Pages

Monday 15 July 2024

Azab Raston Ka By Mahwish Urooj New Complete Romantic Novel

Azab Raston Ka By Mahwish Urooj New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Azab Raston Ka By Mahwish Urooj Complete Romantic Novel 




Novel Name: Azab Raston Ka 

Writer Name: Mahwish Urooj

Category: Complete Novel

ساری رات چھاجوں مینہ برستا رہا تھا۔صبح بھی موسم ابرآلود تھا۔وقفے وقفے سے بارش ہو رہی تھی۔متواتر برستی بارش نے سردی کی شدت میں اضافہ کر دیا تھا۔وہ اپنے کمرے میں چارپائی پہ چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ساری رات برستی تیز بارش کی وجہ سے کمرے کی چھت کے ایک کونے سے ابھی تک قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا۔راحت بانو نے وہاں نیچے پلاسٹک کا ایک بڑا برتن رکھا تھا۔پانی ٹپکنے کی آواز کمرے کی خاموشی میں دراڑ ڈال رہی تھی۔راحت بانو دو تین بار اسے آواز دے کر چکی تھیں مگر وہ چھت کو گھورنے کا کام جاری رکھتے ہوئے بےسدھ لیٹی تھی۔اسکول کا نام سن کر ہی اسے اپنے دل و دماغ پہ ایک خوف سا چھاتا محسوس ہو رہا تھا۔رات سے ہی وہ تہیہ کر کے سوئی تھی کہ اب وہ اسکول نہیں جائے گی۔گھڑی کی سوئیاں تیزی سے گزرتے وقت کا پتہ دے رہی تھیں مگر وہ یونہی ڈھیٹ بنی لیٹی رہی۔

ویسے بھی پڑھائی میں دل ہی کہاں لگتا تھا۔موڈ ہوتا تو تھوڑا بہت پڑھ لیتی تھی۔بس اسکول میں ہونے والے مختلف فنکشنز اور مقابلوں میں خوشی خوشی حصہ لیتی تھی۔اس کے علاوہ تو وہ کتابوں کو دور سے دیکھ کر رخ موڑ لیا کرتی تھی۔اللہ نے آواز بھی خوبصورت دی تھی تو سارا رجحان اسی جانب تھا۔اسکول کی جانب سے مختلف نعت خوانی اور ملی نغموں کے مقابلوں میں حصہ لیتی تھی اور اول یا دوم پوزیشن اسی کی ہوتی تھی۔۔طلباء کے ساتھ ساتھ اسکول کی اساتذہ بھی اسکی آواز کی مداح تھیں۔گھر میں بھی کام کرتے کرتے مسلسل گنگناتی رہتی۔گلریز خان بھی اسکی کی مدھر آواز میں اپنا روشن مستقبل دیکھتا تھا۔وہ اسکے لئے سرمایا حیات تھی۔وہ چاہتا تھا کہ برداری کی باقی لڑکیوں کیطرح ملغلرہ بھی اس پیشے کو اپنائے۔گلریز خان ایک طبلچی تھا۔اسی پیشے سے اسکی روزی روٹی جڑی تھی اور یہی واحد کسب تھا۔گاوں میں کہیں بھی کوئی شادی ہوتی یا موسیقی کی محفل۔۔۔اسے بلایا جاتا تھا۔۔۔گلے میں سر تو نہیں تھے مگر ہاتھوں میں طبلہ بجانے کی مہارت رچی بسی تھی۔بمشکل دو وقت کی روٹی کما لیتا تھا۔برادری کے باقی لوگوں نے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو موسیقی کے فن سے روشناس کرا رکھا تھا۔اگر وہ اسے ساتھ لے کر بھی جاتے تو جو بھی کمائی ہوتی اسکا حصہ سب سے کم ہوتا۔بمشکل گزر بسر ہو رہی تھی۔ملغلرہ کی آواز بھی اچھی تھی اور گانے کا شوق بھی تھا اس لئے ملغلرہ کے لئے دیکھے گئے خوابوں کی اڑان بھی بلند تھی۔وہ چاہتا تھا کہ ملغلرہ باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرے تاکہ ایک مشہور گائیکا بن سکے اور اس کے بھی دن پھر جائیں۔وہ خوش تھا کہ ملغلرہ بھی گانے کا شوق رکھتی ہے اور وہ اس پیشے کے خلاف نہیں ہے۔مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ وہ تعلیم بھی حاصل کرے لیکن اسکا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔گھر میں کسی کی جانب سے دباو بھی نہیں تھا اس لئے دل چاہا تو پڑھ لیا نہیں چاہا تو کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی۔ویسے بھی گلریز جو چاہتا تھا وہ کوالٹی تو اس میں بدرجہ اتم موجود تھی لیکن وہ ابھی چھوٹی تھی اس لئے وہ اس پہ ابھی سے کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔وہ اس انتظار میں تھا کہ وہ تھوڑی سمجھدار ہو جائے تو وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے جایا کرے گا۔

"ملغلرہ۔۔۔۔تم نے تو تھکا دیا ہے مجھے لے کے۔۔اب اٹھ بھی جاو۔۔دیکھو چھوٹی بہن کب کی تیار ہو چکی ہے۔۔کیا اسکول نہیں جانا؟"

راحت بانو کمرے میں آئیں تو اسے ہنوز اسی طرح چارپائی پہ لیٹے دیکھ کر اس کے قریب آئی تھیں۔

"اماں میرا موڈ نہیں ہے۔۔۔میں نہیں جا رہی اسکول۔"

وہ منہ کے ٹیڑھے میڑھے ذاویے بناتی اٹھ بیٹھی۔

"کیوں۔۔۔۔کیوں نہیں جانا اسکول؟"

وہ اس کے قریب آئیں اور اسکے بیزاری سے بھرپور تاثر دیتے چہرے کو بغور دیکھنے لگیں۔پہلے تو وہ اسکول کے نام سے اتنی بیزار نہیں ہوتی تھی مگر کچھ دنوں سے وہ دیکھ رہی تھیں کہ وہ کچھ زیادہ ہی اسکول کے نام سے چڑنے لگی ہے۔

"بس اماں میں نے نہیں جانا کوئی اسکول۔"

وہ ایک بار پھر لحاف سر تک تان کر لیٹ گئی۔

"تو بی بی یہی تو پوچھ رہی ہوں کہ اسکول کیوں نہیں جانا۔"

راحت بانو نے لحاف کھینچا۔

"بس میرا جی نہیں چاہ رہا نا۔۔۔اور میں اب نہیں جاوں گی اسکول۔"

وہ لحاف کے اندر سے چلائی۔۔انداز سے بیزاری واضح تھی۔

"ملغلرہ۔۔۔۔"

وہ اس کے سرھانے آ کھڑی ہوئیں۔

"اماں۔۔!! رہنے دیں یہ نا ہی جائے تو بہتر ہے۔"

پلوشہ مکمل یونیفارم میں ملبوس کمرے میں داخل ہوئی۔سردی کی شدت سے اسکے گال دہہک رہے تھے۔راحت بانو نے پلٹ کر اپنی چھوٹی بیٹی کو دیکھا۔

"کیوں۔۔۔۔۔؟؟"

انھوں نے وہیں چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"اماں۔۔۔۔وہ ہمارے اسکول کے راستے میں لڑکوں کا اسکول ہے نا وہاں کے کچھ چھچھورے اور بدتمیز لڑکے روز ہمارا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہم پہ آوازیں کستے ہیں اور تنگ بھی کرتے ہیں۔خاص طور پر ملغلرہ کو۔۔۔گاوں کی لڑکیاں اب ہمارے ساتھ آنے سے کتراتی ہیں کہ ہمارے ساتھ آنا جانا ان کے لئے باعث شرم ہے اور ہماری وجہ سے ان کی عزت محفوظ نہیں کیونکہ کبھی کبھی تو وہ لڑکے گھر تک ہمارے پیچھے آتے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔"

"اور۔۔۔۔۔۔اور کیا؟"

انھوں نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا۔

پلوشہ نے ماں کا رویہ دیکھ کر تھوک نگلا۔۔یہ سب سن کر راحت بانو کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔

"کب سے چل رہا ہے یہ سلسلہ۔۔۔اور تم مجھے اب بتا رہی ہو؟"

انھوں پہلے غصے سے پلوشہ کو دیکھا اور پھر پلٹ کر ایک بار پھر لحاف میں چھپی ملغلرہ پر سے لحاف کھینچ ڈالا۔لحاف ہٹ جانے سے سردی کی ایک شدید لہر اس کے نازک وجود سے ٹکرائی تو اس نے اٹھ کر فورا سرہانے پڑی گرم شال اپنے گرد لپیٹی۔

"ملغلرہ۔۔۔کیا پلوشہ سچ کہہ رہی ہے؟"

ان کے پوچھنے پر اس نے جھکے سر کو اٹھایا اور ایک پل کو نظریں اٹھا کر ان کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا دیا۔

"تم نے بتایا نہیں اور کیا۔۔۔؟"

راحت بانو نے ایک لمحے کو اسکے جھکے سر کو دیکھا اور پھر پلٹ کر پلوشہ سے پوچھا۔

"اماں۔۔۔۔وہ کل ان میں سے ایک نے ملغلرہ کی چادر بھی کھینچی تھی تو اس نے اسے پتھر مار دیا۔پتھر نوکدار تھا۔وہ زخمی ہو گیا اور اسکے ماتھے سے خون جاری ہو گیا تھا۔اس پہ وہ آگ بگولا ہو گیا مگر اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی حرکت کرتا ہم وہاں سے بھاگ گئے۔کچھ دور تک تو ہمارا پیچھا کرتے رہے اور پھر ہمیں دھمکی دیتے ہوئے واپس پلٹ گئے کہ وہ ملغلرہ سے بدلہ ضرور لیں گے۔"

پلوشہ کی بات سن کر ان کا رہاسہا اطمینان بھی رخصت ہو گیا۔وہ حیران پریشان سی بیٹھی رہ گئیں۔

ملغلرہ چارپائی سے اترنے لگی۔

"میں ابھی تمھارے بابا سے کہتی ہوں کہ وہ تم دونوں کے ساتھ جا کر دیکھیں کہ وہ کون لڑکے ہیں۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"اماں اماں۔۔۔ٹھہرو۔۔بابا کو مت بتاو۔۔وہ ہمیں اسکول سے اٹھا دیں گے۔اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر میں اسکول جانا چاہتی ہوں۔"

پلوشہ نے انھیں روکا۔

"مگر تمھارے بابا کو معلوم ہونا چاہئیے اس بارے میں۔۔کل کلاں کو کوئی اور مسئلہ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے۔"

انھوں نے اپنا بازو چھڑایا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

"کیوں بتایا تم نے اماں کو۔۔۔اب بابا نجانے کیا کریں گے۔وہ خطرناک لوگ ہیں۔کہیں بابا کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔"

ملغلرہ نے اس کی جانب پریشانی سے دیکھا۔

"تمھیں کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے اسکول تو میرا چھوٹے گا۔۔تم تو آرام کرو۔۔خوشیاں مناو کہ تمھاری اسکول سے جان چھوٹ گئی۔"

پلوشہ نے تیکھی نظروں سے اسے گھورا۔

"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔میں بھی اسکول چھوڑنا نہیں چاہتی۔تمھیں پتہ ہے نا کہ نعت خوانی کے مقابلے میں میں نے حصہ لے رکھا ہے اور اس بار تو پرائز بھی ملے گا مگر۔۔۔۔۔وہ لڑکے بہت بدتمیز ہیں۔تم نے دیکھا نہیں کیسے کیسے فقرے کس رہے تھے مجھ پر۔۔۔میں تو نہیں جاوں گی جب تک کوئی حل نہیں نکل آتا۔"

اس کے دوٹوک انداز پہ پلوشہ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ جھرجھری لے کر ایک بار پھر چارپائی پہ چڑھ کر لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی۔

      _________________________________________

"تو تم مجھے اب بتا رہی ہو۔"

گلریز خان، راحت بانو کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولا۔

"مجھے بھی ابھی بتایا ہے تمھاری لاڈلیوں نے۔۔اللہ جانے کون لڑکے ہیں۔زرا جا کر معلوم تو کرو۔آخر کیوں بچیوں کو پریشان کر رہے ہیں۔"

وہ پریشانی سے کہتی کچن کی طرف بڑھیں۔

"پلوشہ۔۔۔۔۔"

گلریز خان نے وہیں بیٹھے بیٹھے پلوشہ کو آواز دی۔وہ جو چادر اوڑھے اور بستہ شانے سے لٹکائے کمرے سے نکل رہی تھی۔باپ کے پکارنے پہ ان کے قریب چلی آئی۔

"تم کس لئے جار رہی ہو اسکول۔۔۔مناسب نہیں آج تمھارا جانا۔"

راحت بانو چنگیر اٹھائے کچن سے برآمد ہوئیں اور پلوشہ کو اسکول کے لئے تیار دیکھ کر بولیں۔

"جی بابا۔۔۔؟؟"

پہلے وہ خاموشی سے ماں کو دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکائے باپ کی طرف متوجہ ہوئی۔انھوں نے اسکی جھکی نظروں کو دیکھ کر ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ پاس پڑی ٹپائی پر رکھ دیا پھر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔

"کون لڑکے ہیں۔۔؟؟ ہمارے علاقے کے ہیں۔۔؟؟ تم جانتی ہو انھیں؟

"بابا میں نہیں جانتی۔۔بس اتنا پتہ ہے کہ وہ سارے لڑکے ہمارے اسکول کے قریب جو لڑکوں کا اسکول ہے وہاں پڑھتے ہیں۔"

باپ کو بتاتے ہوئے اسکی نظریں ماں پہ تھیں۔

"چلو میں چلتا ہوں تمھارے ساتھ۔۔دیکھوں تو کون لڑکے ہیں۔"

وہ اسے ساتھ لئے چوبی دروازہ پار کر گیا۔

پلوشہ کے ساتھ جا کر وہ ان لڑکوں کو دیکھ آیا تھا۔جن لڑکوں کی نشاندہی پلوشہ نے کی تھی وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے۔پلوشہ نے انھیں راستے میں بتایا تھا کہ یہ چاروں لڑکے ہر روز صبح کے وقت اور چھٹی کے وقت بھی اپنی مخصوص جگہ پہ موجود رہتے ہیں۔وہ چاروں لڑکے ان کے گاوں کے خانان کی فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں سے ایک کو تو وہ پہچان گیا تھا باقی تینوں بھی اسی کے خاندان کے تھے۔بدمعاش لوگ تھے۔ان سے بیر لینا اپنے پاوں پہ کلہاڑی مارنے جیسا تھا۔چاروں لڑکے اتنی عمر کے نہیں تھے مگر ان کے ہاتھ میں پکڑے پسٹل ان کے کردار کی گواہی دینے کے لئے کافی تھے۔وہ انھیں کچھ بھی کہہ کر اپنے لئے مصیبت مول نہیں لے سکتا تھا۔اسی لئے پلوشہ کو اسکول کے دراوزے کے پاس چھوڑ کر خاموشی سے وہاں سے چلا آیا تھا لیکن دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ دونوں کے ساتھ خود لے جایا کرے گا اور واپسی پر بھی لینے آ جایا کرے گا۔یہ لوگ اس کے بس سے باہر کے تھے۔پلوشہ بھی باپ کی خاموشی کا سبب جان گئی تھی اس لئے اس نے بھی کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور اسکول کے دروازے سے اندر داخل ہو گئی تھی۔

اسکول میں بھی اسکا دھیان پڑھائی میں کم اور ان لڑکوں کی طرف زیادہ رہا۔اکیلے ہونے کی وجہ سے سارا دن ان لڑکوں کا خوف اس کے اردگرد گھومتا رہا۔روز تو ملغلرہ ساتھ ہوتی تھی اس لئے دونوں ایک دوسرے کا سہارا لئے، ایک دوسرے کی ڈھال بنی رہتی تھیں۔مگر آج وہ اکیلی تھی اور گلریز خان نے بھی اسے واپسی کے متعلق کچھ نہیں کہا تھا۔بریک ٹائم میں اس نے اپنے علاقے کی لڑکیوں سے چھٹی کے بعد ان کے ساتھ جانے کے لئے کہا تو وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے مان گئیں تھیں۔

گاوں کے لوگ ان کی اور اس پیشے سے منسلک لوگوں کی کچھ خاص عزت نہیں کرتے تھے۔بس کہیں ناچ گانے کی ضروت پڑتی تو ہی انھیں یاد کیا جاتا تھا ورنہ تو لوگ انھیں عزت و قدر کی نگاہوں سے اسے کم ہی دیکھتے تھے۔پلوشہ کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے پہ راضی ہو گئی تھیں۔باقی ایک گھنٹہ تھوڑا سکون سے گزر گیا۔چھٹی ہونے کے بعد جب وہ ان لڑکیوں کے ساتھ اسکول کے گیٹ سے باہر آئی تو اسکول سے کچھ فاصلے پہ کھڑے گلریز خان کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔سارا خوف ایک پل کو جیسے اڑنچھو ہو گیا تھا۔اور اب اسے اپنی ساتھی لڑکیوں کی باتوں سے نجات مل جانی تھی جو انھوں نے سارے راستے انھوں نے اسے سنانی تھیں۔

"السلام و علیکم بابا۔۔۔"

وہ تیزی سے ان کی طرف آئی تھی۔

"واعلیکم السلام۔۔!!"

انہوں نے اسکا بھاری بیگ اس سے لے لیا۔دونوں باپ بیٹی باتیں کرتے ہوئے اسی مخصوص جگہ سے گزرے جہاں وہ لڑکے بیٹھا کرتے تھے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔اس نے سوچا کہ شاید صبح کے وقت اسے ساتھ دیکھ کر وہ اپنی حرکتوں سے باز آ گئے ہوں۔اس نے دل ہی دل میں شکر کا کلمہ پڑھا اور پلوشہ کو لئے گھر آ گیا۔

"کون تھے وہ لڑکے۔۔۔اور آپ صبح اس کو چھوڑنے کے بعد گھر بھی نہیں آئے۔۔میں پریشان رہی کہ نجانے کیا بات ہو گئی۔"

وہ دونوں باپ بیٹی جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے صحن میں بیٹھی راحت بانو تیزی سے ان کے پاس آئیں۔

"اری نیک بخت۔۔۔ہمیں بیٹھنے تو دو۔"

وہ انھیں ہاتھ سے پرے ہٹاتے صحن میں بچھی چارپائی پہ جا بیٹھے۔اسکول سے گھر تک کا راستہ کافی تھا اس لئے وہ تھک گیا تھا۔پلوشہ تو کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

"بڑے خانان کے لڑکے ہیں۔"

وہ کندھے پہ پڑا رومال چہرے پہ پھیرتے ہوئے بولا۔

"آپ نے کہا کہ بچیوں کو تنگ نہ کریں۔۔۔بات کی ان سے؟"

راحت بانو ان کے پاس ہی چارپائی پہ بیٹھ گئی۔

"میرا دماغ خراب نہیں تھا کہ میں ان سے مغزماری کرتا۔کہا نا کہ خانان کے لڑکے ہیں۔جینا حرام کر دیتے ہمارا۔۔ہم پہلے ہی کون سی اچھی زندگی گزار رہے ہیں جو یہ خطرہ بھی اپنے گلے میں ڈال لیتا۔"

گلریز خان نے رومال جھٹکے سے چارپائی پہ پھینکا۔

"تو پھر بچیوں کا کیا بنے گا وہ اسکول کیسے جائیں گی۔ملغلرہ نے بتایا ہے کہ ان میں سے ایک نے کئی بار اسکا ہاتھ پکڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔اب بچیوں کو ایسے بھی تو نہیں چھوڑ سکتے نا۔آپ کو انھیں منع تو کرنا چاہئیے تھا۔ہم کوئی ان کے گھر سے تھوڑی کھاتے ہیں جو ان کی زیادتی سہیں اور وہ خانان ہیں تو کیا جو دل میں آئے کرتے پھریں گے۔"

غصے میں ان کی آواز بلند ہو گئی تھی اور وہ دونوں جو کمرے میں بیٹھی تھیں کمرے سے باہر آ گئیں۔

"میں خود لے جایا کروں گا نیک بخت۔۔وہ ہاتھ میں اسلحہ لئے پھرتے ہیں۔کب کیا کر بیٹھیں کسی کو معلوم نہیں۔بندہ مارنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں اور ہماری تو ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔میں ان سے دشمنی مول نہیں لے سکتا۔میں ایک دو دن ساتھ جاوں گا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ہم غریب لوگ ہیں گا بجا کر اپنا پیٹ پالتے ہیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور پھر ہماری تو لڑکیاں ہیں۔خدانخواستہ اٹھا کر لے گئے تو خاک بھی نہیں پا سکیں گے ان کی۔"

گلریز خان اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔

"تو پھر۔۔۔۔؟؟"

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔

"تو پھر کیا۔۔۔بتایا تو ہے کہ خود لے جایا کروں گا اور لینے بھی چلا جایا کروں گا۔تم فکر نہ کرو۔آج بھی صبح کے وقت مجھے ساتھ دیکھ کر وہ چھٹی کے وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ایک دو دن لگاتار میں ساتھ جاوں گا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔"

یہ کہہ کر وہ چارپائی پہ لیٹ گیا۔دھوپ کی نرم گرم تمازت میں اسکے یخ بستہ ہاتھ پیر ٹکور ہونے لگے تھے۔صبح وہ پلوشہ کو چھوڑ کر اپنے برادری کے بڑے بزرگ اجمل خان کے پاس یہ مسئلہ لے کر گیا تھا۔پہلے تو وہ مدد کے لئے تیار ہو گیا تھا مگر پھر جب لڑکوں کے متعلق معلوم پڑا تو ہاتھ جھٹک لئے اور اسے بھی خاموش رہنے کو کہا۔اس بارے میں وہ راحت بانو کو بتا کر اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔

راحت بانو خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی۔

"اب سر پہ کیوں کھڑی ہو۔۔۔کھانا لاو۔۔بھوک لگی ہے۔"

وہ بنا کچھ بولے اٹھ کر کچن کی طرف چلی آئی۔دل میں نجانے کیسا ڈر بیٹھ گیا تھا کہ گلریز کے سمجھانے پر بھی اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔دونوں بچیاں ابھی چھوٹی اور معصوم تھیں۔معاشرے کے چال چلن کو سمجھنے میں ابھی انھیں کافی وقت لگنا تھا۔

گاوں کے لوگ دشمن بن جائیں تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔۔نسل در نسل اس دشمنی کو لے کر چلتے ہیں۔چاہے دوستی ہو یا دشمنی۔۔آخر تک جاتے ہیں۔وہ اس مسئلے کے بگڑ جانے کے خوف میں مبتلا تھی۔اب اس ڈر سے بچیوں کا اسکول بھی نہیں چھڑوایا جا سکتا تھا۔

جلتی لکڑیوں کا سیاہ دھواں اس کی آنکھوں میں چبھنے لگا تھا۔

"اماں۔۔۔۔!!"

راحت بانو نے پلٹ کر آواز کی سمت دیکھا۔ملغلرہ دروازے میں کھڑی تھی۔سردی کی شدت سے سرخ پڑتی چھوٹی سی ناک اور معصوم چہرہ۔۔۔ان کے دل کو کسی نے مٹھی میں دبا کر چھوڑ دیا۔وہ فورا رخ پھیر گئیں۔

"اماں۔۔۔بابا کیا کہہ رہے تھے؟"

وہ قریب آئی۔

"کچھ نہیں بس کہہ رہے تھے کہ تم دونوں کو خود اسکول چھوڑنے جایا کریں گے۔"

وہ چہرہ مٹی کے چولھے کے قریب لے جا کر پھونک مارتے ہوئے بولیں۔آگ ایک دم سے بھڑک اٹھی۔

"مطلب میں کل سے اسکول جاوں گی نا؟"

ملغلرہ کی آنکھیں بھی کڑوا دھواں برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔اس نے دونوں ہاتھوں سے انکھیں رگڑ ڈالیں۔

"ہاں۔۔۔"

وہ مختصر جواب دے کر اٹھ گئی۔وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی ہیں۔

"اماں اس بار جو نعت خوانی کا مقابلہ ہو گا نا تو اس میں جو جیتے گا اسے دو ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔میں یہ مقابلہ ضرور جیتوں گی اور وہ پیسے آپکو دوں گی۔آپ اس دن بابا سے کہہ رہی تھیں نا کہ گھر میں راشن ختم ہونے والا ہے۔آپ بابا سے لڑنا مت۔۔ شادیوں کا سیزن نہیں ہے نا اس لئے بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں۔پرسوں جب میں انعام جیت لوں گی تو آپ راشن ڈلوا لینا۔"

ملغلرہ نے ان کے قریب جا کر ان کے بازو سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔اس کی بات سن کر انھوں نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔وہ باپ سے کس قدر محبت کرتی تھی یہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔اگر کوئی بھی گلریز خان کو کچھ بھی کہتا تو وہ مرنے مارنے پہ تل آتی تھی۔انھوں نے پلٹ کر اس کا خوبصورت چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔کہنا تو بہت کچھ چاہتی تھیں مگر الفاظ کہیں کھو سے گئے تھے۔انھوں نے سر اثبات میں ہلا کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔

"جاو۔۔۔پلوشہ کو بھی بلا لاو۔۔"

اس کے جانے کے بعد انھوں نے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں مگر جلن کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔انھوں نے کھانے کی ٹرے تیار کی اور کچن سے باہر آ گئیں۔

      _________________________________________

"تم کھانا نہیں کھا رہی؟"

پلوشہ اسے بستہ کھولے دیکھ کر اسکے قریب آ گئی۔ہاتھ میں پکڑی ٹرے اس نے چارپائی پہ رکھ دی۔ملغلرہ نے بکھری کتابیں سمیٹ کر بستے میں ڈالیں اور ٹرے اپنی جانب کھینچ لی۔پلوشہ نے اسکے پھولے منہ کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔

"وہ لڑکے تھے وہاں؟"

ملغلرہ نے اس کی مسکراہٹ کو لاپرواہی سے دیکھ کر پوچھا۔

"صبح کے وقت تو تھے مگر پھر شاید بابا کو دیکھ کر چھٹی کے ٹائم نہیں آئے تھے۔اب بابا ہمارے ساتھ روز جایا کریں گے۔وہ اماں کو کہہ رہے تھے۔"

پلوشہ نے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا۔

"اچھی بات ہے ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ میں اس بار نعت خوانی کے مقابلے میں حصہ نہیں لے پاوں گی۔"

وہ نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔

"صبح تک تو تم بڑی خوشی کا اظہار کر رہی تھی کہ شکر ہے تمھاری اسکول سے جان چھوٹ گئی۔"

پلوشہ بھی اسکا ساتھ دینے لگی۔

"تم جانتی تو ہو کہ پڑھائی میں میری دلچسپی واجبی سی ہے مگر اسکول میں مجھے مختلف فنکشنز اور مقابلوں میں حصہ لینے کا کس قدر شوق ہے بس اسی وجہ سے تھوڑی سی خفا تھی مگر اب سب ٹھیک ہو گیا نا۔۔۔اب تو میں ضرور جاوں گی اسکول۔"

اس نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پلوشہ کی جانب دیکھا۔پلوشہ اپنی اس تیکھی سی بہن کو تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"کیا۔۔۔۔۔۔؟؟"

ملغلرہ نے اسکے اپنی جانب اسطرح دیکھنے پر اپنی بھنویں اچکائیں۔پلوشہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔تیز گلابی رنگ کے لباس میں اسکا سرخ و سپید چہرہ چمک رہا تھا۔اللہ نے اسے آواز کے ساتھ ساتھ خوبصورت شکل و صورت سے بھی نوازہ تھا۔وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ راستے بھر لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے۔یہ کوئی پہلے لڑکے نہیں تھے جو اسے چھیڑتے تھے گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک کے راستے میں مختلف جملے انھیں سننے کو ملتے تھے۔کچھ لڑکے تو گھر تک ان کے پیچھے آیا کرتے تھے مگر وہ دونوں کسی کی بھی پرواہ نہیں کیا کرتی تھی۔کبھی کبھی وہ دونوں تنگ پڑ جایا کرتی تھیں۔چونکہ ان کے والد ایک طبلچی تھے اور گاوں میں گا بجا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے تو اس پیشے کو لے کر گاوں میں ان کی کوئی عزت نہیں کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ لڑکے بڑے آرام سے ان سے چھیڑ چھاڑی کر کے چلتے بنتے۔اسکول میں بھی لڑکیاں ملغلرہ کے چمکتے چہرے سے حسد کا شکار رہتی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ لڑکیاں گلریز خان کے کام کو لے کر ان پہ طنز و طعنہ کسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔کبھی کبھی تو لڑکیاں انھیں پڑھائی چھوڑ کر اپنے باپ کے ساتھ گانے بجانے تک کا مشورہ دیتی دکھائی دیتی تھیں۔یہ بات ان دونوں بہنوں پہ بہت گراں گزرتی۔یہی وجہ تھی کہ کسی سے دوستی بھی بس سلام دعا کی حد تک تھی۔

"کیا سوچ رہی ہو؟"

ملغلرہ نے اسے گہری سوچ سے باہر نکالا۔

"آں۔۔۔۔نہیں کچھ نہیں۔۔میں اسکول کا کام کرتی ہوں۔"

وہ چارپائی سے اتر گئی۔ملغلرہ بھی شانے اچکا کر ٹرے اٹھائے چارپائی سے اتر آئی۔موزے نہ پہننے کی وجہ سے اسے اپنے پاوں برف کی مانند محسوس ہو رہے تھے۔کچن میں آ کر اس نے ٹرے برتنوں کے پاس رکھی اور باہر آ گئی۔صحن میں کٹ کٹ کرتی مرغیاں دانہ چگ رہی تھیں۔راحت بانو ہاتھ میں دانہ لئے وہیں چارپائی پہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔وہ دھیرے دھیرے چلتی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔راحت بانو کچی زمین پہ دکھتے پھیلتے سائے کو دیکھا تو کسی خیال سے چونک گئیں اور اسکی جانب دیکھا۔

"کھانا کھا لیا؟"

وہ ایک بار پھر مٹھی میں بھرا دانہ مرغیوں کو ڈالنے لگیں۔

"جی اماں۔۔۔"

وہ کھڑے کھڑے بولی۔

"ٹھیک ہے اب جا کر برتن بھی دھو لو۔ویسے بھی آج تم اسکول نہیں گئی ہو تو اس لئے تمھارے پاس کام کرنے کا بھی بہانا نہیں ہے۔"

وہ اسے یونہی خاموش کھڑے دیکھ کر بولیں۔

"اماں کام تو کرنا ہے میں نے۔۔لیکن برتن دھو کر کر لوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں۔۔۔؟؟"

"وہ مزید ان کے قریب ہوئی۔

"ہیم۔۔۔"

کٹ کٹ کرتی مرغی اب ان کے پیروں میں لوٹ رہی تھی۔ہاتھ میں موجود دانہ ختم ہو چکا تھا۔مگر لگ رہا تھا جیسے مرغیوں کی بھوک ابھی باقی ہے۔ اب ان کی نظریں اپنی خالی ہتھیلی پہ تھیں۔

"کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟"

وہ ان کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی نیچے بیٹھ گئی اور سر ان کے گھٹنوں پہ رکھ دیا۔

"نہیں میں بھلا اپنی اتنی پیاری بیٹی سے کیوں ناراض ہوں گی۔"

وہ اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں پھیرنے لگیں۔

"پھر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے آپ مجھ سے ناراض ہیں۔"

اس کے چہرے کی چمک کو انھوں نے ماند پڑتے دیکھا۔

"ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔۔بس میں تمھارے لئے پریشان ہوتی ہوں ورنہ میری بیٹی ایسی نہیں کہ اس سے ناراض ہوا جائے۔"

راحت بانو نے اس کے سنہری اور گھنے بالوں والے سر کو چوم لیا۔ملغلرہ نے ان کے پیار سے کہنے پہ آنکھیں موند لیں۔

"ملغلرہ۔۔۔!!"

راحت بانو اس کے چہرے کی جانب جھکی تھیں۔ان کی مدھم پکار پہ اس نے آنکھیں کھول دیں اور ان کی گود سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔

"پلوشہ بتا رہی تھی کہ تمھاری استانی جی نے تمھاری شکایت کی ہے کہ تمھاری توجہ پڑھائی پہ کم اور دوسری سرگرمیوں پہ زیادہ ہے۔۔پڑھائی پر بھی توجہ دو بیٹا۔"

اپنی بات کے اختتام پہ انھوں نے اس کے چہرے پہ شرمندگی کے رنگ دیکھے۔انھیں اسکی یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ اپنی غلطی جلد مان لیتی تھی اور کبھی بھی اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔انھوں نے پیار سے اسکے بکھرے بال سمیٹے۔

"اماں پڑتی تو ہوں اور کتنا پڑھوں۔آپکو میں نے کئی بار بتایا ہے کہ پڑھائی میں میرا دل نہیں لگتا۔"

وہ نروٹھے انداز میں بولی۔ننھی سے ناک پھول گئی تھی۔اس کے انداز کو دیکھ کر راحت بانو کو ہنسی تو بہت آئی مگر انھوں نے اسے تنبیہی نگاہوں سے دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"دل لگا کر پڑھا کرو۔۔۔سمجھ گئی نا۔۔"

انھوں نے اسکا کان پکڑ کر ہلکے سے کھینچا۔

"اوئی۔۔۔اماں۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے پڑھوں گی۔پھر آپکو میری شکایت نہیں ملے گی۔"

اس نے اپنا کان چھڑانا چاہا مگر راحت بانو اپنی گرفت جمائے رہیں۔

"مجھے تمھاری شکایت دوبارہ نہ ملے۔"

راحت بانو نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے خبردار کیا اور اسکا کان چھوڑ دیا۔کان چھوٹتے ہی وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔پلٹ کر دیکھا تو پلوشہ کمرے کے دروازے میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔

"پلوشہ کی بچی۔۔۔۔میری شکایت لگائی تم نے۔۔ٹھہرو ذرا ابھی ٹھیک کرتی ہوں تمھیں۔"

وہ اسکے پیچھے بھاگی۔

"ملغلرہ۔۔۔چھوڑ دو بہن کو۔۔اس نے کون سا جھوٹ بولا ہے۔تیری استانی نے یہ شکایت کی ہے۔"

اس نے تقریبا پلوشہ کو جا لیا تھا کہ راحت بانو نے پیر میں پڑی جوتی کی طرف بڑھایا۔ماں کو جوتی اتارتے دیکھ کر ملغلرہ رک گئی اور پلوشہ اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر دوڑتی ہوئی راحت بانو کی جانب آئی۔ملغلرہ بھی اسکے پیچھے آئی تھی مگر راحت بانو کے ہاتھ میں پکڑی پلاسٹک کی چپل دیکھ کر وہیں رک گئی کہ مبادہ کہیں ان کے ہاتھ میں پکڑی چپل اسکی خیریت دریافت نہ کرنے آ جائے۔

"اماں۔۔۔آپ ہمیشہ اسی کی سائیڈ لیتی ہیں۔"

وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کو پیچھے چھوڑتی دکھائی دی۔

"ہاں تو۔۔۔۔تم سے چھوٹی ہے مگر تم سے کئی زیادہ سمجھدار ہے۔۔۔ذرا اپنا قد دیکھو اور اپنی حرکتوں کو دیکھو۔مجال ہے جو کچھ ہوش کے ناخن لئے ہوں۔"

وہ جوتی نیچے پھینک کر پیر میں اڑستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔پلوشہ ان کی قمیص پکڑے کھڑی تھی۔

"بڑی سمجھدار ہے۔۔۔ڈرپھوک کہیں کی۔مجھے چھوڑتی نہیں تھی ورنہ دوسرے دن ہی ان لڑکوں کا دماغ ٹھکانے لگا چکی ہوتی۔۔مگر یہ ڈرپھوک مجھے خدا رسول کا واسطہ دے کر روک لیتی تھی۔"

وہ کمر پہ ہاتھ رکھے رکھے ان کے قریب آئی۔یہ اندازہ کیے بغیر کہ کیا بول رہی ہے اور کس کے سامنے بول رہی ہے۔

"کیا۔۔۔کیا۔۔۔کیا کہا۔۔؟؟"

راحت بانو کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"تو اور کیا میں ڈرتی نہیں ہوں کسی سے بھی۔۔ایسا مارتی کہ نانی یاد آ جاتی۔۔خان ہوں گے اپنے گھر کے۔"

وہ راحت بانو کی حیرانی سے پھیلی آنکھوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بولی۔

"آنے دو تمھارے بابا کو۔۔۔بتاتی ہوں انھیں کہ ذرا آ کر اپنی لاڈلی بیٹی کا نظارہ تو کریں۔ارے ہمیں شرماو گی علاقے میں۔۔پہلے ہی کون سی بڑی عزت ہے جو تم اسے بھی ختم کرنے کے چکر میں پڑی ہو۔خبردار جو کبھی کوئی ایسی حرکت کی تو۔ہاتھ توڑ کے ہاتھوں میں دے دوں گی۔"

راحت بانو غصے کو ضبط کرتے ہوئے بولیں۔

"اماں ہاتھ توڑ کے ہاتھوں میں کیسے دو گی؟"

وہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھے اور دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی دماغ پہ رکھ کر سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی۔۔مگر لبوں پہ کھیلتی مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔

"ٹھہرو۔۔۔ابھی بتاتی ہوں۔"

انہوں نے جھک کر چپل اتاری اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسکی جانب پھینکی تھی مگر وہ جھپاک سے کمرے میں غائب ہو گئی۔راحت بانو نے اپنے پیچھے کھی کھی کرتی پلوشہ کو پلٹ کر دیکھا۔

"یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی؟"

توپوں کا رخ اب پلوشہ کی جانب ہو گیا تھا۔

"اماں بتایا تو تھا کہ ملغلرہ نے اس لڑکے کو پتھر مارا تھا۔"

وہ انگلیاں چٹخاتی بولی۔

"آئیندہ تم دونوں نے مجھ سے کوئی بھی بات چھپائی تو خیر نہیں تم دونوں کی۔"

وہ اسے ڈانتی کچن کی جانب بڑھ گئیں۔

"اماں آپ فکر نہ کریں۔ملغلرہ بہت بہادر ہے۔وہ کسی سے نہیں ڈرتی۔ہمت رکھتی ہے مقابلہ کرنے کی۔"

پلوشہ نے ان کے پیچھے کچن میں قدم رکھا اور ان کے قریب آ کر انھیں تسلی دی۔

"پھر بھی بیٹا پانی میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر لینا ٹھیک نہیں ہے۔تم دونوں ابھی چھوٹی ہو،معصوم ہو اور ہم ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔"

وہ اسے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔

"جی اماں۔۔۔"

پلوشہ نے ان کی کمر کے گرد بازو لپیٹے۔

"آو اندر چلتے ہیں۔۔اس پگلی کو بھی سمجھاوں۔"

دونوں نے کمرے کی جانب قدم بڑھائے جہاں کھڑکی سے جھانکتی ملغلرہ انھیں اندر آتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

      _________________________________________

اگلے دن صبح جب وہ اسکول جانے کے لئے تیار ہو کر اپنے کمرے سے باہر آئیں تو خلاف توقع باپ کو اپنا انتظار کرتے پایا۔راحت بانو نے دونوں کو آتے دیکھا تو کچن کی جانب پلٹ گئیں۔گلریز جو کہ اپنے گرد گرم چادر لپیٹے برآمدے میں بچھی چارپائی پہ بیٹھا تھا۔ انھیں آتے دیکھ کر اشارے سے بلایا۔ان کے اشارہ کرنے پہ دونوں بہنیں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی قریب آئیں۔اتنی دیر میں راحت بانو بھی ناشتے کی ٹرے لئے ان کے قریب چلی آئیں۔

"چلو تم دونوں جلدی سے ناشتہ کرو۔تمھارے بابا تم دونوں کو اسکول چھوڑنے جائیں گے۔"

یہ بات وہ دونوں جانتی تھیں اس لئے کافی مطمئن دکھائی دے رہی تھیں ورنہ ملغلرہ نے تو ٹھان لیا تھا کہ وہ اب اسکول نہیں جائے گی۔اب چونکہ باپ ان کے ساتھ جا رہا تھا تو وہ بھی اپنا ڈر کمرے میں ہی چھوڑ آئی تھی۔راحت بانو نے ٹرے دو چارپائیوں کے بیچ رکھی چھوٹی سی ٹیبل پہ رکھ دی اور ایک بار پھر ان دونوں کی طرف دیکھا۔گلریز ٹرے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔ماں کے کہنے پہ دونوں چارپائی پہ ٹک گئیں۔گلریز نے ٹرے میں سے دو پلیٹس اٹھا کر پہلے ملغلرہ کے سامنے رکھی اور دوسری پلیٹ پلوشہ کے سامنے اور خود بھی ناشتے میں مصروف ہو گیا۔تینوں خاموشی سے ناشتے میں مصروف ہو گئے۔

"چھٹی کے بعد اسکول سے فورا نہ نکل آنا میں آوں گا تم دونوں کو لینے۔۔"

گلریز خان چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ان کی بات سن کر دونوں نے بیک وقت سر اثبات میں ہلایا اور جلدی جلدی ناشتہ ختم کرنے لگیں۔گلریز نے کچن کی طرف دیکھا جہاں سے راحت بانو دودھ گرم کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔

"شکیب اٹھ گیا؟"

گلریز نے بلند آواز میں راحت بانو سے پوچھا۔اس نے وہیں سے نفی میں سر ہلایا۔

"بس اب اسکا بھی کوئی بندوبست کرتا ہوں۔سارا دن گلیوں میں کھیلتا رہتا ہے۔آج ہی ماسٹر صاحب سے بات کر کے اسے اسکول میں داخل کرواتا ہوں۔بہت ناز نخرے اٹھا لئے۔"

اس نے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کمرے کی جانب نگاہ کی۔شکیب دروازے کی آڑ میں چھپ کر کھڑا تھا مگر لکڑی کے دروازے میں پڑی دراڑ اسے باپ کی نگاہوں سے مخفی نہ رکھ سکی۔گلریز غصیلی نگاہوں سے اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"داخل کروا لینا اسکول بھی۔۔۔ابھی تو چھوٹا ہے میرا بیٹا۔۔کھیلنے کودنے کے دن ہیں اس کے۔۔اگلے سال داخلہ کروا دیں گے۔ایک ہی تو بیٹا ہے میرا۔۔تمھاری آنکھوں میں تو پتھر کی طرح چبھتا ہے۔"

راحت بانو ماتھے پہ بل ڈالے ٹرے اٹھاتے ہوئی بولی۔

"او بیوقوف عورت۔۔۔میرا بھی بیٹا ہے۔۔تم اپنے میکے سے نہیں لائی ہو اور دشمن نہیں ہوں باپ ہوں اسکا لیکن تمھارے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہے اسے۔۔اس کی عمر کے سارے لڑکے اسکول جاتے ہیں یا پھر اپنے باپ دادا کا فن سیکھ رہے ہیں مگر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔اسے تو کھیل کود سے ہی فرصت نہیں ہے۔"

وہ اپنے گرد گرم چادر لپیٹتے ہوئے راحت بانو کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"تم نے آج تک بڑا تیر مار لیا نا اپنے باپ دادا کے فن میں جو اسے بھی وہی راگ سکھانے پہ تلے ہو۔۔۔گھر میں دو وقت کی روٹی نہیں ہے اور باتیں دیکھو اسکی۔۔قسمت پھوٹی تھی میری جو میرے باپ نے تم سے بیاہ دیا۔۔پتہ نہیں کیا دیکھا تھا اس نے تم میں۔"

راحت بانو کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا۔

"بس بس زیادہ۔۔۔۔۔"

"بابا ہمیں دیر ہو رہی ہے۔"

اس سے پہلے کہ یہ روز کی کھٹ پٹ طول پکڑتی ملغلرہ نے اونچی آواز میں کہا۔ملغلرہ کی بات سن کر گلریز نے راحت بانو کو آنکھوں ہی آنکھوں میں زندہ نگلنے کی کوشش کی۔

"ہونہہ۔۔۔۔"

راحت بانو اس کی آگ اگلتی نگاہوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"بابا۔۔۔۔۔۔"

گلریز ، راحت بانو کے انداز پہ غصے سے پیچ و تاب کھاتا اس کے پیچھے جانے لگا تھا کہ پلوشہ کی آواز نے اس کے قدم روک لیے اور کچھ کہے بغیر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔وہ دونوں بھی اپنے بیگز اٹھاتی باپ کے پیچھے دوڑیں تھیں۔اس وقت گلریز کا غصہ چونکہ سوانیزے پر تھا اس لئے یہ دیکھے بغیر کہ وہ دونوں اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لئے کیسے ہلکان ہوئی جا رہی ہیں۔۔۔آگے بڑھتا جا رہا تھا۔راحت بانو کی جلی کٹی باتیں ہمیشہ اس کے تن بدن میں آگ لگا دیا کرتی تھیں۔وہ جتنا بھی غصے میں پھنکارتا رہتا وہ پرواہ نہیں کیا کرتی تھی۔

ان کے گھر اور اسکول کے بیچ کے راستے میں ایک چھوٹی سی ڈھلان آتی تھی۔اس ڈھلان کو پار کرتے ہی اونچا نیچا راستہ ہموار ہو جایا کرتا تھا۔دونوں بہنیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس ڈھلان کو پار کیا کرتی تھیں۔ابھی بھی دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔

"اس سے تو اچھا تھا کہ بابا ہمارے ساتھ آتے ہی نہیں۔"

ملغلرہ ایک ہاتھ سے بہن کا تھامے ہوئے تھی اور دوسرے ہاتھ سے سیاہ گرم شال کو چہرے کے گرد سختی سے پکڑ رکھا تھا۔باپ کو تیزی سے ڈھلان پار کرتے دیکھ کر وہیں رک کر بولی۔

"بابا ہم سے آگے نکل جائیں گے جلدی چلو۔۔"

پلوشہ نے اپنے ہاتھ میں جکڑے ملغلرہ کے ہاتھ کو کھینچا۔وہ گہری سانس خارج کرتی آگے بڑھی۔

"تم دونوں جلدی جلدی نہیں چل سکتیں۔"

وہ دونوں پھولتی سانسوں کو ہموار کرتی نیچے اتریں تو گلریز تپا ہوا ان کے انتظار میں کھڑا تھا۔کچھ ہی دور فاصلے پہ لڑکوں کے اسکول کے قریب انہی لڑکوں کو دیکھ کر وہ رک گیا تھا۔انھیں دیکھ کر اس کے ذہہن سے ہر بات محو ہو گئی تھی صرف یاد رہا تو اتنا کہ وہ یہاں کس لئے آ رہا تھا۔اپنے پیچھے بیٹیوں کو نہ پا کر وہیں رک کر انتظار کرنے لگا۔

باپ کے پوچھنے پر وہ دونوں خاموشی سے اس کے قریب آ کر رک گئیں۔

"چلو۔۔۔۔"

گلریز اب ان کے ساتھ ساتھ قدم بڑھا رہا تھا۔انھیں ساتھ لئے جب وہ ان آوارہ لڑکوں کی ٹولی کے قریب سے گزرا تو وہ لڑکے حرکت میں آ گئے۔ایک نے اپنی بھوندی آواز میں گانا گا کر استقبال کیا۔دوسرے نے سیٹیاں بجا کر اور باقیوں کی مکروہ اور فلک شگاف قہقہوں نے وہاں موجود سبھی لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کیا۔کچھ مرد جو اپنی بیٹیوں کو اسکول چھوڑنے آئے تھے، معنی خیز نظروں سے گلریز خان کو دیکھ رہے تھے۔وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی نگرانی میں انھیں سکول چھوڑ کر لڑکوں کے اسکول آ گیا۔اس نے سوچا کہ شکیب کا داخلہ بھی کروا دے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان لڑکوں کی شکایت بھی کر دے گا۔وہ ایک کمرے کے باہر دیوار پہ ہیڈ ماسٹر کے نام کی تختی لگے دیکھ کر قریب آیا۔دروازے کے باہر کرسی ڈالےچپڑاسی بیٹھا تھا۔وہ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔گلریز نے اسے ماسٹر صاحب سے ملنے کے بارے میں بتایا۔اس نے اسے دفتر کے باہر انتظار کرنے کو کہا۔اس کے کہنے پر وہ دیوار کے ساتھ قطار میں رکھی کرسیاں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ماسٹر صاحب نے اسے اندر بلوایا۔

"کہو گلریز۔۔۔۔کیسے آنا ہوا؟"

ہیڈ ماسٹر علیم الدین نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"ماسٹر صاحب بیٹے کا داخلہ کروانا ہے۔"

وہ ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔

"ہاں ہاں ضرور۔۔کل لے آو اسے ہو جائے گا داخلہ۔"

ہیڈ ماسٹر علیم الدین نے اسکے اترے چہرے کو بغور دیکھا۔

"بہت مہربانی جی۔۔ کل میں اسی وقت لے آوں گا اسے۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولا۔۔

"کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہو گلریز خان؟"

ہیڈ ماسٹر علیم الدین نے اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر پوچھا۔

"ماسٹر صاحب وہ۔۔۔۔۔"

وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے۔دل کڑا کر کے یہاں آ تو گئے تھے مگر دل میں ڈر بھی تھا کہ کہیں بات نہ بڑھ جائے۔

"کھل کر کہو گلریز خان۔۔۔کیا بات ہے؟"

انھوں نے ایک بار پھر پوچھا۔

"ماسٹر صاحب یہاں قریب ہی جو لڑکیوں کا اسکول ہے۔۔میری بیٹیاں اس میں پڑھتی ہیں۔"

گلریز خان نے بات کا آغاز کیا۔

"ہاں ہاں۔۔۔میں جانتا ہوں۔تم نے بتایا تھا مجھے مگر بات کیا ہے؟"

ماسٹر صاحب نے گلریز کی تمہید پہ اسے حیرانی سے دیکھا۔

"ماسٹر صاحب آپ کے اسکول کے کچھ لڑکے ہیں جو ہر روز صبح اور اسکول سے چھٹی کے بعد لڑکیوں کے اسکول سے قریب راستے میں موجود ہوتے ہیں اور لڑکیوں کو تنگ کرنا اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔خاص طور پر میری دونوں بیٹیاں۔وہ چاروں میری بچیوں کو چھیڑتے ہیں اور ان پہ فقرے کستے ہیں۔کبھی کبھی گھر تک پیچھے آتے ہیں۔بہت ہی اوباش اور آوارہ لڑکے ہیں۔میری بچیاں ان کے ڈر سے اسکول نہیں جاتیں۔میں آج خود ان کے ساتھ آیا ہوں تو سوچا آپ کے سامنے یہ مسئلہ رکھوں شاید کو بہتر حل نکل آئے۔"

گلریز نے ان کا چہرہ سرخ ہوتے دیکھا۔

"کون لڑکے ہیں تم جانتے ہو انہیں؟"

ہیڈ ماسٹر صاحب کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ماسٹر صاحب ان میں سے ایک تو جابر خان کا بیٹا ہے اور باقی بھی مجھے اسی کے خاندان کے لگتے ہیں۔"

گلریز خان نے دل کے خوف پہ قابو پا کر بتایا۔

"تم بےفکر ہو جاو۔۔بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں چاہے وہ کسی گانے بجانے والے کی ہو یا پھر کسی مولوی کی۔عزت، عزت ہوتی ہے اور عزت کو عزت ہی رہنے دینا چاہئیے تو بہتر ہے۔۔۔میں دیکھ لوں گا ان کو۔۔۔تم بےغم ہو کر جاو۔انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

ماسٹر علیم الدین نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ان کی بات سن کر اسکے دل کو ڈھارس بندھی تو وہاں سے اجازت لے کر اٹھ آیا۔اس کے جانے کے بعد ماسٹر صاحب نے چوکیدار کو بلایا اور اسے کچھ ہدایات دے کر مطلوبہ جگہ بھیج دیا۔

      _________________________________________

اگلے دن جب چوکیدار نے اس بات کی تصدیق کر دی تو ماسٹر صاحب نے چاروں لڑکوں کو اپنے آفس میں بلایا۔ان کی چال ڈھال سے معلوم ہو رہا تھا کہ نہایت ہی بدتمیز اور اوباش قسم کے لڑکے ہیں۔وہ چاروں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔پڑھائی میں اچھے تھے مگر ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شرارتی بھی تھے۔ان کے اساتذہ بھی ان کی مختلف شرارتوں کی فہرست ان کے سامنے رکھتے رہتے تھے۔اس وقت وہ چاروں ان کے سامنے ایسے کھڑے تھے جیسے انھیں نوبل پرائز کے لئے بلایا گیا ہو۔انھوں نے بغور ان کے بےخوف چہروں کو دیکھا۔

"یہ شریفوں کا علاقہ ہے۔"

انہوں نے کہنا شروع کیا۔نظریں اب بھی ان کے لاپرواہ انداز کو جھیل رہی تھیں۔

"جی ہمیں معلوم ہے۔"

ان میں سے ایک بولا۔

"مجھے نہیں لگتا کہ تم سب اس بات سے واقف ہو۔۔اگر واقف ہوتے تو یہ وطیرہ نہ اپنا رکھا ہوتا۔"

وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے جو ان سب میں نمایاں تھا۔چہرے پہ نرمی کے تاثرات تھے مگر ماتھے کے بل چہرے سے میل نہیں کھاتے تھے۔انھیں یقین ہو گیا کہ اس گروپ کا سردار یہی ہو گا۔ماتھے کے دائیں جانب زخم کا نشان تھا جس پہ کھرنڈ آ چکا ہے مگر چوٹ زیادہ پرانی نہیں لگ رہی تھی۔ان کی بات کے جواب میں وہ خاموش ہی رہا۔

"شریف ہوتے تو معصوم بچیوں کا تنگ نہ کرتے اور نا ہی انھیں اپنی اوباش حرکتوں سے پریشان کرتے۔"

وہ اسے منہ سیئے کھڑے دیکھ کر بولے۔ان کی بات کی تہہ تک پہنچ کر اس کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا اور چہرے پہ جو تھوڑے بہت نرمی کے تاثرات تھے انھیں غائب ہونے میں وقت نہ لگا۔

"پرنسپل صاحب آپ نے شریفوں کی بات کی ہے اور ہم نے کسی شریف کو نہیں چھیڑا۔"

وہ لحاظ بالاءطاق رکھ کر بولا۔

"کیا مطلب ہے تمھارا اس بات سے؟"

اس کی بات کا مفہوم جان کر ان کے چہرے کے تاثرات تن گئے۔

"ایک طبلچی کی کیا عزت ہوتی ہے۔اس نے ان لڑکیوں سے بھی یہی کام کروانا ہے تو پھر سینت سینت کر رکھنے کا فائدہ۔۔کل کو یہی کام ان کے ساتھ ہونا ہے اس لئے میں نے سوچا تھوڑی پریکٹس کروا دوں۔"

وہ خباثت سے ہنسا تھا۔باقی چاروں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

"خاموش۔۔۔۔بدتمیز۔۔۔یہ سیکھ رہے ہو تم تعلیم سے۔۔عزت کا مطلب بھی معلوم ہے تمھیں۔۔تمھیں میں ابھی کھڑے کھڑے بیڈ کریکٹر کا سرٹیفکیٹ دے کر اسکول سے نکال دوں تو تمھاری کیا عزت رہ جائے گی۔"

ان کا جی چاہا کہ تھپڑوں سے اسکا منہ لال کر دیں۔ان کی بات پہ اس کے اعصاب تن گئے۔

"میرا اور انکا کیا مقابلہ۔۔۔۔۔میرا تعلق ایک شریف اور عزت دار گھرانے سے ہے۔میں ایک لمحے میں آپکے اس دو ٹکے کے عزت دار کی عزت خرید کر مزید دو کوڑی کی کر سکتا ہوں۔اسے اسکی اوقات یاد دلا سکتا ہوں۔معاشرے میں اسکی عزت کتنی ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔۔۔۔لاکھ خود پہ عزت کے لبادے اوڑھ لیں۔۔کرنا تو انھوں نے یہی ہے۔۔۔ناچ گانا۔۔۔۔۔کل کو یہی باپ اسے میرے جیسے ہی کسی پیسے والے کو بیچ دے گا اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔آپ بھی یہیں ہیں اور میں بھی۔۔۔"

اسکی دھیمی الفاظ میں کہے گئے الفاظ ان کے جسم میں دوڑتے خون کو گرما گئے۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔۔۔۔۔"

وہ تیزی سے اپنی ٹیبل کی طرف بڑھے۔دراز میں سے کاغذ نکال کر اس پہ کچھ لکھا اور سائن کر کے اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

"تم جیسوں سے بات کرنا بھی میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔نکل جاو میرے آفس سے۔"

انہوں نے ہاتھ میں پکڑا کاغذ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔

"آپ میرے استاد ہیں اس لئے آپ کا لحاظ کر رہا ہوں۔ورنہ میں اپنی بےعزتی کرنے والے کو زمین میں سو فٹ نیچے دفن کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔"

انھوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔تیکھے نین نقوش کا حامل، بلند قامت یہ لڑکا اپنے بظاہر حلیے سے قطعی مختلف تھا۔انھوں نے مزید کچھ بھی کہنے سے خود کو روکا۔

"میں بحث کرنے کا عادی نہیں ہوں۔"

ماسٹر علیم الدین رخ پھیر گئے۔جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اب یہاں سے جا سکتا ہے مگر وہ تو شاید ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا یونہی کھڑا رہا۔

"آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجھے اسکول سے نکال دیں گے تو میں رک جاوں گا۔اب تو انھیں مزید بھگتنا ہو گا۔"

وہ بلند آواز میں بولا۔

"میں تمھیں آخری بار منع کر رہا ہوں۔اس کے بعد بھی اگر تم منع نہیں ہوئے تو پھر اس معاملے کو پولیس حل کرے گی۔"

انھوں نے اپنے سامنے پڑی فائل کھولی مگر ساری توجہ اس پہ تھی جو دروازے کے بیچ و بیچ کھڑا تھا۔

"یہ بھی کر دیکھیں۔۔۔میں نہیں رکنے والا۔۔اب تو سارا گاوں دیکھے گا ان کی عزت کے تماشے کو۔۔۔"

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔۔۔۔باقی تینوں فورا اس کے پیچھے آفس سے نکلے تھے۔ان کے چہرے کی طنزیہ مسکراہٹ اور غرور سے تنی گردنیں انھیں خلجان میں مبتلاء کرنے کے لئے کافی تھیں۔ان کے جانے کے بعد وہ کوئی بھی کام یکسوئی سے نہ کر سکے اور اس سے پہلے کہ یہ معاملہ مزید بگڑے انھوں نے جابر خان کا نمبر ملایا مگر دوسری جانب سے کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔وہ سر تھام کر رہ گئے۔

     _________________________________________   

اگلے دن بچوں کے اسکول جانے کے بعد راحت بانو کمرے میں آ گئی تھیں۔سردی چونکہ اپنے پورے جوبن پر تھی اس لئے وہ کچھ دیر ٹھہر کر کام کرنے کا سوچ رہی تھیں۔آج گلریز خان شکیب کو بھی ساتھ لے گیا تھا لڑکوں کے اسکول میں اسکا داخلہ کروانے کے لئے۔۔شکیب بہت ضد کر رہا تھا کہ اس نے نہیں جانا سکول۔۔۔۔راحت بانو سے بھی شکیب رونا دیکھا نہ گیا تو وہ گلریز خان سے لڑ پڑی تھیں لیکن گلریز خان نے ٹھان رکھا تھا کہ آج ہی اسکا داخلہ کروائے گا۔اکلوتے بیٹے کا رونا راحت بانو کے دل میں غبار بھر گیا تھا جسے وہ کچھ دیر رو دھو کر نکالتی رہی پھر کمرے میں آ گئی تھیں۔گرمی کے موسم میں وہ ملغلرہ اور پلوشہ کے جاتے ساتھ ہی گھر سمیٹنے میں لگ جاتی تھیں مگر سردیوں میں دھوپ نکلنے کا انتظار کرتی تھیں۔جب صحن سنہری دھوپ سے بھر جاتا تو کمرے سے باہر آتی تھیں۔اس وقت بھی وہ لحاف میں گھسی دھیرے دھیرے گرم چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔اسی دوران باہر سے آتی آوازیں ان کے کانوں تک پہنچی تھیں۔پہلے تو انہوں نے پرواہ نہیں کی کہ بلی ہو گی مگر بار بار آتی آوازیں انھیں بستر سے نکلنے پہ مجبور کر گئیں۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی پتھر پھینک رہا ہو۔وہ خود پر سے لحاف پرے کرتی چارپائی سے اتر آئی تھیں۔۔جلتی انگیٹھی پر ہاتھ سیک کر چادر میں چھپاتی کمرے سے باہر آئیں۔

صحن میں آ کر انھوں نے اردگرد نظر دوڑائی تو کوئی غیرمعمولی چیز ان کی نظر سے نہیں گزری۔دھوپ کی کرنیں ابھی تک قبلے کی جانب دیوار پہ ہی جلوہ گر تھیں۔اپنے اطراف سے مطمئن ہو کر وہ کمرے کی جانب پلٹی تو اسی وقت کوئی نوکدار چیز آ کر ان کے دائیں پیر پہ ضرور سے لگی تھی۔چبھن کا احساس پاتے ہی وہ اپنے پیر پہ جھکیں تو قریب پڑے پتھر پہ نظر پڑی۔چوٹ گہری نہیں تھی مگر سردی کے باعث زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔وہ پتھر ہاتھ میں لئے سیدھی ہوئیں کہ اچانک ایک اور پتھر ان کی کمر پہ لگا۔وہ فورا پلٹیں۔اسی دوران ایک اور پتھر گھر کی بیرونی دیوار سے پھینکا گیا مگر یہ پتھر برآمدے میں کھڑی راحت بانو تک رسائی نہ حاصل کر سکا۔ان کے دیکھتے ہی دیکھتے مزید دو اور پتھر آ کر صحن میں کھو گئے۔وہ ہاتھ میں پکڑے پتھر کو حیرانی سے دیکھتی الٹے قدموں چلتی کمرے کی دہلیز پہ رک گئیں۔انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔پہلے تو انھیں لگا کہ باہر کھیلتے بچوں میں سے کسی کی شرارت ہو گی مگر پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں تھا اور نا ہی بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔باہر کی جانب خاموشی تھی اور یکے بعد دیگرے پھینکے گئے پتھر کوئی اور ہی داستان سنا رہے تھے۔کچھ دیر رک کر وہ اس عمل کے رک جانے کا انتظار کرنے لگیں جب یقین ہو گیا ہے کہ پھینکنے والا تھم چکا ہے تو تیزی سے دروازے کی جانب آئیں اور جھٹ سے کنڈی اتار کر دروازہ کھول دیا۔

دروزاہ کھلنے کی آواز پہ غزنوق کا پتھر پھینکتا ہاتھ وہیں تھم گیا۔

"کون ہو تم۔۔۔۔۔اور یہ پتھر کیوں پھینک رہے ہو۔۔شرم نہیں آتی۔۔اپنا قد دیکھو اور حرکتیں دیکھو۔۔۔یہ نوکیلے پتھر میرا سر پھوڑ دیتے تو۔۔۔؟"

وہ پھرتی دکھاتیں اس کے سر پہ جا پہنچیں۔جبکہ غزنوق کا ہاتھ ابھی تک ہوا میں معلق تھا اور اسکے ساتھی راحت بانو کو دیکھتے ہی بھاگ چکے تھے۔ان کے خیال سے جسکا مشورہ تھا وہی بھگتے تو اچھا تھا۔

"کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے۔۔۔۔اب یوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔باؤلے تو نہیں لگتے ہو جو یوں بےدھڑک پتھر پھینکے جا رہے ہو۔"

انھوں نے سر سے پیر تک نک سک سے تیار اس لمبے چوڑے لڑکے کو دیکھا جو پہناوے کے اعتبار سے کسی اچھے گھر کا لگ رہا تھا۔گہری بھوری آنکھیں ابھی تک راحت بانو پہ جمی تھیں لیکن کچھ دیر پہلے ہوا میں لہراتا ہاتھ اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔غزنوق نے پتھر زمین پہ پھینک دیا اور راحت بانو کی جانب ذرا سا جھکا۔

"یہ دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟"

اس نے اپنی ماتھے کی چوٹ پہ انگلی رکھی۔راحت بانو نے اسکے ماتھے کی چوٹ کو دیکھا جہاں اب چوٹ تو نہیں تھی مگر چوٹ کا نشان باقی تھا۔

"یہ تمھاری بیٹی کا دیا ہوا ہے اور میں یہاں تمھیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں یہ چوٹ اسے سود سمیٹ واپس کروں گا۔کسی بھول میں مت رہنا کہ میں اسے بخش دوں گا۔آئیندہ اگر وہ میرے راستے میں بھی دکھائی دی تو وہ حال کروں گا کہ تمھاری آئیندہ نسلیں بھی میری کھودی ہوئی خندق بھر نہیں پائیں گی۔مجھے اسکول سے نکلوا کر تمھارے شوہر نے جو تیر مارا ہے وہ بھی واپس اسی سمت آئے گا۔۔۔کہہ دینا اپنے شوہر سے بھی۔۔۔۔۔۔۔"

وہ پلٹ کر جا چکا تھا مگر اس کے الفاظ ابھی تک راحت بانو کے کانوں میں گونج رہے تھے۔اس کے قدموں کی مضبوطی اسکے مضبوط ارادوں کو ظاہر کر رہی تھی۔وہ جان گئی تھیں کہ وہ کون تھا۔۔۔۔۔

اس کے بارعب لہجے نے انھیں ہر بات بھلا دی تھی۔۔۔وہ بھول گئی تھیں کہ ان کے ہاتھ سردی سے اکڑتے جا رہے ہیں۔۔سوکھی گھانس پہ چمکتے کورے کی ٹھنڈک ان کے پیروں میں سرائیت کرتی جا رہی ہے مگر انھیں اس کی بھی پرواہ نہیں رہی تھی۔پرواہ تھی تو بس آنے والے حالات کی۔۔۔وہ ٹھنڈی سوکھی گھانس پہ جیسے ڈھے سی گئیں۔

"راحت۔۔۔!! کیا ہوا۔۔۔ایسے کیوں بیٹھی ہو اور وہ بھی گھر سے باہر۔۔۔"

گلریز خان جب ملغلرہ اور پلوشہ کو اسکول چھوڑ کر واپس آیا تو دروازے سے کچھ فاصلے پہ راحت کو سر تھامے بیٹھے دیکھ کر بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔

"اٹھو اندر چلیں۔"

گلریز نے اس کی حالت کے پیشے نظر اس سے مزید کچھ پوچھے بناء اسے سہارا دے کر اٹھایا۔راحت بانو نے خود بھی اٹھنے کی کوشش کی تھی مگر سارا جسم جیسے شل ہو گیا تھا۔وہ خود میں اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کی ہمت نہیں پا رہی تھی۔اس لئے بےدم ہو کر بیٹھی رہی۔گلریز نے آس پاس نظر دوڑائی مگر وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔اس کے لئے یہ بہت حیران کن بات تھی۔وہ اسے سہارا دئیے گھر میں داخل ہوا۔صحن میں بچھی چارپائی نرم گرم دھوپ سے بھر گئی تھی۔اس نے اسے چارپائی پہ بٹھایا اور پلٹ کر دروازہ بند کیا۔

"میں تمھارے لئے پانی لے کر آتا ہوں۔"

گلریز خان نے کچھ پل اس کے چہرے کی پھیکی پڑتی رنگت کو دیکھا اور پھر باورچی خانے کی جانب بڑھ گیا۔وہ راحت بانو کو ایسی حالت میں دیکھ کر پریشان تھا کہ اچانک اسکے جانے کے بعد ایسا کیا ہوا تھا جس نے راحت بانو کو یوں حواس باختہ کر دیا۔گلاس میں پانی لئے وہ واپس آیا تو راحت بانو چارپائی پہ چت لیٹی تھی۔اس نے گلاس اسکی طرف بڑھایا تو راحت بانو اٹھ بیٹھی۔گلریز کی سوالیہ نظریں وہ خود پہ محسوس کر رہی تھی۔اس نے پانی پی کر گلاس چارپائی پہ ہی رکھ دیا۔

"کیا بات ہے تم اتنی چپ چپ کیوں ہو۔۔اور ایسا کیا ہوا تھا کہ تم اسطرح دروازہ کھولے باہر بیٹھی تھی؟"

گلریز نے اس کے سوچوں کے بھنور میں تیرتے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"یہ صحن میں جابجا بکھرے پتھر دیکھ رہے ہو نا۔۔۔۔"

راحت بانو کے اشارہ کرنے پہ گلریز نے صحن پہ نظر دوڑائی۔صحن میں بکھرے نوکدار پتھروں کو دیکھ کر ایک بار پھر اسکی سوالیہ نظریں راحت بانو پہ ٹھہر گئیں۔

"وہ لڑکا آیا تھا۔۔اسی نے پھینکے ہیں یہ پتھر۔۔ساتھ میں دو تین لڑکے اور تھے۔"وہ اپنے پیر کی چوٹ بھول گئی تھی۔یاد تھا تو صرف وہ لمبا تڑنگا لڑکا اور اسکے کڑک آواز میں کہے گئے جملے۔۔۔

"راحت۔۔۔۔۔؟؟"

وہ ان کی آنکھوں کی بےچین پتلیوں کو دیکھ رہا تھا۔اسکا ہاتھ راحت بانو کے کندھے پر تھا۔جس طرف وہ اشارہ کر رہی تھی وہ اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے بلی چلی تو نہیں جاتی۔

"وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں نہیں چھوڑے گا اور اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔۔۔تم ابھی اسکول جاو اور بچیوں کو گھر لے آو۔۔وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔"

وہ جان گیا تھا کہ وہ کس کی بات کر رہی ہے۔آخر وہی ہوا جسکا اسے ڈر تھا۔

"یہ پتھر اس نے پھینکے ہیں؟"

اس کے پوچھنے پر راحت بانو نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تم نے ماسٹر صاحب سے کہہ کر اسے اسکول سے کیوں نکلوا دیا؟"

راحت بانو نے اس کے سر پہ بم پھوڑا۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔میں نے تو صرف ماسٹر صاحب سے صرف اسے سمجھانے کا کہا تھا۔مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ اسے اسکول سے نکلوا دیں گے۔"

گلریز کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔

جو بھی ہو لیکن یہ ٹھیک نہیں ہوا۔برادری والے تو ویسے بھی ہم سے منہ موڑے رہتے ہیں اس معاملے میں تو کوئی بھی ہماری مدد نہیں کرے گا۔"

پریشانی اسے بھی اپنے گھیرے میں لے چکی تھی۔وہ ایک دم کھڑا ہو گیا۔

"اب کیا ہو گا۔۔۔۔آج تو پتھر پھینکے ہیں کل کو نجانے کیا کرے گا۔۔۔تم ابھی جاو اور بچیوں کو لے آو۔"

راحت بانو نے گلریز کو دیکھا جس کی نظریں اب صحن میں بکھرے پتھروں پہ ٹکی ہوئی تھیں۔

"میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔۔معافی مانگنی پڑی تو مانگ لوں گا۔"

اسکے جھکے کندھے مزید جھک گئے تھے۔اس کے سست قدموں کی رفتار اس شخص جیسی تھی جسے اپنی متاع حیات لٹنے کا غم لاحق ہو۔

       _________________________________________

"بڑے ہی ڈرپھوک ہو تم لوگ یار۔"

اس نے دونوں کو پیچھے سے آ دبوچا جبکہ وہ دونوں خباثت سے ہنسنے لگے تھے۔

"ہنسو ہنسو۔۔۔۔"

اس نے ایک بار پھر دونوں کو گردن سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

"یار چھوڑ دے۔۔۔۔"

وہ دونوں اسکی مضبوط گرفت سے خود کو چھڑانے لگے۔

"ویسے ایک بات تو بتاو کمینو۔۔تم لوگوں کو مجھ پہ اعتبار نہیں تھا کہ یوں مجھے اکیلے چھوڑ کر بھاگ گئے اور وہ بھی ایک عورت سے۔۔۔واہ واہ۔۔۔۔"

وہ ان پہ ہنس رہا تھا۔وہ دونوں بھی خجل ہو کر مسکرا دئیے۔

"ویسے یار چھوڑ دے ان کا پیچھا۔۔۔۔وہ تیری آج کی دھانسودار انٹری سے ڈر گئے ہونگے اور تو یہی تو چاہتا تھا۔اب مزید ان کے مغر مت لگ۔۔اس سے پہلے کہ بابا تک خبر پہنچے ہم ہیڈ ماسٹر صاحب سے معافی مانگ لیتے ہیں جا کر۔۔۔کیا خیال ہے؟؟"

داور اس کی گرفت سے اپنی گردن چھڑاتے ہوئے بولا۔

"معافی مانگنے تک تو ٹھیک ہے مگر پیچھا چھوڑنے کو ابھی دل نہیں مان رہا۔۔۔۔کیا ہے نا وہ ملغلرہ۔۔۔۔جب جب اسے دیکھتا ہوں میرے دل پہ ٹھا کر کے لگتی ہے۔۔اب اس ٹھا کر کے لگنے والی گولی کا کچھ تو علاج کرنا پڑے گا نا۔۔ورنہ خون رستا رہے گا۔"

وہ ہنسا تو داور نے اسے حیرانی سے دیکھا۔

"تو کیا تو اس سے شادی کرے گا؟"

داور نے اسکی جانب سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس کی بات سن کر قہقہہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

"میں نے کچھ پوچھا ہے تجھ سے۔۔۔۔غزنوق۔۔!!"

وہ اسکے اسطرح سے ری ایکٹ کرنے پر اسے حیرانی سے دیکھتا اس کے پیچھے دوڑا۔۔۔خاور نے بھی ان کے پیچھے قدم بڑھا دئیے۔

"میں تیرے اس انداز کو کیا سمجھوں؟"

داور نے اس کے سامنے آ کر اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔

"کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔بس کچھ وقت اور۔۔۔۔"

وہ معنی خیزی سے بولا۔

"تم ایسے تو نہیں تھے؟"

اتنی دیر خاموشی سے سنتے خاور نے بھی غزنوق سے پوچھا۔

"ہائے۔۔۔۔۔پہلے کوئی ایسا نظر سے بھی تو نہیں گزرا تھا۔۔۔صبح اس کا باپ ساتھ تھا نا اسکے؟"

وہ داور کی طرف مڑا۔

"ہاں۔۔۔۔۔وہ ساتھ تھا اور مجھے لگتا ہے اب وہ ساتھ آیا کرے گا اور یقینا لینے بھی آئے گا۔"

داور کی بجائے خاور نے جواب دیا۔

"چلو پھر ماسٹر علیم الدین کے پاس چلتے ہیں ان سے معافی مانگنے۔"

غزنوق نے دونوں کے کندھوں پہ اپنے بازو پھیلائے۔

"ہاں یہ بہت ضروری ہے۔۔۔خان بابا کو معلوم ہو گیا نا کہ تو ایک طبلچی کے بیٹی پہ عاشق ہو گیا ہے تو نجانے تیرا کیا حال کریں گے۔"

داور نے اس کی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھا جن میں شرارت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔"

داور نے اسکے کندھے پہ مکا رسید کیا۔

"چلتے ہیں پہلے تم لوگ اپنے چہروں پہ مسکینیت تو طاری کر لو نا یارو۔۔۔۔۔علیم الدین صاحب کے آگے کام آئے گی۔"

وہ چہرے پہ بیچارگی طاری کر کے بولا تو باقی دونوں پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگے۔

"کچھ زیادہ ہی غریب لگ رہا ہے میرا یار۔۔۔"

خاور نے اس کی پیٹھ تھپکی۔

"بس دیکھتے جاو میرے کمالات۔۔۔ماسٹر صاحب آج ہی اسکول میں تو کیا کلاس میں بھی انٹری دے دیں گے۔"

اس نے منہ بگاڑ کر کہا تو دونوں ایک بار پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔۔پھر وہ دونوں بھی منہ کے مختلف زاوئیے بنا بنا کر اسے دکھانے لگے کہ کون سا زیادہ بہتر لگے گا۔

"یار اس اینگل میں تو تو بالکل گدھا لگ رہا ہے کوئی اور ٹرائی کر۔"

وہ خاور کو بغور دیکھتے ہوئے بولا جبکہ خاور نے صرف اسے گھورنے پہ اکتفا کیا۔

"سہی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔تو دیکھ داور گدھا لگ رہا ہے نا۔"

اس نے داور کو آنکھ ماری۔داور کی باچھیں تو پہلے ہی چری جا رہی تھیں اسکی بات پہ اسکے ہونٹ مزید پھیل گئے۔

ان دونوں نے اس پہ ہنستے ہوئے دوڑ لگادی۔

"ٹھہرو ذرا بتاتا ہوں ابھی۔"

خاور بھی ان کے پیچھے دوڑا۔۔تینوں کا رخ اسکول کی جانب تھا۔وہ فل سپیڈ میں دوڑ رہے تھے جیسے تینوں میراتھن ریس کا حصہ ہوں۔

"آج کی بدمعاشی یہیں تک بس اب اس سے آگے شرافت کا جامہ پہن لو۔"

اسکول کے گیٹ سے کچھ ہی فاصلے پہ غزنوق ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔وہ دونوں رک گئے اور گھٹنوں پہ ہاتھ کر جھکے اپنا سانس بحال کرنے لگے۔

"ایسے ٹھیک ہے۔۔۔؟

دونوں سیدھے ہوئے تو ایک بار پھر مظلوم بن چکے تھے۔غزنوق نے اپنی ہنسی دبائی کیونکہ اسکول کا چوکیدار انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔

"چلو آو۔۔۔۔"

وہ انھیں ساتھ لئے آگے بڑھا۔انھیں قریب آتا دیکھ کر چوکیدار کھڑا ہو گیا۔انھوں نے اسے بتایا کہ انھیں پرنسپل صاحب سے ملنا ہے مگر وہ انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

"پرنسپل صاحب کا سختی سے آرڈر ہے کہ تم تینوں کو اسکول میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔"

"کاکا۔۔۔۔ہم معافی مانگنے آئے ہیں۔"

داور آگے ہوا۔

"جاو جاو۔۔۔۔ہمارا مغز مت کھاو۔۔۔میں تم کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔"

چوکیدار نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں جانے کو کہا۔اس کے انداز پہ غزنوق کے چہرے پہ سنجیدگی کے تاثرات چھا گئے۔خاور نے اسکے سرخ پڑتے چہرے پہ نظر ڈالی اور اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھ کر چوکیدار کے سر ہو جاتا خاور نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔

"کاکا۔۔۔۔تم ایک بار جا کر صرف پرنسپل صاحب کو ہمارے آنے کا بتا دو اور کہو کہ ہم معافی مانگنے آئے ہیں۔پھر وہ جو کہیں ہم وہی کر لیں گے۔اگر وہ واپس جانے کا کہیں گے تو ہم بلا چون و چرا یہاں سے چلے جائیں گے۔"

داور نے راہ ہموار کرنی کی کوشش کی۔چوکیدار نے اسے سر سے پیر تک دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر سر ہلاتا گیٹ کھول کر اندر چلا گیا۔

"تم تھوڑا خود پہ قابو رکھو۔۔۔۔ابھی پرنسپل صاحب نے بھی ہمیں لیکچر دینا ہے۔تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔"

داور اس کی جانب مڑا۔

"تم نے اسکا انداز ملاحظہ نہیں کیا۔۔۔"

غزنوق کے چہرے کے نقوش تن گئے تھے۔

"دیکھا بھی ہے اور برا بھی لگا ہے۔۔۔لیکن تم نے خود ہی تو کہا ہے کہ بیچارہ بن کر بات کرنی ہے تو اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

داور نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔غزنوق نے اپنے چہرے کے تاثرات نارمل کیے اور تینوں چوکیدار کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد چوکیدار گیٹ سے برآمد ہوا۔اس نے انھیں اندر آنے کو کہا اور انھیں ساتھ لئے پرنسپل کے آفس کی جانب بڑھا۔تینوں نے ماسٹر علیم الدین کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کیے کی معافی مانگی۔انھوں نے ان تینوں کے شرمندگی سے بھرپور چہرے دیکھے۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اب ان لڑکیوں کو تنگ نہیں کریں گے بلکہ کوئی بھی ایسا عمل نہیں کریں گے جس سے اسکول کی بدنامی ہو۔وہ شرمندگی جو وہ اس دن ان کے چہروں پہ دیکھنا چاہتے تھے آج نظر آ رہی تھی۔وہ حیران تھے کہ جو لڑکا ان کے سامنے اسقدر بدتمیزی سے یہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ بدلہ لے گا اور گلریز کے متعلق مغلضات بول کر گیا تھا اب ایک دم یوں پلٹ جانا اور معافی مانگنا کافی حیران کن بات تھی۔ مگر خوش بھی تھے کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔انھیں شرمندہ دیکھ کر انھوں نے تینوں کو معاف کر دیا۔تینوں کے مظلومیت کا ڈرامہ لئے چہروں نے کام کر دکھایا تھا۔

وہ تینوں لبوں پہ مدھم مسکراہٹ لئے پرنسپل کے آفس سے نکل کر گراونڈ سے ہوتے ہوئے کلاس روم کی طرف بڑھ رہے تھے اور پلر کے آڑ میں چھپا گلریز خان شکر کے کلمات ادا کر رہا تھا۔وہ اس وقت آیا تھا جب وہ تینوں آفس میں تھے اور پرنسپل صاحب سے معافی مانگ رہے تھے اور اپنے کیے پہ شرمندہ تھے۔اس کی جانب پیٹھ ہونے کی وجہ گلریز خان ان کے چہروں پہ سجی مسکراہٹ نہیں دیکھ پایا تھا۔اسکے دل و دماغ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ وہ سدھر گئے ہیں۔آج صبح ہونے والے واقعے کو لے کر اس کے ذہہن میں شک و شبہات تھے مگر۔۔۔۔۔۔دل کو ایک ڈھارس بندھ گئی تھی کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

مگر یہ تو آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ وہ ان کی جھولی میں ڈالنے کے لئے اپنے ساتھ کیا لایا ہے۔

     _________________________________________

پھر کچھ دن سکون سے گزر گئے۔انہوں نے پلوشہ اور ملغلرہ سے پتھر پھینکنے والی بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔گلریز خان کچھ دن تو ان کے ساتھ آتا رہا مگر اتنے دن آرام سے گزر جانے پہ پرسکون ہو گیا تھا۔ایک دن تو غزنوق اور اسکے دوست ان کے پاس سے بھی گزر کر گئے تھے مگر کوئی ایسی حرکت نہیں کی تو وہ مطمئن ہو گیا تھا۔ملغلرہ اور پلوشہ بھی اب بےخوف ہو کر اسکول جاتی تھیں مگر اب بھی گلریز خان نے ان کے ساتھ آنا نہیں چھوڑا تھا۔اس کے دل میں اس معاملے کو لے کر ایک گانٹھ تھی جو کھل نہیں رہی تھی اور یہ گرہ اس کے دل میں راحت بانو نے باندھی تھی۔وہ مطمئن نہیں تھیں۔ملک غزنوق کا خوف اس کے دل میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا۔اس کا انداز بھلا دینے والا نہیں تھا۔گلریز اسے بہت سمجھاتا مگر پھر بھی اس ذہہن و دل سے چند روز پہلے کا واقعہ مٹ نہیں پا رہا تھا۔اسے یوں محسوس ہوتا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔روز ملغلرہ اور پلوشہ کو سمجھا کر بھیجتی کہ جب تک چوکیدار ان کے باپ کے آنے کی اطلاع نہ دیا کرے وہ اسکول سے نہ نکلا کریں۔آج بھی ماں کی ہداہت کے مطابق ملغلرہ کلاس سے نکل کر وہیں گیٹ کے قریب کھڑی پلوشہ کا انتظار کر رہی تھی۔گیٹ کی طرف جوق در جوق آتی لڑکیاں اس کی جانب ایک نظر دیکھ کر آگے بڑھ جاتیں۔پلوشہ کی کلاس سیکنڈ فلور پہ تھی۔ملغلرہ کی نظریں سیڑھیوں پہ اٹکی ہوئیں تھیں۔دس منٹ مزید انتظار کرنے کے بعد پلوشہ اسے سیڑھیوں سے اترتی دکھائی دی۔پلوشہ کو آتے دیکھ اس نے جلدی جلدی اپنے شولڈر بیگ سے اپنی بلیک گرم شال نکال کر اوڑھی۔پلوشہ تیز تیز قدم اٹھاتی اسکے قریب آئی۔

"مجھے ذرا مس شاہین نے بلایا ہے۔میں ان سے مل کر ابھی آئی۔"

پلوشہ نے کندھے سے اپنا بیگ اتار کر اس کے حوالے کیا اور پلٹ کر جانے لگی۔

"بابا باہر انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔اماں کا پتہ ہے نا۔۔وہ کس قدر پریشان ہوتی ہیں اگر ہمیں تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے اور بابا بھی دیر سے نکلنے پہ غصہ ہوں گے۔۔تم ان سے کل مل لینا نا۔۔ویسے بھی اب تک شاید وہ جا چکی ہوں گی۔"

اس نے اس کے بیگ کا بوجھ اپنے دوسرے کندھے پہ ڈالا۔

"تم رکو تو سہی۔۔۔میں دیکھ کے آتی ہوں کہ وہ کہیں چلی تو نہیں گئیں۔"

پلوشہ نے اس کی باتوں کے جواب میں اسے انتظار کرنے کا کہہ کر اسٹاف روم کی طرف قدم بڑھا دئیے۔

"اچھا رکو تو۔۔۔میں بھی چلتی ہوں تمھارے ساتھ۔"

وہ دونوں بیگز اپنے دائیں بائیں کندھے پہ ڈالے اسکے پیچھے آئی۔پلوشہ بہت تیز قدموں سے اسٹاف روم کی طرف جا رہی تھی اور اسے پلوشہ کے ساتھ قدم ملانے کے لئے تقریبا بھاگنا پڑ رہا تھا۔

"ویسے تمھیں ان سے کیا بات کرنی ہے؟"

اس نے پلوشہ سے پوچھا۔

"میں نے ابھی تمھیں بتایا تھا کہ انہوں نے مجھے بلایا ہے۔ہماری کلاس کی پراکٹر سے کہا تھا کہ میں جانے سے پہلے ان سے مل کر جاوں۔"

وہ اسٹاف روم کے پاس پہنچیں تو ملغلرہ باہر ہی رک گئی۔

کچھ دیر بعد پلوشہ اسٹاف روم سے باہر آئی۔

"کیا کہہ رہی تھیں؟"

ملغلرہ نے اس سے پوچھا۔

"یہ۔۔۔۔۔"

پلوشہ نے ایک کاغذ اسکی آنکھوں نے سامنے لہرایا۔اس نے دل میں جو خیال آیا تھا وہ صحیح نکلا تھا۔اسی کے بارے میں بتانے کے لئے مس شاھین نے پلوشہ کو بلایا تھا۔پلوشہ کے ہاتھ میں اسکا معاشرتی علوم کا ٹیسٹ کا تھا۔

"ایک تو یہ معاشرتی علوم۔۔۔۔۔۔اور چودہ نکات۔۔۔" 

اس نے دل ہی دل میں معاشرتی علوم کوسا۔۔۔رات کو کتنا رٹہ لگایا تھا مگر مجال ہے جو ان چودہ نکاتوں نے اس کے دماغ میں ڈیرہ ڈالا ہو۔اس نے ایک بار پھر پلوشہ کے ہاتھ میں پکڑے ٹیسٹ پیپر پہ نظر ڈالی جس پہ مس شاھین نے اپنے قلم کی سرخ سیاہی نے کراس کا بڑا سا نشان بنا ڈالا تھا۔جس کا مطلب تھا کہ اس نے ٹیسٹ میں کچھ بھی قابل قدر نہیں لکھا تھا۔

"ارے میں نے تو ٹھیک لکھا تھا۔مس شاھین کو تو مجھ سے خدا واسطے کا بیر ہے۔نجانے کیوں ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔"

اسے ہنسی تو بہت آئی مگر پلوشہ کی خود میں پیوست ہوتی نظروں کو دیکھ کر ہنسی ضبط کر لی۔

"ملغلرہ تم سدھرو گی نہیں ہے نا۔۔کتنی شرمندگی ہوئی ہے آج مجھے تمھاری وجہ سے۔۔پتہ ہے وہ مجھے کیا کہہ رہی تھیں کہ تم سے کہوں کہ یہ پڑھائی وڑھائی تمھارے بس کی نہیں تم صرف گانا بجانا کر سکتی ہو اور اب تمھیں اپنے باپ کے ساتھ اسی کام پہ لگ جانا چاہئیے۔۔کتنی تذلیل کی بات ہے۔۔۔ان لوگوں نے ہمارے پیشے کو ہمارے لئے گالی بنا دیا ہے اور تم ہو کہ تمھیں کچھ احساس ہی نہیں۔یہ میں اماں کو دے دوں گی پھر وہ جانیں اور تم جانو۔"

وہ ٹیسٹ پیپر اپنے بیگ میں تقریبا اڑستے ہوئے آگے بڑھی۔

"پلوشے۔۔۔۔!! رکو تو۔۔۔پلیز اماں کو نہ بتانا۔۔۔وہ بہت خفا ہوں گی۔وعدہ کرتی ہوں آئندہ کوشش کروں گی۔"

وہ پلوشہ کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔پلوشہ نے اسے گھورنے پہ اکتفاء کیا۔

"آخری مرتبہ۔۔۔۔اگر اس کے بعد کسی ٹیچر نے شکایت کی تو اماں کو بتا دینا۔میں تمھیں نہیں روکوں گی۔"

ملغلرہ نے اسکی تیز نظروں کے جواب میں کہا۔

"آخری چانس۔۔۔"

پلوشہ نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے خبردار کیا۔

"پکا۔۔۔"

اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔اس کے انداز پہ پلوشہ مسکرا دی اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیں۔

"چلو چلیں۔۔۔بابا انتظار کر رہے ہونگے۔"

اس نے پلوشہ کو بازو سے تھاما۔دونوں تیز تیز قدم اٹھاتی اسکول گیٹ سے باہر آ گئیں۔آس پاس نظر دوڑائی تو گلریز خان انھیں کہیں دکھائی نہیں دیا۔

"چاچا۔۔۔۔بابا نہیں آئے کیا؟"

پلوشہ نے چوکیدار سے پوچھا جو ان کے باہر آنے پہ کھڑا ہو گیا تھا۔

"وہ تو نہیں آیا۔۔۔"

چوکیدار نے اپنی سرخ آنکھوں کا کیمرہ ملغلرہ پہ فوکس کرتے ہوئے کہا۔پلوشہ کو اس کے بےحیائی سے پر انداز پہ غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گئی جبکہ ملغلرہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کچھ قدم آگے بڑھ کر ان کی جانب سے رخ پھیر گئی۔

"وہ نہیں آئے؟"

پلوشہ نے گدھے کو باپ بنانے والے محاورے کو عمل میں لاتے ہوئے چوکیدار کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جس کی نظریں ابھی بھی ملغلرہ کا طواف کر رہی تھیں۔

"نہ۔۔۔۔"

اب کی بار پوچھنے پر چوکیدار نے پلوشہ کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"اچھا۔۔۔۔"

پلوشہ نے دور جاتی سڑک پہ اس جانب آنے والے لوگوں میں باپ کے چہرے کو تلاش کیا مگر کوئی چہرہ اسے شناسا نہ لگا۔وہ گہری سانس خارج کرتی ملغلرہ کے پاس آ کھڑی ہوئی۔

"بابا کو کوئی کام ہو گا تبھی نہیں آئے۔ہم خود ہی چلتے ہیں۔ویسے بھی اب حالات مختلف ہیں۔"

ملغلرہ نے پلوشہ کے چہرے پہ خوف کو پھیلتے ہوئے دیکھ کر کہا۔پلوشہ نے اس کا ہاتھ تھام کر قدم بڑھا دئیے۔اتنے دن کسی بھی اونچ نیچ کے بغیر سکون سے گزر گئے تھے۔دل کو اطمینان بھی ہو گیا تھا مگر اب باپ کو موجود نہ پا کر ڈر ایک بار پھر ان کے سامنے آن موجود ہوا تھا۔اب کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔

"تم لوگ اکیلا ہے تو میں ساتھ چلتا ہے تمھارے۔"

چوکیدار نے دونوں کے چہرے پہ ناچتے خوف کو بھانپ لیا تھا۔وہ ہر بات سے واقف تھا۔

"نہیں ہم چلے جائیں گے۔"

پلوشہ نے چہرے پہ سختی لاتے ہوئے کہا اور ملغلرہ کا ہاتھ تھام کر تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھی۔چوکیدار کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔دونوں ناہموار راستے پہ آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔پلوشہ آگے اور ملغلرہ پیچھے تھی مگر پلوشہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔

"ارے ارے ذرا دھیرے چلو۔۔۔۔۔"

مانوس آواز پہ ملغلرہ نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا۔پلوشہ کے قدم بھی رک گئے تھے۔اس نے بھی پلٹ کر دیکھا۔غزنوق کو دیکھ کر دونوں کا خون خشک ہوا۔ملغلرہ کے چہرے رنگت پھیکی پڑ گئی تھی۔

"جان من۔۔۔۔۔تمھاری سنہری رنگت کو کیا ہوا؟"

غزنوق اس کے قریب آیا۔

"دفع ہو جاو یہاں سے۔۔۔"

ملغلرہ نے اپنے خوف پہ قابو پایا۔غزنوق کے الفاظ اس کے تن بدن میں آگ لگا گئے تھے۔غصے کی سرخی اسکے چہرے پہ چھانے لگی۔

"ارے۔۔۔۔۔میری چڑیا تو چوں چوں بھی کرتی ہے۔اڑا کر لے جاوں گا کسی دن۔۔۔۔تمھارا باپ تمھاری خاک بھی نہیں پا سکے گا۔"

غزنوق نے انگلی اس کے چہرے کی جانب بڑھائی۔

"اپنی حد میں رہو۔۔۔"

ملغلرہ ایک قدم پیچھے ہوئی۔غزنوق کا اسکے چہرے کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔

"کب تک دور رہو گی۔۔۔۔ایک دن تو تمھارا باپ بیچ چوراہے پہ تمھاری بولی لگا کر موتی کو مٹی کر ہی دے گا۔"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔اس وقت وہ اکیلا تھا۔اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملغلرہ کو اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہی تھی۔

"وہ جو بھی کرے۔۔۔۔میرا باپ ہے۔۔تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔اپنے باپ کو میں اپنے سات خون بھی معاف کر دوں۔۔۔اف تک نہ کروں۔۔۔تم اپنا راستہ ناپو۔"

ملغلرہ نے بھی اسی کا انداز اپنایا۔

"تو اپنے باپ سے کہو۔۔۔۔مجھ میں کیا برائی ہے۔پیسہ بہت ہے میرے پاس۔۔"

غزنوق نے لہکتے ہوئے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔۔۔چلو ملغلرہ۔۔"

پلوشہ نے بلند آواز میں کہا اور ملغلرہ کو گھسیٹتی ہوئی وہاں سے جانے لگی۔جبکہ ملغلرہ کو لگ رہا تھا کہ اسکے پاوں اس کا ساتھ نہیں دے پائیں گے اور وہ منہ کے بل نیچے گر پڑے گی۔

"ہاہاہا۔۔۔۔ "

غزنوق کے قہقہے نے ان کا پیچھا کیا۔ملغلرہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہ وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔اس نے شکر کیا کہ وہ ان کے پیچھے نہیں آ رہا تھا۔دونوں کے قدموں میں تیزی آ گئی تھی۔

"پلوشے۔۔۔۔۔آہستہ چلو۔۔۔وہ ہمارے پیچھے نہیں آ رہا۔"

پلوشہ ڈھلوان سے اتر کر بھاگنے کے لئے تیار تھی کہ اس نے اس کے کہنے پر رک کر اسے دیکھا۔وہ واقعی ہی ان کے پیچھے نہیں آ رہا تھا۔وہ بھی رک کر سانس بحال کرنے لگی۔

"کمبخت۔۔۔۔!! یہ تو پھر آ گیا ہے۔"

ملغلرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا جیسے دانتوں کے بیچ غزنوق کو چبا رہی ہو۔

"اب کیا ہو گا۔۔۔۔۔؟ اور بابا کو دیکھو نا وہ بھی نہیں آئے ہمارے پیچھے۔"

پلوشہ تو رونے کے قریب تھی۔

"گھر جا کر بابا کو بتاتے ہیں اس کمینے کا۔"

ملغلرہ نے گھر کی طرف قدم بڑھایا۔

"کمینہ۔۔۔۔۔۔جی چاہتا ہے منہ توڑ دوں۔پہلے تو پتھر مارا تھا اب کی بار اینٹ ماروں گی۔"

راستے بھر وہ اسے صلواتیں سناتی آئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ راستے سے چھوٹے، بڑے اور نوکیلے پتھر اٹھا اٹھا کر بیگ میں جمع کرتی جا رہی تھی۔

"یقینا۔۔۔اس کی خیر نہیں اب۔۔"

پلوشہ نے اس کے اس عمل کو مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا۔

       _________________________________________

"کہاں تھا تو۔۔۔۔۔۔؟ ہم کب سے یہاں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں تیرا۔۔"

خاور نے اسے سست قدموں سے قریب آتے دیکھ کر پوچھا۔وہ جواب میں لبوں پہ دھیمی مسکراہٹ سجائے ان دونوں کے بیچ میں آ بیٹھا۔

"یہیں تھا۔۔میں نے کہاں جانا ہے۔۔بابا کے پاس تھا۔۔تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو۔۔چلو حجرے چلتے ہیں۔۔۔کچھ لوگ آئے ہیں۔شاید کسی لڑکی کی شادی کا معاملہ ہے۔۔بابا تو مجھے بھی جرگے میں شامل ہونے کا کہہ رہے تھے مگر میں تم لوگوں کی وجہ سے یہاں آ گیا۔"

یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔

"تمھارے لبوں پہ سجی مسکان تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔"

خاور نے اس کی طرف بغور دیکھا۔اس کے کہنے پہ داور نے بھی اس کے درست اندازہ لگانے پہ سر ہلایا۔

"ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔"

وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔

"لگتا ہے رخ یار کا دیدار کر کے آیا ہے۔۔۔۔یہ لالی۔۔۔یہ شفق۔۔۔"

خاور نے اسے ٹھرکی انداز میں چھیڑا۔

"مجھے بھی یہی ہے رہا ہے۔"

داور نے بھی ہنستے ہوئے خاور کی بات کی تائید کی۔۔۔۔جبکہ وہ ان دونوں کے اس قدر درست اندازہ لگانے پہ ہنس دیا۔

"ہاہاہا۔۔۔تو کیا کرتا۔۔۔۔۔۔اب کیا دیکھنا بھی چھوڑ دوں۔۔۔اگر تم لوگ یہ چاہتے ہو تو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔۔۔۔ویسے آپس کی بات ہے میں تو اپنا جلوہ بھی دکھا کر آیا ہوں۔"

وہ ہنستے ہوئے دونوں کو اپنی کارستانی بتانے لگا۔اس کی بات سن کر دونوں ہنسنے لگے۔

"ماننا پڑے گا شیرنی ہے شیرنی۔۔۔۔ایک پل کو تو ڈر گئی تھی مگر اگلے ہی لمحے یوں بپھر کر مجھے دیکھا کہ میں حیران رہ گیا۔اب ایسی ظالم شے پہ دل نہ آئے تو کیا آئے۔"

غزنوق خمار آلود لہجے میں بولا۔

"اچھا چل یہ بتا حجرے میں کس معاملے پہ جرگہ رکھا گیا ہے؟"

وہ لوگ حجرے سے تھوڑی ہی دور تھے۔

"بتایا تو ہے یار۔۔۔۔۔کسی لڑکی کی شادی کا معاملہ ہے۔جس نے یہ معاملہ حجرے میں اٹھایا ہے اس کے بیٹے کو لڑکی کا رشتہ نہیں دے رہے۔لڑکی کا باپ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔اس نے شاید پہلے اسکو زبان دی تھی مگر اب اپنی بات سے پھر گیا ہے۔بس اسی معاملے کا فیصلہ ہے آج۔"

غزنوق نے تفصیل بتائی۔وہ تینوں لوہے کے گیٹ سے اندر داخل ہو گئے۔اس وقت بات چیت جاری تھی۔کافی لوگ موجود تھے۔خان بابا کی نظر جیسے ہی غزنوق پر پڑی۔انھوں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔انھیں دیکھ کر حجرے میں ہوتی بڑبڑاہٹ خاموشی میں تبدیل ہو گئی تھی۔خاور اور داور بھی اپنے والد کے پاس جا بیٹھے۔ان کے براجمان ہونے کے بعد سلسلہ ایک بار پھر وہیں سے جوڑا گیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔

"ہمارا خیال ہے کہ جب جہانگیر خان نے زبان دی تھی تو اب اسے پورا کرے۔اپنی زبان کا پاس اور اپنے وعدے کا بھرم رکھنا نہ رکھنا عزت داروں کی شان نہیں۔۔۔۔اور جبکہ لڑکے میں کوئی برائی بھی نہیں۔"

ملک شمشیر خان نے جہانگیر خان کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں غصے کو پنپتے ہوئے آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا مگر ملک شمشیر خان کی بات اور فیصلے سے اختلاف کرنا اس کے لیے آسان نہیں تھا اور اب جبکہ ملک غزنوق خان بھی وہاں موجود تھا۔

"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا۔۔۔؟؟"

انہوں نے ساتھ بیٹھے غزنوق کو دیکھا۔جس نے ان کی بات پہ سر ہلا اثبات میں کر اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی۔

"خان بابا کا فیصلہ بالکل درست ہے۔۔۔۔کسی کو اعتراض۔۔۔۔؟؟" 

غزنوق نے سامنے کھڑے جہانگیر خان کی طرف دیکھا جس کے چہرے کی رنگت ایک دم پیلی پڑ گئی تھی۔

"آپ لوگ اسطرح میرے بناء یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔"

وہاں موجود سبھی لوگوں نے پلٹ کر دروازے میں کھڑے ذاکر خان کو دیکھا۔جسے دیکھ کر ملک شمشیر خان تو حیران ہوئے تھے مگر جہانگیر خان کا چہرہ تاریک پڑ گیا۔

"تمھیں کس نے حق دیا ہے اس معاملے میں بولنے کا؟"

ملک شمشیر خان نے ذاکر خان کو حیرانی سے دیکھا۔اب انھیں اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا تھا۔

"خان بابا۔۔۔۔۔میں اس رشتے کے بدلے جہانگیر خان کو دو لاکھ روپے دیئے تھے۔اب یہ مجھے انکار نہیں کر سکتا اور اگر جرگہ میرے خلاف فیصلہ کرے گا تو یہ مجھے میری دی ہوئی پوری رقم مجھے پچاس ہزار سود پہ واپس کرے گا۔۔۔۔مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ وہ سارے پیسے جوے میں ہار چکا ہے۔"

ذاکر خان کی بات سن کر حجرے میں بیٹھے سبھی لوگوں کو سانپ سونگھ گیا۔ملک شمشیر خان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بات اس قدر بگڑی ہوئی ہو گی۔غزنوق تو غصے سے جہانگیر خان کی طرف بڑھا مگر ملک شمشیر خان نے اس کا ہاتھ تھام کرا سے روک دیا۔

"یہ صحیح کہہ رہا ہے خان بابا۔"

جہانگیر خان نے نظریں جھکائے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے تو پھر ہم یہ فیصلہ تمھارے حق میں کرتے ہیں۔''

وہ اٹھ کر گیٹ کی جانب بڑھ گئے۔۔غزنوق بھی تلملاتا ہوا ان کے پیچھے آیا تھا۔

"خان بابا۔۔۔۔۔آپ ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟؟"

وہ ان کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہوئے بولا۔۔۔جبکہ وہ اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیتے ہوئے حویلی میں داخل ہوئے اور پھر اسی خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔غزنوق وہیں کھڑا انھیں جاتے دیکھتا رہا۔

   ____________________________________________

"پلوشہ..."

گھر کے قریب پہنچ کر ملغلرہ نے رک کر اسے پکارا۔۔۔پلوشہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔وہ حیران تھی کہ ملغلرہ یوں گھر کے قریب آ کر رک کیوں گئی ہے۔وہ اسے بغور دیکھتی اس کے قریب ہوئی۔

"میں چاہتی ہوں کہ تم بابا اور اماں کو آج راستے میں جو کچھ ہوا۔۔اس بارے میں کچھ نہ بتاؤ۔"

ملغلرہ نے پلٹ کر گھر کے بند دروازے کی جانب دیکھا۔

"مگر تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔۔؟تم نے دیکھا نا کہ اس نے کسطرح ہمارے راستے میں آ کر بدتمیزی کی ہے۔اگر ہم نے اس بات کو یونہی جانے دیا تو وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔کیا تم مزید کسی نقصان کا انتظار کر رہی ہو؟"

پلوشہ کو اس کی بات پر غصہ تو بہت آیا مگر اس نے تحمل سے بات کرنا مناسب سمجھا تھا۔ملغلرہ نے ایک بار پھر پلٹ کر گھر کے دروازے کو دیکھا۔جو اسکے دیکھتے ساتھ ہی کھٹکے کی آواز سے کھلا تھا اور گلریز خان نے دہلیز سے باہر قدم رکھا تھا۔وہ نئے استری شدہ کپڑے پہنے ہوئے کہیں جانے کو تیار تھا۔وہ بھی ان کو دیکھ چکا تھا۔ملغلرہ کچھ کہتے کہتے رک گئی اور باپ کے پاس آئی۔

"بابا۔۔۔۔کہیں جا رہے ہیں؟"

اس نے گلریز خان سے پوچھا۔اس کے چہرے سے ابھی کچھ دیر پہلے والی سنجیدگی مفقود تھی۔گلریز خان نے نیلے رنگ کے میلے سے کپڑے میں بندھا اپنا طبلہ نیچے زمین پہ رکھ دیا اور ملغلرہ کے سر پہ ہاتھ رکھا۔اس دوران پلوشہ بھی ان کے قریب آ چکی تھی۔اس نے بھی گلریز خان کو سلام کیا۔

"ہاں ایک جگہ شادی ہے وہاں بلایا ہے۔اسی لئے میں تم لوگوں کو لینے نہیں آ سکا۔کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا راستے میں؟"

وہ مطمئن تو تھا مگر پھر بھی اپنی تسلی کے لیے ان سے پوچھ لیا۔

"بابا وہ۔۔۔۔۔"

"جی بابا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔"

اس سے پہلے کہ پلوشہ غزنوق کا نام لیتی ملغلرہ نے باپ کو مطمئن کر دیا۔گلریز اس کی بات سن کر مزید کچھ پوچھے بغیر طبلہ اُٹھائے آگے بڑھ گیا۔

"یہ کیا کیا تم نے۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں بتانے دیا بابا کو۔۔۔۔اب جو بھی ہوگا تم ہی بھگتو گی۔"

پلوشہ کو اس کی اس حرکت پہ بہت غصہ آیا اور وہ اسے غصے سے دیکھتی گھر کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔ملغلرہ اس کے پیچھے آئی تھی۔

"میں اماں کو تمھاری اس بیوقوفی کے بارے میں ضرور بتاؤں گی۔"

"پلوشے۔۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ تیزی سے ملغلرہ کے پاس سے گزر کر آگے نکل جاتی ملغلرہ نے اسے بازو سے تھام کر روکا تھا۔

"انھیں پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ویسے بھی بابا کل ہمارے ساتھ جائیں گے۔اب اگر تم نے انھیں بتا دیا تو اماں ہمیں اسکول نہیں چھوڑیں گی۔کچھ ہی دن ہیں پھر امتحان شروع ہو جائیں گے۔ابھی بتا کر مزید مسائل بڑھیں گے اور ویسے بھی میرے پاس یہ ہیں۔"

اس نے اپنے بستے کی بھری ہوئی پاکٹ کو ہاتھ سے دبایا۔اسکے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔

پلوشہ نے اسے یوں دیکھا تھا جیسے اسکی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

"پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔؟ہم انکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔۔۔اگر کچھ ہو گیا تو بابا تو یہی کہیں گے کہ ہم نے انھیں کیوں نہیں بتایا۔"

پلوشہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسطرح کی بات کر سکتی ہے۔آج غزنوق کو دیکھ کر ڈر اور خوف سے اسکی کیا حالت ہوئی تھی۔۔۔وہ لمحہ ابھی بھی اس کی نظروں میں قید تھا۔

"تم وعدہ کرو مجھ سے کہ تم اماں کو کچھ نہیں بتاو گی اس بارے میں۔۔۔۔"

اس نے پلوشہ کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلائی۔پلوشہ نے اپنے ہاتھ پیچھے باندھ کر نظروں کا رخ پھیر لیا۔

"وعدہ کرو نا۔۔۔۔۔۔"

اس نے پلوشہ کا ہاتھ زبردستی اپنے ہاتھ میں لے کر ہتھیلی میں دبایا تھا۔پلوشہ نے اسے غصے سے گھورا اور اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا۔

"لیکن تم ایسا کیوں چاہتی ہو۔۔۔تمھیں اندازہ بھی ہے کہ ہم کس مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔"

پلوشہ نے اسے متوقع خطرے سے آگاہ کیا۔

"ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔۔۔۔وہ بائے چانس وہاں سے گزر رہا ہو اور بدتمیزی پہ آمادہ ہو گیا ہو۔روز تو کمینہ نہیں ہوتا راستے میں۔۔۔آج نجانے کہاں سے ٹپک پڑا تھا۔میرا تو دل چاہ رہا تھا منہ توڑ دوں اسکا۔۔۔خیر اگلی بار سہی۔۔۔۔یہ شرف تو میں ہی حاصل کروں گی۔"

اس نے اپنے شولڈر بیگ کی پاکٹ سے نوکیلے پتھر نکال کر پلوشہ کی نگاہوں کے سامنے لہرائے۔

"ان پتھروں سے مقابلہ کرو گی اس لمبے چوڑے دیو سے۔۔۔۔۔"

ملغلرہ مسکرائی تھی۔

"تمھارا تو دماغ خراب ہو چکا ہے۔۔۔میں تو چلی اماں کو بتانے۔"

پلوشہ کچن کی طرف دوڑی جہاں راحت بانو کام کرتی دکھائی دے رہی تھی۔

"پلوشے۔۔۔۔۔"

وہ بھی اس کے پیچھے دوڑی مگر پلوشہ اس سے پہلے ہی کچن تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔

"یہ کیا ہو رہا تھا۔۔۔کیا باتیں کر رہی تھیں تم دونوں؟"

راحت بانو نے پانی کا چھینٹا مار کر جلتی لکڑیوں کو بجھایا۔

"کچھ نہیں اماں۔۔۔۔وہ امتحان قریب ہیں نا۔۔بس ہم یہی بات کر رہے تھے کہ تیاری کیسے کرنی ہے۔"

پلوشہ نے انھیں بتانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اس نے راحت بانو کو اپنی جانب متوجہ کیا۔راحت بانو نے پہلے حیرانی سے اسے اور پھر پلوشہ کو دیکھا پلوشہ نے ماں کو اپنی جانب حیرانی سے دیکھتا پا کر کندھے اچکائے۔

"یہ میں کیا سن رہی ہوں۔۔۔تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔؟"

راحت بانو نے چہرے پہ سنجیدگی طاری کرتے ہوئے ملغلرہ کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر اسکا بخار چیک کیا۔

"افف اماں۔۔۔۔۔آپ بھی نا۔۔ہر وقت مذاق کی سیڑھی پہ کھڑی رہتی ہیں۔۔کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کریں۔"

اس نے نروٹھے پن سے اپنے ماتھے پہ دھرا ان کا ہاتھ پرے کیا۔

"میں مذاق نہیں کر رہی۔۔۔۔۔بات کچھ اور ہے۔۔سیدھی طرح سے بتاؤ کیا بات ہے؟"

راحت بانو نے دونوں سے پوچھا۔۔پلوشہ کا تو ارادہ تھا کہ ماں کو آج کے واقعے کے متعلق بتا دے مگر خود پہ گڑیں ملغلرہ کی نظریں اسے کچھ بھی بتانے سے روک رہی تھیں۔پھر اس نے بھی ماں کے سامنے ملغلرہ کی کہی ہوئی بات دہرا دی۔

"اچھا۔۔۔۔۔اور وہ ہاتھ میں کیا تھا جو یہ تمھاری آنکھوں کے سامنے نچا رہی تھی۔"

انہوں نے ملغلرہ کو پلوشہ کے سامنے ہاتھ کو لہراتے دیکھ لیا تھا۔ان کے پوچھنے پر پلوشہ نے ملغلرہ کو دیکھا۔جو سوچ رہی تھی کہ اگر راحت بانو کو پتھروں کا بتا دیا تو وہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی۔

"ارے وہ۔۔۔وہ تو پتھر تھے۔"

کچھ سوچ کر اس نے بتا ہی دیا۔

"پتھر۔۔۔۔۔۔۔پتھر کیوں؟"

راحت بانو نے مٹی کے چولھے سے آدھی سے زیادہ سیاہ دیگچی کو نیچے اتارا اور پلوشہ اس کے سچ بول دینے پر حیران ہوئی۔

"ہاں اماں۔۔۔وہ راستے میں بیری کا درخت ہے نا تو بیر توڑنے کے لئے میں نے اٹھائے تھے۔"

اسے بروقت بہانا سوجھا۔پلوشہ نے اس کے اس بہانے پہ اسے داد بھری نظروں سے دیکھا تھا۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔چلو تم لوگ کپڑے تبدیل کرو۔۔میں کھانا لے کر آتی ہوں۔شکیب بھی تم لوگوں کے کمرے میں ہے۔اسے بھی بھوک لگی ہو گی۔"

دونوں کو وہاں سے جانے کا کہہ کر وہ کام میں مصروف ہو گئیں اور وہ دونوں کمرے میں آ گئیں۔

_________________________________________________________

وہ نہایت ہی غصے میں دھڑام سے دروازہ کھول کر ملک شمشیر خان کے کمرے میں داخل ہوا۔خود پہ قابو پانے کی بہت کوشش کی تھی۔وہ چاہتا تو اس معاملے میں نہ پڑتا مگر مکرم خان اسکا دوست تھا اور جہانگیر خان کی بیٹی اسکی منگیتر تھی۔غلطی تو جہانگیر خان کی تھی۔زبان دے کر اپنی زبان سے پھر گیا تھا بلکہ امانت میں خیانت کرنے جسے جرم کا مرتکب ہوا تھا۔اسے جرگے کے اس فیصلے پہ اعتراض تھا۔

اس طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے پہ ملک شمشیر نے جو اپنے بستر میں نیم دراز چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اسے حیرانی سے دیکھتے ہوئے سیدھے ہو بیٹھے۔

"خان بابا۔۔۔یہ کیسا فیصلہ تھا۔۔۔مجھے آپ سے بالکل ایسے فیصلے کی امید نہیں تھی۔مجھے لگا تھا آپ مکرم خان کے حق میں فیصلہ دیں گے جو کہ ایک درست فیصلہ بھی ہوتا لیکن آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔خان بابا آپ کا یہ فیصلہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔آپ کل ہی جرگہ بلوائیں اور اس فیصلے کی تصحیح کیجئیے۔"

اس کے چہرے پہ امڈتے سرخ بگولوں کو دیکھ کر ملک شمشیر خان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔وہ جانتے تھے کہ وہ غصے کا تیز ہے۔بات تو اس کی بھی ٹھیک تھی مگر وہ کیا کرتے معاملہ ہی اس قدر پیچیدگی کا شکار ہو گیا تھا کہ ان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا۔جہانگیر خان نے انھیں ایسے موڑ پہ لاکھڑا کیا تھا۔اس نے اپنا سب کچھ ہار دیا تھا۔اگر وہ یہ فیصلہ مکرم خان کے حق میں کرتے تو اچھا ہوتا۔"

وہ ان کے سامنے ‏‏ ہاتھ پیچھے باندھے بڑے مؤدب انداز میں کھڑا تھا۔وہ اس وقت ان کے کمرے میں کبھی نہ آتا مگر دل کی بےچینی کا کیا کرتا تو کسی طور کام نہیں ہو رہی تھی۔اسی بے قراری اور بےسکونی کو ختم کرنے کے لیے وہ ان کے پاس آیا تھا۔

"یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔۔"

انہوں نے اپنے پاس بیڈ پہ اس کے لئے جگہ بنائی۔وہ دھیرے قدم اٹھاتا ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔چہرے پہ ابھی بھی غصے کی ہلکی سی رمق موجود تھی۔

"غزنوق۔۔۔۔بیٹا تمہارا غصہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔تم نے کبھی بھی جرگے کے کسی بھی فیصلے میں مداخلت نہیں کی اور اب اچانک۔۔کیا میرا خان مجھے اسکی وجہ بتائے گا۔"

ملک شمشیر خان نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا دیا اور محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔

وہ انکے پوچھنے کے باوجود بھی خاموش رہا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے۔۔۔"

انھوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"کوئی خاص بات نہیں ہے خان بابا میرے خیال میں یہ فیصلہ درست نہیں ہے"

اس کے چہرے کے بگڑے زاویے ان سے پوشیدہ نہیں تھے۔

"غزنوق فیصلہ ہوچکا ہے اور جرگہ کوئی مذاق نہیں جسے بار بار بلایا جائے۔جو فیصلہ ہوچکا ہے اب وہ بدلہ نہیں جائے گا۔سب اسی ایک فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔سب کچھ تمہارے سامنے ہے۔جانگیر خان نے بیٹی کو بیچ دیا ہے۔مکرم خان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ خاموشی سے بیٹی کو بیاہ دے۔"

وہ دو ٹوک لہجے میں کہتے اس کے چہرے پہ دکھائی دیتی سختی کو ناپسندیدگی سے دیکھنے لگے۔وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ٹھیک ہے خان بابا۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتے وہ جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے بڑے بڑے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔

ملک شمشیر خان کی پرسوچ نگاہیں دروازے تک جا کر پلٹ آئیں تھیں۔

_____________________________________________________

اگلے تین چار دن آرام سے گزر گئے۔دونوں نے گھر میں اس بات کا ذکر تک نہیں کیا۔امتحان قریب تھے اور دونوں بہنوں نے سر پکڑ کر تیاری کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔پلوشہ نے ملغلرہ سے وعدہ کیا لیا تھا کہ اگر وہ امتحان کی تیاری دل لگا کر کرے گی تو وہ اماں اور بابا کو کچھ نہیں بتائے گی۔پس وہ دونوں ہر بات بھلا کر تیاری کر رہی تھیں۔مزید سکون کی بات یہ تھی کہ اس دن کے بعد سے غزنوق ان کے راستے میں بھی نہیں آیا تھا نا ہی اس کے دوست ان کو راستے میں دکھائی دئیے تھے اس لئے دونوں بہنیں ایک بار پھر سے پرسکون ہوگئی تھیں۔گلریز خان بھی آجکل مصروف ہوگیا تھا۔صبح سویرے نکل جاتا اور پھر شام ڈھلے گھر واپس آتا۔برادری کے لوگوں کے ساتھ جانا اسے کچھ خاص پسند نہیں تھا مگر حالات اسے اکیلے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔گانا اسے آتا نہیں تھا اور نا ہی اس نے کبھی گانے کی کوشش تھی اس لیے اکیلے جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔طبلہ اچھا بجانے کی وجہ سے برادری کے لوگ تھوڑی بہت اہمیت دے دیتے تھے۔ابھی کچھ دیر پہلے گل خان نے آ کر اسے کسی پروگرام میں ساتھ چلنے کے لئے کا کہا تھا۔وہ جانے کے لئے تیار ہو گیا تھا بس گل خان کے آنے کا انتظار تھا۔وہ باہر چارپائی پہ بیٹھا طبلہ بجا کر چیک کر رہا تھا اور ملغلرہ اس کے پاس کھڑی ہلکی آواز میں گنگنا رہی تھی۔بیٹی کو گاتے سن کر اس کے ہاتھوں میں تیزی آ گئی تھی۔دونوں باپ بیٹی آس پاس سے بےخبر ہو گئے تھے۔ملغلرہ کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔اسکی آواز میں ابھی کچا پن تھا اس لئے اس کا سانس ٹوٹ رہا تھا۔راحت بانو بھی باورچی خانے میں مصروف وہیں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔اچانک دروازے پہ ہوئی دستک کی آواز نے اسکے پھرتی سے چلتے ہاتھوں کو رکنے پہ مجبور کر دیا۔ملغلرہ بھی خاموش ہو گئی۔ایک بار پھر دستک دی گئی۔

"ارے۔۔۔۔آ رہا ہوں۔"

گلریز خان نے طبلے کو ایک جانب رکھا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ملغلرہ بھی کچن میں ماں کے پاس آ گئی۔

"راحت میں جا رہا ہوں۔۔۔آ کر دروازہ بند کر لو اور بچوں کا خیال رکھنا۔میں کوشش کروں گا آج ہی واپسی ہو جائے لیکن اگر لیٹ ہو گئے تو کل ہی واپسی ہو گی۔۔۔خدا حافظ۔۔"

گلریز خان نے باورچی خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر راحت بانو سے کہا اور چارپائی پہ رکھے اپنے سامان کی طرف بڑھ گیا۔

"اور ہاں میرے جانے کے بعد آس پڑوس میں نہیں نکل جانا۔۔بچیاں گھر میں اکیلی ہیں۔"

وہ دروازے کے قریب پہنچتے پہنچتے پلٹ کر بولا تھا۔

"ٹھیک ہے ٹھیک ہے میرا سر مت کھاؤ۔۔نہیں جاتی کہیں بھی گھر پہ ہی ہوں اور تم جلدی آ جانا۔"

راحت بانو نے ہاتھ جھلا جھلا کر کہا۔

"کہا تو ہے رات ہو جائے گی۔۔۔سفر طویل ہے رات نہیں آ پائیں گے۔۔۔چلتا ہوں۔۔"

اس نے پیروں کے پاس رکھی گٹھڑی اٹھائی اور تیز تیز قدم اٹھاتا لکڑی کے دروازے سے باہر نکل گیا۔گلریز کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آ گئیں۔پلوشہ اور ملغلرہ لحاف میں گھسی، کتابیں پھیلائے بیٹھی تھیں۔انگیٹھی چارپائی کے قریب ہی رکھی تھی۔پورے کمرے میں دہکتے کوئلوں کی ُبو پھیلی ہوئی تھی۔

"تم دونوں کے لئے کچھ لاؤں؟"

راحت بانو نے قریب آ کر انگیٹھی پہ ہاتھ سیکتے ہوئے پوچھا۔

"اماں۔۔۔۔چائے کی طلب ہو رہی ہے۔"

ملغلرہ کی جانب سے آرڈر آیا۔

"بی بی تمھیں کب چائے کی طلب نہیں ہوتی۔۔۔صبح سے چار کپ چائے کے پی چکی ہو۔تمھارے باپ نے یہاں بھینس نہیں کھڑی کی ہوئی کہ میڈم صاحبہ چائے مانگے اور چائے حاضر کر دی جائے۔زرا چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ۔"

راحت بانو نے اس کے لتے لئے۔

"اماں۔۔۔میری پیاری اماں۔۔۔بس آخری کپ۔"

اس نے دانت نکال کر ماں کو دیکھا۔اسے دیکھ کر پلوشہ کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔

"کچھ چھوٹی بہن سے بھی سیکھ لو۔ہر وقت مسخرہ پن سوجھتا رہتا ہے۔چھوٹی بچی نہیں ہو تم۔"

راحت بانو نے چہرے پہ آئی مسکراہٹ کو لبوں میں دبا کر کہا تو ملغلرہ بھی مسکرانے لگی۔

ٹھیک ہے تم لوگ یہ پھیلاوا سمیٹو میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔راحت بانو دونوں سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔

"پلوشہ زرا اٹھ کر شکیب کو دیکھنا۔۔۔شام ہونے کو آئی ہے اور اسکا کھیل کود سے جی ہی نہیں بھر رہا۔اسکول سے واپس بھی آیا تو بیگ پھینک کر یہ جا وہ جا۔۔"

وہ جاتے جاتے پلٹ آئیں۔ان کے کہنے پہ پلوشہ نے چارپائی سے اتر کر چپل پہنے اور پیروں کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر آئی۔وہ دروازے کی طرف جا ہی رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اس کے پیروں میں تیزی آ گئی۔وہ جو بھی تھا تقریباً دروازے کو پیٹ رہا تھا۔وہ وہیں رک گئی۔

"ارے رک کیوں گئی۔۔۔شکیب ہی ہو گا۔۔وہی پاگلوں کی طرح دستک دیتا ہے۔۔کمبخت دروازے کو اسی طرح پیٹتا ہے۔۔"

ماں کے کہنے پہ اس نے لپک کر تیزی سے کنڈی اتاری۔دروازہ کھلتے ہی شکیب تیزی سے اندر داخل ہوا۔

"پیروں میں دم نہیں ہے تمھارے۔۔۔جلدی نہیں آ سکتی تھی۔"

شکیب نے اسے دھکیلا۔۔

"کہاں تھے تم اور یہ کپڑوں کا کیا حال کیا ہے۔"

اسکے یونیفارم کا حشر دیکھ کر وہ بولی اور پلٹ کر دروازہ بند کر کے کنڈی چڑھائی اور اس کے آگے بڑھنے سے پہلے ہی اسکا کان پکڑ لیا۔

"آہ۔۔۔آ۔۔۔اماں باجی کو دیکھو نا۔۔۔۔"

شکیب نے اس کے کان مروڑنے پہ ماں کو آواز لگائی۔راحت بانو پلوشہ کو شکیب کا کان پکڑے دیکھ کر دوڑی آئیں۔

"ائے ہائے ظالم۔۔۔چھوڑ بھائی کو۔"

وہ ہاتھ ہوا اٹھائے پلوشہ کی جانب آئیں لیکن اس پہلے کہ ماں کا تیز جھانپڑ اس کی کمر پہ بجتا وہ جلدی سے اسکا کان چھوڑ کر دور ہوئی۔

"دیکھ زرا کیسے لال کردیا ہے اسکا کان۔۔ادھر آ زرا تیرا کان پکڑ کر مروڑوں تاکہ تجھے پتہ چلے کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے۔"

"بس کرو اماں۔۔۔اب ایسا بھی کیا گولا مار دیا میں نے۔۔۔ایویں۔۔! تم نے اِسے ہتھیلی کا چھالا بنا رکھا ہے۔"

پلوشہ کو ماں کا شکیب سے لاڈ ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

"چل تُو بھی چل کر کپڑے تبدیل کر۔۔۔میں کھانا لاتی ہوں تیرے لئے۔"

انہوں نے پلوشہ کو گھور کر شکیب کو اندر کی جانب دھکیلا اور خود کچن کیطرف آ گئیں۔نم لکڑیوں کو جلانے میں بھی وقت لگنا تھا۔راحت بانو نے چھوٹی چھوٹی ہلکی گیلی لکڑیاں مٹی کے چُولہے میں رکھیں اور ماچس کی تیلی جلا کر آگ جلانے لگیں۔اس کام میں پلوشہ بھی ان کی مدد کرنے لگی۔

________________________________________________________

"میرا یار یہاں بیٹھا ہے اور میں اسے کمرے میں ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"

خاور اسے ڈھونڈتے ہوئے گھر کی پچھلی جانب آیا تھا۔۔کمرے میں اسے موجود نہ پا کر ملازم سے پوچھتا وہ یہاں چلا آیا تھا۔

"کیا بات ہے۔۔۔ایسے کیوں بیٹھا ہے۔۔؟"

اس کے چہرے سے چھلکتی خاموشی نے اسے پوچھنے پہ مجبور کیا کیونکہ ایسے موڈ میں وہ کم ہی کسی سے سیدھے منہ بات کرتا تھا۔کوئی بات اسکی سوچ کے منافی ہوتی تو آسمان زمین ایک کر دیتا تھا۔کسی کی نہیں سنتا تھا۔ایسی سچویشن میں صرف خان بابا ہی تھے جو اسے قابو کر سکتے تھے۔ان کے سامنے وہ کسی حد تک اپنے رویے کو تبدیل کر لیتا تھا۔۔

"کچھ نہیں یار۔۔۔"

اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔جس سے اس کے اندر کی بےچینی واضح ہو رہی تھی۔

"جرگے کے فیصلے کی وجہ سے پریشان ہے؟"

وہ خاموش رہا۔۔۔نظریں سامنے بنے سفید فوارے سے گرتے پانی پہ ٹھہری ہوئی تھیں گر سوچ کا محور کچھ اور تھا۔۔ماحول کی خاموشی گرتے پانی کی آواز توڑ رہی تھی۔

"یا اپنے عہد کو لے کر پریشان ہے۔۔۔"

اس کا اندازہ بالکل درست تھا کیونکہ اسکی بات سن کر غزنوق کے چہرے کی رنگت بدلی تھی۔

"تو تُو کیوں پریشان ہے۔۔۔اس میں تیرا کیا قصور ہے۔۔جہانگیر خان نے خود اپنی عزت بیچ ڈالی۔۔تُو نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی اور خان بابا کا بھی یہی فیصلہ تھا۔اب حالات ہی ایسے تھے تو کیا کر سکتے تھے ہم۔۔۔"

خاور نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

"کوشش ہی تو نہیں کی۔۔۔۔میں کر سکتا تھا بلکہ ابھی بھی اس بے غیرت جہانگیر خان کو ٹھیک کر سکتا ہوں مگر خان بابا کی وجہ سے خاموش ہوں۔"

"تم یہ بھی جانتے ہو کہ خان بابا کو فالتو کے لڑائی جھگڑے پسند نہیں۔"

اس کی بات کا مطلب سمجھ کر خاور بولا تھا مگر وہ رُخ پھیر گیا۔

"اچھا چل میرے ساتھ ہم چل کر مکرم سے بات کر لیتے ہیں۔وہ بےخبر تھوڑی نہ ہو گا۔"

خاور نے اسے بازو سے تھام کر اٹھانا چاہا۔

"اگر مجھے اس بات کا پتہ ہوتا کہ جہانگیر خان نے پیسوں کے لالچ میں بیٹی کو بیچ ڈالا ہے تو میں بالا ہی بالا اس قصے کو ہی ختم کر دیتا۔"

وہ ہاتھوں سے نادیدہ گرد جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"یار تُو نے خواہ مخواہ میں پریشانی سر پہ سوار کر رکھی۔۔مکرم خان بچہ تو ہے نہیں۔۔وہ جانتا ہے کہ اب اس لڑکی سے شادی کرنا اسکے لئے بے غیرتی کا طعنہ بن جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ جان سے بھی جائے گا۔ذاکر خان ایک نمبر کا خبیث انسان ہے۔۔وہ اسے چھوڑے گا نہیں۔۔یقینا اب مکرم خان کی فیملی بھی یچھے ہٹ جائے گی۔۔۔چلتے ہیں مکرم کے پاس۔۔دوست ہے اپنا۔۔سمجھ جائے گا۔"

خاور آگے بڑھا۔

"نہیں یار۔۔۔ابھی نہیں۔.تھکاوٹ ہو رہی ہے اور موڈ بھی نہیں ہے۔"

بیرونی دروازے کی طرف جانے کی بجائے اندر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔خاور اسکے پیچھے دوڑا تھا۔

"ارے تو اس میں کونسی بڑی بات ہے۔۔ابھی اپنے یار کا موڈ ٹھیک کئے دیتا ہوں۔"

اس نے غزنوق کے کندھے پہ ہاتھ پھیلایا۔۔عزنوق نے اسکی جانب دیکھا۔

"وہ کیا نام تھا۔۔۔۔۔جسکا میرا یار دیوانہ ہے۔۔۔۔۔۔ہاں یاد آیا۔۔۔۔۔مَل۔۔غہ۔۔۔لَرہ۔۔۔۔ارے ظالم کسقدر مشکل نام رکھا ہے اسکے ڈھولی تارو باپ نے۔۔"

خاور مسخرے پن سے بولا۔ملغلرہ کا نام سنتے ہی غزنوق کے چہرے پہ مسکان آ گئی۔اسے مسکراتے دیکھ کر خاور نے خود کو دل ہی دل میں شاباش دی تھی۔

"کیسی چمک آ گئی ہے میرے شہزادے کے چہرے پہ اس مَل۔۔۔غَہ۔۔ل۔۔۔۔۔"

اوئے خبیث۔۔۔۔۔تمیز سے نام لے۔۔"

غزنوق نے اسکے پیٹ میں ایک مکا رسید کیا۔

"تو کیا بھا۔۔۔۔۔۔"

"ایک دم چپ۔۔۔۔"

غزنوق تیزی سے اسکی طرف مڑا۔

"میں نے اس سے آگے نہیں سوچا اس لئے تم بھی اپنی سوچ کو محدود رکھو۔" 

اس کے چہرے پہ ایک بار پھر سختی چھا گئی تھی۔

"اچھا یار ٹھیک ہے۔۔تُو اپنا موڈ ٹھیک کر۔"

خاور نے اس کے سامنے آ کر کان پکڑ لئے۔غزنوق ہنس دیا اور پھر دونوں ہنستے ہوئے کمرے میں چلے گئے۔اپنے کمرے سے نکلتے ملک شمشیر خان نے ان کی باتیں سن چکے تھے۔کچھ وقت سے غزنوق کے متعلق کچھ باتیں انھیں سننے کو مل رہی تھیں۔ان کی بارعب شخصیت کی وجہ سے کسی میں ان کے سامنے یہ بات کرنے کی ہمت نہیں تھی مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔آج دونوں کو اس بارے میں بات کرتے سن کر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ غزنوق کے بارے میں جو کچھ انہیں سننے کو مل رہا تھا وہ سچ ہے۔اب انھیں پہلے اس معاملے کی تہہ تک جانا تھا اور پھر اس بارے میں غزنوق سے بات کریں گے۔

"غفور۔۔۔۔۔۔!!"

انہوں نے کچن سے نکلتے غفور کو آواز دی۔

"جی خان بابا۔۔۔"

وہ ان کے سامنے با اَدب کھڑا ہو گیا۔

"غزنوق کے بارے میں جو باتیں گاؤں میں لوگ کر رہے ہیں کیا تم اس بارے میں جانتے ہو؟"

ملک شمشیر خان نے اس سے پوچھا۔پہلے تو سر جھکائے خاموش کھڑا رہا مگر پھر انہوں نے اس سے حقیقت جان لی۔جو کچھ غفور انھیں بتا رہا تھا اسے سن کر انھیں یقین نہ آیا کہ غزنوق اس حد تک جا سکتا ہے۔

"یہ سب کہاں ہوتا ہے۔"

اپنے غصے پہ قابو پاتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔

"خان جی۔۔۔لڑکیوں کے اسکول کے پاس۔۔۔۔۔گلریز طبلچی کے گھر کا راستہ ڈھلوان سے نیچے کیطرف ہے۔بچیاں دونوں وہاں ہو کر گزرتی ہیں۔غزنوق کے ساتھ خاور اور داور بھی ہوتے ہیں۔"

غفور نے ان کے چہرے کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے جاؤ تم۔"

وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ غفور نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور کچن کیطرف چل دیا۔ _________________________________________

"کہاں جا رہا ہے..؟"

داور نے اسے گھر سے مخالف سمت میں جاتے دیکھ کر پوچھا۔"

"زرا اپنی جان من کو ایک نظر دیکھ آؤں۔۔بڑے دن ہو گئے رُخ یار کا دیدار نہیں کیا۔"

وہ ٹھرکی انداز میں سینے کو مسلتے ہوئے بولا تو داور ہنس دیا جبکہ خاور کے چہرے پہ سنجیدگی چھا گئی۔

"ویسے میں تجھے سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ایک جانب تو تُو اس قدر شریف ہے کہ کیا ہی کوئی شریف ہو گا اور دوسری جانب کمینے پن کی انتہا کر دیتا ہے۔۔۔آخر تُو ہے کیا چیز۔۔؟؟"

خاور نے اسکی دو رُخی شخصیت کا تجزیہ کیا۔

"ہاہاہاہا۔۔۔تُو کیوں اتنا سوچ رہا ہے۔بس میں ایسا ہی ہوں۔تم دونوں گھر جاؤ میں تھوڑی دیر تک آ جاؤں گا۔"

وہ کہتے ہی رخ پھیر کر جانے لگا۔

"ہم آئیں تیرے ساتھ۔۔۔۔وہ ظالم حسینہ پھر سے کہیں اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دے دے۔"

داور نے اپنے ساتھ کی پیشکش کی۔

"نہیں تم دونوں جاؤ۔۔آج صرف میں اور وہ۔۔۔۔۔ویسے کسی نے خبر دی ہے کہ آج میرا جانان اکیلا ہے۔"

وہ کسی طور اپنا انداز بدلنے پر آمادہ نہیں تھا۔۔۔خاور اور داور کو آنکھ مارتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔وہ وہیں کھڑے اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

"پاگل ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں۔۔۔لگتا ہے اندر اندر لاوا پک رہا ہے۔"

خاور نے آہستہ آواز میں کہتے ہوئے داور کو دیکھا۔

"مجھے بھی دال میں کچھ کالا کالا دکھ رہا ہے۔"

داور نے دور نُکتے کی صورت دکھتے ملک غزنوق خان کو دیکھا جو دائیں طرف مڑ کر ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

"مجھے ڈر ہے کہ اس کے یہ اطوار کہیں خان بابا تک پہنچ گئے تو کیا ہو گا۔"

خاور نے اسکی جانب دیکھا۔

"میں یہ تو نہیں جانتا کہ کیا ہو گا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ اگر اس بارے میں انھیں پتہ چل گیا تو ان کا ردعمل شدید ہو گا اور غزنوق کے ساتھ ساتھ ہماری بھی شامت آئے گی۔۔پھر ہم کیا کریں گے؟"

داور نے سوالیہ نظروں سے خاور کو دیکھا جبکہ خاور کندھے اُچکا کر آگے بڑھ گیا۔۔

___________________________________________________

چھٹی کی بیل جیسے ہی بجی وہ اب اپنا بیگ کندھے پہ ڈالے گیٹ سے باہر نکل آئی۔آج دھوپ بہت نکھری نکھری تھی۔سورج کی گرم نرم شعائیں اسے بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔آج وہ اکیلی تھی۔پلوشہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے وہ اس کے ساتھ نہیں آ سکی تھی۔راحت بانو اسکے اکیلے جانے پر آمادہ نہیں تھیں مگر وہ چھٹی کے حق میں نہیں تھی اور اب کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا۔اس دن کے بعد غزنوق بھی ان کے راستے میں نہیں آیا تھا اس لئے وہ اکیلے جانے کے لئے تیار تھی۔گلریز خان بھی کسی کام سے ساتھ والے گاوں گیا ہوا تھا۔پلوشہ اس کے اکیلے جانے کی وجہ سے بیماری میں بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار تھی مگر وہ اسے آرام کرنے کا کہہ کر گھر سے نکل آئی تھی۔

وہ بیگ کندھے سے لٹکائے تیز قدموں سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔لڑکیاں کب کی اس سے آگے نکل چکی تھیں۔اس کا راستہ بھی الگ تھا۔سفید چادر میں اس کا سرخ چہرہ سورج کی تمازت میں مزید سرخ ہو رہا تھا۔اسکول سے کچھ آگے کا راستہ آرام سے گزر گیا تھا۔سر جھکائے وہ مسجد کے پاس سے گزر کر نیچے کیطرف جاتے راستے پہ آ گئی تھی۔اس وقت اس طرف بالکل خاموشی ہوتی تھی۔اس وقت بھی دور دور تک کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ڈھلوان سے وہ کچھ ہی دور تھی کہ اسکی نظر سڑک کے دائیں جانب پڑے ایک بڑے سے پتھر پہ بیٹھے غزنوق پہ پڑی جو سرخی چھلکاتے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ملغلرہ کا دم اٹکنے لگا۔پلوشہ کے سامنے تو وہ بڑی بہادر بن رہی تھی مگر اب اسے اپنے سامنے موجود دیکھ کر جان کنی کے عذاب میں مبتلاء ہو گئی تھی۔ہاتھوں پہ کپکپاہٹ طاری ہو گئی تھی۔غزنوق دل ہی دل میں اسے گھبراہٹ کا شکار دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔کچھ دن پہلے اس نے جو روپ اسکا دیکھا تھا یہ روپ اس سے قطعی مختلف تھا۔ملغلرہ کو پلوشہ کی بات یاد آئی تھی اور وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کیسے ان پتھروں سے اپنا بچاو کر سکے گی مگر پھر بھی اس نے اپنے بیگ کی پاکٹ کو دبا کر پتھروں کی موجودگی کا یقین کیا۔اپنی حالت کے پیش نظر اب اسکا سامنا کرنا اسے مشکل لگ رہا تھا۔اوپر سے اپنے اکیلے ہونے کا خوف اسے اپنے کمزور ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔وہ بھی اکیلا تھا جسکا مطلب تھا کہ اسے پتہ تھا کہ آج وہ اکیلی ہے۔اس لئے وہ جان بوجھ کر اپنے دوستوں کو ساتھ نہیں لایا تھا۔یہ سوچ کر اس کے قدم وہیں جم گئے۔وہ بھاگنا چاہتی تھی۔۔وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔۔کہیں چھپ جانا چاہتی تھی مگر وہ تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔اس نے غزنوق کو اپنی طرف آتے دیکھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اپنے اور اس کے بیچ کے فاصلے کو کم کر رہا تھا۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے قدم پیچھے کی طرف اٹھ رہے ہیں۔غزنوق خاموش تھا مگر اسکے چہرے کے تاثرات اسے الارم کر رہے تھے۔اسے بھاگنا تھا۔۔خود کو بچانا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچتا وہ سر پٹ دوڑنے لگی۔اپنے پیچھے اسے غزنوق کا بلند قہقہہ سنائی دیا تھا۔تیز قدموں سے بھاگتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔وہ اس کے پیچھے آ رہا تھا۔اس کے قدموں میں مزید تیزی آ گئی۔دوڑتے دوڑتے اسکا سانس پھول گیا تھا۔وہ ڈھلوان کے قریب پہنچی۔ہر مرتبہ جب بھی وہ اس ڈھلوان سے اترتی اس جگہ کی تعریف میں رطب السان رہتی تھی مگر آج اسے اس جگہ سے بےحد نفرت محسوس ہو رہی تھی۔وہ جانتی تھی کہ اپنی رفتار آہستہ رکھ کر ہی وہ یہاں سے آسانی سے اتر سکتی ہے مگر ایسا کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ ہی دیر میں اس تک پہنچ جائے گا۔کچھ دیر رک کر اس نے اپنا سانس اعتدال پہ لانے کی ناکام کوشش کی۔اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھا۔وہ دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتی نیچے اترنے لگی۔اسے اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔

"ارے یار رکو تو سہی۔۔۔سر پٹ ایسے دوڑ رہی ہو جیسے میں کوئی جن بھوت ہوں۔"

ابھی وہ کچھ ہی فاصلہ طے کر پائی تھی کہ اسے غزنوق کی آواز سنائی دی۔ملغلرہ نے دیکھا وہ ڈھلوان کے سرے پہ کھڑا تھا۔اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر عزنوق بھی ڈھلوان پہ مضبوطی سے قدم جماتے اترنے لگا۔ملغلرہ کے قدموں نے ایک بار پھر تیزی کا دامن تھاما تھا۔

"ارے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔سنائی نہیں دے رہا تمھیں۔"

وہ اسکے قریب آتا جا رہا تھا جبکہ اس کے قدموں سے جان نکلتی جا رہی تھی۔

"وہیں رہو۔۔۔میرے قریب آنے کی ضرورت نہیں۔"

وہ حلق کے بل چیخی تھی۔اس نے جلدی سے اپنے بیگ کی زپ کھول کر مٹھی بھر پتھر نکال کر غزنوق پہ پھینکے۔

"اے۔۔۔تم ایک بار مجھے زخمی کر چکی ہو۔۔تمھیں کیا لگتا ہے کہ میں تمھارے ان پتھروں سے ڈر جاوں گا۔"

اس نے پیچھے ہٹ کر ان پتھروں کی زد میں آنے سے خود کو کامیابی سے بچایا لیکن قدم نہیں بڑھائے تھے۔

"میں تم پہ لعنت بھیجتی ہوں۔"

وہ واپس مڑی اور گرتے پڑتے نیچے اترنے لگی۔سڑک قریب ہی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ سڑک تک پہنچتی غزنوق نے اسے جا لیا۔ملغلرہ کا ہاتھ اسکی گرفت میں تھا اور وہ دونوں سڑک سے کچھ فاصلے پہ ڈھلوان کے نسبتا ہموار حصے پہ کھڑے تھے۔

"اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔ورنہ وہ حشر کروں گا کہ۔۔۔۔۔"

اس نے ملغلرہ کو بازو سے پکڑ کر جھٹکا دیا مگر اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا تھا جبکہ وہ خود کو چھڑانے کی تگ و دو میں تھی۔

"چھوڑو مجھے ورنہ میں چلاوں گی۔"

ملغلرہ نے آس پاس کسی ذی روح کو ڈھونڈا۔

"بڑے شوق سے۔۔۔"

وہ اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے آج کے بعد اسے یہ موقع نہیں ملے گا۔وہ اسے ڈھلوان سے اتار کر سڑک پہ لے آیا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ گرے اور اسے چوٹ لگے۔وہ جتنا خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اسکی گرفت اسکی کلائی پہ اتنی ہی سخت ہوتی جا رہی تھی۔غزنوق نے اسکے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھ کر اسکی کلائی چھوڑ دی۔ملغلرہ نے اسکی گرفت سے نکلتے ہی اپنا ہاتھ سہلایا۔اسکی سفید نرم و نازک سی کلائی پہ اپنی کی انگلیوں کے سرخ نشان اسے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

اسے ملغلرہ کے ہاتھ کی نرمی اپنے ہاتھوں میں رچتی محسوس ہو رہی تھی۔ملغلرہ نے اسکی کیفیت سے بےنیاز اس سے دور بھاتنے کی کوشش کی مگر غزنوق نے پیچھے سے اسکا بیگ پکڑ کر اسے روکا۔

"میں۔۔۔میں تم سے۔۔۔"

"غزنوق۔۔۔۔!!"

دونوں نے آواز کی سمت دیکھا۔ملک شمشیر خان ڈھلوان کے سرے پہ کھڑے غزنوق کو قہر بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔اس نے ملغلرہ کا بیگ چھوڑ دیا۔۔۔ملغلرہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے دوڑ لگا دی۔ملک شمشیرخان کی نظروں کا انداز ملک غزنوق خان کو نظریں زمین پہ گاڑنے پہ مجبور کر گیا۔اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایک بار سر اونچا کر کے خان بابا کو دیکھتا۔کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد غزنوق نے سر اونچا کر کے اس سمت دیکھا جہاں وہ کھڑے تھے مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔وہ وہاں سے جا چکے تھے۔اسے اپنے قدم بےجان لیکن ہاتھ میں رچی پرتپش نرماہٹ ابھی تک محسوس ہو رہی تھی۔

اور یہ تپش اسے ساری زندگی محسوس ہونی تھی۔

ہر پل۔۔۔۔

ہر لمحہ۔۔۔اس سے پیچھا چھڑانا اسکے لئے آسان نہیں رہنا تھا۔

اسے وہاں خاموش بیٹھے آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا مگر وہ خود میں ایک انچ تک ہلنے کی سکت نہیں پاتا تھا۔آس پاس کا سکوت اس پہ مزید خاموشی طاری کیے دے رہا تھا۔وہ خود پہ حیران تھا۔جو کچھ اس نے کیا۔۔۔۔۔کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔کچھ بھی ایسا جو خان بابا کو گراں گزرتا مگر وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون سی کشش تھی جو وہ کھچا چلا جاتا تھا۔آج بھی جو حرکت اس سے سرذد ہوئی تھی۔اس کے اثرات اس کی زندگی پہ کیا پڑنے والے تھے وہ اچھی طرح جانتا تھا۔جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا وہ اسے جُھٹلانا بھی نہیں سکتا تھا۔انہوں نے اسے ملغلرہ کا ہاتھ پکڑے دیکھا تھا۔وہ اپنا اعتبار۔۔اپنا وقار گنوا چکا تھا۔انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اب خان بابا کا سامنا وہ کسطرح کرے گا ،اسے اپنے کندھے پہ ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا۔وہ اس قدر اَپ سیٹ تھا کہ سر اونچا کر کے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔وہ اس لمس کو پہچانتا تھا۔

"چل کر خان بابا سے معافی مانگ لو۔۔۔وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔تمھاری اس خطا کو درگزر کر دیں گے۔اس عمر میں تھوڑی بہت بُھول چُوک ہو ہی جاتی ہے۔"

خاور کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔

"میں ان کا سامنا نہیں کر سکتا۔"

اس نے بےچینی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"لیکن یہاں اس طرح بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ انھوں نے گھر آکر مجھ سے اور داور سے پوچھا تھا اور ہمیں کہا کہ ہم نے تمھیں کیوں منع نہیں کیا۔۔۔روکا کیوں نہیں تمھیں اس کام سے۔۔وہ بہت غصے میں تھے۔انہوں تمھارے لیے ٹکٹ بھی کنفرم کروا لئے ہیں۔وہ تمھیں یہاں سے بھیجنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس معاملے کو تمھاری محض دلگی نہیں سمجھتے اس لئے انھیں لگتا ہے کہ تمھارا یہاں سے چلے جانا ہی مناسب لگ رہا ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ اپنے فیصلے میں کسقدر سخت ہیں۔پھر بھی میں کہتا ہوں۔میری مانو تو معافی مانگ لو ان سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل لیں۔"

خاور نے اسے سمجھایا۔۔وہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ اُس لڑکی کو لے کر غزنوق کی نیت میں فتور نہیں ہے۔وہ اور داور اگر اسکا نام بھی لیتے تھے تو وہ غصہ ہو جایا کرتا تھا۔بات صرف اتنی تھی کہ وہ اس کے معاملے میں کمزور لمحوں کی زد میں آ جاتا تھا۔جیسے ہی وہ اسکی نظروں کے دائرے میں آتی وہ آس پاس موجود ہر چیز سے بےخبر ہو جایا کرتا تھا۔۔۔اسے تنگ کرنا۔۔چھیڑنا تو ایک دلگی تھی۔جو وہ ان کمزور لمحوں کی زد میں آ کر کرتا تھا۔

اس کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ یونہی ساکت بیٹھا رہا۔

"غزنوق۔۔۔۔یار جو ہونا تھا ہو گیا۔اب کیا یونہی بیٹھا رہے گا۔"

خاور نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچ کر کھڑا کرنے کی کوشش کی مگر وہ چپک کر بیٹھا رہا۔جسے قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ اب ساری زندگی یہاں سے نہیں اٹھے گا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔اگر تُو نہیں جائے گا تو ممکن ہے کہ وہ خود یہاں آ جائیں۔۔پھر تُو خود سنبھال لینا۔"

خاور پلٹ کر جانے لگا۔وہ مضبوطی سے قدم جمائے اوپر چڑھنے لگا۔غزنوق وہیں بیٹھا اسے جاتے دیکھتا رہا۔اس کے قدم رکھنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے پتھر نیچے آتے جا رہے تھے۔وہ تقریباً ڈھلوان کے سِرے پہ پہنچ ہی گیا تھا کہ اسکا پیر مڑ گیا اور اس سے پہلے کہ وہ نیچے آ رہتا کہ غزنوق نے جو کہ اس کے پیچھے ہی آ رہا تھا اسکی کمر پہ ہاتھ رکھ کر اسے گرنے سے بچایا۔خاور نے بھی اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

"شکریہ یار۔۔۔"

خاور اسے دیکھ کر مسکرایا۔

"کوئی بات نہیں مگر آئیندہ میرے لئے خود کو گرانے کی کوشش مت کرنا۔۔مجھے دیر ہو سکتی ہے تم تک پہنچنے میں۔"

غزنوق نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالا اور ایک دوسرے کے سہارے ڈھلوان پار کر کے ہموار سڑک پہ آ گئے۔

"انھوں نے تجھے اس لڑکی کے ساتھ کسی قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے کیا۔۔۔؟؟ کیونکہ اتنے غصے میں وہ کم ہی ہوتے ہیں۔"

خاور دل کی بات زبان پر لے آیا۔

"قابلِ اعتراض حالت سے تمہاری کیا مراد ہے؟"

وہ کمان کی صورت اٹھی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ اسکی جانب مڑا۔۔۔غصے سے تنے ہوئے جبڑے۔۔گلے کی رگیں پُھول گئی تھیں۔خاور اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ پہ پچھتایا تھا۔اس لئے مزید کچھ نہیں کہہ سکا۔اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا جبکہ وہ اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بغور دیکھ رہا تھا۔خاور کی بات اسے کتنی بُری لگی تھی وہ اس کے چہرے سے ظاہر تھا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں تجھ سے؟"

اس نے خاور کو کندھے سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

"بہت افسوس ہوا مجھے کہ تم ایسا بھی سوچ سکتے ہو میرے بارے میں۔۔۔۔مجھے اچھی طرح سے جاننے کے باوجود۔۔۔"

اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھ گیا۔

"غزنوق۔۔۔۔یار میں نے تو یونہی پوچھ لیا تھا۔۔میرا مطلب وہ نہیں تھا۔میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا یار ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔۔یار رُک تو سہی۔"

وہ لب بھینچے تقریباً بھاگتے ہوئے گھر پہنچا تھا مگر خاور نے اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے جا لیا جبکہ غزنوق نے اسکا ہاتھ فوراً جھٹک دیا۔

                     ____________________________________________________

وہ ان کے سامنے بڑے مؤدب انداز میں پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔خاور اور داور بھی وہیں موجود تھے۔کمرے میں ان چاروں کے علاوہ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔انھوں نے باقی گھر والوں کو اس بارے میں بتانے سے گریز کیا تھا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ غزنوق خاندان میں اسی شرمندگی سے دوچار ہو جو شرمندگی وہ اپنے چہرے پہ لئے ان کے سامنے کھڑا تھا۔یہاں تک کہ انھوں نے غزنوق کے والد سے بھی سے بھی اس بات کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ملک شمشیرخان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بہت غصے میں ہیں۔غزنوق کے جھکا سر اسکی شرمندگی کا واضح ثبوت تھا مگر وہ اپنے دل و دماغ کا کیا کرتے جو اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔جو کچھ انھوں نے دیکھا تھا اس کے بعد تو اسکی شرمندگی انھیں ڈھکوسلا لگ رہی تھی۔وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔

"اب اسطرح کیوں سر جھکائے کھڑے ہو۔اس وقت یہ شرم کہاں تھی جب ہماری عزت کا جنازہ نکال رہے تھے۔تمھیں پتہ ہے کہ پورے گاوں میں تمھارے اس کارنامے کے چرچے ہو رہے ہیں۔لوگ مذاق اڑا رہے ہیں کہ ملک شمشیرخان جو ہر وقت عزت کی بات کرتا ہے اسکا پوتا ایک گانے بجانے والے کی بیٹی سے عشق فرما رہے ہیں۔تُف ہے تم پہ۔۔۔۔شرم آ رہی ہے مجھے کہ تم میرے پوتے ہو۔اگر کسی لڑکی کے پیچھے جانے کا اتنا ہی شوق تھا تو ہمیں کہتے ہم تمھاری شادی کروا دیتے پر اس طرح ایک ناچنے گانے والی کے پیچھے جانا۔۔۔اسے چھیڑنا۔۔۔کھلے آسمان تلے نہایت ہی بےشرمی سے اسکا ہاتھ پکڑنا۔۔یہ تمھیں زیب دیتا ہے۔۔؟"

ایک بار پھر وہ منظر ان کی نگاہوں کے سامنے لہرایا تو وہ غصے کو ضبط نہ کر سکے۔غزنوق ملغلرہ کے متعلق ان کے الفاظ سن کر مٹھیاں بھینچ گیا۔خاور نے اس کے چہرے کو سرخی کی حد سے گزرتے دیکھا۔وہ دُھواں جو کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ اسے نظر آ رہا تھا۔

"خان بابا۔۔۔میں۔۔۔۔"

وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وہاں سے کہیں غائب ہو جائے مگر ضروری نہیں کہ وہ جو چاہے وہ پورا ہو جائے۔

"میں اس بارے میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اور نہ مجھے تم کوئی صفائی چاہئیے۔سنی سنائی بات ہوتی تو تم صفائی دیتے بھی اچھے لگتے مگر میں نے تو سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔آج تم نے ہاتھ پکڑا ہے کل نجانے اور کیا کیا کیا ہو گا۔"

انھوں نے اس کی جانب سے رُخ پھیر لیا۔

"خان بابا۔۔۔۔آپ۔۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔میں آپ کا خون ہوں۔۔ٹھیک ہے میں اپنی غلطی مانتا ہوں۔۔"

وہ تیزی سے ان کی طرف آیا مگر انھوں نے ہاتھ کے اشارے اسے وہیں رکنے پہ مجبور کر دیا۔اب وہ کمرے کے بالکل وسط میں کھڑا تھا۔ان کے الفاظ کسی زہریلے تیر کی اپنے جسم میں پیوست ہوتے محسوس ہوئے تھے۔اسے مجھ نہیں آ رہی تھی کہ کسطرح وہ ان کے دل و دماغ سے اس لمحے کو نوچ کر کہیں دور پھینک دے۔وہ جس انداز سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے وہ اسکے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔اسے خود پہ غصہ بھی تھا کہ اس نے کیوں ایسا کام کیا جس سے اس کے کردار پہ بات آ گئی تھی مگر یہ بھی سچ تھا کہ جو کچھ اس نے کیا وہ ایک لاشعوری عمل تھا۔وہ ایسا کچھ بھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔

"برخوردار۔۔۔میں وہی سوچ رہا ہوں جو میں نے دیکھا تھا۔"

وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے۔جہاں سے لان میں لگے فوارے کو دیکھنے لگے جبکہ وہ سر دائیں بائیں ہلاتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔خاور اور داور کی تو خان بابا کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی بس خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔بیچ میں ایک دو بار خاور نے اس کی صفائی میں کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ خان بابا کی غصہ چھلکاتی آنکھیں اس کی ساری ہمت چھین لیتی تھیں اور وہ خاموش ہو کر رہ جاتا۔

"میں نے تمھارے لئے ٹکٹ کنفرم کروا لئے ہیں تم اپنی پیکنگ کر لو۔ہم کل صبح سویرے اسلام آباد کے لئے روانہ ہونگے۔"

یہ کہہ کر وہ رکے نہیں اور تیزی سے ڈرائنگ روم سے نکلتے چلے گئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔

"یار کچھ دن کی بات ہے۔جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو واپس آ جانا بلکہ دیکھنا وہ خود تمھیں واپس بلا لیں گے۔بہت محبت کرتے ہیں وہ تم سے۔۔زیادہ دن دور نہیں رہ سکتے تم سے۔"

خاور اسکے قریب آیا اور اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔غزنوق نے خاموش نظروں سے اسکی جانب دیکھا اور اپنے کندھے سے اسکا ہاتھ ہٹاتا وہاں سے چلا گیا۔

خاور اور داور بھی وہاں سے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔خاور کو ڈر تھا کہ غزنوق کہیں ضد میں آ کر کبھی بھی واپس نہ آنے کا فیصلہ نہ کر لے کیونکہ ضد میں تو خان بابا سے بھی آگے تھا۔

                         ________________________________________________________

وہ برآمدے میں ستون سے ٹیک لگائے سامنے دِکھتے بید مجنوں کے درخت پہ نظریں ٹِکائے بیٹھی تھی۔یہ درخت ان کے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف تھا۔جسکی لمبی اور سرسبز شاخیں زمین کی جانب نہایت جھکی رہتی تھیں۔یہ ایک بےثمر درخت تھا۔کبھی اس پہ پھل یا پھول لگتے اس نے نہیں دیکھا تھا۔دیوار سے قریب ہونے کے باعث اس کی شاخیں دیوار کے اندرونی جانب بھی دیوار پہ سایہ فگن رہتی تھیں۔فضاء میں مختلف پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ان کا گھر ایک چھوٹی سی پہاڑی سے نیچے تھا۔یہاں زیادہ تر گھر پہاڑ کے پتھروں کو کاٹ کر ہی بنائے گئے تھے۔ تھا۔سرسبز و شاداب یہ علاقہ قدرت کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔شام کا وقت تھا۔آسمان کی نیلاہٹ اب سرخی میں بدلنا شروع ہو چکی تھی۔گھٹنوں پہ رکھی کتاب کھلی پڑی تھی اور وہ بید مجنوں پہ نظریں مرکوز کیے ہوئی تھی مگر سوچ کا دائرہ کہیں اور ہی گھوم رہا تھا۔ڈھلوان پہ جو کچھ ہوا تھا اس بارے اس نے گھر میں کسی سے کچھ نہیں کہا تھا۔وہی ڈر کہ کہیں اماں اور بابا اسے اسکول جانے سے نہ روک دیں۔اس نے تو پلوشہ سے بھی اس بات کی چرچا نہیں کی تھی۔گھر جیسے ہی پہنچی تھی کچھ وقت دروازے پاس کھڑی رہی اور پھر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی بیگ چارپائی پہ پھینکا اور خود کو نارمل کرنے کے لیے واش روم کا سہارا لیا تھا۔اس وقت پلوشہ کمرے میں اور اماں باورچی خانے میں تھیں۔اسی لئے اس کی اَبتر حالت کسی کی نگاہ میں نہیں آئی تھی۔اس واقعے کو چار دن گزر گئے تھے مگر اسے ابھی بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ واقعہ کچھ ابھی ابھی پیش آیا ہو۔اس کی کلائی سے اس کی انگلیوں کے نشان تو مٹ گئے تھے مگر اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ نشان اس کے دل و دماغ پر پڑ چکے ہیں۔وہ چاہتے ہوئے بھی اُن لمحوں سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہی تھی۔اسے لگتا جیسے کوئی اس کے دل کو اپنی مٹھی میں دبا کر چھوڑ دبا دیتا ہو۔اپنی حالت سے پیچھا چھڑانے کے لیے وہ برآمدے میں سردی میں بیٹھی تھی۔راحت بانو، پلوشہ اور شکیب کمرے میں تھے۔اسے سردی بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ورنہ وہ اس موسم میں کپکپاتی رہتی اور کمرے سے بوقت مجبوری ہی باہر نکلتی تھی۔وہ دونوں اسکی اندرونی کیفیت سے ناواقف تھیں۔

"ملغلرہ یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہو۔"

پلوشہ کی آواز سُن کر درخت پہ مرکوز نظریں اب گھٹنوں پہ رکھی کتاب میں سمانے کی کوشش کرنے لگیں۔پلوشہ اس کے پاس آ کر اسی کے انداز میں برآمدے کے فرش پہ بیٹھ گئی۔ 

"اُف۔۔۔۔۔کتنا ٹھنڈا ہے یہ فرش اور تم کیسے بیٹھی ہو اس ٹھنڈے فرش پر۔"

پلوشہ فوراً کھڑی ہوئی۔یخ بستہ فرش کی ٹھنڈک اسے خود میں سماتی محسوس ہوئی تھی۔

"کچھ نہیں یونہی۔۔۔تم جاؤ میں آتی ہوں۔"

وہ بے دھیانی سے کتاب کے اوراق پلٹنے لگی۔پلوشہ اسکی غائب دماغی کو محسوس کیا تو اس کے قریب بیٹھ گئی۔

"کچھ ہُوا ہے کیا۔۔؟ تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔"پلوشہ نے اسکی سُونی آنکھوں میں جھانکا مگر اس نے نظروں کا رُخ ایک بار پھر درخت کی جانب کردیا۔وہ اسے خود میں جھانکنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔

"نہیں تو سب ٹھیک ہے اور میں بھی ٹھیک ہوں۔تمھیں یونہی وہم ہو رہا ہے۔"

وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولی۔

"اچھا یہ بتاؤ کہ سامنے کیا دیکھ رہی تھی؟"

پلوشہ نے اس کے ہاتھ سے کتاب کے لی۔

"یہ درخت کتنا سوگوار لگتا ہے نا۔۔۔۔۔۔میں یہی دیکھ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہے اور اسے بید مجنوں کیوں کہتے ہیں؟"

اس نے پلوشہ سے پوچھا۔وہ اپنی جانب سے اسکا دھیان ہٹانے کے لئے پوچھا۔

"ہاں سوگوار تو مجھے بھی لگتا ہے اور اسے مجنوں سے تشبیہ اس کی خمیدگی اور حالتِ افسردگی کے باعث دی گئی ہے۔"

پلوشہ نے درخت کی شاخوں کیطرف دیکھتے ہوئے اسے بتایا۔اس نے سر سمجھ جانے والے انداز میں ہلایا۔

"مگر تم کیوں اتنی افسردہ ہو؟"

پلوشہ نے بات کو پھر سرے سے پکڑا۔

"نہیں میں تو افسردہ نہیں ہوں۔۔شام کا یہ وقت ایک انجانی سی افسردگی ساتھ لاتا ہے۔"

یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پلوشہ کو وہیں چھوڑ کر کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

"کوئی تو بات ضرور ہے جو تم مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔۔خیر زیادہ دن چھپا نہیں پاؤ گی۔"

پلوشہ اسے کمرے میں غائب ہوتے دیکھ کر خود سے کہتی اٹھ کر کچن کی طرف آ گئی۔

اسے امید تھی کہ کچھ دن بعد وہ خود اسے بتا دی گی۔

اور لکڑی کے دروازے کی درزوں میں سے پلوشہ کو کچن کی طرف جاتے ہوئے دیکھتی وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسے کیا بتائے۔۔۔۔اس کے پاس تو الفاظ ہی نہیں جس سے وہ اپنی حالت بیان کر سکے۔۔وہ اسے بتاتی بھی تو کیا بتاتی۔۔وہ گرفت جو اب ایک لمس بن گئی تھی یا وہ لمحہ جو اسکے اردگرد ایک مضبوط دیوار کی صورت کھڑا تھا۔اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔راستے بھر اسکی نظریں کیوں اسے تلاش کرتی ہیں۔کیوں اس کے قدم ڈھلوان کے قریب پہنچتے ہی آگے بڑھنے سے انکاری ہو جاتے تھے۔وہ جو ہمیشہ مضبوط قدموں سے چلتی تھی اب ہموار راستے پہ اس کے قدم ڈگمگانے کیوں لگے ہیں۔اسکا دل جس بات کی طرف اشارہ دے رہا تھا وہ اس پہ یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔اپنے دل کی نہیں سننا چاہتی تھی۔ہر رات خود سے عہد کرتی مگر ہر صبح وہ خود سے کیے عہد کو بھول جاتی۔۔یاد رہتا تو صرف دو گہری بھوری آنکھیں اور وہ گرفت جو وہ اس کے دل پہ چھوڑ گیا تھا۔

نجانے خود کہاں غائب ہو گیا تھا۔وہ روز چھٹی کے وقت آس پاس موجود لوگوں کے چہروں کو بغور دیکھتی تھی مگر وہ ایک چہرہ کہیں نہیں تھا اور نا ہی دکھائی دینے والا تھا۔

                      ________________________________________________________

دن تیزی سے گزر رہے تھے مگر اسے لگتا تھا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو۔آج ان کا آخری پیپر تھا۔صبح سے دونوں خاموشی سے اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔اسکول آنے جانے کے دوران اسکی بےچین نظروں کہ بےقرار اول روز کی طرح برقرار تھی۔گھر میں خود کو ادھر ادھر کے کاموں میں مصروف رہے کر اپنی بےچینی کا درماں کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی رہتی۔نگاہیں تھکتی جا رہی تھیں۔اپنی حالت سے پریشان وہ ان لمحوں کو اپنی زندگی سے نوچ کر پھینک دینا چاہتی تھی۔شروع شروع میں اس پہ غصے کی کیفیت چھائی رہتی ہے مگر پھر آہستہ آہستہ اس کے الفاظ_وہ لمحات نجانے اس کی اس کیفیت کو پرسکون کرتے رہے۔امتحان قریب تھے۔۔ایک جانب اسکا جی پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا اور دوسری جانب پلوشہ اس کی تیاری پہ کڑی نظر رکھ رہی تھی۔ملغلرہ اس پہ کچھ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ورنہ سوال کر کر کے اسکو پریشان کرتی رہتی۔۔اسی لئے وہ گھر میں نارمل رہتی تاکہ وہ اسکے دل کی حالت سے واقف نہ ہو سکے۔اولین دنوں میں پلوشہ راستے بھر غزنوق اور اسکے دوستوں کی غیر موجودگی پہ اللّٰہ کا شکر ادا کرتی رہتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی اس بارے میں بات نہیں کرتی کیونکہ جب سے وہ ان کے راستے میں آنے لگا تھا وہ دونوں سارا راستہ اسے صلواتیں سناتی رہتی تھیں۔ملغلرہ بھی اب خود کو سوچ کے اس جنگل میں جس میں وہ گم ہو کر رہ گئی تھی،خود کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔

پیپر دے کر وہ پلوشہ کے انتظار میں لان میں بیٹھی تھی۔

"چلو۔۔۔"

پلوشہ دھم سے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔شولڈر سے بیگ اتار کر اس نے گود میں رکھ لیا۔

"تم کیوں خاموش بیٹھی ہو۔۔پیپر اچھا نہیں ہوا کیا؟"

پلوشہ نے اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں اچھا ہوا ہے۔بس آج ہمارا آخری دن ہے نا سکول میں اسی وجہ سے دل تھوڑا اداس ہے۔"

اس نے اپنی خاموشی کو اسکول کی جدائی سے مشروط کیا تھا۔

"ہاں میرا بھی دل بہت اداس ہے۔میں اِن دنوں کو بہت یاد کروں گی۔۔۔تم بھی یہی سوچ کر اداس ہو نا۔۔"

پلوشہ نے اس کے اداسی چھلکاتے چہرے کو دیکھا۔ملغلرہ نے بھی اس کی جانب دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔

"تمھیں اتنی دیر کیوں ہو گئی۔۔پیپر تو کب کا ختم ہو گیا تھا۔"

ملغلرہ نے لایعنی سوچوں سے پیچھا چھڑا کر اس سے دیر سے آنے کی وجہ جاننی چاہی۔پلوشہ جو بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے والی اپنی ہم جماعت لڑکیوں کو الوادعی ہاتھ ہلا رہی تھی۔۔پھر سے اسکی جانب مڑی۔

"ہاں وہ زرینہ کی شادی ہے نا اگلے جمعے کو۔۔۔تو وہ کلاس کی لڑکیوں کو دعوت دے رہی تھی۔"

پلوشہ نے اسے بتاتے ہوئے پیروں کے قریب پڑے گھانس کے خشک تنکے کو انگلی پہ لپیٹا۔"

"تو کیا اُس نے ہمیں بھی انوائیٹ کیا ہے؟"

ملغلرہ خوشی سے اُچھل پڑی۔اسے شادی کے فنکشنز میں جانے کا بہت شوق تھا۔اسی لئے وہ پلوشہ کے چہرے پہ پھیلتا دُھواں اس کی نظروں سے پوشیدہ رہا جبکہ اس کے چہرے پہ خوشی کی ہلکی سی رمق سرخی کی صورت اُبھری تھی۔

"نہیں۔۔۔۔اس نے کہا کہ اسکی شادی میں گانے بجانے والوں کا کیا کام۔"

پلوشہ کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا دکھ اس کے سنہری گالوں پہ آ گیا۔ملغلرہ ایک دم چُپ ہوئی لیکن پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔

"تو تم کیوں خفا ہوتی ہو۔۔۔ہمیں بھی کوئی شوق نہیں ہے اس کی شادی میں جانے کا۔۔۔۔ہونہہ بڑی آئی۔"

دکھ تو اسے بھی اس کی بات سُن کر ہوا تھا مگر پھر خود پہ قابو پا لیا تھا۔

"چلو چلیں دیر ہو رہی ہے۔ ۔۔اماں تو آج بڑی بیتابی سے انتظار کر رہی ہونگی۔اب وہ ہم پہ طبع آزمائی کرنے کو بےچین ہیں کہ کب ہم ان کے ہاتھ لگیں اور کب وہ ساری گھرداری ہم دونوں میں"ٹُھونس"دیں۔"

وہ بیگ شولڈر پہ لٹکائے، کپڑے جھاڑتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"ہاں چلو۔۔۔۔شکیب بھی انتظار کر رہا ہو گا۔اس نے صبح کہا تھا کہ ہمارے پیچھے آئے گا۔

پلوشہ نے اسکا اپنی جانب بڑھایا ہاتھ تھام لیا۔دونوں بہنیں نے ہاتھوں میں ہاتھ لئے اسکول کے گیٹ کی طرف قدم بڑھائے۔گیٹ سے نکلتے ہی شکیب انھیں کچھ فاصلے پر کھڑا دکھائی دیا۔شکیب نے بھی انھیں آتے دیکھ کر قدم بڑھا دئیے تھے۔وہ دونوں پیچھے تھیں جبکہ شکیب ان سے کچھ فاصلے پر آگے چل رہا تھا۔ڈھلوان سے نیچے سڑک کے کنارے پہ سرخ کوکنار کی قطاریں تاحدِ نظر دکھائی دے رہی تھیں۔اس پورے گاؤں میں جگہ جگہ دکھائی دیتے تھے۔گھروں کی چھتوں پر۔۔۔ندی کے کنارے۔۔پگڈنڈیوں پہ۔۔ہر جگہ انکی بہتات تھی۔راستے بھر ملغلرہ نازک پنکھڑیوں کو اپنی انگلیوں سے ان کی نرماہٹ کو محسوس کرتی ہوئی گھر آتی تھی۔ابھی بھی فضاء میں ان کی خوشبو شامل ہو کر فضاء کو تروتازہ کر رہی تھی۔

ملغلرہ نے آج کچھ پھول توڑ لئے تھے۔وہ انھیں اپنے پاس راستے کی نشانی کے طور پر رکھنا چاہتی تھی۔سرخ کوکنار کی نازک ڈنٹھلوں کو دائیں ہاتھ میں دبائے وہ شکیب اور پلوشہ سے کچھ فاصلے پہ تھی جب اسکی نظر سامنے سے آتے لڑکے پر پڑی۔جو اسی جانب آ رہا تھا۔اسے دیکھ کر اس پہ گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔پلوشہ نے بھی اس لڑکے کو پہچان لیا تھا۔ان کے چہرے وہ کیسے بھول سکتی تھی۔اس کی وجہ سے کتنے دن انہوں نے اذیت میں گزارے تھے۔پلوشہ نے فوراً اس کی طرف دیکھا۔

"جلدی آو۔۔۔۔۔۔۔اس نے اسے پکارا تھا۔ملغلرہ کے قدموں میں تیزی آ گئی تھی۔وہ ملغلرہ کو دیکھ کر وہیں کھڑا ہو گیا تھا۔ملغلرہ تیز رفتاری سے چلتی اس کے پاس سے گزر گئی۔پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جبکہ وہ لڑکا مُٹھیاں بھینچے انھیں جاتا دیکھتا رہا۔وہ کوئی اور نہیں خاور تھا۔۔

ملک خاور خان۔۔۔۔۔

           ______________________________________________________________________

"ملغلرہ۔۔۔۔!!"

وہ کچن میں برتن دھو رہی تھی جب باپ کی آواز اسے سنائی دی۔وہ کمرے میں تھے اور اسے پکار رہے تھے۔جلدی جلدی ہاتھ دھو کر اپنے دوپٹے سے پونچھتی وہ باورچی خانے سے نکل آئی۔آج موسم صبح ہی سے ابر آلود تھا۔یخ ہواؤں نے علاقے کا رُخ کر لیا تھا مگر ابھی تک موسم کی پہلی بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برسا تھا۔وہ آسمان کی جانب ایک نظر ڈالتی کمرے میں آ گئی۔

"جی بابا۔۔۔۔"

وہ گلریز خان کے قریب تیزی سے آئی۔وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی طبیعت ایک ہفتے سے خراب تھی اور ڈاکٹر کے پاس نہ جانے کی وجہ سے مزید بگڑ گئی تھی اور کل رات سے تو ایک لمحے کا بھی آرام نہیں تھا۔شدید کھانسی کی وجہ سے اس کی پسلیوں میں درد شروع ہو گیا تھا۔اس لئے وہ ایک ہفتے سے گھر میں ہی تھا۔اس نے سہارا دے کر اٹھنے میں مدد دی۔تکیہ ان کی کمر کے پیچھے اونچا کرکے رکھا۔

"میں آپ کے لئے ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔"

انھیں سہارا دے کر بٹھانے کے بعد دروازے کے قریب پڑی ہوئی انگیٹھی اٹھا کر ان کی چارپائی کے قریب لے آئی۔

"ماں کدھر ہے تمہاری؟''

گلریز خان نے کھانستے ہوئے پوچھا۔

"بابا اماں تو پڑوس میں گئی ہیں پلوشہ کے ساتھ۔۔۔ابھی آ جائیں گی۔"

اس نے ان کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بتایا۔اسکی کھانسی بالکل نہیں رک رہی تھی۔اس نے پاس ہی پڑے پانی کے جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور ان کے منہ سے لگایا۔

"بابا ڈاکٹر کو دکھا دیں۔آپ کی طبیعت روزگاروں کو بگڑتی جا رہی ہے۔اگر ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں گے تو حالت مزید خراب ہوجائے گی۔"

اس سے ان کی یہ حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ پیسے بچانے کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا رہے تھے۔یہ بات اسے تکلیف کی وادیوں میں غرق کر رہی تھی۔آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔حکیمی دوائیاں بھی کچھ خاص بہتر اثر نہیں ڈال رہی تھیں۔گھریلو ٹوٹکے بھی بس کچھ لمحے کا آرام پہنچاتے مگر اب وہ بھی بےاثر ہوئے جا رہے تھے۔

"مجھے ایک کپ چائے لا دو۔۔۔بس۔"

وہ اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔

"جی بابا۔۔۔"

اس نے ایک بار پھر انھیں لٹایا اور اچھی طرح سے لحاف اوڑھا کر باہر آ گئی۔کچن میں آ کر اس نے چائے بنائی۔ساتھ میں اس نے دو انڈے بوائل کر لئے۔کل رات بھی انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ٹرے تیار کر کے وہ کمرے میں ائی۔گلریز خان آنکھیں مُوندے لیٹا تھا۔سانس کی خرخراہٹ واضح سنائی دے رہی تھی۔

"بابا چائے۔۔۔۔۔"

اس نے ٹرے چارپائی کے قریب پڑی چھوٹی سی میز پہ رکھ دی۔اسکی آواز پہ گلریز خان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔وہ بہت نحیف و نزار لگ رہا تھا۔ملغلرہ نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور ٹرے اس کے قریب چارپائی پہ رکھ دی۔چائے کا کپ باپ کے ہاتھ میں دیا اور کچھ سوچ کر اپنے اور پلوشہ کے مشترکہ کمرے میں آئی۔اپنی چادر اٹھائی اور بیگ کی اگلی جیب سے ایک مڑا تڑا سا سرخ نوٹ نکالا اور مُٹھی میں دبائے کمرے سے باہر آ گئی۔ایک لمحہ رُک کر باپ کے کمرے میں جھانک کر دیکھا اور پھر بنا آواز پیدا کیے دروازے کی کُنڈی اتاری۔اپنے پیچھے دروازہ آرام سے بند کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی گھر سے کچھ فرلانگ کے فاصلے پہ موجود کلینک والے راستے پہ آ گئی۔عمومًا یہ کلینک بند ہوتا تھا کیونکہ یہ کلینک جس ڈاکٹر کا تھا وہ زیادہ تر شہر میں ہوتا تھا۔وہ دل ہی دل میں کلینک کے کھلے ہونے کی دعا کرتی رہی۔کچھ فاصلے سے دیکھنے پہ اسے بڑا سا تالا دکھائی نہیں دیا تھا۔مُٹھی دبا کر اس نے پیسوں کی موجودگی محسوس کی اور کلینک کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔باہر کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا جس سے ڈاکٹر کے متعلق پوچھتی۔اندر آنے کے بعد اس پہ گھبراہٹ چھانے لگی تھی۔اندر بھی کوئی موجود نہیں تھا۔لکڑی کا منقش دروازہ بند تھا۔یہ شاید ڈاکٹر کا کمرہ تھا۔

"ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔!!"

اس نے اندر داخل ہونے سے پہلے دستک دینے کے ساتھ ساتھ پکارا بھی تھا۔

"آ جاؤ۔۔۔۔۔۔"

اندر سے اُکھڑی مگر جوان آواز سنائی دی۔اس نے دروازہ کھول کر سر اندر کیا۔وہاں ڈاکٹر کے علاؤہ کوئی اور نہیں تھا۔وہ اندر داخل ہوئی۔سفید اورال پہنے ڈاکٹر ارباز خان اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔وہ تینتیس چونتیس سالہ ایک نوجوان تھا۔چہرے کے ٹیڑھے زاویے اسے دیکھ کر نارمل ہو چکے تھے۔یقینًا وہ اس کے آنے سے پہلے کسی بات کو لے کر بہت غصے میں تھا۔

"السلام وعلیکم۔۔!"

اپنے سامنے موجود اس قدر مہبوت کر دینے والا حسن۔۔۔ڈاکٹر ارباز خان کو اپنی قوتِ گویائی کہیں گم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ملغلرہ بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔وہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی بوڑھا یا درمیانہ عمر کا ڈاکٹر ہو گا مگر  یہاں اپنے سامنے نوجوان ڈاکٹر کو دیکھ کر وہ مزید گھبرا گئی۔

"واعلیکم السلام۔۔۔! جی کہیے۔۔۔"

وہ ٹیبل کے پیچھے سے نکل کر آگے آیا۔چہرے تو بہت دیکھے تھے مگر یہ چہرہ۔۔۔۔اتنا معصوم ، سادہ اور اتنا دلکش تھا۔وہ اندازہ نہیں لگا پا رہا کہ اس کی بھوری آنکھیں زیادہ خوبصورت ہیں یا سرخی مائل لب۔۔۔بےانتہا گوری رنگت اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی یا گلابیاں چھلکاتے گال۔۔۔وہ بہت حسین تھی۔۔اتنا ہوش رُبا حُسن کہ وہ بےدھیانی میں اس کی جانب قدم بڑھائے جا رہا تھا۔

"ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔وہ۔۔میرے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔"

وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔

"ہاں ہاں۔۔۔۔ضرور۔"

وہ اسے سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے اپنا میڈیکل بکس لینے کے لئے پلٹا۔

"لل۔۔لیکن ڈاکٹر صاحب مم۔۔میرے پاس آپکو دینے کے لیے یہی پیسے ہیں۔"

اس نے مٹھی میں دبایا چُرمُرا سا لال نوٹ اس کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا۔ڈاکٹر ارباز خان نے ملائی جیسے گلابی گالوں میں شرمندگی کی لالی شامل ہوتے دیکھا۔خوبصورتی کی آخری حدوں کو چُھوتے چہرے بھی اس چہرے کے سامنے ہیچ محسوس ہو رہے تھے۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔اس ٹائم میں فری علاج کرتا ہوں۔"

اس نے ٹیبل پہ سے سو کا نوٹ اٹھا لیا۔ اس کے چہرے پہ چھائی خباثت ملغلرہ کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔اپنے وجود پہ اس کی کُھبتی ہوئی نظریں اسے زہر لگ رہی تھیں۔اس کا جی تو چاہ رہا کہ وہاں سے چلی جائے مگر باپ کی خاطر وہ اس کے انداز پہ لعنت بھیجتی صندوق نما کمرے سے باہر نکل آئی۔ڈاکٹر ارباز خان بھی اپنا بکس اٹھاتا اس کے پیچھے آیا۔ملغلرہ اسکی رہنمائی کرتی اس کے آگے چل رہی تھی جبکہ وہ اسکے خود سے بھاگنے والے انداز پہ ہنستا اس کے پیچھے تھا۔وہ جس گلی کی جانب مڑی تھی۔اس علاقے کو دیکھ کر وہ چونک گیا۔یہ علاقہ تو اس گاؤں کا ایسا علاقہ تھا جہاں دن سوتے اور راتیں جاگتی تھیں۔جہاں عزت کو پیسے کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔جہاں سے ہر وقت ناچنے گانے کی محفلیں سجتی تھیں۔جہاں کی عورتیں لوگوں کی شادیوں میں ناچ گانا کرتی ہیں۔یہ ایریا نسبتاً پوش ایریا تھا۔وہ جو دیکھ رہا تھا وہ اس کی عقل ماننے کو انکاری تھی۔اس علاقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی۔۔۔۔۔اس قدر حسین لڑکی۔۔۔جس کے پاس باپ کا علاج کرانے کے لیے صرف سو روپے تھے۔وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ دائیں طرف مڑ گئی۔یہ گلی تقریباً سنسان تھی۔گلی کے اختتام پہ ایک میدان سا تھا جہاں کچھ بچے کھیل رہے تھے۔کچھ آگے چل کر وہ ایک الگ تھلگ بنے گھر کے دروازے کے رک گئی۔یہ علاقہ اس پوش ایریا سے بالکل مختلف تھا جسے وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ملغلرہ نے پلٹ کر دیکھا۔وہ اسکے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔میدان میں کھیلنے والے بچے کھیل روک کر اب ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔اس نے دروازہ کھول کر ڈاکٹر ارباز خان کو اندر آنے کا راستہ دیا۔ڈاکٹر ارباز خان جب اندر داخل ہوا تو اس کا دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔وہ افسوس کر رہا تھا کہ اپنے ساتھ کچھ رقم لے آتا۔لڑکی اس کے سامنے پہلے ہی اپنی غربت کا رونا رو چکی تھی۔باپ کی بیماری تو بہانا تھی دراصل تو وہ اسے اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر یہاں لائی تھی۔

"آئیے ڈاکٹر صاحب۔۔۔اس طرف۔۔"

وہ پورے گھر کو تنقیدی نظروں سے دیکھ رہا تھا جب اس نے باپ کے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔

"آہاں۔۔۔۔!! ڈائریکٹ خوابگاہ۔۔۔۔بڑی تیز لڑکی ہے۔"

وہ منہ ہی منہ بڑبڑایا۔گھر کے در و دیوار سے ٹپکتی غربت بھی ڈاکٹر ارباز خان کے دماغ پہ چھائی غلاضت کو صاف نہ کر سکی۔۔صاف کرتی بھی تو کیسے علاقے کی شہرت اور چکاچوند میں اسے ایک ہی لفظ یاد رہ گیا تھا اور وہ لفظ تھا "طوائف۔۔۔۔۔۔"

وہ اسکے پراگندہ ذہہن سے لاعلم کمرے میں داخل ہو گئی۔ڈاکٹر ارباز خان اپنے دل کی دھڑکنیں گنتا اندر داخل ہوا۔چھوٹا سا کمرہ۔۔۔جس میں ترتیب سے دو چارپائیاں لگائی گئیں تھیں۔ایک چارپائی پہ لحاف سر تک تانے کوئی لیٹا ہوا تھا۔ساتھ ہی پڑی چھوٹی سی ٹیبل اور ایک کرسی۔۔جو گھر کی ہی طرح خستہ حال تھی۔

"یہ میرے والد ہیں۔پچھلے ایک ہفتے سے ان کی یہ حالت ہے۔حکیمی علاج بھی کروایا اور گھریلو ٹوٹکے بھی آزمائے مگر طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔"

وہ ڈاکٹر ارباز خان کو دائیں بائیں سر ہلاتے دیکھ کر بولی۔گلریز خان بھی جاگ رہا تھا۔بیٹی کی آواز پہ اس نے لحاف سے سر باہر نکالا۔ڈاکٹر ارباز خان کو دیکھ کر گلریز خان نے اٹھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر ارباز خان سر جھٹک کر اس کی مدد کرنے کو آگے بڑھا۔وہ گلریز خان کو پہچان گیا تھا۔گلریز بھی ان سے واقف تھا۔اس نے کرسی چارپائی کے مزید قریب گھسیٹی اور گلریز خان کو چیک کرنے لگا۔چیک اپ کے دوران وہ وہیں موجود رہی۔

"کوئی دوا لی۔۔۔"

اس نے ہر بات سے واقفیت رکھنے کے باوجود گلریز خان سے پوچھا۔

"بس ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔حکیمی دواؤں پہ گزارا ہے۔میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں۔چاہتا یوں کہ جلد بہتر ہو جاؤں مگر حالات بہتر علاج کی اجازت نہیں دے رہے۔"

وہ کھانستے ہوئے بولا۔

"آپ اسے گزارا کہتے ہیں۔"

ڈاکٹر ارباز خان نے اس کی منہ میں تھرمامیٹر دیا۔

"بخار تو کافی ہے۔۔۔میں یہ کچھ دوائیں لکھ دیتا ہوں۔آپ منگوا لیں۔"

اس نے کاغذ پہ اپنا قلم گھسیٹا اور دواؤں کی پرچی ملغلرہ کی طرف بڑھائی مگر پرچی کو دیکھ کر باپ کے سرہانے کھڑی ملغلرہ کے تاریک پڑتے چہرے کو دیکھ کر خاموشی سے ہاتھ واپس پیچھے کھینچ لیا۔اس نے اپنا بکس کھول کر پرچی کو اس میں پھینکا۔اس کے بعد اس نے گلریز کو انجکشن لگایا اور سیرپ کی دو شیشیاں اور ٹیبلٹس کا ایک پلتا ملغلرہ کی طرف بڑھایا۔اس نے شکریہ ادا کرتی نظروں سے دیکھا اور دوائیں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔اس کے بعد اسے دواؤں سے متعلق کچھ ضروری ہدایات دیے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ۔"

گلریز نے مصافحہ کے لئے ہاتھ ڈاکٹر ارباز خان کی طرف بڑھایا۔جسے اس نے نا چاہتے ہوئے بھی تھام لیا۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔میں کل پھر چکر لگاؤں گا۔"

اس نے ایک ملائم سی نظر ملغلرہ پہ ڈالی اور باہر نکل گیا۔

"جاو بیٹا ڈاکٹر صاحب کو دروازے تک چھوڑ آؤ۔"

گلریز خان نے اسے اشارہ کیا۔ڈاکٹر ارباز خان تک گلریز خان کی آواز باآسانی پہنچ گئی تھی۔وہ وہیں صحن میں رک کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔وہ باہر آئی تو وہ جوتے کی نوک زمین پہ مار رہا تھا۔اسے آتے دیکھ کر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔ملغلرہ سنجیدگی سے دروازے کی طرف بڑھی۔

"یہ آپ رکھ لیں۔"

وہ دروازہ کھول کر مڑی ہی تھی کہ وہ ہاتھ میں وہی نوٹ پکڑے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جو اس نے کلینک میں اسے دیا تھا۔اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔

"میں یہ واپس نہیں لے سکتی۔۔۔آپ رکھ لیں۔"

نظریں زمین پہ جمائے وہ بولی تھی۔معصوم چہرہ،جھکی آنکھیں۔۔۔۔ڈاکٹر ارباز خان اپنے دل کی سنتے ہوئے اس کی معصومیت پہ ایمان لے آیا۔اس نے ایک بھرپور الوداعی نظر اس پہ ڈالتے ہوئے پیسے پینٹ کی جیب میں اڑسے اور دہلیز پار کر گیا مگر جاتے وقت وہ یہ کہنا نہیں بھولا تھا کہ وہ کل پھر آئے گا اسکے بابا کو دیکھنے اور وہ گیس کی پرواہ مت کرے۔ڈاکٹر ارباز خان کے جانے کے بعد اس نے دروازہ بند کیا اور باپ کے پاس کمرے میں آ گئی۔گلریز خان آنکھیں موندے لیٹا تھا۔لحاف ایک بار پھر سر تک تان لیا تھا۔اب سانس کی خرخراہٹ کم لگ رہی تھی۔وہ کچن میں چلی آئی۔

                   __________________________________________________________

"کون آیا تھا؟"

پلوشہ اس سے پوچھنے کچن میں آئی تھی۔

"کون۔۔۔؟"

اس نے غائب دماغی میں سوال پہ سوال کیا۔

"میں تم سے پوچھ رہی ہوں اور الٹا تم مجھے سے جواب مانگنے لگی۔مجھے کیا پتہ۔۔۔۔بابا اماں کو بتا رہے تھے ابھی کہ بڑا اچھا لڑکا تھا۔۔۔کون تھا وہ "اچھا بندہ"۔۔؟"

پلوشہ اسکی غائب دماغی محسوس کر کے اسے گھورتے ہوئے بولی۔

"ارے ہاں۔۔۔وہ ڈاکٹر صاحب۔۔وہ قریب ہی جن کا کلینک ہے۔"

اس نے پانی کا چھینٹا جلتی لکڑیوں پر پھینکا اور دیگچی چولھے سے اتاری۔

"وہ کلینک تو بند رہتا تھا۔۔۔اور وہ خود کیسے آ گیا؟"

پلوشہ نے کڑوے دُھویں کے باعث جلتی آنکھوں کو ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے پوچھا۔

"میں بلا کر لائی تھی۔بابا کی حالت بہت خراب تھی۔وہ بخار میں پھنک رہے تھے اور اوپر سے کھانسی۔۔مجھ سے انکی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔اس لیے میں نے سوچا کہ تھوڑی منت سماجت کر کے لے آؤں گی ان کو گھر۔۔۔میرے پاس انعام کی رقم میں بچے ہوئے سو روپے پڑے تھے۔وہ میں نے ان کو دے دیئے۔مگر وہ بہت اچھے تھے۔میرے ساتھ آ کر بابا کو دیکھ بھی گئے۔۔۔دوائیاں بھی دی اور پیسے بھی نہیں لے رہے تھے۔میں نے زبردستی دیئے اور کل پھر آنے کا وعدہ بھی کر کے گئے ہیں۔بہت اچھے انسان ہیں۔۔۔علاقے کے لوگ تو یونہی ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں کہ اکھڑ طبیعت کا ہے۔۔بدتمیز ہے اور نہ جانے کیا کیا۔۔مجھے تو وہ کہیں سے بھی اکھڑ نہیں لگا۔"

اس نے ترکاری پلیٹ میں نکال کر پلیٹ ٹرے میں رکھی۔شوربے میں تیرتے تین آلوؤں کو دیکھ کر پلوشہ ٹیڑھے میڑھے منہ بنانے لگی تھی۔

"بس یہی بچا تھا گھر میں جو میں نے بنا لیا۔"

اس نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر چولھے کے سائیڈ سے دھنیے اور پودینے کی چٹنی کی پلیٹ نکال کر اس کے سامنے کر دی تھی۔جسے دیکھ کر پلوشہ کا چہرہ کھل اٹھا۔یہ ان کی واحد عیاشی تھی۔اس نے پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے لی اور چنگیر اٹھا کر کچن سے نکل گئی۔وہ بھی اس کے پیچھے کچن سے نکلی تھی۔کمرے میں آ کر اس نے ٹرے چارپائی پہ اماں اور بابا کے درمیان میں رکھ دی۔۔پلوشہ بھی راحت بانو کے ساتھ بیٹھ گئی۔

"شکیب نہیں آیا۔۔اسے بھی بلا لیتی۔"

راحت بانو نے شکیب کی غیر موجودگی پہ ملغلرہ کی طرف دیکھا۔

"اسے میں نے کھلا دیا تھا کھانا۔۔۔کھانا کھاتے ہی پھر کھیلنے چلا گیا۔"

اس کے بتانے پہ کہ شکیب کھانا کھا چکا ہے وہ بھی سر ہلا کر کھانا کھانے لگیں۔کھانا کھانے کے بعد پلوشہ اور وہ اپنے کمرے میں آ گئیں جبکہ راحت بانو گلریز کو اپنے کام کے متعلق بتانے لگیں۔جب سے گلریز خان چارپائی پہ پڑا تھا گھر میں ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے تھے۔اس لئے راحت بانو نے سوچا کہ وہ کسی کے گھر کام کر لیں تاکہ زندگی کچھ تو سہل ہو۔گلریز تو اس پہ راضی نہیں تھا مگر دونوں بیٹیوں اور راحت بانو کے سمجھانے پہ بمشکل راضی ہوا تھا وہ بھی تب تک جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتا۔جب وہ تندرست ہو جائے گا تو راحت بانو بھی کام چھوڑ دیں گی۔وہ بھی مان گئیں تھیں کہ وہ جیسے کام کرنے کے قابل ہو جائے گا وہ گھر سے نہیں نکلیں گی۔

                       ____________________________________________________________

گلریز خان کی حالت پہلے سے کافی بہتر تھی۔ڈاکٹر ارباز خان بھی ایک مرتبہ اور گھر آ کر گلریز خان کو دیکھ گئے تھے۔اس کی دی ہوئی میڈیسن سے اب کھانسی میں بھی کافی بہتری آئی تھی۔کل شام کو تو وہ کلینک جا کر چیک اپ کروا آیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسکی کا شکریہ بھی ادا کر آیا تھا۔ڈاکٹر ارباز خان نے بھی اسے اعتماد میں لے کر یقین دلایا تھا کہ اسے جب بھی اسکی ضرورت پڑے وہ بلاجھجک اس کے پاس آ سکتا ہے۔جب سے وہ ڈاکٹر ارباز خان سے مل کر آیا تھا۔دن رات اسی کی تعریف کرتا رہتا۔راحت بانو بھی اس سے مل چکی تھیں اس لئے وہ بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان رہتی تھیں۔

گلریز خان کے لحاظ سے اب ملغلرہ کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ویسے بھی گاؤں میں قریب لڑکیوں کا کوئی کالج نہیں تھا اس لئے وہ آگے پڑھ نہیں سکتی تھی۔گلریز کو لگتا تھا کہ اب ملغلرہ کو پڑھائی کے بجائے موسیقی کی تعلیم دی جائے تا کہ برادری میں اس کی بھی تھوڑی بہت عزت ہو اور اس کے بھی دن پھر جائیں۔یہی سوچ کر اس نے اپنے استاد کرامت علی سے ملنے کا ارادہ کیا تاکہ ملغلرہ کے متعلق ان سے بات کر سکے۔وہ ان کی برادری اور علاقے کے اعلیٰ پائے کے موسیقار اور شاعر تھے۔ان کی شہرت دور دور تک تھی۔موسیقی سے شغف رکھنے والے انہی کے پاس اپنے بچوں کو موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے لئے بھیجتے تھے۔شہر سے تعلق رکھنے والے بہت سے گلوکار اور موسیقار ان سے ملنے کے لئے آتے تھے۔پوری برادری میں ان کی بہت عزت اور احترام کیا جاتا تھا۔اپنے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ آج صبح ناشتے سے فارغ ہو کر ان سے ملنے آ گیا تھا۔

وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بچھے تخت پہ بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا جب ایک پچاس سالہ سفید بالوں والا آدمی دروازے سے اندر داخل ہوا۔یہ استاد کرامت علی تھے۔صحت قابل رشک اور چہرے کی رنگت سرخی مائل تھی۔گلریز خان انھیں آتے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔وہ گلریز کو دیکھ کر مسکرا دئیے۔

"ہاں گلریز خان۔۔۔۔خیر سے آئے ہو؟"

وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی وہیں تخت پہ بیٹھ گئے۔وہ کافی عرصے بعد ان سے ملنے آیا تھا اس لئے آج اسکا ان سے ملنے آنا ان کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔

"استاد صاحب۔۔۔۔میں آپکی خدمت میں حاضر ہوا تھا کہ میری بیٹی کو اللہ نے بڑی میٹھی آواز سے نوازہ ہے۔میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنے سائے تلے اس علم سے روشناس ہو جائے۔آپ اسے بھی اپنی شاگردگی میں لے لیں۔اسے موسیقی کی تعلیم دیں۔"

وہ بڑے ادب سے گویا ہوا۔

"اچھا اچھا۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔اسے ضرور بھیجو۔"

وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

"استاد صاحب۔۔۔وہ۔۔۔۔۔مم۔۔میں۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گیا۔

"ہاں ہاں کہو گلریز۔۔۔۔کیا کہنا چاہتے ہو۔۔؟؟ جو کہنا ہے کھل کر کہو۔۔گھبراؤ مت۔"

استاد کرامت علی نے اسکی جھجک محسوس کرتے ہوئے اسکا حوصلہ بڑھایا۔

"استاد صاحب۔۔۔۔میں اس وقت بالکل خالی ہاتھ ہوں۔آپکو دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں۔لیکن میں جلد ہی کچھ نہ کچھ آپ کو دے دوں گا۔"

وہ سر جھکائے ہوئے بولا۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔۔میں تمھارے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں گلریز خان۔تم بےفکر رہو اور کل سے بچی کو بھیج دینا۔بس ناغہ مت کروانا۔"

انہوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"بہت شکریہ استاد صاحب۔۔۔میں آپکا بہت احسان مند رہوں گا۔"

اس نے ان کے ہاتھ کی پشت پہ بوسہ دیا۔

"گلریز خان۔۔۔۔۔۔۔اپنے حالات کے زمہ دار تم خود ہو ورنہ اس علاقے میں تم اچھا طبلہ کوئی نہیں بجاتا۔اپنے راستے خود بناؤ۔۔۔اپنے فن کی عزت کرو تمھارا فن تمھیں عزت دے گا۔"

وہ اسکی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولے۔ان بات نے اس کے سامنے اسکی پوری زندگی کو لاکھڑا کیا تھا۔وہ سر ہلاتا ان سے بغلگیر ہوا اور وہاں سے چلا آیا۔

وہ بہت خوش تھا ان سے مل کر۔۔۔۔جانتا تھا کہ وہ اسے انکار نہیں کریں گے۔گھر آ کر اس نے اس بارے میں راحت بانو اور ملغلرہ کو بتایا کہ استاد کرامت علی ملغلرہ کو اپنی شاگردگی میں لینے کو تیار ہیں۔یہ بتاتے ہوئے خوشی اس کے چہرے سے پُھوٹی پڑ رہی تھی۔

"وہ چاہتے ہیں کہ تم کل سے ان کے پاس آؤ۔۔۔میں بھی تمھارے ساتھ جاؤں گا۔"

اس نے بیٹی کے ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب بٹھایا۔وہ اپنے باپ کی آنکھوں کے خوش آئیند خواب دیکھ رہی تھی۔اس کے یہ خواب گانٹھ مار کر بیٹھنے لگے تھے۔وہ ان خوابوں کی تعبیر بن کر ابھرے گی۔

یہ اسکا خواب بن گیا تھا۔

یہ خواب اب ستارہ بن کر اسکی پیشانی پہ چمکنے والا تھا۔

             _____________________________________________________________

ملغلرہ خوشی خوشی اپنے فن کو مزید أبھارنے کے لئے جانے لگی تھی۔گلریز بھی اسکے ساتھ جایا کرتا تھا۔وہ اسے اکیلے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ایک تو وہ پرانے واقعات نہیں دہرانا چاہتا تھا اور  دوسرا وہ خود بھی سیکھنا چاہتا تھا۔وہ اسکے ساتھ جاتا اور جب تک وہ وہاں رہتی أس کے ساتھ رہتا اور أسے گاتے ہوئے دیکھ اور سن کر خوش ہوتا۔اسے امید تھی کہ جب ملغلرہ سُروں کی دولت سے مالا مال ہو جاۓ گی تو أس کے دن پھر جائیں گے اور اپنی برادری میں اس کی بھی اسی طرح کی عزت و قدر ہوگی جیسے باقی سب کی ہے۔ گلریز خان نے ملغلرہ کے لیے بڑے بڑے خواب سجا رکھے تھے اور وہ ایک لمحے کو بھی ان خوابوں سے دستبردار ہونا نہیں چاہتا تھا۔وہ دونوں صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلتے اور پھر شام کو لوٹتے تھے۔راحت بانو بھی اب گھر میں ہی ہوتی تھیں۔پلوشہ ماں کا ہاتھ بٹاتی اور ملغلرہ کا انتظار کرتی تھی کہ وہ کب آئے اور اسے سارے دن کی روداد سنائے۔حالانکہ جب وہ گھر آتی تو گا گا کر اسکا دماغ خراب کرتی رہتی۔اسکیںآواز میں دن بدن لوچ و مٹھاس آتی جا رہی تھی۔شوق ہونے کی وجہ سے وہ تیزی سے سیکھنے کے تمام مراحل طے کرتی جا رہی تھی۔استاد کرامت علی بھی حیران تھے کہ اتنی سی عمر میں بھی وہ کتنی تیزی سے یہ گُر سیکھ رہی ہے۔وہ اسے کہتے کہ اگر وہ اسی طرح محنت کرتی رہی تو وہ ایک دن ایک نامور گلوکارہ ضرور بنے گی۔ابھی اسے استاد کرامت علی کے پاس جاتے ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی دوران گلریز کو ان کے علاقے سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پہ موجود ایک گاؤں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے بلایا گیا۔اس بار وہ اکیلے جانا نہیں چاہتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ ملغلرہ بھی اس کے ساتھ جائے۔اس سلسلے میں اس نے استاد کرامت علی سے بھی بات کی تھی کہ وہ ان دو تین دنوں میں ملغلرہ کو تیاری کروائیں۔

گلریز نے بھی ملغلرہ کو سمجھایا کہ اچھی طرح سے تیاری کرے۔یہ اس کے لئے ایسا موقع تھا کہ جس کے بعد اسے لوگ پہچاننے لگیں گے۔گلریز اس موقع سے فائدہ اٹھانا تھا اور اسے یقین تھا کہ ملغلرہ بہت اچھا پرفارم کرے گی۔

اور پھر وہی ہوا جسکا اسے یقین تھا۔حسن اور آواز نے مل کر پوری محفل کو ملغلرہ کا گرویدہ کر دیا۔ایک کے بعد ایک گانے نے اس کے اعتماد کو مزید بحال کیا۔باپ کے فن اور بیٹی کی آواز نے محفل میں وہ دھاک بڑھائی کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔اس محفل کی روداد برادری تک بھی پہنچ گئی۔ہر طرف ملغلرہ کی خوبصورتی اور میٹھی آواز کے چرچے ہونے لگے۔حالات نے یوں پلٹا کھایا تھا کہ وہ خود حیران تھی۔جہاں جاتی لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے۔وہ لڑکیاں جو اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھیں اب اس سے ملتیں تو رشک سے اس کی جانب دیکھتی تھیں۔

گلریز بھی جہاں جاتا لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے۔جیسا اس نے سوچا تھا ویسا ہی ہو رہا تھا۔اب ہر کسی کی زبان پہ صرف اور صرف ملغلرہ کا نام ہوتا۔۔لوگ اسی کو سننا چاہتے تھے۔وہ بہت خوش تھا۔گھر کے حالات بدلنے لگے تھے۔خوشحالی نے جیسے ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا۔گاوں میں جہاں کہیں بھی شادی بیاہ یا کوئی محفل موسیقی ہوتی سب سے پہلے ملغلرہ اور گلریز خان کا نام لوگوں کی زبان پہ آتا۔وہ برادری کی ساتھی گلوکاراؤں کو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اس لئے برادری کے لوگوں میں ان دونوں باپ بیٹی کے لیے حسد اور نفرت پنپنے لگی تھی۔جب سے وہ لوگوں کی نظروں میں آئی تھی اب صرف وہی لوگوں کو دکھتی تھی۔اس کی شہرت کو دیکھتے گلریز نے تو اب گھر میں بھی ایسی محفلوں کو منعقد کرنا شروع کر دیا تھا۔گھر میں بھانت بھانت کے مردوں کا آنا جانا لگا رہنے لگا۔رقص کی فرمائیشں آنے لگیں مگر اس نے رقص کرنے سے منع کر دیا۔گلریز نے اسے رقص کرنے کے لئے بہت منایا مگر وہ گلوکارہ ہی رہنا چاہتی تھی۔رقاصہ بننا اسے پسند نہیں تھا۔وہ جانتی تھی کہ اپنے باپ کی خاطر اس نے جلتا کوئلہ ہتھیلی پہ رکھ لیا ہے مگر وہ اس کوئلے کو منہ میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔گھر میں گھر سے باہر رات بھر موسیقی کی محفلیں سجتی۔شہرت گھر کی باندی بن گئی اور پیسہ ہاتھوں کا میل بننے لگا تھا۔خوراک کی فراوانی ہو گئی۔اب کوئی غم نہیں تھا۔سب خوش تھے۔صرف ایک وہ تھی جس کے چہرے پہ میک اپ کی دبیز تہہ جمنے لگی تھی۔رات میں چکاچوند اور دن کا خالی پن اس میں آن بسا تھا۔وہ وہ نہیں تھی جو دکھائی دیتی تھی۔سب بدل گیا تھا مگر کلائی پہ وہ لمس اب بھی اسے محسوس ہوتا تھا۔اس کے الفاظ آج بھی اس کے کانوں میں گونج کی صورت موجود تھے۔اس کی نگاہوں کی ہلچل آج کی اس کی بند آنکھوں میں سما جاتی۔لوگوں کی بھیڑ اسے خود سے بھی دور لے جاتی مگر جب اکیلی ہوتی تو وہ اپنے بھرپور سراپے سمیت نگاہوں میں رچ جاتا۔۔۔۔بس جاتا۔۔۔مگر کچھ نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ اس کی یادوں کو دل کے بند کواڑوں کے پیچھے لے جائے اور یہ کواڑ پھر کبھی نہ کھلیں۔

پرانے رستوں پہ چلتے ہوئے وہ کئی کئی بار مڑ کر دیکھتی کہ کہیں سے وہ پہاڑوں جیسا شخص دکھائی دے جائے مگر وہ ہوتا تو دکھائی دیتا نا۔وقت گزرتا جا رہا تھا۔ایک بار ڈھلان کے قریب سے گزرتے ہوئے گلریز خان نے اسے بتایا تھا کہ وہ لڑکا جو ان کے لئے مصیبت بند گیا تھا وہ اب یہاں سے چلا گیا ہے۔باپ کو مزید کریدنے پہ اسے پتہ چلا کہ اس کے دادا ملک شمشیرخان کو اس کی حرکتوں کا پتہ چل گیا تھا اس لئے انھوں نے اس سے ناراض ہو کر اسے بیرون ملک بھیج دیا ہے۔اسے ان کے آخری الفاظ اچھی طرح یاد تھے۔اپنی بات کے آخر میں بابا نے کہا تھا کہ اچھا ہی ہوا وہ یہاں سے چلا گیا۔

مگر بابا یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے الفاظ اسے کسی برچھی کی طرح اپنے جسم و جاں میں پیوست ہوتے محسوس ہوئے تھے پھر اس کے بعد انھوں نے دوبارہ اسکا ذکر نہیں کیا تھا۔

وقت گزرتا گیا۔وہ دل میں گزرے لمحوں کو دفن کیے اپنے دل کی دھڑکن کو روک کر چلنے میں ماہر ہوتی گئی۔۔آگے بڑھتی گئی اور سب کچھ پیچھے چھوڑتی چلی گئی۔اس نے خود کو مصروف کر لیا۔۔دل پہ پتھر رکھ لیا کیونکہ اس نے اپنی فیملی کو مفلسی کے دور سے دور کرنا تھا۔ان کا خیال رکھنا تھا۔

بس اسے یہی کرنا تھا اور وہ یہی کر رہی تھی۔

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔وہ اس وقت آفس جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔آئینے کے سامنے کھڑا وہ خود پہ ایک آخری نظر ڈالتا سائیڈ ٹیبل کی طرف آیا تھا۔موبائل اسکرین پہ جگمگاتا نمبر دیکھ کر اس نے فورا فون اٹھا لیا۔

"ہیلو۔۔۔!! یار کہاں ہو تم میں کل سے کئی بار تمھیں کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر تم ہو کہ۔۔۔۔"

خاور اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر بولا۔

"میں آ رہا ہوں واپس۔۔۔خان بابا نے کال کر کے مجھے واپس بلایا ہے۔۔میں کب سے انتظار میں تھا کہ وہ مجھے واپس آنے کا کہیں اور میں اڑ کر تم لوگوں کے پاس پہنچ جاؤں۔۔بس جیسے ہی انھوں نے کہا۔۔مجھ سے صبر ہی نہیں ہوا اور آنے کی تیاری میں لگ گیا۔بہت مشکل سے کل کی فلائٹ ملی ہے۔۔میں کل آ رہا ہوں پھر ساری باتیں کریں گے۔"

وہ شرٹ کو ہینگر سے نکال کر گول مول کر کے سوٹ کیس میں تقریبا پٹختے ہوئے بولا۔اس کی بولنے کی سپیڈ خاور سے بھی زیادہ تھی۔

"کیا کیا۔۔۔۔سچ کہہ رہے ہو تم۔۔خان بابا نے خود کال کی تمھیں۔۔ہم تو کہہ کہہ کر تھک گئے تھے مگر ہماری ایک نہیں مانی خان بابا نے اور اب اپنے جی میں آئی تو کسی کو بتایا بھی نہیں۔۔۔حیرانی اس بات پہ ہو رہی ہے کہ یہ پتھر کیسے موم ہو گیا۔"

خاور خوشی سے اچھل پڑا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔اس نے کئی بار خان بابا سے اسکی واپسی کے متعلق بات کرنی چاہی تھی مگر ان کے پتھریلے تاثرات اس سے قوت گویائی چھین لیتے تھے۔

"ہاں یار میں بھی حیران ہوں اس کایا پلٹ پہ۔"

وہ فون کان سے لگائے لگائے الماری کی جانب بڑھا اور ایک ہی وار میں تین چار شرٹس کو نشانہ بنایا۔

"خان بابا نے ہمیں بھی نہیں بتایا کہ تم آ رہے ہو۔۔شاید وہ ہمیں سرپرائز دینا چاہتے ہیں۔۔۔خان بابا بھی نا۔"

خاور ہنسنے لگا۔

"شروع شروع میں تو مجھے یہ ذعم تھا کہ کچھ ہی دنوں میں وہ مجھے واپس بلوا لیں گے۔۔مگر خیر دیر آید درست آید۔۔چلو میں پیکنک کر لوں پھر ائیرپورٹ جانے سے پہلے تمھیں بتا دوں گا۔اگلے تین دنوں میں دونوں جگر آمنے سامنے ہوں گے۔"

غزنوق نے ہاتھ میں پکڑی شرٹس کا حال بھی پہلی شرٹس جیسا ہی کیا اور ساتھ ہی اسے خدا حافظ کیا۔اس نے فون جیکٹ کی پاکٹ میں رکھا اور الماری میں سے باقی سامان نکالنے لگا۔وہ واقعی اس تبدیلی پہ بہت حیران تھا۔کتنی ہی بار اس نے خان بابا کو کالز کیں مگر ابتداء میں تو وہ اسکی کال ہی پک نہیں کرتے تھے۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر شدید ردعمل کا اظہار کریں گے۔یقینا وہ اس سے اسطرح کی حرکت کی امید نہیں رکھتے تھے۔وہ معافیاں مانگ مانگ کر تھک گیا تھا مگر ان کی نرمی نجانے کہاں چھپی بیٹھی تھی۔ پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد انھوں نے اسے معاف تو کر دیا تھا مگر وہ ایک بار ٹھان چکے تھے کہ وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہی آئے گا اور وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی ہلنے کو تیار نہیں تھے۔وہ اسے یہی کہتے کہ اپنی پڑھائی مکمل کر کے ہی آئے کیونکہ وہ اسے ہر میدان میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔لہذا اس نے کہنا ہی چھوڑ دیا اور دل میں ایک موہوم سی کسک لئے اپنی پڑھائی میں مگن ہو گیا کیونکہ یہی خان بابا کے دل میں اپنا پرانا مقام پانے کا ایک واحد ذریعہ تھا۔یہ موقع اب وہ گنوانا نہیں چاہتا تھا۔اب چونکہ اتنے عرصے بعد انھوں نے اسے واپس آنے کے لیے کہا ہے تو وہ چاہتا تھا کہ کہیں سے اسے پَر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر پاکستان پہنچ جائے۔سب اسے یاد آ رہے تھے۔

اور وہ سجیلی سی لڑکی۔۔۔۔جسے ایک نظر دیکھنے کے لئے وہ اپنا مان، اپنا اعتبار سب کھو بیٹھا تھا مگر پھر بھی وہ اسے اپنے دل و دماغ سے نکال نہیں پایا تھا۔ملغلرہ کی خاموش یادیں اسکے گرد حصار کیے رکھتی تھیں۔اپنی بےخودی اور اپنی حرکتوں کو یاد کر کے اب اسے ہنسی آتی تھی۔کتنا تنگ کیا تھا اس نے ملغلرہ کو۔۔۔۔اسکی گھبراہٹ سے لطف اٹھا کر اسے سکون ملتا تھا اور دل میں ایک انجانا سا احساس کروٹ لینے لگتا تھا۔ نرم و نازک انگلیوں کی کپکپاہٹ اسکے دل کی دھڑکن بڑھا دیتی تھی۔کسطرح ایک نازک سے وجود نے اسے پچھاڑ دیا تھا۔وہ جو کبھی اپنے قریب کسی کو پھٹکنے تک نہیں دیتا تھا اب کیسے ایک لڑکی کو اپنے دل بسائے پھرتا ہے۔اب وہ اپنی سرزمین پہ پہنچتے ہی سب سے پہلے وہ اس پَری وش کو دیکھنا چاہتا تھا جس نے اسے ایک پل کو  چین لینے نہیں دیا تھا۔

"میں آ رہا ہوں۔۔۔۔اب تمھیں خود سے الگ رہنے نہیں دوں گا۔"

وہ ملغلرہ کے تصور سے مخاطب تھا۔

             ___________________________________________________________________

تین دن سے وہ ریکارڈنگ کے سلسلے میں وہ گلریز خان کے ساتھ شہر آئی ہوئی تھی۔یہاں کے ایک پوش علاقے میں گھر کرائے پہ لے کر رہائش کا بندوست بھی کر لیا تھا گلریز خان نے۔۔۔اس لئے ریکارڈنگ کے دنوں میں وہ شہر میں ہی رہتی تھی۔گلریز خان تو یہاں گھر خریدنا چاہتا تھا لیکن اس نے انھیں یہ کہہ کر روک دیا کہ اسکا یہاں مستقل رہنے کا کوئی ارادہ نہیں۔اس سے پہلے وہ یہاں ایک بار اماں اور پلوشہ کو بھی لا چکی تھی۔وہ بھی اس کے یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے پہ راضی نہیں تھیں مگر وہ دونوں اسے اسطرح شہرت پاتے دیکھ کر بہت خوش تھیں۔ بیٹی کی شہرت دیکھ کر تو گلریز خان کے بھی پاؤں زمین پہ نہیں ٹِک رہے تھے۔وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہا تھا۔اس کی حالت اس شخص جیسی تھی جو اور اور کی تلاش میں اپنے دلدل میں دھنستے پیروں کو بھول بیٹھا تھا۔لال ہرے نوٹوں کو دیکھنے کی خوشی میں اپنی بیٹی کے چہرے سے جاتی چمک اس کی نگاہوں سے اوجھل تھی۔بدلتے حالات کے ساتھ اسکا مزاج بھی بدلنے لگا تھا۔اب اس نے طبلہ بجانا چھوڑ دیا تھا۔اب کمائی کا ذریعہ صرف ملغلرہ ہی تھی۔وہ بس اس کے ساتھ جاتا اور اسی کے ساتھ واپس آ جاتا۔مختلف شوز میں اس کی پرفارمنس کی لوگ تعریف کرتے تو وہ چھاتی چوڑی کیے۔۔گردن تانے ہنستا رہتا۔اب تو بہت سے نامور گلوکاروں کے ساتھ ان راہ و مراسم بڑھنے لگے تھے۔

آج شام بھی وہ شہر سے واپسی کا قصد لئے بیٹھی تھی مگر گلریز خان ابھی واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔شہر کی چکاچوند اور آزادی اسے دلفریب لگنے لگی تھی۔اب چونکہ کام ختم ہو چکا تھا اس لیے ملغلرہ واپس جانا چاہتی تھی۔

"بابا۔۔آپ نے گاڑی سروس کروا لی ہے۔گاؤں سے آتے وقت بھی کچھ مسئلہ کر رہی تھی۔"

وہ سفید چادر جس پہ بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے اپنے گرد لپیٹے ان سے پوچھ رہی تھی۔

"ارے آج جانا ضروری ہے کیا۔۔کل چلے جائیں گے نجانے کون سا سانپ ہے جو کام ختم ہوتے ہی تمھیں ڈسنا شروع ہو جاتا ہے۔سردار شہیر خان کے بھائی کی شادی میں جائیں گے۔تمھیں پتہ ہے کہ وہ منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہیں۔تم یونہی ضد پہ آ گئی ہو۔"

اس کا بس چلتا تو ملغلرہ کو اٹھا کر لے جاتا۔

"بابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔آپ کو پتہ ہے کہ وہ کس قماش کے لوگ ہیں۔مجھے نہیں جانا وہاں۔۔۔آپ گاڑی نکالیں ہم ابھی گاؤں جائیں گے۔"

"مگر میں نے۔۔۔۔۔۔"

گلریز نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ انھیں موقع دئیے بغیر جھپاک سے کمرے سے نکل گئی اور گلریز ہاتھ سے اتنی بڑی رقم جانے پہ افسوس سے ہاتھ ملنے لگا۔

        __________________________________________________________________________

وہ کمرے میں داخل ہوئی اور زوردار آواز سے دروازہ بند کیا۔اس عرصے میں اپنے پیشے کو سیکھنے کے عمل کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو بھی جان گئی تھی۔سردار شہیر خان کوئی عام آدمی نہیں تھی۔ایک دو مرتبہ ہی ملنے کا اتفاق ہوا تھا اسے اور وہ اس کے کردار کو جان گئی تھی۔اپنے پیسے کا زعم لئے وہ ہر ایک کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتا تھا۔اکڑ اس قدر تھی کہ کسی سے سیدھے منہ بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا۔اسے حیرانی اس بات کی تھی کہ سب جانتے بوجھتے اس کے باپ نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور چند پیسوں کے لئے وہ اسے ان لوگوں میں بھیجنا چاہ رہا ہے۔گلریز خان کی آنکھوں پہ تو سرخ نوٹوں کی پٹی بندھ گئی تھی کہ اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا باپ اس سے ضد نہیں کر سکتا اور نا ہی اسے زبردستی وہاں لے جا سکتا ہے۔

سردار شہیر خان بھی اسے کئی بار کال کر چکا تھا مگر اس نے فون ریسیو نہیں کیا تھا اس کے باوجود کہ وہ کس نیچر کا بندہ ہے۔ایک دم اڑیل اور بدلحاظ۔۔۔ضد پہ آ جائے تو اچھے اچھوں کے چھکے چھڑانے کی طاقت رکھتا تھا۔

"بھاڑ میں جائیں سب۔۔۔۔جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔"

وہ سب کو بھاڑ میں جھونکتی بیڈ کی جانب آ گئی۔ابھی اسے لیٹے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔اس نے دروازے کو یوں گُھورا جیسے سارا قصور اُسکا ہو۔اسی دوران موبائل فون بھی بجنا شروع ہو گیا۔اس نے قریب پڑتے موبائل فون کو اٹھا کر دیکھا۔نمبر پہچان کر اس نے کال پِک کیے بناء ہی فون واپس رکھ دیا۔دروازے پہ ایک بار پھر دستک ہوئی۔

"بابا۔۔۔۔۔"

اس نے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے اونچی آواز میں انھیں اندر آنے کی اجازت دی۔وہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوا۔

"آخری بار میری بات مان لو۔۔۔پھر اسکے بعد جو تمھارا جی چاہے کرنا۔۔۔میں کسی بات کے لئے نہیں کہوں گا۔بس آج چلی چلو میرے ساتھ۔۔میں نے سردار شہیر خان سے وعدہ کر لیا ہے۔کیا اب تم یہ چاہتی ہو کہ میں اپنے وعدے سے پھر جاؤں تو یہ نہیں ہو گا"

وہ نروٹھے پن سے کہہ کر بیڈ پہ بیٹھ گیا۔ملغلرہ اپنی کنپٹی کو انگلیوں سے دباتی باپ کے قریب ہوئی۔

"کیا آپ نے آدھی پیمنٹ لے رکھی ہے ان سے؟"

اس کے سوال کا جواب گلریز کے چہرے کی بدلتی رنگت نے دے دیا تھا۔وہ نظریں چرانے لگا۔اس نے افسوس سے سر ہلایا۔

"میں نہیں لے رہا تھا۔۔انکار کر دیا تھا۔کہا بھی تھا کہ تم سے پوچھے بغیر کوئی ڈیل نہیں کر سکتا مگر تم جانتی تو ہو اس کو۔۔۔۔زبردستی پکڑا دئیے۔۔اب کیا کرتا لینے پڑے۔اب پیسے بھی خرچ ہو گئے ورنہ واپس کر دیتا۔"

گلریز نے ایک بار پھر اس کی جانب سے رخ پھیرا تھا۔

"تبھی وہ مجھے بار بار کال کر رہا ہے۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ آپ نے پیسے لے رکھے ہیں اور اوپر سے خرچ بھی کر دئیے ہیں۔"

وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنا موبائل اٹھا کر کچھ دیر سوچ کر کال ملائی۔

           _______________________________________________________________________

"السلام علیکم سردار صاحب۔۔!"

دوسری جانب سے کال پک ہوتے ہی وہ بولی۔

"وعلیکم السلام ملغلرہ جی۔۔ہم سے کوئی ناراضگی ہے کیا جو آپ ہمارا فون تک ریسیو نہیں کر رہی ہیں۔ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔"

سردار شہباز خان نے لہکتے لہجے میں استفسار کیا۔

"نہیں سردار صاحب ایسی کوئی بات نہیں۔۔دراصل مسلسل تین ریکارڈنگ کی وجہ سے تھکن طاری تھی۔آج آخری دن تھا۔فون بھی بیگ میں تھا اس لئے کال ریسیو نہیں کر پائی یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ معلوم نہیں ہو سکا۔ابھی تھوڑا ریلکیس فیل کیا تو معلوم پڑنے پر آپکو کال بیک کیا۔"

وہ باپ کے اشاروں کو نظرانداز کرتے ہوئے بولی۔

"آپ کیا بھول گئیں تھیں کہ آپ نے یہاں آنا تھا ہمارے فری خانے پہ۔۔۔گلریز خان کو بتایا تھا ہم نے۔۔ڈیل ہوئی تھی ہماری۔۔۔۔ہم نے تو سوچا تھا کہ ہمیں آپ کو کال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر آپ نے تو ہمیں بڑا مایوس کیا۔"

کاروباری آدمی تھا سیدھا مدعے پہ آیا۔وہ کہاں اپنی رقم ڈوبنے دینا چاہتا تھا۔جانتا تھا کہ گلریز خان نے اب تک ساری پیسے ہضم کر لئے ہوں گے۔

"مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔دراصل بابا نے مجھ سے پوچھے بناء ہی آپ سے وعدہ کر لیا۔میں آپ سے اس سلسلے میں معذرت چاہتی ہوں۔تھکاوٹ کے باعث میں نہیں آ پاوں گی۔امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔جہاں تک آپ کی پیمنٹ کا تعلق ہے تو اس وقت میں واپس نہیں دے پاوں گی۔کل صبح گاوں جانے سے پہلے آپکو آپکی رقم مل جائے گی۔"

وہ بات کرتے کرتے آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"کوئی بات نہیں ملغلرہ بی بی۔۔۔پیسے واپس لینے کے لئے میں نے کال نہیں کی۔اگر آپ آج نہیں آ سکتیں تو ایسا ہے کہ ولیمے کا فنکشن ذرا تاخیر کا شکار ہے تو آپ ایسا کیجیئے گا کہ ولیمے پہ آپ ہمارے غریب خانے کو رونق بخشئیے گا۔اللہ حافظ۔۔"

سردار شہیر خان نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی رابطہ منقطع کر دیا۔اس نے گہری سانس لی اور باپ کی طرف دیکھا۔

"کیا ہوا۔۔۔۔؟"

گلریز اس کے پاس آیا۔

"ولیمے کا فنکشن ہو گا کچھ دن بعد۔۔۔وہ کال کر کے انفارم کرے گا۔اب وہاں جانا پڑے گا۔"

وہ فون بیڈ پہ پھینکتی واش روم میں گھس گئی جبکہ گلریز اس کے غصے کی قطعی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جیب کو تھپکتا خوشی خوشی کمرے سے نکل گیا۔

                  _____________________________________________________________

تم وہ لفظ ہو میرے قصے کا

جو فراموش ہو نہیں سکتا۔۔!!

اسے وطن واپس آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔سب ہی اسکی اچانک آمد پہ بہت خوش تھے۔خان بابا بھی یوں ملے تھے جیسے ان کے درمیان کبھی کوئی ناراضگی آئی ہی نہ ہو۔سلمی بیگم اور ملک شاہنواز خان بھی بیٹے کے واپس آ جانے پر بہت خوش تھے۔سلمی بیگم کا تو بس نہیں چل رہا کہ بیٹے کے لئے آسمان سے من و سلوی اتار لاتیں۔نجانے کون کون سے کھانے بنا بنا کر اسے بضد کھلاتیں۔اسے گھر سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھیں۔ہر وقت اس کے آس پاس رہتیں تھیں۔ان کے خیال میں وہ بہت کمزور ہو گیا تھا حالانکہ اسکی صحت قابل رشک تھی۔چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد۔۔صاف رنگت۔۔ستاروں سی چمک لئے بھوری آنکھیں۔۔۔وہ پہلے سے کئی بڑھ کر شاندار لگ رہا تھا۔

"کیا ہو رہا ہے؟"

وہ اس وقت ٹیرس پہ ریلنگ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔جب خاور اور داور بھی وہاں آ گئے۔وہ دونوں بھی ریلنگ کے ساتھ لگ کر اس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔

"کچھ نہیں یار۔۔۔بس بور ہو رہا ہوں اور تم دونوں کیسے ساتھی ہو میرے مجھے گھر میں قید کیا گیا ہے اور تم لوگ میرے بغیر باہر گلچھڑے اڑاتے پھر رہے ہو۔شرم تو نہیں آتی۔لوگ اپنے لندن پلٹ کزنز کو بطور بیج سینے پہ لگائے لگائے گھومتے ہیں۔اتراتے پھرتے ہیں اور یہاں میری کوئی عزت خاطر ہی نہیں ہے اور اوپر سے اماں نے تو مجھے قیدی بنا کر رکھ دیا ہے۔"

وہ ان کی جانب تیکھے چتونوں سے دیکھ رہا تھا۔خاور اور داور اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات دیکھ کر ہنس رہے تھے۔

"زہر لگ رہے ہو اس وقت تم دونوں مجھے۔"

وہ انھیں ہنستے دیکھ کر ناراضگی سے رخ پھیر گیا۔

"یار تم تو بالکل بچوں کی طرح بی ہیو کر رہے ہو۔"

خاور نے اس کے کندھے پہ بازو پھیلائے۔

"مجھے تم سے بات کرنی تھی اور یہ بتاو یہ تم مجھ سے بھاگ کیوں رہے ہو؟"

وہ جب سے آیا تھا ملغلرہ کے بارے سے اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر ادھر وہ اسکا ذکر شروع کرتا ادھر وہ بات کا رخ پلٹ دیتا۔

"کون سی بات۔۔۔اور میں کیوں ایسا کروں گا۔"

خاور کو معلوم تھا کہ وہ کس بارے میں بات کرنا چاہ رہا ہے مگر اس نے خود کو انجان ظاہر کیا اور ساتھ ہی ساتھ داور کو اشارہ کیا۔

"میں چائے کا کہہ کر آتا ہوں۔۔بہت طلب ہو رہی ہے۔"

داور تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔

"تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں۔"

خاور نظریں چرا گیا لیکن وہ نہ بھی بتاتا تو اسے معلوم ہو ہی جانا تھا۔پہلے اس نے بتانا اس لئے بھی ضروری نہیں سمجھا کہ بہت بار اس کے پوچھنے پر وہ کنی کترا جاتا تھا۔اس لئے وہ اس کی ملغلرہ سے متعلق سوچ کو بس وقتی جذبہ سمجھے ہوئے تھا اور اب تو وہ ایک عرصہ یہاں سے دور رہا تھا۔اس کے مطابق اس عرصے میں وہ ملغلرہ کو بھول گیا ہو گا اور حقیقت بھی یہ تھی کہ اس عرصے میں اس نے ایک بار بھی اسکا ذکر بھولے سے بھی نہیں کیا تھا لیکن پھر اسکی سوچ دھری کی دھری رہ گئی کیونکہ واپس آنے سے ایک ماہ قبل غزنوق کے زبان سے نکلے الفاظ کہ وہ جب واپس آئے گا تو سب سے پہلے وہ اسی کو دیکھنے کی خواہش دل میں رکھتا ہے۔۔۔اس کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر گئے تھے۔

آج ایک بار پھر ملغلرہ کے ذکر پہ اسکی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔

"ملغلرہ کے متعلق۔۔۔کیا اس عرصے میں تم نے اسے دیکھا تھا۔۔کیسی ہے وہ؟"

غزنوق نے اس سے بےچینی سے پوچھا۔خاور نے اسے بغور دیکھا اور پھر ایک گہری سانس خارج کی۔

"غزنوق تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اسکا تعلق کس خاندان سے ہے پھر بھی تم۔۔۔۔آج بھی اسکا ذکر کر رہے ہو۔میں تو اسے وقتی جذبہ سمجھتا رہا۔"

خاور نے اسے تمام حالات بتانے سے پہلے تمہید باندھی۔

"ایک منٹ۔۔۔تم سے کس نے کہا کہ یہ ایک وقتی جذبہ ہے۔۔میری محبت وقتی لگ رہی ہے تمھیں اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس خاندان سے ہے۔۔۔۔مگر وہ ویسی نہیں ہے۔"

اس نے خاور کے سینے پہ انگلی رکھی۔

"جب سے تم گئے ہو تم نے ایک بار بھی اسکا ذکر نہیں کیا۔"

خاور نے اس کے انداز کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔

"تو اس بات سے یہ کب ظاہر ہوتا ہے کہ میرا وہ سب کرنا ایک وقتی جذبہ تھا۔۔ہاں مجھے اس سے انکار نہیں کہ ابتداء میں وہ سب میرے لئے ایک کھیل جیسا تھا مگر اس سے دور رہ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ میرے نزدیک کیا ہے اور وہ جس بھی خاندان سے ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔فرق تب پڑے گا جب وہ میرے دائرے سے باہر ہو گی۔"

وہ دو ٹوک الفاظ میں بولا۔

"تو پھر یہ جان لو کہ وہ تمھارے دائرے سے نکل چکی ہے۔۔۔تم جس راستے پہ چلنے کو تیار ہو وہ تمھارے لئے نہیں بنا۔اپنے قدم روک لو۔ملغلرہ کو پہلے بھی اس خاندان میں کوئی قبول نہیں کرتا اور اب تو یہ ناممکن ہے اور تم۔۔۔۔۔تم تو خاندان کو ساتھ لے کر چلنے والے اور خان بابا کے ہر فیصلے پہ لبیک کہنے والے ہو۔۔تم کسطرح اس بات کو اگنور کر سکتے ہو؟"

خاور نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

"ملغلرہ میں کیا خرابی ہے۔۔بےشک وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی ہے جہاں دن سوئے اور راتیں جاگتی ہیں مگر تم اور میں اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کردار کی مضبوط لڑکی ہے ورنہ دو بار میں اس کے پیچھے جاتا اور تیسری بار وہ میرے پیچھے آتی۔تم گواہ ہو کہ وہ کس قدر معصوم و بےریا لڑکی ہے۔"

وہ حیران تھا کہ پہلے تو کبھی خاور نے اس سے اس بارے میں بحث نہیں کی تو اب کیوں۔۔۔۔کیوں وہ اسے روک رہا ہے۔

"میرے لئے یہ سب میٹر نہیں کرتا ہے۔اہمیت ہے تو صرف اسکی جو میرے لئے بنی ہے اور ویسے بھی ملغلرہ بہت معصوم ہے۔وہ ان جیسوں سے کہیں دور ہے اور۔۔۔۔۔"

"اب ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔نہ وہ معصوم ہے اور نہ باکردار۔۔۔یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔تم گاوں میں نکلو۔۔لوگوں سے ملو تو تمھیں معلوم ہو گا کہ لوگ کن الفاظ میں اسکا ذکر کرتے ہیں۔اسکے بارے میں کیا کیا سوچتے ہیں۔وہ اب باپ کے ساتھ ہر محفل میں جاتی ہے۔باپ کا پیشہ وہ اپنا چکی ہے اور کیا پتہ باقی سب کی طرح رقص بھی کرتی ہو۔اس کے حسن کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پہ ہیں۔اپنے قدم پیچھے لے لو عزنوق۔۔۔وہ تمھیں سوٹ نہیں کرتی۔"

خاور نے بالاخر حقیقت اس کے سامنے آشکارہ کر ہی دی اور غزنوق کو یوں لگا جسے اس نے اس کے سر پہ بم پھوڑ دیا ہو۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے خاور کو دیکھ رہا تھا۔

"نہیں۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔تمھیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔۔۔وہ۔۔۔وہ تو۔۔۔"

یہ خاور نے کیا کہہ رہا تھا۔۔

"رقاصہ۔۔۔۔۔"

اس کے لبوں نے خاموش جُنبش کی تھی۔۔یہ لفظ نہیں تھا کوئی پگھلا ہوا سیسہ تھا جو خاور نے اس کے کانوں میں ڈال دیا تھا۔

"کیا اب بھی وہ ویسی ہے؟"

اس نے نیلے آسمان کی وسعتوں میں دور تلک دیکھا۔

"کچھ بھی پہلے جیسے نہیں رہا یار۔۔سب بدل گیا ہے۔پہلی بار دیکھ کر تو مجھے یقین ہی نہیں آیا تھا۔۔تم بھول جاو اسے۔۔۔اس کے دل میں بھی تو کچھ نہیں ہے تمھارے لئے۔۔اگر کچھ ہوتا تو وہ تمھارے دائرے سے نہ نکلتی۔۔تمھارے لئے خود کو سنبھال لیتی۔جانتے ہو نا ان لوگوں کو ان کے نزدیک سب کچھ پیسہ ہوتا ہے۔"

خاور نے اس کے تاریک پڑتے چہرے کو دیکھا۔

"میری بات کا یقین نہیں آتا تو آج شام احتشام خان کی شادی میں آئے گی وہ۔۔چلو میرے ساتھ اور سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔حالانکہ میں ایسی محفلوں میں جانا پسند نہیں کرتا لیکن صرف تمھاری آنکھیں کھولنے کے لئے میں جا رہا ہوں۔۔تم بھی چل کر یہ نظارہ دیکھ لو۔"

اس کے بعد خاور وہاں رکا نہیں تھا جبکہ غزنوق اپنی جگہ سے ہل تک نہ سکا۔

                ___________________________________________________________________

بڑا دشوار ہوتا ہے۔۔

ذرا سا فیصلہ کرنا

کہ جیون کی کہانی کو

بیانِ بےزبانی کو

کہاں سے یاد رکھنا ہے

کہاں سے بھول جانا ہے

اسے کتنا بتانا ہے

اسے کتنا چھپانا ہے

کہاں رو رو کے ہسنا ہے

کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے

کہاں آواز دینی ہے

کہاں خاموش رہنا ہے

کہاں رستہ بدلنا ہے 

کہاں سے لوٹ آنا ہے۔۔

"غزنوق۔۔!"

کمرے میں اندھیرا کیے وہ سستی سے بیڈ پہ دراز تھا کہ داور کمرے میں داخل ہوا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی داور کا استقبال تاریکی نے کیے۔پہلے تو اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔تھوڑی دیر بعد جب آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوئیں تو وہ بیڈ کے قریب آیا۔

"ارے کیا تم نہیں جا رہے ہمارے ساتھ احتشام خان کی شادی میں۔۔ہم وہاں تمھارا انتظار کر رہے ہیں اور یہاں صاحبزادے پیر پسارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔چلو میں تمھیں لینے آیا ہوں۔"

خاور دونوں ہاتھ کمر پہ رکھتا اسکے سرہانے کھڑا ہو گیا۔غزنوق آنکھوں پہ بازو رکھے ساکت لیٹا تھا۔سونے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے اس نے خاور کی آواز سن کر بھی کوئی حرکت نہ کی لیکن دوسری جانب بھی اسی کا ساتھی تھا۔داور سمجھ گیا۔اس نے کمبل کی قید سے اسے آزاد کیا۔

"یار میں نہیں جا رہا۔"

اس نے کمبل دوبارہ اوڑھنے کی کوشش کی۔

"ارے واہ۔۔! ہم تمھاری خاطر جا رہے ہیں لیکن تمھارا موڈ تو کچھ اور ہی داستان بیان کر رہا ہے۔"

غزنوق نے کمبل میں چہرہ چھپایا۔

"یار مرد بن۔۔۔۔منہ چھپانے کا کام عورتیں کرتی ہیں۔چلو اٹھو۔"

داور اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے بولا۔اسکے چہرے کی رنگت ماند پڑی ہوئی تھی۔آنکھیں بےتحاشا سرخ۔۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ غزنوق اس وقت کس سچویشن سے گزر رہا ہے۔خاور کی طرح وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس بات کو اتنا سیریس نہیں لے گا اسی لئے تو انھوں نے اسے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔

"یار اٹھ جاو۔۔"

داور نے اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ سے نیچے اتارنا چاہا۔

"میں جانتا ہوں کہ یقین و بےیقینی کی اس کیفیت کو برداشت کرنا تیرے لئے مشکل ہے مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔شروع سے تُو بھی جانتا ہے اور ہم بھی جانتے ہیں یہی اسکا کِسب ہے اور یہی نَسب۔میرے خیال سے تو تمھیں اس حقیقت کو قبول کر لینا چاہئیے۔"

داور نے اسے سمجھانا چاہا۔وہ سوچ رہا تھا اگر غزنوق اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لے تو خود پیچھے ہو جائے گا۔

"میں اپنی آنکھوں سے اپنی محبت کا جنازہ نکلتے نہیں دیکھ سکتا۔۔تم لوگ کیوں میری اس تکلیف کو بڑھانا چاہتے ہو۔جسے میں ابھی بھی برداشت نہیں کر پا رہا۔"

اسکا بازو ابھی بھی داور کے ہاتھ میں تھا مگر وہ بیڈ سے نیچے اترنے کو تیار نہیں تھا۔

"کیا ہو رہا ہے؟"

وہ دونوں اس بحث میں پڑے تھے کہ خاور بھی کمرے میں داخل ہوا۔اس وقت وہ نسواری رنگ کے شلوار سوٹ پہ کالی واسکٹ پہنے، سلیقے سے بال جمائے ولیمے کے فنکشن میں جانے کے لئے تیار تھا۔

"اٹھو غزنوق۔۔میں تمھیں لیے بغیر نہیں جاوں گا۔وہاں سب یار دوست اکٹھے ہونگے اتنے عرصے بعد۔احتشام خان نے خاص طور پہ تمھیں ساتھ لانے کو کہا ہے۔"

غزنوق اسکے چہرے کی جانب دیکھتا۔بیڈ سے اترا اور خاموشی سے وارڈروب سے کپڑے لیے اور واش روم میں گھس گیا۔وہ دونوں وہیں اسکا انتظار کرنے لگے۔اور پھر اس کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش کی پرواہ کیے بناء خاور اور داور نے اسے ساتھ جانے کے لئے تیار کر کے ہی دم لیا۔نو بجے کا وقت تھا جب وہ تینوں احتشام خان کی حویلی پہنچے۔مردان خانے کے قریب باہر انھوں نے گاڑی کھڑی کی۔یہاں بہت سارے دوسرے مہمانوں کی بھی گاڑیاں کھڑیں تھیں۔سب سے پہلے ڈرائیونگ سیٹ سے خاور برآمد ہوا۔اس کے ساتھ ہی غزنوق اور داور بھی گاڑی سے نکلے۔احتشام خان کے چوکیدار نے جیسے ہی انھیں دیکھا وہ تیزی سے ان کے پاس آیا اور اندر کی جانب ان کی رہنمائی کی۔ایک سریلی اور مدھر نسوانی آواز باہر تک آ رہی تھی۔وہ تینوں اندر داخل ہوئے۔یہ مردان خانہ تھا۔حویلی کے اس حصے کو بھی مختلف رنگوں کے قمقموں سے سجایا گیا تھا۔اندر موجود کچھ مہمان ٹولیوں میں کھڑے گپ شپ کے ساتھ ساتھ ہلکی موسیقی سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔مختلف انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو فضاء میں رچی ہوئی تھی۔

"اف۔۔۔کیا خوشبو ہے۔۔مجھے تو بھوک لگنے لگی ہے۔"

داور گہری سانس لے کر بولا۔

"زیادہ نادیدہ پن نہ دکھاو۔"

غزنوق نے داور کو کہنی ماری۔

"ارے یار۔۔۔۔تمھاری یہ کہنی کھا کر تو بھوک کا احساس اور بڑھ گیا ہے۔"

سامنے دور اسٹیج پہ بیٹھی گلوکارہ باقاعدہ موسیقی کے تمام آلات کے ساتھ گا رہی تھی۔خوبصورت میٹھی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی اور سامنے سیاہ اور سرخ رنگ کے لباس میں ملبوس گلوکارہ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی۔ابھی وہ گیٹ کے پاس ہی کھڑے تھے اس لئے دور سے وہ گلوکارہ کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔

"داور۔۔۔"

وہ داور کی طرف مڑا۔داور نے خاموش ہونے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اس کا بھونڈا مذاق نشانے پہ نہیں لگ رہا تھا۔

"غزنوق۔۔!!"

کسی کے آواز پہ وہ واپس مڑا تھا۔احتشام خان اسکی طرف بڑھا تھا۔وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اس سے بغلگیر ہوا۔

"یار کب سے انتظار کر رہا تھا تم لوگوں کا۔۔۔"

احتشام خان نے تینوں کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔

"بس یار ہوگئی دیر۔۔۔اب کیا یہیں تھانہ کچہری کھولے گا۔"

داور کی بات پہ چاروں ہنس دئیے۔

"آو یار آو۔۔۔نہیں کھولتے کچہری۔۔"

احتشام ان تینوں کو ساتھ لئے سب آگے رکھے ہوئے صوفوں کی جانب لے آیا۔اس نے دوبارہ اسٹیج کی جانب نہیں دیکھا تھا۔اس دوران شاید گانا ختم ہو گیا تھا۔احتشام خان نے ان تینوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"کیا بات ہے بہت خاموش لگ رہا ہے۔ابھی تک تھکاوٹ نہیں اتری کیا۔ہم ڈیرے پہ تقریبا روز ہی جاتے رہے کہ تم وہیں آو گے تو مل لیں گے مگر ایک ہفتہ ہونے کو آیا تم نے اپنی شکل نہ دکھائی۔"

احتشام خان اسکے سامنے کھڑا تھا۔

"نہیں یار بس اماں اور خان بابا نے اپنے پاس سے ہلنے تک نہیں دیا تھا اور پھر خان بابا کی طبیعت موسمی بخار کی وجہ سے ٹھیک نہیں تھی ورنہ انہی کے ساتھ ڈیرے پہ آنے کا ارادہ تھا۔"

اس کے معذرتی انداز میں کہنے پہ احتشام خان سر ہلاتا اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔خاور اور داور بھی اسکے دائیں جانب بیٹھے تھے۔ان دونوں کی نظریں اسٹیج پہ تھیں۔

اگلے ہی لمحے وہی مدھر آواز ایک بار پھر اسکے کانوں سے ٹکرائی۔

تجھے جس رنگ میں سننی ہو سن لے داستاں میری۔۔

تیری آواز ہی کا ساز ہے آخر زباں میری۔۔

غزل کے بولوں اور میٹھی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔آواز کا پیچھا کرتی اس کی نظر خوبصورتی سے سجے اسٹیج پہ مائک سے پیچھے بیٹھی ایک نازک اندام سی لڑکی پہ پڑی۔یہ ایک پل کا دیکھنا اسے پتھر کا بنا گیا۔اسے لگا اب وہ کبھی اپنے قدموں پہ کھڑا نہیں رہ پائے گا۔وہ وہی تھی۔۔۔وہی جسے دیکھنے کی سزا میں اس نے جلاوطنی کاٹی تھی۔وہی انداز۔۔وہی دلکش سراپا۔۔۔وہی خواب آور آنکھیں۔۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا۔وہ کیسے بھول سکتا تھا اس چہرے کو۔۔اس انداز کو۔۔

"ملغلرہ۔۔۔۔"

اسکے دل و دماغ میں ایک شور برپا ہو گیا اور پھر اگلے ہی لمحے سناٹا چھا گیا۔صرف ایک ہی لفظ کی بازگشت ہو رہی ہو۔۔وہ بالکل اسکے سامنے تھی باقی سب تو نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

ملک غزنوق خان بھول گیا تھا کہ اس وقت وہ کہاں موجود ہے۔اس کے کان سُن ہو گئے تھے۔اسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔اسے لگا اسکے اردگرد خلاء پیدا ہو گیا ہو اور وہ اس خلاء میں مُعلق ہو۔۔ایک وہی تو تھی وہاں۔۔۔۔۔۔۔اور ایک اسکی آواز کی بازگشت۔۔۔

تصور میں وہ کچھ برہم سے ہیں کچھ مہرباں سے ہیں

انھیں شاید سنائی جا رہی داستاں میری۔۔

غزنوق نے اسے بھی اپنی طرف دیکھتا پایا۔یقینا وہ بھی پہچان کے مراحل طے کر چکی تھی۔

ملغلرہ کی میٹھی آواز اسکے دل تک رسائی حاصل کر رہی تھی۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ اس کے دل کا حال بیان کر رہی ہے یا پھر اپنا درد۔۔۔

اسے لگا اب وہ یہاں مزید بیٹھ نہیں پائے گا۔

میری حیرت پہ وہ تنقید کی تقلید کرتے ہیں

جنھیں یہ بھی نہیں معلوم نظریں ہیں کہاں میری۔۔

غزل کے اگلے بول اسکے تنے ہوئے تاثرات کو ڈھیلا کر گئے۔وہ وہاں مزید رکنا نہیں چاہتا تھا مگر وہ خود کو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا۔اس کی نظروں کی گرفت تھی جو اسکے پیروں سے لپٹ رہی تھی۔

تجھے جس رنگ میں سننی ہو سن لے داستاں میری 

تیری آواز ہی کا ساز ہے آخر زباں میری۔۔

وہ جھٹکے سے اٹھا اور سب آوازوں کو پیچھے چھوڑتا لوہے کا گیٹ پار کر گیا۔

          ____________________________________________________________________

وہ وہاں سے سیدھا ڈیرے پہ گیا تھا۔اسکی آواز ابھی تک اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔اس وقت وہاں کوئی بھی نہیں تھا سوائے کرم دین کے۔۔وہ اسے پسینے میں شرابور اس وقت یہاں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔تیز قدموں سے چلتا وہ صحن میں بچھی چارپائی کی طرف آیا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا بھی بھاری طبیعت پہ کچھ خاص اثر نہیں ڈال رہی تھی۔

"صاحب آپ اس وقت۔۔خیر تو ہے نا؟"

وہ چارپائی پہ چت لیٹا تھا جب کرم دین اسکے سرہانے آ کھڑا ہوا۔

"آں۔۔۔ہاں ٹھیک ہوں بس یونہی۔۔تم ابھی تک گئے نہیں؟"

وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ماتھے پہ ابھی بھی پسینے کے قطرے ذرد روشنی میں چمک رہے تھے۔

"صاحب بس جانے لگا تھا کہ آپ کو اندر آتا دیکھ کر پلٹ آیا۔آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔"

کرم دین اسکی بےترتیب حالت کے پیش نظر بولا۔

"نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔تم۔جاو۔۔میں کچھ دیر یہاں رکوں گا پھر چلا جاوں گا۔"

اس نے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔

"مگر صاحب آپ کی طبیعت تو۔۔۔"

"کہا نا جاو یہاں سے۔۔۔ایک بات سمجھ نہیں آتی تمھیں۔"

وہ غصے سے دھاڑا۔کرم دین اسکے اسطرح چنگھاڑنے پہ گھبرا کر پیچھے ہوا تھا۔وہ حیران تھا کہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنے والا آج ایسا رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہے۔وہ وہیں اس سے کچھ فاصلے پہ جا کر کھڑا ہو گیا۔غزنوق اسے جاتا دیکھکر ایک بار پھر چت لیٹ گیا تھا۔

"تم گئے نہیں اب تک۔۔۔کرم دین جاو یہاں سے۔"

تھوڑی دیر بعد پھر اسکی نظر کچھ فاصلے پہ ہاتھ باندھے کھڑے کرم دین پہ پڑی تو اب کی بار وہ تھوڑا نرمی سے مخاطب ہوا۔

"صاحب میں رک جاتا ہوں آپ کے پاس۔۔جب آپ جاو گے تو میں بھی چلا جاوں گا۔"

کرم دین نے پاس ہی پڑے پانی کے کولر سے پانی بھرا اور گلاس لئے اس کے قریب چلا آیا۔اس نے گہری سانس خارج کی اور گلاس کرم دین کے ہاتھوں سے لے کر لبوں سے لگایا۔گھونٹ گھونٹ پانی پیتا وہ کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دیا۔گلاس اسکے ہاتھ میں ہی تھا جب خاور کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوتی دکھائی دی۔اس نے گلاس کرم دین کو دیا اور اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔کرم دین اسکے اشارے پہ گلاس لئے مطمئن سا اپنے کوارٹر میں چلا گیا۔خاور ایک جانب گاڑی کھڑی کرتا تیز تیز قدموں سے چلتا اس کے پاس آیا۔

"غزنوق۔۔۔تم ٹھیک ہو؟"

وہ اس کے چہرے کے پتھریلے تاثرات کی پرواہ کیے بغیر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

"میرے پیچھے آنے کی کیا ضرورت تھی۔"

اس نے سنجیدہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا۔

"میں سراسر غلطی پہ تھا کہ تم ایک مضبوط شخص ہو۔تم نے اردگرد کے ماحول کی بھی پرواہ نہیں کی۔تمھیں اندازہ بھی ہے کہ اگر کوئی متوجہ ہوتا تو تمھارے اسطرح جانے کے بعد وہاں کتنی چہ مگوئیاں شروع ہو جانی تھیں۔"

وہ اسکے تاثرات کی پرواہ کیے بناء غصیلے انداز میں بولا۔

"خاور تم جاو۔۔۔میں آ جاوں گا گھر۔اگر تم یہاں میرے پیچھے اس لئے آئے ہو کہ کہیں میں خود کو نقصان نہ پہنچا لوں تو بےفکر رہو۔اب میں اتنا بھی کمزور نہیں ہوں۔جانتا ہوں کہ ہواوں کا رخ کسطرح اپنی طرف موڑنا ہے۔"

اب وہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔

"ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم خود کو جلد سنبھال لو گے۔آج تم نے خود دیکھ لیا سب۔۔یہ تو آج ایک نارمل فنکشن تھا۔ابھی تمھاری نظر سے۔۔۔۔"

"میں ہی چلا جاتا ہوں۔"

وہ خاور کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔

"یار میں تو تمھیں حقیقت بتا رہا ہوں۔۔وہ ایک۔۔۔۔"

"بس۔۔۔!! اب مزید میں ایک لفظ نہیں سنوں گا۔جو میں نے جاننا تھا جان لیا۔"

غزنوق تیزی سے کہتا رخ پھیر گیا۔

"کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے بلی چلی نہیں جاتی غزنوق۔۔۔ہوش سے کام لو تو تمھارے لئے بہتر ہو گا۔"

خاور اسکے دوٹوک انداز کو حیرانی سے دیکھتا اسے سمجھاتا وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد وہ گرنے کے سے انداز میں چارپائی پہ بیٹھ گیا۔ذہہن فیصلہ کرنے کے لئے یکسوئی چاہتا تھا۔اسے نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ اب اسے کیا کرنا چاہئیے۔وہ کیا کیا سوچ کے آیا تھا۔۔کیسے کیسے خواب آنکھوں میں سجائے تھے مگر یہاں اسے اسطرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ خان بابا کو منا لے گا مگر اب تو ان سے بات کرنا بھی مشکل لگ رہا تھا۔آج وہ ایک مختلف لڑکی کو دیکھ کر آیا تھا مگر اسکے لئے ملغلرہ سے دستبردار ہونا بھی مشکل تھا۔دماغ اس قدر الجھ گیا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنا اسکے لئے آسان نہیں رہا تھا۔رات وہ ڈیرے پہ ہی رہا اور رات بھر سوچتے ہوئے وہ اس نتیجے پہ پہنچا کہ اسے اس بارے میں وہ گلریز خان سے بات کرنی ہو گی۔ملغلرہ کو یہ سب چھوڑنا ہو گا۔یہ قدرے مشکل تھا مگر ناممکن نہیں حالانکہ وہ جانتا تھا کہ گلریز خان بیٹی کی کمائی کھا رہا تھا۔اب وہ اتنی آسانی سے اسے ہاتھ سے جانے دے گا۔خان بابا بھی اس رشتے کے لئے کبھی نہیں مانیں گے اوپر سے وہ اسے مجبور کرنے کی طاقت بھی رکھتے تھے۔

     ___________________________________________________________________________

باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو

جی میں آتا ہے کہ تعویز بنا لیں تم کو

پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں

کیوں نا آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو

وہ کچن کے دروازے میں کھڑی گنگنا رہی تھی۔نظریں دیوار پہ پھیلی چنبیلی کے پھولوں پہ تھیں۔موسم خوشگوار تھا یا اسے لگ رہا تھا وہ یہ جان نہیں پائی تھی لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ اسکے اندر یہ طمانیت کی گھنٹیاں کیوں بج رہی ہیں۔

جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے

گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو

کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں

کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو

سبز پتوں میں سفید چھوٹے چھوٹے پھول آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہے تھے اور ان کی خوشبو فضاء کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی۔پلوشہ چولھے کے پاس کھڑی لبوں پہ دھیمی مسکراہٹ سجائے اس کے خوشگوار موڈ کی وجہ سوچ رہی تھی۔کافی عرصے بعد وہ اس موڈ میں دکھائی دے رہی تھی۔اسکول کے دنوں میں وہ اس غزل کو گنگنایا کرتی تھی۔آج اتنے عرصے بعد پھر وہ اسکول کے وقت کی ملغلرہ لگ رہی تھی۔پلوشہ کے لئے اسکا یہ انداز بہت خوش کن تھا۔

"کیا بات ہے کل سے تمھارا موڈ بہت اچھا لگ رہا ہے۔"

پلوشہ کے ذکر پہ اسکے چہرے پہ قوس و قزح کے کئی رنگ بکھرے تھے۔

وہ واقعی ہی بہت خوش لگ رہی تھی جیسے اسے کوئی ہفتِ اقلیم مل گئی ہو۔

ہاں میں بہت خوش ہوں تمھیں پتہ ہے کل میں نے کسے دیکھا تھا۔"

اس کے پوچھنے پہ پلوشہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔اس کی گھور سیاہ آنکھوں میں جو چمک تھی وہ پلوشہ نے پہلی بار دیکھی تھی۔ایک انوکھی سی روشنی جو بہت عرصہ پہلے اسکے چہرے کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔وہی روشنی پلوشہ کو آج پھر سے اس کے چہرے پر دکھائی دے رہی تھی۔

"کسے دیکھا تھا؟"

پلوشہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری اور چُولھا بند کرتی اسکے قریب آ کھڑی ہوئی۔ملغلرہ کی نگاہیں ابھی بھی دیودار پہ پھیلی ہوئی چنبیلی پہ تھیں اور گلابی ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جھلک دکھاتی غائب ہو جاتی جیسے چاند شرما کر بادلوں کی اوٹ میں ہو جاتا ہو۔

"غزنوق کو۔۔۔۔۔۔"

اسکے لبوں نے یوں دھیرے سے حرکت کی جیسے اس نام کی اِن لبوں سے آشنائی پرانی ہو۔

"کون غزنوق۔۔۔۔؟؟"

پلوشہ کو نام انجان لگا۔

"ملک غزنوق خان۔۔۔۔"

وہ دھیرے سے گنگنائی تھی۔۔۔

"وہ۔۔۔وہ بدتمیز لڑکا۔۔۔جو ہمیں تنگ کیا کرتا تھا۔"

پلوشہ کو بہن کی دماغی حالت پہ شُبہ ہوا تھا۔وہ اُس وجہ کو جاننے سے قاصر تھی جس کی بدولت خوف کی جگہ آج رنگوں نے لے لی تھی۔

ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں

اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اُٹھا لیں تم کو

کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو

کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو۔۔

ملغلرہ نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھا۔

"تم ہوش میں تو ہو۔۔طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے تمھاری۔۔تم اُس لوفر سے مل کر اتنی خوش ہو۔۔؟؟"

پلوشہ نے جھٹکے سے اسکا رُخ اپنی طرف موڑا۔

"ملی کہاں ہوں۔۔۔صرف دور سے دیکھا ہے۔"

اسکی آواز میں گھلا افسوس پلوشہ سے چھپا نہ رہ سکا۔

"تمھارے نزدیک یہ اتنی معمولی سی بات ہے۔کیا تم بھول گئی ہو کہ اس کی وجہ سے ہم کسں ذہنی اذیت مبتلاء رہے تھے۔تم شاید وقت گزرنے کے سبب بھول گئی ہو۔"

ملغلرہ کی آنکھوں میں دِکھتا نرم تاثر اور مُسکاتے لب اس کا پارہ چڑھانے کے لئے کافی تھا۔اس سے ملغلرہ کا رویہ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔وہ اتنے عرصے بعد اس کا نام سن کر ہی گھبرا رہی تھی کہ کہیں وہ پہلے کی طرح پھر سے ان کا پیچھا نہ لے لے۔۔حالانکہ اب حالات مختلف تھے لیکن خوف بھی اپنی جگہ قائم تھا۔

"یہ دیکھو۔۔۔پانی میں رنگین دائرے سے بننے لگے ہیں۔"

ملغلرہ نے انگلی سے کٹورے میں پڑے پانی کو چُھو کر اس کی طرف دیکھا۔

"مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کیا کہہ رہی ہو۔"

پلوشہ پلٹ کر جانے لگی۔

"ارے میری پیاری بہن تم کیوں پریشان ہو رہی ہو۔لڑکا ہے کوئی جن تھوڑی ہے جو تم خوفزدہ ہو رہی ہو۔تھارے چہرے پہ تو یوں ہوائیاں اڑنے لگی ہیں جیسے تمھارے سامنے میں نہیں بلکہ وہ کھڑا ہو۔"

پلوشہ کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے بات کو غیر سنجیدگی کا تاثر دیا اور بازو اس کے کندھے پہ پھیلایا۔

"کہاں ملا تھا وہ تمھیں؟"

پلوشہ نے اپنے کندھے سے اسکا بازو ہٹایا اور ایک بار پھر برنر کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

"احتشام خان کی شادی میں۔۔وہ وہاں آیا تھا اپنے انہی دو دوستوں کے ساتھ۔۔۔مجھے دیکھ کر ایسا بھاگا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔"

اس نے بات کو ایک بار پھر مزاح کا رنگ دیا اور ہنس دی۔یہ تو وہی جانتی تھی کہ غزنوق کی طنزیہ نظروں کی کاٹ نے اسے کتنی تکلیف پہنچائی تھی۔اسکی بےاعتباری اسے خون کے آنسو رُلا رہی تھی۔کیسے وہ پہچان کے اگلے مرحلے میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔

"تم اپنی ہنسی کا کھوکھلا پن مجھ سے چھپا سکتی ہو۔۔۔۔بھول ہے تمھاری۔"

پلوشہ کی بات نے پل بھر میں اسکے چہرے کی رنگت کو متغیر کیا تھا۔

"چائے لے آو۔۔۔۔اماں دو بار آواز دے چکی ہیں۔"

وہ پلوشہ کی جانب دیکھنے سے گریز کرتی کچن سے نکل گئی۔پلوشہ کی نگاہوں نے کمرے تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ملغلرہ کے قدموں کی لڑکھڑاہٹ اس کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکی۔جو ملغلرہ اسے سمجھا کر بھی نہیں سمجھانا چاہتی تھی پلوشہ وہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتی تھی۔

اس نے ساکت پانی پہ نظر ڈالی۔۔

اسے رنگ بکھرے دکھائی دئیے اور دور سے آتی ملغلرہ کی آواز اسکے دل کے راز کھول رہی تھی۔

جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور

اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو

جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو

ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو۔۔۔

ملغلرہ کی ہنسی صحن میں گونج چھوڑ گئی تھی۔

       __________________________________________________________________________

"ناشتہ یہیں لے آوں یا گھر۔۔۔"

وہ بالوں میں برش کر رہا تھا جب کرم دین کمرے میں داخل ہوا۔اسکا برش کرتا ہاتھ رک گیا تھا۔

"نہیں یہیں لے آو۔۔۔"

وہ برش ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا۔

"جی۔۔۔"

کرم دین مڑ کر جانے لگا۔

"اور پھر ذرا جا کر گلریز خان کو بلا لاو۔"

وہ دھیرے سے کہتا بیڈ کی جانب آیا۔اس وقت وہ رات والے ہی کپڑوں میں ملبوس تھا۔

"کون گلریز خان۔۔۔وہ طبلچی۔۔۔؟"

کرم دین نے پرسوچ انداز میں پوچھا۔

"ہاں وہی۔۔۔اسے کہو کہ ملک غزنوق خان نے ڈیرے پہ بلایا ہے۔یہ نا ہو کہ وہ حویلی چلا جائے۔یا یوں کرو اسے ساتھ لیتے آنا۔میں زیادہ دیر یہاں نہیں رکوں گا۔"

اس کی بات سن کر کرم دین سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا۔

پھر وہ اسے ناشتہ دینے کے بعد گلریز خان کو بلانے چلا گیا۔رات کو وہ گھر گیا ہی نہیں تھا۔حالانکہ یہاں سے جانے کے بعد بھی خاور اسے کالز کرتا رہا تھا مگر اس نے اس سے بات نہیں کی۔ناشتہ ختم کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل آیا اور باہر صحن میں کرم دین اور گلریز خان کا انتظار کرنے لگا۔اس دوران اس نے ایک بار کال کر کے خاور سے بات کر لی تھی۔خاور نے بتایا کہ خان بابا نے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے انھیں بتایا ہے کہ اسے احتشام خان نے روک لیا تھا اور اب گھر میں اس سے کوئی اس بارے میں بات کرے تو وہ یہی بتائے کہ وہ وہیں تھا۔اس نے خاور کو تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔وہ چارپائی پہ بیٹھا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کرم دین گلریز خان کو ساتھ لئے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے دکھائی دیا۔گلریز خان کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔اس کے تو ٹھاٹ بھاٹ ہی نرالے تھے۔یہ وہ پچکے گالوں والا کمزور سا گلریز خان نہیں تھا بلکہ وہ تو اچھا خاصا صحت مند لگ رہا تھا۔

گلریز خان بھی اسے پہچان گیا تھا۔خوف تو اسے نہیں تھا مگر حیرانی اسکے چہرے پہ نمودار ہو چکی تھی۔وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید کسی فنکشن پہ بلانا ہو گا اس لئے بلایا ہے۔

"بیٹھو گلریز خان۔۔۔"

اس نے کرم دین کو اشارے سے وہاں سے جانے کو کہا اور گلریز خان کی طرف متوجہ ہوا۔گلریز ہچکچاتے ہوئے چارپائی کے قریب پڑی واحد کرسی پہ بیٹھ گیا تھا جبکہ غزنوق اسکے گرد چکر لگاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دیا۔اب اسکا انداز گلریز خان کو پریشانی میں مبتلاء کر رہا تھا۔

"خان۔۔۔۔آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟"

گلریز خان کو اسکے بولنے کا اانتظار کرنا کٹھن لگ رہا تھا۔وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔

"تمھیں الٹا لٹکانے کے لئے۔۔"

وہ ریلکیس انداز میں کہتا اسکے سامنے کھڑا ہوا جبکہ گلریز خان اسکی بات سن کر اچھل کر کھڑا ہوا۔

"خان۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں۔"

گلریز خان اور اسکے بیچ فاصلہ کم تھا مگر پھر بھی گلریز خان نے وہاں سے کھسکنا چاہا۔

"وہی جو تم نے سنا۔"

غزنوق نے اسکے بھاگنے کی ساری راہیں مسدود کیں۔گلریز نے کرسی کو دھکیل کر پیچھے کیا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی ملغلرہ کو اس گھٹیا راستے پہ چلانے کی۔سوچا بھی کیسے تم نے تم اس سے ایسا غلیظ کام کروانے کا۔۔گھٹیا انسان تم خود کافی نہیں تھے کیا کہ تم نے اس معصوم کو بھی اپنے راستے پہ چلانا شروع کردیا۔۔میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

غزنوق اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا تھا۔

"اچھی ذبردستی ہے۔۔وہ میری بیٹی ہے۔۔میں جو چاہوں گا اس سے کرواوں گا۔"

گلریز خان میں نجانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی اس نے غزنوق کے ہاتھ جھٹکے سے اپنے گریبان سے پرے کیے۔

"غلیظ آدمی۔۔۔شرم تو نہیں آتی کہ بیٹی کو جگہ جگہ لے جا کر اپنی عزت کا جنازہ نکالنے کے لئے پہنچ جاتے ہو۔تم نے تو بےغیرتی کی ساری حدیں پار کر دی ہیں۔اب مجھے چین تب ہی پڑے گا جب تک تمھیں ختم نہ کر دوں۔"

عزنوق نے اسے ایک بار پھر گریبان سے پکڑ کر چارپائی پہ جارحانہ انداز میں پٹخا۔اسکی کمر چارپائی کی پائینتی سے ٹکرائی تھی۔درد کی ایک شدید لہر اسے دہرا کر گئی۔وہ تڑپ کر سیدھا ہوا۔غزنوق نے اسکے اٹھنے سے پہلے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔

"اب وہ تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔اگر میں نے دیکھ لیا تو تمھیں زمین میں زندہ گاڑ دوں گا۔ایسی جگہ پہنچاوں گا کہ ہڈیاں بھی نہیں مل پائیں گی۔"

غزنوق نے اسکی گردن دبوچی۔گلریز خان نے اسکی طرف دیکھا۔

"مم۔۔۔میں تمھارے دادا ملک شمشیر خان کے پاس جاوں گا انصاف کے لئے۔۔وہ یقینا یہ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔"

گلریز خان ڈرتے ڈرتے بولا۔

"انصاف چاہئیے تمھیں۔۔۔"

غزنوق نے اسکی گردن دبوچے دبوچے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔چٹاخ کی آواز سے پورا صحن گونج اٹھا اور گلریز ایک بار پھر چارپائی پہ دہرا پڑا تھا۔

"میں کرواوں گا تمھارا انصاف۔۔"

غزنوق شیر کی طرح اس پہ جھپٹا۔

"خان خان۔۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔میں نے کیا کیا ہے۔۔میں نے ملغلرہ کے ساتھ کوئی ذبردستی نہیں کی وہ اپنی مرضی سے گانا گاتی ہے۔وہ نہیں گائے گی تو ہم کھائیں گے کہاں سے۔۔۔خدا کا واسطہ ہے ہم پہ رحم کرو۔اتنی تکلیفوں کے بعد تو خوشحالی کے یہ دن دیکھیں ہیں۔اب چھوڑ دیا تو کہاں جائیں گے۔میرے پاس تو رزق کمانے کا اور کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔یہی ہمارا کسب ہے اور یہی نسب۔"

گلریز خان ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔

"یہ بات یہاں سے باہر نکلی تو تمھیں بولنے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔"

وہ اسکے بازو کو موڑتے ہوئے کمر تک لے گیا۔

"نہیں کہوں گا۔۔۔کسی کو نہیں کہوں گا۔"

تکلیف کی شدت میں اضافہ ہوا تو گلریز گھگھیانے لگا تھا۔غزنوق نے اسے جھٹکے سے چارپائی پہ پھینکا۔اس کا چہرہ چارپائی کے سرہانے سے ٹکرایا۔

"اور ہاں یاد رکھو کہ میں اپنی بات دہرانے کا عادی نہیں ہوں۔اگر مجھے پتہ چلا کہ تم اسے ساتھ لے کر گئے ہو تو۔۔۔۔۔۔آگے تم خود سمجھدار ہو۔"

وہ چارپائی پہ پاوں رکھتا اسے خبردار کرتے ہوئے بولا اور پھر وہاں رکا نہیں۔گلریز زخموں پہ ہاتھ رکھتا اسے جاتے دیکھتا رہا۔اس کے جانے کے بعد وہ چارپائی پہ چت لیٹ گیا۔

"اب یہاں کب تک بیٹھا رہے گا۔چل جا یہاں سے۔۔"

وہ گیٹ پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا جب اسے کرم دین کی آواز آئی۔وہ اس کے سرہانے کھڑا اسے چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"دیکھا تم نے کیسے مارا ہے مجھے۔۔یہ دیکھو ذرا۔"

اس نے بازوں اور چہرے کے زخم اسکے سامنے کیے۔اسکا چہرہ بہت سرخ تھا۔

"بہت اچھا ہوا تمھارے ساتھ۔۔میں ان کی جگہ ہوتا تو تم جیسے بےغیرت انسان کو زندہ نہ چھوڑتا۔"

کرم دین غزنوق اور گلریز کے درمیان ہوئی ساری بات سن چکا تھا۔اس لئے اسے لتاڑتے ہوئے بولا۔

"میں ملک شمشیر خان کے پاس جاوں گا۔یہ سب دکھاوں گا ان کو۔۔۔"

وہ اپنے بازو کو دوسرے ہاتھ سے سہلاتے ہوئے بولا۔

"ملک غزنوق خان، ملک شمشیرخان کا ہی پوتا ہے۔جو کہا ہے اس نے کر کے دکھائے گا۔اس لئے بیٹی کو گھر بٹھا اور عزت کی روٹی کما۔"

کرم دین یہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔

"دیکھ لوں گا میں سب کو۔۔۔شہر چلا جاوں گا اپنی بیٹی کو لے کر۔۔لیکن پہلے ملک شمشیرخان کو اسکے لاڈلے پوتے کے کرتوت بھی بتاوں گا۔خدا خدا کر کے تو میرے حالات اچھے ہوئے ہیں۔اب پھر سے میں کسمپرسی کی زندگی نہیں گزاروں گا۔ملغلرہ میرا بازو ہے بھلا میں اپنے ہاتھوں سے اپنا بازو کیسے کاٹ سکتا ہوں۔میں ابھی ملک شمشیرخان کے پاس جاوں گا۔"

وہ دہری کمر کو سیدھا کرتا گیٹ کی جانب بڑھا پھر گھر جا کر ملغلرہ کو بھی بتاوں گا۔اسے کہوں گا کہ میرے ساتھ تھانے چلے۔۔اسے مزا چکھاوں گا۔اب میں وہ گلریز خان نہیں رہا۔اچھا ہوتا یہ کمبخت واپس ہی نہ آتا۔"

آخر میں افسوس سے دائیں بائیں سر ہلاتا گھر کی طرف روانہ ہوا۔

                 ___________________________________________________________

وہ گھر پہنچا تو خاور وہیں لاونج میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔وہ اس وقت اسکے سوالوں کے جواب دینے کے لئے خود کو تیار نہیں پا رہا تھا اس وہ لئے خاور کو اگنور کرتا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔

"میں آفس کے لئے نکل رہا ہوں چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔۔"

غزنوق کو لاپرواہی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

"آج میرا موڈ نہیں ہے۔۔کل چلوں گا۔۔ویسے کیسے چل رہا ہے سب؟"

غزنوق نے زبردستی مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"ابھی تو شروعات ہے۔حلانکہ خان بابا اجازت کب دے رہے تھے بڑی مشکل سے اجازت ملی۔یہی کہتے رہے کہ زمینیں سنبھالو مگر مجھے شوق تھا اس لئے منا کر دم لیا۔اب تم آ گئے ہو تو دونوں مل کر سنبھالیں گے۔ کیا خیال ہے۔۔؟"

خاور نے اس کے کندھے سے کندھا ٹکرایا۔

"ہاں یار کیوں نہیں۔۔لیکن آج بہت تھک گیا ہوں۔کل چلوں گا تمھارے ساتھ۔۔۔یہ داور کدھر ہے؟"

اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"اب کوئی تو زمینیں سنبھالے گا نا یار۔۔وہ خان بابا اور بابا کے ساتھ جاتا ہے۔"

"آہاں۔۔۔!! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔چلو پھر واپسی پہ ملتے ہیں۔"

وہ سائیڈ سے ہو کر جانے لگا تھا کہ خاور نے اسے ہاتھ آگے کر کے روکا۔

"تمھارے انداز بتا رہے ہیں کہ تم ملغلرہ سے شادی کے خواہاں ہو۔۔۔کیا تم واقعی ایسا چاہتے ہو یا مجھے ایسا لگ رہا ہے۔"

خاور نے اسے سر سے پیر تک دیکھا۔۔اسکے کپڑوں کا ملگجا پن اسکی ذہنی بےترتیبی کا گواہ تھا۔

"میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا اور نا ہی تمھارے سوالوں کے جواب دینا چاہتا ہوں۔بہتر ہو گا کہ ہم اس بات کو کسی اور وقت پہ اٹھا رکھیں۔"

اس کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے۔

"غزنوق۔۔۔۔!!"

"خاور پلیز۔۔۔اس وقت میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ تمھارے ان سوالوں کے جواب دے سکوں۔۔آئی ایم سوری۔۔"

وہ تیزی سے اس کے پاس سے گزر گیا۔کمرے میں آ کر اس نے تیزی سے دروازہ لاک کیا تاکہ کہیں وہ اس کے پیچھے نہ آ جائے۔۔اسے گھٹن کا احساس ہوا۔تیزی سے شرٹ کے اوپری تین بٹن کھولے اور فین آن کر کے بیڈ پہ آڑھا ترچھا لیٹ گیا۔خاور اسکا کزن ہی نہیں جگری دوست بھی تھا۔وہ اسکے ساتھ اپنے رویے پہ شرمندہ بھی تھا مگر وہ اپنے دل کی دگرگوں حالت کا کیا کرتا جو اسے کسی پل چین لینے نہیں دے رہی تھی۔

دروازے پہ مسلسل ناک ہو رہی تھی مگر وہ خود میں ہمت نہیں پا رہا تھا کہ اٹھ کر دروازہ کھولتا۔۔آنکھیں بند کیے وہ بے حس و حرکت لیٹا تھا۔

"غزنوق۔۔۔۔!!"

سلمی بیگم نے کوئی تیسری بار اسے پکارا تھا۔وہ بیڈ سے اٹھا فین آف کیا اور دروازہ کھول کر واپس بیڈ پہ آ گیا۔

"غزنوق۔۔! بیٹا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔یوں دروازہ بند کیے کیوں لیٹے ہو؟"

سلمی بیگم اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔اس وقت بھی وہ اوندھا لیٹا ہوا تھا۔انھوں نے نرمی سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"ٹھیک ہوں ماں۔۔۔"

اس نے سر ان کی گود میں چھپا لیا۔

"کیا بہت تھک گئے ہو؟"

وہ یونہی اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہیں۔

"جی اماں۔۔۔بہت تھک گیا ہوں۔"

وہ تھکے تھکے انداز میں اٹھ بیٹھا۔وہ بغور اسے دیکھ رہی تھیں۔

"غزنوق۔۔!! تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔میں ڈاکٹر کو کال کرتی ہوں۔"

وہ بیڈ سے اترنے لگیں۔

"میں ٹھیک ہوں امی۔۔بس تھکاوٹ بہت ہو گئی ہے۔تھوڑی دیر آرام کروں گا۔نیند نہیں پوری ہوئی نا اس لئے۔"

وہ سیدھا لیٹتے ہوئے بولا۔

"میں چائے لے کر آتی ہوں تمھارے لئے۔"

انھوں نے مسکراتے ہوئے اسے کمبل اوڑھایا اور کمرے سے باہر نکل آئیں۔ان کے کمرے سے نکلنے کے بعد وہ بھی آنکھیں موند گیا۔نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔آنکھیں بند کیں تو ملغلرہ کا معصوم چہرہ چھم سے اسکی آنکھوں میں آن بسا۔دل سے اک ٹیس سے اٹھنے لگی۔اس کے اور ملغلرہ کے بیچ ایک پہاڑ حائل تھا۔عزت و ناموس کا پہاڑ۔۔۔۔جسے پاٹنا اتنا آسان نہیں تھا۔

وہ کس قدر دور تھی اس سے۔۔۔۔۔لاحاصل تھی اسکے لئے۔۔دونوں کے درمیان صدیوں کی مسافت تھی۔

تصور میں وہ کچھ برہم سے ہیں کچھ مہرباں سے ہیں

انھیں شاید سنائی جا رہی ہے داستاں میری۔۔

ملغلرہ کی آواز کا سوز اسکے گرد موجود فضاء میں دھویں کی صورت حائل ہونے لگا۔

وہ آنکھیں بند کیے اسی کے تصور میں گم تھا۔اندر کا شور بڑھ گیا اور اس شور میں ایک آواز آ رہی تھی۔۔

میری حیرت پہ وہ تنقید کی تقلید کرتے ہیں

جنھیں یہ بھی نہیں معلوم نظریں ہیں کہاں میری۔۔

اس نے بازو آنکھوں سے ہٹایا۔سلمی بیگم نجانے کب سے اس کے سرہانے کھڑی تھی۔

"غزنوق بیٹا چائے۔۔۔"

سلمی بیگم نے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھ کر اسکی جانب دیکھا۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

"سو گئے تھے کیا۔۔۔آنکھیں بہت سرخ ہو رہی ہیں تمھاری۔۔چائے پی کر ریسٹ کرو۔"

وہ اسے ہدایت دیتی وہاں سے چلی گئیں۔غزنوق نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔

           ______________________________________________________________________

"وہ سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔سمجھتا ہے میں ڈر جاؤں گا اس سے۔۔باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے ہر چیز کو۔۔میں خود جاؤں گا شمشیر خان کے پاس اور اسے بتاؤں گا اس کے پوتے کے کرتوت۔۔ڈرتا نہیں ہوں میں۔۔مجھے بےغیرت کہہ رہا تھا۔بتاؤں گا اسے کہ میں بےغیرت نہیں ہوں۔"

دھڑام سے دروازہ کھولتا اور اسی سے انداز سے بند کرتا گھر میں داخل ہوا۔تن فن کرتا صحن کے وسط میں رکھی چارپائی کو اس نے غصے اُلٹ دیا تھا۔

"ارے ارے۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو؟"

راحت بانو نے کچن کے دروازے میں کھڑے ہو کر یہ تماشا دیکھا تو فورا گلریز کی طرف دوڑی۔

"ہٹو میرے سامنے سے ورنہ تمھیں بھی اس چارپائی کی طرح اُلٹ دوں گا۔"

گلریز نے اسے دھکا دے کر پرے کیا اور کمرے کی طرف بڑھا تھا۔

"لگتا ہے دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا جو یوں پاگلوں کی طرح حرکتیں کر رہے ہو۔"

راحت بانو دوڑتی ہوئی اسکے پیچھے آئی۔اسے پریشانی تھی کہ وہ اتنے غصے میں ملغلرہ کے کمرے کی طرف کیوں جا رہا ہے۔

"کون سی قیامت آ گئی ہے؟"

راحت بانو نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔

"ملغلرہ کہاں ہے؟ ملغلرہ۔۔۔۔!!"

گلریز نے پوچھتے ساتھ ہی اسے آواز بھی دے ڈالی۔باپ کے پکارنے پہ ملغلرہ فورا کمرے سے باہر نکل آئی پیچھے پلوشہ بھی تھی۔شکیب اس وقت گھر پہ نہیں تھا۔

"کیا بات ہے بابا۔۔۔۔خیر تو ہے نا؟"

اس نے پہلے کبھی باپ کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔گلریز اسے ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی تک لایا اور پھر اسے بیٹھنے کو کہا۔وہ چارپائی پہ بیٹھ گئی۔راحت بانو اور پلوشہ دونوں پریشانی سے گلریز خان کے بولنے کی منتظر تھیں۔

"بابا یہ کیا ہوا۔۔؟ کسی سے لڑ کر آ رہے ہو یا مارا ہے کسی نے؟" 

باپ کے چہرے پہ جبڑے کی ہڈی کے گرد  نیل اب اسے دکھائی دیا تھا۔پریشانی میں راحت بانو کی بھی نظر نہیں پڑی تھی۔اب ملغلرہ کے پوچھنے پہ انکا بھی دھیان اسکے چہرے پہ گیا۔

"وہ کمینہ۔۔۔۔ملک غزنوق خان۔۔۔۔نجانے کیا سمجھتا ہے خود کو۔"

گلریز خان نیل والی جگہ کو دباتے ہوئے بولا۔غزنوق کے نام پہ ملغلرہ نے ایک بیٹ مس کی۔

"کیا ہوا اسے بابا۔۔۔؟"

پلوشہ نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔ملغلرہ کے چہرے کا رنگ سفید پڑا تھا۔

"اسے کچھ نہیں ہوا لیکن اس نے یہ دیکھو کیا حالت کی ہے میری۔۔مجھے اتنا مارا ہے اتنا مارا ہے کہ بس۔۔یہ نیل دیکھو۔۔یہ نشان دیکھو۔۔۔"

اس نے آستین اونچی کی۔

"کیوں مارا ہے اس نے آپکو؟"

پلوشہ نے اپنا دوپٹہ اس کے زخم پہ رکھا۔ملغلرہ کو لگا جیسے اس کی قوت گویائی کہیں گم ہو گئی ہو۔

"کیوں۔۔۔۔؟"

بمشکل اس کی آواز نکلی تھی۔

"پاگل ہو رہا تھا کہ میں تمھیں کیوں اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں۔تمھارے گانا گانے کی وجہ سے آگ لگی ہوئی ہے اسے۔۔۔تم میری بیٹی ہو۔۔میں جو بھی کروں۔۔وہ کون ہوتا ہے مجھ پر اور تم پر پابندیاں لگانے والا۔۔میری بیٹی ہو تم میری بیٹی۔۔۔اسکی بیوی نہیں۔"

گلریز خان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کسطرح دل کی بھڑاس نکالے۔

"مگر بتائیں تو سہی کہ آخر اس نے کیوں مارا ہے آپ کو؟"

ملغلرہ نے ماتھے کے زخم کو دیکھا جو شاید کسی سخت چیز سے ٹکرانے کی وجہ سے آیا تھا۔

"اس نے مجھے بلایا تھا ڈیرے پہ اور پھر میرا یہ حال کر دیا۔اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا تھا ظالم۔۔کمر توڑ دی میری۔ایک لمحے کو مجھ پہ ترس نہیں آیا۔"

وہ کمر سہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا تھا۔

"پر بابا۔۔۔آخر کیوں مارا اس ظالم نے آپکو۔"

پلوشہ نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔اس سے باپ کی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی۔چہرے پہ تھپڑ کا نشان وا ضح دکھائی دے رہا تھا۔

"وہ چاہتا ہے کہ میں تمھیں یہ کام کرنے سے روک دوں اور اگر میں نے ایسا نہ کیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔کہتا ہے میں تمھیں ذبردستی ساتھ لے جاتا ہوں۔"

گلریز نے روتے ہوئے بتایا۔

"وہ کون ہوتا ہے ہمارے معاملات میں بولنے والا۔"

پلوشہ نے ملغلرہ کی جانب دیکھا جو اس کے پاس ہی کھڑی تھی۔اسکے چہرے پہ خوف کی معمولی سی جھلک بھی نہیں تھی مگر اڑی رنگت پلوشہ کے لئے حیرانی کا باعث تھی۔وہ پلوشہ کو اپنے طرف متوجہ پا کر اس کی جانب سے رخ پھیر گئی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے دل کا چور پلوشہ پہ ظاہر ہو۔اسے پلوشہ کی نظریں خود پہ مسلسل محسوس ہو رہی تھیں۔

"بابا۔۔۔آپ کو اسے منہ توڑ جواب دینا چاہئیے تھا۔اسے یونہی کیوں جانے دیا۔"

پلوشہ نے مشتعل نظروں سے باپ کیطرف دیکھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ بعد میں ملغلرہ سے اسکی اڑی رنگت کے بارے ضرور استفسار کرے گی۔اسکا دماغ جس بات کی گواہی دے رہا تھا دل اس بات پہ ایمان لانا نہیں چاہتا تھا۔

"تمھارا دماغ تو درست ہے نا۔۔کیا میں اس قابل تھا کہ اسکا مقابلہ کرتا۔بلا سوچے سمجھے بولتی ہو۔۔ہٹو آگے سے۔۔"

گلریز خان اسے پرے ہٹاتا اپنے کمرے کیطرف بڑھ گیا۔ملغلرہ بھی پیچھے آئی تھی۔

"بابا آپ نے پوچھا نہیں ہے اس سے؟"

گلریز چارپائی پہ بیٹھ کر تکیہ ٹھیک سے رکھ رہا تھا جب ملغلرہ کی آواز پہ پلٹ کر اسے دیکھا۔

"اس نے موقع ہی کب دیا تھا۔بس چڑھ دوڑا مجھ پر۔"

وہ چارپائی پہ لیٹ گیا۔

"پلوشہ بابا کے ہلدی والا دودھ لاو۔میں دوا لے کر آتی ہوں۔"

وہ کمرے میں داخل ہوتی پلوشہ سے بولی۔پلوشہ سر ہلاتی وہیں سے پلٹ گئی۔راحت بانو بھی کمرے میں آ گئی تھی۔

"ظالم نے کیسا مارا تمھیں۔۔ذرا خوف نہیں آیا اللہ کا اسے۔"

راحت بانو نے ملغلرہ کے ہاتھ سے مرہم لے لی اور خود لگانے لگی۔گلریز نے بھی بازو آگے کر دیا۔

"میں ذرا پلوشہ کو دیکھتی ہوں کہاں رہ گئی۔"

یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل آئی۔پرسوچ انداز میں چلتی وہ باورچی خانے میں آئی تھی۔

"بابا کو دودھ دے آو پلوشہ۔۔۔انھیں درد ہو رہا ہے۔"

اس نے گہری سوچ میں ڈوبی پلوشہ کو متوجہ کیا۔پلوشہ نے سر ہلا کر گلاس میں دودھ انڈیلا اور پھر اس کی طرف دیکھے بغیر گلاس ٹرے میں رکھے کچن سے نکل گئی۔ملغلرہ وہیں کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی۔پتہ نہیں کیوں اسکی ہمت نہیں پڑ رہی تھی پلوشہ سے بات کرنے کی۔

"بابا اب آپ کیا کریں گے؟"

پلوشہ دودھ کا گلاس باپ کو پکڑاتے ہوئے ان کے سرہانے بیٹھ گئی۔

"میں جاوں گا ملک شمشیرخان کے پاس۔۔دیکھتا ہوں کیسے ہاتھ لگاتا ہے مجھے۔۔باپ داد کی عزت تو گنوانا نہیں چاہے گا نا۔۔پورے گاوں میں مشہور کر دوں گا۔۔میری بیٹی ہے میں جو چاہے کروں اور کیا میں تمھیں ذبردستی یہ کام کرنے مجبور کرتا ہوں؟"

گلریز نے دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی ملغلرہ سے سوال کیا۔

"نہیں بابا۔۔۔میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں آپ سب کے لئے اور مجھے کوئی شرمندگی نہیں اپنے کام پہ۔۔"

وہ تیزی سے ان کے قریب آئی تھی اور ان کے کندھے پہ تسلی بھرا ہاتھ رکھتے بولی تھی۔

"تم اپنی خوشی سے کر رہی ہو نا۔۔؟"

گلریز نے اس سے ایک بار پھر پوچھا تو اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔

                __________________________________________________________

اسکی آنکھ کھلی تو دن کے دس بج رہے تھے۔آج اس نے خاور کے ساتھ جانا تھا۔وہ سستی سے بیڈ سے نیچے اترا آیا۔وارڈروب سے کپڑے لئے اور سست قدموں سے واش روم چلا گیا۔شاور لینے کے بعد وہ تھوڑا بہتر فیل کر رہا تھا۔وہ لیٹ ہو رہا تھا۔جلدی جلد بالوں میں برش کیا اور نیچے آ گیا۔ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو سلمی بیگم چائے پی رہی تھیں۔وہ سلام کرتا ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"راشدہ۔۔۔! ناشتہ لے آؤ غزنوق کے لئے۔"

سلمی بیگم نے وہیں بیٹھے بیٹھے ملازمہ کو آواز دی۔تھوڑی بعد راشدہ ناشتہ لے آئی۔

"آج تم لیٹ اٹھے۔۔خاور کے ساتھ جانا تھا تم نے آفس۔۔وہ کافی دیر تمھارا انتظار کرتا رہا۔میں نے کہا بھی کہ تمھیں جگا دیتی ہوں مگر اس نے روک دیا تھا۔اب ناشتے کے بعد چلے جانا۔"

انھوں نے اسکے سامنے چائے کا کپ رکھا۔

"جی امی جا رہا ہوں۔۔کس وقت گیا تھا وہ؟"

وہ ناشتے کرتے ہوئے بولا۔

"وہ تو آج نو بجے تک چلا گیا تھا کہہ رہا تھا کہ کوئی کام ہے جلد پہنچنا ہے۔اس لئے شاید تمھارے لئے بھی نہیں رک پایا۔"

وہ اپنے لئے چائے ڈالتے ہوئے بولیں۔ساتھ ہی ساتھ اسکی فُل اسپیڈ میں ناشتہ کرنے کو بھی ملاحظہ کر رہی تھیں۔

"غزنوق۔۔۔آرام سے کرو ناشتہ۔۔"

انھوں نے اپنے لئے چائے ڈالتے ہوئے اسے ٹوکا۔

"بس امی چلتا ہوں۔۔۔اللہ حافظ"

وہ تیزی سے اٹھا اور ان کے سر کا بوسہ لیتا ڈائننگ ہال سے نکل گیا۔وہ روکتی رہ گئیں۔

ریش ڈرائیونگ کرتا وہ آفس پہنچا تھا۔وہ بناء ناک کیے مسکراتا ہوا خاور کے کیبن میں داخل ہوا تھا مگر سامنے کا منظر اس کا خون کھولا گیا۔گلریز خان چہرے پہ دنیا جہان کی معصومیت سجائے خاور کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔غصے کی ایک شدید لہر اس کے رگ و پے میں اتر گئی۔وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔غزنوق کو دیکھ کر گلریز خان کا بھی خون خشک ہوا تھا۔اسے اسکی دھمکیاں یاد آ رہی تھیں اور اب وہ دھمکیاں قہر بنی غزنوق کی آنکھوں میں اسے دِکھ رہی تھیں۔

"بےغیرت۔۔بےشرم انسان۔۔تو یہاں بھی پہنچ گیا۔"

وہ اس پہ جھپٹا تھا مگر خاور نے بیچ میں آ کر گلریز خان کو بچایا۔

"غزنوق۔۔۔آرام سے بیٹھ کر بات کو۔۔یہ کیا طریقہ ہے۔تم ایک بار پہلے بھی اسے ڈیرے پہ بُلا کر اپنا غصہ ٹھنڈا بکر چکے ہو۔کچھ تو جگہ کا لحاظ کرو۔۔یہ میرا آفس ہے۔"

وہ اسے گلریز پہ چڑھائی کرنے سے روکے ہوئے تھا۔

"خاور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔..مگر نہیں۔۔یہ تو اس قدر ڈھیٹ انسان ہے کہ اس پہ لاتیں بھی بےاثر ثابت ہوئیں۔"

اس نے ایک جانب کیا اور اگلے ہی لمحے وہ گلریز خان کو جھنجھوڑ رہا تھا۔

"چھوڑو اسے غزنوق۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو۔۔خان بابا یہیں موجود ہیں۔اسطرح تمھارے ہنگامہ کرنے سے وہ یہاں آ جائیں گے۔"

خاور نے اس کی گرفت سے گلریز کی قمیص کا کالر چھڑوایا۔

"تم جانتے نہیں ہو اسے۔۔یہ جتنا معصوم بن رہا ہے اتنا ہی چالاک انسان ہے۔۔۔اس نے میری۔۔۔"

وہ بہت زورآور ہو رہا تھا۔اس نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں کے نشان گلریز کے چہرے پہ نقش و نگار چھوڑ گیا تھا۔ایک پل کو تو گلریز خان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔اس سے پہلے کہ خاور اس کی مزید درگت بناتا خاور نے اسے پکڑا۔

"گلریز خان تم جاو یہاں سے۔"

خاور منہ پہ ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی طرف دیکھتے گلریز سے کہا۔وہ تیزی سے پیچھے ہوا ورنہ ایک اور تھپڑ اسے دن میں تارے دکھا دیتا۔

"خبردار جو ایک قدم بھی یہاں سے باہر نکالا۔۔زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔آج تیرا فیصلہ یہیں کروں گا۔"

غزنوق کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔اگر خاور وہاں موجود نہ ہوتا تو واقعی میں گلریز کا قصہ ختم کر دیتا۔گلریز خان دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"اور ہاں۔۔۔خبردار جو تم اس بات کو لے کر خان بابا کے پاس گئے۔اگر مجھے معلوم ہوا تو غزنوق سے پہلے میں تمھارا فیصلہ کر دوں گا۔اب جاو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"

خاور نے وارننگ دیتی نظروں سے گلریز کو دیکھا۔غزنوق کا بازو اسکی گرفت میں تھا۔گلریز وہاں سے فورا نکلا۔اسکے جانے کے بعد غزنوق نے جھٹکے سے اسکا بازو چھڑایا۔

"کیوں اپنا تماشا بنا رہے ہو۔۔پورے جہان میں کیا وہ ایک ہی لڑکی ہے۔وہ تمھاری پہنچ سے دور ہے۔تم کیوں ریلائیز نہیں کرتے کہ تم دونوں کا ایک ہونا ممکن نہیں۔تم دونوں الگ راہ کے مسافر ہو۔جتنی جلدی ہو سکے سمجھ لو اس بات کو۔"

خاور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کسطرح وہ اسے سمجھائے۔اس نے دیکھا تھا کہ کسطرح وہ گلریز خان پہ جھپٹا تھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس قدر جارحانہ انداز اپنا سکتا ہے۔

"بےشک وہ مجھے نہ ملے۔۔چاہے میرے اور اسکے راستے الگ الگ ہوں پَر میں اسے اس دلدل میں نہیں رہنے دوں گا۔لوگوں کی آنکھوں کا نوالہ بننے نہیں دے سکتا۔نصیب میں نہیں بدل سکتا مگر میں نصیب بسے لڑنے کی طاقت تو رکھتا ہوں۔میں اسے اس جہنم سے نکال کر دم لوں گا۔"

وہ مٹھیاں بھینچے خاور کو دیکھ رہا تھا۔

"مجھے نہیں لگتا کہ ملغلرہ گلریز کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں ہو رہی ہے۔وہ جو بھی کر رہی ہے اپنی خوشی سے کر رہی یے۔"

خاور نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی۔

"جو بھی ہو میں اسے اس غلاضت میں نہیں رہنے دے سکتا اور یہ شخص۔۔۔اسے دیکھتا ہوں تو میرا  خون کھولنے لگتا ہے۔۔اسے میں قطعی نہیں چھوڑوں گا۔سوچ سوچ کر میرے دماغ کی نسیں پھٹنے لگتی ہیں اور یہ ذلیل شخص۔۔"

اس نے قریب پڑی کرسی کو ٹھوکر ماری۔

"غزنوق کُول ڈاؤن یار۔۔۔تم اتنے غصیلے تو نہیں تھے۔سنبھالو خود کو۔۔یہ سب تمھیں زیب نہیں دیتا۔تم ایک مضبوط شخص ہو اس طرح گلریز خان کو دیکھ کر اپنا اپا کھو دینا ٹھیک نہیں ہے۔"

اس نے اسے کرسی پہ بٹھایا اور اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھانے کے انداز میں بولا تھا۔

"یار اس شخص نے میرے لیے اسے حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں۔میرے لئے اسے پانا پہلے آسان نہیں تھا اور اب تو۔۔۔۔اب تو زمین آسمان کا فاصلہ ہے اور اس بیچ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔۔خان بابا نہیں مانیں گے۔"

وہ سر تھامے بیٹھا تھا۔

"تم ملغلرہ کے معاملے میں سیریس ہو؟"

خاور اسکے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے ایک بار پھر تسلی کرنی چاہی۔

"تمھیں اب بھی لگ رہا ہے کہ میں غیر سنجیدہ ہوں؟"

اس نے حیرانی سے پوچھا۔

"میرا مطلب ہے تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔۔اگر ایسا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ خان بابا، بابا اور باقی سب گھر والے تو نہیں مانیں گے۔۔اور ملغلرہ بھی ایک جیتی جاگتی لڑکی ہے۔تمھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا چاہتی ہے۔"

خاور کی بات پہ خاموش نظروں سے اس نے اسکی طرف دیکھا۔اس نے تو اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔وہ کیا سوچتی ہے اُس کے متعلق یہ جاننے کی تو کوشش ہی نہیں کی تھی اس نے۔"

"میں یہی چاہتا ہوں کہ تم ہر اینگل سے معاملے کو دیکھو پھر کوئی فیصلہ کرو۔فرض کرو کہ ایسا نہ سوچتی ہو۔۔"

خاور نے اس کے پرسوچ چہرے کو دیکھ کر کہا۔

"اس کے لئے یہی کافی ہے کہ میں اسے چاہتا ہوں۔"

وہ سرخ آنکھوں کو خاور پہ مرکوز کرتے ہوئے بولا۔خاور اس کی بات سن کر ہنس دیا۔

"میرے خیال میں تمھیں اس سے مل کر معلوم کر لینا چاہیئے۔۔کیا خیال ہے؟؟؟

خاور اس پہ سوچوں کے نئے در والے کرتا کیبن سے نکل گیا۔

           ____________________________________________________________________

وہ دونوں اس وقت کسی میٹنگ کے بارے میں کچھ ڈسکشن کر رہے تھے کہ انٹر کام پر ریسپشنسٹ نے بتایا کہ کوئی لڑکی ان سے ملنے آئی ہے اور ساتھ دو دن پہلے آنے والا شخص گلریز خان بھی ہے۔نام سُننے کے بعد خاور نے ایک نظر غزنوق کے طرف دیکھا وہ اس وقت فائل دیکھنے میں مصروف تھا۔

"کہہ دو کہ صاحب اس وقت میٹنگ میں ہیں نہیں مل سکتے"۔

خاور نے اسے مصروف دیکھ کر ملنے سے منع کر دیا۔لڑکی کا نام معلوم نہ ہونے کے باوجود وہ جان گیا تھا کہ وہ کون ہوگی۔

"کون ہے بلوا لو ویسے بھی اب ڈسکشن تو ہوگئی ہے بس طے ہوا کہ میں چلا جاؤں گا اور پارٹی سے معاملات خود طے کرلوں گا اگر تم ساتھ چلنا چاہو تو چلو۔"

غزنوق نے فائل سے نظر ہٹا کر اسے خاموش دیکھ کر کہا۔

"نہیں کچھہ خاص نہیں ہے پھر کبھی مل لیں گے۔ابھی تو میں تھک گیا ہوں۔چائے منگوا کر پیتے ہیں۔"

وہ فون رکھ چکا تھا۔اتنےمیں انٹرکام دوبارہ بجا۔خاود نے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

"یار کیا مسئلہ ہے اٹھاؤ نا۔۔کہہ دو اگر ملنے کا موڈ نہیں ہے۔" 

غزنوق نے اسکی ناگواری کو محسوس کرتے ہوئے حیرانی سے کہا۔نارملی وہ ایسا کرتا نہیں تھا۔خاور نے فون اٹھایا۔

"زنیب میں نے آپ سے کہا ہے نا کہ مجھے اس وقت نہیں ملنا کسی سے۔" 

دوسری جانب سے نجانے زینب نے کیا کہا کہ وہ غصے سے کھول اٹھا۔

"آپ ان سے کہیئے کہ میں ان سے ملنا نہیں چاہتا۔"

یہ کہہ کر اس نے غصے سے فون کاریڈل پہ پٹخ دیا تھا۔

"کون ہے جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہے ہو؟"

غزنوق نے حیرانی سے پوچھا۔

"کچھ نہیں یار......بس کچھ لوگ اپنی طرح ہمیں بھی فارغ سمجھتے ہیں۔"

خاور نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر غصے کو کنٹرول کیا۔

"کول ڈاؤن یار....."

اس نے فائل خاور کی طرف بڑھائی۔خاور نے فائل اسکے ںاتھ سے لے لی اور کھول کر یونہی سرسری نظر ڈالنے لگا۔غزنوق بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا کہ کوئی دھڑام کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔اس نے پلٹ کر دیکھا اور پھر جیسے پتھر کا بن گیا۔ خاور تو ملغلرہ کو دیکھ کر ایک دم کھڑا ہو گیا تھا۔وہ جس تیزی سے اندر آئی تھی انھیں حیران کرنے کےلئے کافی تھا۔

"آپ سے ملنے کا شوق مجھے بھی نہیں ہے مگر کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ کس حق سے آپ لوگوں نے میرے والد کو ذہنی اور جسمانی ازیت دی ہے۔میں آپ لوگوں کے خلاف پولیس کمپلینٹ کروں گی۔"

تیز آواز سے دروازہ بند کرتی بلند آواز میں بولتی قریب آئی تھی۔سیاہ شال میں میک اپ سے مبرا چہرہ دمک رہا تھا۔ملائی جسی رنگت غصے کے باعث سرخ ہورہی تھی غزنوق کھڑا ہوگیا۔وہ اسکے اتنے قریب کھڑی تھی کہ وہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا۔اسکے ملبوس سے اٹھتی مہک غزنوق کے حواسوں پہ چھارہی تھی۔

"محترمہ یہ کیا طریقہ ہے کسی کی بناء اجازت کے ان کے کام میں مُخل ہونے کا۔"

خاور نے غزنوق کی حیران صورت دیکھتے ہوئے خود بات شروع کی۔

"یہ تمیز پہلے آپ لوگ خود سکیھ لیں تو بہتر ہوگا-"

ملغلرہ یہ کہتے ہوئے غزنوق کی جانب مڑی تھی۔خاور کو اپنا آپ مس فٹ لگا مگر وہ غزنوق کو کسی بھی بیوقوفی کے لئے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔غزنوق کسی مجسمے کی صورت ساکت کھڑا تھا۔اسے لگ رہا تھا جسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔

"کیوں مارا ہے آپ نے میرے والد کو۔" 

وہ بِلاخوف وخطر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہی تھی۔غزنوق اسکی بات سن کے اپنے حواس کنڑول کرتا میز سے یوں ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا جسے اسکی صورت کو نگاہوں کے ذریعے دل میں بسانے کا قصد کیے ہو۔

"میں آپ سے مخاطب ہوں۔"

تیز ہوتی دھڑکنوں کو اگنور کرتی وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

"کیا پوچھ رہی تھیں آپ؟"

یہ پوچھتے ہوئے وہ اسے وہی چند سالوں پہلے والا غزنوق لگا تھا۔وہ تو یوں اس سے پوچھ رہا تھا جیسے دونوں کے درمیان حالات کافی سازگار ہوں۔

"ابھی مارا کہاں ہے ابھی تو وہ زندہ سلامت ہے آپ کے سامنے لیکن اگر صورت حال میں تبدیلی نہ آئی جس کا میں خواہاں ہوں تو شاید سلامت نہ رہ سکیں آپ کے والدِ محترم-"

بات کرنے کا یہ موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا اس لئے سینے پہ ہاتھ باندھے پرسکون انداز میں بولا۔نظریں ابھی بھی ملغلرہ کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئی تھیں۔

"جان سکتی ہوں کس حق سے آپ نے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔"

ملغلرہ نے بھی اسکا انداز اسے لوٹایا۔

"غزنوق ہنس دیا تھا جبکہ خاور یوں ظاہر کررہا تھا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔

"یار دیکھو حق کا پوچھ رہی ہے۔اس نے پلٹ کر خاور کو متوجہ کیا۔"

غزنوق مجھے لگتا ہے کہ یہی مناسب موقع ہے اگر بیٹھ کر اس مسئلے کو سارٹ آؤٹ کرلیا جائے۔ خاور نے اس کی مسکراتی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔غزنوق سر ہلا کر واپس ملغلرہ کی جانب مڑا۔

"میرا ہی تو حق ہے-"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ ملغلرہ نے فورا نظروں کا رخ پھیرا اسکی نظروں کا تاب لانا اسکے بس میں نہیں تھا۔" 

اور آپکو یہ حق کس نے دیا؟

"وہ یہ پوچھنے سے خود کو نہ روک سکی۔"

"آپکی آنکھوں نے۔"

وہ ایک بار پھر سیاہ آئینوں میں دیکھنے کی جرات کرتے ہوئے بولا۔

"آ پ کا رویہ قطعی غیر مناسب ہے۔میں آپ کو یہاں یہ بتانے آئی ہوں کہ اگر آیندہ میرے والد پہ ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی تو میں آپکے خلاف پولیس کمپلینٹ کروں گی۔ لہذا آئندہ احتیاط برتیٔے گا۔"

یہ کہہ کر وہ رخ پلٹ کر جانے لگی تھی کہ غزنوق نے بازو آگے کرکے اسے جانے سے روکا۔

"تم میری بات مان لو.... میں تمھاری۔"

غزنوق کے دوٹوگ انداز میں کہنے پہ وہ مڑی تھی۔

"آپ کو کوئی حق نہیں ہمارے ذاتی معاملات میں دخل دینے کا۔"

وہ قدرے بلند آواز میں بولی تھی۔

"تمھارا باپ تم سے یہ سب ذبردستی کروا رہا ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتی۔"

عزنوق کا انداز اپنائیت لئے ہوئے تھا۔ایک پل کو تو ملغلرہ کو یوں لگا جیسے اسکا دل بند ہو جائے گا۔۔کلائی پہ اسکے ہاتھ کا لمس ایک بار پھر سے دہکنے لگا اور چہرے سے گرم دھواں سا اٹھنے لگا تھا۔وہ اس کے کہنے پہ دنیا چھوڑ دیتی مگر باپ کا بھرم رکھنا بھی ضروری تھا۔

"میں یہ سب اپنی مرضی اور خوشی سے کر رہی ہوں۔میرے ساتھ کسی نے زبردستی نہیں کی۔"

وہ رخ پلٹ کر دھیرے سے بولی۔

"میں نہیں مانتا۔"

عزنوق اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔

"میں نے کہا ہے نا کہ۔۔۔۔۔۔"

دروازہ کھلنے کی آواز پہ دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا۔دروازے کے بیچوں بیچ کھڑے گلریز خان کو دیکھ کر غصے کی ایک شدید لہر غزنوق کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔

"ملغلرہ۔۔۔!"

گلریز خان تیزی سے ملغلرہ کی طرف بڑھا۔

"چلو گھر۔۔۔۔مجھے باہر روک کر تم اندر گپ شپ میں لگ گئی ہو۔میں کب سے باہر کھڑا انتظار کر رہا ہوں۔"

اس نے بیٹی کا ہاتھ تھاما۔شدید غصے میں ہونے کے باوجود غزنوق نے ملغلرہ کے سامنے خود کو کنٹرول کیا۔

"جی بابا چلیں۔"

اس نے باپ کے الفاظ میں چھپے طنز کو بڑی مشکل سے برداشت کیا اور اس کے ساتھ آگے بڑھی۔

"اور ہاں۔۔۔ہمارے معاملات سے دور رہئیے۔"

وہ جاتے جاتے پلٹی تھی۔

"ہاں دور ہی رہو خان۔۔ورنہ اس بار تھانے میں رپورٹ درج کرواؤں گا۔وہ کیا نام ہے اس انسپیکٹر کا جو ناچ گانا دیکھنے آتا ہے۔۔۔خالدہ خانم کے گھر۔۔۔کمبخت کا نام بھول گیا مجھ سے۔"

وہ ذہہن پہ ذور ڈالتے ہوئے وہ ملغلرہ کو دیکھ رہا تھا جسکے سرخ و سفید رنگ میں ایک دم سے ذردی گھلی تھی۔اسکا جی چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔وہ نظریں جھکائے خاموش کھڑی رہی۔

"ارے وہی جو دو ہفتے پہلے ہمارے گھر بھی آیا تھا۔تمھاری آواز کتنی پسند ہے اسے اور کتنے پیسے دے کر۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا غزنوق اس پہ جھپٹ پڑا۔

"بےغیرت انسان۔۔"

غزنوق نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پے در پے تھپڑوں سے اسکا منہ لال کر دیا۔ملغلرہ مسلسل چیختے ہوئے باپ کو اسکی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرتی رہی مگر غزنوق پہ تو جیسے خون سوار ہو گیا تھا۔شور سن کر خاور جو کہ انھیں تنہا چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا تاکہ غزنوق آرام سے بات کر لے تیزی سے اندر آیا۔اندر کا حال دیکھ کر وہ غزنوق کی طرف بڑھا جو لاتوں اور گھونسوں سے گلریز خان کی خوب تواضع کر رہا تھا۔ملغلرہ غزنوق کو پیچھے ہٹانے کی کوششوں میں ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔

"غزنوق چھوڑو اسے۔۔کیا کر رہے ہو۔۔مر جائے گا وہ۔۔چھوڑو۔۔"

خاور نے بپھرے ہوئے غزنوق کو کمر سے گھیرے میں لے کر پیچھے کیا۔گلریز نے خود کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ اس کے عتاب سے بچ نہیں سکا تھا۔اب پیٹ پکڑے لیٹا تھا۔ملغلرہ باپ کی حالت دیکھ کر رونے لگی تھی۔

"تم اس کمینے باپ کے لئے رو رہی ہو۔اس باپ کے لئے جس نے تمھاری عزت کو سرعام تار تار ہونے کے لئے چھوڑ دیا ہے اور بتاتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اسے۔میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔اس گھٹیا انسان کو جینے کا کوئی حق نہیں۔"

وہ خود کو خاور کی گرفت سے آزاد کراتا گلریز پہ چڑھ دوڑا۔جو ملغلرہ کا سہارا لئے کھڑا تھا۔اس بار گلریز نے اسے پیچھے دھکیلا۔۔وہ پیچھے کھڑے خاور سے ٹکرایا تھا۔

"میں تمھیں جیل پہنچاوں گا خان۔۔چھوڑوں گا نہیں۔"

گلریز ہانپتا ہوا بولا۔

"میں تمھیں اس قابل چھوڑوں گا تو جاؤ گے نا۔"

خاور نے غزنوق کو بازوں سے مضبوطی سے پکڑا تھا مگر وہ خود چھڑاتا گلریز کو مارنے کے لئے آگے بڑھا۔

"میرے بابا ہیں۔۔مجھے مار بھی دیں گے تو اف نہیں کروں گی۔"

اس بار ملغلرہ نے چیختے ہوئے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر دھکا دیا تھا۔وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور ایک بار پھر خاور سے جا لگا۔

"اپنی حد میں رہو۔"

انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتی وہ باپ کے آگے آ کھڑی ہوئی۔گلریز نے بیٹی کو شاباش دیتی نگاہوں سے دیکھا۔وہ جانتا تھا کہ اسکی بیٹی صرف اسکی بیٹی ہے۔کوئی دوسرا رشتہ اس رشتے کو پاٹ نہیں سکتا۔وہ اپنا فرض نبھا رہی تھی۔باپ کی تکلیف وہ اپنے دل پہ محسوس کر رہی تھی مگر گلریز بیٹی کی آنکھوں میں جلتے دیوں کو بجھانے میں لگا تھا۔اس دئیے کو روشن کر کے وہ اپنے گھر کا چراغ گل نہیں کر سکتا تھا۔

"میری حد۔۔۔۔"

غزنوق نے اسکے اس عمل کو حیرانی سے دیکھا۔ملغلرہ کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔

"ہاں تمھاری حد۔۔"

اس نے شہادت کی انگلی اس کی طرف اٹھائی۔

"کیا حد ہے میری۔۔۔؟"

غزنوق قہر بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا اس کے قریب آیا۔

وہ دونوں اس وقت کمرے کے بالکل وسط میں کھڑے تھے۔ملغلرہ کے پیچھے کرسی پہ گلریز خان بیٹھا تھا جبکہ خاور غزنوق کے پیچھے خاموش کھڑا تھا۔

"میں تمھاری حد نہیں ہوں ملک غزنوق خان۔۔نفرت کرتی ہوں میں تم سے۔۔۔شدید نفرت۔۔۔اگر اس کے بعد تم میرے باپ کی طرف بڑھے تو اس کے لئے تمھیں میری لاش پر سے گزرنا پڑے گا۔"

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی بولی۔

"اس باپ کے لئے۔۔۔جس نے۔۔۔"

وہ چلایا۔

"ہاں ہاں اس باپ کے لئے۔"

وہ اس بھی زیادہ تیز آواز میں چلائی۔

"اس باپ کے لئے جس نے تمھیں طوائف بنا ڈالا۔۔۔"

غزنوق نے اسے بازوں سے تھام کر اپنے قریب کیا۔ان الفاظ پہ وہ اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔

"طوائف۔۔۔۔"

ملغلرہ کے ہونٹوں نے بےآواز جنبش کی۔

"تم مجھے طوائف سمجھتے ہو۔۔؟"

آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے تھے۔آنکھوں میں جمع ہوتے پانی میں غزنوق کا عکس دھندلانے لگا۔

"تم یہی تو بن گئی ہو ملغلرہ۔۔۔تم یہی ہو۔"

وہ چاہتا تو اسکے آنسو پونچھ کر اسے تپتے صحرا سے نکال سکتا تھا مگر وہ تو اسے ایسی تکلیف میں مبتلاء کر گیا تھا جسکا درد شاید اسے سکون سے مرنے بھی نہیں دے گا۔اس نے تو اسے ایسی زمین پہ لاپٹخا تھا جسکا کوئی آسمان نہیں تھا۔

"تمھارا باپ تمھیں بیچ دے گا ملغلرہ۔۔۔تمھاری واحد پناہ میں ہوں۔چھوڑ دو یہ سب۔۔۔ایک طوائف کی زندگی۔۔۔۔"

"بس۔۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔"

وہ حلق کے بل چلائی تھی۔

"ہوں میں طوائف اور رہوں گی طوائف۔۔میرا باپ مجھے بیچ دے یا میرا ہاتھ کسی راہ چلتے کو تھما دے۔تمھیں اس سے کیا۔۔تم کون ہوتے ہو ایک طوائف کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی۔۔"

اس نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ رگڑ ڈالا۔

"میں کون ہوتا ہوں۔۔۔کیا تم نہیں جانتی۔۔میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔۔۔۔"

"ہونہہ۔۔!! محبت۔۔۔اور وہ بھی مجھ سے۔۔ایک طوائف سے محبت۔۔ابھی کچھ دیر پہلے تم نے مجھے اسی نام سے پکارا تھا نا۔۔تو کیا تم نہیں جانتے کہ طوائفوں کی زندگی میں شوہر نہیں ہوا کرتے۔۔"

اسکے الفاظ کی کاٹ غزنوق کو تکلیف سے دوچار کر گئی تھی۔وہ رخ پھیر گیا۔

"طوائفوں کی زندگی کے سیاہ رنگ میں کوئی بھی رنگ شامل ہو۔۔۔سیاہ ہو جاتا ہے ملک غزنوق خان۔۔بہتر ہوگا تم اپنا سرخ رنگ سرخ ہی رہنے دو۔میرے نام کی سیاہی تمھارا حسب نسب بھی سیاہ کر دے گی۔"

یہ کہہ کر وہ تیزی سے گلریز خان کے ساتھ سے دروازے کی طرف بڑھی۔عزنوق ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔وہ اسے روکنا چاہتا تھا مگر قدموں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

"اور ہاں۔۔۔آئیندہ میرے باپ کو ذرا سی بھی کھرونچ آئی تو میں بھول جاوں گی کہ تمھاری برداشت کی حد کتنی ہے اور پھر وہ کروں گی جسکا تم نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔جو نہیں ہوں وہ بن کے دکھا دوں گی۔"

وہ بناء پلٹے بولی اور پھر دروازے سے باہر نکل گئی۔

خاور نے اس کے کندھے پہ تسلی بھرا ہاتھ رکھا۔خاور نے شکر کیا کہ باہر نکلتے ہی اس نے سچویشن کے پیش نظر تمام اسٹاف کو چھٹی دے دی تھی ورنہ اس وقت یہ تماشا سارا اسٹاف دیکھ رہا ہوتا۔اس نے باہر نکلتے ہی باہر صوفے پہ بیٹھے گلریز خان کو دیکھ لیا تھا۔

"یہ میں نے کیا کر دیا۔۔خود کو اسی صف میں کھڑا کر دیا جہاں سب کھڑے ہیں۔"

وہ کرسی پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔

"تم نے کچھ نہیں کیا۔۔تم خود کو الزام مت دو۔اس کہانی کو یونہی ختم ہونا تھا۔"

وہ کرسی گھسیٹ کر اسکے پاس بیٹھ گیا۔

"ہاں شاید کہانی کو یونہی ختم ہونا تھا۔"

وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔

        ___________________________________________________________________________

وہ کس طرح ٹوٹی بکھری گاڑی تک پہنچی تھی یہ وہی جانتی تھی۔غزنوق کے الفاظ کسی نیزے کی طرح اسکے دل میں گڑے تھے۔ایسا زخم جو شاید کبھی مندمل نہ ہو سکے گا۔گلریز کی بھی حالت ٹھیک نہیں تھی وہ ڈرائیونگ نہیں کر سکتا تھا اس لئے گاڑی وہ چلا رہی تھی غزنوق کے الفاظ اس کا جگر چھلنی کر گئے تھے۔وہ اسے کیا سمجھ رہا تھا۔۔۔ایک طوائف۔۔۔

"وہ تمھیں ایک طوائف سمجھتا ہے۔"

اس کے اندر سے آواز آئی تھی۔۔چھناکے کی آواز سے کچھ ٹوٹا تھا۔وہ ان کرچیوں کو سمیٹتی ہلکان ہو رہی تھی۔اُس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا جس کے بدلے میں ایسی سیاہی اسکے نام کے ساتھ جوڑی جاتی۔۔جس کی بناء پہ اسے طوائف سمجھا جاتا۔۔وہ تو نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔لوگوں نے اسکا کیسا عکس بنا دیا تھا کہ غزنوق کو اسکی آنکھوں کے شفاف کانچ بھی دکھائی نہیں دیئے۔وہ کس طرح اس پہ الزامات کی بوچھاڑ کیے جا رہا تھا۔یہ جانے بغیر کہ اس کے الفاظ اسے کتنی تکلیف پہنچا رہے ہیں۔اسے کسطرح توڑ رہے ہیں۔بظاہر تو آنکھیں خشک تھیں مگر اندر ہی اندر لاوا گر رہا تھا۔

"ملغلرہ۔۔۔۔تھانے چلو۔۔تم گھر کیوں جا رہی ہو۔پہلے ہم تھانے جائیں گے۔"

وہ سوچوں کے بھنور میں غوطہ زن تھی۔گلریز خان کی آواز اسے سنائی نہ آئی۔وہ ملغلرہ کو گاڑی گھر کے راستے پہ ڈالتے دیکھ کر بولا تھا۔خود سے جنگ کرتی وہ اردگرد کے ماحول سے بالکل الگ لگ رہی تھی۔

"ملغلرہ۔۔۔!!"

گلریز خان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے متوجہ کیا۔

"جی بابا۔۔۔وہ ناسمجھی کے انداز میں باپ کو دیکھنے لگی۔

"تھانے چلو۔۔۔۔پہلے اس کے خلاف رپورٹ درج کرائیں گے۔"

گلریز نے بیٹی کی غائب دماغی کو ناگواری سے دیکھا۔

"نہیں بابا۔۔۔۔وہ امیر لوگ ہیں۔۔یہاں عزت دولت والوں کی ہوتی ہے۔۔ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔یہ نہ ہو کہ ہم ان کے خلاف جاتے جاتے اپنے لئے ہی گڑھا نہ کھود لیں۔وہ ہمارے خلاف ایک محاذ کھول لیں گے۔بہتر ہے کہ ہم خاموشی اختیار کرلیں ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔"

اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا اور گاڑی کی اسپیڈ بڑھائی۔

"مگر۔۔۔۔۔"

"اگر مگر کچھ نہیں بابا۔۔ابھی کوئی اور کسر باقی رہ گئی ہے جو آپ پوری کرنا چاہتے ہیں۔"

اس کے سرد انداز پہ گلریز خان خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔اسے بیٹی کا یخ بستہ رویہ ایک آنکھ نہ بھایا۔

"ٹھیک ہے مگر میں خاموش نہیں رہوں گا۔سارے علاقے میں یہ عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دوں گا۔ملک شمشیر خان خود تو بڑا عزت دار بنا پھرتا ہے اور پوتے کے کرتوت اسے دکھائی نہیں دیتے۔برادری والوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔"

وہ زیادہ دیر خاموش نہ رہ سکا۔اسکا سارا بدن جیسے ٹوٹ رہا تھا۔ابھی پچھلی دُرگت بھولی نہیں تھی کہ زخموں پہ مزید زخم لگوا لیے تھے۔

"بابا آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی میں ایسا چاہتی ہوں کہ وہ ہمارا جانی دشمن بن جائے۔آپ نے دیکھا نہیں کسطرح مار رہا تھا وہ آپکو جیسے مار ہی ڈالے  گا آپکو۔۔۔۔اور آپ اسکا خود پہ کیا گیا ایک وار بھی نہیں روک سکے تھے۔اب ایسا مزید کچھ نہیں کریں گے ورنہ وہ ہمیں مارنے کے درپے ہو جائے گا۔دفع کریں۔۔۔ہمیں اس راستے جانا ہی نہیں جہاں اسکے موجود ہونے کا اندیشہ بھی ہو۔"

گاڑی گھر کے قریب میدان میں کھڑی کرتی وہ چابی باپ کے حوالے کر کے گاڑی سے اتر گئی۔گلریز خان نے گاڑی لاک کی اور لنگڑاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔ملغلرہ نے دروازے پہ دستک دی اور  مڑ کر باپ کو  دیکھا۔باپ کو اس حالت میں دیکھکر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔

"تم کہاں گئی تھی۔۔شہیر خان کئی بار کال کر چکا ہے۔میں نے ریسیو کر کے کہہ بھی دیا تھا کہ تم گھر پہ نہیں ہو مگر پھر بھی۔۔۔۔۔میرا دماغ خراب کر دیاہے اس نے۔۔مجبوراً مجھے فون آف کرنا پڑا۔"

دروازہ کھولنے پہ جیسے ہی پلوشہ کی نظر اس پہ پڑی وہ نان اسٹاپ شروع ہو گئی تھی جبکہ وہ بےزاری ظاہر کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔پلوشہ پلٹ کر اس کے پیچھے آئی تھی۔

"تم اس سے بات کر لو۔"

پلوشہ کی آواز میں اکتاہٹ محسوس کی جاسکتی تھی اور اپنی اکتاہٹ میں اسے بہن کے چہرے کی بےزاری دکھائی نہیں دے رہی تھی جبکہ گلریز خان نے جیسے ہی شہیر خان کا نام سنا تو اپنی تکلیف بھول کر جلدی سے دروازہ بند کرتا پلوشہ کے پیچھے آیا تھا۔

"تم اسے منع کر دیتی۔"

اس نے چادر اتار کر بیڈ پہ پھینکی۔اسکا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر پلوشہ نے پلٹ کر باپ کو دیکھا۔گلریز خان کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔پلوشہ کی سوالیہ نظریں اپنی طرف اٹھتے دیکھ کر وہ اندر آ گیا۔پلوشہ نے پلٹ کر بیڈ پہ پڑی چادر اٹھائی اور تہہ کرتی بغور اسکا جائزہ لینے لگی۔

"کیا ہوا۔۔؟؟"

وہ الماری کھولے کھڑی ملغلرہ کے پاس آئی تھی۔پلوشہ کے سوال نے اسکی خشک آنکھوں کو پُرنم کیا۔پلکیں جھپک جھپک کر اس نے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا۔وہ ان کے سامنے کمزور ۔پڑنا نہیں چاہتی تھی۔

"کچھ نہیں۔۔سب ٹھیک ہے۔۔تم بابا کو دودھ گرم کر دو اور دوا بھی دے دو۔"

اس نے الماری بند کی۔

"بابا۔۔۔۔۔سب خیر ہے نا۔۔؟"

اب پلوشہ کا رخ باپ کی جانب تھا۔

"ظالم نے مار مار کر ادھ مُوا کر دیا۔۔۔"

وہ رونی صورت بنائے پلوشہ کے پاس آیا۔وہ انھیں لنگڑاتے دیکھ کر انھیں سہارا دینے کے لئے ان کے قریب آئی۔

"کس نے مارا ہے۔۔۔کیا آپ لوگ ملک غزنوق خان کے پاس گئے تھے؟"

اس کے پوچھنے پہ گلریز خان نے اثبات میں سر ہلایا۔

"اُف۔۔۔کیوں لے کر گئی تھی تم بابا کو وہاں۔۔۔تمھاری وجہ سے بابا کو پھر اتنی تکلیف سہنی پڑی۔مجھے تم سے ایسی بیوقوفی کی توقع نہیں تھی ملغلرہ۔"

پلوشہ نے گلریز خان کو سہارا دے کر بیڈ پہ بٹھایا اور ملغلرہ پہ چڑھ دوڑی۔

"ہم صرف بات کرنے گئے تھے۔۔۔بات ہو گئی بلکہ بات ختم ہو گئی۔اب آپ دونوں کیا مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیں گے۔"

اس نے پلوشہ کو اس انداز سے دیکھا کہ پلوشہ جو کہنا چاہ رہی تھی بھول گئی۔

"ہاں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔"

پلوشہ اسکے خراب موڈ کو دیکھتے ہوئے گلریز خان کو لئے کمرے سے نکل گئی۔ان دونوں کے جانے کے بعد اس نے دروازہ بند کیا اور لائٹ آف کر دی۔کمرے میں بالکل اندھیرا چھا گیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے اندازے سے چلتی بیڈ پہ آ گئی تھی۔تنہائی میّسر ہوئی تو دل کی تکلیف کا احساس مزید بڑھ گیا۔

میرے دکھ کی کوئی دوا نہ کرو

مجھکو مجھ سے ابھی جدا نہ کرو

یہ سکھایا ہے دوستی نے ہمیں

دوست بن کر کبھی وفا نہ کرو

تکیے پہ سر رکھے وہ دھیرے دھیرے گنگنانے لگی۔۔متواتر بہتے آنسو اس کا چہرہ بھگوتے جا رہے تھے اور دل کے زخموں سے خون رسنے لگا تھا۔وہ کیوں ایسے راستے پہ چل نکلی تھی جسکی کوئی منزل نہیں تھی۔جہاں کوئی ہمسفر نہیں تھا۔غزنوق کی آنکھوں میں دکھتے چاہت کے رنگ بھی اسکے دل پہ جمی کائی کو ہٹا نہیں سکتے تھے۔

ناخدا کو  خدا کہا ہے تو پھر

ڈوب جاؤ خدا خدا نہ کرو

عشق ہے عشق یہ مذاق نہیں

چند لمحوں میں فیصلہ نہ کرو۔۔

اس نے اپنی کلائی پہ روشن لمس کو ہلکے سے چُھوا۔وہ بھیگی آنکھوں سمیت مسکرا دی۔طوفانوں سے نبردآزما آنکھیں ساگر میں چھپے موتیوں کیطرح چمکنے لگی تھیں۔وہ اسکے لئے اس کے باپ سے لڑ رہا تھا۔

"وہ چاہتا ہے کہ میں یہ سب چھوڑ دوں۔۔۔میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ میں یہ راستہ چھوڑ بھی دوں مگر یہ راستہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔میں اپنی فیملی کو نہیں چھوڑ سکتی۔اپنے ساتھ جُڑے لوگوں کو چھوڑ کے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ایک ایسی محبت جسکا حصول ناممکنات میں سے ہے اس محبت کے لئے میں اتنی محبتوں کو قربان نہیں کر سکتی۔"

آنکھوں سے بہتے جھرنے کو ہاتھوں سے رگڑ کر صاف کرتی وہ دل میں عہد کر رہی تھی۔

ڈوب جاؤ خدا خدا نہ کرو۔۔۔

وہ خود کلامی کرتی تکیے میں مُنہ چھپا گئی۔۔۔۔

              _________________________________________________________________________

طوفان تھم چکا تھا۔وہ جا چکی تھی۔شاید سب ختم ہو چکا تھا۔وہ سر تھامے خاموش بیٹھا تھا۔چہرہ بےتحاشا سرخ تھا۔شدید غصے کے باعث ماتھے کی رگ اُبھری ہوئی تھی۔

"یہی وہ رویہ تھا جسکا میں تمھیں بتانا چاہ رہا تھا۔کہا تھا نا میں نے کہ اب وہ پہلے والی ملغلرہ نہیں رہی بلکہ ایک مضبوط اور نڈر لڑکی بن چکی ہے جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کر سکتی ہے مگر تم نہیں مان رہے تھے۔تم اُسے کمزور اور مجبور سمجھ بیٹھے تھے۔شاید اب تمھیں اسکی مضبوطی کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔۔۔میں نہیں چاہتا تھا کہ یہاں یہ سب ہو اور تمھارا دل بُرا ہو تبھی تو میں اس سے ملنے سے منع کر رہا تھا۔وہ ایک طوائف۔۔۔۔۔۔"

اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔سرخ آنکھوں کا غضب خاور کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا اور مزید ایک لفظ نہ کہہ سکا۔

"وہ یہ سب نہیں کرتی۔۔۔ابھی بھی اپنی عزت کو سنبھالے ہوئے ہے۔۔تم نے شاید اسکی ٹوٹی بکھری حالت نہیں دیکھی تھی لیکن میں نے دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں ڈولتا خوف۔۔"

اسے خاور کا ملغلرہ کے لئے ایسا کہنا برداشت نہ ہوا۔

"اور وہ جو تمھارے سامنے اعتراف کر کے گئی ہے۔۔تم سے شدید نفرت کا اعتراف۔۔"

خاور کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی۔

"میرے نزدیک محبت میں نفرت بھی شدید محبت کی علامت ہے۔"

مسکراہٹ اسکے لبوں کو چُھو کر گزر گئی تھی۔وہ ایک نظر خاور کو دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"اور آئندہ میں تمھارے منہ سے اسکے لئے ایسے الفاظ نہ سُنوں۔۔وہ جو بھی ہو لیکن تم اگر میری عزت کرتے ہو تو وہ بھی تمھارے لیے قابلِ احترام ہونی چاہیئے۔"

وہ پلٹ کر بولا۔

"آئی۔ایم۔سوری یار اگر تجھے بُرا لگا۔۔۔لیکن میں تمھاری عزت اور ہمارے خاندان کی عزت کی بات کر رہا ہوں۔"

وہ سست روی سے چلتا اس کے قریب آیا۔

"اچھا۔۔تو تمھارے خیال میں ملغلرہ کی کوئی عزت نہیں ہے۔۔ہاں عزت تو صرف دولت مندوں کی ہوتی ہے۔۔ہے نا۔۔؟"

وہ استہزایہ ہنسا تھا۔

"نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔لیکن صرف میں ہی نہیں تم بھی جانتے ہو کہ وہ کس علاقے اور کس پیشے سے تعلق رکھتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لوگ ان کے بارے میں کیا کیا کہتے ہیں۔تمھیں یہ سب نہیں بھولنا چاہیے اور خان بابا۔۔۔وہ تو۔۔۔"

"ٹھیک ہے نا سب ختم ہو تو گیا۔۔تم بار بار کیوں یہ بات دہرا رہے ہو۔"

غزنوق نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔۔۔

"میں تو صرف۔۔۔۔"

"بس خاور۔۔۔۔اب اس بارے میں ہمارے بیچ کوئی بات نہیں ہو گی۔"

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔۔۔خاور اسے روکنا تو چاہتا تھا مگر اس نے اسے روکا نہیں۔ویسے بھی غزنوق اس سے بدگمان ہو رہا تھا۔اسکے جانے کے بعد کچھ دیر خاور یونہی ٹیبل پہ پڑی فائل دیکھنے لگا مگر پھر اس کام سے بھی اسکا دل اُچاٹ ہو گیا تو فائل پٹخ کر اٹھ کھڑا ہوا۔اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے اسکی نظر اپنی گاڑی سے کچھ پّرے کھڑی غزنوق کی گاڑی پر پڑی۔وہ گاڑی میں نہیں تھا۔اس نے اشارے سے چوکیدار کو بلایا۔چوکیدار بھاگتے ہوئے آیا۔

"جی صاحب۔۔۔؟"

چوکیدار مؤدب انداز میں بولا۔

"غزنوق صاحب ابھی یہیں ہیں کیا؟"

وہ سمجھا غزنوق شاید ابھی اپنے کیبن میں ہی ہے اور ابھی آفس سے نہیں نکلا۔

"نہیں صاحب۔۔۔غزنوق صاحب تو یہاں سے چلا گیا ہے۔ہم نے بہت آواز بھی دیا مگر وہ رکا نہیں۔۔شاید انھوں نے ہمارا آواز نہیں سنا تھا۔۔پھر ہم نے سوچا  گاڑی خراب ہو گا اس لئے گاڑی چھوڑ گیا لیکن پھر ہم نے سوچا کہ آپ تو ابھی اندر آفس میں ہی ہے آپ کے ساتھ چلا جاتا یونہی پیدل چلا گیا پھر ہم نے سوچا۔۔۔"

چوکیدار اکبر گل کو نان اسٹاپ بولنے کی عادت تھی۔خاور نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"تم ابھی یہیں رہو۔۔اگر وہ واپس آ جائے تو آفس بند کر کے چلے جانا اور اگر دیر ہو جائے تو گاڑی گھر پہنچا دینا۔"

وہ گاڑی کے متعلق اسے ہدایات دیتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔آفس سے نکلتے ہوئے اس نے آفس کے دائیں طرف بنے گراؤنڈ میں اسے ڈھونڈا۔گاڑی آہستہ رفتار سے چلاتا وہ اسی کے متعلق سوچتا اسی کو تلاش کر رہا تھا۔ابھی اس نے آدھی مسافت طے کی تھی کہ غزنوق اسے ندی کے کنارے ایک بڑے سے پتھر پہ بیٹھا نظر آیا۔اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی اور گاڑی سے اتر آیا۔

"غزنوق۔۔۔۔"

خاور نے اسے پکارا۔اس کی پکار پہ غزنوق نے پلٹ کر دیکھا۔

"تم یہاں بیٹھے ہو۔"

وہ اس کے پاس ہی نیچے گھانس پہ بیٹھ گیا۔

"یہاں اچھا لگ رہا ہے۔"

اس نے بہتے پانی میں پتھر پھینکا۔

"ہاں لیکن اب چلنا چاہیئے۔"

وہ لہروں پہ نظریں جمائے غزنوق کو کہتے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ہاں چلو۔۔۔"

وہ بھی اٹھ گیا۔اس کی خاموشی خاور کو اچھی نہیں لگ رہی تھی۔وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا اسے اپنے ساتھ کی یقین دہانی کرانا چاہتا تھا۔اس کے انداز سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پہ پہنچ چکا ہے۔

"کیا سوچا تم نے؟"

خاور نے اگنیشن میں چابی گھماتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"فیصلہ ہو گیا۔۔۔اب اسے میری ضرورت ہوئی تو آئے گی۔"

اسکا رویہ اتنی سختی لئے ہوئے تھا کہ خاور نے مزید کچھ نہ کہا اور گاڑی کی اسپیڈ بڑھا لی۔

      __________________________________________________________________________

دن سست رفتاری سے گزر رہے تھے۔اس دن کے بعد سے دونوں کے بیچ دوبارہ اس بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔حالات آہستہ آہستہ نارمل ہوتے جا رہے تھے۔کتنے دن تک تو خاور بم پھٹنے کا انتظار کرتا رہا تھا۔وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ بہت نارمل بی ہیو کرنے لگا۔اس نے بحث و تکرار چھوڑ دی تھی۔مزاج میں برہمی ناپید تھی مگر چہرے کے تاثرات سنجیدہ دکھائی دیتے تھے۔

آفس میں بھی خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہتا تھا۔گھر میں سبھی اسکے رویے کو لے کر سوال کرتے تھے مگر وہ کام کا بہانا بنا کر بات کو ٹال جاتا تھا۔خاور اسکے اس رویے کے باعث خوفزدہ تھا کیونکہ ایسی خاموشی کسی طوفان کا پیشِ خیمہ ہوتی ہے اور غزنوق آجکل ایسے سمندر کی مانند تھا جو سطح سے پُرسکون مگر اپنے اندر طوفان چھپائے ہوتا ہے۔ہنستا بھی تو کھوکھلی ہنسی۔۔۔۔بظاہر تو وہ خود کو نارمل ظاہر کرتا تھا مگر خاور جانتا تھا کہ وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ویسا قطعی نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔خاور کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہمیشہ ہر چیز کو آسانی سے گیٹ رڈ کرنے والا شخص اب کیوں ایک لفظ کے جال میں پھنس کر رہ گیا ہے لیکن نے اس سے اس بارے میں غزنوق سے کوئی ذکر نہ کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔دونوں روز ساتھ ہی آفس آتے تھے مگر  بات چیت صرف گھر یا آفس کے اردگرد گھومتی تھی۔آج بھی وہ دونوں اکٹھے ہی آفس آئے تھے۔گھر میں داور کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ملک شمشیر خان نے ملک داور خان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی کی پوتی سے طے کر دی تھی۔داور کو کوئی اعتراض نہیں تھا اس لئے اس کے ہاں کرتے ہی گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔آج ان تینوں نے مل کر اپنی شاپنگ کے لئے جانا تھا۔اس لئے خاور جلدی جلدی کام نپٹا کر اٹھ کھڑا ہوا۔غزنوق اپنے کیبن میں تھا۔وہ فائل پیون کے حوالے کرتا غزنوق کے کیبن میں آیا۔وہ اس وقت کسی فائل میں گم تھا۔اسے اندر آتے دیکھ کر غزنوق بھی کام وائنڈ اپ کرنے لگا۔

"چلو نا یار ابھی تک سب کچھ بکھرائے بیٹھے ہو۔"

خاور اسکے سامنے بیٹھ گیا۔

"نہیں چلتے ہیں۔۔خاور میں سوچ رہا تھا کہ داور کی شادی کے بعد ارسلان علی کے ساتھ ایک میٹنگ فکس کر لیں گے۔تم کیا کہتے ہو۔۔؟"

اس نے فائل بند کر کے ایک جانب رکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں ٹھیک یے۔۔میں بھی تم سے یہی کہنے والا تھا۔"

خاور نے بھی اسکی بات پہ سر اثبات میں ہلایا۔

"بس ٹھیک ہے تب تک میں پوائنٹس تیار کر لوں گا۔۔"

وہ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے بولا۔خاور بھی اٹھ کھڑا ہوا۔دونوں آگے پیچھے آفس سے نکلے تھے۔گاڑی تک کا راستہ دونوں نے خاموشی سے طے کیا۔

"داور کب سے کال کر رہا ہے۔جلدی جلدی کی رٹ لگا رکھی ہے صاحب بہادر نے۔"

خاور نے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہوئے کہا تو غزنوق مسکرا دیا۔

"تم سے ایک بات کرنی تھی۔خان بابا نے کل مجھ سے تمھارے متعلق کچھ سوالات کیے تھے۔مجھے شک ہے کہ گلریز خان ضرور ان کے پاس گیا ہو گا ورنہ تمھارے متعلق ایسے سوالات کا مقصد کیا تھا۔"

خاور نے سامنے دیکھتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔

"کیسے سوالات۔۔۔؟"

غزنوق نے بناء چونکے دریافت کیا۔

"ملغلرہ سے متعلق۔۔۔۔"

خاور نے جھجکتے ہوئے ملغلرہ کا نام لیا تھا۔

"کون ملغلرہ۔۔۔۔۔؟؟"

غزنوق کی ساری توجہ ڈرائیونگ کی جانب تھی۔اس نے اتنے ریلکیس انداز میں یہ سوال کیا کہ خاور ایک پل کو تو سمجھا کہ شاید غزنوق نے اسکی بات ٹھیک سے سنی نہیں تھی مگر غزنوق کے چہرے پہ اس قدر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی کہ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔

"تم نے ٹھیک سے شاید سنا نہیں۔"

خاور ایک بار پھر سامنے دیکھنے لگا۔سیاہ تارکول دھوپ میں چمک رہا تھا۔

"میں کسی ملغلرہ کو نہیں جانتا۔"

دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھائی۔اس گفتگو کے دوران اس نے ایک بار بھی خاور کی جانب نظر نہیں کی تھی۔

"میں نے خان بابا سے کہہ دیا تھا کہ انھوں نے جو بھی سنا ہے جھوٹ ہے۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ٹھیک کیا نا میں نے۔۔۔؟"

وہ جاننا چاہتا تھا غزنوق اس سے شئیر کرے وہ جو بھی محسوس کرتا ہے۔خاور اس کے دل کا حال جاننا چاہتا ہے۔اس لئے بات کو آگے بڑھایا۔

"جب کچھ ہے ہی نہیں تو ٹھیک اور غلط کا کیا سوال خاور۔۔۔۔؟"

اس نے نظریں ونڈاسکرین پر سے ہٹا کر خاور پہ ڈالی تھیں۔

"ہاں۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے۔"

خاور نے دھیرے سے کہا۔

"تم فکر نہ کرو میں خان بابا سے خود بات کر لوں گا۔"

اس نے گئیر بدلتے ہوئے خاور کو دیکھا۔دن ڈھلنے لگا تھا۔دور پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے سورج کے ساتھ اس کا دل بھی ڈوبتا جا رہا تھا۔ہر چیز سے ہاتھ جھاڑنے کے باوجود وہ یادوں کی گرد سے اٹا ہوا محسوس کرتا تھا خود کو مگر یادوں سے جتنا پیچھا چھڑایا جائے وہ اتنا ہی پیچھے بھاگتی ہیں۔وہ بھی بھاگ رہا تھا۔پیچھے مڑ کر دیکھنا اس کی سرشست میں شامل نہیں تھا۔وہ طے کر چکا تھا کہ اب محبت خود آئے گی۔۔۔

            ____________________________________________________________________

دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔داور کی شادی کے ہنگامے آہستہ آہستہ سرد پڑ گئے تھے۔آج کل وہ خان بابا کے ساتھ زمینوں پہ جا رہا تھا۔ کیونکہ داور نئی دُلھن کے ہمراہ اسلام آباد گیا ہوا تھا۔ فصل کی کٹائی کا وقت تھا اس لئے وہ ان کے ساتھ جاتا تھا۔خان بابا طبیعت کے باعث جلد لوٹ آتے مگر غزنوق ان کے بعد ڈیرے سے ہوتا ہوا رات گئے واپس آتا۔۔۔آج بھی وہ معمول کے مطابق دیر سے آیا تھا۔ خان بابا کو آج اس نے جلدی بھیج دیا تھا خراب طبیعت کے باعث۔ موسم کی تبدیلی ان کی صحت پر گہرا اثر ڈال گئی تھی۔ مگر وہ نازک طبیعت کے باوجود روز زمینوں پر اسکے ساتھ جاتے تھے۔ داور کی وجہ سے وہ اس کام سے بالکل آزاد ہوگئے تھے۔داور نے اتنے اچھے طریقے سے سب سمبھال رکھا تھا کہ وہ مالک شمشیر خان اس بوجھ سے خود کو ایک لحاظ سے آزاد تصور کرتے تھے۔ آج وہ ڈیرے پہ ہی رک گیا تھا اس لئے واپسی میں دیر ہو گئی تھی۔ گھر میں صرف سلمی بیگم اسکا انتظار کر رہی تھیں۔ ٹی وی لاؤنچ میں وہ  ٹی وی لگائے بیٹھی تھیں۔

"اسلام علیکم!. وہ لاؤنچ میں داخل ہوا۔"

"وعلیکم السلام....."

سلمی بیگم نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔۔وہ موبائل اور گاڑی کی چابیاں ٹیبل پہ رکھتا ان کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔ اس وقت ٹی وی پہ کوئی شو نشر ہو رہا تھا۔ انھوں نے آواز دھیمی کر دی۔ آواز دھیمی ہونے کے باوجود لاؤنچ میں خاموشی کے باعث بھی ٹی وی کی آواز آ رہی تھی۔

"کیا بات ہے آج بہت دیر ہو گی۔۔۔عموماً اتنے لیٹ تو نہیں آتے تم۔۔؟"

"سلمی بیگم نے ریموٹ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔" 

"بس وہ ڈیرے پہ کچھ دوست آگئے تھے تو ان کے ساتھ بیھٹے ٹائم کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ خاور نہیں آیا آج ڈیرے پر ورنہ آفس سے واپسی پر تو ڈیرے پہ آتا ہے۔"

اس نے خاور کے متعلق جاننا چاہا۔۔۔

"وہ تو آج جلدی آگیا تھا کہہ رہا تھا کہ شہر میں کوئی ضروری کام پڑگیا ہے۔اس لئے جانا پڑ رہا ہے۔۔۔تمہارا فون بند تھا شاید۔۔وہ گھر کے نمبر پر کال کرتا رہا مگر تم یہاں تھے نہیں۔کہہ رہا تھا کہ تم گھر آ جاؤ تو اسے کال بیگ کرلو۔کوئی بہت ضروری بات کرنی ہے۔"

سلمی بیگم نے اسے خاور کا پیغام دیا۔

"ٹھیک ہے میں کال کر لیتا ہوں۔آپ ایک گلاس پانی پلا دیں۔"

نظریں ٹی وی پر جماۓ وہ بولا۔۔۔سلمی بیگم سر ہلا کر کچن کی جانب چلی گئیں۔اس نے ریموٹ اٹھا کر آواز تھوڑی سی بلند کی۔ میزبان کسی سنگر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔اسے اسطرح کے شوز سے کوئی دلچسپی نہیں تھی یونہی سرسری نظر ڈالے بیٹھا تھا۔تھوڑی دیر بات گلوکار چم چم کرتے لباس میں اسٹیج کے دائیں جانب سے خراماں خراماں چلتی اسٹیج پہ آئیں۔گلوکار کو دیکھ کر غزنوق یوں اچھل کر سیدھا ہوا جسے کوئی بچھو لڑ گیا ہو۔قریب ہی سلمی بیگم پانی کا گلاس لئے کھڑی تھیں۔اچھلنے کی وجہ سے اسکا کندھا گلاس سے ٹکرا گیا اور گلاس میں سے تھوڑا سا پانی چھلک کر غزنوق پر گر گیا۔

"احتیاط سے بیٹا...؟"

سلمی بیگم بیٹے کے دل کی حالت سے بےخبر گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولیں جبکہ وہ اردگرد کے ماحول سے بیگانہ ہو کر ٹی وی اسکرین پہ نظر گاڑے بیٹھا تھا۔ ٹی وی پہ بےحد بھڑکیلے سرخ رنگ کے لباس میں ملغلرہ اپنی پرفارمینس دے رہی تھی۔خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ نے اس کے تابناک چہرے کو مزید جلا بخشی تھی۔سنہری لمبے سلکی بال جدید اسٹائل میں چہرے کے اطراف سایہ فگن تھے۔جنھیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہاتھ سے سنوار رہی تھی۔وہ ایک پل کے ہزارویں حصے میں اٹھا اور بجلی کی سی تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔سلمیٰ بیگم سے اسکی بےچینی پوشیدہ نہ رہ سکی تھی۔وہ فوراً اسکے پیچھے گئی تھیں مگر وہ دروازہ لاک کر چکا تھا۔ایک دو بار دستک دینے کے باوجود بھی جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ واپس لاونج میں آئیں۔ٹی وی اسکرین پہ خوبصورت اور طرح دار گلوکارہ گانا ختم کر چکی تھی اور اب اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا جا رہا تھا۔انھیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ آخر غزنوق کو ایک دم سے کیا ہوا تھا کہ وہ یوں اٹھ کر چلا گیا۔دل و دماغ میں یہی گُتھی سُلجھاتے ہوئے انھوں نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آف کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔غزنوق کا رویہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔۔

   _____________________________________________________________________________

"اگر تمھارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔تم اسے جانتے نہیں ہو تو پھر وہ جو کرتی ہے کرتی پھرے تمھیں اسکا غم نہیں ہونا چاہئیے۔اگر لاتعلقی ظاہر کر رہے ہو تو صرف ظاہر مت کرو اس پہ عمل بھی کرو۔تم اس کے لئے اپنا آپ کیوں گنوا رہے ہو۔۔۔اس نے تمھاری بات کو زرا اہمیت نہیں دی۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔جو کر رہی کرنے دو۔۔اب وہ اس سب سے اسٹیپ بیک نہیں کر سکتی اور نا ہی اسکا باپ اسے ایسا کرنے دے گا۔"

اس وقت غزنوق خاور کے گھر میں موجود تھا۔یہ گھر اسکی عارضی رہائش گاہ تھی۔آج صبح وہ آفس گیا اور پھر وہاں سے سیدھا شہر آیا تھا۔اس وقت وہ دونوں ٹی وی لاونج میں بیٹھے تھے۔معمول سے زیادہ خاموشی پہ خاور نے اس سے خاموشی کا سبب جاننا چاہا تو غزنوق نے ذہنی اذیت دیتی کتاب کو اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا اور اب خاور اسے سمجھانے میں لگا تھا۔

"میں اسے اسطرح نہیں دیکھ سکتا۔چاہے وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل نہ کرے مگر اپنی زندگی سے تو نہ کھیلے۔۔یوں خود کو ضائع تو نہ کرے۔"

غزنوق نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔

"تم نے میرے سامنے اس سے تعلق نہ رکھنے کا خود سے عہد کیا تھا اور اب تم اس سے مُکر رہے ہو۔۔اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔۔وہ خود تو آرام سے اپنی زندگی گزار رہی ہے اور تم ایک ایسی لڑکی کے لئے خود کو ضائع کر رہے ہو جسے تمھارے جذبات و احساسات کا زرا خیال نہیں۔"

خاور نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ اسکی طرف بڑھایا۔۔غزنوق نے اس کے ہاتھ سے کپ لے کر ٹیبل پہ رکھ دیا۔

"میں اپنے دل میں لگی اس گرہ کا کیا کروں۔"

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہیں سے اپنے لئے دل کا سکون خرید لائے۔

"میرا مشورہ ہے کہ اپنی زندگی کو کھیل مت سمجھو۔۔۔گانٹھ پہ گانٹھ مت لگاؤ اور اپنے لئے زندگی کو مشکل مت بناؤ۔۔۔خدارا سمجھو اس بات کو۔۔"

خاور اس صورتحال سے عاجز آ گیا تھا۔

"تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔نا ہی میری تکلیف سمجھ سکتے ہو۔۔میں اس سلسلے میں اس سے ضرور ملوں گا۔"

اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا۔۔خاور اسے دیکھ کر رہ گیا۔

"مجھے نہیں لگتا کہ اتنا سب ہونے کے بعد بھی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔میرے خیال میں تمھیں یہیں سے اپنے قدم واپس کر لینے چاہیئے۔"

خاور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔غزنوق نے اپنے پیچھے سے کشن نکال کر ٹی وی کی جانب پھینکا۔۔کٗشن ٹی وی کی بند اسکرین سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گیا۔

     ___________________________________________________________________________

"کیا سوچ رہی ہو یہاں کھڑی۔۔۔؟؟"

وہ اس وقت صحن میں پلر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔شام کے سائے تیزی سے پھیل رہے تھے۔آسمان نیلے، گلابی اور نارنجی رنگوں سے سجا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا سفید بادلوں کو کسی غیر معتین سنت کی جانب اڑائے لے جا رہی تھی۔۔دور بلند پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتا نارنجی گولا اداسی لئے ہوئے تھا جیسے اس کے ساتھ اس کے غم پہ نوحہ کناں ہو۔۔شام کی سوگواری اس کے وجود میں حائل ہوتی جا رہی تھی۔پرندوں کے غول اپنے اپنے ٹھکانوں کی سمت لوٹ رہے تھے۔

"کچھ نہیں۔۔۔کیا بابا آ گئے۔۔؟؟"

اس نے ساتھ کھڑی پلوشہ کو دیکھا۔

"نہیں۔بابا تو ابھی نہیں آئے۔۔امی کو فون کیا تھا کہ آنے میں تھوڑا وقت لگ جائے گا۔"

ملغلرہ سفید اور نیلے رنگ کے کنٹراسٹ سوٹ میں تھکی تھکی سی لگ رہی تھی۔ملگجے لباس کیطرح چہرہ بھی سوچوں کی سلوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔پلوشہ نے اسے تاسف سے دیکھا۔

پلوشہ کے کہنے پہ وہ سر ہلا کر واپس اپنی پرانی پوزیشن میں آئی۔خاموش ماحول میں اذانوں کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔سوز بھری آواز ماحول کو مزید سوگوار کیے دے رہی تھی۔اسکا دل جیسے پھٹنے لگا تھا۔

"یا میرے مولا۔۔۔تُو تو واقف ہے میرے دل سے۔۔میرا دل پھیر دے اسکی جانب سے۔۔کیوں میرے دل میں اسکی محبت ڈال دی تُو نے کہ مجھے کسی پل قرار نہیں۔۔اگر وہ نہیں ہے تو میرے دل کو بھی کہیں گُم کر دے یا اسکی چاہ کو میرا نصیب بنا دے۔"

چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سکون و طمانیت کی ایک لہر اس کے دل میں اتر گئی۔

     ___________________________________________________________________________

مجھے نہیں لگتا کہ ملغلرہ مانے گی۔تمھیں معلوم ہے نا کہ اسے یہ سب پسند نہیں ہے ورنہ برادری کی تمام لڑکیاں یہی سب کرتی ہیں۔اگر اسے برا لگ گیا تو پھر بھگتنا۔پہلے بھی تم ایک بار یہ کوشش کر چکے ہو وہ بھی اس خانم کے کہنے پہ۔۔اس وقت بھی دیکھا تھا نا تم نے کہ کیسا ہنگامہ کیا تھا اس نے اور کہا تھا کہ اگر ہم نے اسے ناچنے کے لئے مجبور کیا تو وہ یہ گانا کا کام بھی چھوڑ دے گی۔اب تم پھر سے شروع ہو گئے ہو۔میرے خیال میں  تمھیں اس سے بات نہیں کرنی چاہیئے۔دفع کرو بس ہماری اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی ہے۔خواہ مخواہ اس جھمیلے میں مت پڑھو۔"

راحت بانو نے شوہر کی طرف دیکھا جس کے انداز کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔صاف پتہ چل رہا تھا کہ اسے راحت بانو کا مشورہ ذرا بھی پسند نہیں آیا۔۔

"تم یونہی پریشان ہو رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا۔وہ مان جائے گی۔میری بات نہیں ٹالتی۔میں منا لوں گا اسے۔"

گلریز خان نے ناک پر سے مکھی اڑائی۔

"میں تو کہتی ہوں کہ اب چھوڑو یہ سب۔۔۔حالات ہمارے اچھے ہیں۔۔اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں۔میری بات مانو بس اب ملغلرہ کی شادی کا سوچو۔میرا بڑا ارمان ہے کہ اسکی شادی کا۔"

راحت بانو نے دل کی بات اسکے سامنے رکھی۔

"پاگل ہوئی ہو کیا۔۔۔شادی کروا دو۔"

گلریز نے اسکی نقل اتاری۔

"اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے۔کیا شادی نہیں کرواؤ گے اسکی۔۔یونہی بیٹھی رہے گی میری بیٹی۔"

راحت بانو کو گلریز کا اسکی نقل اتارنا غصہ دلا گیا۔

"تمھارا تو دماغ خراب ہے مگر میں بالکل ٹھیک ہوں۔اسکی شادی کروا کر میں اپنے پیروں پہ کلہاڑی نہیں مار سکتا ہوں۔اسکی شادی کروا دوں گا تو کھائیں گے کہاں سے یہ سوچا ہے تم نے۔۔؟؟"

گلریز کا راحت بانو کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا تھا جبکہ وہ خاموش ہو رہی کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ گلریز سچ کہہ رہا ہے۔

"پہلے تو میں بھی راضی نہیں تھا لیکن اتنے پیسے ملیں گے کہ تمھاری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور میں نے تو ایڈوانس بھی لے لیا ہے۔"

گلریز نے یہ کہہ کر جیب سے نیلے نوٹوں کی ایک گڈّی نکال کر اسکے سامنے رکھی۔انداز میں معمولی سی جھجک تھی۔پیسے دیکھکر راحت بانو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔گلریز نے پیسے اس کی طرف بڑھائے لیکن اس نے پیسوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔

"اتنے بہت سارے پیسے۔۔خانم نے دئیے ہیں۔۔؟"

راحت بانو دونوں آنکھیں وا کیے پیسوں کو دیکھ رہی تھی۔اتنے سارے پیسے اس نے پہلی بار دیکھے تھے۔

"تو اور کیا۔۔۔۔میں جھوٹ بول رہا ہوں کیا۔۔تم بھی کوشش کرو گی نا میرے ساتھ اسے منانے کی؟"

گلریز نے اس سے پوچھا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئی۔گلریز خان نے ہنستے ہوئے چند کرارے نوٹ نکال کر اسکی ہتھیلی پہ رکھ دئیے۔راحت بانو نے پیسے مٹھی میں سمیٹے اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

   _____________________________________________________________________________

اب سب سے بڑا کام ملغلرہ کو رقص کے لئے منانا تھا۔برادری والوں نے جب ملغلرہ کی شہرت دیکھی تو آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایک بات پہ متفق ہو گئے کہ گلریز خان کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جائے کیونکہ جب سے ملغلرہ منظرعام پر آئی تھی ہر ذد و عام کی زبان پہ صرف اور صرف ملغلرہ کا ہی نام تھا۔جسے دیکھو اسکی خوبصورتی اور میٹھی آواز کے گن گاتا دکھائی دیتا تھا۔ایسے میں ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔لہذا انھوں نے گلریز خان کو بلایا اور اسے مل کر کام کرنے کو کہا۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔۔وہ فورا مان گیا۔وہ تو چاہتا ہی یہ تھا کہ برادری والے اسے اپنے ساتھ رکھیں مگر اب مسئلہ ملغلرہ کا تھا۔وہ جانتا تھا کہ وہ نہیں مانے گی مگر وہ پھر بھی اپنی ایک کوشش کرنا چاہتا تھا۔شروعات میں وہ ملغلرہ کو رقص کی تربیت بھی دلوانا چاہتا تھا مگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔اب وہ چاہتا تھا کہ وہ ماں جائے اس لئے اس نے راحت بانو کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا تاکہ ملغلرہ کو آسانی سے منایا جا سکے۔حالانکہ وہ راحت بانو کی نسبت گلریز خان سے زیادہ قریب تھی مگر گلریز خان تھوڑی ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔وہ خود کو تیار کر رہا تھا کہ وہ ملغلرہ کو منانے کے لئے ہر دم تک جائے گا۔اگر وہ کوئی شرائط بھی رکھے گی تو وہ مان لے گا۔راحت بانو سے بات کیے ہوئے بھی تین دن گزر گئے تھے اور طے شدہ دن بھی قریب آ رہا تھا مگر اس نے ابھی تک ملغلرہ سے اس بارے میں بات نہیں کر پایا تھا۔آج بہت ضروری تھا اس سے بات کرنا کیونکہ اسے منانے بھی وقت لگنا تھا۔ملغلرہ پلوشہ کے ساتھ اسکی سہیلی کی شادی میں گئی ہوئی تھی اور ابھی تک نہیں آئی تھی۔وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا۔

"کیا سوچ رہے ہو۔۔۔؟"

راحت بانو نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور چارپائی پہ بیٹھ گئی۔گلریز کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ پڑا۔راحت بانو نے اسکا شانہ ہلایا۔

"تم تو ایسے سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو توبہ۔۔کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دی رہی۔"

"آ۔۔۔ہاں۔۔کیا کہہ رہی ہو۔۔؟"

گلریز نے چائے کا کپ اٹھایا۔

"کن سوچوں میں گم ہو؟"

راحت بانو نے اس سے پوچھا۔

"وہ دونوں ابھی تک نہیں آئیں کیا؟"

گلریز خان نے راحت بانو سے ملغلرہ اور پلوشہ کی بابت پوچھا۔

"نہیں ابھی تو کافی وقت ہے بارات بھی نہیں گئی ہو گی۔۔۔آ جائیں گی اتنے اوتاولے نہ ہو یہ نہ ہو کہ سارا کا سارا پیسہ واپس کرنا پڑے۔اگر ملغلرہ راضی نہ ہو تو زیادہ ذور مت ڈالنا۔کوئی غیر نہیں ہے ہماری بیٹی ہے۔ہم اسکی نہیں مانیں گے تو کون مانے گا۔"

راحت بانو تھوڑا سا آگے جھک آئی اور یوں رازداری سے کہا جیسے کسی کے سن لینے کا اندیشہ ہو۔

"دیکھتا ہوں۔۔پہلے تو ہر ممکن کوشش کروں گا کہ آرام سے مان جائے ورنہ میں بھی اسکا باپ ہوں۔جانتا ہوں کہ کیسے راضی کرنا ہے اسے۔۔۔دروازے پہ دستک ہو رہی ہے لگتا ہے آ گئیں ہیں دونوں۔"

وہ کپ ٹرے میں رکھتا وہ چارپائی سے اتر کر کمرے سے باہر نکل گیا۔راحت بانو بھی ٹرے اٹھائے اس کے پیچھے آئی تھی۔گلریز نے دروازہ کھولا تو پہلے شکیب اندر آیا۔ملغلرہ اور پلوشہ اسکے پیچھے ہی داخل ہوئی تھیں۔شکیب تو گلریز کو سلام کرتا اپنے فٹبال کی طرف بڑھا جو کچھ ہفتے پہلے اسکے لئے ملغلرہ شہر سے لائی تھی۔

"اتنی دیر لگا دی تم لوگوں نے۔۔"

گلریز نے ملغلرہ کی جانب دیکھا جو معمول سے زیادہ خاموش تھی۔

"گل فشاں پلوشہ کو آنے نہیں دے رہی تھی۔اس لئے دیر ہو گئی ورنہ میں تو اس قدر اکتا گئی تھی کہ بس۔"

وہ تھکے ماندے قدموں سے چلتی چارپائی پہ آ بیٹھی اور پلوشہ ماں کے کچن میں چلی آئی۔

"کیا ہوا ملغلرہ اتنی اداس کیوں لگ رہی ہے؟"

راحت بانو نے بیٹی کا اداس چہرہ دیکھ کر پلوشہ سے پوچھا۔پلوشہ نے پلٹ کر بہن کو دیکھا۔

"اماں۔۔۔وہ روز ہی اداس لگتی ہے۔اماں مجھے لگتا ہے ملغلرہ کسی سے دل لگا بیٹھی ہے۔ہر وقت یونہی کھوئی کھوئی رہتی ہے۔وہ مسکراتی ہے تب بھی آنکھوں میں نمی رہتی ہے۔آپ نے غور نہیں کیا کبھی۔۔؟"

پلوشہ کی سوالیہ نظریں خود پہ مرکوز دیکھ کر راحت بانو نے ملغلرہ کو دیکھا۔

"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔اگر ایسی بات ہوتی تو وہ خاموش نہ رہتی۔"

راحت بانو نے غور سے ملغلرہ کو دیکھا۔

"اماں مجھے لگتا ہے کہ ملغلرہ ملک غزنوق خان کو پسند۔۔۔۔۔۔"

"آئے ہائے یہ کیا کہہ رہی ہو۔تمھارے بابا کو پتہ چلا تو برا حشر کر دے گا۔خبردار جو باپ کے سامنے ایسی بات بھی کی اور نا ہی ملغلرہ سے ایسی کوئی بات کرنی ہے۔یہ نہ ہو کہ تمھارے بات کرنے سے اسے مزید شے ملے گی۔"

راحت بانو پلوشہ کو ٹوکتی چارپائی پہ بیٹھی ملغلرہ کے پاس آئی۔

"کیا ہوا۔۔۔ایسے کیوں لیٹی ہو۔"

ملغلرہ آسمان پہ نظریں جمائے چارپائی پہ چت لیٹی تھی۔راحت بانو اس کے قریب بیٹھ گئی۔

"کچھ نہیں اماں بس سر میں درد ہو رہا ہے۔"

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور ان کی گود میں سر رکھ دیا۔وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔

"اگر کوئی بات تمھیں تنگ کر رہی ہے تو مجھے بتاو۔"

راحت بانو نے اسکی پیشانی پہ بکھرے بال سمیٹے۔وہ خاموش رہی۔گلریز کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔وہیں سے واپس پلٹ گیا۔

"وہاں کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟"

ماں کی بات پہ آنکھوں میں ڈولتی نمی آنکھوں کی دہلیز پار کرنے کے لئے بیتاب ہونے لگی۔اس سے پہلے کہ اسے ماں کے مزید سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا اس نے جلدی سے آنکھیں رگڑ ڈالیں اور اٹھ کر بیٹھی۔

"کچھ نہیں ہے اماں۔۔۔کہا ہے نا سر میں درد ہو رہا ہے۔اس قدر شور تھا وہاں۔آپ میرے لئے ایک کپ چائے بنا دیں۔تھوڑی دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاوں گی۔"

چارپائی سے اتر کر جوتے پہنتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔اس دوران اس نے ایک بار بھی ماں کیطرف نہیں دیکھا تھا۔اس کی لٹھے کی مانند سفید رنگت دیکھ کر راحت بانو کو پلوشہ کی بات سچ لگنے لگی۔ان کا دل پسیج گیا۔دوسری طرف اسکا اداس چہرہ پلوشہ کی بات کو سچ ثابت کرنے پہ تلا تھا۔وہ دل میں بجتے الارم پہ کان نہ دھرتے ہوئے کچن میں آ گئی۔چائے بنائی اور ٹرے میں کپ رکھے ملغرہ کے کمرے میں جانے سے پہلے وہ گلریز کے کمرے میں آئی جہاں پلوشہ باپ کے ساتھ سر جوڑے بیٹھی راز و نیاز کر رہی تھی۔گلریز نے سوالیہ نظروں سے راحت بانو کی طرف دیکھا۔

"ابھی یہ وقت مناسب نہیں ہے بات کرنے کے لیے۔۔اسکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں اور موڈ بھی خوشگوار نہیں ہے۔"

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی پلوشہ اور گلریز خان کے قریب آئی۔

"اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتا بات۔۔"

گلریز خان اکتاہٹ بھرے انداز میں بولا۔

"بلکہ میں کہتی ہوں تم ابھی رہنے دو اس بات کو۔۔موقع دیکھ کر میں خود بات کر لوں گی۔خانم سے مل کر منع کر دو۔۔بولو اگلے ہفتے تک کا ٹائم دے دے۔"

راحت بانو نے احتجاجی انداز اپناتے ہوئے شوہر کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ اب بیزاری کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔"

دماغ تو ٹھیک ہے نا تمھارا۔۔میں پیسے لے چکا ہوں اب وہ کسی صورت نہیں مانے گی۔تم جا کر بیٹی کو سمجھاو کہ یہ عشق معشوقی چھوڑے اور کام پر توجہ دے۔"

یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا جبکہ راحت بانو پلوشہ کو دیکھتی رہ گئی جو کہ ان کی جانب سے نظریں پھیر گئی۔راحت بانو کچھ کہے بناء کمرے سے نکل گئی۔اب ان کا رخ ملغلرہ کے کمرے کی جانب تھا۔

       _________________________________________________________________________

"آپ نے سوچا بھی کیسے کہ میں اس کے لئے مان جاؤں گی۔میں نے پہلے بھی منع کیا تھا اور اب بھی منع کروں گی۔اگر آپ نے پیسے لئے بھی ہیں تو واپس کر دیں۔میں کسی صورت اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی اور اگر آپ اور بابا نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔۔۔پھر آپ جانیں اور بابا۔۔۔"

راحت بانو نے جیسے ہی اسے گلریز خان کی خواہش بتائی وہ ہتھے سے اکھڑ گئی اور شدید غصے میں ہاتھ میں پکڑا گلاس دیوار پہ دے مارا۔شیشے کا گلاس دیوار سے ٹکرا کر چکنا چور ہوگیا۔

"اچھا ٹھیک ہے مت کرو۔۔۔میں تمھارے بابا سے کہہ دوں گی کہ پیسے واپس کر دے خانم جان کو۔"

وہ اسے شدید غصے میں دیکھکر اس سے اس بارے میں بات کرنے پہ پچھتانے لگی۔

"آپ بابا کو کہہ دیجیئے کہ پہلی فرصت میں اس خانم کو تمام پیسے واپس کریں ورنہ میں ذمےدار نہیں ہوں۔۔۔آگے آپ لوگوں کی مرضی۔۔۔میں نے بتا دیا ہے۔"

وہ الماری میں سے کپڑے لے کر واش روم میں گھس گئی۔غصے کی لو سے تپتا چہرہ راحت بانو کو بہت کچھ سمجھا گیا۔انھیں تو پہلے سے یقین تھا کہ وہ نہیں مانے گی۔وہ ٹوٹے گلاس کی کرچیاں اٹھانے آگے بڑھی۔

"کیا ہوا۔۔۔یہ آواز کیسی تھی؟"

وہ کرچیاں اٹھا رہی تھی کہ گلریز کی آواز اسے اپنے عقب سے سنائی دی۔راحت بانو نے مڑ کر دیکھا۔گلاس کی ٹوٹی کرچیاں گلریز کو بھی بہت کچھ سمجھا گئیں تھیں مگر وہ چاہتا تھا کہ ملغلرہ مان جائے۔اس لئے وہ راحت بانو کو اشارے سے جانے کا کہتا خود بیڈ پہ بیٹھ کر ملغلرہ کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ واش روم سے باہر آئی۔نیم گرم پانی نے طبیعت پہ تھوڑے بہتر اثرات ڈالے تھے مگر باپ کو اپنے انتظار میں بیٹھے دیکھ کر اسکی تیوری چڑھ گئی۔وہ جانتی تھی کہ وہ کس لئے اسکا انتظار کر رہے ہیں اور وہ پھر سے اس بحث میں نہیں پڑھنا چاہتی تھی اس لئے چہرے پہ ایسے تاثرات سجا لئے تاکہ وہ اگر وہی بات کرنے آئے ہیں تو اسے کرنے سے گریز کریں۔تھوڑی دیر اس نے خود ادھر ادھر کاموں میں مشغول رکھا۔کبھی سے چیزیں نکالتی کبھی رکھتی وہ ان سے بھاگ رہی تھی مگر دوسری جانب بھی اسکا باپ تھا۔

"جی بابا۔۔۔؟؟"

باپ کو مستقل مزاجی سے بیڈ پہ بیٹھے دیکھ کر وہ چہرے پہ سنجیدگی طاری کیے گلریز خان کے قریب ہی بیڈ پہ بیٹھ گئی۔

"تمھاری ماں نے تم سے بات کرلی ہوگی۔ میں بھی اسی بارے میں بات کرنے آیا ہوں۔اب بات یوں ہے کہ میں خانم کو ہاں کر چکا ہوں اور پیسے بھی لے چکا ہوں۔اس لئے تم یہ نخرے چھوڑو اور ہفتے کو میرے ساتھ خانم کیطرف چلو۔میں اسے پیسے واپس نہیں کروں گا۔اتنی مشکل سے تو برادری میں جگہ ملی ہے۔۔نام ہوا ہے ہمارا اور اب تمھارا نخرہ ہی نہیں ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔"

گلریز نے بیٹی کو کڑی نظروں سے دیکھا اور ملغلرہ کا چہرہ ایک بار پھر سے تاریکی کی زد میں آیا تھا۔

"بابا۔۔۔۔میں رقص نہیں کروں گی۔آپ مجھے مجبور کیوں کر رہے ہیں؟"

اس نے التجائی انداز میں کہہ کر باپ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔

"ملغلرہ میں بات کر چکا ہوں اور اب اپنی بات سے کیسے پھر جاؤں۔تم میری بیٹی ہو۔۔صرف میری بیٹی۔۔۔تمھارے لئے یہی رشتہ اہم ہونا چاہیئے۔میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کہ تمھارے نزدیک میری بات کی اہمیت ہے مگر میں غلط تھا۔"

گلریز نے اپنا واحد ہتھیار استعمال کیا اور اپنے چہرے پہ تکلیف اور دکھ کے آثار سجانے کی کوشش کی پھر اٹھ کر جانے لگا تھا کہ ملغلرہ نے ہاتھ تھام کر اسے جانے ںسے روکا۔

"بابا آپ کی بات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔آپ کے لئے میں اپنی جان بھی دے دوں۔۔۔اپنی زندگی قربان کر دوں مگر یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔یہ میں نہیں کر سکتی۔نجانے کیوں مجھے اپنا فیصلہ غلط لگنے لگا ہے۔میری اپنی پسند میرے سامنے پھن پھیلائے کھڑی ہے مجھے ڈسنے کے لئے۔۔۔بلکہ ڈس چکی ہے مجھے۔۔"

اس نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے کیے۔وہ گلریز خان کو انکار نہیں کر سکتی تھی۔باپ کی محبت اس کے ہر جذبے پہ حاوی تھی۔

"یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔؟؟"

گلریز نے حیرانی سے اسکی شفاف ہتھیلیوں کو دیکھا۔وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔وہ گہری سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"ٹھیک ہے میں جا کر خانم سے بات کرتا ہوں۔"

ان کے اتنی آسانی سے مان جانے پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر باپ کو بےیقین نظروں سے دیکھا۔

"اگر صرف گانا گانے کا کہے تو۔۔۔۔۔۔۔"

"گانے سے مجھے انکار نہیں لیکن یہ بھی صرف آپ کے لئے کیونکہ وہاں جانا میرا معیار نہیں ہے۔اس کے بعد میں خانم کے لئے کچھ نہیں کروں گی۔"

وہ سر ہلاتے دروازے کی طرف بڑھا۔راحت بانو دروازے میں کھڑی تھی۔یقیناً اس نے سب سن لیا تھا۔وہ بھی وہیں سے واپس مڑ گئی۔گلریز خان نے کوشش کر کے خانم کو منا لیا تھا۔خانم بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ ملغلرہ کبھی اس کام کے لئے نہیں مانے گی کیونکہ وہ یہ کوشش ایک بار پہلے بھی کر چکی ہے۔دراصل خانم اسکی شہرت سے خائف ہو گئی تھی۔وہ اپنا کاروبار ٹھپ کرنا نہیں چاہتی تھی۔اس لئے اس نے گلریز کو بلایا اور پھر اسے پیسوں کا لالچ دے کر ملغلرہ کو منانے کے لئے کہا مگر وہ غلطی پہ تھی کہ ڈھیر سارے پیسوں کی خوشبو ملغلرہ کو اس کے در تک لے آئے گی۔

     _______________________________________________________________________________

نیلے ریشمی پردوں سے سجا کمرہ۔۔کمرے کے چاروں اطراف ترتیب سے بچھے فوم گدے طبلے کی تھاپ پہ ناچتی ستارہ محفل کو عروج پہ پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھی۔گوری رنگت، نیلگوں آنکھیں، پنکھڑی نما یاقوتی لب اور اوپر سے لہراتا بل کھاتا نازک سراپا۔۔۔وہ مخالف صنف کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھی۔چست کپڑوں میں اسکا نازک سراپا نمایاں ہو رہا تھا۔حاضرین محفل پہ جیسے کوئی جادو سا چھایا ہوا تھا۔انھیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ طرح دار حسینہ انھیں اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی۔محفل میں موجود گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے خانم جان نے ہتھیلی پہ بکھری چھالیاں واپس پان دان میں ڈال دیں۔وہ ستارا کو ملنے والی داد پہ یوں خوش ہو رہی تھی جیسے یہ کارنامہ ستارا نے نہیں بلکہ اس نے سرانجام دیا ہو۔میک اپ سے لتھڑا چہرہ ہنستے ہوئے کوئی اور منظر پیش کر رہا تھا۔ستارا کے تھرکتے پیروں کے ساتھ ساتھ اسکی نظریں بھی گردش کر رہی تھیں۔اسکی ٹوہ لیتی نگاہیں ستارا اور وہاں بیٹھے مردوں پہ تھیں جن کی غلیض نظریں ستارا پہ جمی تھیں اور خانم جان کی آنکھیں موٹی آسامی کی تلاش میں مصروف تھیں۔جنھیں وہ بڑی آسانی سے طرح دار اور خوبصورت حسیناؤں کے ذریعے اپنے گرد گھومنے پر مجبور کر دیتی تھی۔نہایت ہی چالاکی اور چالبازی سے اُسکے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔اپنے پاس موجود تمام لڑکیوں کو وہ ہر گُر سکھاتی تھی مگر ان پہ کڑی نگاہ بھی رکھتی تھی۔یہاں موجود ساری لڑکیاں جب سے ہوش سنبھالا تھا یہی سب دیکھ رہی تھیں۔

"ارے خانم جان کیا نگینہ پال رکھا ہے تم نے قسم سے اسکی ہراک ادا موہ لیتی ہے۔ان میں سے ایک درمیانی عمر کا آدمی پیسوں کی گڈی ہاتھوں میں لہراتے ہوئے خانم جان کے پاس آیا۔شراب کی خماری اسکے حواسوں پہ چھائی جاری تھی۔

"وہیں بیھٹے رہیے نا خان۔"

اسکے منہ سے آتے بدبو کے بھبکوں کو خانم جان ہاتھ سے رفع دفع کرتے ہوئے نا گواری سے بولی۔

"ارے خانم جان تم تو میری جان ہو۔"

وہ جھومتا ہوا خانم جان پہ گرنے کو تھا کہ اس نے ہاتھوں سے اسے پیچھے کیا اور فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔

"خان جی آپ بیٹھے ہیں آپ کے لیے لیموں پانی منگواتی ہوں۔

باقی تمام مرد ہستے ہوئے وہاں سے جانے لگے تھے۔

"ارےمیرے لیے لیموں پانی نہیں شباب کا بندوبست کرو۔"

"اس نے دوسری جیب سے بھی نیلے نوٹوں کی ایک گڈی اسکی گود میں پھینکی اور چُندھی چُندھی آنکھوں کو بمشکل کھولنے کی کوشش کرتا وہیں میڑیس پہ ڈھیر ہوگیا۔ یہ منظر دیکھ کر ستارہ جو وہیں بیٹھی اپنے پیروں میں پڑے گھونگھرو کھول رہی تھی کھکھلا کر ہنس دی۔

"خانم اس کی بات مان لو بیچارہ ہر بار نامراد لوٹ جاتا ہے۔"

وہ یوں کھڑی ہوئی جیسے احتیاط نہ برتتی تو گر کر ٹوٹ جائے گی۔

"دفع........تم کیا اتنی سستی ہو؟"

خانم جان خود سے بےخبر شاہد خان کے پاس گرے ہوئے پیسے اٹھاتی طنزیہ انداز میں بولی۔

"مجھے تو پریشان ہے اس گلریز کے بچے کی اسکو میں اتنی بڑی رقم دے کر غلطی کی۔ مجھے چاہیئے تھا کہ اسے دس بیس ہزار ایڈوانس دہتی اور باقی کا بعد میں۔مگر وہ خبیث نامراد بیٹی کو نہیں منا سکا بینہ دیکھ کر تو اسکی رال ٹپکنے لگتی ہے۔خیر میں بھی اپنے نام کی ایک ہوں اپنا پیسہ تو وصول کر ہی لوں گی اسی دن۔اتنی آسانی سے برباد تو نہیں ہونے دوں گی۔"

"خانم جان نخوت بھرے انداز میں کہہ اور پھر مسکراتی نظروں سےستارا کو دیکھا اور وہی ہنسی لبوں پہ مچلنے لگی۔"خانم....خانم...."تاجی ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔اور کمرے کے وسط میں آکر بیٹھ گیا۔

"کیا بلا پڑ گی ہے۔اور تجھے میں نے کتنی بار کہا ہے کہ توں یہاں نہ آیا کر پھر بھی منہ اٹھائے چلا آتا ہے۔لو کیا تکلیف ہے۔"

"وہ پیسوں کی گڑی پاس ہی پڑی پرس میں ڈالتے ہوئے بولی۔"

"بتاتا ہوں۔ بتاتا ہوں دم تو لینے دے۔"

وہ پھولی سانسوں کو اعتدال پر راتے ہوئے بولا۔ 

"لے تو لیا دم پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا ہے۔ بول بھی چک..."

خانم کو اسکا یوں دیر کرنا کھنے لگا۔ وہ پریشان ہوگی کہ آخر بات کیا ہے کیونکہ تاجی کبھی اسطرح یہاں نہیں آتا۔ باہر ہی بلاتا ہے اسے۔

"بوریا بستر بند کرلے خانم جان.......تیرا دورختم ہونے والا ہے اور پیسے گھما گھما کر خانم کو انے والے وقت کے لئے جردار کیا۔

"کیا بکواس کررہا ہے کالے.... مشکل اچھی نہیں ہے تو بات تو اچھی کر نا....ہروقت بس اول خول یکتا رہتا ہے کبھی اچھی بات نکالنا منہ سے۔"

خانم اسے ڈانے لگی تھی اسکی بات سن کے۔

"سچ کہہ رہا ہوں۔وہ جہان بیگم ہے نا اسکا کوٹھا بھی بند کروا دیا ہے۔ گاؤں میں ایک بدمعاشوں کا گروپ آیا ہے۔ علاقے میں کہتے پھر رہے ہیں کہ اب یہ ناچ گانا ختم کرو ورنہ وہ ہم لوگوں کو جہنم سدھار دیں گے۔"

تاجی نے اپنی طرف سے ایک اور بم پھینکا۔

"ارے واہ ایسا کون جی دار آ گیا جو ہمیں جہنم سدھارنے کی طاقت رکھتا ہے۔"

ستارہ اٹھلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ہا ہا ہا......ابھی ایسا کوئی مائی کا لعل نہیں پیدا ہوا جو ہمیں منظر سے ہٹا سکے۔"

خانم نے بھی ستارہ کا ساتھ دیا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں خانم جان۔"

حالات بہت خراب ہو رہے ہیں۔تمہیں میری بات کا یقین نہیں ہے تو اسطرح کرو کہ خود جہان بیگم سے بات کرلو۔وہ تو یہاں سے جارے ہیں۔"

تاجی نے خانم کو دلانے کی کوشش کی.

"اچھا ٹھیک ہے میں معلوم کرتی ہوں۔ تم اب جاؤ..."

"تاجی اٹھ کر جانے لگا اور ہاں سنو چوکیدار سے کہو کہ آکر اسے اٹھائے اور گاڑی میں ڈال کر گھر تک چھوڑ آئےیا پھر اسکا ڈرائیور موجود ہے تو آکر لے جائے۔

"خانم جان نے بےسد پڑے ہوئے شاہد خان کو ناگور نظروں سے دیکھا۔تاجی سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔ ستارہ اپنے کمرے کیطرف جانے لگی تھی کہ خانم جان نے اسے روکا۔

"ستارہ زرا کال تو ملانا جہان بیگم کو زرا دیکھوں تو یہ تاجی سچ بھی کہہ رہے یا نہیں۔"

ستارہ نے موبائل فون ہاتھ میں لیا اور جہان بیگم کو کال کرنے لگی۔دوسری بیل پہ کال اٹھالی گئی۔ستارہ نے جہان بیگم کی آواز سنی تو  بنا کچھ کہے فون خانم جان کی جانب بڑھا دیا۔ خانم جان نے فون اسکے ہاتھ سے کر کان سے لگایا۔  ستارہ بھی اسکے پاس ہی بیٹھ گئی۔

"یہ میں کیا سن رہی ہوں۔ ابھی تاجی نے جو کچھ بھی بتایا کیا وہ سچ ہے۔"

خانم جان نے جہان بیگم سے پوچھا۔

"ہاں باکل ٹھیک سنا تم نے.....پتہ نہیں کون لوگ ہیں پورے علاقے میں پھر رہے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ سب ناچ گانا بند کرو۔ ایک بار پہلے آئے تو میں نے زیادہ توجہ نہ دی۔اس بار تو محفل کے دوران ہی آگئے ہمیں تو ہاتھ نہیں لگایا لیکن مردوں کو ایسا مارا.......لہولہان کر دیا سبکو۔چوکیدار کو بھی بھاگا دیا۔میں تو بہت پریشان ہوں۔اب ہم کیا کریں گے کہاں سے کھائیں گے میں تو جا رہی ہوں یہاں سے لڑکیوں کو لے کر تم بھی اپنا بندوبست کرو۔" 

"تم کہاں جارہے ہو...؟"خانم نے مزید جاننا چاہا۔

"فلحال تو قریب گاؤں جارہے ہیں۔پھر وہاں سے دیکھیں گے کیونکہ وہاں سے بھی خبریں آرہی ہیں تم بھی دیکھ لو۔"

جہان بیگم نے خانم جان کو صلاح دینی چاہی۔دوسری طرف اسکی بات پر خانم اور ستارہ نے منہ بنایا۔

"چلو ٹھیک ہے دیکھتے ہیں کہ کون لوگ ہیں۔خیر ہم نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی ہیں۔اینٹ کا جواب پتھر سے دے گی خانم جان۔"

اور پھر جہان بیگم کی بات سنے بغیر خانم بیگم نے کال کاٹ دی۔

"دیکھ لیں گے ہم....بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں ہمارے.... ہمیں ہاتھ تو لگا کر دکھائیں۔"

"ستارہ کیطرف غرور سے دیکھتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ارے آکر کوئی اس مردار کو بھی لے جاؤ۔ کمبخت کیسے ہوش و خرد سے بیگانہ پڑا ہے۔"

وہ دروازے کے قریب آکر آواز لگاتی دوسری جانب مڑ گئی۔ستارہ بھی ساتھ ہی تھی۔اب خود کو بچانے کے لئے ہاتھ پیر تو مارنے ہی تھے۔وہ ستارہ کو سمجھاتی اپنے کمرے کیطرف چل پڑی۔

       ____________________________________________

گلریز خان بہت تیز دوڑ رہا تھا۔پگڈنڈی بہت تنگ تھی جس پہ تیز دوڑا اسکے لئے محال تھا۔وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔اس وقت آس پاس کوئی نہیں تھا ورنہ اسے روک کر اسے اسطرح گرتے پڑتے دیکھ کر اس سے ضرور پوچھتا مگر وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتا گھر کی طرف جا رہا تھا۔گھر پہنچا تو دروازہ کھلا تھا وہ اندر داخل ہوا اور اس کے تیز آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا کہ ملغلرہ اور راحت بانو کمرے سے باہر آ گئیں۔گلریز خان اس وقت تیز دوڑنے کے باعث ہانپ رہا تھا۔وہ دونوں اسے اس حالت میں دیکھ کر اسکی طرف بڑھیں۔

"بابا۔۔کیا ہوا ہے۔۔کیا پھر سے ملک عزنوق نے۔۔۔۔؟"

ان کی اتنی ابتر حالت دیکھ کر جو پہلا خیال اسے آیا وہ غزنوق کا تھا کیونکہ اسکے منع کرنے کے باوجود وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی۔سب کچھ ویسے ہی چل رہا تھا۔علاقہ تو علاقہ وہ شہر میں بھی ہر کسی کی زبان پہ اسکا نام ہوتا تھا۔شہرت اس پہ مہربان ہو گئی تھی۔

"نن۔۔نہیں۔۔۔"

گلریز نے اسکے غزنوق کا نام لینے پر نفی میں سر ہلایا تھا۔ملغلرہ ایک گہری سانس خارج کرتی کچن سے پانی لے آئی اور گلریز خان کو پانی پلایا۔

"بتاتے کیوں نہیں ہو۔۔۔کس نے کی یہ حالت تمھاری۔۔؟"

پھٹا ہوا گریبان۔۔لال بھبوکا چہرہ۔۔بالوں کی بےترتیب حالت۔۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت بڑی طرح سے پیٹا ہو۔راحت بانو گلریز خان کی ابتر حالت دیکھ کر بولی۔

"میں نہیں جانتا۔۔گھر آ رہا تھا کہ چھ سات آدمی۔۔لمبے تڑنگے اور بھری بھری جسامت۔۔ہاتھوں میں بندوقیں پکڑ رکھی تھی۔۔چہرے چھپا رکھے تھے انھوں نے۔۔میں نے پہلے یہاں نہیں دیکھا ان کو۔۔۔مجھے پکڑ لیا اور پوچھا کہ تم گلریز خان ہو اور ملغلرہ تمھاری بیٹی ہے۔میں نے کہا کہ ہاں میں ہی گلریز خان ہوں ملغلرہ کا باپ۔۔بس پھر کیا تھا میرا گریبان پکڑ کر کہنے لگے کہ اگر آئیندہ انھوں نے ملغلرہ کو اس گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا یا کہیں بھی گاتے ہوئے تو ہمیں زمین میں زندہ گاڑ دیں گے۔میں نے کہا کہ یہ ہمارا ذاتی معاملات ہیں اور وہ کون ہوتے ہیں ہمیں منع کرنے والے۔۔۔بس پھر کیا تھا مار مار کر یہ حالت کر دی میری۔"

وہ بتاتے بتاتے رونے لگا۔۔

"کون لوگ تھے۔۔؟"

ملغلرہ نے آ پ نے دوپٹے سے باپ کا پسینے سے تر چہرہ صاف کیا۔

"پتہ نہیں ہے پورے علاقے میں یہی بات پھیلا رہے ہیں کہ اب یہاں ناچ گانا نہیں چلے گا۔۔گھروں میں بیٹھو ورنہ ہمارے ہاتھوں مرو۔۔لوگ کہہ رہے تھے کہ جہاں بیگم کا کوٹھا بھی بند کروا دیا۔وہاں کے چوکیدار کو ایسا مارا کہ وہ ہسپتال میں پڑا آخری سانسیں لے رہا ہے۔"

وہ بےدم ہو کر چارپائی پہ لیٹ گیا۔

"اب کیا ہو گا۔۔۔؟"

گلریز نے لیٹے لیٹے خودکلامی کی۔

"کچھ نہیں ہو گا۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔اتنا آسان تھوڑی ہے یہ سب کرنا کیا۔۔اندھیر نگری سمجھ رکھا ہے کیا۔"

راحت بانو شوہر کو تسلی دیتی اس کے قریب بیٹھ گئی۔

"ختم ہو گیا سب راحت۔۔جہان بیگم یہ جگہ چھوڑ کر جا رہی ہے برادری کے کچھ لوگ بھی ساتھ جا رہے ہیں۔ہم کیا کریں گے۔بہت طاقتور لوگ ہیں۔ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔"

گلریز نے ملغلرہ کی طرف دیکھا۔

"سب کہہ رہے تھے کہ ان سے پنگا نہ لیں۔یہ اس سے پہلے بھی کسی گاوں میں یہ سب کر چکے ہیں ۔" وہ مزید بولا "۔۔۔۔۔اللہ خیر کرے گا بابا ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔ہم خانم جان کے کوٹھے پر جائیں گے یہ آخری کام کرلیں پھر کچھ دن نہیں نکلیں گے گھر سے۔حالات ٹنھڈے ہوجائیں تو پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔"

ملغلرہ نے بھی باپ کو تسلی دی۔

"ہاں گلریز ملغلرہ ٹھیک کیہ ری ہے۔ابھی ہمارے پاس اتنا ہے کہ کچھ ماہ آرام سے کھا سکیں۔اس کے بعد دیکھیں گے۔ہو سکتا ہے اس دوران پولیس کچھ کر لے۔"

راحت بانو نے یہ کہہ کر کھٹکے کی آواز پہ دروازے کی جانب دیکھا۔شکیب دروازہ کھول کر اندر آیا۔

"اماں۔۔۔پتہ ہے وہ رشید کی دکان تھی نا سی ڈیز اور فلموں والی۔۔۔اسے کچھ لوگوں نے آگ لگا دی ہے۔سارے بچے وہیں کھڑے تھے۔ہمارے سامنے پہلے رشید کاکا کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالا اور اسے مارتے ہوئے کہنے لگے کہ تجھے کہا نہیں تھا کہ یہ سب بند کرو۔۔لیکن تم نہیں سمجھے۔۔اب دیکھو یہ سب ہم بند کریں گے اور پھر انھوں نے دکان کو آگ لگ دی۔رشید کاکا بڑا روتا رہا مگر انھوں نے ایک نہیں سنی۔۔سب کچھ جلا دیا۔سارے علاقے کے لوگ وہاں جمع تھے۔"

شکیب کی بات سن کر تینوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔گلریز نے دونوں کو باری باری دیکھا۔

"اچھا چل تو ذرا اندر آ۔۔۔اور آج سے تمھارا باہر کھیلنا بند۔۔سمجھے۔۔"

ملغلرہ شکیب کو بازو سے پکڑ کر کمرے میں لے گئی۔

"میں ذرا جا کر دیکھتا ہوں۔"

گلریز آٹھ کر جانے لگا۔

"بیٹھ جاو۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے۔جب انھوں نے منع کیا تھا تو کیوں نہ ہوا منع۔۔اب بھگتے۔"

راحت بانو نے اسے جانے روک دیا اور جلدی سے کر دروازے کو کنڈی لگا دی۔دونوں اپنی اپنی جگہ یہ سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا ہے اگر حالات یہی رہے تو۔۔۔

     __________________________________________

خانم جان کو سبھی نے سمجھایا کہ کچھ وقت کے لئے کوٹھا بند کر دے مگر وہ کسی کی نہیں سن رہی تھی۔ستارا اور خانم دونوں کوٹھا بند کرنے کے لئے رضامند نہیں تھیں۔اس معاملے میں وہ چاہتی تھیں کہ پولیس ان کی مدد کرے مگر پولیس بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی کوشش کرنے باوجود علاقے میں کوئی بھی ان سے واقف نہیں تھا اور نا ہی پولیس کو کوئی سراغ مل رہا تھا۔

اس وقت بھی وہ کمرے میں بیٹھی ہفتے کی شام ہونے والی محفل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔کچھ دیر پہلے ہی گلریز خان نے اسے کال کر کے اطلاع دی تھی کہ ملغلرہ فلحال آج کل کے حالات کی وجہ سے اس محفل کا حصہ نہیں بن پائے گی مگر وہ کسی طور اس بات کے لئے راضی نہیں تھی۔اس کا کہنا تھا کہ وہ سیکیورٹی کا مکمل انتظام کرے گی اور یہ معمولی لوگ اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اسکا کہنا تھا کہ وہ لوگ اسکی پہنچ سے خائف ہیں تبھی تو اب تک اس کے پاس نہیں آئے نا ہی منع کیا۔گلریز نے بہت سمجھایا بھی کہ اسے رسک نہیں لینا چاہیئے مگر وہ مان کے نہیں دے رہی تھی اور اسی بات پہ مسر تھی کہ کوٹھا ضرور سجے گا۔گلریز خان اور راحت پریشان تھے اور ملغلرہ بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔

راحت بانو اور گلریز خان کمرے میں بیٹھے یہی بات ڈسکس کر رہے تھے کہ دروازے پہ ہوئی دستک نے دونوں کو خاموش کر دیا۔ملغلرہ اور پلوشہ اپنے کمرے میں تھیں۔شکیب بھی خلاف معمول گھر پہ تھا۔وہ سبھی اسے باہر جانے نہیں دے رہے تھے۔روز کوئی نہ کوئی خبر اس دہشت گروپ سے متعلق انھیں سننے کو ملتی تھی۔

"دیکھوں ذرا کون آیا ہے اس وقت۔"

راحت بانو چارپائی سے اتری۔

"تم ٹھہرو۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔"

گلریز اسے روکتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔دھوپ بہت نکھری نکھری تھی۔دروازے پہ مسلسل دستک دی جا رہی تھی۔

"ارے بھئی آ رہا ہوں۔"

گلریز نے آگے بڑھ کر کنڈی اتار دی۔سامنے کھڑی زرمینہ کو دیکھ کر وہ حیران کھڑا رہ گیا۔

"السلام و علیکم گلریز خان۔"

زرمینہ نے اسکی حیران نظروں کے جواب میں مسکراتے ہوئے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام زرمینہ گل۔۔تم یہاں کیسے؟"

گلریز نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

"کوئی اور بھی ہے تمھارے ساتھ؟"

گلریز خان نے دروازے سے باہر جھانکا۔

"نہیں میں اکیلی آئی ہوں۔"

وہ صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ گئی۔گلریز بھی باہر کسی کو نا پا کر دروازہ بند کر کے اندر آ گیا۔

"ارے زرمینہ گل۔۔۔کیسے رشتہ بھلا دیا۔۔"

راحت بانو کسی عورت کی آواز سن کر کمرے سے باہر آ گئی تھی اور باہر زرمینہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسکے گلے لگ گئی تھی۔

"کیسی ہو راحت؟"

زرمینہ بھی راحت بانو کے گلے لگ گئی۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں تم سناو۔۔"

وہ دونوں چارپائی پہ بیٹھ گئیں۔نرم گرم دھوپ اس سردی میں حرارت بخش رہی تھی۔گلریز بھی دوسری چارپائی پہ بیٹھ گیا۔

"بس ٹھیک ہوں۔۔تم سے ملنے کو جی چاہا تو آ گئی۔سیف اللہ شہر جا رہا تھا تو مجھے یہاں چھوڑ گیا۔بچیاں کدھر ہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔"

زرمینہ نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا۔اسکی نظریں انھیں تلاش کر رہی تھیں۔

"اندر اپنے کمرے میں ہیں۔ٹھہرو میں بلاتی ہوں۔"

راحت بانو نے وہیں سے ملغلرہ اور پلوشہ کو آواز دی۔وہ دونوں بھی کمرے سے باہر آ گئیں۔وہ دونوں ایک اجنبی عورت کو اپنی ماں کے پاس بیٹھے دیکھ کر حیران سی ماں کیطرف آئیں۔

"ماشاءاللہ۔۔! کتنی بڑی ہو گئیں ہیں میری بیٹیاں۔اتنی چھوٹی چھوٹی تھیں جب میں نے دیکھا تھا آخری بار۔"

وہ ملغلرہ اور پلوشہ سے بڑے پرتپاک انداز سے ملتے ہوئی بولی۔

"پلوشہ جاو خالہ کے لئے چائے لے آو۔"

راحت بانو نے پلوشہ سے کہا۔وہ سر ہلا کر کچن کیطرف بڑھ گئی۔

"اب کہو کیسے آنا ہوا زرمینہ۔۔اتنے عرصے بعد ہماری یاد کیسے آ گئی۔"

اتنی دیر سے خاموش بیٹھے گلریز خان سے مزید چپ نہ رہا گیا۔

"کیا میرے یہاں آنے پر پابندی ہے؟"

زرمینہ نے گلریز خان کیطرف اچھنبے سے دیکھا۔

"اتنے عرصے بعد۔۔۔۔۔جب تم ہم سے سارے رشتے ناطے توڑ کہ گئی تھی اس سیف اللہ کے ساتھ۔۔۔۔"

گلریز خان نے راحت بانو کی آنکھوں کے اشاروں کو سمجھ کر بھی نہ سمجھتے ہوئی زرمینہ کی طرف کینہ توز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"اتنا عرصہ تم لوگوں سے دور رہ کر خود پر جبر کیا میں نے۔۔۔اب اپنی بہن اور بھانجیوں سے ملنے آئی ہوں۔"

زرمینہ نے پاس بیٹھی ملغلرہ لو سینے سے لگایا۔ملغلرہ بہت حیرانی سے زرمینہ کو دیکھ رہی تھی۔وہ اس سے کس قدر مشابہت رکھتی تھی۔راحت بانو اور زرمینہ اسکی حیران نظروں سے انجان نہیں تھیں۔دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیں۔

"راحت میری بیٹی مجھے کتنی حیرانی سے دیکھ رہی ہے۔"

زرمینہ نے ملغلرہ کے بال سنوارے۔

"ملغلرہ بیٹا یہ تمھاری خالہ ہیں۔۔۔میری سگی بہن زرمینہ گل۔"

ملغلرہ کو اپنی ماں کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھا۔وہ بھی مسکرا دی۔گلریز خان انھیں آپس میں گھولتا ملتا دیکھ کر غصے سے اٹھ کر اندر چلا گیا۔اسی اثناء میں پلوشہ چائے اور لوازمات سے بھری ٹرے لے آئی۔پھر چاروں جو مل بیٹھیں تو وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔وہ دونوں بھی اپنی خالہ سے مل کر بہت خوش ہوئیں تھیں۔ہوش سنبھالنے کے بعد انھوں نے اپنے اردگرد صرف تین ہی رشتے دیکھے تھے۔اب خالہ جیسے میٹھے رشتے کا اضافہ انھیں بہت خوشی دے رہا تھا۔شکیب بھی خالہ سے مل کر بہت خوش تھا۔وہ ان کے لئے کچھ تحائف بھی لائی تھی۔سبھی خوش تھے سوائے گلریز خان کے۔۔جو زرمینہ کے یوں اچانک آنے پہ قطعی خوش نہیں تھا اور اس کا اسطرح اچانک اتنے سالوں بعد آنا اسکے دل میں کھٹک رہا تھا اور اسکے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر گیا تھا۔اس کے دل و دماغ ماضی کی خاک چھاننے لگے تھے۔زرمینہ گل راحت بانو کی ماں جائی تھی۔زرمینہ گل بہت خوبصورت تھی۔وہ چاہتا تھا زرمینہ بھی وہی کرے جو برادری کی باقی لڑکیاں کرتی تھی مگر زرمینہ نے صاف انکار کر دیا پھر خاندان کے مخالف جا کر سیف اللہ سے شادی کرلی اور خاندان سے ہر رشتہ توڑ دیا تھا۔برادری نے بھی اس سے سارے تعلقات توڑ دئیے تھے۔اسکے بعد اس نے اتنے سالوں میں ایک بار بھی پلٹ کے اور اب اچانک اسکا یوں چلے آنا اسے مثبت نہیں لگ رہا تھا۔

    ___________________________________________

"سر انسپیکٹر صاحب آ پ سے ملنا چاہتے ہیں۔"

عائشہ نے انٹرکام پہ علاقے کے انسپکٹر کے بارے میں بتایا۔

"ٹھیک ہے بھیج دو۔"

خاور نے اپنے سامنے کھلی فائل کو ایک نظر دیکھ کر بند کر دیا۔ غزنوق اس وقت اپنے کیبن میں تھا۔

"اسلام علیکم!ملک خاور خان۔"

انسپکٹر صاحب کیبن میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔

"وعلیکم السلام انسپکٹر صاحب کہیے کسے انا ہوا۔خیریت تو ہے نا؟"

خاور نے اس کا مصاقہ کے لے بڑھا ہاتھ تھامتے ہوئے اس کے آنے کا مقصد جاننا چاہا۔

"خیریت کہاں ہے خاور صاحب۔آجکل حالات تیزی سے کسی اور سمت رواں ہیں۔آپ کو معلوم ہوگا۔گاؤں اور اسکے گردو نواح میں آجکل کیا ہو رہا ہے۔"

انسپکٹر صاحب نے خاور اپنی کیپ اتار کر ٹیبل پہ اور پانی کے لئے کہا۔ خاور نے اسکے لئے پانی منگوایا۔

"جی جانتا ہوں۔لیکن وہ تو صرف ایک علاقے تک محدود ہے۔آپ کے یہاں آنے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آیا۔" خاور نے انسپکٹر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"دراصل میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ کو کوئی خط تو مصول نہیں ہوا بھتّے کے لئے۔ دراصل یہ جو بھی گروپ ہے یہ لوگ علاقے کے صاحب حیثیت لوگوں کو پیسوں کے لئے بھی تنگ کر رہے ہیں تو میں اسی سلسلے میں آیا ہوں کہ کہیں آپ لوگوں کو تو ایسا کوئی لیڑ موصول تو نہیں ہوا؟"

انسپکٹر صاحب نے خاور پہ اپنے وہاں آنے کا مقصد واضح کیا۔

"جانتا ہوں۔ مگر ہمیں ابھی تک ایسا کوئی لیڑ موصول نہیں ہوا اور نا ہی یہاں کوئی آیا ہے۔"

خاور نے انسپکٹر صاحب کو بتایا تو وہ سر ہلا کر اٹھ کر جانے لگا تھا ابھی وہ دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ غزنوق کوئی فائل ہاتھ میں لئے آفیس میں داخل ہو رہا تھا۔

"ارے انسپکٹر صاحب آپ......خیریت تھی۔"

غزنوق نے انسپکٹر فرجاد خان کو دیکھ کر گرم جوشی سے معانقہ کیا۔

"خیریت تھی بس ایک ضروری کام سے آیا تھا۔ بس آپ لوگ مجھے بروقت بتا دیجئے گا اگر کوئی اسی بات ہو یا پھر کوئی غیر معمولی حرکت دیکھیں تو فورا اطلاع دیں۔"

انسپکٹر فرجادخان نے غزنوق سے کہتے کہتے مڑ کر خاور کی جانب دیکھا خاور نے اعتبار میں سر ہلا دیا۔

"آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔میں سمجھ نہیں پایا۔"

غزنوق نے جلدی سے پوچھا۔

"ملک غزنوق خان مجھے اب اجازت دیجیئے آپ کو تفصیل ملک خاور بتائیں گے۔"

انسپکٹر نے معانقے کے لئے غزنوق کیطرف الوداعی ہاتھ بڑھایا جو غزنوق نے مسکراتے ہوئے تھام لیا انسپکٹر صاحب اللہ حافظ کہتے آفس سے نکل گیا۔ غزنوق فائل لئے خاور کیطرف آیا۔

"کیا مسئلہ تھا؟"

غزنوق نے پوچھا تو خاور نے تمام بات اسکے سامنے رکھی۔

"ہاں میں نے بھی سنا ہے اس بارے میں۔ بلکہ میں تو سنا ہے کہ دو کوٹھے بھی بند کروا دیئے ہیں۔"

غزنوق پرسکون انداز میں کرسی پہ بیٹھ گیا۔

"سچ پوچھو تو میں بہت خوش ہوا ہوں یہ سن کر بلکہ احسان مند ہوں گا اگر یہ سب بند ہو جائے۔"

اس نے فائل خاور کیطرف بڑھائی مگر انہوں نے باقی لوگوں کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔خاص طور پر صاحب حیثیت لوگوں کو اسی لیے انسپکٹر صاحب اسی سلسلے میں آئے تھے کہ ہمیں بھی کوئی ایسی دھمکی تو نہیں ملی۔"

خاور نے غزنوق کو انسپکٹر کی آمد کے بارے میں بتایا۔

"ہاں معلوم ہوا ہے مجھے کچھ دکانیں بھی جلائی ہیں۔انھوں نے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر ان لوگوں کو پریشان کر رے ہیں جو ریڈ لائٹ کے علاقے سے کسی نہ کسی طرح منسوب ہیں۔ باقیوں کو پریشان نہیں کر رہے ہیں۔"

خاور نے اسے فائل کھولنے دیکھ کر کہا۔

"ہاں صحیح ہے میں دیکھ لیتا ہوں۔"

وہ فائل لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"بیٹھو نا یہیں دیکھ لو ورنہ کل تک کا دن ہے ہمارے پاس۔۔۔چائے پیتے ہیں۔"

خاور نے اسے روکنا چاہا۔

"ٹھیک ہے تم چائے منگوا میں یہ فائل رکھ کر آتا ہوں۔"

غزنوق روم سے باہر آگیا۔۔۔اسکی سوچوں کا محور ایک بار پھر سے ملغلرہ گلریز خان تھی۔

________________________________________________

یہ ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا۔کمرے کے چاروں طرف گاو تکیے ترتیب سے رکھے گئے تھے۔گہرے سرخ رنگ کے بھاری پردے کھڑکیوں پہ پڑے دن میں بھی رات کا پتہ دے رہے تھے۔پورا کمرہ چنبیلی اور گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔تازہ پھولوں کی مہک نے پورے کمرے کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔خانم جان کمرے کے وسط میں کھڑی ہر چیز کا جائزہ لے رہی تھی۔

"تاجی۔۔او تاجی۔۔"

خانم کی پکار پہ تاجی دوڑتا ہوا آیا۔

"ہاں خانم۔۔"

وہ خانم کے پاس آیا۔

"یہ فانوس کا ایک بلب نہیں جل رہا۔۔اسے بدل دو۔۔کمرہ تاریک لگ رہا ہے۔"

وہ چھت سے لٹکتے فانوس کے نیچے کھڑی فانوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

"اچھی بھلی تو روشنی ہے۔کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔"

تاجی نے اچھے خاصے روشن دکھتے کمرے کو دیکھ کر خانم جان کی عقل پہ ماتم کیا۔

"تو اپنا مشورہ اپنے پاس رکھ اور جو کہا ہے وہ کر۔۔بڑا آیا مشورہ دینے والا۔"

خانم نے اسے تیز نظروں سے دیکھا۔

"اچھا اچھا۔۔بدلتا ہوں۔"

وہ باہر نکل گیا اور تھوڑی ہاتھ میں لئے بلب واپس آیا اور اسٹول پہ چڑھ کر بلب لگانے لگا۔

"ایک بات کہوں خانم۔"

اس نے بلب لگانے کے بعد پوچھا۔

"ہاں بول۔۔"

خانم جان کمر پہ ہاتھ رکھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"جب تمھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں تو پھر یہ سب کیوں کروا رہی ہے۔"

وہ اسٹول سے اترا۔

"تو اپنے کام سے کام رکھ۔جو بھی ہو گا ہم بھگتیں گے تیرا کیا جائے گا۔"

خانم پلٹ کر جانے لگی۔

"پھر بھی خطرہ کیوں مول لے رہی ہے۔جہاں بیگم کے متعلق تو اسکی زبانی سب جان ہی چکی ہو۔"

اس کی بات سن کر خانم جاتے جاتے رک گئی۔

"کہا ہے نا تجھے کہ اپنی حد میں رہ۔۔مجھے پتہ ہے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اور ویسے بھی ہماری پہنچ سے ڈرتے ہیں وہ لوگ ورنہ سب سے پہلے یہاں آتے۔"

یہ کہہ کر وہ چلی گئی جبکہ تاجی اسے خاموشی سے دیکھتا رہ گیا۔

"ارے تاجی یہاں کیوں کھڑا ہے؟"

ستارہ اور سپنا اسے خاموش کھڑے دیکھ کر پوچھا۔اس وقت دونوں کے چہرے میک اپ سے مبرا تھے۔دھلے دھلے چہرے۔۔۔جن پہ میک اپ کی دبیز تہوں نے کوئی تازگی باقی نہیں چھوڑی تھی۔

"کچھ نہیں بلب ٹھیک کر رہا تھا۔"

وہ دونوں پہ ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے باہر نکل گیا۔

______________________________________________

وہ الماری کھولے آج ہونے والی اپنی پرفارمنس پہ پہننے کے لئے کپڑے منتخب کر رہی تھی۔صبح ہی سے دل و دماغ کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔اسکا دل بالکل نہیں تھا وہاں جانے کو۔۔جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اسکی بےچینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ابھی بھی وہ الماری کھولے خاموش کھڑی تھی۔نظریں کپڑوں پہ تھیں مگر سوچوں کا محور آنے والا وقت تھا۔

"کیا ہوا۔۔۔یوں کرو یہ اورنج پہن لو۔۔۔بہت سجتا ہے تم پر۔"

پلوشہ نے اسے الماری کے سامنے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر ایک اورنج کلر کا ایک خوبصورت ہلکے کام والا ڈریس نکال کر اسکے سامنے کیا۔ملغلرہ نے اسی خاموشی سے ڈریس اسکے ہاتھ سے لے کر بیڈ پہ رکھا۔

"کیا بات ہے۔۔۔پریشان ہو۔۔؟"

پلوشہ نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں پتہ نہیں کیوں دل بہت گھبرا رہا ہے۔"

وہ گہری سانس لیتی بیڈ پہ بیٹھ گئی۔پلوشہ نے الماری بند کی اور اسکے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"کچھ نہیں ہو گا۔تم یونہی پریشان ہو رہی ہو۔اصل میں تمھارا دل نہیں تھا نا شروع میں اسی لئے تم بےچین ہو۔دیکھنا سب ٹھیک ہو گا۔"

پلوشہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔

"اللہ کرے ایسا ہی ہو۔میں چینج کرتی ہوں۔تم میرے لئے ایک کپ چائے کا لے آو۔"

وہ کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔پلوشہ بھی کمرے سے باہر آ گئی۔تھوڑی دیر بعد جب وہ چینج کر کے نکلی تو پلوشہ بیڈ پہ منتظر بیٹھی تھی۔دونوں بہنوں نے مل کر چائے پی اور کچھ دیر ادھر ادھر کی ہلکی باتیں کرتی رہیں۔کچھ دیر گپ شپ لگانے کے بعد ملغلرہ باقی کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔عصر کا وقت ہو رہا تھا۔سرما کے دن تھے وقت گزرنے کا پتہ تک نہیں چلتا تھا۔ہلکے پھلکے میں اپ کے بعد اس نے آئینے میں دکھتے اپنے عکس پہ نظر ڈالی اور کمرے سے باہر آ گئی۔چھ بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔وہ باہر آئی تو گلریز خان صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس صحن پہ چارپائی پہ بیٹھا محو انتظار تھا۔اسے باہر آتے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"راحت ہم۔جا رہے ہیں دروازہ بند کر لو۔"

گلریز نے پلٹ کر کچن میں کھڑی راحت بانو سے کہا اور بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔راحت بانو نے ملغلرہ کو چادر اوڑھتے دیکھا تو باورچی خانے سے باہر آ گئی۔

"خیال رکھنا۔۔حالات کچھ اچھے نہیں ہیں اگر راستے میں کچھ اونچ نیچ ہوتے دیکھو تو واپس آ جانا۔"

راحت بانو نے اسکے قریب آ کر اسے سمجھایا تو وہ سر ہلا کر گلریز خان کے پیچھے باہر نکل گئی

راحت بانو بھی اسکے ساتھ دروازے تک آئی تھی۔ان کے نکلنے کے بعد اس نے باہر جھانکا۔آس پاس کوئی بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔واپس اندر ہو کر اس نے دروازہ بند کر چٹخنی چڑھائی اور باورچی خانے کی طرف آ گئی۔

"اماں کھانے میں کیا بنانا ہے؟"

پلوشہ نے ماں کو کچن میں داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ بھی بنا لو۔"

وہ لاپرواہی سے کہتے ہوئے وہیں سے واپس پلٹ گئی۔

"شکیب کہاں ہے؟"

جاتے جاتے وہ پلٹی۔

"ابھی تک تو یہیں کھیل رہا تھا لگتا ہے باہر نکل گیا ہے۔ٹھیریں میں دیکھتی ہوں۔"

پلوشہ دروازے کیطرف بڑھی جبکہ راحت بانو کمرے کیطرف بڑھ گئی۔

_______________________________________________

خانم جان ملغلرہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔ وہاں موجود سبھی لڑکیاں بھی اس سے ملی تھیں۔انھیں جس کمرے میں بٹھایا گیا تھا وہاں کی سجاوٹ دیکھنے کے قابل تھی۔پھولوں اور رنگین موم بتیوں ماحول کو خوابناک بنایا گیا تھا۔کمرے کی چھت سے لٹکتا فانوس نیم تاریک ماحول میں چاند لگ رہا تھا۔چنبیلی اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو پورے کمرے چاروں اور پھیلی ہوئی تھی۔اس وقت باقی لائٹس آف رکھی تھیں صرف ایک فانوس روشن تھا۔کمرہ کافی بڑا تھا اسی لئے کمرے کے اطراف ہلکا اندھیرا تھا صرف کمرے کا وسط روشن تھا۔خانم جان نے ملغلرہ کو کمرے ایک کونے میں بٹھایا تھا۔گلریز خان بھی اسی کے ساتھ براجمان چاروں جانب نظریں فوکس کئے بیٹھا تھا۔ابھی تک وہ ستارہ سے نہیں ملی تھی۔لڑکیوں کی کھنکتی آوازیں اسکی الجھن بڑھا گئی تھیں۔وہ تو ایک عرصہ ہوا کا خاموشیوں کی عادی تھی۔یہ چہل پہل اس کے مزاج پہ گراں گزر رہی تھی۔

"ارے ملغلرہ۔۔۔۔تم اتنی خاموش کیوں بیٹھی ہو اور یہ کیا اتنی سادگی سے تیار ہوئی ہو تم۔۔یہاں آج بڑے بڑے لوگ آئیں گے۔ٹھہرو میں ستارہ کو کہتی ہوں وہ تمھیں تیار کر دے گی۔ستارا ذرا یہاں آنا۔۔۔۔"

خانم نے ستارا کو بلند آواز میں پکارا تھا اور پھر وہیں اسکے پاس صوفے پہ ٹک گئی۔ملغلرہ کے حسن کے چرچے تو اس نے سن رکھے تھے مگر آج اسے اپنے سامنے دیکھا تو اسے یقین آ گیا تھا۔وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی۔وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر ملغلرہ رقص کے لئے مان جاتی ہے تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے۔۔دوسری طرف ملغلرہ کو اسکا بناوٹی انداز ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔

"نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔"

وہ چہرے پہ زبردستی کی مسکان سجاتے ہوئے بولی۔

"ارے کہاں ٹھیک ہو۔۔۔اتنا سادہ لباس اور۔۔۔۔"

خانم کی آواز پہ ستارا چھم چھم کرتی وہاں آئی۔

"جی خانم آپ بلا رہی تھیں۔"

اس نے لہک لہک کر پوچھا۔ملغلرہ بناء پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی اور گلریز خان کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔بلاشبہ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔بڑی بڑی آرٹیفیشل پلکیں جھپکاتے ہوئے اس نے ایک ادا سے پہلے گلریز خان اور پھر ملغلرہ کو دیکھا۔

وہ زیورات سے لدی تھی۔لباس بہت بھڑکیلا اور اس قدر چست تھا ملغلرہ کو لگا اسکا سانس بند ہو جائے گا۔

"ملغلرہ کو ذرا تیار کر دو۔"

خانم جان نے ستارا سے کہا۔ستارا کے خانم جان کے کہنے پہ ملغلرہ کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔

"نہیں میں ٹھیک ہوں۔مزید کی ضرورت نہیں ہے۔"

اس بار اسکا لہجہ ہلکی سی سختی لئے ہوئے تھا۔خانم جان نے اسکا موڈ بگڑتے دیکھ ستارا کو منع کر کے وہاں سے بھیج دیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ ملغلرہ کا موڈ خراب ہو۔

"اچھا اچھا ٹھیک ہے تم ریلیکس رہو۔وہی ہو گا جو تم چاہو گی۔"

خانم اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی وہاں سے اٹھ گئی۔گلریز خان نے بھی بیٹی کے چہرے پہ سختی اور ناپسندیدگی دیکھی مگر پھر بھی چپ رہا۔وہ یوں منہ پھلائے بیٹھی تھی۔اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے اسے مزید کوئی بات کی تو کہیں وہ غصے سے اٹھ کر چلی ہی نا جائے۔کچھ دیر بعد خانم جان انھیں وہاں سے دوسرے کمرے میں لے گئی جو باقی کمروں کی نسبت ایک پرسکون گوشے میں تھا۔یہ کمرہ پہلے والے کمرے سے کافی چھوٹا تھا۔یہاں موسیقی کے مختلف آلات رکھے گئے تھے۔ستار، طبلہ،بانسری،ہارمونیم ایک جانب رکھے گئے تھے۔پاس ہی گھنگھورو کی دو جوڑیاں بھی موجود تھی۔یہ کمرہ شاید پریکٹس کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔خانم انھیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔وہ دونوں ایک جانب رکھے صوفے پہ بیٹھ گئے۔انھیں وہاں بیٹھے بیٹھے اب کافی وقت ہو گیا تھا۔ملغلرہ کا جی چاہا اٹھ کر چلی جائے مگر باپ کی خاطر چپ سادھے بیٹھی تھی۔

"بابا۔۔۔کب شروع ہو گا۔بہت دیر ہو رہی ہے۔ہمیں واپس بھی تو جانا ہے۔"

گلریز خان تنگ آ کر کچھ دیر کے لئے باہر چلا گیا تھا۔واپس آیا تو وہ فورا بولی۔گلریز نے گھڑی کی جانب تھا دس بجنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے۔ابھی وہ ہال کمرے سے ہی آیا تھا۔وہاں سات آٹھ مرد گاو تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

"بس کچھ ہی دیر میں۔۔۔مہمان بھی آ گئے ہیں۔"

وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔

"یہ آج وقت کیوں نہیں گزر رہا۔۔یوں لگتا ہے جیسے آج وقت نے مجھ سے ضد باندھ رکھی ہے۔"

وہ وال کلاک پہ نظریں ٹکائے بولی تھی۔گلریز خان نے پہلے گھڑی کو دیکھا اور پھر اسے دیکھا اور صرف سر ہلانے پہ اکتفاء کیا۔کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ انھیں باہر کی جانب کچھ شور سنائی دیا۔دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ اور پھر گلریز آٹھ کر باہر جانے لگا مگر ملغلرہ نے بازو تھام کر اسے روک دیا اور اشارے سے نفی میں سر ہلایا۔

"مجھے دیکھنے تو دو۔"

آوازیں اب بلند ہو رہی تھیں۔وہ ایک بار پھر اٹھا۔

"نہیں بابا۔۔۔آپ باہر مت جائیں۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔کہیں یہ وہی لوگ نہ ہوں۔بس آپ باہر نہیں جائیں گے۔"

خوف سے اسکی جان نکلی جا رہی تھی۔

"میں ایک سیکنڈ میں واپس آتا ہوں۔ہو سکتا ہے کوئی اور بات ہو۔"

گلریز نے اپنا بازو اسکی گرفت سے نکالا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ملغلرہ نے فورا اٹھ کر دروازہ اندر سے لاکڈ کیا اور واپس آ کر اپنی جگہ پہ بیٹھ گئی۔ادھر گلریز خان جب ہال کمرے میں پہنچا تو وہاں کا منظر ہی الگ تھا۔چھ دیوہیکل آدمی محفل کے شرکاء کو وحشیانہ انداز میں مار رہے تھے۔انھوں نے اپنے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپ رکھے تھے۔سرخ آنکھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔گلریز خان نے فورا وہاں سے پلٹنا چاہا مگر اسکی بدقسمتی نے گھنٹی بجا دی تھی۔صوفے پہ بیٹھے انہی کے ایک ساتھی نے اسے دیکھ لیا اور اس سے پہلے کہ گلریز خان بھاگتا اس شخص نے کسی چھلاوے کیطرح اسے جا لیا۔وہ اسے پوری طاقت سے گھسیٹتا ہوا کمرے کے وسط میں لے آیا اور پھر اسے یوں اٹھا لیا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور پھر آو دیکھا نہ تاو۔۔زمین پہ پٹخ دیا۔گلریز نے ایک لمحے کے لئے صوفے میں دھنسی خانم جان کو دیکھا جس کی آنکھیں خوف و دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔اگلے ہی لمحے اس شخص نے گلریز خان پہ لاتوں اور گھونسوں کی برسات کر دی۔

"منع کیا تھا نہ تجھے۔۔۔۔"

وہ مغلضات بکتا گلریز خان کو جان سے مارنے کے درپے تھا جبکہ گلریز خان کو یوں لگا جیسے وہ اب زندہ نہیں بچے گا۔اب وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اسے صرف اتنا محسوس ہو رہا تھا کہ اسکا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔وہ آدھ مری حالت میں زمین پہ پڑا تھا۔اسکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے۔وہ آنکھیں کھول نہیں پا رہا تھا۔وہاں موجود باقی مردوں کی بھی یہی حالت تھی۔اب وہ سب اپنے سردار کے پاس کھڑے گلریز خان کو پٹتے دیکھ رہے تھے۔ان کی آنکھیں بھی اپنے سردار کی آنکھوں کیطرح بےتحاشا سرخ تھیں۔جب اس نے گلریز خان پہ اپنا سارا غصہ نکال دیا تو واپس خانم جان کے پاس آیا جو اپنے سامنے بےہوش پڑے مردوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

"بتا۔۔باقی لڑکیاں کہاں ہیں؟"

وہ خانم کو قہر بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بلند آواز میں چیخا۔

"مم۔۔مم۔۔مجھے نہیں معلوم۔۔۔یہاں کوئی لڑکیاں نہیں ہیں۔"

اس شخص کی آواز اسکا خون خشک کیے دے رہی تھی۔

"جب ہم نے پورے علاقے میں اعلانیہ کہا تھا کہ بند کرو یہ بےشرمی۔۔۔مگر تم۔۔۔۔۔۔آج میں ان سب کو تمھارے سمیت عبرت کا نشان بناو گا۔آگ لگا دوں گا تم سب کو تاکہ خس کم اور جہان تم جیسی غلاظت سے پاک ہو جائے۔"

وہ خانم جان پہ آنکھیں گاڑے کھڑا تھا۔

"ہم تو۔۔۔ہم تو۔۔۔۔۔"

اسکی دہشت سے اسکی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔

"سیدھی طرح بتاو کہ باقی لڑکیاں کہاں ہیں؟"

اس نے پوچھا مگر وہ منہ سیے بیٹھی رہی۔ابھی وہاں کچھ دیر پہلے ان سب کی ہنسی گونج رہی تھی مگر اب اس قدر خاموشی تھی جیسے وہاں کوئی اور ذی روح موجود نہ ہو سوائے ان سب کے۔

"تم تینوں جاو۔۔۔۔۔اور سب کو لے کر آو یہاں۔"

وہ خاموش رہی تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔وہ تینوں وہاں سے چلے گئے۔

"ابھی پتہ چل جائے گا لڑکیوں کا۔"

وہ اپنے پیروں کے قریب بےسدھ پڑے گلریز کو ایک لات رسید کی۔وہ اسکی جانب دیکھنے سے بھی گریز کر رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ تینوں تمام لڑکیوں کو لئے کمرے میں داخل ہوئے۔تمام لڑکیاں خوف سے پیلی پڑی ہوئی تھیں۔میک اپ سے رنگین بنائے گئے چہروں پہ اب خوف کی ذردی کھنڈی ہوئی تھی۔انکا سردار ان کی جانب مڑا۔

"تم میں سے ستارا کون ہے؟"

اسکی غضب ناک آواز ان سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پہ مجبور کر گئی۔وہ سبھی ڈری سہمی خاموش کھڑی تھیں۔ایک نے بھی اسکی بات کا جواب نہیں دیا۔

"میں ہوچھ رہا ہوں کون ہے ستارہ۔۔۔ورنہ تم سب کو یہیں زندہ گاڑ دوں گا۔"

وہ دھاڑا مگر ان میں سے کوئی نہیں بولا۔خانم جان بھی صوفے میں دبکی بیٹھی تھی۔

"ٹھیک ہے تو پھر سبھی تیار ہو جاو مرنے کے لئے۔"

اس نے ان میں ایک پہ نشانہ باندھا۔وہ سبھی چیخنے لگی تھیں۔انھیں اپنی موت اپنے سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ان کی فلک شگاف چیخیں کمرے میں چھپی بیٹھی ملغلرہ تک پہنچ رہی تھیں۔دل ہی دل میں باپ کی خیریت سے ہونے کی دعائیں کرتی وہ صوفے کے پیچھے چھپی تھی۔

وہاں وہ شخص ایک ایک لڑکی کو بغور دیکھ رہا تھا۔پھر ایک لڑکی پہ اسکی نگاہ رک گئی۔وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا اور ستارہ کو کلائی سے پکڑ کر اسے خانم جان کے سامنے لا کھڑا کیا۔

"یہ ہے ستارا۔۔۔؟"

اس نے جھٹکا دے کا اسکی کلائی چھوڑی تھی۔ستارا کا چہرہ بھی خوف سے پیلا پڑ گیا تھا۔وہ پورے علاقے میں اپنے ناز و انداز، چست کپڑوں اور کٹے بالوں کے باعث ایک مشہور رقاصہ تھی اور وہاں کی ناچ گانے کی محفلوں میں بڑی مقبول تھی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اسے باآسانی پہچان گیا تھا۔خانم جان نے نفی میں سر ہلایا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔تو یہ ہے ستارا۔"

اس کا قہقہہ ستارا کے ہوش اڑا گیا۔

"نن۔۔نہیں۔۔۔میں ستارا نہیں ہوں۔وہ تو یہاں سے جہاں بیگم کے ساتھ ہی چلی گئی ہے۔"

وہ انکار کرتے ہوئے خانم جان کے پاس جانے لگی لیکن اس نے راستہ روک دیا۔

"خانم جان۔۔! ہمیں ستارا سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں۔تھوڑی دیر بعد ہم اسے چھوڑ دیں گے۔۔"

وہ باقی ساتھیوں کو اشارہ کرتا ستارا کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے لگا۔خانم جان یہ دیکھ کر تیزی سے اٹھی مگر پھر بندوق کی ناب خود پہ تنی دیکھ کر وہیں رک گئی۔

"اگر ہمارا پیچھا کیا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔زندہ نہیں چھوڑیں گے ہم۔"

مارنے کی دھمکی سن کر خانم وہیں رک گئی۔

ستارا چلا رہی تھی۔۔معافیاں مانگ رہی تھی مگر وہ تو جیسے کان بند کیے چل رہا تھا۔باقی سب کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ان کے جانے کے بعد وہاں صرف و صرف سناٹا تھا۔۔۔۔

موت کا سناٹا۔۔۔۔

_____________________________________________

جیسے ہی خانم جان کو دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔وہ اس امید پہ فورا باہر کی جانب دوڑی کہ کہیں ستارا کو وہ لوگ باہر چھوڑ گئے ہوں مگر جب باہر تو ستارا کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔وہ بھاگتی ہوئی واپس اندر آئی۔وہاں ابھی تک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔کارپٹ پہ ادھر ادھر محفل سے لطف اٹھانے کے لئے آئے مرد اس وقت زخموں سے چُور خود سے بےخبر پڑے تھے۔لڑکیوں کے چہروں پہ ابھی بھی خوف ناچ رہا تھا۔وہ سب ستارا کے بارے میں ہی سوچ رہی تھیں یا پھر ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے اگلی باری اسکی ہو اور یہی سوچ ان سبھی لڑکیوں پہ کسی آفت کیطرح نازل ہوئی تھی۔خانم جان کو سر جھکائے۔۔آنکھوں میں آنسو لئے آتے دیکھا۔اسکا چہرہ کالی رات کیطرح سیاہ دکھائی دیا۔اس وقت وہ یوں لگ رہی تھی جیسے کوئی موت کے دہانے پہ کھڑی کوئی بوڑھی عورت ہو۔۔۔ایک ایسی بےجان عورت جو خالی ہاتھ رہ گئی ہو۔وہ سبھی پہ نظریں ڈالتی صوفے پہ جا کر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔

"خانم جان۔۔۔۔ستارا۔۔۔۔؟؟"

لیلی دھیرے دھیرے چلتی اسکے قریب آئی تھی۔

"وہ نہیں تھی۔۔۔"

خانم کی آنکھوں سے آنسو نکل نکل کر اس کا چہرہ تر کر رہے تھے۔

"ذرا تاجی کو فون کرو لیلی۔۔اور اسے کہو کہ ایمبولینس لے کر آئے۔"

خانم جان نے سر اٹھایا۔لیلی ٹیلی فون اسٹینڈ کیطرف دوڑی۔کچھ دیر بعد تاجی دوڑتا ہوا اندر آیا تھا۔اسی دوران ملغلرہ کو جب خاموشی محسوس ہوئی تو وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔اندازے سے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہال کمرے کی طرف آئی۔وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں کی حالت دیکھ کر اسکے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ساری لڑکیاں کپکپاتے وجود کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی خانم جان کے اردگرد کھڑی تھیں۔اس نے کمرے میں ہوش و خرد سے بیگانہ مردوں کو زمین پہ پڑے دیکھا۔اس نے وہاں اپنے باپ کو ڈھونڈا۔گلریز خان اسے صوفے کے قریب ہی پڑا مِلا۔وہ باپ کی طرف دوڑی۔

"بابا۔۔۔بابا۔۔کیا ہوا۔۔؟"

اس کی آواز سن کر وہ سبھی اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔خانم جان اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیا ہوا ہے یہاں۔۔کون آیا تھا یہاں۔۔۔کس نے کیا ہے یہ سب؟"

اس کے ہلانے کے باوجود گلریز خان کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔

"پتہ نہیں کون لوگ تھے۔۔۔ستارا کو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔"

لیلی روتے ہوئے بولی۔

"تم پانی لے کر آؤ۔۔انھیں ہوش میں لانے کی کوشش تو کریں نا ہم۔"

لیلی دوڑ کر پانی لے آئی۔ملغلرہ نے اس کے ہاتھ سے پانی لے کر گلریز کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے مگر گلریز کو ہوش نہ آیا۔ملغلرہ نے باقی لڑکیوں کو باقی بے ہوش ہوئے مردوں پر پانی پھینکنے کو کہا۔لیلیٰ نے باقی لڑکیوں کے ساتھ مل کر بے ہوش پڑے تمام افراد پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ان میں سے تین کو ہوش آ گیا تھا مگر باقی چھ کو ہوش نہیں آ رہا تھا۔گلریز بھی ابھی تک بے سدھ پڑا تھا۔ملغلرہ اسے مسلسل ہوش میں لانے کی کوششیں کر رہی تھی۔اسی اثنا میں تاجی ایمبولینس لے کر وہاں پہنچ گیا۔تاجی نے جب اندر کے مناظر دیکھے تو سوال کرتی نگاہوں سے خانم جان کو دیکھا۔خانم جان کے چہرے پر دکھ کی لکیریں رونما ہوئیں اور وہ نظر جھکا کے رہ گئی۔تاجی نے جلدی جلدی دو تین میل نرسوں کے ساتھ ملکر بے ہوش افراد کو اسٹریچرز پہ ڈالا اور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال بھیجوادیا اور خود اندر آ گیا۔اسی دوران ملغلرہ کی کوششوں سے گلریز کو ہوش آ گیا۔وہ زخمی حالت میں تھا لیکن زخم معمولی نوعیت کے تھے۔وہ اپنے اینٹھتے وجود کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔تکلیف کے اثرات اس کے چہرے پر واضح دکھائی دے رہے تھے۔ملغلرہ نے باپ کو سہارا دے کر صوفے پر بٹھایا اور اسے پانی پلایا۔خانم جان اسکی حرکات و سکنات کا کنکھیوں سے جائزہ لے رہی تھی۔باپ کی حالت دیکھ کر ملغلرہ کی آنکھوں سے مسلسل اشک بہہ رہے تھے۔باقی لوگوں کی پروا کئے بناء وہ گلریز کو سہارا دیئے وہاں سے باہر نکل آئی۔باپ کی تکلیف نے اسے سب کچھ بھلا دیا تھا۔اس نے گلریز خان کو گاڑی میں پیچھے لٹا دیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔اس کے دماغ میں ایک ہی جملے کی تکرار ہو رہی تھی اور زباں پہ ایک ہی لفظ تھا اور وہ تھا ستارہ۔۔۔۔۔

سارے راستے باپ کی تکلیف دہ آوازوں کے باوجود اسکی آنکھوں کے سامنے ستارہ کا چہرہ تھا اور کانوں میں اسکی کھنکتی ہنسی گونج رہی تھی۔نجانے کیوں اس کا دل ڈر رہا تھا اور دماغ سے ایک ہی خیال چپک کر رہ گیا تھا کہ وہ اب ستارہ کو کبھی دیکھ نہیں پائے گی۔اس کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔بمشکل گاڑی ڈرائیو کر کے وہ گلریز کو ہسپتال لے آئی تھی۔ڈاکٹرز نے گلریز کا ٹریٹمنٹ کیا اور آدھے گھنٹے بعد فارغ کر دیا۔باقی افراد کو بھی اسی ہسپتال لایا گیا تھا۔یہاں اسے معلوم پڑا کہ ان میں سے ایک جانبر نہ ہو سکا تھا۔باقیوں کو ابھی ٹریٹمنٹ دیا جا رہا تھا۔ملغلرہ نے میڈیسن کی دکان سے گلریز کے لیے دوائیاں خریدیں اور اسے لیے گھر روانہ ہوئی۔آنسو متواتر اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔

________________________________________________

اگلی صبح تک سارے خاندان والے ستارہ کا انتظار کرتے رہے۔پھر تاجی اسے ڈھونڈنے نکل پڑا۔تھوڑی دور جانے کے بعد ستارہ تاجی کو چوک میں پڑی ہوئی ملی۔اسے چھ گولیاں لگی تھیں اور ایک بازو تین جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا۔اسکی لاش کے اردگرد کرنسی نوٹ اور اسکی ڈانسنگ ویڈیوز کی سی ڈیز بکھری ہوئی تھیں۔وہ مر چکی تھی۔جب حالات بگڑنے لگے تھے تو وہاں کی ساری رقاصائیں ناچ گانا چھوڑ کر شادی کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ستارہ بھی ان میں سے ایک تھی جو سب سے زیادہ خوبصورت تھی اور اس کے پرستار اس سے شادی کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔خانم جان نے بالا ہی بالا ستارا کا رشتہ طے کردیا تھا جو کہ ایک سرکاری افسر تھا مگر اس نے شادی کیلئے رقم جمع کرنے کی خاطر چھ ماہ کا وقت لیا تھا۔خانم نے سوچا کہ جب تک اسکی شادی نہیں ہوتی ہے،وہ رقص کا کام جاری رکھے۔ستارہ بھی راضی تھی اور سوچ رہی تھی کہ انھیں پتا نہیں چلے گا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ چپ کر محفل کرے گی تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔اس  طرح اس نے کچھ پروگرام اپنے گھر پہ کیے اور ایک تقریب میں جا کر رقص کیا۔مگر ان سے یہ بات چھپی نہ رہ سکی اور انہوں نے اسے پکڑ لیا اور قتل کردیا۔

تاجی نے اسکی لاش کو گھر لے آیا۔خانم جان نے جب ستارہ کی گولیوں سے چھلنی خون آلود لاش زمین پر بے گور و کفن پڑی دیکھی تو اسکا دل حلق میں آ گیا۔وہ دھاڑیں مارتے مار کر روتی اسکے بےحرکت وجود سے لپٹ گئی۔باقی سب بھی ستارہ کے اس اندوہناک قتل پہ آنسو بہا رہی تھیں۔تاجی اور لیلی نے بڑی مشکلوں سے خانم جان کو سنبھالا اور اسے صحن میں موجود کرسی پہ بٹھایا۔یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے سارا خاندان اور برادری والے وہاں جمع ہونے لگے۔گلریز خان کو بھی جب ستارہ کی موت کی خبر ملی تو وہ راحت بانو اور ملغلرہ کو لئے وہاں پہنچا تھا۔ملغلرہ ستارہ کو دیکھ دیکھ کر خاموش آنسوؤں سے رو رہی تھی۔ستارہ کی تکلیف وہ سبھی اپنے دل پہ محسوس کر رہے تھے۔کچھ دیر بعد ستارہ آخری رسومات ادا کردی گئیں اور اسے منوں مٹی تلے لحد میں اتار دیا گیا۔

"تم بھی پیچھے ہٹ جاؤ اس کام سے چھوڑ دو یہ سب۔۔۔۔موت ہم سب کا پیچھا لے چکی ہے۔۔ہم بھی اسی طرح لحد میں اتار دئیے جائیں گے۔تب تک ہم پہ کوئی رونے والا بھی شاید نہیں بچے گا۔"

وہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔کچھ دیر پہلے ہی ستارہ کا جنازہ اٹھایا گیا تھا۔

"معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔"

وہ آنسو پونچھ کر ساتھ بیٹھی چھبیس سالہ لڑکی کو دیکھنے لگی تھی۔اس لڑکی کی آنکھوں سے آنسو کسی جھرنے کی مانند بہہ رہے تھے۔

"میرا نام نسرین ہے۔۔مجھے بھی ایسی ہی اذیت سے گزرنا پڑا تھا جب ایک ماہ قبل ان لوگوں نے ہم پہ بھی بابندی لگا دی۔میرے شوہر کو بہت مارا تھا۔اسکی دائیں ٹانگ توڑ دی تھی۔میرا معاملہ تو ایسے بھی سنگین ہو گیا تھا کہ میرے خاندان کے مرد میرے شو میں آلاتِ موسیقی بجایا کرتے تھے اور وہ کوئی متبادل ذریعہ معاش نہیں رکھتے تھے۔کچھ وقت میں نے خاموشی سے کام کیا اور اتنے پیسے اکٹھے کر لئے جس سے میں نے اپنے شوہر کو ایک ویگن خرید دی تاکہ ناچ گانے سے کنارہ کشی کر کے جان بچائی جا سکے۔مگر مسافر ویگن کو چلانے میں میرے شوہر کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوئی۔کچھ وقت کے بعد میں نے چوری چھپے اپنے پرستاروں کو گھر پہ بلانا شروع کر دیا۔ان کے مخبر پورے علاقے میں پھرتے رہتے ہیں اور جہاں بھی ایسی محافل منعقد ہوں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔انھوں نے ہمارے گھر میں گھس کر میرے باپ اور بھائی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔اب میں یہ کام نہیں کر سکتی نہ چھپ کر نہ ہی کھلے عام۔بس ویگن سے جو بھی کمائی آتی ہے ہم روکھی سوکھی کھا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔تم بھی چھوڑ دو۔۔۔چھوڑ دو یہ سب۔"

یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ملغلرہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"تم تک اس لئے نہیں پہنچے کیونکہ تم رقص نہیں کرتی ہو اور کبھی کرنا بھی نہیں۔۔۔بلکہ گانا بھی چھوڑ دو ورنہ تمھارا بھی کوئی نہیں بچے گا۔تم تو خوبصورت ہو۔۔کم عمر ہو پشاور جا کر کسی شریف آدمی سے شادی کر لو اور اپنی زندگی گزارو۔"

وہ اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیے اسے سمجھا رہی تھی۔اسی دوران راحت بانو واپس آئی اور ملغلرہ کو چلنے کے لئے کہا۔وہ نسرین کے گلے لگی اور ماں کی نظروں سے چھپا کر اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر اسکے ہاتھ بڑی محبت سے رکھے اور اسکی مٹھی کو بند کر دیا۔

"جب بھی میری ضرورت پڑے اپنی بہن سمجھ کر مجھے بتانا۔"

یہ کہہ کر آنکھوں میں آئی نمی کو زبردستی دھکیلتی ماں کے ساتھ بیرونی گیٹ کیطرف بڑھ گئی۔

ستارہ کے اس بہیمانہ قتل سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تمام لوگ علاقہ چھوڑ کر جانے لگے۔وہ لوگ افراتفری میں وہاں سے جانے لگے۔ہر چیز یہاں چھوڑ کر۔۔کچھ نے شادیاں کر کے اپنے گھر بسا لیے اور باقی کی زندگی خاموشی اور گمنامی میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔کچھ رقاصائیں ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو گئیں مگر بہت سی ایسی بھی تھی جو اسی کاروبار میں پلی بڑھی تھیں اس لئے ان کے لیے معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لئے محض چند ہی راستے ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سی رقاصائیں شادی کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکی مگر یہاں رہنا اس پیشے کے ساتھ ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔گلریز خان نے بھی چپ سادھ رکھی تھی۔گھر میں جو بھی جمع پونجی تھی وہ آہستہ آہستہ کر کے ختم ہو رہی تھی۔آنے والے وقت نے انہیں پریشان کر رکھا تھا۔ہاتھ میں کوئی ہنر نہیں تھا جسے کام میں لا کر وہ آنے والے کٹھن وقت سے خود کو بچا پاتا۔ملغلرہ نے تو اب گھر سے نکلنا چھوڑ دیا تھا۔جو بھی بچت تھی اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ان کی مجبوری تھا۔

اس دوران ملغلرہ کے لیے بھی بہت سے رشتے آئے تھے مگر وہ یہ کہہ کر انکار کرتا رہا کہ وہ اس شخص سے ملغلرہ کی شادی کرے گی جو اسے سب سے زیادہ پیسے دے گا۔شادی کے دعویدار رقم کا بندوبست کرنے کا کہہ کر واپس چلے جاتے اور پھر پلٹ کر نہ دیکھتے۔جو بھی ملغلرہ سے شادی کا خواہشمند آتا گلریز خان اس سے اتنی زیادہ رقم کا مطالبہ کرتا کہ پھر وہ واپس ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ رقم اتنی زیادہ ہو جس سے وہ کوئی کاروبار کر لے اور باقی کی زندگی آرام سے گزارے گا۔پلوشہ کی جانب سے وہ بےفکر تھا کیونکہ پلوشہ کو اسکی خالہ زرمینہ گل نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے مانگ لیا تھا حالانکہ زرمینہ کی خواہش تھی کہ ملغلرہ اس کی بہو بنے مگر گلریز خان اس بات کے لئے راضی نہیں تھا۔زرمینہ گل کو دونوں ہی عزیز تھیں اس لئے اس نے وہی رشتہ پلوشہ کے لئے ڈال دیا۔پلوشہ کے لئے گلریز خان مان گا تھا بس اب اسے ملغلرہ کے لئے رشتے کے لئے تلاش تھی۔

________________________________________________

"تم لوگوں نے آج کا اخبار پڑھا۔"

وہ دونوں اس وقت لنچ ٹائم میں اکٹھے بیٹھے لنچ کر رہے تھے جب داور آفس میں داخل ہوا۔اس نے ہاتھ میں پکڑا اخبار ٹیبل پہ ان کے سامنے رکھا۔غزنوق کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس خبر سے واقف ہے۔خاور نے اخبار اٹھا لیا۔اس نے ایک نظر غزنوق کو دیکھا اور پھر بلند آواز میں خبر پڑھنے لگا۔خبر سن کر غزنوق کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا۔خبر ریڈ لائٹ کے علاقے سے متعلق تھی۔خبر میں رقاصاؤں اور ان سے متعلق خبریں شامل تھیں۔خبر میں ان تمام لڑکیوں کے نام تھے جو دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوئی تھیں۔ایک ایک نام پڑھنے پہ غزنوق کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔جو خبر سب سے زیادہ ہائی لائٹ کی گئی تھی وہ اِن رقاصاؤں کا اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرنے کی تھی۔یہی خبر سن کر ملک غزنوق خان کے چہرے کا رنگ بدلہ تھا۔مزید یہ کہ یہ تمام خاندان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔

"میرے خیال میں ہمیں ملغلرہ کے متعلق۔۔۔۔۔۔"

خاور نے غزنوق کی طرف دیکھا اور اخبار اس کی طرف بڑھایا۔غزنوق نے اس کے ہاتھ سے اخبار لے تو لیا مگر بناء پڑھے ٹیبل کے ایک جانب رکھ دیا۔وہ دونوں غزنوق کی طرف متوجہ تھے۔

"خاور ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔ہو سکتا ہے ہماری ضرورت ہو ان کو۔۔یہی تو اُنکا ذریعہ معاش تھا۔"

داور نے خاور کی ہاں میں ہاں ملائی۔غزنوق اب بھی بالکل خاموش بیٹھا تھا۔

"وہ نفرت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔میری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی تو میری مدد اسے کیسے قبول ہو گی اسے۔"

غزنوق اٹھ کھڑا ہوا۔اسی وقت پیون چائے لئے اندر آیا۔

"کرامت خان۔۔۔۔یہ ناچ گانا کرنے والوں کے متعلق جو خبریں پھیل رہی ہیں۔۔سچ ہیں یا جھوٹ۔۔۔؟؟"

خاور نے کرامت خان سے پوچھا۔

"صاب۔۔سب سچ ہے جی۔۔۔یہ لوگ اپنا بوریا بستر باندھے تیار بیٹھے ہیں کہ کوئی پیسوں کے عوض ان کی بیٹی سے شادی کر لے اور وہ یہ جگہ چھوڑ کر چلے جائیں مگر کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا۔وہ گلریز خان ہے نا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کوئی اچھا اور مالدار لڑکا ڈھونڈ دوں اسکی بیٹی کے لئے۔"

کرامت خان کی بات سن کر تینوں نے بیک وقت اسے دیکھا۔

"بہت غریب ہے بیچارہ۔۔۔صاب کوئی اچھا سا بَر ڈھونڈ دو نا آپ۔۔"

کرامت خان نے خاور کی جانب دیکھا اور پھر اسکا جواب سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔

"خاور اور داور نے اسکی طرف دیکھا۔وہ ان کی آنکھوں سے جھلکتے مقصد کو جان کر حیرت سے کھڑا ہوا اور باہر جانے لگا۔

"غزنوق اس سے بہتر موقع تمہیں نہیں ملے گا۔"

اسے جاتے دیکھ کر خاور نے کہا۔وہ ایک پل کو رکا۔

"میں خان بابا۔۔۔۔۔"

"بعد میں ان کے پاس ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔تم نے ایک قدم اٹھاؤ۔۔ہم تمھارے ساتھ ہیں اور خان بابا بھی مان جائیں گے اور جب وہ مان جائیں گے تو باقی سب کا ماننا آسان ہوگا۔اس سے پہلے کے تمہاری محبت کی دیوار گر جائے تمھیں اسے تھامنا ہو گا۔یہ نہ ہو کہ بعد میں تم پچھتاؤ اور خالی ہاتھ رہ جاؤ۔"

خاور نے اسے سمجھایا۔

"خاور ٹھیک کہہ رہا ہے غزنوق۔۔۔تمھیں اگر اسے بچانا ہے تو اس وقت اسے اپنی پناہ میں لینا ہوگا ورنہ کوئی اور اسکے باپ کو پیسے دے کر اس سے شادی کر لے گا اور تم یہ بھی جانتے ہو اس کے باپ کو وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرے گا۔اگر پیسے دیکر وہ تمہیں مل جاتی ہے تو کیا برا ہے۔یہ پیسہ ان کی ضرورت ہے اور تم ان کی یہ ضرورت پوری کرسکتے ہو۔"

داور کرسی سے اٹھ کر دروازے کے قریب کھڑے غزنوق کے پاس آیا۔

"مگر یار خان بابا۔۔۔۔۔امیّ بابا۔۔باقی گھر والے۔۔"

وہ پیشانی مسلنے لگا۔

"مان جائیں گے سب تم آگے تو بڑھو۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ پچھتاوے میرے بھائی کا مقدر ٹھہریں۔"

خاور نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔غزنوق نے سر اثبات میں ہلایا اور وہ تینوں آفس سے نکل آئے۔ان کی منزل گلریز خان کا گھر تھا۔

_____________________________________________

یہ جنوری کی ایک سرد رات تھی۔ٹھٹھرا دینے والی سردی پڑ رہی تھی،رات کے نو بجے خاور نے ایک تنگ علاقے میں بنے گھر کے بڑے فولادی دروازے کو زور سے بجایا۔رات کے سناٹے میں آواز خاصی گونجی تھی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔داور نے خاور اور غزنوق کا دھیان دروازے کہ اوپر دلایا۔جب دونوں نے دروازے کے اوپر دیکھا تو ایک بورڈ دکھائی دیا جس پہ تحریر تھا "آج سے یہاں کوئی ناچ گانا  نہیں ہو گا۔"اس بورڈ پہ آٹھ اگست کی تاریخ درج تھی۔غزنوق نے ایک گہری سانس خارج کی۔پھر کافی دیر تک انتظار کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ایک متجسس پڑوسی ان کے پاس آیا اور بتانے لگا کہ گھر میں گلریز خان کو کافی انتباہی خطوط ملے تھے جن میں انہیں کہا گیا ہے کہ اگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے گھر کو ان سمیت  آگ لگا دی جائے تو انھیں اپنا کاروبار ختم کر دینا چاہئیے اور بھی اس کام سے منسلک لوگوں کو خطوط دیئے گئے ہیں اسی لیے کچھ لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں۔

"یہاں کچھ ماہ قبل تقریباً ایک ہزار رقاصائیں رہتی تھیں اور شام پڑتے ہی یہاں رقص اور گانے کی محافل سج جاتی تھیں۔ان محافل میں شرکت کیلئے دور دور سے لوگ آتے تھے مگر اب یہ گئے وقتوں کی بات ہے۔موت کی دھمکیوں سے بھی یہ بازار نہیں اجڑ سکتا تھا مگر ایک رقاصہ کے قتل کر دیا گیا اور باقی ساری اس کے اگلے دن ہی یہاں سے فرار ہو گئیں۔"

وہ شخص انکا بغور جائزہ لیتے ہوئے بولا۔۔خاور نے اس شخص کی بات پہ سر ہلا کر دوبارہ دروازے پہ دستک دی۔

"آپ لوگ اگر اسی سلسلے میں آئے ہیں تو واپس لوٹ جائیں۔۔اب ایسا کچھ نہیں ہے یہاں۔"

وہ شخص انھیں سمجھانے کے انداز میں بولا اور واپس پلٹ گیا۔وہ شخص گلی میں سے گزرتا بائیں جانب مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

"میرے خیال میں ہمیں دن کے وقت آنا چاہئیے۔"

"کون ہے۔۔۔؟"

اس بار بھی بند دروازہ ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ خاور کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پلٹ کر جانے لگے کہ اچانک گھر کے اندر سے آواز آئی۔غزنوق نے آواز کو پہچان لیا تھا۔یہ آواز گلریز خان کی تھی۔

"میں ہوں ملک غزنوق خان۔۔۔گلریز خان میں تم سے ملنے آیا ہوں۔"

دروازے کے اس جانب کھڑے گلریز نے فوراً دروازہ کھول دیا۔

"خان آپ۔۔۔۔اس وقت۔۔؟؟"

گلریز خان کو نجانے کیوں یہ نام سن کر خوشی ہوئی تھی۔اس نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے ان تینوں کو اندر آنے کا راستہ دیا،باہر جھانک کر دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی اور ان تینوں کو بیٹھک میں لے گیا۔

"جی خان کہیے کیسے آنا ہوا۔۔۔میں کی خدمت کر سکتا ہوں۔"

گلریز کی آواز میں اس قدر شیرینی تھی کہ وہ تینوں حیران رہ گئے۔غزنوق کو دیکھ کر اس کے دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اگر ملک غزنوق خان ملغلرہ سے شادی کر لے تو اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔غزنوق پہلے بھی ایک بار اسے یہ آفر کرچکا تھا کہ اگر ملغلرہ یہ کام چھوڑ دے گی تو وہ ان سب کی زمے داری اٹھانے کے لئے ہے۔اب اسے اپنے سامنے دیکھ کر اسے یہی خیال آیا تھا۔

"ہم یہاں ایک بہت ضروری بات کرنے آئے ہیں گلریز خان۔۔اگر تم توجہ سے ہماری بات سنو تو تمھارا ہی فائدہ ہے۔"

خاور نے بات شروع کی۔

"جی جی خان کہیے۔۔۔میں کی خدمت کر سکتا ہوں۔"

وہ ان سے یوں بولا جیسے اس کے اور غزنوق کے بیچ کبھی کوئی ناچاقی ہوئی ہی نہ ہو۔

"میں ملک غزنوق خان تمھاری بیٹی ملغلرہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔اس کے لئے مجھے تمھاری رضامندی کی ضرورت ہے۔"

خاور کی بجائے غزنوق بولا۔۔۔اس کی بات سن کر گلریز خان کے چہرے پہ زندگی سی جھلکنے لگی۔وہ رو پڑا۔

"خان میں آپکا احسان مند رہوں گا اگر میری بیٹی آپکی عزت بنے گی۔میرے لئے اس بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو گی۔"

"اگر تم راضی ہو تو میں کل ہی یہ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔"

غزنوق نے گلریز خان کو راضی دیکھکر کہا۔

"میری مجال خان کہ میں آپ کو انکار کروں۔۔یہ تو میری اور میری بیٹی کی خوش قسمتی ہو گی۔۔مگر خان آپ تو جانتے حالات کیا رخ اختیار کر گئے ہیں۔میری بیٹی میرا بیٹا تھی۔تھوڑی سی جمع پونجی ہے جو آخری دہانے تک آ پہنچی ہے۔اگر آپ مجھے کوئی کاروبار شروع کروا دیتے تو۔۔۔۔۔مم میرا مطلب ہے کہ اگر تھوڑے سے پیسے مل جاتے تو۔۔۔پھر کبھی آپکا تنگ نہیں کروں گا۔"

گلریز خان نے چہرے پہ مسکینیت طاری کرتے ہوئے کہا۔

"تمھیں جتنے پیسے چاہئیں کل آ کر لے جانا۔۔۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھو کہ ملغلرہ کو پیسوں کے بارے میں کچھ نہیں بتانا۔جو بھی کہنا ہو گا میں خود کہوں گا اور تمھیں میرا حامی بننا ہو گا۔"

غزنوق اٹھتے ہوئے بولا۔۔۔میری منہ میں خاک خان جو میں آپ کے خلاف جاؤں۔آپ بےفکر رہیں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔یہ بات یہیں دفن۔"

گلریز نے خوشامدی انداز اپنایا۔۔

"اور ایک اور بات۔۔۔۔۔۔نکاح تک ملغلرہ کو نہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اسکا نکاح کس سے ہوا ہے۔۔تم میری بات سمجھ گئے ہو نا اور اگر پیسے لینے کے بعد کوئی چالاکی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

غزنوق چند قدم کے کر گلریز خان کے مزید قریب ہوا۔

"خان آپ بےغم ہو جائیں۔۔۔نکاح کے بعد اسے معلوم نہیں ہو گا۔"

گلریز نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے گلریز خان تو طے ہوا کہ کل تم پیسے لینے مت آؤ ہم خود پیسے بھی لے آئیں گے اور نکاح خواں بھی۔۔۔اور ہاں تم بےفکر رہو کم لگیں تو اور مانگ لینا۔"

خاور نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور تینوں آگے پیچھے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔گلریز خان کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کیسے اسکی قسمت نے پلٹا کھایا تھا۔وہ انکے جانے کے بعد راحت بانو کو خوشخبری دینے کمرے میں آیا۔راحت بانو یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اسکی بیٹی کی خوشی اسے مل رہی ہے۔ملغلرہ کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو پہلے تو وہ بہت حیران ہوئی کہ راتوں رات ایسا کون پیدا ہو گیا کہ بابا بناء پیسے لئے کی شادی کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔بغیر پیسوں کے اسکے باپ کا مان جانا اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔کچھ تھا جو اسے کٹھک رہا تھا مگر یہ بھی تھا کہ وہ باپ سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور اسکا کہا ٹال نہیں سکتی تھی بلکہ اس نے کبھی گلریز خان کی بات سے انحراف نہیں کیا تھا تو اس بار بھی وہ انکار کرنا نہیں چاہتی تھی۔جب سے اسے معلوم ہوا تھا ملک غزنوق خان کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی اس سے دور نہیں ہوا تھا۔اتنے عرصے سے تو اس نے اسکی یادوں کو دل کے صندوق میں بند کر رکھا تھا مگر آج پھر سے غزنوق کی یادیں کے اسکے دل کے بند کواڑوں سے جھانک رہی تھیں۔جسم کی تکلیف تو انسان برداشت کر لے مگر روح کی تکلیف کبھی دور نہیں ہوتی۔

"تو کیا وہ میری روح ہے۔۔۔؟؟"

اس نے خود سے سوال کیا۔۔

"ہاں۔۔۔۔شاید وہ روح بن گیا ہے میری۔۔"

کلہ چی ستا خواگہ یادونہ راشی

اغہ وختونہ ڈیر خواگہ تیریگی۔۔۔

بغیر لا تہ وختونہ نہ تیریگی۔۔۔

(کبھی جو تمھاری میٹھی یادیں آ جاتی ہیں۔۔

وہ وقت بہت میٹھا گزرتا ہے۔۔

تمھارے بغیر وقت نہیں گزرتا ہے۔۔)

اسکے دل کی ہاں پہ مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چُھوا اور یہ مسکراہٹ اس کی روح تک کو سرشار کر گئی۔وہ اپنے دل کے کواڑ کھولے اپنی آنکھوں کے کواڑ بند کر گئی۔ہلکی سی مسکراہٹ ابھی بھی اسکے لبوں پہ چھائی ہوئی تھی اور اس مسکراہٹ تادیر چھائے رہنا تھا کیونکہ بند آنکھوں کے پیچھے ایک مانوس چہرہ مسکرا رہا تھا۔

________________________________________________

اور پھر سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا۔۔اسکے نام کے ساتھ ایک ایسے شخص کا نام جڑ گیا جسے وہ جانتی تک تھی بلکہ نکاح کے دوران بھی وہ اس کے نام سے واقفیت نہ حاصل کر سکی۔بابا نے نکاح نامہ اس کے آگے کیا اور کہا یہاں دستخط کر دو اور اس نے چپ چاپ دستخط کر دیئے۔پلوشہ اور راحت بانو بہت خوش تھیں۔صبح سے پلوشہ اس سے معنی خیز باتیں کر کے چھیڑ رہی تھی مگر رات والی مسکراہٹ اب اس کے چہرے سے غائب تھی۔وہ ماں اور بہن کے رویوں کو لے کر بہت حیران تھی۔وہ دونوں ہی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔نکاح ہو چکا تھا اور کچھ ہی وقت بعد رخصتی ہونی تھی۔پلوشہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ رخصت ہو کر پشاور جا رہی ہے۔اس نے پلوشہ سے دلہے کے رشتےداروں کے متعلق بھی پوچھا تھا مگر وہ ٹال گئی اور اسکا سامان پیک کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد گلریز خان رخصتی کروانے کے لئے اندر آیا۔نم آنکھیں لیے سبھی نے اسے رخصت کیا۔اسکی آنکھوں سے بہنے والے جھرنے اسکے چہرے کے ساتھ ساتھ اسکے دل کی سطح کو بھی بھگو رہے تھے۔باپ کے گلے لگ کر وہ بے طرح روئی تھی۔گلریز خان نے اسے سینے میں بھینچ لیا تھا۔وہ اسکا دائیاں ہاتھ تھی۔اس نے ایک بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھا تھا مگر دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھا کہ اسکی بیٹی کو اسکی خوشی مل رہی ہے۔اس نے اور سیف اللہ نے ملغلرہ کو گاڑی میں بٹھایا۔

"ہم ملنے آئیں گے تمھیں۔۔۔"

گلریز خان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔وہ بھی گھونگھٹ اٹھا کر بھیگی آنکھوں سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔

"بابا آپ نہ روئیں۔۔۔میں آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔"

وہ باپ کو تسلی دینا نہ بُھولی۔گلریز خان نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسکا بھاری گھونگھٹ نیچے کر دیا۔اسی وقت خاور اور غزنوق آ کر گلریز خان سے ملے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔جیسے ہی وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ملغلرہ نے جھکا سر مزید جھکا لیا۔اگلے ہی لمحے گاڑی اسٹورٹ ہونے کی آواز ائی۔وہ دونوں آپس میں کوئی بات نہیں کر رہے تھے یا شاید اشاروں میں بات کر رہے تھے۔ملغلرہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو بہت تیز دھڑک رہا تھا۔نجانے کون شخص ہے جو اسکے دل کا مالک بن بیٹھا ہے۔اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ اس شخص کو دل سے اپنا لے گی جس نے اسکے باپ کے کندھوں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پہ لیا ہے اور اسکے باپ کا سہارا بننے کا وعدہ کیا ہے۔وہ بھی اس بندھن کو پورے دل سے نبھائے گی۔۔خدا کی رضا میں راضی رہے گی۔۔

________________________________________________

وہ کوئی ملازمہ تھی تھی جو اسے تھامے ایک کمرے میں لائی تھی۔اس نے اسے بیڈ پہ بٹھا دیا اور اسکے ڈوپٹے کو تھوڑا سا اوپر سرکا کر گھونگھٹ ہٹا دیا۔اب وہ اپنے سامنے کھڑی ملازمہ کو دیکھ رہی تھی۔

"آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟"

اس نے ملغلرہ کے پیچھے تکیہ ٹھیک سے رکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں کچھ نہیں چاہئیے۔۔۔تم یہاں کام کرتی ہو؟"

ملغلرہ ٹیک لگاتے ہوئے بولی۔۔۔گاڑی میں ایک ہی انداز سے بیٹھے بیٹھے اسکی کمر میں درد شروع ہو گیا تھا۔

"جی۔۔۔میں یہاں ملازمہ ہوں۔۔میرا نام خورشیدہ ہے۔"

وہ باتونی لگ رہی تھی۔ملغلرہ کو بات کرتے دیکھ کر وہیں نیچے کارپٹ پہ بیٹھ گئی۔

"شادی شدہ ہو؟"

ملغلرہ نے اسے آرام سے بیٹھتے دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں جی۔۔۔۔میرا مرد ادھر ہی چوکیداری کرتا ہے۔دو بچے ہیں ہمارے۔۔اللہ کا بڑا کرم ہے۔غزنوق صاحب بہت خیال رکھتے ہیں ہمارا۔۔اللہ پاک ہمیشہ خوش رکھے ان کو۔۔ابھی ایک مہینہ ہی ہوا ہے ہمیں یہاں کام کرتے ہوئے۔ویسے تو صاحب گاؤں میں رہتے ہیں لیکن جب شہر میں کام ہوتا ہے تو یہاں رہتے ہیں۔"

وہ مزید بھی بتا رہی تھی مگر ملغلرہ کی سوئی تو غزنوق کے نام پہ اٹکی ہوئی تھی۔

"بیگم صاحبہ جی۔۔۔آپ آرام سے بیٹھیں لمبے سفر سے آئی ہیں تھک گئی ہوں گی۔میں چلتی ہوں بچے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔"

وہ ملغلرہ کے دل کی حالت سے بےخبر کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔کمرے میں ہیٹر لگا کر کمرے کو گرم کیا گیا تھا مگر اتنے گرم کمرے میں بھی ملغلرہ پہ کپکپی طاری ہو گئی۔وہ اب جان پائی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اسکے علاؤہ کون ہو سکتا ہے جو یوں اسکی فیملی کو سمیٹ سکتا ہے۔اسکی آنکھیں ایک بار پھر آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں۔اب وہ اسکا سامنا کیسے کرے گی وہ یہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔اچانک باہر گاڑی رکنے کی آواز پہ وہ اٹھ کر کھڑکی کی جانب دوڑی آئی۔کھڑکی کھلی رکھی گئی تھی۔اس نے نیچے جھانکا۔۔۔وہ ڈرائیونگ سیٹ سے باہر نکلا تھا۔

"غزنوق۔۔۔۔۔۔"

اس کے لبوں نے بے آواز حرکت کی۔وہ وہی تھا، ڈراک براؤن شلوار قمیص پہ بلیک کوٹ اور براؤن کھدر کی شال اپنے گرد لپیٹے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور پھر گیٹ کے قریب کھڑے چوکیدار کو اشارے سے بلایا۔چوکیدار لوہے کا بڑا سا گیٹ بند کرتا تیز قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آیا۔غزنوق نے گاڑی کی چابیاں اسے دیں اور اندر کیطرف قدم بڑھائے۔ملغلرہ نے کھڑکی کا پردہ ٹھیک کیا اور واپس بیڈ پہ آ کر بیٹھ گئی۔اسے رہ رہ کر اپنے رویے پہ شرمندگی ہو رہی تھی۔وہ کیسے اسکا سامنا کرے گی یہی بات اسے کھائے جا رہی تھی یا پھر یہ سوچ پریشان کر رہی تھی کہ کہیں اس نے اس سے بدلہ لینے کے لیے شادی تو نہیں کی۔دل تھا کہ حلق میں اٹکا ہوا تھا۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ ملغلرہ نے اپنا گھونگھٹ گرایا اور سر مزید جھکا لیا۔غزنوق کمرے میں داخل ہوا اور پلٹ کر دروازہ بند کیا۔ملغلرہ سے شرماہٹ لجاہٹ اسکا نام سنتے ہی رخصت ہو گئی تھی اب تو اس پہ صرف خوف حاوی تھا۔وہ ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی۔ہاتھ پیر ٹھنڈے برف ہو چکے تھے۔آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگی تھیں۔آنسو اُمنڈ آنے کو بےتاب تھے۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کے پاس آنے کی بجائے دائیں طرف رکھے صوفے پہ بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد ملغلرہ سیگریٹ کی بُو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔

"یہ اسطرح خاموش کیوں بیٹھا ہے۔۔۔کچھ بولتا کیوں نہیں۔"

ملغلرہ نے گھونگھٹ کی آڑ سے اسے دیکھکر سوچا۔اگلے ہی لمحے اس نے غزنوق کو ٹیبل پہ رکھے ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے دیکھا۔اسکے بعد وہ اٹھ کر بیڈ کے قریب آیا اور ملغلرہ کے قریب بیٹھ گیا۔وہ مزید سمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔غزنوق نے بناء کچھ کہے بناء کچھ پوچھے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ملغلرہ کے ہاتھ بہت ٹھنڈے یخ تھے۔

"اگر تمھارے ذہہن میں کوئی سوال ہے تو تم پوچھ سکتی ہو؟"

وہ اسکے یخ ہاتھوں کی نرمی اور ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا۔ملغلرہ کو اسکی آواز میں کسی قسم کی کوئی سلوٹ محسوس نہیں ہوئی مگر پھر بھی اس پہ گھبراہٹ طاری تھی۔

"میرے باپ کو کتنے پیسے دیئے ہیں آپ نے۔۔۔؟؟"

اس کی بات سن کر وہ جو اسکے نرم و گداز ہاتھوں پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا، نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ نجانے کیسے اس منہ سے یہ جملہ نکلا تھا۔۔۔وہ یہ کہنا نہیں چاہتی تھی مگر پھر بھی۔۔۔

"تم میرے لئے انمول ہو۔۔۔تمھاری قیمت میں کیونکر لگا سکتا ہوں۔"

وہ اسکے ہاتھ پہ جھکا تھا مگر ملغلرہ نے اسے اس عمل میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ہاتھ جھٹکے سے کھینچنے کی وجہ سے ڈوپٹہ کھسک کر ڈھلک گیا۔

"وہ میرے والد ہیں اور انھیں میں آپ سے زیادہ جانتی ہوں۔۔۔وہ ایسا کام کبھی نہیں کریں گے جس میں انھیں کوئی فائدہ نہ ہو۔"

"تُمھارے حوالے سے اس کڑے وقت میں وہ سب میری زمے داری ہیں۔اس موڑ پہ جبکہ تم بھی ان کے ساتھ نہیں ہو تو میں انھیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔میرا فرض ہے کہ میں انھیں بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دوں۔"

غزنوق نے اسکی آنکھوں سے بہتے موتیوں کو اپنی پوروں سے چُن لیا۔

"آپ مجھے مت بہلائیں۔۔۔میں میں۔۔۔۔"

"بس یہ میں میں کرنے ٹائم نہیں ہے۔اس وقت تو تمھیں ہم ہم کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔"

غزنوق نے اس کے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا۔ملغلرہ کو وقت کی نازکی کا احساس ہوا تو اسکی آنکھوں کی شرارت دکھائی دی۔ملغلرہ نے آنکھیں جھکا کر اٹھائیں۔

"مجھے اپنی بہت عرصے پہلے کہی ادھوری بات کو پورا کرنا ہے۔"

غزنوق نے اسکی حیرت سے بھری بھوری آنکھوں میں جھانکا۔

"کون سی بات۔۔۔؟؟"

ملغلرہ نے اس کے چہرے پہ اپنے پچھلے رویے کا عکس تلاش کرنا چاہا مگر اسکے مسکراہٹ سے سجے چہرے پہ نرمی کے سواء کچھ نہیں تھا۔

"وہی بات جو میں کہہ نہیں سکا تم سے۔"

غزنوق گنگنایا۔۔۔

"کون سی۔۔۔۔"

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

یہ دنیا خوبصورت ہو گئی ہے۔۔

بہت دن سے تمھیں دیکھا نہیں ہے

چلے بھی آؤ مدت ہو گئی۔۔

خدا سے روز تم کو مانگتا ہوں

میری چاہت عبادت ہو گئی ہے۔۔

وہ اسکی کلائی پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے دھیرے دھیرے گنگناتے ہوئے اس کے قریب ہو رہا تھا۔

________________________________________________

شادی کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ غزنوق کی سنگت میں زندگی اس قدر حسین ہو جائے گی۔وہ اسے ایک لمحے کو بھی اپنی نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دیتا تھا۔غزنوق کو اسکا موسیقی کی فیلڈ سے منسلک رہنا پسند نہیں تھا اس لئے غزنوق نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ اب وہ دوبارہ سے شروع نہیں کرے گی اور اس نے وعدہ کر بھی لیا تھا۔غزنوق خوش تھا کہ ملغلرہ نے اسکی بات مان لی تھی۔ایک طرف تو وہ دونوں بہت خوش تھے مگر دوسری طرف ان کی شادی کی بات پورے علاقے میں پھیل گئی تھی۔اڑتے اڑتے یہ بات ملک شمشیر خان اور پوری فیملی تک پہنچ گئی تھی۔خان بابا نے اس سلسلے میں خاور اور داور سے جواب طلبی کی۔پہلے تو وہ دونوں انکار کرتے رہے مگر پھر خاور نے جب یہ جان لیا کہ اب یہ بات مزید چھپ نہیں سکتی تو اس نے تمام بات خان بابا اور پوری فیملی کے گوش گزار کر دی۔خاور کو امید تھی کہ خان بابا کو جب اس بارے میں پتہ چلے گا تو ایک کہرام برپا ہو جائے گا مگر وہ خلاف توقع خاموش رہے۔بس ڈرائینگ روم سے جاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ اب غزنوق کا اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ملک شہسوار خان اور سلمی بیگم بھی ایک پل کو حیران رہ گئے مگر پھر ملک شہسوار خان بھی خان بابا کے فیصلے پر مہر لگاتے ہوئے تن فن کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔سلمیٰ بیگم تھوڑے نرم سبھاؤ کی تھیں، انھوں نے شروع ہی سے سوچ رکھا تھا کہ وہ غزنوق کی شادی اسکی پسند سے کروائیں گی۔خاندان میں لڑکیاں نہیں تھیں تو ان کے ذہہن میں یہی خیال تھا کہ غزنوق اپنی پسند سے ہی شادی کرے گا۔مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے گا۔کچھ وقت تو وہ غزنوق سے اس بات پہ نالاں رہیں مگر پھر خاور کے ہاتھ انھوں نے ملغلرہ کے لئے بہت سے تحائف بھجوائے تھے۔گھر میں کوئی موسیقی سے کچھ خاص شغف نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ خاور کے بتانے کہ باوجود وہ ملغلرہ کو پہچان نہیں سکی تھیں۔پھر خاور نے انھیں ایک وڈیو سانگ لگا کر دکھایا جس میں ملغلرہ پرفارم کر رہی تھی۔انھیں ملغلرہ بہت پسند آئی تھی۔خاور نے ملغلرہ کے متعلق انھیں سب کچھ بتایا اور یہ بھی کہ وہ ایسی نہیں ہے جیسی اس کی برادری کی باقی لڑکیاں ہیں۔سلمی بیگم کے دل میں ملغلرہ کے لئے اس کے پیشے سے متعلق کوئی میل تھا بھی تو خاور نے اپنی سوجھ بوجھ سے اسے دور کر دیا تھا۔اب وہ دونوں سے ملنے کو بے چین تھیں مگر گھر میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ خان بابا کے فیصلوں کے خلاف جاتا۔وہ خاور اور داور سے بھی بہت پیار کرتے تھے مگر غزنوق ان کا بہت چہیتا تھا۔بچپن سے لے اب تک اس کی زندگی کا ہر فیصلہ انھوں نے خود کیا تھا اور غزنوق نے بھی کبھی ان کے فیصلوں سے انحراف نہیں کیا تھا۔وہ جو بھی کہتے غزنوق بِلا چوں چراں مانتا تھا مگر اب بات ان کی اور خاندان کی عزت کی آ گئی تھی۔ایک جانب وہ تھے اور دوسری جانب غزنوق۔۔انہی کا پوتا۔۔جو فیصلہ کر کے اس سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔خاور اور داور نے خان بابا کی وجہ سے غزنوق سے ملنا کم کر دیا تھا۔داور تو مل نہیں پاتا تھا بس فون پہ بات کر لیتا جبکہ خاور تو کام کے سلسلے میں شہر جاتا رہتا تھا۔اب تو دونوں نے مل کر شہر میں آفس بھی کھول لیا تھا جو غزنوق سنبھالتا تھا۔زندگی پرسکون جا رہی تھی سوائے خان بابا کی ناراضگی کے۔۔۔۔غزنوق کو ان کی ناراضگی کی پرواہ تھی وہ چاہتا تھا کہ ان سے مل کر انھیں منا لے مگر فلحال خاور نے اسے روک رکھا تھا۔

  _______________________________________________________________________________

علاقے میں حالات مزید بگڑنے لگے تھے۔گلریز خان نے بھی گھر بار چھوڑ دیا تھا اور راحت بانو اور بچوں کو لے کر شہر والے گھر میں شفٹ ہو گیا تھا۔پلوشہ اور راحت بانو شہر آ کر پرسکون ہو گئیں تھیں مگر دل و دماغ وہیں رہ گئے تھے۔اپنی جڑیں چھوڑ کر کہیں اور کا رخ کرنا آسان نہیں ہوتا۔گلریز خان کو غزنوق نے گھر کے قریب ہی ایک جنرل اسٹور کھول دیا تھا۔عشاء کے وقت تک وہ جنرل اسٹور پہ ہی ہوتا تھا پھر جنرل اسٹور بند کر کے گھر آ جاتا تھا۔ملغلرہ نے اسے آرام کا عادی کر دیا تھا۔کچھ دن تو خوشی خوشی جنرل اسٹور جاتا رہا مگر پھر آہستہ آہستہ اس کام سے دل بھرنے لگا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ شکیب جنرل اسٹور سنبھالے مگر راحت بانو ایسا نہیں چاہتی تھی کیونکہ شکیب ابھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ کاروباری معاملات سمجھ سکتا۔اس نے گھر کے قریب ایک پرائیویٹ سکول میں شکیب کا داخلہ کروا دیا۔اس بات پہ دونوں کے  بیچ جھگڑا رہنے لگا۔پلوشہ اپنے کام میں مصروف رہتی کبھی ساتھ والی سہیلی کے ہاں تو کبھی سہیلی یہاں۔۔۔راحت بانو گلریز خان کی آرام طلب طبیعت سے اچھی طرح واقف تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ جنرل اسٹور شکیب کے حوالے کر کے خود چارپائی توڑنا چاہتا تھا مگر وہ ایسا ہونے نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے اس نے فوراً شکیب کا داخلہ کروا دیا۔اس نے سوچا تھا کہ وہ ملغلرہ سے گلریز خان کی ان حرکتوں کا ذکر ضرور کرے گی۔وہ ان سے ملنے تو کم کم آتی تھی مگر فون انھیں باقاعدگی سے کرتی تھی۔گلریز خان نے آہستہ آہستہ اسٹور پہ توجہ کم کر دی۔۔گھر سے تو روز اسٹور کے لئے ہی نکلتا تھا مگر کچھ وقت وہاں گزار کر اسٹور سے کچھ فاصلے پہ بنے ہوٹل میں بیٹھا دوستوں سے گپیں ہانکتا رہتا تھا۔اسٹور میں سامان نہ ہونے کے برابر تھا اور گلریز نے مزید کوئی سامان نہیں ڈالا تھا۔بانو اسکی اس لاپرواہی سے ابھی واقف نہیں تھی۔گاوں کی بھی خبریں ملتی رہتی تھیں۔پولیس اب چھاپے مار مار کر اس گروپ کو پکڑنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی تھی جس نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا اور کسی حد تک کامیابی سے بھی ہمکنار ہو رہی تھی۔گلریز خان ہوٹل میں لگے ٹی وی کے ذریعے گاؤں کے حالات سے باخبر رہتا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی حالات سدھریں گے وہ گاؤں واپس چلا جائے گا۔جنرل اسٹور چونکہ سارا دن بند رہتا تھا اس وجہ سے کاروبار کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔جو بھی پیسے بچے تھے وہ گھر میں لگتے جا رہے تھے۔اپنے پاس پڑے پیسوں میں سے وہ راشن کے لئے راحت بانو کو دیتا رہتا تھا اس لئے اسے معلوم نہ ہو سکا کہ گلریز خان اسٹور پہ جاتا ہی نہیں ہے اور سارا سارا دن ہوٹل میں بیٹھا رہتا ہے۔ایک دن ایک دوست نے اسے اسٹور کیطرف دھیان دینے کو کہا مگر گلریز نے یہ کہہ کر بات ہنسی میں اڑا دی کہ اسکا داماد بہت پیسے والا ہے وہ اسے پیسے دے دے گا۔وہ بھی خاموش ہو گیا اور پھر دوبارہ اس نے گلریز سے اس موضوع پہ بات نہیں کی۔

________________________________________________

وہ دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا تھا۔اس وقت صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔اندرونی دروازے کے پاس کھڑے ہو کراس نے ملغلرہ کی موجودگی کو محسوس کرنا چاہا۔کچن سے کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی۔اس نے ہاتھ میں پکڑا شاپر لاونج میں صوفے پہ رکھا اور بنا آہٹ پیدا کیے کچن کی جانب بڑھا۔کچن کے دروازے سے اس نے جھانک کر دیکھا تو وہ کھانے بنانے میں مگن دکھائی دی۔اس وقت وہ ڈارک براؤن شرٹ جس پہ بلیک ایپلک ورک ہوا تھا۔۔۔بلیک ٹراؤزر اور بلیک ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے ہوئی تھی۔وہ خاموشی سے اسکی طرف بڑھا۔

"خبردار۔۔۔۔"

ملغلرہ اچانک پیچھے مڑی۔۔ہاتھ میں سٹیل کا چمچہ تھا جسے وہ اپنے بچاؤ کے انداز میں پکڑے ہوئے تھی اور دوسری جانب غزنوق دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے کھڑا تھا۔

"یہ کیا ہو رہا تھا۔۔؟"

اس نے ہاتھ میں پکڑے چمچے سے ہوا میں سوالیہ نشان بنایا۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔میں تو۔۔۔"

غزنوق نے اس کی جانب قدم بڑھائے۔

"آں۔۔آں۔۔۔۔۔وہیں کھڑے رہیئے۔"

اس نے ایک بار پھر چمچے کو ہوا میں لہرایا۔غزنوق جو آگے بڑھنے کی کوشش میں تھا ایک قدم پیچھے ہٹا۔

"یار یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔گھر آئے شوہر سے کوئی یہ سلوک کرتا ہے۔"

اس سے پہلے کہ وہ سمجھتی اس نے چمچہ اس کے ہاتھ سے لے کچن شیلف پہ رکھ دیا۔

"آپ جیسے شوہر کا ایسے ہی استقبال کیا جاتا ہے ورنہ سر پہ بھوت بن کر ناچنے لگیں آپ۔۔"

ملغلرہ اس کے سائیڈ سے ہو کر جانے لگی۔

"ارے ارے محترمہ بیگم صاحبہ۔۔۔ناچیز کو کچھ لمحے درکار ہیں آپ کو سالم نگلنے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔"

اس نے ملغلرہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔ملغلرہ نے اس کی جانب تیکھے چتونوں سے دیکھا۔

"میرا مطلب ہے آنکھوں کے ذریعے۔۔۔"

غزنوق نے گھبرانے کی ایکٹنگ کی۔۔اس کی بات پہ ملغلرہ کے دیکھنے کے انداز میں فرق نہ آیا۔ملغلرہ کے بغور دیکھنے کے انداز نے اسے شرارت پہ آمادہ کیا۔۔

"یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے

ہر شخص تیرے شہر کا برہم ہے میری جاں۔۔"

غزنوق دھیرے سے اس کے قریب آیا اور اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکراتے گھمبیر آواز میں گنگنایا۔وہ مزید اسکی آنکھوں میں میں نہ دیکھ سکی۔

"یہ کوئی طریقہ نہیں ہے مجھے پزل کرنے کا۔۔"

وہ پلٹ کر جانے لگی۔

"تو آپ بتا دیں کون سا طریقہ مناسب رہے گا۔"

غزنوق نے دونوں ہاتھ اسکے کندھوں پہ رکھے اور اسے قریب کیا۔

"آپ مجھ سے دور رہئیے۔۔۔یہ مناسب رہے گا."

وہ پیچھے ہٹی۔

"چلو ٹھیک ہے۔۔۔ہم دور جا رہے ہیں۔۔آپ خوش رہئیے۔۔"

وہ پلٹ کر جانے لگا۔

"اچھا رکیں تو۔۔۔اس وقت کیسے آئے۔۔؟"

وہ چولھا بند کرتی اسے روکنے کو بڑھی مگر وہ تیر کی تیزی سے کچن سے نکل گیا۔وہ اپنی حالت کے پیشںِ نظر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے پیچھے آئی تھی۔غزنوق تیز قدم اٹھاتا کمرے میں داخل ہو گیا۔

"آپ رک کیوں نہیں رہے؟"

وہ رک گیا۔۔۔ملغلرہ اس کے آگے آ کھڑی ہوئی تھی۔

"ابھی آپ نے خود تو کہا تھا کہ مجھ سے دور رہیں تو مناسب رہے گا۔۔اب جب میں دور جا رہا ہوں تو۔۔۔۔"

"تو یہ بھی مناسب نہیں ہے۔"

وہ پنجوں کہ بل کھڑی ہو کر اسکے قد کے برابر ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔غزنوق ہنس دیا اور اسے بانہوں کے گھیرے میں لے لیا۔

"اتنی جلدی کیوں آ گئے آفس سے۔۔۔۔؟"

ملغلرہ نے اپنا سوال دہرایا۔

"تم بھول گئی۔۔۔ڈاکٹر کے پاس اپائنٹمنٹ ہے۔۔۔"

اسکی بات سن کر ملغلرہ نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔آج چیک اپ کی ڈیٹ تھی۔۔اسی نے صبح غزنوق کے آفس جانے سے پہلے اسے یاد کروایا تھا اور اب خود ہی بُھولی بیٹھی تھی۔

"میری بھولو بیگم تمھارا کیا بنے گا اگر میں نہ رہا تو۔۔۔۔مجھے لگتا ہے ایک دن میں صبح اٹھوں گا تو تم مجھ سے کہو گی کہ "معاف کیجیۓ گا آپ کون۔۔میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔"

غزنوق نے نے مسکراہٹ دبا کر افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔۔مجھے یاد تھا بس میں یہ دیکھ رہی تھی کہ آپ کو یاد ہے یا نہیں۔"

وہ نروٹھے انداز میں کہتے ہوئے رخ پھیر گئی۔

"جی جی بالکل۔۔۔بھلکڑ تو میں ہوں۔۔"

غزنوق نے اسے پیچھے سے گھیرے میں لیا اور اپنا ماتھا اسکے سر سے ٹکرایا۔

"اف۔۔۔۔یہ آپ ہر وقت سر کیوں ٹکراتے رہتے ہیں۔"

ملغلرہ نے ہلکی سے دُکھنے کی ایکٹنگ کی۔

"یار میں کوشش کرتا ہوں کہ شاید میرے اس عمل سے تھوڑی سی عقل تم میں بھی آ جائے۔۔مگر افسوس وہی ڈھاک کے تین پات۔۔"

"غزنوق نے اسکی غصیلی آنکھوں میں دیکھا۔

"میں آپکے اس احسان کا بدلہ کیسے چکاوں گی۔"

ملغلرہ نے اسکے سامنے اپنی ہتھیلی کھول دی۔

"ایسے۔۔۔۔۔"

وہ اسکے تھام کر اسکے چہرے پہ جھکا تھا اور ملغلرہ کے چہرے پہ دھنک کے ساتوں رنگ پھیل گئے۔غزنوق نے اسکے گل رنگ چہرے سے سارے رنگ چُن لیے۔

__________________________________________💓

علاقے کے حالات اب پہلے سے کافی بہتر ہو گئے تھے۔پولیس کے جگہ جگہ مارے جانے والے چھاپے کارآمد ثابت ہوئے۔دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے اب آہستہ آہستہ لوٹ رہے تھے۔گلریز خان بھی سب کچھ سمیٹ کر واپس جانے کی ٹھانے بیٹھا تھا۔اس سلسلے راحت بانو سے ابھی اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔وہ جانتا تھا کہ راحت بانو اسے اس طرح جنرل اسٹور ختم کرنے نہیں دے گی۔جنرل اسٹور تو ختم ہی تھا جو تھوڑا بہت سامان بچا تھا وہ اس نے ایک دکاندار کو بیچ دیا اور فارغ ہو کر بیٹھ گیا۔اس نے ارادہ کیا کہ وہ خاموشی سے اسٹور بیچ دے گا جو کہ اب ایک خالی دکان تھی اور واپس گاؤں چلا جائے گا۔ابھی بہت پیسے ہیں اس کے پاس گاؤں جا کر کوئی کاروبار کر لے گا۔یوں اس نے ارادے کے مطابق اسٹور بیچ دیا اور راحت بانو سے واپس جانے کی ضد کرنے لگا۔اس بار زرمینہ گل بھی راحت بانو کو واپس گاؤں آ جانے کا کہتی رہی اور گلریز تو روز ہی گھر آتے ہی شروع ہو جاتا تھا۔آج بھی وہ گھر آیا تو مغرب کا وقت تھا اور راحت بانو صحن میں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔پلوشہ اور شکیب بھی اس کے پاس بیٹھے تھے۔شکیبب تو چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا۔وہ دروازہ بند کرتا وہیں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"اتنی جلدی کیوں آ گئے۔۔؟؟"

راحت بانو نے گلریز خان کیطرف دیکھا۔

"اماں بابا تو روز ہی اس ٹائم آتے ہیں۔۔۔تم تو یوں پوچھ رہی ہو جیسے پتہ نہ ہو۔"

پلوشہ نے شکیب کے ہاتھ سے بسکٹ کھینچنے کی کوشش کی جو شکیب نے ہاتھ پیچھے کر کے ناکام بنائی۔

"صرف جانتی ہی نہیں بلکہ تیرے باپ کے رنگ ڈھنگ بھی دیکھ رہی ہوں۔۔۔یہ پیسہ جو سنبھالے بیٹھے ہو یہ ہاتھ کا میل ہے، ختم ہو جائے گا اک دن۔۔"

وہ گلریز خان کو دیکھنے لگی۔

"اوئے۔۔دماغ تو خراب نہیں ہے تمھارا۔۔میرے سامنے فضول گوئی سے پرہیز کیا کرو ورنہ دو بول بول کر ہوش ٹھکانے لگا دوں گا تمھارے۔۔پھر مانگتی رہنا خیرات۔۔۔"

راحت بانو کی بات اس کے تلوے پہ لگی اور سر پہ بُجھی۔وہ ایک دم اس پہ چڑھ دوڑا۔

"بابا کیا کر رہے ہو۔۔۔"

پلوشہ نے باپ کو ماں کے آگے آ کر روکا جبکہ راحت بانو گلریز خان کا انداز دیکھ کر حیران رہ گئی۔ان کے بیچ لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں لیکن بات کبھی اس نہج تک نہیں پہنچی تھی جسطرح گلریز خان ابھی اس سے پیش آیا تھا۔

"تم سب سامان باندھو۔۔۔ہم ایک ہفتے بعد یہاں سے روانہ ہوں گے۔میں مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔"

وہ حکم دیتے اندازہ میں کہتے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔راحت بانو پلوشہ کے روکنے کے باوجود اس کے پیچھے کمرے میں آئی تھی۔پلوشہ نے شکیب کو دیکھا تو وہ کندھے اُچکا کر باقی رہ جانے والی چائے حلق میں اُندیلنے لگا۔

"ابھی ہم نہیں جا سکتے۔۔۔کچھ ہی دن ہیں ملغلرہ کے ہاں خوشخبری آنے والی ہے۔وہ ٹھیک ہو جائے تو نکل جائیں گے۔"

راحت بانو نے اس کے غصے سے ڈر کر آرام سے کہا۔اسکی بات سن کر گلریز خان نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔

"یہی دن ہیں۔۔۔پھر چلے جائیں گے۔"

وہ کہہ کر واپس مڑ گئیں جبکہ حیران پریشان وہ بیٹھا رہ گیا۔وہ تو کچھ اور سوچے بیٹھا تھا۔اس نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔کچھ دن پہلے اس سے ایک مشہور میوزک ڈائریکٹر ملنے آیا تھا اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک فلم کے لئے ملغلرہ سے ایک دو گانے گوانا چاہتا ہے۔گلریز خان تو اسی وقت راضی ہو گیا تھا مگر اب ملغلرہ سے پوچھنا بھی ضروری تھا اس لئے اس نے ملغلرہ سے بات کرنے کا کہہ کر اس سے اسکا کارڈ کے کر رکھ لیا۔وہ ہاتھ آئی دولت واپس لوٹانے کے حق میں نہیں تھا اور سوچ لیا تھا کہ ملغلرہ کو منانے کی کوشش کرے گا۔۔۔مگر اب راحت بانو کی بات سن کر اسے ہاتھ آنے والا پیسہ پانی میں ڈوبتا نظر آ رہا تھا۔

________________________________________________

ملغلرہ نے ایک بہت خوبصورت بیٹے کو جنم دیا تھا۔راحت بانو اور پلوشہ اس کے پاس ہی تھیں۔غزنوق تو خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کسطرح اپنی خوشی کا اظہار کرے۔۔خاور بھی یہیں تھا۔آج وہ ملغلرہ کو گھر لے آئے تھے۔وہاں گاؤں میں جب سے سلمی بیگم اور ملک شہسوار کو پوتے کی خوشخبری ملی تھی وہ دونوں بیٹے اور پوتے سے ملنے کے لئے بےچین تھے مگر خان بابا کی وجہ سے وہ دونوں خاموش تھے۔یہ خبر خان بابا تک بھی پہنچ چکی تھی مگر وہ خاموش تھے۔داور نے انھیں منانے کی کوشش کی تھی مگر ان کی ایک نا ہاں میں نہ بدل سکی لیکن اندر ہی اندر وہ اس بارے میں سوچ سوچ کر بیمار ہو گئے تھے۔

"خان بابا۔۔۔۔غزنوق آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔۔"

سلمیٰ بیگم موبائل ہاتھ میں لئے ان کے کمرے میں آئی تھی۔آج انھیں ہلکا سا ٹیمپریچر تھا اس لئے داور انھیں ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔سلمی بیگم وقفے وقفے سے انھیں کمرے میں آ کر دیکھ جاتی تھیں۔ابھی بھی وہ ان کے سوپ بنا کر ان کے کمرے کیطرف جانے لگی تھیں کی ٹیبل پہ پڑا ان کا فون بجا۔وہ ٹرے ہاتھ میں پکڑے موبائل کیطرف آئیں۔موبائل کی اسکرین پہ غزنوق کا نام چمک رہا تھا انھوں نے فوراً ٹرے ٹیبل پہ رکھا اور فون اٹھا کر کان سے لگایا۔اتنے عرصے بعد غزنوق کی آواز سنی تو خوشی سے چلا اٹھیں۔سب کی خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد سلمی بیگم نے اسے گھر واپس آنے کو کہا اور اسے یہ بھی بتایا کہ خان بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔غزنوق نے خان بابا سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ فون لئے ان کے کمرے میں آ گئیں۔

"لاو دو۔۔۔"

سلمیٰ بیگم نے گھبراتے ہوئے ان سے کہا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فون لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

"السلام وعلیکم خان بابا۔۔۔۔"

اس نے سلام کیا۔

"کیسے ہو برخوردار۔۔۔دادا کو بھول ہی گئے۔۔"

انھوں نے شکوہ کیا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔

"خان بابا۔۔۔۔مجھے لگتا تھا آپ مجھے معاف نہیں کریں گے۔"

غزنوق نے بیٹے کے گلابی گالوں کو انگلی سے چھو کر انگلی لبوں سے لگائی تھی۔

"تم میرا خون ہو غزنوق اور تمھارا بیٹا میرا اور تمھارا خون ہے۔۔دیکھو یہ خون کی ہی کشش ہے کہ میں بیمار پڑا ہوں۔"

سلمیٰ بیگم نے ملک شمشیر خان کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ پہ شکر کا کلمہ پڑا تھا۔

"خان بابا آپ ابھی کہیں تو میں ابھی آ جاؤں۔"

خوشی اسکے چہرے سے چھلکی پڑ رہی تھی۔

"اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے۔۔تمھارا اپنا گھر ہے جب جی چاہے چلے آؤ۔۔اور ہاں ہمارے ملک زرک خان کو بھی لانا ساتھ۔۔۔اب تمھاری انٹری اسی کے ساتھ ہمیں قبول ہو گی۔"

جس مقصد کے لئے اس نے فون کیا تھا وہ اس کے کہنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے کا نام خان بابا تجویز کریں۔

"جی خان بابا۔۔۔۔ملک زرک خان بھی میرے ساتھ آئے گا۔"

وہ ہنس دیا۔۔۔۔۔۔

اب جتنی جلدی ہو سکے وہ گاؤں جانا چاہتا تھا۔

________________________________________________

گلریز خان گھر بار سب سمیٹ کر واپس گاؤں آ گیا تھا۔گاوں میں حالات اب پہلے سے بہتر تھے۔سب لوگ واپس آ گئے تھے مگر پہلے کی طرح کی آزادی اب ختم ہو چکی تھی۔وہ پورا گروہ پکڑا جا چکا تھا مگر پھر لوگوں کے دلوں میں ڈر اور خوف ابھی بھی پہرہ جمائے بیٹھے تھے۔برادری والے اب خواب میں بھی گانے بجانے کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔سبھی کوئی نہ کوئی کام کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے تھے۔جہاں رات کے وقت دن کا سا اجالا ہوتا تھا وہاں اب صرف خاموشی کا راج تھا۔کچھ رقاصائیں شادی کر کے آنا گھر بار سنبھال رہی تھیں مگر کچھ جو ابھی بھی اسی پیشے سے منسلک رہنا چاہتی تھیں جو کہ ان کی واحد روزی روٹی تھا نے شہروں کا رخ کر لیا تھا۔

ملغلرہ اپنے سسرال آ گئی تھی جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔وہ بہت خوش تھی اور زرک تو سب کی آنکھوں کا تارا تھا خاص کر کے خان بابا کی تو اس میں جان اٹکی رہتی تھی۔انھوں نے زرک کیںوجہ سے ہی ملغلرہ کو دل سے قبول کیا تھا۔لیکن گاؤں آنے کے بعد وہ میکے نہیں گئی تھی۔دل میں ڈر سا تھا کہ کہیں کسی کو برا نہ لگ جائے۔اسکی زندگی بہت پرسکون ندی کی طرح رواں دواں تھی کہ اس میں پہلا پتھر گلریز خان نے پھینکا  ۔آج وہ غزنوق کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ ملازمہ نے اسے گلریز خان کے آنے کی اطلاع دی۔وہ بہت حیران ہوئی۔۔زرک سو رہا تھا اس لئے اس نے ملازمہ سے انھیں یہیں بھجوانے کا کہا اور ساتھ میں چائے لانے کا کہہ دیا۔تھوڑی دیر بعد گلریز خان ملازمہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا۔

"السلام و علیکم بابا۔۔۔"

وہ بیڈ سے اتری اور صوفے کی جانب آئی۔

"واعلیکم السلام بیٹا۔۔۔۔کیسی ہو اور چھوٹا کیسا ہے؟"

گلریز خان نے زرک کیطرف دیکھا۔

"ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے آئے خیر تو ہے نا۔۔؟"

گلریز کے چہرے پہ چھائی خاموشی اسے پریشان کر رہی تھی۔

"میں تمھارے پاس ایک بات کرنے آیا تھا۔"

گلریز خان نے اسے کنکھیوں سے دیکھا۔

"کیا بات ہے بابا۔۔۔۔؟"

وہ مزید پریشان ہو گئی۔

"بیٹا مجھے ایک بہت مشہور میوزک ڈائریکٹر ملا تھا شہر میں۔۔بلکہ وہ مجھ سے ملنے آیا تھا۔اس نے مجھ سے درخواست کی ہے تم اس کے لئے ایک گانا گا دو۔"

وہ اسکے چہرے کے تاثرات کو بغور دیکھتے ہوئے بولا جو پل بھر میں بدلے تھے۔

"بابا۔۔۔آپ نے سوچا بھی کیسے۔۔۔۔اب میں یہ کام نہیں کر سکتی۔۔میں نے غزنوق سے وعدہ کیا تھا۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تو میں جو پائی پائی کو محتاج ہو گیا ہوں۔۔اسکا تمھیں کوئی غم نہیں۔۔اپنے باپ کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔اوپر سے تمھاری خالہ بار بار شادی کے لئے کہہ رہی ہے۔۔میں کیسے اسکی شادی کروں گا میرے پاس تو پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے۔"

وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔

"اور وہ کاروبار کے لئے جو پیسے دئیے تھے غزنوق نے آپ کو۔۔۔۔وہ جنرل اسٹور۔۔۔کہاں گیا سب۔۔آپ کو کیا یہاں کے حالات بھول گئے ہیں جو آپ پھر سے ایسا سوچ رہے ہیں۔"

وہ انکی جانب بغور دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی تاکہ باہر کوئی آواز نہ سن لے۔

"وہ سب تو ختم ہو گیا۔۔۔تمھیں اور تمھاری ماں کو نہیں بتایا کہ دکان میں تو آگ لگ گئی تھی سب جل کر راکھ ہو گیا۔پیسے بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئے ہیں۔اب تمھارے باپ کو تمھاری ضرورت ہے تو تم منہ موڑ رہی ہو اپنے باپ سے۔۔۔میرا تو آخری آسرا تم ہو ملغلرہ۔۔۔تم بھی مجھے چھوڑ دو گی تو کہاں جاؤں گا۔لوٹ آؤ میرے پاس۔۔۔"

وہ رونے لگا۔

"بابا۔۔۔میں شادی شدہ ہوں۔۔میں ایک باعزت خاندان کی بہو ہوں۔۔اب یہ سب مجھے زیب نہیں دیتا۔آپ کو پتہ ہے نا کہ غزنوق کو اس وقت بھی میرا گانا گانا پسند نہیں تھا اور اب تو بہت مشکل ہے کہ وہ مجھے اجازت دیں۔یہ ممکن نہیں۔۔۔۔میرے پاس کچھ پیسے ہیں میں آپ کو دے دیتی ہوں۔۔شام کو غزنوق آئیں گے تو ان سے بات کر لوں گی۔"

اس نے پرس میں سے چند نیلے نوٹ نکال کر باپ کی طرف بڑھائے۔

"نہیں چاہئیے مجھے تمھاری اور تمھارے شوہر کی خیرات۔۔۔۔۔"

وہ اٹھ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ جانتا تھا کہ اسکا ناراض ہونا اسکی بیٹی کی کمزوری ہے۔وہ اسے سب پہ اہمیت ضرور دے گی اور اسکا اندازہ بالکل درست تھا۔اسکی بیٹی اپنے باپ کی حالت دیکھ کر زار و قطار رو رہی تھی۔

________________________________________________

وہ خاموش رہی۔۔۔اس نے غزنوق سے بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد اس نے غزنوق سے اماں کی طرف جانے کی اجازت چاہی۔وہ پورا ایک ہفتہ اس نے پریشانی میں گزارا تھا اب رہا نہیں جا رہا تھا۔غزنوق نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔زرک کو وہ اپنی ساس سلمی بیگم کے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔آج کافی عرصے بعد وہ اس راستے سے گزر رہی تھی۔ڈرائیور اسے گھر کے پاس اتار کر واپس چلا گیا تھا۔اس نے اسے شام میں واپس آنے کا کہا تھا۔زرک اپنی دادی کے ساتھ اٹیچڈ تھا اس لئے اسے زیادہ فکر نہیں تھی۔اس نے بڑے سے فولادی دروازے پہ دستک دی۔دوسری دستک پہ دروازہ کھول دیا گیا تھا۔پلوشہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔شادی کے بعد وہ پہلی بار گھر آئی تھی۔

"اماں۔۔۔دیکھیں تو کون آیا ہے۔۔"

پلوشہ نے وہیں سے راحت بانو کو پکارا۔۔پکار سن کر راحت بانو کچن سے جبکہ گلریز خان کمرے سے برآمد ہوا۔ملغلرہ کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں جو چمک تھی وہ ملغلرہ سے چھپی نہ رہ سکی۔وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔راحت بانو بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔وہ اسے کمرے میں لے آئے۔پہلے خیر خیریت دریافت کی اور پھر گلریز خان نے راحت بانو کی نظروں کی پرواہ کیے بناء جو اپنی غربت اور لاچارگی کا رونا رویا تو ملغلرہ بھی ماں باپ کی ایسی حالت دیکھ کر رو دی۔

"اماں آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔"

اس نے آنسو پونچھتے ہوئے ماں کیطرف شکوہ بھری نظروں سے دیکھا۔

"نہیں بیٹا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"

"ہاں ہاں بتاؤ بیٹی کو کہ کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے گھر میں۔۔۔کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔"

اس سے پہلے کہ راحت بانو اپنا بھرم رکھتی گلریز خان نے روتے ہوئے اپنے حالات کہہ سنائے۔راحت بانو بھی تو دی کیونکہ وہ سچ کہہ رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ وقت بھی وہ اس شخص کی سستی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ آج وہ پھر سے بیٹی کے سامنے ہاتھ کھولے بیٹھے ہیں۔

"اماں یہ کچھ پیسے ہیں۔۔۔۔"

اس نے پرس میں سے پیسے نکال کر ماں کیطرف بڑھائے۔

"نہیں چاہئیے ہمیں تمھارے شوہر کی خیرات۔۔۔۔وہ پھر مجھے سب کے سامنے جتائے گا۔۔لوگ مجھ پہ تھو تھو کریں گے۔۔تمھارے پاس اپنے جمائے ہوئے پیسے ہوں تو میں لینے کو تیار ہوں لیکن تمھارے شوہر کہ پیسے۔۔۔نہیں چاہئیے۔"

راحت بانو نے پیسوں کیطرف ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھا۔

"بابا۔۔۔ابھی تو یہ لے لیں۔۔پھر میں غزنوق سے بات کر لوں گی۔"

اس نے پیسے باپ کی طرف بڑھائے۔

"تم صرف ایک دفعہ میری بات مان لو۔۔۔"

اس نے پیسوں کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔

"بابا۔۔۔غزنوق نہیں مانیں گے۔"

وہ تھکے تھکے لہجے میں بولی۔

"تو اس کو مت بتاؤ۔۔۔کچھ دن یہیں رہ جاؤ بہانے سے۔۔یہاں سے دونوں شہر چلے جائیں گے اور بس ایک ہی دن کی بات ہے کام ہو جائے گا تو لوٹ آئیں گے۔"

گلریز خان کا پلان سن کر وہ حیران رہ گئی۔

"اچھا تو یہ پلاننگ ہو رہی ہے باپ کے ساتھ مل کر۔۔"

غزنوق کمرے میں داخل ہوا۔اس کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ اس نے اور کچھ سنا ہو یا نہ ہو گلریز کے آخری الفاظ ضرور سن لئے ہیں۔

"غزنوق بابا۔۔۔صرف بات کر رہے تھے۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"

وہ اس کے پاس ائی۔

"اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ واپس چلو۔۔"

اسکا جواب سنے بغیر وہ پلٹ گیا۔ملغلرہ فوراً اس کے پیچھے دوڑی۔۔۔مگر اس سے پہلے وہ گھر سے باہر نکلتی گلریز خان دل تھام کر صحن میں گرا۔راحت بانو اور پلوشہ چیختے ہوئے اس کی طرف دوڑیں۔

"بابا۔۔۔۔"

وہ دروازے کے پاس رک گئی۔۔

"ملغلرہ چلو۔۔۔۔یہ اسکی ایکٹنگ ہے جس میں تمھارا باپ ماہر ہے۔"

وہ چلاتے ہوئے بولا۔

"غزنوق ایسا نہیں ہے۔۔۔وہ واقعی تکلیف میں ہیں۔"

وہ وہیں رکی رہی۔

"ٹھیک ہے تو تم یہیں رہو میں جا رہا ہوں۔"

وہ گلریز خان کے ڈرامے سے اچھی طرح واقف تھا اس لئے جانے کے لئے پلٹ گیا۔

"میں بعد میں آ جاؤں گی۔۔۔۔۔آپ جائیں۔"

وہ یہ کہہ کر گلریز کے پاس دوڑی آئی۔غزنوق یونہی دروازے میں کھڑا رہا۔

"بابا کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟"

وہ باپ کا سینہ ملتے ہوئے بولی۔جب وہ تینوں اسے سہارا دے کر اندر کمرے کی طرف لے جا رہی تھیں اسی دوران گلریز خان نے دروازے میں کھڑے غزنوق کو جتاتی نظروں سے دیکھا تھا۔غزنوق تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا۔

ملغلرہ نے باپ کو بستر پہ لٹایا۔پلوشہ باپ کے لئے پانی لے آئی۔اس نے پانی پلوشہ کے ہاتھ سے لے کر باپ کے لبوں سے لگایا۔گلریز کا مقصد پورا ہو چکا تھا اس لئے اب وہ آرام سے لیٹ کر بیٹی سے خدمت کروانے میں لگ گیا۔

دوسری جانب غزنوق نے غصے سے کمرے کی ہر چیز اٹھا کر پٹخ دی۔اس وقت خان بابا اور سلمیٰ بیگم ہی گھر پہ موجود تھے۔وہ دونوں کمرے کے دروازے میں کھڑے اسے اس قدر غصے میں دیکھ رہے تھے۔

"وہ غلیض انسان۔۔۔۔اسے پھر سے اس راستے پہ چلنے کی ترغیب دے رہا تھا اور وہ۔۔۔۔اپنے باپ کی چالاکی کو سمجھتی ہی نہیں۔۔سمجھتی ہی نہیں کہ اس کا باپ اسے پھر سے کٹھ پُتلی بنانا چاہ رہا ہے۔"

وہ خان بابا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"تو یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا تھا۔۔یہ لوگ اپنا اصل کبھی نہیں بھول سکتے اور نا ہی لوگ بھولنے دیتے ہیں۔یہ تو ایک ڈر تھا خوف تھا جس نے انھیں باندھے رکھا تھا۔اصلی رنگ پہ کب تک کوئی رنگ چڑھا رہ سکتا ہے۔۔کبھی نہ کبھی اترنا ہی ہوتا ہے اس رنگ کو۔۔۔۔آج اترنا شروع ہو گیا ہے۔"

وہ تحمل سے کہتے ہوئے صوفے پہ آ کر بیٹھ گئے جبکہ سلمیٰ بیگم وہیں سے واپس پلٹ گئیں۔

"کیا مطلب ہے آپکا۔۔۔۔اسکے نزدیک شوہر کی اہمیت نہیں ہے؟"

وہ سرخ چہرہ لئے ان کے قریب آیا۔

"ہو گی۔۔۔۔مگر خون تو خون ہوتا ہے میرے لعل۔۔یہ خون کی کشش تھی کہ ہم نے تمھیں اس سے شادی کرنے عمل کے لئے معاف کر دیا۔۔یہ خون ہی تھا کہ تم وہاں ہمارے لئے اور ہم یہاں تمھارے لئے تڑپ رہے تھے۔وہ بھی اپنے باپ کی تڑپ نہیں دیکھ سکی چاہے وہ جھوٹی ہی سہی۔۔۔"

انھوں نے اسے اپنے قریب بٹھایا۔

"مگر۔۔۔۔۔۔"

"اسے کچھ وقت دو۔۔۔چلو آؤ ہمارے ساتھ تاکہ تمھاری ماں یہ سب صاف کروا دے۔"

وہ اسے لے کر کمرے سے نکل ائے۔

________________________________________________

گلریز خان نے اگلے دن اس ڈائریکٹر کو بلوا لیا اور ملغلرہ کو مجبور کرنے لگا۔وہ ہر وہ طریقہ آزما رہا تھا جس کے ذریعے وہ ملغلرہ کے گرد گھیرا تنگ کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھی۔ایک طرف شوہر اور دوسری طرف باپ۔۔۔۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ موت کے دہانے پہ کھڑی ہو۔

زرک کو ماں کی ضرورت تھی اس لئے غزنوق اگلے دن ہی اسے لے آیا تھا۔اس نے ملغلرہ سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں اور زرک کو اس کے حوالے کر کے واپس چلا گیا۔ صرف اسے کال کر کے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو اسکی مرضی کے خلاف ہو ورنہ نتائج کی زمہ دار وہ خود ہو گی۔دوسری جانب گلریز خان اسے مجبور کیے جارہا تھا کہ وہ ضرور یہ گانا گائے۔اوپر سے اس میوزک ڈائریکٹر نے گلریز خان کو بتایا تھا کہ وہ ایک میوزیکل نائٹ ارینج کر رہے ہیں جو کہ ملک سے باہر ہو گا اور وہ چاہتا ہے کہ  ملغلرہ بھی اس میں  پرفارم کرے۔۔پیسوں کے متعلق اس نے بتایا تو گلریز نے ٹھان لی کہ وہ ہر صورت ملغلرہ کو راضی کر کے رہے گا۔پیسوں نے اسکی آنکھوں پہ لالچ کی پٹی باندھ رکھی تھی۔اب اس نے ملغلرہ پہ دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا اور ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ملغلرہ مان جائے۔ملغلرہ بیچ منجدھار میں کھڑی تھی۔اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ایسے میں اس نے غزنوق سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ابھی وہ ناشتے سے فارغ ہوئی تھی۔اس نے گھڑی پہ نظر ڈالی جو نو بج کر تیس منٹ کا وقت دکھا رہی تھی۔اس نے اپنا فون اٹھا کر غزنوق کا نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔اس نے ایک بار پھر نمبر ملایا۔تیسری بیل پہ کال ریسیو کر لی گئی۔

"ہیلو۔۔۔"

دوسری جانب بالکل خاموشی تھی۔

"میں بول رہی ہوں۔"

غزنوق کا سرد انداز دیکھ کر اس پہ گھبراہٹ طاری ہو گئی ہے۔

"جانتا ہوں۔۔۔"

وہ مختصراً بول کر خاموش ہو گیا۔

ملغلرہ کا دل سکڑ کر پھیلا۔

"میرے احساس کی بستی میں

کب سے زرد موسم کا بسیرا ہے

درختِ جاں نے

جانے کب سے پت جھڑ کے

وہ پھیکے رنگ سارے اوڑھ رکھے ہیں

کہ دشتِ آرزو میں اب

خیالِ یار کی رعنائیاں لے کر

کوئی کونپل نہیں کھلتی

یہ ماہ و سال کی شاخیں

ہوئی بنجر ہیں کچھ ایسے

کہ ان کی کوکھ سے امید کے پتے

بڑی مشکل سے اُگ پائیں 

جو اُگ آئیں

تو جلتی زیست کا تپتا ہوا سورج

انہیں اس شاخ پر ٹکنے نہیں دیتا۔۔۔

ہرا رہنے نہیں دیتا

یہ سوکھے زرد پتے

اب میرے ان سوختہ خوابوں کا مرقد ہیں

جنہیں مایوسیوں کی آنچ نے

تعبیر سے پہلے۔۔

جلا کر راکھ کر ڈالا

میرے مولا۔۔۔!!

میرے احساس کے ویراں چمن میں کیوں

بہاریں لوٹ آنا بھول بیٹھی ہیں۔۔۔؟؟؟"

اسکے بعد اس میں مزید بات کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔گونج تھی تو صرف سسکیوں کی۔۔۔

اور وہ جو اسکے آنسو اپنے دل پہ گرتے محسوس کر رہا تھا ایک پل میں فیصلہ کر گیا۔

________________________________________________

"تمھاری عمر ہو گئی ہے مگر طریقے وہی ہیں۔کیا ضرورت تھی اسے روکنے کی۔۔جاتی اپنے گھر۔۔اب ایسے بھی حالات نہیں ہیں جیسے تم نے منہ بنا رکھا تھا۔غزنوق نے کتنی مدد کی ہماری۔۔تمھیں اسٹور کھول کے دیا۔۔پیسے دئیے۔۔تم نے سب گنوا دیا۔دکان پہ تم نے جاتے نہیں تھے۔سارا سارا دن ہوٹل میں یا چارپائی توڑتے رہتے تھے یا پھر فضول دوستوں کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔پتہ چلے نہ تمھاری بیٹی کو تمھارے کرتوت تو ایک پل کو نہ رکے تمھارے پاس۔۔۔"

راحت بانو اسکے سر پہ کھڑی ہاتھ نچا نچا کر بول رہی تھی۔

"چپ رہو کمبخت۔۔۔"

گلریز خان اٹھ کر بیٹھ گیا۔

"کیوں چپ رہوں۔۔۔تمھیں تو شرم تک نہ آئی بیٹی کے سامنے بیماری کی ایکٹنگ کرنے کی۔"

راحت بانو اس ان حرکتوں سے بہت تنگ آ گئی تھی۔

"منہ کو لگام دیتی ہے یا اٹھوں تیرے پیچھے۔۔بد بخت۔۔۔یہ تیرا خالی بخت ہی ہے جو مجھے بھی بھرا رہنے نہیں دیتا۔"

وہ چارپائی سے نیچے اترنے لگا۔

"میں جا کر بتاتی ہوں ملغلرہ کو کہ سب ڈرامہ ہے تمھارے باپ کا۔۔"

وہ باہر کو جانے لگی۔

"ٹھہرو میں تمھارا قصہ ختم کرتا ہوں۔"

اس نے راحت بانو کا بازو تھاما۔

"تم کیا کرو گے قصہ ختم۔۔۔میں کروں گی۔۔جا کر بتاتی ہوں اسے کہ تم چاہتے ہو کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر پھر سے تمھارا پیٹ پالے کیونکہ تم تو ایک بےغیرت آدمی ہو۔۔لیکن میرے ہوتے ہوئے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ابھی جا کر کہتی ہوں کہ بلائے اپنے شوہر کو اور جائے اپنے گھر۔۔۔میرا کیا ہے میں لوگوں کے گھر کے برتن بھی مانجھ لوں گی اور میری بہن تو ایک جوڑے میں بھی تمھاری بیٹی کو رخصت کروانے کے لئے بھی تیار تھی۔بدبخت تو تُو ہے۔"

وہ زمین پہ تھوکتے ہوئے باہر نکل گئی۔گلریز خان اس روکنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑا مگر جیسے وہ کمرے سے باہر نکلا دروازے کے قریب ہی ملغلرہ کھڑی تھی اور اسکی برستی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ سب سن چکی ہے۔

"بابا غزنوق مجھے لینے آ رہے ہیں۔۔میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔میں اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھاؤں گی۔"

اس سے پہلے کہ وہ اسکی طرف آتا۔۔اپنی صفائی پیش کرتا۔۔وہ کہہ کر وہاں سے پلٹ گئی۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ غزنوق شکیب کے ساتھ اندر بیرونی دروازے سے داخل ہوا۔راحت بانو کی آنکھوں کے آنسو اور گلریز خان کے چہرے پہ دمکتا غصہ۔۔۔کسی معرکے کی گواہی دے رہا تھا۔

"کیا ہوا۔۔۔۔سب خیر ہے۔"

غزنوق نے راحت بانو سے پوچھا۔شکیب اندر کمرے کی طرف بھاگ گیا۔

"تم کیوں آئے ہو یہاں۔۔؟"

گلریز خان اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"!میں اپنی بیوی اور بچے کو لینے آیا ہوں۔"

غزنوق نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔اتنے شکیب زرک کو اٹھائے باہر آیا۔

"شکیب زرک کو لے کر گاڑی میں بیٹھو۔۔ہم آ رہے ہیں۔"

ملغلرہ کمرے سے برآمد ہوئی۔اسے دیکھ کر غزنوق کا چہرہ دمک اٹھا۔

"ملغلرہ تم اسکے ساتھ نہیں جاؤ گی۔۔"

گلریز خان نے ملغلرہ کو بازو سے تھاما۔

"نہیں بابا میں جا رہی ہوں۔۔میں مزید اب کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس پہ میرا شوہر ناخوش ہو۔"

ملغلرہ نے باپ کی گرفت سے اپنا بازو چھڑایا۔غزنوق نے گلریز کو اسکی نظروں کا انداز لوٹایا۔لبوں پہ جیت کی مسکراہٹ لئے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔

"تم نہیں جاؤ گی۔۔تمھیں آج ہی فیصلہ کرنا ہو گا باپ یا شوہر۔"

گلریز خان دھاڑا۔

"میں اپنے شوہر کا ساتھ دوں گی۔"

اس نے غزنوق کا ہاتھ تھام کر فولادی دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔

"مل۔۔۔غہ۔۔لرہ۔۔۔۔۔۔"

گلریز خان دل پہ ہاتھ رکھتا گر گیا۔ملغلرہ نے پلٹ کر دیکھا مگر اب اس پہ کچھ اثر نہ ہوا اور قدم آگے بڑھا دئیے۔

گلریز خان نے اس کے ساتھ سب کچھ رخصت ہوتے دیکھا اور اگلے ہی پل وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"ملغلرہ۔۔۔۔۔۔۔!!"

وہ جیسے ہی پلٹی۔۔فائر کی آواز نے ماحول کی خاموشی کو چیر ڈالا اور اس سے پہلے  کہ وہاں غزنوق ملغلرہ کو بچاتا اور یہاں راحت بانو گلریز خان کو روکتی تیر کمان سے نکل چکا تھا۔گولی خاموش فضاء کو چیرتی ہوئی ملغلرہ کے سینے کو لہو رنگ کر گئی۔راحت بانو ،غزنوق اور فائر کی آواز سن کر کمرے سے نکلتی پلوشہ چلاتے ہوئے ملغلرہ کی طرف دوڑرے۔غزنوق اسے بانہوں میں سمیٹے پکار رہا تھا۔اس نے تیزی سے اسے بانہوں میں اٹھایا اور تیر کی تیزی سے باہر کیطرف دوڑا۔راحت بانو اور پلوشہ اسکے پیچھے آئیں تھیں۔ان کے باہر نکلنے کی دیر تھی کہ اور فائر کی آواز آئی۔

سکتے کی حالت میں کھڑا گلریز خان اب زمین کے بےسد پڑا تھا اور اس کے ماتھے کے بائیں جانب سے تیزی سے نکلتا خون زمین کو سرخ رنگ پہنا رہا تھا۔

________________________________________________

ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻢ ﻟﯿﮑﻦ

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟُﮕﻨﻮ____

                      ﺗ۔ﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﺐ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ

                      ﺳِﺘﺎﺭﮦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﭼﻤﮑﯿﮟ ﮔﮯ

                      ﺗُﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮔﮯ

                      ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭہنے ﮐﮯ

ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﺑﻨﺎﺅ ﮔﮯ________

ﺑﮩﺖ  ﮐﻮﺷﺶ  ﮐﺮﻭ  ﮔﮯ  ﺗُﻢ

ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﻮﺳﻢ ﺟﻮ ﺑﺪﻟﯿﮟ ﺗﻮ

ھﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﺁﮰ_______

                      ﻣﮕﺮ

                      ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ھﻮﮔﺎ________!!!

                      ﮐﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ

                      ﺩِﺳﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ

                      ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺟﻤﯽ ہیں ﺑﺮﻑ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ

ﻭﮦ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮕﮭﻠﯿﮟ ﮔﯽ

ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﯽ ﺗﭙﺘﯽ ﺳُﺮﺥ ﮔﮭﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮔﮯ

                       ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ

                       ﮔﮭﮍﯼ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﮌﮮ ﮔﯽ

                       ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔُﻢ ﮔﺸﺘﮧ

ھﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﺁﮰ ﮔﯽ

ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺅ !! ﻣﮕﺮ ﺳُﻦ ﻟﻮ

ھﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﺴﯽ

                     ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ھﻮﮔﯽ

                     ﺟِﺴﮯ ﺗُﻢ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ

                     ﻣُﺠﮭﮯ ﺗُﻢ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ گے____!!!!!

اس کے سامنے اسکا بےجان وجود پڑا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر نے اس سے یہ الفاظ کہے تھے۔۔

"آئی ایم ساری۔۔۔شی اِز نو مور۔۔"

مگر اسکے کانوں میں ملغلرہ کی میٹھی آواز گونج رہی تھی۔اس کی آواز کی شیرینی اسے اپنے منہ میں گھلتی محسوس ہو رہی تھی۔وہ کیسے اسے تنہا چھوڑ سکتی تھی۔۔۔یوں کیسے چھوڑ کر جا سکتی تھی۔پلوشہ اور راحت بانو کے بین بھی اسکے ساکت وجود میں کوئی حرکت پیدا نہیں کر رہے تھے۔کچھ دیر پہلے وہاں گلریز خان کا بےجان وجود بھی لایا گیا تھا۔

"کیا ملا تجھے گلریز خان۔۔۔۔۔یہ کیا کر دیا تم نے۔۔ارے کیا جواب دے گا اس بیٹی کو جس نے کبھی تجھے انکار نہیں کیا۔۔جس نے تمھیں کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہیں دیئے۔۔۔گلریز خان کیا جواب دے گا جب وہ سوال کرے گی۔۔"

راحت بانو گلریز خان کے بےجان وجود سے سوال کر رہی تھی۔

"غزنوق۔۔۔۔!!"

خاور نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔خان بابا بھی اسکے ساتھ کھڑے تھے۔وہ آگے بڑھ کر خان بابا کے گلے لگ گیا۔

________________________________________________

وہ اسکول کے راستے سے ہوتا ہوا ڈھلوان تک پہنچا تھا۔زرک اسکی گود میں اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔ڈھلوان کے راستے کو بغور دیکھتا رہا۔اس راستے سے زرک کے ساتھ نیچے اترنا ٹھیک نہیں ہوتا۔۔اگر اکیلا ہوتا تو منزل تک پہنچنے کے لیے یہی راستہ منتخب کرتا بلکہ وہ تو روز اسی راستے سے جایا کرتا تھا۔وہ پلٹ کر دوسرے راستے سے آیا تھا۔اج چوتھا دن تھا اس کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں گیارہ کا ہندسہ پار کرتی وہ جہاں بھی ہوتا اور جس کام میں بھی مصروف ہوتا سب کام چھوڑ چھاڑ کر نکل آتا۔آج تو زرک بھی اسکے ساتھ تھا۔وہ تنگ گلی سے گزرتا ہوا میدان کی جانب آیا۔یہ میدان کچے سڑک سے تھوڑا اونچا تھا۔وہ جیسے ہی اس حصے میں داخل ہوتا یہاں کی مٹی اسے اپنے پیروں سے لپٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔یہاں آنے کے لئے اس کے قدموں کی تیزی دیکھنے لائق ہوتی تھی اور یہاں سے واپس جانا اس کے لئے اتنا ہی مشکل ہوتا تھا جتنا آسان آنا۔اسکے قدم رک چکے تھے مگر زرک کی قلقاریاں ابھی بھی جاری تھیں۔اس نے پلٹ کر کچھ فاصلے پہ موجود پھٹے ہوئے ترپال سے بنائی ایک چھوٹی سی موچی کی دکان کو دیکھا۔موچی اپنا کام چھوڑ کر اسی کو دیکھ رہا تھا۔وہ حیران ہوتا تھا کہ یہاں اس ویرانے میں وہ کیوں اپنی دکان لگائے بیٹھا تھا لیکن اس ویرانے میں بھی جہاں سے دن کے وقت کم ہی لوگ گزرتے تھے اس کے پاس کرنے کے لئے بہت کام ہوتا تھا۔

اس نے پلٹ کر اپنے سامنے مٹی کے ڈھیر کو دیکھا جس کے نیچے اسکی زندگی دفن تھی۔اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔دعا کے اختتام پہ چہرے پہ ہاتھ پھیرا اور ایک بار پھر پلٹ کر دکان کی جانب دیکھا۔وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے سامنے لکھے کتبے پہ نظر ڈالی جہاں گلریز خان کا نام کندہ تھا۔اسکے بالکل ساتھ ہی وہ بھی آنکھیں موندے ہوئے تھی۔کتبے پہ نظر پڑی جس سے وہ ہر روز نظر چرانے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر روز اس کی نگاہیں وہیں جم جاتی تھیں۔آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کر زرک کے بالوں میں جذب ہو گیا۔

وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ کہیں کھو سے گئے تھے۔

"یہ عورت اچھی عورت نہیں تھی مگر میں حیران ہوں کہ نجانے کہاں کہاں سے لوگ آ کر اسے دعاؤں کے حصار میں کر جاتے ہیں۔۔۔زندہ تھی تب بھی ایک دنیا اِسکی تعریفوں میں رطب اللسان رہتی تھی اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دعاؤں کا حصار باندھ رکھا ہے۔"

غزنوق نے آواز کی سمت دیکھا۔وہ بوڑھا موچی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا چکا تھا۔اس کی آنکھوں میں نمی جمع ہونے لگی تو رکنا محال ہو گیا۔

"وہ ایک اچھی عورت تھی۔۔

ایک اچھی بیوی۔۔

ایک اچھی ماں۔۔

اور۔۔۔۔۔۔۔

ایک جان قربان کر دینے والی بیٹی۔۔۔

اس کے قدم واپسی کے راستے پہ گامزن تھے۔ہلکی ہلکی ہوا اسکے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔زرک اسکی گود میں اونگھ رہا تھا۔اسکی نظر اسکی لمبی خم دار پلکوں پہ تھیں۔۔ملغلرہ کی پلکیں بھی ایسی ہی تھیں۔

اس سمت چلے تو بس اتنا اسے کہنا

اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اسے کہنا

اس نے ہی تو کہا تھا یقیں میں نے کیا تھا

امید پہ قائم ہے یہ دنیا، اسے کہنا

دنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی

چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا، اسے کہنا

وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا

حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ، اسے کہنا

کچھ لوگ سفر کے لئے موزوں نہیں ہوتے

کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا، اسے کہنا۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Azab Raston Ka Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Azab Raston Ka written by Mahwish Urooj. Azab Raston Ka by Mahwish Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment