Pages

Tuesday 16 July 2024

Dil Lagi By Yusra Eva New Afsana Complete Romantic Novel

Dil Lagi By Yusra Eva New Afsana Complete Romantic  Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil Lagi By Yusra Eva Complete Romatic Afsana 


Novel Name: Dil Lagi  

Writer Name: Yusra Eva

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

” بھائی۔۔ آ۔۔آپ مجھے قتل کردیں۔۔۔ اتنا بڑا گناہ ہوگیا زنا کیا ہے میں نے۔۔۔۔ “ کمرے میں مدھم سسکیاں گونج رہیں تھیں عروج سر پر دوپٹا پہنے ہاتھ جوڑے اپنے بھائی سے معافی مانگ رہی تھی جو اس وقت ساکت بیٹھا پھٹی پھٹی نظروں سے سامنے دیوار کو دیکھتے نجانے کن سوچوں میں گم تھا۔۔۔۔۔


” ب۔۔۔۔بھائی “ مسلسل ایک ہی رٹ لگاے وہ خود کے لئے سزا بھی سوچ چکی تھی نجانے کتنی بار وہ بھائی سے خود کو مارنے کی التجا کر چکی تھی لیکن اسکا بھائی تھا کے اپنی خون خوار نظریں تک اس وجود پر ڈالنا گوارا نہیں کی۔۔۔


” زبان کاٹ دونگا “ کسی بھوکے شیر کی طرح یکدم ہی وہ دھاڑا، لہو رنگ آنکھیں عروج پر گاڑھتے وہ اسے ایک پل کے لئے مفلوج کر گیا۔۔۔


” اب اگر آواز آئی تو “ دھیمے مگر ساخت لہجے میں دی وارننگ نے عروج کے وجود میں کپکپی طاری کردی تھوڑی دیر پہلے جو ہمت جمع کرکے وہ اپنا گناہ قبول کرنے آئی تھی پل بھر میں ایک دھاڑ نے ساری ہمت ختم کردی۔۔


وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی ایک غلطی نے اسے آج بھائی ماں باپ سب کے سامنے رسوا کر دیا بھائی سے نظر ملانے تک کی ہمت نا تھی۔۔ اور اب ماں باپ ؟؟؟ کس طرح جائے گی انکے سامنے؟؟؟ صرف ایک انسان کی محبت میں اس حد تک اندھی ہوگئی کے سالوں کے محبت لٹاتے رشتوں کو پل بھر میں رسوا کردیا؟؟


” نام کیا ہے اُسکا؟؟ “ کچھ دیر بعد اچانک سے یہ غراہٹ سن کر وہ جی جان سے کانپ اٹھی۔۔۔


” ز۔۔۔۔۔ “ آواز ھلک سے نکلنے سے قاصر تھی۔۔


” ز۔۔۔۔۔۔۔ا “ وہ بولنا چاہتی تھی لیکن اس گناہ کے بعد اپنے ہی بھائی کے سامنے نام لینا تک اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہوا۔۔۔۔

لیکن اگلے ہی لمحے بھائی کی ایک نظر تھی کے اسکی بریک لگی زبان نے روانگی سے نام ادا کردیا۔۔۔۔


” زارون احمد “


اس نام سے اسکا بھائی بُری طرح چونکا یکایک چہرے پر سخت تاثرات لہرائے اور لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے ایک ہی دھاڑ میں عروج سے پوری بات پوچھی۔۔

اپنے بھائی کو سچائی بتاتے اسکی آنکھیں پل بھر کو بھی نا اٹھیں شرمندگی کے مارے وہ پل پل سچائی بتاتی زمین میں دھنستی جا رہی تھی اسکے بھائی اسے کوئی شاطر چالاک عورت سمجھ رہے ہونگے جو اپنی محبت میں اس قدر اندھی ہوگئی کے وہ معصومیت گنواں بیٹھی جس پر اسکے بھائی اپنی جان نچھاور کرتے تھے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قدموں کی آواز سن کر عروج نے اپنا سر اٹھایا تو نظر سامنے خالی بیڈ پر پڑی اسکا بھائی جا چکا تھا ساتھ وہ اپنی عزت بھی آج بھائی کی نظر میں گنواں چکی تھی وہ جانتی ہے اب اسکا بھائی یہ ساری باتیںں اسکے تینوں چھوٹے بھائیوں سے کریگا۔۔۔۔


زارون احمد اسکی پہلی محبت ہے جس سے اسکی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور پہل ہمیشہ زارون کی طرف سے ہوئی تھی۔ انکی دوستی کب محبت میں بدلی عروج کا احساس تک نا ہوا بس جس دن زارون یونی میں دیکھائی نا دے اسکا پورا دن بُرا گزرتا، اسکے بغیر بےچینی رگ و جان میں سراعیت کرتی ہے ایسا ہی ایک دن تھا جب وہ بنا بتائے چھٹی کر بیٹھا اور عروج جو آج اپنے اسپیشل ڈے پر اتنا تیار ہوکر آئ تھی سارے موڈ کا بیڑا غرک ہوگیا لیکن نہیں اوف ٹائمنگ سے پہلے ہی زارون اسے یونیورسٹی کی گیٹ پر ملا اور اس دن زارون نے اسکی برتھ ڈے کا حیرت انگیز خوبصورت ترین تحفہ دیا اسے پروپوز کر کے۔۔۔۔


زارون احمد کی دی رنگ اِسکی انگلی کی زینت بنی۔۔۔

اسکے پروپوزل کو عروج نے دل و جاں سے اپنی سر آنکھوں پر رکھا۔۔۔


اسکے بعد سے عروج ایک الگ ہی دنیا میں کھو گئی پڑھائی سے زیادہ اسکی توجہ کا مرکز اب زارون احمد تھا لیکن ایک دن زارون کی ایک حرکت نے اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کردیا وہ جان بوچ کر بار بار اسکے قریب آتا اور عروج کو تب سب عجیب لگتا ایک دن اس نے زارون سے صاف کہ دیا کے اب آخری سال بچا ہے کچھ ہی مہینوں میں پپرز کے بعد سب الگ ہوجائیں گئے اسلئے وہ اپنا رشتہ اسکے گھر بھیجے ویسے بھی آج کل اسکے ایک کزن سے عروج کی بات چل رہی تھی اور عروج کی امی نے بھی صاف کہ دیا تھا پپرز کے بعد فوراً سے اب اسکی شادی کرنی ہے۔۔۔۔


دو تین دن وہ اسی طرح زارون کا دماغ کھاتی رہی اور آخر ایک دن وہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ آنے پر راضی ہوگیا وہ ایک ہی رٹ لگائے بیٹھا تھا کے جاب کے بغیر بلا کیوں کوئی اپنی بیٹی دیگا؟؟ لیکن عروج نے یہاں اسے تسلی دی تھی کے اسکی ماں سب سمبھال لیگی اور یہی ہوتا اسکی ماں نے نجانے کس طرح اسکے باپ اور بھائیوں کو منایا تھا کے وہ خاندان سے باہر شادی کرنے پر راضی ہوگے تھے۔۔۔


گھر میں ہی ایک چھوٹی سے تقریب میں دونوں کی انگیجمنٹ ہوئی وہاں اسکے بھائی بھابی چچا گھر کے بڑے سب موجود تھے جبکے زارون کی طرف سے ماں باپ اور بھائی بہن ہی تھے۔۔۔


انگیجمنٹ کے بعد سے عروج کے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے اسے یقین نہیں آرہا تھا سب اتنی آسانی سے ہوگیا؟؟ کوئی رکاوٹ نہیں حالنکے اکثر جگہ فیملیز نہیں مانتیں لڑکا لڑکی جی توڑ محنت کریں لیکن لاحاصل رہتے۔۔۔۔

لیکن یہ عروج کی خام خیالی تھی کیونکے ایک دن زارون نے جو اس سے خوائش کی وہ آج اسے پاتال میں دھکیل گئی۔


شادی سے پہلے زنا۔۔۔ کیوں آخر ؟؟ وہ کیوں گئی اسکے ساتھ؟؟ کیا رشتہ تھا اسکے ساتھ؟؟ کونسا ایسا اعتبار دیا تھا زارون نے کے اندھی بن کر وہ اعتبار کرتے اپنے رشتوں کو سزا دے آئی؟؟


محبت؟؟ ایسی ہوتی ہے جو پامال کردے؟؟

اعتبار؟؟ نہیں اعتبار کیسا آج تک اسنے اعتبار دلانے کے لئے کیا کیا؟؟؟

خوف؟؟ اسے کھونے کا یا منگنی ٹوٹنے کے بعد ماں کے سامنے شرمندگی؟؟؟ لیکن کیا وہ شرمندگی رسوائی سے بہتر نا تھی؟؟ وہ سوچ سوچ کے پاگل ہو رہی تھی اور وہ منحوس دن آج بھی اسکے زہن میں حفظ تھا۔۔


زارون احمد اس سے محبت کے نام پر لوٹ کر چلا گیا اور اسی دن صاف کہ دیا۔۔

” منگنی ختم “

زارون نے انگھوٹی عروج کی گودھ میں اوچھالی


” کیا مطلب “ عروج کے گویا اوسان خطا ہوگے۔۔۔


” اب شادی کا کیا فائدہ “ مکرو ہنسی ہنستا وہ عروج کو اس وقت زہر لگا۔۔


تین دن تک وہ کوئی ذہنی مریض بن کر بستر پر پڑی صرف یہی سوچتی رہی ماں باپ، بھائی خاندان کو کیا جواب دیگی؟؟ جب سب اس سے منگنی ٹوٹنے کی وجہ پوچھیں گئے تو وہ کس طرح اپنے ماں باپ کا سامنا کریگی کس طرح انھیں رسوا ہوتا دیکھے گی؟؟


سوچ سوچ کر اسکا سر پھٹنے لگا تھا اور پھر آخر کار عروج نے ہمت مجتمع کرکے سب کچھ اپنے بھائی کو بتایا روز روز کی موت مرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے لیکن یہاں اس سے یہ غلطی ہوئی کے اس نے آتے ہی اپنے گناہ کا احتراف کیا اور یونی میں جسے پسند کرتی ہے اسکا بتایا اسکا بھائی یونی فیلو اور زارون کو دو الگ شخصیت سمجھ رہا تھا تب عروج نے شروع سے لیکر لفظ لفظ اپنے بھائی کو بتایا۔۔۔۔


وہ یہی سمجھا تھا اسکی بہن نے انکے پسند کردہ لڑکے سے مجبوری میں شادی کی لیکن اصل بات تو اب کھلی زارون اسکی بہن کی پسند محبت تھا۔۔۔۔


اسلئے انکے بابا اس رشتے پر اتنا زور دے رہے تھے۔۔۔

بھائی کے جاتے ہی عروج مرے مرے قدموں سے کمرے میں آگئی اسکا جسم اس قدر خوف کی شدت میں تھا کے جسم کے ہر حصے سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن اب کسی قسم کا نا ڈر تھا نا خوف بس انتظار تھا موت کا۔۔


اور یہ انتظار انتظار ہی رہا۔ چاروں بھائی اب اسے دیکھتے تک نہیں امی ابو کا رویہ ویسے ہی تھا محبت لوٹاتا جبکے بھائی نا اس سے کچھ کہتے، نا کسی کام کے لئے پکارتے ایک ہی گھر میں وہ اجنبی بن کر رہ رہے تھے عروج تو اس بات پر حیران تھی آخر اتنا سناٹا کیوں ہے؟؟ اور اسکا جواب پورے دو ماہ اور سات دن بعد ملا۔۔۔۔


” عروج یاسر کیا آپ کو دو لکھ حق مہر میں زارون احمد کے ساتھ نکاح قبول ہے؟؟؟ “

الفاظ تھے یا تیر جو اسے ناگ کی طرح ڈس رہے تھے ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟؟ وہ تو اسے منگنی توڑ کر رسوا کر کے جا چکا تھا پھر؟؟


” منگنی ختم “

زارون نے انگھوٹی عروج کی گودھ میں اوچھالی

” کیا مطلب “ عروج کے گویا اوسان خطا ہوگے۔۔۔

” اب شادی کا کیا فائدہ “ مکرو ہنسی ہنستا وہ عروج کو اس وقت زہر لگا۔

” کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟؟ “ مولوی صاحب نے اپنا سوال پھر دھرایا لمحے میں اسکا سحر ٹوٹا اور وہ ہوش و حواس کی دنیا میں واپس لوٹی۔۔۔۔۔


” جواب دو عروج “ اپنے بھائی کا نرم لمس کندھے پر محسوس کر کے اسکی زبان پر لگا فقل ٹوٹا۔۔۔

” قبول ہے “

” شکر۔۔۔ “ اسکے زبان سے ادا ہوتے جملے پر بےاختیار پاس بیٹھے شخص نے شکر ادا کیا۔۔ عروج سمجھنے سے قاصر تھی آخر ہوا کیا ؟؟؟


ایک دن اچانک سے دونوں کا نکاح پھر پپرز کے بعد فوراً سے رخصتی اس بیچ نا زارون نے اس سے بات کی نا اسنے زارون سے بات کرنے کی کوشش کی بس خود کو تقدیر کے حال پر چھوڑ دیا۔۔


نکاح کے بعد سے اسکا بھائیوں کا رویہ بلکل پہلے کی طرح ہوگیا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہر کام کے لئے اسے بلاتے، آخری دنوں میں اسکا خوب خیال رکھتے شادی میں بڑھ چڑھ کا حصہ لینے کے لئے اسرار کرتے لیکن وہ بس ایک ہی جملہ دوڑاتی

” جو آپ کو پسند ہو وہی لیں “

اسی طرح شاپنگ بھاگ دوڑ میں رخصتی کا دن بھی آن پہنچا اور رخصت کرتے وقت اسکے بھائی نے شاید اس سے زندگی کی وہ پہلی اور آخری التجا کی تھی۔۔۔


” گڑیا زارون سے کبھی پرانے دنوں کا حصاب نا لینا سمجھنا آج تمہیں اپنے پسند کے لڑکے کے ساتھ رخصت کر رہا ہوں جو تمہارے لئے اجنبی ہے۔۔۔ رہی بات سزا کی دونوں حقدار تھے دونوں کو سزا مل چکی ہے “


بھائی کی پہلی التجا تھی آخر وہ کیسے رد کرتی؟؟ سب کچھ ویسے ہی شروع ہوا زارون اور عروج ہر ارینج میرج کپل کی طرح اجنبی بن کر ملے زارون جب آیا تو عروج نے دیکھا وہ خوفزدہ تھا لیکن جب عروج نے سلام کا جواب دیا تب زارون کی پھنسی سانس بحال ہوئی ہر شوہر کی طرح زارون نے بھی اس لال جوڑے میں دیکھ کر اسکی تعریف کی اور انگلی میں خوبصورت انگھوٹی پہنائی۔۔۔


عروج نے نا آج تک زارون سے کچھ کہاں تھا نا زارون نے عروج سے البتہ زارون میں کافی چیزیں حیرت انگیز تھیں جیسے وہ کہتا تھا پانی کا گلاس تک اسکی بہن اٹھا کر رکھتی ہے وہ گھر میں کسی کام کو ہاتھ نا لگاتا جبکے زارون اسے بچوں میں الجا دیکھ کافی کام خود کرتا کبھی اس نے عروج کو کام کی وجہ سے زچ نہیں کیا نا بلاتر کسی بات پر ڈانٹا بلکے اکثر اسکی بنائی نیو ڈیشز کی تعریف کرتا، انہیں باہر گھمانے لے جاتا، انکی ضرورت کا خیال رکھتا ایک شوہر اور باپ کے سارے فرض نبھاتا لیکن ایک بعد عروج نے نوٹس کی تھی وہ اسکے بھائیوں اور ماں باپ کی بہت عزت کرتا تھا انکے آنے پر خاص احتمام کرتا اور ایسا کیوں تھا وہ نہیں جانتی۔۔۔

لیکن آج وہ خوش ہے۔۔۔


کل تک موت کی دعا کرنے والی آج زندگی کا پل پل جی رہی لیکن وہ گناہ آج تک نہیں بھولی اور یہی وجہ ہے وہ اپنی بیٹی کی ابھی سے گہری دوست بن بیٹھی ہے کیوں کے وہ نہیں چاہتی جو گناہ اس سے ہوا وہ اسکی بیٹی سے ہو کیوں کے ہر کسی کی قسمت عروج یاسر جیسی نہیں ہوتی نا ہر مرد وقت کے ساتھ بدلتا ہے جیسے زارون احمد بےحس سے حساس ۔۔۔

میں زارون احمد آج شادی کے دس سال بعد بھی سوچ رہا ہوں کیا وہ دو ماہ واقعی میری زندگی میں آئے تھے یا میرا خواب تھا؟؟؟ لیکن بستر پر لیٹتے ہی پیٹ میں محسوس ہوتے درد نے یاد دہانی کروادی خواب نہیں حقیقت تھا سب۔۔۔۔


عروج یاسر میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی نہیں تھی بلکے اس سے پہلے کافی لڑکیاں میری زندگی میں آئیں لیکن بات اینگیجمنٹ تک نا پہنچی ایک ٹائم پاس دل لگی تھی جو ہفتوں بعد اڑن چھو لیکن عروج یاسر نے بڑا نقصان کروایا۔۔۔۔


برتھ ڈے پر اسکے لئے انگھوٹی خریدی، بےپناہ محبت کا یقین دلایا لیکن تب بھی عروج نے اعتبار نا کیا پھر تنگ آکر مما سے ضد کر کے انھیں عروج کے گھر بھیجا اب شادی تو ایک نا ایک دن کرنی تھی پھر عروج ہی سہی۔۔ لیکن منگنی کے بعد جب میں نے اسے قریب آنے کے لیے فورس کیا وہ مان گئی میرے لئے حیرت کا مقام تھا پھر بھلا اس سے شادی کر کے کیا فائدہ؟؟ میں نے اسی وقت منگنی توڑ دی بغیر یہ سوچے کے آج میں نے اسے مردوں کا وہ دردناک روپ دکھایا ہے جسے دیکھنے کے بعد شاید وہ زندگی میں کسی مرد پر اعتبار نہیں کریگی۔ ایک لمحے کو بھی میرا دل میں یہ خیال نا آیا کے وہ باپ بھائی کی لاڈلی تھی آج یہ دردناک روپ دیکھ کر اسکی دماغی حالت کیا ہو رہی ہوگی؟؟ اس وقت میں نے کچھ نا سوچا میں تو بس جیت کی خوشی میں اندھا تھا پھر اپنی یہ خوشی کیوں خراب کرتا؟؟ لیکن میری یہ خوشی دو پل رہی تھی میرا مطلب کچھ دنوں تک رہی۔۔۔۔


ایک دن دوست کے گھر سے لوٹتے میں جب اپنے بنگلے کی گیٹ پر پہنچا کسی نے پیچھے سے آکر میری ناک پر رومال رکھ دیا اس حرکت پر غور تب کرتا جب ہوش ہوتا ہوش تو تب آیا جب اپنے سامنے پہلوانوں کا جھنڈ دیکھا۔۔۔۔


جی ہاں پہلوان ایک سے بڑھ کے ایک جنہیں دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی اور یہ کانپتی روح تب اپنی جگہ پڑوان چڑھی جب میں نے اپنے کزنس کو دیکھا میں ہی نہیں میرے ساتھ تایا چچا کے بیٹے سب موجود تھے اور ہم ایک دوسرے کو دیکھتے سوچ رہے تھے آخر ہمیں کس نے اغوا کیا؟؟


اسکا جواب بھی منٹوں میں مل گیا جب عروج یاسر کے بھائیوں کی خون خوار نظریں خود پر محسوس کیں پھر میں تھا اور میری چیخیں۔۔۔۔۔


ظالموں نے اتنا ماڑا کے تین دن تک زمین پر سو نا سگا لیکن ظالموں نے خوشی بھی بڑی دی تھی میرے کزنس کو بھی ویسے ہی کٹ لگائی تھی جیسی مجھے۔۔۔۔۔


میرا خیال تھا دلائی کے بعد چھوڑدیں گئے لیکن نہیں لگاتار ڈیلی پہلوانوں سے وہ مار مروائی کی میری نسلوں تک نے دل لگی سے توبہ کردی۔۔


” کیوں کمینے سمجھ کیا رکھا ہے لڑکیوں کو ؟؟ تیری جیسے حرام خوروں کے لئے پیدا کیا ہے ؟؟؟ جب آئے اور۔۔۔۔۔ “ اسکا بھائی مارتے ہوے مسلسل مجھ سے پوچھا رہا تھا جبکے میں زمین پر نڈھال پڑا اسکی مار کھا رہا تھا۔۔۔


” آئی ماں۔۔۔۔۔“

یہ میرے کزن حماد کی آواز تھی جسے سن کر مار کا درد اب کم محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ شکر تھا انہیں بھی اٹھا لیا ورنہ اکیلے میں نے مار کھا کھا کر زہنی مریض بن جانا تھا کم سے کم اب چیخوں میں کمپنی تو ہوگی۔ لیکن ایک بات سمجھ نا آئی مجھ سے نفرت کی وجہ میں جان چکا تھا انکی بہن کے ساتھ۔۔۔ لیکن غصّہ اس قدر تھا میرے خاندان کے سارے جوانوں کو اٹھا لیا؟؟؟


عروج کا ایک بھائی پولیس افسر تھا کبھی کبھی اپنے حوالداروں کو ہمیں مارنے کے لئے لیکر آتا لگاتار دو ماہ تک ہم نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی ” زنا “ ” بےوفائی “ ” دھوکے بازی “ ” ارمانوں کا مجرم “ ” حوس پرست “ نجانے کون کون سے احساس دلائے لیکن کوئی اندرونی سویا مرد نا جگا بس ایک مار نے عقل ٹھکانے لگادی میں جو بہن تک کو سامنے رکھی دو قدم کے فاصلے پر فرج سے پانی لانے کا حکم جاری کرتا تھا اب سب کام خود کرتا ہوں یہاں تک کھانا کھا کر پلیٹ بھی خود رکھ آتا ہوں ایک لفظ بھی جو منہ سے نکلا وہیں سے پہلوان کا بیلن گھما کر سر پر پڑتا ۔


” گلی کے گندھے کیڑے، کمینوں، شرم آتی ہے کسی کی زندگی تباہ کرتے ہوے؟؟ عورت کو کھلونا سمجھ کر دل لگائی لگا کر مطلب پورا کر کے مرنے کے لئے چھوڑ دیا؟؟؟ کبھی سوچا کمینے تو تو مرد ہے تجھ سے کون پوچھ گا لیکن اس عورت کا کیا جو دنیا کے آگے جواب دا ہوگی جسکا سر کبھی نا بھائی کے آگے اٹھے گا نا باپ کے ارے بےغیرت عورت سے دل لگی کرنے سے پہلے سوچ تیرے گھر میں بھی بہن ہے۔۔۔ ٹھکرانے سے پہلے سوچ تجھ جیسا گندھی نالی کا کیڑا بھی کسی عورت کے رحم و کرم سے ہی دنیا میں آیا ہے کتے “ آج پھر جنونی انداز میں دلائی ہوئی تھی اتنا کُٹنے کے بعد بھی ظالموں کو رحم نا آیا میں جو سمجھا تھا اب پہلوان کے جانے کے بعد آرام کرونگا ایک اور حکم سن کر زمین سے ٹیک لگاے خود کو گالیاں دینے لگا۔۔۔


” عالم آس پاس گھروں کے، بلکے اس پورے علاقے کے جو دلہے کپڑے بھی ہیں لاکر انہیں دے کمینے جب تک ہاتھ نہیں چلائیں گئے قدر نہیں جانیں گئے یہ وہ کمینے ہے جنکے سامنے شیر بھی دھاڑے تو یہ کان بند کر کے بیٹھے رہیں۔۔ “ علاقے کیوں؟؟؟ پورے پاکستان کے کپڑے لے آؤ نا جلادوں۔۔۔ کیا قسمت تھی منہ سے بھڑاس تک نہیں نکال سکتا اس فرعون سے تو کوئی امید نہیں تھی لیکن میں نے عالَم کو رحم بھری نظروں سے التجا کی کے ترس کھا لیکن وہ جلاد تو اسکا بھی باپ نکلا کپڑوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ رکنے پر مارنی والا ڈنڈا بھی لے آیا جہاں میرے یا میرے کزنس کے ہاتھ روکے وہیں ایک ڈنڈا ہماری پیٹ پر پڑتا۔۔۔۔


” یہ فرعون کی اس نسل سے ہیں جن کے سامنے بیغرتی کی انتہا بھی ہو رہی ہو نہ تو اندھے بہرے گونگے بن جاتے ہیں اب انہیں پتا لگے گا عورت کو ٹشو پیپر سمجھنے کا کیا انجام ہوتا ہے نسلوں تک نے توبہ نا کی تو نام بدل

دینا حیدر شاہ کا “ وہی بڑا بھائی حیدر شاہ یا کہا جائے سانڈ موت بن کر ہمارے سروں پر کھڑا تھا۔۔۔


یہاں رہکر ان لوگوں نے عورتوں والے سارے کام کرائے اور پہلی بار مجھے محسوس ہوا تھا ” عورت “ کے بغیر مرد کی زندگی کیا ہے ؟؟؟

ماں نا ہو تو ہم زندہ کیسے رہیں؟؟؟

بہن نا ہو تو اداس گھر میں خوشی کی لہر کیسے دوڑے؟؟

بیوی نا ہو تو مرد مکمل کیسے ہو؟؟ اور عورت ہی نا ہو تو

ہم جیسے جگہ جگہ دل لگی کرنے والے مرد کس طرح دنیا میں آئیں؟؟؟


پہلے میں اس دن کو کوستا تھا جو دل لگی کے لئے ان شیروں کی عزت پر ہاتھ ڈالا لیکن اب سوچتا ہوں یہ وقت نا آتا تو آج تک بےحس بنا صرف خود کے لئے احساس رکھتا۔۔۔مجھے یاد ہے وہ بھی اس وقت میرے طرح بےحس بنے رہے تھے جیسے میں انکی بہن کے لئے بنا تھا۔ کوئی پینتیس دفع توبہ کر چکا تھا لیکن انہوں جو سنا ہو؟؟؟ الٹا کہتے۔۔۔

” جانے دے عالَم کتے کو بھوکنے دے یہاں سے نکل کر کوئی نیا شکار ڈھونڈیں گئے جب تک خود عقل نہیں آتیں انکی آزادی ناممکن ہے “ حیدر نے گویا مکھی مارنے والے انداز میں بات ہی ختم کردی لیکن یہاں میری باقی کزنس نے احتجاج کیا۔۔۔۔


” غلطی اس نے کی ہمیں کیوں باندھ رکھا ہے ہم نے کیا کیا؟؟ “ حماد نے دبی دبی آواز میں احتجاج کیا کے کہیں پیچھے سے ڈنڈا نا پڑ جائے۔۔۔


” ہاں میری تو ابھی منگنی تک نہیں ہوئی “ قاصم نے منہ کھولا تھا کے پیچھے سے کسکے ایک لات پڑی وہ اوندھے منہ ذمین پر گڑ پڑا جسے دیکھ کر ہم سب کی زبانوں کو تالا لگ گیا لیکن علی کی زبان میں نئے سرے سے کھجلی ہوئی۔۔۔۔


” اور۔۔۔۔ میں نے تو یونیورسٹی کی شکل بھی نہیں دیکھی “میں علی کا منہ دیکھتا رہ گیا جو چوبیس گھنٹے پاپا کی پرنسسز نام سے فیس بک پر ایک ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو ریکویسٹ بھیج چکا تھا اور یہاں یونیورسٹی نا جانے کا رونا رو رہا تھا؟؟ میری دل سے خوائش تھی عید کمینے کو بھی دو تین چھتر پڑیں اور وہی ہوا ساتھ مجھے یہ بات بھی سمجھ آئی پورے خاندان کو کیوں اٹھایا ؟؟


” پاپا کی پڑی تجھے انٹرنیٹ پر روٹیاں بنانے سے فرست ملے تب جاکر کہیں کتابیں کھولے نا “ اور وہ آیا ڈنڈا جس نے سب کے ساتھ میرے بھی ہاتھ تیزی سے چلائے۔۔۔


یہ وقت اسی طرح گزرتا رہا میری التجا معافی، رونا دھونا کچھ کام نا آیا آخر دو ماہ بعد مقرر وقت پر ہم سب کو چھوڑ دیا گیا۔خود میرے گھر کے پاس ہمیں گاڑھیاں چھوڑ گئیں ہم اندر پہنچے تو وہاں ماحول نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں گھر میں نا پولیس تھی نا مہمان پھر ابو کی نظر جیسے ہی ہم پر پڑی لگاتار تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی۔۔۔

میں سن ہوتے ذہن کے ساتھ اس ویلکم کے انداز کو سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔

باپ نے تو بھڑاس نکال لی لیکن ماں نے ایسی حالت دیکھ کر دل تھام لیا مگر چُپی کا فقل ہونٹوں سے نا توڑا قاصم نے بس اتنا بتایا ہم ساتوں کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تب بابا نے بھی پوچھا جاتے وقت یا واپس آتے وقت پھر بابا سے ہی ہمیں پتا لگا سب کے موبائل سے میسجز آئے تھے کے مری کاغان سوات گھومنے گئے ہیں۔۔


تھپڑوں کی بارش کا یہی بتایا کے وہاں جاکر کونٹیکٹ کیوں نا کیا؟؟ نا جانے کی اطلا دی نا پہنچنے کی اب منہ اٹھائے آگئے۔۔ میں کیا جواب دیتا بس لنگڑاتا ہوا کمرے میں بند ہوگیا ساتھ ہی میرے کزنس رات تک اپنے گھروں کو روانہ ہوگے لیکن وہ بھی بستر سسے تب تک نا اٹھے جب تک کسی نے سہارا نا دیا۔۔۔


ابو مجھے دیکھتے ہر وقت کچھ نا کچھ کھوجتے رہتے جب کے میں لاپروا بنا اپنے زخموں پر مرہم لگاتا کبھی کبھی سوچتا کے اگر وہ لوگ نا چھوڑتے تو ؟؟؟ مار کر دفن کردیتے کسے پتا لگنا تھا ؟؟؟ تین دن تو میں خود کو اپنے نرم بستر پر دیکھ کر حیران تھا کے کانٹوں بھرا سفر بلا تر اختتام ہوا۔۔۔


ابھی مجھے لوٹتے ایک ہفتہ ہوا تھا کے ہنستا مسکراتا حیدر شاہ شان سے اپنے ماں باپ کے ساتھ آکر شادی کی تاریخ فیکس کر گیا میں نے کوئی حیرانگی ظاہر نہیں کی کیوں کے اسنے پہلے ہی کہا تھا وہ تاریخ دینے آئے گا ساتھ وہ وارننگ۔۔” جب برباد کرتے نہیں سوچا جو بربادی کی تلافی کرتے وقت کیوں؟؟؟ “ میں خاموش رہتا آخر اسکی

قید میں جو تھا۔۔


لیکن اس قید نے میرے اندر کے حیوان کو ہمیشہ کے لئے ُسُلا دیا وہ حوس پرست مرد موت کے ڈر سے کہیں دور جا سویا ان اندھیری راتوں نے وہ خوف پیدا کیا کے اب نائٹ کلب کا منظر دوزخ کی آگ کی طرح خطرناک لگتا ہے جسکی طرف بڑھا ایک قدم واپس اس زنا گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ حیدر شاہ نے مجھے وہی عزت مان دیا جو کوئی بھی سالا اپنی بہن کے شوہر کو دیتا۔ میں بس نکاح کے دن ایک ہی بات پر اٹکا ہوا تھا کیا وہ مجھ سے نکاح کریگی ؟؟ جس طرح میں نے محبت کے کھیل میں اسے لوٹا کیا وہ مجھ جیسے شخص کو کبھی اپنا رکھوالا چنے گی؟

اور اسکا جواب بھی مجھے ملا۔۔


قبول ہے کی صورت میں۔۔۔

اس دن میں نے بھی خود سے ایک عہد کیا۔۔

اب گزرا وقت نہیں دہراؤنگا۔۔۔۔

نا بیتے کل کا تعنہ دیکر خود کو مرد ثابت کرونگا جس نے احسان کر کے اسے ایک نئی زندگی دی۔۔

بلکے ہر وقت اسے دیکھتے اس بیتے وقت کو یاد کر کہ عورت کا احساس کرونگا۔۔۔

محبت کا قاتل ہوں لیکن انسانیت مرنے نہیں دونگا۔۔

نا اچھا دوست بن سگا، نا عاشق لیکن اچھا شوہر بنے کی کوشش کرونگا بس ایک دعا ہے وہ بھی کبھی گزرا کل نا یاد دلائے۔۔۔


اور شاید وہ گھڑی قبولیت کی تھی آج تک نا اس نے مجھے کٹھرے میں لاکھڑا کیا نا بیتے وقت کی پرچھائی کا عکس میں نے اس خوبصورت زندگی میں آنے دیا۔

رخصتی کے دن میرے سارے کزنس حیدر شاہ سے چھپ کر گھوم رہے تھے لیکن فوٹو سیسشن کے دوران رشتےداروں نے ملکر سب کو اسٹیج پر بھیجا وہاں اپنی ہی شادی کے دن کزنس کی دعائیں کیا ملتیں الٹا ایک ایک مرنے کی بددعا دے گیا وہ بھی اسی پہلوان سالے کے ہاتھ جسے دیکھتے ہی سبھی کا درد نئے سرے سے شروع ہوگیا۔ خیر میری تو آج تک چاروں بھائی اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی کوئی بیٹا اپنے سگے باپ کی کرتا ہے آخر اکلوتا جیجا جو ٹہرا۔۔۔


اس سب کے باوجود میرا رویہ کبھی بھی عروج سے سرد نا ہو سگا الٹا اسکے سامنے آتی ہی مجھے خود سے بھی شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے اور اسکی تلاوفی میں محبت کی صورت میں کرتا ہوں، اسے عزت، وقت، پیار دیکر کر۔۔۔

میں اس سے محبت کرتا ہوں؟؟ معلوم نہیں لیکن عروج اور بچوں کے بغیر یہ گھر کھاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔۔

میری زندگی اسکے بغیر ادھوری سی لگتی ہے۔۔۔


اسے مکمل صرف اسنے کیا ہے کیونکے عروج وہ عورت ہے جس نے میرا وہ چہرہ دیکھا ہے جس سے میرے حقیقی والدین تک انجان ہیں۔۔۔


میری زندگی کی وہ روشنی ہے جس نے کبھی مجھے اندھیرے میں بھٹکنے نہیں دیا۔۔۔


بلکے دردناک سفر کی وہ یاد ہے جس نے میرے نفس کو سلایا ہے۔۔۔


وہ ” وہ “ عورت ہے جو میرے بچوں کی ماں ہے میرے لیے عزیز ترین ہستی اور میری ماں کے بعد وہی وہ دوسری عورت ہے جسکی عزت میرے دل نے جی جان سے کی ہے۔۔۔


میں نے دل لگی جس عورت سے کی تھی آج وہی میرے لیے قابل عزت ہستی ہے۔۔۔۔

آج ہم دونوں اپنی اس زندگی میں خوش ہیں کیونکے ہم نے بیتے کل کو آج پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ خاص کر میں نے کیوں کی آج بھی مجھے بستر پر لیٹتے ہی پیٹ میں شدید درد اٹھتا ہے جسے یاد کر کے میری ساتھ پشتوں نے دل لگی سے توبہ کرلی۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Lagi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Lagi written by Yusra Eva. Dil lagi by Yusra Eva is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment