفظ کے ساتھ سوتیلا اور ناجائز جیسے الفاظ لگانا مت بھولا کرو۔"

آئینور کی بات پر وہاں موجود سارے نفوس ششدر رہ گئے۔

عدیل آنکھ میں آنسو لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اتنی تکلیف آئینور کے لفظوں نے نہیں دی تھی۔ جتنی تکلیف ایک باہر سے آئے شخص کے سامنے اپنی زات کی تذلیل پر ہوئی تھی۔

رخسار بیگم تاسف سے اسے دیکھتی عدیل کے پیچھے چلی گئیں۔

کردم ساکت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ آیا کہ واپس چلے جائے یا یہاں رک کر آئینور کو چپ کرئے۔ جو اب زمین پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔


۔************۔


" تم یہاں چھت پر منہ لٹکائے بیٹھے ہو اور میں تمہیں نیچے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔"

رخسار بیگم کہتے ہوئے اس کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔ عدیل نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے۔

" عادی !! تم جانتے ہو نا۔ وہ غصّے کی تیز ہے۔ غصّے میں یہ نہیں دیکھتی کے کیا بول گئی ہے۔"

" مجھے معلوم ہے۔ آپی کی بات کا بُرا نہیں لگا۔" رخسار بیگم کی بات پر عدیل فوراً بولا۔

" تو منہ لٹکائے کیوں بیٹھے ہو۔"

" آپی نے اُس آدمی سے شادی کرلی اور آپ لوگوں نے مجھے بتایا تک نہیں۔" عدیل خفگی سے بولا۔

" تمہیں بتا کر کیا ہو جانا تھا۔۔۔؟ ویسے بھی نور نے اسلم کی جان کی خاطر اس شخص سے شادی کی تھی۔"

" معلوم ہو گیا مجھے آپی سے۔"

" تو پھر پریشانی کیا ہے؟ "

رخسار بیگم کو اس کے غصّے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔

" ہر بار آپی ہی کیوں تکلیف اُٹھائیں۔ اس سے تو اچھا تھا۔ وہ پاپا کو ہی مر جانے دیتں۔ کم از کم کچھ تو برائی اس دنیا سے ختم ہوتی۔"

"عادی شرم کرو۔ بولنے سے پہلے سوچ لو۔ اپنے مرے ہوئے باپ کے بارے میں بات کر رہے ہو۔" اس کی بات رخسار بیگم کو غصّہ ہی چڑھ گیا۔

آپ مجھے خاموش نہیں کرا سکتیں۔"

وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ ان کے غصّے کو خاطر میں لائے بغیر بولا۔

"تم دونوں بھائی بہن کا کوئی علاج نہیں۔" رخسار بیگم کہتی واپس نیچے چلی گئیں۔ جانتی تھیں دونوں کو سمجھانا دیوار میں سر مارنے کے مترادف ہے۔


۔************۔


وہ صوفے پر بیٹھا دھیرے دھیرے شراب کے گھونٹ بھر رہا تھا۔ اسلم کے گھر سے وہ کچھ ہی دیر پہلے واپس آیا تھا۔ اپنا وہاں جانے کا فیصلہ ہی احمقانہ ثابت ہوا تھا۔ ابھی بھی وہ بیٹھا اُنہی کے بارے ميں سوچ رہا تھا۔

"عجیب خاندان ہے۔ پہلے وہ اسلم جس کو دیکھ کر لگتا تھا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ مگر پھر اس کی بیوی اور بیٹی منظر پر آئیں، اور اب ایک ناجائز بیٹا بھی نکل آیا۔ نہ جانے اور کون کون سے رشتے دار اس کے چھپے بیٹھے ہیں، جو ایک ایک کر کے باہر آئینگے۔"

کردم سوچتا ہوا اُٹھ کر کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ گلاس ابھی بھی اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔

"نور کا بھائی وہ بھی سوتیلا۔۔۔ پتا نہیں اس لڑکی سے جڑے اور کونسے راز سامنے آنا باقی ہیں۔ اس کی زات ایک پہیلی سی ہے۔ جس کو ہل کرنا انتہائی مشکل لگتا ہے۔"

کردم بڑبڑاتے ہوئے شراب کے گھونٹ لیتا افق پر نظر آتے ماہتاب کو دیکھنے لگا۔ جس کے نور میں وہ آئینور کو تلاش کر رہا تھا۔


۔************۔

اسلم کے انتقال کو تین دن گزر چکے تھے۔ آئینور اب بھی ادھر ہی تھی۔ اُس دن کے بعد سے کردم دوبارہ نہیں آیا تھا۔ مگر آج اس نے سیما خالہ کے زریعے آئینور تک پیغام پہنچا دیا تھا کہ رحیم آج اسے لینے آرہا ہے۔ اُس کے ساتھ اب واپس آجائے۔ مگر عدیل کو جیسے ہی بات کا علم ہوا، وہ اس کے سر پر جا پہنچا۔ اور اب بھی وہ آئینور کے کمرے میں موجود مسلسل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

" آپی سمجھتی کیوں نہیں ہیں؟ اب آپ اس شخص کے پاس واپس نہیں جائینگی۔"

" میں نے تم سے تب بھی کہا تھا عادی اب بھی کہہ رہی ہوں۔ میرے معاملے میں دخل اندازی مت کرو۔ مجھے اتنا غصّہ نہ دلاؤ کہ۔۔۔"

" کہ آپ پھر سے مجھے ناجائز اور سوتیلا بھائی بول دیں۔ یہ ہی کہنا چاہتی ہیں نا آپ۔۔۔؟"

عدیل فوراً اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ وہ بیڈ پر بیٹھی بس اسے گھور کر رہے گئی۔

" دیکھو عادی وہ جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، اب میرا شوہر ہے۔ مجھے اب اُس کے ساتھ ہی رہنا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں؟ "

عدیل خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے پوچھا۔

" آپ اس کو پسند کرنے لگی ہیں؟ "

اب کی بار خاموش رہنے کی باری آئینور کی تھی۔ کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھتے، وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔

" ہاں !! کونسی ایسی بیوی ہوگی جو اپنے شوہر کو پسند نہیں کرے گی؟ "

" لیکن میں صرف آپ کی بات کر رہا ہوں۔ کسی دوسرے کی نہیں؟ "

" تم۔۔۔ تم میرے معاملات میں مت پڑو۔" وہ جھنجھلا اُٹھی۔

" آپی آپ سمجھتی کیوں نہیں؟ میں اب آپ کو کھو نہیں سکتا۔ اگر اُس آدمی نے آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو؟ میں کیا کروں گا۔" اس کے لہجے میں کچھ بے بس سا تھا۔

" تم فکر نہیں کرو۔ وہ جلد ہی مجھے اس رشتے سے آزاد کر دے گا پھر میں واپس تم لوگوں کے پاس آ جاؤ گی۔"

یہ کہتے ہوئے اسے اب خود بھی یقین نہیں تھا " کہ واقعی۔۔۔ کیا وہ واپس آ جائے گی؟ " وہ بس سوچ کے رہ گئی۔

اور نرم مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے عدیل کو دیکھا جو آنکھوں میں اُمید لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" تم جا کر اپنی پڑھائی کرو۔ میں زرا ماما سے بھی مل لوں۔" وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ عدیل بے بسی سے بڑبڑاتے ہوئے وہیں بیڈ پر لیٹ گیا۔


۔***********۔


رخسار بیگم ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں۔ جب وہ خاموشی سے کمرے میں آ بیٹھی اور ان کی نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ رخسار بیگم نے سلام پھیرا اور چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو بیڈ پر بیٹھی یک ٹک انھیں ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ دعا مانگ کے جائےنماز کو اُٹھا کر رکھتیں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

" کیا ہوا؟ "

" کچھ نہیں۔" اس نے نفی میں سر ہلایا۔

" پھر !! "

" میں چاہتی ہوں اب آپ عدیل کے ساتھ کراچی واپس چلے جائیں۔ اب یہاں کچھ نہیں رکھا۔"

وہ دکھ سے بولی۔ اور بار بار پلکیں جھپکاتی آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوں کو پیچھے دھکیلنے لگی۔ رخسار بیگم کا غم بھی کم نہیں تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

" اور تم؟ "

" میں بھی آجاؤ گی بعد میں۔"

" کیا وہ تمہیں اب واپس آنے دے گا؟ " ان کے سوال پر اس نے نظریں چرائیں۔

" پتا ہے نور !! جب میں نے پہلی دفعہ اُسے دیکھا تھا تو اُس کی آنکھوں میں تمہیں حاصل کر لینے کی چاہ تھی۔ مگر اب۔۔۔ اب اُن آنکھوں میں تمہارے لیے کچھ اور جزبات دیکھے ہیں میں نے۔۔۔"

" ایسا کچھ نہیں ہے۔" وہ فوراً ان کی بات کاٹ گئی۔

" تم نہ مانو نور مگر ایسا ہی ہے۔ وہ اب تمہیں خود سے الگ نہیں کرے گا۔" وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولیں۔ جیسے کچھ ڈھونڈنا چاہ رہی ہوں۔

" میں یہاں یہ باتیں کرنے نہیں آئی۔" وہ زچ ہوئی۔ رخسار بیگم خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں کہ تبھی باہر سے گاڑی کے ہارن بجانے کی آواز آئی۔

" لگتا ہے آگئے۔ میں چلتی ہوں۔ " آئینور کے کہنے پر رخسار بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ ان سے مل کر گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔


۔************۔


" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ "

کردم آج گھر پر ہی موجود تھا۔ جب غفار نے آکر اسے پاشا کے آنے کی اطلاع دی۔

" کچھ ضروری بات کرنی تھی، کردم دادا۔"

پاشا اس کے مقابل آکر بولا۔ کردم نے ایک نظر غور سے اس کو دیکھا پھر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔ خود بھی اس کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہو گیا۔

" کہو کیا کہنے آئے ہو؟ "

" میں یہاں تم کو خبر دار کرنے آیا ہوں۔" اس کی بات پر کردم نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔

" جانتے بھی ہو کس سے کیا بات کہہ رہے ہو؟ "

" بہت اچھے سے جانتا ہوں۔ میں اس وقت کردم دادا سے مخاطب ہوں۔" پاشا اطمینان سے بولا۔ اور جیب سے موبائل نکال کر اس کے سامنے کیا۔

" کیا۔۔۔؟ "

"اس میں جمشید کی ویڈیو ہے۔ ہمارے جھگڑے کے بعد وہ میرے پاس آیا تھا۔ تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر تمہیں نقصان پہنچا سکے۔"

پاشا نے کہہ کر وہ ویڈیو چلا دی۔ جمشید اور پاشا کی گفتگو، جس میں بہت صفائی سے ردوبدل کر کے جمشید کے خلاف کر دیا تھا۔ ویڈیو کے ختم ہونے تک کردم خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ ویڈیو ختم ہوئی تو اس نے نظر اُٹھا کر پاشا کی طرف دیکھا۔

" مجھے یہ سب بتانے کا مطلب؟ تمہیں اس سب سے کیا فائدہ حاصل ہونے والا ہے؟ "

" مجھے کیا فائدہ حاصل ہونا ہے؟ میں نے جو غلطی کی تھی بس اُس کو سدھارنے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔ آخر کو ہم ان اختلافات سے پہلے بہت اچھے دوست تھے۔"

پاشا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ کردم جانچتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اسی سمے اس کا فون بج اُٹھا۔

"میں ابھی آیا۔"

موبائل ہاتھ میں لیے وہ ایک سائڈ پر ہوگیا۔ پاشا نظر دوڑاتا گھر کا جائزہ لینے لگا کہ تبھی اس کی نظریں دروازے پر ٹھر گئیں۔

آئینور برقعہ ہاتھوں سے اُٹھائے ارد گرد سے بے نیاز دروازے سے داخل ہوتی سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں چلی گئی۔ یہ جانے بغیر دو آنکھیں حیرت اور دلچسپی سے اسے ہی دیکھ رہی ہیں۔

پاشا نے بند دروازے سے نظر ہٹا کے کردم کی طرف دیکھا جو ابھی بھی فون میں مصروف اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔ واپس نظروں کا رخ بند دروازے کی جانب موڑا جہاں ابھی ابھی آئینور گئی تھی۔

" یہ کون ہے؟ اور کردم دادا جیسے بندے کے یہاں اس کا کیا کام؟ " وہ پُر سوچ نظروں سے دروازے کو دیکھ رہا تھا کہ کردم کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا۔

" یقیناً تم یہاں کچھ کھانے تو نہیں آئے تھے۔ اور اب جب تم اپنی بات کہہ چکے ہو تو ضرور یہاں سے جانا چاہ رہے ہوگے۔ صحیح کہہ رہا ہوں نا؟ "

کردم جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا، مسکراتے ہوئے بولا۔ پاشا اس کی بات کا مطلب سمجھ کر فوراً کھڑا ہوگیا۔

"ہاں !! اب میں چلتا ہوں۔"

اس نے کہہ کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا جسے کردم نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ پاشا نے ایک نظر بند دروازے پر ڈال کر باہر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔


۔************۔


وہ بیڈ پر لیٹی سوچوں میں غرق تھی، جب کردم دروازہ کھول کر اندر آیا۔

آئینور کو بیڈ پر لیٹا دیکھ وہ ٹھٹھک گیا۔ کردم کی طرف اس کی پشت تھی۔

" تم کب آئیں؟ "

کردم کے سوال پر آئینور نے چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔

" ابھی کچھ دیر پہلے۔" جواب دے کر چہرہ واپس موڑ لیا۔ کردم کو اس کی آنکھوں میں اجنبیت کے تاثر دکھائی دیئے۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔

" تمہیں لگتا ہے، تمہارے باپ کو میں نے مارا ہے؟ "

وہ خاموش رہی۔

" کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔" اب کی بار وہ سخت لہجے میں بولا۔

آئینور نے نظریں ترچھی کیے اسے دیکھا اور اُٹھ بیٹھی۔

" میں نے ایسا کچھ کہا تو نہیں۔"

" ہاں !! پر تمہاری نظریں تو کہہ رہی ہیں۔" وہ اس آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

" میرے پاپا جس گناہوں کے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے پر یہ جاننا مشکل ہے، کون آپ کا دوست ہے اور کون دشمن۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ چھپے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں آپ پر شک نہیں کر رہی۔"

آئینور کی بات پر اسے یکدم پاشا کا خیال آیا۔ وہ بھی کبھی اس کا دوست ہوا کرتا تھا، اور اب وہ ہی اسے ڈسنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔

" اب اگر آپ کی اجازت ہو تو میں کچھ دیر آرام کر لوں؟ مجھے بہت تھکن محسوس ہو رہی ہے۔" کردم کا جواب سنے بغیر ہی اپنی کہہ کر واپس لیٹ گئی۔

کردم بیٹھا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ جسے باپ کی موت نے چند دنوں میں ہی صدیوں کا بیمار بنا دیا تھا۔


۔************۔


غفار گاڑی کے بونٹ کھولے جھک کر انجن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا، جب وہ تینوں اس کے پاس چلے آئے۔

" ہہہہم !! کیسے ہو غفار دادا؟ " گلا کھنکھار کر رحیم نے بات کا آغاز کیا۔

غفار نے سر اُٹھا کر ایک اُچٹتی سی نظر ان تینوں پر ڈالی، اور " ٹھیک ہوں" کہتا واپس اپنے کام میں لگ گیا۔

" ہمیں تم سے کچھ بات کرنی تھی۔ میرا مطلب کچھ پوچھنا تھا۔" فاروق ڈرتے ہوئے جلدی سے بولا۔

" کوئی کام کی بات ہے تو پوچھو، لیکن اگر بکواس کرنے آئے ہو تو واپس جا سکتے ہو۔" انجن پر جھکے ہی جواب دیا۔

" وہ ہمیں پوچھنا تھا، یہ لڑکی واپس کیوں آگئی؟ آخر چکر کیا ہے؟ "

رحمت جو ان دونوں کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ فوراً آگے آکر اشتیاق سے پوچھنے لگا۔

غفار نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور مسکراتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا مگر۔۔۔ اگلے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ سمٹی اور چہرے پر خونخوار تاثرات لیے، پیچھے لگی گن نکال کر ان پر تان دی۔

" ہاں تو اب بتاؤ، کیا پوچھنا ہے؟ "

اس کے ہاتھوں میں گن دیکھ کر تینوں گڑبڑا گئے۔ رحمت واپس ان دونوں کے پیچھے چھپ گیا۔

" دیکھو !! تمہیں لگتا ہے کہ یہ گن دیکھا کے تم ہمیں ڈرا سکتے ہو۔۔۔؟ تو تمہیں بالکل ٹھیک لگتا ہے۔ ہم واقعی ڈر گئے، بس اب اسے نیچے کر لو۔" رحیم گن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

" آئندہ اگر کچھ پوچھنا ہو تو میرے پاس آنے کے بجائے سیدھا کردم دادا کے پاس جانا تاکہ وہ تمہاری آخری خواہش کو ضرور پورا کریں۔ اب جاؤ یہاں سے۔"

غفار کے کہتے ہی وہ کسی بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گئے۔ اس میں کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ ان پر گولی چلا دیتا۔

غفار بھی سر جھٹکتا گن رکھ کر واپس اپنے سابقہ کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ جان سے جا سکتا تھا مگر کردم دادا کی بات کے خلاف نہیں۔


۔************۔


رات کے آخری پہر وہ ٹیرس میں لگے جھولے پر بیٹھی افق پر نظر آتے چاند کو تک رہی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے موبائل کی اسکرین مسلسل جگمگا رہی تھی۔ وہ کبھی نظریں جھکائے موبائل کی اسکرین کو دیکھتی تو کبھی چاند کو۔

آئینور جب سے واپس آئی تھی بستر کی ہو کر رہ گئی تھی۔ سیما خالہ سے بھی بس رات کے کھانے پر ملاقات ہوئی، اس کے بعد وہ واپس کمرے میں بند ہو کر رہ گئی۔ دن بھر آرام کے بعد اب نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

" اب تو میں بالکل اکیلی ہوگئی۔ کوئی بھی تو نہیں رہا اب میرے پاس۔ آپ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں اور اب پاپا بھی۔ گوکہ اُن کا ساتھ تو نہ ہونے کے برابر تھا مگر۔۔۔ تھا تو، لیکن اب کوئی نہیں۔"

نظریں چاند پر جمائے۔ وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی، جب کردم اس کے برابر آ کر بیٹھا۔

آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔ جو اس کی آمد سے یکسر انجان تھی۔ چاند کا نور اور جلتی اسکرین کی روشنی سیدھا آئینور کے چہرے پر پڑ کر اسے روشن کر رہی تھیں۔

کردم نے نظریں جھکا کر اس کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھا۔ جس کی اسکرین پر ایک مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر نظر آ رہی تھی۔ جسے کسی البم کی تصویر میں سے اُتارا گیا تھا۔

" یہ کون ہے؟ "

کردم کی آواز پر آئینور نے چونک کر اسے دیکھا، پھر ہاتھ میں موجود موبائل کو۔

" آپ کب آئے؟ "

" کافی دیر پہلے۔" کردم نے جھوٹ بولا۔

" اچھا۔"

آئینور نے کہہ کر چہرہ واپس سامنے کر لیا۔ کردم غور سے اس کو دیکھ رہا تھا، جو اتنی بے نیاز بیٹھی تھی کہ اس کی آمد کی خبر تک اسے نہ ہوئی۔ کردم نے پھر سر جھکا کر تصویر پر نظریں جمائیں۔

" تم نے بتایا نہیں۔ کون ہے یہ؟ "

"میری ماں۔"

آئینور کے جواب پر کردم نے جھٹکے سے سر اُٹھا کر اسے دیکھا، مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ نظریں سامنے جمی تھیں۔

" لیکن تمہاری ماں تو۔۔۔"

"وہ میری پھوپھو ہیں۔"

کردم حیران ہوتا کبھی موبائل کو دیکھتا تو کبھی اس کو۔ آئینور اور اس تصویر میں نظر آتی لڑکی کافی مشابہت رکھتی تھیں۔

" نام کیا تھا ان کا؟ "

"ماہ نور !! "

" صرف شکلیں نہیں نام بھی ملتے ہیں۔"

کردم بڑبڑایا اور گہرا سانس لیتے خود بھی سامنے دیکھنے لگا۔ افق پر نظر آتا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

" اب کہاں ہیں یہ؟ کیا اسلم کو چھوڑ کر چلی گئی تھیں؟ "

" صرف پاپا کو نہیں، ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہاں جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔"

آئینور کے اندر چھپا دکھ لہجے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔

" بیمار تھیں؟ "

" نہیں !! خودکشی کی تھی۔"

کردم نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ جو کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اس کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔

" کیوں؟ "

کردم کے سوال پر اس نے گہرا سانس لے کر خود کو پُرسکون کرنا چاہا پھر آہستہ سے بتانا شروع کیا۔ وہ تلخ باب جس نے اس کی ہستی ہلا کر رکھ دی تھی۔

"ماما نانا نانی کی ایک لوتی اولا تھیں، بلکہ نانا جان کی تو جان بستی تھی اُن میں۔ ماما کراچی میں پلی بڑھی تھیں۔ جبکہ پاپا دادی جان اور پھوپھو کے ساتھ لاہور میں۔"

اتنا کہہ کر آئینور خاموش ہوگئی جیسے آگے بولنے کے لیے ہمت جمع کر رہی ہو۔

" پھر؟ " اس کو خاموش دیکھ کردم پوچھ بیٹھا۔

"پھوپھو کی شادی اُن کے خالہ کے بیٹے "ارسل" سے ہوئی تھی۔ جو کراچی کے رہائشی تھے۔ شادی کے بعد پھوپھو کراچی چلی گئیں۔ چونکہ نانا جان اور ارسل انکل کی فیملی ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ اس لیے وہ بھی اس شادی میں شریک ہوئے اور وہیں ماما پھوپھو سے ملیں۔ شادی کے بعد بھی ماما اکثر ان کے گھر جایا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ماما اور پھوپھو کی اچھی دوستی ہوگئی اور اسی دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے پھوپھو نے دادی جان سے ماما پاپا کے رشتے کا زکر کر دیا۔ چونکہ وہ بھی ماما کو شادی میں دیکھ چکی تھیں اور پسند بھی کرلیا تھا اس لیے سب رشتہ لے کر نانا جان کے پاس پہنچ گئے۔

نانا جان کو بھی ان کی فیملی اچھی لگی۔ وہ لڑکے کے بارے ميں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ارسل انکل کے کہنے پر کہ اسلم ایک اچھا لڑکا ہے۔ اس کی زمہ داری وہ اُٹھانے کے لیے تیار ہیں تو نانا جان مطمئن ہوگئے، اور اس رشتے کے لیے ہامی بھر دی۔

شادی میں نانا نے کوئی کثر نہیں رہنے دی تھی۔ شادی کے بعد بھی سب اچھے سے گزر رہاتھا کہ ایک دن ارسل انکل کی موت کی خبر ملی۔ پھوپھو کے ساتھ صرف چھ ماہ گزار کر وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت نے سب کو دکھ سے دوچار کر دیا تھا، خاص کر پھوپھو کو۔ تاہم کہتے ہیں نہ وقت کا کام ہے گزر جانا تو وقت بھی گزر گیا۔ ان کی موت کا دکھ کم تو نہیں ہوا لیکن بس اللّٰه کی رضا سمجھ کر صبر کرلیا۔

پھر اس دوران میری پیدائش ہوئی جو سب کے لیے خوشی کا باعث بنی۔ لیکن خیر وقت گزرتا رہا اور میں بڑی ہوتی گئی۔ اس دوران نانا اور دادی جان کا بھی انتقال ہوگیا تھا، اور دادا جان وہ تو پاپا کے بچن میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے۔۔۔"

آئینور پھر خاموش ہوگئی لیکن اس بار کردم بھی خاموش رہا۔ کیونکہ آج آئینور بولنا چاہتی تھی اور کردم سننا۔

" ہماری زندگی میں سب ٹھیک چل رہا تھا یا شاید مجھے لگ رہا تھا۔ بچی تھی نا اس لیے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور انسانی رویوں سے ٹھیک طرح واقف نہیں تھی۔ مگر وہ رات مجھے بارہ سال کی عمر میں اس دنیا سے واقف کرا گئی۔"

وہ رکی گہرہ سانس لے کر اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنا چاہ۔

"ماما اور پاپا کی اکثر لڑائی ہوتی رہتی یا یوں کہنا ٹھیک ہوگا کہ اکثر پاپا ماما کو اپنی مردانگی کا ثبوت دکھاتے رہتے، انہیں مار کر۔ وہ میرے سامنے ایسا نہیں کرتے تھے۔ لیکن ماں کے چہرے پر موجود نشان مجھے ان پر بیتی ازیت کا بتا جاتے مگر۔۔۔ پھر وہی بات میں چھوٹی تھی اس لیے ماما کے جھوٹے بہانوں کو سچ مان جاتی تھی۔ تاہم ایک دن ہم نانی جان کے یہاں گئے۔ ان دنوں اُن کی بہت زیادہ طبیعت خراب تھی۔ وہاں پہنچ کر ہم سب سے ملے اور اُس کے بعد میں سیدھا ماما ساتھ کمرے میں سونے چلی گئی۔ سفر کی وجہ سے تھکن جو سوار ہو گئی تھی۔ لیکن جب میں جاگی تو ماما میرے پاس موجود نہیں تھیں۔ میں اُٹھ کر کمرے سے باہر آئی تو برابر والے کمرے سے مجھے باتوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے آگے بڑھ کر کمرے میں جانا چاہا مگر۔۔۔ ماما کو روتا دیکھ میں دروازے پر ہی رک گئی۔ اُن دونوں کی میری طرف پشت تھی۔ اس لیے وہ مجھے وہاں کھڑے دیکھ نہیں پائیں اور میں نے سب سن لیا۔ کیسے پاپا ماما کو مارتے تھے، پوری پوری رات گھر سے باہر گزارتے۔ اور ماما کیسے اُن کی راتیں پاپا کے انتظار میں جاگ کر گزرتی تھیں۔

خیر !! یہ سب تو معمولی سی باتیں تھیں ماما کے نزدیک کیونکہ وہ سب برداشت کر سکتی سوائے بے وفائی کے۔۔۔"

آئینور خاموش ہوگئی۔ ضبط کے مارے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ لاہور کی یخ بستہ ٹھنڈی ہواؤں میں بھی اس کے چہرے پر پسینہ نمایا نظر آ رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر کردم اسے روکنا چاہتا تھا مگر۔۔۔ آج وہ نہ بولتی تو اس کے اندر کا غبار کبھی باہر نہیں نکلتا۔ وہ یوں ہی گھٹ گھٹ کے مر جاتی۔ اس ہی لیے کردم نے اسے بولنے دیا۔ اور ایک بار پھر آئینور نے خاموشی کو توڑا۔

" نانی جان کے یہاں کچھ دن گزار کر ہم لاہور واپس آگئے۔ پھوپھو نے ماما سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت نکال کر پاپا سے بات کرینگی۔ لیکن نہ وہ وقت آنا تھا نہ آیا۔ کراچی سے واپسی پر ہمیں رات ہوگئی تھی۔ گوکہ پاپا رات میں گھر نہیں ہوتے تھے، اس لیے ہماری واپسی کی خبر ماما نے پاپا کو نہیں دی تھی۔

وہ رات بہت اندھیرے میں ڈوبی تھی۔ نہ جانے رات کا اندھیرا تھا یہ گناہوں کا۔۔۔

ہم رات کے تقریباً دو بجے گھر واپس لوٹے تھے۔ ماما کے پاس ہمیشہ گھر کے تالے کی دوسری چابی ہوتی تھی، اس لیے تالا کھول کر ہم گھر میں داخل ہو گئے۔ گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سفر کی تھکن نے بُرا حال کر دیا تھا۔ میں باہر ہی رکھے صوفے پر لیٹ گئی۔ ماما سارے گھر لائٹس جلاتیں سامان رکھنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اُن کی چیخ و پکار گھر کے درو دیوار نے سنی تھی۔ ماما کی آواز سن کر میں کمرے میں گئی مگر۔۔۔"

ایک موتی ٹوٹ کر آئینور کی آنکھ سے بہہ گیا۔ خود پر کیا ضبط جواب دے گیا تھا۔ کردم افسوس سے اسے دیکھتا رہا۔

"پاپا وہاں اکیلے نہیں تھے۔ ایک عورت بھی ان کے ساتھ تھی۔

یہ دیکھتے ہی ماما وہاں سے چلی گئیں اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ مجھے اُس عورت پر بہت غصّہ آ رہا تھا، جس کی وجہ سے ماما رو رہی تھیں اور خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا۔

ماما کے جاتے ہی وہ عورت بھی فوراً گھر سے چلی گئی۔ پاپا اور میں کافی دیر تک کمرے کا دروازہ پیٹتے رہے پر ماما نے نہیں کھولا۔ تب پاپا نے دروازے کو دھکے مار کر دروازے کا لاک توڑا۔ دروازہ کھلتے ہی میں فوراً اندر بھاگی تو۔۔۔ ماما کو فرش پر پڑا پایا، ارد گرد خون پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی نس کاٹ کر اپنی جان دے دی تھی۔"

آئینور کہتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھنے لگی۔ یوں جیسے ان پر ماہ نور کا خون لگا ہو۔ کردم اس کے چہرے پر رقم اذیت کو پڑھ رہا تھا۔ اسے یاد آیا کیسے وہ اس کے ہاتھ پہ جمے خون کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اور جب کردم نے اُس آدمی کو گولی ماری تھی۔ وہ ڈر کر بستر میں چھپ گئی تھی۔

"ماما کی خودکشی کی خبر نانی جان برداشت نہیں کر سکیں اور وہ بھی دل کا دورہ پڑنے سے مر گئیں۔ پل بھر میں مجھے لگا سب ختم ہو گیا۔ ماما کے جانے کے بعد میں بہت اداس رہنے لگی تھی۔ کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔ ماما کی موت نے مجھے بُری طرح سے بدل کر رکھ دیا تھا۔ میری حالت کی وجہ سے پھوپھو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ میں اسکول میں بھی سب سے الگ اور خاموش رہنے لگی تھی اور رہنا چاہتی بھی تھی۔ مگر علینہ نے میری اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ وہ زبردستی میرے پاس آ کے بیٹھ جاتی مجھ سے باتیں کرتی، کچھ ہی عرصے میں وہ میری بہت اچھی دوست بن گئی تھی۔ اور اتفاق سے وہ رہتی بھی ہمارے گھر کے پاس ہی تھی تو اکثر اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں ماما کی موت سے باہر تو نہیں نکلی تھی۔ مگر اس کی صحبت میں اپنا غم ضرور بھول جاتی تھی۔

ایک دن وہ اسکول کے کام کے لیے میرے پاس آئی تھی۔ کام پوچھ کر وہ واپس چلی گئی۔ مگر اپنی کتاب گھر پر ہی بھول گئی۔ شام کے وقت میں وہی واپس دینے پھوپھو کے ساتھ اس کے گھر گئی تو۔۔۔"

آئینور نے اپنے لبوں کو آپس میں پیوست کر لیا کہ مزید آگے کچھ نہیں کہنا چاہتی ہو۔ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔ اس کو خاموش دیکھ کر کردم سے رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھا۔

" تو؟ "

" میں کبھی اپنی زندگی میں ایک باپ کی ایسی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ جو شراب کے نشے میں یہ تک بھول گیا سامنے کھڑی لڑکی اس کی اپنی بیٹی ہے۔ اُس کے پاپا بھی میرے پاپا کی طرح شرابی، جواری، زانی تھے۔ اس دن میں نے اپنی سب سے پیاری دوست کو بھی کھو دیا تھا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد پھوپھو مجھے اپنے ساتھ کراچی لے گئی تاکہ میں اس ماحول سے باہر نکل سکوں۔"

آئینور نے اپنے آنسو صاف کیے اور کردم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" تو تب سے تم ان کے ساتھ رہتی ہو؟ "

"ہاں پاپا کی وجہ سے سب رشتے داروں نے تعلق توڑ لیا تھا بس ایک پھوپھو تھیں جنہوں نے مجھے سنبھالا۔ ان کی اپنی کوئی اولاد جو نہیں تھی۔"

"انہوں نے شادی کیوں نہیں کی دوبارہ؟ " کردم کی بات پر آئینور تلخی سے مسکرا دی۔

"وہ انکل سے بہت محبت کرتی ہیں۔ عورت ہی ہوتی ہے جو شوہر کی وفات کو برسوں گزر جانے کے بعد بھی تا عمر بیوہ کی چادر اوڑھے رکھتی ہے۔ اس کی جگہ کسی اور کو نہیں دیتی۔ یہ مرد ہی ہوتا ہے جو مرحوم بیوی کا کفن بھی میلا نہیں ہونے دیتا اور شادی کرلیتا ہے۔"

" اور عادی کیسے، مطلب۔۔۔؟ " کردم نے بات بدلنی چاہی مگر صحیح الفاظ نہ ملے۔

"کراچی آنے کے بعد پہلی دفعہ پاپا سے ملنے لاہور واپس گئے تھے تو ایک عورت گھر آئی تھی۔ جو عادی کو پاپا کا بیٹا بتا رہی تھی۔ کہہ رہی تھی وہ تھک گئی ہے۔ ان کے بیٹے کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے۔ اب وہ اپنا بھی بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ وہ بیمار ہے۔ اس لیے اب وہ اپنے بچے کو سنبھال لے۔ مگر پاپا کو پرواہ ہی کس کی تھی۔ اس لیے پھوپھو نے اسے بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔"

آئینور خاموش ہوگئی۔ کافی پل یوں ہی خاموشی کے نظر ہوگئے۔ آئینور چاند کو دیکھ رہی تھی اور کردم سر جھکائے موبائل میں نظر آتی تصویر کو۔ اس کی نظر تصویر میں ماہ نور کی ناک میں چمکتی لونگ پر تھیں۔ کردم نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ اب وہ لونگ اب آئینور کی ناک میں پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔

" تو یہ لونگ تمہاری ماں کی ہے؟ "

" ہاں !! ایک یہ ہی اُن کی آخری نشانی میرے پاس ہے۔ اس لیے پہن لی۔ ورنہ مجھے ان سب چیزوں کا شوق نہیں۔"

" کیوں؟ لڑکیوں کو تو بہت شوق ہوتا ہے۔"

"ہوتا ہوگا پر مجھے نہیں ہے۔ کبھی ہوا بھی تو میں نے انہیں دبا دیا تھا۔ میری ساری خواہشات میری ماں کے ساتھ دم توڑ گئیں۔ جب بھی میں کسی کو سج سنور کر تیار دیکھتی ہوں مجھے اس عورت کا چہرہ یاد آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے میری ماں نے خودکشی کرلی۔ زہر لگتی ہیں ایسی عورتیں جو سج سنور کر نامحرم مردوں کو پھنسا کر دوسری عورتوں کی زندگی خراب کر دیتی ہیں۔"

آئینور کی آنکھیں پھر اپنی ماں کے زکر پر برسنا شروع ہوگئی۔ کردم کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اسے چُپ کرواتا۔ اس نے آئینور کے شانے پر ہاتھ رکھ کر خود سے لگا لیا۔ آئینور بھی اس کے کندھے پر سر رکھتی مزید آنسو بہانے لگی۔

"میں ماما کو کبھی بھلا نہیں سکی۔ میں نے کبھی کسی سے ان باتوں کا زکر نہیں کیا پھوپھو سے بھی نہیں۔

پھوپھو نے مجھے بہت محبت دی۔ لیکن یہ بات میرے دل سے نہیں نکلتی کہ ماما کی حالت کی زمہ دار وہ بھی کہیں نا کہیں تھیں۔ وہ پاپا کے بارے ميں سب جانتی تھیں۔ پھر بھی انہوں نے ماما کی شادی پاپا سے کرا دی۔ یہ نہیں سوچا ان کے اس عمل سے کسی زندگی خراب ہو رہی ہے۔"

وہ کردم کے ساتھ لگی روتی رہی آنسو بہاتی رہی۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ کسی سے اپنے دل کی بات کر رہی تھی۔ وہ بھی ایسے شخص سے جس سے وہ اپنی آزادی چاہتی تھی۔ یوں ہی بیٹھے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہوش تب آیا جب دور کہیں مسجد سے فجر کی اذان دینے کی آواز سنائی دی۔

آئینور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ گلے میں پڑے دوپٹے کو سر پر لیا۔ کردم کی ساری توجہ اس کے چہرے پر تھی۔ جس پر نور ہی نور تھا۔ ہار سنگھار نہ کسی میک اپ کے وہ کتنی پرکشش لگی تھی۔ نور ایسے ہی نہیں ملتا دل کو مارنا پڑتا ہے۔ اس نے بھی اتنی کم عمری میں اپنی خواہشات کو مارا تھا۔ جس عمر میں لڑکیاں سج سنور کر گھومتی ہیں۔ اس عمر میں اس نے خود کو چھپا لیا تھا۔ پھر اللّٰه وہ کشش، وہ نور کیوں کر اپنے بندے کو نہیں دیتا، جس نے اُس کے حکم کے آگے سر جھکایا تھا۔

آئینور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کردم کا تسلسل ٹوٹا۔ وہ چہرہ اُٹھائے اسے دیکھنے لگا۔

" مجھے نماز پڑھنی ہے۔" اتنا کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔ کردم وہیں آسمان تلے بیٹھا رہا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ بنا لڑے ان کے درمیان اتنی لمبی گفتگو ہوئی تھی۔ ورنہ ہر گفتگو کا انجام جھگڑا ہی نکلتا تھا۔

کون کہتا ہے وقت کے ساتھ انسان سب بھول جاتا ہے۔ محبت سچی ہو تو یادیں سمندر کی لہروں جیسی ہو جاتی ہیں۔ کبھی آہستہ مانو ہیں ہی نہیں، تو کبھی اتنی زور آور جیسے سب بہا لے جائینگی۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے، انسان وقت کے ساتھ ان لہروں کا سامنا کرنے کے قابل ضرور ہو جاتا ہے۔ اور جو بھول جائے تو سمجھ لے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔

آئینور کی محبت بھی اپنی ماں کے لیے ایسی ہی تھی۔ کچے زہن پر لگی ضربیں اپنا بہت گہرا اثر چھوڑ گئی تھیں۔

۔*************۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سیدھا گھڑی پر پڑی جو دس بجا رہی تھی۔ وہ کتنی دفعہ کردم کو اُٹھانے کے لیے آچکی تھی۔ مگر وہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ فجر تک جاگنے کے بعد اب وہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔

وہ اس کو دیکھتی آ گے بڑھی اور سائڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اُٹھا لیا۔ الارم سیٹ کر کے اس نے کردم کے کان کے پاس رکھ دیا۔

کان کے پردے پھاڑ دینے والی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ اچھل کر اُٹھ بیٹھا۔ دماغ سن ہوگیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے سامنے کھڑی آئینور کو دیکھنے لگا۔ مگر جیسے ہی دماغ کچھ سمجھنے کے قابل ہوا وہ تیوری چڑھائے کمبل کو ایک طرف پھینکتا کھڑا ہو گیا۔

" تم سدھرو گی نہیں؟ "

" میں بگڑی ہوئی نہیں۔" اس کے غصّے کا اثر لیے بنا بولی۔ دل ہلکا ہوا تو وہ اپنی جون میں واپس لوٹ آئی۔

کردم غصّے سے اسے گھورتا۔ باتھ روم میں گھس گیا۔ جانتا تھا بولنا بیکار ہے۔ سزا ملنے، چوٹ لگنے کے بعد بھی اس پر اثر نہ ہوا تو گھورنے سے کیا ہونا تھا۔

نہا کر باہر نکلا تو آئینور بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے میں لگی تھی۔ وہ جاکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آئینے میں سے اس کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے گویا ہوا۔

" اسلم کو۔۔۔"

" مجھے اب پاپا کے بارے ميں کوئی بات نہیں کرنی۔ اب ان کی کتاب بند ہو چکی ہے۔ اس لیے جب ہم کسی کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کر سکتے تو بُرے لفظوں میں بھی یاد نہ کریں۔" آئینور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

" اگر تم اپنی بات کاٹنے والی عادت چھوڑ دو تو جان جاؤ گی، سامنے والا بُرائی کر رہا ہے یا کام کی بات۔"

" اچھا !! بولیں کیا ہے وہ کام کی بات۔" اس کے لہجے سے جھلکتا طنز صاف واضح تھا۔ وہ نظر انداز کرتا ہوا بولا۔

" اگر تم چاہو تو، اسلم کے قاتلوں کا پتہ لگوا سکتا ہوں۔"

" ضرورت نہیں۔"

" کیوں؟ "

" کیونکہ یہ ایسا دلدل ہے جس سے باہر کا راستہ صرف موت ہے۔"

" لیکن۔۔۔"

" میں آپ کے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔" ایک بار پھر اس کی بات کاٹتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کردم تاسف سے نفی میں سر ہلانے لگا۔


۔************۔


بارہ منزلہ اونچی عمارت کی چھت پر کھڑے وہ زندگی سے بھرپور اس شہر کو دیکھ رہا تھا۔ دھوپ کی کرنیں چاروں سوں پھیلی ہوئی تھی۔ نرم گرم چلتی تیز ہوا اس کے بالوں کے ساتھ ساتھ پہنے ہوئے کوٹ کو بھی اُڑا رہی تھی۔

" تم یہاں اوپر ہو اور میں تمہیں پوری بلڈنگ میں ڈھونڈ چکا ہوں۔" عقب سے آتی آواز پر کردم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آغا حسن تھا۔

" ہاں بس سوچا تھوڑی کھلی فضا میں سانس لے لوں۔"

" ہم اچھا کیا۔"

وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر کردم کے برابر میں کھڑا ہو گیا۔

" تمہیں معلوم ہے راشد ملک اور خاقان ابراہیم واپس دوبئی چلے گئے؟ "

" ہاں اُنہیں واپس جانا ہی تھا۔ مل کے گئے تھے مجھ سے۔" کردم سگریٹ سلگاتا ہوا بولا۔

" یعنی تم اتنے دنوں سب سے ملتے رہے سوائے میرے۔"

" ایسا نہیں ہے صرف راشد ملک اور خاقان سے ملا تھا۔"

وہ جان بوجھ کر کل دوپہر میں ہوئی پاشا سے اپنی ملاقات کو چھپا گیا۔

" کیا مطلب؟ تم پاشا سے نہیں ملے؟ " آغا کے سوال پر کردم نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

" میں کیوں اُس سے ملوں گا؟ "

" تمہیں نہیں معلوم وہ بھی انڈیا واپس چلا گیا؟ " آغا اس کی لاعلمی پر حیران ہوا۔

" نہیں۔۔۔ کب؟ "

" کل رات کو گیا ہے۔"

" اچھا۔ اور تم کب تک واپس جاؤ گے؟ " اس نے سگریٹ کا کشش لیتے ہوئے پوچھا۔

" پاشا چلا تو گیا ہے، میں بھی ایک دو دن میں چلا جاؤں گا۔" آغا نے بیزاری سے کہہ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر اپنے منہ سے لگا لی۔ کردم مسکرا دیا۔

وہ سب دو دو گروہوں کی شکل میں الگ الگ ملکوں میں اپنی چھاپ بیٹھا چکے تھے۔ راشد ملک اور خاقان ابراہیم دوبئی میں، آغا حسن اور پاشا انڈیا میں جبکہ کردم اور جمشید پاکستان میں اپنے اڈوں پر کام سنبھالتے تھے۔ سال کے آخر میں وہ کسی بھی ایک ملک میں بیٹھک رکھ کر سال بھر کا حساب اور آگے کا لائے عمل طے کرتے۔ اس بار یہ بیٹھک پاکستان میں رکھی تھی۔ جس کے بعد واپس اپنے اڈوں پر چلے جانا تھا۔ مگر کردم اور پاشا کے جھگڑے نے انہیں یہاں کچھ دن رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب بقول ان کے سب ٹھیک ہو گیا تھا، تو سب اپنے راستے واپس لوٹ رہے تھے۔


۔************۔


" اتنی سی بات تھی لڑکی اگر اس کو بتا دیتی تو تمہارے ساتھ اُس دن وہ سب نہ ہوتا۔" سیما خالہ اس کے سامنے آلو رکھتے ہوئے بولیں جو یقیناً آئینور نے چھیلنے تھے۔

اُس دن کے بعد سے آج ان کی ٹھیک طرح بات ہو رہی تھی۔ عدیل کے بارے میں تو وہ انہیں پہلے ہی بتا چکی تھی۔ مگر صرف اتنا کہ وہ اس کا بھائی ہے اور ہاسٹل میں رہ کر پڑھائی کرتا ہے۔ لیکن اُس رات عدیل کے فون سے لے کر، آئینور کو سٹور میں بند کرنے تک کی ساری کہانی اس نے آج ہی ان کو بتائی تھی۔ اور اب وہ اس کے سامنے بیٹھے ٹھیک سے اس کی طبیعت درست کر رہی تھیں۔

" آپ ہمیشہ اُن لاڈ صاحب کی طرف داری کرئے گا۔" آئینور منہ بسورتے ہوئے بولی۔

" ہاں تو تمہاری حرکتیں بھی تو ایسی ہیں۔" سیما خالہ نے بھی تڑک کر جواب دیا۔ آئینور مسکرا دی۔

" اب مسکرا کیوں رہی ہو؟ "

" اس دن آپ نے مجھے ناشتہ یوں کرا کے بھیجا تھا نا کہ آپ جانتی تھیں، پاپا کے انتقال کی خبر سن کر میرے حلق سے ایک نوالہ تک نہیں اُترے گا۔" وہ افسردگی سے بولی۔

" ہاں !! ماں باپ جیسے بھی ہوں ان کی اہمیت کبھی نہیں بدلتی۔" سیما خالہ شفقت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

" پتا ہے میں کبھی کبھی سوچتی ہوں، اگر آپ نہ ہوتیں تو میں اس محل نما قید خانے کی درو دیوار سے اکیلے سر مارتی مارتی زہنی مریض بن جاتی۔"

" پاگل ایسی باتیں نہیں کرتے۔ ویسے بھی کردم بیٹا دل کا اتنا بُرا بھی نہیں ہے۔" ان کی بات پر آئینور نے آنکھیں گھومائیں۔

" آپ کو بس موقع چاہیئے ہوتا ہے کردم کی تعریف کرنے کا۔"

" ہاں بالکل !! آخر کو میرے سامنے پلا بڑھا ہے۔"

" آپ بچپن سے جانتی ہیں۔" آئینور حیران سی انہیں دیکھ کر پوچھنے لگی۔

" ہاں !! پہلے میں اس کی ماں کی ملازمہ تھی۔ مگر میرے مرد کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی، تو میں اپنے مرد کے ساتھ گاؤں واپس چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد میرے مرد کا انتقال ہو گیا۔ رشتے دار سمجھتے نہیں تھے اور اولاد تھی نہیں، اس لیے میں واپس لاہور آگئی۔ یہاں آ کر کردم کی ماں سے ملنا چاہا تو معلوم ہوا اُس کا بھی انتقال ہوگیا اور کردم کا کچھ پتا نہیں تھا۔ تاہم میں نے کہیں اور ملازمت شروع کر دی۔ کئی سال ایسے چلتا رہا۔ پھر ایک دن اچانک مجھے کردم ملا۔ میں تو پہچان نہیں سکی بڑا جو ہوگیا تھا۔ لیکن اُس نے فوراً ہی مجھے پہچان لیا۔ بس تب سے اس کے پاس کام کر رہی ہوں۔"

سیما خالہ کی باتیں سنتے ایک پل کو آئینور کا دل کرا، وہ کردم کی ماں کے بارے ميں پوچھے مگر۔۔۔ خاموش رہی۔ اسے یاد تھا، کردم کے ماضی کا زکر آتے ہی سیما خالہ پہلے بھی خاموش ہوگئی تھیں۔ اس لیے اب ان سے پوچھنا مناسب نہیں لگا تو موضوع کو واپس وہیں پہ موڑ دیا جہاں سے بدلا تھا۔

" آپ کو معلوم ہے؟ آپ کا بیٹا اتنا اچھا ہے کہ مجھے سٹور میں بند کرنے کے بعد جھوٹے منہ معافی تک مانگنا ضروری نہیں سمجھا۔"

" تمہیں کیا لگتا ہے؟ جسے کسی کی جان لے کر افسوس نہیں ہوتا، وہ تمہیں سٹور میں بند کرنے پر شرمندہ ہو گا؟ "

"میں کسی نہیں ہوں۔" نہ چاہتے ہوئے بھی آئینور شکوہ کر گئی۔

سیما خالہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ وہ گڑبڑا کر آلو کو واپس برتن میں پٹختی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" میں زرا نماز پڑھ لوں۔"

" ہاں ہاں !! جاؤ جاؤ کہیں قضاء نہ ہو جائے۔" سیما خالہ کی بات پر انہیں گھوری سے نوازتی فوراً وہاں سے نکل گئی۔ آیا اب کچھ اور نہ بول بیٹھیں۔


۔*************۔


" یہ ماما بھی نا !! پتا ہے مجھے سبزیاں خریدنا نہیں آتا، پھر بھی مجھے بھیج دیا۔"

عدیل بڑبڑاتا ہو ایک ٹھیلے والے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ابھی وہ سبزی خریدنے کے لیے لسٹ دیکھ ہی رہا تھا کہ تبھی راستے سے گزرتی گاڑی میں بیٹھے کردم کی نظر اس پر پڑی۔

" غفار گاڑی روکو۔" اس کے کہتے ہی غفار نے بغیر کوئی سوال کیے گاڑی سائڈ میں لگا دی۔

" وہ اُدھر جو لڑکا کھڑا ہے۔ اُسے یہاں لے کر آؤ مجھے کچھ بات کرنی ہے۔"

" جی دادا۔" غفار کہہ کر گاڑی سے نکلا اور بائیں جانب چل دیا جہاں عدیل کھڑا ٹھیلے والے سے بحث کر رہا تھا۔

" سنو لڑکے !! " عقب سے آتی آواز پر عدیل نے مڑ کر غفار کو دیکھا۔

" میں؟ " اس نے شہادت کی انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں تم !! دادا تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔"

" کون دادا، کہاں ہیں؟ " عدیل سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

" وہاں گاڑی میں۔" غفار نے کہتے ہوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

عدیل نے نظریں گھوما کر گاڑی کی طرف دیکھا، جہاں کردم بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ مزید کوئی سوال کیے غفار کے سامنے سے گزرتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ غفار بھی اس کے پیچھے ہولیا۔

گاڑی کے پاس پہنچ کر عدیل دروازہ کھولتا پچھلی نشست پر کردم کے برابر بیٹھ گیا۔ غفار باہر ہی گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر ہو کر کھڑا ہوگیا۔

" اچھا ہوا تم یہیں مل گئے، ورنہ میں تم سے ملنے آنے والا تھا۔" عدیل ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

" واقعی؟ اگر مجھے پتا ہوتا سالے صاحب خود چل کر آنے والے ہیں تو ملاقات کے لیے تھوڑا انتظار ہی کر لیتا۔" کردم مسکراتے ہوئے بولا۔

" دیکھو !! زیادہ فری نہ ہو۔ میری بہن کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ۔۔۔" کہتے ہوئے عدیل نے ہاتھ کا مکا بنالیا۔ بات ادھوری اور انداز واضح تھا۔

کردم دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور عدیل کا وہی ہاتھ تھام کر ہلکے سے موڑ دیا۔

" آااہ !! " عدیل کراہ کر رہ گیا۔

" اتنے سے ہو اور باتیں اتنی بڑی بڑی کر رہے ہو۔ خیر !! تمہیں اپنی بہن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، وہ جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے۔"

" دیکھو کردم دادا !! یہ مت سمجھنا کہ وہ میری سوتیلی بہن ہے تو ہم میں محبت نہیں۔ ہاں غصّے میں وہ مجھے بُرا بھلا بول دیتی ہیں۔ ظاہر ہے، انسان ہیں فرشتہ نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم میں بہت محبت ہے۔ اس لیے اگر اُنہیں زرا سی بھی خراش آئی تو میں چھوڑوں گا نہیں۔" اس کے دھمکی آمیز لہجے پر کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

" سب جانتا ہوں میں تمہارے بارے ميں مگر۔۔۔ تم بھی یہ بات جان لو۔ تمہاری بہن اب میری بیوی بھی ہے۔ اس لیے اُس کی فکر چھوڑو کیونکہ میری بیوی اور میرے بیچ آنے والے کو میں نہیں چھوڑوں گا، پھر چاہیے وہ میرا سالا ہی کیوں نہ ہو۔"

" دھمکی دے رہے ہو۔" عدیل ماتھے پر تیوری لیے اسے گھورتے ہوئے بولا۔

" ارے نہیں سالے صاحب !! ہماری اتنی مجال کہاں۔ چلو تمہیں تمہاری بہن سے ملواتا ہوں۔" کردم نے کہہ کر گاڑی کے باہر کھڑے غفار کو اشارہ کیا۔ کردم کا اشارہ ملتے ہی وہ گاڑی میں آ بیٹھا۔

" گھر چلو۔"

" جی دادا !! " غفار نے کہتے ہی گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی۔ عدیل بھی خوش ہوتا، سکون سے بیٹھ گیا۔ بہن سے ملنے کی خوشی میں اسے رخسار بیگم کا سامان ہی بھول گیا تھا۔


۔*************۔


" لڑکی تم پھوڑ کی پھوڑ ہی رہنا۔" آئینور نماز ادا کر کے واپس کچن میں آئی تو سیما خالہ اسے دیکھتے ہی شروع ہو گئیں۔

" کیوں؟ اب میں نے کیا کر دیا؟ " وہ حیران سی پوچھنے لگی۔

" آلو کا چھلکا اُتارنے کو کہا تھا۔ آدھا آلو ہی چھیل کر نکال دیا۔" سیما خالہ نے آلو دکھاتے ہوئے کہا۔

" ہاں تو !! میں نے پہلے یہ سب نہیں کیا، میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی کرتی تھی۔ ان کاموں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا میرے پاس۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی کہ تبھی باہر سے گاڑی کے ہارن بجانے کی آواز آئی۔

" لگتا ہے کردم آج جلدی آ گیا۔"

" ہاں !! میں دیکھتی ہوں۔" یہ کہہ کر آئینور کچن سے باہر نکل گئی۔ دروازے پر جا کر دوپٹے سے چہرہ چھپائے کھڑی ہوئی تھی کہ عدیل کو گاڑی سے باہر نکلتا دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

" یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ " حیرت کی جگہ غصّے نے لی۔

عدیل کردم کے ساتھ چلتا ہوا اندر داخل ہوا۔

" کیسی ہیں آپی؟ " پاس آ کر کہتے وہ اس کے گلے لگ گیا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع دینے کیلئے، کردم انہیں وہیں چھوڑ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ پر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ " وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔

" آپ سے ملنے آیا ہوں اور آپ ہیں کہ غصّہ کر رہی ہیں۔ ویسے گھر کتنا بڑا ہے اس غنڈے کا۔" عدیل کہتا ہوا آگئے بڑھ گیا۔ وہ بھی جلتی کوڑتی اس کے پیچھے چل دی۔

" ارے !! عادی بیٹا آیا ہے۔" کچن سے نکلتی سیما خالہ کی نظر ان پر پڑی تو خوشی سے بولیں۔ آئینور کے ساتھ کھڑے لڑکے کو پہچانے میں انہیں زرا مشکل نہ ہوئی تھی۔ وہ کافی حد تک اسلم سے مشابہت رکھتا تھا اور کچھ حد تک آئینور سے بھی۔

ان کی بات پر عدیل نے ناسمجھی سے آئینور کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً تعارف کروایا۔

"عادی یہ سیما خالہ ہیں۔" آئینور کے بتاتے ہی عدیل نے انہیں فوراً سلام کیا۔

" اسلام علیکم !! "

" وعلیکم السلام !! اور کیسے ہو بیٹا؟ " وہ مسکراتی ہوئی پوچھنے لگیں۔

" جی !! اللّٰه کا شکر سب ٹھیک۔"

" چلو !! تم دونوں باتیں کرو میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔" کہہ کر سیما خالہ کچن میں واپس چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی آئینور اسے لیے ڈرائینگ روم میں آ گئی۔

" تمہیں منع کیا تھا نا یہاں مت آنا۔ تمہیں آخر سمجھ کیوں نہیں آتی؟ پہلے کہا تم سے لاہور مت آنا مگر تم۔۔۔ پھر بھی آگئے۔ پھر کہا یہاں مت آنا، لیکن تم یہاں بھی آگئے۔" آئینور غصّے سے اسے سنا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے اُٹھا کر واپس کراچی پھینک دے۔

" اب کیا میں اپنے باپ کی میت کو کندھا دینے بھی نہ آتا؟ " عدیل بھی اب جھنجھلا اُٹھا۔

" ہاں !! تو دے دیا نہ کندھا، پھر واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔ یہاں کیا میری میت کو کندھا دینے آئے ہو؟ "

" آپی پلیز !! ایسی باتیں نہ کریں۔" عدیل ایکدم چلایا۔

" آواز ہلکی رکھو اور اب جاؤ ورنہ پھر اُس دن کی طرح میرے منہ سے کچھ اُلٹا سن لو گے۔"

" یہی نہ میرے معاملے میں مت پڑو۔ تم میرے سوتیلے اور ناجائز بھائی ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔"

اس کی بات پر آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔ اگر وہ ڈھیٹ تھی تو وہ ماہ ڈھیٹ تھا۔ جیسے کردم کی بات کا اثر آئینور پر نہیں ہوتا تھا، ویسے ہی آئینور کی بات کا اثر عدیل پر نہیں ہوتا تھا۔

"دیکھو !! عادی میرے پاس اب صرف تم اور ماما ہو۔ میں تم لوگوں کو کھونا نہیں چاہتی۔" اب کی بار وہ نرمی سے بولی۔

" میرے پاس بھی آپ اور ماما ہیں۔ میں بھی آپ لوگوں کو کھونا نہیں چاہتا۔" وہ بھی دوبدو بولا۔

" یعنی تم میری بات نہیں مانو گے؟ "

" افففف !! کبھی ایسا ہوا آپ کی کوئی بات نہیں مانی ہو؟ جا رہے ہیں کل واپس، ماما بول رہی تھیں کہ وہ اب یہیں کوئی جاب ڈھونڈ لینگی پر میں نے اُنہیں راضی کر لیا، لیکن ابھی بھی وہ پوری طرح راضی نہیں ہوئیں۔"

" تم فکر نہیں کرو میں بات کر لوں گی۔ اب تم جاؤ یہاں سے۔" آئینور نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

" جا رہا ہوں، لیکن پہلے کچھ کھانے کو تو دیں۔ پہلی دفعہ بھائی بہن کے گھر آیا ہے۔ ویسے بھی آپ کی ماسی کھانا لینے گئی ہیں۔" عدیل مزے سے صوفے پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے بولا۔

" وہ ماسی نہیں ہیں۔ سیما خالہ بولو۔" اس نے آنکھیں دکھائیں۔

" ایک تو ہر کوئی ہم سے دوسرے رشتے کیوں جوڑنے بیٹھ جاتا ہے؟ پہلے پھوپھو ہماری ماما بن گئیں، اب یہ ماسی ہماری خالہ۔" عدیل منہ بناتا ہوا بولا۔

" بدتمیز !! یہ باتیں ماما کے سامنے مت بول دینا۔" آئینور نے اس کے سر پر چپت لگائی۔

" اچھا نہیں بولتا، لیکن کچھ کھلا پلا تو دیں۔"

" تمہیں کچھ زیادہ ہی شوق چڑا ہے، حرام کمائی کھانے کا۔"

" مجھے بس کھانے سے مطلب ہے، حرام یا حلال سے نہیں۔ ویسے بھی بہنوئی خود گھر لے کر آیا ہے۔ کھانا کھائے بغیر تو نہیں جاؤں گا۔" عدیل کہتا ہوا اُٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر نکل گیا۔

" ان جیجا سالے کی تو میں۔۔۔" آئینور بڑبڑاتے ہوئے پیر پٹختی خود بھی اس کے پیچھے چل دی۔


۔*************۔


" آپ یہاں عادی کو لے کر کیوں آئے تھے؟ " کردم ڈریسنگ روم سے شب خوابی کا لباس پہن کر باہر آیا تو آئینور پوچھ بیٹھی۔ دن بھر کام کرنے کے بعد اسے اب جا کر وقت ملا تھا۔

" اُسے تمہاری بہت فکر ہو رہی تھی، تو میں نے سوچا تم سے ملوا دیتا ہوں۔"

کردم بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا۔ بائیں جانب آئینور ڈائجسٹ لیے بیٹھی تھی۔

" آپ کو اُس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، میں ہوں اُس کی فکر کرنے کے لیے۔"

اس کی بات پر کردم نے کروٹ بدل کر چہرہ اس کی جانب کرلیا۔

" اچھا اس دن تو سوتیلا اور ناجائز جیسے القابات سے نواز رہی تھیں۔"

" میں نے بس غصّے میں بولا تھا۔ ویسے بھی میں اُس سے اُن باتوں کے لیے معافی مانگ چکی ہوں۔" وہ جتا کر بولی۔

" واقعی کبھی مجھ سے تو نہیں مانگی معافی اپنی کہی باتوں پر۔"

" کیونکہ آپ کا میری طرف کوئی حساب نہیں نکلتا۔ اگر میں کچھ کہتی ہوں تو آپ کبھی سر پر چوٹ دے کر تو کبھی سٹور میں بند کر کے حساب برابر کرلیتے ہیں۔" آئینور کی بات پر ایک جاندار مسکراہٹ کردم کے ہونٹوں کو چھو گئی۔

" اچھا ایک بات بتاؤ کیا واقعی تمہیں عادی کی پرواہ ہے؟ جبکہ وہ تمہارا سوتیلا بھائی اور ۔۔۔" دانستہ طور پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

" میں بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ میرا بھائی ہے۔ سوتیلا یا ناجائز ہونے میں اُس کا کیا قصور ؟ اُس نے خود اپنے لیے ایسی زندگی تھوڑی مانگی تھی۔ یہ تو بس ہم لوگوں کے دماغ کی خناس ہے، جو ایسے بچوں اور لوگوں کو حقارت سے دیکھتے اور گھن کھاتے ہیں۔"

آئینور کی بات پر وہ کافی دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر سیدھا ہو کر بائیں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔

آئینور بھی ڈائجسٹ رکھ کر، لائٹ بند کرتی سونے کے لیے لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی، جب کردم نے اسے بازو سے کھینچ کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔

"شب بخیر !! "

کردم نے کہہ کر آنکھیں موند لیں۔ اور وہ بس جھنجھلا کر رہ گئی۔


۔*************۔

زمین پر پڑتیں بارش کی بوندوں نے چاروں سو مٹی کی خوشبو کو پھیلا دیا تھا۔ کالے آسمان سے برستی بارش کا منظر دیکھنے والا تھا۔ ایسے میں نیند کی آغوش میں سوتی آئینور کے کانوں تک پہنچنے والی برستی بارش کی آواز نے خلل پیدا کیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔

اپنے گرد پھیلا کردم کا بازو آہستہ سے ہٹا کر وہ اُٹھ بیٹھی۔ چہرہ موڑ کر اپنے دائیں جانب بنی کھڑکی کی طرف دیکھا، جہاں پوری آب و تاب سے بارش برس رہی تھی۔ اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی اور بیڈ سے اُٹھ کر وضو بنانے کی غرض سے باتھ روم میں چلی گئی۔

وضو بنا کر باتھ روم سے باہر آئی اور کمرے میں ہی جائےنماز بچھا کر تہجد کی نماز ادا کرنے لگی۔ بارش بھی مسلسل برس رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید تیزی آتی جا رہی تھی۔

آئینور نے نماز ادا کرکے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی باہر برستی بارش کی جانب اُٹھ رہی تھیں۔ دعا مانگ کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جائےنماز اُٹھا کر ایک طرف رکھی پھر ایک نظر کردم پر ڈال کر، وہ شیشے سے بنے ٹیرس کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔

" رات ہو رہی ہے نور !! "

" بارش میں نہیں نہاؤ۔"

" بیمار پڑ جاؤ گی اندر آؤ۔"

بچپن کی بہت سی یادیں زہن کے پردے پر تازہ ہوئی تھیں۔ تبھی بےاختیار اس کے قدم اُٹھے اور وہ ٹیرس کے بیچوں بیچ جا کھڑی ہوئی۔ بارش تیزی سے اسے بھگو رہی تھی۔

" کیوں اتنی جلدی چھوڑ گئے مجھے؟ ایک بار تو میرے بارے میں سوچا ہوتا ماما۔ اب کون ہے میرا خیال کرنے والا، مجھے روکنے ٹوکنے والا۔۔۔ کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔ میں اکیلی رہ گئی ماما۔۔۔ میں اکیلی رہ گئی۔"

بارش کے ساتھ ساتھ آنسو بھی اس کے چہرے کو تیزی سے بھگو رہے تھے۔ دونوں ہاتھ اوپر اُٹھائے وہ بارش کے قطروں کو اپنے چہرے پر پڑنے دے رہی تھی۔ کتنا ہی وقت یوں ہی کھڑے گزر گیا، جب پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔

" یہاں کیا کر رہی ہو؟ چلو اندر بیمار پڑ جاؤ گی۔"

آئینور نے چہرہ موڑ کر دیکھا۔ ہاتھ میں چھتری لیے، کردم اس کے پاس آتا فکر مند لہجے میں بول رہا تھا۔

آئینور نے اپنے ہاتھ نیچے کر لیے اور پوری اس کی جانب مڑ کر کھڑی ہوگئی۔ اب وہ دونوں چھتری تلے کھڑے تھے۔

" اُٹھ کیوں گئیں؟ نماز پڑھنی تھی؟ "

کردم نے پوچھنے کے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ وہ بارش کے قطروں میں بھی اس کے آنسوؤں کو پہچان سکتا تھا۔ آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔

" بتاؤ اُٹھ کیوں گئیں؟ " وہ بہت نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

" نماز پڑھنی تھی۔" آئینور دھیرے سے بولی۔

" ٹھیک ہے !! چلو چل کر کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہو جاؤ گی۔" کہنے کے ساتھ ہی اس نے بائیں ہاتھ آئینور کے شانو پر پھیلایا اور اپنے ساتھ لگائے، چھتری تلے اندر کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ اس کا زہن ابھی کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔


۔*************۔


" چلو لڑکی یہ ناشتہ لیے جاؤ۔ کردم انتظار کر رہا ہوگا۔" آئینور سر ٹیبل پر جھکائے کرسی پر بیٹھی تھی جب سیما خالہ نے اس کے سامنے ناشتہ رکھا۔

" اچھا۔" وہ سر ٹیبل سے اُٹھا کر بولی۔

" تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا طبیعت ٹھیک نہیں؟ " اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر سیما خالہ فکر مند سی پوچھنے لگیں۔

" ارے !! کچھ نہیں ہوا، بس نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے۔" اس نے ٹالنا چاہا۔ حالانکہ رات بارش میں بھیگنے کے باعث اسے حرارت محسوس ہو رہی تھی۔

" اچھا چلو !! کردم کے جانے کے بعد آرام کر لینا۔"

" نہیں میں آج گھر جاؤ گی تو وہیں آرام کر لوں گی۔"

" چلو ٹھیک ہے۔ اچھی بات ہے مل آؤ گھر والوں سے۔" سیما خالہ مسکرا کر بولیں۔

آئینور بھی جواباً ہلکا سا مسکرا کر ناشتے کی ٹرے اُٹھاتی کچن سے نکل گئی۔


۔*************۔


وہ اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ جب آئینور ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔ ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔

کردم ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالتا اپنی تیاری میں لگا رہا۔ وہ جانتا تھا، آئینور اس سے کیا کہنے آئی ہے۔ کردم کے صبح اُٹھتے ہی وہ ایک ہی بات کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی، جسے وہ کئی بار رد کر چکا تھا۔

" مجھے گھر جانا ہے۔" کردم کچھ نہ بولا تو آئینور نے ہی بات کا آغاز کیا۔

" اور میں بھی منع کر چکا ہوں۔" وہ اطمینان سے بولا۔ لیکن آئینور کے اطمینان کو غارت کر گیا۔

" کیوں میں کہیں بھاگ نہیں رہی ہوں واپس آ جاؤں گی۔"

" وہ تو تمہیں آنا ہی ہے۔ راہِ فرار کا راستہ جو نہیں ہے۔"

" تو پھر آج جانے دینا، میں پھر کبھی جانے کا نہیں بولوں گی۔" وہ بےبسی سے بولی۔

کردم نے ایک نظر اسے دیکھا جو دنیا جہان کی پریشانی اپنے چہرے پر لیے اسے اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کردم نے گہرا سانس لے کر بالآخر ہتھیار ڈال ہی دیئے۔

" ٹھیک ہے۔ میں رحیم کو گھر پر ہی چھوڑ جاؤں گا، اُس کے ساتھ چلے جانا اور۔۔۔ اپنا موبائل دو۔"

آئینور نے اس کی آخری بات پر الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا مگر بولی کچھ نہیں، خاموشی سے موبائل سائڈ ٹیبل سے اُٹھا کر اسے پکڑا دیا۔

کردم نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر اپنا نمبر اس میں ڈالا اور اس کے موبائل سے اپنے نمبر پہ بیل دے کر موبائل واپس اسے پکڑا دیا۔

" میں نے اپنا نمبر ڈال دیا ہے اور تمہارا نمبر بھی میرے پاس آ گیا، اب اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے فون کر دینا۔ ٹھیک ہے؟ "

" ٹھیک ہے۔" آئینور نے کہتے ہوئے آنکھیں گھومائیں۔

" بھلا اپنے گھر میں کیسا مسئلہ؟ " وہ سوچ کر رہ گئی پر بولی کچھ نہیں۔


۔*************۔


آنکھوں میں آنسو لیے وہ اسٹیشن پر کھڑی تھیں۔ وہ دونوں ساتھ لاہور آئی تھیں اور اب وہ اکیلے واپس جا رہی تھیں۔

" میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تمہیں یہاں اکیلے چھوڑ کر جانے کو۔" رخسار بیگم افسردہ سی بولیں۔

" آپ میری فکر نہیں کریں اور پھر میں روز کال کروں گی نا۔" آئینور بےبسی سے انھیں سمجھانے لگی۔ وہ کل فون پر کافی دیر انھیں سمجھاتی رہی، لیکن آج پھر رخسار بیگم وہی باتیں لے کر بیٹھ گئی تھیں۔

" کیا ہو گیا یہ نور، یہ تو نہ سوچا تھا۔"

" کیا کر سکتے ہیں، جو ہونا تھا ہوگیا۔ بس اب سب فکروں کو ادھر ہی چھوڑ جائیں اور ہاں اب عادی گھر پر ہی رہے گا۔ آپ ہاسٹل نہیں بھیجئے گا۔ وہ آپ کے ساتھ ہوگا تو اس طرح میں بھی بے فکر رہوں گی۔" آئینور کی بات پر انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" آپی آپ بھی چلیں نہ ہم کہیں دور چلے جائیں گے، جہاں وہ ہمیں ڈھونڈ نہ سکے۔"

عدیل جو اتنی دیر سے خاموش کھڑا تھا، بالآخر بول اُٹھا۔

" نہیں عادی !! جہاں بھی جائینگے وہ ڈھونڈ نکالے گا، راہِ فرار بیکار ہے۔ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔"

" لیکن آپی۔۔۔"

" لیکن ویکن کچھ نہیں، بس اب جاؤ ٹرین چلنے ہی والی ہے اور ہاں ماما کا خیال رکھنا۔ میں روز فون کر کے پوچھا کروں گی۔"

" آپ فکر نہیں کریں میں خیال رکھوں گا۔ آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔" وہ کہہ کر اس کے گلے لگ گیا۔ آئینور نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

ایک دو اور باتوں کے بعد وہ اس سے گلے ملتے ٹرین میں بیٹھ گئے۔ ٹرین چلنا شروع ہوئی اور آئینور نم آنکھوں سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔

" کون جانے کونسا سفر آخری ہو

کون جانے پھر ملاقات ہو نہ ہو۔"


۔***************۔


" اووو رحیم دادا !! واپسی کب کی ہے؟ " رحیم آئینور کو اس کے گھر چھوڑ کر کچھ دیر پہلے ہی اڈے پر پہنچا تھا۔ کام سے فارغ ہو کر اب وہ تھوڑا آرام کرنے بیٹھا تو رحمت اور فاروق اس کے سر ہولیے۔

" کیا مطلب؟ " رحیم نے ناسمجھی سے پوچھا۔

"چھوڑ آئے ہو بیگم صاحبہ کو تو واپس بھی تو لینے جاؤ گے۔ میں تو کہتا ہوں اڈوں کا کام چھوڑ کر تو اُس اسلم کی بیٹی کا ملازم بن جا، اُس کے ہر کام کے لیے تجھے یاد کیا جاتا ہے۔" رحمت اس کا مزاق اڑاتے ہوئے بولا۔

" ہاں !! صحیح کہہ رہا ہے رحمت۔ تو اور غفار واقعی دادا کے پورے چمچے بن چکے ہو، تبھی اب اُس لڑکی کی غلامی بھی شروع کر دی۔"

فاروق کے لفظوں کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے سے بھی ناگواری واضح ہو رہی تھی۔

" بکواس بند کرو تم لوگ اپنی۔ میں اُس لڑکی کے کام دادا کے حکم پر کرتا ہوں۔ کردم دادا کے ساتھ نمک حرامی نہیں کر سکتا، ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں اُس لڑکی کا ملازم بنے میں۔" رحیم غصّے سے انھیں گھورتے ہوئے بولا۔

" ویسے مجھے اب پکا یقین ہو گیا ہے۔"

" کس بات پر؟ " رحمت کی بات پر رحیم نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا۔

"یہ ہی کہ دادا گیا کام سے۔ وہ اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا، تبھی تو یہ لڑکی یہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہی۔"

" بالکل۔" فاروق بھی رحمت کی تائید کرتے ہوئے بولا۔

" مجھے بھی یہ ہی لگتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیاں آئیں ایک رات سے زیادہ نہ ٹک سکیں۔ خیر !!

یہ دادا اور اُس لڑکی کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے دور ہی رہنا چاہیئے، ورنہ یہ ہمارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوگا۔"

رحیم کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان کی باتوں میں کافی وقت گزر چکا تھا۔ اب وہ آرام کیا خاک کرتا۔


۔***************۔


شام کے سائے چاروں طرف پھیل چکے تھے۔ ایسے میں وہ اس بند گھر کے سامنے کھڑی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ رحیم کے جانے کے بعد وہ رخسار بیگم اور عدیل کے ساتھ انھیں چھوڑنے اسٹیشن چلی گئی تھی۔ مگر اب ایک بار پھر وہ اسی گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ ان دونوں کو رخصت کر کے وہ واپس ادھر آگئی تھی۔ جہاں "ماہ نور" نے آخری بار سانس لی اور پھر ہمیشہ کے لیے ہی سانس لینا چھوڑ دی۔

" اووو ماما !! یہ کیا ہوگیا۔ آج یہ گھر بھی میری زندگی کی طرح ویران ہوگیا۔"

خیالوں میں ماں کو مخاطب کرتی، ساتھ ہی دروازے کو تالے سے آزاد کر کے وہ اندر داخل ہوئی۔ جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ موبائل کی مدھم روشنی میں وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اندھیرے اور سر درد کے باعث کچھ بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کا بخار بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ رخسار بیگم اور عدیل کو بھی جھوٹ بولا کر بھیلا پھسلا لیا تھا۔ مگر اب بخار شدت اختیار کر رہا تھا۔

وہ لائٹ جلانے کے لیے تیزی سے آگئے بڑھ رہی تھی، جب کسی چیز سے ٹکرا کر زمین بوس ہوگئی۔ موبائل بھی ہاتھ سے گر کر بند ہو چکا تھا۔

" آاااہ !! " وہ کراہی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی آنکھیں بند کر گئی۔


۔****************۔

دروازہ کھلا اور گاڑی آگے بڑھتی سیدھا پورچ میں جا کر رکی۔ غفار فوراً گاڑی سے نکل کے کردم کی جانب گیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی اس کی نظر سیدھا دروازے پر جا رکی۔ ایک بار پھر وہ جگہ خالی تھی۔

" کیا وہ ابھی تک نہیں آئی؟ مگر رحیم تو اڈے پر سے کافی دیر پہلے ہی اُسے لینے کے لیے نکل چکا تھا۔ شاید اندر ہو۔" کردم سوچتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر سیما خالہ پر پڑی جو اپنے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں۔

" بیٹا تمہارے ساتھ آئینور نہیں آئی؟ " سیما خالہ بھی اسے اندر آتے دیکھ چکی تھیں، اس لیے فوراً پوچھ بیٹھیں۔

" کیا مطلب رحیم اسے لے کر نہیں آیا۔۔۔؟ جبکہ وہ تو پہلے ہی اُسے لینے نکل گیا تھا۔" کردم ماتھے پر بل ڈالے بولا۔ اسے غصّے میں دیکھ کر سیما خالہ گھبرا گئیں۔

" وہ میں نے رحیم کو کہا تھا، ابھی وہ آئینور کو لینے نہ جائے۔"

" کیوں؟ " اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔

" وہ دراصل رحیم تو یہاں آیا تھا، اُسے لینے جانے کیلئے مگر آئینور نے کہا تھا، جب اُسے آنا ہوگا وہ فون کر کے بتا دے گی۔ اس لیے میں نے رحیم کو منع کر دیا۔ میں کافی دیر اُس کے فون کا انتظار کرتی رہی لیکن اُس کا فون ہی نہیں آیا۔ میں نے بھی کافی دفعہ کوشش کی فون کرنے کی پر اُس کا فون بھی بند جا رہا تھا۔" سیما خالہ ڈرتے ہوئے بولیں۔

" تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟ یا پھر رحیم کو ہی بھیج دیتی اُسے لینے۔" وہ چلا اُٹھا۔

" بیٹا اتنی رات ہوگئی تو مجھے لگا شاید تم اُسے لینے چلے گئے ہو۔" سیما خالہ بس رونے کو تھیں۔ ان کو مزید کردم کے سامنے کھڑے رہنا مشکل لگ رہا تھا۔

" ٹھیک ہے !! میں دیکھتا ہوں، آپ جائیں۔" سیما خالہ کی حالت دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑا۔ سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی فوراً وہاں سے چلی گئیں۔


۔**************۔


گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ وہ پچھلی نشست پر بیٹھا مسلسل کال کرنے میں مصروف تھا۔ لیکن دوسری طرف سے فون کے بند ہونے کی خبر ہی مل رہی تھی۔

" تیز چلاو غفار۔"

" جی۔" اثبات میں سر ہلا کر غفار نے مزید رفتار تیز کر دی۔

تنگ گلیوں سے گزر کر گاڑی اس درمیانے طبقے کے گھر کے سامنے جا رکی۔

" تم یہیں رکو میں دیکھتا ہوں۔" کردم کہہ کر گاڑی سے اُتر گیا، اور اپنے قدم دروازے کی جانب بڑھا دیئے۔

دروازے پر پہنچ کر اس نے بیل بجائی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ وہ تھوڑی دیر کھڑا انتظار کرتا رہا لیکن جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ اندر قدم رکھتے ہی اندھیرے نے اس کا استقبال کیا تھا۔ کردم نے موبائل نکال لیا اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے لگا۔

" نور !! "

" نور۔۔۔ عادی۔۔۔" وہ آوازیں دیتا آگے بڑھ رہا تھا کہ تبھی کسی چیز سے ٹکرا کر رک گیا۔ موبائل کی روشنی نیچے فرش پر ماری تو دنگ رہ گیا۔

" نور !! "

آئینور کا تپتا ہوا، بے ہوش وجود زمین پر پڑھا تھا۔ کردم فوراً نیچے بیٹھ کر اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا، ساتھ میں اسے آوازیں بھی دے رہا تھا۔

" نور !! آنکھیں کھولو نور۔۔۔ نور۔ "

کردم نے اسے کتنی ہی آوازیں دے ڈالیں مگر اس کے بے سود وجود میں زرا بھی جنبش نہ ہوئی۔

اس نے آئینور کو بازوؤں میں اُٹھا لیا اور تیزی سے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیئے۔

غفار جو گاڑی سے باہر کھڑا ان لوگوں کے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ آئینور کو کردم کے بازوؤں میں دیکھ کر فوراً گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔

کردم نے گاڑی کے پاس پہنچ کر آئینور کو پچھلی نشست پر لیٹا دیا، اور خود بھی وہیں بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔

" جلدی گھر چلو۔"

" جی دادا۔"

غفار ان کی طرف کا دروازہ بند کرتا فوراً آ گے آ کر بیٹھ گیا اور گاڑی کو اسٹارٹ کر کے گھر کے راستے پر ڈال دیا۔


۔***************۔


وہ کوٹھری نما کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھا تھا سامنے ایک لکڑی کی ٹیبل موجود تھی، جس کے دوسری طرف ایک اور کرسی رکھی گئی تھی۔ ٹیبل کے اوپر ایک بلپ جل رہا تھا، جس کی روشنی محض ٹیبل تک موجود تھی۔

وہ سگریٹ کے کش لیتا غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے بیٹھا تھا، جب آہٹ پر چہرہ موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ جہاں سے وہ شخص چلتا ہوا اس کے پاس آرہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ اس نے اُس شخص کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

" پاشا بھائی !! تم یہاں۔۔۔"

" ہاں کیوں یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ " وہ ٹیبل پر کوہنیوں کو رکھ کر آگے کو جھکا۔

" میرا مطلب ہے۔ تم تو انڈیا چلے گئے تھے نا؟ " سامنے بیٹھا شخص حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

کس نے کہا میں انڈیا چلا گیا۔۔۔؟ میں نے تو ایسا نہیں کہا۔" پاشا گہری مسکراہٹ لیے بولا۔

" تو پھر۔۔۔"

" میں نے تمہیں یہاں کام کے لیے بلایا ہے۔ یہ فضول باتیں کرنے نہیں۔" پاشا سامنے بیٹھے شخص کی بات کاٹتا ہوا بولا۔

" کیسا کام؟ " اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

" وہ لڑکی کون ہے؟ "

" کونسی لڑکی؟ "

سامنے بیٹھے شخص کو سمجھ نہ آیا پاشا کس کی بات کر رہا ہے۔

" وہ ہی لڑکی جو کردم دادا کے گھر پر موجود ہے۔"

" میں نہیں جانتا۔" سامنے بیٹھا شخص فوراً بولا۔

" جھوٹ مت بولو۔ مجھے معلوم ہے تم سب جانتے ہو۔" پاشا نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

" مجھے نہیں معلوم، اگر ہوتا بھی تو میں بھلا تمہیں کیوں بتاتا؟ "

اب کی بار سامنے بیٹھے شخص کے ماتھے پر بل پڑے۔

" یاد ہے تمہیں، جب تمہاری ماں بیمار تھی اور تم اُس کے پاس جانا چاہتے تھے مگر۔۔۔ کردم دادا نے تمہیں اپنے اڈے کے کام سنبھالنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف تمہاری ماں تمہیں یاد کرتی اس دنیا سے چل بسی۔ یاد ہے تمہیں؟ "

پاشا کہہ کر واپس پیچھے ہوا اور کرسی سے پُشت ٹکا دی۔

" یاد ہے۔ لیکن اس سب کا ان باتوں سے کیا تعلق؟ " سامنے بیٹھا شخص ناگواری سے بولا۔

" تعلق ہے، بہت گہرا تعلق ہے۔ تم چاہو تو کردم سے اُس بات کا بدلہ لے سکتے ہو۔ آخر کو ہم غنڈے بھی انسان ہوتے ہیں۔ دنیا والوں کے لیے کتنے ہی بے رحم سہی مگر گھر والوں کی پرواہ ہمیں بھی ہوتی ہے۔ کیا تمہارا دل تمہیں ملامت نہیں کرتا کہ کاش اپنی ماں کے آخری وقت میں تم اُن کے ساتھ ہوتے۔" پاشا نے اُسے جزباتی کرنا چاہا۔

وہ شخص خاموش رہا۔

" بولو چپ کیوں ہوگئے؟ " اسے خاموش بیٹھا دیکھ پاشا پھر بولا۔

" اس سب سے تمہیں کیا فائدہ حاصل ہونا ہے۔۔۔؟ پاشا بھائی !! "

سامنے بیٹھا شخص طویل خاموشی کے بعد گویا ہوا۔

" میرے نہیں اپنے فائدے کی سوچو۔ اگر تم میرے لیے کام کرنے کو تیار ہو جاؤ تو کردم دادا سے دوگنی رقم تمہیں ہر ماہ ادا کروں گا اور اس طرح اپنی ماں کا بدلہ بھی تم کردم دادا سے لیے سکو گے۔" کہنے کے ساتھ ساتھ پاشا مسلسل سگریٹ کے کش بھی لے رہا تھا۔

" مجھے کرنا کیا ہوگا؟ " وہ خاموشی سے پہلے سوچتا رہا پھر بولا۔

" وہ لڑکی کون ہے اور کردم دادا سے اُس کا کیا تعلق؟ " پاشا کے پوچھے گئے سوال پر سامنے بیٹھے شخص نے اسلم کے قصّے سے لے کر اب تک کی ساری باتیں (جو وہ جانتا تھا) اس کے گوش گزار کر دیں۔

" ٹھیک ہے !! تم بس کردم دادا اور اس لڑکی کی پل پل کی خبر مجھے دو گے۔ کردم دادا کے ساتھ رہ کر میرے لیے کام کرو۔ اس کے بدلے ہر ماہ تمہیں دوگنی رقم ادا کی جائے گی۔"

" اگر میں ایسا نہ کروں تو؟ "

" تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔" پاشا کی بات پر وہ شخص خاموشی سے اسے دیکھتے رہا۔ یہ بات تو وہ بھی جانتا تھا۔ پاشا اپنا آپ اس کے سامنے کھول چکا تھا، اس لیے انکار کی صورت موت تھی۔

" ٹھیک ہے، میں تیار ہوں۔ تمہیں ان دونوں کی خبر دیتا رہوں گا۔"

اس کی بات پر ایک جاندار مسکراہٹ پاشا کے لبوں کو چھو گئی۔

" اب میں چلتا ہوں۔" سامنے بیٹھا شخص اُٹھ کھڑا ہوا۔

" ٹھیک ہے۔" پاشا اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

وہ شخص مصافحہ کرتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

پاشا سگریٹ کے کش لیتا اسے دور جاتے دیکھتا رہا پھر دھیرے سے بڑبڑایا۔

" اگر تم سونیا پر گولی نہ چلاتے تو شاید یہ لڑائی وہیں ختم ہو جاتی۔ مگر اب میں تمہیں کسی صورت نہیں بخشنے والا کردم دادا۔ بہت جلد تمہاری کمزوری میرے ہاتھ ہوگی اور تب تم بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑپھڑاتے نظر آؤ گے۔"


۔**************۔


سیما خالہ لاؤنج میں پریشانی سے چکر کاٹ رہی تھیں، جب وہ آئینور کو بازوؤں میں اُٹھائے گھر میں داخل ہوا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔

آئینور کو یوں کردم کی بانہوں میں بے ہوش دیکھ وہ بھی ان کے پیچھے ہولیں۔

" کیا ہوا اسے بیٹا؟ " وہ کمرے میں آ کر فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔

" پتا نہیں۔ آپ نے ڈاکٹر کو فون کیا؟ "

کردم راستے میں ہی انہیں فون کر کے ڈاکٹر کو بلانے کا بول چکا تھا، اس لیے پوچھ بیٹھا۔

" ہاں بس آتی ہی ہوگی، میں نیچے جا کر دیکھتی ہوں۔" سیما خالہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ وہ بیڈ پر بیٹھا سامنے بے سود پڑے آئینور کے وجود کو بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔

" کیا ہوگیا تمہیں نور۔۔۔؟ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہا کہ تبھی سیما خالہ ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔

آئینور کے مکمل چیک اپ کے بعد ڈاکٹر دوائیاں لکھ کر انہیں ہدایت دینے لگیں۔

" چیک اپ میں نے کر لیا ہے۔ بخار اور ٹھیک سے خوراک نہ لینے کے باعث کمزوری ہوگی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوگئیں۔ میں نے انہیں انجیکشن لگا دیا ہے۔ آپ انہیں دوائی وقت پر دے گا اور ان کی خوراک کا بھی ٹھیک سے خیال رکھیے گا۔ انشاءاللّٰه جلدی ٹھیک ہوجائیں گی۔"

ڈاکٹر اپنے پیشہ وارانہ انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ سیما خالہ ڈاکٹر کو چھوڑ کر تھوڑی دیر بعد واپس کمرے میں آئیں تو ان کے ہاتھ میں دوائیوں کا شاپر تھا۔

" کیا یہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی؟ " کردم نے انہیں اندر آتے دیکھ فوراً پوچھا۔

" بیٹا کھاتی تو ہے۔ لیکن بہت کم، دوپہر میں تو اکثر چھوڑ دیتی ہے۔" سیما خالہ آہستہ آواز میں بولیں۔ اب بھی ان پر کردم کے غصّے کا اثر تھا۔

" ایک تو اس کا حرام کمائی سے فوبیا۔"

کردم بڑبڑایا۔ اسے زرا دیر نہ لگی تھی، آئینور کے کھانا نہ کھانے کی اصل وجہ جانے میں۔

" ٹھیک ہے یہ دوائیاں یہیں رکھ دیں اور اب آپ بھی جا کر آرام کریں۔"

سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی دوائیاں رکھ کر فوراً وہاں سے نکل گئیں۔ ان کے جانے کے بعد کردم آئینور کے ساتھ ہی لیٹ گیا اور اس کی طرف کروٹ لے کر اس کے معصوم چہرے کو دیکھنے لگا۔


۔*************۔


" عادی میں کہہ رہی ہوں نا، تم آئینور کو فون لگاؤ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ وہ ٹھیک نہیں ہے۔"

رخسار بیگم پریشانی سے بولی۔ وہ ماں نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ ماں کی طرح ان کا خیال رکھا تھا۔

" ماما یہ آپ کا وہم ہے۔ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟ " عدیل سمجھاتے ہوئے بولا۔

" نہیں !! میرا دل کہہ رہا ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ تم۔۔۔ تم اُسے فون کرو، میری بات کروا دو۔"

" اچھا آپ فکر نہیں کریں، اتنی رات ہو رہی ہے اب تک وہ سو چکی ہونگی۔ میں کل صبح ہی آپ کی بات کرواتا ہوں۔"

دل تو نہیں مان رہا تھا، پر عدیل کی بات پر وہ خاموش ہوگئیں۔ ابھی وہ خود بھی سفر میں تھیں، اس لیے ناچار دل کو سمجھانا پڑا۔


۔**************۔


اس کی آنکھ دوپہر کے دو بجے کھلی۔ وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی کہ تبھی نظر صوفے پر بیٹھی سیما خالہ پر پڑی، جو ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھنے میں لگی تھیں۔

" سیما خالہ !! " اس نے دھیرے سے آواز دی۔

سیما خالہ نے اس کی آواز پر فوراً مڑ کر اسے دیکھا اور اُٹھ کر اس کے پاس جا بیٹھیں۔

" اُٹھ گئی۔" وہ پیار سے بولیں۔

" میں اتنی دیر تک سوتی رہی آپ نے اُٹھایا کیوں نہیں؟ " وہ اُٹھتے ہوئے بولی۔

"کردم نے کہا تھا تمہیں آرام کرنے دوں، اس لیے وہ تمہیں اُٹھائے بغیر ہی صبح چلا گیا۔"

" اچھا۔"

" تم منہ ہاتھ دھو لو۔ میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔" وہ اس کے سر پر پیار کرتیں، کھانا لینے چلی گئیں۔

آئینور بھی اُٹھ کر باتھ روم میں گھس گئی۔


۔***************۔


" تو تم آج واپس جا رہے ہو؟ " کردم اس وقت آغا حسن کے ساتھ اڈے پر موجود تھا۔ آج وہ واپس انڈیا جا رہا تھا اس لیے کردم سے ملنے اڈے پر چلا آیا۔

" ہاں !! اس لیے سوچا تم سے مل لوں۔" وہ مسکراتے چہرے سے بولا۔

" اچھا کیا۔" کردم نے کہہ کر بائیں جانب دیکھا۔ جہاں رحمت، رحیم، فاروق اور باقی سارے ماتحت ٹرک میں سامان لوڈ کروا رہے تھے۔ وہیں دائیں جانب غفار مال اپنی زیرِ نگرانی میں اڈے کے ایک کمرے سے نکلوا کر ٹرکوں کی طرف رکھوا رہا تھا۔

" چلو آؤ یہاں بہت شور ہے۔ بیٹھک میں چلتے ہیں۔" کردم نے کہہ کر قدم بیٹھک کی جانب بڑھا دیئے۔ آغا حسن بھی اس کے پیچھے چل دیا۔

" بیٹھک میں داخل ہو کر وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

کچھ پینے کو ہی منگوا دو۔"

" دوپہر میں بھی تمہیں سکون نہیں۔"

کردم نے کہہ کر غفار کو کال ملا دی۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک ملازم ٹرے ہاتھ میں لیے داخل ہوا۔ جس میں شراب کی بوتل اور گلاس موجود تھے۔

" لو شروع کرو۔" کردم نے بوتل اور گلاس اس کے سامنے رکھ دیئے۔ آغا نے دو گلاس بھر کر ایک گلاس کردم کے آگے کر دیا۔

" شکریہ !! "

کردم نے کہہ کر ہاتھ گلاس کی طرف بڑھایا کہ تبھی ایک جھماکے سے آئینور کی بات یاد آئی۔

" میں کبھی اپنی زندگی میں ایک باپ کی ایسی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ جو شراب کے نشے میں یہ تک بھول گیا، سامنے کھڑی لڑکی اس کی اپنی بیٹی ہے۔"

کردم نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ وہ تو اب آئینور کے ساتھ آگے بڑھ چکا تھا۔ اس کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کر چکا تھا۔ وہ ایک ایسا باپ نہیں بنا چاہتا تھا، جو کسی سانپ کی طرح اپنی ہی اولاد کو نگل لے۔

" کیا ہوا۔۔۔ تم پی نہیں رہے۔" آغا نے اسے ہاتھ پیچھے کرتے دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔

" نہیں !! مجھے کچھ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔" کردم کو ایکدم گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔

" کیا ہوا۔۔۔؟ ابھی تو تم ٹھیک تھے۔"

" پتا نہیں۔ خیر !! اسے چھوڑو اور بتاؤ کتنے بجے تک انڈیا کے لیے نکلو گے؟ " کردم نے موضوع بدل دیا۔ اب وہ دونوں آغا کے سفر کے متعلق بات کر رہے تھے۔


۔***************۔

" چلو تم اب آرام کرو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔" سیما خالہ کھانے کے برتن اُٹھاتے ہوئے بولیں۔ کردم کی ہدایت کے مطابق انہوں نے زبردستی اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا تھا۔

" نہیں اب کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ بھی جا کر آرام کریں۔" آئینور لیٹتے ہوئے بولی۔

" اچھا !! چلو تم آرام کرو اور ہاں کردم کو فون کر لینا۔ اُس نے کہا تھا جب تم اُٹھ جاؤ تو تمہیں بول دوں۔"

" ٹھیک ہے میں کر دونگی آپ کے لاڈ صاحب کو فون۔"

آئینور کی بات پر وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ ان کے جانے کے بعد آئینور نے فون کرنے کے لیے اپنا موبائل ڈھونڈنا چاہا پر وہ وہاں موجود نہیں تھا۔

" اففففف !! میرا فون کہاں گیا؟ " وہ سائڈ ٹیبل کی درازیں دیکھنے لگی پر وہاں بھی نہیں تھا۔

" لگتا ہے کل گھر پر ہی رہ گیا۔" آئینور ڈھونڈنے کی کوشش ترک کرتی واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔

" اب کیا کروں؟ ماما کو بھی کال کرنی تھی۔" وہ خود سے ہی سوال کرتی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ کچن میں جا کر اس نے سیما خالہ کو دیکھا پر وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔

" شاید اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہوں۔"

وہ سوچتے ہوئے لاؤنج میں چلی گئی اور وہاں لگے ٹیلی فون سے اس نے کردم کو کال ملا دی۔


۔****************۔


آغا حسن کچھ دیر پہلے ہی اڈے سے گیا تھا۔ اب بیٹھک میں صرف کردم موجود تھا۔ جو سر جھکائے بیٹھا حساب کتاب دیکھ رہا تھا۔ لیکن زہنی طور پر وہ آئینور کو سوچ رہا تھا۔

" وہ وہاں اکیلی کیوں تھی اور وہ دونوں کہاں گئے؟

کیا واپس چلے گئے؟ اگر ہاں تو پھر آئینور جھوٹ بول کر کیوں گئی؟ "

کچھ دیر ہونہی بیٹھا سوچتا رہا جب دروازہ کھول کر ایک خوبصورت سی لڑکی چُست لباس زیب تن کیے اندر داخل ہوئی۔

دروازہ کھولنے کی آواز پر کردم نے سر اُٹھا کر دیکھا تو وہاں " لیلہ" تھی۔ کردم کو زرا دیر نہیں لگی تھی، اسے پہچان نے میں۔ یہ وہی تھی، جس سے آغا کے گھر سے نکلتے وقت ٹکرایا تھا۔ اور اس کی شرٹ پر لپ اسٹک کا نشان لگ گیا تھی۔

" ہائے !! " وہ اس کے سامنے بیٹھتی ایک ادا سے بولی۔

" تم کون اور یہاں کیا کرنے آئی ہو؟ " کردم روکھائی سے کہتا جان کر بھی انجان بن گیا۔

" ارے !! آپ تو بھول ہی گئے یاد ہے۔ آغا حسن کے گھر سے نکلتے وقت آپ مجھ سے ٹکرا گئے تھے۔" اس نے کہتے ہوئے بالوں کو پیچھے جھٹکا دیا۔

" تو؟ " کردم کی بیزاری عروج پر تھی۔

" تو بس سوچا اس چھوٹی سی ملاقات کو تھوڑا آ گے لے جائیں۔ اس لیے آپ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے یہاں تک پہنچ گئی۔" وہ مسکرا کر بولی۔

کردم سمجھ گیا تھا۔ یہ معلومات اس نے آغا یا اس کے گھر کے کسی ماتحت سے حاصل کی ہوگی۔

" اب تم۔۔۔"

کردم بول نے ہی لگا تھا، جب اس کی جیب میں رکھا موبائل وائبریٹ ہونے لگا۔ موبائل نکال کر دیکھا تو گھر سے کال تھی۔ وہ پریشان ہوگیا۔ پہلا خیال اسے آئینور کی طبیعت کے خراب ہونے کا آیا تھا۔ لمحے کی دیر کیے بغیر اس نے کان سے لگی بلیو ٹوتھ کے زریعے کال ریسیو کی۔

" ہیلو !! " کانوں میں پڑتی آئینور کی آواز رس گھول گئی۔ جس کے باعث کردم کا سارا غصّہ ( جو آئینور پر تھا ) جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ پریشانی بھی یکدم غائب ہوگئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

" کیسی ہو تم؟ "

" میں ٹھیک ہوں۔" آئینور دھیرے سے بولی۔

اور اُدھر کردم کے سامنے بیٹھی لیلہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کردم کے موبائل پر آتی کال نہیں دیکھ سکی، اس لیے وہ یہ ہی سمجھی کہ کردم اس سے مخاطب ہے۔

" تو آپ نے پہچان ہی لیا جناب !! ۔۔۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔" وہ کردم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی اور کردم بظاہر تو یوں لگ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہا ہے مگر۔۔۔ اس کی نظریں دروازے کی طرف تھیں، گویا یوں جیسے آئینور کو دیکھ رہا ہو۔

" وہ میرا سامان گھر پر رہ گیا اور موبائل بھی، آپ کسی سے منگوا دیں۔" دوسری طرف آئینور نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

" ٹھیک ہے۔"

کردم کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ سامنے بیٹھی لیلہ بھی کھڑے ہو کر اس کے قریب آگئی۔

ادھر آئینور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بات کرے۔ فون بھی کاٹ نہیں سکتی تھی، کیونکہ اپنی بات کہہ کر فون بن کردینا بھی خودغرضی تھی۔ اس لیے بنا سوچے سمجھے پوچھ بیٹھی۔

" کب تک آئینگے آپ؟ "

اس کی بات پر کردم کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔ جس کی وجہ سے لیلہ جو اس کے قریب ہو کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اسے مزید ڈھارس ملی۔

" کیا ہم آج مل سکتے ہیں؟ "

وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتی ایک ادا سے پوچھنے لگی۔ مگر وہاں ہوش کسے تھا۔۔۔؟ لاڈ صاحب تو ارد گرد سے بے نیاز پوری طرح اپنی نور کی جانب متوجہ تھے۔

" گیارہ بارہ بجے تک۔"

اس نے آئینور سے جھوٹ بولا۔ جبکہ وہ یہاں سے نکلنے کی ہی کر رہا تھا اور ادھر اس کی بات پر لیلہ جھوم ہی اُٹھی، پھر چہکتی ہوئی آواز میں بولی۔

" ٹھیک میں آ جاؤں گی۔"

آئینور جو آگے کچھ بولنے کے لیے سوچ ہی رہی تھی، دوسری طرف سے آتی لڑکی کی آواز سن کر ٹھٹھک گئی۔ اس نے ریسیور کان سے ہٹا کر اسے گھورا اور ٹیلی فون پر پٹخ کر واپس کمرے کی جانب چل دی۔ اسے بُرا لگا تھا، لیکن کیوں اسے خود بھی سمجھ نہ آیا۔

وہاں کردم جو آئینور سے مزید کچھ سننے کا منتظر تھا۔ فون کے بند ہونے پر بدمزہ ہوگیا۔

" یہ بھی نا !! " وہ بڑبڑایا۔

" کیا ہوا ؟ "

لیلہ کے پوچھنے پر وہ چونک کر ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا، تبھی لیلہ کا ہاتھ اسے اپنے بازو پر محسوس ہوا۔ اس نے چہرہ موڑ کر لیلہ کی طرف دیکھا جو بالکل اس کے پاس کھڑی تھی، پھر بازو کی طرف جہاں لیلہ کا ہاتھ دھرا تھا۔ اس نے فوراً لیلہ کا ہاتھ ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر۔۔۔ کلائی تک جاتا ہاتھ یکدم رکا۔ کردم نے لیلہ کی شرٹ کی آستین کو کونے سے پکڑ کر ہاتھ جھٹک دیا اور اپنا سامان اُٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔


۔****************۔


وہ کمرے میں آ کر سیدھا بیڈ پر جا لیٹی۔ دل ایکدم ہی بوجھل سا ہوگیا تھا۔ اسے رونا آ رہا تھا، لیکن رونا کیوں آ رہا تھا۔۔۔ یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

" تو مس آئینور اسلم !! اگر آپ خوش میں مبتلا ہورہی تھیں، تو دیکھ لیں۔ اللّٰه نے اس خوش فہمی کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی حقیقت کو سامنے کر دیا۔

آخر میرے باپ نے بھی کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر بھی وفا اور محبت نہ دی تو اُس کی اپنی بیٹی کو پھر کیسے ملے گی؟

میری ماں بھی خالی ہاتھ رہی اور اب مجھے بھی خالی ہاتھ ہی رہنا ہے، تو پھر رونا کیسا۔۔۔ یہ دکھ درد کیسا۔"

آئینور نے تلخی سے سوچتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے۔ مگر دل میں اُٹھتی تکلیف کو کیسے روکتی۔ کافی دیر تک وہ یونہی لیٹی سوچ کے گھوڑے دوڑاتی رہی کہ اچانک سیما خالہ دروازے پر دستک دے کر اندر آئیں۔

" لڑکی یہ سامان رحیم دے کر گیا ہے۔"

سیما خالہ کی بات پر آئینور نے چہرہ موڑ کر ان کی طرف دیکھا۔

" کیا ہوا تمہیں؟ "

اس کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر وہ فکر مند ہوتی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

" کچھ نہیں !! بس بخار کی وجہ سے۔" اس نے بہانہ بنایا۔

" ٹھیک ہے !! تم آرام کرو میں زرا کھانے کا انتظام کروں۔"

وہ اسے سامان دے کر واپس چلی گئیں۔

آئینور نے موبائل اُٹھا کر اون کیا تو عدیل کے لاتعداد میسج موصول ہوئے۔

" افففف !! یقیناً وہ لوگ پریشان ہو رہے ہونگے۔" اس نے بڑبڑاتے ہوئے کال ملا دی۔

دوسری طرف پہلی بیل پر ہی فون اُٹھا لیا گیا۔

" ہیلو آپی !! "

عادی کی آواز اسپیکر میں ابھری۔

" السلام علیکم !! کیسے ہو عادی تم؟ "

" وعلیکم السلام !! میں ٹھیک ہوں۔ لیکن آپ کیسی ہیں؟ صبح سے فون اور میسجز کر کے تھک گیا مگر آپ کا موبائل ہی بند جا رہا تھا۔"

عدیل کے فکر مند لہجے پر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔

" میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔ تم اپنی بتاؤ سفر کیسا رہا؟ " اس نے بات بدلی۔

" سفر ٹھیک تھا، ہم خیریت سے گھر پہنچ گئے تھے۔"

" یہ تو اچھی بات ہے۔ چلو اب میری ماما سے بات کرواؤ۔"

" ہاں !! بات کریں۔ وہ ویسے ہی کل سے آپ کے لیے پریشان ہو رہی ہیں۔" عدیل نے کہہ کر فون رخسار بیگم کو پکڑا دیا۔

" کیسی ہو نور؟ " بغیر کسی سلام دعا کے وہ بے صبری سے پوچھنے لگیں۔

"میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہونا ہے؟ " اس نے ضبط سے کہا، ایک بار پھر آنکھیں جھلکنے کو بیتاب تھیں۔

" تمہاری آواز سے تو ایسا نہیں لگ رہا۔" وہ کسی بھی طور مانے کو تیار نہیں تھیں۔

"میں۔۔۔ میں آپ لوگوں کے پاس آنا چاہتی ہوں ماما۔" بالآخر اس کا ضبط ٹوٹا۔ وہ رو دی۔

" کیا ہوا ہے؟ بتاؤ مجھے کردم نے کچھ کہا؟ " وہ پریشانی سے بولیں۔

" نہیں !! اُس نے کچھ نہیں کہا، بس مجھے یاد آ رہی ہے آپ دونوں کی۔"

وہ خود کو سنبھالتی ہوئی بولی۔ اس کی بات پر رخسار بیگم کی فکر کچھ کم ہوئی۔ وہ مسکرا دیں۔

" کل ہی تو ہم وہاں سے آئے ہیں، اور تمہیں یاد بھی ستانے لگ گئی۔ اب ہماری فکر چھوڑو اور شوہر پر دھیان دو۔" ان کی بات پر آئینور کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔

"وہ میرا شوہر نہیں ہے۔ سمجھتی کیوں نہیں آپ؟ " وہ جھنجھلا اُٹھی۔

" تم پھر وہی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو نور۔" رخسار بیگم سدمے سے بولیں۔ انہیں تو لگا تھا۔ وہ اس رشتے کو قبول کر چکی ہے، مگر وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔

" وہیں باتیں !! یہ حقیقت ہے ماما، جو بدل نہیں سکتی۔ میں کردم جیسے شخص کو شوہر مان لوں۔ جس کے نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوں گے اور نہ جانے کس کس سے اس کی ناجائز اولادیں اس دنیا میں سانس لیتی ہوں گی۔" ایک بار پھر اس کی زبان بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔

اور اُدھر کمرے کے دروازے پر کھڑا کردم اس باتوں پر ساکت رہ گیا۔ وہ اس قدر اس سے بدگمان تھی۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔ آئینور کی طبیعت کے باعث وہ جلدی آ گیا تھا۔ لیکن اب اس کے لفظوں نے کردم کے اندر وہ ہمت باقی نہیں رہنے دی تھی، جس سے وہ اس کا سامنا کرتا۔ وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا۔

دوسری طرف آئینور رخسار بیگم سے باتوں میں لگی رہی۔ یہ جانے بغیر اس کی باتوں نے کسی کا دل چیر کر رکھ دیا ہے۔


۔***************۔


وہ بلاوجہ ہی سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔ آئینور کی باتوں نے تکلیف پہنچائی تھی، اس لیے وہ اکیلا ہی نکل آیا تھا۔ غفار نے اس کے ساتھ آنا چاہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اسے گاڑی یوں ہی سڑکوں پر دوڑاتے تقریباً دو گھنٹے گزر نے والے تھے جب اس نے گاڑی لے جا کر " بازارِ حُسن " کی گلیوں میں روک دیا۔

وہ گاڑی میں بیٹھا سامنے نظر آتی بازارِ حُسن کی ان تنگ گلیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں دن میں تو سناٹا چھایا رہتا تھا۔ لیکن رات میں یہاں رونق لگی ہوئی ہوتی تھی۔ ابھی بھی ان گلیوں میں ادھر سے اُدھر گھومتی دوشیزائیں اپنے حُسن کے جلوئے بکھیر رہی تھیں۔ لائٹس کے زریعے گلیوں میں چھت سی بنائی ہوئی تھی۔ جو جگمگا کر ان گلیوں کی رونق کو اور بھی بڑھا رہی تھیں۔

وہ گاڑی سے باہر نہیں نکلا بس وہیں بیٹھا لوگوں کو ادھر سے اُدھر جاتے دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سے اس کا بہت گہرا تعلق تھا۔

" تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو نور؟ "

وہ نظریں ان لائٹس سے بنی چھت پر جمائے اپنے خیالوں میں آئینور سے مخاطب ہوا۔

" مانا تم زبان کی تیز ہو۔ بنا سوچے سمجھے بول جاتی ہو۔

اور اب تک تم نے مجھے اور عادی کو جو کچھ غصّے میں بولا۔ وہ ٹھیک بھی تھا، کیونکہ حقیقت جو تھا۔

لیکن میرے جس باب کو جانتی نہیں تم اُس کے بارے ميں ایسا کیسے بول سکتی ہو؟

ہاں !! میرا ماضی بالکل بھی نیک نہیں۔ عورتوں سے میرے تعلقات رہے ہیں مگر۔۔۔ اس حد تک نہیں کہ میری کوئی اولاد ہو۔ وہ بھی ناجائز۔"

اس نے سر گاڑی کی سیٹ سے ٹکا لیا البتہ آنکھیں ابھی بھی وہیں جمی ہوئی تھیں۔

" سنا تھا محبت آزماتی ہے، لیکن آج دیکھ بھی لیا۔ پر اس میں تمہارا قصور نہیں، کیونکہ گناہوں کی دنیا میں رہتے ہوئے یہ الزام بھی ماتھے پر سجنا ہی تھا۔" وہ بڑبڑایا اور پھر کچھ سوچتا ہوا، گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی جانب بڑھا لے گیا۔


۔***************۔

وہ بازو آنکھوں پر رکھے بیڈ پر لیٹی تھی، جب دروازہ کھلا اور کلون کی خوشبو کمرے میں چاروں جانب پھیل گئی۔

آئینور اس خوشبو سے بخوبی واقف تھی۔ اس لیے ٹس سے مس نہ ہوئی، یوں ہی لیٹی رہی۔

کردم دروازہ کھول کر خواب گاہ میں داخل ہوا۔ ایک نگاہ غلط اس پر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

کھٹ پٹ کی آواز پر آئینور نے بازو آنکھوں پر سے ہٹا کر اس کی پشت کو گھورا۔

کردم گھڑی وغیرہ اُتار کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ اس نے ایک نظر آئینور کو نہیں دیکھا تھا۔

آئینور اس کا ایسا رویہ دیکھ کر حیران ہوتی اُٹھ بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد کردم بھی شب خوابی کا لباس بدل کر ڈریسنگ روم سے باہر نکل آیا اور سنجیدہ چہرہ لیے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔

آئینور حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا تھا، وہ اس کی طبیعت کے بارے ميں پوچھے گا۔ مگر وہاں تو خاموشی تھی ہنوز خاموشی۔

" نہ پوچھے مجھے کیا۔۔۔؟ کونسا اس کے پوچھنے سے ٹھیک ہو جاؤں گی۔" وہ بڑبڑائی، پھر نہ چاہتے ہوئے بھی کھانے کا پوچھ لیا۔

" کھانا لاؤں؟ "

" نہیں بھوک نہیں ہے۔" کردم نے کہتے ہوئے سیگریٹ سلگا کر ہونٹوں سے لگالی۔

اس کے انکار پر آئینور بھی لعنت بھیجتی دوبارہ لیٹ گئی۔ ایک بار پھر بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔

اُدھر صوفے پر بیٹھا کردم کافی دیر یوں ہی سیگریٹ سلگاتا رہا، جب کہیں جا کر دماغ ٹھنڈا ہوا تو چہرہ موڑ کر آئینور کی طرف دیکھا جو مزے سے بیڈ پر لیٹی آرام فرما رہی تھی۔ وہ اُٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھوں پر رکھا بازو ہٹایا۔

کردم کی اس حرکت پر آئینور کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

" تم کل جھوٹ بول کر کیوں گئی تھیں؟ "

وہ جو اسے کچھ سخت سست سنانے کا سوچ رہی تھی۔ کردم کی بات پر ارادہ ترک کرتی، ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔

" کون سا جھوٹ؟ "

" اتنی معصوم تم ہو نہیں، جتنی بن رہی ہو۔ اچھے سے جانتی ہو کس بارے ميں پوچھ رہا ہوں۔" وہ سخت لہجے میں بولا۔ غصّے کے باعث آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔

آئینور پہلے تو الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی لیکن پھر جب کچھ تھوڑا تھوڑا پلے پڑنے لگا تو گہرا سانس لے کر من وعن کل کی ساری رواداد اس کے گوش گزار کر دی۔

" جب تم انہیں اسٹیشن چھوڑ آئی تھیں تو واپس گھر آنا چاہیے تھا۔ وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ "

آئینور کی بات سن کر اس کے غصّے میں مزید اضافہ ہو گیا۔

" کیونکہ میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتی تھی۔ تھک گئی ہوں میں اس قید میں رہ رہ کر، مجھے کھلی فضا میں سانس لینا تھا۔ آزادی سے۔"

وہ چلا اُٹھی کہ تبھی ایک شدید درد کی لہر اس کی گردن سے ہوتی دماغ تک جا پہنچی اور سر وہیں سُن ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔

چیخ نے کے باعث اس کی گردن کی نس کھینچ گئی تھی۔ جو سر تک سُن کر گئی۔ اسے اپنا وجود بے جان ہوتا محسوس ہوا۔

" کیا ہوا نور؟ "

کردم جو غصّے میں تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ایکدم نرم پڑا۔

آئینور نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ یونہی سر تھامے بیٹھی رہی۔

" درد ہو رہا ہے؟ "

وہ فکر مند ہوتا اس کے سرہانے آ بیٹھا۔ دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔

" لیٹ جاؤ۔"

کردم نے کہتے ہوئے اسے شانوں سے تھام کر لیٹا دیا۔ ایسے کہ آئینور کا سر اس کی گود میں تھا۔ وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے خاموشی سے لیٹ گئی۔

کردم اس کا سر سہلاتا ہوا، اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں تکلیف رقم تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایک بار پھر اس کی تکلیف کا باعث بن چکا تھا۔


۔****************۔


بیرونی دروازے کے باہر کھڑے وہ تینوں شراب پینے کے ساتھ ساتھ اُڑا بھی رہے تھے۔ جب تیز رفتاری سے ایک بلیک مرسیڈیز عین ان کے سامنے آ رکی۔

" ابے !! اتنی رات کو اب یہ کون آیا ہے؟ " رحمت اپنی آنکھوں کو با مشکل کھولتے ہوئے بولا۔

" سالے ڈھکنے !! ہمیں کیا پتہ۔ ہمیں بھی تیرے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔" رحیم اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا۔

تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ دوشیزہ باہر آئی۔ نازیبا لباس پہنے وہ ایک ادا سے چلتی ان کی طرف بڑھی۔

" ااااے !! یہ تو وہی ہے جو آج دن میں اڈے پر آئی تھی۔" فاروق اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔

" ہاں !! پر یہاں کیا کر رہی ہے؟ " رحیم حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے، اسے دیکھتے ہی تینوں کا نشہ ہوا ہو گیا تھا۔ کیونکہ آئینور کی آمد کے بعد سے ایسی کوئی لڑکی پھر نظر نہیں آئی تھی۔

" دروازہ کھولو۔" لیلہ ان کے پاس آ کر تحکم سے بولی۔

" کیوں ہم تو یہاں ہیں، پھر آپ کو کس سے ملنا ہے؟ " رحمت فوراً آگے آکر بولا۔ تبھی فاروق نے پیچھے سے اس کے ٹھوکا مارا۔

" مجھے کردم نے بلایا ہے اور اپنی حد میں رہو، ورنہ کردم سے کہہ کر وہ حشر کروں گی کہ ہمیشہ یاد رکھو گے۔ اب دروازہ کھولو۔" اس کی دھمکی پر رحمت نے ایک لمحہ لگائے بغیر دروازہ کھول دیا۔

لیلہ ایک نظر ان تینوں پر ڈالتی اپنی مغرور چال چل کر آگے بڑھ گئی۔

" لو جی !! ہم نے بلاوجہ ہی اُس اسلم کی بیٹی کو کردم دادا کی محبوبہ بنا دیا تھا، پر شکر ہے کردم دادا کا دماغ ٹھکانے پر ہے۔" رحمت مزاق اڑانے والے انداز میں بولا تبھی رحیم اور فاروق نے خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دروازے کو جہاں سے وہ دوشیزہ اندر کی جانب گئی تھی۔


۔***************۔


کردم دھیرے دھیرے اس کا سر دبا رہا تھا۔ سارا غصّہ اس کی تکلیف کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا۔ یہ عام سی لڑکی اسے کتنی عزیز ہو گئی تھی۔ اسے آج معلوم ہو رہا تھا کہ اس کی تکلیف پر وہ اپنی ہر تکلیف بھولنے کے لیے تیار تھا۔ اس کا سر اب بھی بخار میں تپ رہا تھا۔ مگر پہلے کی نسبت اب بخار کم تھا۔

آئینور آنکھیں بند کیے خاموش لیٹی تھی۔ کردم کے لیے یہ جاننا مشکل تھا۔ آیا کہ وہ سو رہی ہے یا نہیں۔

وہ یونہی سر دباتا اس کے چہرے کو تکتا رہا کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

" آجائیں۔"

اس نے ہاتھ روک کر آواز دی مگر آئینور کا سر اپنی گود میں ہی رہنے دیا، وہ جانتا تھا۔ اس وقت سیما خالہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی وہ اس کا اچھا بُرا سب جانتی تھیں، تو ان کے سامنے کیسی شرم۔

اس کے اجازت دیتے ہی دروازہ کھلا مگر۔۔۔ خواب گاہ میں آنے والی سیما خالہ نہیں لیلہ تھی۔ اسے دیکھتے ہی کردم کے ماتھے پر بل پڑے۔

" تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ اور کس کی اجازت سے اندر آئیں؟ " وہ غصّے سے بولا۔

کردم کی آواز پر آئینور نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، جس کی نظریں دروازے کی طرف تھیں۔

آئینور نے بھی چہرہ موڑ کر بائین جانب دیکھا تو ٹھٹھک گئی۔

لیلہ بھی بے یقینی سے آئینور کو دیکھ رہی تھی۔ جس کا سر کردم کی گود میں تھا۔

کردم نے اس کی نظر آئینور پر جمی دیکھ کر ایک بار پھر آئینور کا سر دبانا شروع کر دیا۔

اور لیلہ اس کی حالت تو یوں تھی۔ مانو سدمے سے ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔ کل تک جو لڑکیوں سے اپنے نخرے اُٹھواتا آیا تھا۔ آج وہ ایک لڑکی کے نخرے اُٹھا رہا تھا اور وہ بھی ایک عام سی لڑکی کے۔ لیلہ عش عش کرتی رہ گئی۔

" تم سے پوچھ رہا ہوں یہاں کیا کر رہی ہو؟ "

وہ جو سدمے میں گہری کھڑی تھی۔ کردم کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔

" تم۔۔۔ تم مجھ کو بلا کر اس کے ساتھ رات گزار رہے ہو؟ " لیلہ آئینور کو گھورتی دانت پیس کر بولی۔

آئینور جو پہلے ہی اس کی نظروں سے خائف ہو رہی تھی۔ اس کی بات پر تڑپ اُٹھی۔ اس نے اپنا سر کردم کی گود سے اُٹھانا چاہا مگر کردم کے ہاتھ کا دباؤ مزید اس کے سر پر بڑھ گیا۔ وہ بےبسی سے کردم کو دیکھنے لگی جو مزے سے کبھی اس کا سر دباتا تو کبھی بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگتا۔

" بکواس بند کرو اپنی اور دفاع ہو یہاں سے۔" لیلہ کی بات پر کردم تیش سے بولا۔

" تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے مجھے نکال رہے ہو۔" وہ غرائی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا آئینور کو اُٹھا کر باہر پھینک دے۔

ادھر آئینور کا دل کر رہا تھا۔ دھاڑے مار مار کر روئے۔ وہ رکھ رکھاؤ والی لڑکی جو اپنے لباس اور انداز سے بھی کبھی کمتر نہیں لگی۔ آج اسے دو ٹکے کا بولا جا رہا تھا۔ وہ بھی صرف کردم کی وجہ سے، کردم پر اس کا غصّہ مزید بڑھ گیا۔

" بس !! بہت ہوا۔ خود دفاع ہوگی یا بلواؤں کسی کو اُٹھوانے کے لیے؟ "

کردم کی بات پر وہ غصّے سے پیر پٹختی دروازے سے واپس مڑ گئی۔ اس کے جاتے ہی ایک جھٹکے سے آئینور نے اُٹھ کر خونخوار نظروں سے کردم کو گھورا۔ وہ پہلے ہی بدگمان تھی۔ اب مزید ہو گئی تھی۔


۔*****************۔


لیلہ پیر پٹختی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ تبھی اس کی نظر نیچے کھڑی سیما خالہ پر پڑی جو تیکھی نظروں سے اسے گھور رہی تھیں۔

" کہا تھا نا۔ واپس لوٹ جاؤ اب تم جیسی لڑکیوں کی دال نہیں گلنی۔"

" ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ تو مجھے ضروری کام ہے ورنہ کردم تو مجھے روک رہا تھا۔" وہ اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے بولی۔

" اووو بی بی !! جھوٹ کسی اور کے سامنے بولنا۔ مجھے اچھے سے معلوم ہے کردم بیٹے نے تجھے ذلیل کر کے نکالا ہے۔"

دیکھو !! تمہاری عمر کا خیال کر رہی ہوں۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ انگلی اُٹھا کر دانت پیستے ہوئے بولی۔

" تیری تو ایسی کی تیسی۔" کہنے کے ساتھ ہی سیما خالہ اسے بالوں سے پکڑ کر بیرونی دروازے کی جانب گھسیٹتے ہوئے لیجانے لگیں۔

" آاااہ !! چھوڑ چھوڑ مجھے بڑھیا۔" وہ اپنے بال چھڑواتی ساتھ میں چلا بھی رہی تھی۔

" بڑھیا ہوگی تیری ماں۔" سیما خالہ نے کہہ کر اسے دروازے سے باہر دھکا دیا اور فٹ سے دروازہ بند کردیا۔

باہر کھڑے وہ تینوں بھی آنکھیں پھاڑے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔ لیلہ اپنا سا منہ لے کر وہاں سے کسی بوتل کے جن کی طرح غائب ہوگئی۔


۔****************۔

کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی وہ مسلسل اسے غصّے سے گھور رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے یا کردم کو اُٹھا کر کہیں دور پھینک دے۔ جہاں سے اُس کا سایہ بھی آئینور پر نہ پڑے۔

" اب تم پھر چیخنے چلانے مت شروع ہوجانا۔"

کردم اسے یوں خود کو گھورتے دیکھ بیزار سا بولا۔ وہ اب تنگ آ گیا تھا، اس چیخنے چلانے سے۔

" کیوں نہ کچھ بولوں؟ ہمممم !! جب بلا ہی لیا تھا، تو رات اُس کے ساتھ گزار لینی تھی۔ بھیج کیوں دیا واپس؟ "

وہ دانت پر دانت جما کر بولی۔

" بکواس بند کرو اپنی۔"

کردم جو پہلے ہی غصّے میں تھا اب بھڑک اٹھا۔

" کیوں بند کروں؟ یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں آپ کے لیے۔ جو اب آپ کترا رہے ہیں۔"

آئینور کی بات پر وہ بیڈ سے اُٹھتا اس کے مقابل آیا۔ کردم کی سخت نظروں سے خائف ہو کر وہ پیچھے ہٹنے لگی مگر۔۔۔ اس سے پہلے ہی کردم نے کوئی بھی موقع دیئے بغیر اس کے جبڑوں کو سختی سے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔

" ایک اور لفظ مت بولنا ورنہ مجھ سے کچھ غلط ہو جائے گا۔" وہ غرایا۔

آئینور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس کے چہرے سے تکلیف دہ آثار واضح ہو رہے تھے۔ کردم کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی۔

" میں نے اُسے نہیں بلایا اور نہ ہی میری کوئی ناجائز اولاد ہے۔"

اس کی بات پر آئینور نے چونک کر اسے دیکھا۔ " مطلب وہ سن چکا تھا " وہ سوچ کر رہ گئی۔

" کیا سوچ رہی ہو یہ ہی نہ کے مجھے کیسے پتا چلا ؟" وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔

" جب تم اپنی پھوپھو سے میرے عورتوں سے تعلق اور ان سے ناجائز اولادوں کا رونا رو رہی تھیں۔ میں تب ہی گھر آ گیا تھا مگر۔۔۔ تمہاری اس بکواس کی وجہ سے میں واپس چلا گیا کہ کہیں غصّے میں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دوں۔"

کردم کہہ کر اس کے جبڑوں کو چھوڑتا بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور شرمندہ سی اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی۔

" اور ہاں !! مجھے معلوم ہے تمہیں مجھ سے بے پناہ نفرت ہے، مگر جب تم میرے اندر کے معاملات سے آگاہ نہیں تو آئندہ اپنی زبان سے زہر اگلتے وقت اچھے سے سوچ لینا۔" اپنی بات کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور دائیں بازو کو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔

آئینور شرمندہ سی وہیں نظریں جھکائے کھڑی رہی۔ کمرے میں خاموشی سی چھا گئی تھی۔ لیکن کچھ لمحوں بعد ہی آئینور کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔

" میں آپ سے نفرت نہیں کرتی۔"

اس کی بات پر کردم ایک پل کے لیے ہل نہ سکا۔ پھر بازو ترچھا کرکے کنکھیوں سے اسے دیکھنے لگا۔

" کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں اچھائی ہو وہاں بُرائی بھی ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ مجھ میں لاکھ اچھائیاں سہی مگر میری یہ زبان ہی مجھے جہنم میں لے جائے گی۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کچھ ایسا نہ بولوں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ منہ سے نکل جاتا ہے۔ تاکہ خود کو پہنچی تکلیف میں کچھ کمی آ سکے۔"

آئینور رکی سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا، وہ اب بھی ویسے ہی لیٹا تھا۔ وہ مزید بولی۔

" میں نے جو کچھ بھی بولا، صرف زبان سے بولا۔ میرے دل میں آپ کے لیے کوئی نفرت موجود نہیں۔ کیونکہ نفرت گناہ سے کرنی چاہیئے گناہ کرنے والے سے نہیں۔ مجھے آپ کی سرگرمیوں سے نفرت ہے آپ سے نہیں۔"

اب کی بار کردم آنکھوں سے بازو ہٹاتا پورا کا پورا اُٹھ بیٹھا۔ آئینور نے اس کی نظریں خود پر دیکھ چہرہ جھکا لیا اور چل کر بیڈ کی دوسری جانب آ لیٹی۔

" مجھ سے نفرت نہیں تو کیا ہے؟ "

کردم واپس لیٹتے ہوئے پوچھنے لگا۔ آئینور کی اس کی طرف پشت تھی۔ وہ مسکرادی، اس سوال کے پوچھے جانے کی اسے توقع تھی۔

" کچھ نہیں۔"

صفا چٹ انکار آیا۔ کردم مسکرا دیا۔ اس چھوٹی سی بات نے ہی اس کے دل پر پڑتی کسی پھوار کا کام کیا تھا۔ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی، مگر نفرت بھی نہیں کرتی تھی اور یہ ہی بات کردم کے لیے کافی تھی۔


۔****************۔


باقی دنوں کے مقابلے آج کی صبح کچھ الگ ہی نکھری نکھری سی تھی۔ یا یوں کہیں کہ کردم کو لگ رہی تھی۔ باقی دنوں کی نسبت آج وہ دیر سے جاگا تھا اور اب ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہونے میں لگا تھا جب آئینور اس کے پاس چلی آئی۔

" مجھے آج شاپنگ پر جانا ہے۔ میں کراچی سے کچھ ہی کپڑے ساتھ لائی تھی۔ جنہیں دھو کر بار بار استعمال کر رہی تھی، مگر اب مزید نہیں کرسکتی۔"

آئینور اس کے پیچھے کھڑی آئینے میں اسے کے عکس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

" ٹھیک ہے !! لیکن رحیم وغیرہ تو جا چکے۔ میں ایسا کرتا ہوں غفار کو یہیں چھوڑ جاتا ہوں، اُس کے ساتھ چلے جانا۔" کردم اس کی طرف رخ کرتا ہوا بولا۔

" اس کی ضرورت نہیں میں خود چلی جاؤ گی۔" وہ فوراً بولی۔

" جو تم اپنے گھر جا کر کرچکی ہو اس کے بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بول دیا غفار ساتھ جائے گا تو بس۔۔۔ اس کے آگے مزید بحث نہیں، اور یہ پیسے رکھ لو۔"

کردم نے کہتے ہوئے وائلٹ سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔

" مجھے ضرورت نہیں۔ پیسے ہیں میرے پاس وہ بھی حلال۔" آئینور منہ بسور کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ ایک بار پھر اس کی زبان چلی تھی، مگر اس بار کردم غصّہ کرنے کے بجائے مسکرا دیا۔

" پاگل !! "


۔****************۔


گاڑی ایک بڑے سے شاپنگ مال کے سامنے جا رکی تھی۔ کردم کی ہدایت کے مطابق غفار اسے فوراً ہی لے کر ادھر آگیا۔ یہاں سے واپس اسے اڈے پر جانا تھا، اس لیے آئینور بھی لمحے کی تا خیر کیے بنا اس کے ساتھ چلی آئی۔

" آپ ادھر ہی رکیں میں ابھی آئی۔"

آئینور کہتے ہوئے دروازہ کھولنے لگی کہ غفار فوراً بولا۔

" کردم دادا نے آپ کے ساتھ رہنے کو کہا تھا۔ میں آپ کو اکیلے اندر نہیں جانے دے سکتا اس لیے میں بھی ساتھ چلوں گا۔"

" لیکن۔۔۔"

" اور کردم دادا نے یہ بھی کہا تھا آپ کی بات نہ سنی جائے۔"

غفار اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ آئینور جلتی کلستی گاڑی سے باہر نکل گئی۔ غفار بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔

چند دکانوں سے اپنے کپڑے لینے کے بعد وہ اور بھی دکانے دیکھنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک رک کر اپنے پیچھے آتے غفار کو دیکھا جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر چل رہا تھا۔ آئینور کے رکنے پر وہ بھی رک گیا۔

" کیا اب آپ ہر دکان پر میرے ساتھ جائینگے؟ "

نقاب سے جھانکتی آنکھیں غصّے اسے دیکھ رہی تھیں۔ وہ گڑبڑا گیا۔

" نہیں آپ کو جو بھی لینا ہے۔ آپ لے کر آجائیں۔ میں ادھر ہی کھڑا ہوں۔" اس کی بات میں چھپا مطلب سمجھ کر وہ فوراً بولا۔

" ٹھیک ہے۔"

آئینور آنکھیں گھماتی آ گے کو بڑھی پھر دائیں جانب مڑ گئی۔

غفار وہیں سر جھکائے کھڑا رہا۔ اسے کھڑے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ تبھی عقب سے آتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

" بیٹا نہیں کرو، اسے واپس رکھ دو۔ آپ کے پاس پہلے ہی بہت کھلونے ہیں۔"

آواز سن کر یکدم اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک لڑکی کھڑی اپنے بیٹے سے مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔ وہ بچہ دیکھنے میں کوئی تین چار سال کا معلوم ہوتا تھا۔ وہ وہاں کھڑا اردگرد سے بیگانہ ہو کر بس انہیں دیکھے گیا۔

لڑکی نے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کر کے ادھر اُدھر دیکھا تو ٹھٹھک گئی۔ وہ بے یقینی سے غفار کو دیکھنے لگی۔ پل بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک اُبھری تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے ماند پڑ گئی۔ وہ آنکھوں میں اجنبی تاثرات لیے رخ موڑ گئی۔

" آئمہ !! کیسی ہو؟ "

غفار اس کے پاس جا کر پوچھنے لگا۔

" ٹھیک ہو۔"

وہ جبراً مسکرا کر بولی۔

" یہ تمہارا بیٹا ہے؟ "

غفار نے بچے کی طرف دیکھا، جو اس کے دیکھنے پر اپنی ماں کی ٹانگوں سے لگ گیا تھا۔

" ہاں !! "

" تم نے شادی کر لی؟ "

" ہاں !! "

اس کے جواب پر غفار نے اس کے چہرے کو دیکھا، جو بے تاثر تھا۔

" مبارک ہو !! "

وہ بس اتنا ہی بول پایا۔

" ہمم !! میں چلتی ہوں۔ میرے شوہر انتظار کر رہے ہونگے۔"

وہ کہہ کر ایک لمحے کی تا خیر کیے بنا فوراً وہاں سے چلی گئی۔ غفار کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔

" بہت ہی پیارا بیٹا ہے آپ کا !! بالکل آپ پر گیا ہے۔"

عقب سے آتی آواز پر وہ چونک کر مڑا۔ پیچھے آئینور تھی۔ جو کافی دیر سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی معاملہ اس کی سمجھ میں آیا تو بولے بنا نہ رہ سکی۔

" نہیں وہ میرا بیٹا نہیں۔" غفار کو یہ بولنا دشوار لگا تھا۔

" اچھا لیکن مجھے تو لگا آپ کی بیوی اور بیٹا تھا۔ باکل آپ میں جو مل رہا تھا۔" وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی۔

غفار خاموش رہا۔

" چلیں !! گھر چلتے ہیں۔"

اسے خاموش دیکھ کر آئینور بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ لیکن غفار کو کئی سال پیچھے دھکیل گئی۔


۔****************۔


" لڑکی !! یہ کیا صرف کپڑے اُٹھا لائی۔ کچھ ہار سنگھار کا سامان بھی لے آتی۔"

وہ لاؤنج میں بیٹھی سیما خالہ کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھی۔ جب اس کی شاپنگ میں چند جوڑے دیکھ کر وہ بولیں۔

" آپ کا اس عمر میں بھی ہار سنگھار کا دل کرتا ہے تو مجھے بتا دیتیں، میں لے آتی۔"

آئینور کپڑے واپس بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔

" لڑکی سدھرنا مت !! میں اپنے لیے نہیں تمہاری بات کر رہی ہوں۔" سیما خالہ کا دل اس عقل کی پر ماتم کرنے کو چاہا۔

" مجھے یہ سب پسند نہیں۔" وہ فوراً بولی۔

" تم سے کون پوچھ رہا ہے پسند ہے کہ نہیں۔ میں تو کردم بیٹے کی وجہ سے بول رہی ہوں۔ اس کا بھی تو دل کرتا ہوگا اُس کی بیوی اُس کے لیے سجے سنورے۔"

" ہاں تو کس نے منع کیا ہے؟ لے آئے بیوی جو اُس کے لیے سجے سنورے۔"

اب کی بار سیما خالہ کا دل کیا اسے ایک رکھ کر دیں۔ جو بے پرواہی سے بولے جا رہی تھی۔

" کل دیکھا تھا۔ وہ لڑکی کیسے سج سنور کر آئی تھی کہ کسی بھی مرد کا انہیں دیکھتے ہی ایمان ڈگمگا جائے۔"

" مجھے اپنا ایمان بچانا ہے کسی کا ڈگمگانا نہیں۔" وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی، فوراً بولی۔

" میں تم سے اپنے شوہر کے لیے تیار ہونے کی بات کر رہی ہوں کسی غیر مرد کے لیے نہیں۔"

" چھوڑیں سیما خالہ !! آپ بھی کسے سمجھا رہی ہیں۔"

اب کے آواز کردم کی تھی جو لاؤنج میں داخل ہوتا ان کی باتیں سن چکا تھا۔

ان دونوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ باتوں میں اتنی مصروف تھیں کہ اس کی گاڑی کی آواز تک نہ سن سکیں۔ کردم کی نظریں خود پر دیکھ آئینور نے جھنپ کر سر جھکا دیا۔

" آج تم جلدی آگئے۔"

آئینور کی جھنپ کی خاطر سیما خالہ نے بات بدلنی چاہی۔

" جی !! آج کچھ خاص کام نہ تھا۔ "

کردم کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی آئینور نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔

" آپ بھی نا۔"

اس نے خفگی سے سیما خالہ کو دیکھا۔ وہ ہنس دیں۔


۔****************۔


گھر کے باہر کھڑا وہ مسلسل بیل بجانے میں لگا تھا، مگر ابھی تک کسی نے دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اب کہ اس نے بیل بجانے کے بجائے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔

" آگئی بھئی صبر۔"

دروازے کے پیچھے سے نسوانی آواز ابھری۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا تھا، جب دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھ کر مقابل حیران رہ گیا۔

" تم۔۔۔"

" ہاں میں اب راستہ چھوڑو۔" وہ کہہ کر اس کے سائڈ سے نکل گیا۔

" رکو۔۔۔ رکو کہاں جا رہے ہو غفار؟ "

وہ اس کے پیچھے چلتی پریشانی سے بولی۔

" میں یہاں تم سے نہیں، تمہارے شوہر سے ملنے آیا ہوں۔ کہاں ہے؟ " غفار ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا۔

" وہ گھر پر نہیں ہیں۔" آئمہ فوراً بولی۔

" کیوں اتنی رات کو اُسے کونسا کام ہے جو گھر نہیں؟

خیر کوئی نہیں !! میرے پاس بہت ٹائم ہے۔ میں انتظار کر لوں گا۔"

غفار کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

" تم یہاں کیسے اور تمہیں گھر کا کیسے معلوم ہوا؟ "

وہ دونوں ہاتھ پہلو پر رکھ کر غصّے سے اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی۔

" جانے من !! کسی کے بارے میں معلوم کرنا اتنا مشکل نہیں۔ صرف تمہارا گھر نہیں، یہ بھی جان گیا ہوں نہ تو تمہارا کوئی شوہر ہے اور نہ ہی تمہاری ابھی تک شادی ہوئی ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

" جب معلوم ہوگیا تو یہاں کیا کر رہے ہو؟ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ " وہ دبا دبا سا چلائی۔

" اپنا بیٹا۔" وہ بھی فوراً بولا۔

آئمہ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔

" میرے پاس بس ایک وہ ہی اپنا ہے۔ تم اسے بھی مجھ سے چھین لینا چاہتے ہو؟ " اس کی مری مری سی آواز نکلی۔

غفار نے فوراً اس کے مقابل کھڑے ہوتے اسے شانوں سے تھاما۔

" میں صرف اُسے نہیں تمہیں بھی لینے آیا ہوں۔ چلو چلتے ہیں، میں تم سے شادی کر لوں گا۔ پھر ہم تینوں ایک ساتھ رہیں گے ہمیشہ۔"

" ایسا نہیں ہوسکتا۔" وہ فوراً اس کے ہاتھ جھٹکتی دور ہوئی۔

" کیوں۔۔۔ کیوں نہیں ہوسکتا ایسا؟ " غفار بھی اب غصّے سے بولا۔

" تم کیا چاہتے ہو؟ میں اپنے بچے کو بھی اس گناہوں کی دنیا میں مرنے کے لیے چھوڑ دوں۔ اُس دنیا میں تمہارے ساتھ چل دوں جہاں مجھے ہر وقت اپنی اور اپنے بیٹے کی جان کی فکر کر رہے؟ وہاں چل دوں؟ " وہ جواباً چلا اُٹھی۔

" ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں ہوں نا۔" وہ نرم پڑا۔

" ہاں !! تم ہو۔۔۔ تم ہی تو ہو، جو نہ جانے کتنے بچو کو یتیم اور لاوارث کرتا آیا ہے۔ کبھی سوچا ہے؟ تمہاری اولاد پھر کیسے محفوظ رہے گی؟ "

" آئمہ میں۔۔۔"

" نہیں غفار !! اسی وجہ سے میں چار سال پہلے بنا بتائے تم سے الگ ہوئی تھی، کیونکہ تم یہ سب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور میں اپنے بچے کو ایسی زندگی نہیں دینا چاہتی تھی۔ ایک گناہ پہلے ہی کر چکی تھی، تم سے تعلق قائم کر کے اور مزید تمہارا ساتھ نہیں دینا چاہتی۔ سمجھے؟ " وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

" اور اگر میں یہ سب چھوڑ دوں تو کیا تب میرے ساتھ چلو گی؟ " غفار نے ایک آس سے پوچھا۔

آئمہ حیرت سے سامنے کھڑے مرد کو دیکھنے لگی۔

کتنی منتیں کی تھیں اس کی کہ چھوڑ دے یہ سب مگر وہ تب کردم دادا کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا اور اب وہ خود اس کے سامنے کھڑا چھوڑنے کی باتیں کر رہا تھا۔ " کیا اولاد کی محبت اتنی ہی زورآور ہوتی ہے؟ جو کام کرنے کا انسان کبھی تصور نہیں کرتا۔ اولاد کی محبت وہ تک کرا جاتی ہے۔" وہ سوچ کر رہ گئی۔

" میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔" اسے خاموش کھڑا دیکھ وہ پھر بولا۔

" تب میں ایک لمحہ نہیں لگاؤ گی۔ تمہارے ساتھ چلنے میں۔" وہ مضبوط لہجے میں بولی۔

" ٹھیک ہے اب میں تمہارے پاس تب ہی آؤں گا، جب یہ سب چھوڑ دوں گا۔ تب تک اپنا اور ہمارے بیٹے کا خیال رکھنا۔"

وہ کہتا ہوا اس کے ماتھے پر محبت بھرا لمس چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ آئمہ نم آنکھوں سے اسے دور جاتے دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔

" جو میں نہ کر سکی وہ تم نے کردیا بیٹا۔"


۔*****************۔

آئینور اور سیما خالہ کچن کے کام سمیٹ کر باتیں کرتی ہوئی باہر نکل رہی تھیں، جب غفار گھر میں داخل ہوا۔ آئینور نے اسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا۔

" مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"

وہ آئینور کے پاس آ کر نظریں جھکائے گویا ہوا۔ اس کی بات پر آئینور نے چہرہ موڑ کر سیما خالہ کو دیکھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔

" جی !! بولیں کیا بات ہے؟ "

آئینور بھی نظریں جھکائے پوچھنے لگی۔

" میں۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔" وہ اپنی بات کے لیے مناسب الفاظ سوچنے لگا۔

" دیکھیں غفار بھائی !! آپ کو جو بھی بولنا ہے بلا جھجھک بولیں۔ میں سن رہی ہوں۔"

آئینور کی بات سے غفار کو تھوڑی ڈھارس ملی۔

" آج آپ نے جس بچے کو دیکھا تھا۔ وہ میرا ہی بیٹا ہے۔ مگر وہ لڑکی میری بیوی نہیں، مطلب کہ۔۔۔ آج سے چار سال پہلے ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ شادی بھی کرنے والے تھے۔ لیکن آئمہ کو میرا کردم دادا کے لیے کام کرنا پسند نہیں تھا۔ اس لیے آئمہ نے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ میں یہ سب چھوڑ دوں اور۔۔۔"

" اور آپ نے نہیں چھوڑا، اس لیے وہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ ماں بننے والی ہے، یہ بات بھی آپ سے چھپائی۔ یہ ہی کہنا چاہتے ہیں نا؟ "

عادت سے مجبور آئینور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

" جی !! "

غفار دھیرے سے بولا۔ نظریں ہنوز جھکی تھیں۔

" تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ "

وہ اس کے خاموش ہونے پر پوچھ بیٹھی۔

" میں اب آئمہ اور اپنے بچے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔"

" تو؟ "

" تو یہ کہ !! آئمہ آج بھی یہ ہی چاہتی ہے میں یہ سب چھوڑ دوں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں آپ کردم دادا سے میری سفارش کریں تاکہ وہ مجھے اس گناہ کی زندگی کو چھوڑنے کی اجازت دے دیں۔"

" آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟ وہ میری بات مان جائیں گے؟ "

" کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کی بات سے انکار نہیں کرینگے۔"

غفار کی بات پر آئینور نے سر اُٹھا کر اس کے جھکے سر کو دیکھا، پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

" ہر انسان کو اپنے حصّے کی لڑائی خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تو کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ کی جگہ کھڑے نہیں ہوسکتے۔

آپ کو اپنے حق کے لیے خود آواز اُٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ میں آپ کی سفارش تو کر سکتی ہوں۔ مگر اپنے لفظوں میں وہ درد وہ تکلیف نہیں لاسکتی، جو آپ کے اندر ہے۔ ایک انسان اپنی وکالت بہتر طریقے سے کرسکتا ہے بجائے دوسرے کے۔ اس لیے میں یہ ہی کہوں گی، آپ خود کردم سے بات کریں۔"

اس کی بات پر غفار کا چہرہ بجھ سا گیا تو وہ مزید بولی۔

" ہاں !! آپ کے بات کرنے کے بعد میں کوشش کروں گی۔ کردم کو قائل کرنے کی۔"

آئینور کہہ کر خاموش ہوگی۔ اب وہ غفار کے بولنے کی منتظر تھی، جو سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔

" کیا ہو رہا ہے؟ "

غفار کے بولنے سے پہلے ہی کردم کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ دونوں نے بیک وقت چہرہ اُٹھا کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ جہاں سے کردم اُترتا ان ہی کی طرف آ رہا تھا۔

" غفار بھائی آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔"

آئینور فوراً بولی۔ اس کی بات پر کردم نے غفار کی جانب دیکھا، جو اب بھی سر جھکائے کھڑا تھا۔

" کیا ہوا غفار؟ ایسی کیا بات ہے جو تم مجھ سے کرنے کے بجائے نور سے کر رہے ہو؟ "

کردم اس کے جھکے سر کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔ غفار خاموش رہا۔

" آپ لوگ بات کریں میں چلتی ہوں۔"

آئینور انہیں اکیلے میں بات کرنے کا موقع دیتی فوراً سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے جاتے ہی کردم غفار کی طرف متوجہ ہوا۔

" آخر کیا بات ہے؟ کچھ بولو گے بھی؟ "

" دادا وہ۔۔۔" اور پھر غفار نے ساری بات کہہ سُنا ڈالی۔ اس سب کے دوران کردم خاموش کھڑا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ غفار بول کر خاموش ہوا اور ایک نظر کردم کی طرف دیکھا جو بے تاثر چہرہ لیے کھڑا تھا۔ غفار مزید بولا۔

" آپ چاہیں تو مجھے جان سے مار دیں مگر میں اب مزید کسی کی جان نہیں لے سکتا۔"

غفار نے کہہ کر کمر میں لگی پستول نکال کر اس کے سامنے کردی۔ کردم نے ہاتھ بڑھا کر پستول کو اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اگلے ہی لمحے کردم کا ہاتھ اُٹھا مگر۔۔۔ وہ اس کا کندھا تھپک کر مسکراتے ہوئے بولا۔

" جاؤ !! جی لو اپنی زندگی۔"

کردم کی بات پر یکدم غفار کی آنکھیں نم ہوئیں۔

" شکریہ دادا !! "

مارے تشکر کے وہ بس اتنا ہی بولا۔

" ارے کوئی نہیں یار !! تم نے آج تک میرے لیے بہت کچھ کیا، اب میری باری ہے۔ جاؤ مگر ہاں۔۔۔ یہاں سے دور چلے جانا۔ ہو سکے تو شہر ہی چھوڑ دینا۔"

" جی دادا !! میں ایسا ہی کروں گا اور آپ کا احسان بھی کبھی نہیں بھولوں گا۔"

کردم مسکرا دیا۔ غفار نم آنکھوں سے اس کے گلے لگ گیا۔

" بس کرو !! کیا لڑکیوں کی طرح آنسو بہا رہے ہو۔ اب جاؤ آئمہ انتظار کر رہی ہوگی۔"

کردم کی بات پر مسکراتا وہ ایک پھر اس کے گلے مل کر وہاں سے چلا گیا۔ اوپر کھڑی آئینور مسکراتے لبوں سے یہ منظر دیکھتی خواب گاہ کے اندر قدم بڑھا گئی۔


۔*****************۔


وہ خواب گاہ میں داخل ہوا تو سامنے ہی آئینور بیڈ پر کتابیں لیے بیٹھی تھی۔ کردم بھی آ کر بیڈ کی دوسری سائڈ پر لیٹ گیا۔ اس کے لیٹتے ہی آئینور نے کتابیں اُٹھا کر سائڈ پر رکھیں اور لائٹ بند کرتی خود بھی لیٹ گئی۔

کمرے میں اندھیرے کے ساتھ ساتھ خاموشی نے بھی جگہ لی ہوئی تھی جسے کردم کی آواز نے توڑا تھا۔

" نور !! "

اُس نے دھیرے سے پکارا۔

" جی !! "

آنکھیں بند کیے ہی وہ بولی۔

" ایسا کیوں ہے؟ ایک عورت کے حصول کیلئے مرد سب کچھ کرنے اور چھوڑ نے کے لیے تیار ہو جاتا ہے؟ میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔ یہاں تک کہ تم سے محبت کے بعد بھی نہیں۔"

وہ اس کی طرف کروٹ لے کر پوچھنے لگا۔

" عورت کے لیے نہیں انسان کے لیے۔"

آئینور سیدھی لیٹی آنکھیں بند کیے ہی بولی۔

" یہ اللّٰه کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب اللّٰه نے اپنے بندے کو آزمانا ہوتا ہے یا سیدھی راہ پر لانا ہوتا ہے تو اکثر لوگوں کی زندگی میں کسی ایسے شخص کو بھیج دیتا ہے۔ جس کے حصول کیلئے وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ اس شخص کے زریعے اُسے آزمایا جاتا ہے یا راہِ راست پر لایا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے سوائے انسان کے۔"

" اچھا مجھے تو نہیں لگتا۔ بلکہ انسان کو خریدنا زیادہ آسان ہے۔"

کردم جو خاموشی سے اس کے چہرے کا طواف کر رہا تھا۔ اس کی بات پر فوراً بولا۔ آئینور کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ در آئی۔

" ہاں !! بہت آسانی سے خریدا جاسکتا ہے۔ مگر صرف انسانی جسم کو اُس کے جزبات کو نہیں۔ کسی کے جزبات کو حاصل کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ محبت قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ جس کو آپ سے محبت نہیں ہے۔ آپ اُس کے لیے اپنی جان بھی دے دیں، تب بھی وہ آپ سے محبت کر ہی نہیں سکتا۔ تبھی تو اللّٰه انسان کی رسی کھینچنے کیلئے ایسے شخص کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس کے حصول کیلئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہ بھی جسے کرنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔"

اس کی بات پر کردم اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ بھی اسے حاصل کر چکا تھا۔ مگر آئینور کے جزبات وہ تو اب تک ان کے درمیان نہ تھے۔

" تو اس لیے آئمہ کی محبت میں آج غفار میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔"

کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد کردم پھر گویا ہوا۔

" نہیں !! آئمہ کی محبت میں نہیں، اپنے بیٹے کی محبت میں۔۔۔ جیسے کہ میں نے ابھی کہا عورت کا حصول نہیں انسان کا حصول، پھر وہ انسان کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

اب غفار بھائی کو دیکھ لیں۔ آئمہ سے محبت تھی۔ لیکن وہ اُس کے لیے نہ بدلے یہاں تک کہ وہ اُن کی زندگی سے چلی گئی۔ مگر اولاد کی محبت نے چند لمحوں میں وہ کام کروا دیا جو آئمہ نہ کرا سکی۔ غفار بھائی کو دوسرا موقع ملا اور انہوں نے اس گناہ کی زندگی کو چھوڑ دیا۔ لیکن ہر کسی کو یہ موقع نہیں ملتا۔ اب میرے پاپا کو دیکھ لیں۔ ماما آئیں اور چلی گئیں۔ مگر وہ نہ بدلے۔"

آئینور رکی اور ایک گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا۔ کردم نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے قریب کیا۔ آئینور نے بھی بنا کسی مزاحمت کے اپنا سر اس کے شانے پر رکھ دیا۔

" غفار بھائی ایک عقل مند انسان ہیں۔ جنہوں نے یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کیونکہ قسمت ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔ ہر کسی کو دوسرا موقع نہیں ملتا۔"

" تم نے یہ سب باتیں کہاں سے سیکھ لیں؟ اتنی چھوٹی سی تو ہو تم۔"

کردم اس کے بال سہلاتے ہوئے شرات سے بولا۔ تاکہ اس کا دھیان بٹا سکے، مگر آئینور اس کی شرارت کو نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔

" ماما کے جانے کے بعد، جب میں یہ ہی سوچتی تھی۔ آخر ماما پاپا کی بے اعتنائی و بے وفائی کے باوجود اتنی محبت کیسے کرتی تھیں۔ بس ان ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈتے معلوم ہوا کہ محبت کسی پر رحمت تو کسی پر روگ بن کر نازل ہوتی ہے۔ انسان کو وہیں سے آزمایا جاتا ہے جو اُس کے لیے سب سے عزیز ہوتا ہے۔

ماما کی محبت تو پاپا کے لیے رحمت ثابت نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنا راستہ نہیں بدلا، لیکن پاپا کی محبت ماما کے لیے آزمائش ثابت ہوئی تھی۔ جس میں وہ ہار گئیں اور حرام موت کو گلے لگا لیا۔"

آئینور چپ ہوگئی۔ کردم خاموشی سے چہرہ جھکا کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ اس کا دھیان ہٹانے کیلئے بات بدلی تھی، مگر وہ بھول گیا تھا۔ آئینور کی زندگی کے تمام باب اُس کے تلخ باب سے ہی جڑے ہیں۔

" میں جانتی ہوں کردم !! غفار بھائی کی باتوں نے آپ کو سوالوں میں گہر لیا ہے۔ تبھی آپ یہ سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن میں چاہتی ہوں آپ ان باتوں پر غور کریں۔ کیونکہ قسمت ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو ہمارا انجام ماما پاپا سے بھی بدتر ہو۔"

کردم کے شانے پر سر رکھے وہ سوچ میں غرق تھی۔ یہ طویل گفتگو نامحسوس طریقے سے اس نے صرف کردم کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ لیکن اس کی باتوں کا اثر کردم پہ ہونا تھا یا نہیں یہ تو وہ ہی جانتا تھا۔

" کردم !! "

" ہمممم !! "

آئینور نے چہرہ اوپر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ مسکرا دیا۔

" وہ آج مال سے آتے وقت میں نے راستے میں ایک پارک دیکھا تھا۔ کیا میں وہاں تھوڑی دیر کیلئے چلی جایا کروں؟ "

کردم کی مسکراہٹ سمٹی، وہ ایکدم سنجیدہ ہوا۔

" وہ گھر سے زیادہ دور نہیں ہے، بس تھوڑی دیر کے لیے۔"

آئینور جلدی سے بولی۔ مگر کردم یوں ہی خاموش رہا، شاید اسے یہ بات ناگوار گزری تھی۔

اسے خاموش دیکھ آئینور نے اپنا چہرہ واپس جھکا لیا۔ تبھی کردم کی آواز نے اس خاموشی کو ختم کیا۔

" ٹھیک ہے !! لیکن روز روز نہیں۔ ہفتے میں صرف ایک بار اور وہ بھی رحیم کے ساتھ جانا پڑے گا۔" اس کی بات پر آئینور کا چہرہ کھل اُٹھا۔

" ٹھیک ہے !! "

خوشی سے چُور لہجے میں کہتی اس نے آنکھیں موند لیں۔


۔*****************۔


رات بھر بارش برسنے کے باعث صبح جاکر موسم کچھ قدرے خوشگوار ہوا تھا۔ ایسے میں وہ تیز رفتار سے چلتا اس چھوٹے سے گھر کے سامنے جا رکا۔ بیل بجا کر اندر سے کسی کے آنے کا انتظار کرتا کہ فوراً ہی دروازہ کھلا۔

" کہاں رہ گئے تھے غفار؟ میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔"

" بس کچھ سامان لینے گیا تھا۔"

غفار بولتا ہوا اندر بڑھا۔ آئمہ بھی اس کے پیچھے چلتی کمرے میں آگئی جہاں ان کا بیٹا "علی" کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔

" پاپا !! "

وہ غفار کو دیکھتے ہی اس کی گود میں لپکا۔

" میرے شیر !! "

غفار نے اسے اُٹھا کر اس کے گال چومے۔ آئمہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔

" تم نے سامان پیک کر لیا نا؟ " غفار اب اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"جی کر لیا، بس اب نکلنا ہے۔"

" ٹھیک ہے۔" غفار علی کو اسے دے کر سامان کی طرف بڑھ گیا۔

" تم یہ پہن لو۔" غفار نے اس کی جانب ایک شاپر بڑھایا۔

آئمہ اسے تھام کر کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آئی تو عبایا پہنا ہوا تھا۔

"چلو اب چلتے ہیں۔" غفار اسے دیکھ کر بولا۔ اور بیگ تھامے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ آئمہ اور علی بھی اس کے ساتھ ہولیے۔ وہ جا رہے تھے ان سب سے دور۔ ایک نئی منزل ایک نئی زندگی کی خاطر۔ جہاں خوشیاں ان کے انتظار میں تھیں۔


۔*****************۔


کردم تیار ہو کر اندرونی دروازے سے باہر نکلا تو وہ تینوں اس کے انتظار میں گاڑی کے پاس ہی کھڑے نظر آئے۔ وہ چلتا ہوا ان کے پاس آ گیا۔

" رحیم تم ابھی گھر پر رک جاؤ، نور کے ساتھ جانا اُسے کچھ کام ہے۔ اُس کے بعد اڈے پر آجانا۔"

" جی دادا !! "

وہ رحیم کو ہدایت دیتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی " نعیم " نے گاڑی بیرونی دروازے کی جانب بڑھا دی۔

" یہ دادا نے نعیم کو کیوں اڈے پر سے یہاں بلا لیا اور غفار کہاں ہے؟ "

فاروق گاڑی کے نکلتے ہی ان دونوں سے مخاطب ہوا۔

" پتا نہیں !! ہوسکتا ہے دادا کے کسی کام سے گیا ہو۔"

رحیم کندھے اچکا کر بولا۔

" چلو ہم بھی چلتے ہیں، ورنہ شامت آجانی ہے۔" رحمت نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

" ہاں !! تم دونوں جاؤ میں بعد میں آتا ہوں۔" رحیم نے کہہ کر قدم اندرونی دروازے کی طرف بڑھا دیئے۔

فاروق " ٹھیک ہے" کہتا خود بھی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

تینوں الگ ہوئے اور اسی سمے کسی نے تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاشا کو کال لگائی۔

" ہیلو پاشا بھائی !! "

" جی تھوڑی دیر میں گھر سے نکلیں گے۔"

"جی ٹھیک ہے۔"

دوسری جانب سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا۔ مگر پاشا کی بات سن کر اس شخص کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ در آئی۔

" اب تمہیں پتا چلے گا کردم دادا۔۔۔ اپنوں کو کھونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔"


۔******************۔

وہ سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی تو لاؤنج میں ہی اسے سیما خالہ بیٹھی چائے پیتی نظر آ گئیں۔ وہ مسکراتی ان کے پاس چلی گئی۔

" اچھا ہوا لڑکی تم آ گئیں، رحیم ابھی تمہارا ہی پوچھ رہا تھا۔ تم تیار ہو؟ " سیما خالہ اسے میں برقعے میں دیکھتے ہوئے بولیں۔

" جی !! میں تیار ہوں۔ لیکن آپ بھی چلیں نا مزہ آئے گا۔" آئینور خوشی سے چہکتے لہجے میں بولی۔

" نہیں بابا !! تم جاؤ، میں تو گھر پر ہی آرام کروں گی۔" سیما خالہ نے کہہ کر چائے کا کپ منہ سے لگا لیا۔

" چلیں ٹھیک ہے !! میں جلدی آ جاؤں گی۔" آئینور نے کہتے ہوئے ان کے آگے سر جھکا دیا۔

" ہاں !! جلدی آنا۔"

سیما خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر وہ انہیں خداحافظ کہتی باہر چلی گئی۔ جہاں رحیم کھڑا اس کا ہی انتظار کر رہا تھا۔


۔*******************۔


موسم قدرے خوشگوار تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں وہ پارک میں موجود بینچ پر بیٹھی مسکراتے چہرے کے ساتھ سامنے ان بچوں کو کھیلتا دیکھ رہی تھی۔ پاس ہی رحیم کھڑا خود بھی مسکراتے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا تھا جو موسم کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ کھیلنے میں لگے تھے۔ بارش کے موسم میں یوں کھلی فضا میں سانس لینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ آئینور مسرور سی ماحول کے مزے لے رہی تھی۔ اسے کافی وقت گزر چکا تھا یہاں آئے۔ لیکن اس کا دل ہی نہیں بھر رہا تھا کہ یہاں سے جائے اور رحیم نے بھی جانے کا نہیں کہا تھا، تو وہ بھی خاموشی سے بیٹھی رہی۔ اس کی نظر بچوں پر تھی جو گھانس پر بیٹھے اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیلنے میں لگے تھے۔ اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ جب وہ بھی "ماہ نور" کے ساتھ پارک جایا کرتی تھی۔ یکدم اس کی آنکھیں ماں کو یاد کر کے نم ہونے لگیں۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" چلیں۔۔۔ رحیم بھائی !! "

آئینور کے بھائی کہنے پر چونک کر اس نے آئینور کی طرف دیکھا۔ نقاب سے جھانکتی آنکھیں اس کے جواب کی منتظر تھیں۔

"جی !! "

وہ اثبات میں سر ہلاتا گاڑی کی طرف چل دیا۔ آئینور بھی اس کے پچھے چل دی۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر رحیم نے اس کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ وہ برقعہ سنبھالتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ رحیم اس کی طرف کا دروازہ بند کرتا فوراً ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے گھر کے راستے پر ڈال دی۔

راستے میں بھی آئینور باہر دیکھ رہی تھی۔ رحیم تھوڑی تھوڑی دیر بعد بیک مرر سے اس پر نظر ڈال لیتا۔ اسے اس کا بھائی کہنا اچھا لگا تھا۔ وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ اچانک گاڑی کا توازن بگڑا، وہ ڈگمگا گئی۔

پیچھے سے فائر ہوا تھا۔ جو گاڑی کے پچھلے شیشے کو چکنا چور کر گیا تھا۔

" یہ کیا ہو رہا ہے۔" آئینور خود کو سنبھالتی بامشکل بولی۔ آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

" آپ سیٹ کو مضبوطی سے پکڑلیں اور نیچے جھک جائیں۔"

رحیم نے کہہ کر گاڑی کے سٹیرنگ ویل پر گرفت مضبوط کردی۔ وہ بے قابو ہوتی گاڑی کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سنسان سڑک پر گاڑی ادھر سے اُدھر ڈگمگا رہی تھی کہ تبھی ایک اور فائر کی آواز فضا میں گونجی اور اس بار گولی گاڑی کے اگلے شیشے کو توڑتی ہوئی گزری تھی۔ رحیم نے گن نکال کر پیچھے ہاتھ کیا اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔

پیچھے آتی بلیک مرسیڈیز نے بھی اندھادھند فائر کرنے شروع کر دیئے تھے۔ فضا میں صرف گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ رحیم ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتا دوسرے ہاتھ سے فائر کرتا جا رہا تھا کہ اچانک گن میں گولیاں ختم ہوئیں۔ اس نے لب بھیچ کر گن کو ایک طرف پھینکا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔

پیچھے سے مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی۔ رحیم سڑک پر ادھر سے اُدھر گاڑی کو کرتا تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔ پیچھے آتی گاڑی نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی۔ رحیم نے ان کو پاس آتا دیکھ گاڑی کا رخ گلیوں کی جانب موڑ دیا۔ تنگ گلیوں سے گاڑی گزارتا وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ اس جگہ آبادی ہونے کے باعث پیچھے آتی گاڑی لوگوں کی آمدو رفت کی وجہ سے اپنی رفتار سست کر چکی تھی۔ مگر رحیم نے اپنی رفتار کم نہ کی تھی۔ وہ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی کو بھگا رہا تھا۔ لوگ گاڑی کو پاس آتے دیکھ ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ شور بڑھ گیا تھا۔ گلیوں میں بھگدڑ سی مچ اُٹھی تھی۔ رحیم نے ایک بار پھر مڑ کر پیچھے دیکھا۔ وہ گاڑی آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو رہی تھی۔ جب پوری طرح سے گاڑی دکھائی دینا بند ہو گئی تو رحیم نے شکر کا سانس لے کر گاڑی کی رفتار کم کی پھر چہرہ موڑ کر آئینور کو دیکھا جو نیچے جھکی ہوئی تھی۔

" اب آپ اُٹھ جائیں۔ خطرہ ٹل گیا ہے۔"

رحیم نے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا مگر آئینور کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔

" بہنا اُٹھ جاؤ ڈرو نہیں، بس اب گھر آنے والا ہے۔" رحیم نے کہتے ہوئے چہرہ سامنے کرلیا اب اس کی نظریں سڑک پر تھیں۔ آئینور یونہی نیچے جھکی ہوئی تھی۔ اس کے دوبارہ کہنے پر بھی اس نے سر تک نہ اُٹھایا۔

"بیچاری !! کافی ڈر گئی۔"

رحیم نے سوچتے ہوئے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ آئینور کی وجہ سے اب وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ تیز رفتار سے سڑک پر دوڑتی تھوڑی ہی دیر میں گاڑی گھر کے دروازے کے سامنے جا رکی۔ چوکیدار نے آنکھوں میں حیرت لیے گاڑی کی ابتر حالت کو دیکھا۔

" ایسے کیا دیکھ رہے ہو جلدی دروازہ کھولو۔"

رحیم کے غصّے سے کہنے پر چوکیدار گڑبڑا گیا اور فوراً ہی دروازہ کھول دیا۔ رحیم گاڑی کو اندر بڑھا لے گیا۔ پورچ میں گاڑی روکتے ہی اس نے پیچھے مڑ کر آئینور کو دیکھا۔ وہ اب بھی اُسی حالت میں تھی۔

" گھر آ گیا، اب تو اُٹھ جائیں۔"

رحیم کہتے ہوئے سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھتا تھوڑا نیچے کو جھکا مگر اگلے ہی لمحے چونک اُٹھا۔ ہاتھ پر کچھ نمی سی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ہاتھ ہٹا کر اپنے سامنے کیا تو دنگ رہ گیا۔ ہاتھ پر خون تھا جو یقیناً آئینور کا تھا۔

" یہ۔۔۔ یہ کیا ہو گیا، اب کیا کروں؟ سی۔۔۔ سیما خالہ ہاں، ان کو بلاتا ہوں۔"

وہ خود سے بڑبڑاتا فوراً گاڑی سے نکلا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کوئی بعید نہیں تھا، اس حادثے کی خبر ہوتے ہی کردم اس کی جان لے لیتا۔ اس لیے اب اسے جلد از جلد کچھ کرنا تھا، تاکہ آئینور کی جان بچائی جاسکے۔


۔*******************۔


اڈے پر آئے مال کو حفاظت سے ٹرک سے نکالا رہے تھا۔ فاروق اپنی نگرانی میں مال ٹرک سے اُتروا رہا تھا۔ وہیں رحمت کھڑا مال کے ڈبے کھلوا کر مال چیک کر رہا تھا جب کردم ان کے پاس چلا آیا۔

" رحیم ابھی تک نہیں آیا؟ " جیب میں ہاتھ ڈالے وہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔

" نہیں دادا۔" جواب رحمت کی طرف سے آیا۔

" ٹھیک ہے !! آجائے تو میرے پاس بھیجنا۔"

" جی ٹھیک ہے۔" رحمت نے تابعداری سے بولا۔

کردم ایک نظر سب پر ڈالتا جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ فاروق کی آواز پر رک گیا۔

" دادا وہ "مرسل" ( جمشید کا ماتحت ) کا فون آیا تھا۔" فاروق اس کے پاس آ کر بولا۔

" اچھا !! کیوں فون کیا تھا؟ " کردم بیزار سا پوچھنے لگا۔

" دادا آپ تو جانتے ہیں۔ کل رات ملتان میں لڑکیوں کی سمگلنگ کے وقت پولیس نے چھاپا مارا تھا۔" فاروق نے اسے یاد دلایا۔

" تو؟ "

کردم کی بیزاری میں زرا فرق نہ آیا۔ وہ ویسے ہی بیزار سا پوچھ رہا تھا۔

" تو جمشید بھا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے آدمیوں کو چھڑوانے میں ان کی مدد کریں۔ آپ کا اور غفار کا فون کل رات سے بند تھا اس لیے انہوں نے مرسل کے زریعے مجھے فون کیا۔" فاروق کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اب وہ کردم کے جواب کا منتظر تھا جو ماتھے پر بل ڈالے اس کے سامنے کھڑا تھا۔

" یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اب فون آئے تو بول دینا مجھے اس معاملے سے دور رکھیں۔" کردم ناگواری سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔

فاروق نے رحمت کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" دادا کچھ عجیب نہیں ہیں؟ دنیا کے ہر بُرے کام میں ملوث ہیں سوائے لڑکیوں کی اسمگلنگ کے، نہ خود اسمگلنگ کرتے ہیں نہ کسی کی اس سلسلے میں مدد کرتے ہیں۔"

" اب یہ تو اُنہیں ہی معلوم ہوگا، معاملہ کیا ہے۔"

فاروق کی بات پر رحمت کندھے اچکا کر کہتا واپس اپنے کام میں لگ گیا۔ فاروق بھی سر جھٹکتا ٹرک کی جانب بڑھ گیا، جس میں سے ابھی بھی مال اُتارا جا رہا تھا۔


۔*******************۔


سٹریچر پر اسے لیٹائے وہ ہسپتال میں آ گے بڑھتے جا رہے تھے۔ ارد گرد موجود لوگ آتے جاتے اسے دیکھ رہے تھے۔ جس کے خون سے سٹریچر تک رنگ گیا تھا۔ رحیم اور سیما خالہ اسے لیے ڈاکٹر کے روم کے سامنے جا رکے ان کے ساتھ نرس بھی موجود تھیں۔

" سیما خالہ آپ یہیں رکیں، میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں۔" رحیم کہتا ہوا روم میں چلا گیا۔

اندر داخل ہو کر اس نے دروازہ لاک کیا اور ڈاکٹر کی طرف بڑھا جو آنکھیں سکیڑے اس کو گھور رہا تھا۔

" یہ کیا کرہے ہو؟ اور اندر کس نے آنے دیا؟ " ڈاکٹر غصّے سے بولا۔

رحیم اس کی بات کو نظر انداز کرتا آگے بڑھا اور کالر سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے مقابل کھڑا کیا۔

" چل باہر جو لڑکی اسٹریچر پر ہے اُس کا فوراً آپریشن شروع کروا ورنہ تیری آنے والی سات نسلوں کو ہمیشہ علاج کی ضرورت پڑتی رہے گی۔" رحیم دانت پیستا ہوا بولا۔

" یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے، میں ابھی گارڈ کو بلاتا ہوں۔"

ڈاکٹر ایک ہاتھ سے اپنا کالر چھڑوانے کی کوشش کرتا دوسرا ہاتھ ریسیور کی جانب بڑھانے لگا کہ تبھی رحیم نے گن نکال کر اس کے سر پن تان دی۔

" لگتا ہے تجھے سمجھ نہیں آ رہی، ابھی اُتاروں تیری کھوپڑی میں گولیاں؟ " رحیم غرایا۔

" دیکھو میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ رحم کرو !! " ڈاکٹر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

" یہ ڈرامہ چھوڑ اور باہر چل کر اُس لڑکی کو دیکھ جلدی۔" رحیم کی بات پر ڈاکٹر نے سر ہلایا جس پر رحیم نے اسکا کالر چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر فوراً دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ رحیم نے بھی گہرا سانس لے کر گن واپس پینٹ میں پھنسا لی اور کوٹ ٹھیک کرتا خود بھی اس کے پیچھے چل دیا۔

باہر آیا تو نرس سیما خالہ سے بحث کرتی نظر آئی۔

" کیا ہو رہا ہے یہاں؟ " ڈاکٹر نے ان کے قریب جا کر پوچھا۔

" ڈاکٹر اس پیشنٹ کو گولی لگی ہے۔ یہ پولیس کیس ہے، میں کب سے انہیں سمجھا رہی ہوں مگر یہ سن ہی نہیں رہیں۔" نرس پریشان سی بولی۔

اس کی بات پر ڈاکٹر نے ایک نظر آئینور کی طرف دیکھا جو اب بھی برقعے میں موجود اسٹریچر پر پڑی تھی۔ اس نے اپنا رخ رحیم کی طرف کیا اور کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ تبھی رحیم نے بائیں ہاتھ سے کوٹ ہٹا کر اسے گن دکھائی۔ ڈاکٹر نے فوراً اپنا رخ نرس کی طرف موڑ لیا۔

" آپ پیشنٹ کو آپریشن تھیٹر میں لے کر جائیں اور آپریشن کی تیاری شروع کریں۔ ہم پولیس کا انتظار نہیں کر سکتے۔" ڈاکٹر کے کہنے پر نرس فوراً اسٹریچر لیے آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے جاتے ہی رحیم ڈاکٹر سے گویا ہوا۔

" اُسے کچھ ہونا نہیں چاہیئے ورنہ سلامت تم بھی نہیں رہو گے۔"

ڈاکٹر تھوک نگلتا اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ رحیم ایک سرپھرہ انسان ہے۔ اس سے کچھ بھی کہنا موت کو دعوت دینا تھا۔

" میری بچی ٹھیک تو ہو جائے گی نا؟ " سیما خالہ روتے ہوئے پوچھنے لگیں۔ کچھ ہی عرصے میں وہ انہیں بیٹی کی طرح عزیز ہوگئی تھی۔

" آپ فکر نہ کریں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی اور بس اب رونا بند کریں، میں زرا دادا کو کال کر لوں۔"

رحیم کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ سیما خالہ وہیں بینچ پر بیٹھ کر آئینور کے لیے دعائیں مانگنے لگیں۔


۔******************۔

عدیل اپنے کمرے میں کتابیں کھولے بیٹھا تھا جب رخسار بیگم پریشان سی اس کے پاس چلی آئیں۔

" عادی !! "

" کیا ہوا اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟ " وہ کتابوں سے سر اُٹھا کر ان کے بجھے ہوئے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔

" تم میری نور سے بات کروا دو۔"

" کیوں؟ آج صبح ہی تو بات ہوئی تھی آپ کی ان سے۔" عدیل نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔

"ہاں !! لیکن میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہو گیا ہو۔" وہ پریشانی سے بولیں۔

عدیل خاموش انہیں دیکھتا رہا پھر کتابیں بند کرتا ان کے پاس چلا آیا اور شانوں سے تھام کر بولا۔

" آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں۔ پہلے بھی آپ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا مگر آپی بالکل ٹھیک تھیں اور دیکھے گا وہ اب بھی ٹھیک ہی ہونگی۔"

" اللّٰه کرے ایسا ہی ہو !! " رخسار بیگم نے دل میں سوچا۔

" تم۔۔۔ تم فون ملاؤ مجھے بات کرنی ہے۔"

" ماما پلیز !! بار بار فون نہ کریں انہیں اور بھی کام ہونگے۔ اب ہر وقت تو ہم سے بات نہیں کر سکتیں نا۔" عدیل تنک کر بولا۔ رخسار بیگم خاموش ہوگئیں۔

" اچھا !! رات تک انتظار کر لیں پھر بات کر لیے گا۔" رخسار بیگم کے افسرده چہرے کو دیکھ کر وہ فوراً بولا۔

" ٹھیک ہے۔"

وہ بجھے دل کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئیں۔ عدیل بھی گہرا سانس لیتا واپس اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گیا۔


۔*****************۔


سیما خالہ اس وقت نماز ادا کرنے گئی ہوئی تھیں۔ رحیم اکیلے ہی آپریشن تھیٹر کے سامنے پریشان سا کھڑا تھا۔ وہ کردم کو فون پر آئینور کو گولی لگنے کے بارے میں بتا چکا تھا اور فون پر بھی کردم کے لہجے کی سختی اس سے چھپی نہیں تھی۔ وہ انتہا پر جا کر اپنا بدلہ سامنے والے سے لیتا تھا۔ اس لیے اب وہ کردم کے متوقع رویے کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ تبھی منہ پر رومال باندھے، اپنی گہری کالی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتے۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا آپریشن تھیٹر کی جانب آتا دکھائی دیا۔

" کردم دادا !! "

رحیم اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھا۔

کردم نے رحیم کے پاس آتے ہی اُسے کالر سے دبوچ کر دیوار سے لگایا دیا۔ آس پاس کھڑے لوگ تماشائی بنے ان دونوں کو دیکھنے لگے۔ رحیم نے اپنا سر جھکا دیا۔

" یہ سب کیسے ہوا۔۔۔؟ آخر تمہیں ساتھ بھیجنے کا فائدہ کیا ہوا، جب تمہاری موجودگی میں بھی اُسے گولی لگ گئی۔؟ " کردم لوگوں کی موجودگی کا خیال رکھتے ہوئے دبا دبا سا چلایا۔

" دادا وہ۔۔۔" اور پھر رحیم نے سر جھکائے سارا واقع کردم کے گوش گزار کر دیا۔

کردم اس کا کالر چھوڑتا پیچھے ہوا۔ غصّے کے باعث اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے خود کو کنٹرول کرنا چاہا۔ تبھی سیما خالہ بھی نماز ادا کرنے کے بعد ان کے پاس چلی آئیں اور کردم کو غصّے میں دیکھ کر وہ رحیم سے مخاطب ہوئیں۔

" ڈاکٹر نے کچھ بتایا نور کا؟ "

" ابھی نہیں۔" رحیم نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

سیما خالہ خاموشی سے بینچ پر بیٹھ گئیں۔ کردم ادھر سے اُدھر چکر کاٹتا اپنی سوچوں میں غرق تھا۔ کہ اچانک اسے وہ ویڈیو یاد آئی۔ جس میں جمشید کردم کے خلاف بول رہا تھا۔

" تو پاشا ٹھیک بول رہا تھا۔ یہ سب جمشید کا کیا دھرا ہے۔ لڑکیوں کی سمگلنگ کے کیس میں اُس کی مدد نہیں کی تو یہ اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر لیے اُس نے۔ پر وہ جانتا نہیں مجھے، وہاں لے جا کر ماروں گا کہ سب کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ جائے گا۔"

کردم نے سوچتے ہوئے آپریشن تھیٹر کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ڈاکٹر بابر آ رہا تھا۔ اس نے فوراً رحیم کو اشارہ کیا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا ڈاکٹر کی طرف بڑھ گیا۔ سیما خالہ بھی ڈاکٹر کو دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔

" کیسی طبیعت ہے اب؟ " رحیم چہرے پر سختی لیے گویا۔ ڈاکٹر فوراً دو قدم پیچھے ہٹا۔

" گولی اُن کے دائیں بازو پر لگی تھی۔ ہم نے گولی نکال دی ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے پیشنٹ اور بےبی دونوں ٹھیک ہیں۔ تھوڑی دیر میں اُنہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔"

ڈاکٹر کی بات پر تینوں نفوس ساکت سے کھڑے اُسے دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر گھبراتا ہوا فوراً وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی سب سے پہلے سیما خالہ ہوش میں آئیں۔

" میرے مالک تیرا شکر !! " انہوں نے شکر ادا کرتے کردم کی طرف دیکھا جو ابھی بھی ساکت کھڑا تھا۔

" مبارک ہو بیٹا !! تم باپ بننے والے ہو۔" وہ خوشی سے چور لہجے میں بولیں۔

کردم کا ایکدم سکتہ ٹوٹا۔ اس نے رحیم کی طرف دیکھا جو حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فوراً خود پر قابو پاتے وہ گویا ہوا۔

" میں اڈے پر جا رہا ہوں رات ہوتے ہی کسی بھی صورت اُسے گھر لے آنا اور ہاں !! کسی کو بھی اس بارے ميں خبر نہیں ہونی چاہیئے۔ سمجھے؟ "

" جی دادا !! " رحیم نے فوراً سنبھل کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

کردم ایک نظر آپریشن تھیٹر کے دروازے پر ڈالتا فوراً وہاں سے چلا گیا۔


۔*****************۔


دوپہر شام اور شام رات میں ڈھلی۔ تبھی ایک بلیک جیپ کردم کے دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ چوکیدار نے دیکھتے ہی فوراً دروازہ کھولا تھا۔ گاڑی آگے بڑھتی سیدھا پورچ میں جا رکی۔

گاڑی سے باہر نکلتے ہی رحیم نے آئینور کی طرف کا دروازہ کھولا۔ وہ ہسپتال میں سارا ریکارڈ ختم کروا کر انہیں گھر لے آیا تھا۔ سیما خالہ نے ہسپتال میں ہی اُسے بچے کی آمد کی خبر سنا دی تھی اور تب سے آئینور کو چُپ سی لگ گئی تھی۔ ابھی بھی وہ بےتاثر چہرے کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلی۔

" آرام سے لڑکی !! "

سیما خالہ اس کی طرف آتے ہوئے بولیں اور آئینور کو لیے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔


۔******************۔


" تم مجھے فون دو میں خود ہی اُسے فون کر لوں گی۔" رخسار بیگم غصّے سے بھری عدیل کے کمرے میں آئیں اور اس پر برس پڑیں۔

" کیا ہو گیا ہے ماما؟ آپ بلا وجہ ہی پریشان ہو رہی ہیں۔" عدیل بیزار سا بولا۔ وہ تنگ آ گیا تھا، ان کی ایک ہی رٹ سے۔

" ٹھیک ہے !! میری ایک دفعہ نور سے بات کروا دو۔ میرا وہم دور ہوجائے گا۔" وہ اُس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولیں۔ عدیل نے نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

وہ خود بھی آئینور کو کئی بار کال ملا چکا تھا۔ بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اُٹھا رہی تھی، جس کی وجہ سے عدیل خود بھی پریشان ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا، رخسار بیگم کو یہ بات معلوم ہو ورنہ وہ اور بھی پریشان ہو جاتیں۔ لیکن اب ان کی ضد کے آگے وہ ہار گیا اور نا چاہتے ہوئے بھی فون انہیں دے دیا۔

رخسار بیگم اسے گھورتی موبائل لے کر کمرے سے باہر نکل گئیں وہ بھی ناچار اُن کے پیچھے چل دیا۔


۔******************۔


" ہاں پاشا بھائی !! تمہارا منصوبہ ناکام رہا۔ وہ بچ گئی۔" وہ دروازے کے باہر کھڑا اس محل نما گھر کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ جو اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بس ایک کمرے کی بتی روشن تھی۔

"ناممکن !! ایسا نہیں ہو سکتا۔" پاشا کی غصّے سے بھری آواز ابھری۔

" مگر ایسا ہو گیا ہے۔ وہ زندہ ہے اور اس وقت کردم دادا کے گھر موجود ہے۔" وہ طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا۔

تبھی دوسری طرف سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی۔

" میں کردم دادا کو اتنی آسانی سے جیتنے نہیں دوں گا۔ آج بچ گئی، لیکن ایک دن چڑیا جال میں پھنسے ہی جائے گی۔ تم بس مجھے خبر کرتے رہنا۔" پاشا خود پر قابو پاتا بولا۔

"وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔ مجھے میرا پیسہ کب ملے گا؟ اب تک تو پہنچ جانا چاہیئے تھا۔" کمرے کی کھڑکی پر نظریں جمائے وہ کمینگی سے بولا۔

"کل تک تمہیں تمہارا پیسہ مل جائے گا۔ بس میرا کام ٹھیک سے ہوتے رہنا چاہیئے ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"

" اُس کی فکر تم نہ کرو پاشا بھائی !! پل پل کی خبر ملتی رہے گی بس تمہارا ہاتھ میرے سر پر ہونا چاہیے۔"

" ہمممم ٹھیک ہے !! اب فون رکھتا ہوں۔" پاشا نے کہہ کر کال کاٹ دی۔ وہ شخص موبائل جیب میں رکھتا ہوا مسکراتے ہوئے گھر کے اندر چلا گیا، جہاں اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے۔


۔*******************۔

" لڑکی تم آرام کرو کچھ چاہیئے ہو تو مجھے بلا لینا۔" آئینور کو بیڈ پر لیٹا کر سیما خالہ اس پر کمبل ڈالتے ہوئے بولی۔ آئینور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" ٹھیک ہے !! اب میں چلتی ہوں۔" وہ مسکرا کر کہتیں، اسے پیار کر کے خواب گاہ سے باہر چلی گئیں۔

ان کے جاتے ہی یکدم آئینور کا چہرہ سنجیدہ ہوا۔ اپنی ہتھیلیوں کو آنکھوں کے سامنے پھیلائے وہ بے بسی سے انہیں دیکھنے لگی کہ تبھی کردم اپنا سر تولیے سے رگڑتا باتھ روم سے باہر آیا۔ آئینور پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور تولیے کو بیڈ پر پھینک کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔

آئینور نے ناگواری سے بیڈ پر پڑے تولیے کو دیکھا پھر کردم کو جو آنکھوں میں محبت کا جہان آباد کیے اسے دیکھ رہا تھا۔ آئینور نے فوراً نظریں چرا لیں۔

" نور تم۔۔۔"

کردم بولنے ہی لگا تھا جب موبائل پر آتی کال کی آواز پر رک گیا۔

" میرا فون !! "

آئینور کے کہنے پر کردم نے فوراً جھک کر سائڈ ٹیبل کی دراز سے اس کا موبائل نکال کر اسے دیا۔ رخسار بیگم کی کال دیکھتے ہی اس نے لمحے کی تاخیر کیے بنا فون اُٹھایا۔

" ہیلو نور !! " رخسار بیگم کی فکر مند آواز ابھری۔ آئینور کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

" ماما !! "

اس کی آواز میں لرزش واقع تھی۔

" کیا ہوا نور؟ تم رو رہی ہو؟ " رخسار بیگم پریشان ہو اُٹھیں۔ وہیں کھڑا عدیل جو آئینور کے فون اُٹھانے پر سکھ کا سانس لے رہا تھا۔ رخسار بیگم کو پریشان ہوتا دیکھ خود بھی پریشان ہوگیا۔

" نہیں وہ بس۔۔۔"

آئینور بول ہی رہی تھی، جب کردم نے اس کے ہاتھ سے فون لے کر کان سے لگایا۔

" آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہے اور بہت بہت مبارک ہو آپ کو، آپ نانی بننے والی ہیں۔"

کردم نے کہتے ہوئے ایک ہاتھ آئینور کے گال پر بہتے آنسو صاف کیے اور بازو سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ آئینور دبی دبی سسکیوں سے اس کے سینے سے لگے رونے لگی۔

اُدھر رخسار بیگم کی خوشی کا تو ٹھکانہ نہ رہا تھا۔ یکدم اُن کا چہرہ کھل اُٹھا۔

"واقعی !! تم۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو؟ " رخسار بیگم نے ایک بار پھر پوچھا۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا آیا کہ انہوں نے صحیح سنا ہے یا نہیں۔

" بالکل !! " کردم مسکرا کر کہتا آئینور کے بال سہلانے لگا۔

" ٹھیک ہے پھر میں جلد ہی عادی کے ساتھ لاہور آؤں گی۔" رخسار بیگم خوشی سے چور لہجے میں بولیں۔

عدیل ان کے پل پل بدلتے رویے کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ چند ایک اور باتوں کے بعد انہوں نے کال کاٹ دی۔

" کیا ہوا؟ " عدیل نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

" مبارک ہو تمہیں !! تم مامو بننے والے ہو۔" رخسار بیگم خوش ہوتی کمرے میں چلی گئیں، پیچھے عدیل حیران و پریشان سا کھڑا رہ گیا۔

دوسری طرف آئینور کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کردم نے اسے خود سے الگ کر کے آنسو اپنی پوروں پر چن لیے۔

" تم خوش نہیں ہو نور؟ " آئینور کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اوپر کیا۔ آئینور نے نظریں چرا لیں۔

" کچھ پوچھ رہا ہوں۔ میری طرف دیکھو۔" اس نے اپنے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔ نا چاہتے ہوئے بھی آئینور نے اپنی لرزتی پلکیں اُٹھا لیں۔

" بتاؤ تم خوش نہیں ہو؟ "

" میں خوش ہوں۔" کہتے ہوئے چہرا بےتاثر تھا۔

" اچھا !! پھر مجھے کیوں نہیں لگ رہا؟ " کردم جانچتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ آئینور فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔

" مجھے درد ہو رہا ہے بازو میں، بس اس لیے ابھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔"

آئینور کی بات پر کردم کی نظریں فوراً اس کے بازو پر گئی، جہاں پٹی بندھی تھی۔ بچے کی پیدائش کا سن کر وہ تو اس بات کو یکسر فراموش کر چکا تھا۔

" اس لیے میں نہیں چاہتا تھا تم گھر سے باہر جاؤ۔ اب دیکھ لیا نا۔" کردم نے کہتے ہوئے ایک بار پھر اسے سینے سے لگا لیا۔

آئینور خاموش رہی فلحال ابھی وہ تنہائی چاہتی تھی جو اسے میسر نہ تھی۔

" چلو !! تم اب آرام کرو۔" کردم اس سے الگ ہوا۔ آئینور نے خاموشی سے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔

" میں اُسے چھوڑو گا نہیں نور۔۔۔ جس نے تمہاری یہ حالت کر دی۔" کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے بڑبڑایا پھر اُٹھ کر خواب گاہ سے باہر نکل گیا۔

اس وقت وہ جزباتی ہو رہا تھا اور اکثر جزبات میں آکر انسان صحیح غلط میں فرق نہیں کر پاتا۔ اس بار کردم بھی یہی کر رہا تھا۔ اپنے عقل سے کام لینے کے بجائے وہ جزباتی ہو رہا تھا۔ جو آ گے جا کر کافی نقصان دہ ثابت ہونا تھا۔


۔*******************۔


سردی کے اس موسم میں ملتان پر صبح بہت ابر آلود اُتری تھی۔ ایسے میں اپنے محل نما گھر سے سوٹ بوٹ میں تیار وہ شخص اڈے پر جانے کے لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کے ماتحت نے گاڑی گھر سے نکال کر اڈے کے راستے پر ڈال دی۔ کچھ وقت خاموشی سے گزرانے کے بعد وہ اپنے ماتحت سے گویا ہوا۔

" کیا سارے آدمی اڈے پر پہنچ چکے ہیں؟ "

" جی جمشید بھا !! وہ سب کافی پہلے ہی نکل چکے تھے۔" وہ گاڑی چلاتا ہوا بولا۔

" ٹھیک ہے۔" جمشید اثبات میں سر ہلاتا گاڑی سے باہر دیکھنے لگا۔ جہاں راستے میں دور دور تک جھاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔

" تم نے اچھا نہیں کیا کردم دادا !! مجھے انکار کر کے خود سکون سے بیٹھے ہو۔ دیکھنا ایسا تمہیں پھنساؤں گا کہ سیدھا پھانسی پر ہی چڑھو گے۔" جمشید باہر دیکھتا سوچ رہا تھا کہ تبھی اس کی نظر گاڑی کے شیشے پر پڑی۔ جس میں پیچھے آتی جیپ میں سے ایک بندہ چہرے پر ماسک پہننے اس کی گاڑی کا نشانہ باندھ رہا تھا۔ اس سے پہلے جمشید کچھ کرتا پیچھے آتی گاڑی سے فائر ہوا اور پھر پے در پے حملوں نے گاڑی کو ہوا میں اچھال کر رکھ دیا۔ گاڑی زور دار آواز کے ساتھ پلٹی کھا کر سڑک پر الٹی گری اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ کچھ دیر میں ہی فضا میں دھماکے کی آواز دور تک پھیل تھی۔

پیچھے کھڑی جیپ میں موجود تمام نفوس کی آنکھوں ان شعلوں کے منظر کو صاف دیکھا تھا۔ اپنی جیت کا جشن مناتے وہ اس سنسان سڑک پر گاڑی کو واپس بھگا لے گئے۔ انہیں اب جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچنا تھا۔

۔********************۔

اس کی آنکھ کھلی تو کردم کو بالکل اپنے برابر میں سوتا پایا۔ اس نے نظر پھیر کر گھڑی کی طرف دیکھا جس میں بارہ بج رہے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ اور تبھی بازو میں درد کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔

" آاااہ !! "

" کیا ہوا۔۔۔؟ درد ہو رہا ہے؟ "

آئینور کے کراہنے کی آواز پر وہ فوراً اُٹھ بیٹھا اور فکر مند سا پوچھنے لگا۔

" بس تھوڑا سا۔"

اس کے کہتے ہی کردم نے اس کا بازو اپنے ہاتھوں میں لیا اور دھیرے دھیرے سہلانے لگا۔

آئینور اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ یہ اُس کردم سے مختلف تھا جو اسے چوٹ پہنچا کر بھی حال نہیں پوچھتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا جو نیند میں ہو کر بھی اس کے لیے فکر مند تھا۔

" بس اب ٹھیک ہے۔" اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہ بیڈ پر سے اُترتی باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

کردم اسے جاتے دیکھ رہا تھا کہ تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے فوراً سائڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھا کر کال ریسیو کی۔

" ہاں کیا خبر ہے؟ "

" کام ہو گیا، کردم دادا !! " دوسری طرف سے رحیم کی آواز ابھری۔

" ویری گڈ !! " کردم نے مسکرا کر کہتے کال کاٹ دی۔ اس کا موڈ یکدم خوشگوار ہو گیا تھا۔

" کیوں اکیلے اکیلے مسکرا رہے ہیں؟ "

آئینور کی آواز پر اس نے چونک کر باتھ روم کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑی سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" آؤ تم بھی میرے ساتھ مل کر مسکرا لو !! "

وہ مسکرا کر بولا۔ آئینور سر جھٹکتی ڈریسنگ کی آگے جا کھڑی ہوئی۔ کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

" سیما خالہ کو ناشتہ لانے کا بول دو، خود نیچے مت جانا۔"

کردم بیڈ سے اُتر کر اسے ہدایت دیتا باتھ روم میں گھس گیا اور آئینور وہ بس کلس کر رہ گئی۔

" لوو !! اب اس کمرے سے باہر جانے پر بھی پابندی۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں لگے انٹر کام کی جانب بڑھ گئی اور سیما خالہ کو ناشتے کا بول کر، وہ واپس ڈریسنگ کے سامنے جا کر بال بنانے لگی۔ تبھی کردم بھی باتھ روم سے باہر نکل آیا اور سیدھا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔

"مجھے ابھی جلدی جانا ہے ورنہ آج تمہیں اپنے ہاتھ سے ناشتہ کراتا، اس لیے ناشتہ ٹھیک سے کرنا۔"

کردم نے کہتے ہوئے اس کے گرد بازوؤں کا حصار بنایا۔ آئینور جھنپتی ہوئی خود میں سمٹنے لگی۔

" سمجھ آئی یا سمجھاؤ۔۔۔؟ "

وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا گردن پر جھک گیا اور آئینور اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

کردم کا یہ نیا روپ اس سے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ اظہارِ محبت کے بعد وہ اس پر حق جتاتا تھا، اس کی پرواہ کرتا تھا، مگر اب وہ اس کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی فکر مند ہو رہا تھا۔

وہ خود پر قابو پاتی اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

" سیما خالہ !! میں دروازہ کھول دوں۔" آئینور خود کو چھڑوا کر فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کردم مسکراتے ہوئے اپنی تیاری میں لگ گیا۔


۔******************۔


گاڑی سیدھا اُس خستہ حال بلند و بالا عمارت کے سامنے جا کر رکی تھی۔ بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ شان سے اپنی گاڑی سے نکلتا اس بلند و بالا عمارت میں داخل ہوا تھا۔ راہِ داری میں چلتا وہ اس بڑے سے کمرے کے آگئے جا رکا اور دروازے کو دھکیل کر قدم اندر کی جانب بڑھائے دیئے۔

" کردم دادا !! "

رحیم جو کرسی پر بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہی فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔

" کسی کو شک تو نہیں ہوا ؟ "

کمرے میں جلتی بلپ کی مدہم روشنی میں وہ اس کے مقابل جا کر بولا۔

" نہیں دادا !! میں نے باہر سے آدمیوں کو اس کام کے لیے بھیجا تھا۔ اس لیے ہمارے کسی بھی ماتحت کو بھی اس کی خبر نہیں۔"

" بہت خوب !! " کردم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

" ہاں !! ایک اور بات، اب سے تم غفار کی جگہ کام کرو گے۔"

" میں !! لیکن کیوں کردم دادا۔۔۔؟ میرا مطلب ہے غفار وہ کہاں ہے؟ "

کردم کی بات پر وہ حیرت زدہ لہجے میں پوچھنے لگا۔

" غفار جہاں بھی ہے اس سے تمہیں یا کسی کو بھی مطلب نہیں ہونا چاہیئے اور دوسری بات میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کرسکتا اس لیے اب غفار کی جگہ تم کام کرو گے۔ سمجھے؟ "

اس نے سوالیہ نظروں سے رحیم کو دیکھا۔

" جی دادا !! آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"

وہ اپنی حیرت کو قابو کرتا فوراً بولا۔

" ٹھیک ہے !! اب جاؤ۔"

اس نے کہتے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کیا مگر رحیم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔

" کیا ہوا۔۔۔؟ کوئی اور بات بھی ہے؟ "

کردم نے بھنویں اچکائیں۔

" جی کردم دادا !! " رحیم تھوک نگلتا بولا۔

" پوچھو۔ "

" دادا آپ نے جمشید بھا کو کیوں مروایا جبکہ مجھے لگتا ہے یہ کام پاشا بھائی کا ہے۔ ان کا تو جھگڑا بھی ہوا تھا آپ سے؟ "

کردم کی طرف سے اشارہ ملتے ہی اس نے جلدی سے پوچھا۔ کردم کا جمشید کو مروانے کا فیصلہ رحیم کو کچھ ٹھیک نہیں لگا تھا۔

" ہاں !! جھگڑا ہوا تھا، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ جمشید بھی اُس کے ساتھ ملا ہوا تھا۔" کردم حقارت سے بولا۔

" لیکن کیوں جمشید بھا کی آپ سے کیا دشمنی؟ "

رحیم کے سوال پر کردم کچھ پل کے لیے خاموش ہو گیا۔

(میرے پاپا جس گناہوں کے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے پر یہ جاننا مشکل ہے، کون آپ کا دوست ہے اور کون دشمن۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ چھپے ہوئے ہیں۔) اسے آئینور کی کہی بات یاد آئی تھی۔

" رحیم !! جس راستے پر ہم چل رہے ہیں، اُس راستے پر یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن۔۔۔ ہم کبھی نہیں جان سکتے ہم نے کتنے آستین کے سانپ پال رکھیں ہیں۔

اب دیکھو !! لڑکیوں کے سمگلنگ کے کیس میں جمشید کی مدد نہیں کی تو اُس نے نور پر حملہ کروا دیا۔"

اُس واقعے کو سوچتے کردم کی رگیں تن گئیں۔

" لیکن جمشید بھا کو اُن کا کیسے پتا چلا۔۔؟ اُن کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا۔"

رحیم اب بھی کچھ مطمئن نہیں ہوا تھا۔

" تمہیں کیا لگتا ہے !! جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہو وہ مجھ پر نظر نہیں رکھے گا۔ وہ ضرور مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا، تبھی اُسے نور کی خبر ہوئی۔"

" کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔"

رحیم نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

" اب کچھ اور پوچھنا ہے یا ہوگیا؟ "

" نہیں۔۔۔ نہیں !! اب میں چلتا ہوں۔"

رحیم گڑبڑاتا ہوا فوراً وہاں سے چلا گیا۔ کردم دھیرے سے مسکرا دیا۔ ان کی تجسس بھری عادت سے بہت اچھی طرح واقف جو تھا۔


۔******************۔


ناشتے کے برتن اُٹھانے کے لیے وہ خواب گاہ میں داخل ہوئیں تو آئینور کو دیکھ کر یکدم پریشان ہو اُٹھیں۔ وہ بیڈ پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔

" کیا ہوا لڑکی درد ہو رہا ہے؟ " سیما خالہ پر یشان ہوتیں اس کے پاس جا بیٹھیں۔ آئینور نے نفی میں سر ہلا دیا۔

" پھر کیوں رو رہی ہو؟ کیا کردم بیٹے نے کچھ کہا تھا؟ "

" نہیں !! " وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی بولی۔

" پھر کیا ہوا ہے، بتاؤ بھی؟ "

" میں۔۔۔ میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔"

وہ کہہ کر ایک بار پھر رونا شروع ہوگئی۔ سیما خالہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھیں۔

" تم جانتی بھی ہو کیا بول رہی ہو۔"

" میں جانتی ہوں پر پہلے میں اکیلی تھی، لیکن اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ساتھ ایک اور جان پل رہی ہے۔ میں نہیں چاہتی وہ بھی اس گناہوں سے بھری دنیا میں پرورش پائے، میرے ساتھ ساتھ اُس کے بھی حلق میں حرام کا نوالہ جائے۔ اس لیے میں یہاں سے دور چلے جانا چاہتی ہوں۔"

آئینور بولی تو اس کے رونے میں مزید روانگی آگئی۔

" تمہیں کیا لگتا ہے !! چلی جاؤ گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔؟ تم پھر سکون سے اپنے بچے کے ساتھ رہو گی؟ نہیں۔۔۔ نہیں لڑکی، تم کہیں بھی چلی جاؤ وہ تمہیں ڈھونڈ نکالے گا۔ تم تک پہنچنا اُس کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اس سب میں نقصان صرف تمہارا ہونا ہے، کیونکہ کردم معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ یہ بات تم بھی اچھے سے جانتی ہو تبھی تو یہاں ہو۔ اسلم مر گیا لیکن کیا تم آزاد ہوئیں۔۔۔؟ نہیں نا اور پھر تم تو اُس کے بچے کے ساتھ یہاں سے جاؤ گی۔ وہ تمہیں کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔" سیما خالہ اسے سمجھانے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی رہی تھیں، کیونکہ وہ خود نہیں چاہتی تھیں آئینور یہاں سے جائے۔ مگر ان کی کہی باتیں درحقیقت ٹھیک بھی تھیں۔ کردم اپنا بدلہ انتہا پر جا کر لیتا تھا۔ تبھی تو پاشا کا جہاز کو آزاد کرنے کے بعد بھی سونیا پر گولی چلا دینا، اسلم کی جان کے بدلے آئینور کو حاصل کرنا، نہ صرف یہ بلکہ کتنی ہی بار آئینور کو چوٹ بھی پہنچائی تھی، اور تو اور اپنے ہی گھر میں اُس شخص پر گولی چلائی، جس کا قصور بھی صرف وہ ہی جانتا تھا۔ اور اب جمشید کو بھی موت کے گھاٹ اتار چکا تھا۔ وہ ہمیشہ مقابل سے بدلہ سود سمیت لیتا تھا اور اب تو بات اُس کے بچے کی تھی۔ پھر کیسے ممکن تھا وہ آئینور کو معاف کر دیتا۔

" میں یہ بھی جانتی ہوں اس لیے تو آج تک یہ قدم نہیں اُٹھایا۔ پہلے میں پاپا کی وجہ سے مجبور تھی اور اب عادی کی وجہ سے میرا ایک غلط قدم ان کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ تبھی میں عادی کے یہاں آنے کے بعد اپنے دماغ سے جانے کا خیال نکال چکی تھی پر اب۔۔۔ اب میں پھر اس بچے کی خاطر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں۔ آپ۔۔۔ آپ سمجھائیں نا، شاید وہ مان جائیں۔"

آئینور نے کہتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ سیما خالہ نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو الگ کیا، مگر بولی کچھ نہیں۔

" آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں؟ آپ خود دیکھیں، کچھ بھی تو ایسا نہیں جو ہم میں ایک جیسا ہو۔ ہمارے زندگی گزارنے کے طور طریقے الگ ہیں، راستے الگ ہیں، سب کچھ تو الگ ہے۔ حتاکہ ہمارے تو قد میں بھی کتنا فرق ہے، میں تو اُن کے کندھے تک بھی نہیں آتی۔"

آئینور کی آخری بات پر سیما خالہ نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کی پر ناکام رہیں۔ اگلے ہی لمحے اُن کے قہقہے کی گونج کمرے میں سنائی دی تھی۔

آئینور نے اُنہیں ہنستا دیکھ خفگی بھری نگاہوں سے گھورا۔

" تم اس بات کے لیے پریشان ہو رہی ہو؟ "

وہ اپنی ہنسی قابو کرتی بولیں مگر پھر ہنس پڑیں۔

" آپ ہنس لیں پہلے، بلکہ مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔"

وہ غصّے سے کہتی اُٹھنے لگی کہ سیما خالہ نے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔

" بیٹھو ادھر اور مجھے ایک بات بتاؤ؟ "

" کیا ؟ "

وہ منہ بناکر بولی۔

" تم نے یہ نکاح اپنی خوشی سے کیا ہے؟ "

" یہ کیا پوچھ رہی ہیں۔۔۔؟ جبکہ آپ اچھے سے جانتی ہیں یہ نکاح کیوں ہوا۔"

سیما خالہ کے سوال پر آئینور حیران ہوتے ہوئے بولی۔

" ہاں جانتی ہوں !! اُس میں تمہاری خوشی شامل نہیں تھی۔ وہ سب اللّٰه کی مرضی تھی۔ اُس ہی طرح یہ بھی اللّٰه کی مرضی ہے۔ جیسے اُس بات کو قبول کیا اسے بھی کرلو لڑکی۔ دیکھنا اللّٰه خود ہی سب ٹھیک کر دے گا۔ سمجھ رہی ہونا ؟ "

سیما خالہ نے اب کی بار اسے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا اتنا تو وہ بھی جان گئیں تھیں، اسے کیسے سمجھانا ہے۔

آئینور نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ کیونکہ بات جب اللّٰه کے فیصلے اور اُس کی مرضی پر آجائے تو بندے کی کیا اوقات پھر کچھ بولے۔

" چلو !! تم آرام کرو، میں زرا باقی کام دیکھ لوں۔"

سیما خالہ اس کا ماتھا چومتی برتن اُٹھا کر خواب گاہ سے باہر نکل گئیں اور اُن کے جاتے ہی ایک بار پھر آئینور کی آنکھوں سے برسات بہنا شروع ہوگئی۔


۔*******************۔


گاڑیاں تیزی سے اس محل نما گھر کے سامنے جا کر رکی تھیں۔ سب نے گاڑیوں سے نکل کر اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے تھے۔ جہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ عورتوں کی بین کرنے کی آوازیں وہاں موجود نفوس کے ساتھ ساتھ گھر کے درو دیوار بھی سن رہے تھے۔

وہ سب چلتے ہوئے اس طرف آگئے۔ جہاں وہ کھڑا بے تاثر چہرے سے اپنے سامنے موجود جمشید کی جلی ہوئی لاش کو دیکھ رہا تھا۔

" یہ سب کیسے ہوا کردم؟ "

آغا حسن نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ راشد ملک اور خاقان ابراہیم جمشید کی لاش کی طرف متوجہ تھے۔ جمشید کی موت کی خبر ملتے ہی وہ سب پہلی فرصت میں پاکستان پہنچے تھے اور اب اس کے گھر پر جما تھے۔

" مجھے نہیں معلوم کیسے ہوا۔ میں بھی تم لوگوں سے کچھ دیر پہلے ہی ملتان آیا ہوں۔"

کردم نے کہتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے پاشا کو دیکھا جو جمشید کی لاش کے دائیں جانب کھڑا کردم کو ہی دیکھ رہا تھا۔

" تمہیں کچھ تو معلوم ہوگا۔ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ایک شہر میں نہیں، ایک ملک میں تو رہتے ہو۔"

اب کی بار سوال خاقان ابراہیم کی طرف سے آیا تھا۔

" مجھے اور بھی کام ہوتے ہیں۔ ہر وقت اس کی جاسوسی میں نہیں لگا رہ سکتا تھا اور ویسے بھی تم لوگوں کو معلوم ہوگا ہی، ایک دن پہلے اس کے آدمیوں کو سمگلنگ کے کیس میں پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی کو جمشید پر شک ہو اور اُس نے پولیس کی مدد لینے کے بجائے، خود ہی انصاف کرنا چاہا۔"

کردم بھڑک اٹھا اور اپنے شانے پر موجود آغا حسن کے ہاتھ کو جھٹک دیا۔

" ہاں !! ہوسکتا ہے کسی نے اپنی زاتی دشمنی نکالی ہو۔"

پاشا جو کب سے خاموش کھڑا کردم کو دیکھ رہا تھا بالآخر بول اُٹھا۔ کردم نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔

" بالکل !! تم تو یقیناً جانتے ہو گے اس سب کے پیچھے کون ہے۔ آخر جمشید سے تمہارا رابطہ جو تھا۔"

کردم نے بھی بات کا رخ پاشا کی طرف موڑا۔

" میں نہیں جانتا۔ میری کافی دنوں سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی۔"

پاشا بھی اپنے نام کا ایک تھا، صاف انکار کیا۔

" اچھا !! اب تم دونوں مت شروع ہو جانا۔ میں خود ہی معلوم کرلوں گا اس سب کے پیچھے کون ہے۔"

ان دونوں کے جھگڑے کی شروعات ہوتے دیکھ آغا حسن نے فوراً بات سنبھالی۔

" اچھی بات ہے !! جب معلوم ہو جائے جمشید کے قتل کے پیچھے کون ہے، تو مجھے ضرور بتانا۔ اب میں چلتا ہوں۔"

" کیا مطلب۔۔۔؟ تم جمشید کی تدفین تک نہیں رکو گے؟ "

راشد ملک کے سوال پر سب کی سوالیہ نظریں کردم کی طرف اُٹھی تھیں۔

" نہیں !! یہاں تک آگیا کافی ہے۔ مجھے اور بھی بہت کام ہیں اب چلتا ہوں۔"

کردم نے بے تاثر چہرے سے کہا اور بنا کسی کی طرف دیکھے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ سب حیران نظروں سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے سوائے پاشا کے، جس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔


۔********************۔

ایک ہفتے بعد۔۔۔


کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں ٹی وی پر لگے نیوز چینل پر لڑکیوں کی سمگلنگ کی خبر چل رہی تھی۔ جس میں گینگ کے بندوں کو پکڑے جانے کی خبر سنائی جا رہی تھی۔ (جو کے جھوٹی تھی)

کردم نے اس معاملے کو آغا حسن کے کہنے پر اپنے بندوں کے ذریعے دبا دیا تھا اور یہ خبر نیوز چینلوں پر چلوا دی تھی کہ گینگ کے بندوں کو پکڑا جا چکا ہے۔

جمشید کی تدفین کے دو دن بعد ہی سب واپس اپنے اپنے راستوں پر نکل پڑے تھے۔ آغا حسن بھی جمشید کے قاتل کو ڈھونڈنے اور سمگلنگ کے کیس کو حل کرنے کا کام کردم پر ڈال کر واپس چلا گیا تھا۔ کردم نے بھی اس معاملے کے لیے فوراً حامی بھر لی تھی تاکہ وہ سب جلد از جلد یہاں سے واپس لوٹ جائیں۔۔۔

" اففف !! ٹی وی پر بھی یہ ہی سب۔" اس نے جھنجلاتے ہوئے چینل بدل دیا۔ بیزاری سی بیزاری تھی۔ اس نے چہرہ موڑ کر گھڑی کی طرف دیکھا کہ تبھی خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور کلون کی خوشبو کمرے میں چاروں سو پھیلتی چلی گئی۔

کردم نے آگے بڑھ کر ایک نظر صوفے پر بیٹھی آئینور پر ڈالی۔ جس کا غصّے سے بھرا چہرہ نیم اندھیرے میں ٹی وی کی روشنی پڑنے کے باعث دمک رہا تھا۔ ناک میں موجود ہیرے کی نازک سی لونگ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔

وہ مسکراتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" کیا ہوا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟ "

آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس کو دیکھ کر پوچھا۔ جواباً اس نے سخت گھوری سے نوارا۔

" ایسے مت دیکھو، مجھے معلوم ہے میں بہت ہینڈسم ہوں۔"

وہ گھڑی اُتارتے ہوئے مسکرا کر بولا اور پلٹ کر اس کے پاس چلا آیا۔ جو مسلسل اسے گھورنے میں لگی تھی۔

" تم صبح کی بات کو لے کر اب تک ناراض ہو؟ "

کردم اس کے سامنے جھکا اور اس کے گرد سے دونوں ہاتھ گزارتے ہوئے پیچھے صوفے پر جما کر اس کی راہِ فرار کو ترک کر دیا۔

" میں تمہیں اب اکیلے باہر نہیں بھیج سکتا۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ "

کردم کی اس بات پر بھی آئینور نے کوئی ردِ عمل نہ دیا بس آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھورتی رہی۔

کردم کی مسکراتی نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں کہ تبھی اس کی نظر آئینور کی چمکتی لونگ پر جاٹکی۔ وہ تھوڑا اور جھکا اور اپنے ہونٹوں سے اس دمکتی لونگ کو چھونا چاہا مگر آئینور نے لمہے کی تاخیر کیے بغیر فوراً چہرہ بائیں جانب موڑ لیا۔ کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

" اچھا چلو ناراض مت ہو۔ ہم ابھی باہر چلتے ہیں۔"

" واقعی؟؟ "

آئینور نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے پوچھا۔

" ہاں واقعی۔ میں بس کپڑے بدل لوں پھر چلتے ہیں۔"

" ٹھیک ہے تب تک میں عبایا پہن لیتی ہوں۔"

اس نے کہتے ہوئے کردم کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔

" اس کی ضرورت نہیں۔ رات ہو رہی ہے بس دوپٹہ لیے لو۔"

کہتے ہوئے ایک بار پھر جھکا اور اس بار ناک کی لونگ کو چھو ہی لیا۔

" میں بس ابھی آیا۔"

وہ پیچھے ہٹتا ہوا بولا اور مڑ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔

آئینور بھی اس کی پشت کو گھورتی اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔


۔**************۔


" کہاں تھے تم اتنی دیر سے؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ سعدی کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔" وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔

" نوکری کی تلاش میں ہی گیا تھا اور اس کا بخار ابھی تک نہیں اُترا ؟ "

وہ فکر مند ہوتا کمرے کی جانب بڑھا، جہاں چار پائی پر گیارہ سالہ سعدی لیٹا بخار میں تپ رہا تھا۔

" اکبر کچھ کرو۔ کہیں سے پیسے کا انتظام کرو ہمیں اسے ہسپتال لے جانا ہوگا۔"

وہ سعدی کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے ہوئے بولی۔

" تو فکر نہیں کر رانی۔ اسے دیکھ میں بس ابھی پیسو کا انتظام کر کے آیا۔"

وہ پریشان ہوتا، ایک بار پھر اس نچلے طبقے کے گھر سے باہر نکل گیا۔ رانی دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی سعدی کی پٹی کرنے میں لگی رہی۔


۔*************۔


کالے بادلوں کی چھت تلے وہ اس سنسان سڑک پر قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔ لال دوپٹے سے چند شرارتی کالی لٹیں اس کے پُرکشش دمکتے چہرے پر اٹکلیاں کر رہی تھیں۔ جنہیں وہ بار بار کان کے پیچھے اڑس دیتی۔

" افففف !! لوگ اپنی محبوباؤں کو ڈنر پر لے کر جاتے ہیں اور یہ مجھے سنسان سڑک پر لے آیا ہے۔"

آئینور غصّے سے بڑبڑائی ساتھ ہی چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو بلیک شلوار قمیض میں بے حد حسین لگ رہا تھا۔ "ہیل" پہن کر بھی وہ اس قد آور شخص کے کندھے کو نہیں پہنچ پا رہی تھی مگر ہیل کے ساتھ اس کا قد مناسب لگ رہا تھا۔

خود پر آئینور کی نظروں کو محسوس کر کے کردم نے بھی اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" ایسے مت دیکھو، مجھے معلوم۔۔۔"

" ہاں ہاں معلوم ہے بہت ہینڈسم ہیں۔" کردم کی بات کاٹتے ہوئے وہ جل کر بولی۔

" اب کیوں ناراض ہو؟ اب تو تمہیں باہر بھی لے آیا تاکہ تم کھلی فضا میں سانس لے سکو۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔

" کھلی فضا کے لیے آپ کو یہ سڑک ہی ملی تھی؟ "

"ہاں !! کیونکہ میں چاہتا تھا ہم دونوں کچھ وقت تنہا سکون سے گزاریں جہاں صرف "ہم" ہوں۔"

کردم نے ہم پر زور دیتے ہوئے کہا تو اب کے آئینور نے بھی غصّے کو ایک طرف رکھ کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ ماحول میں چھایا سکون اور اس سنسان سڑک پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، قدم سے قدم ملا کر چلنا کافی اچھا لگ رہا تھا۔

خاموشی سے یونہی چلتے ایک بار پھر آئینور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔

" اگر آپ جواب دیں تو ایک بات پوچھوں؟ "

" ہاں پوچھو۔" کردم سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔

" وہ شخص کون تھا جسے آپ نے گولی ماری تھی؟ "

" کونسا شخص؟ " کردم کو یاد نہ آیا۔

" وہی جس کو گھر کی پچھلی سائڈ پر مارا تھا۔" آئینور نے یاد کرانا چاہا۔

" اچھا وہ۔۔۔" وہ یاد کرتے ہوئے مسکرایا۔ اسے یاد آیا تھا، آئینور کیسے ڈر کر کمبل میں چھپ گئی تھی۔

" دراصل اس نے ایک لڑکی کا ریپ کیا تھا۔ وہ پہلے بھی منع کرنے کے باوجود کئی مرتبہ یہ کر چکا تھا۔ اس لیے وہ مزید کسی لڑکی کی زندگی خراب کرتا اُس سے پہلے ہی اُسے موت کی گھاٹ اتار دیا۔"

کردم نے کہہ کر کندھے اچکا دیئے۔ آئینور اس کے انداز پر بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

" لیکن کیوں؟ آپ لوگوں کے لیے یہ کوئی بری بات تو نہیں۔ میرا مطلب۔۔۔ " اسے سمجھ نہ آیا کن الفاظ میں پوچھے۔

کردم نے گہرا سانس لے کر چہرہ اس کی طرف موڑا۔

" تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے دنیا میں ہر غلط کام کے پیچھے میرا ہاتھ ہے؟ "

" میں۔۔۔ میں نہیں تو۔" وہ ایکدم گڑبڑا گئی۔

(حالانکہ یہ سچ ہی تھا۔ ٹی وی میں جو بھی بری خبر سنتی تو پہلا خیال اسے کردم کا ہی آتا تھا۔ لڑکیوں کی سمگلنگ کے پیچھے بھی اسے کردم کا ہی ہاتھ لگا تھا۔)

" نور میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں لڑکیوں کی عزت کرتا ہوں اور نہ ہی یہ کہ میں انہیں حقیر جانتا ہوں۔ میں بس لڑکیوں کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھتا ہوں۔ جن کی اپنی مرضی اپنی خواہشات ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ زیادتی کرنا یا ان کی سمگلنگ مجھے یہ پسند نہیں۔"

ایک ہی بار میں اُس نے آئینور کی ساری غلط سوچوں کو جھٹلا دیا۔ آئینور شرمندہ سی سر جھکا کر چلنے لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں بھی تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ وہ چلتے چلتے یکدم رک گئی۔

" کیا ہوا ؟ " کردم نے اسے رکتے دیکھ کر پوچھا۔

" مجھ سے اور نہیں چلا جا رہا میرے پاؤں پر سوجن چڑھ رہی ہے۔" وہ معصوم سی شکل بنا کر بولی تو کردم نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں اُٹھا لیا۔

" لو اتنی سی بات تھی۔ ہو گیا مسئلہ حل۔"

" نیچے اتاریں مجھے۔" وہ منہ بسور کر بولی۔ لیکن وہ اس کی بات کا اثر لیے بغیر چلتا رہا۔

آئینور اس کے گلے میں بانہیں ڈالے اس کے چہرے کو دیکھ دیکھنے لگی۔ " کیا کردم سے ان کی ماں کا پوچھوں" اس نے سوچا۔

" کیا ہوا ؟ پھر کچھ پوچھنا ہے؟ " کردم اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ آئینور نے فوراً نظریں چرالیں۔

" آپ۔۔۔ آپ کے گھر والے وہ کہاں ہیں؟ "

بالآخر آج اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ آج وہ کردم کی ماں کا معمہ بھی حل کر دینا چاہتی تھی۔ مگر اس کا سوال کردم کے ماتھے پر بل لے آیا۔


۔************۔


" کیا ہوا کچھ انتظام ہوا پیسوں کا؟ " اکبر واپس آیا تو رانی فوراً اس کے سر ہولی۔

" ہاں !! مگر اتنے پیسے نہیں ہو سکے کہ ہم گاڑی میں جاسکیں۔ اور نہ ہی آس پاس کوئی ہسپتال ہے۔ ہمیں پیدل ہی اسے لیے کر جانا ہوگا۔" وہ پریشانی سے بولا۔

" ٹھیک ہے پھر ہم ابھی نکلتے ہیں۔ ہسپتال تک پہنچنے میں بھی ایک ڈیڑھ گھنٹا لگ جائے گا۔"

" تو ٹھیک کہتی ہے میں سعدی کو اُٹھاتا ہوں تو بھی آجا۔" وہ کہتا ہوا سعدی کے پاس چلا گیا۔

رانی بھی کمرے میں جا کر اپنی چادر اوڑھنے لگی۔ واپس آئی تو اکبر سعدی کو گود میں اُٹھائے کھڑا تھا۔

" چل آجا۔" سعدی کو اُٹھائے وہ دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔ یہ جانے بغیر موسم کیا رنگ بدلنے والا ہے۔


۔*************۔

" اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے تو بس یونہی پوچھ لیا۔"

کردم کے ماتھے پر بل دیکھ کر وہ فوراً بولی، آیا کہ وہ غصّے میں اسے ادھر ہی نہ پھینک دے۔

" تمہیں معلوم ہے، میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ " وہ ویسے ہی ماتھے پر بل ڈالے پوچھنے لگا۔

" کھلی فضا میں سانس لینے۔"

" اور؟ "

" اور پتا نہیں۔"

کردم ایکدم چلتے چلتے رکا۔ آئینور کو یقین ہو چلا تھا کہ اگلے لمحے وہ زمین پر ہوگی۔ مگر توقع کے برعکس کردم مسکرا دیا۔ ماتھے کے بل اب غائب ہو چکے تھے۔

" میں تمہیں یہی بتانے یہاں لایا ہوں۔ اتنے دنوں سے سوچ رہا تھا پر ہمت نہیں ہو سکی۔"

وہ ایک بار پھر چلنا شروع کر چکا تھا۔

" کیوں ایسی کیا بات ہے جو آپ کو اتنا سوچنا پڑا ہے؟ "

" میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب جانے کے بعد تمہارا کیا رد عمل ہوگا۔"

" مطلب ؟ میں سمجھی نہیں۔"

کردم کی باتوں پر آئینور الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

" میری ماں ایک طوائف تھی۔ اور میں اُن کی اور اپنے باپ کی ناجائز اولاد۔"

وہ بالکل عام سے انداز میں بولا تھا۔ جیسے کسی اور شخص کے بارے میں بتا رہا ہو۔ آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔

" میرا باپ شہر کا ایک مشہور بزنس مین تھا۔ جو دنیا کی نظر میں ایک عزت دار مرد بھی تھا۔ کوئی بھی امی سے ان کے تعلقات کو نہیں جانتا تھا۔ میری پیدائش کے بعد اُس نے امی کو ایک الگ گھر لے کر دیا اور گھر کے کاموں کے لیے سیما خالہ کو رکھ لیا تھا۔ کافی عرصے تک سب ٹھیک چلتا رہا۔ میں بڑا ہو رہا تھا اور امی چاہتی تھیں۔ وہ شخص ان سے شادی کر لے تاکہ مجھے بھی باپ کا نام مل جائے۔ کوئی مجھے ناجائز نہ کہے۔"

کردم بتاتا ہوا آئینور کو سڑک کے کنارے لے آیا جہاں بڑے بڑے پتھر پڑے تھے۔ اس نے آئینور کو نیچے اُتارا اور ان میں سے ایک پتھر پر بیٹھا دیا پھر خود بھی اس کے ساتھ والے پتھر پر بیٹھ گیا۔

" پھر؟ "

آئینور نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا۔

" پھر یہ کہ۔۔۔ ہر بار اس شخص کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا تھا۔ جس سے وہ امی کو ٹال دیتا تھا۔ اس ہی طرح سال گزرتے گئے۔ میں نے اسکول جانا بھی شروع کر دیا تھا۔ وقت گزرتا جارہا تھا۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا تب ایک دن خبر ملی اس شخص نے شادی کر لی۔ امی کو پتا چلا تو انہوں نے بہت ہنگامہ مچایا۔ لیکن تب بھی اس شخص نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ شادی صرف بزنس کے فائدے کیلئے کی ہے۔ وہ جلدی اس عورت سے جان چھڑا کر ان سے شادی کر لے گا۔"

یہ سب کہتے کردم کا چہرہ بالکل سنجیدہ ہو گیا تھا۔ وہ رکا تو آئینور پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

" پھر شادی کی انہوں نے؟ "

" نہیں وہ ہمارا سارا خرچہ اُٹھاتا تھا۔ ہم سے ملنے آتا مگر شادی نہ کرنے کا کوئی نیا بہانہ بھی امی کو دے جاتا تھا۔ اسی طرح دو سال مزید گزر گئے۔ امی بیمار رہنے لگی تھیں اور وہ جلد از جلد مجھے میرے اُس نام نہاد باپ کے حوالے کر دینا چاہتی تھی۔ تاکہ ان کے بعد مجھے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ لیکن ایک دن ٹی وی پر خبر چلی اُس شخص کے یہاں بیٹا ہوا ہے اور یہ ہی امی برداشت نہ کر سکیں۔ وہ اس شخص کے گھر پہنچ گئیں۔ وہاں جا کر بہت واویلا کیا لیکن کسی نے ان کی بات کا یقین نہیں کیا کیونکہ وہ ایک طوائف تھیں۔"

اب کہ کردم کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی۔ وہ اب تھوڑی دیر پہلے والا کردم نہیں لگ رہا تھا۔

"میرے میڑک کے امتحان کا آخری پرچہ تھا نور ۔ جس دن میں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ اُس شخص کے گھر سے آنے کے ایک ہفتے بعد ہی اُس آدمی نے میری ماں کو گھر سمیت زندہ جلا دیا تاکہ وہ ان پر یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ میں اس شخص کی اولاد ہوں۔"

آئینور نے دکھ سے کردم کو دیکھتے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

"بس کریں مجھے اور کچھ نہیں سنا۔"

آئینور نے اسے روکنا چاہا پر وہ اس کی سنے بغیر مزید بتاتا گیا۔

" میں اُس وقت کمرأ امتحان میں تھا۔ سیما خالہ بھی اپنے گاؤں گئی ہوئی تھیں۔ کوئی نہیں تھا ان کے پاس، کوئی نہیں تھا جب وہ جل رہی تھیں۔ میں جب گھر واپس لوٹا تب تک سب ختم ہو چکا تھا کچھ نہیں بچا تھا۔ میں وہاں سے چلا گیا۔ مگر اُس دن میں نے قسم کھالی تھی۔ جب تک اُس شخص کو اُس کے انجام تک نہیں پہنچا دوں گا سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔"

سامنے ہلتے درخت کے پتوں پر نظریں جمائے وہ اپنے ماضی کو سوچ رہا تھا۔ اس سمے آئینور کی نظر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے چہرے سے ہٹنے کو انکاری تھیں۔

" پہلے میں ایسا نہیں تھا نور، قسم سے ایسا نہیں تھا۔ میں تو سب کا خیال رکھنے والا تھا لوگوں کی تکلیفوں میں ان کا احساس کرنے والا تھا۔ لیکن امی کی موت کے بعد میں دربدر سڑکوں پر پھرتا رہا۔ سب مجھے حقارت آمیز نظروں سے دیکھا کرتے تھے کیونکہ میں طوائف کا بیٹا تھا۔ یونہی سڑکوں پر پھرتے ایک دن میری ملاقات آغا حسن سے ہوئی۔ وہ مجھے دادا کے پاس لے گیا اور تب سے ہی میں ایک غنڈہ بن گیا۔ لوگوں کی نظروں میں میرے لیے حقارت کی جگہ خوف آ گیا۔ وہ مجھ سے ڈرنے لگے تھے۔ لیکن مجھے اس سب کی پروہ نہیں تھی۔ مجھے بس اُس شخص سے انتقام لینا تھا جو میری ماں کا قاتل تھا۔

کئی عرصہ تربیت حاصل کرنے کے بعد جب میں اس قابل ہوگیا کہ اپنا بدلہ لے سکوں تو تب جا کر میں اس شخص کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور آج اُس سمیت اُس کا سارا خاندان موت کی نیند سو رہا ہے۔"

" جب آپ نے اپنا بدلہ لے لیا تھا تو پھر یہ سب چھوڑا کیوں نہیں؟ "

آئینور افسوس سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ اچھا نہیں لگا تھا ایک شخص کی وجہ سے پورے خاندان کو مار دیا جائے۔

" تب نہیں چھوڑ سکتا تھا نور۔ پر اب چھوڑ دوں گا، تمہارے لیے، ہمارے لیے اور ہمارے آنے والے بچے کے لیے۔"

کردم اس کا تھام کر محبت بھرے لہجے میں بولا۔ ماحول میں چھایا تناؤ یکدم کم ہوا تھا۔ آئینور مسکرا دی۔

" اب چلیں۔"

آئینور کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کردم بھی اس کے ساتھ ہی اُٹھ گیا۔ اب وہ دونوں واپس اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔

" پتا ہے نور لڑکیاں میری طرف خود بڑھتی تھیں۔ میں نے کبھی ان کے ساتھ زبردستی یا ان کی سمگلنگ نہیں کی اور نہ ہی اس قسم کا تعلق بنایا کے میری کوئی ناجائز اولاد ہو۔ صرف اپنی ماں کی وجہ سے۔ میں نہیں چاہتا تھا جو اُن کے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو یا یہ کہ میری طرح کسی کو ناجائز ہونے کا طعنہ ملے۔"

کردم نے کہہ کر چہرہ اس کی جانب موڑا جو سنجیدہ سی سامنے دیکھتے ہوئے چل رہی تھی۔ دوسری لڑکیوں سے تعلق کا سن کر اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا مگر بولی کچھ نہیں۔

" کچھ بولو گی نہیں؟ "

کردم کی مسکراتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اسے لگا تھا وہ لڑکیوں کے زکر پر ضرور کچھ اُلٹا بولے گی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اس کی سوچ کے برعکس تھی۔

" یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا۔ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات تھی؟ "

آئینور کی بات پر وہ گہرا سانس لیتا واپس سامنے کی طرف دیکھنے لگا۔

" وہ اس لیے کہ میرے ناجائز ہونے کا سن کر تم کیا ردعمل ظاہر کرو گی۔"

" اس میں آپ کی تو کوئی غلطی نہیں پھر میں کیوں کچھ آپ کو بولوں گی۔"

اب کی بار چلتے ہوئے آئینور نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

" جانتا ہوں۔ عادی سے تمہاری محبت دیکھنے کے بعد بس تھوڑا ڈر گیا تھا۔"

کردم کے لہجے سے شرارت صاف ظاہر تھی۔ اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا۔ جب آئینور نے عدیل کو ناجائز اور سوتیلا ہونے کا طعنہ دیا تھا۔

" اس وقت میں بہت پریشان تھی۔ ایک تو عادی لاہور آ گیا تھا اوپر سے پاپا کا قتل اور پھر عادی کا مجھ سے جھگڑنا۔ ایسے میں منہ سے نکل جاتا ہے کچھ بھی۔"

آئینور اس کا اشارہ سمجھتے ہی بُرا مان گئی۔

" اور ہاں !! کیا بول رہے تھے۔ میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا۔ تو یہ کیا ہے؟ "

آئینور نے بھی جواباً حملہ کیا۔ اپنے سینے پر انگلی رکھے اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا۔ جب کردم نے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اسے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔

کردم رکا اور اس کا وہی ہاتھ تھام کر اپنے قریب کر لیا۔

" تم سے میرے معاملات کچھ اور ہیں نور !! تمہیں یاد ہے جب پہلی بار ہم کراچی کے اس مال میں ملے تھے۔ ایک سرسری سی نظر تم پر ڈالی تھی مگر یہ نظر بہت گہرا اثر چھوڑ گئی تھی۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی میں ان آنکھوں کو بھول نہیں سکا تھا۔

وہ ایک لمحہ تھا جب یہ آنکھیں میری آنکھوں میں رہ گئیں، یوں کہ اک بس یہ ہی میری منظورِ نظر بن گئیں۔"

تیز ہواؤں کے جھونکوں نے آئینور کا دوپٹہ سر سے گرا دیا تھا۔ آوارہ لٹیں اُڑ اُڑ کر ان دونوں کے چہروں کو چھو رہی تھی لیکن ارد گرد سے بےخبر وہ آئینور کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا۔

" مجھے کچھ دینا تھا تمہیں۔"

کردم پیچھے ہوا اور اپنی قمیض کی جیب سے ایک سفید مخمل کی ڈبیا نکالی۔

" یہ انگوٹھی میری ماں کی تھی۔ جب میں واپس گھر گیا تھا تو ان کی لاش کے پاس سے ملی تھی۔ تب سے ہی یہ آخری نشانی کے طور پر میرے پاس ہے۔ لیکن اب میں چاہتا ہوں یہ تم پہن لو۔"

کردم کہتے ہوئے نیچے جھکا اور ایک گھٹنا زمین پر ٹکاتے ہوئے اپنا ہاتھ آئینور کے سامنے کر دیا۔

" اجازت ہے؟ "

آئینور نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا ہاتھ کردم کے ہاتھ پر رکھا۔ انگوٹھی میں جڑا نیلا نگینہ اب آئینور کے ہاتھ زینت بن چکا تھا۔ آئینور نے ہاتھ اُٹھا کر اپنے سامنے کیا تو بےاختیار منہ سے نکلا۔

" بہت خوبصورت !! "

" تم سے زیادہ نہیں۔"

مسکرا کر کہتا وہ کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا کہ تبھی ایک گرج دار آواز کے ساتھ بجلی چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں نے گرج چمک کے ساتھ برسنا شروع کردیا۔

" اففف !! اسے بھی ابھی ہونا تھا۔"

کردم جھنجھلایا اور ایک بار پھر آئینور کو بازوؤں میں اُٹھا کر تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔

اس کی گردن میں بانہیں ڈالے وہ بھیگتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ نہیں تھا اسے کردم سے محبت ہوگئی تھی۔ بس سیما خالہ کے سمجھانے کے بعد اس نے اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ ( بقول آئینور کے )

کردم گاڑی کے پاس پہنچا اور اسے اُتار کر گاڑی کی چابی نکالنے لگا۔ آئینور اپنی بھیگی ہوئی لٹیں سمیٹتی سر پر دوپٹہ اوڑھنے لگی۔ کردم نے اس کی طرف کا دروازہ کھول کر اس بٹھایا اور پھر دروازہ بند کرتا خود بھی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔


۔***************۔


" اب ہم کیا کریں اکبر یہ اچانک بارش کیسے شروع ہو گئی۔ ایسے تو سعدی اور بیمار پڑ جائے گا۔"

وہ لوگ اس وقت روڈ پر چل رہے تھے جب وہ چادر میں سعدی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پریشانی سے بولی۔

" اتنی آگے نکل آئے ہیں۔ اب واپس بھی نہیں جاسکتے۔ دیکھنا ضرور کوئی اللّٰه کا بندہ مل جائے گا جو ہماری مدد کرے۔ تم فکر نہیں کرو۔"

وہ اسے دلاسہ دیتا آگے بڑھنے لگا۔ گرج چمک کے ساتھ بارش اور بھی تیز ہوتی جا رہی تھی کہ تبھی دور اندھیرے میں روشنی سی چمکتی نظر آئی۔

" وہ دیکھو لگتا ہے کوئی گاڑی آ رہی ہے۔ چلو جلدی چلو اس سے مدد مانگتے ہیں۔"

وہ تیزی آگے بڑھا اور سڑک کے بیچ و بیچ کھڑے ہو کر ہاتھ ہلانے لگا۔ گاڑی بھی تیزی سے قریب آ رہی تھی۔

" وہ دیکھیں کردم۔ لگتا ہے انہیں مدد کی ضرورت ہے۔"

آئینور گاڑی کے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بولی۔

" رات بہت ہو رہی ہے نور، اوپر سے بادش یوں گاڑی روکنا ٹھیک نہیں ہوگا۔"

" لیکن دیکھیں اس کے ساتھ عورت اور بچا بھی ہے۔ ہم کسی کو یوں نہیں چھوڑ سکتے۔ آج ہم کسی کی مدد کرینگے تو کل کوئی ہمارے کام آئے گا۔"

آئینور کی بات پر کردم نے گہرا سانس لیتے ہوئے گاڑی ان کے پاس لے جا کر روکی اور گاڑی کا شیشہ نیچے کر دیا۔

"صاحب میرا بیٹا بہت بیمار ہے۔ ہمیں اسے ہسپتال لے کر جانا ہے صاحب ہماری مدد کرو۔"

آئینور نے دھیرے سے اپنا ہاتھ سٹیرنگ ویل پکڑے کردم کے ہاتھ پر رکھا۔ گویا چاہتی ہو کہ کردم ان کی مدد کرے۔

کردم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر دوسری نظر اپنے ہاتھ پر دھرے اس کے ہاتھ کو۔ پھر چہرہ موڑ کر اکبر سے بولا۔

" ٹھیک ہے بیٹھ جاؤ۔"

" بہت بہت شکریہ صاحب۔"

اکبر تشکر آمیز لہجے میں کہتا واپس مڑا اور بیوی بچے کو لیے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گاڑی ایک ہسپتال کے سامنے جا رکی تھی۔

کردم منہ پر رومال باندھے گاڑی سے باہر نکلا۔ آئینور نے بھی دوپٹے کو نماز کی طرح لپیٹ کر منہ پر نقاب کر لیا تھا۔

اکبر بھی اپنے بیوی بچے کو لیے گاڑی سے نکلا اور سب نے قدم اندر کی جانب بڑھا دیئے۔

سعدی کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے ایک دن ہسپتال میں رکنے کا بول دیا تھا۔ اس لیے کردم بل کی ادائیگی کرکے ان کے پاس چلا آیا۔

" آپ کی انگوٹھی بہت خوبصورت ہے۔"

آئینور رانی کے ساتھ کھڑی اس سے بات کر رہی تھی جب رانی اس کی انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے بولی۔

" شکریہ میرے شوہر نے دی ہے۔"

آئینور مسکرا کر بولی اور ایک نظر کردم کو دیکھا جو اکبر سے مصافحہ کر رہا تھا۔

" اب ہم چلتے ہیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے تو یہ میرا نمبر ہے بلا جھجھک کال کر لیے گا۔"

کردم اپنا نمبر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔

" بہت بہت شکریہ صاحب۔ آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔" اکبر نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے تھام لیا۔

" چلیں نور؟ "

" جی۔"

آئینور رانی سے گلے مل کر آ گے بڑھ گئی۔ کردم اور وہ ساتھ ہی ہسپتال سے باہر نکلے اور گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔

" اب تو خوش ہونا تم؟ ان کا بل بھی ادا کر دیا۔"

کردم نے چہرے سے رومال ہٹا کر جیب میں رکھا۔

" جی !! کیونکہ آج ہم کسی کی مدد کا سبب بنتے ہیں تو کل اللّٰه بھی ہمارے لیے کسی نا کسی کو مدد گار بنا کر ضرور بھیجے گا۔"

آئینور کی بات پر کردم نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور گاڑی کو گھر کے راستے پر ڈال دیا۔


۔****************۔

صبح کی کرنیں پورے لاہور کو روشن کر چکی تھیں۔ ایسے میں کردم کے بنگلے میں سب اپنے اپنے کاموں کو لگ چکے تھے سوائے ایک کے جو لان میں لیٹا نیند کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا کے بھی مزے لے رہا تھا۔

" ابے آو نیستی !! اُٹھ جا ورنہ ابھی کردم دادا نے آکر تجھے ہمیشہ کی نیند سُلا دینا ہے۔"

" یار سکینہ !! سونے دونا کیوں تنگ کر رہی ہو؟ " رحمت نے نیند میں کہتے ہوئے کروٹ بدلی۔

" ابے آو سکینہ کے عاشق !! میں فاروق ہوں۔ اب یہ سکینہ کے خواب دیکھنا چھوڑ اور اُٹھ کر کام پر لگ ورنہ دادا نے ہمارا کام تمام کر دینا ہے۔"

فاروق اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

" سکینہ تمہارے بال کتنے ملائم ہیں مجھے بہت پسند ہیں۔"

فاروق کا ہاتھ پکڑ کر ایک بار پھر اس نے کروٹ بدلی۔

" تو ایسے نہیں اُٹھے گا رک۔"

فاروق نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور قریب ہی کھڑے پودوں میں پانی ڈالتے مالی کے ہاتھ سے پائپ لے کر رحمت پر بوچھاڑ شروع کر دی۔

" ابے ابے اوو !! کیا کر رہا ہے۔ ویسی اتنی سردی ہے۔ بیمار پڑ جاؤں گا۔"

رحمت ایکدم اُٹھا اور ہاتھ چہرے کے آگے کر خود کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔

" کیا ہو رہا ہے یہاں۔"

" رحیم انہیں پانی سے کھیلتے دیکھ فوراً ان کی طرف لپکا۔

رحیم دادا !! مانا کہ اب آپ بڑے آدمی بن چکے ہو، غفار کی جگہ آچکے ہو۔ لیکن تھے تو ہمارے دوست ہی، اس لیے دادا سے شکایت نہ کرنا۔"

فاروق ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا۔

اس کی بات پر رحیم سر جھٹکتا وہاں سے چلا گیا۔ جب سے کردم نے اسے غفار کی جگہ کھڑا کیا تھا۔ فاروق کا رویہ اس سے کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا تھا۔

" آخر یہ غفار گیا کہاں ہے، جو دادا نے اس کی جگہ رحیم کو رکھ لیا؟ "

فاروق نے کہتے ہوئے رحمت کو دیکھا تو اس نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کندھے اچکا دیئے۔


۔***************۔


وہ چھ فٹ کا شاندار مرد سوٹ بوٹ میں تیار فون کان سے لگائے سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ بار بار کال ملانے کے باوجود بھی مقابل فون نہیں اُٹھا رہا تھا۔ اس نے کوفت سے موبائل نیچے کیا کہ تبھی دوسری طرف سے کال آنے لگی۔

" کب سے کال کر رہا ہوں۔ آخر تھے کہاں؟ " وہ کال ریسو کرتے ہی دھاڑا۔

" پاشا بھائی کیسی باتیں کرتے ہو۔ شیر کے پنجرے میں رہتے ہوئے تھوڑی تو احتیاط کرنی پڑتی ہے۔" مقابل کی مسکراتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

" کوئی خبر؟ "

" نہیں۔ کردم دادا اب اُس لڑکی کو کسی بھی ماتحت کے ساتھ باہر نہیں بھیجتا۔ اب اگر کچھ کرنا ہے تو پہلے کردم دادا کو منظر سے غائب کرنا پڑے گا۔"

پاشا فون کان سے لگائے گھر سے باہر نکلا تو کاشف کے ساتھ ایک غیر شناسا چہرہ نظر آیا۔

" ٹھیک ہے میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔"

اس نے کہتے ہوئے فون بند کرا اور چلتا ہوا ان دونوں کی پاس آ گیا۔

" پاشا بھائی یہ اکبر ہے۔ جمیل کچھ دنوں کے لیے گاؤں گیا ہے اس لیے اُس نے اپنی جگہ اکبر کو بھیج دیا اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایک وفادار بندہ ہے۔ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔"

کاشف بتا کر خاموش ہوگیا۔ پاشا نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑے خوش شکل مرد کو دیکھا جو شکل سے ہی شریف لگ رہا تھا۔

" ٹھیک ہے اسے کام سمجھا دینا۔"

وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تو کاشف بھی اکبر کو ساتھ لیے سرونٹ کواٹر چلا گیا۔


۔*****************۔


" عادی تمہارے ٹیسٹ کب ختم ہو رہے ہیں؟ مجھے نور سے ملنے جانا ہے۔"

رخسار بیگم ناشتہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولیں جو کالج جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔

" آپ کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود ہی کچھ دنوں میں کراچی آجا ئینگی۔"

وہ جوس کا گلاس اُٹھا کر ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔ جبکہ رخسار بیگم حیران ہوتی اسے دیکھے جارہی تھیں۔

" کیا مطلب کراچی آجائے گی؟ "

" او ہو !! کل ان کا فون آیا تھا۔ وہ بول رہی تھیں میرے پیپرز ہونے والے ہیں۔ اس لیے وہ اُس غنڈے سے اجازت لے کر کراچی آجا ئینگی۔"

کردم کا زکر کرتے ہی اس کا منہ کڑوا ہو گیا تھا۔

" شرم کرو بہنوئی ہے تمہارا اور جب اس کا فون آیا تھا تو مجھ سے بات کیوں نہیں کروائی؟ "

" میں اس وقت کالج میں تھا۔ اب آپ نے زکر کرا تو یاد آیا۔"

وہ کرسی پر سے اُٹھتا ہوا بولا۔

" ناشتہ تو ٹھیک سے کر لو۔"

اسے کھڑے ہوتے دیکھ رخسار بیگم فوراً بولیں۔

" مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اگر ٹھیک سے ناشتہ کرنے بیٹھا تو چھوٹی ہی ہو جائے گی۔"

وہ بیگ اُٹھا کر ان کے گال پر پیار کرتا باہر نکل گیا۔ رخسار بیگم مسکراتی ہوئی اسے جاتے دیکھتی رہیں۔


۔*****************۔


بلیک شلوار کے ساتھ بلیک بنیان پہنے، وہ پھولے ہوئے تنفس کے ساتھ پنچنگ بیگ پر گھونسے برسا رہا تھا۔ پیشانی پسینے سے تر ہوچکی تھی۔ وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے اس جم نما کمرے میں تھا۔

" کردم دادا آپ کے لیے دادا کی کال ہے۔"

رحیم دروازہ کھول کر اندر آیا اور تھوک نگلتے ہوئے اطلاع دی۔ ایک لمحے کے لیے کردم کے ہاتھ رکے پھر ایک زور دار مکا پنچنگ بیگ پر مار کر ٹیبل کی جانب بڑھ گیا اور تولیا اُٹھا کر پسینہ صاف کرنے لگا۔

" فون دو۔"

کردم کے کہتے ہی رحیم نے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔

" خاور دادا !! "

وہ پھولے ہوئے تنفس پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ لیکن دوسری جانب سے آتی آواز پر پریشانی سے اس کے ماتھے پر بل پڑگئے۔

" ٹھیک ہے دادا۔"

کردم نے بات ختم کر کے فون رحیم کی طرف بڑھا دیا۔ پریشانی اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہی تھی۔

" کیا ہوا کردم دادا؟ "

اس کے ماتھے پر پڑے بل دیکھ کر رحیم پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

" لگتا ہے دادا کو علم ہوگیا کہ جمشید کی موت کے پیچھے میرا ہاتھ ہے۔ آج رات ہی ہمیں افغانستان کے لیے نکلنا ہے۔ جا کر سارے انتظامات مکمل کرو جاؤ۔"

" جی دادا۔"

کردم کے چلا کر کہنے پر وہ بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گیا۔ اب کردم پریشانی سے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔


۔*****************۔


لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے سیما خالہ سے کل رات کی باتیں کر رہی تھی جب سیما خالہ اس کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی دیکھ کر کہنے لگیں۔

" تمہارے ہاتھ میں یہ انگوٹھی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ کردم کی ماں اسے ہمیشہ پہنے رکھتی تھی۔ وہ کہتی تھی یہ اُس کی ماں کی نشانی ہے۔ اس لیے اب تم بھی اسے سنبھال کر رکھنا۔"

" جی میں ایسا ہی کروں گی۔"

آئینور مسکرا کر بولی کہ تبھی کردم نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے آواز دی۔

" نور فوراً کمرے میں آؤ۔" وہ کہتا ہوا اوپر چلا گیا۔

" اسے کیا ہوا اچانک؟ "

سیما خالہ نے کہتے ہوئے آئینور کی طرف دیکھا۔

" پتا نہیں۔ میں دیکھتی ہوں۔"

آئینور کندھے اچکا کر صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور اوپر کی جانب بڑھ گئی۔

کمرے میں داخل ہوئی تو کردم اسی حلیے میں اپنا سامان تلاش کرنے میں لگا تھا۔

" کیا ہوا آپ تو جم میں تھے پھر؟ "

کردم نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔

" کچھ نہیں ہوا۔ تم چاہتی تھیں نا میں تمہیں گھڑ سواری کیلئے لے کر جاؤ تو چلو جلدی تیار ہو جاؤ میں بھی بس ابھی تیار ہو کر آیا۔"

اس نے کہتے ہوئے اپنے کپڑے اُٹھائے اور باتھ روم کی طرف بڑھا۔

" لیکن آپ نے تو کہا تھا اگلے ہفتے لے کر جائینگے ابھی آپ کے پاس ٹائم نہیں۔"

آئینور حیران ہوتے ہوئے بولی۔ کردم نے رک کر اسے دیکھا پھر اس کے پاس ہی چلا آیا۔

" آج رات مجھے افغانستان کیلئے نکلنا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا پہلے تمہاری خواہش پوری کر دی جائے۔"

وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ کیا پتا وہاں سے واپسی ہی نہ ہو۔ کہیں خاور دادا جمشید کے قتل اور گینگ کو چھوڑنے کی بات پر اس کی جان ہی نہ لے لیں۔

" لیکن کیوں وہاں کیوں جانا ہے؟ " آئینور پریشان ہوتے ہوئے بولی۔

" کچھ کام ہے جلدی واپس آجاؤں گا۔ تم بس ابھی چلنے کی تیاری کرو۔"

کردم نے اس کو پریشان ہوتا دیکھ بات ہی بدل دی۔

" ٹھیک میں بس ابھی آئی۔"

آئینور خوش ہوتی اپنے کپڑے نکال کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد کردم بھی باتھ روم میں گھس گیا۔


۔*****************۔


سونیا یونیورسٹی سے نکلی تو سامنے ہی پاشا کی گاڑی کھڑی نظر آ گئی۔ وہ خوشی سے دوڑتے ہوئے اس تک آئی اور دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔

" کیسا ہے میرا بچہ؟ "

پاشا نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" بالکل ٹھیک۔ آپ کب آئے انڈیا سے؟ "

" میں گیا ہی کب تھا۔" اس نے بھنویں اچکا کر کہا۔

" کیا مطلب ؟ آپ نے توکہا تھا آپ انڈیا جا رہے ہیں۔ پھر اتنے دنوں سے کہاں تھے؟ " اس کی بات پر سونیا الجھ سی گئی۔

" پاکستان میں ہی تھا پر دوسرے شہر میں وہاں کچھ کام تھا۔" پاشا نے پھر جھوٹ بولا۔ جس پر اس نے یقین بھی کر لیا۔

" ٹھیک ہے۔ تو پھر بتائیں ہم کہاں جا رہے ہیں؟ "

" جہاں تم بولو۔"

اس نے کہا تو وہ انگلی گال پر رکھ کر سوچنے لگی۔

" پہلے ہم کسی ہوٹل میں لنچ کرینگے اس کے بعد شاپنگ۔" وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔

" ٹھیک ہے جیسے تم چاہو۔"

پاشا نے کہتے ہوئے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔


۔******************۔

وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں اپنے ارد گرد نظر دوڑا رہی تھی۔ جہاں گھوڑے لائن سے بندھے نظر آ رہے تھے۔ یہ کردم کا فارم ہاؤس تھا۔ جس کے ساتھ ہی اصطبل بنا ہوا تھا۔

وہ آگے بڑھتی حیرت سے ان گھوڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ آج پھر کردم کے کہنے پر اس نے عبایا نہیں لیا تھا۔ سفید فراک اور چوڑی دار پجامے میں اس کا رنگ اور بھی نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔

" یہ سب آپ کے ہیں؟ " وہ دو انگلیوں سے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔

" ہاں !! پر میں صرف ایک پر ہی گھڑ سواری کرتا ہوں۔"

" اچھا کس پر؟ "

" میرے ساتھ آؤ۔" کردم کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ آئینور بھی اس کے ساتھ ہی چلنے لگی کہ یکدم اس کا پاؤں مڑا لیکن اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی کردم نے اسے تھام لیا۔

" کیا ضرورت تھی یہاں ہائی ہیل پہن کر آنے کی؟ "

" تو کیا کروں؟ آپ کے ساتھ چلنے کے لیے مجھے ان کا ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اب میں آپ کی طرح دراز قامت انسان تھوڑی ہوں۔" وہ بُرا ہی مان گئی۔ جبکہ کردم اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔

" حد ہے نور !! میں پانچ فٹ دس انچ کا مرد ہوں۔ اتنا لمبا بھی نہیں۔ بس لمبا لگتا ہوں بالکل ویسے ہی جیسے تم چھوٹی نہیں لگتیں۔"

" رہنے دیں بس۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔

" یہ دیکھو یہ ہے میرا شیر۔"

وہ دونوں باتیں کرتے گھوڑے کے پاس پہنچ چکے تھے۔ جب کردم اسے دکھاتا ہوا بولا۔ وہ ایک کالے رنگ کا نسلی گھوڑا تھا۔

" اس میں کیا خاص بات ہے؟ "

آئینور نے گھوڑے کو دیکھتے ہوئے کردم سے سوال کیا جو اس کی رسی کھول کر باہر نکال رہا تھا۔

" اسے میں ریس میں اُتارتا ہوں اور یہ ریکارڈ قائم ہے کہ آج تک یہ ایک بھی ریس نہیں ہارا۔"

وہ اب چلتے ہوئے گھانس پر آچکے تھے۔ یہ علاقہ کسی جنگل سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

" کیا مطلب آپ مجھے اس پر بیٹھانے تو نہیں والے؟ "

آئینور نے کالے گھوڑے کو گھورتے اور کچھ ڈرتے ہوئے پوچھا۔

" تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں؟ یقین کرو گرو گی نہیں۔"

کردم نے کہتے ہوئے ہاتھ اس کے آگے کیا جسے اُس نے فوراً ہی تھام لیا۔

آئینور کو گھوڑے پر بیٹھا کر وہ خود بھی اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ گھوڑے نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا تھا۔

" کردم مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔"

آئینور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔

" بولو۔"

" میرے پیپرز ہونے والے ہیں۔ تو کیا میں اس دوران کراچی چلی جاؤں؟ "

" کیا کرو گی پیپرز دے کر۔ کوئی ضرورت نہیں۔"

" پلیز !! کم از کم میرا گریجویشن تو ہوجائے گا۔"

وہ معصوم سی شکل بنا کر بولی تو کردم کو ہاں کرنی ہی پڑی۔

" ٹھیک ہے چلی جانا۔ لیکن ابھی تو گھڑ سواری کے مزے لو۔"

اس کے کہتے ہی آئینور نے چہرہ آگے موڑ لیا۔ کردم دھیرے دھیرے گھوڑے کی رفتار تیز کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ درختوں کے درمیان سے گزرتے اونچے نیچے راستوں پر چڑتے وہ ہوا سے باتیں کر رہے تھے۔

آئینور بھی اپنا ڈر بھلائے سواری کے مزے لے رہی تھی۔ آوارہ لٹیں اُڑ اُڑ کر اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر یونہی ماحول کے مزے لیتے وہ واپس اسی جگہ آگئے۔

کردم گھوڑے پر سے اُترا اور ہاتھ بڑھا کر آئینور کو بھی نیچے اُتار دیا اب وہ دھیرے دھیرے گھوڑے کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔

آئینور بھی اس کے ساتھ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ آج کچھ عجیب سا احساس ان دونوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ یوں جیسے آخری بار بات کر رہے ہوں، آخری بار ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔ آخری بار ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار رہے ہوں۔ وہ یونہی کردم کو دیکھ رہی تھی کہ اس کی آواز پر چونک کر اپنی سوچوں سے باہر آئی۔ وہ اس سے کہہ رہا تھا۔

" جانتی ہو نور !! میں تمہاری ان آنکھوں کے سحر میں اتنا جکڑ گیا تھا کہ باہر ہی نہیں نکل پا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا یہ وقتی کشش ہے۔ اس لیے تم سے نکاح کرتے وقت میں نے سوچا تھا کچھ دنوں میں ہی تم کو آزاد کردوں گا اس رشتے سے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تم میرے لیے روح کی طرح ہوگئیں۔ جسے اگر جسم سے الگ کر دیا جائے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔

تم نے ٹھیک کہا تھا نور۔ میں تمہیں نہیں خود کو یقین دلاتا تھا کہ تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اس لیے جس دن تمہارے سر پر چوٹ لگی اُس دن میں نے خود سے اعتراف کر لیا تھا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔"

کردم نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ افق پر ڈوبتا ہوا سورج ماحول میں آسودگی پیدا کر رہا تھا۔

" ایک معاملہ میرا میرے رب سے ہے۔ جس میں خیانت ہی خیانت ہے۔ ایک معاملہ میرا تم سے ہے۔ جس میں میں نے کبھی خیانت نہیں کی۔ تمہارے آنے کے بعد میں صرف تمہارا بن کے رہا ہوں نور۔"

وہ اس کے سامنے آ کر اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے بولا۔ آئینور ساکت سی اسے سن رہی تھی۔

" اگر میں نہ رہا تو کیا تب بھی تم صرف میری بن کر رہو گی؟ "

وہ خاموش رہی۔

"بولو؟ "

اس نے پھر پوچھا۔ لیکن وہ کچھ نہ بولی۔ اس سوال کا جواب دینا کتنا مشکل لگ رہا تھا۔ کسی دشمن کی موت کا بھی سنتے ہی ایک پل کے لیے روح کانپ جاتی ہے پھر وہ تو اس کا شوہر تھا۔ محبت نہ سہی چاہے جانے کا احساس تو تھا۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا کر مڑنے لگی کہ رکی اور بولی۔

" آج کے لیے شکریہ مجھے گھوڑے پر بیٹھ کر بہت اچھا لگا۔"

پھر واپس مڑ کر آگے بڑھ گئی۔ کردم وہیں کھڑا اسے دور جاتے دیکھ رہا تھا۔


۔******************۔


" سب ٹھیک سے ہونا چاہیئے۔ اب میں کسی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا۔"

فون کان سے لگائے پاشا اپنے ماتحت کو حکم دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی سونیا کو لیے وہ گھر واپس آیا تھا اور اب اپنے کام پر لگ چکا تھا۔

" آپ فکر مت کریں پاشا بھائی۔ کام ہو جائے گا۔" اسپیکر میں سے کاشف کی آواز ابھری۔

" ٹھیک ہے۔ آج رات یہ کام ہو جانا چاہیے اور ہاں کسی کو شک نہ ہو سمجھے؟ "

" جی پاشا بھائی !! آپ نے جیسا کہا ہے ویسا ہی ہوگا۔"

" ٹھیک ہے۔ کام ہو جائے تو مجھے خبر کرنا۔"

اس نے بات ختم ہوتے ہی فون جیب میں ڈال دیا اور چہرہ موڑ کر لاؤنج میں بیٹھی سونیا کو دیکھا جو اپنی شاپنگ بیگز کو پھیلائے بیٹھی تھی۔


۔*******************۔


مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ گھر واپس لوٹے تھے اور اب وہ افغانستان جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا۔

آئینور دوپٹہ کھولتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ دل نہ جانے کیوں اداس ہو رہا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر وہ اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔ کردم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔

" کیا جانا بہت ضروری ہے؟ "

شرٹ کے بٹنوں پر نظریں جمائے وہ بے تاثر چہرے سے پوچھ رہی تھی۔

" ہاں !! تم چاہتی تھیں نا۔ میں یہ سب چھوڑ دوں۔ بس اس لیے جانا ضروری ہے۔"

آئینور خاموش ہو گئی مگر دل چیخ رہا تھا کہ وہ اسے روک لے نہ جانے دے کیا پتا پھر ملاقات ہو نا ہو۔ وہ گہرا سانس لیتی اس کے سینے سے لگ گئی۔

"جلدی آجائے گا۔ میں۔۔۔ نہیں "ہم" آپ کا انتظار کریں گے۔"

اس کا اشارہ بچے کی طرف تھا اور کردم وہ تو آئینور کی اس حرکت پر ہی ساکت رہ گیا تھا۔

" جلدی آنا ہاں۔"

اس نے پھر بولا تو کردم چونکا اور اس کے گرد حصار بنا دیا۔

" ہاں !! جلدی آجاؤں گا۔"

آئینور اس سے الگ ہوئی تو کردم نے اس کا ماتھا چوم لیا اور کوٹ پہن کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور بھی اس کے پیچھے ہی نکلی تھی۔ وہ بیرونی دروازے کی چوکھٹ پر جا کھڑی ہوئی سامنے ہی کردم گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔

اس نے چہرہ موڑ کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں وہ دوپٹے سے منہ چھپائے کھڑی تھی۔ یہ احساس اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ جیسے آج کے بعد پھر وہ کبھی مل نہیں سکیں گے۔

کردم گاڑی میں بیٹھ گیا تبھی گاڑی آگے بڑھتی پورچ سے باہر نکل گئی۔

آئینور وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔


۔******************۔

سیما خالہ کچن صاف کرنے میں لگیں تھیں جب آئینور ان کے پاس چلی آئی۔

" کیا کر رہی ہیں۔ مجھے بتا دیں۔ میں کر دیتی ہوں۔"

" ارے نہیں !! بس سب ہوگیا۔"

سیما خالہ نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو گم سم سی کرسی پر بیٹھی تھی۔

" کیا ہوا لڑکی اداس لگ رہی ہوں۔ کردم کے جانے کی وجہ سے؟ "

آئینور نے چہرہ اُٹھا کر انہیں دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

" عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔ جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو۔"

" بس تمہارا وہم ہے لڑکی۔ چلو عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ نماز میں دعا کرو کچھ نہیں ہوگیا۔"

سیما خالہ اذان کی آواز سنتے ہوئے بولیں تو آئینور اثبات میں سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں نماز پڑھ کر دعا کرتی ہوں۔"

وہ کہہ کر کچن سے باہر نکل گئی۔

سیما خالہ بھی دوپٹہ سنبھالتی نماز پڑھنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

ادھر آئینور کمرے میں آئی اور وضو کے لیے باتھ روم کی جانب بڑھنے لگی کے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر رکی۔

سفید فراک پہنے وہ آج بھی سادھا سے حلیے میں رہتی تھی۔ مگر اس کی شخصیت میں رکھ رکھاؤ تھا۔ جو اسے مزید پُرکشش بناتا تھا۔

" لڑکی تیار ہو کر رہا کرو۔"

آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر اسے سیما خالہ کی بات یاد آئی۔

" رہنے دیں سیما خالہ آپ بھی کسے سمجھا رہی ہیں۔"

یہ آواز کردم کی تھی۔

" چلیں مسٹر !! جلدی واپس آجائیں تاکہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری کر دی جائے۔"

آئینور اپنی سوچوں میں کردم سے مخاطب ہو کر بولی۔ چاہے جانے کے احساس کے ساتھ ساتھ برسوں کے دبائے ہوئے جزبات نے بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی وضو کرنے باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔


۔**************۔


بیرونی دروازے کے قریب کرسیاں بچھائے، وہ دونوں شراب کے مزے لوٹ رہے تھے۔ کردم کی ہدایت کے مطابق انہیں اُس کے واپس آنے تک یہاں سے ہلنا نہیں تھا بلکہ یہاں کھڑے ہو کر گھر اور آئینور کی حفاظت کرنی تھی۔

" ابے فاروق تھوڑی اور ڈال نہ کیا کنجوسی کر رہا ہے۔"

فاروق کو آدھا گلاس بھرتے دیکھ رحمت غصّے سے بولا۔

" آرےے !! ختم ہوگئی یہ دیکھ۔"

وہ اس کے سامنے کھالی بوتل لہرا کر دکھانے لگا۔

" اب کیا کریں؟ "

رحمت نشے میں ڈوبی آواز کے ساتھ بولا۔

" ایک کام کرتے ہیں۔ کسی شراب خانے میں چلتے ہیں۔"

فاروق کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" پاگل ہے کیا !! کردم دادا کو پتا چل گیا تو جان سے مار دینگے۔ ہمیں یہاں سے ہلنا نہیں ہے۔"

" کردم دادا کو بتائے گا کون رحیم تو ان کے ساتھ گیا ہوا ہے۔ تھوڑی دیر کی تو بات ہے بس یوں گئے اور یوں آئے۔"

" کہہ تو تو ٹھیک رہا ہے۔ چل پھر چلتے ہیں۔"

رحمت بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکھڑاتی ہوئی چال کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ جب پیچھے کھٹ پٹ کی سی آواز آئی۔

" اےے !! کون ہے؟ "

رحمت نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔

" لگتا ہے تجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر کر گئی۔ کوئی نہیں ہے یہاں جلدی چل۔"

" ہاں !! شاید تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔"

فاروق کی بات پر وہ سر ہلاتا بیرونی دروازہ عبور کر گیا۔

ان کے جاتے ہی دو سائے لان کی دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔


۔***************۔


عشاء کی نماز ادا کر کے سیما خالہ اپنے بستر پر لیٹنے لگیں جب لاؤنج میں گلدان گرنے کی آواز سنائی دی۔

" اللّٰه !! لگتا ہے بلی گھس آئی ہے۔"

وہ دوپٹہ سنبھالتی باہر نکلیں کہ سامنے ہی ایک نقاب پوش آدمی اپنے دوسرے ساتھی کو جھڑکتا نظر آیا۔ ساتھ ہی نیچے فرش پر گلدان ٹوٹا پڑا تھا۔

" اےے !! کون ہو اور اندر کیسے گھس آئے؟ "

ان کی آواز پر وہ نقاب پوش آدمی فوراً ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔

" میں اس بڑھیا کو سنبھالتا ہوں، تو اُس لڑکی کو اوپر جاکر ڈھونڈ۔"

وہ کہتا ہوا آگے بڑھا۔ دوسرا فوراً اس کے حکم پر اوپر کی جانب بڑھ گیا تھا۔

سیما خالہ حیران کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔ دماغ نے یکدم کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اس آدمی کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ فوراً ہوش میں آئیں اور چلانا شروع کردیا ساتھ ہی کچن کی طرف لپکی تاکہ اپنے بچاؤ کا کچھ سامان اُٹھا سکیں۔ مگر اس سے پہلے ہی وہ آدمی تیزی سے ان تک پہنچا اور منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں قابو کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

سیما خالہ اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ساتھ میں ہاتھ پاؤں بھی چلا رہی تھیں۔

" ابے اے !! بڑھیا ادھر ہی تجھے گاڑ دوں گا اگر زرا بھی آواز نکالی تو۔"

مگر سیما خالہ نے اس کی دھمکی کا اثر لیے بغیر اپنے چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور چلانے لگیں کہ تبھی اس آدمی نے اپنے پیچھے چھپا خنجر نکالا اور سیدھا یک کے بعد دیگر سیما خالہ کے پیٹ میں مارتا چلا گیا۔ لمحوں کا کام تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماربل کا فرش خون سے رنگتا چلا گیا۔

سیما خالہ کے بے جان وجود کو چھوڑ کر وہ اوپر کی طرف بڑھنے لگا جہاں اس کا دوسرا ساتھی کمرے کی دیوار کے ساتھ لگا کھڑا آئینور کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔

ادھر کمرے میں آئینور سلام پھیر کر دعا مانگ رہی تھی۔ جب سیما خالہ کے چلانے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اور پھر بند ہو گئی۔

وہ دعا مانگ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جائے نماز ایک طرف رکھ کر وہ سیما خالہ کو دیکھنے کیلئے کمرے سے باہر نکلی کہ تبھی پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھ دیا۔

وہ مچلتی ہوئی اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی مگر رومال پر لگی دوا نے جلد ہی اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا۔ بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا۔ وہ سامنے سے آتے اس نقاب پوش کی آنکھیں تھیں اور پھر چاروں سو اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔


۔****************۔


جہاں افغانستان کی سر زمین پر صبح اُتری وہیں اس کے میدانی علاقے میں آسمان پر شور مچاتا ہیلی کاپٹر ریت کو اڑاتا ہوا زمین پر اُترا تھا۔

بلیک سوٹ میں ملبوس ہیلی کاپٹر سے نکل کر کردم دادا نے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ اپنا قدم افغانستان کی زمین پر رکھا تھا۔ سامنے ہی ایک آدمی آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے سوٹ بوٹ میں گاڑی کے لیے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

کردم نے اس کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ رحیم بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔

وہ چلتا ہوا گاڑی کے سامنے جا رکا۔ ڈرائیور نے اسے پاس آتے دیکھ فوراً پچھلی نشست کا دروازہ اس کے لیے کھولا تھا۔

کردم سیٹ پر بیٹھا، رحیم بھی ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گیا تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور اس میدانی علاقے میں دھواں اڑاتے ہوئے وہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہی وہ سڑکوں سے گزرتی اس قدیم ترین بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی۔

رحیم گاڑی سے اُترا اور کردم کی سائڈ کا دروازہ کھول دیا۔ کردم نے گاڑی سے اُتر کر اس قدیم عمارت کو ایک نظر دیکھا اور قدم اندر کی جانب بڑھا دیے۔ رحیم نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔

راہداری میں چلتے جگہ جگہ گارڈز بندوق تانے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان کے درمیان سے چلتا اس بڑے سے دروازے کے سامنے جا رکا۔ دیوار پر لگی مشین پر اپنا ہاتھ رکھا جس کے سکین ہوتے ہی دروازہ کھل گیا۔

وہ اندر داخل ہوا پر سامنے موجود غازی کو ماتحتوں کے درمیان گھیرے دیکھا۔

" خاور دادا کہاں ہیں؟ "

اس کی گرج دار آواز نے ایک پل کے لیے پورے کمرے میں سناٹا طاری کر دیا۔ آئینور کے آنے کے بعد جو نرمی اس کی شخصیت میں آئی تھی۔ اس پل وہ مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔

" کردم دادا !! "

غازی اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس کے سامنے آیا۔

" وہ تو ایران گئے ہوئے ہیں۔ لیکن تم یہاں کیسے؟ "

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔

" کیا مطلب ؟ لیکن کل انہوں نے فون کر کے کہا تھا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کوئی ضروری معاملات ہیں۔" کردم بھنویں سکیڑ کر بولا۔

" لیکن وہ تو ایک ہفتے سے ایران میں ہیں پھر تمہیں یہاں کیوں بلایا؟ "

اور اس ایک سوال پر کردم کو اپنے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ الٹے قدموں وہاں سے نکلا پیچھے سے غازی اسے آواز دیتا رہ گیا۔ مگر وہ ان سنی کرتا دوڑتا ہوا رحیم کے پاس پہنچا جو ایک گارڈ کے ساتھ کھڑا باتوں میں مصروف تھا۔

" خاور دادا کی آواز میں وہ کال کس کی تھی؟ "

اس کا گریبان پکڑ کر کردم اسے دیوار سے لگاتا ہوا غرایا۔ رحیم اس اچانک افتاد پر بوکھلا گیا تھا۔

" کردم دادا میں نہیں جانتا۔ ان کی آواز سنتے ہی میں فون آپ کے پاس لے آیا تھا۔"

کردم نے اس کی بات سن کر ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑا۔ رحیم سنبھل کر اپنی حالت درست کرنے لگا۔

" خاور دادا یہاں نہیں ہیں۔ پھر وہ کال کس نے کی تھی؟ اور ان لوگوں کو تو میری آمد کی خبر تک نہیں تھی۔ پھر یہ ڈرائیور کس نے بھیجا؟ "

کردم خود سے بڑبڑایا اور یکدم باہر کی جانب بھاگا۔ اسے جاتا دیکھ رحیم بھی اس کے پیچھے لپکا تھا۔

کردم عمارت سے باہر نکل کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ جب رحیم پھولے ہوئے تنفس کے درمیان بولا۔

" کیا ہوا کردم دادا؟ "

" وہ ڈرائیور کہاں ہے؟ "

" وہ تو ہمیں یہاں چھوڑنے کے بعد ہی دوبارہ چلا گیا۔"

اس کے بتانے پر کردم نے بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ یہ وقت اُسے ڈھونڈنے کا نہیں تھا۔ اسے اب جلد سے جلد پاکستان واپس جانا تھا۔ یکدم اسے بے چینی نے آن گہرا تھا۔ کچھ غلط ہونے کے احساس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ تیزی سے وہاں کھڑی بلیک جیپ کی جانب بڑھا۔

" چلو جلدی چلو ہمیں ابھی واپس پاکستان جانا ہے۔"

کردم کی بات پر اب کے رحیم کو بھی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ وہ بھی فوراً جیپ کی طرف بڑھا۔ کردم پہلے ہی بیٹھ چکا تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ کر اس نے جیپ کو واپس اسی راستے پر ڈال دیا جہاں ان کا ہیلی کاپٹر موجود تھا۔


۔*****************۔

وہ قدم اُٹھاتا اس اندھیرے کھنڈر نما گودام میں داخل ہوا تھا۔ سامنے ہی بلپ کی روشنی میں وہ زمین پر بے ہوش پڑی تھی۔ سفید دوپٹے کے حالے میں اس کا چہرہ بلپ کی روشنی میں دمک رہا تھا۔ وہ اس پر جھکا اور اس کے پُرکشش چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مکرو مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

" ماننا پڑے گا کردم دادا نے بھی مست مال چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ لیکن افسوس میں تمہاری خوبصورتی کو خراج بخش نہیں سکتا کیونکہ تمہیں تو کہیں اور جانا ہے۔"

وہ پیچھے ہٹا اور مڑ کر اپنے ماتحتوں سے مخاطب ہوا۔

" ہماری مہمان کو صحیح سلامت انہیں ان کی اصل جگہ پہنچا دو اور کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیئے۔"

" جی پاشا بھائی !! آپ فکر نہیں کریں سب آپ کے کہے کہ مطابق ہوگا۔"

وہ دونوں پاشا کا اشارہ ملتے ہی آگے بڑھے اور آئینور کو اُٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گئے۔ جہاں اکبر بلیک پجیرو کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی اس نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔

ان لوگوں نے گاڑی کے پاس پہنچ کر آئینور کو اس میں ڈالا اور پاشا کی جانب موڑے جو گودام کے دروازے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ چند ایک ہدایت کے بعد وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی اکبر بھی فوراً گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا کہ اچانک اس کی نظر بیک ویو مرر میں نظر آتے آئینور کے عکس پر پڑی۔ وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا پھر خود کو سنبھالتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

" اب وقت آ گیا ہے کہ تم سے آمنے سامنے مقابلہ کیا جائے کردم دادا۔"

وہاں کھڑا پاشا فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کو جاتے دیکھ بڑبڑایا اور خود بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔


۔*************۔


ہواؤں سے باتیں کرتی گاڑی تیز رفتاری سے سیدھا کردم کے بنگلے کے سامنے آکر رکی تھی۔ چوکیدار نے انہیں دیکھتے ہی دروازہ کھولا۔ رحیم نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے پورچ میں لے جا کر روکی۔

کردم تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولتا ہوا اندر کی جانب بڑھا تھا۔ مگر اندر کی حالت دیکھ کر اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔

سیما خالہ کا بے جان وجود فرش پر گرا ہوا تھا۔ وہ بے جان قدموں سے چلتا ان کی طرف آیا اور جھک کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں بند کرنے کی ناکام سی کوشش کی لیکن وقت گزر چکا تھا ان کا جسم اکڑا پڑا تھا۔ کردم نے سختی سے آنکھیں مچ لیں۔ اسی سمے رحیم بھی گھر میں داخل ہوا اور سیما خالہ کی لاش کو دیکھ کر وہیں ساکت رہ گیا۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے کالر میں جذب ہوا تھا۔ وہ اس کے لیے بالکل ماں جیسی تھیں۔

" نور نور !! "

آئینور کا خیال آتے ہی کردم فوراً وہاں سے اُٹھتا اوپر کی جانب بڑھا۔ وہ دیوانہ وار آئینور کو پکار رہا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر گیا۔

" نور نور کہاں ہو میری جان؟ "

وہ اسے پکارتا باتھ روم کی طرف بڑھا۔ وہ بھی خالی تھا۔

کردم وہاں سے نکل کر خواب گاہ میں آیا۔ مگر یہاں بھی مایوسی ہوئی۔

" کہا ہو نور؟ تم تو میرا انتظار کر رہی تھیں۔ پھر یوں اچانک کہاں چلی گئی ہو تم؟ "

وہ واپس نیچے کی طرف بڑھا اور دھاڑتے ہوئے رحیم سے پوچھا۔ جو سیما خالہ کے پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔

" رحمت اور فاروق کہاں ہیں؟ میں انہیں یہاں ان لوگوں کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر گیا تھا۔"

" معلوم نہیں دادا میں چوکیدار سے پوچھتا ہوں۔"

" نہیں۔۔۔ میں خود اُس سے پوچھتا ہوں آخر اُس کی موجودگی میں یہ سب کیسے ہوا۔ تم جاکر سیما خالہ کے کفن دفن کا انتظام کرو۔"

" جی دادا !! "

رحیم اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا گیا۔ کردم بھی اس کے پیچھے نکلتا چوکیدار کے سر پر جا پہنچا۔

" تم یہاں کھڑے ہو اور تمہارے ہوتے ہوئے کسی نے سیما خالہ کو مار دیا اور نور۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا۔

" بولو تمہارے ساتھ کیا کیا جائے؟ " چوکیدار کا گریبان پکڑے وہ غرایا۔

" کردم دادا مجھے نہیں معلوم۔ آپ تو جانتے تھے۔ میں گاؤں گیا ہوا تھا۔ آج صبح ہی آیا ہوں اور نہ میرے سامنے کوئی اندر گیا نہ باہر آیا۔ میں بھی گھر کے اندر نہیں کیا تھا صبح سے یہاں کھڑا ہوں اس لیے میں کچھ نہیں جانتا۔"

وہ کردم کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ کردم نے ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ دیا اور بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

" فاروق اور رحمت کا پتا ہے کہاں ہیں؟ " اس نے ان کا خیال آتے ہی پوچھا۔

" نہیں دادا۔ میں نے صبح سے نہیں دیکھا۔" چوکیدار بیچارگی سے بولا۔

" کہاں جا سکتے ہیں یہ؟ نور کو تو کوئی نہیں جانتا تو پھر۔۔۔ آخر یہ سب کر کون رہا ہے؟ رات جب افغانستان جانے سے پہلے میں اڈے پر گیا تھا تو فاروق اور رحمت دونوں کو فوراً وہاں سے گھر بھیج دیا تھا اور کام ختم کرنے تک میں وہیں تھا اس کے بعد افغانستان کے لیے نکلا تھا۔ اگر اس دوران کچھ ہوا تو انہوں نے مجھے خبر کیوں نہیں کی، کیا وہ دونوں گھر نہیں آئے تھے؟ "

کردم سوچتا ہوا واپس اندر کی جانب بڑھ گیا۔


۔***************۔


" اکبر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، وہ لڑکی وہی تھی؟ ہو سکتا ہے کوئی اور ہو۔"

اکبر اپنا سر پکڑے کرسی پر بیٹھا تھا۔ سامنے ہی رانی پریشان سی اسے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔

" نہیں رانی۔ وہ وہی لڑکی تھی۔ جس نے اپنے شوہر سے کہہ کر ہماری مدد کروائی تھی۔ میں نے۔۔۔ میں نے اُس کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی دیکھی تھی۔ تمہیں یاد ہے نا وہ انگوٹھی تم ہی کہہ رہی تھیں وہ بہت قدیم اور قیمتی لگتی ہے کیونکہ ایسا زیور اب نہیں بنتا۔"

" ہاں !! تو۔۔۔ تو کیا اس لڑکی کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی تھی؟ " رانی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں !! وہی تھی۔" اکبر نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔

"تم۔۔۔ تم اُس کے شوہر سے بات کرو۔ پوچھو اُس سے۔ اُس نے فون نمبر دیا تھا نا۔"

رانی کی بات پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔

" نہیں رانی میں ان کا نمک کھاتا ہوں۔ ان کے ساتھ کیسے غداری کر سکتا ہوں۔"

" اور جن لوگوں کی وجہ سے سعدی آج زندہ ہے وہ۔ اگر اللّٰه ان لوگوں کو ہماری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو ہم کیا کرتے؟ تم احسان فراموش بن رہے ہو۔"

رانی نے اسے احساس دلانا چاہا۔

" یہ سب چھوڑ دو اکبر۔۔۔ حرام کھانے سے بہتر ہم بھوکے مر جائیں مجھے یہ منظور ہے۔ کم از کم اللّٰه کے سامنے تو سرخرو ہو جائیں گے۔"

اس کی بات پر اکبر نے سر واپس ہاتھوں میں گرا دیا۔ کسی ایک کو چننا آسان نہیں تھا۔


۔***************۔


اس کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک انجان کمرے میں پایا۔دڑبے نما سا وہ کمرہ جس میں گھسا پٹا سامان پڑا ہوا تھا۔ پورے کمرے میں عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی ساتھ ہی باہر سے شور کی آوازیں آتی سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اُٹھ بیٹھی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔ سر بھاری ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا ابھی پھٹ جائے گا۔

" افففف !! میں کہاں ہوں اور یہ شور کیسا ہے؟ "

وہ خود کو سنبھالتی بیڈ سے اُتری کہ تبھی پیر نیچے پڑی بوتل سے ٹکرایا۔ آئینور نے ماتھے پر بل ڈالے اس بوتل کو دیکھا۔ اسے پہچانے میں زرا دیر نہیں لگی تھی وہ کس مشروب کی تھی۔ وہ پاؤں سے اسے پرے پھینک کر آگے بڑھی اور دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی۔ کسی نے باہر سے تالا لگا رکھا تھا۔

" کوئی ہے؟ دروازہ کھولو۔ مجھے باہر نکالو۔"

وہ آوازیں دیتی دروازہ بجانے لگی کہ یکدم رک گئی۔ باہر سے آتی آوازوں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں بجلی سی دوڑا دی تھی۔ اس نے خستہ حال دروازے کی جھری سے جھانک کر باہر دیکھا اور اسی لمحے اسے اپنے پیروں پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ سامنے موجود دوشیزہ پیروں میں گھنگھرو پہنے تبلے کی دھن پر محو رقص تھی۔ ارد گرد بیٹھے مرد اس پر پیسے نچھاور کر رہے تھے۔ کچھ تو کھڑے ہو کر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے اس کا ساتھ دے رہے تھے۔

آئینور سے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ وہ فوراً الٹے قدموں دروازے سے ہٹی۔ دماغ یکدم ماؤف ہو چکا تھا۔ چکراتے سر کے ساتھ بیڈ کی طرف جانے لگی کے ایک بار پھر اس بوتل سے ٹکرا کر نیچے گری اور آنکھیں بند کر گئی۔ اس لمحے اس کی زبان سے بس ایک نام ادا ہوا تھا۔

" کردم !! "


۔***************۔

وہ خواب گاہ میں کھڑا کھڑکی سے باہر نظر آتے مناظر دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آج افق سے ماہتاب بھی غائب تھا۔ جیسے کردم کے آنگن سے آئینور۔

سیما خالہ کو دفنانے کے بعد وہ سیدھا آئینور کی تلاش میں نکلا تھا۔ گھنٹوں تک سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد رات دیر گھر لوٹا تھا۔ رحیم اور کچھ اور آدمیوں کو اس نے رحمت اور فاروق کو ڈھونڈنے میں لگا دیا تھا۔ مگر اب تک ان کی بھی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔

" کہاں ہو تم نور؟ "

وہ افق پر نظریں جمائے آئینور کے تصور سے مخاطب ہوا۔

" تمہیں تو میں نے سب سے چھپا کر رکھا تھا۔ پھر کس نے تمہیں مجھ سے چھین لیا۔"

تیز ہوا کے چھونکے سیدھا اس کے چہرے کو چھو رہے تھے۔ اس ہوا میں اسے آئینور کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔

" جس کسی نے بھی یہ گندھا کھیل کھیلا ہے میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ اس کو اس کے بھیانک انجام تک پہنچا کر ہی دم لوں گا۔"

وہ خود سے عہد کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔ یہ وقت ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے کا نہیں تھا۔


۔**************۔


شراب خانہ مردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ لوگ ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے شراب نوشی کے ساتھ ساتھ جوا کھیلتے ہوئے اپنی اپنی قسمت آزما رہے تھے کہ اچانک تیز آواز کے ساتھ شراب خانے کا شٹر اُٹھا تھا اور وہ سیاہ چادر اوڑھے اندر داخل ہوا۔ چادر میں منہ چھپائے وہ ادھر اُدھر دیکھتا ایک کونے پر جا بیٹھا۔ ارد گرد نظر دوڑاتا وہ اطراف کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔

" کیسے ہو رحمت؟ "

مقابل نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے چادر کھیچ لی۔

" رحیم تم۔۔۔ تم یہاں؟ " رحمت آنکھوں میں حیرت لیے سامنے کھڑے رحیم کو دیکھ رہا تھا۔

" ہاں میں !! تمہیں کیا لگا تم چھپ جاؤ گے تو تمہیں کوئی ڈھونڈ نہیں پائے گا؟ "

" تمہیں کیسے پتا چلا میں یہاں ہوں؟ "

" پیاسا کنوے کے پاس خود چل کر آتا ہے۔ مجھے یقین تھا کردم دادا کے بنگلے سے نکل کر تم ادھر اُدھر ہی پائے جاؤ گے۔ خاص طور پر شراب خانوں میں۔" وہ مسکرا کر کہتا اس کے سامنے جھکا۔

" بس پھر کیا تھا میں نے ہر اس جگہ آدمیوں کو بھیج دیا جہاں تم پائے جا سکتے ہو اور دیکھو تم مل بھی گئے۔"

وہ واپس سیدھا ہوا تبھی دو آدمی رحیم کے پیچھے سے نکل کر آگے آئے اور رحمت کو کوئی بھی موقع دیئے بغیر فوراً بازوں سے پکڑ لیا۔

" میں نے کچھ نہیں کیا مجھے چھوڑ دو۔ میں کچھ جانتا بھی نہیں ہوں۔"

رحمت چلانے لگا ارد گرد موجود لوگوں رک کر انہیں دیکھنے لگے مگر پھر اپنے اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہ تو یہاں روز کا معمول تھا۔

" میں جانتا ہوں تم نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن راہِ فرار کوئی حل نہیں تم کو کردم دادا کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔" رحیم نے اسے سمجھانا چاہا۔

" وہ مجھے مار دینگے۔" وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔ بےبسی سی بےبسی تھی۔

"جب تم نے کچھ کیا ہی نہیں تو وہ کیوں تمہیں مارنے لگے۔۔۔؟ چلو اسے لے کر چلو۔"

رحمت سے بول کر آخر میں اپنے آدمیوں سے مخاطب ہوا۔ اس کا حکم ملتے ہی وہ زبردستی رحمت کو لیے وہاں سے نکل گئے اور رحمت بس چلاتا ہوا خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔


۔*************۔


اسے ہوش آیا تو وہ بستر پر پڑی تھی۔ اس نے بامشکل آنکھوں کو کھول کر ارد گرد دیکھا تبھی اس کی نظر سامنے کھڑی خاتون پر پڑی میک اپ سے اٹا ہوا چہرہ آئینور کو وہ بھیانک منظر یاد دلا گیا۔ اس نے بے اختیار اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ (وہ گری تھی۔)

" یااللّٰه حفاظت کرنا۔"

" اے لڑکی !! چل اُٹھ تیری دید کے لیے سب انتظار کر رہے ہیں۔" اس کی آواز پر آئینور نے ناگواری سے آنکھیں بند کر لیں۔

" اےےے !! اُٹھ یہاں آرام کرنے کے لیے نہیں لائے تجھے۔"

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھی اور آئینور کو کلائی سے پکڑ کر کھینچا۔ آئینور اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم جو چاہے مجھ سے کروا سکتی ہو، تو تمہاری بھول ہے۔ مر جاؤں گی مگر تمہاری خواہش پوری نہیں ہونے دونگی۔" وہ اس عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُراعتماد لہجے میں بولی۔

" ائے ہائے !! آئی بڑی مر جائے گی۔ بہت دیکھی ہیں تجھ جیسی۔ یوں یوں ( وہ چوٹکی بجاتے ہوئے بولی) یوں لائن پر لے آئی سب کو پھر تو کیا چیز ہے۔"

" تم ابھی مجھ جیسی سے ملی کہاں ہو خاتون۔ میں اپنے نام کی ایک ہوں۔ دیکھ لینا تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گی لیکن مجھ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا پاؤ گی۔"

بظاہر وہ بے خوف ہو کر بول رہی تھی مگر اندر کا حال تو صرف اللّٰه ہی جانتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں کتنی ہی دعائیں اپنی عزت کی حفاظت کیلئے کر رہی تھی۔ اس عورت نے ایک نظر سر سے پیر تک آئینور کو دیکھا جو تیکھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

" صرف آج رات کا وقت دے رہی ہوں۔ صبح تک اگر تیری یہ اکڑ ختم نہ ہوئی تو درندوں کے سامنے ڈال دوں گی جو تجھے نوچ کھسوٹ کھائیں گے۔ ہنہہ !! " وہ ہنکار بھرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

اس کے جاتے ہی آئینور وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

" میرے مالک رحم۔"


۔*************۔


ہاتھ کمر پر باندھے وہ لاؤنج میں کھڑا اپنے سامنے موجود ڈرے سہمے رحمت کو دیکھ رہا تھا۔ بائیں جانب اس سے تھوڑا فاصلے پر رحیم کھڑا ہوا تھا۔ لاؤنج میں اس وقت سناٹا چھایا ہوا تھا جسے کردم کی گرج دار آواز نے توڑا تھا۔

" کس نے کیا ہے یہ سب بولو؟ "

"میں۔۔۔ میں نہیں جانتا دادا۔ میں تو فاروق کے ساتھ شراب خانے گیا تھا۔ پیچھے سے کس نے یہ سب کیا مجھے نہیں معلوم۔ میں جب وہاں سے واپس آیا تو گھر میں سیما خالہ کی لاش ملی۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔"

رحمت نے آئینور کا ذکر کرنے سے پرہیز کیا آیا کہ وہ اس کا سن کر بھڑک ہی نہ جائے۔ وہ اس وقت کیسے کردم کے سامنے کھڑا تھا یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔ اس وقت موت کا احساس بڑی شدت سے اسے اپنے گہرے میں لیا ہوا تھا۔

" فاروق کہاں ہے؟ "

" وہ دادا رات وہ شراب خانے میں رک گیا تھا اس کے بعد وہ واپس نہیں آیا۔"

اس کی بات پر کردم نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی غلط کرنے سے روک رہا تھا۔

" دفاع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور رحیم تم مجھے کسی بھی صورت میں فاروق اپنے سامنے چاہیئے۔"

وہ رحمت سے کہہ کر رحیم سے مخاطب ہوا۔ اس کی بات پر عمل کرتے دونوں اس کی نظروں سے غائب ہو گئے۔

" کیا اس میں فاروق کا ہاتھ ہے؟ لیکن کیوں؟ "

ان دونوں کو جاتے دیکھ وہ سوچتا ہوا نڈھال سا وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔


۔**************۔


ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ وہ ابھی گھر واپس لوٹا تھا۔ جہاں جہاں آئینور ہو سکتی تھی۔ اس مطابق اس نے پورا شہر چھان مارا تھا۔ مگر آئینور کا کچھ پتا نہ چلا۔ وہ عدیل کو بھی فون کر چکا تھا لیکن ان کی باتوں سے یہ ہی لگتا تھا کہ وہ آئینور کی گمشدگی سے لاعلم ہیں۔

وہ تھکا ہارا اپنی خواب گاہ میں آکر لیٹا ہی تھا کہ رحیم دوڑتا ہوا آیا اور دروازے پر دستک دی۔

" آجاؤ۔" اجازت ملتے ہی وہ فوراً اندر داخل ہوا۔

" دادا آپ کے لیے کسی رانی نامی لڑکی کا فون ہے۔"

اس کی بات پر کردم جو آنکھیں بند کرکے لیٹا آئینور کو یاد کر رہا تھا۔ آنکھیں کھول کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ رحیم اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر گڑبڑا گیا اور فوراً بولا۔

" دادا وہ کہہ رہی ہے آپ کی بیوی کے بارے میں بات کرنی ہے۔"

یہ سنے کی دیر تھی کردم ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا اور لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس کے ہاتھ سے فون لے لیا۔

" ہیلو !! "

" السلام عليكم۔" کردم کی آواز سنتے ہی دوسری طرف سے سلام آیا۔

" وعلیکم السلام۔ کون؟ "

" جی میں رانی بول رہی ہوں۔ اکبر کی بیوی جن کی کچھ دن پہلے آپ نے مدد کی تھی۔"

رانی نے یاد دلانا چاہا۔ اس کے سامنے ہی پریشان سا اکبر بیٹھا ہوا تھا۔

" جی بولیں کیا بات ہے؟ " کردم نے یاد آتے ہی پوچھا پر وہ الجھ گیا تھا۔ اس لڑکی کا آئینور سے کیا تعلق؟

"جی وہ۔۔۔" اور پھر رانی نے ساری بات کہہ سنا ڈالی۔ کردم ساکت سا اس کی بات سن رہا تھا۔ فون پر اس کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی۔ اس نے ساری بات سنتے ہی فون کاٹ دیا۔

" کیا ہوا؟ " رانی کو بات ختم کرتے دیکھ اکبر نے پوچھا۔

" وہ ان کی ہی بیوی ہے۔ ان کے ملازم ( رحیم ) سے میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ وہ لاپتہ ہیں۔ اس لیے میں نے سب بتا دیا۔ اب آپ پریشان نہ ہوں۔"

اکبر بعد میں کمرے میں آیا تھا اس لیے رحیم اور رانی کی گفتگو نہیں سن سکا۔

" ٹھیک ہے۔" اکبر نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے درمیان کا راستہ چن لیا تھا۔ خود کردم کو نہیں بتایا تاکہ پاشا سے نمک حرامی نہ ہو اور نہ ہی کردم کے ساتھ احسان فراموشی کی۔ اس نے رانی کے زریعے اس تک بات پہنچا کر خود کو دونوں طرف سے سرخرو کر لیا تھا۔

ادھر کردم بات ختم ہوتے ہی فون کو پرے پھینک کر فوراً کمرے سے باہر بھاگا تھا۔ اسے اس طرح جاتے دیکھ رحیم بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ کردم تیزی سے سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ ایک خوف تھا کچھ غلط ہو جانے کا کچھ کھو جانے کا۔ آئینور کس جگہ تھی یہ سنتے ہی اسے اپنی دنیا لوٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ پورچ میں آئے اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیا۔ چوکیدار نے انہیں دیکھتے ہی دروازہ کھولا تھا۔ رحیم گاڑی گھر سے باہر نکالتا کردم کی بتائی جگہ پر تیزی سے اسے بھگا لے گیا۔ کردم بے چین تھا۔ وہ بس اب جلد سے جلد اپنی نور کے پاس پہنچنا تھا۔ یہ جانے بغیر آنے والا لمحہ اس پر کیا قیامت بن کر ٹوٹنے والا ہے۔


۔***************۔


" اے لڑکی !! نخرے نہیں سمجھی۔ یہ ناشتہ ختم کر ورنہ تجھے کسی کا ناشتہ بنا دونگی۔"

ملازمہ کے ہمراہ وہ خاتون صبح ہی ناشتہ لے آئی تھی۔ مگر آئینور کو ضد پر اڑا دیکھ اس کا دماغ گھوم گیا۔

" نہیں کرنا مطلب نہیں کرنا۔ تمہارا یہ حرام کھانا کھانے سے بہتر میں بھوکی مر جاؤ۔ کلثوم بیگم !! "

اس نے ناگواری سے کہہ کر چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ اس کی بات کلثوم بیگم تپ کر رہ گئی۔

" اس کی اکڑ ایسے نہیں جائے گی۔ چل ڈولی اس کے پاس دلاور کو بھیج تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آئے۔"

وہ ملازمہ سے کہتی ایک حقارت بھری نظر آئینور پر ڈال کر باہر چلی گئی۔ ڈولی بھی اس کے پیچھے ہی نکلی تھی۔ دروازہ بند ہوتے ہی آئینور اپنا چہرہ گھٹنوں میں دیئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ آئینور نے چہرہ اُٹھا کر دیکھا تو اس بار اندر آنے والا شخص کلثوم بیگم نہیں دلاور تھا۔ اسے دیکھتے ہی آئینور کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ کرنٹ کھا کر بیڈ سے اُتری۔ دلاور خباثت سے مسکراتا دھیرے دھیرے قدم اُٹھا کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

" وہیں رک جاؤ۔ میرے پاس مت آنا۔" وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔

" ابھی تو کچھ کیا بھی نہیں اور تم رکنے کی بات کر رہی ہو۔" معنی خیزی سے کہتا وہ قریب ہوتا جا رہا تھا۔

آئینور نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا قریب ہی ٹیبل پر مٹی سے اٹا گلدان رکھا ہوا تھا۔ وہ چوکنا ہوگئی۔ دلاور چلتا ہوا جیسے ہی اس کے قریب پہنچا آئینور نے لمحہ ضائع کیے بغیر گلدان اُٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ وہ بلبلا اُٹھا اور سر ہاتھوں میں تھام لیا۔ خون تیزی سے اس کے سر سے بہہ رہا تھا۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر آئینور نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر پوری طاقت سے اسے پیچھے دھکیلا جس کے باعث وہ کمر کے بل فرش پر جا گرا تھا۔

" کمینی تجھے تو آج چیر کر رکھ دونگا۔" وہ سر پکڑے اُٹھنے لگا۔

آئینور تیزی سے کمرے میں نظر دوڑا رہی تھی۔ تبھی اس کی نظر دائیں جانب دیوار پر بنی کھڑکی پر جا رکی۔ کھڑکی کے پار پورا شہر نظر آ رہا تھا۔ یقیناً اسے اوپر بنے کمرے میں بند کیا گیا تھا۔ وہ سوچنے لگی اور بس ایک لمحہ ایک لمحہ لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں۔

" اگر میری موت بھی ماما کی طرح ہونی ہے تو یہ ہی سہی۔ اگر خود کشی تو خود کشی سہی۔"

اس نے ایک نظر کھڑکی کو دیکھا اور پھر دلاور کی طرف جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھتا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔

آئینور نے چہرہ موڑا اور کھڑکی کی جانب دوڑ لگا دی۔ دلاور نے اس کا ارادہ بھانپ کر پیچھے سے اس کا دوپٹہ پکڑ کر کھینچا۔ مگر وہ پرواہ کیے بغیر بھاگتی چلی گئی۔ ایک دم کمرے میں کانچ کے ٹوٹنے کی آواز گونجی تھی۔ اُس کا سفید دوپٹہ دلاور کے ہاتھوں میں ہی رہ گیا تھا۔

بازارِ حسن کی اس تین منزلہ عمارت کی بلندی سے آئینور کا وجود نیچے زمین پر جا گرا تھا۔ سامنے سے آتے کردم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کے پیر وہیں پتھر کے ہوگئے۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔ ہر چیز ایک لمحے کو رک سی گئی تھی۔ سوائے زمین پر گرے آئینور کے وجود کے جو خون سے رنگتا جا رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف خون ہی خون پھیل رہا تھا۔ سفید فراک رنگ کر سرخ ہو چکا تھا۔

" نورررر !!! "

کردم کا سکتہ ٹوٹا۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بھاگا۔ زمین پر بیٹھتے اس نے آئینور کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ اس کے کپڑوں پر خون لگ چکا تھا۔ لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ کیا ہو رہا ہے، وہ کہاں بیٹھا ہے اور کون اسے دیکھ رہا ہے؟ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی سوائے آئینور کے جو اس کی گود میں آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ چہرہ خون سے تر تھا۔ ناک میں چمکتا ہیرا تک سرخ ہوگیا تھا۔ وہ دیوانہ وار اس کے چہرے سے بال ہٹاتا اسے آوازیں دینے لگا۔

"نور۔۔۔ نور میری جان آنکھیں کھولو۔ دیکھو میں آگیا، نور دیکھو۔"

اس کی پکار پر تڑپ پر آئینور نے بامشکل اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ پلکیں لرز رہی تھیں۔

وہ دھیرے دھیرے ان کو اُٹھاتی سامنے بیٹھے اپنے کردم کو دیکھنے لگی اور یہ دیکھنا بھی کیا دیکھنا تھا۔ کردم کو اب تک کی اپنی پوری زندگی بے معنی لگنے لگی۔ آج ان آنکھوں میں وہ نور نہ تھا جو ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ وہ کشش نہ تھی جو کردم کو اپنی جانب کھینچا کرتی تھی۔ ہاں !! ان آنکھوں میں آج کچھ الگ ہی چمک تھی۔ ہاں !! ان آنکھوں میں آج محبت تھی۔ وہ محبت جو کردم کب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے وہ آج اس لمحے دیکھی تھی۔ یہ ہی وہ موقع تھا جس میں اسے اپنی دنیا مکمل ہوتی نظر آئی اور ختم بھی۔

" نور !! "

اس نے دھیرے سے پکارا۔ آئینور آنکھیں کھولے اسی کو دیکھ رہی تھی۔ گلے میں ایک گلٹی سی ابھر کر غائب ہوگئی۔ جیسے وہ کچھ بولنا چاہ رہی ہو۔

" نہیں بولو کچھ نہیں بولو۔ میں کچھ نہیں ہونے دونگا تمہیں۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔"

آنسو مسلسل آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ ہواؤں کے جھونکے آئینور کے بالوں کو اُڑاتے اس کے چہرے پر لارہے تھے۔ جنہیں وہ بار بار پیچھے کر رہا تھا۔

دور کھڑا رحیم بہتی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا پتھر دل کردم دادا آج رو رہا تھا۔ ہاں !! وہ رو رہا تھا۔

کردم کی آنکھوں سے بہتے آنسو سیدھا آئینور کے چہرے پر جا کر گر رہے تھے۔

وہ اس سے کہنا چاہتی تھی۔ وہ نہ رو اسے تکلیف ہو رہی ہے مگر۔۔۔ آئینور کے گلے میں ایک گلٹی پھر سے ابھری اور اس بار وہ آنکھیں بند کر گئی۔ اس نے عزت کو بچا لیا تھا۔ موت کو گلے لگا کے۔

" نور۔۔۔ نور آنکھیں کھولو، میری طرف دیکھو نور، نور۔۔۔ نوررررر۔"

اور اس پل کردم دادا کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک بار پھر سے۔


۔******************۔

دو دن بعد۔۔۔


وہ اس وقت گودام کے اس اندرونی کمرے میں موجود تھے۔ کرسی پر بیٹھا شخص اپنے سامنے موجود پاشا کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جو اس کے سامنے پیسوں سے بھرا بریف کیس ٹیبل پر کھولے ہوئے تھا۔

" یہ لو پورے پیسے ہیں۔ جیسا وعدہ کیا تھا اُسے پورا کیا۔"

" شکریہ پاشا بھائی۔ ویسے اب تو تم خوش ہوگے اُس لڑکی نے خودکشی جو کرلی۔" وہ کمینگی سے مسکراتا ہوا بولا۔

" نہیں۔۔۔ میں چاہتا تھا کردم کا غرور ٹوٹے لیکن اُس لڑکی نے عزت کے چکر میں موت کو گلے لگا لیا۔ اس سے اچھا تو میں اُسے کچھ راتیں اپنے ساتھ ہی رکھ لیتا۔" پاشا نے غصّے سے کہہ کر سر جھٹکا۔

" ویسے اس بیچاری لڑکی کو بیچ میں لانا نہیں چاہیئے تھا۔ کتنی معصوم تھی۔ کتنی دین دار، پردہ کرنے والی۔"

سامنے بیٹھے شخص کی بات سنتے ہی پاشا کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آ گی۔

" یہ سب اُس کردم دادا کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے بھی سونیا کو سب سے چھپا کر سات پردوں میں رکھا تھا۔ مگر نہ جانے کردم دادا اور اُس کے آدمیوں کو کیسے علم ہوگیا۔ اگر وہ سونیا کو بیچ میں نہ لاتا تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا مگر سونیا کو بیچ میں لاکر اُس نے خود اپنی موت کا سامان اکھٹا کر لیا تو میں اُس کی بیوی کو کیسے چھوڑ دیتا۔"

"لیکن وہ اب تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔"

" یہ میرے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ خیر !! اب تم کیا کرو گے؟ کیونکہ کردم دادا تو اب تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا فاروق۔"

پاشا نے استہزائیہ مسکراہٹ سے فاروق کو دیکھتے ہوئے کہا۔

" میں اُس کے کچھ کرنے سے پہلے ہی پاکستان سے باہر چلا جاؤ گا۔ آخر کو اتنا سارا پیسہ ملا ہے۔"

فاروق مسکرا کر کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ بڑھا کر بریف کیس کو بند کیا اور پاشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

" امید ہے اس کے بعد ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ آج کے بعد تم اپنے راستے اور میں اپنے۔"

" بالکل۔"

پاشا نے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔ فاروق مسکراتا ہوا خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ یہ جانے بغیر آنے والا وقت اسے پاکستان سے باہر نہیں بلکہ قبر میں لے جانا والا ہے۔


۔***************۔


کافی وقت کینٹین میں گزارنے کے بعد وہ اپنی دوستوں سے باتیں کرتی مسکراتی ہوئی یونیورسٹی سے باہر نکل رہی تھی۔ اب بس چند ہی لوگ آس پاس نظر آ رہے تھے۔

" چلو سونیا اب ہم چلتے ہیں ہمارا ڈرائیور آ گیا۔" زرین نے اپنی گاڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

" ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ۔ میرا ڈرائیور بھی بس آتا ہوگا۔" وہ مسکرا کر بولی۔ زرین اور شیرین اس سے مل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئیں۔

وہ وہاں کھڑی بار بار ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھ رہی تھی۔ آدھے گھنٹہ ہونے کو تھا پر ڈرائیور کا کچھ آتا پتہ نہیں تھا۔ لوگ اب نہ ہونے کے برابر تھے۔

" افففف !! کہاں مر گیا۔ میں نے آج ہی گھر جا کر اس کو فارغ کر دینا ہے۔ اس کا تو روز کا معمول بنتے جا رہا ہے۔" وہ بڑبڑائی اور ارد گرد نظر دوڑانے لگی کہ تبھی ایک سفید رنگ کی وین اس کے سامنے آ کر رکی۔

وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ وہاں سے ہٹتی تیزی سے وین کا دروازہ کھلا اور وہاں بیٹھے شخص نے وین سے نکلتے ہی اسے اندر دھکا دیا۔

" چھوڑو۔۔۔ چھوڑو مجھے۔" وہ خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی ہاتھ پیر چلا رہی تھی کہ تبھی دوسرے شخص نے اس کے چہرے پر رومال رکھ دیا۔ بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس کے بازوؤں میں جھول گئی۔

ان دونوں نے اسے اندر ڈالا اور وین میں بیٹھتے ہی اسے تیزی سے آگے بڑھا لے گئے۔


۔****************۔


وہ ہال میں رکھی کرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا اپنے سامنے موجود ڈرے سہمے دلاور کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ دائیں جانب سفید چہرہ لیے کلثوم بیگم کھڑی تھی۔ جو آنے والے منظر کا سوچ کر ہی کانپ رہی تھی۔ ارد گرد کھڑی عورتیں اور لڑکیاں چہرے پر خوف لیے ان دونوں پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔

ان سے تھوڑے فاصلے پر رحیم ہاتھ باندھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے سامنے ہی ایک بھورے رنگ کی ٹیبل موجود تھی۔ جو طرح طرح کے تیز دھار والے اوزار سے سجی ہوئی تھی۔

کردم کے ایک تھپڑ نے ہی کلثوم کا منہ کھول دیا تھا۔ اس نے اُس دن کی ساری باتیں اسے کہہ سنائی تھیں اور اب وہ دونوں اس کے سامنے کھڑے اپنے ہونے والے انجام کا انتظار کر رہے تھے۔

کردم چہرے پر سختی لیے کرسی سے اُٹھا۔ گہری کالی آنکھوں میں اس وقت خون اُترا ہوا تھا۔ وہ نظریں دلاور پر جمائے چلتا ہوا اس کے سامنے آیا۔ دلاور میں اتنی ہمت نہ تھی وہ چہرا اُٹھا کر اسے دیکھ سکے۔

" بتا تیرے ساتھ کیا کِیا جائے؟ "

" میں نے کچھ نہیں کیا کردم دادا۔ میں نے تو اُسے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔"

دلاور کی بات سنتے ہی کردم نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ سیدھا منہ کے بل فرش پر جا گرا۔ کردم آگے بڑھا اور گریبان پکڑ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔

" میں نے اُسے چھوا تک نہیں تھا۔" ایک اور تھپڑ۔

" مجھے معاف کردو کردم دادا۔"

منہ سے نکلتے الفاظ کے ساتھ ہی کردم نے اس پر مکوں اور گھونسوں کی بارش شروع کردی۔

وہ لڑکھڑا کر وہاں کھڑی عورتوں پر گرنے لگا۔ اسے گرتے دیکھ وہ فوراً وہاں سے ہٹیں جس کے باعث وہ فرش پر جا گرا۔

کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آیا۔ پورے ہال میں بس اس کے بوٹ کی آواز گونج رہی تھی۔ سب خوف زدہ سے دلاور کو مار کھاتا دیکھ رہے تھے۔

کردم نے اپنا بوٹ سے سجا پیر اس کی گردن پر رکھ دیا اور دباؤ ڈالنے لگا۔

" مجھے۔۔۔ مجھے معا۔۔۔ معاف کر دو۔ جانے دو۔" وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتے بامشکل بولا۔

" کیوں تو نے بھی تو اسے جانے نہیں دیا۔ پھر تجھے کیسے چھوڑ دوں۔"

کردم نے کہہ کر رحیم کی طرف دیکھا۔ اس کا اشارہ سمجھتے ہی وہ آگے بڑھا اور کردم کے ہاتھ میں بیلٹ تھما دی اور بس اس کے بعد بازارِ حسن کی یہ عمارت دلاور کی چیخوں سے گونج اُٹھی تھی۔

جگہ جگہ سے خون رِس رہا تھا۔ اس کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ کھال بھی ادھیڑ چکی تھی۔ وہ وحشی بنا دلاور پر بیلٹ برسا رہا تھا۔

" اُٹھاؤ اسے اور ٹیبل پر باندھ دو۔"

کردم نے رک کر اپنے آدمیوں سے کہا اور وہاں سے ہٹ کر رحیم کے پاس آیا جو ہاتھ میں ڈرل مشین لیے کھڑا تھا۔ سب دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ہر طرف موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جسے ڈرل مشین کی آواز نے توڑا۔

" مجھے جانے دو۔ معاف کر دو۔۔ آج کے بعد کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا۔"

ٹیبل پر لیٹا وہ کردم کو اپنی طرف آتا دیکھ چلایا۔ کردم کے آدمیوں نے اس کے ہاتھ پیر ٹیبل کے ساتھ رسی سے باندھ دیئے تھے۔ ڈرل مشین کی آواز اس کے کان کے پردوں کو چیر رہی تھی۔ وہ بے بسی سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر ناکام رہا۔

" ان ہاتھوں سے اُس کا دوپٹہ کھینچا تھا نا۔"

کردم کہر آلود نظروں سے اس کو دیکھتا غرایا اور ڈرل مشین اس کی ہتھیلی میں گھسیڑ دیا۔

دلاور کی دل خراش چیخیں پورے ہال میں سنائی دے رہی تھیں۔ وہاں موجود کچھ کمزور دل لڑکیوں پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہوگئی تھی تو کچھ اس کے حشر پر آنسو بہا رہی تھیں۔

" ان آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا نا۔"

" نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں جانے جانے دو۔"

وہ درد سے نڈھال ہوتا نحیف سی آواز میں بولا۔ خوف سے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

" کیسے جانے دوں ہاں؟ اُس پر تو میں نے کسی کا سایہ پڑنے نہیں دیا اور تو نے ان غلیظ نظروں سے دیکھا۔"

کردم نے کہتے ہی اپنا ہتھیلی پھیلائی۔ پچھے کھڑے آدمی نے ہاتھ میں پکڑا خنجر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔

" نہیں نہیں مت کروووو۔۔۔" منت سماجت کرتے اس کی چیخے بلند ہوتی رہی۔

کردم نے خنجر اس کی آنکھوں سے نکال کر دور پھینکا اور ایک جھٹکے سے اس کی گردن مروڑ دی۔

وہاں کھڑی لڑکیوں کے حلق سے یکدم چیخیں بلند ہوئیں اور پھر سناٹا چھا گیا موت کے بعد کا سناٹا۔

کردم چلتا ہوا کلثوم بیگم کے سامنے آیا کہ تبھی کسی نسوانی چیخوں کی آواز ہال میں سنائی دینے لگی۔

راہداری سے دو آدمی کسی لڑکی کو کھینچتے ہوئے لا رہے تھے جو چلاتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔

" سونیا !! "

کردم کو ایک منٹ نہیں لگا اسے پہچاننے میں آخر اس کی وجہ سے ہی تو آج اس کی نور اس سے دور تھی۔

کردم نے واپس کلثوم کو دیکھا۔ وہ کسی مردے کی طرح سفید چہرہ لیے خوف زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔ کردم نے غصّے سے اس کی گردن دبوچ لی۔

" اگر تو عورت نہ ہوتی تو آج تجھے ان سب کے لیے عبرت کا نشان بنا دیتا۔"

" میں نے۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔" وہ اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کرتی بامشکل بولی۔

" آئندہ کے لیے تو اس قابل رہے گی بھی نہیں کہ کچھ کر سکے۔" کردم اسے جھٹکے سے چھوڑتا سونیا کی طرف بڑھ گیا۔ کلثوم لڑکھڑاتی ہوئی فرش پر جا گری۔

وہ چلتا ہوا ان آدمیوں کے پاس آیا جو سونیا کو پکڑے کھڑے تھے۔ ان کی حیرت بھری نظریں ٹیبل پر جمی تھیں جہاں دلاور کی لاش رسیوں میں جکڑی پڑی تھی۔

کردم کو پاس آتا دیکھ وہ فوراً سونیا کو چھوڑ کر پیچھے ہٹے۔

" چلو۔" کردم نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔ وہ حیران ہوتی کبھی اسے دیکھتی تو کبھی اس کے ہاتھ کو۔

" گھر چلنا ہے یا یہیں رہنے کا ارادہ ہے؟ "

اس کی بات پر سونیا نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا اور کردم کے ساتھ ہی قدم باہر کی جانب بڑھا دیئے۔

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے بیک ویو مرر سیٹ کیا اور پچھلی نشست پر بیٹھے کردم کو دیکھنے لگی۔ وہ جو اندر کھڑی حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ کردم نے اسے اغوا کروایا ہے۔ اب کے سارے شک دور ہوگئے تھے۔ دل میں چھپا کردم کا خوف کہیں دور جا چھپا تھا۔ وہ آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے اسے دیکھ رہی تھی۔

کردم اس کی خود پر جمی نظروں سے بخوبی واقف تھا۔ مگر نظر انداز کیے بیٹھا رہا۔ ایسی نظریں تو وہ نہ جانے کتنی ہی عورتوں کی خود پر دیکھتا آیا تھا پر اسے پرواہ کہاں تھی۔ وہ تو بس ایک کی ہی نظروں کا طلب گار بنا تھا جو اس کی منظورِ نظر تھی۔

" آپ کا شکریہ آج آپ نے میری عزت بچائی۔"

کردم جو موبائل پر جھکا ہوا تھا۔ نظریں اُٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔ اس پل اس کا دل کیا خود اپنے ہاتھوں سے اس لڑکی کو زندہ زمین میں گاڑ دے۔ جس کی وجہ سے پاشا نے اس کی نور کو اس سے دور کر دیا۔

مگر اُف یہ محبت !! آئینور نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔

" کہاں رہ گیا یہ رحیم۔" سونیا کی بات کو نظر انداز کرتا وہ جھنجھلا کر سامنے شیشے کے پار دیکھنے لگا جہاں سے وہ اور اس کے آدمی تیز تیز چلتے آ رہے تھے۔ رحیم گاڑی کا دروازہ کھول کر تیزی سے بیٹھا اور جیب سے رومال نکال کر اپنے بائیں جانب سیٹ پر بیٹھی سونیا کے منہ پر رکھ دیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ وہ سنبھل بھی نہ سکی اور بیہوش ہوگئی۔

کردم نے فون پر ہی رحیم کو میسج کے ذریعے ہدایت کر دی تھی۔ جس پر اس نے آتے ہی عمل کر ڈالا۔

" کام ہوگیا؟ "

" جی دادا باہر کھڑے لوگوں کو ہٹا کر راستہ صاف کر دیا بس اب تھوڑی دیر میں وہ پھٹ جائے گا۔"

رحیم بیک ویو مرر میں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

کردم پیچھے ہو کر بیٹھا اور ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھنے لگا کہ تبھی ایک زور دار دھماکے کی آواز فضا میں بلند ہوئی اور سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد لوگوں کی چیخوں کی آواز اور بھاگ دوڑ نے کہرام برپا کر دیا۔

بازارِ حسن کی اُس عمارت میں بم پھٹا تھا۔ جو اردگرد موجود عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ لوگ چیختے چلاتے ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔

کردم نے ایک نفرت بھری نگاہ سامنے ڈال کر آنکھوں پر چشمہ لگا لیا۔

جس جگہ سے ماں نکلی تھی۔ بیوی وہیں پہنچ گئی تھی۔ وقت کا چکر گھوم پھر کر وہیں آ رکا تھا۔ مگر اب اس نے وہ مقام ہی تباہ کر دیا جہاں اس کی زندگی کو تباہ کیا گیا تھا۔

" اس کا کیا کرنا ہے کردم دادا؟ " رحیم نے برابر میں بیہوش پڑی سونیا کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" اسے گودام میں بند کر دو۔ جب تک میں پاشا سے بدلہ نہیں لے لیتا اُسے اس کی خبر نہیں ہونی چاہیئے۔"

" ٹھیک ہے دادا۔"

" اور ہاں !! اس بات کا خیال رکھنا اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے۔" کردم کی بات میں چھپا اشارہ سمجھ کر رحیم نے اثبات میں گردن ہلا دی۔

" آپ فکر نہیں کریں میں کسی کو اس کے پاس جانے نہیں دونگا۔"

" ٹھیک ہے چلو اب۔"

کردم کے کہنے پر رحیم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ پیچھے ہی ان کے آدمیوں کی گاڑی بھی چل پڑی تھی۔


۔*****************۔

" کہاں ہے وہ؟ ایسے کیسے کہی جاسکتی ہے سونیا۔ تم نے اُس کی یونی میں معلوم کیوں نہیں کیا؟ "

لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا وہ کھا جانے والی نظروں سے ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ جو سر جھکائے بےبس سا کھڑا تھا۔

" پاشا بھائی میں نے سب سے معلوم کر لیا پر وہاں کوئی نہیں جانتا وہ کہاں گئی ہیں۔"

" دفاع ہو جاؤ میری نظروں سے اس سے پہلے میں تمہیں اس دنیا سے دفاع کردوں۔"

پاشا کی دھاڑ پر وہ الٹے قدموں وہاں سے بھاگ نکالا۔ اس کے جاتے ہی پاشا نے بےبسی سے اپنے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔

" ضرور اس میں کردم دادا کا ہاتھ ہے۔ اُسے معلوم ہوگیا ہوگا یہ سب میں نے کروایا ہے تبھی اُس نے بدلہ لینے کے لیے سونیا کو اغوا کر لیا۔"

پاشا نے سوچتے ہوئے ایک نظر سامنے ٹی وی پر نظر آتے نیوز چینل پر ڈالی جس میں بازارِ حسن میں دھماکے سے ہلاک ہونے والے افراد کے بارے ميں بتايا جا رہا تھا۔

اس نے غصّے سے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی پر دے مارا۔ جس کے باعث اسکرین چکنا چور ہوگی۔

" اب تمہارا مقابلہ سیدھا مجھ سے ہوگا کردم دادا۔ وقت آگیا ہے کہ اب سارے حساب کتاب بےباک کر دیئے جائیں۔"

وہ غصّے سے اُٹھتا گھر سے باہر نکل گیا۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے اسے سونیا کو صحیح سلامت واپس لانا تھا۔


۔**************۔


وہ گاڑی میں بیٹھا تیزی سے اسے بھگاتے ائیرپورٹ کے راستے جا رہا تھا۔ سنسان سڑک سے گزرتے وہ آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ سامنے سے تیز رفتاری سے آتی گاڑیوں نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس نے بر وقت بریک لگایا اور سر اُٹھا کر سامنے گاڑیوں کی طرف دیکھا یکدم اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ لب دھیرے سے ہلے۔

" کردم دادا !! "

کردم گاڑی سے نکل کر چلتا ہوا سڑک کے بیچ و بیچ آ کھڑا ہوا۔

" جا رہے ہو فاروق؟ مل کر نہیں جاؤ گے اپنے کردم دادا سے؟ "

کردم کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی فاروق گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔

" کردم دادا آپ۔۔۔"

اس سے پہلے فاروق اپنی بات مکمل کرتا کردم نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا گریبان پکڑا اور اسے گاڑی کے بونٹ سے لگا دیا۔

" کیوں کیا تم نے ہاں؟ تمہیں کیا لگا تھا۔ اتنا سب کر کے تم اتنی آسانی سے فرار ہو جاؤ گے اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے پتا نہیں چلے گا۔" کردم غرایا۔

فاروق نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا خاموشی سے اپنا گریبان چھڑوانے کی کوشش کرتا رہا۔

" ویسے میں تم پر کبھی شک نہ کرتا اگر تم وہ سب کرکے فرار نہ ہوتے۔ مگر کہتے ہیں نا۔ استاد۔۔۔ استاد ہوتا ہے۔ تم تو بچے نکلے۔"

کردم نے کہتے ہی اسے سیدھا کھڑا کیا اور دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ لڑکھڑا کر منہ کے بل سڑک پر جا گرا۔

" کیوں کیا تو نے ایسا مجھ سے ہی غداری کی کیوں؟ "

اُس کو دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کرکے ایک اور مکا اس کے منہ پر مارا۔ اب کی بار وہ گاڑی کے بونٹ پر جا گرا تھا۔

" کیا بگاڑا تھا میری نور نے تیرا؟ کیوں کیا اُس کے ساتھ ایسا کیوں؟ " ایک اور مکا۔

" تیری وجہ سے میری بیوی نے خودکشی کی۔ تیری وجہ سے میرا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے مر گیا۔ کیوں کیا تو نے ایسا ہاں؟ "

گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کرتے کردم نے پوچھا۔ اس بار لہجہ شکستہ تھا۔

" اتنی جلدی بھول گئے کردم دادا۔ یاد نہیں میری ماں جب بیمار تھی۔ اُسے میری ضرورت تھی پر تم نے مجھے اُس کے پاس نہیں جانے دیا۔ وہ مجھ سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے چلی گئی یاد نہیں؟ "

فاروق نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے۔ وہ آپ سے سیدھا تم پر اُتر آیا تھا۔ کردم ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

" تمہارے لیے اُس وقت تمہارے اڈے کا کام ضروری تھا۔ لیکن میرے لیے میری بیمار ماں۔ میں اُس سے نہیں مل سکا اور وہ مر گئی۔ اور اُس کی موت کے زمہ دار جانتے ہو کون ہے۔ تم کردم دادا تم۔"

" میں نے تمہاری ماں کو نہیں مارا۔" کردم دھاڑا۔

" اُس کے پاس بھی تو نہیں جانے دیا۔" فاروق بھی دوبدو بولا۔

" تو تم نے اس بات کا بدلہ لیا ہے؟ " کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں۔ "

بس اتنا کہنا تھا اور کردم نے اپنے کوٹ کی جیب سے گن نکال کر اس کی ٹانگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔

فاروق اوندھے منہ نیچے گرا۔ خون تیزی سے اس ٹانگوں سے بہتا سڑک کو رنگ رہا تھا۔ وہ اپنی ٹانگوں کو پکڑے بُری طرح چیخ رہا تھا۔ چلا رہا تھا۔ مدد مانگ رہا تھا۔ مگر کون تھا جو اس کی سنتا۔

کردم نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

" دل تو کر رہا ہے تجھے جان سے مار دوں۔ لیکن نہیں۔ بہت دکھ ہے نہ اپنی ماں کے پاس نہ پہنچنے کا۔۔۔؟ اب تو کہیں بھی اپنے پیروں پر چل کر نہیں پہنچ پائے گا۔"

ایک ٹھوکر اس کی ٹانگوں پر مارتا وہ پاس مڑ گیا۔

" اسے ہسپتال لے جاؤ۔ میں چاہتا ہوں یہ زندہ رہ کر بےبسی بھری زندگی گزارے۔"

کردم گاڑی میں بیٹھتا ہوا اپنے آدمیوں سے بولا۔ وہیں کھڑا رحیم افسوس سے فاروق کو دیکھتا خود بھی گاڑی میں بیٹھ گیا۔


۔***************۔


وہ لان میں لگے جھولے پر بیٹھا خود بھی اس تاریک رات کا منظر لگ رہا تھا۔ سیما خالہ اور آئینور کے بعد یہ ویران گھر اسے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ زندگی نے کیسا پانسا پلٹا تھا۔ ایک پل وہ اس کے ساتھ تھے اور دوسرے پل نہیں۔

" کردم دادا۔ "

رحیم کی آواز پر وہ اپنی سوچ کی دنیا سے باہر آیا اور سامنے کھڑے رحیم کو دیکھا۔ جو ہمدردی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

" کیا ہوا؟ "

" دادا سب انتظام کر دیا۔ آپ کو کراچی کے لیے نکلنا تھا نا۔"

ٹھیک ہے۔ پر پہلے اڈے پر کچھ کام ہے پھر کراچی کے لیے نکلوں گا۔"

کردم کہتا ہوا جھولے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کہیں بھی جانے سے پہلے اڈے پر سے ضرور ہو کر جاتا تھا۔

" کیا ہوا کوئی اور بات بھی ہے؟ "

کردم نے اسے ادھر ہی کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

" کردم دادا آپ نے فاروق کو زندہ کیوں چھوڑ دیا۔ اُس کی وجہ سے۔۔۔" دانستہ طور پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

" وہ میرا آدمی تھا رحیم۔ ویسے بھی یہ سب پاشا کا کیا دھرا ہے۔ فاروق نے بس اُس کی مدد کی۔ اتنی سزا کافی ہے اُس کے لیے۔"

کردم اس کا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گیا۔ مگر رحیم جانتا تھا اُس نے فاروق کی جان اپنے احساسِ جرم کی وجہ سے بخشی۔ کہیں نا کہیں کردم نے اپنے آپ کو واقعی فاروق کی ماں کی موت کا زمہ دار مان لیا تھا۔وہ بےچینی سے لاؤنج میں چکر کاٹ رہا تھا۔ کردم دادا کے کئی علاقوں میں وہ سونیا کا پتا کروا چکا تھا۔ لیکن وہ کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ سونیا کی گمشدگی اسے پاگل بنا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ابھی کردم دادا اس کے سامنے آ جائے اور وہ اُسے ختم کر دے۔

" پاشا بھائی !! "

کاشف کی آواز پر اس کے چلتے قدم ایکدم رکے۔ اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔

" کیا ہوا کوئی خبر ملی سونیا کی؟ " پاشا نے بےتابی سے پوچھا۔

" نہیں پاشا بھائی جہاں جہاں ممکن تھا سب جگہ معلوم کروایا۔ مگر سونیا بی بی کہیں نہیں ہیں۔"

اس کی بات پر پاشا نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود پر ضبط کرنے کی کوشش کی۔

" میں چھوڑوں گا نہیں تجھے کردم دادا !! "

" پاشا بھائی ہوسکتا ہے ہم غلط آدمی پر شک کر رہے ہیں۔" کاشف کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

" نہیں میں کردم دادا کو اچھے سے جانتا ہوں سونیا کی گمشدگی میں کردم دادا کا ہی ہاتھ ہے۔ اتنی جرات وہ ہی کر سکتا ہے۔ فون لگاؤ اسے کہو مجھے ملنا ہے۔"

" جی پاشا بھائی۔"

کاشف اثبات میں سر ہلاتا لاؤنج سے باہر چلا گیا۔

" کل کا سورج تمہاری زندگی کا آخری سورج نہ بنا دیا تو کہنا کردم دادا۔"

پاشا نے چیختے ہوئے ٹیبل پر رکھا گلاس فرش پر دے مارا۔


۔**************۔


چہرے پر رومال باندھے وہ راہداری میں قدم تیزی سے آگے بڑھا رہا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ روشنی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بس کچھ ہی حصّے میں بتی جل رہی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا ایک دروازے کے سامنے جا رکا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے بیٹھے نفوس اسے دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

" کردم دادا !! "

وہ شخص اسے دیکھتے ہی آگے بڑھا اور اس کے گلے لگ گیا۔

" کیسے ہو غفار؟ "

کردم نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا اور اپنے چہرے سے رومال نیچے کر لیا۔

" میں ٹھیک ہوں دادا ؟ " غفار کی ہمت نہ ہوئی وہ پلٹ کر اس سے پوچھ لے کے وہ کیسا ہے۔ اس کا حال اس کے چہرے سے ہی واضح ہو رہا تھا۔

" السلام علیکم !! "

پیچھے کھڑی آئمہ نے سلام کیا۔ اس کے جواب میں کردم نے سر ہلا دیا اور آئمہ کے ساتھ کھڑے عدیل کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا۔

" کیسے ہو عادی؟ "

عدیل نے سر اُٹھا کر بےتاثر چہرے سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

" ٹھیک ہوں۔"

" آپ یہاں بیٹھیں دادا۔ ہم لوگ باہر جاتے ہیں۔ چلو باہر آجاؤ۔"

غفار کردم سے کہہ کر ان دونوں سے مخاطب ہوا اور انہیں لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔

ان کے جاتے ہی کردم نے مڑ کر اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں مشینوں کے درمیان گھرا وجود بے سود بیڈ پر پڑا تھا۔ کردم چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور پاس رکھی کرسی کو کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔

" نور !! "

اسے دھیرے سے پکارتے، کردم نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ جس میں آج بھی نیلے نگینے کی انگوٹی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔

" تم ناراض ہوگی نا مجھ سے، اس وقت مجھے تمہارے پاس ہونا چاہیئے اور میں تمہیں یہاں چھوڑ کر ان لوگوں سے بدلہ لیتا پھر رہا ہوں۔"

آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے وہ اس کے بیہوش وجود سے مخاطب تھا۔

" کیونکہ میں جانتا ہوں۔ تمہیں ہوش آ گیا تو تم کسی سے بدلہ لینے نہیں دوگی۔ اس لیے میں تمہارے ہوش میں آنے سے پہلے ان سب کو ان کے جام تک پہچانا چاہتا تھا۔ جس نے میری نور کو اس حال میں پہنچا دیا۔"

وہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

" ڈاکٹر کہتے ہیں تمہارے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ تمہاری یہ سانسیں بھی اللّٰه کی طرف سے معجزہ ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے نور۔۔۔ تم جلد ہی کوما سے باہر آجاؤ گی۔"

آئینور کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے وہ اس کے بیہوش وجود کو یقین دلا رہا تھا۔ کیسی بےبسی تھی۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس آنکھ سے بہہ گیا۔

" جب تم ہوش میں آجاؤ گی نا۔ تو ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ جہاں صرف "ہم" ہوں۔ کوئی تیسرا نہ ہو۔ لیکن اُس سے پہلے مجھے پاشا سے اُس کے کیے کا بدلہ لینا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ تمہیں یہ اچھا نہیں لگے گا۔ مگر میرا حق بنتا ہے اُس پر کہ میں پاشا سے بدلہ لوں جس نے میری نور کو مجھ سے دور کرنا چاہا۔"

وہ کھڑا ہوا اور جھک کر اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

" ابھی چلتا ہوں تاکہ تمہارے پاس ہمیشہ کے لیے آ سکوں۔"

ایک بار پھر چھک کر اس کے ہونٹوں کو چھوا اور پھر سیدھا ہوتا تیزی سے ہسپتال کے اس کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ خود پر کیسے ضبط کیے ہوئے تھا یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔

کردم کمرے سے باہر نکلا تو چہرے پر واپس رومال چڑھا لیا۔ سامنے ہی بینچ پر آئمہ بیٹھی تھی۔ بینچ کے ساتھ ہی غفار اور رحیم کھڑے آپس میں بات کر رہے تھے۔ ان سے زرا سے فاصلے پر جیب میں ہاتھ ڈالے عدیل دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آ گیا۔

عدیل نے نظر اُٹھا کر اسے دیکھا مگر ان نظروں میں کردم کے لیے نفرت نہیں تھی۔ جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ان آنکھوں میں کردم کے لیے ہمدردی تھی۔ کیونکہ آج اس کی بہن اس کے پاس نہیں تھی تو کردم کے پاس بھی تو کچھ نہیں تھا وہ تو بالکل ہی کھالی ہاتھ رہ گیا تھا۔ کردم اس کا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گیا۔ رحیم اور غفار بھی اس کے پیچھے ہی ہسپتال سے باہر نکل گئے تھے۔


۔************۔


جہاں جمعے کے دن ہر گھر میں نمازِ جمعہ کے لیے جلدی مچی ہوئی تھی۔ وہیں کردم کے بنگلے پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اسے کراچی سے لاہور واپس آئے دوگھنٹے گزر چکے تھے اور اس وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑا اُس دن کے منظر کو سوچ رہا تھا۔ جب آئینور کا خون میں لپٹا وجود اس کی گود میں تھا۔

اُس دن آئینور کے بے جان ہوتے وجود کو اُٹھا کر وہ سیدھا ہسپتال پہنچا تھا۔ آئینور کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر نے پہلے ہی نا اُمیدی ظاہر کر دی تھی۔ تاہم ڈاکٹر کی کوششوں اور اللّٰه کی رحمت نے اسے مرنے تو نہیں دیا مگر وہ کوما میں چلی گئی تھی۔ یہ ہی نہیں ڈاکٹر نے اس کے بعد یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آئینور کی یہ سانسیں کب تک چلیں کچھ معلوم نہیں۔ ممکن ہے وہ ہوش میں آ جائے اور یہ بھی ممکن ہے وہ کومے کی حالت میں ہی اس دنیا سے چلی جائے۔

کردم جہاں پہلی بات پر خوش ہوا تھا وہیں دوسری بات نے اسے تکلیف سے دوچار کر دیا تھا۔ کتنا جان لیوا تھا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی نور کو قبر میں اُترتا دیکھنا۔

آئینور کی حفاظت کے لیے انہوں نے ہر جگہ یہ خبر پھیلا دی تھی کہ وہ مر گئی۔ اس لیے کردم اور رحیم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا آئینور کوما میں ہے۔ وہ راتوں رات ہی آئینور کو لاہور سے کراچی لے گئے تھے اور ہسپتال پہنچ کر کردم نے رخسار بیگم اور عدیل کو بھی خبر کردی تھی۔ یہ خبر سنتے ہی وہ دونوں فوراً ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ غفار اور آئمہ بھی کراچی میں ہی رہ رہے تھے۔ اس لیے کردم کی ایک کال پر ہی وہ دونوں بھی ہسپتال چلے آئے۔ اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد ان سب کو آئینور کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ کر وہ واپس لاہور آ گیا تھا تاکہ آئینور کے مجرم اور اپنے بچے کے قاتلوں کو موت کے منہ اُتار کر واپس اپنی نور کے پاس چلا جائے۔

کردم ان ہی سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ اچانک اس کا موبائل بج اُٹھا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا۔ اسکرین پر جگمگاتا پاشا کا نام اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ لے آیا۔

" ہیلو !! "

" تو آخر تم نے فون اُٹھا ہی لیا۔"

کردم کے ہیلو کہتے ہی پاشا کی طنز بھری آواز اسپیکر میں اُبھری۔

" ہاں !! تمہاری کالز اور دھمکیوں بھرے میسج ملے تھے۔ مجھے لیکن کیا ہے نا۔ تم سے بھی زیادہ ضروری کام کر رہا تھا۔ آخر سونیا کی مہمان نوازی بھی تو کرنی تھی۔"

کردم نے پاشا کو بھڑکانے کے لیے جھوٹ بولا جو پاشا پر اثر بھی کر گیا تھا۔ وہ ایکدم دھاڑ اُٹھا۔

" اگر سونیا کو کچھ بھی ہوا میں تیری جان لے لوں گا۔"

"چلو ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں آج کون کس کی جان لیتا ہے۔" جگہ اور وقت بتا کر کردم نے کال کاٹ دی۔

" آج یا تو نہیں یا میں نہیں۔"

کردم سوچتا ہوا الماری کی جانب بڑھا اور اپنا سیاہ شلوار قمیض نکال کر باتھ روم میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس لاؤنج میں چلا آیا جہاں رحیم صوفے پر بیٹھا بلکہ تقریباً لیٹا ہوا تھا۔

" کہاں جا رہے ہیں کردم دادا؟ "

کردم کو دیکھ کر وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور اس کی تیاری دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

" نماز پڑھنے۔"

وہ کہہ کر بنا اس کی طرف دیکھے سیدھا باہر چلا گیا۔ جبکہ رحیم صوفے پر بیٹھا بار بار اپنے کانوں میں انگلی ڈال کر ہلا رہا تھا۔ آیا کہ کان خراب تو نہیں ہوگئے۔ کیا اس نے وہی سنا ہے جو کردم نے کہا۔


۔**************۔

" آپ یہاں کیوں آگئیں؟ میں ہوں نا یہاں۔"

عدیل بینچ پر بیٹھا تھا کہ تبھی رخسار بیگم کو ہسپتال میں دیکھ فوراً ان کے سر جا پہنچا۔

" میری بچی یہاں ہسپتال میں ہے اور تم چاہتے ہو میں گھر بیٹھ جاؤں۔ کل رات کو گھر چلی گئی تھی۔ اب مسلسل گھر نہیں بیٹھ سکتی۔"

رخسار بیگم اُسے جھڑک کر بینچ پر آ بیٹھیں۔ ان کا دل گھر رکنے کو تیار ہی نہیں تھا۔

" خالہ عادی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ آپ کو آرام کرنا چاہیے۔ ہم ہیں نہ ادھر۔"

آئینور کے کمرے کے باہر کھڑے غفار نے بھی انہیں سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ سنے کیلئے تیار ہی نہیں تھیں۔

" نہیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ میں یہیں رہوں گی اپنی نور کے پاس۔"

" لیکن خالہ آئمہ بھی گھر گئی ہوئی ہے۔ آپ کو بھی جانا چاہیے۔"

" نہیں بیٹا آئمہ کی مجبوری ہے۔ تم لوگوں کا بچہ گھر پر اکیلے ہے۔ پر میری بچی تو یہاں ہے۔ میں نہیں جاؤں گی۔"

رخسار بیگم کی ضد کے آگے غفار خاموش ہو گیا۔

" ٹھیک ہے رک جائیں ابھی پر رات کو واپس جائیں گی۔" عدیل ان کے پاس بیٹھتا ہوا بولا۔

رخسار بیگم نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس خاموش بیٹھی اپنی تسبیح پڑھتی رہیں۔


۔***********۔


جمعے کی نماز کے باعث مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ بچے، بوڑھے، جوان، سب نماز کی ادائیگی کے لیے یہاں موجود تھے۔ وہ وضو کرنے کے بعد اپنی آستینوں کو نیچے کرتا ساتھ ہی نمازیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری ہوئی تھیں۔ یہاں نہ کوئی امیر تھا نہ غریب یہاں سب ایک تھے، ایک مسلمان۔ وہ نماز کے لیے صف میں جا کھڑا ہوا۔ آئینور کی محبت اسے آج یہاں تک لے آئی تھی۔ وہ انسان جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا تھا۔ آج اپنے رب کے سامنے جھک رہا تھا۔ کیونکہ انسان کتنی ہی دولت کیوں نا کمالے، لاکھوں روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود وہ اپنے پیاروں کی سانسیں نہیں خرید سکتا۔

وہ آج جھک رہا تھا جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا، وہ آج مانگ رہا تھا جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا، آج وہ رو رہا تھا جو دوسروں کو رلاتا تھا۔

سلام پھیر کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے۔ جو کبھی نہیں مانگتا تھا۔ آج اپنے رب سے مانگ رہا تھا۔

" اے میرے رب !! میں جانتا ہوں میری ساری زندگی خسارے میں گزری ہے۔ میں نے اپنے لیے جہنم کے راستے کو چنا اور اسی پر چلتا رہا پر آج میں تیرے در پر ہاتھ پھیلائے آیا ہوں اللّٰه مجھے معاف کر دے میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ اس بشر کو مانگنا نہیں آتا مگر تو تو دلوں کے حال جانتا ہے۔

میں نہ سمجھ سکا۔ میری زندگی میں نور کو کیوں بھیجا گیا پر آج سمجھ آ رہا ہے۔ تو دے کر آزماتا ہے۔ تو لے کر بھی آزماتا ہے۔ میرے اللّٰه !! ہمیں زندگی کا نہ سہی موت کا ہی ساتھی بنا دے۔ میں معافی کے قابل نہیں پر میں جانتا ہوں تیری ایک صفات رحیم بھی ہے۔ اپنے حبیب کے صدقے مجھے معاف کر دے میرے اللّٰه، میرے گناہوں کو معاف کر دے۔"

وہ آنسو بہاتا بولتا جا رہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا کیسے کہہ رہا تھا سب سمجھنے سے قاصر تھا۔ بس یاد تھا تو یہ۔۔ وہ معافی چاہتا تھا۔ آئینور کا ساتھ چاہتا تھا۔

اور پھر ندامت کا تو ایک آنسو ہی کافی ہے۔ سچے دل سے مانگی گئی معافی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔


"وہ محبت بہت معتبر ہے۔۔۔

جو بندے کو اُس کے رب سے ملا دے۔"


نماز کے بعد وہ گھر آکر سیدھا پورچ میں موجود اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔ اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ چوکیدار نے فوراً دروازہ کھولا تھا۔

ادھر چھت پر کھڑے رحیم نے اسے باہر جاتے دیکھ الٹے قدموں دوڑ لگائی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے کردم گاڑی سٹارٹ کرتا تیزی بھگا لے گیا۔

" افففف !! کردم دادا بھی نا۔ نہ جانے اب کہاں چلے گئے۔"

رحیم سر جھٹک کر واپس اندر کی جانب بڑھنے لگا کہ اچانک کسی خیال کے تحت رکا اور پھر خود بھی پورچ میں موجود دوسری گاڑی کی جانب تیزی سے بڑھ گیا۔


۔***********۔


گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرکے اس نے گاڑی کو اس زیرِ تعمیر عمارت کے سامنے روکا۔ گاڑی سے نکلتا وہ سیدھا اندر کی جانب بڑھا تھا۔ جمعے کی دوپہر اور زیرِ تعمیر عمارت کے باعث ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ قدم قدم چلتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس خاموشی کے عالم میں بس اس کے قدموں کی آواز آتی سنائی دے رہی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپری منزل میں چلا آیا۔

" کہاں ہو پاشا۔۔۔؟ لو میں آگیا۔"

پاشا کو پکارتا وہ چاروں طرف نظر دوڑا رہا تھا مگر مانو یوں لگتا تھا نہ کوئی بندہ ہے، نہ بندے کی زات۔

" کہاں ہو پاشا؟ "

" اتنی جلدی بھی کیا ہے کردم دادا۔"

پیچھے سے آتی پاشا کی آواز پر کردم ایکدم پلٹا۔ سامنے ہی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پاشا کھڑا مسکرا رہا تھا۔

" تو اس سب کے پیچھے تمہارا ہاتھ تھا اور خود پر سے شک ہٹانے کیلئے تم نے جمشید کو میری نظروں میں مشکوک بنا دیا تھا۔ صحیح کہا نا؟ "

" بالکل !! سب کے پیچھے میرا ہی ہاتھ تھا۔ ویسے فاروق کا سن کر افسوس ہوا۔ اب ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا۔"

پاشا کی بات پر کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

" اُس کی حالت کے زمہ دار تم ہو۔ اگر تم اُس کو میرے خلاف نہ ورغلاتے تو وہ آج اس حال میں نہ ہوتا۔"

" بالکل ٹھیک کہا۔ اب وہ کہاوت تو تم نے سنی ہی ہوگی۔

(جب دوست بھی شامل ہو۔۔۔ دشمن کی چال میں۔

تو شیر بھی پھنس جاتا ہے۔۔۔ مکڑی کے جال میں۔)

بس اسی پر عمل کرتے فاروق کو ملا لیا اپنے ساتھ اور دیکھو آج تم خالی ہاتھ کھڑے ہو۔"

کردم جبڑے بھینچے اسے سن رہا تھا۔ اس کے خاموش ہوتے ہی بول اُٹھا۔

" بات اتنی بھی بڑی نہیں تھی۔ جتنا تم نے اسے بنا دیا پاشا۔"

" بالکل ٹھیک !! بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنا تم نے سونیا کو بیچ میں لاکر بنا دیا۔" پاشا بھی دوبدو بولا۔

" اُس کے زمہ دار بھی تم ہو۔ نا تم میرے جہاز پر قبضہ کرتے نہ میں سونیا کو بیچ میں لاتا۔۔۔"

" اور نہ تم میری رکھیل کو اپنا مال سمجھ کر استعمال کرتے اور نہ اس دشمنی کا آغاز ہوتا۔"

وہ کردم کی بات بیچ میں کاٹتا تیش بھرے لہجے میں بولا۔

" میں تم سے یہاں یہ فضول باتیں کرنے نہیں آیا۔" کردم اُکتا گیا۔

" ہاں !! کردم دادا تو یہاں اپنی رکھیل کی موت کا بدلہ لینے آیا ہے۔ ویسے بڑا مست مال چھپا۔۔۔"

اور کردم دادا کی یہاں بس ہوئی تھی۔ اس سے پہلے پاشا اپنی بات مکمل کرتا کردم نے اپنا فولادی مکا اسکے منہ پر جڑ دیا۔ پاشا لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ ہونٹ کے کنارے سے نکلتے خون کو اس نے اپنے انگوٹھے سے صاف کیا۔

" اب جب تم شروعات کر ہی چکے ہو تو مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ کردم دادا۔"

وہ کہتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا اور ایک گھونسا اس کے منہ پر مارنا چاہا جسے بڑی آسانی سے کردم نے قابو کر ایک اور مکا اس کے منہ پر مار دیا۔

" سب سے چھپا کر رکھا تھا میں نے اُسے۔ میری بیوی تھی وہ۔ میرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ لیکن تم نے انہیں مار ڈالا۔"

کردم بےقابو ہوتا اس پر گھونسے اور مکے برسا رہا تھا۔ پاشا نے ایکدم سنبھل کر اسے دھکا دیا۔ کردم دو قدم پیچھے ہوا۔ تبھی پاشا نے دھاڑتے ہوئے ایک لات کردم کے پیٹ میں ماری۔

" میں نے بھی سونیا کو سب سے چھپا کر رکھا تھا کردم دادا۔ مگر تو نے اسے ڈھونڈ کر اغوا کیا اس پر گولی چلائی۔"

کردم کو گریبان سے پکڑ کر اس نے مکا کا اس کے چہرے پر مارنا چاہا مگر کردم نے تیزی سے اپنا گریبان چھڑوا کر اس کا ہاتھ پیچھے کمر پر لے جاکر موڑ دیا۔ پاشا بلبلا اٹھا۔

" گولی ہی چلائی تھی۔ اُس کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ پر تو نے میری عزت پر وار کیا ہے۔ اب میں تیری جان پر وار کروں گا۔"

کردم نے اس کا ہاتھ موڑے پاشا کے گلے میں ہاتھ ڈالا اور زور لگا کر اسے اُلٹ دیا۔ پاشا منہ کے بل زمین پر جاگرا۔

" اب دیکھ تیری سونیا کا کیا انجام کرتا ہوں روح تک نہ کانپ جائے تو کہنا۔"

کردم کی بات نے پاشا کے غصّے کو ہوا دی تھی۔ وہ تیزی سے اُٹھا اور اس کے منہ پر گھونسا جڑ دیا۔ کردم پیچھے ہوا۔ تبھی ایک لات پاشا نے کمر پر ماری جس کے باعث کردم زمین پر جاگرا۔

" اگر اُسے ایک کھروچ بھی آئی تو تیرے جسم کو اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کروں گا کہ تیرے آدمی بھی ساری زندگی تجھے اکھٹا نہیں کر پائیں گے۔"

گریبان سے کردم کو پکڑ کر اسے اپنے مقابل کرتا غرایا۔ پاشا کے چھ فٹ قد کے آگے کردم کا پانچ فٹ دس انچ قد چھوٹا ہی لگ رہا تھا۔

" تم ہمیشہ مجھ سے دو قدم پیچھے رہو گے کردم دادا۔" طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔ اس وقت وہ دونوں مٹی میں اٹے ہوئے تھے۔

" غلط فہمی ہے تمہاری پاشا میں ہمیشہ دو قدم تم سے آگے رہا ہوں۔ تبھی تو آج میں " کردم دادا " اور تم "پاشا بھائی" ہو۔ تم کبھی میرے مقابل نہ آسکے۔ میں آج بھی سر اُٹھا کر دیکھتا ہوں اور تم سر جھکا۔"

پاشا نے بھڑک کر ایک بار پھر مکا کردم کے منہ پر مارا۔ جس کے باعث کر دو قدم پیچھے ہوا کہ تبھی پاشا نے اپنی جیب میں چھپا گن نکال کر اس پر تان دیا۔

" بہت بکواس سن لی تمہاری۔ چلو اب تمہیں بھی تمہارے بیوی بچے کے پاس پہنچا دیا جائے۔"

اس سے پہلے پاشا گولی چلاتا۔ کردم نے اُچھل کر ایک لات اس کے ہاتھ پر ماری۔ گن ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ پاشا نے گن کی طرف دیکھا کہ تبھی ایک اور لات پاشا کے پیٹ پر پڑی۔ وہ کمر کے بل نیچے گرا۔ کردم نے جلدی سے آگے بڑھ کر پستول اُٹھایا اور پاشا کے سامنے آ گیا۔ پاشا زمین پر گرا اسے پستول خود پر تانے دیکھ رہا تھا۔

" دل تو کر رہا ہے تیرے وجود سے ایک ایک بوٹی نوچ نکالوں پر نہیں اب میں وہ کردم دادا نہیں رہا جو اگلے بندے پر زرا رحم نہیں کرتا تھا۔"

کردم نے کہتے ہی اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فضا میں فائرنگ کی آوازیں بلند ہوئی اور پھر دم توڑ گئیں۔ پاشا کا تڑپتا وجود منٹوں میں بےجان ہوا تھا۔ کردم نے حقارت آمیز نظر اس پر ڈال کر پستول دور اُچھال دی۔ وہ مڑ کر جانے لگا کہ ایک اور فائر کی آواز فضا میں گونجی اور اس بار کردم کا وجود زمین بوس ہوا تھا۔ کردم نے بامشکل چہرہ اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں سے وہ شخص قدم قدم اُٹھاتا اس کے سامنے آ بیٹھا۔


۔***********۔


ہپستال کے کمرے میں موجود آئینور کا بیہوش وجود بیڈ پر پڑا تھا۔ سامنے صوفے پر عدیل بیٹھا ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے بےبسی سے کبھی آئینور پر نظر ڈالتا تو کبھی چلتی مشینوں پر جس میں دل کی حرکت کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ یوں ہی نظریں جمائے بیٹھا تھا کہ اچانک مشین میں نظر آتی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ عدیل گھبرا کر اُٹھتا فوراً ڈاکٹر کو پکارتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا جہاں غفار بیٹھا رخسار بیگم سے بات کر رہا تھا۔

" کیا ہوا؟ " عدیل کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ دونوں فوراً اُٹھے۔

" کیا ہوا میری بچی ٹھیک ہے نا۔" رخسار بیگم یکدم پریشان ہو اُٹھیں۔

" نہیں آپی۔۔۔ آپی۔" عدیل سے الفاظ ادا نہ ہوسکے۔ غفار ان کو وہیں چھوڑ کر ڈاکٹر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ غفار کے بلانے پر ڈاکٹر بھی فوراً آئینور کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔

عدیل پریشانی سے باہر چکر کاٹ رہا تھا۔ رخسار بیگم بینچ پر بیٹھیں تسبیح پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنسو بہا رہی تھیں۔

" آپ فکر نہیں کریں وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔"

غفار نے انہیں تسلی دینی چاہی کہ تبھی ڈاکٹر کمرے سے باہر آئے۔ انہیں دیکھتے ہی عدیل اور غفار ڈاکٹر کی جانب بڑھے۔

" کیا ہوا ڈاکٹر؟ " عدیل نے بےتابی سے پوچھا۔

"سوری !! ہم اُنہیں نہیں بچا سکے۔" ڈاکٹر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اور وہاں موجود تمام لوگوں پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہسپتال کے اس کمرے کے آگے عدیل اور رخسار بیگم کو سنبھالنا غفار کے لیے مشکل ہو گیا۔ ان کی سسکیاں اور آہیں اندر کمرے میں موجود آئینور کا بے جان وجود سنے سے قاصر تھا۔ وہ جا چکی تھی۔ ہمیشہ کیلئے۔


"جانے والے کو کیا پتا وہ پیچھے کیا چھوڑ چلا ہے۔

اپنوں کو روتا چھوڑ کر وہ ایک نئے سفر پر چلا ہے۔"


۔*************۔


" کیسے ہو کردم؟ " وہ مسکرایا۔

" آوہ !! میں بھی کیسی باتیں کر رہا ہوں۔ تمہیں تو گولی لگی ہے۔ تمہیں تو تکلیف ہو رہی ہوگی نا۔"

" آغا !! " کردم بے یقینی سے بولا۔

" اووو !! حیران ہو رہے ہو نا۔ میں کیسے۔ چلو تمہاری پریشانی دور کر دیتا ہوں۔"

کردم بے بس سا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ تکلیف ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی تھی۔

" تمہیں پتا ہے۔ میں ہمیشہ سے جانتا تھا۔ پاشا انڈیا میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہی ہے۔ لیکن میں انجان بنا رہا۔ جانتے ہو کیوں؟"

وہ رکا مسکراہٹ گہری ہوئی۔

" کیونکہ میں چاہتا تھا۔ تم مر جاؤ تاکہ تمہارے بعد میں اس جگہ آجاؤں جہاں تم ہو۔ میں تم سے پہلے اس گینگ کا حصّہ تھا۔ مگر خاور دادا کے خاص آدمی تم بن گئے، کردم دادا۔"

آغا حسن کے مسکراتے چہرے کے تاثرات بدل کر یکدم سخت ہوئے تھے۔

"میں جانتا تھا۔ تمہیں مارنا اس پاشا کے بس کی بات نہیں اس لیے میں نے سوچا کیوں نا اس کے کندھے پر رکھ کر گولی چلائی جائے۔ ماروں گا میں مگر سب یہ ہی سمجھیں گے کہ تم دونوں نے ایک دوسرے کو مار ڈالا۔"

آغا حسن اور نہ جانے کیا کیا بولتے جا رہا تھا۔ مگر کردم کا دھیان اس کے پیچھے نظر آتے آئینور کے عکس پر تھا جو سفید فراک میں کھڑی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔ ناک میں چمکتی لونگ اس کی مسکراہٹ میں چار چاند لگا رہی تھی۔ ہاتھ میں موجود نیلا نگینہ دمک رہا تھا۔ وہ اس سے کہہ رہی تھی۔

" یہ ایک ایسا دلدل ہے جہاں یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن۔ ہم کبھی نہیں جان سکتے، دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ پال رکھے ہیں۔"

" نور !! "

ایک مدہم سی آواز کردم کے لبوں سے نکلی اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔

آغا حسن اُٹھ کھڑا ہوا کہ تبھی ہوا میں ایک بار پھر فائر کی آواز گونجی اور گولی سیدھا آغا حسن کے دل کو چیرتے ہوئے نکل گئی۔ وہ زمین بوس ہوا۔ کردم نے بامشکل آنکھیں کھول کر اس گولی چلانے والے کو دیکھا۔ سامنے کھڑا شخص رحیم تھا۔

" کردم دادا !! "

وہ تیزی سے کردم کی جانب بڑھا اور نیچے بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ کردم کی مدہم سانس اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔

" دادا ہمت۔۔۔ "

وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے اس کا موبائل بج اُٹھا۔ رحیم نے موبائل نکالا۔ غفار کی کال تھی۔ اس نے ایک نظر فون کو دیکھا پھر کردم کو جو آنکھوں سے اسے فون اُٹھانے کا کہہ رہا تھا۔ رحیم نے نہ چاہتے ہوئے بھی کال اُٹھالی مگر دوسری جانب سے آتی آواز پر وہ کتنے ہی لمحے ساکت رہ گیا۔ اس نے کردم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" نور؟ "

کردم بامشکل بولا۔ رحیم نے اس کا سوال سمجھ کر نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر کردم مسکرا دیا۔

" دادا !! "

رحیم نے اسے پکارا۔ لیکن وہاں سن کون رہا تھا۔ وہ تو بند ہوتی آنکھوں سے اپنی نور کا عکس دیکھ رہا تھا۔ جو کھڑی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ بلا رہی تھی۔ ہاں !! وہ بلا رہی تھی۔ اسے اپنے پاس بلا رہی تھی۔


" کیا ہوا جو تیرے سنگ نہ جی سکے۔

یہ خوشی تو ہے کہ تیرے سنگ ہی مر چلے۔"


کردم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کے ساتھ ہی رحیم کی آواز اس زیرِ تعمیر عمارت میں گونج اُٹھی۔

" کردم دادا !! "


۔***********۔


ایک سال بعد۔۔۔


وہ قبر پر پھول رکھ کر سیدھا کھڑا ہوتا فاتحہ پڑھنے لگا۔ پیچھے کھڑی رخسار بیگم آنسو بہاتی اسے دیکھ رہی تھیں۔ فاتحہ پڑھ کر اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور سامنے بنی قبروں کو دیکھنے لگا۔ جہاں وہ دونوں ابدی نیند سو رہے تھے۔ کردم کی لاش کو بھی رحیم کراچی لے آیا تھا اور یہیں کے قبرستان میں ان دونوں کو ایک ساتھ دفنا دیا تھا۔ یہ کردم کی ہی خواہش تھی۔ جو پاشا سے ملاقات سے پہلے ہی اس نے رحیم سے کی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو انہیں وہاں دفنایا جائے جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ (مطلب کراچی)

" چلیں۔"

عدیل آنسو صاف کرتا پیچھے مڑا اور رخسار بیگم کو دیکھتے ہوئے بولا۔

وہ بھی آنسوں صاف کرتی اثبات میں سر ہلا کر اس کے ساتھ ہی قبرستان سے باہر آگئیں۔ جہاں رحیم گاڑی میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔

انہیں باہر آتا دیکھ وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیا۔

" چلیں رحیم بھائی۔"

عدیل گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔ رخسار بیگم پہلے ہی پچھلی نشست پر بیٹھ چکی تھیں۔ جہاں انہوں نے بیٹی داماد کو کھویا تھا۔ وہیں انہوں نے رحیم کی صورت ایک بیٹا پالیا تھا۔

" اوکے باس۔"

رحیم مسکرا کر کہتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ وہ چل پڑے تھے۔ ماضی کو پیچھے چھوڑتے ایک نئے سفر پہ۔


۔************۔


چھت پر کھڑی وہ اپنے ہاتھ میں موجود اس تصویر کو تپش بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کو اُڑاتے چہرے پر لارہے تھے۔ جنہیں اس نے ہٹانے کی بالکل کوشش نہیں کی تھی۔

" اچھا ہوا تم مر گئے کردم دادا !! ورنہ میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لیتی۔ تمہاری وجہ میرا سب کچھ مجھ سے چھین گیا سب کچھ۔"

اس نے کہتے ہوئے ہاتھ میں موجود تصویر کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ کر ہوا میں اچھال دیا۔ وہ نفرت سے ان ٹکڑوں کو نیچے گرتے ہوئے دیکھ رہی تھی کہ تبھی پیچھے سے کسی نے پکارا۔

" سونیا !! "

۔************۔

ختم شد۔ ۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Manzoor E Nazar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Manzoor E Nazar written by Jiya Abbasi.Manzoor E Nazar by Jiya Abbasi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment