Pages

Monday 1 July 2024

Kisi Aur Ka Hoon Filhal By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel

Kisi Aur Ka Hoon Filhal By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Kisi Aur Ka Hoon Filhal By Suhaira Awais Complete Novel 

Novel Name: Kisi Aur Ka Hoon Filhal

Writer Name:  Suhaira Awais

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس کے چہرے پر پڑنے والے۔۔ تقی کے۔۔زور دار تھپڑ نے۔۔جہاں اس کے ملائمت سے مزین چہرے پر اپنی سخت انگلیوں کے نشان گاڑھے تھے۔۔وہیں اس کو اندر تک دہلا دیا تھا۔۔ 

اسے تقی سے ایسے رسپانس کی قطعاً کوئی توقع نہیں تھی،

تھپڑ پڑنے کی تکلیف اور ہتک کے احساس سے اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔۔۔

اور ساتھ ہی اسے تقی کے غضب سے خوف آنے لگا۔۔

اس نے آج تک اسے اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔۔

اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں نداحل کو مخاطب کیا۔۔

"شرم نہیں آئی تمہیں۔۔؟؟؟ 

ذرا شرم نہیں آئی۔۔مجھ سے یہ سب کہتے ہوئے؟؟

ارے کچھ تو لحاظ کر لیتیں۔۔ اپنی اور میری عمر کا۔۔

کچھ تو مان رکھ لیتیں۔۔میرے اور تمہارے رشتے کا۔۔

بہن کا درجہ دیتا آیا تھا میں تمہیں۔۔پر اب نہیں دوں گا۔۔

کیونکہ تم اس کے لائق ہی نہیں ہو۔۔!!

کوشش کرنا کہ اب مجھے تمہاری شکل نہ نظر آئے۔۔" تقی کا غصہ عروج پر تھا۔۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید بدلحاظ ہوتا۔۔ اس نے اپنی زبان بند کی اور اس کے روم سے نکل آیا۔

×××××

اس کے جاتے ہی نداحل نے روتے ہو ہی دروازہ بند کیا۔۔ اور ناتواں سی ہوتی ہوئی وہیں۔۔ دروازے کے آگے گرنے کے انداز میں بیٹھی۔۔

اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے دل کا فیصلہ مان کر وہ اتنی رسوا ہو جائے گی۔۔

وہ تقی کی نظروں میں رسوا ہی تو ہوئی تھی۔۔

کتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔

کاش کہ وہ اپنے دل کی بات دل میں رکھتی۔۔

کاش وہ مہرین اور عائشہ کے مشورے پر عمل نہ کرتی۔۔

کاش وہ تقی کو اپنا حالِ دل نہ سناتی۔۔ تو  اسے آج اس کے سامنے اس طرح ذلیل نہ ہونا پڑتا۔۔!!

وہ اس طرح بے مول نہ ہوتی۔۔

پر اب کیا ہو سکتا تھا۔۔

اب تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا تھا۔۔

اب تو وہ اپنے مقام و مرتبے سے گر چکی تھی۔۔

ندامت کے آنسو بہنے لگے تھے۔۔!! بغیر تھمے اور بغیر رکے۔۔

××××

نداحل انیس برس کی سمارٹ سی لڑکی تھی۔۔

رنگ روپ کی بات کی جائے تو وہ ناقابل بیان حد تک دلکش حسن کی مالک تھی۔۔

اس کی exceptional بیوٹی کا کمال تھا کہ آج تک وہ سکول، کالج میں اپنی اس کی خوبی کی وجہ سے سب سے زیادہ famous اسٹوڈینٹ رہی تھی۔۔

نداحل کی فیملی کچھ آپسی اختلافات کی وجہ سے۔۔علیحدہ ہوگئی تھی اس لیے نداحل جب پانچ سال کی تھی تو اس  کے بابا یعنی جاوید احمد اسے اور اس کی مما کو لے کر ، دوسرے شہر میں شفٹ ہوگئے تھے۔۔

اس کے ایف ایس سی کے ایگزامز چل رہے تھے۔۔

وہ اپنا لاسٹ پیپر دے کر آئی تھی اور بہت خوش تھی۔۔

وہ لنچ ٹائم میں اپنے مما بابا کو۔۔ اپنے پیپر کے متعلق بتا رہی تھی اور اپنی vacations کے لیے پلینز بھی بنا رہی تھی۔۔کہ اچانک اس کے بابا کا فون بجا،

فون سننے کے بعد۔۔تو اس کے بابا کا رنگ ہی اڑ گیا تھا۔۔

ایک دم وہ پریشانی سے اپنی جگہ سے اٹھے۔۔

نداحل کی مما کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کا فون تھا۔۔ ان کے ابا یعنی نداحل کے دادا کو ہارٹ اٹیک آیا ہے اور وہ ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہیں۔۔ ان کی کنڈیشن بہت کریٹیکل ہے۔۔ انہیں فوراً وہاں کے لیے نکلنا ہوگا۔۔

جاوید صاحب کا تو خود کو سنبھالنا ہی مشکل ہو رہا تھا۔۔

ان کے ابا، احمد فرقان چودہ سالوں سے ، انہیں جھگڑا ختم کر کے واپس گھر آنے کا کہتے رہے تھے۔۔

پر انہوں نے ایک نہیں سنی۔۔ ان اپنی مرضی کرتے رہے۔۔آج تک۔۔وہ اپنے آبائی گھر 🏠 نہیں لوٹے تھے۔۔

انیلا بیگم ان کی پریشانی دیکھتے ہوئے جلدی سے اٹھیں اور چند ضرورت کی چیزیں پیک کر کے یہ لوگ ساہیوال کے لیے روانہ ہوئے۔۔

اگلے پانچ گھنٹوں میں جاوید صاحب اپنے والد کا ہاتھ تھامے ۔۔ ان کے سراہنے ، سر جھکائے بیٹھے تھے۔۔

نداحل کے دادا کی طبیعت اب کچھ سنبھل چکی تھی۔

نقاہت کی وجہ سے انہیں بات کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی،

اس کے باوجود بھی وہ جاوید صاحب  کے ساتھ محو گفتگو تھے،   آخر کو وہ ان کے سب سے زیادہ لاڈلے بیٹے تھے۔۔۔ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔۔!

احمد صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔۔

ان کی یہ خوشی دیکھتے ہوئے۔۔

ابوبکر یعنی نداحل کے تایا نے ایک بار پھر اپنے چھوٹے بھائی کی طرف صلح کا ہاتھ  بڑھایا۔۔

اس بار انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے ان کی پیشکش قبول کی۔۔ 

اور دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو گلے لگاتے۔۔اپنے سارے سابقہ گلے شکوے بھلا دیے۔۔

ہاسپٹل میں دادا کے روم میں ہی یہ ساری کارروائی ہورہی تھی۔۔

نداحل بھی وہیں موجود تھی۔۔ 

بظاہر تو وہ وہیں تھی۔۔ لیکن اس کا دماغ کہیں اور ہی اٹک کر رہ گیا تھا۔۔

اس نے اب تک اس شخص کو دوبارہ وہاں نہیں دیکھا جس نے انہیں ہاسپٹل کے گیٹ پر ریسیو کیا تھا اور دادا کے روم تک لایا تھا۔۔

نہ وہ نام جانتی تھی نہ اسے پہچان پائی۔۔

اسے بس اتنا معلوم تھا کہ وہ اس کے تایا کے تین بیٹوں میں سے کوئی ایک ہے۔۔

پتہ نہیں کیا تھا اس کی شخصیت میں۔۔جو وہ نداحل کا سارا دھیان اپنی طرف کھینچے ہوئے تھا۔۔

اگر خوبصورتی کی بات کی جائے تو وہ اس خاندان کی میراث تھی۔۔

لیکن یہ کوئی ایسی خاص خوبی نہیں تھی جو نداحل کو متاثر کرسکتی۔۔

پھر کیا تھا وہ۔۔!! جس نے نداحل کی تمام تر سوچوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔۔

نداحل ، اپنے اردگرد ہونے والی گفتگو اور دوسری سرگرمیوں کوئی دلچسپی نہیں لے پا رہی تھی۔۔

گاہے بگاہے، وہ اپنی نظریں کمرے کے داخلی راستے پر دوڑا رہی تھی ۔۔

جیسے وہ اس کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔۔

وہ ابھی اس کے متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ وہ کمرے میں داخل ہوا۔۔

اسے نظروں کے سامنے دیکھ کر نداحل کو اپنے اندر عجیب سرشاری کی کیفیت محسوس ہوئی۔۔۔

اس کی یہ کیفیت بالکل غیر معمولی اور نئی تھی پر اس نے دھیان نہیں دیا۔۔

وہ اپنے ہاتھ میں موجود دواؤں اور فروٹس کو ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔۔

نداحل کو اس کا لب و لہجہ بہت اٹریکٹ کر رہا تھا۔۔ جس طرح وہ تایا سے۔۔ دادا سے اور باقی لوگوں سے گفتگو کر رہا تھا۔۔وہ لہجہ ۔۔۔ وہ طرزِ کلام ۔۔ بہت خوبصورت اور دل کو موہ لینے والا تھا۔

یہی تو وہ وصف تھا کہ جس نے نداحل کو بہت گہرائی سے متاثر کیا تھا۔۔ اس کی اچھی ، نرم اور شریفانہ طبیعت۔۔اس کے ہر لفظ میں جھلک رہی تھی۔۔

اور وہ بہت محویت سے اس کے ہر لفظ پر کان لگائے بیٹھی تھی۔۔

بغیر سوچے سمجھے۔۔ وہ خود کو کچھ انجانے راستوں پر چلانے جا رہی تھی۔۔!!

تقی لمحہ لمحہ اس کے دل میں اتر رہا تھا۔۔

اور وہ ۔۔۔ اپنے اندر پلتی ان تبدیلیوں سے بے خبر، کسی مستقبل کی پرواہ کئے بغیر، صرف اپنے حال میں جی رہی تھی۔۔ جو فی الوقت اسے بہت حسین لگ رہا تھا۔

وہاں سارے دادا کی تیمارداری اور آپسی گفتگو میں بہت اچھے سے مصروف تھے۔۔

اور نداحل وہاں ویسے ہی خاموشی سے کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔۔۔کسی کا دھیان اس کی طرف نہیں گیا سوائے تقی کے۔۔

تقی نے بہت خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکرا کر اسے مخاطب کیا۔۔

"ارے محترمہ۔۔آپ بھی اپنے دادا کی کچھ تیمارداری کر کے ثواب کمالیں یا کم سے کم اپنے خاندان والوں سے گپے ہی لگا لیں۔۔"

تقی کے ایک دم مخاطب کرنے پر وہ ذرا چونکہ تھی پر اس کی بات سن کر وہ مسکرا دی۔۔

"اماں جانی ویسے یہ ہے کون۔۔؟؟ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ میری گڑیا کی پھپھو مل گئی شاید۔۔ امامہ بے چاری کو کب سے پھوپھو کا شوق تھا،" تقی نے شوخی سے کہا ۔۔

اس کی بات پر سبھی مسکرا دیے۔۔

"ہاں بیٹا یہ تمہاری چچازاد نداحل ہے۔۔ اور تمہاری بہن بھی۔۔اور میری پوتی تو واقعی اسے دیکھ کر بڑی خوش ہوگی!!"تائی امی نے خوش ہوتے ہوئے کہا،

تقی کی بیٹی کے متعلق سن کر نداحل کا تو سانس اٹک کر رہ گیا تھا۔۔ اس نے اس وقت سوچا ہی نہیں کہ اس کے تایا کا بڑا بیٹا میرڈ ہے اور پانچ سالہ بچی کا باپ بھی ہے۔۔

وہ جب سے وہاں آئی تھی۔۔ اسے کسی تیسری چیز کے متعلق سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

پر اب اس نے سن بھی لیا تھا اور اسے سمجھ بھی آگئی تھی۔۔ سو اس نے اپنے دل کی ہوچکی بغاوت سے بے خبر۔۔ اپنی سوچوں کو لگام لگائی۔۔

اور خود کو کمپوز کیا۔۔

اب وہ بالکل نارمل طریقے سے ہی اسے ٹریٹ کررہی تھی۔۔

××××××

اگرچہ دادا کی طبیعت سنبھل چکی تھی مگر پھر بھی ڈاکٹرز کی ہدایات تھیں کہ مریض کے گرد جھمگھٹا نہ لگایا جائے۔۔

اس لیے تقی ، نداحل کو،اپنی چچی کو اور اپنی اماں جانی کو لے کر گھر آگیا تھا۔

×××××

ڈاکٹرز حیران تھے کہ اتنے شدید اٹیک اور اتنی زیادہ عمر ہونے کے باوجود بھی۔۔احمد فاروق اتنی تیزی سے ریکور کررہے تھے۔

انہیں اپنے بیٹے کے آنے کی خوشی تھی۔۔جس کی وجہ سے وہ اس قدر ہشاش بشاش نظر آنے لگے تھے۔۔

یہ سب دیکھتے ہوئے۔۔ جاوید صاحب نے مستقل طور پر ، دوبارہ "احمد ولا" شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔۔

سب نے ان کے اس فیصلے کو بہت سراہا۔۔ دلوں میں کوئی بغض تو باقی رہا نہیں تھا۔۔ سو اس لیے سب ایک دوسرے کے لیے خوشی ہی خوشی محسوس کررہے تھے۔۔

سب کی خوشی اپنی جگہ پر نداحل کا معاملہ ایسا تھا کہ بن مانگے ہی من چاہی نعمت مل گئی ہو۔۔!!

×××××××

وہ اپنے کسی اندورنی  احساس۔۔کسی اندرونی طاقت ۔۔ کے ہاتھوں مجبور۔۔ خود کو تقی کی طرف مائل ہونے سے نہیں روک پا رہی تھی۔۔

اور قیامت تو یہ تھی کہ وہ ۔۔۔ اپنے ہی حال دل سے آشنا نہیں تھی۔۔

🙁🙁

اور قیامت تو یہ تھی کہ وہ ۔۔۔ اپنے ہی حال دل سے آشنا نہیں تھی۔۔

×××

ایک ہفتے کے اندر اندر شفٹنگ کا کام مکمل ہوا۔


نداحل کبھی بھی اپنی زندگی میں اتنی خوش نہیں ہوئی جتنی کہ آج کل رہنے لگی تھی،


دن میں ہر وقت ہر لمحہ تقی کے خیالات اسے سرشار کیے رکھتے تھے،


آج کل وہ فری تھی سو کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں ہوتا تھا،

اس لیے اس نے تقی کی سوچوں کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا۔


جب تقی اپنی جاب سے واپس گھر آتا تو، نداحل کی خوشی دیدنی ہوتی تھی،


وہ ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتی اور اس کا ہر کام دل و جان سے کرتی،


تقی کی خاطر تو اس نے ، اس کی ساری فیورٹ ڈشز بھی بنانا سیکھ لی تھیں،


ایک اور عجیب معاملہ تھا کہ نداحل تقی کی بیوی سے بالکل جیلس نہیں ہوتی تھی۔۔

بلکہ اس کی اور آمنہ کی آپس میں بہت اچھی دوستی بھی ہوچکی تھی،


اور امامہ۔۔وہ تو نداحل کی جان بن چکی تھی۔۔


نداحل کا خیال تھا کہ وہ صرف تقی کی اچھی نیچر اور حسن اخلاق کی وجہ سے اس سے متاثر ہے۔۔ اس لیے اس نے اپنے دل و دماغ میں۔۔ تقی سے اپنی جذباتی وابستگی کے متعلق گہرائی سے نہیں سوچا۔۔


وہ تقی بھائی! تقی بھائی! کہتے کہتے ہی ، غیر ارادی طور پر اندر سے خود میں اس کے لیے کوئی اور ہی جذبے پالنے لگی تھی،


اس کے دن بہت آرام و سکون سے گزر رہے تھے کہ اس کی چھٹیاں ختم ہوئیں،


تقی نے اس کا ایڈمیشن اسی یونیورسٹی میں کروایا جہاں وہ سینیر پروفیسر کے طور پر اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا۔


تقی کا وہ حد سے زیادہ caring اور سویٹ behavior نداحل کو بار بار اپنی طرف مائل کرتا تھا۔


×××××

نداحل کے لیے تو سونے پر سہاگہ ہوگیا تھا کہ اس کی پک اینڈ ڈراپ کی ذمے داری، تایا نے تقی کو سونپی تھی،


اور اگر تایا نہ بھی سونپتے تو وہ خود اتنے اچھے دل کا مالک تھا کہ اپنے ہوتے ہوئے،نداحل کی زمہ داری کسی اور کو نہ سونپتا۔


بہر حال، نداحل صبح جلدی سے ہی اٹھ کر بیٹھ جاتی تھی اور جب سے اس کی یونیورسٹی کی کلاسز شروع ہوئیں تھیں ۔۔۔ اس نے ایک دن بھی تقی کے ساتھ ناشتہ miss نہیں کیا تھا،


اسے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا یونیورسٹی آتے ہوئے۔۔

اس عرصے میں اس نے اپنی بہت اچھی سہیلیاں بھی بنا لی تھیں،


عائشہ اور مہرین۔۔


باقی سب تو ٹھیک تھا۔۔

اور وہ دونوں لڑکیاں اچھی بھی بہت تھیں۔۔

لیکن ان دونوں لڑکیوں میں ایک بری عادت تھی کہ وہ ہمیشہ فارغ وقت میں بیٹھ کر یونیورسٹی میں موجود کپلز کے متعلق محو گفتگو رہتی تھیں۔۔


ہر وقت بیہودہ bf,gf ، پیار محبت اور اس قسم کی فضول گفتگو نے نداحل کی شخصیت پر بھی اثر ڈالا تھا۔۔


اب اس کی سوچ بدلنے لگی تھی۔۔


وہ تقی کے لیے اپنے دل کی زمین میں دفن جذبات پر سے مٹی کھرچنے لگی تھی،


اس کی بدلتی سوچ کے ساتھ، اسے اپنے اندر چھپے راز معلوم ہونے لگے۔۔


آہستہ آہستہ۔۔ اس کا سکون بے چینی میں بدل گیا۔۔


ہر وقت کے اضطراب نے اسے بے بس کر کے رکھ دیا تھا،


اور اس کی بڑھتی حیرت کے لیے اتنا کافی تھا کہ اس پر، تقی کی محبت کا راز کھل چکا تھا،


وہ رات کو۔۔اپنے کمرے میں، بلینکٹ میں دبک کر لیٹی تھی۔۔اور حسب معمول تقی اس کے حواسوں پر قابض تھا۔۔


ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اسے تقی کے متعلق سوچتے ہوئے۔۔ خوف آرہا تھا۔۔


وہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگی تھی۔۔


اس کے دل کی جسارت نے اس کا سکون غارت کر دیا تھا۔


اف اللّٰه۔۔وہ تقی سے محبت کرنے لگی تھی۔۔!!


یہ احساس اسے کھل کر سانس بھی نہیں لینے دے رہا تھا۔


وہ اپنے آپ سے بہت شرمندہ تھی،


تقی اسے بہن مانتا تھا اور وہ اسے کچھ اور ہی مان چکی تھی۔۔


اس نے اپنے خیالات کو لاکھ جھٹکنا چاہا۔۔


اس نے اپنے آپ کو جھوٹے دلاسے دینا چاہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی۔۔


پر دلاسے جھوٹے تھے۔۔ وہ کب اسے بہلا سکتے تھے۔۔


اسے بے تحاشہ رونا آیا کہ وہ کس بندے کو دل دے بیٹھی تھی۔۔!!


ایسا شخص جو عمر میں اس سے چودہ سال بڑا تھا۔۔


ایسا شخص کو شادی شدہ تھا اور اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرتا تھا۔۔


ایسا شخص جس کی ایک عدد بیٹی بھی تھی۔۔


بھلا وہ کس امید ۔۔ کس یقین ۔۔ کس گمان کے تحت اس کے حصول کی خواہش کرتی۔۔


اس کی مشکل بڑھتی جا رہی تھی۔۔


اس کی الجھنوں میں اضافہ ہورہا تھا۔۔


وہ یوں ہی مضطرب سی۔۔اپنے خیالوں۔۔ اپنی سوچوں سے جنگ لڑتے لڑتے گہری نیند میں چلی گئی۔۔


پر یہ نیند اسے بہت دیر سے آئی تھی۔۔


××××××


آج وہ صبح اٹھی تو اس کا سر بھاری ہورہا تھا۔


اب تک کے عرصے میں پہلی مرتبہ اس نے تقی کے ساتھ ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔


آج اس نے یونیورسٹی تک کے راستے میں بھی اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔


اس کے اندر ایک احساس جرم پیدا ہوگیا تھا۔۔


وہ اپنے دل کی بات کسی سے شئیر کرنا چاہتی تھی،


وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی۔۔


اس کے لیے اسے بس یونیورسٹی پہنچنا تھا۔۔


اور جلد از جلد پہنچنا تھا۔۔


اسے اپنی تمام روداد اپنی سہیلیوں کو سنانی تھی۔۔


وہ ابھی اپنے خیالوں میں گم تھی کی تقی کی آواز نے اسے اس کی یہاں وہاں بھٹکتی سوچوں کے چکر سے باہر نکالا۔۔


"نداحل۔۔کوئی پریشانی ہے کیا؟؟" تقی اس کی بے چینی بھانپ گیا تھا۔۔


"ن ن نہیں تو۔۔" نداحل نے کار کی ونڈو کی طرف چہرہ کیے ٹوٹا پھوٹا سا انکار کیا۔۔


نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ اس کا تقی سے نظریں ملانا محال ہوگیا تھا۔۔


ابھی تو تقی اس کے حال دل سے واقف نہیں تھا تو تب یہ حال تھا۔۔


تقی کو اس کا ، اس کی طرف دیکھنے سے احتراز برتنا کھٹک رہا تھا۔۔


"تو پھر کیا بات ہے۔۔؟؟ مجھ سے ناراض ہو؟؟ میری کوئی بات بری لگی ہے کیا۔۔؟؟" تقی نے پریشانی سے پوچھا،


نداحل کا کوئی جواب نہ پا کر وہ پھر سے بولا "اگر ایسا ہے تو میں اپنی گڑیا کے سامنے فوراً کان پکڑ کر معافی مانگنے کو تیار ہوں۔۔"


نداحل تھی کہ شرمندہ پہ شرمندہ ہوئی جا رہی تھی۔۔


"نہیں تقی بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ میں نے بھلا آپ سے کیوں ناراض ہونا ہے۔۔!! اور میں تو کیا۔۔آپ سے تو کوئی بھی ناراض نہیں ہوسکتا۔۔ آخر اتنے سویٹ جو ہیں آپ۔۔" نداحل نے دل کو قابو کر کے۔۔ خود کو کمپوز کرتے ہوئے ۔۔ خوش دلی سے کہنا چاہا۔


پہلی دفع ۔۔!! تقی کے لیے "بھائی" کا لاحقہ بہت مشکل سے اس کے حلق سے برآمد ہوا تھا۔

پہلی دفع ۔۔!! تقی کے لیے "بھائی" کا لاحقہ بہت مشکل سے اس کے حلق سے برآمد ہوا تھا۔

××××

شکر تھا کہ وہ لوگ یونیورسٹی پہنچ گئے تھے اور وہ مزید سوالات سے بچ گئی تھی،


تقی کو بھی کوئی ضروری کام یاد آیا تھا اس لیے اس نے بھی نداحل کو آڑے ہاتھوں لینے کا ارادہ ترک کردیا، اور اسے خاموشی سے جانے دیا،


نداحل یونیورسٹی پہنچتے ہی ادھر ادھر نظریں دوڑاتی عائشہ اور مہرین کو ڈھونڈنے لگی۔۔


پر وہ اسے وہاں کیسے نظر آتیں۔۔ کیوں کہ وہ تو ہمیشہ لیٹ آتی تھی،


خیر بیس منٹ انتظار کے بعد جب وہ دونوں اسے سامنے سے آتی نظر آئیں تو اس نے انہیں ریسیو کر کے محض سلام دعا کی۔۔ کیوں کہ کلاس کا ٹائم ہوچکا

تھا،


لیکچر کے دوران بھی وہ غائب دماغ رہی،


وہ نہ concentrate کر پارہی تھی نہ اس کا دھیان لگ رہا تھا۔۔


ایک عجیب پریشانی۔۔ عجیب خوف اور عجیب سا بوجھ محسوس ہورہا تھا اسے خود پر،


اللّٰه اللّٰه کر کے لیکچرز گزرے اور وہ لوگ فری ہوئے ہوئے تو وہ جلدی سے اپنی دونوں دوستوں کے ساتھ کیفے ٹیریا کی طرف گئی۔۔


عائشہ اور مہرین کو بھی اس کے رویے میں تبدیلی نظر آرہی تھی،

"کچھ عجیب سا نہیں ایکٹ کر رہی تم آج؟؟ آئی مین۔۔کوئی مسئلہ ہے تو ڈسکس کرو۔۔ شاید ہم تمہاری کچھ ہیلپ کر سکیں،" عائشہ نے اس کے چہرے کا اضطراب بھانپتے ہوئے بات شروع کی۔۔


نداحل خاموشی سے نظریں جھکائے۔۔ ٹیبل پر رکھے۔۔اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو گھور رہی تھی،


اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے۔۔


"یار اب تو مجھے ٹینشن ہورہی ہے۔۔!! پکا کوئی مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔۔ بتاؤ تو سہی۔۔ جب تک کچھ بتاؤ گی نہیں تب تک ہمیں تمہاری پرابلم کیسے پتہ چلے گی۔۔ ہاں۔۔بولو؟؟" مہرین نے اسے ایسے خاموش پا کر پریشانی سے پوچھا،


نداحل کو بھی اپنے دل کا بوجھ تو ہلکا کرنا ہی تھا۔۔


اس لیے اس نے بالآخر اپنی زبان کھولی۔۔۔"یار۔۔مجھے لگتا ہے کہ مجھے۔۔ مجھے محبت ہوگئی ہے۔۔" نداحل کا خوف دیکھنے والا تھا،


اس سے پورا جملہ بھی آرام سے نہیں بولا گیا۔۔


لہجے میں کپکپاہٹ صاف ظاہر تھی۔۔


اس کے برعکس اس کی دوستوں کو خوشگوار حیرت ہوئی۔۔


"تو یار۔۔ اس میں اتنا گھبرانے والی کیا بات ہے۔۔؟؟ محبت ہوئی ہے۔۔!! کسی کا قتل تو نہیں کیا ناں۔۔ جو ایسے گھبرا رہی ہو!! " عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا،


اسے نداحل کی situation پر ہنسی آ رہی تھی،

وہ اسے بے وقوف سمجھ رہی تھیں۔۔

پر انہیں نداحل کی تکلیف کا کب اندازہ تھا۔۔!!


"تم پوچھو گی نہیں کس سے ہوئی ہے۔۔؟؟" نداحل کا لہجہ بہت شکستہ ، بہت ہارا ہوا تھا۔۔


"ہاں یار بتاؤ۔۔" مہرین ذرا آگے کو جھک کر، اپنا پورا انہماکshow کررہی تھی،


"تقی بھائی سے۔۔" نداحل جانتی تھی۔۔کہ وہ یہ بات کیسے اپنی زبان تک لائی۔۔!


اب حیرت کا جھٹکا تو اس کی دوستوں بھی لگا تھا۔۔


پر انہیں تو ایسی چٹپٹی لو اسٹوریز کا پہلے سے ہی اتنا شوق تھا کہ وہ نداحل کو کوئی اچھا اور ستھرا مشورہ دینے کی بجائے اسے بہکانے لگیں۔۔


انہیں چاہیے تھا، اسے سمجاتیں کہ اپنے جذبات پر بند باندھے۔۔ نہیں تو اس کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی،


پر وہ دونوں تھیں الٹی کھوپڑیاں۔۔!!

اب ذرا انکے مشورے پڑھیں۔۔


"یار کوئی نہیں۔۔اس میں اتنی ٹینشن لینے والی کونسی بات ہے۔۔ محبت ہوگئی تو ہوگئی۔۔ اب خود کو اسٹرانگ کرو۔۔اور جا کر انہیں بتادو۔۔" یہ عائشہ صاحبہ کے الفاظ تھے۔۔


نداحل نے تو حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر انہیں دیکھا۔۔


"یار۔۔یہ کیا بک رہی ہو۔۔؟؟ تمہیں پتہ بھی ہے کہ وہ میرڈ ہیں۔۔بچی کے باپ ہیں۔۔اور مجھ سے عمر میں پورے چودہ سال بڑے ہیں۔۔ مجھے بہن سمجھتے ہیں۔۔میں کیسے انہیں یہ سب کہوں گی۔۔!!" اس کے مشورے پر۔۔نداحل کا تو پارا ہائی ہوگیا تھا۔۔!!


"Calm down girl!!

ایک تو تمہیں تمہاری پریشانی کا حل بتارہی ہے وہ اور اوپر سے تم اسی پر بھڑک رہی ہو۔۔!!

کچھ تو لحاظ کرو۔۔!!

اور یہ ساری باتیں جو تم اب گنوا رہی ہو۔۔

یہ اس وقت نہیں سوچیں جب تم اپنا دل ہارنے لگی تھیں۔۔ہاں؟؟" مہرین بھی گویا، عائشہ کی بات سے متفق تھی۔۔


"جو بھی ہو۔۔ میں تقی بھائی سے ایسا ویسا کچھ نہیں کہوں گی۔۔" نداحل نے دو ٹوک جواب دیا،


ایسی لڑکیوں کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ زندگی میں ان فضول محبتوں کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔۔ زندگی کے حقائق ہوتے ہیں۔۔ ہمارا ،ہم سے منسلک لوگوں کے ساتھ رشتہ کس نوعیت کا اور کس حد تک نازک ہو سکتا ہے۔۔!! ان باتوں کی یہ مہرین اور عائشہ جیسی لڑکیوں کو۔۔بھلا کیا سمجھ!!


نداحل کا بوجھ ہلکا ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا تھا۔۔

وہ پر سکون ہونے کی بجائے مزید مضطرب ہو گئی تھی۔۔!!


"مت کہو کچھ بھی۔۔ ساری زندگی تڑپتی رہنا اسے اس کی بیوی کے ساتھ دیکھ دیکھ کر۔۔!!

جانی۔۔!! اب اس پر تمہارا حق ہے۔۔ تم چاہنے لگی ہو اس کو۔۔

اور دیکھو۔۔ اس کا میرڈ ہونا۔۔ بچی کا پاپ ہونا، تم سے ایج میں بڑا ہونا۔۔ یہ سب چیزیں محبت کے آگے matter نہیں کرتیں۔۔" مہرین نے اپنی طرف سے ، بھرپور مخلصانہ suggestion دی،


"ہاں۔۔یار۔۔ تم موقع ملتے ہی تقی کو پروپوز کردو۔۔ بول دو کہ تمہیں اس سے شادی کرنی ہے۔۔ اور تمہیں اس کی کسی چیز سے مسئلہ نہیں۔۔ تمہیں صرف اس کا ساتھ چاہیے۔۔" عائشہ بھی فکرمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنی صلاح پیش کی۔۔!!


"حد ہے۔۔!! فضول گوئی کی بھی۔۔!! یہ سب باتیں تو میں نے بھی نہیں سوچیں۔۔جا رہی ہوں میں تم لوگوں کے پاس سے۔۔!! میری غلطی تھی کہ میں نے تم لوگوں سے کسی اچھی تجویز کی توقع کی۔۔!!" وہ یہ کہتی ان کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔۔


یونیورسٹی سے واپسی پر اس نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔۔ تاکہ تقی پھر سے کوئی سوال نہ کرے۔۔!!

××××××

ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔۔ اسے ایسے خود سے جنگ لڑتے لڑتے۔۔


اور اوپر سے اس کی دوستوں کی ریگولرbasis ہر برین واشنگ۔۔!!


اس کا تذبذب۔۔ اس کی بدحواسی بڑھتی جا رہی تھی۔۔!!


اب تو اسے اپنی دونوں دوستوں کی باتیں بھی معقول لگنے لگی تھیں۔۔


اس کی ہر دم بڑھتی بے کلی۔۔ عائشہ اور مہرین کے سنجیدہ مگر بھونڈے مشورے۔۔۔!! اس سب نے نداحل کو وہ کہنے پر مجبور کر دیا جو وہ کبھی کہنا نہیں چاہتی تھی۔۔!!

×××


آج اسے موقع مل گیا تھا۔۔

گھر والے کسی شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے،

تقی کے دونوں بھائی بھی گھر پر نہیں تھے۔۔

اور آمنہ وہ امامہ کو سلانے گئی تھی۔۔


تقی لاؤنج میں بیٹھا تھا۔۔

اس نے اپنے روم میں ہی بیٹھے بیٹھے۔۔ تقی کو واٹس ایپ پر ٹیکسٹ کیا۔۔" میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔۔"


تقی۔۔ سدا کا معصوم۔۔ اسے تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ نداحل کے ساتھ کوئی مسئلہ چل رہا ہے۔۔ پر وہ انتظار میں تھا کہ وہ اس سے اپنی بات، کب شئیر کر گی۔۔!!


اس نے ٹیکسٹ کا جواب دینے کی بھی دیر نہیں کی۔۔

تقی جانتا تھا کہ اس وقت وہ اپنے روم میں ہوگی۔۔ اس لیے۔۔ وہ اٹھ کر سیدھا اس کے روم کی جانب بڑھ گیا۔


🖤💜🖤💜🖤

اس لیے۔۔ وہ اٹھ کر سیدھا اس کے روم کی جانب بڑھ گیا۔


وہ وہاں آتے ہی۔۔ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔


اسے سامنے پا کر۔۔ پتہ نہیں کیوں پر نداحل اپنے آنسو نہیں روک پارہی تھی۔۔


تقی کو تشویش ہوئی۔۔

"ارے یہ کیا۔۔؟؟ رو کیوں رہی ہو؟؟

کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔؟؟

کیا ضروری بات کرنی تھی تمہیں۔۔بولو۔۔!!" تقی اچھا خاصا پریشان ہوا۔۔


نداحل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بات کیسے شروع کرے۔۔


ایک تو تقی بھی سامنے بیٹھا ۔۔ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔اور جواب کا منتظر تھا۔


اس نے بہت مشکل سے ۔۔ بہت ہمت سے کہنے کے لیے الفاظ جمع کیے۔۔

" تقی۔۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ میری بات پر کیسا ری ایکٹ کریں گے۔۔ پر میں بہت پریشان ہوں۔۔ اگر میں نے یہ بات آپ کو نہ بتائی۔۔ تو میرا سکون سے رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔۔"


"گڑیا۔۔ خیر تو ہے۔۔ بات کیا ہے۔۔؟؟ کچھ بتاؤ تو سہی۔۔" تقی اس کا صرف "تقی" کہ کر مخاطب کرنا فراموش کر گیا۔۔ اسے واقعتاً۔۔نداحل کے لیے پریشانی محسوس ہو رہی تھی۔۔


"میں۔۔ آپ سے۔۔ میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔!!

تقی۔۔!! آپ کو نہیں پتہ کہ میرا کیا حال بنا ہوا ہے۔۔!!

آپ میری بے قراری کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔۔

پلیز۔۔!! آپ۔۔آپ مجھ سے شادی کر لیں۔۔۔" نداحل نے بالآخر، اپنا سارا وقار اور تقی کا سارا مان چکنا چور کر دیا۔۔


تقی گنگ سا۔۔اس کی بات سن رہا تھا۔۔


غیظ کی ایک لہر تھی جو اس کے تن بدن میں دوڑی تھی۔۔


اسی غصے کا نتیجہ تھا کہ وہ خود کو روک نہیں پایا۔۔


اور غصے کی شدت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ، ایک زوردار تھپڑ۔۔نداحل کے منہ پر دے مارا۔


××××××


اسے رہ رہ کر اپنی جلد بازی اور اپنی اس احمقانہ حرکت پر افسوس ہورہا تھا۔۔


اسے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ تقی اس بات کہیں گھر والوں کو ہی نہ بتادے۔


پر وہ جانتی تھی کہ وہ اتنا اممیچور نہیں کہ اس کی بات کسی کو بھی جا کر بتا دے ۔


ذلت کا احساس، اس کو الگ ستا رہا تھا،


وہ تو اپنی ہی نظروں میں گر کر رہ گئی تھی۔۔


××××

سارا دن گزر چکا تھا۔۔ اس کی، اپنے روم سے باہر نکلنے تک کی ہمت نہیں ہوئی۔


اب اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔۔!!


اپنی کہی بات پر قائم رہے یا تقی سے معافی مانگے،


یقیناً معافی ہی بہتر آپشن تھا،


پر مصیبت یہ تھی کہ اب وہ اس سے معافی کیسے مانگے۔۔


اس کا تو ابھی تک دوبارہ سامنا بھی نہیں کیا تھا،


وہ بھلا کیا منہ لے کر اس کے سامنے جائے۔۔ کیسے بات کرے۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔!!


بس ایک تکلیف تھی جو اندر باہر سے اسے اذیت پہنچا رہی تھی،

××××


صبح تک وہ کافی سنبھل چکی تھی،


وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہوکر باہر آئی تو تقی ناشتے کی ٹیبل پر موجود نہیں تھا،


اس کے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ جا چکا ہے،

اور آج ڈرائیور اسے ڈراپ کرے گا،


ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا، کیوں کہ فی الوقت اس میں بالکل بھی حوصلہ نہیں تھا، کہ وہ اسے face کر پاتی،


لیکن نداحل۔۔!! حقیقت سے نظریں چرانے والوں میں سے نہیں تھی،


مانا کہ اس نے اپنی خواہش اور دوستوں کے بہکاوے میں آ کر اپنا سارا image خراب کر دیا تھا۔۔


لیکن اب اسے یہ امیج درست بھی تو کرنا تھا۔۔


وہ بھلا کب تک خود کو اس شخص کے سامنے اس طرح بے مول ہوتا برداشت کرسکتی تھی،


سو اسے اب جلد از جلد ، اس سے بات کرنی تھی،

اسے منانا تھا،


××××


یونیورسٹی پہنچ کر ، اس نے پہلی فرصت میں ہی عائشہ اور مہرین کو آڑے ہاتھوں لیا،


ان کے انتہائی گھٹیا مشوروں پر دو چار سنائیں بھی۔۔


وہ بھی آگے سے ڈھیٹ لڑکیاں تھیں۔۔ اس کی کسی بات کا کہاں اثر ہونا تھا،


الٹا انہوں نے اسے آئینہ دکھایا کہ "بی بی تم کوئی چھوٹی بچی نہیں ہو کہ تمہیں کسی بات کی سمجھ نہ ہو، حقیقتاً۔۔!! تم بھی یہی کرنا چاہتی تھیں جس کا مشورہ ہم نے دیا تھا۔۔ اور اب سارا ملبہ ہم پر ڈال رہی ہو ۔۔۔!!

اور صحیح بے شرم کہا ہے اس نے تمہیں۔۔!! خیال نہیں آیا تمہیں کہ وہ اپنی بہن سمجھتا تھا۔۔!! اب تم نے مزید کوئی بات کی ناں ہم دونوں سے تو اچھا نہیں ہوگا۔۔!!"عائشہ نے جی بھر کر بھڑاس نکالی،


نداحل کو اب مزید پچھتاوا ہورہا تھا،


اس نے تو خود کو دلاسہ دیا ہوا تھا کہ اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں، اور وہ یہ سب اپنی دوستوں کے بہکاوے میں آ کر کر گئی تھی۔۔


پر اب اسے معلوم ہوا تھا کہ اس میں تو سارا عمل دخل اس کی اپنی خواہش کا تھا،


وہ اپنی سوچوں میں گم، دنیا و مافیہا سے بے خبر یوں ہی چلتی جا رہی تھی، اپنی بے دھیانی کی وجہ سے وہ سامنے سے آتے شخص سے آہستہ سے ٹکرائی ۔۔۔


وہ آدمی دراصل اپنی بائیں طرف دیکھتا ہوا چلا آرہا تھا اور نداحل اس کی دائیں جانب سے گزر رہی تھی سو اس لیے ان دونوں کا ٹکراؤ ہوا،


نداحل نے آنکھ بھر کے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں، بس وہ اسے سوری کہتی آگے بڑھ گئی،


اور وہ جناب چند لمحوں تک اسے جاتا دیکھتے رہے،


ملک عمیر اکبر کو یہ لڑکی بہت اٹریکٹیو لگی،


خیر وہ جس کام سے آیا تھا، اس کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھ گیا، اس بات سے لاعلم کہ اس سے ٹکرانے والی وہ اٹریکشن اس کے سکون کا بیڑا غرق کرنے والی ہے،


×××××


ملک عمیر اپنا کام کر کے واپس لوٹا تو پتہ نہیں کیوں۔۔ اس کی نظریں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔۔۔


حالانکہ اسے عادت نہیں تھی۔۔ یوں راستے میں یہاں وہاں دیکھنے کی،


پر شاید اس کی نظریں نداحل کو کھوج رہی تھیں۔۔


ابھی دو منٹ ہی ہوئے تھے اسے چلتے ہوئے کہ نداحل انہیں وہیں سامنے گھاس میں، ایک طرف کو اکیلی بیٹھی دکھائی دی،


ملک عمیر نے اپنے سن گلاسز نیچے کو سرکا کر، ذرا غور سے اس کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ محترمہ کسی گہری سوچ میں غرق ہیں، اور ساتھ ہی بہت الجھی ہوئی ہیں۔۔


"میرا ۔۔ اس کی الجھنوں سے کیا لینا دینا" ملک عمیر نے دل میں سوچا اور سر جھٹکتا وہاں سے چلا گیا،


×××××


نداحل واقعی الجھی ہوئی تھی،


یہ جو رولا اس نے ڈالا تھا۔۔ اب اسے ختم کرنے کا کوئی آئیڈیا ہی اس کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا،


بحر حال ، اب زبان سے ، ڈائریکٹ کچھ بھی کہنا ۔۔ اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔


اسی پریشانی میں اس کا یہ دن بھی گزر گیا۔۔


تقی کا طرف تھا کہ اس نے گھر والوں میں سے کسی کو بھی نداحل کی اس حرکت کی بھنک نہیں لگنے دی،


بس وہ اس کے سامنے آنے اور بات کرنے سے احتراز برت رہا تھا،


نداحل کا تو دل کٹ کر رہ گیا تھا اس بے رخی پر۔۔ پر وہ کیا کہتی۔۔!! وہ تو حقدار تھی اس سب کی۔۔


××××××


نداحل کو مزید دو دن لگے۔۔ اپنی حالت بہتر بنانے میں،

فائنلی!! وہ سوچ چکی تھی کہ جس قدر بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ، اتنی بڑی بات۔۔ آرام سے کہی تھی،

ویسے ہی اس نے اب اس سے معافی مانگنی تھی۔۔

اسے جلد از جلد، اپنے احساس شرمندگی سے جان چھڑانی تھی۔۔!!


سو اس لیے اس نے سوچا کہ پہلے وہ ٹیکسٹ کے ذریعے اسے سوری بولے۔۔ کیوں کہ زبان سے کہنا تو اس کے لیے تھا ہی مشکل،


اس مقصد کے لیے اس نے فون اٹھایا۔۔ واٹس ایپ کھولی۔۔ اور message لکھنا چاہا۔۔

پر یہ کیا۔۔!! تقی تو اسے بلاک کر چکا تھا۔۔


مطلب اس کی ناراضگی کی نوعیت اتنی سخت تھی کہ وہ اس کا نمبر تک فون میں برداشت نہیں کر پایا،


ایسے سچے اور صاف دل والے لوگوں کے دلوں کو جب کوئی ٹھیس پہنچاتا ہے تو۔۔ ان کے اندر باہر ایک کہرام مچ جاتا ہے،


تقی کے جسد و قلب میں بھی یہی کہرام مچ گیا تھا۔۔


نداحل کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔۔

اب تو صرف ڈائریکٹ بات کرنے والا آپشن باقی رہ گیا تھا۔۔


پر وہ اس سے کیسے بات کرتی۔۔ جب وہ کسی صورت اس کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔۔


پھر بات کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔!!


🖤💜🖤💜🖤

اس کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔۔


پھر بات کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔!!


نداحل کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اسے لاونج میں مل گیا تھا۔۔


وہاں وہ اکیلا تھا۔۔


سو نداحل نے بغیر وقت ضائع کیے ، آس پاس جا کر اس سے معافی مانگی۔۔ "ت تقی بھائی۔۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔ ایسے ناراض نہ ہوں مجھ سے۔۔

I know..

میں نے آپ کا مان توڑا ہے۔۔

But believe me..

میں بہت شرمندہ ہوں۔۔ !!

پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔!!"


تقی اس کی ہمت پر حیران تھا۔۔


کہ اس دن اتنی بے عزتی کروانے کے بعد بھی وہ اس کے سامنے آ کر۔۔ اسے مخاطب کر رہی ہے۔۔


ساتھ میں وہ بہت قہر آلود نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا،


"تم سے اسی ڈھٹائی کی توقع تھی۔۔

بے شرم تو تم ویسے ہی ہو۔۔!!

کہا بھی تھا کہ اپنی شکل نہ دکھانا مجھے۔۔!!" تقی کا لب و لہجہ، انتہائی زہریلا تھا ۔


"بھائی پلیز۔۔!! جو بھی کہ لیں پر پلیز مجھے۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔"نداحل بھی اپنی بات پر قائم رہی۔۔


اسے اپنی مزید تذلیل کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔

وہ بس اسے منانا چاہتی تھی۔۔ جسکا اس نے جانے انجانے میں شدت سے دل توڑا تھا!


"پتہ بھی ہے تمہیں۔۔ کہ کس قدر تکلیف پہنچائی ہے تم نے مجھے۔۔!

میں بار بار خود کو مجرم سمجھ رہا ہوں کہ نجانے میرے کس انداز سے تمہیں یہ تاثر ملا کہ تم نے مجھے خود بلا کر اتنی بڑی بات کہ دی۔۔!!

بالکل امامہ کی طرح سمجھتا تھا میں تمہیں!!"

اس نے شکایتی نظر نداحل پر ڈالی۔۔ اور مزید کوئی بات سنے یا کیے بغیر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا،


نداحل کی امید ٹوٹ کر رہ گئی تھی۔۔


وہ یہ کام جتنا آسان سمجھ رہی تھی۔۔ اتنا تھا نہیں۔۔!!


×××××


نداحل کا تو دنیا اور اس کے مشاغل سے دل ہی اٹھ کر رہ گیا تھا۔۔


ہر وقت ایک بےزاری۔۔ ایک بے چینی اور غم کی سی کیفیت اس پر طاری رہتی تھی۔۔


گھر میں سب لوگوں کے بار بار پوچھنے پر ۔۔ اس نے خود کو کنٹرول کرنا شروع کیا تھا۔۔۔

اب وہ سب کے سامنے پہلے جیسے ہی رہنے کی کوشش کرتی تھی۔۔!!


××××


وہ نہا دھو کر آئی تھی اور ہلکے ہلکے سے نم بالوں کو کمر پر پھیلائے۔۔

ایک کندھے پر دوپٹہ سیٹ کیے۔۔

موبائل ہاتھ میں پکڑے اور کانوں میں ہینڈ فری لگائے۔۔

لان میں ٹہلنے لگی۔۔


ایک بہت ہی پر شوق نظر اسے اپنے حصار میں لئے ہوئی تھی۔۔


اسے نداحل کی یہ الجھی الجھی اور اداس سی صورت بہت بھا رہی تھی۔


ایک مسکراہٹ بکھری تھی اس کے ہونٹوں پر۔۔


اسے اس لڑکی کو پھر سے اپنے سامنے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔


مطلب وہ تقی ابوبکر کی تختی دار تھی۔۔


وہ اپنا، تقی کے گھر آنے کا مقصد بھلائے۔۔ بہت دلنشین نظروں سے نداحل کا سراپا اپنے دل میں اتار رہا تھا۔۔


××××


دراصل ملک عمیر اپنے چھوٹے بھائی کے ایگزامز کے رزلٹ کے سلسلے میں تقی سے ملنے آیا تھا،


اس نے یونیورسٹی جا کر باقی پروفیسرز سے تو معاملہ طے کر لیا تھا پر وہاں دوسرے پروفیسرز کی زبانی اسے معلوم ہوا کہ تقی تھوڑی ٹیڑھی چیز ہے۔۔!!



یہ آرام سے رشوت لے کر، اس کے بھائی کو بغیر اہلیت کے پاس کرنے سے صاف منع کر دے گا۔۔!!


اس لیے وہ اس سے تفصیلی بات چیت کرنے اس کے گھر آیا تھا۔۔


وہ تقی کے گھر میں، ڈرائنگ روم میں بیٹھا ، اس کا انتظار کر رہا تھا کہ ڈرائنگ روم کی گلاس ونڈو کے پار۔۔ اسے لان میں نداحل کا وجود نظر آیا۔۔


اور بس یہیں اس کی نظر ٹک کر رہ گئی۔۔


ایسا بالکل نہیں تھا کہ اسے دیکھنے پر ملک عمیر کے دل میں کوئی ہلچل مچی ہو۔۔ وہ تو بس اسے نظروں کے سامنے پا کر، ایک عجیب سی خوشی مل رہی تھی کہ جیسے یہی تو ہے وہ جع اس کے دل کی بلند ترین مسند پر براجمان ہونے کے لائق ہے۔۔!!


تقی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو ملک عمیر کو اپنے آپ سے بیگانہ پایا۔۔ اس نے عمیر کی نظروں کو پرکھ کر ان کا تعاقب کیا تو اندر تک جل کر رہ گیا۔۔


ناراضگی اپنی جگہ پر نداحل اس کے گھر کی عزت تھی اور اسے بالکل یہ بات پسند نہیں تھی کہ کوئی ایرا غیرا ، اس کے گھر کی لڑکی کے وجود پر نظریں جمائے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔۔


خیر وہ جانتا تھا کہ عمیر جیسے اڑیل کو روکنے کا تو کوئی دائرہ نہیں۔۔

اس لیے وہ خاموشی سے باہر نکلا۔۔ اور غصے میں آکر نداحل کو جا لیا۔۔

"بس یہی کام کرتی رہنا۔۔!!

مردوں کو لبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا۔۔!!

پتہ نہیں ہے کیا کہ گھر پر مہمان آئے ہوئے ہیں۔۔

مزے سے آکر ڈرائنگ روم کے آگے چہل قدمی کے مزے لوٹے جا رہے ہیں۔۔!!" تقی غصے میں آ کر اسے الٹی سیدھی باتیں سنائے جا رہا تھا۔۔


نداحل پریشان۔۔!! کہ وہ آخر یہ سب۔۔ یعنی اتنی گری ہوئی باتیں اس کے متعلق کیسے کر سکتا ہے وہ بھی فضول میں۔۔ بغیر کسی معقول وجہ کے۔۔

وہ گنگ سی۔۔ اسے دیکھ رہی تھی۔۔!!


تقی کو۔۔اس کے ایسے وہیں پر کھڑے رہنے پر غصہ آیا۔۔!! وہ چاہ رہا تھا کہ نداحل خود ہی اس کا مطلب سمجھ کر وہاں سے چلی جائے۔۔


پر تقی کی ان الٹی باتوں کا مطلب اسے خود کو نہیں سمجھ آنا تھا تو نداحل کیسے سمجھتی۔۔!!


"مطلب کیا آپ کا۔۔۔؟؟" نداحل نے اپنی ناسمجھی کے پیشِ نظر۔۔ سوال کیا۔۔!!


"محترمہ۔۔!! کہیں اندر جا کر اپنا یہ چہل قدمی کا شوق پورا کرو۔۔!! وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا عیاش امیر زادہ تمہارے حسن سے لطف اندوز ہورہا ہے۔۔"تقی نے کڑوے لہجے میں کہا۔


اسے اب تقی کا مطلب سمجھ آیا ۔۔ اس لیے وہ خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔


تقی بھی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔۔ جہاں عمیر بیٹھا۔۔ بڑی دلچسپی سے مگر ذرا الجھ کر سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔۔ کیوں کہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی نوعیت کا اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔۔!!

عمیر کو تھوڑا سا تجسس بھی ہوا کہ آخر بات کیا ہورہی ہے!!!


مگر تقی کے الفاظ۔۔!! وہ تو اسے بالکل ہی حقیر کر گئے۔۔


"یعنی ایک معمولی سی غلطی پر وہ اس سے اتنا بدگمان ہوگیا تھا!!" نداحل نے افسوس سے سوچا۔


پر تقی کو دراصل۔۔غصہ عمیر پر تھا۔۔ اس کا بے باکی سے نداحل پر نظریں جمانا۔۔ تقی کو بہت ناگوار گزرا تھا۔۔


خیر وہ خود کو نارمل کئے ، اب اچھے سے عمیر کا خیر مقدم کررہا تھا۔


عام عزت دار اور شریف لوگوں ویسے بھی ملک عمیر جیسے سیاسی اور ڈون نما بندوں سے ذرا دب کر رہنا پڑتا ہے!!


عمیر اور تقی آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔

عمیر کے بات شروع کرنے سے پہلے ہی تقی بول پڑا کہ۔۔

"دیکھیں ملک صاحب۔۔ اگر آپ کا بھائی اس لائق ہوا کہ میرٹ پر پاس ہوسکے تو میں کبھی اسے فیل نہیں کروں گا۔۔ پر اگر وہ اس کا اہل نہیں ہے تو معاف کیجئے گا۔۔ مگر میں اسے ناحق پاس نہیں کرسکتا۔۔!!"

تقی نے چہرے پر سختی اور سنجیدگی لاتے دو ٹوک انداز میں بات کی۔۔


ملک عمیر کو بھی بھلا اب کہاں فکر تھی کسی بات کی۔۔


وہ تو کسی اور دنیا میں پہنچ چکا تھا۔۔


"ارے نہیں نہیں جناب۔۔!! آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔!!

میں ایسی کوئی بات نہیں کرنے آیا۔۔!!

میں تو بس اس کی رپورٹ لینے آیا تھا۔۔ کہ کیسا جارہا ہے پڑھائی میں۔۔!!" عمیر نے تو بات ہی بدل دی تھی۔۔


اب۔۔ جیسا کہ وہ جان چکا تھا کہ نداحل ، تقی کی کچھ نہ کچھ لگتی ہے۔۔ اور اس کے حصول کا راستہ۔۔وہ تقی سے بگاڑ کر۔۔ ناہموار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔


تبھی اس نے بات ہی بدل دی تھی۔۔


تقی کو عمیر کی بات پر حیرانی ہوئی تھی۔۔

پر وہ معمولی سے انداز میں اسے، اس کے بھائی کی رپورٹ کے متعلق آگاہ کرنے لگا۔


اتنے میں سامنے سے نداحل ، لوازمات سے سجی ٹرالی گھسیٹتی ہوئ آتی دکھائی دی۔۔۔


ان دونوں کی گفتگو کا تسلسل ٹوٹا۔۔

ملک عمیر تو لمحے کی دیر کئے بغیر۔۔ اپنے پوری توجہ اس کی طرف مبذول کر گیا۔۔۔


عمیر کا یہ انداز۔۔ تقی کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا!!


🖤💜🖤💜🖤

ملک عمیر تو لمحے کی دیر کئے بغیر۔۔ اپنے پوری توجہ اس کی طرف مبذول کر گیا۔۔۔


عمیر کا یہ انداز۔۔ تقی کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا!!


اسے نداحل پر غصہ آیا کہ ابھی وہ اس کو اتنی کھری کھری سنا کر آیا تھا اور اب وہ ڈھیٹ بن کر پھر سے سامنے آگئی۔۔!!


اس نے قہر آلود نظروں سے نداحل کو گھورا۔۔ اور لپک کر اس کے ہاتھ سے ٹرالی کا ہینڈل چھڑا کر خود پکڑا اور جانے کا اشارہ کیا۔۔


تقی کی یہ حرکتیں عمیر کو اور بھی محظوظ کررہی تھیں۔۔


نداحل بری طرح سہمی ہوئی ، واپس جانے کے لیے مڑی۔۔


"تقی صاحب۔۔ غالبًا یہ لڑکی آپ کے اہل خانہ میں سے ہے۔۔کم سے کم تعارف تو کرا دیجیئے۔۔" عمیر نے مسکراتے ہوئے ڈھٹائی سے کہا۔


تقی بل کھا کر رہ گیا۔۔


"ملک صاحب!! یہ نداحل ہے ۔۔ میری چچا زاد" تقی نے اپنا غصہ دباتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا۔۔


نداحل اس کی آواز سے لہجہ بھانپ چکی تھی۔۔ اس لیے بغیر رکے۔۔ وہ جلدی سے وہاں سے غائب ہوئی۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ عمیر کو لے کر اس کی موجودگی پر اتنا عجیب کیوں ری ایکٹ کر رہا ہے۔۔!!


تقی کی بدکلامی کا دکھ۔۔

علیحدہ ہی اسے گھائل کر رہا تھا۔۔


پر وہ کیا کر سکتی تھی!

سو اس لیے خاموشی سے چل دی۔۔!!


تقی نے اس کے جانے کے بعد۔۔

اپنی پوری کوشش سے۔۔ جلد از جلد، اس ملک عمیر نما کیڑے کو، رخصت کیا اور اس سے جان چھڑائی۔۔


اس کا وجود ۔۔۔ تقی سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔۔

اور شاید اس کی وجہ نداحل تھی۔۔!!

×××××

نداحل اپنے روم میں بیٹھی۔۔ اپنی کوئی اسائنمنٹ تیار کر رہی تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ knock ہوا۔۔


دروازہ کھلا ہی تھا ، اس لیے اس نے اٹھنے کی زحمت نہیں کی۔۔ اور شاید knock کرنے والے کا مقصد۔۔ اس کی توجہ حاصل کرنا تھا۔۔


نداحل تھوڑی حیرانی سے دروازے پر کھڑے تقی کو دیکھ رہی تھی۔۔!!

اصل میں اسے امید نہیں تھی کہ اب تقی اس کے پاس آئے گا۔۔


پر اسے وہ آج کی شام والی بات یاد آئی کہ وہ تقی کے منع کرنے پر بھی، وہاں ، اس کے سامنے چلی گئی تھی،


اسے تقی کے چہرے کے سخت تاثرات سے تھوڑی دہشت محسوس ہوئی۔۔ پر اپنا ڈر چھپاتی۔۔ وہ احتراماً کھڑی ہوئی۔۔


"تقی بھائی۔۔ آپ۔۔یہاں۔۔!! آئیں ۔۔ بیٹھیں۔۔!!" اس نے نظریں جھکائے دھیمی آواز میں کہا۔۔ پر لہجے سے۔۔ اس کے شام والے القابات کے رد عمل کے طور پر۔۔ ناراضگی صاف ظاہر تھی۔۔


یعنی تقی اس سے ناراض اور یہ تقی سے ناراض تھی!!


"وجہ پوچھ سکتا ہوں۔۔؟؟ کہ میرے منع کرنے پر بھی تم اس عمیر کے سامنے کیوں آئیں۔۔؟؟

زیادہ شوق ہے تمہیں اپنے جلوے بکھیرنے کا۔۔؟؟

پتہ نہیں تمہیں کہ ایسے غنڈوں جیسے لوگ عورت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔۔؟؟ " تقی لہجے میں اخیر کڑواہٹ بھرتے۔۔ سراپا سوال بنا ہوا تھا۔۔


اور نداحل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر وہ ایسے کیوں behave کر رہا ہے۔۔!!

آج سے پہلے تو اس نے ایسا کبھی کچھ نہیں کہا۔۔!!


پر اس وقت اس نے اپنا سمجھنے سمجھانے والا مشغلہ چھوڑا اور تقی کی بات کا جواب دینے لگی۔۔


" میں جان بوجھ کر نہیں آئی تھی۔۔ تائی امی نے بھیجا تھا۔۔ میں نے منع کیا تھا۔۔ پر انہوں نے اصرار کیا تو میں لے آئی۔۔ اب اس میں اتنی بڑی۔۔ کونسی قیامت آئی ہے۔۔ جو آپ ایسے بھڑک رہے ہیں۔۔؟؟"

نداحل بھی اس کے اس فضول غصے سے جل کر رہ گئی تھی ۔۔ آخر کتنا برداشت کرتی۔۔

اس لیے اس نے بھی ساری تمیز اور ادب بالائے طاق رکھ کر درشتی سے جواب دیا۔


"جو بھی ہے۔۔ تمہیں وہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔!! وہ ملک عمیر۔۔۔" تقی نے ابھی اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ نداحل نے اس کی بات کاٹی۔۔


"آپ کو کیا مسئلہ ہے۔۔!!

کیا ملک عمیر۔۔ملک عمیر کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔۔؟؟

ہاں۔۔ ؟؟ میں نے بھی اس کی طرف دیکھا تھا۔۔ مجھے تو اس کی نظروں میں اپنے لیے کوئی غلاظت نہیں نظر آئی۔۔

بلکہ وہ جس انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔

محبت کرنے والے دیکھتے ہیں ایسے۔۔

اس میں اتنی بڑی تو کوئی بات نہیں، جو آپ ب نے ایشو ہی بنا کر رکھ دیا۔۔!!" نداحل کا دماغ بھی الٹ کر رہ گیا تھا۔۔


اسے خود کوبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کچھ اور کیسے بول گئی۔۔


اپنے لفظوں پر غور کرنے پر، اس نے دانتوں میں زبان دبائی۔۔ "اف۔۔ کیا اول فول بول دیا میں نے" اس نے دل میں سوچا۔۔!!


اور تقی آنکھیں پھاڑے ۔۔ اس کے کہے ہر جملے پر حیرت زدہ تھا۔۔


اس کے پاس کہنے کو کچھ بچا نہیں تھا۔۔!!

سو وہ چپ چاپ اپنا سا منہ لیے وہاں سے رفو چکر ہوا،


نداحل کو شاید گزرے دنوں کے واقعات کا ڈیپریشن تھا۔۔ اور تقی کی بے رخی۔۔ پھر اس کے کہے برے الفاظ۔۔ شاید اسی وجہ سے وہ بے دھیانی میں سب بول گئی۔۔

پر اب وہ اچھی خاصی خجل ہو رہی تھی۔


ان دونوں کو ہی اپنی ہی حرکتوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔!!


نداحل نے صحیح آئینہ دکھایا تھا کہ آخر وہ اتنا سیریس کیوں ہورہا ہے۔۔!!

عمیر کا ایسے دیکھنا۔۔ اس سے کیوں برداشت نہیں ہوا۔۔!!


اور ایک اور بات۔۔ تقی کے دماغ کو الجھانے لگی تھی!! کہ وہ نداحل کی معافی۔۔ اس کی apology ایکسیپٹ نہیں کر پا رہا تھا۔۔!!


اس نے تو بولا تھا کہ وہ اسے اپنی بہن سمجھتا ہے۔۔

امامہ کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔۔!!


پر یہ کیا۔۔؟؟

نداحل کے لیے اس کے اپنے جذبات بدلنے لگے تھے۔۔!!

اس نے لان میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔

عجیب انکشاف ہوا تھا اس پر۔۔


اس کو اب پریشانی ہونے لگی تھی۔۔


اس کے ٹہلنے کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی۔۔!!


وہ مضطرب سا ہوکر رہ گیا تھا۔۔


اس نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے سگریٹ، لائٹر نکال کر، عجیب جنونی انداز میں سگریٹ سلگائی۔۔ اور اس کے کش لینے لگا۔۔


وہ لمحوں میں ہی آدھی سگریٹ ختم کر چکا تھا۔۔ کہ اسے اندر سے آمنہ اور امامہ آتی دکھائی دیں۔۔ اس نے جلدی سے سگریٹ بجھا کر کیاری میں پھینکی اور ان دونوں کی طرف بڑھ گیا۔


🖤💜🖤💜🖤

اس نے جلدی سے سگریٹ بجھا کر کیاری میں پھینکی اور ان دونوں کی طرف بڑھ گیا۔


اس نے فوری طور پر اپنی پریشانی اور بے چینی کے تاثرات چھپائے۔۔

اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر امامہ کو گود میں اٹھایا۔۔

"خیر ہے۔۔ آج میری شہزادی اتنا پیارا تیار ہوئی ہے۔" تقی نے پیار سے امامہ کا گال چومتے ہوئے کہا۔


"جی پاپا۔۔!! بس آپ، اور ماما آئسکریم کھانے جارہے ہیں ناں..! اس لیے تیار ہوئی ہوں۔۔" امامہ نے بچوں والی فطری معصومیت سے کہا۔


"ارے یہ پلین کب بنا۔۔؟؟"تقی نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کرتے، امامہ کی چھوٹی سی ناک دباتے ہوئے کہا،


"بس ابھی ابھی بنایا ہے میں نے" امامہ ، تقی کی ہلکی ہلکی سی داڑھی کو اپنی چھوٹی سی انگلی سے کھرچتے ہوئے کہنے لگی۔۔


اب وہ کافی ریلیکسڈ فیل کررہا تھا۔


امامہ کے ساتھ ہوتے ہوئے وہ ہمیشہ ایسے ہی اپنی ہر پریشانی بھول جایا کرتا تھا۔۔ اس لیے اس وقت بھی وہ کافی ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا تھا۔


آمنہ کھڑی۔۔ ان دونوں باپ بیٹی کی ڈائیلاگ بازی ، مسکراتے ہوئے سن رہی تھی۔۔


"پاپا۔۔۔!! اب چلیں بھی.. ورنہ لیٹ ہی ہو جائیں گے ہم لوگ۔۔" امامہ اتاولی ہوکر کہ رہ رہی تھی۔۔


اس کی بے صبری پر تقی کو ہنسی آئی۔۔


"اوکے میری گڑیا۔۔ چلو چلتے ہیں!!!" تقی حامی بھرتا ہوا کار کی طرف بڑھا۔


"بلکہ ایک سیکنڈ ۔۔۔ میں کار کی چابی تو لے آؤں" تقی نے کچھ سوچتے ہوئے امامہ کو گود سے اتار کر کہا،


چابی تو یہ رہی پاپا۔۔" امامہ نے جلدی سے اپنی ننھی سی مٹھی کھول کر چابی دکھائی۔


"اوہ۔۔۔ تو مطلب پورا انتظام کیا ہوا ہے۔۔" تقی کو ہنسی آئی۔


"جی پاپا۔۔ پورا انتظام کیا ہوا ہے۔۔بس آپ کار اسٹارٹ کریں میں نداحل پھپھو کو بلا کر لاتی ہوں۔" امامہ نے دانت نکالتے ہوئے چہک کر کار کی چابی تقی کو تھما کر کہا۔۔ اور اندر کی طرف جانے لگی۔


"نہیں بیٹا رکو۔۔ آج ہم لوگ اکیلے چل لیتے ہیں۔۔۔ پھوپھو کو پھر لے جائیں گے۔۔" تقی نے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔۔


کیونکہ نداحل کے بغیر تو وہ اب اپنا کوئی کام بھی نہیں کرتی تھی۔


"کیا ہوا تقی۔۔؟؟

لے چلتے ہیں ناں اسے بھی۔۔

اتنے دنوں سے اس کی بھی آؤٹنگ نہیں ہوئی" آمنہ نے امامہ کی رونی شکل دیکھتے ہوئے ، ریکوئسٹ کی،


"یار۔۔ کچھ نہیں۔۔

بس میں آج اپنی فیملی کے ساتھ ٹائم گزارنا چاہتا ہوں۔" تقی نے بات گول کی ۔۔۔


اب وہ کیا بتاتا کہ اس میں ہمت ختم ہوتی جارہی ہے۔۔ نداحل کا سامنا کرنے کی۔۔


وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ نداحل کے بارے میں ایسا سوچے۔۔


کوئی پیار محبت والے جذبات رکھے۔۔


اس کی پہلی اور آخری ترجیح، اس کی فیملی تھی۔۔


صرف اور صرف اس کی فیملی!!


وہ نہیں چاہتا تھا کہ کیسی تیسرے کی وجہ سے وہ اپنی ہنستی بستی زندگی خراب کرے۔۔


پر اس کے دل میں مچلنے والے جذبات۔۔ بہت جلد۔۔ اس کے سارے ارادوں پر پانی پھیرنے والے تھے۔


وہ خاموشی سے کار کی طرف بڑھ گیا۔۔


امامہ، تقی کی کوئی بات خاطر میں نہ لائی اور بھاگتی ہوئی اندر گئی۔۔


آمنہ بھی اس کے پیچھے پیچھے گئی۔


نداحل کا ذرا موڈ نہیں تھا کہیں باہر جانے کا۔۔ اور تقی کے ساتھ جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔


پر امامہ کی ضد اور آمنہ کے اصرار پر اسے آنا پڑا،


تقی، کار گھر سے باہر نکال کر۔۔ وہیں، اس میں بیٹھا۔۔ اپنی بیوی اور بچی کا ویٹ کررہا تھا۔۔


پر گیٹ سے۔۔ ان دونوں کے ساتھ نکلتی نداحل کو دیکھ کر۔۔ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔


وہ اس لڑکی سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں رکھنا چاہتا تھا پر۔۔


اس کے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہونا تھا!!


اس کا دل بغاوت کر بیٹھا تھا۔۔ اب اس کا خمیازہ تقی کو بھگتنا تھا۔۔

اپنے آپ سے لڑ کر۔۔ بے چین ہو کر۔۔ بے قرار ہو کر۔۔


اپنے اس نئے جذبے کے ہاتھوں اس کو اذیت ملنی تھی۔۔۔


ان سب کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اس نے کار اسٹارٹ کی۔۔


پر وہ کچھ بولا نہیں۔۔


اسے نداحل کی موجودگی بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔۔


پر کیا کرتا۔۔ امامہ کی ضد تھی۔۔ سو وہ خاموش ہی رہا۔


تھوڑی دیر پہلے والی ریلیکسیش تو کہیں غائب ہی ہوگئی تھی۔۔


اب اسے بہت بے سکونی محسوس ہورہی تھی۔۔


نظریں بار بار۔۔ کار کے فرنٹ مرر سے ہوتی۔۔ بیک سیٹ پر امامہ کے ساتھ بیٹھی نداحل پر بھٹک رہی تھیں۔


اس کا دل کیا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔۔


اتنا بے اختیار ہو چکا تھا وہ۔۔

اتنا سا کنٹرول بھی نہیں کر پارہا تھا وہ۔۔۔


نداحل کو بھی عجیب ہچکچاہٹ ہورہی تھی اس سارے ماحول سے۔۔۔

××××××

نداحل صبح۔۔ سو کر اٹھی تو نماز وغیرہ پڑھ کر یونیورسٹی کی تیاری کرنے لگی۔۔


کچھ یاد آنے پر اس نے اپنا سر پیٹ لیا تھا۔۔


اف۔۔!! اس نے اپنی اسائنمنٹ کمپلیٹ نہیں کی تھی۔۔


وہ اسائمنٹ ، تقی کو submit کرانی تھی۔۔


اور تقی تو ویسے کام کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں برتتا تھا۔۔

"اور اب تو۔۔اسکی کوئی علیحدہ ہی دشمنی نکل آئی ہے میرے ساتھ۔۔" نداحل نے ہاتھ میں موجود اسائمنٹ پیپرز کو دیکھتے ہوئے سوچا۔۔


یعنی اب تو پکی شامت آنی تھی۔۔


پہلے بھی۔۔ بے شک وہ جتنا مرضی خوش گفتار اور سویٹ تھا لیکن اس نے کام کے معاملے میں آج تک کسی اسٹوڈنٹ کو چھوٹ نہیں دی تھی۔


نداحل کو تو ٹینشن ہونے لگی تھی۔۔


اب ساری کلاس کے سامنے ہونے والی آج کی انسلٹ سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا تھا!!


ابھی تھوڑا وقت تھا اس کے پاس۔۔


اس نے سوچا کہ تھوڑی بہت ابھی بیٹھ کر بنالی جائے۔۔


یونیورسٹی کے لیے ، اس کی باقی تیاری مکمل تھی۔۔


سو وہ اپنی چیزیں اٹھائے۔۔ لاونج میں ہی آکر بیٹھ گئی۔۔ اور بڑے انہماک سے اسائمنٹ تیار کرنے لگی۔۔


ٹینشن اپنی جگہ پر اس وقت اسے اپنے کام پر دھیان دینا تھا۔۔


کیوں کہ، تقی کے ہاتھوں بےعزت ہونے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔


لیکن شاید آج اس کے ستارے گردش میں تھے۔۔


اس نے لکھے ہوئے آدھے پیپرز ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے۔۔ جو۔۔ اس نے بڑی مشکل سے ابھی ہی لکھے تھے۔۔


باقی آدھے پیپرز، وہ اپنی گود میں رکھے پر کرنے میں مصروف تھی۔۔


اس کے بال پین کی انک ختم ہوئی تھی۔۔


اس نے اپنی کتاب پر نظریں جمائے۔۔


ایک ہاتھ سے۔۔ ٹیبل کی طرف دیکھے بغیر۔۔ وہاں پیپرز پر موجود اپنا دوسرا بال پین ٹٹولنا چاہا۔۔


اور یہ کیا!!


ساری محنت تباہ ہوکر رہ گئی تھی۔۔


اس کا ہاتھ، وہاں پڑے چائے کے کپ سے لگا جو ابھی ابھی ، اس کی مما وہاں رکھ کر گئی تھیں۔۔


وہ کپ عین ، اس کے بے ترتیبی سے پڑے اسائمنٹ پیپرز پر جا کر لڑھکا۔۔!!


اس نے صدمے سے بکھری چائے اور ان خراب حالت کاغذوں کو دیکھا!!


اس کا دل کیا کہ وہ گلا پھاڑ کر روئے۔۔


یعنی۔۔ اب واقعی۔۔ آج کی انسلٹ پکی تھی!!!


🖤💜🖤💜🖤

اس کا دل کیا کہ وہ گلا پھاڑ کر روئے۔۔


یعنی۔۔ اب واقعی۔۔ آج کی انسلٹ پکی تھی!!!


وہ سر پکڑے، بڑی دل گرفتہ سی ہو کر، ان چائے کی زد میں آئے اوراق کو دیکھ رہی تھی۔۔


پریشانی اور شامت آنے کے خوف سے۔۔ باقائدہ اس کے آنسو بہنے لگے تھے۔۔


اتنے میں ،اسے،تقی اپنی ڈریس شرٹ کے کف کے بٹن بند کرتے ہوئے، سامنے سے آتا دکھائی دیا۔۔


اسے حیرت ہوئی۔۔

وہ اسی کی طرف آرہا تھا۔


"کیا ہوا ۔۔؟؟؟ کوئی مسئلہ ہے۔۔؟؟ رو کیوں رہی ہو؟؟" تقی کے اتنے پیار سے پوچھنے پر۔۔ وہ حیرت سے مرنے والی ہورہی تھی۔۔


ابھی کل تک تو وہ اس سے اتنی نفرت اور کڑواہٹ سے پیش آرہا تھا۔۔

اب وہ دوبارہ پہلے جیسے تقی کی طرح بات کیوں کر رہا تھا۔۔


وہ بے حد ششدر تھی۔۔


اپنی حیرت کے مارے وہ تقی کی کے سوال کا جواب بھی نہیں دے پائی،


اس لیے اس نے دوبارا سوال کیا۔۔


"نداحل۔۔ جواب دو۔۔ کیا پریشانی ہے۔۔" وہی پہلے جیسا ٹھنڈا۔۔ میٹھا۔۔ ہموار لہجہ۔۔


نداحل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک دم سے۔۔ اتنا پولائیٹ کیسے ہوا۔۔!!


لیکن فی الحال۔۔ اس نے اپنی بے یقینی ایک طرف رکھ کر۔۔ اپنا مسئلہ بتایا۔۔


"وہ۔۔وہ میں نے پوری وہ والی اسائمنٹ ریڈی کر لی تھی۔۔جو آج آپ کو submit کرانی تھی۔۔لیکن۔۔ دیکھیں۔۔"

"لیکن اس پر چائے گرگئی.. ہیں ناں؟؟ اتنی سی بات ہے۔۔ اس پر اتنی ٹینشن کیوں لے رہی ہو..؟؟" نداحل سے تقی کی انسلٹ کے خوف کے مارے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔


اس لیے تقی نے اس کی بات کاٹ کر خود ہی جملہ مکمل کرکے۔۔ اس کی مشکل آسان کی۔۔


"کیا مطلب۔۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔۔؟؟

اب آپ ساری کلاس کے سامنے میری انسلٹ کریں گے۔۔ اور آپ کہ رہے کہ پریشان نہ ہوں۔۔!!" نداحل نے ناسمجھی سے پوچھا۔


"نہیں کرتا انسلٹ۔۔ ریلیکس ہو جاؤ۔۔ ایک ہفتہ مزید دے رہا ہوں تمہیں۔۔ آرام سے دوبارہ تیار کرلینا۔۔بس!!

اب اپنی یہ رونی صورت ٹھیک کرو۔۔" تقی نے خوش مزاجی سے کہا۔


نداحل کی تو عقل دنگ تھی کہ ایک رات گزری ہے بس۔۔ اور تقی کے لب و لہجہ میں گزرے دنوں کے ناگوار واقعات۔۔ اس کی ناراضگی۔۔ اس کی بے رخی کی کوئی جھلک ہی نہیں۔۔


نداحل بہت متحیر تھی۔۔


تقی اس کی حیرت نوٹ کر چکا تھا پر ابھی وہ اپنی اس اچانک تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا۔


"ناشتہ کیا تم نے۔۔؟؟" اس نے بالکل عام لہجے میں پوچھا۔


نداحل نے نفی میں سر ہلایا۔


"چلو آؤ میرے ساتھ کرلو۔۔ پھر اکھٹے چلیں گے یونیورسٹی۔۔!!" تقی نے مسکراتے ہوئے آفر کی۔۔


نداحل کو۔۔ اس کی یہ اچانک تبدیلی بالکل ہضم نہیں ہورہی تھی۔


پر پھر بھی وہ چپ چاپ۔۔ اس کی پیروی کرتی ناشتے کی ٹیبل تک گئی،


ناشتے کے کے کے کے کے دوران نداحل کا سارا دھیان تقی کی طرف رہا۔۔ وہ بہت پزل ہو چکی تھی۔۔


آخر کیوں وہ پھر ایک دم سے اتنا اچھا بن گیا تھا۔۔!!


یہ ساری باتیں ایک طرف پر اسے تقی کی طبیعت بھی کچھ بوجھل بوجھل سی لگ رہی تھی۔۔جیسے وہ رات بھر سو نہ سکا ہو۔۔ جیسے اس نے کافی وقت کی ذہنی الجھن سے لڑتے لڑتے گزارا ہو۔۔!!


آخر کیا تھا یہ سب۔۔؟؟ نداحل بالکل نہیں سمجھ پائی۔

×××××


نداحل کا اندازہ بالکل درست تھا۔


تقی واقعی گزشتہ رات سو نہیں پایا تھا۔


اس نے پوری رات الجھن میں ہی تو ہی گزاری تھی۔۔


اسے بےچینی تھی کہ آخر وہ کس راستے کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔

اسے نداحل کی کنڈیشن کا بھی اچھے سے اندازہ ہوا کہ وہ بےچاری دل کے ہاتھوں بہت مجبور ہوکر۔۔ اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھی تھی۔۔


پر تقی کو ایسا نہیں کرنا تھا۔۔

نداحل تو چھوٹی تھی۔۔immature تھی۔۔ اس لیے اس نے بے وقوفی کرلی۔۔


لیکن تقی بچہ نہیں تھا۔۔


بلکہ وہ تو بچوں والا تھا۔۔


وہ یہ بات سمجھتا تھا کہ اس کی فیملی۔۔


اس کی نئی نویلی محبت سے بڑھ کر ہے۔۔ اس لیے اسے خود کو سنبھالنا تھا۔۔


اسے اپنے جذبات قابو کرنے تھے۔۔


اسے اب گلٹ بھی محسوس ہورہا تھا۔۔ کہ اس نے نداحل کو تھپڑ مار کر زیادتی کی تھی۔۔


اور پھر اپنے کل کے کہے فضول الفاظ۔۔ جو تقریباً نداحل کی کردار شکنی کرنے کا کام کر گئے تھے۔۔


تقی بہت ندامت محسوس کرنے لگا تھا۔۔


اس نے سوچا کہ اگر وہ اتنی بدتمیزی کی بجائے اسے آرام اور تحمل سے منع کردیتا۔۔ اور اچھا برا اس پر واضح کردیتا تو۔۔ نداحل کو بھی اتنی شرمندگی کا سامنا نہیں ہوتا۔۔


پر سمجھانا تو دور کی بات۔۔ تقی نے تو اس کی معافی تک بھی ایکسیپٹ نہیں کی تھی۔۔


اور اس کے جس اظہار محبت پر۔۔وہ اتنی گری ہوئی باتیں سناتا رہا تھا۔۔۔ اب وہی محبت اس کے حواسوں پر غالب آ رہی تھی۔۔۔


یا شاید یہ نداحل کی محبت کی طاقت تھی۔۔ جس نے تقی کو اپنی طرف مائل کرلیا۔۔


پر اب اسے کوئی تدارک کرنا تھا۔۔


کوئی تجویز سوچنی تھی۔۔


کوئی تدبیر کرنی تھی۔۔


تاکہ وہ خود کو اس محبت کے غلبے سے بچا سکے۔۔ تاکہ اس کی اور نداحل کی زندگی کا امن اور سکون قائم رہے۔۔


ایک ایک کر کے۔۔وہ رات کے سارے پہر ۔۔ اپنی ان سوچوں کی نظر کرتا رہا۔۔اس نے سونے کی کوشش تک نہیں کی۔۔۔ اور نہ ہی وہ سو سکا تھا۔

×××××


ناشتے کے بعد۔۔نداحل اپنی چیزیں اٹھا کر۔۔


تقی کی ہدایت کے مطابق اس کی کار میں آکر بیٹھی تھی۔۔


دو منٹ بعد وہ بھی آ کر بیٹھا۔۔اور کار اسٹارٹ کی۔۔


اسے ڈرائیونگ کرتے پانچ منٹ ہوچکے تھے۔۔ پر ابھی تک وہ کچھ بولا نہیں۔۔


سو نداحل نے ہی بات شروع کی۔۔


"تقی بھائی۔۔ آپ کو کیا ہوا ہے اچانک۔۔؟؟

آئی مین۔۔ آپ پھر سے پہلے جیسا کیوں ری ایکٹ کررہے ہیں۔۔؟؟

میرا مطلب تھا کہ آپ نے تو میری apology قبول ہی نہیں کی تھی۔۔

تو پھر۔۔۔ آپ کا ایسا behavior مجھے کچھ خاص سمجھ نہیں آ رہا۔۔"

نداحل اپنی گود میں رکھے بیگ کو گھورتی۔۔ بہت کنفیوزڈ سی حالت میں تقی سے پوچھ رہی تھی۔


تقی اس کے سوال پر مسکرایا اور تھوڑا خجل بھی ہوا۔۔


"وہ ایکچولی۔۔ نداحل میں نے realize کیا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی برا پیش آیا تھا تم سے۔۔ apology کی ضرورت تمہیں نہیں مجھے ہے۔۔"

🖤💜🖤💜🖤

وہ ایکچولی۔۔ نداحل میں نے realize کیا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی برا پیش آیا تھا تم سے۔۔ apology کی ضرورت تمہیں نہیں مجھے ہے۔۔"


"ارے نہیں۔۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔۔!! ایسا بول کر پلیز مجھے مزید شرمندہ مت کریں۔۔ میری غلطی تھی۔۔ اور میں اس کے لیے آپ سے دوبارہ معافی مانگتی ہوں۔۔" نداحل نے ندامت بھرے لہجے میں کہا۔


"نداحل۔۔!! چھوڑ دو اس بات کو۔۔ یقین مانو!!

اب تمہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔

جو ہوا۔۔ جو کیا۔۔!! وہ سب بھلا دو۔۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔۔!!

میں بھی سب کچھ بھلانے کی کوشش کروں گا!!"

تقی نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔

جیسے وہ اپنے دل کی بغاوتیں چھپانے کی کوشش کررہا ہو۔


نداحل کی تو خوشی کی انتہا نہیں تھی۔۔

تقی کی باتوں کا مطلب تھا کہ وہ اسے معاف کرچکا ہے۔۔!!

وہ اب ناراض بھی نہیں تھا۔۔

نداحل کے دل سے تو جیسے کوئی بہت ہی بھاری بوجھ اتر گیا تھا۔


"Thanks a lot, Taqi bhaiee

Thank you sooo much,

آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ نے کتنی بڑی ٹینشن میرے سر سے دور کردی۔۔" نداحل نے چہکتے ہوئے کہا۔


"تمہیں تھینکس بولنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔

کیونکہ میرا فرض بنتا تھا کہ اگر تم نے کوئی غلط بات کر بھی دی تھی تو مجھے سمجھانا چائیے تھا۔۔

اینڈ آئی نو۔۔ کہ تم خود کبھی بھی ایسی جرات نہ کرتیں۔۔

I guess...

تمہیں کسی نے ضرور۔۔۔ miss گائیڈ کیا ہوگیا۔۔

لیکن اب چھوڑو ان باتوں کو۔۔"تقی کا لب و لہجہ بہت mysterious سا تھا۔


نداحل کو تقی میں ایک الگ قسم کی۔۔ انجانانی سی تبدیلی محسوس ہورہی تھی۔۔


پر ابھی وہ یہ سب سوچ کر اپنا دماغ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔


ابھی تو اسے سیلبریٹ کرنا تھا۔۔


تقی اس سے راضی ہوگیا تھا۔۔ یہ بات اس کی خوشی بہت تھی۔


×××


وہ لوگ یونیورسٹی پہنچ چکے تھے۔


تقی اپنی کار پارک کر کے، کار سے باہر نکلا تو۔۔

ملک عمیر جیسے اس کے اور نداحل کے انتظار میں ہی اپنی جیپ سے پشت ٹکائے کھڑا تھا۔۔


اسے دیکھ کر تقی کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔


آج سے پہلے تو اس نے، اس وقت۔۔ یعنی اتنی صبح اس عمیر کو یونیورسٹی میں نہیں دیکھا تھا۔


وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔


پر برا ہو اس کی قسمت کا۔۔

وہ تو جیسے اس کا دل جلانے کو ام دونوں کے استقبال کے لیے ہی کھڑا تھا۔۔


"ارے۔۔۔ تقی صاحب کہاں جا رہے ہیں۔۔ بندہ سلام دعا ہی کر لیتا ہے۔۔!!" عمیر نے بڑی عیاری سے ان کا راستہ روکا۔


تقی کو مجبوراً رکنا پڑا۔۔


"خیر ہے۔۔؟؟ آج آپ یہاں کیسے۔۔؟" تقی نے بظاہر خوش مزاجی اور تحمل سے پوچھا۔۔


لیکن اندر سے وہ بری طرح کھول رہا تھا۔۔


"ہاں۔۔وہ بس میں ارسلان کو ڈراپ کرنے آیا تھا۔۔" عمیر نے اپنے چھوٹے بھائی کا نام لیتے ہوئے سادگی سے جواب دیا۔


عمیر کی شوق بھری نظریں۔۔ مسلسل نداحل کے حسین چہرے کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں۔


اور یہ بات تقی کو ہضم ہی نہیں ہو کے دے رہی تھی۔


وہ مٹھیوں بھینچے ، غصہ ضبط کیے عمیر کو گھور رہا تھا۔۔


پر وہ بھی کوئی اونچے لیول کا ڈھیٹ تھا۔۔


تقی کی گھوریوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔


الٹا۔۔عمیر، تقی کو چھوڑ کر۔۔ نداحل سے باتوں میں مشغول ہوگیا۔


نداحل، تقی کے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی۔۔ اور وہ بھی عمیر سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔


پر عمیر کی سحر انگیز شخصیت۔۔ اس کی باتیں۔۔ نداحل کو اس کی طرف راغب کررہی تھیں۔۔


اور وہ چاہ کر بھی ، اس کے ساتھ سلسلۂ کلام توڑ نہیں پائی۔۔

××××


تقی کا تو آج سارا موڈ ہی خراب ہوکر رہ گیا تھا۔۔


اس کی اچھی خاصی ٹھنڈی طبیعت کو آگ بگولا کر گیا تھا وہ۔۔


وہ اتنا sensitive نہیں تھا۔۔ نہ ہونا چاہتا تھا۔۔ مگر پھر بھی۔۔

وہ نداحل کے case میں حد سے زیادہ حساس ہورہا تھا۔۔


اور یہ اس کے لیے بلکل کوئی خوش آئند بات نہیں تھی۔


وہ اپنی اس محبت سے جتنا دور بھاگنا چاہ رہا تھا۔۔

وہ اتنا ہی اسے اپنے بس میں کر رہی تھی۔

×××

وہ اپنی اس محبت سے جتنا دور بھاگنا چاہ رہا تھا۔۔

وہ اتنا ہی اسے اپنے بس میں کر رہی تھی۔

×××


تقی سارا دن گھر میں خاموش خاموش سا رہا۔


وہ کسی بھی کام میں دلچسپی نہیں لے پا رہا تھا۔۔۔


آمنہ نے کئی بار پوچھا بھی۔۔ مگر وہ ٹال گیا۔۔


تقی کے والدین کو بھی اس کا بدلا، الجھا اور پریشان رویہ تشویش میں مبتلا کررہا تھا۔۔


انہوں نے بھی استفسار کیا۔۔ مگر تقی نے یہاں بھی بات گول کردی۔


اب وہ کیا بتاتا کہ کس مشکل سے دوچار ہے وہ۔۔


دل کی ڈوبتی حالت اس کے بس سے باہر ہوتی جارہی تھی۔۔


اور خود کو لاکھ روکنے کے باوجود بھی۔۔


دل تھا کہ محبت کی شدتوں میں اضافہ ہی کرتا گیا۔


اس کے دونوں چھوٹے بھائی بھی اس کی اس عجیب کنڈیشن کو لے کر متجسس تھے۔۔


وہ سب کے لاکھ پوچھنے پر بھی۔۔ اپنی اس حالت سے مکرتا گیا۔


وہ ان میں سے کسی کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔


اسے تو اپنے آپ سے ہی شرم آنے لگی تھی۔۔


اپنے آپ سے چودہ سال، عمر میں چھوٹی لڑکی سے محبت۔۔ اس کے لیے باعث شرمندگی تھا۔۔


پر وہ کیا کرتا۔۔


محبت بھلا کب عمروں کا لحاظ کرتی ہے۔۔


محبت کو بھلا کیا پرواہ کہ تقی بیوی، بچوں والا ، چونتیس سالہ مرد ہے۔۔اور نداحل۔۔ صرف انیس سال کی نازک سی لڑکی۔۔ جو دیکھنے میں تو تقریباً بچی ہی لگتی ہے۔


تقی کا دل بری طرح ڈوب رہا تھا۔۔


اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ اپنی اتنی پیاری سی فیملی کے ہوتے ہوئے۔۔ کسی اور کے عشق میں مبتلا ہو جائے گا۔۔


اس کے لیے سکون کا سانس لینا محال ہوگیا تھا۔۔


وہ سب سے نظریں بچائے چھت پر گیا۔۔


رات کا وقت تھا۔۔ اور موسم کی خوشگواری کے باعث ، بہت مزے کی ہوا چل رہی تھی۔۔


یہاں آنے سے تقی کی طبیعت پر کافی اچھا اثر پڑا تھا۔۔


وہ وہیں اپنے موبائل میں سونگ سیٹ کرکے۔۔

کانوں میں ہینڈ فری لگائے، اس سے لطف اندوز ہونے لگا تھا۔۔


اس نے موبائل اپنی جینز کی پاکٹ میں ڈالا۔۔


ہینڈ فری کی وائر لمبی ہونے کی وجہ سے اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔۔


اب وہ سونگ کے لیرکس پر سارا دھیان لگائے۔۔

بہت انہماک سے گانا سننے میں مصروف تھا۔۔


ساتھ میں اس کی چہل قدمی بھی جاری تھی۔۔

اور سگریٹ کا تو وہ ویسے ہی شوقین تھا۔۔سو اس نے ، اس کا اہتمام بھی ضروری سمجھا۔۔


گانے کے بول، اس کے دل و دماغ میں، ایک عجیب سی سرشاری گھول رہے تھے۔۔


تیرے بن جینا ہے ایسے،

❤️ دل دھڑکا نہ ہو جیسے۔۔


یہ عشق ہے کیا۔۔۔ دنیا کو!!

ہم سمجھائیں کیسے۔۔


آ۔۔۔۔ دلوں کی راہوں میں۔۔!!

ہم کچھ ایسا کر جائیں..


اک دوجے سے بچھڑیں تو۔۔

سانس لیے بن مر جائیں۔۔۔


او۔۔۔۔ خدا۔۔!!

بتادے کیا لکیروں میں لکھا؟؟

ہم نے تو۔۔۔۔!! ہم نے تو بس عشق ہے کیا۔۔!!

او۔۔۔ خدا۔۔!!

بتادے کیا لکیروں میں لکھا؟؟

ہم نے تو۔۔۔۔!! ہم نے تو بس عشق ہے کیا۔۔!!


⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩


اسے احساس ہی نہیں ہوا۔۔ کہ وہ کتنی دفع repeat کرکے سنتا گیا۔۔ نہ وقت گزرنے کا پتہ چلا۔۔ اور نہ ہی کوئی ارد گرد کی خبر تھی اسے۔۔


وہ نیم مدہوشی کی حالت میں۔۔

خود سے کیے سارے وعدے توڑ کر۔۔

خود پر قابو پانے کی ساری کوششیں ایک طرف رکھ کر۔۔

بس سحر زدہ سا ٹہلتا رہا۔۔



آج وہ اتنا کھویا ہوا تھا کہ۔۔

اگر آمنہ اسے بلانے نہ آتی۔۔

تو وہ شاید۔۔ آج کی ساری رات اپنی اس کیفیت کے نام کردیتا۔۔۔


××××


تقی نے اپنے جذبے کی بڑھتی شدت کے پیشِ نظر۔۔ نداحل سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا۔۔


دن پر دن گزرتے گئے اور تقی کی حالت میں اضطراب میں بھی اضافہ ہی ہوتا گیا۔۔


نداحل، سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اب تو وہ اسے معاف کرچکا تھس۔

تو پھر بھلا کیوں وہ اب اس سے کھینچا کھینچا رہتا ہے۔۔


اب نداحل کو کیا معلوم کہ جس شخص محبت سے وہ کنارہ کر چکی تھی۔۔

اپنے معصوم دل کو بہلا چکی تھی۔۔


وہی اس کی چاہت میں پاگل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔

اسے خوف آنے لگا تھا۔۔ نداحل سے۔۔ اپنی محبت سے۔۔


اب وہ کہیں سے بھی پہلے والا ہنس مکھ تقی نہیں رہا تھا۔۔


وہ دیکھنے میں کوئی نفسیاتی مریض لگنے لگا تھا۔۔


گھر والے علیحدہ ہی فکرمند تھے اس کے لیے۔۔


پر وہ تو جیسے اپنے سب ہوش و حواس ہی کھو چکا تھا۔۔


اسے یاد رہتی تھی تو صرف نداحل۔۔


وہ اپنی فیملی کو بھی اگنور کرنے لگا تھا۔۔

اس لیے آمنہ بھی کچھ خفا سی ہوگئی تھی۔۔


ایک اور چیز تھی۔۔ جو تقی کا دماغ خراب کئے رکھتی تھی۔۔


اور وہ تھی۔۔ ملک عمیر کی نداحل میں دلچسپی۔۔


اس دن کے بعد سے۔۔ عمیر ہر تیسرے دن ، اس کے اور نداحل کے آنے سے پہلے یونیورسٹی میں موجود ہوتا۔۔

اور ان کا راستہ روک کر۔۔

سلام دعا کے بہانے نداحل کو باتوں میں لگا لیتا۔۔


نداحل لاکھ بچ نکلنے کی کوشش کرتی ۔۔ پر وہ اس باتوں کے کھلاڑی کے آگے جیت نہیں پاتی تھی۔۔


تقی کی ہمت۔۔ عمیر کی حرکتیں سہنے سے قاصر تھی۔۔


سو جس دن بھی ۔۔ عمیر سے اس کا سامنا ہوتا۔۔ وہ دن کوئی اخیر۔۔ برا گزرتا۔۔


ان سب چکروں میں تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔۔۔

اور وہ اس ایک مہینے میں ایک اچھے بھلے، آدمی سے اجڑے عاشق بن گیا تھا۔۔


اب تو اس کے بھائی بھی اسے چھیڑنے لگے تھے۔۔

اور آمنہ کو بھی تقی کی اس حالت کے پیچھے چھپی وجہ کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔


پر وہ کیا کرتا۔۔ وہ اپنی حالت قابو کرنے کے قابل نہیں تھا۔۔ اس سے یہ ہوتا ہی نہیں تھا۔۔


×××


تقی اور نداحل کی۔۔ آج ہی ایک بار پھر ملک عمیر سے ملاقات ہوئی تھی۔۔


اس کا موڈ اس وجہ سے خراب تھا۔۔


اور وہ سڑا ہوا منہ لے کر گھر میں گھوم رہا تھا کہ ڈرائنگ روم کے سامنے سے گزرنے پر۔۔اسکی ہوائیاں ہی اڑ گئیں۔۔

وہاں کوئی اور نہیں۔۔ بلکہ ملک عمیر بیٹھا تھا۔۔ اور اس کے ساتھ وہ شائستہ سی۔۔ سادہ سی بزرگ خاتون۔۔شاید اس کی ماں تھیں۔۔

تقی کو اس کی موجودگی پر بری طرح شاک لگا تھا۔

×××××××××

تقی کو اس کی موجودگی پر بری طرح شاک لگا تھا۔


وہ اپنی حیرت اور تجسّس برقرار رکھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔۔


سب کو سلام کیا اور وہیں بیٹھ گیا۔۔


وہ اس کے امی ابو۔۔ چچا اور انیلہ چچی بھی موجود تھیں۔۔


ایک۔۔ نہایت ہی اچھے ماحول میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔۔


پر تقی کو یہ ماحول بالکل اچھا نہیں لگا۔۔ اسے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا۔۔


اس نے شدت سے دعا کی کہ وہ جو سوچ رہا ہے۔۔اللّٰه کرے غلط ہو۔۔


پر اس کی سوچ اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔۔


وہ ماں بیٹے نداحل کے رشتے کے لیے آئے تھے۔۔


اور نداحل کی امی تو ان لوگوں سے خاصہ مرعوب بھی ہو چکی تھیں۔۔


اس میں ہمت نہیں تھی اب مزید یہاں بیٹھنے کی۔۔


اس لیے وہ سب سے ایکسکیوز کرتا اور ایک کڑوی سی نظر اس عمیر پر ڈالتا باہر نکل آیا۔۔


وہ باہر نکلا۔۔ تو نداحل آمنہ کے ساتھ۔۔ لوازمات سے بھری ٹرالی۔۔۔ بڑی خاموشی سے گھسیٹتی ہوئی لا رہی تھی۔۔


تقی نے اس کے چہرے پر ایک کھوئی ہوئی سی نظر ڈالی۔۔ جو آمنہ بھی نوٹ کر چکی تھی۔۔اور وہ وہاں سے چلا گیا۔۔


××××


آمنہ۔۔ نداحل کو ڈرائنگ روم تک لائی۔۔۔۔


وہ خود وہاں سے زیادہ دیر نہیں بیٹھی۔۔


کیوں کہ اسے تقی سے بات کرنی تھی۔۔


اس کے بدلے رویے کا سبب معلوم کرنا تھا۔۔


اور پتہ نہیں کیوں۔۔ مگر وہ یہ کام فوراً کرنا چاہتی تھی۔۔


انیلا بیگم کے دائیں طرف بیٹھی نداحل۔۔ مسلسل عمیر کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے تھی۔۔


وہ سب لوگوں کے سامنے یہ تاڑنے والی حرکتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ پر برا ہو۔۔ نداحل کی مقناطیسی خوبصورتی کا۔۔


جو ملک عمیر کو چین ہی نہیں لینے دے رہی تھی۔۔


سب گھر والے عمیر کی پرسنیلٹی سے بہت متاثر ہوئے۔۔


نداحل کے تایا اور دادا کو۔۔ عمیر کے سیاست میں ملوث ہونے سے مسئلہ تھا۔۔


لیکن وہ مسئلہ بھی عمیر سے چند منٹ کی گفتگو میں ختم ہوگیا۔۔


اس کا بات کرنے کا انداز۔۔ لفظوں کا چناؤ ، ان کی ادائیگی، سب بہت دلکش اور گرویدہ بنا لینے والا تھا۔۔


نداحل۔۔ان سب کے درمیان بیٹھی۔۔ خاصی الجھن محسوس کررہی تھی۔۔


کیونکہ اسے عمیر سے ایسی پیش قدمی کی امید نہیں تھی۔۔


پر اس نے سوچا کہ وہ ان کے جاتے ہی اپنی ماما کو بول دے گی کہ اسے عمیر سے شادی نہیں کرنی۔۔


لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ اس کا ارادہ کتنا کمزور ہے۔۔

وہ بالکل ایسا نہیں کر پائے گی۔۔


کیونکہ انجانے میں۔۔ وہ عمیر کی سحر انگیز شخصیت کی طرف مائل ہوچکی تھی۔۔


عمیر کی پرسنیلٹی کا جادو۔۔ اس کے دل سے تقی کی محبت کے نقوش کو ہلکا کرنے لگا تھا۔۔


وہ تقی کی محبت بھولنے لگی تھی۔۔

پر اسے کیا پتہ تھا۔۔!!


تقی اور نداحل کی قسمت کتنے عجیب دوراہے پر لے آئی تھی ان کو۔۔


یہاں تقی ناچاہتے ہوئے بھی۔۔

خود کو نداحل کے عشق میں جھونکتا جارہا تھا اور وہاں نداحل۔۔!! اس کی محبت بھولنے لگی تھی۔۔


یا شاید اسے تقی سے محبت تھی ہی نہیں۔۔

وہ تو وقتی اٹریکشن تھی۔۔ جو صرف اور صرف تقی کی سویٹ پرسنیلٹی کا نتیجہ تھا۔۔۔


باقی اس اٹریکشن کو محبت کا نام دینے کی غلطی۔۔ اس نے اپنی دوستوں کی صحبت کا اثر قبول کرتے ہوئے کی تھی۔۔


ان کی روز روز کی پیار محبت پر مبنی گفتگو نے نداحل کو تقی کے متعلق ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔۔


مگر وہ اس سے محبت تو نہیں کرتی تھی۔۔



اس نے تو خود ہمیشہ سے ہی یہ سوچا تھا کہ وہ صرف اس شخص کو اپنے یہ جذبے سونپے گی کہ جس سے اس کا نکاح ہوگا۔۔


یہی وجہ تھی کہ وہ تقی سے اظہار محبت کرنے کے بعد بہت گلٹی فیل کرنے لگی تھی۔۔


پر فی الحال تو وہ اسی دھوکے میں تھی کہ اسے تقی سے محبت ہے۔۔ جبکہ اسے ہرگز تقی سے محبت نہیں تھی۔۔


×××××


تقی ڈرائنگ روم سے نکلنے کے بعد سیدھا اپنے روم میں گیا تھا۔۔


آمنہ بھی اس لیے وہیں آچکی تھی۔۔


ایک تو وہ پہلے ہی تقی کی لاپرواہی کی وجہ سے اس سے تھوڑی سی خفا تھی۔۔


اوپر سے تقی نے مزید اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔۔


اور آج اس کا نداحل کو وارفتگی سے دیکھنا۔۔ یہ سب آمنہ کو بری طرح کھل رہا تھا۔۔


امامہ گھر پر نہیں تھی۔۔ وہ اپنے شاہ میر اور منیب انکل۔۔ یعنی تقی کے بھائیوں کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی۔۔


سو آمنہ کے پاس کھل کر بات کرنے کا موقع تھا۔۔


آمنہ تقی کے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھے۔۔ اسے کڑی نظروں سے گھور رہی تھی۔


×××××××××

آمنہ تقی کے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھے۔۔ اسے کڑی نظروں سے گھور رہی تھی۔


"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ۔۔؟؟ میں کافی دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ گھر کے معاملات میں کوئی انٹرسٹ نہیں لے رہے۔۔! بتائیں کیا وجہ ہے؟" آمنہ نے ذرا برہم ہو کر پوچھا۔


"نہیں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔ ورنہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔"

تقی نے نظریں چراتے۔۔

جھوٹ بولنے کی نحیف سی کوشش کی۔۔ جو بالکل کامیاب نہیں ہوئی۔


"تقی۔۔!! دیکھیں اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں۔۔ ہم دونوں مل کر حل نکال لیں گے۔۔ پر آپ کچھ کہیں تو سہی۔۔" آمنہ نے اب اپنا لہجہ اس بار نرم رکھا۔۔


کیوں کہ تقی کی پریشان اور الجھی حالت۔۔ اسے بھی تکلیف دے رہی تھی۔۔


وہ اس کی بیوی تھی۔۔

اسے بے انتہا چاہنے والی بیوی۔۔

بھلا وہ بغیر کوئی وجہ جانے۔۔ ایسے کیسے بگڑ جاتی۔۔!!

اور اسے واقعی تقی کی منتشر سی کیفیت ، تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔


"آمنہ میں نے کہا ناں کہ کوئی بات نہیں ہے۔۔

پلیز مجھے insist مت کرو۔۔" تقی نے اس بار تھوڑا برہمی سے ٹالنا چاہا۔۔


"یار۔۔ کیا آپ بار بار جھوٹ بولے جارہے ہیں۔۔


آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں اندھی ہوں۔۔


کچھ نظر نہیں آتا مجھے۔۔؟؟


تقی۔۔ آپ یہ بےوقوف۔۔ کسی اور کو جا کر بنائیں۔۔


بلکہ مجھے تو کیا۔۔ سب کو ہی نظر آرہا ہے۔۔!!


امی، انیلا آنٹی۔۔ دادا جی۔۔ سب مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ تم دونوں کے درمیان کوئی اختلاف چل رہا ہے۔۔!!


اب انہیں کیا بتاؤں کہ اختلاف نہیں۔۔

بلکہ سراسر اگنور کرنے کی مشقیں کی جارہی ہیں۔۔!!

اب سیدھی طرح بتائیں۔۔ کیا مسئلہ ہے۔۔" آمنہ، تقی کے بار بار کے انکار پر اکتا گئی تھی۔۔

اس لیے اس نے لحاظ بالائے طاق رکھ کر۔۔

سیدھے طریقے سے اپنا موقف بیان کیا۔


آج تو وہ بضد تھی۔۔

کہ ہر حال میں تقی کی اس ڈیپریسڈ سچویشن کے متعلق پتہ کر کے ہی دم لے گی۔


"آمنہ ضد مت کرو۔۔ میں نے جب کہا ہے کوئی بات نہیں ہے تو بس مان لو۔۔ میں مزید کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔۔اب دوبارہ کچھ مت پوچھنا۔۔!!"

تقی کے لہجے میں rudeness در آئی تھی۔


وہ اپنی بات کہتا۔۔وہاں سے اٹھ کر جانے لگا۔


آمنہ تو اس کے اس قدر اکھڑ رویے پر بہت ششدر تھی۔۔


پر فی الحال۔۔ اسے اپنا نہیں بلکہ تقی کا احساس کرنا تھا۔


اس نے تقی کا ہاتھ تھام کر جانے سے روکا۔


وہ اس کے ساتھ ہی اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔


تقی کے چہرے پر بکھری، بدحواسیاں۔۔ اسے بھی مضطرب کر گئیں۔۔


"تقی۔۔ میری طرف دیکھیں۔۔" آمنہ نے پیار سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


"آپ۔۔ آپ کسی سے محبت کرنے لگے ہیں ناں۔۔!

بتائیں یہ سچ ہے۔۔؟؟

دیکھیں۔۔ جب تک آپ بتائیں گے نہیں۔۔ تب تک۔۔ میں آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔۔!" آمنہ نے دل پر پتھر رکھتے۔۔ اپنے اندازوں کو لفظوں کا جامہ پہنا ہی دیا۔


تقی ۔۔اس کے اس قدر accurate تکے پر ، ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔


"تم میں سچ سننے کی ہمت ہے؟؟ آئی۔۔ مین۔۔ یار میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔ تمہیں اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔" تقی نے شکستہ سے لہجے میں کہا۔


"تقی۔۔!! اپ سیٹ تو میں ویسے ہی ہوچکی ہوں۔۔اور رہی بات ہرٹ ہونے کی۔۔ تو ایسا بالکل نہیں ہوگا۔۔!!


آپ کھل کر اپنی بات کہیں۔۔ کم سے کم۔۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو ہی کچھ کہہ دیں۔۔" آمنہ ملتجی سی ہوکر کہنے لگی۔۔


"یار۔۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے میرے ساتھ۔۔ میرا یقین کرو۔۔ میں ایسا بالکل نہیں چاہتا تھا۔۔!! میں نے خود کو بہت روکا۔۔

But I failed,

I couldn't stop me from falling in love with her..

میں نہیں روک پایا خود کو۔۔"

تقی اب دوبارہ سے بیڈ کی سائیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھا تھا۔۔

اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔

کیونکہ وہ رونے لگا تھا۔۔

اور نہیں چاہتا تھا کہ آمنہ اس کے آنسو دیکھے۔۔

اسے پرواہ تو آمنہ کی بھی بہت تھی۔۔

وہ اس کی اپنے لیے محبت سے بخوبی واقف تھا۔۔

پر وہ کیا کرتا۔۔ نداحل کی محبت نے اسے بری طرح توڑا تھا۔۔


آمنہ کا دل کٹا تھا۔۔


پر اس نے ہمت کی۔۔اور لمبا سانس کھینچتے ہوئے پوچھا۔۔ "اوکے۔۔ اب بتائیں۔۔ میں کیا ہیلپ کروں۔۔؟؟

اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔،"


تقی نے اس کی اعلیٰ ظرفی پر حیران ہو کر دیکھا۔۔


"کیا مطلب۔۔؟؟ تمہیں برا نہیں لگا؟؟"


"نہیں۔۔ برا لگنے والی کونسی بات ہے اس میں؟؟

میں جانتی ہوں ۔۔

محبت پر کوئی اختیار تھوڑی ہوتا ہے انسان کا۔۔

آپ بس بتائیں۔۔

میں آپ کی کیا مدد کروں۔۔" آمنہ نے بظاہر۔۔ پر سکون ہو کر۔۔ آرام سے کہا تھا۔۔


اس کے اندر کیا ہلچل ہوئی تھی۔۔ کیا درد اٹھا تھا۔۔۔ وہ یہ سب چھپا گئی۔۔


بہت اعلیٰ ظرف تھی ناں وہ۔۔

اور تقی سے سچی محبت کرتی تھی۔۔


وہ ایک اچھی بیوی تھی۔۔ جس کا مقصد۔۔ ہر حال میں شوہر کو سپورٹ کرنا تھا۔۔ اس کی خوشی کو اپنی اولین ترجیح بنانا تھا۔۔


"نہیں۔۔ آمنہ۔۔ بہت شکریہ۔۔

تم نے اتنی بڑی بات کہ کر۔۔ مجھے سہارا دیا۔۔

لیکن اس معاملے میں تم میری کوئی ہیلب نہیں کر سکتیں۔۔

انفیکٹ۔۔ میں بھی کسی شادی وادی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔

کیونکہ تم اور امامہ میری فیملی۔۔ میری فرسٹ priority ہو۔۔

میں کوئی شادی نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔۔" اس کے چہرے پر آمنہ کے لیے ستائش۔۔ تشکر۔۔ اور اسکی اپنی بے بسی کے آثار صاف نمایاں تھے۔


"تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں۔۔؟؟

اور میں آپ کو بتادوں کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔۔

تقی۔۔ میں آپ کو دیکھ رہی ہوں۔۔ پر یقین کریں۔۔ آپ کی یہ بے قراری۔۔ آپ کا مجھے اور امامہ پر۔۔ اپنی اس الجھن کی وجہ سے توجہ نہ دینا۔۔

یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔

آپ بس اس لڑکی کا نام بتائیں۔۔

میں خود کچھ کرلوں گی۔۔" آمنہ کا لفظ لفظ، تقی کی محبت میں گھلا ہوا تھا۔

وہ تقی کو راحت پہنچانے کے لیے۔۔ اس کی بے چینی ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔

🖤💜🖤

وہ تقی کو راحت پہنچانے کے لیے۔۔ اس کی بے چینی ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔


"بس کرو آمنہ۔۔ یہ فضول باتیں بند کرو۔۔

کس مٹی کی بنی ہو تم۔۔؟؟ شوہر کی دوسری شادی کرانے پر تلی ہوئی ہو۔۔!!" تقی اس کے اس قدر اصرار پر۔۔ خلوص پر جھنجھلا گیا تھا۔۔


اس کی بے پناہ محبت کے آگے اسے اپنا آپ مجرم محسوس ہوا۔


"یار میں کیا کروں۔۔؟؟

مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟؟

مجھ سے آپ کی اذیت نہیں دیکھی جاتی۔۔

آپ کا اگنور کرنا برداشت نہیں ہوتا۔۔"

آمنہ دھیرے دھیرے ضبط کھونے لگی تھی۔۔

اس کی آنکھوں میں پانی جمع ہورہا تھا۔۔


"آمنہ listen

Don't cry

پلیز مت رو" تقی نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر بہتے آنسو صاف کیے۔


"آمنہ۔۔ دیکھو۔۔ میں کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔

صرف اور صرف تم میری بیوی ہو اور رہو گی۔۔

ان فیکٹ میں دوسری شادی تو کر ہی نہیں سکتا۔۔

بس تم سے اتنی درخواست ہے کہ میری ہیلپ کرو۔۔ اس phase نکلنے میں میرا ساتھ دو۔۔

اور اب دوبارہ شادی کی کوئی بات نہیں کرنا۔۔

میں کسی صورت نداحل سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔"

تقی اسے واضح طور پر ،سب کلیئر کر گیا۔۔


اس نے آمنہ سے کچھ نہیں چھپایا۔۔


اور چھپاتا بھی کیوں۔۔؟؟

اسے معلوم تھا۔۔ کہ ایک وہ ہی تو ہے۔۔ جس کے سامنے اپنا حالِ دل کہہ کر۔۔اسے قرار مل سکتا ہے۔۔


آمنہ سے سب شئیر کر کے۔۔ اس کے دل سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا تھا۔


جب کہ آمنہ۔۔ نداحل کا نام سننے پر گنگ سی ہوگئی تھی۔


اب واقعی اس میں سکت نہیں تھی کہ وہ اسے دوبارہ انسسٹ کرے۔۔


اسے خوشی ہوئی کہ تقی ہر حال میں۔۔۔ صرف اور صرف اس کے ساتھ sincere ہے۔


پر اب وہ مزید کچھ کہنا سننا نہیں چاہتی تھی۔۔

کیوں کہ تقی کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اسے اس وقت تنہائی کی سخت ضرورت ہے۔۔


سو اس لیے وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر۔۔ خود باہر چلی آئی۔

××××


عمیر اور اس کی والدہ جب چلے گئے تو نداحل اپنے روم میں آئی۔۔


اسے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔۔


وہ عمیر کے لیے صاف انکار کرنا چاہ رہی تھی۔۔


پر پتہ نہیں کیا چیز تھی کہ جس نے اس سے انکار کی ہمت چھین چکی تھی۔


اسے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔

بار بار تقی کی شکل آنکھوں کے سامنے آرہی تھی۔۔


گزرے دنوں میں تقی کا رویہ۔۔ اس کا احتراز برتنا۔۔سب اسے بےچین کر رہا تھا۔


تقی کا دیکھنے کا انداز۔۔ وہ ڈرائنگ روم سے نکلتے ہوئے۔۔ اس نداحل کے چہرے پر، کھوئی کھوئی سی نظر ڈالنا۔۔ نداحل کو بے چین کرگیا تھا۔۔


وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی۔


پر خیر۔۔ فی الحال کوئی ایسا فیصلہ لینے کی کوئی خاص نوبت نہیں آئی تھی کیوں کہ نداحل کے پیرینٹس نے ابھی ہاں نہیں کی تھی۔۔ انہوں نے وقت مانگا تھا۔


یہ بات سوچ کر۔۔ نداحل کی کچھ ٹینشن کم ہوئی۔۔


وہ یوں ہی کمرے میں ٹہلتی ٹہلتی اکتا چکی تھی۔۔


اس لیے ، اس نے ڈریس چینج کیا۔۔ وضو کیا اور عصر کی مغرب کی نماز پڑھی۔۔۔ جو تقریباً قضا ہونے ہی والی تھی۔


نماز پڑھ کر باہر لان میں آئی تو۔۔

وہاں شاہ میر اور منیب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔ اور ساتھ میں امامہ کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔۔


نداحل کو انہیں وہاں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔


عموماً۔۔ وہ دونوں ہی اسے گھر میں کہیں نظر نہیں آتے۔۔ کیوں کہ ایک تو ان کی نائن ٹو فائیو جابز۔۔ پھر آفس سے آنے کے کچھ دیر بعد دوستوں کے ساتھ باہر نکل جانے کی وجہ سے۔۔ نداحل کا ان سے ، سامنا ہی نہیں ہوتا تھا۔۔


یہی وجہ تھی کہ وہ ان سے تھوڑی سی بھی فرینک نہیں تھی اور نہ ہی اسے ان دنوں کی نیچر کا پتہ تھا۔


ویسے نیچر کے حوالے سے وہ دونوں تقی کے برعکس تھے۔۔۔

شاہ میر جو کہ تقی سے چار سال چھوٹا تھا۔۔ وہ اس کی نسبت بے حد سنجیدہ اور reserved انسان تھا۔۔

اپنے کام سے کام رکھنے والا۔۔

اور منیب۔۔ جو شاہ میر سے دو سال چھوٹا تھا۔۔وہ تو سنجیدگی میں شاہ میر کا بھی باپ تھا۔


یہ دونوں نداحل کے اندازے تھے۔۔ ورنہ ابھی تک اسے ان دونوں کے متعلق بالکل کچھ نہیں پتہ۔


نداحل نے اب تک ۔۔ ان دونوں کو۔۔ امامہ کے علاؤہ کسی کے ساتھ ہنستے ہوئے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔


اس لیے وہ۔۔جھجھک کے مارے دور کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ واپس مڑ کر جانے ہی لگی تھی کہ شاہ میر نے اسے آواز دے کر روکا۔


"کہاں جائیں رہی ہو بھئی؟؟

ہم بھی تمہارے کزن ہیں۔۔

غلطی سے آج گھر پر ہیں۔۔

تھوڑی کمپنی ہمیں بھی دے دو۔۔"


اسے شاہ میر سے اتنی خوش مزاجی کی امید نہیں تھی۔۔

دیکھنے میں وہ اسے کھڑوس لگتا تھا۔۔


وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔۔


"ارے امامہ۔۔ اپنی پھوپھو کو بلاؤ۔۔

دیکھو انہیں۔۔ ایسے دیکھ رہی ہیں ، جیسے ہم کھا جائیں گے انہیں۔۔ " منیب نے قہقہہ لگایا۔


"پھپھو آئیں ناں۔۔ ہم سب مل کر اکڑ بکڑ کھیلتے ہیں۔۔

اور آپ ڈریں نہیں۔۔ میرے چاچو نہیں کھاتے کسی کو کبھی۔۔ آپ کو پتہ ہے یہ دونوں تو میرے بابا سے بھی زیادہ سویٹ ہیں۔۔" امامہ بھاگ کر نداحل تک گئی تھی۔۔


اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں تک لائی۔۔ اور لاتے ہوئے ہی معصومیت سے اپنے چچاؤں کی صفات بیان کیں۔


اس کے انداز پر نداحل کو ہنسی آئی تھی۔


خیر اب وہ چاروں اکھٹے بیٹھے اکڑ بکڑ کھیلنے لگے۔۔


شاہ میر اور منیب ساتھ ساتھ اس سے باتیں بھی کررہے تھے۔


نداحل تھوڑی دیر تو ان کمفرٹیبل رہی۔۔ لیکن پھر۔۔وہ بھی ان کے ساتھ گھل مل گئی۔۔


اب وہ دونوں کے ساتھ گفتگو میں بھرپور حصہ لے رہی تھی۔۔


اور اس کے انٹرسٹ لینے کی دیر تھی۔۔


شاہ میر اتنی جلدی، نا محسوس انداز میں، اس کی

طرف اٹریکٹ ہونے لگا تھا۔۔


بات بات پر نداحل کی جاندار مسکراہٹ۔۔


اس کا طلسمی حسن۔۔


خوبصورت طرز کلام۔۔


اور ہر بات میں نداحل کی جھلکتی ذہانت ۔۔سب اسے نداحل کا اسیر کررہی تھی۔


وہ اس کی کمپنی میں اچانک بہت خوشی محسوس کرنے لگا تھا۔


×××××××××

وہ اس کی کمپنی میں اچانک بہت خوشی محسوس کرنے لگا تھا۔

××××

نداحل کے پیرینٹس نے ابھی عمیر کے پروپوزل کے لیے رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔۔


پر وہ جلد ہی یہ کرنے والے تھے۔۔


بس ایک دفع نداحل کی مرضی جان کر اور عمیر کی تھوڑی چھان بین کروانی تھی۔۔


باقی انہیں یہ رشتہ بالکل معقول لگا تھا۔۔۔


××××


شام کا وقت کا وقت تھا۔۔


سب گھر والے، لان میں محفل جمائے ،شام کی چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے،


نداحل اپنے روم سے نکلی ہی تھی کہ وہاں سامنے سے آتی ، آمنہ اسے ہاتھ پکڑ کر واپس روم میں لے آئی۔


وہ دراصل باہر سب کی گفتگو سن کر آ رہی تھی جو نداحل کے رشتے کے متعلق ہی تھی۔


اس سلسلے میں اسے کچھ ضروری بات کرنی تھی،

بلکہ نداحل سے ریکوئسٹ کرنی تھی کہ وہ بالکل اس رشتے سے انکار نہ کرے۔


کیوں کہ اس نے نداحل سے باتوں باتوں میں، اس کی مرضی پوچھنے کی کوشش کی اور نداحل کا رسپانس عمیر کے حق میں نہیں تھا۔


"یہاں بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔" آمنہ نے نداحل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ سخت تھا۔


اتنا بہت تھا کہ وہ اس وقت اسے برداشت کررہی تھی۔۔۔


تقی کی خاطر تو وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔


"آپی۔۔ کیا بات ہے۔۔؟؟"نداحل نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔


اسے لگا کہ تقی نے شاید اسے۔۔ نداحل والی بات بتادی۔

لیکن اگلے ہی لمحے اس نے، اپنے اس فضول خیال کو جھٹکا، کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا تقی ایسا کچھ کرتا۔


وہ پھر بھی دل تھامے، آمنہ کی طرف پوری طرح متوجہ تھی۔


"تمہیں عمیر کیسا لگتا ہے۔۔؟؟ اگر تم سے اس کے لیے کوئی رائے مانگی جائے تو تم کیا جواب دو گی؟؟" آمنہ نے ہنوز سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔


نداحل کو آمنہ کا بدلا ہوا رویہ کھٹک رہا تھا پر اس وقت اس نے، اس کے رویے پر تحقیق کی بجائے جواب دینا ضروری سمجھا۔


"آپی۔۔ میں نے ابھی تک کچھ خاص سوچا نہیں ان کے بارے میں۔۔ اور جہاں تک میری رائے کی بات ہے۔۔ تو میں۔۔ کم سے کم رشتے والے معاملے میں انکار کر نے کا سوچ رہی تھی۔" نداحل نے ساری بات بتائی۔


"اور۔۔ انکار کی کوئی خاص وجہ؟؟"


"ہاں۔۔ وہ۔۔ میرے خیال سے عمیر۔۔ تقی بھائی کو نہیں پسند۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے سیاسی بندوں کا کریکٹر نہیں اچھا ہوتا۔۔"


نداحل کی بات پر آمنہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔۔ کیوں اسے سمجھ آرہی تھی کہ تقی کو عمیر کا کریکٹر کیوں نہیں اچھا لگا۔۔

"انہیں تو اب تم میں دلچسپی لینے والے کسی بھی مرد کا کریکٹر اچھا نہیں لگنا" آمنہ نے دل میں سوچا۔


"یہ تو کوئی بات نہ ہوئی..!! دیکھو۔۔ میں نے تم سے تمہاری رائے کا پوچھا کہ تم کیا فیل کرتی ہو اس کے لیے۔۔" آمنہ نے ضبط کرتے ہوئے نسبتاً نرم لہجے میں پوچھا۔


"آپی۔۔! میں نے بھلا کیا فیل کرنا ہے۔۔!!

مجھے تو اب کسی کے بارے میں کچھ نہیں فیل ہوتا۔۔

جہاں تک عمیر کی بات ہے۔۔ تو اس بندے کی شخصیت میں ایک کشش سی ہے۔۔ اور بس جب وہ سامنے ہوتا ہے تو میں خود کو اس کی طرف راغب ہونے سے روک نہیں پاتی۔۔ابھی تک اس کے علاوہ۔۔ اور کچھ محسوس نہیں کیا میں نے.." نداحل کے ذہن میں۔۔ ایک دفع پھر عمیر کا تصور تازہ ہوا۔۔


"اچھا صحیح ہے۔۔ لیکن اب میری بات سنو۔۔

اور پلیز۔۔ مجھے سمجھنے کی کوشش کرنا۔۔" آمنہ ملتجی سی ہوکر کہنے لگی۔


"آپی، آپ بتائیں تو صحیح۔۔ کیا بات ہے؟؟"


"نداحل۔۔!! دیکھو۔۔ اگر سب گھر والے عمیر کے پروپوزل کے لیے حامی بھر دیتے ہیں تو پلیز تم انکار مت کرنا۔۔"آمنہ نے نداحل کا ہاتھ تھام کر بہت شدت سے request کی۔۔


آمنہ کی حالت یہ تھی کہ اسکے آنسو بہنے لگے تھے۔۔


"آپی۔۔ یہ کیا۔۔؟؟ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔ اور بتائیں کہ میں کیوں انکار نہ کروں۔۔ آخر میرا حق ہے کہ میں اپنی مرضی سے فیصلہ کروں۔۔" نداحل کو آمنہ کی بات بہت عجیب لگی۔۔

اس نے۔۔ حیران و پریشان سی ہوکر اس کی بات ہضم کرنے کی کوشش کی۔


"نداحل۔۔!! یار۔۔ تقی تم سے محبت کرنے لگے ہیں۔۔

پلیز یہ بات کسی کو بتانا مت۔۔

اور تقی سے تو بالکل کچھ مت کہنا۔۔

ورنہ وہ تم سے نظریں نہیں ملا پائیں گے۔۔

پتہ ہے۔۔

کافی دنوں سے وہ ایک بہت ہی عجیب کشمکش میں تھے۔۔

دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی بڑی اذیت سے گزر رہے ہوں۔۔

ان کا رویہ بھی بہت strange ہوگیا تھا۔۔

آخر پرسوں ۔۔میرے بہت زیادہ پوچھنے پر انہوں نے۔۔ بتایا کہ وہ تم سے محبت کرنے لگے ہیں۔۔

میری طرف سے انہیں کھلی اجازت تھی کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔۔

پر انہوں نے انکار کردیا۔۔

تم تقی کو بھائی مانتی ہوناں۔۔ شاید اس لیے انہوں نے منع کردیا۔۔" آمنہ بڑی دل گرفتگی سے ایک ایک بات بتاتی گئی۔۔


نداحل کو تو سمجھ نہیں آیا کہ اس کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔۔!!

تقی اس کو چاہنے لگا ہے۔۔یہ بات نداحل کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھی۔۔


اس کی زبان تو ایسے ہوگئی تھی کہ جیسے کبھی ہل نہیں پائے گی۔۔


لیکن زبان تو ہلانی تھی۔۔

بات تو آخر کرنی ہی تھی۔۔

سو۔۔ اس نے بہت مشکل سے۔۔ بہت تکلیف سے لب ہلائے۔۔


"اچھا۔۔ ٹھیک ہے۔۔!! آپ بتائیں کہ اب میں کیا کروں؟؟" اس نے ایسے کہا جیسے اسے یہ بات کچھ خاص حیران کن نہیں لگی۔۔ یا اسے کوئی شاک نہیں لگا۔۔


حالانکہ وہ جس قدر شاکس تھی۔۔ اس کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا تھا۔۔


"بتایا تو ہے۔۔ تم۔۔ تم ناں بلاوجہ عمیر کے لیے نہ مت کرنا۔۔

دیکھو۔۔ اگر تم تقی کو بھائی مانتی ہو۔۔ یہ میرے اور ان کے رشتے کی سلامتی۔۔ تقی کی سلامتی چاہتی ہو تو۔۔۔ پلیز۔۔ نہ مت کرنا۔۔

کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جب تک تم اس گھر میں۔۔

تقی کے آس پاس رہو گی۔۔ تب تک ان کے لیے اس اذیت سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔۔ وہ نہیں چاہتے کہ وہ میرے اور امامہ کہ علاوہ، کسی کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت اور توجہ دیں۔۔ لیکن تمہارے ہوتے ہوئے۔۔ان کے لیے یہ سب۔۔ یہ سب کرنا بہت مشکل ہوگا۔۔

اب تم مجھے بتاؤ۔۔ تم انکار تو نہیں کرو گی ناں؟؟"

آمنہ نے بہت امید ۔۔ بہت آس سے، اپنی روتی ہوئی آنکھوں سے نداحل کی طرف دیکھا۔۔


یہ تقی کی محبت میں بہنے والے آنسو تھے۔۔ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔


ان آنسوؤں کی شدت نے نداحل کو بھی رونے پر اکسایا۔۔


"آپی۔۔ آپ بے فکر رہیں۔۔ دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے۔۔ پر میں انکار نہیں کروں گی۔۔!!" نداحل نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔


آمنہ کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اس کی بات سمجھ جائے گی۔۔


وہ خود کو، اس وقت ، اس کا بہت احسان مند محسوس کررہی تھی۔



جب کہ نداحل کا تو دماغ پھٹنے کو ہو گیا۔۔


اسے آمنہ کی باتوں پر یقین نہیں آ کے دیا۔۔

پر یقین تو کرنا تھا۔۔

آمنہ کا لب و لہجہ۔۔ تقی کے لیے اس کی تڑپ۔۔ ہر چیز اس کے سچا ہونے کی تصدیق کررہی تھی۔


×××××


جب سے آمنہ اس کے کمرے سے گئی تھی۔۔ تب سے وہ یوں ہی اپنے بیڈ کے کنارے پر گم سم سی۔۔ بہت پریشان سی ہو کر بیٹھی تھی۔۔


شکر تھا ٹ کوئی اس کے حال احوال پوچھنے نہیں آیا۔۔


اس لیے وہ آرام سے۔۔ اپنی اب تک کی کہانی۔۔ کا از سر نو جائزہ لینے لگی۔۔


وہ سمجھتی تھی کہ اسے تقی سے محبت ہے۔۔

بعد میں اسے لگنے لگا کہ شاید وہ عمیر کی طرف متوجہ ہورہی ہے۔۔

عمیر کے پروپوزل لانے پر۔۔ اس نے یہ سوچا کہ شاید عمیر اس سے محبت کرتا ہے۔۔

اور پھر گزرے دو دنوں میں شاہ میر کا اس پر غیر ضروری اور غیر معمولی توجہ دینا۔۔ یہاں بھی کچھ اسی قسم کے ادراکات ہوئے۔۔


پر آج اس نے محسوس کیا کہ اس کے سب ادراکات بے بنیاد تھے۔۔

××××××××

پر آج اس نے محسوس کیا کہ اس کے سب ادراکات بے بنیاد تھے۔۔


کیوں کہ ان میں سے کسی کو اس سے محبت نہ تھی اور نہ ہی اس کو کسی سے تھی۔


دراصل ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم ہر وقتی لگاؤ کو محبت کا نام دے دیتے ہیں،


جب کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔


محبت اتنی عام نہیں ہوتی۔۔ کہ ہر کسی کو ہوجائے۔۔


اور نہ ہی اتنی آسانی سے ہوتی ہے۔۔


لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ ہے کہ فطری طور پر دو مخالف جنسیں ایک دوسرے کے لیے بے تحاشہ کشش رکھتی ہیں۔۔


اور ہم اس کشش کو، اس اٹریکشن کو۔۔ جو محض اٹریکشن ہی ہوتی ہے۔۔ محبت سمجھ کر۔۔ اپنا بہت نقصان کر بیٹھتے ہیں۔


جب ایک مرد اور عورت کا آپس میں انٹرایکشن ہوتا ہے تو عموماً، بہت چانسز ہوتے ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کے جذبات محسوس کرنے لگیں۔۔


اب اس پسندیدگی کو محبت سمجھنا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔۔!!


مگر پھر بھی۔۔ ہماری سوسائٹی کا عقل و دانش سے کیا لینا دینا۔۔


سوسائٹی ٹرینڈز کو فالو کرتی ہے۔۔ پھر چاہے وہ ٹرینڈز وہ رجحانات کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔۔!!


کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں!!


ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ آزاد خیالی اور ماڈرنیزم کے نام پر مردوں عورتوں کا آزادانہ میل جول کتنے فتنے پیدا کرتا ہے۔۔!!


اب یہیں دیکھ لیں۔۔


اگر نداحل اور تقی میں اتنی frankness نہ ہوتی۔۔ تو بہت ممکن تھا کہ نداحل اس سے اظہار محبت کرنے کی جرأت بھی نہ کرتی۔۔


اور خود کو اس سے ، بے وجہ متاثر ہونے سے بھی روکتی۔۔


یہی معاملہ تقی کے ساتھ بھی ہے۔۔


اگر اس نے شروع سے ہی خود کو نداحل سے دور رکھا ہوتا۔۔تو شاید آج وہ اتنا بے سکون نہ ہوتا۔۔!!


اسی طرح عمیر اور شاہ میر، اگر خود کو نظریں نیچی رکھنے والے اصول پر کاربند رہتے اور نداحل نے خود بھی خود کو اللّٰه کی مرضی کے خوبصورت خول میں بند کر کے۔۔ ان نامحرموں سے چھپا کر رکھا ہوتا تو آج وہ ان کے دل مچلانے کا سبب نہ بنتی۔۔




پر افسوس۔۔ وہ آج بھی اس نہج پر پہنچ کر کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی۔


اس کی سوچ اس کے ادراکات کے سطحی پہلوؤں تک ہی جا سکی۔


اس نے سوچا تو بس اتنا۔۔ کہ یہاں سب کی محبتوں میں کھوٹ تھا۔۔ سب ظاہری شخصیت سے متاثر تھے۔۔

کسی کی محبت میں خلوص نہیں تھا۔۔


آمنہ کی تقی کے لیے محبت اور تڑپ دیکھ کر اسے سچی محبت اور جھوٹے جذبات کا فرق معلوم ہوا۔۔۔



اور آمنہ سے ، اپنے لیے تقی کی فیلینگز کا سن کر اسے دھچکا سا لگا تھا۔۔ ساتھ ہی اسے اندازہ ہوا کہ تقی۔۔ نداحل کے لیے، اپنے دل میں موجود عارضی جذبوں کو مستقل محبت میں بدلنے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔


وہ اپنے اندازوں پر بہت پریقین تھی۔۔

لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو۔۔


یہ سچ ہے کہ ایک وقت تھا۔۔ جب اسے ہر حال میں تقی کا ساتھ چاہیے تھا۔۔


پر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔


اب وہ بہت حد تک حقیقت پسند بن چکی تھی۔۔


اب اسے کوئی ایسا فیصلہ لینا تھا کہ جس سے وہ تقی اور آمنہ کا رشتہ بچا سکے۔۔


وہ تقی کو اس اذیت سے نکال سکے۔۔


وہ تقی کو مکمل طور پر آمنہ کا ہی رہنے دے۔۔


کیونکہ وہ بالکل بھی، ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی۔۔ ناچاقیوں کی متمنی نہیں تھی۔۔


وہ آمنہ کو اپنی بہن ماننے لگی تھی۔۔ اس لیے اب اسے ، اس کی خاطر تقی کو اپنی محبت میں گرفتار ہونے سے روکنا تھا۔۔


اور اس کی نظر میں اس مسئلے کا فقط ایک ہی حل تھا۔۔ کہ وہ کسی طرح تقی کی پہنچ سے۔۔ بہت دور چلی جائے۔۔

وہ اسے اپنی شکل تک نہ دکھائے۔۔ تاکہ وہ باآسانی اس سے اپنا پیچھا چھڑا سکے۔۔


تاکہ وہ اپنی سابقہ زندگی کی طرف لوٹ سکے۔۔

پہلے کی طرح خوش رہے۔۔ پر سکون رہے۔۔



اور یہ سب کرنے کے لیے، سب سے زیادہ مناسب اور بہترین طریقہ ملک عمیر سے شادی کرنے کا تھا۔۔


وہ سوچ چکی تھی کہ وہ اب انکار نہیں کرے گی۔۔


×××××××


نداحل کی رضامندی ملنے پر اس کے والدین نے فوراً ہی عمیر اور اس کی والدہ کو دعوت پر مدعو کرکے ،

عمیر کے پروپوزل کے لیے ہاں کی۔


کھانے کی ٹیبل پر ہی ہاں ہوئی اور گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا۔۔


وہاں تقریباً سارے گھر والے ہی موجود تھے۔۔


شاہ میر تھا۔۔ جسے اس سب کارروائی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔۔ کیوں کہ وہ کونسا نداحل کے لیے کوئی deep فیلینگز رکھتا تھا۔۔!!

اس لیے اس نے بھی سب کی طرح عمیر کو خوشدلی سے مبارک باد دی۔۔


تقی تھا۔۔ جسے ایک چبھن سی محسوس ہو رہی تھی۔۔ جیسے اس کی کوئی بہت ہی قیمتی چیز۔۔ اس سے چھینی جا رہی ہو۔۔!!


اس وقت تقی کے ایکسپریشنز کافی دلگیر تھے۔۔ جسے عمیر نے بہت ہی زیادہ انجوائے کیا۔۔


وہ دراصل شروع ہی سے تقی کو بے حد ناپسند کرتا تھا کیوں کہ اسے تقی جیسے ایمانداروں سے سخت نفرت تھی۔۔

آخر اس نے رشوت لے کر اس کے بھائی کو پاس کرنے سے منع جو کیا تھا۔۔

اب ایسے لوگوں کا۔۔ ملک عمیر کی گڈ بکس میں بھلا کیا کام..؟؟


اوپر سے اس کی عقابی نظریں۔۔ فوراً سے پہلے ہی، نداحل کے لیے اس کا concern بھانپ گئی تھیں۔۔


سو اس لیے اس نے اپنی دلچسپی نداحل میں بہت حد تک بڑھا دی اور نتیجتاً آج وہ اسے خود سے منسوب کر کے تقی کو دل ہی دل میں ایک طرح سے مات دے چکا تھا۔۔۔


تقی بھی کوئی دودھ پیتا بچہ تو تھا نہیں۔۔جو اس کی حرکات نہ سمجھ پاتا۔۔

وہ بھی خود کو عمیر سے ہارتا محسوس کررہا تھا۔۔


اسے تھوڑا پچھتاوا ہوا کہ وہ آمنہ کی پیشکش پر غور کر لیتا۔۔ گھر والوں کو کسی طرح راضی کر لیتا۔۔ تو آج کم سے کم عمیر کی جیت کے نشے میں چور نظریں۔۔ سے گھائل نہ کر رہی ہوتیں۔۔


پر اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔۔

اس نے اپنے آپ کو اپنے پچھتاوے کو قابو کیا۔۔

اس نے خود کو یقین دلایا کہ نداحل کا اس کی زندگی سے دور چلے جانا ہی بہتر ہے۔۔


اور اسے دور بھیجنے کے چکر میں وہ اتنا بےحس ہوگیا تھا کہ عمیر کے کریکٹر سے واقف ہونے کے باوجود بھی اس نے گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا۔۔ نہ ہی اپنی کوئی رائے دی۔۔ نہ کوئی مشورہ۔۔!!


بس خود کو نداحل سے دور کرنے کے لیے وہ چپ سادھے سارا تماشہ دیکھتا رہا۔


××××


سب کچھ فائنل ہونے کے بعد گھر میں زور و شور سے نداحل کی شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔۔


ہر کوئی بہت خوش اور ایکٹیو تھا۔۔ حتیٰ کہ شاہ میر بھی۔۔۔!!


یہاں بس تقی ہی ایک ایسا بندہ ۔۔ جو نداحل کی شادی کے سوگ سے نکل ہی نہیں پارہا تھا۔۔۔ اور نداحل ۔۔۔ اس کی حالت تو سب سے عجیب تھی۔۔ وہ کچھ محسوس ہی نہیں کر پارہی تھی۔۔ نہ کوئی خوشی۔۔ نہ کوئی دکھ۔۔!!


اس نے خود کو مکمل طور پر اپنی قسمت۔۔ اپنے نصیب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔


عمیر کے لیے ہلکی پھلکی سی کشش۔۔ اس کی طرف مائل ہونے کا احساس۔۔ اس کی طرف اٹریکشن۔۔ اسے تو اب یہ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔


اسے لگا کہ جیسے اس کی ساری حِسیں جواب دے گئیں ہوں۔۔!!

اسے لگا کہ جیسے اس کی ساری حِسیں جواب دے گئیں ہوں۔۔!!


××××


آج نداحل کی مہندی تھی،

دوپہر سے ہی سب تیاریوں میں بزی تھے،

ہر کوئی اپنے اپنے کام نمٹانے میں مصروف تھا،

شاہ میر بھی کسی کام کے سے، گھر سے باہر نکلا تھا،

واپسی پر، وہیں، سامنے اسے اس کا دوست آتا دکھائی دیا ، جو دو اسٹریٹس چھوڑ کر، انہی کے ٹاؤن میں رہتا تھا۔


شاہ میر، رک کر بہت خوشی سے، اس وحید سے سلام دعا کرنے لگا،

وحید نے اس کی ایک دو باتوں کا جواب دینے کے بعد اپنے دماغ میں کھلبلاتا سوال پوچھا۔۔ "یار۔۔ وہ میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ تیرے گھر پر سب خیریت تو ہے ناں" لہجہ بہت متفکر اور پریشان سا تھا۔


"ہیں۔۔؟؟ یہ کیا سوال ہوا بھائی۔۔!! تو بتا۔۔ تجھے کیا گڑبڑ محسوس ہوئی ہے جو تو ایسے بول رہا ہے۔۔؟؟" شاہ میر کو وحید کا سوال بالکل احمقانہ اور عجیب لگا۔


"یار۔۔ وہ میں نے ملک عمیر کی جیپ تم لوگوں کے گھر کے باہر دیکھی تھی۔۔ تو مجھے لگا شاید کوئی مسئلہ ہوا ہے۔۔ ویسے بھی وہ بندہ جہاں ہو، وہاں سے خیر کی امید تو رکھی نہیں جا سکتی۔" شاہ میر کا رسپانس سن کر وحید کو تسل ہوئی،

اس لیے اس نے ہلکے پھلکے لہجے میں ، اپنے خدشے کی وجہ بتائی،


یہ وجہ سننے پر تو شاہ میر، اچھا خاصا متعجب ہوا تھا،

عمیر کے متعلق ایسی بات اسے پریشان کرگئی،

اس کے چہرے پر تعجب، حیرانی اور پریشانی یک دم ظاہر ہوئی،

"تو جانتا ہے اس کو؟؟" شاہ میر نے پوچھا۔


"لو۔۔ یہ کیا بات ہوئی۔۔؟؟ تجھے اس کا نہیں پتہ؟؟ سارا شہر جانتا ہے اس کو یار!!" وحید کو اس کی لاعلمی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس نے اپنی حیرت کم کی اور شاہ میر کے جنرل نالج میں اضافہ کیا۔

"پتہ ہے۔۔!! شہر بھر میں دندناتا پھرتا ہے۔۔ یہ اور اس کا چھوٹا بھائی۔۔ دونوں ایک نمبر کے عیاش ہیں۔۔ اور بےچارے معصوم لوگوں کی ناک میں دم کئے رکھتے ہیں۔۔!!"


شاہ میر کا تو دماغ ابل کر رہ گیا،،


کس گند میں پھنسنے جارہی تھی اس کی کزن۔۔!! اف۔۔!!


اسے تو یقین نہیں آیا۔۔


وہ ایک دفع عمیر سے خود بھی ملا تھا۔۔ اور اس ملاقات میں اسے وہ کہیں سے بھی، اس طرح کا بدمعاش اور کریکٹر لیس آدمی نہیں لگا۔۔


"یار یہ کیا بکواس کر رہا ہے تو۔۔!! میں اس سے خود ملا ہوں اور وہ مجھے کہیں سے بھی ایسا نہیں لگا۔۔ مجھے ٹھیک ٹھیک بتا کہ تو سچ کہ رہا ہے؟؟"


"ہاں بھئی!! مجھے کیا ضرورت ہے مذاق کرنے کی۔۔

تو بےشک کسی اور سے کنفرم کر لے۔۔

اور یار تو اس سے کیوں ملتا پھر رہا ہے۔۔؟؟ بہت خطرناک آدمی ہے وہ۔۔

چل چھوڑ۔۔ابھی مجھے ذرا جلدی ہے۔۔ باقی سوال جواب بعد میں کر لیں گے۔۔ ٹھیک ہے۔۔؟؟" وحید کہ کر چلتا بنا۔


اور شاہ میر کا وہاں کھڑے کھڑے پسینہ چھوٹ گیا۔۔

وہ بہت پریشان سا ہو کر گھر کی طرف تیزی سے بڑھا۔۔


اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا۔۔


جو بھی تھا۔۔ وہ ایسے اپنی کزن کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ عام طور پر کوئی بھی انسان ہو۔۔ وہ کسی اپنے کو ایسے تباہ ہوتے کیسے دیکھ سکتا ہے۔۔!!


××××


شاہ میر نے گھر پہنچتے ہی، دادا، اپنے والدین، چچا، چاچی، تقی اور نداحل کو، اپنے روم میں اکھٹا کر کے ساری بات بتائی،

وہ باہر کھلے عام ایسے نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ شادی والا گھر تھا سو اس مناسبت سے وہاں کافی مہمان جمع تھے،

منیب اور آمنہ انہیں ہی ڈیل کرنے میں مصروف تھے۔


××××

شاہ میر کی بات سن کر تقی کے علاؤہ سب کو شاک لگا،

ایک تقی تھا۔۔ جس نے چپ چاپ۔۔ بے تاثر ہوکر ، بے حس ہوکر۔۔ اس کی بات کو ، صرف سننے کی حد تک اہمیت دی۔


جاوید صاحب، یعنی نداحل کے پاپا کا تو بی پی ہی لو ہو گیا۔۔ اور اس کی امی الگ دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں۔۔


ان کو تو یقین نہیں آرہا تھا کہ آخر عمیر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔!!!


پریشانی کی بات تھی۔۔ اور سب پریشان بھی تو تھے۔۔ مگر یہ وقت صرف پریشان ہونے کا نہیں۔۔ بلکہ مسئلے کا حل تلاشنے کا تھا۔۔


انہیں ، فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔۔


"ہم لوگ عزت سے انکار کر دیتے کہ ہمیں نہیں دینی ان کو اپنی بیٹی۔۔!!" تایا جان نے رائے پیش کی۔۔


"ہاں۔۔ آپ لوگ انکار کریں گے اور وہ ٹھنڈا ہوکر بیٹھ جائے گا۔۔ا ہیں ناں؟؟" تقی نے بالآخر اپنی بے حسی کا خول اتارا۔۔


وہ بھی بھلا ، کیسے۔۔۔ نداحل کو غلط ہاتھوں میں بھیجنا گوارا کرتا۔۔!!

اس نے سوچا کہ وہ صرف اپنے سکون کی خاطر کیسے اس کی زندگی خراب کر سکتا ہے۔۔!!


پر افسوس۔۔ یہ احساس اسے بہت دیر سے ہوا تھا۔۔

اسے بروقت اپنی رائے دے کر معاملہ یہاں تک پہنچنے ہی نہیں دینا تھا۔۔


پر اب تو وہ غلطی کر چکا تھا۔۔


"ہممم تقی صحیح کہہ رہا ہے۔۔ ایسے لوگ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔ وہ لڑکا کسی صورت نہیں مانے گا۔۔ ویسے شاہ میر بیٹا۔۔ آپ نے اس خبر کی تصدیق کروائی ہے کہ نہیں۔۔؟؟ کیوں کہ ہو سکتا ہے۔۔ اس بچے کو عمیر کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔۔" نداحل کے پاپا، بہت ہی دھیمے لہجے میں، ہلکے ہلکے سے سانس لیتے ہوئے بولے۔۔


"چاچو۔۔ میں نے تو کوئی کنفرمیشن نہیں کرائی۔۔ پر مجھے یقین ہے کہ وحید نے غلط بیانی نہیں کی۔۔!!" شاہ میر نے بھی اسی فکر بھرے لہجے میں کہا۔


"تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔۔ میں جانتا ہوں اسے ۔۔ وہ ایسا ہی ہے۔۔" تقی گردن جھکائے۔۔ بالکل سپاٹ لہجے میں، سب کو ایک اور شاک دے گیا۔۔


سب حیرت اور صرف حیرت سے تقی کا منہ دیکھ رہے تھے کہ آخر یہ کہہ کیا رہا ہے۔۔!!


اگر یہ اس کو جانتا تھا تو اس نے پہلے۔۔ کیوں کچھ نہیں بتایا۔۔!!


××××

اگر یہ اس کو جانتا تھا تو اس نے پہلے۔۔ کیوں کچھ نہیں بتایا۔۔!!


"بیٹا۔۔!! اگر آپ اس کو پہلے سے جانتے ہیں تو آپ نے کیوں نہیں بتایا۔۔" اس کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔۔


اس کی بات سن کر نداحل کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔

مطلب۔۔ وہ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔۔!!


اس نے عمیر کی اصلیت کیوں سب کو نہیں بتائی۔۔!!

شروع شروع میں وہ اس سے کتنی خار کھاتا تھا۔۔

اس سے عمیر کا نداحل کو دیکھنا تک برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔

اور اب۔۔!!

اب وہ اتنا عجیب ہوگیا تھا کہ بغیر چوں چراں کیے۔۔ بغیر کچھ کہے۔۔ سب کچھ جانتے بوجھتے۔۔ بس سب دیکھتا رہا۔۔


اس نے یہ تک نہیں سوچا کہ نداحل کی شادی اس سے ہو جاتی تو کیا ہوتا۔۔!!


نداحل اس سے بہت بدگمان ہوچکی تھی۔۔!!


اس کے لیے، تقی کی موجودگی میں وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا تھا۔۔

سو وہ۔۔۔ خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔۔


سب نے اس کا ایسے اٹھ کر جانا محسوس کیا ۔۔ پر کوئی کچھ بولا نہیں۔۔


اور یہ شاہ میر بھی بے وقوف تھا۔۔ نداحل کو سب کے ساتھ اکھٹا کر کے وہاں بلالیا۔۔

ایسے سب کی موجودگی میں۔۔ دلہن کے سامنے بھی کوئی اس طرح کی بات بتاتا ہے۔۔!!


"بس مجھے خیال نہیں آیا۔۔" تقی نے اپنی امی کے سوال پر بے تکا سا جواز پیش کیا۔۔


اس کے تیور دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ مزید کسی ایسے سوال کا جواب دینے کے موڈ میں نہیں۔۔


سو کسی نے اس بارے میں مزید کوئی ایسا سوال نہیں کیا۔۔


فی الحال وہ سب، اپنی توجہ اصل مسئلے پر مرکوز رکھنا چاہتے تھے۔۔


یہ الگ بات تھی کہ سب کو تقی کا انکشاف بہت برا لگا تھا۔۔ انہیں اس جیسے اچھے آدمی سے اس گھٹیاپن کی امید نہیں تھی۔۔ اس کے والد تو ابھی تک، اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔۔


اور یہ ہر چیز سے بے پرواہ۔۔ گردن جھکائے اپنی ہی بات کہہ رہا تھا۔۔


"دیکھیں۔۔۔ جسے مجھ سے ناراض ہونا ہے۔۔ ہوجائے۔۔

پر آپ سب میری بات سن لیں۔۔!! عمیر، نداحل کو ایسے نہیں چھوڑے گا۔۔ آپ لوگ۔۔!! آپ نداحل کا نکاح کسی اور سے کرادیں۔۔ ورنہ وہ بالکل بھی شادی کیے بغیر ٹک کر نہیں بیٹھے گا۔۔"


"پر اتنی جلدی۔۔ ہم لوگ کہاں سے اس کے لیے لڑکا ڈھونڈیں۔۔ بتاؤ۔۔" نداحل کی امی غصے اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں گویا ہوئیں۔


ان کا دل تو چاہ رہا تھا کہ ایک دو تھپڑ لگا دیں اسے۔۔

پر اس وقت وہ کسی اور ہنگامے کی شروعات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔


سب کی طرح انہیں بھی۔۔ اس وقت۔۔ صرف اور صرف نداحل کی فکر تھی۔۔۔


انیلہ بیگم کے سوال پر سب ، ایک نئے سرے سے پریشانی میں گھر گئے۔۔


سب کی اس پریشانی کو دادا جی نے اپنے نادر مشورے سے ذرا ہلکا کیا۔۔۔ "لڑکے کا کوئی مسئلہ نہیں۔۔ ماشاءاللّٰه سے منیب اب شادی کے لائق ہے۔۔ ہم اس سے نداحل کا نکاح کرادیتے ہیں۔۔"


(دادا جی نے منیب کا نام اس لیے لیا کیونکہ شاہ میر کا، ڈیڑھ سال پہلے سے ہی اس کی ایک خالہ زاد یعنی کزن سے نکاح ہوا تھا۔۔ اسی لیے تو، اس نے نداحل پہ زیادہ سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔۔ اسی لیے تو اس کی شادی فائنل ہونے پر اسے کوئی فرق نہیں پڑا)


دادا جی کی بات پر سب نے سکھ کا سانس لیا۔۔ اور جاوید صاحب کی بھی ٹینشن کم ہوئی۔۔ کیوں کہ تقی کے والد نے بھی اس فیصلے سے متفق ہونے کا عندیہ دیا۔


جہاں سب دادا کے اس مشورے پر سکون ہوئے وہیں تقی کو جیسے جھٹکا سا لگا۔۔

مطلب جس لڑکی سے وہ جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنے کے چکر میں اس کا پورا مستقبل خطرے میں ڈالنے والا تھا۔۔

اب وہ ساری زندگی کے لیے اس کے گھر کا مستقل فرد بن کر۔۔ اس کا سکون غارت کرے گی۔۔!!


وہ مزید کوئی ایسی بات سننے کی حالت میں نہیں تھا۔۔


اس کا دل کیا کہ وہ خود کو آگ لگا دے۔۔ اور اس بے چینی بھری اذیت سے اپنی جان آزاد کرا لے۔۔

پر ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔۔


تقی کی جلد بازی۔۔ اس کی خود غرضی۔۔ نے اسے اس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا کہ جہاں صرف اس کو اذیت ملنی تھی۔۔

جہاں صرف اس کی پرسکون زندگی میں بےقراری، تا دم آخر برقرار رہنی تھی۔


کیا ہوتا کہ وہ اگر، تھوڑا صبر سے کام لیتا۔۔ عمیر کی اصلیت سب کو پہلے بتادیتا۔۔ ایسے میں کم سے کم ، گھر والے اس کی شادی منیب سے کرنے کا تو نہ سوچتے ناں!!

وہ کسی اور ، کسی معقول بندے کے ساتھ اسے رخصت کر دیتے۔۔ اس سب میں۔۔ بس تھوڑا وقت لگنا تھا۔۔ تھوڑا صبر چاہیے تھا۔۔ پر تقی۔۔ وہ تو نہ اس وقت کا انتظار کرنے پر راضی تھا اور نہ ہی صبر سے کام لینے پر۔۔


اب حال یہ تھا کہ عمر بھر کی بے قراری۔۔ اس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔

سب کی نظروں سے گر جانے کی تکلیف، نداحل کی بے انتہا بدگمانی، علیحدہ۔۔ اسے ستانے والی تھی۔۔!!


××××

اس سب بحث و مباحثے کے ختم ہوتے ہی انیلہ بیگم اور تقی کی والدہ۔۔ دونوں نداحل کے پاس گئیں۔۔ ساری صورتحال نداحل کے سامنے تھی۔۔ اس لیے ان دونوں خواتین کو اسے سمجھانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔۔


وہ بغیر کسی مزاحمت کے۔۔ با آسانی ان کے فیصلے پر راضی ہوگئی۔

بس ایک چیز تھی۔۔ جو وہ کنٹرول نہیں کر پائی۔۔ اور وہ تھے اس کے آنسو۔۔!!

اسے تکلیف ہوئی تھی۔۔ اسے تقی ہی حرکت نے بہت مایوس کیا تھا۔۔ وہ اسے کتنا پرخلوص انسان سمجھتی تھی۔۔!!

پر وہ کیا نکلا۔۔!! ایک خود غرض انسان۔۔!!


قصور اس کا بھی نہیں تھا۔۔ یہ نداحل کی غلطی تھی کے وہ کسی غیر مرد سے اپنے لیے خلوص کی توقع کر بیٹھی تھی۔۔ وہ اس پر اعتبار کر بیٹھی تھی۔


کیوں کہ حقیقت تو یہ ہے عورت کی زندگی میں اس کے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے علاؤہ کوئی مرد اعتبار کے قابل نہیں ہوتا۔۔ ان چار کے علاؤہ، کسی سے خلوص کی توقع رکھنا بے وقوفی ہی تو ہے۔


××××


دوسری طرف۔۔ منیب کو بھی شاہ میر۔۔ اس کے والد اور اس کی والدہ، تینوں نے مل کر ، اسے سب صورتحال بتائی۔۔ وہ بھی تھوڑے۔۔ تردد اور بار بار کے کمزور سے انکار کے بعد ، بالاآخر، نکاح کے لیے مان گیا۔۔


اس کے بعد شاہ میر نے بذات خود، فوری طور پر نکاح خواں کا انتظام کیا۔۔۔


××××

اگر یہ اس کو جانتا تھا تو


اس کے بعد شاہ میر نے بذات خود، فوری طور پر نکاح خواں کا انتظام کیا۔۔۔


سب لوگ ڈرائنگ روم میں اس کار خیر کی انجام دہی کے لیے جمع تھے۔۔

سب کے دل تھوڑے بہت لرزنے لگے تھے۔۔

کیونکہ اب تو وہ سب ملک عمیر کی اصلیت جان چکے تھے ناں۔۔

اب تو انہیں پتہ تھا۔۔ کہ اس بدمعاش آدمی سے۔۔ کسی خیر۔۔ کسی بھلائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔۔


اب تو انہیں اندازہ تھا کہ وہ ان کے اس عمل پر بہت برا ری ایکٹ کر سکتا ہے۔۔۔!!


وہ جہاں اس سے خوفزدہ تھے۔۔ وہیں۔۔ اس کے ردعمل کا سامنا کرنے کے لیے بھی خود کو تیار کررہے تھے۔۔


××××


آمنہ، نداحل کو ڈرائنگ روم تک لائی۔۔۔


وہ بھی اس فیصلے پر بہت ناخوش۔۔ اور بہت دکھی تھی۔۔ آخر وہ بھی تو نداحل کو اس گھر سے دور بھیجنا چاہتی تھی۔۔


منیب اور نداحل ایک دوسرے کے ساتھ ہی بیٹھے تھے،

منیب نظریں جھکائے۔۔ چہرے پر ایک ناگواری سجائے۔۔ بہت اکتایا ہوا سا بیٹھا تھا۔۔ آخر اس نے کب سوچا تھا کہ اسے کسی سے ایسے شادی کرنا پڑے گی۔۔!!


اور نداحل۔۔ وہ تو جیسے تیسے اپنے سبھی آنسو پی چکی تھی۔۔ پر درد۔۔ درد تو اسے ابھی بھی ہورہا تھا۔۔

وہ اس وقت بہت ڈیپریسڈ تھی۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کچھ ہوگا۔۔

اس کا دماغ تھا۔۔ کہ پھٹنے کو تیار تھا۔۔!!

پر اس کی ، خود کو قابو کرنے کی کوشش جاری تھی۔۔


×××


مولوی صاحب نے وہاں بیٹھے، سبھی نفوس سے، نکاح شروع کرانے کی اجازت طلب کی۔۔ اور نکاح پڑھانا شروع کیا۔۔


ابھی منیب نے پہلی بار ہی "قبول ہے" بولا تھا کہ وہ شیطان۔۔ یعنی ملک عمیر آ ٹپکا۔۔


باہر کھڑے واچ مین کو اندر ہوتی کارروائی کی کوئی خبر نہیں تھی۔۔ اس لیے اس نے بھی اندر آنے سے نہیں روکا۔۔


کیونکہ شاہ میر جس وقت مولوی صاحب کو لایا تھا۔۔ اس وقت واچ مین گیٹ پر نہیں تھا۔۔ وہ کسی کام سے اپنے کوارٹر گیا تھا۔۔ اور گھر والوں میں سے بھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ وہ اسے ، ملک عمیر کو گیٹ پر روکنے کی ہدایات دے دیتے۔۔۔!!


اب، ان کی اتنی سی لاپرواہی کا نتیجہ ان سب کے سامنے تھا۔۔


اس وقت وہ۔۔ نداحل کی مہندی کا سامان یعنی، ڈریس،شوز،جیولری وغیرہ دینے آیا تھا۔


اور ڈرائنگ روم کا منظر دیکھ کر۔۔ اسے بھرپور طیش آیا۔۔


وہ اندھا اور بےعقل تو تھا نہیں۔۔ اس لیے لمحہ لگائے بغیر۔۔ وہ پورا معاملہ ، بہت اچھے سے سمجھ گیا۔


"اوہ۔۔ تو یہاں نکاح پڑھوایا جا رہا ہے۔۔!" اس نے زہرخند مسکراہٹ کے ساتھ۔۔ سب کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔

اور آگے بڑھ کر۔۔ ایک جھٹکے سے۔۔ منیب کو گریبان سے پکڑ کر صوفے سے اٹھایا۔۔ سائیڈ پہ کیا۔۔ اور خود بڑے ٹھاٹھ سے۔۔ وہاں بیٹھا۔۔


"مولوی صاحب نکاح ، دوبارہ شروع کریں۔۔ اصلی دولہا میں ہوں۔۔ ملک عمیر ولد ملک سبحان۔۔ چلیں شروع کریں نکاح۔۔" اس کے لہجے کی سختی۔۔ رعب اور دبدبہ۔۔ ہر کسی کو دہلا گیا۔۔


وہ اب اپنی اصلی حالت میں۔۔ بغیر کوئی ڈرامہ رچائے۔۔ سب کے سامنے تھا۔۔


اس کے تیور دیکھ کر۔۔ منیب کے تو ویسے ہی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔۔ وہ تو بالکل میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں جیسا ہوگیا۔۔


باقی تقی کو عمیر کی اس حرکت پر تاؤ آیا تھا۔۔


"یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔ دیکھ نہیں رہے۔۔ کس کس کا نکاح ہو رہا ہے۔۔ تم دولہا بن کر کہاں گھس رہے ہو۔۔" تقی نے بھی اسی طرح گریبان سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔۔


عمیر بھلے ہی جتنا بڑا ڈون ہو۔۔!! پر تقی۔۔ جسمانی طاقت کے لحاظ سے اس سے بڑھ کر تھا۔۔۔

عمیر کو تقی کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا۔۔

اس نے بھی جوابی کارروائی کی۔۔

اور اسی انداز میں اسے گریبان سے جکڑ کر۔۔ بری طرح دھاڑا۔۔

"بدتمیزی میں کر رہا ہوں یا تم لوگوں نے کی۔۔!!

اس لڑکی کا نکاح تو کل مجھ سے ہونے والا تھا ناں۔۔

پھر اب تم لوگ۔۔نداحل کو اس چھچھوندر کے ساتھ بٹھا کر کون سا وظیفہ کروا رہے تھے۔۔"


اس نے اپنی بات مکمل ہی کی تھی کہ شاہ میر اور نداحل کے پاپا نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کیا۔۔


"بیٹا۔۔ ٹھنڈے ہو جاؤ۔۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔" جاوید صاحب ملتجی ہوئے۔


"نہیں انکل۔۔ بیٹھ کر کوئی بات نہیں ہوگی۔۔!!

میں آپ کی بیٹی سے نکاح کروں گا۔۔!!

اور وہ بھی ابھی اور اسی وقت۔۔!!

سمجھے آپ۔۔!!" وہ بہت بدلحاظ ہوکر چیخا تھا۔۔


"نہیں لڑکے۔۔!! ہم کسی صورت۔۔ اپنی بچی کی شادی تم سے نہیں کروا سکتے۔۔!!" تقی کے والد نے اس کے تیوروں سے بالکل۔۔ کوئی خوف نہیں کھایا۔۔۔


"کیوں نہیں کرا سکتے۔۔؟؟۔ کیا کیا ہے میں نے۔۔؟؟؟" وہ اور بھی بگڑ کر بولا۔

××××

"کیوں نہیں کرا سکتے۔۔؟؟۔ کیا کیا ہے میں نے۔۔؟؟؟" وہ اور بھی بگڑ کر بولا۔


"تم نے اپنی اصلیت چھپا کر رشتہ جوڑنا چاہا۔۔

اپنے متعلق مکمل معلومات نہیں دیں۔۔

پر خیر اب تو ہم تمہارا حقیقی چہرہ پہچان چکے ہیں۔۔

اس لیے، اپنی بچی تمہیں نہیں سونپ سکتے۔۔" تایاجان نے اس مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔

پر ان کا لہجہ کڑوا ہی تھا۔


"بکواس۔۔! سب بکواس ہے یہ۔۔!!

کس نے کہا کہ میں نے اپنی اصلیت چھپائی۔۔؟؟

یہ آپ کا بیٹا تقی۔۔!! مجھے بہت اچھے سے جانتا ہے۔۔ اور جانتا تھا۔۔!! اس لیے اصلیت چھپانے والا الزام۔۔ بالکل بے بنیاد ہے۔۔ سمجھے۔۔۔؟؟؟"

عمیر کا غصہ بڑھتا ہی گیا۔۔


اس سے ان لوگوں کی دھوکہ دہی برداشت نہیں ہوپا رہی تھی۔۔

اب وہ لوگ نداحل کی شادی اس سے فکس کر کے۔۔ منیب سے نکاح کروانے لگے تھے۔۔

یہ، عمیر کے لیے۔۔ ان کی طرف سے ایک دھوکہ ہی تھا۔۔


پر وہ حقدار تھا اس دھوکے کا۔۔!!


"جو بھی ہو۔۔!!

میں اپنی بچی کا نکاح۔۔ تمہارے ساتھ نہیں ہونے دوں گی۔۔" اس بار، چلّاہٹ۔۔ نداحل کی امی کی طرف سے تھی۔۔۔


عمیر اس بار بار کی گردان سے اکتا گیا تھا۔۔


"تو۔۔ آنٹی جی۔۔ آپ کس سے نکاح کروائیں گی اس کا؟؟

اس چھچھوندر سے۔۔ جو ایک دفع "قبول ہے" بولنے کے باوجود آپ کی بیٹی کے حق میں ایک لفظ نہیں بولا۔۔؟؟

یار پھر اس نکاح یافتہ، شاہ میر سے۔۔ جو شاید آپ کی بیٹی کو کچھ کچھ پسند کرتا ہے۔۔!!

ارے۔۔ نہیں میں بتاتا ہوں۔۔ آپ کی بیٹی کے لیے بہترین شوہر کون ہوسکتا ہے۔۔!!

یہ شادی شدہ۔۔ تقی۔۔!! جو شاید خاموش عاشق ہے نداحل کا۔۔

لیکن پتہ نہیں کیسا عاشق ہے۔۔!! اس نے میرے بارے میں سب جانتے بوجھتے۔۔ آپ لوگوں کو اندھیرے میں رکھا۔۔ صرف اس لیے کہ اسے اپنی خاموش محبت سے زیادہ اپنی فیملی عزیز تھی۔۔!!"

وہ بہت آرام سے۔۔ ایک زہرخند مسکراہٹ۔۔ اپنے ہونٹوں پر سجائے۔۔ سچائی کا زہر اگل رہا تھا۔۔


کیا کیا نہیں تھا اس کے لہجے میں۔۔!!


وہ اپنے لفظوں۔۔ اپنے انداز سے۔۔ خود ہی اپنی اکتاہٹ۔۔ اپنی سچائی کو پرکھنے کی صلاحیت۔۔ اپنی بےخوفی۔۔ اور اپنی کمینگی۔۔۔۔اپنی ڈھٹائی۔۔۔ سب کچھ ایک ساتھ ہی۔۔ سب کو باور کرا گیا۔۔


سب ہکا بکا اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔


اس کی بات۔۔ گھر کے بڑوں کے سر کے اوپر سے گزری تھی۔۔


اور باقی۔۔ جن کے متعلق کی تھی۔۔ وہ تو بہت ہی متذبذب ہو کر رہ گئے۔۔


نداحل کے پاپا نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ عمیر نے ان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی انہیں چپ کرا دیا۔۔

"اب پلیز انکل۔۔ یہ مت پوچھنا کہ میں یہ ساری بکواس کیسے اور کس بنیاد پر کر رہا ہوں۔۔!!

میں مرد ہوں۔۔ اور دوسرے مرد کے ہر اشارے۔۔ ہر تاثر۔۔ ہر نظر کے پیچھے چھپی منطق کا ادراک ہے مجھے۔۔!!

اب پلیز مجھ سے کوئی بھی ، کوئی اور سوال نہ کرے۔۔

سکون سے نکاح کرلوں۔۔ پھر اپنی اپنی بھڑاس نکالنا سب لوگ۔۔!!" وہ ماتھے پر تیوریاں چڑھاتے۔۔ بڑی بدتمیزی سے کہتا۔۔ نداحل کے ساتھ آ کر بیٹھا۔


"مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔۔" لہجے میں جلد بازی صاف ظاہر تھی۔


اس کا انداز ایسا تھا کہ پھر دوبارا۔۔ کسی کی ۔۔ کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔


سب غصے۔۔ بے بسی۔۔ اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔


ایک تقی تھا۔۔ جس کا بری طرح خون کھول رہا تھا۔۔


اور مولوی صاحب۔۔ وہ بے چارے شریف انسان۔۔ وہ تو ویسے ہی کانپ گئے تھے۔۔ سو۔۔ عمیر کے کہنے پر فوراً نکاح شروع کیا۔۔


نداحل، وہیں بیٹھی۔۔ ان سب کی باتوں اور ڈائلاگ بازی سے بہت تپ چکی تھی۔۔ ایک تو وہ پہلے سے اتنی ڈیپریسڈ تھی۔۔ اوپر سے ان سب مکالمے۔۔ اس کا دماغ پھٹنے کو ہو رہا تھا۔۔


منیب کا ایسے پیچھے ہٹنا۔۔!! اس کے اندر آگ لگا گیا۔۔


عمیر کا دھونس جمانا۔۔ اس کا زبردستی کرنا۔۔ یہ بھی اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔۔۔


بس اب اس کا صبر جواب دے گیا۔۔ وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی۔۔ اور خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر جانے لگی۔۔


عمیر اس کی۔۔ اس اچانک حرکت پر حیران ہوا۔۔ اور اگلے ہی لمحے اپنی حیرت کو ختم کرتا۔۔ سختی سے اس کی کلائی تھام چکا تھا۔۔


"کہاں جارہی ہو۔۔!! میرے خیال سے نکاح ابھی مکمل نہیں ہوا۔۔!!" اس نے چھبتی ہوئی نظر۔۔ نداحل پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔


"میری مرضی جہاں بھی جاؤں۔۔!!

آپ میرا ہاتھ چھوڑیں۔۔!!

اور سن لیں۔۔ میں آپ سے کوئی نکاح نہیں کرنے والی۔۔!!

آپ سے تو کیا۔۔ مجھے کسی سے بھی شادی یا نکاح نہیں کرنا۔۔ یہاں سب جھوٹے۔۔ دھوکے باز۔۔ بزدل اور مطلبی ہیں۔۔!! اس لیے مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی۔۔!! اس لیے میرا ہاتھ چھوڑیں۔۔ مجھے جانے دیں۔۔" اس نے بہت روکھے سے لہجے میں کہا۔


"لو جی۔۔!!

اب دلہن صاحبہ کے منہ میں بھی زبان آ گئی۔۔!!" عمیر نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر ، طنزیہ تالی بجائی۔


"یہ تم اور تمہارا خاندان۔۔!! لگتا ہے ۔۔ دماغ خراب ہے تم سب کا۔۔ ایک بات سمجھ نہیں آتی کیا۔۔؟؟

جب میں نے کہہ دیا کہ میں تم سے نکاح کر رہا ہوں۔۔

تو پھر ان فضول چونچلوں کا مقصد کیا ہے۔۔ ہاں۔۔!!"

وہ اپنے جملے پر زور دیتا۔۔ بری طرح دھاڑا۔۔۔


"اور مسٹر عمیر۔۔!! میں بھی کہہ چکی ہوں کہ میں کسی سے نکاح نہیں کر رہی۔۔ اب آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔!!" وہ ڈھٹائی سے کہتی مڑ کر جانے لگی۔۔


سب گھر والے۔۔ اس کی۔۔ اس دلیری پر حیران تھے۔۔


"بس۔۔!! اب میں نے بھی بہت برداشت کرلیں یہ ڈرامے بازیاں۔۔ سیدھی طرح ہاں کرو۔۔!! ورنہ اس بندوق کی ساری گولیاں تمہارے سر میں اتریں گی۔۔!!!" اس نے اپنے کرتے کی سائیڈ پاکٹ میں سے۔۔ ریوالور نکال کر نداحل کے ماتھے پر رکھی۔۔ اپنے ایک ہاتھ سے اس کا بازو دبوچ کر۔۔ اسے مضبوطی سے قابو کیا۔۔

اور انتہائی غصے سے۔۔ اسے دھمکایا۔۔


پر انگلی کو تو جیسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔

وہ بے خوف سی۔۔ اس آنکھوں میں دیکھتے ہوئے چلائی۔۔ "بے شک۔۔ مار ڈالیں۔۔۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔ بس میں آپ سے نکاح نہیں کرنے والی۔۔"


عمیر کی اس پیش قدمی پر۔۔ نداحل کی امی کا کلیجہ باہر آنے کو ہوگیا۔۔

وہ لپک کر ان دونوں کی طرف گئیں۔۔

"عمیر بیٹا۔۔ یہ گن ہٹاؤ میری بچی پر سے۔۔ دیکھو میں اسے کو سمجھاتی ہوں۔۔ تم ۔۔ تم یہ گن ہٹاؤ۔۔" انہوں نے مچل کر کہا۔۔


اور باقی مجمع پر تو جیسے سناٹا چھایا تھا۔۔


"نہیں ماما۔۔ میں کچھ نہیں سمجھنے والی۔۔ ان کو مجھ پر گولی چلانی ہے تو چلا دیں۔۔" وہ اپنی جگہ ڈھیٹ بنی رہی۔۔


عمیر نے اسے کونسا سچ مچ میں مارنا تھا۔۔

وہ بھی بس دھمکا ہی رہا تھا۔۔ اس کا مقصد اس سے ہاں کروانا تھا۔۔


پر نداحل کی ہٹ دھرمی اسے غصہ دلا رہی تھی۔۔


اس نے ، انیلہ بیگم کے کہنے پر۔۔ گن اس پر سے ہٹا لی تھی۔۔

اور غصے میں ہی۔۔ اس کا بازو چھوڑ کر۔۔ اسے خود سے دور کرنے کے لیے۔۔۔ دھکا سا دیا۔۔


نداحل۔۔ اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھی۔۔

اس لیے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور زور سے نیچے گری۔۔


یہ سب اتنا اچانک ہوا۔۔ کہ فوراً کوئی اسے سنبھالنے کو آگے ہی نہیں بڑھا۔۔

اور جب تک وہ سارے اس کی طرف لپکے۔۔ تب تک وہ زمین پر گر چکی تھی۔۔


اس کا سر پھٹا تھا۔۔

اور بری طرح خون بہنے لگا۔۔


یہ دیکھ کر تو عمیر کے ہاتھ پاؤں بھی پھولے۔۔


نداحل درد کی شدت اور تکلیف سے بری طرح کراہ رہی تھی۔۔

بلکہ اس وقت وہ تڑپ رہی تھی۔۔


تقی نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے فوراً ایمبولینس کو کال کی۔۔

پر اس کے کال ختم کرنے سے پہلے۔۔ نداحل اپنی آخری سانس لے کر۔۔ اس دنیا سے جا چکی تھی۔۔


عمیر تو موقع پر ہی وہاں سے فرار ہو گیا۔۔


اور نداحل کے ہاں۔۔ صف ماتم بچھی تھی۔۔


اب شادی والے گھر سے ڈولی کی جگہ جنازہ اٹھنا تھا۔۔!!


سب کا رو رو کر برا حال تھا۔۔

اس کے ماما بابا کا تو کلیجہ باہر آنے کو تھا۔۔


آمنہ اور امامہ تو اس کی موت کا یقین ہی نہیں کرپارہی تھیں۔۔ کیونکہ جو بھی تھا۔۔ اس سب عرصے میں وہ ان دونوں سے بہت مانوس ہو چکی تھی۔۔


ایک شرمندگی تھی۔۔ ایک پچھتاوا تھا۔۔ جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔

کوئی اپنی بزدلی کو پچھتا رہا تھا تو کوئی اپنی خودغرضی کو۔۔

کوئی اپنے غلط فیصلے پر پشیمان تھا۔۔ تو کوئی اپنے بے بس ہونے پر۔۔!!


وہ ہر کو اپنا مجرم بنا کر چلی گئی۔۔!! ہر کوئی خود کو اس کا مجرم محسوس کر رہا تھا۔۔


پر اب احساس کرنے کا کیا فائدہ۔۔!!


اب تو وہ جا چکی تھی۔۔!!


××××


کوئی خود کو جتنا بھی اس کا مجرم سمجھے۔۔

لیکن اصلی مجرم تو عمیر تھا ناں۔۔

وہ اصل سزا کا حقدار تھا۔۔


اور یہ سزا اسے قدرت نے دی تھی۔۔


وہ اس دن۔۔ جیسے ہی وہاں سے نکلا تھا۔۔

تو عجیب بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔۔ اس کی کیفیت ایسی تھی کہ اس سے۔۔ صحیح سے ڈرائیونگ بھی نہیں ہو پارہی تھی۔۔


اور وہ غیر ارادی طور پر۔۔ بہت بری طرح ڈرائیو کرتے کرتے۔۔ کسی سنسان سڑک پر آ چکا تھا۔۔ سڑک سنسان تھی۔۔ پر اس کے کنارے پر کہیں کہیں بڑے بڑے درخت اور جھاڑیاں سی تھیں۔۔


وہ راستہ اس کے لیے بالکل غیر شناسا تھا۔۔


اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کہاں جائے۔۔ اور اوپر سے۔۔ اب وہ اسٹیرنگ پر بھی اپنا کنٹرول کھو چکا تھا۔۔


ایسے میں۔۔ اس کی جیب ۔۔ بالکل بے قابو ہوتی ہوئی سڑک کی دائیں طرف کو جا کر۔۔ ایک بڑے درخت سے ٹکرائی۔۔۔


یہ یقیناً ایک بہت برا ایکسیڈنٹ تھا۔۔


عمیر بہت بری طرح زخمی ہوا۔۔


وہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں تھا۔۔


اوپر سے راستہ بھی سنسان تھا۔۔ اس لیے کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔۔ اور وہ دو گھنٹوں تک۔۔ زندگی اور موت کے درمیان معلق رہا۔۔


دو گھنٹوں کی شدید تکلیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔۔ اپنے مقام کو پہنچ گیا۔۔

اس کی روح۔۔ جسم سے آزاد ہو کر۔۔ اب ابدی عذاب جھیلنے کو تیار تھی۔۔ قیامت تک کے لیے تڑپنے کو تیار تھی۔۔!!

وہ مر چکا تھا۔۔!!

اپنے سر بے تحاشہ گناہوں کا بوجھ لیے۔۔ وہ بھی اس دنیا سے جا چکا تھا۔۔!!

××

ختم شد

🎈🎈🎈🎈🎈

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Kisi Aur Ka Hoon Filhal Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Kisi Aur Ka Hoon Filhal  written by Suhaira Awais. Kisi Aur Ka Hoon Filhal by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment