Pages

Wednesday 10 July 2024

Aye Ishq Teri Khatir By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story

Aye Ishq Teri Khatir By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Aye Ishq Teri Khatir By Farwa Khalid Complete Romantic Novel 


Novel Name: Aye Ishq Teri Khatir

Writer Name: Farwa Khalid 

Category: Complete Novel

ماہ روش کی گن میں گولیاں ختم ہوچکی تھیں. لیکن ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر ماہ روش نے جلدی سے بھاگ کر آگے آتے ریحاب کو پیچھے کی طرف دھکیلا تھا. 

جب سامنے والے کی بندوق سے نکلنے والی چاروں کی چاروں گولیاں ماہ روش کے وجود میں پیوست ہوئی تھیں.

اُس کو خون میں لت پت زمین پر گرتے دیکھ زیمل اُس شخص کو گولیوں سے چھلنی کرتی چلا کر ماہ روش کو پُکارتی اُس کی طرف بھاگی تھی. 

دشمنوں سے مقابلہ کرتے ارحم نے نم آنکھوں سے ماہ روش کو گرتے دیکھا تھا. ماہ روش نے واقعی اُس سے کیا وعدہ پورا کردیا تھا. لیکن وہ ماہ روش کو بھی تو کسی صورت کھونا نہیں چاہتا تھا.

ہال کی طرف بھاگتے قدموں سے بڑھتے میجر ارتضٰی کو نجانے کیوں اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھیں. ایک لمحے کی بھی دیر کیے بغیر اُس نے اندر قدم رکھا تھا. لیکن سامنے کا منظر دیکھتے ہوش سنبھالے زندگی میں پہلی بار اُس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا. 

زیمل کی گود میں سر رکھے ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ ماہ روش نے ہال کے دروازے پر ہی کھڑے ارتضٰی کی طرف تکلیف کے باوجود مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا. اُس کی آنکھوں کے اندر کی اُداسی اور اذیت جیسے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی تھی کہ میجر ارتضٰی سکندر آج میں نے ثابت کر دیا میں غدار نہیں ہوں. آج تو یقین کرو گے نا میرا.

"ماہ روش آنکھیں کھولو پلیز."

ماہ روش کو آنکھیں موندتے دیکھ زیمل روتے ہوئے بولی. لیکن ہمیشہ اُس کی ہر بات ماننے والی اُس کی جان سے عزیز دوست شاید اس دفعہ اُس سے بے وفائی کر گئی تھی.

ارتضٰی نفی میں سر ہلاتے دیوانوں کی طرح ماہ روش کی طرف بڑھا تھا. لیکن یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی ماہ روش غافل ہوچکی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

اُس نے جیسے ہی کلاس روم میں قدم رکھا اندر ایک دم خاموشی چھا گئی تھی. 

مس اقرا کی دہشت ہی اِتنی تھی کہ وہاں کی سب سے بدتمیز مانی جانے والی کلاس بھی اُس سے بے حد ڈرتی تھی. 

اٹینڈنس لگانے کے بعد اقرا کی نظر جیسے ہی سامنے پڑی. اُس کلاس کا فیمس سٹوڈنٹ شایان اپنے ساتھ بیٹھی صبا کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا.

مس اقرا نے سامنے پڑے ٹیبل سے بورڈ مارکر اُٹھا کر اُس کے سر پر دے مارا تھا. اور آج تک کبھی اُس کا نشانہ مِس ہوا تھا جو اب ہوتا. مارکر سیدھا جاکر شایان کے ماتھے پر لگا تھا. 

جس پر شایان کے ساتھ  صبا بھی فوراً ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تھی. سامنے دیکھنے پر مس اقرا اُنہیں خوشمگی نظروں سے گھورتی نظر آئیں.

"سٹینڈ اپ."

شایان اور صبا فوراً اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے. ساری کلاس اب اُن کی طرف متوجہ ہوچکی تھی. 

" ریلی سوری میم."

صبا مصنوعی شرمندگی ظاہر کرتے ہولے سے منمنائی لیکن شایان کو تو جیسے پراوہ ہی نہیں تھی.

"گیٹ آؤٹ فرام مائی کلاس."

اُن کی طرف غصے سے دیکھتے مس چلائی تھیں.

جس پر صبا کو اپنے ساتھ باہر آنے کا اشارہ کرتا شایان ڈھٹائی سے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

"یار شایان یہ میم کو مسئلہ کیا ہے ہم دونوں سے. مجھے تو لگتا ہے وہ لائک کرتی ہیں تمہیں  اور میرے ساتھ دیکھ کر جیلس ہوتی ہیں. شکل دیکھی ہے اپنی سڑی ہوئی کوئی ایک بار نظر ڈال کر دوبارہ دیکھنا بھی پسند نہ کرے. اور بڑی آئی مجھ سے مقابلہ کرنے."

صبا اپنے کلاس سے نکالے جانے پر نخوت سے بولی. جب اُس کی بات سنتا ارحم دل ہی دل میں مسکرایا تھا. ماہ روش اور اُسے لائک کرے گی. اُسے بے ساختہ قہقہ لگانے پر دل کیا تھا.

"چھوڑو نا ڈارلنگ کیوں اپنا موڈ خراب کررہی ہو. ویسے بھی اُس مس اقرا کی بورنگ کلاس میں بیٹھ کر کرنا بھی کیا تھا. اچھا ہوا خود ہی نکال دیا."

ارحم نے پیار سے کہتے صبا کا موڈ بحال کرنا چاہا تھا. 

"ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن دیکھو نا تمہیں کتنے زور سے مارا ہے. یہ جگہ سوج چکی ہے."

صبا اُس کی پیشانی پر ہاتھ پھیڑتے ہوئے بولی. وہ ایسے ہی بےباک تھی کبھی بھی کہیں بھی اُس کے قریب آجاتی تھی.

"چھوڑو اِس سب کو. اِس بات کا بھی مزہ چکھا دیں گے اُسے. لیکن آج تو تم نے مجھے اپنے خاص دوست سے ملوانا تھا نا."

ارحم نے اُس کے قریب آنے پر بنا اندر کی بے زاری ظاہر کیے نرمی سے اُسے خود سے دور کیا تھا.

"ہاں ملوانا ہے لیکن یہاں پر نہیں کہیں اور."

صبا مسکرا کر اُس کا ہاتھ پکڑتی پارکنگ کی طرف بڑھ گئی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ماہ روش جیسے ہی کلاسز لے کر سٹاف روم میں آکر بیٹھی. کلائی میں پہنے بریسلٹ میں اُسے وائبریشن محسوس ہوئی تھی.

ہاتھ میں پکڑی فائلز ٹیبل پر رکھتے وہ واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی. 

"ہاں بولو ارحم کوئی معلومات ملی وہاں سے."

ماہ روش پانی کا نل کھولتے بولی تاکہ اُس کی آواز باہر نہ جاسکے.

" بہت اہم خبر ملی ہے. سٹوڈنٹس کو غائب کروانے میں صرف صبا اور اُس کے ساتھی ہی نہیں بلکہ کالج کی ایڈ منسٹریشن میں سے کوئی بہت اعلٰی عہدے کا شخص شامل ہے."

"اِس کا مطلب ہمارا شک ٹھیک نکلا. اب ہمیں کسی بھی طرح جلد از جلد اُس شخص تک پہنچنا ہوگا. کیا صبا جانتی ہے اُس کے بارے میں"

ماہ روش پُرسوچ انداز میں بولی.

"نہیں یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ وہ کچھ نہیں جاتی. اگر جانتی ہوتی تو اب تک میں اُس سے اُگلوا چکا ہوتا. اُس کا ساتھی سعود سب جانتا ہے. لیکن وہ صبا سے کئی گنا شاطر ہے اِتنی آسانی سے نہیں اُگلے گا کچھ بھی."

ماہ روش کو لیب انچارج سر باسط اور وائس پرنسپل سر اکمل کی حرکتیں پہلے دن سے ہی کافی مشکوک لگی تھیں. اُس نے اُن کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی ہوئی تھی. کچھ دنوں سے اُس نے نوٹ کیا تھا سر اکمل کتنی بار سیکنڈ ائیر کی سٹوڈنٹ لائبہ کو اپنے آفس بلا چکے تھے. جس کے بعد سے وہ  کافی ڈری سہمی رہنے لگی تھی. اور نہ ہی زیادہ کسی سے بات کرتی تھی.

کافی عرصے سے لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے سٹوڈنس غائب ہورہے تھے. جن کے بارے میں آج تک اُن اداروں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ شہر کی پولیس بھی کچھ پتا نہ چلا سکی تھی.

وہ گروہ اتنی صفائی سے کام کررہا تھا کہ اِتنے سٹوڈنس غائب ہونے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی ایک ثبوت بھی نہ مل سکا تھا. اغوا ہونے والوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی تھی. 

لاپتہ سٹوڈنس کے والدین رو پیٹ کر مدد کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے. پولیس بھی ہار نہ مانتے اپنی کوششوں میں لگی ہوئی تھی. لیکن کوئی سرا ہاتھ نی آتے دیکھ سیکریٹ ایجنسی سے مدد مانگی گئی تھی.

جنہوں نے مدد مانگنے سے پہلے ہی اپنے دو بہت اہم ایجنٹس کیپٹن ماہ روش اور کیپٹن ارحم کو وہاں بھیج دیا تھا. دو مہینے مختلف تعلیمی اداروں میں بھیس بدل کر وزٹ کرنے کے بعد اُنہیں کافی معلومات حاصل ہوچکی تھی. اُس گروہ کا مین سرغنہ اِسی گورنمنٹ یونیورسٹی میں موجود تھا. اور اِس ایک ادارے سے پچھلے  سات مہینوں میں ساٹھ سے زائد سٹوڈنس غائب ہوچکے تھے. اِس میں شہر کی باقی یونیورسٹیز کی نسبت سٹوڈنس کی تعداد زیادہ تھی.

 وہ دونوں پچھلے چھ مہینوں سے یہاں اپنے مشن  پر کام کررہے تھے. ماہ روش ایک ٹیچر جبکہ ارحم ایک سٹوڈنٹ کی طرح وہاں موجود تھے. دونوں کے حلیے اپنی اصل شخصیت سے بہت مختلف تھے.

صبا اُس گروہ کا ایک بہت اہم فرد تھی ارحم بہت جلد اپنی چارمنگ پرسنیلٹی سے اُسے متاثر کرکے اُس کے کافی قریب آچکا تھا. ارحم نے اُس کے سامنے ایسا ظاہر کیا تھا کہ وہ ایک بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا چاہتا ہے چاہے اُس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے.

صبا نے اُس کو اچھے سے جانچنے اور اپنی ٹیم میں اتنا ہنڈسم بندہ شامل کرنے کی خوشی میں اپنے ساتھی سے بات کرکے اُسے اپنی ایک حد تک معلومات دی تھی. اور ارحم کو بھی اپنے کام میں شامل کر لیا تھا.

"ارحم اُس گروہ کو پکڑنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہفتے سے بھی کم کا ٹائم رہ گیا ہے. ہمیں اپنے نیکسٹ پلان پر فوراً عمل کرنا ہوگا."

"ہممہ نیکسٹ پلان کی ساری تیاری ہوچکی ہے بس آج رات ہی عمل کرنا ہے اُس پر. انشاءﷲ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی."

"انشاءﷲ ایسا ہی ہوگا."

ماہ روش بھی پورے یقین سے بولی.

"ویسے مس اقرا میں نے آپ کو صرف کلاس سے باہر نکالنے کو کہاں تھا. آپ نے مجھ بے چارے شریف انسان کا سر کس خوشی میں پھوڑا ہے."

ارحم شرارتی انداز میں ماہ روش سے مخاطب تھا.

" مائی ڈیر سٹوڈنٹ شایان آپ جس طرح صبا کے کان میں گھسے ہوئے تھے. اگر اُس منظر کو کیپچر کرکے میں نے سر کو فارورڈ کر دی ہوتی تو وہ اچھے سے آپ کی شرافت نکالتے."

ماہ روش نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیا تھا. جب اُس کی دھمکی سنتا ارحم ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا اُسے مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا.

ارحم سے بات کرکے فون رکھتے ماہ روش باہر آگئی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

کون ہے وہاں."

تھوڑی دیر پہلے ہی اُس کی پیاس کی شدت سے آنکھ کھلی تھی. پانی پی کر وہ دوبارہ بیڈ کی طرف بڑھ رہا جب اُسے کھڑی کے پاس ایک ہیولا سا نظر آیا تھا.

وہ جلدی سے کمرے کی لائٹ آن کرتا باہر کی طرف بڑھا تھا.

ڈرائنگ روم کی لائٹ آن کرتے اُس کی نظر صوفے پر بیٹھے وجود پر پڑی تھی. جو بلیک سوٹ میں ملبوس نقاب سے اپنا چہرا چھپائے ہوئے تھا.

"کون ہو تم اور اِس وقت میرے گھر میں ایسے داخل ہونے کا مطلب...."

وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے آگے بڑھا تھا. وہ جو کوئی بھی تھا بڑے ہی آرام دہ انداز میں صوفے پر بیٹھا تھا.

"یہ کیا پروفیسر صاحب بُری بات آپ مہمانوں کا اِس طرح استقبال کرتے ہیں کیا."

نسوانی آواز پر اکمل نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تھا. ڈریسنگ سے وہ جسے مرد تصور کر رہا تھا. وہ تو کوئی لڑکی تھی. لیکن ایک اکیلی لڑکی اِس وقت اُس کے گھر میں کیا کررہی تھی.

"لگتا ہے آپ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں چلیں میں ہی اپنا مہمان والا فرض پورا کر دیتی ہوں."

اُسے اپنی جگہ جمے دیکھ وہ دوبارہ بولتی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی.

اکمل نے ایک نظر اُس کی طرف دیکھا تھا اور دل ہی دل میں خود پر ہنسا تھا کہ وہ اِس دھان پان سی لڑکی سے گھبرا رہا ہے جو صرف اُس کے ایک تھپڑ کی مار تھی.

اکمل اُس کو سامنے لگی تصویروں کی طرف متوجہ دیکھ اُس پر وار کرنے آگے بڑھا تھا. لیکن اگلے ہی لمحے اُس کی اپنی چیخ نکل گئی تھی.

ماہ روش نے اپنی طرف اُٹھتا اُس کا ہاتھ گرفت میں لیتے مڑور کر پیچھے کی جانب گھمایا تھا. اکمل کو درد سے اپنا بازو ٹوٹتا محسوس ہوا تھا. جس مہارت سے اُس نے یہ سب کیا تھا اکمل سمجھ چکا تھا یہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے. وہ اپنا ہاتھ چھوڑوانے کی کوشش کررہا تھا جب سر پر لگنے والی زوردار ضرب پر اُسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس ہوا تھا.

"جامعہ کے سٹوڈنس کہاں غائب کرتے ہو تم."

جیسے اُس کی آنکھ کھلی اُس نے خود کو رسیوں میں جکڑا کرسی پر بندھا پایا تھا. اُس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا.

جب اُس کے پتھریلے لہجے سے بھی زیادہ الفاظ پر ساکت ہوا تھا.

"کک کون سے سٹوڈنس..کون ہو تم اور کیا فضول بکواس ہے یہ...میں اپنے ہی جامعہ کے بچے کیوں غائب کروں گا. "

اکمل گھبراہٹ پر قابو پاتے فوراً بولا. معاملے کو کسی حد تک وہ سمجھ چکا تھا اور یہ بھی کہ وہ اب پھنس چکا ہے.

"کافی کیوٹ ہے تمہارا بیٹا. سنا ہے تمہاری بیوی تمہارے پانچ سال کے بیٹے اور تین سال کی بیٹی کو لے کر اسلام آباد شمشاد کالونی بلاک نمبر6 میں واقع اپنے میکے گئی ہوئی ہے. یاد تو آرہی ہوگی نا تمہیں."

ماہ روش نے ہاتھ میں پکڑی اُس کی فیملی فوٹو آنکھوں کے سامنے لہرائی تھی.

"چلو کیا یاد کرو گے بات کروا دیتی ہوں اُن سے. پھر بعد میں پتا نہیں موقع ملے نہ ملے. میرے آدمی تمہارے سسرال کے باہر ہی موجود ہیں چاہو تو ویڈیو کال بھی کرو دیتی ہوں."

اکمل اُس کے لفظوں میں چھپی دھمکی سمجھتا پسینے میں شرابور ہوا تھا.

"نہیں میں بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں. پلیز اُن کو کوئی نقصان نہ پہنچانا وہ بے قصور ہیں."

"مجھے ایک ایک سٹوڈنٹ کی ڈیٹیل چاہئے. اگر زرا بھی غلط بیانی کی کوشش کی تو نتائج کے ذمہ دار تم خود ہوگے."

سپاٹ انداز میں کہتے ماہ روش نے ریکارڈنگ ڈیوائس آن کی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

"اوچ میری کمر."

زیمل ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی لان میں آکر بیٹھی تھی. جب برابر والے بنگلے سے آتی بال اُس کی کمر کو سلامی دیتی نیچے جاگری تھی.

"حد ہی ہوگئی ہے. کتنے بدتمیز لوگ ہیں یہ. مینرز نام کی چیز نہیں. بجائے نئے ہمسائیوں کا اچھے سے ویلکم کرنے کے اُلٹا قاتلانہ حملے کیے جارہے ہیں. امیر ہونگے تو اپنے گھر. آج تو چھوڑوں گی نہیں میں اِنہیں."

زیمل غصے سے ساتھ والے عالی شان بنگلے کو گھورتی اپنی کمر سہلاتی اُٹھی تھی.

اُنہیں ایک ہفتہ ہوچکا تھا اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے لیکن ساتھ والے بے حد خوبصورت طرز کے بنے بنگلے جس کی مغرور سی کھڑی عمارت کو دیکھ اُس کے مکین بھی ویسے ہی معلوم ہوتے تھے. وہاں سے کوئی ایک فرد بھی اُن کی طرف نہیں آیا تھا. لیکن روز شام کے وقت ہوا میں اُڑتی ایک بال ضرور پہنچ جاتی تھی.

"زیمل رُک جاؤ بیٹا. کسی بچے نے غلطی سے اِدھر پھینک دی ہوگی."

اُسے اُٹھتا دیکھ پاس بیٹھی سلمہ بیگم نے روکنا چاہا تھا. جانتی تھیں وہ غصے کی بہت تیز ہے کچھ اُلٹا سیدھا ہی کر آئے گی.

"ماما کوئی بچہ اتنی اونچی دیوار سے بال کیسے پھینک سکتا ہے. ضرور یہ اِس گھر کے بگڑے امیر زادوں کا کام ہی ہوگا. آج تو میں اِن کی طبیعت سیٹ کرکے ہی آؤں گی."

زیمل دانت پیستے اُن کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

جنرل یوسف بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے ہمارے جوانوں نے. واقعی جیسی آپ نے اُن دونوں کی تعریف کی تھی وہ اُس سے بھی بڑھ کر ثابت ہوئے."

چیف صاحب کی آواز سے بھی اُن کی خوشی جھلک رہی تھی. اُن کا برسوں کا خواب پورا جو ہوا تھا.

"بلکل سر انڈین آرمی آفیسر اِس سب کو اپنی غفلت سمجھتے ایک دوسرے سے ہی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے. اُن کی نام نہاد سیکیورٹی کو میرے میجرز اپنے پیروں تلے روند کر آگئے ہیں."

جنرل یوسف فخریہ انداز میں بولے.

"ویلڈن جنرل مجھے پوری اُمید ہے آپ لوگ آگے بھی ایسے ہی ملک کو سُرخرو کریں گے.

اور ہاں میرے دیے ہوئے نیکسٹ مشن پر کام کب سٹارٹ کررہے آپ. اب کی بار بنائی گئی ٹیم بھی ایک بار پھر اپنے مشن کے انتہائی قریب پہنچ کر ناکام ہوچکی ہے. مگر اب میں مزید اپنے جوان نہیں کھونا چاہتا. میں چاہتا ہوں یہ مشن میجر ارتضٰی سکندر کو سونپا جائے. میں ملک میں پھیلتی مزید تباہی نہیں دیکھ سکتا."

چیف کی بات پر جنرل یوسف ایک پل کے لیے خاموش ہوئے تھے.

"اوکے سر جیسا آپ کا آرڈر. میں کچھ دنوں تک آپ کو اِس بارے میں آگاہ کرتا ہوں."

میجر ارتضٰی سکندر اور میجر جاذل ابراہیم پورے دو سال بعد پاکستان واپس لوٹے تھے. جنرل یوسف کچھ دنوں تک تو اُنہیں ڈسٹرب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے. اتنا بڑا مشن سونپنے سے پہلے وہ چاہتے تھے وہ کچھ ٹائم پُرسکون ہوکر اپنی فیملی کے ساتھ گزار سکیں.

اگر اُن دونوں سے ڈسکس کرتے تو اُنہوں نے ایک دن بھی آرام کیے بغیر مشن کے لیے تیار ہوجانا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


نور پیلس سے ملنے والی ہدایت پر گارڈ اُسے اپنی رہنمائی میں اندر کی طرف لے گیا تھا.

سٹائلش سی بلیک ٹائلز سے بنی روش پر چلتے وہ اندر کی طرف بڑی تھی. روش کے دونوں طرف بڑا سا لان تھا. جو مختلف قسم کے پھولوں سے سجا بہت دلکش منظر پیش کررہا تھا.

"ضرور بال پھینک کر اندر بھاگ گئے ہوں گے."

خالی لان کی طرف دیکھ کر زیمل نے سوچا تھا.

گارڈ اُسے ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر باہر نکل گیا تھا. یہ گھر باہر سے جتنا خوبصورت دکھتا تھا اندر اُسے بھی کہیں گنا زیادہ دلکش تھا. گھر کو دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کافی بڑی فیملی رہتی ہے یہاں.

ڈرائنگ روم کی دیواریں بیش قیمت پینٹنگز سے سجی ہوئی تھیں. جدید سٹائلز کے صوفوں کے اردگرد موجود ٹیبلز پر مختلف قسم کے نفیس ڈیکوریشن پیسز رکھے گئے تھے. ڈرائنگ روم کی ہر چیز میں بلیک رنگ نمایاں تھا.

زیمل کو وہاں بیٹھے دس منٹ ہوچکے تھے. وہ ڈرائنگ روم کا بھی اچھی طرح معائنہ کر چکی تھی. لیکن اُسے وہاں گارڈ کے علاوہ کوئی اور ذی روح دیکھائی نہیں دیا تھا.

وہ اُکتا کر اُٹھنے ہی والی تھی جب ڈرائنگ روم کی انٹرنس سے اُسے دو گریس فل سی خاتون اندر آتی دیکھائی دی تھیں.

"معاف کیجئے گا بچے آپ کو اتنا انتظار کرنا پڑا."

وہ دونوں زیمل سے بہت ہی پیار سے ملی تھیں جیسے اُن کی برسوں پرانی جان پہچان ہو. زیمل کو اُن کا انداز کافی اچھا لگا تھا. سلام دعا کے بعد وہ اُس کے سامنے بیٹھتے بولیں.

زیمل کی نگاہ پیچ کلر کے ڈیسنٹ سے کپڑوں میں ملبوس زینب بیگم پر ٹک کر رہ گئی تھی. اُسے فیل ہوا تھا جیسے پہلے اُس نے اِنہیں کہیں دیکھا ہو. مگر کہا ذہن پر زور دینے کے بعد بھی اُسے یاد نہیں آیا تھا.

"نہیں آنٹی اٹس اوکے. وہ دراصل مجھے آپ سے اِس بارے میں بات کرنی تھی."

اُن کی بات کے جواب میں زیمل نے ہاتھ میں پکڑی بال کی طرف اشارہ کیا تھا. اُن کے اتنے ملنسار رویے پر اُس نے اپنا لہجہ دھیمہ ہی رکھا تھا.

اُس کی بات پر دونوں نے ناسمجھی سے زیمل کی طرف دیکھا تھا.

"ہمیں ایک ویک ہوا ہے آپ کے برابر والے گھر میں شفٹ ہوئے. اور پچھلے چھ دنوں سے ایسی ہی ایک بال آکر میرے سر یا کمر کو سلامی ضرور دے جاتی ہے. اِسی بارے میں آپ سے بات کرنی تھی."

تفصیل سے بتاتے زیمل نے اُن کی طرف دیکھا تھا. اُس کی بات پر دونوں کے چہروں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

"سمجھ گئے آپ کی بات ابھی بلاواتی ہوں اُن دونوں کو."

"یہ رکھ کر زرا ہادی اور طلحہ کو نیچے بھیجیں."

زینب بیگم کی بات پر ٹیبل پر لوازمات سجاتی ملازمہ سر ہلا کر باہر نکل گئی تھی.

"آج ہی گارڈ کے تھرو ہمیں آپ لوگوں کے شفٹ ہونے کا پتا چلا. ورنہ آپ لوگوں سے ملنے ضرور آتے.آج کل کچھ مصروفیت چل رہی میرا بیٹا پورے دو سال بعد پاکستان واپس آرہا. اِس لیے جیسے ہی ٹائم ملا ہم آپ کے گھر چکر لگائیں گی. "

اپنے بیٹے کا ذکر کرتے ناہید بیگم کی آنکھوں کی چمک نمایاں تھی.

"او اچھا کہا رہتے وہ."

اُن کی اتنی تفصیل بتانے پر زیمل کو مروتاً پوچھنا پڑا تھا.

"میرا بیٹا آرمی میں ہے. ایک ٹریننگ کے سلسلے میں دو سال سے امریکا گیا ہوا ہے. کل ہی پاکستان لوٹے گا. اُسی کے آنے کی تیاری میں مصروف ہیں ہم سب."

ناہید بیگم کی بات پر سر ہلاتے اُس نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے دو دس سال کے لڑکوں کو دیکھا جو ایک ہی جیسی شکل وجسامت سے ٹوئنز معلوم ہوتے تھے.

"یہ رہے آپ کے مجرم جو سزا دینی ہے آپ دے سکتی ہیں اِنہیں."

زینب بیگم اُن دونوں کو خوشمگی نظروں سے گھورتے زیمل سے بولیں. وہ دونوں پہلے ہی ملازمہ سے اپنے بلاوے کی وجہ اگلوا چکے تھے. اِس لیے اب چہرے پر دنیا جہاں کی مسکینیت سجائے کھڑے تھے.

"وی آر ریلی سوری آپی نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا."

ہادی منہ لٹکاتے ہولے سے بڑبڑایا

زیمل کو اُن دونوں کی صورت دیکھ ویسے ہی بہت پیار آیا تھا ڈانٹتی کیا خاک. صحت مند سے گول گول فیس والے وہ بہت ہی کیوٹ تھے.

"اٹس اوکے. مگر نیکسٹ ٹائم معافی نہیں ملے گی."

زیمل کے نرمی سے کہنے پر وہ دونوں اُس کا شکریہ ادا کرتے شرارتی انداز میں زینب اور ناہید بیگم کی طرف دیکھتے وہاں سے نکل گئے تھے.

"ماشاءﷲ آپ کے بچے بہت کیوٹ ہیں."

"کیوٹ نہیں پورے شیطان ہیں. گھر کیا گھر سے باہر والے بھی پناہ مانگتے اِن سے. ارتضٰی کے بے جا لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے دونوں کو. اچھے خاصے سدھر رہے تھے لیکن اُس کے آنے کا سن کر پھر سے اپنی پہلی والی جُون میں واپس آگئے ہیں."

اُس کی بات پر زینب بیگم نے مسکراتے جواب دیا.

زیمل کو اُن سے مل کر بہت اچھا لگا تھا. اُن سے ملنے سے پہلے والا امیج اب اُس کے بلکل برعکس بن چکا تھا. کافی دیر باتوں کے بعد وہ اُنہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی نکل آئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"آگئی تمہیں گھر کی یاد. کچھ دن مزید آوارہ گردی کر کے لوٹنا تھا. اتنی جلدی کیوں لوٹ آئی."

اُس نے جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا. آسیہ بیگم کی چنگارتی آواز اُس کے کانوں میں پڑی تھی.

"ماما آپ جانتی ہیں میں اپنے سٹڈی ٹور پر گئی ہوئی تھی کوئی آوارہ گردی کرنے نہیں."

ماہ روش ملازمہ کو سامان اوپر لے جانے کا اشارہ کرتی اُن کی طرف بڑھی تھی.

"جانتی ہوں سب میں مجھے سیکھانے کی ضرورت نہیں ہے. ایک تم اور دوسرا تمہارا وہ باپ ہے پیسا کمانے نے اُسے اتنا پاگل کردیا ہے کہ کسی اور بات کا کوئی ہوش نہیں. میری اور میرے بچوں کی پرواہ ہی نہیں ہے کسی کو."

آسیہ بیگم جیسے ہر طرف سے جلی بیٹھی تھیں.

"بابا گھر نہیں آئے کیا."

ماہ روش نے ہمیشہ کی طرح اُن کے سخت لہجے کے جواب میں نرمی سے پوچھا.

"آتا ہے کسی سے بھی بات کیے بغیر گھس جاتا ہے اپنے کمرے میں. پھر وہیں سے واپس نکل جاتا. جیسے ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں."

آسیہ بیگم اُکتاہٹ ذدہ سی بولیں.

"فضہ اور ساحل نظر نہیں آرہے کہاں ہیں."

ماہ روش اور کوئی بات نہ بن پاتے صرف اتنا ہی پوچھ پائی تھی. کیا کہتی وہ بچپن سے یہی تو سنتی آرہی تھی.

"اندر ہیں دونوں اور کہاں جانا میرے بچوں نے. میری کی ہوئی تربیت ہے اِس لیے عزت سے گھر پر رہنا جانتے ہیں. ﷲ کا شکر ہے تمہارے جیسی تربیت نہیں ہے اُن کی.

آسیہ بیگم کی بات پر ماہ روش نے تڑپ کر اُن کی طرف دیکھا تھا. اُسے وہ چاہئے جتنی بھی گالیاں کوسنے دے لیتیں لیکن اپنی دادو کے خلاف وہ ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی.

یہ اُنہی کی دی ہوئی تربیت تھی کہ آسیہ بیگم کی بچپن سے لے کر اب تک کے ناروا سلوک اور کی جانے والی بے عزتی کے بعد بھی وہ اُن کا پہلے کی طرح ہی احترام اور عزت کرتی تھی.

اُن سے مزید کوئی بھی بات کیے وہ خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی. اتنی راتوں سے نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اُس کی طبیعت کافی بوجھل ہورہی تھی.

سر اکمل کا بیان اُن کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا تھا. بروقت اُن کے بتائے گئے ایڈریس پر ریڈ کروانے سے بہت سارے بچوں کے ساتھ اُس گروہ کے بہت اہم کارکن پکڑے جاچکے تھے.

ارحم اور ماہ روش کا کام اُدھر تک ہی تھا. اُوپر سے ملنے والے آرڈر کے مطابق کیس کی ساری ڈیٹیلز پولیس کے حوالے کرتے وہ دونوں اپنے گھروں کو واپس آچکے تھے. اُنہیں دو ہفتوں کی چھٹی دی گئی تھی جس پر وہ کافی حیران بھی ہوئے تھے لیکن آفسران سے اِس متعلق کچھ بھی پوچھنے کا اُنہیں کوئی آرڈر نہیں تھا. مگر وہ اتنا جان گئے تھے کہ ضرور اِس کے بعد اُنہیں کوئی بڑا مشن ملنے والا ہے. اور یہی بات اُن کے لیے خوشی کا باعث تھی.

اپنے حالات کے بارے میں سوچتی تھکے ہوئے انداز میں وہ بیڈ پر آلیٹی تھی.

شروع سے ہی ماہ روش کے ساتھ آسیہ بیگم کا رویہ بہت بُرا تھا. اُسے یاد تھا بچپن میں اُسکی معمولی سی غلطی پر وہ کیسے اُسے پیٹ کر رکھ دیتی تھیںں. وہ خود حیران تھی کہ سگی ماں ہوتے ہوئے اُنہوں نے اُس کے ساتھ سوتیلو سے بھی بُرا سلوک کیوں روا رکھا ہوا تھا. اُس کے بابا کو تو ویسے بھی اپنے بیوی بچوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی اُنہوں نے کبھی گھر کے حالات جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کبھی کبھار اپنے بچوں سے بھی برائے نام ہی بات کر لیتے تھے.

وہ ایسے ہی آسیہ بیگم کا سلوک برداشت کرتی رہتی جب دادو کے مہربان وجود نے اُسے اپنی محبت بھری بانہوں میں لیا تھا. دادو اپنے علیحدہ گھر میں رہتی تھیں. جہاں اُنہوں نے اُسے اپنے پاس رکھ لیا تھا.

اُنہوں نے ماہ روش کی پرورش بہت ہی اچھے سے کی تھی. ماہ روش اکثر اُن سے الگ رہنے کی وجہ پوچھتی لیکن وہ اُسے ٹال دیتیں.

ماہ روش کو شروع ہی سے آرمی جوائن کرنے کا بہت شوق تھا. اُس نے احمد انکل کو اکثر دادو سے ملنے آتے دیکھا تھا. وہ نہیں جانتی تھی یہ کون ہیں لیکن دادو اُنہیں اپنا بیٹا کہتی تھیں. احمد انکل اُس سے بہت ہی محبت اور شفقت سے ملتے. جب اُسے اُن کی باتوں سے پتا چلا کہ وہ آرمی میں ہیں تو اُس نے بھی آرمی جوائن کرنے کی ضد کی تھی.

اُس کے شوق اور ضد کو دیکھتے ہوئے دادو نے اُسے آرمی جوائن کرنے کی پرمشن دے دی تھی. لیکن کسی کو بھی اِس بارے میں بتانے سے منع کیا تھا. سپیشلی اپنے والدین کو ماہ روش ایک بار پھر بہت حیران ہوئی تھی.

ذہین اور بہادر تو وہ بچپن سےہی بہت تھی. اِس لیے ہر ٹیسٹ پاس کرتے احمد انکل کی ہدایت کو فالو کرتی وہ آرمی جوائن کر چکی تھی.

ایک سال کے اندر ہی اُس کی قابلیت دیکھتے اُسے باقی کچھ کیڈٹس کے ساتھ مزید مشکل ترین امتحان اور ٹریننگ کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروس انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) میں بھیج دیا گیا تھا. احمد انکل نے اُسے ہر قدم پر سپورٹ کیا تھا.

دو سال پہلے دادو کی ڈیتھ کے بعد وہ واپس اپنے باپ کے گھر آگئی تھی. مگر اُس گھر کے حالات ابھی بھی بلکل ویسے ہی تھے. اور شاید کبھی بدل بھی نہیں سکتے

تھے.

وہ ملک و قوم کی خدمت کرتے اپنا ہر غم بھول چکی تھی. جب ایک مشن کے دوران اُس کا ٹکراؤ میجر ارتضٰی سکندر سے ہوا تھا. ماہ روش نے پہلے بھی اپنے سینئرز اور جونیئرز سے اُس کی وجاہت و بہادری کے بہت قصے سن رکھے تھے.

لیکن اُس کے ساتھ مشن میں وہ اپنا سب کچھ ہار چکی تھی. مشن تو کامیابی سے ختم ہوگیا تھا. لیکن اُس کا دل وہیں میجر ارتضٰی کے پاس رہ گیا تھا. اُس نے میجر ارتضٰی کی آنکھوں میں بھی اپنے لیے چاہت دیکھی تھی. اُس کی آنکھوں کے اقرار پر ہی ایمان لاتی وہ اُن دنوں زندگی میں پہلی بار اتنی خوش ہوئی تھی.

مگر وہ خوشی چند دنوں کی ہی تھی. نجانے اچانک ایس کیا ہوا تھا. جہاں اُسے میجر ارتضٰی کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار نظر آیا تھا وہاں شدید نفرت دیکھائی دینے لگی تھی. جس کا ریزن بہت کوششوں کے بعد بھی وہ آج تک نہیں جان پائی تھی.

شدید تھکاوٹ کے زیرِ اثر ماہ روش نے تکیے پر سر رکھا تھا. مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی.

اُس سنگدل کا خیال آتے ہی کئی آنسو ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہوئے تھے.

تین سال ہو گئے تھے اُسے دیکھے ماہ روش کو لگا تھا وقت کے ساتھ ساتھ اُس کا خیال دل سے نکل جائے گا مگر وہ تو دل کا ایک ایسا مرض بن کر رہ گیا تھا جس کا اُس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


نور مینشن میں آج ہر طرف خوشیاں اور رونقیں بکھری ہوئی تھیں. اور کیوں نہ ہوتیں آج پورے دو سال بعد اُن کا لاڈلا سپوت جو لوٹا تھا.

سب گھر والے ارتضٰی کو گھیرے بیٹھے تھے. خوشی ہر ایک کے چہرے سے جھلک رہی تھی.

"کتنے کمزور ہوگئے ہو. جانتی ہوں وہاں اپنا خیال بلکل بھی نہیں رکھتے ہوگے."

ناہید بیگم نے فکرمندی سے اُس کی طرف دیکھا. جب اُن کی بات پر ارتضٰی سمیت باقی سب بھی مسکرائے تھے.

"ہاہاہا ماں یہ شیر کہاں سے کمزور لگا آپ کو. مجھے تو پہلے سے بھی زیادہ ہٹا کٹا لگ رہا ہے."

ارتضٰی کے بجائے ارباز نے ہنستے ہوئے جواب دیا.

"اب آپ کے پاس ہی ہوں نا. اپنے ہاتھ کے مزے مزے کے کھانے کھلائیں گا."

ناہید بیگم کے گرد بازو حمائل کرتے وہ محبت سے بولا.

"چاچو اب آپ نے کہیں نہیں جانا ورنہ ہم آپ سے بلکل بات نہیں کریں گے. آپ نہیں جانتے ہم نے آپ کوکتنا مس کیا اِس بار."

اُس کی گود میں چڑھ کر بیٹھے ہادی نے دھمکی بھرے انداز میں اُس کی طرف دیکھا.

"اوکے سر جی آئندہ ایسی کوئی گستاخی نہیں ہوگی."

ارتضٰی نے جھک کر دونوں کا بوسہ لیا تھا. جان بستی تھی دونوں میں اُس کی.

"بھابھی پھوپھو کہاں ہیں. ابھی تھوڑی دیر پہلے تو یہیں تھیں."

زینب کو وہاں نہ پاکر ارتضٰی نے نیہا سے پوچھا.

"نماز پڑھنے گئیں ہیں شاید میں دیکھ کر آتی ہوں."

"نہیں آپ رہنے دیں میں خود دیکھتا ہوں."

نیہا کو منع کرتا وہ اپنی جگہ سے اُٹھا تھا. زینب بیگم کو وہ بلکل اپنی ماں کی جگہ پر رکھتا تھا. بلکہ ناہید بیگم سے بھی زیادہ اُن کے قریب تھا. وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیوں سب کے بیچ سے اُٹھ گئی ہیں.

اُس نے جیسے ہی اُن کے کمرے میں قدم رکھا وہ جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگتی نظر آئیں. اُن کو روتا دیکھ ارتضٰی کے دل سے جیسے اک ہوک سی نکلی تھی.

"میں واپس آچکا ہوں پھوپھو. اب کسی صورت آپ کے مجرم مجھ سے نہیں بچ سکتے. اُن کی زندگی میں اتنی مشکل کردوں گا کہ اپنی موت کی دعا مانگیں گے."

ارتضٰی نفرت سے سوچتا وہاں سے ہٹ گیا تھا. اِس وقت وہ زینب بیگم کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ماضی


"اسلام و علیکم! سر آپ نے مجھے بلایا. "

کیپٹن ماہ روش جنرل یوسف کو سلوٹ پیش کرتی اندر داخل ہوئی تھی. مگر اُس نے دائیں جانب چیئر پر بیٹھے وجود کو نہیں دیکھا تھا.

"یس کیپٹن آپ کو یہاں ایک بہت ضروری مشن کے لیے بلایا گیا ہے. اور آپ کے پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے مجھے پورا یقین ہے کہ اِس مشن کو بھی آپ پوری محنت اور لگن سے سرانجام دیں گی. "

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

"انشاءﷲ سر ایسا ہی ہوگا. "

"میجر ارتضٰی یہ ہیں کیپٹن ماہ روش ہماری بہت ہی برویو آفیسر."

جنرل یوسف کے اچانک میجر ارتضٰی کو مخاطب کرنے پر ماہ روش نے چونک کر دائیں جانب دیکھا. جو پرسکون انداز میں بیٹھا اُس کا معائنہ کرنے میں مصروف تھا.

"اور کیپٹن ماہ روش یہ ہیں میجر ارتضٰی سکندر آپ تو جانتی ہی ہوں گی. ہماری ایجنسی کا ٹائیگر مسٹر ہنڈرنڈ پرسنٹ. اِس مشن میں آپ نے اِنہیں کے انڈر کام کرنا ہوگا. آئی ہوپ کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا آپ کو اِن سے."

جنرل یوسف کے تعارف پر ماہ روش نے پورے جوش سے سر ہلایا تھا. اُسے کافی خوشی ہوئی تھی کیونکہ میجر ارتضٰی کے ساتھ بہت سے لوگ مشن کرنے کے خواہش مند تھے. اور سب میں سے اُسے چنا گیا تھا.

"آئم سوری سر مگر کیا آپ شیور ہیں کہ یہ میرے ساتھ اِس مشن پر کام کر پائیں گی. "

میجر ارتضٰی نے ڈھیلے ڈھالے مہروں شرٹ ٹراؤزر میں سر کو اچھے سے حجاب سے کور کیے سامنے کھڑی اِس بےحد حسین اور نازک دوشیزہ پر چوٹ کی تھی. جس کے چہرے کی معصومیت اور بھولپن اُسے مزید پرکشش بنا رہا تھا.

اُس نے بہت ساری فی میلز کے ساتھ کام کیا تھا اور اُنکی صلاحیتوں کو سراہا بھی تھا. ماہ روش بےشک بظاہر ہر طرح سے پرفیکٹ تھی مگر اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے ارتضٰی کو بلکل مِس فٹ لگی تھی.

ماہ روش نے کافی لوگوں سے اُس کے اُکھڑ مزاج اور مغرور پن کے بارے میں سنا تھا مگر آج دیکھ کر سب کی باتوں پر یقین ہوگیا تھا.

"ظاہر پر مت جائیں میجر صاحب. میری یہ کیپٹن بہت ساروں کو اپنی بہادری سے چاروں شانے چت کرچکی ہیں. اور آپ بھی زرا دھیان سے رہیئے گا. اُن کو عام آفیسر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے. آپ کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ ٹیلینٹڈ ہیں. بظاہر وہ جیسی دکھتی ہیں حقیقت میں اُس کے بلکل آپوزٹ ہیں. "

ماہ روش کو وہاں سے بھیجنے کے بعد اُنہوں نے تفصیلی انداز میں ارتضٰی کو آگاہ کیا تھا. مگر ماہ روش کی اتنی تعریف بھی ارتضٰی کو کچھ خاص امپریس نہیں کر پائی تھی.

کیپٹن ماہ روش کا بے انتہا حُسن اور اُسے دیکھ کر جو نزاکت کا احساس ہوتا تھا. وہ ارتضٰی کو اِس فیلڈ کے لحاظ سے بلکل بھی مناسب نہیں لگا تھا.

اگر جنرل یوسف اُسے ماہ روش کے بارے میں پہلے بتا دیتے تو ایک بار وہ اِس لڑکی کو ٹیسٹ ضرور کرتا کیونکہ وہ اپنے مشن کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا. مگر اب وقت کی کمی کہ باعث ایسا کرنا مشکل تھا. ب

"لیٹس سی سر آپ کی کیپٹن مجھے بھی آپ جتنا ایمپریس کر پاتی ہیں یا نہیں. اب اگلی ملاقات آپ سے مشن کی کامیابی کے بعد ہی ہوگی. "

میجر ارتضٰی کی سوچ پر جنرل یوسف زیرِ لب مسکرائے تھے. چاہے میجر ارتضٰی جتنی بھی کامیابیوں کی منزل طے کر لیتا. تھا تو اُنہیں کا شاگرد وہ اُس کی رگ رگ سے واقف تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"کیپٹن ماہ روش ابھی اور اِسی وقت میرے آفس میں پہنچیں آپ. "

ماہ روش کو سوئے ابھی بمشکل دو گھنٹے بھی نہ گزرے تھے. کہ میجر ارتضٰی کی اِس وقت کال اور دیےگئے آرڈر پر وہ کمبل ہٹاتی فوراً بستر سے اُٹھی تھی. گھڑی رات کے ساڑھے بارہ بجا رہے تھے.

"اوکے سر میں بس پندرہ منٹ میں پہنچ رہی ہوں. "

ماہ روش کا جواب سن کر بغیر مزید کچھ بولے ارتضٰی نے کال کاٹ دی تھی.

ماہ روش موبائل بیڈ پر پھینکتی واش روم کی طرف بھاگی تھی. آج ہی تو جنرل یوسف نے اُسے مشن کے بارے میں بتایا تھا. میجر ارتضٰی سے مل کر اُسے اتنا تو معلوم ہوگیا تھا کہ اُس کے ساتھ کام کرنا بہت ٹف ہوگا.

اور اُوپر سے اُس کی اپنے بارے میں رائے جان کر وہ اُسے مزید کوئی بھی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی.

اور ساتھ ہی اُس کھڑوس کو یہ بھی واضح کر دینا چاہتی تھی. کہ لڑکیاں کسی بھی فیلڈ میں لڑکوں سے کم نہیں تھیں.

جلدی جلدی چینج کرکے حجاب اوڑھتی وہ کمرے سے نکلتی دادو کے کمرے میں داخل ہوئی تھی. اُنہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھتے اُن کے لیے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص پیغام چھوڑتی باہر نکل آئی تھی.

ماہ روش میجر ارتضٰی کے آفس میں داخل ہوتے دروازے پر رکی مگر پورا آفس خالی پڑا نظر آیا.

ابھی وہ کسی سے پوچھنے کے لیے واپس پلٹنے ہی والی تھی جب موبائل سکرین پر میجر ارتضٰی کا نام جگمگاتا دیکھ فوراً کال ریسیو کی تھی.

"کیپٹن ماہ روش آفس کے اندر داخل ہوں. اور رائٹ سائیڈ پر ٹیبل پر دیکھیں. وہاں بلیک کلر کی فائل پڑی ہے. اُسے اچھے سے ریڈ کریں. کیس کے بارے میں ایک ایک ڈیٹیل موجود ہے اُس میں. صبح سات بجے تک کا ٹائم ہے آپ کے پاس. سات بجے ملاقات ہوتی ہے آپ سے. ہیو آ گڈ ٹائم ."

سپاٹ انداز میں ساری بات کہتے اُسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بغیر میجر ارتضٰی نے کال بند کردی تھی.

ماہ روش گھڑی کی طرف دیکھتے گہرا سانس لیتی صوفے پر جابیٹھی.

اُسے لگا تھا کیس کے سلسلے میں کہیں جانا ہوگا جس کی وجہ سے اِس طرح ارجنٹ اُسے بلایا گیا تھا. مگر صرف اِس فائل کو ریڈ کرنے کے لیے اُس کی اتنی دوڑیں لگوائی تھیں اُس کھڑوس بندے نے.

جس کو وہ جنرل یوسف کی ہدایت پر پہلے ہی مکمل طور پر ریڈ کرکے کیس کو اچھے سے سمجھ چکی تھی.

مگر کیا کر سکتی تھی یہ آرڈر تھا جو کہ ہر حال میں ماننا تھا اُسے. فائل کھول کر ماہ روش اُسے دوبارہ سے ریڈ کرنے لگ گئی تھی.

ماہ روش نے گردن کو سیدھا کرتے پیچھے صوفے کے ساتھ سر ٹکایا تھا. اُس ایسے بیٹھے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے. اب تو فائل میں لکھا ایک ایک لفظ اُسے حفظ ہوچکا تھا.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


فکس سات بجے میجر ارتضٰی نے آفس میں قدم رکھا تھا.

اندر داخل ہوتے سامنے کا منظر دیکھ اُس کی نظریں واپس پلٹنا بھول چکی تھیں.

ماہ روش صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے ہی سو چکی تھی. ایک ہاتھ سے فائل کو تھام رکھا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ صوفے سے نیچے لٹک رہا تھا.

بے بی پنک کلر کا سادہ سا پرنٹڈ سوٹ پہنےاُسی کے ہم رنگ ڈوپٹے سے حجاب کیے وہ سوتی ہوئی کوئی معصوم سی پری لگ رہی تھی. حجاب ڈھیلا ہوجانے کی وجہ سے کچھ بال ایک سائیڈ سے باہر نکل آئے تھے.

ارتضٰی کی نظروں کی تپش تھی یا کیا وہ ہولے سے کسمسائی تھی. جب ارتضٰی فوراً ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا. اور اپنی کیفیت پر خود کو سرزنش کرتا اپنے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہاتھ میں پکڑی فائلز زور سے ٹیبل پر پٹخیں.

ماہ روش اِس آواز پر فوراً ہڑبڑا کر اُٹھی اور سامنے کھڑے ارتضٰی کو دیکھ شرم سے پانی پانی ہوئی تھی.

"آئم سوری سر. "

اُس کو غصے سے گھورتا دیکھ ماہ روش اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہولے سے منمنائی تھی.

پوری رات جاگنے کے بعد اب اِس کھڑوس کے آنے کے ٹائم ضرور آنکھ لگنی تھی. اب پتا نہیں کتنی باتیں سنائے گا.

ماہ روش خود کو کوس کر رہ گئی تھی.

"آئی ہوپ اچھے سے نیند پوری کر لی ہوگی آپ نے. ویسے ایک سیکریٹ ایجنٹ ہوکر اتنی گہری نیند ویری امپریسو. مجھے لگتا ہے آگے بھی آپ سے کافی کچھ ایسا سیکھنے کو ملنے والا ہے. "

گہرا طنز کرتے وہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھا تھا.

اُس کی بات کا مطلب سمجھتے ماہ روش نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا تھا.

"ہمیں آج ہی اُن لوگوں سے ملنے کے لیے نکلنا ہے آپ کے پاس پورا ایک گھنٹا ہے. اپنی جو بھی تیاری کرنی ہے کرلیں. ہمیں وہاں زیادہ دن بھی لگ سکتے ہیں. "

مصروف سے انداز میں فائل پر جھکے اُس نے ماہ روش کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا.

"رائٹ سر. "

ماہ روش اُسے سلوٹ مارتی وہاں سے نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


امرا کوٹ لاہور کا ایک بہت بڑا گاؤں تھا جہاں پچھلے کئی سالوں سے ایک ظالمانہ جاگیرداری نظام چلا آرہا تھا. جس کی آڑ میں بہت سارے گھناؤنے کام کیے جارہے تھے.

وہاں کے جاگیرداروں اور کچھ سیاسیوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس کو اُس علاقے میں جانے کی جرأت نہیں تھی. اور نہ ہی اُن کے خلاف کوئی ایسے ثبوت تھے جن کی بنا پر اتنے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاتا.

چھوٹے پیمانے پر شروع کیا گیا یہ دھندا اب اِس حد تک پھیل چکا تھا کہ امرا کوٹ ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی علاقے اِس کی لپیٹ میں آچکے تھے. نجانے کتنے ہی گھر اجڑ چکے تھے.

وہاں انسانیت سوز سلوک کے ساتھ ساتھ انسانوں کی مویشیوں کی طرح خرید و فروخت کی جاتی تھی. لوگوں کی غربت سے فائدہ اُٹھایا جاتا تھا. امرا کوٹ میں وہاں کے رہائشیوں کے علاوہ کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی. اگر کبھی باہر کا کوئی شخص داخل ہوتا تو دوبارہ اُس کی خبر نہیں ملتی تھی. ظلم اور غنڈہ گردی کا بازار گرم تھا. میڈیا پر ایک دوبار اِس معاملے پر آواز اُٹھانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اُنہیں بھی ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا گیا تھا.


وہاں کے رہائشی میاں بیوی جو کہ کسی سلسلے میں لاہور آئے تھے.میجر ارتضٰی اور کیپٹن ماہ روش اُن کو اپنے قبضے میں لے کر اُن دونوں کے گیٹ اپ میں وہاں داخل ہوئے تھے.

اُنہیں ٹریننگ میں ہر چھوٹے بڑے حالات سے اچھے سے نبٹنا سکھایا جاتا تھا. اِس لیے کسی اور کا گیٹ اپ کرکے اُن کی طرح کا بی ہیو کرنا اُن کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا. اُن دونوں میاں بیوی سے ارتضٰی اردگرد کے تمام لوگوں کے بارے میں پہلے ہی معلومات حاصل کر چکا تھا. ایک ہفتہ اُن دنوں کے ساتھ رہ کر وہ اچھے سے ہر چیز کے بارے میں آگاہ ہوچکے تھے.

ارتضٰی اور ماہ روش ہوشیاری سے اُس گاؤں میں داخل ہوچکے تھے. اُن لوگوں کا ایک چھوٹا سا دو کمروں کا گھر تھا. جس کی چار دیواری نہیں تھی.

"یہ بچارے کیسے ایسے گھروں میں رہ لیتے ہوں گے. "

ماہ روش گھر کا جائزہ لیتی ہولے سے بڑبڑائی تھی.

ارتضٰی نے ایک نظر بلکل دیہاتی عورتوں کے گیٹ اپ میں موجود ماہ روش کی طرف دیکھا. حجاب کی جگہ گھریلو لڑکیوں کی طرح بڑا سا دوپٹہ اوڑھے وہ بہت پروقار سی لگ رہی تھی.

"یہ گھر اِن غریب لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے. یہاں بہت سے ایسے لوگ بھی ہے جن کو عزت کی چھت بھی نصیب نہیں. "

ارتضٰی کے سپاٹ لہجے پر ماہ روش نے خاموش نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جو اُس کی ہلکی سی خود سے کی گئی بات کو کسی اور ہی طرف میں لے گیا تھا.

اُس کمرے میں دو چارپائیوں کو ملا کر بیڈ کی شکل میں جوڑے ایک پرنٹڈ چادر سے ڈھکا گیا تھا.

ارتضٰی سکون سے اُن پر لیٹے ایک ہاتھ سر کے نیچے فولڈ کیے آنکھیں مونڈے ہوا تھا. اپنے ایک پیر کو وہ مسلسل ہلا رہا تھا.

پیشانی پر سیاہ گھنے بال بکھرے ہوئے تھے. گہری براؤن آنکھوں کو پوری طرح سُرمے سے بھرا گیا تھا. مغرور کھڑی ناک, سُرخی مائل ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے گئے تھے. جن کے اُوپر گیٹ اپ کی وجہ سے گھنی مونچھیں لگائی گئی تھیں. ماہ روش کو یہ خوبرو شخص حد سے زیادہ مغرور لگا تھا.

"پتا نہیں وہ کون خوش قسمت لوگ ہوتے ہوں گے جن سے یہ میجر صاحب اچھے سے بات کرتے ہوگے. ویسے یہ ہنستے ہوئے نجانے کیسے لگتے ہونگے. اِتنے دن میں اِس بندے کے ساتھ کیسے گزاروں گی. ایسے نہ ہو اِس جیسی سڑیل ہی بن کر نکلو."

ماہ روش اُسی کمرے میں موجود اکلوتی کرسی پر بیٹھی. ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے ارتضٰی کی طرف دیکھتے بے خیالی میں اُسی کے بارے میں سوچی جا رہی تھی. ایک ہفتہ اُس کے ساتھ کام کرنے کے دوران ماہ روش نے ایک بار بھی اُس کو مسکراتے نہیں دیکھا تھا. وہ ہر وقت سنجیدہ انداز میں ہی رہتا تھا.

"اگر آپ میرا اچھے سے معائنہ کرچکی ہیں. تو تھوڑا سا آرام کر لیں. کیونکہ رات کو ہی ہم نے اپنے مشن پر کام سٹارٹ کر دینا ہے. "

ماہ روش اُس کی آواز پر اپنے خیال سے چونکتے فوراً سیدھی ہوئی تھی. اور ایک نظر اُسے گھورتی روم سے نکل گئی تھی. جو بند آنکھوں سے بھی اُس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا.

"ماہ روش پاگل ہوگئی ہو کیا. وہ ہنسے, بات کرے یا نہ کرے تمہیں کیا پرابلم ہے. فضول کا اُلٹا سیدھا سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مشن کرنے آئی ہو اُسی پر فوکس کرو."

ماہ روش خود کو سرزنش کرتی دوسرے کمرے میں پڑی چارپائی پر آبیٹھی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی شام کو فریش ہوکر اردگرد کی خبر لینے باہر نکل گیا تھا. دوسرے روم کا بند دروازہ دیکھ وہ سمجھ کیا تھا کہ ماہ روش ابھی سو رہی ہے.

اچھی طرح پوچھ گچھ کے بعد وہ مغرب کے بعد واپس لوٹا جب اُسے کچن سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا. وہ جلدی سے اُس طرف بڑھا تھا.

ماہ روش کچن میں بنے چھوٹے سے مٹی کے چولہے پر لکڑیوں سے آگ جلاتے دھویں سے بے حال ہوتی روٹیاں بنا رہی تھی. دھویں کی وجہ سے وہ سُرخ آنکھوں کے ساتھ کھانسنے میں مصروف تھی.

ارتضٰی نفی میں سر ہلاتے گہری سانس لیتا اندر داخل ہوا تھا.

"کیپٹن صاحبہ اُٹھیں یہاں سے. یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے. "

ارتضٰی نے اُسے وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا تھا. مگر اُسے اپنے کام میں مصروف ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ ارتضٰی نے ماتھے پر بل ڈالتے اُسے بازو سے تھام کر کھڑا کرتے باہر کی طرف بڑھا تھا. اپنی بات کو اِگنور کیا جانا تو اُسے کسی صورت برداشت نہیں تھا.

"سر آپ مجھے اندر کیوں لے آئے ہیں بس تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہونے والا تھا."

ماہ روش چہرا ڈوپٹے سے سہلاتی بولی

"محترمہ کھانا تو تیار ہوجاتا مگر آپ پھر جس کام کے لیے یہاں آئی ہیں اُس کے قابل نہ رہتیں. یہیں بیٹھیں آپ میں لے کر آتا ہوں کھانا. "

ارتضٰی نے خفگی سے اُس کے بلکل سُرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھا تھا.

"سر آپ رہنے دیں میں لے آتی ہوں. وہ دراصل... "

ماہ روش جھجکی تھی.

"کیا. "

"جس کریکٹر میں آپ ہیں. اُس شخص نے کبھی کچن میں پاؤں بھی نہیں رکھا. اُس کی بیوی نے مجھے بتایا تھا. وہ ہی نہیں یہاں کہ سارے مرد کچن میں جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اِس لیے آپ کو اِس طرح جاتے کسی نے دیکھا تو.. "

ماہ روش نے بڑی مشکل سے الفاظ ڈھونڈ کر اپنی بات مکمل کی تھی. مگر اُس کی بات کے جواب میں ارتضٰی خاموشی سے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا. ماہ روش کی حالت دیکھ وہ اُسے تو دوبارہ کسی صورت کچن میں نہیں بھیج سکتا تھا.

"کھڑوس کہیں کا. "

ماہ روش اُس کے اِس طرح بنا جواب دیے جانے پر منہ بنا کر بولی.

دونوں نے اکٹھے بیٹھ کر ہی کھانا کھایا تھا. ارتضٰی کی نظریں بار بار بھٹک کر ماہ روش کے سُرخ چہرے اور سوجی آنکھوں کی طرف اُٹھ رہی تھیں.

اِس لڑکی میں اُسے ایک عجیب سی کشش محسوس ہوتی تھی. ہمیشہ لڑکیوں سے الرجک رہنے والا وہ پتا نہیں کیسے ماہ روش کے بارے میں سوچنے لگ گیا تھا. جب بھی اِسے دیکھتا تھا دل کو ایک انوکھا سا احساس چھو جاتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

رات کا دوسرا پہر چل رہا تھا ہر طرف خاموشی طاری تھی. گاؤں میں کم لوگوں کے گھر میں چار دیواری بنائی گئی تھی. اِس لیے لوگ گرمی کی وجہ سے صحن میں چارپایاں بیچھا کر سوئے ہوئے تھے.

وہ دونوں بغیر زرا بھی آواز پیدا کیے اُس حویلی کی طرف بڑھ رہے تھے. جہاں جاگیرداروں کا اصل ڈیرہ موجود تھا. حویلی کی قدرے تاریک گوشے والی سائیڈ کی دیوار سے اُنہوں نے اندر داخل ہونے کا سوچا تھا.

ارتضٰی تو مزے سے دیوار پر چڑھ گیا تھا مگر دیوار کی زیادہ اونچائی کی وجہ سے ماہ روش کو تھوڑی مشکل پیش آرہی تھی.

ارتضٰی نے اُسے مسلسل ناکام کوشش کرتے دیکھ ہاتھ بڑھایا تھا کیونکہ زیادہ دیر یہاں رُکنا خطرے سے خالی نہیں تھا.

ماہ روش نے ہچکچاتے ارتضٰی کے مضبوط ہاتھ کو تھاما ہی تھا کہ اگلے ہی لمحے ایک جھٹکے سے ارتضٰی نے اُسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا. ماہ روش سیدھی اُس کے سینے سے جا ٹکرائی تھی. ارتضٰی کی وجود سے اُٹھتی خوشبو اُس کے حواس معطل کر گئی تھی. ارتضٰی مشن کی خاطر مہینوں کھائے پئے بغیر رہ سکتا تھا مگر اپنے فیورٹ پرفیوم لگائے بغیر نہیں. ہمیشہ اُس کے ساتھ کام کرنے والے اِس بات پر کافی حیران بھی تھے مگر یہ بھی سچ تھا کہ میجر ارتضٰی سکندر کافی ٹف بندہ تھا. اُس کو سمجھنا بہت مشکل کام تھا.

ماہ روش نے اُس کے کندھے کو تھام کر خود کو دوبارہ نیچے گرنے سے بچایا تھا. وہ دیوار پر بلکل ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے.

ارتضٰی کی گرم سانسیں ماہ روش کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں. اندھیرے کے باوجود اُس کو اتنے قریب محسوس کرتی ماہ روش فوراً پیچھے ہٹی تھی. اُس کے اِس طرح یکدم پیچھے ہونے کی وجہ سے ارتضٰی کو نجانے کیوں بہت بُرا لگا تھا. جب اُس کا ہاتھ چھوڑتے ارتضٰی نے نیچے کی طرف چھلانگ لگا دی تھی. ماہ روش بھی اُس کے پیچھے بہت ہی پُھرتی سے آواز پیدا کیے بغیر نیچے کودی تھی.

دیواروں پر لگے پائپس اور شیڈز پر پاؤں رکھتے وہ اُوپر چڑھے تھے کیونکہ مین گیٹ سے داخل ہوتے پکڑے جانے کا خطرہ تھا. اُنہوں نے ٹیرس کی دیوار پھلانگتے جیسے ہی اندر قدم رکھا سامنے ہی ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ فوراً نیچے جھکے تھے.

ماہ روش نے اتنی بڑی سیاسی شخصیت کی یہاں موجودگی پر بے یقینی سے دیکھا تھا. پورے ملک میں کتنی معزز شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا اور چند پیسوں کی خاطر اِس طرح کے گھناؤنے جرائم میں ملوث تھا.

ارتضٰی نے ریکارڈنگ آن کرتے ہاتھ میں پکڑے کیمرے سے اُس کی تصاویر لی تھیں. تھوڑی دیر وہاں باتیں کرنے کے بعد وہ اُن وڈیروں کے ساتھ اندر کسی کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا.

ابھی اُسے گئے پانچ منٹ بھی نہ گزرے تھے جب اُس طرف سے کسی لڑکی کے چلانے کی آوازیں آنے لگی تھیں. سچویشن کو سمجھتے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر وہ دونوں ٹیرس کی دیوار پھلانگتے شیڈز کے سہارے آگے موجود کمرے کے ٹیرس ہر کودے تھے.

مگر سامنے موجود منظر دیکھ ارتضٰی کا خون کھول اُٹھا تھا. ہونٹ زور سے بھینچنے کی وجہ سے اُس کی کنپٹی کی رگ اُبھر آئی تھی. خود پر قابو نہ پاتے ارتضٰی بغیر کسی چیز کی پرواہ کیے کمرے کی طرف بڑھا تھا.

ماہ روش کپکپاتے وجود کے ساتھ دل تھامتی وہیں ساکت ہوئی تھی. اُس نے ارتضٰی کو روکنے کی کوشش بلکل نہیں کی تھی. وہ گھٹیا شخص جو سلوک اس لڑکی کے ساتھ کر رہا تھا. اُس کا خود کا دل چاہ رہا تھا ابھی اُس درندے کو شوٹ کر دے.

ارتضٰی نے گریبان سے پکڑ کر اُسے اُس لڑکی سے دور کیا تھا اور اُس کا چہرا بچا کر ایسی ایسی جگہ ضرب لگائی تھی کہ وہ درد سے بلبلا کر رہ گیا تھا. ارتضٰی نے اُس کے منہ کو اپنے ایک ہاتھ سے دبوچ رکھا تھا کہ وہ چیخ بھی نہیں پارہا تھا.

ماہ روش نے آگے بڑھ کر اُس لڑکی کو دوپٹہ اوڑھایا تھا. اور اُس ڈری سہمی لڑکی کو ساتھ لگاتے حوصلہ دیا تھا.

ارتضٰی نے اُسے اچھی طرح مار مار کر بے حال کرنے کے بعد انجکشن نکال کر اُس کے بازو میں کھونپ دیا تھا. جس کی وجہ سے اِردگرد سے غافل ہوتے وہ وہی ڈھ گیا تھا. وہ ابھی اُس کو مار کر باقی سب لوگوں کو بلکل بھی الرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا.

وہ اچھے سے جانتا تھا وہ اکیلا ہی اِن سب پر بھاری تھا مگر اِس طرح اُنکو ختم کرکے اتنی آسان موت دے کر وہ بہت سارے مظلوموں کے ساتھ نا انصافی نہیں کر سکتا تھا.

"آپ نے یہ سب کرکے اپنے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی ہے. یہ لوگ بہت طاقت ور ہیں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے. آج تو آپ نے مجھے بچا لیا. لیکن کل میرے ساتھ اِس سے بھی زیادہ بُرا سلوک ہوگا."

وہ لڑکی روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی. ماہ روش نے دکھ بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

"اِس شخص کے ساتھ جو میں نے کیا ہے ایک مہینے تک کے لیے تو یہ ہلنے کے قابل بھی نہیں رہا. اِس انجکشن کی وجہ سے اِس کو جب تک ہوش آئے گا درد کے علاوہ کچھ یاد نہیں ہوگا اِسے.

اور آپ کو اب ہم اِن درندوں میں بلکل بھی چھوڑ کر نہیں جائیں گے. آپ بے فکر ہوجائیں اب آپ ہمارے ساتھ بلکل محفوظ ہیں.

ناصرہ نے تشکر بھری نظروں سے اُن دونوں کی طرف دیکھا تھا. جو اُس کے لیے فرشتے سے کم ثابت نہیں ہوئے تھے. نقاب میں ہونے کی وجہ سے وہ اُن کے چہرے تو نہیں دیکھ پائی تھی. مگر رب کے حضور اپنی عزت بچ جانے پر بہت شکر گزار تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِس گاؤں کی رہائشی ہونے کی وجہ سے اُنہیں ناصرہ سے بہت ساری معلومات ملی تھی. جو ڈر کی وجہ سے باقی لوگوں نے نہیں بتائی تھی.

ناصرہ ایک ہفتے سے حویلی میں ہونے کی وجہ سے حویلی کے اندر کی بھی کچھ باتوں سے واقف تھی. اُن دونوں نے اُس کے سامنے اپنی اصلی پہچان ظاہر نہیں کی تھی. کیونکہ یہ بات اُن کے رولز کے خلاف تھی.

اُنہوں نے خود کو اُس کے سامنے ایک میاں بیوی کی طرح ہی ظاہر کیا تھا. لیکن اُس کی وجہ سے وہ ایک مشکل میں آگئے تھے. کہ پچھلے پانچ دنوں سے الگ الگ روم میں سوتے اب ناصرہ کی وجہ سے اُنہیں ایک ہی روم میں ہی رہنا تھا. جو دونوں کے لیے ہی ٹینشن کی بات تھی. کیونکہ مضبوط اعصاب رکھنے کے باوجود بھی وہ دونوں اندر ہی اندر ایک دوسرے سے اچھے خاصے ڈسٹرب ہورہے تھے.

"باجی آپ کی اپنے گھر والے سے کوئی ناراضگی چل رہی ہے کیا. "

ماہ روش ناصرہ کو چائے پکڑاتی پاس بیٹھی تھی جب اُس کے سوال پر خاموش نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

"کیوں آپ کو ایسا کیوں لگا. "

ماہ روش نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

"وہ جی اُن کی آنکھوں میں آپ کے لیے پسندیدگی تو ہے مگر وہ ظاہر نہیں کرتے ایسا لگتا ہے کسی وجہ سے آپ سے چھپا رہے ہیں یا کسی بات پر ناراض ہیں آپ سے. اور آپ بھی تو اُن سے اتنی کھنچی کھنچی رہتی ہیں. دو دن سے سو بھی آپ میرے ساتھ رہی ہیں. "

"ہاہاہاہا ہو تم چھوٹی سی اور باتیں اتنی بڑی بڑی کررہی ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے. اور تم کافی ڈری ہوئی تھی اِس لیے میں تمہارے ساتھ سورہی ہوں. "

ماہ روش نے اُس کی بات مذاق میں لیتے اُسے ٹالنا چاہا تھا.

میجر ارتضٰی اور اُسے پسند کرے گا ماہ روش کو یہ بات سوچ کر ہی ہنسی آرہی تھی.

روم میں داخل ہوتا ارتضٰی بھی اُس کی بات سن چکا تھا. ماہ روش اُسے وہاں دیکھ خواہ مخواہ ہی شرمندہ ہوئی تھی. جب وہ بغیر کچھ کہے ماہ روش کو دوسرے روم میں آنے کا اشارہ کرتے باہر نکل گیا.

"اُن لوگوں کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہوا. وہ یہ ہی سمجھ رہے ہیں کہ ناصرہ وہاں سے خود بھاگی ہے. وہ اُسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں. مگر اِس بات کی تسلی ہے کہ گھروں کی تلاشیاں نہیں لے رہے اُن کے مطابق گاؤں والوں میں سے کسی میں بھی ہمت نہیں کہ اُن کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکیں.

لیکن پھر بھی ہمیں پوری طرح سے کیئر فل رہنا ہوگا. اور ہاں آج سے آپ کو یہاں اِسی روم میں سونا ہوگا."

پوری دھیان سے اُس کی بات سنتے آخری بات پر ماہ روش نے گھبرا کر پہلو بدلا تھا.

"کیپٹن ماہ روش میں اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. میں میجر ارتضٰی سکندر ہوں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا اچھے سے جانتا ہوں.

اور گھبرانے کی وجہ ہونی بھی نہیں چاہئے. میں عزتوں کو محافظ ہو لوٹیرا نہیں. "

ارتضٰی اپنی بات مکمل کرتا وہاں سے نکل گیا تھا. وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا اپنا آرڈر سنا کر بغیر اُس کا جواب سنے نکل جاتا تھا.

ماہ روش گہرا سانس لیتی کرسی پر جابیٹھی تھی. ارتضٰی کتنے مضبوط کردار کا مالک ہے یہ بات تو دو ہفتوں سے اُس کے ساتھ تنہا رہتے ہوئے وہ اچھے سے جان ہی چکی تھی. اور گھبراہٹ اُس کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی اندرونی کیفیت کی وجہ سے ہورہی تھی. جس کو ارتضٰی کچھ اور ہی معنوں میں لیتا اُسے اتنا کچھ سنا گیا تھا.

ارتضٰی اُس سے بہت کم بات کرتا تھا لیکن ماہ روش کو محسوس ہو رہا تھا وہ آہستہ آہستہ اُس کی سحر انگیز پرسنیلٹی کے حصار میں قید ہو رہی تھی.

اُس کا مغرور انداز ماہ روش کو اپنا دیوانہ بنا رہا تھا. ہمیشہ سکول کالج ہر جگہ ماہ روش لڑکوں سے کافی فاصلے پہ رہی تھی. اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح وہ اِن رنگینیوں میں نہیں کھوئی تھی بلکہ خود کو ہمیشہ اِن سب سے دور رکھا تھا.

مگر اب نجانے کیوں دل اُس کو دغا دے رہا تھا. بہت چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنی کیفیت کو کنٹرول نہیں کرپارہی تھی.

رات کو سونے کے ٹائم پر کمرے میں داخل ہوتے

ماہ روش ارتضٰی کی کی گئی کمرے کی سیٹنگ دیکھ کافی پرسکون ہوئی تھی. ایک ساتھ رکھی گئی چارپائیوں کو ارتضٰی نے الگ کرکے دونوں کو ایک دوسرے کی مخالف سمت میں دیواروں سے لگا دیا تھا. کمرے میں بلب کی مدھم سی روشنی موجود تھی. ابھی وہ آکر چارپائی پر بیٹھی ہی تھی کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے اچانک لائٹ چلی گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


حال

"ہیلپ پلیز اینی باڈی ہیلپ."

ارحم ریسٹورنٹ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈنر کرنے آیا ہوا تھا. ڈنر سے فارغ ہوکر وہ گاڑی کی طرف بڑھا تھا. جب اُسے ریسٹورنٹ کے بائیں جانب موجود سنسان روڈ پر کسی لڑکی کے چلانے کی آواز آئی تھی.

وہ ملک کا محافظ ہر وقت ملک و قوم کی خدمت کے لیے تیار رہنے والا ایک بھی سیکنڈ کی دیر کیے بغیر اُس طرف بھاگا تھا.

"کون ہے یہاں. "

وہ پکارتا آگے بڑھا تھا. جب سائیڈ سے ایک لڑکی روتے ہوئے بھاگتے اس کے قریب آئی تھی.

"کچھ غنڈے میرے پیچھے پڑے ہیں پلیز مجھے بچا لیں."

ارحم کی شرٹ کو اپنے ہاتھوں میں جکڑتی وہ بُری طرح سے ڈری ہوئی لگ رہی تھی.

سٹائل سے کٹے گئے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے. بڑی سے بلیک چادر بھاگنے کی وجہ سے نیچے لٹک رہی تھی. بڑی بڑی خوبصورت کاجل سے سجی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جن کی وجہ سے چہرا مکمل طور پر آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا. اندھیرے میں بھی اُس کی دودھیا رنگت چمک رہی تھی.

"دیکھئے آپ اب بلکل سیف ہیں. اور وہاں کوئی غنڈے نہیں ہیں. "

ارحم خود کو اُس کے حصار سے آزاد کرواتا سامنے کی طرف دیکھتے بولا.

"اوکے بہت بہت شکریہ آپ کا. "

وہ اُس طرف دیکھ کر پرسکون ہوتی پلٹی تھی مگر ایک قدم چلنے کے بعد اُسے وہاں رُکنا پڑ گیا تھا. کیونکہ اُس کی کلائی ارحم کی مضبوط گرفت میں تھی.

"مس میرا والٹ تو دیتی جائیں. "

ارحم کی بات پر وہ جھٹکے سے پلٹی تھی.

"نائس ٹرائے. بہت اچھے سے صفایا کرتی ہیں آپ مگر افسوس اِس بار آپ کا پالا مجھ سے پڑ گیا. "

اُس کے ہاتھ سے اپنا والٹ لیتے ارحم نے اُس کے دلکش نقوش سے سجے چہرے کو کڑے تیروں سے گھور کر دیکھا تھا. جو اپنی چوری پکڑے جانے پر حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھی. ارحم کو وہ اِس طرح حیران ہوکر دیکھتی کافی کیوٹ لگی تھی.

پہلا بندہ تھا یہ جس کے آگے وہ پکڑی گئی تھی نہیں تو آج تک کسی کے فرشتوں کو بھی پتا نہیں چل پایا تھا.

"دیکھئے پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں. آپ جو سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے. "

وہ اُس کے تاثرات دیکھ کر گھبراتے جلدی سے بولی. درخت کے پیچھے چھپ کر ویڈیو ریکارڈ کرتی اُس کی فرینڈز بھی پریشانی سے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھیں. اِس سچویشن کو ہینڈل کرنے کا تو انہوں نے کوئی پلین ہی نہیں کیا ہوا تھا. کیونکہ ریحاب کے مطابق جس پُھرتی سے وہ یہ کام کرتی تھی. اُس کا پکڑا جانا ناممکن ہی تھا.

"سمجھنے سمجھانے والی ساری باتیں تو اب پولیس سٹیشن میں جاکر ہوں گی کیونکہ میں ایک پولیس آفیسر ہوں اور آپ کو رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑا ہے میں نے. "

اُسے ویسے ہی تھامے وہ آگے کی طرف بڑھا تھا.

جب اُس کی دوستیں ہوش میں آتے بھاگتی ہوئی ارحم کے سامنے آئیں تھیں.

"دیکھیں سر یہ صرف ایک پرینک تھا. جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے. ریحاب کا ویسا کوئی ارادہ نہیں تھا. "

ارحم کے تیور دیکھ وہ لوگ پریشان حال رونی صورتیں لیے اُس کے سامنے تھیں. یہ سوچ ہی جان لیوا تھی کہ گھر والے جیل میں دیکھ کر اُنہیں ویسے ہی اُڑا دیں گے.

ارحم کو اُن کی یہ حالت کافی مزا دے رہی تھی. ایک سیکریٹ ایجنٹ ہونے کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں ہی اُنہیں سمجھ چکا تھا.

مگر اُن کی حرکت پر اُنہیں سبق سیکھانے کی غرض سے ایسا کر رہا تھا.

"ظاہر سی بات ہے چور یہ کیسے کہے گا کہ میں نے چوری کی ہے. مگر ہمارے پاس بہت اچھے طریقے ہیں سچ اُگلوانے کے. "

ارحم کی بات پر کب سے خود کو کنٹرول کرتی ریحاب نے تپ کر کچھ کہنا چاہا. مگر کرن نے اُس کو چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا.

"سر یہ سچ میں ایک پرینک تھا. آپ یہ ویڈیو چیک کرسکتے ہیں. کوئی بھلا اپنی ہی چوری کی ویڈیو کیوں بنائے گا. "

کرن سے موبائل لیتے ارحم نے ویڈیو دیکھ کر پہلے اپنے موبائل پر فارورڈ کی اور پھر اُس موبائل سے ڈیل کرتے اُن کی طرف بڑھایا تھا.

اُس کی اِس حرکت پر ریحاب نے دل ہی دل میں اُسے نجانے کتنی گالیوں سے نوازا تھا.

"تو میں کونسا سیریس ہوں. "

اُس کی بات پر تینوں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا.

"میں کوئی پولیس آفیسر نہیں ہوں. آپ لوگوں کو تھوڑی عقل سیکھانے کے لیے یہ سب کیا. یہ جو سنسان جگہ پر آپ لوگ ایسی حرکتیں کر رہی ہیں. آپ کو اِس سے کافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے. ضروری نہیں ہر دفعہ مجھ جیسا کوئی شریف انسان ہی ٹکرائے آپ سے. سو نیکسٹ ٹائم بی کیئر فل."

ارحم کی نظر اُس کی بات سن کر ایک بار پھر حیرت سے منہ کھولے کھڑی ریحاب پر پڑی تھی.

"اور ہاں مس ریحاب آپ آئندہ اگر آنکھوں میں گلیسرین ڈالنے کا ارادہ ہو تو پلیز کاجل مت ڈالیے گا. کیونکہ اِس طرح آپ کو دیکھ کر ڈر کے مارے کسی کا بھی ہارٹ فیل ہوسکتا ہے. "

ارحم شرارتی لہجے میں اُسے کہتا.

اُنہیں وہی ساکت کھڑا چھوڑ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا.

"تم کتنی بڑی بے وقوف ہو. اُس کو ویڈیو دیکھنے کی کیا ضرورت تھی. اور تم اُس کے سامنے میرا نام بکنے کی کیا ضرورت تھی. ٹھیک کہتے ہیں بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے. "

ریحاب سر پر ہاتھ مارتے اُن دونوں کو کوسا تھا.

'"ہم تو صرف تمہاری ہیلپ کررہی تھیں. اور تم پریشان کیوں ہو رہی ہو اتنا شریف بندہ تھا یار اُس نے کیا کرنا ہے. "

وہ دونوں بُری طرح ارحم کے انداز اور پرسنیلٹی سے متاثر ہوچکی تھی.

"شریف مائی فٹ ایسے ہوتے ہیں شریف. گدا کہیں کا. دوبارہ ملے میں بتاؤ گی اِسے. اِس بے عزتی کا بدلہ تو ضرور لے کر رہوں گی. "

ریحاب غصے سے پیر پٹختی آگے کی طرف بڑھی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

"ماہی کی بچی تم گھر واپس آچکی ہو اور تم نے ابھی تک مجھے بتایا ہی نہیں. "

زیمل ماہ روش کی بات سنتے ناراضگی سے بولی.

"ابھی بتا تو رہی ہوں. یار کچھ دن پہلے ہی واپس آئی ہوں. "

ماہ روش مسکرائی.

"اوکے تو پھر آج اور ابھی میرے گھر کے لیے نکلو. تم جانتی ہوں نا میں اور ماما نئے گھر شفٹ ہوئے ہیں. اور اتنے دن ہوگئے ملاقات بھی نہیں ہوئی تم سے. ایک ہفتہ تو اب میرے پاس ہی رہو گی تم. "

زیمل نے دھونس جماتے لہجے میں کہا.

"آؤں گی ضرور مگر کچھ دنوں تک تم گھر کے حالات سے واقف تو ہو نا. ابھی میں اتنا ٹائم باہر رہ کر آئی ہوں. اگر اب پھر تمہاری طرف آگی تو جانتی ہو نا ماما کو. اِس لیے کچھ دن ٹھہر کر ضرور آؤں گئی. "

ماہ روش نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی.

"ٹھیک ہے مگر صرف کچھ دنوں تک. اِس سے زیادہ لیٹ ہوئی تو میں بات نہیں کروں گی تم سے. یار میں بہت بور ہو رہی ہوں یہاں. "

زیمل نے احسان کرتے کہا

"واہ یہ کیسے ہوگیا. زیمل میڈم بور کیسے ہوسکتی ہیں. وہاں اردگرد کوئی لوگ نہیں رہتے کیا. پہلے تو تم نے اپنے ہمسایوں کے ناک میں دم کرکے رکھا ہوتا تھا. "

ماہ روش نے ہنستے ہوئے اُسے چھیڑا

"ہمسائے تو ہیں ماہی مگر بہت بڑے لوگ ہیں. اِن لوگوں کی اپنی ہی اتنی مصروفیات ہیں. "

زیمل ابھی بات کرنے میں ہی مصروف تھی. جب اُس کی نظر نور پیلس کی طرف اُٹھی تھی. وہ ٹیرس پر کھڑی تھی جہاں سے نور پیلس کا ایک حصہ صاف نظر آتا تھا. نیچے والے حصے میں ایک بہت بڑا جم خانہ بنا ہوا تھا. جہاں ارتضٰی بلیک ٹراؤزر اور بلیک کلر کی بنیان پہنے اپنی ایکسر سائز میں بزی تھا.

"واؤ یار کیا مسلز ہیں بندے کے. "

ارتضٰی پر نظر پڑتے زیمل ستائشی انداز میں بولی.

"ہیں یہ اچانک تمہیں مسلز کہاں سے نظر آگئے ٹی وی دیکھ رہی ہوکیا. "

ماہ روش حیران ہوئی.

"نہیں ماہی میں ٹیرس ہر کھڑی ہوں ساتھ والے گھر کا میں کوئی بے حد ہینڈسم سا بندہ ایکسر سائز کرنے میں مصروف ہے اُسی کو دیکھ کر کہہ رہی ہوں."

زیمل کو مضبوط مسلز والے مرد بہت پسند تھے اُس نے ماہ روش اور سلمہ بیگم کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ وہ شادی بھی کسی ایسے بندے سے ہی کرے گی.

"بد تمیز شرم کرو تمہاری تاڑنے والی عادت گئی نہیں ابھی تک. "

ماہ روش نے اُسے شرم دلانی چاہی تھی.

"ہاہاہا نہیں یار میں تو یہاں پہلے سے کھڑی تھی. ابھی اچانک اُس طرف نظر گئی ہے. اور بندہ اِگنور کیے جانے والا بلکل بھی نہیں ہے. "

زیمل کی ڈھٹائی پر ماہ روش مسکرائی

" کبھی نہیں سدھرو گی تم. اچھا یہ بتاؤ آنٹی کی طبیعت کیسی ہے اب."

"ﷲ کا شکر ہے اب کافی بہتر ہیں. وہ بھی تمہیں بہت یاد کر رہی ہیں. مجھ سے زیادہ تو تم اُن کی لاڈلی ہو. "

زیمل نے مصنوعی خفگی سے کہا.

"آنٹی کو میرا سلام دینا. میں جلد ہی چکر لگاتی ہوں. تب تک کے لیے دیکھو تم اپنے اُس ہینڈسم بندے کو. "

ماہ روش شرارتی انداز میں بولی

"ہاں تو اور کیا ابھی بھی اُسے ہی دیکھ رہی ہوں. "

زیمل اُس کے انداز پر مسکراتے ایک بار پھر اُس سے آنے کی یقین دہانی کرواتی فون رکھ چکی تھی.


زیمل اور ماہ روش کی دوستی بہت گہری تھی. وہ بچپن سے سکول کالج یہاں تک کے آرمی ٹریننگ میں بھی ساتھ رہی تھیں. زیمل ارتضٰی والے واقعہ کے علاوہ ماہ روش کی زندگی کے ہر پہلو سے واقف تھی.

زیمل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی. پانچ سال پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اُس کے والد کی ڈیتھ ہوچکی تھی. سلمہ بیگم ہارٹ پیشنٹ تھیں اتنے بڑے صدمے پر اُن کی حالت مزید بگڑ گئی تھی. زیمل پہلے ہی غم سے نڈھال تھی. اِس مشکل وقت میں ماہ روش نے اُس کا بھرپور ساتھ دیا تھا. سلمہ بیگم کو ماہ روش پہلے ہی بہت پیاری تھی. مگر اِس سب کے بعد تو مزید اُن کے قریب ہوگئی تھی.

زیمل بھی ماہ روش کی طرح ایک سیکریٹ ایجنٹ تھی. کیونکہ اُس کے پاپا کی خواہش تھی کہ اُن کی بیٹی آرمی جوائن کرے جس کا احترام کرتے زیمل نے اِس فیلڈ کو ترجیح دی تھی.

وہ اِن دنوں چھٹیوں پر تھی. نئے گھر میں شفٹ ہونے کی وجہ سے اردگرد کسی سے کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی. اِس لیے کافی بور ہورہی تھی. کیونکہ اُسے بولنے کی بہت عادت تھی. اتنا ٹائم چپ رہنا بہت مشکل تھا. اُس کے لئے.

اُس دن نور پیلس سے آنے کے بعد نہ زیمل دوبارہ وہاں گئی تھی اور نہ ہی اُن میں سے کوئی یہاں آیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"گڈ مارننگ ایوری ون."

سب لوگ ڈائننگ ہال میں بیٹھے ناشتہ کررہے تھے. جب ارتضٰی نے اندر داخل ہوتے با آواز بلند سب کو مخاطب کیا تھا. جس کا جواب سب نے مسکرا کر دیا تھا.

ارتضٰی کی شروع سے عادت تھی. صبح نماز کے بعد وہ جاگنگ اور ایکسر سائز ضرور کرتا تھا. اُسی وجہ سے اُس نے گھر میں ہی ایک جم خانہ بنوایا تھا. ابھی بھی وہ وہیں سے فارغ ہوکر آرہا تھا.

"کیا ہوا بھئ کیا بات ہورہی تھی. جو مجھے دیکھ کر سب چپ ہوگئے. "

ارتضٰی نے سب کے ایکدم خاموش ہوجانے پر حیرت سے پوچھا.

"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں. "

ناہید بیگم جلدی سے بولیں.

"دادو آپ بتائیں نا چاچو کو. کہ ہم اِن کی دلہن لانے کی بات کررہے تھے. "

طلحہ کو سب کا اِس طرح ارتضٰی سے بات چھپانا بلکل پسند نہیں آیا تھا.

طلحہ کی بات پر سب نے گھبرا کر ارتضٰی کی طرف دیکھا.

پراٹھے کا لقمہ لیتے ارتضٰی کے ہاتھ وہیں تھمے تھے. آنکھوں کے سامنے ایک معصوم صورت آسمائی تھی. جس کو فوراً اُس نےنفرت سے دماغ سے جھٹکا تھا.

"طلحہ ہادی بیٹا جاؤ زرا اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر دیکھو. آپ کے لئے ایک سرپرائز رکھا ہے وہاں. "

ارتضٰی کی بات پر سب کچھ بھولتے وہ دونوں اپنے کمرے کی طرف بھاگے تھے.

"آپ سب کو میں کتنی بار کہہ چکا ہوں اِس ٹاپک پر کوئی بات نہ کی جائے. بچوں کے سامنے بار بار ایک ہی بات چھیڑنے کا کیا مقصد بنتا ہے. "

ارتضٰی اپنے لہجے کو بہت حد تک دھیمے رکھتے بولا.

"ارتضٰی میری جان بات تو... "


"بھائی پلیز مجھے اِس بارے میں مزید کوئی بات نہیں کرنی. "

ارباز کی بات کاٹتے ارتضٰی کرسی گھسیٹ کر وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

اُس کے پیچھے زینب بیگم بھی اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتیں وہاں سے نکل گئی تھیں. باقی سب لوگ بھی ناشتے سے ہاتھ کھینچ چکے تھے. تھوڑی دیر پہلے والا خوشگوار ماحول اب اُداسی میں بدل چکا تھا.


"پتا نہیں اِس گھر میں خوشیاں کب لوٹیں گی. یا ﷲ اُس شخص کو کبھی سکون نصیب نہ ہو جس نے ہمارے ہنستے بستے گھر کو برباد کردیا ہے. "

ناہید بیگم نے روتے ہوئے دل سے بد دعا دی تھی.

"آپا صبر کریں. ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اِس گھر میں پہلے کی طرح خوشیاں لوٹیں گی. آپ اگر اِس طرح ہمت ہاریں گی تو زینب کو کون سنبھالے گا."

نفیسہ بیگم نے ناہید بیگم کا ہاتھ تھام کر اُنہیں حوصلہ دیا تھا. جب زینب بیگم کا خیال آتے ہی وہ جلدی سے اپنی کرسی سے اُٹھی تھیں.

"زینب."

ناہید بیگم نے زینب بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے اُنہیں پکارا جو ہاتھ میں ایک تصویر تھامے بُری طرح رو رہی تھیں.

" بھابھی میرے ایک غلط فیصلے نے میرے جان سے عزیز بھتیجے کو اُس کی خوشیوں سے دور کردیا. میں اتنی خود غرض کیسے ہوسکتی تھی.

میں بہت بُری ہوں بہت منحوس ہوں پہلے اپنے جان چھڑکنے والے بھائی کو کھا گئی اور اب ارتضٰی کی خوشیاں. آپ کو نفرت محسوس نہیں ہوتی مجھ سے. "

زینب کا بس نہیں چل رہا تھا خود کو ہی ختم کر دیں.


"زینب میری جان کیسی باتیں کر رہی ہو. اُس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا. یہ سب قسمت کا لکھا تھا جسے کوئی نہیں ٹال سکتا. ارتضٰی بلاوجہ کی ضد پکڑ کر بیٹھا ہے. پر ایک دن وہ بھی مان جائے گا. تمہیں اِس طرح خود کو ہلکان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. وہ فیصلہ اکیلا تمہارا نہیں تھا. ہم سب بھی شریک تھے اُس میں اور بھلا کون جانتا تھا کہ یہ سب ہوجائے گا. "

ناہید بیگم اُنہیں اپنے ساتھ لگاتے بولیں. زینب اُن کی صرف نند نہیں بلکے بہنوں سے بڑھ کر تھیں. اُنہیں تکلیف میں دیکھ اُن کا دل بہت دُکھتا تھا.

باہر والوں کو بے حد شاندار نظر آنے والا نور پیلس اندر سے بہت سارے غم اور دکھوں میں ڈوبا ہوا تھا.

نور پیلس میں سکندر اور بلال صاحب اپنی فیملیز اور ایک لاڈلی بہن زینب کے ساتھ رہتے تھے.

سکندر صاحب اور ناہید بیگم کے دو بیٹے تھے. بڑا ارباز اور ارباز سے پورے دس سال چھوٹا ارتضٰی. جسے شادی کے اتنے سال بعد ﷲ تعالیٰ نے بہت منتوں مرادوں کے بعد اُنہیں نوازا تھا. اِس لیے گھر بھر کا لاڈلا تھا وہ خاص کر زینب بیگم کا.

بلال سکندر صاحب سے پانچ سال چھوٹے تھے.جن کی شادی اپنی کزن نفیسہ سے ہوئی تھی. اُن کی بھی دو اولادیں تھیں. بڑی منیزہ اور اُس سے چھوٹا نعمان.

بلال کے بعد زینب تھیں جو ابھی تعلیم حاصل کر رہی تھیں. والدین کے انتقال کے بعد سب سے چھوٹی اور اکلوتی ہونے کی وجہ سے وہ بھائی اور بھابھیوں کی بہت لاڈلی تھیں. زینب کو اُوپر والے نے بے پناہ حُسن سے نوازا تھا. سکول کالج ہر جگہ اُسے بہت سراہا جاتا تھا. مگر وہ نہیں جانتی تھیں یہ حُسن اُن کی زندگی کی بربادی کا باعث بن جائے گا.

اُن کی زندگی میں ایک ایسا طوفان آیا تھا جو اُن کا سب کچھ بہا کر لے گیا تھا. اپنی لاڈلی بہن کا اتنا بڑا دکھ برداشت نہ کرتے سکندر صاحب ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے. ہنستا بستا نور پیلس اجڑ کر رہ گیا تھا.

وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا تھا. سب بچے بڑے ہوچکے تھے. کافی کچھ نارمل ہوچکا تھا. مگر کچھ زخم ایسے تھے جو ابھی بھی تازہ تھے. جن کا بھرنا بہت مشکل تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماضی


لائٹ جانے کی وجہ سے ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا. باہر اب تیز ہوا کے ساتھ بارش کا شور بھی شامل ہوچکا تھا. مگر کمرے میں بلکل خاموشی چھائی ہوئی تھی.

ماہ روش کو تکیے پر سر رکھے کافی دیر گزر چکی تھی.مگر نیند آنےکا نام ہی نہیں لے رہی تھی. تبھی اُسے اپنے چہرے پر نمی کا احساس ہوا تھا.

ابھی وہ اِس پر غور وفکر کر ہی رہی تھی کہ لگاتار تین چار قطرے چھت سے دوبارہ ٹپکے تھے.

"اوہ نو یہ تو بارش کی وجہ سے چھت ٹپک رہا ہے. "

وہ فوراً بڑبڑاتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی.

"اینی پرابلم. "

کمرے میں ارتضٰی کی آواز گونجی تھی.

"سر اِس جگہ سے پانی ٹپک رہا ہے. "

ماہ روش کی بات پر ارتضٰی ٹارچ آن کرتا اپنی جگہ سے اُٹھا تھا.

چارپائی کے ساتھ بھی پانی گرنے کی وجہ سے فرش گیلا ہوچکا تھا.

"آپ وہاں میری چارپائی پر سو جائیں."

ارتضٰی نے اُس کی طرف بڑھتے اپنی چارپائی کی طرف اشارہ کیا تھا.

"مگر سر آپ کہاں سوئیں گے. "

ماہ روش کو اِس طرح اُسے بے آرام کرکے بلکل اچھا نہیں لگا تھا.

"ڈانٹ وری میں یہاں مینج کر لوں گا. آپ ریلیکس ہوکر سو جائیں. "

ارتضٰی اپنے محسوس سرد انداز میں بولا.

"اُف اِس شخص کا خیال رکھنے کا انداز بھی کتنا عجیب ہے. اگلا بندہ ٹھیک طرح سے اُسے محسوس بھی نہیں کرسکتے. "

ماہ روش اپنے ہی دھیان میں آگے بڑھی تھی جب گیلے فرش پر پیر رکھتے ہی اُس کا پیر آگے کی طرف پھسل گیا تھا. اِس سے پہلےکے وہ نیچے گرتی اُس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر ارتضٰی کا بازو تھامہ تھا.

ارتضٰی نے بھی جلدی سے آگے ہوتے اُسے کمر سے تھام کر اپنے حصار میں لیتے گرنے سے بچایا تھا. یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ دونوں کچھ سمجھ ہی نہیں پائے تھے. ماہ روش نے ایک ہاتھ سے اُس کا بازو اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے سینے سے شرٹ کو جکڑ ہوا تھا. جبکہ ارتضٰی کا ہاتھ اُس کی کمر کے گرد لِپٹا ہوا تھا.

ٹارچ کی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی. اور وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے تھے.

ارتضٰی کی بانہوں میں ماہ روش کو ایک انوکھا سا احساس محسوس ہورہا تھا. جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی.

اُس نے آج تک خود کو ہمیشہ اکیلا ہی محسوس کیا تھا. کیونکہ اُس کے بابا اور بھائی کو تو اُس کی پرواہ ہی نہیں تھی. اُس کی ہمیشہ سے ایک مشرقی لڑکی کی طرح یہ خواہش رہی تھی کہ کاش باقی لڑکیوں کی طرح اُسے بھی اپنے بابا سے ایک تحفظ کا احساس ہو. اُس کی زندگی میں بھی کوئی ایسا ہو جسے اُس کی عزت اور حفاظت کی فکر ہو. مگر اُس کے بابا اور بھائی نے کبھی اُس کی پرواہ کی ہی نہیں تھی. وہ خود ہی ہمیشہ ہر جگہ اپنے لیے لڑی تھی.

لیکن آج پہلی بار اُسے ارتضٰی کے مضبوط حصار میں ایک تحفظ کا احساس محسوس ہو رہا تھا. بے شک یہ تھوڑی دیر کے لیے ہی تھا. مگر اُس کو ایک انجانی خوشی دے گیا تھا.

اچانک اندھیرا, تنہائی اور ایک دوسرے کی قربت کا احساس کرتے دونوں یکدم ہوش میں آتے دور ہوئے تھے.

ارتضٰی کو اپنی بے اختیاری پر جی بھر کر غصہ آیا تھا. وہ جلدی سے رُخ موڑ چکا تھا.

ماہ روش بھی اپنی لاپرواہی پر خود کو ملامت کرتی ارتضٰی والی چارپائی کی طرف بڑھی تھی.


وہ نامحرم ہے میرے لئے. تو پھر ایک نامحرم کے قریب میں کیسے سکون محسوس کرسکتی ہو. یہ کیا ہورہا ہے مجھے دل کیوں اُس شخص کی طرف ہمک رہا ہے. جس سے ملے صرف چند دن ہوئے ہیں. ﷲ جی پلیز یہ مشن جلدی سے ختم ہوجائے ورنہ میں پاگل ہوجاؤں گی.

ماہ روش نے خود سے ہی الجھتے تکیہ سر پر رکھ کر سونے کی کوشش کی تھی. لیکن تکیے اور بستر سے اُٹھتی ارتضٰی کی مسحورکن خوشبو اُسے یہاں بھی سکون نہیں لینے دے رہی تھی.

تکیے سے سر ہٹا کر ماہ روش نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو شاید چارپائی کی جگہ چینج کرکے دوبارہ سو چکا تھا.

میری نیند خراب کرکے خود مزے سے سو رہے ہیں. اتنا کھڑوس بھی نہیں ہونا چاہیئے کسی کو.

ماہ روش نے دل ہی دل میں کڑہتے کروٹ لے کر سونے کی ناکام کوشش کی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر ہم لوگ اُن کے خلاف بہت سارے ثبوت اور گواہ اکٹھے کر چکے ہیں. آپ فورسز اور میڈیا کو تیار رکھیں. کچھ دنوں تک آپ کو میری طرف سے سگنل مل جائے گا."

ارتضٰی اُنہیں ہر بات سے آگاہ کررہا تھا. جب اپنی اتنی سیریس باتوں کے جواب میں اُن کی بات سنتا سر ہلا کر رہ گیا تھا.

"میجر آپ اپنی سنائیں. آپ ابھی تک اپنے مکمل ہوش و حواس میں ہی ہیں نا. "

"یس سر ﷲ کا بہت کرم ہے مجھ پر. میں اتنی جلدی بھٹکنے والوں میں سے نہیں ہوں. "

ارتضٰی نے ماہ روش کے حوالے سے اُن کی معنی خیز بات کا اُسی انداز جواب لوٹایا تھا.

مگر اگلے ہی پل کمرے میں داخل ہوتے اپنی ابھی کی کہی بات پر قائم رہنا اُس کے لیے کافی مشکل ہوگیا تھا.


ماہ روش اِس گاؤں کے روایتی لباس اورنج کلر کے لہنگے میں لمبے بالوں کی چوٹیا کرکے اُن میں پراندہ ڈالے ناصرہ کے پاس کھڑی تھی.

اُس کے نازک سراپے پر وہ لباس بہت زیادہ جچ رہا تھا. اور اُس کی رعنائیوں کو مزید اُجاگر کر رہا تھا. کیونکہ وہ بغیر ڈوپٹے کے کھڑی تھی.

ارتضٰی فوراً وہاں سے واپس پلٹا تھا. ہمیشہ وہ کمرے میں ناک کرکے ہی داخل ہوتا تھا مگر آج کال پر بات کرتے بے دھیانی میں ایسے ہی اندر داخل ہوگیا تھا. جس پر جی بھر کر پچھتاتے اُلٹے قدموں واپس لوٹا تھا.

اُس نے ہمیشہ ماہ روش کو حجاب میں ہی دیکھا تھا. جس میں اُس نے ویسے ہی ارتضٰی کو اچھا خاصہ ڈسٹرب کیا ہوا تھا مگر آج اِس روپ میں وہ مکمل طور پر اُس کے ہوش اُڑا چکی تھی.

موبائل کی آواز پر وہ فوراً ہوش کے دنیا میں لوٹا تھا جو ابھی تک کان سے ہی لگا ہوا تھا. جنرل یوسف کی کال بند ہوچکی تھی.

"سر کس مصیبت میں پھنسا دیا ہے آپ نے مجھے. "

ارتضٰی اُکتائے ہوئے لہجے میں بولا.

جب آہٹ پر اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا تھا.

"سر میں اُس شادی میں شرکت کرنے جارہی ہوں. آئی ہوپ کچھ اہم ثبوت ہاتھ آسکیں."

ماہ روش نے اب دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا. زیور کے نام پر اُس نے صرف ایک نتھ پہن رکھی تھی جو اُس کو بہت زیادہ سوٹ کررہی تھی.

"جائیں آپ مگر مکمل پوشیاری کے ساتھ. "

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش اُس کے سرد انداز پر اُس کے سر کو گھورتی باہر نکل گئی تھی کیونکہ اُس نے ایک نظر دیکھ کر نگاہیں ایسے ہٹائی تھیں جیسے کوئی بہت ہی ناپسندیدہ چیز دیکھ لی ہو.

"کھڑوس کہیں کا. "

اُس کی کیفیت سے انجان ماہ روش نے دل میں اُسے اپنے پسندیدہ نام سے پکارا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارتضٰی آج کل اپنی دلی کیفیت پر کچھ زیادہ ہی اُکتایا ہوا تھا. پتا نہیں کیوں اُسے ماہ روش میں ایک انجانی سی کشش محسوس ہوتی تھی.

جیسے جیسے دن گزر رہے تھے یہ چھوٹی سی لڑکی اُس کے دل کے قریب ہوتی جا رہی تھی. اُس سے خود سے کیے گئے عہد سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہی تھی. جس کی وجہ سے ارتضٰی آج کل بہت جھنجھلایا ہوا تھا.

"نہیں میری لائف میں محبت جیسی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے. یہ اتنے دن اکٹھے رہنے کی وجہ سے ایک اُنسیت سی محسوس ہورہی ہے مجھے اُس سے. ورنہ ایسا کچھ نہیں ہے. "

ارتضٰی نے کتنی بار کی طرح ایک بار پھر خود کو نارمل کرتے دل کو سمجھانا چاہا تھا. مگر پہلے کی طرح دل کی دغابازی پر شدید غصے میں آتے سامنے پڑا کپ اُٹھا کر بازو گھماتے ہوا میں اُچھالا تھا. اور تو کوئی چیز اُسے وہاں نظر نہیں آئی تھی اِس لیے بچارہ کپ اُس کے غصے کا شکار ہوا تھا.

"آہہہ."

اپنے پیچھے ماہ روش کی آواز سنتے ارتضٰی فوراً سے پلٹا تھا. وہ کپ سیدھا کمرے میں داخل ہوتی ماہ روش کی پیشانی پر جا لگا تھا. اور جتنی شدت سے ارتضٰی نے پھینکا تھا. ماہ روش کی پیشانی بُری طرح زخمی ہوچکی تھی. اُس کے ماتھے سے تیزی سے خون بہتا دیکھ ارتضٰی تڑپ کر اُس کی طرف بڑھا تھا.

"اوہ شٹ ماہ روش یہاں بیٹھیں آپ. "

ارتضٰی نے خود کو ملامت کرتے ماہ روش کا بازو پکڑ کر اُسے ساتھ پڑی چارپائی پر بیٹھایا تھا.

"آپ اِسے یہاں دبا کر رکھیں تاکہ خون زیادہ نہ بہے. "

ارتضٰی اُسے اپنی پاکٹ سے رومال نکال کر دیتا اپنے بیگ کی طرف بڑھا تھا.

"آئم ریلی سوری. میری وجہ سے آپ کو اتنی گہری چوٹ لگ گئی. "

ارتضٰی اُس کا خون نکلتا دیکھ فکرمند ہوتا اِس بات سے انجان تھا کہ آگے وہ ماہ روش کو اب نجانے کتنی بار ایسے ہی زخم دے کر لہولہان کرنے والا تھا.

ماہ روش اپنا درد بھولے حیرت سے ارتضٰی کا یہ نیا رُوپ دیکھ رہی تھی. اُسے آج پہلی بار ارتضٰی کی آنکھوں میں اپنے لیے چاہت اور فکر نظر آئی تھی. اِس کا مطلب اِس نئے سفر میں وہ اکیلی نہیں تھی.

ارتضٰی کرسی گھسیٹ کر اُس کے بلکل سامنے بیٹھا تھا. اور اُس پر تھوڑا آگے کو جھک کر ڈریسنگ کرنے میں مصروف تھا. اُس کے وجود سے اُٹھتی خوشبو ایک بار پر ماہ روش کو اپنے حصار میں جکڑ رہی تھی. ارتضٰی کی گرم سانسیں اُسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں. جس کی وجہ سے گھبراتے ماہ روش نے آنکھیں بند کر لی تھیں. اُس کی اُنگلیوں کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کرتے ماہ روش کا دل زور سے دھڑکا تھا. اِس شخص کی اتنی سی قربت بھی اُس کے لیے جان لیوا ثابت ہورہی تھی.

اُسے آنکھیں میچیں دیکھ ارتضٰی کو لگا تھا جیسے اُسے بہت درد ہورہا ہے. وہ بہت ہی احتیاط اور نرمی سے اُس کا زخم صاف کرتے مرہم لگانے میں بزی تھا. جب اُس کی نظر ماہ روش کے معصوم سے چہرے پر پڑی تھی. اور جیسے اُسی پل اُس کے دل سے اقرار ہوا تھا. یہ لڑکی اُس کے دل میں گھر کر چکی تھی.

ارتضٰی کا دل بے اختیار اُس کی لرزتی پلکوں کو چھونے کو چاہا تھا. مگر ابھی وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا. اپنے جذبات پر قابو پاتے ارتضٰی فوراً اُس کے قریب سے اُٹھا اور باہر نکل گیا تھا.

اُس کے جاتے ہی ماہ روش نے آنکھیں کھولی تھیں. اور مسکراتے اپنے زخم پر ہاتھ رکھا تھا. جو تھوڑے سے درد کے ساتھ اُسے بہت بڑی خوشی بھی دے گیا تھا.

اُسے کچھ دنوں سے ارتضٰی کا انداز کافی بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا. مگر آج تو اُس کی آنکھوں میں واضح تڑپ اور فکر دیکھی تھی. وہ اُس کے لیے اہمیت رکھتی تھی اِس سوچ پر ہی ماہ روش خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کر رہی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آج جاگیرداروں کی حویلی میں ایک جشن کا سماں تھا. بہت ساری بڑی بڑی شخصیات وہاں جما تھیں. جس کی وجہ سے وہاں کی سیکیورٹی پہلے سے بھی زیادہ سخت کی گئی تھی.

اُن کے مطابق کوئی بھی اتنی جرأت نہیں رکھتا تھا کہ بغیر اجازت گاؤں یا حویلی میں قدم رکھ سکتا مگر پھر بھی احتیاطی تدابیر کرنا بھی ضروری تھا.

امرا کوٹ گھنے جنگلوں کے درمیان گھرا ہوا تھا. جنگل میں خطرناک قسم کے جانور پائے جاتے تھے اِس لیے کوئی گاؤں میں داخل ہونے کے لیے اُس راستے کا استعمال کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

مگر پاک فوج کے جوان جو اپنی جان ہتھیلی پر لئے ملک کی خدمت میں ہر وقت سرگرم رہتے تھے. یہ جنگل اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا.

میجر ارتضٰی کے دیئے گئےسگنل کے مطابق جنرل یوسف نے فوج کو وہاں داخل ہونے کا آرڈر دے دیا تھا. آج رات کو ہی حویلی میں ریڈ کرکے اُن سب کو رنگے ہاتھوں پکڑنا تھا.

حویلی کے پچھلے گیٹ پر دو گارڈز پہرا دے رہے تھے جب پیچھے سے آتے ارتضٰی نے ایک کو دبوچ کر اُس کی شہ رگ کاٹتے اُسے ایک طرف پھینکا تھا. دوسرا گارڈ اُس کی طرف بڑھا ہی تھا. جب درخت کی آڑ میں کھڑی ماہ روش نے سلنسر لگے پسٹل سے اُس کی کنپٹی کا نشانہ لیتے اُسے وہیں ڈھیر کیا تھا.

بہت ہی پُھرتی کے ساتھ دیوار کے ساتھ چلتے وہ دونوں بیسمنٹ کی طرف نیچے جاتی سیڑیوں کی جانب بڑھے تھے. جہاں سامنے ہی گیلری میں دو آدمی بندوق اُٹھائے چکر لگا رہے تھے.

ارتضٰی نے اُن کے سڑھیوں کے قریب آتے ہی گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا. جب اُن کو گرتا دیکھ ہال سے ایک آدمی باہر کی طرف آیا تھا. ارتضٰی اور ماہ روش بھی سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے آچکے تھے.

اُس شخص نے پسٹل نکالتے ماہ روش کا نشانہ لینا چاہا تھا مگر ارتضٰی نے اُسے کسی قسم کی مہلت دیئے بغیر خنجر نکال کر اُس کے بازو پر وار کیا تھا. جس کی وجہ سے اُس کی بندوق نیچے جا گری تھی.

ارتضٰی کو اُسے قابو کرتا دیکھ ماہ روش اندر کی طرف بڑھی تھی. جب سامنے کا منظر دیکھ اُس کا دل جیسے کسی نے مُٹھی میں لیا تھا. مختلف عمر کے پچاس سے زائد بچے بچیوں کو بہت بُرے حال میں وہاں زنجیروں سے باندھا گیا تھا. کتنے ہی آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے. نجانے کتنی ماؤں کی گود اُجاڑ کر یہ ظالم اِن بچوں کو یہاں لائے تھے جنہیں زرا بھی خدا کا خوف نہیں تھا. وہ جلدی سے آگے بڑھتی سب کو اُن بیریوں سے آزاد کرنے لگی تھی. ارتضٰی کو بھی اندر داخل ہوتا دیکھ بچے کافی خوفزدہ ہوچکے تھے.

"بچوں آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے. اب آپ لوگ بلکل سیف ہیں. "

ماہ روش کو ایک پانچ سال کے بچے کی آنکھوں میں کسی سمجھدار انسان جیسا خوف نظر آیا تھا. اُس کی ننھی کلائیوں پر باندھے ہونے کی وجہ سے بلکل خون جم چکا تھا.

انسان اتنے ظالم کیسے ہوسکتے ہیں جو صرف چند پیسے اور نفسانی خواہشات کے آگے انسانیت کو شرمسار کر دیتے ہیں.

اُن دونوں نے پچھلے راستے سے ہی بحفاظت اُن تمام بچوں کو باہر نکالا تھا. کچھ ہی دیر میں آرمی وہاں پہنچ چکی تھی. ارتضٰی واپس حویلی میں داخل ہوچکا تھا. جبکہ ماہ روش بچوں کو گاڑی میں بیٹھاتے وہاں سے نکل آئی تھی. کیونکہ بچوں کی حفاظت بہت ضروری تھی جب تک وہ سب لوگ اُن کے قبضے میں نہ آجائے. حویلی میں دونوں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی. مگر ماہ روش کو پورا یقین تھا فتح اُنہیں کی ہونے والی تھی.

اُن کی گاڑی گاؤں کی حدود میں سے نکلنے ہی والی تھی. جب اُسے کچھ فاصلے پر روڈ کے بلکل درمیان میں پانچ لوگ بندوقیں اُٹھائے کھڑے نظر آئے. یقیناً اُنہیں اطلاع مل چکی تھی. وہ ڈرائیور کے ساتھ آگےفرنٹ سیٹ پر تھی. جبکہ بچے پیچھے گاڑی لاک ہونے کی وجہ سے بلکل سیف تھے.

"یہ لوگ جتنی بھی فائرنگ کریں آپ کو گاڑی روکنی نہیں ہے. بلکہ زگ زیگ میں اور رش ڈرائیونگ کریں تا کہ یہ ٹائرز کو نقصان نہ پہنچا سکیں. "

ماہ روش کے آرڈر کو فالو کرتے ڈرائیور نے بلکل ویسے ہی کیا تھا. وہ لوگ بھی گاڑی پر فائرنگ شروع کر چکے تھے. ماہ روش ایک سائیڈ سے باہر نکل کر اُن کی فائرنگ کا جواب دے رہی تھی. اُن میں سے دو افراد کو وہ جہنم واصل کرچکی تھی.

گاڑی کی سپیڈ کی وجہ سے اُن لوگوں کے نشانے مسلسل چوک رہے تھے. گاڑی کا فرنٹ مرر بُری طرح ڈیمج ہوچکا تھا. لیکن پوری بہادری کے ساتھ اُن سے مقابلہ کرتے وہ گاڑی کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوچکی تھی. اور ساتھ ہی ارتضٰی کو میسج بھی سینڈ کر دیا تھا. جسے پڑھ کر ارتضٰی مطمئین ہوتے فائرنگ مزید تیز کر چکا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ہمیشہ کی طرح ارتضٰی اور ماہ روش اپنے اِس مشن میں بھی سُرخرو ٹھہرے تھے. ملک کے غدار سب کے سامنے بے نقاب ہوچکے تھے. اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے ایسے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہونے پر پوری قوم اُن پر تھوک رہی تھی.

گاؤں سے آنے کے بعد ماہ روش اور ارتضٰی کی ابھی تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی. آج ہی ارتضٰی کیس سے مکمل طور پر فری ہوا تھا.

اتنے دن ہوگئے تھے ارتضٰی نے اُسے نہیں دیکھا تھا. دل نے اُسے دیکھنے اور بات کرنے کی خواہش کی تھی. وہ جنرل یوسف سے مل کر ماہ روش کے بارے میں سوچتے اُن کے آفس سے نکلا ہی تھا. جب سامنے سے آتی ماہ روش سے زور دار تصادم ہوا تھا.

ارتضٰی کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا لیکن ماہ روش ضرور زمین بوس ہو جاتی جب ارتضٰی نے اُسے تھام کر گرنے سے بچایا تھا.

"آپ ہر وقت گرتی ہی رہتی ہیں کیا. "

ارتضٰی اُس کو سنبھالتے مسکرا کر چھیڑتے ہوئے بولا تھا. ابھی ہی تو دل نے اُسے دیکھنے کی خواہش کی تھی اور وہ سامنے تھی.

جبکہ ماہ روش اُسے پہلی دفعہ مسکراتے دیکھ وہیں ساکت ہوئی تھی. مسکرانے سے ارتضٰی کے رُخسار پر ہلکے سے گرہے واضع ہوئے تھے. جن میں ماہ روش کواپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا.

"کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں نا. "

ارتضٰی نے اُس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تھا. جس پر ہوش میں آتے ماہ روش اپنی بے اختیاری پر جی بھر کر شرمندہ ہوئی تھی.

"جی سر. "

ارتضٰی کی شوخ نظروں سے گھبراتے وہ اتنا ہی بول پائی تھی.

"آپ کا زخم کیسا ہے اب. "

ارتضٰی کی نظریں اُس کی لرزتی پلکوں سے ہوتے پیشانی کی طرف گئی تھیں. جہاں اُسی کا دیا ہوا زخم کافی حد تک ٹھیک تو ہوچکا تھا. لیکن گہرا ہونے کی وجہ سے اپنا نشان چھوڑ گیا تھا.

ارتضٰی اُس نشان کو دیکھتے ہی جیسے بے خود سا ہوا تھا اور کسی بھی بات کی پرواہ کئے بغیر ہاتھ بڑھا کر اُس کو چھوا تھا.

اُس کی حرکت پر ماہ روش بُری طرح پزل ہوئی تھی.

جب اچانک ماہ روش کے موبائل پر آتی کال اُسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی تھی.

غیر ارادی طور پر اُس کی نظر موبائل سکرین پر پڑی تھی جب سامنے جگمگاتی تصویر کو دیکھ وہ وہیں ساکت ہوا تھا.

"یہ کون ہیں. "

ماہ روش کو فون اٹینڈ کرتے دیکھ ارتضٰی نے بےتاثر لہجے میں پوچھا تھا.

"یہ میری دادو ہیں. "

ماہ روش بغیر اُس کے لہجے پر غور کیے ایکسکیوز کرتی موبائل کان سے لگاتے دوسری طرف بڑھی تھی.

"ابھی اور اِسی وقت کیپٹن ماہ روش کا کمپلیٹ بائیو ڈیٹا سینڈ کرو مجھے. "

ارتضٰی نے آفس میں آتے مین یونٹ میں موجود آفیسر کو کال کرتے کہا. جب کچھ ہی منٹوں بعد جو معلومات اُسے دی گئی تھی. ارتضٰی کو لگا تھا وہ پوری دنیا کو آگ لگا دے. وہ اتنا بڑا دھوکہ کیسے کھا سکتا تھا.

"میں اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہوں. جس سے مجھے سب سے زیادہ نفرت کرنی چاہیے اُس سے محبت کیسے کرسکتا ہوں. نہیں وہ لڑکی میری محبت کے قابل کیسے ہوسکتی ہے وہ تو میری نفرت کے قابل بھی نہیں ہے. اُسے میں اتنا معتبر کیسے کر سکتا ہوں. "

شدید غصے اور طیش میں آتے ارتضٰی نے ہاتھ کو مکے کی شکل میں سامنے پڑے کانچ کے ٹیبل پر دے مارا تھا. جو ایک چھناکے کی آواز سے ٹوٹتا ارتضٰی کا ہاتھ بُری طرح لہولہان کر گیا تھا.

"سر یہ کیا کیا آپ نے کتنا خون بہہ رہا ہے آپ کا. "

ماہ روش اندر داخل ہوتے ارتضٰی کا ہاتھ دیکھ بھاگتے ہوئے اُس کی طرف بڑھی تھی. ارتضٰی کا درد محسوس کرتے اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے.

ماہ روش نے ارتضٰی کا ہاتھ پکڑتے اپنا دوپٹہ رکھ کر خون روکنا چاہا تھا.

"ڈونٹ ٹچ می. "

ارتضٰی اپنا ہاتھ چھوڑواتے دہاڑا تھا. جس پر ماہ روش نے گھبرا کر آنسو بھری آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھا.

"سر کیا ہوا ہے میں..."

ماہ روش نے پوچھنا ہی چاہا تھا جب ارتضٰی نے اُس کی بات سنے بغیر اپنے دوسرے ہاتھ سے پیچھے سے اُس کی گردن کو دبوچتے اپنے بے انتہا قریب کیا تھا.

"نفرت کرتا ہوں میں تم سے. اگر مجھ پر ہو تو ابھی اور اسی وقت اپنے ہاتھوں سے تمہیں ختم کر دوں. نفرت ہے مجھے تمہاری اِس دھوکے باز صورت سے. "

ارتضٰی کی آنکھوں سے پھوٹتے شراروں میں ماہ روش کو اپنا آپ جلتا محسوس ہوا تھا. ارتضٰی کی گرم سانسوں کی تپش اُس کا چہرا جھلسا رہی تھیں.

"دفعہ ہوجاؤ میری نظروں سے دور. اور اگر اپنی بہتری چاہتی ہو تو دوبارہ کبھی میرے سامنے آنے کی کوشش مت کرنا."

ارتضٰی نے اُسے زور سے پیچھے کی طرف جھٹکا تھا. جس پر اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ماہ روش لڑکھڑا گئی تھی.

وہ ارتضٰی کے اِس بدلتے رویے کو سمجھنے سے قاصر تھی. ابھی تھوڑی دیر پہلے تو اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے چاہت دیکھی تھی. تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا تھا جو وہ ایسا سلوک کر رہا تھا اُسے. مگر پوچھتی بھی تو کیسے وہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھا.

ماہ روش ایک دکھ بھری نظر اُس کے ہاتھ پر ڈالتی باہر نکل گئی تھی. جس سے تیزی سے بہتا خون فرش کو بھی رنگین کر گیا تھا.

اُس دن کے بعد سے ماہ روش نے کبھی ارتضٰی کے سامنے جانے کی کوشش نہیں کی تھی. وہ ارتضٰی کی آنکھوں میں موجود اپنے لیے اتنی نفرت دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی. مگر آج بھی اُس کے لیے تڑپ رہی تھی. دل میں اُس دشمنِ جاں کے لیے محبت کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھ رہی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"واؤ یار اِس ٹائم ہاسٹل سے نکلنے کا اپنا ہی مزہ ہے. اصل رنگینیاں تو اِس وقت دیکھنے کو ملتی ہیں "

کرن ریسٹورنٹ میں بیٹھے کپلز کی طرف دیکھتے بولی.

"ہاں نا یار کتنے لکی لوگ ہیں یہ. ہائے پتا نہیں اتنا اچھا ٹائم کب آئے گا ہمارا. ابھی تو یہ بکس ہی جان کا عذاب بنی ہوئی ہیں. "

فضہ نے بھی حسرت سے کہا.

"بول تو تم ایسے رہی ہو جیسے ہر ٹائم بکس کھول کر ہی بیٹھی رہتی ہو. پتا بھی ہے کہ سبجیکٹ کون سے ہیں اِس بار. "

ریحاب نے ہنستے اُس کا مذاق اڑایا تھا. جب اچانک اُس کی نظر کارنر والے ٹیبل پر پڑی تھی.

"اوہ تو یہ شریف انسان بھی آیا ہوا ہے. آج تو میں اِسے نہیں چھوڑوں گی. "

ریحاب کی بات پر اُن دونوں نے بھی اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا. جہاں ارحم بیٹھا فون پر بات کرتا ہنستا نظر آیا تھا.

"تم کیا کرنے والی ہو. "

فضہ نے اُسے ویٹر کی طرف اشارہ کرتا دیکھ مشکوک انداز میں گھورا.

"ابھی پتا چل جائے گا. "

تھوڑی ہی دیر بعد ویٹر ہاتھ میں ٹرے تھامے اُن کی طرف آتا دیکھائی دیا.

ریحاب نے ویٹر کو کافی رکھ کر جانے کا اشارہ کرتے بیگ سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی تھی.

"ریحاب پاگل ہوگئی ہو کیا. یہ تو صرف وارڈن کے لیے رکھی ہوئی نا ہم نے. ایسا مت کرو پکڑے گئے تو بہت بے عزتی ہونی ہے. "

وہ دونوں اُس کی آنکھوں میں موجود شرارت دیکھ اُس کا ارادہ بھانپتے باز رکھنے کی کوشش کی تھی. مگر وہ ریحاب ہی کیا جو کسی کی سن لے.

وہ لوگ اکثر یہاں آتی تھیں اِس لیے ریحاب ایک دو ویٹرز سے واقف تھی. دور کھڑے ویٹر کو اشارے کرتے پاس بلایا تھا اور سب سے نظر بچا کر اُس کے ہاتھ میں پانچ سو کا نوٹ پکڑاتے. ارحم کی طرف لے جانے کا کہا تھا.

"اب پتا چلے گا اِس کو کہ ریحاب سے پنگا لینے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے. "

ارحم کو ویٹر سے کافی کا مگ پکڑتے دیکھ ریحاب کی آنکھیں خوشی سے چمکی تھیں.

کافی دیر بعد جب ریحاب کو لگا کہ وہ کافی پی چکا ہوگا. وہ اُن دونوں کو باہر نکلنے کا کہتی جلدی سے ارحم کی طرف بڑھی تھی.

"ہائے مسٹر شریف کیسے ہیں آپ. "

ارحم کے ٹیبل پر پڑا خالی مگ دیکھ کر ریحاب چہکتے ہوئے بولی. جب ارحم اُس بے وقوف حسینہ کو دوبارہ اپنے سامنے دیکھ دھیرے سے مسکرایا تھا.

"ﷲ کا بہت کرم ہے. آپ سنائیں کیسا چل رہا آپ کا بزنس. "

ارحم کے طنز پر ریحاب نے گھور کر اُسے دیکھا.

"میری فکر کرنے کے بجائے آپ اپنے بارے میں سوچ لیں. کیونکہ میری سپیشل کافی پی کر اپنے حواس قائم رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے."

اُسے اپنی جلا دینی مسکراہٹ سے نوازتے ریحاب وہاں سے پلٹی تھی. اور ارحم کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ نہ دیکھ پائی تھی.

ابھی وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلی ہی تھی. جب ارحم اُسے بازو سے کھینچتے تاریک گوشے کی طرف لے گیا تھا.

"چھوڑو مجھے."

ریحاب اچانک نازل ہونے والی افتاد پر گھبراتے بولی.

جب ارحم کو سامنے دیکھ اُس کی آنکھیں مزید پھیلی تھیں.

"کیا مکس کیا ہے میری کافی میں. تم چوری کے ساتھ ساتھ نشہ بھی کرتی ہو کیا. کوئی ایسی ہی چیز ملائی ہے نا تم نے میری کافی میں. "

ارحم نے اُسے مسلسل مزاحمت کرتے دیکھ اُس کے دونوں بازو اُس کی کمر کے پیچھے موڑے تھے.

"چھوڑو مجھے. میں کوئی نشہ نہیں کرتی اور اُس دن بھی تمہیں بتایا تھا. وہ صرف ایک مذاق تھا. "

ریحاب اردگرد دیکھتے گھبراتے ہوئے بولی. کیونکہ اُس طرف کسی انسان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا.

"ہاہا ہمت صرف اتنی سی ہے تو اتنے بڑے بڑے کام کیوں کرتی ہو. آج تو میری کافی میں نشہ آور چیز ملانے کی سزا کے طور پر تمہیں میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گا. "

ارحم اپنا چہرہ اُس کے قریب کرتے اُس کی ہرنی جیسی خوفزدہ آنکھوں میں دیکھ کر بولا. جب اُس کی بات پر ریحاب مزید خوفزدہ ہوئی تھی. کیونکہ آج اُسے ارحم کے تیور کافی خطرناک لگ رہے تھے.

"دیکھو میں نے کوئی نشہ آور چیز مکس نہیں کی تمہاری کافی میں. بلکہ صرف بد ہضمی والی دوا مکس کی ہے. اور اُس کا بھی تم پر کوئی اثر نہیں ہورہا. اِس لیے پلیز مجھے جانے دو."

ریحاب جتنا ہاتھ چھوڑانے کی کوشش کرتی اُتنا اُس کے نزدیک ہورہی تھی. اِس لیے اب وہ سٹل کھڑے دل ہی دل میں اُسے گالیوں سے نوازتی منت بھرے لہجے میں بولی.

جب اُس کی بات سن ارحم کا زور دار قہقہہ گونجا تھا. اُسے ایسی ہی کسی بات کی امید تھی. اِس بے وقوف لڑکی سے.

ویٹر کو بغیر آرڈر کے کافی لاتے دیکھ ارحم کو گڑبڑ لگی تھی. جب اُس کے ایک دو بار غصے سے پوچھنے پر ویٹر نے اپنی نوکری جانے کے خوف سے سب اُگل دیا تھا.

"ایسے کیسے جانے دوں. سزا تو ملے گی ہی اِس حرکت پر."

ارحم کی بات ریحاب نے گھبراتے ہوئے اُسے دیکھا. مگر جلدی سے نظریں جھکا گئی تھی کیونکہ وہ اُس کے بہت قریب کھڑا تھا.

ریحاب کو ہاسٹل کی بھی بہت ٹینشن ہورہی تھی. رات کے ٹائم باہر نکلنے کی پرمشن نہیں تھی اور وہ لوگ وارڈن کو چکما دے کر نکلی ہوئی تھیں.اگر کسی کو اُن کی غیر موجودگی کا پتا چل گیا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوسکتا تھا.

"دیکھو پلیز تمہیں جو سزا بھی دینی ہے. کل صبح دے دینا پر پلیز ابھی مجھے جانے دو. میں وعدہ کرتی ہوں. تم جب جہاں ملنے کو کہو گے میں وہاں آجاؤں گی. پلیز ابھی جانے دو. "

ریحاب گھبراہٹ میں اُس سے جان چھڑوانے کے لیے جو دماغ میں آیا اُسے بولتی گئی کیونکہ اِس وقت اُسے جلد از جلد یہاں سے نکلنا تھا.

"ایسے کیسے مان لوں میں تمہاری بات. پہلے مجھے پوری گارنٹی چاہئے کے تم ملنے آؤ گی مجھے جہاں اور جب بھی بلاؤں. "

ارحم فل مستی کے موڈ میں تھا.

"اوکے یہ لو. یہ میرا کارڈ ہے اِس میں. میرا فون نمبر ایڈریس وغیرہ سب کچھ موجود ہے."

ارحم سے آزاد ہوتے ریحاب نے جلدی سے بیگ سے کارڈ نکال کر اُس کی طرف بڑھایا تھا. اور بھاگتے وہاں سے نکل گئی تھی.

"پاگل لڑکی.اپنی اِن بے وقوفیوں کی وجہ سے کسی بڑی مشکل میں نہ پھنس جائے. "

ارحم اِس طرح کارڈ دے جانے اُسے دور ہوتے دیکھ ہولے سے بڑ بڑایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


زیمل ہاتھ میں چائے کا مگ لیے ٹیرس پر آکر کھڑی ہوئی تھی. رات کے وقت اُسے یہاں کھڑا ہونا بہت پسند تھا. روز یہاں آکر چائے انجوائے کرنا اُس کا معمول بن چکا تھا.

ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے اچانک اُس کی نظر نور پیلس کی طرف اُٹھی تھی. گیٹ کے مخالف سمت قدرے تاریک کونے والی دیوار پھلانگ کر اُسے کوئی شخص اندر داخل ہوتا محسوس ہوا تھا.

اِس وقت اِس طرح کسی کے گھر میں داخل ہونے کا اور کیا مقصد ہوسکتا تھا. گھر کا فرد تو ایسے اندر نہیں آئے گا.

اِس کا مطلب یہ کوئی چور اندر داخل ہوا ہے.

یہ سب سوچتے زیمل جلدی سے باہر کی طرف بھاگی تھی. اور اگلے پانچ منٹ میں نور پیلس کی دیوار پھلانگتے اُس شخص کی تلاش میں آگے بڑھی تھی.

جہاں سے زیمل نے اُس شخص کو اندر داخل ہوتے دیکھا تھا وہ اُسی سائیڈ پر اردگرد دیکھتے آگے بڑھی تھی. جب پیچھے سے کسی نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنے قبضے میں لیتے ایک جھٹکے سے اُس کی کمر کو دیوار سے جا لگایا تھا. اور دیوار پر اُس کے اردگرد ہاتھ رکھتے مکمل اپنے حصار میں لیا تھا.

زیمل نے دور سے آتی بلب کی ہلکی سی روشنی میں اُس کی طرف دیکھا تھا لیکن نقاب ہونے کی وجہ سے وہ اُس کا چہرا نہیں دیکھ پائی تھی.

"کون ہو تم اور یوں چوروں کی طرح یہاں کیا کررہی ہو."

اُس نے سرد آنکھیں زیمل کی گہری جھیل آنکھوں میں گاڑھی تھی.

"واٹ نان سینس. میں نہیں تم چوروں کی طرح داخل ہوئے ہو اِس گھر میں. "

زیمل اُس کی بات پر غصے سے پھنکاری اور جھٹکے سے اُس کی گرفت سے خود کو چھڑوایا تھا. اور ہاتھ بڑھا کر اُس کا نقاب اُتارنا چاہا تھا.

"یہ بھی ٹھیک ہے. خود کو بچانے کے لئے دوسروں پر الزام لگا دو. میں اگر چوروں کی طرح آیا ہوں تو تم جیسے بہت مہذب انداز میں داخل ہوئی ہو. تم بھی تو دیوار پھلانگ کر ہی آئی ہونا. "

وہ بھی زیمل کے انداز میں بولتا اُسے اُسکی کوشش میں ناکام کرتے ایک بار پھر قابو کر چکا تھا.

"یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے. چور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی بےبہودہ انسان ہو. بار بار مجھے کیوں ٹچ کر رہے ہو. "

زیمل کے الزام پر جاذل نے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھا.

"او ہیلو میڈم دماغ ٹھیک ہے تمہارا. تم مسلسل مجھ پر حملہ آور ہورہی ہو جسے صرف روکنے کی کوشش کر رہا ہوں میں. اِسے زبردستی چھونا نہیں اپنا دفاع کرنا کہتے

ہیں. ہو تو تم چیونٹی سی پتا نہیں اتنی طاقت کہاں سے آئی ہے تم میں. "

جاذل کا اچھا خاصہ دماغ گھوما تھا. اِس لیے اُس کے نازک سراپے پر نظریں گاڑھتے طنز کیا تھا.

"دیکھو زیادہ پرسنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے. اور اگر تم کسی کے گھر چوری کرنے کے لیے جاؤ گے تو تم کیا سمجھتے ہو. آگے سے پھولوں کے ہار پہنائے جائیں گے تمہیں. "

زیمل نے بھی اُس کو منہ توڑ جواب دیا تھا. جسکی نقاب سے جھانکتی آنکھیں اُسے پزل کررہی تھیں.

"پھولوں کے ہار تو نہیں مگر ہاں یہ بلکل اندازہ نہیں تھا کوئی حسینہ اِس طرح استقبال کرتے ملے گی. اور میں اب بتاتا ہوں زبردستی چھونا ہوتا کیا ہے. "

اُس کے اچانک بدلتے لہجے سے زیمل کو خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دی تھی.

کیونکہ جاذل اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے قریب کرچکا تھا.

"تم ایک انتہائی گھٹیا شخص ہو. مجھے لگا تھا کیا پتا کوئی غلط فہمی ہوئی ہو اِس لیے آرام سے تم سے بات کررہی تھی. مگر اب نہیں چھوڑوں...... "

جاذل کا چہرا زیمل کے بے حد قریب کرنے کی وجہ سے اُس کی بات ادھوری رہ گئی تھی. وہ اتنا قریب تھا کہ زیمل کو لگا تھا. اگر وہ بولتی تو ضرور اُس کے ہونٹ جاذل کے چہرے سے ٹچ ہوتے.

"کون ہے وہاں.. "

وہ دونوں ابھی اُسی پوزیشن میں ہی تھے جب وہاں لائٹ آن ہونے پر روشنی پھیلنے کے ساتھ کسی کی آواز اُبھری تھی. وہ دونوں جھٹکے سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے تھے.

سامنے کھڑے ارتضٰی کو دیکھ جاذل کے ساتھ ساتھ زیمل بھی شرم سے پانی پانی ہوئی تھی. اُوپر سے ارتضٰی کے ایکسپریشن سے زیمل کو ڈوب مرنے کا دل چاہا تھا. وہ جاذل کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتی جلدی سے وہاں سے نکل گئی تھی. کیونکہ جس طرح ارتضٰی جاذل کو دیکھ رہا تھا یہ ہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جانتے ہیں ایک دوسرے کو.

"کیا ہو رہا تھا یہاں. "

ارتضٰی مشکوک نظروں سے دیکھتے جاذل کی طرف بڑھا.

"جیسا تم سمجھ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہورہا تھا. "

جاذل مسکرا کر اُسے کچھ بھی کہنے سے باز رکھا.

"لیکن میں نے تو کچھ ایسا ویسا کہا ہی نہیں. "

ارتضٰی بھی چھیڑنے والے انداز میں بولا

"کون تھی یہ لڑکی. ؟"

جاذل نے ارتضٰی کے ساتھ اندر کی طرف بڑھتے پوچھا.

"ویسے جس پوزیشن میں ابھی تھوڑی دیر پہلے تم تھے یہ سوال مجھے تم سے پوچھنا چاہئے."

ارتضٰی اُسے بخشنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا. جواب میں جاذل نے مسکین صورت بنا کر اُسے دیکھا.

"ساتھ والے گھر میں رہتی ہے شاید. میں نے اُسے دیوار پھلانگ کر اِس طرف آتے دیکھا لیا تھا. اور تم سیدھی طریقے سے اندر داخل نہیں ہوسکتے کیا. "

ارتضٰی اُس کی شکل دیکھ بولا. جانتا تھا اتنی دور سے ڈرائیونگ کرکے آنے کی وجہ سے بہت تھکا ہوا تھا.

"یار سرپرائز دینا چاہتا تھا مگر اُس لڑکی نے سارا خراب کر دیا. "

جاذل خراب موڈ کے ساتھ بولا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"اگر تم آج نہ آتی تو میں نے چھوڑنا نہیں تھا تمہیں."

زیمل ماہ روش کے سامنے بیٹھتے بولی.

"اچھا اب بس کرو زیادہ باتیں مت بناؤ اور میری بیٹی کے لئے کچھ کھانے کو لاؤ."

سلمہ بیگم نے ماہ روش کو پیار کرتے کہا.

"بس اب آپ کی لاڈلی آگئی ہے. اب تو مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں ملنی. "

زیمل اُن دونوں کو مسکرا کر دیکھتی کچن کی طرف بڑھی.

"بہت پیارا گھر ہے یہ. ہمیشہ کی طرح زبردست چوائس رہی تمہاری. "

ماہ روش زیمل کے ساتھ پورا گھر دیکھتی اُس کے بیڈ روم میں داخل ہوئی.

"ماہی ابھی تم نے ساتھ والا گھر نہیں دیکھا یار اتنا خوبصورت ہے کیا بتاؤ. اور اُس سے بھی زیادہ اُس گھر میں رہنے والے لوگ بہت اچھے ہیں. سوائے ایک بندے کے پرسوں رات ہی ملاقات ہوئی اُس فضول بندے سے میری"

زیمل رات والا واقع یاد آتے ہی غصے سے بولی

"کیوں بھئی اُس ایک بندے نے ایسا کیا کر دیا. "

ماہ روش اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے بولی. جب زیمل نے رات کا سارا قصہ اُس کے گوشہ گزار کیا جسے سن کر ماہ روش اپنی ہنسی کنٹرول نہیں کر پائی تھی.

"ماہی تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو. "

زیمل نے تپ کر اُسے دیکھا. مگر ماہ روش کو یوں کھکھلا کر ہنستے دیکھ اُسے بہت پیار آیا تھا. جو کم ہی ایسے دل سے ہنستی تھی.

"ہاہاہاہا نہیں میری جان میں تمہارا مذاق کیوں بناؤ گی. مگر تمہیں کیا ضرورت تھی اِس طرح وہاں جانے کی. اور بجائے گارڈ کو بتانے کے اُس بندے سے اُلجھنے کی."

ماہ روش نے ہنستے اُسے سمجھایا تھا.

"مجھے کیا پتا تھا نیکی گلے پڑ جائے گی. میں تو ہمسایہ ہونے کا فرض نبھانے گئی تھی. "

زیمل نے منہ پُھلایا تھا.

"اچھا یہ آنٹی کیا کہہ رہی تھی کیوں نہیں مان رہی اُن کی بات تم. کہیں کسی اور کو پسند تو نہیں کرتی تم. "

ماہ روش مشکوک انداز میں اُسے دیکھتی قریب ہوئی. جب اُس کی آخری بات پر زیمل نے اُسے گھوری سے

نوازا.

"تم جانتی تو ہو. میں اِس فضول جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی. اور ماما کو اکیلا چھوڑ کر جانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی. پر ماما ہیں کہ مجھے سمجھ ہی نہیں رہیں. "

زیمل سلمہ بیگم کی وجہ سے بہت فکرمند تھی.

"کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو. مگر آنٹی بھی اپنی جگہ غلط نہیں ہیں. اُنہیں تمہاری بہت فکر ہے. اِس لیے اُن سے لڑنے کے بجائے اُن کی بات تحمل سے سنو اور سمجھنے کی کوشش بھی کرو.

بہت خوش قسمت ہو تم جو اتنا خوبصورت رشتہ ہے تمہارے پاس. ورنہ مجھ جیسے بھی بہت سارے بدقسمت لوگ ہیں جو ماں جیسا پیارا رشتہ ہونے کے باوجود بھی اُن کے لمس سے انجان ہیں. "

ماہ روش نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی. اور آنکھوں میں بے ساختہ اُمڈ آنے والی نمی کو پیچھے دھکیلتے مسکرائی.

"اوکے ٹھیک ہے کہہ دو ماما کو مگر میری ایک شرط ہے لڑکا جو بھی ہوگا اُسے یہاں میرے اور ماما کہ ساتھ رہنا ہوگا. اپنا گھر چھوڑ کر. "

زیمل نے جیسے احسان کیا تھا.

"واہ کیپٹن زیمل بہت بڑا احسان ہےآپ کا ہم پر. اِس سے اچھا تو تم انکار ہی کردیتی. ایسا کون سا گھر داماد ملے گا تمہیں."

ماہ روش اُس کی چالاکی پر دانت پیستے بولی. جب اُس کو غصے کرتے دیکھ زیمل مسکرائی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"جاذل بھائی شکر ہے آپ آئے اور ارتضٰی بھائی کا موڈ ٹھیک ہوا. "

نعمان ارتضٰی کو مسکراتے دیکھ جاذل کے کان میں گھس کر بولا.

"نعمان کیا بول رہے ہو ارتضٰی بھائی کے بارے میں زرا اُونچا بولو سمجھ نہیں آئی. "

منیزہ اُسے تنگ کرتے ارتضٰی کو سنانے کی خاطر جان بوجھ کر اُونچی آواز میں بولی.

"میں کہہ رہا تھا آج اتنے دنوں بعد ارتضٰی اور جاذل بھائی اکٹھے گھر میں موجود ہیں کیوں نہ اِن دونوں کی جیب ہلکی کروائی جائے. "

نعمان نے جلدی سے بات بدلتے اُسے گھورا تھا.

سب لوگ ڈرائنگ روم میں اکٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے. آج بہت دنوں بعد گھر کا ماحول ٹھیک ہوا تھا. ارتضٰی زینب بیگم کے سامنے بیٹھا اُن سے سر کی مالش کروا رہا تھا.

ارباز اور بلال صاحب بھی وہاں پاس ہی بیٹھے اپنے آفس کی فائل کھولے کچھ ڈسکس کرنے میں مصروف تھے.

جاذل اور ارتضٰی کی دوستی بہت مثالی تھی. ہمیشہ ہر جگہ اکٹھے رہے تھے. کبھی بھی کوئی خوشی ہو یا غم ہو وہ ہر پل ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے تھے. اِس لیے گھر میں بھی سب کو جاذل بہت عزیز تھا. اُسے اِس گھر میں ایک بیٹے کی حیثیت حاصل تھی.

" ویسے آئیڈیا تو بہت اچھا ہے. آپ کے بھائی تو کہیں لے کر جاتے نہیں ہیں. اِسی بہانے اِن کو بھی احساس ہوجائے گا. "

نیہا نے بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی تھی. ارباز یوں سب کے سامنے اپنی بیوی کا شکوہ سن ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا تھا. جبکہ باقی سب اُسے کی شکل دیکھ کر ہنسنے لگے تھے.

"ٹھیک ہے بھابھی اگر آپ کہہ رہی ہیں تو ضرور چلتے ہیں ہم باہر. کیوں ارتضٰی.؟"

جاذل نے بات ختم کرتے سوالیہ انداز میں ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا.

"اوکے جائیں گے مگر سب لوگ. پھوپھو, ماما اور چچی آپ لوگ بھی چلیں گی ہمارے ساتھ. "

ارتضٰی اُن سب کی طرف دیکھتا محبت سے بولا.

اور اُن کے بہت انکار کے باوجود سب نے اُن کو مناکر ہی دم لیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"زیمل یار بس کردو اب. غلطی ہوگئی جو تمہارے ساتھ شاپنگ کرنے آگئی. لگتا ہے پورے سال کی چیزیں خریدنی ہیں تمہیں. "

ماہ روش کو چھے گھنٹے گزر چکے تھے زیمل کے ساتھ مال میں خوار ہوتے مگر زیمل کا دل ہی نہیں بھر رہا تھا. آخر کار ماہ روش اُکتا کر بولی.

"بس یہ لاسٹ شاپ تھی. چلو اب کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں جا کر ڈنر کرتے ہیں. "

اب تو زیمل بھی تھک چکی تھی. اِس لیے اُس پر ترس کھاتے بولی

"احسان عظیم ہے آپ کا مجھ پر. "

ماہ روش جل کر بولتے اُس کا بازو پکڑ کر باہر نکلی کہ کہیں اُس کی دوبارہ کسی چیز پر نظر نہ پڑ جائے.

زیمل ماہ روش کو اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ میں لے کر آئی تھی. ماہ روش کو بھی وہ جگہ بہت پسند آئی تھی. جہاں آؤٹ ڈور بھی ٹیبلز لگائے گئے تھے. وہ دونوں بھی اُنہیں میں سے ایک کی طرف بڑھ گئی تھیں.

دونوں مستی اور باتوں کے ساتھ مزے سے ڈنر کرنے میں مصروف تھیں. زیمل کال آنے کی وجہ سے اُٹھ کر دوسری طرف بڑھی. جب بے اختیار ماہ روش کی نظر کچھ فاصلے پر کھیلتے بچوں پر پڑی تھی.

جو وہاں لگے جھولوں پر کھیلنے میں مصروف تھے. ماہ روش فوراً اپنی کرسی سے اُٹھ کر اُس طرف بھاگی تھی کیونکہ جس جھولے پر دو ٹوئنز بیٹھے تھے اُس کی زنجیر بلکل ٹوٹنے والی تھی. اور اردگرد سے گزرتے ویٹر بھی اُن کی طرف متوجہ نہیں تھے.

ماہ روش نے جلدی سے اُن کے پاس پہنچ کر زنجیر کو تھامتے چلا کر ویٹر کو آواز لگائی تھی. اور ساتھ ہی اُن بچوں کو نیچے اُترنے کو کہا تھا. کیونکہ زنجیر ٹوٹ کر ماہ روش کے ہاتھوں کو زخمی کر گئی تھی. مگر اُس نے درد سہتے اُن بچوں کو گرنے سے بچایا تھا.

ناہید بیگم بھی اُسی وقت طلحہ اور ہادی کو دیکھنے باہر آئی. لیکن سامنے کا منظر دیکھ دل تھامتی اُن کے پاس پہنچی تھیں.

ناہید بیگم نے بچوں کو اپنے قریب کرتے تشکر آمیز انداز میں ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

"بیٹا آپ کا بہت بہت شکریہ میرے بچوں کو چوٹ لگنے سے بچالیا آپ نے. "

ناہید بیگم نے ماہ روش کی طرف دیکھتے کہا.

"نہیں آنٹی اِس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں. میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا. "

ماہ روش مسکرائی تھی.

"بیٹا آپ کے ہاتھ تو بُری طرح زخمی ہوگئے ہیں. "

ناہید بیگم نے فکرمندی سے اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر دیکھے.

جب اُسی لمحے ارتضٰی نے ناہید بیگم کو واپس نہ آتے دیکھ باہر قدم رکھا تھا مگر ماہ روش کو ناہید بیگم کے قریب کھڑے دیکھ مٹھیاں بھینچتے نفرت سے آگے بڑھا تھا.

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری مدر کے پاس بھی آنے کی. "

ارتضٰی نے ماہ روش کا بازو پکڑ کر اُسے ناہید بیگم سے دور جھٹکا تھا. جب ماہ روش نے گرنے سے بچنے کے لیے پیچھے کھڑے پلر کو تھاما تھا.

آج پورے تین سال بعد وہ اِس ستمگر کو دیکھ رہی تھی. جس کی آنکھوں میں اُسے اپنے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ نفرت دیکھائی دی تھی.

"ارتضٰی یہ کیا طریقہ ہے. "

ناہید بیگم ارتضٰی کا ایسا جلالی انداز دیکھ شاک کی کیفیت میں بولیں. طلحہ اور ہادی بھی ہقا بقا رہ گئے تھے.

"ماما چلیں آپ لوگ یہاں سے. میں اِس لڑکی کا سایہ بھی آپ لوگوں پر پڑنے نہیں دینا چاہتا. "

ارتضٰی ماہ روش کی طرف دیکھتے حقارت سے بولا. جب ماہ روش مزید اُس کی نظریں برداشت نہ کرتے وہاں سے نکل آئی تھی.

"ارتضٰی تمہیں کیا ہوگیا ہے. اُس بچی نے اپنی پرواہ کئے بغیر طلحہ اور ہادی کی جان بچائی ہے اور تم نے اُس کے ساتھ کیسا سلوک کیا. ہاتھ دیکھے تھے تم نےاُس کے کس بُری طرح سے زخمی تھے.

مگر تمہیں اپنے غصے سے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا. کیا میں وجہ جان سکتی ہوں اِس کی. "


ناہید بیگم ارتضٰی کی اِس حرکت پر دکھ سے بولیں. مگر اِس وقت وہ خود کو اُن کی کسی بھی بات کو جواب دینے کے قابل نہ سمجھتے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ارتضٰی کی نظر روڈ سائیڈ کھڑی گاڑی میں ماہ روش کے ساتھ بیٹھی زیمل پر پڑی تھی اور یہ جان کر کہ وہ اُس کے گھر کے اتنے قریب رہتی ہے. ارتضٰی کے غصے میں مزید اضافہ ہوا تھا.

گھر آکر ارتضٰی مسلسل اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا. اُسے کسی صورت سکون نہیں مل رہا تھا.

ناہید بیگم سے ماہ روش کا سن کر ایک پل کے لیے اُس کا دل بے چین ہوا تھا. مگر یہ بات جان کر کے ماہ روش اُس کی فیملی کے اتنے قریب پہنچ چکی ہے ارتضٰی کی نفرت پھر سے اُبھر آئی تھی.

پچھلے چار گھنٹوں سے وہ ایسے ہی پاگل ہورہا تھا. جب سکون نہ محسوس کرتے کچھ سوچتے وہ باہر کی طرف بڑھا تھا.

کھڑکی کے ذریعے اندر داخل ہوتے ارتضٰی بیڈ کی طرف بڑھا تھا. اور بیڈ پر لیٹے بے خبر وجود کو غصے بھری نظروں سے گھورا تھا.

ارتضٰی نے آگے بڑھ کر اُسے پکڑ کر جھنجھوڑنا چاہا تھا. مگر اُس کے چہرے پر نظر پڑتے ارتضٰی کے ہاتھ وہیں رُکے تھے. ماہ روش کے چہرے پر اُسے آنسوؤں کے واضح نشان نظر آرہے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی سے سامنے کے بعد وہ زیمل کے ساتھ گھر آتے فوراً اپنے کمرے میں بند ہوئی تھی . نجانے کتنا ٹائم روتے اُس کی آنکھیں بُری طرح سوج چکی تھیں. ہاتھ کے زخم سے بھی خون بہہ کر اب خود ہی خشک ہوچکا تھا.

اُس کو سوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی. جب ایک عجیب سے احساس سے کسمسا کر آنکھیں کھولی تھیں مگر اپنے اتنے قریب کسی کو کھڑا دیکھ اِس سے پہلے کے ماہ روش کی منہ سے ڈر کے مارے چیخ نکلتی ارتضٰی اُس کے اُوپر جھکتا اپنا مضبوط ہاتھ اُس کے منہ پر رکھ گیا تھا.

"تم یہاں کیا کر رہی ہو. مقصد کیا ہے تمہارا یہاں آنے کا. "

ارتضٰی ایک ہاتھ اُس کے گرد رکھے بلکل اُس کے اُوپر جھکا ہوا تھا. ماہ روش کے قریب دیکھ ارتضٰی کو تھوڑی دیر پہلے والی بے چینی اب ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی.

"میرا کوئی مقصد نہیں ہے میں یہاں صرف اپنی فرینڈ سے ملنے آئی ہوں."

ماہ روش بمشکل گلابی آنکھیں کھولتے بھرائی آواز میں بولی. آج اتنے ٹائم بعد وہ اُس کی خوشبو اپنے آس پاس بکھرتی محسوس کررہی تھی. ارتضٰی کے گھنے سیاہ بال کشادہ پیشانی پر گرے ہوئے تھے. چہرے کے وجیہہ نقوش تنے ہوئے تھے. بے خودی میں اُس کا جائزہ لیتی ماہ روش کا دل اُس کے اتنے قُرب پر زور سے دھڑکا تھا. جو پوری طرح اُس پر چھایا ہوا تھا. مگر اُس کی آنکھوں میں موجود اپنے لیے نفرت دیکھ وہ فوراً نظریں پھیر گئی تھی.

اُس کا اِس طرح نظریں پھیرنا ارتضٰی کو بہت ناگوار گزرا تھا. ارتضٰی کی شعلے لپکاتی نگاہیں ماہ روش کے بغیر ڈوپٹے کے حسین سراپے پر تھیں. کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی ماہ روش کی دلکشی میں مزید اضافہ کررہی تھی.

ارتضٰی پہلے دن سے ہی ماہ روش کی آنکھوں میں اپنے لیے چاہت دیکھ چکا تھا. دماغ کے لاکھ کہنے کے باوجود دل اُس کے جذبوں سے انکاری نہیں ہوا تھا. وہ اِس لڑکی کو اپنے لیے تڑپتے دیکھنا چاہتا تھا. مگر اُس کا خود کو اگنور کیا جانا کسی صورت پسند نہیں تھا.

اِس لیے ابھی بھی ماہ روش کا نظریں چرانے بلکل بھی برداشت نہیں کر پایا تھا.

"کوئی مقصد ہونا بھی نہیں چاہئے. میری فیملی میرا سب کچھ ہے. اگر اُنہیں کسی نے زرا بھی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو میں چھوڑوں گا نہیں اُسے.

تمہیں میری پہلی اور آخری وارننگ ہے آئندہ میرے گھر کے کسی فرد کے آس پاس بھی نظر آئی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. "

ارتضٰی سلگتے ہوئے لہجے میں وارن کرتا اُٹھا تھا. کیونکہ اب زیادہ دیر ماہ روش کے قریب رہنا اُس کے لیے ہی مشکل پیدا کر رہا تھا. وہ جیسے ہی پیچھے ہٹا اُس کی نظر ماہ روش کے ہاتھوں کی طرف گئی تھی.

بے اختیاری میں ایک دم بے تابی سے ہاتھ بڑھاتے ارتضٰی نے اُنہیں تھامنا چاہا تھا. لیکن اُس کی فیلنگز سے انجان ماہ روش نے اپنی مُٹھی بند کر لی تھی. وہ نہیں چاہتی تھی ارتضٰی اُن زخموں کو دیکھ اُس پر ترس کھائے. ارتضٰی کی باتیں سن کر شدید احساسِ توہین سے ماہ روش کا چہرا سُرخ ہوچکا تھا.

ارتضٰی اُس کی حرکت پر ہوش میں آتے سر جھٹکتا غصے سے وہاں سے نکل گیا تھا. اُسے خود پر ہی غصہ آیا تھا کہ کیوں اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اِس قابل ہی نہیں ہے.

ارتضٰی کے جانے کے بعد ماہ روش کی نیند بھی اُس سے روٹھ چکی تھی.

وہ تو جانتی بھی نہیں تھی ارتضٰی کی فیملی کو اور اُن کو نقصان پہنچانے کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی پھر وہ اُس پر اتنا بڑا الزام کیوں لگا گیا تھا.

ماہ روش اُٹھ کر کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی. اور رشک بھری نظروں سے نور پیلس کی طرف دیکھا تھا. کیونکہ اُس میں رہنے والا ایک ایک مکین ارتضٰی کے لیے بہت امپورٹنٹ تھا.

"ﷲ جی میں نے زندگی میں ایک ہی تو خواہش کی تھی آپ سے پہلی دفعہ کچھ مانگا تھا. کیا میں اتنی گنہگار ہوں کہ میری ایک دعا بھی قبول نہیں ہوسکتی.

لیکن اب میں اپنے لیے کچھ نہیں چاہتی. جانتی ہو اُس شخص کے لیے میں کبھی امپورٹنٹ نہیں ہوسکتی. مگر پلیز ﷲ جی اُس کی آنکھوں میں موجود نفرت ختم کردیں. مجھ میں اُسے سہنے کی ہمت نہیں ہے. "

ماہ روش آنسوؤں سے بھیگے چہرے کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھتے شکوہ کناں تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"ریحاب کب سے آنٹی کی کال آرہی ہے تم ریسیو کیوں نہیں کر رہی ہو. "

کرن نے اُسے ایک بار پھر کال کاٹتے دیکھ ٹوکا.

"کل اپنے شوہر کے ساتھ پارٹی انجوائے کرتے اِنہوں نے بھی ایسے ہی میری کال کاٹی تھی اب یہ بھی تھوڑا انتظار کریں. "

ریحاب نے موبائل سکرین پر جگمگاتی اپنی ماں کی تصویر کو گھورتے تڑخ کر بولی.

"اچھا کتنی بار تو کاٹ چکی ہو کال اب تو اٹینڈ کر لو. "

کرن اُسے ڈھیٹ بنا دیکھ ایک بار پھر گویا ہوئی. جب ریحاب بُرا سا منہ بناتی کال اٹینڈ کرتے دوسری طرف بڑھی.

"مما بس کریں. یہ دیکھا وا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے سامنے. اچھے سے جانتی ہوں کتنی فکر ہے آپ کو میری."

ریحاب نے اُن کے ایکسکیوز کرنے پر اُکھڑے لہجے میں جواب دیا.

ریحاب کا تعلق ایک بروکن فیملی سے تھا. اُس کے پیرنٹس کے درمیان لڑائیاں تو شروع دن سے ہی تھیں مگر جب وہ دس سال کی تھی تو دونوں نے ایک دوسرے سے تنگ آکر سیپریشن کر لی تھی. اور دونوں میں سے کسی نے بھی ریحاب اور اُس سے دو سال چھوٹے انیس کے بارے میں نہیں سوچا تھا.

اُس کے بابا نے تو طلاق کے فوراً بعد ہی دوسری شادی کر لی تھی. لیکن اُن کی بیوی ریحاب اور انیس کو اپنے ساتھ رکھنے کے حق میں نہیں تھی. جس کی وجہ سے وہ اپنی دوسری بیوی کو لے کر انگلینڈ شفٹ ہوگئے تھے. ریحاب اور انیس اپنے چچا اور دادا کے پاس ہی تھے. جب کچھ ٹائم بعد اُنہیں اپنی ماں کی بھی دوسری شادی کرنے کی خبر ملی تھی.

ریحاب کے والد اُن کی ضرورت کے لحاظ سے ہر مہینے بہت سارے پیسے اُن کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتے تھے. اور اُن کی ماں بھی فون کرکے اُن کی خیریت دریافت کرلیتی تھیں.

بظاہر تو سب ٹھیک تھا مگر اپنی چچی اور تائی کی ناپسندیدگی کو دیکھتے رحاب اور انیس نے ہاسٹل میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تھا. اور وہاں کسی کو اُن کی پرواہ ہوتی تو اُنہیں روکتے اِس لیے بغیر کسی رکاوٹ کے وہ لوگ اپنے اپنے ہاسٹل شفٹ ہوگئے تھے.

دونوں بہن بھائی اکثر ملتے رہتے تھے. مگر اپنے پیرنٹس کو اپنی شکل نہ دیکھانے کی قسم کھا رکھی تھی دونوں نے.

ریحاب اپنی محرومیاں اندر ہی چھپائے سب کے سامنے خود کو بہت ہی خوش طبیعت دیکھاتی تھی اور ایسے ظاہر کرتی تھی جیسے اُسے تو کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا.

"میرے اور انیس کے ایگزیم چل رہے ہیں نہیں مل سکتے آپ سے اور پلیز آپ ہماری فکر چھوڑیں. اپنے بچوں اور شوہر پر دھیان دیں. اوکے بائے. "

ریحاب نے بے زاری سے کہتے فون بند کر دیا تھا. بات کرتے وہ یونیورسٹی کی بیک سائیڈ پر آگئی تھی. وہ پلٹنے ہی لگی تھی. جب ایک چیخ کی آواز پر جلدی سے سمت کا تعین کرتے آگے بڑھی تھی.

مگر آگے کا منظر دیکھ اُس نے جلدی سے اپنی چیخ روکنے کے لیے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا.

پانچ آدمی دو لڑکوں کو بُری طرح تشدد کے بعد چاقو لیے اُن کی طرف بڑھے تھے.

ریحاب کے پاس اب واپس جاکر کسی کو بلانے کا ٹائم نہیں تھا کیونکہ وہ لڑکے نیم مردہ ہوچکے تھے. اِس لیے جلدی سے موبائل نکال کر سامنے کا منظر قید کرنے لگی تھی.

اُن لڑکوں کی گردن کاٹتے دیکھ ریحاب اپنی چیخ نہ روک پائی تھی جب چیخ کی آواز پر اُن سب نے اُس کی جانب دیکھا تھا. وہ فوراً وہاں سے بھاگی تھی.

"پکڑو اُس لڑکی کو وہ ہمیں دیکھ چکی ہے. اور مجھے لگتا ہے ویڈیو بھی بنائی ہے اُس نے ہماری. "

اُن میں سے ایک آدمی چلاتے ریحاب کے پیچھے بھاگا تھا جب باقی سب بھی اُن لڑکوں کو وہیں پھینکتے اُس طرف بڑھے تھے.

ریحاب گھبراہٹ میں یونی کے اندرونے حصے میں جانے کے بجائے بیک گیٹ سے باہر بھاگی تھی. وہ سنسان روڈ پر بھاگتے بہت آگے نکل آئی تھی. کیونکہ وہ غنڈے مسلسل اُس کا پیچھا کر رہے تھے.

بار بار پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے وہ آگے سے آتی گاڑی کو نہ دیکھ پائی تھی. اگر سامنے والا بروقت بریک نہ لگاتا تو ریحاب نے ضرور گاڑی کے نیچے آجانا تھا.

خود کو سنبھالنے کی کوشش کرنے کے باوجود وہ کار کے بونٹ پر جا گری تھی.

"محترمہ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے. میرا پیچھا چھوڑنے کا کوئی ارادہ ہے آپ کا. "

ارحم زور سے گاڑی کا دروازہ بند کرتا اُس کے سامنے آیا تھا. ارحم کو سامنے دیکھ ریحاب جلدی سے اُس کی طرف بڑھی. اِس وقت ارحم اُسے کسی فرشتے سے کم نہیں لگا تھا.

"میرے پیچھے غنڈے لگے ہیں پلیز میری مدد کریں. وہ لوگ کسی کا قتل کر رہے تھے میں نے دیکھ لیا اُنہیں اب وہ مجھے بھی مار دے گے پلیز مجھے اُن سے بچا لو. "

ریحاب بہت ڈر چکی تھی. ارحم کا بازو پکڑتے روتے ہوئے بولی.

جب ارحم نے ایک نظر اُس کے اُلجھے بکھرے حلیے پر ڈالی تھی.

بلیک کپڑوں میں ملبوس جس کا دوپٹہ ایک کندھے پر جھول رہا تھا. خوبصورتی سے بنائے گئے ہیئر سٹائل سے بالوں کی بہت سی لٹیں نکل کر چہرے کے آس پاس بکھری ہوئی تھیں.

"مس ریحاب ایکٹنگ تو بہت اچھی کر لیتی ہیں آپ. مگر اِس بار میں آپ کے ڈرامے میں نہیں آنے والا. کسی اور پر ٹرائے کریں. "

ارحم جلدی میں ہونے کی وجہ سے اُسے ہری جھنڈی دیکھاتے گاڑی کی طرف بڑھا.

"اِس بار میں جھوٹ نہیں بول رہی پلیز میرا یقین کرو. "

ریحاب اُسے جاتا دیکھ جلدی سے اُس کے سامنے آئی تھی.

"وہ رہی لڑکی. "

اِس سے پہلے کے ارحم گاڑی میں بیٹھتا اُسے واقعی میں پانچ غنڈے ریحاب کی طرف آتے دیکھائی دیے تھے.

"خبردار جو مزید ایک قدم بھی آگے بڑھایا تم لوگوں نے."

اُن کو اتنے قریب دیکھ ریحاب جلدی سے ارحم کے پیچھے چھپی تھی. ارحم نے بھی معاملے کی سنگینی کو سمجھتا اُن کو وارن کیا تھا.

"اے ہیرو ہٹ جاؤ آگے سے اور اِس لڑکی کو ہمارے حوالے کر دو. ورنہ تمہارا اِس سے بھی بُرا حال ہوگا. "

اُن میں سے ایک خطرناک تاثرات کے ساتھ ارحم کو گھورتا ریحاب کی طرف بڑھا تھا.

مگر اُس سے پہلے ہی ارحم کے پڑنے والے زور دار مکہ سے دور جا گرا تھا.

اپنے آدمی کو گرتا دیکھ باقی چاروں بھی ارحم کو مارنے آگے بڑھے تھے. لیکن ارحم نے بُری طرح اُنہیں پیٹتے چند ہی لمحوں میں وہیں ڈھیر کر دیا تھا.

"ریحاب کول ڈاؤن. چلو گاڑی میں بیٹھو میں تمہیں تمہارے ہاسٹل ڈراپ کر دیتا ہوں. "

ریحاب کانپتے وجود کے ساتھ گاڑی کے دروازے کے ساتھ لگی کھڑی تھی. جب ارحم اُس کے قریب آتا نرم لہجے میں بولا.

ریحاب کا یہ خوفزدہ انداز دیکھ ارحم نے ایک قہر برساتی نظر بے حال پڑے آدمیوں پر ڈالی تھی.

"پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. اور اگر دوبارہ اُنہیں نے کوئی دھمکی دینے کی کوشش کی تو مجھے فوراً انفارم کرنا. "

ارحم نے گاڑی اُس کے ہاسٹل کے سامنے روکتے ایک نظر ڈری سہمی ریحاب پر ڈالی تھی. ریحاب نے اُس کی بات پر صرف سرہلایا تھا.

"آپ کا نام کیا ہے. "

اُس کے آپ کہنے پر ارحم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی. اُس نے مختصر سا جواب دیا تھا.

"ارحم آصف."

"آپ نے اتنے لوگوں کا اکیلے مقابلہ کیسے کیا ہے. آپ کیا کام کرتے ہیں. "

ریحاب کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا. کہ وہ اُسے اُن غنڈوں سے بچا کر بحفاظت ہاسٹل لے آیا تھا.

"میں اُن سے بھی بڑا غنڈہ ہوں. یہ سب تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. "

ارحم اُس کی طرف جھکتے متبسم لہجے میں بولا. جس پر ریحاب مزید گھبراتے دروازے کے ساتھ چپک گئی تھی. ارحم نے بغور اُس کی بھیگی آنکھوں کو دیکھا تھا.

"آپ پلیز ڈور اَن لاک کریں مجھے باہر نکلنا ہے. "

ریحاب کو اُس کے تیور مزید خوف ذدہ کر رہے تھے.

"ہاہاہاہا مذاق کر رہا ہوں. میں ایک بہت ہی شریف شہری ہوں."

ریحاب کی حالت دیکھ ارحم کا قہقہ گاڑی میں گونجا تھا.

"تھینکیو سومچ. میں آپ کا اتنا بڑا احسان کبھی نہیں بھولوں گی. "

دروازہ اَن لاک ہونے پر ریحاب بولتی باہر نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"کیپٹن ماہ روش آپ جانتی بھی ہیں کیا کہہ رہی ہیں. تین سال سے میں آپ کی یہی بات سنتا آرہا ہوں مگر اب مزید میں آپ کو کوئی فیور نہیں دے سکتا. اور مجھے آپ سے بلکل امید نہیں تھی کہ پرسنل وجوہات کی بنا پر آپ اتنے بڑے مشن سے انکار کریں گی. "

جنرل یوسف نے ماہ روش کی طرف دیکھتے افسوس سے سر ہلایا تھا.

" سر پلیز آپ جانتے ہیں میرے انکار کا ریزن. اور میجر ارتضٰی بھی راضی نہیں ہوں گے میرے ساتھ کام کرنے پر."

ماہ روش بے بس ہوئی تھی.

"جانتا ہوں اِسی لیے. آپ کو پہلے ہی بلا کر بتا دیا ہے تاکہ آپ مینٹلی طور پر خود کو اِس کیس کے لیے تیار کر لیں."

جنرل یوسف کا لہجہ دو ٹوک تھا.

"انکل پلیز جب وہ میری شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تو میرے ساتھ کام کرنے کو کیسے تیار ہوں گے. "

ماہ روش کی ملتجی انداز پر جنرل یوسف نے ترحم آمیز نظروں سے اُسے دیکھا.

جو اتنے بڑے مشن سے صرف اِس لیے پیچھے ہٹ رہی تھی تاکہ ارتضٰی اُس کی وجہ سے اپنی لائف کے اتنے اہم مشن کو لیڈ کرنے سے انکار نہ کر دے.

وہ ماہ روش کو اُس وقت سے جانتے تھے. جب وہ معصوم سی بارہ سال کی ایک ناسمجھ بچی تھی. خالہ جان نے اپنے آخری لمحات میں اُنہیں اپنی پوتی کی ذمہ داری سونپی تھی. بظاہر اُس سے انجان بنتے وہ اُس کی ہر بات سے واقف تھے.

اپنے بچوں سے بھی زیادہ وہ اُنہیں عزیز تھی. وہ اُس کی زندگی کی ہر تلخ حقیقت سے بھی واقف تھے. مگر چاہ کر بھی فلحال اُس کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے.

"ماہ روش بیٹا آپ کو اِس بات کی فکر کرنے کی بلکل ضرورت نہیں ہے. میجر ارتضٰی کو سمجھانا میرا کام ہے. اب آپ جاسکتی ہیں. "

ماہ روش بے چارگی سے اُنہیں دیکھتی وہاں سے نکل آئی تھی.

کل رات ارتضٰی کی نفرت دیکھ وہ زیمل کے بہت روکنے کے باوجود بھی جنرل یوسف کے بلانے کا بہانا کرکے وہاں سے آگئی تھی. تاکہ دوبارہ اُس سے سامنا نہ ہوسکے. مگر اب جنرل یوسف کا نیا آرڈر سن کر اُس کی ٹینشن اور پریشانی مزید بڑھ گئی تھی. اُس کی بہت کوشش کے بعد بھی جنرل یوسف اُس کی کوئی بھی بات سمجھنے کو تیار نہیں تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"اوہ نو جاذل بھائی مارے گئے. "

جاذل نعمان, طلحہ اور ہادی کی ضد پر اُن کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا جب اُس کی ماری گئی شارٹ پر بال ہوا میں اُڑتی دروازے سے اندر داخل ہوتی زیمل کی ناک کو سلامی دے گئی تھی.

"زیمل آپی تو بہت غصے والی ہیں. جاذل بھائی اب آپ کی خیر نہیں. "

زیمل کو ناگواری کے تاثرات سجائے اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ تینوں جاذل کو اکیلا چھوڑ خاموشی سے وہاں سے کھسک چکے تھے.

"آپ کو شرم نہیں آتی اِس عمر میں اِس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے."

زیمل نے پاس آتے جاذل کو خونخوار نظروں سے گھورا.

" محترمہ عمر سے کیا مطلب ہے آپ کا اور ایسا کیا کیا ہے میں نے."

جاذل اُس کے ہاتھ سے بال چھینتے دنیا جہاں کی معصومیت لیے بولا. جب کہ آنکھوں میں شرارت واضح تھی. اُس کی یہ حرکت زیمل کو مزید تپا گئی تھی.

"ایک نمبر کا چھیچھورا انسان. "

زیمل دانت پیستے گویا ہوئی.

"آپ نے مجھ سے کچھ کہا. "

جاذل نے زیمل کی بڑبڑاہٹ پر سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا. جب اُس کی نظر زیمل کی سُرخ ہوتی ناک پر پڑی تھی.

"اب مجھے کیا پتا تھا آپ اپنے راستے کے بجائے. اِس طرح گیٹ سے داخل ہوں گی. مگر پھر بھی آئم سوری "

جاذل کی نظریں بار بار اُس کی چھوٹی سی سُرخ ہوتی ناک اور غصے سے پھولے ہوئے گالوں کی طرف بھٹک رہی تھیں. جنہیں نوٹ کرتے زیمل مزید تلملائی تھی.

"میں ہی پاگل ہوں جو ہر بار آپ جیسے انسان سے اُلجھ پڑتی ہوں جسے نہ تو لڑکیوں سے بات کرنے کا پتا ہے اور نہ ہی اُنہیں دیکھنے کا. "

زیمل اُس کی کنفیوژ کرتی نظروں پر پیر پٹختی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی.

جبکہ اُس کی بات جاذل کو غصہ دلانے کے بجائے ہنسنے پر مجبور کرگئی تھی.

"ویری انٹرسٹنگ گرل. "

زیمل کی پشت کو دیکھ وہ زیرِ لب بڑبرایا تھا.

جاذل اور ارتضٰی ہمیشہ لڑکیوں سے دور ہی رہے تھے. ارتضٰی کے اپنے ریزنز کی طرح جاذل بھی کچھ وجوہات کی وجہ سے صنفِ نازک سے کوسوں دور رہا تھا. اور دوسری وجہ آرمی کی ٹف روٹین بھی تھی.

مشن میں بھی ساتھ کام کرنے والی لڑکیاں اُس کے روکھے پھیکے رویے کی وجہ سے زیادہ بات کرنے کی ہمت نہیں کرپاتی تھیں مگر اب زیمل جیسی پٹاخہ لڑکی کے ساتھ اُلجھنا اُسے مزا دینے لگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا اُسے کچھ گڑبڑ سی محسوس ہوئی تھی.

" یہ بیگز کس کے پڑے ہیں. کوئی گیسٹ آئے ہیں کیا گھر میں."

ماہ روش نے پاس سے گزرتی ملازمہ کو مخاطب کرتے ڈرائنگ میں رکھے بیگز کی طرف اشارہ کیا تھا.

"یہ بڑی بیگم صاحبہ کا سامان ہے وہ یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہیں. "

ملازمہ اُسے جواب دیتی وہاں سے نکل گئی تھی. ماہ روش بے حد حیرانی کے ساتھ آسیہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھی.

"ماما یہ ملازمہ کیا کہہ رہی ہے. آپ گھر چھوڑ کر جارہی ہیں. "

ماہ روش آسیہ بیگم کے پاس آتی بولی. جو بیگ میں اپنی چیزیں رکھ رہی تھیں.

"بلکل ٹھیک سنا ہے تم نے. "

وہ ویسے ہی اپنے کام میں مصروف رہی تھیں.

"مگر ماما آپ ہم سب کو چھوڑ کر کیوں جا رہی ہیں. بابا سے کوئی لڑائی ہوئی ہے آپ کی. "

ماہ روش اُن کا بازو پکڑتے فکرمندی سے بولی.

"سب کو نہیں صرف تمہیں اور تمہارے باپ کو چھوڑ کر جا رہی ہوں. میرے بچے ساتھ جا رہے ہیں میرے. "

ماہ روش کا بازو جھٹکتے وہ اُن کا چہرا ہر احساس سے عاری تھا.

"ماما میں بھی تو آپ کی ہی بیٹی ہوں نا آپ اِس طرح کیوں کر رہی ہیں. "

ماہ روش کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا آخر ہوا کیا ہے.

"نہیں ہو تم میری بیٹی. میری بیٹی مر چکی ہے."

آسیہ بیگم بیگ سائیڈ پر کرتی ماہ روش کے بلکل سامنے آکھڑی ہوئی تھیں. جو نا سمجھی سے بس اُنہیں تکی جا رہی تھی.

"میں ہی جانتی ہوں آج تک تمہیں اِس گھر میں اپنی بیٹی کی حیثیت سے کیسے برداشت کیا میں نے. تم میری بیٹی نہیں ہو. تم ذوالفقار کی ناجائز اولاد ہو. "

آسیہ بیگم نے جانے سے پہلے اُسے حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا. جس کی وجہ سے وہ اتنے سالوں سے انگارے پر لُوٹ رہی تھیں.

ماہ روش کے چہرے پر زلزلے کے سے آثار تھے.

" ہاں تم میری بیٹی نہیں ہو. میری سگی بیٹی مر چکی ہے. اگر آج وہ زندہ ہوتی تو تمہارے جتنی ہوتی. "

بات کرنے کے دوران آسیہ بیگم کی آنکھیں بھیگی تھیں.

"یہی وجہ ہے میری تم سے نفرت کرنے کی. کوئی بھی عورت اتنا بڑا دل نہیں رکھ سکتی کہ اپنے شوہر کی ناجائز اولاد کو سینے سے لگائے.

اور جس شوہر کی خاطر اتنے سال تمہارا وجود برداشت کیا اُس نے پریشانیوں اور دکھوں کے سوا دیا ہی کیا مجھے. میں جارہی ہوں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ گھر چھوڑ کر. اپنے بچوں کو اِس گھٹن ذدہ ماحول سے نکال کر امریکا اپنے بھائی کے پاس."

ماہ روش کے بے جان ہوتے وجود پر ایک نظر ڈالتے وہ اپنا بیگ لیے وہاں سے نکلی تھیں.

"تم نے ہمیشہ مجھے ماں سمجھا اور بولا ہے. اِس لیے جاتے جاتے ایک مشورہ ہے میرا تمہارے لیے اگر ہوسکے تو اپنے باپ سے بہت دور چلی جاؤ وہ اچھا انسان نہیں ہے."

دروازے کے پاس پہنچتے آسیہ بیگم نے پلٹ کر ساکت کھڑی ماہ روش پر ترس بھری نگاہ ڈالتے کہا اور وہاں سے نکل گئی تھیں.

ماہ روش گرنے کے سے انداز میں زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی اور کتنی آزمائشیں باقی تھیں اُس کی زندگی میں.

آنسو لڑی کی طرح آنکھوں سے جاری تھے. وہ ایک ناجائز اولاد تھی. یہ سوچ آتے ہی اُس کا دل چاہا تھا اپنے وجود کو آگ لگا دے. اُسے خود سے گھن آرہی تھی. ماما کا کبھی بھی اُسے اپنے قریب نہ ہونے دینا اور دادو کا بابا سے بات نہ کرنا علیحدہ رہنا کیا یہ سب اِسی وجہ سے تھا.

نجانے کتنے گھنٹے اُسے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے گزر چکے تھے. مگر آنسو تھے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے.


"تو کہیں سر ارتضٰی کی مجھ سے نفرت کی وجہ یہی تو نہیں ہے. ہاں یقیناً میرے بارے میں جاننے کے بعد اِس طرح اچانک اُن کے رویے میں تبدیلی آئی.

اگر ایسا ہے تو بلکل ٹھیک ہی تو کیا اُنہوں نے کوئی بھی شریف انسان مجھ جیسی لڑکی کو کیسے اپنا سکتا ہے. اور میں بے وقوف اُس شاندار آدمی کے ساتھ کی خواہش مند تھی. "

ماہ روش بھیگی آنکھیں صاف کرتے اپنا ہی مذاق اڑاتے خود پر ہی ہنسی تھی.

"ٹھیک ہی تو کہاں اُنہوں نے اپنی والدہ سے مجھ جیسی لڑکی کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہئے اُن کی زندگی پر. کاش خود کشی حرام نہ ہوتی تو ابھی اِسی وقت خود کو ختم کر لیتی. "

ماہ روش نے تلخی سے سوچا.

اُس کا سر بُری طرح چکرا رہا تھا. جس کی پرواہ کیے بغیر ماہ روش اپنی جگہ سے اُٹھی تھی مگر اگلے ہی لمحے طرح حواس کھوتے زمین بوس ہوئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

"سر مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اِس مشن کو لیڈ کرنے کے لیے مجھے چنا میں آپ کی ہر بات سے ایگری ہوں مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اِس مشن کی ڈیٹیل بتانے سے پہلے اِس نام پر غور و فکر کر لیں."

ارتضٰی سکرین پر جگمگاتے ناموں میں سے ایک نام پر نظریں گاڑھی ہوئی تھیں.

"میجر ارتضٰی آپ جانتے ہیں یہ صرف ایک مشن ہی نہیں ہمارے ملک کی بقا اور سلامتی کا سوال ہے. اِس لیے میں چاہتا ہوں آپ اِس میں پرسنل ریزن سائیڈ پر رکھ کر پروفیشنلی انوالو ہوں. "

جنرل یوسف اپنی توقع کے مطابق اُس کا ردِعمل دیکھ تحمل سے بولے.

"سر آپ اچھے سے جانتے ہیں مجھے اور میرے کام کرنے کے طریقے کو بھی. لیکن شاید آپ کیپٹن ماہ روش ذوالفقار کی اصلیت کو بھول چکے ہیں. جو اُس پر اتنا ٹرسٹ کر رہے ہیں."

ماہ روش کا ذکر کرتے ارتضٰی کے لہجے میں سرد مہری سی در آئی تھی.

"میں کچھ نہیں بھول رہا میجر ارتضٰی تم سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتا ہوں ہر بات. جس طرح تم پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا ہوں اُتنا ہی ماہ روش پر بھی بھروسہ ہے مجھے. وہ کبھی کچھ غلط نہیں کرے گی. جیسے اب تک ہوتی آئی ہے آگے ہی ویسے ہی سُرخرو ہوگی. "


"بہت بڑی بات کر رہے ہیں سر آپ. اینی ویز اپنے کام میں زرا کوتاہی برداشت نہیں کرتا میں. اور اگر آپ کی اُس کیپٹن نے زرا بھی غداری کرنے کی کوشش کی تو ڈیپارٹمنٹ کی انکوائری سے پہلے میں اُسے گولی مار دوں گا. کیونکہ جتنا بھی بھروسہ ہو آپکو اُس پر مگر جس طرح کے حالات اُسے اِس مشن میں پیش آئیں گے اُس کا ڈگمگانا لازم ہے."

ارتضٰی نے سلگتے لہجے میں کہتے اُنہیں جیسے باور کروانا چاہا تھا.

"میجر ارتضٰی سکندر جیسے پچھلی بار میری کہی گئی بات پر ہارے تھے اِس دفعہ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ تم نے ابھی کیپٹن ماہ روش سکندر کو سمجھا ہی نہیں ہے اُس کی طرف سے خود کو جس خول میں بند کردیا ہے تم نے میں جانتا ہوں جب یہ ٹوٹے گا تو سب سے زیادہ نقصان تمہارا ہی ہوگا مگر ابھی شاید تم میری کوئی بھی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے."

جنرل یوسف نے چیلنجگ انداز میں کہتے اُسے کچھ بھی غلط کرنے سے باز رکھنا چاہا تھا.

مسلسل وائبریٹ ہوتے موبائل کی طرف متوجہ ہوتے جنرل یوسف نے کال اٹینڈ کی تھی.

" واٹ ماہ روش کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے. ابھی کل ہی تو وہ مجھ سے مل کر گئی تب تو بلکل ٹھیک تھی وہ. اچانک ایسا کیا ہوگیا. اوکے آپ اُس کے ساتھ ہی رہیں میں تھوڑی دیر تک پہنچتا ہوں وہاں. "

دوسری جانب سے سنائی گئی خبر پر پریشانی سے ہدایت دیتے وہ فوراً اپنی سیٹ سے اُٹھے تھے.

"کیا ہوا ہے اُسے. وہ اب ٹھیک تو ہے ؟"

ماہ روش کی تکلیف کا سنتے ارتضٰی بے قراری سے اُن کے سامنے آیا تھا.

"کیا ہوا میجر صاحب کچھ دیر پہلے تو اُسے مارنے کی باتیں کر رہے تھے اب یہ فکر کیسی. آپ کے لیے تو خوشی

کی خبر ہونی چاہئے."

جنرل یوسف نے اُس کی فکرمندی پر چوٹ کی تھی

"ایسی کوئی بات نہیں ہے. جو بھی ہے مگر اب وہ میری ٹیم کا حصہ ہے. صرف اِسی لیے پوچھ رہا تھا. "

ارتضٰی نگاہوں کا زاویہ پھیرتے بے تاثر لہجے میں بولا.

کشادہ پیشانی پر سلوٹیں واضح تھیں. اپنا اِس طرح عیاں ہونا اُس کو مزید غصہ دلا گیا تھا.

"ڈونٹ وری آپ کی ٹیم آپ کو ایک ویک تک کمپلیٹ مل جائے گی اگر ماہ روش کی کنڈیشن ٹھیک نہ ہوسکی تو اُن کی جگہ میں کسی اور آفیسر کو رپلیس کر دوں گا.

جنرل یوسف اُسے ماہ روش کے بارے میں کچھ بھی بتائے بغیر وہاں سے نکل گئے تھے.

گاڑی ڈرائیو کرتے ارتضٰی کی نظروں کے سامنے بار بار ماہ روش کی روئی روئی گلابی آنکھیں اور بھیگا چہرا آرہا تھا. جو اُسے مزید بے چین کررہا تھا.

اُس کی کمزوری صرف اُس کی فیملی تھی اُن کے علاوہ کوئی نہیں ماہ روش کی جگہ تو اُس نے لائف میں کہیں بھی نہیں رکھی تھی پھر کیوں اُس کی تکلیف پر ایسا حال ہوجاتا تھا. اُس کے لیے اپنے دل میں موجود جذبات کو تو وہ کب سے کھرچ چکا تھا. پھر بھی ہر بار دل کیوں اُس کی وجہ سے تڑپ اُٹھتا تھا.

ارتضٰی نے اپنے آپ سے اُلجھتے گاڑی کو سائیڈ پر روک دیا تھا. پیشانی مسلتے اپنی اندر کی جلن کم کرنی چاہئے تھی. وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر بار بار ایک ہی سوال ذہن میں آرہا تھا کہ ماہ روش نے کس بات کی اتنی ٹینشن لی ہوگی جو اُس کی طبیعت اتنی خراب ہوگئی وہ تو اپنی فیملی کے ساتھ خوش ہے نا.

ماہ روش کی حالت کو اگنور کرنے پر اُس کا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا. جیسے اُس کی ایک ایک دھڑکن ارتضٰی سکندر کی اِس بے اعتنائی پر احتجاج کر رہی ہو.

میں کیوں سوچ رہا ہوں اُس لڑکی کے بارے میں. نفرت کرتا ہوں میں اُس سے شدید نفرت. وہ اِس قابل نہیں ہے کہ اُسے سوچا بھی جائے. معصومیت اور بے چاری ہونے کا ناٹک کرکے وہ پوری دنیا کو بے وقوف بنا سکتی ہے لیکن مجھے نہیں.

ارتضٰی نے دل میں موجود ہر جذبے پر نفرت کے پہرے بٹھاتے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"ماشاءﷲ بھئی آج تو بڑی رونق لگی ہوئی ہے گھر میں. "

جاذل ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے شاہانہ بیگم کے قریب بیٹھتے بولا.

جہاں پہلے سے ہی اُس کی دونوں بڑی بہنیں اپنے بچوں سمیت تشریف لائی ہوئی تھیں.

"ہم نے سوچا ہمارے اکلوتے بھائی جان سے تو زحمت ہوتی نہیں ہمارے گھروں کا ایک چکر ہی لگانے ہم لوگ ہی مل آئیں.

غزالہ نے ناراضگی ظاہر کرتے گہرا طنز کیا تھا.

"ٹھیک کہا آپی آپ نے. جاذل کے واپس آنے کا سن کر وہاں سب کتنے خوش تھے مگر جاذل نے ہمارے سسرال میں قدم رکھنا بھی پسند نہیں کیا."

سمیرا نے بھی منہ پُھلایا.

غزالہ اور سمیرا کا سسرال ایک ہی تھا جہاں جانا جاذل کو دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا تھا کیونکہ اُن دونوں کی نندیں ایسے اُس کے گرد منڈلاتی تھیں جیسے مکھیاں شہد کے گرد. اُن کا مقصد وہ اچھے سے جانتا تھا اِس لیے زیادہ سے زیادہ وہ جانے سے پرہیز ہی کرتا تھا.

"بس یہی ایک وجہ ہے کہ اُن کا اتنا پیار مجھ سے ہضم نہیں ہو پاتا. اور دوسرے دن تو آپ لوگ یہاں پہنچی ہوتی ہو اب میں وہاں جاکر کیا کروں. "

جاذل کا انداز چڑانے والا تھا اور وہ چڑھ بھی گئی تھیں.

"دیکھ رہی ہیں اماں اپنے لاڈلے بیٹے کی باتیں ابھی تو بیوی آئی ہی نہیں تو یہ حال ہے جب آئے گی تو پھر پتا نہیں کیا ہوگا. "

غزالہ شاہانہ بیگم کی طرف دیکھتی شکایتی لہجے میں بولی.

"بس یہی ایک بات اِسی وجہ سے میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا. "

جاذل کو تو جیسے موقع مل گیا تھا انکار کرنے کا.

"نہ پُتر بہت ہوگیا. اب میں تیری ایک نہیں سنوں گی اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتاؤ. نہیں میں تو ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی دیکھ کر بیٹھی ہوں یہاں. اِس بار تو تمہیں شادی کروائے بغیر نہیں جانے دوں گی."

شاہانہ بیگم بھی جیسے بھری بیٹھی تھیں فوراً سے جاذل کی خبر لی تھی.

حمیرا بھی اپنے بھائی کی درگت بنتے دیکھ وہاں آبیٹھی. غزالہ اور سمیرا اب شوخی سے جاذل کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں.

"ماں اتنی جلدی بھی کیا ہے. آپ کو بتایا تو تھا ابھی پانچ چھے سال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے میرا. "

جاذل بے دلی سے بولا.

"ایک ہی اکلوتے پُتر ہو تم میرے. میں خوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں تمہاری. اپنی نسلیں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہوں. اتنی زمین جائیداد ہونے کے باوجود تیری خواہش پر تمہیں نوکری کرنے کی اجازت دی . مگر تم مہینوں غائب رہتے ہو. تمہارے بیوی اور بچوں ہوئے تو اُن سے ہی دل بہلا لوں گی. "

شاہانہ بیگم اِس بار اُس کی کو بات بھی سننے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھیں.

جاذل نے بے چارگی سے اپنی بہنوں کی طرف دیکھا جو اب مزے سے انجوائے کر رہی تھیں.

"بلکل اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں. اب تو خاندان والے تمہارا رشتہ پوچھنے گھر تک آنے لگے ہیں. کیونکہ ہمارے بھائی جیسا شاندار مرد خاندان میں تو کیا پورے گاؤں میں نہیں ہے. اور سبینہ خالہ بھی انگلینڈ سے کال کرکے پوچھ رہی تھیں تمہارا. وہ بھی اپنی بیٹی کے لیے تمہاری خواہش مند ہیں. "

سمیرا فخریہ لہجے میں گویا ہوئی.

جاذل نے خود کو چاروں طرف سے پھنستے ہوئے محسوس کیا تھا.

"اوکے ٹھیک ہے آپ کی بات مانوں گا مگر اپنا اِس دفعہ کا کام ختم کرنے کے بعد. "

جاذل اُن کے سامنے ہار مانتے بولا.

"ماں صدقے میں جانتی تھی میرا پُتر میری بات بلکل نہیں ٹالے گا. مگر ابھی تو دو سال بعد واپس آیا ہے. ایک مہینے کی چھٹی تو ملنی ہی چاہئے تھی. "

شاہانہ بیگم خوش ہونے کے ساتھ اُداس بھی ہوئی تھیں. مگر جانتی تھیں اُن کا بیٹا ملک کا محافظ ہے. وہ اُسے روکنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں.

"آپ فکر مت کریں میں ملنے آتا رہوں گا آپ سے اور آپ پیاری پیاری لڑکیاں دیکھیں میرے لیے."

جاذل اُن سب کے پریشان چہرے دیکھ اُن کے پسندیدہ ٹاپک کی طرف موڑا تھا. جس میں وہ کامیاب بھی رہا تھا کیونکہ وہ سب پھر سے شروع ہوچکی تھیں.

ابراہیم صاحب کا شمار بہت بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا. اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرتے وہ گاؤں میں ہی اپنی آبائی عالی شان حویلی میں مقیم تھے.

اُن چار بچے تھے. غزالہ, سمیرا, جاذل اور سب سے چھوٹی حمیرا.

جاذل اکلوتا ہونے کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا تھا. بڑی دونوں بہنوں کی شادی ہوچکی تھی جبکہ حمیرا ابھی پڑھ رہی تھی. اِس لیے شاہانہ بیگم کو ہر وقت جاذل کی شادی کی فکر تھی جو کسی صورت شادی کرنے کو تیار ہی نہیں تھا.

جاذل کو شادی کسی جھنجھٹ سے کم نہیں لگتی تھی. کسی کا پابند ہوکر رہنا اُسے بلکل بھی پسند نہیں تھا. اِسی لیے وہ کسی سے کمٹ ہونا ہی نہیں چاہتا تھا. مگر اپنی ماں اور بہنوں کی اتنی محبت اور خواہش دیکھ یہ کڑوا گھونٹ پینے پر راضی ہوگیا تھا.

اُسے ارتضٰی اگلے مشن کے بارے میں آگاہ کر چکا تھا اِس لیے اُس نے شاہانہ بیگم سے وقت مانگا تھا. کیونکہ ابھی کچھ ٹائم تک وہ صرف اگلے مشن پر ہی مکمل توجہ مرکوز کرنا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"سارے بزدل حرام خور پال رکھے ہیں میں نے. وہ ایک لڑکا تم سب کو پیٹ کر اُس لڑکی کو لے کر بھاگ گیا اور تم لوگ اب میرے سامنے کھڑے رو رہے ہو. "

غفور اپنے بندوں پر غصے سے دہاڑا تھا. جو ارحم سے اچھی خاصی مار کھانے کے بعد اب زخمی حالت میں اُس کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے.

"باس ہم نے بہت کوشش کی تھی مگر."

اُن میں سے ایک ہولے سے منمنایا. جب اُسی وقت غفور کا سب سے خاص آدمی دلاور اندر داخل ہوا تھا.

"باس اُس لڑکے کا پتا چل گیا ہے اُس سے تو بہت پرانی رشتہ داری نکل آئی ہے ہماری."

دلاور کی بات پر غفور چونکتے اُس کی طرف متوجہ ہوا.

"کیا مطلب ہے تمہارا. "

غفور نے باقی سب کو وہاں سے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا.

"جنرل آصف کے اکلوتے چشم و چراغ کیپٹن ارحم آصف نے کی ہے ہمارے آدمیوں سے اُلجھنے کی کوشش. ابھی تو جنرل آصف سے بہت سارے حساب باقی تھے. جو اُس کا بیٹا بھی اُس کی لسٹ میں شامل ہوگیا. "

دلاور غفور کی طرف دیکھتا پُر اسرار مسکراہٹ بکھیرتے بولا.

"ہاہاہاہا زبردست کیا خبر سنائی ہے تم نے. اب مزا آئے گا. ہمارا شکار خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے. "

غفور اُس کی بات سنتا خباثت سے ہنسنے لگا تھا.

"میرے لیے کیا حکم ہے اُس لڑکی کے ساتھ ساتھ اُس کے مہربان عاشق کو بھی اُڑا دیا جائے. "

دلاور کی بات سنتے غفور نے نفی میں سر ہلایا تھا

"نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا. جنرل آصف نے میرے بھائی کو مجھ سے چھینا تھا نا. اب میں اُس کے بیٹے کا وہ حال کروں گا کہ جنرل آصف اپنے بیٹے کی بربادی پر تڑپنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا."

لہجہ نفرت اور انتقام سے بھرپور تھا.

"کیا مطلب باس میں سمجھا نہیں. "

"یہ لڑکی اب کرے گی ہمارا کام. "

غفور دلاور سے ریحاب کی تصویر پکڑتا غیر معمولی انداز میں بولا

"باس یہ لڑکی بھلا ہمارے لیے کیا کرسکتی ہے. "

دلاور نے اُس کے تاثرات پر غور کرتے اُس کے ارادے سمجھنے کی کوشش کی تھی.

"میں اُس جنرل آصف کے بیٹے کو اتنی آسان موت بلکل نہیں دوں گا. اُسے تڑپا تڑپا کر ماروں گا اور اُس میں ہمارا ساتھ دے گی یہ لڑکی. کافی خوبصورت اور معصوم لگ رہی ہے وہ جتنا بھی ہوشیار ہو بغیر کسی قسم کے شک میں پڑے جلد ہی اِس کے جال میں پھنس جائے گا. "

غفور کی آنکھوں میں شیطانیت چمک رہی تھی. بہت وقت بعد کوئی ایسا موقع ہاتھ آیا تھا جسے وہ ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا.

"واہ باس کیا زبردست پلان ہے اُس لڑکی کو اُٹھا لاؤں پھر

تاکہ اُسے اپنے رنگ میں ڈھال سکیں. "

دلاور کا دل ریحاب کا حُسن دیکھ اچھا خاصہ بے ایمان ہوچکا تھا.

"نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ضرور اُس ارحم نے اُس لڑکی کے گرد اپنے آدمی چھوڑ رکھے ہوں گے اور ہم اُسے کسی صورت اِس لڑکی کے حوالے سے مشکوک نہیں کرسکتے. اگلے ایک گھنٹے میں اِس لڑکی کا سارا بائیو ڈیٹا چاہئے مجھے. پھر بتاتا ہوں آگے کیا کرنا ہے. "

غفور کے سختی سے منع کرنے پر وہ بے دلی سے اثبات میں سر ہلاتے باہر نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"اُف میرے خدا یہ رونگ نمبر اب سونے بھی نہیں دے رہے. ابھی سبق سیکھاتی ہوں اِسے میں. "

ریحاب نے غصے سے پھر سے موبائل کی رنگ ٹون بجنے پر غصے سے کال اٹینڈ کی تھی.

"مسئلہ کیا ہے بھئی تمہارے ساتھ. شرم نہیں آتی آدھی رات کو شریف لڑکیوں کو فون کرکے تنگ کرتے ہوئے."

ریحاب آگے سے کسی کو بولنے کا موقع دیے بغیر شروع ہوچکی تھی.

جب اُس کو بلکل پہلے والے موڈ میں بولتے دیکھ ارحم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی. اور گھڑی پر نظر دوڑائی جہاں ابھی صرف آٹھ بجے تھے.

وہ ایک بہت ضروری کام میں بزی تھا اور جیسے ہی فارغ ہوا ریحاب کا خیال آتے ہی فوراً اُسے کال ملائی.

"آئم سوری اگر میری وجہ سے آپ ڈسٹرب ہوئی تو میں نے تو صرف آپ کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تھا. مگر آپ کی آواز نے سب بتا دیا ہے. سو گڈ نائٹ.

ارحم نے تفصیلی جواب دیتے اُس کی کچھ بھی بات سنے بغیر فون بند کردیا تھا.

"حد ہوگئی مجھے کیا پتا تھا آگے سے یہ ہوگا. ایک تو اِس بندے کا اٹیچیوڈ ہی ختم نہیں ہوتا. "

ریحاب نے اُس کے اِس طرح کال کاٹنے پر دانت پیسے جب ایک بار پھر فون بجا تھا.

"دوبارہ کال کرنی تھی تو اتنا نخرہ دیکھانے کی کیا ضرورت تھی. "

دوبارہ کال آتے دیکھ ریحاب نے سوچا

"جی فرمائیں مسٹر ارحم آصف اب پھر کیا ہوا. "

ریحاب کے بولتے ہی آگے سے ایک زور دار قہقہ اُبھرا تھا.

"کون.؟"

ریحاب نے حیران ہوئی.

"یہ بھی پتا چل جائے گا مس ریحاب علی."

ریحاب ٹھٹھکی.

"میرا نام کیسے جانتے ہو اور کیوں کال کی مجھے. اگر اب جواب نہیں دیا تو میں نے کال کاٹ دینی ہے. "

ریحاب اب قدرے سخت لہجے میں بولی.

" نہ نہ ایسی حرکت مت کرنا نقصان اُٹھاؤ گی. ویسے تمہیں فون کرنے کی ایک وجہ یہ بتانا بھی تھا کہ تمہارا بھائی انیس اپنے کالج ٹرپ کے ساتھ سوات پہنچ چکا ہے. "

ریحاب کو اُس کی باتوں اور انداز سے اب گھبراہٹ محسوس ہونے لگی تھی.

"کیا مطلب ہے تمہارا میرے بھائی کو کیسے جانتے ہو تم."

اُس کے منہ سے انیس کا نام سنتے ریحاب نے غصے سے پوچھا

"لگتا ہے آپ کو تو تمہیں سے زیادہ بھی سب کچھ جاننے کی جلدی ہے. چلو تمہاری مشکل آسان کر ہی دیتا ہوں. کل جو کچھ ہوا اچھے سے یاد تو ہوگا ہی سہی."

اُس کی سرسراتی آواز پر ریحاب کے موبائل تھامے ہاتھ کانپے تھے.

"میرے آدمیوں کا تمہارے اُس عاشق نے جو حال کیا ہے. تمہیں کیا لگتا تمہیں چھوڑ دوں گا میں. تمہیں اِس کی سزا تو ضرور ملے گی. زرا کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھو."

اُس کی دھمکی آمیز انداز پر ریحاب مرے مرے قدم اُٹھاتی کھڑکی کی طرف بڑھی تھی. جب ہاسٹل کے باہر ایک آدمی ہاتھ میں بندوق اُٹھائے نظر آیا تھا جس کا رخ ریحاب کی طرف تھا. ریحاب گھبرا کر پردہ گراتی پیچھے ہٹی تھی.

"دیکھو پلیز مجھے معاف کردو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی. میں نے وہ ویڈیو بھی ڈیلیٹ کردی ہے. "

ریحاب منت بھرے لہجے میں بولی اُس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے.

"ایک شرط پر میں تمہیں اور تمہارے بھائی کی جان بخش سکتا ہوں. مگر اگر کسی قسم کی ہوشیاری کرنے کی کوشش کی تو اگلے دن ہی دروازے پر اپنے بھائی کی لاش پاؤ گی."

غفور اُسے پوری طرح دھمکاتے ہوئے اپنی مطلب کی بات پر آیا.

"کیسی شرط. "

ریحاب

"ارحم آصف کے نزدیک ہونا ہوگا تمہیں. اُسے اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر اُس سے شادی رچانی ہوگی. اُس کے اتنے قریب ہونا پڑے گا کہ وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات تمہیں بتائے. اپنے پیچھے پاگل کرنا ہوگا اُسے. مگر اِس طریقے سے کہ اُسے کوئی شک نہ ہو تم پر. وہ ایک آرمی آفیسر ہے اتنی جلدی کسی کے جال میں پھنسنے والا نہیں. مگر تمہاری معصومیت دیکھ چکا ہے آرام سے ہر بات پر یقین کرلے گا. مگر اگر ہمیں اوور سمارٹنس دیکھانے کی کوشش کی تم نے تو اپنی عزت اور زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کو بھی کھو دو گی. "

اُس کی باتیں سنتے ریحاب بلکل شاک ہوچکی تھی. وہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنس چکی تھی اور اِس بارے میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی.

وہ کسی صورت اِن غنڈوں کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونا چاہتی تھی. مگر خود سے بھی زیادہ اُسے اپنے بھائی کی فکر تھی زندگی میں ایک یہی تو خالص رشتہ تھا اُس کے پاس. جسے کھونے کے بعد وہ خود بھی زندہ نہ رہ پاتی. وہ یہ بھی دیکھ چکی تھی کہ وہ لوگ کتنے خطرناک تھے. جو کہہ رہے تھے وہ کر بھی گزرنا تھا.

لیکن ارحم آصف کے احسان کے بدلے وہ اُسے اتنا بڑا دھوکہ کیسے دے سکتی تھی.

"کیا ہوا اتنی دیر لگا کر کیا سوچا جارہا ہے. حالانکہ میں نے تو زیادہ آپشن بھی نہیں دیئے آپ کو. "

غفور اُس کی اتنی لمبی خاموشی پر خباثت سے مسکرایا تھا.

"میں تمہاری یہ شرط ماننے کو تیار ہوں. لیکن تم میرے بھائی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے. "

ریحاب بہتے آنسوؤں کے دوران آنکھیں موندے اذیت سے بولی تھی. اِس کے علاوہ اُس کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا.

"ویری گڈ کافی عقل مند لڑکی ہو تم. مجھے تم سے یہی امید تھی. کل سے اپنا کام شروع کر دو. اور مجھ سے کسی قسم کا رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں. جب بھی کوئی بات کرنی ہوگی میں خود رابطہ کروں گا. اور ایک بار پھر یاد دلا رہا ہوں. تم میرے آدمیوں کی نظر میں ہو زرا سی بھی چالاکی پر بہت بڑا نقصان اُٹھاؤ گی."

وارن کرتے وہ فون بند کرچکا تھا.

ریحاب نے روتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں پر گرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی کو جنرل یوسف نے مشن کی مکمل بریفنگ دے دی تھی. اور آج ارتضٰی نے اپنی ٹیم ممبرز کو اکٹھا کرکے اُن سے میٹنگ کرنی تھی. اور ہر ایک کو اُن کی ڈیوٹیز بتانی تھی.

اپنے دیئے ہوئے ٹائم کے مطابق ارتضٰی نے کانفرنس روم میں قدم رکھا تھا. اُسے اندر داخل ہوتا دیکھ وہاں موجود تمام نفوس اپنی سیٹ سے کھڑے ہوئے تھے.

ارتضٰی کے تعارف کے بعد میجر جاذل, کیپٹن زیمل, کیپٹن ارحم اور کیپٹن سوہا نے اپنا تعارف کروایا تھا. جب ارتضٰی کی نظریں ماہ روش کی خالی پڑی کرسی کی طرف اُٹھی تھیں. اتنے دنوں کی بے قراری کے بعد دل کو آج کہیں نہ کہیں اُمید تھی اُسے دیکھنے کی. مگر اُسے وہاں موجود نہ پاکر غصے کے ساتھ ساتھ اُس کی طبیعت خرابی کا سوچ کر دل مزید بےچین ہوا تھا.

"مے آئی کم اِن سر. "

جیسے ہی وہ سب کی طرف متوجہ ہوا. ماہ روش کی مترنم آواز پر جھٹکے ارتضٰی نے کرسی کا رُخ دروازے کی طرف موڑا تھا.

"نو. "

ماہ روش کو پتا تھا آگے سے ایسا ہی کوئی آرڈر ملنے والا ہے اُسے. جاذل تو اچھے سے واقف تھا ارتضٰی کی کام کے دوران کی سٹرکنس سے مگر باقی سب بھی اُس کا رعب و دبدبہ دیکھ کر کافی کچھ سمجھ چکے تھے.

"کیپٹن ماہ روش میں اپنے کام میں ایک منٹ کی تاخیر برداشت نہیں کرسکتا اور آپ پہلے ہی دن پورے پندرہ منٹ لیٹ ہیں. میرے خیال میں آپ کو ایک بار پھر سوچ لینا چاہئے.کیونکہ میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا. "

ارتضٰی اپنی کرسی سے اُٹھتا دروازے پر اُس کے سامنے جا کھڑا ہوا.

لیکن ماہ روش کا غور سے جائزہ لیتے اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا.

وہ اُسے صدیوں کی بیمار لگی تھی. آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے واضح تھے. چہرے کا گلابی پن مانند پر چکا تھا. ہاتھ میں لگے انجیکشن پلگ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ سیدھی ہاسپٹل سے یہاں آئی ہو. اُس کے نگاہیں بلکل جھکی ہونے کی وجہ سے ارتضٰی کو اُس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہورہا تھا.

"آئم سوری سر آئندہ ایسا نہیں ہوگا. "

اُس کی تپش ذدہ نظروں کے ارتکاز سے گھبرا کر ماہ روش نے نظریں جھکائے ہی جواب دیا.

"اوکے کم اِن. "

ارتضٰی نے جیسے اُس کی حالت پر ترس کھاتے اُس کی جان بخشی کردی تھی. جس پر ماہ روش کو بہت زیادہ حیرت بھی ہوئی تھی. ارتضٰی واپس اپنی چیئر کی طرف بڑھ گیا تھا.

جہاں سب اُن دونوں کی طرف متوجہ تھے.

زیمل نے فکرمندی سے اپنے ساتھ بیٹھتی ماہ روش کی طرف دیکھا. پچھلے ایک ہفتے سے زیمل اُس کے ساتھ ہی تھی اور اُس پر گزرنے والی قیامت سے بھی باخبر ہوچکی تھی. ماہ روش ابھی مکمل طور پر صحت یاب نہ ہوئی تھی. اِس لیے زیمل نے اُسے سختی سے منع کیا تھا. ہاسپٹل سے ڈسچارج ہونے سے مگر ماہ روش نے ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کے آگے کسی بات کی پرواہ نہیں کی تھی تو اب کیسے کرتی یہ اُس کا جنون تھا. جس سے نہ پہلے وہ کبھی گھبرائی تھی اور نہ ہی آگے گھبرانا تھا.

ارتضٰی کے مخاطب کرنے پر سب اُس کی جانب متوجہ ہوئے تھے.

"اِس ملک کے حالات سے تو آپ سب لوگ واقف ہی ہیں. آج کل کے دور میں میڈیا بلکل آزاد ہے ہر طرح کی خبریں چند سیکنڈز میں کونے کونے تک پہنچ جاتی ہیں.

مگر اِس کام میں بھی مافیہ انوالو ہے ملک میں بہت سارے مظالم ایسے بھی ہورہے ہیں جسے بیان کرنے سے میڈیا بھی ڈرتا ہے. کیونکہ اُن کے پیچھے جس شخص کا ہاتھ ہے وہ انڈر ولڈ کا سب سے بڑا بیسٹ مانا جاتا ہے ذی ایس کے. وہ ایک ایسا نام نہاد مسلمان ہے جو صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ بہت سارے مسلم ممالک کا دشمن ہے.

بہت سارے مسلم ممالک کی تباہی کے بعد اب اِس کی نظر پاکستان پر. جس پر وہ پچھلے دس سال سے کام شروع کر چکا ہے. اور بہت ہی تیزی سے یہاں اپنی جڑیں مضبوط بھی کر لی ہیں. پچھلے دس سال سے اِس ملک میں ہونے والی تباہیوں میں ستر فیصد اُس کی پھیلائی گئی ہیں.

باقی تمام ممالک کی طرح پاکستان فورسز کے تمام ادارے پولیس , آرمی, ائیر فورس, نیوی اور یہاں تک کے تمام خفیہ ایجنسیز بھی اُس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں.

جس سے اِس بات کا تو اچھے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُس تک پہنچنا کتنا مشکل ہے. مگر آئی ایس آئی نے دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیز کو پیچھے چھوڑ کر اپنا جو نام اور مقام بنایا ہے اب اُسے ایک بار پھر ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے.

اِس لیے ادارے کے سربراہ نے آپ سب کی قابلیت اور بہادری کو دیکھتے ہوئے اِس نہایت اہم مشن کے لیے چنا ہے. "

ارتضٰی پروفیشنل انداز میں اُن سب کو اپنے مشن کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا.

"ذی ایس کے کا ایک مسلمان ہوتے ہوئے مسلم ممالک سے ہی اتنی نفرت کا کیا ریزن ہوسکتا ہے. "

ارتضٰی کے خاموش ہونے پر جاذل نے وہ سوال اُٹھایا جو وہاں سب کے دماغ میں چل رہا تھا.

"بیس سال پہلے ذی ایس کے پاکستان کا ایک عام شہری تھا. اپنے خاندان کے ساتھ بہت ہی خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا.

اُس کے تین بھائی اور ایک بہن تھی جن میں اُسکی جان بستی تھی. وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا. اُس کے والد مولوی اور ایک بہت ہی نیک شخصیت تھے. جب ایک دن مسجد میں ہونے والے کچھ فتنہ پسند لوگوں کے تنازعہ پر انہوں نے مسجد جیسی پاک جگہ پر ایسا کرنے سے منع کیا اور سختی سے وہاں سے نکل جانے کو کہا. جس کے جواب میں مولوی صاحب کو دھمکاتے وہ وہاں سے تو نکل گئے مگر اپنی بے عزتی کا انتقام لینے کیلئے رات کی تاریکی میں اُن کے گھر داخل ہوکر ذی ایس کے کی آنکھوں کے سامنے اُس کے باپ بھائیوں کو بے دردی سے مارنے کے ساتھ ساتھ اُس کی بہن کی عزت چھینتے اُسے بھی موت کے گھاٹ اتار گئے. ذی ایس کے اُس سب میں معجزانہ طور پر بچ گیا مگر اُس کے دل میں انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کی ایسی نفرت پیدا ہوئی جس نے اُسے انسان سے درندہ بنا دیا.

اپنا بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ اور نجانے کتنے لوگوں کے گھر برباد کرنے کے باوجود بھی اُس کی اندر کی آگ آج تک نہ ختم ہوسکی. اِس لیے جیسے اُس کا گھر تباہ ہوا وہ پاکستان کے ہر گھر کو ایسے ہی تباہ کرنا چاہتا ہے. جس میں پاکستان کے کچھ ملک فروش بھی اُس کو بھرپور سپورٹ کرتے ہر کام میں اُس کے معاون ہیں. اِس کام میں وہ اپنی ایک بیٹی اور دونوں بیٹوں کو بھی شامل کرچکا ہے."

ارتضٰی نے بات کرتے ایک تنفر بھری گہری سرد نگاہ ماہ روش پر بھی ڈالی تھی. اُس کی طرف ہی دیکھتی ماہ روش نے نظریں ملنے پر فوراً نگاہیں چرائی تھیں.

"اُس نے اپنے گینگ میں کافی تعداد میں فی میلز کو بھی شامل کر رکھا ہے. جو کہ پراپر ٹرینڈ ہیں. اُن سے وہ لوگ ہر طرح کا کام لیتے ہیں.

ذی ایس کے کی طاقت کا سب سے بڑا ریزن یہ ہے کہ اُسے امریکہ بھارت اور اسرائیل کی کچھ نام نہاد ایجنسز سپورٹ کررہی ہیں.

اُس کا کام نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا کر دہشتگردی میں ملوث کرنا ہے. ملک کے تقریباً نوے ہزار کے قریب نوجوانوں کو وہ اِس طرح استعمال کرکے موت کے گھاٹ اتار چکا ہے. اور اِس تعداد میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے.

اُس کے خلاف ثبوت ملنا تو دور کی بات ابھی تک پاکستان میں اُس کے ٹھکانے تک کا علم ٹھیک سے نہیں لگایا جاسکا.

اِس مشن میں اِس ادارے کے بارہ افراد اب تک اپنی جان قربان کر چکے ہیں. لیکن پھر بھی ناکام رہے. مگر مجھے پورا بھروسہ ہے یہ ٹیم اِس مشن کے لیے چنی جانے والی آخری ٹیم ہوگی. کیونکہ ہم مٹ جائیں گے لیکن اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پلتے اُس ناسور کو مٹا کر. "

ارتضٰی نے خوش اور جذبے کے ساتھ بات کرتے کہا. اُس کے ہر انداز سے ملک کی محبت واضح ہورہی تھی. اُس کے اتنے پُر یقین انداز پر وہ سب متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے.

"انشاءﷲ سر ایسا ہی ہوگا."

سب نے بھرپور عزم و حوصلے کے ساتھ اُس کی تائید کی تھی.

"اور ایک آخری بات یہ ایک بہت ہی زیادہ آزمائشوں بھرا سفر ہونے والا ہے اِس مشن میں اگر آپ میں سے کسی کے بھی قدم ڈگمگائے تو کسی بھی قسم کی وضاحت کے بغیر میں اُس کا نام و نشان ہی اِس صفہ ہستی سے مٹا دوں گا. "

آخر میں ارتضٰی کے لہجے میں سختی اور آواز میں ہلکی سی غراہٹ نمایاں تھی.

سب کو اُن کی ڈیوٹیز سجھا کر ارتضٰی مزید کوئی بھی بات کیے بغیر وہاں سے نکل گیا تھا.

اُنہیں بھیس بدل کر پہلے کچھ خفیہ ٹھکانوں پر بنائے گئے کلبوں میں جانا تھا جہاں ذی ایس کے کے آدمیوں نے بے حیائی اور فحاشی عام کر رکھی تھی.

کیپٹن زیمل اور میجر جاذل , کیپٹن ارحم اور کیپٹن ماہ روش جبکہ میجر ارتضٰی کے ساتھ کیپٹن سوہا نے جانا تھا جس پر وہ پھولے نہیں سما رہی تھی.

ارتضٰی کے ساتھ جاذل بھی وہاں سے نکل گیا تھا.

"ماہی تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا اب. "

زیمل کو میٹنگ ختم ہوتے ہی فوراً ماہ روش کی فکر لاحق ہوئی تھی.

"آپ کو دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ آپ فورسز کا حصہ ہیں. مجھے تو لگ رہا تھا دروازے پر کھڑے کھڑے گر ہی نہ جائیں. اور لگتا ہے شاید سر کو بھی یہی لگا تھا اِس لیے اتنے آرام سے اندر آنے دیا. "

سوہا نے ماہ روش کی طرف دیکھتے ہنستے ہوئے اُس کا مذاق اُڑایا تھا.

پسند تو اُسے زیمل بھی نہیں آئی تھی مگر ماہ روش کا سوگوار سا حسن کچھ زیادہ ہی پرکشش تھا. اور اُوپر سے ارتضٰی کا اُسے دیکھنا سوہا کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا.

" کیپٹن سوہا شکر کریں آپ دشمنوں کی سائیڈ پر نہیں بلکہ ہماری ٹیم ممبر ہیں. ورنہ اِس حالت میں بھی کیپٹن ماہ روش کے ایک تھپڑ کے بعد آپ کا اُٹھنا بہت مشکل ہوجانا تھا."

زیمل نے اُسی کے انداز میں ہنستے ہنستے اُس کو منہ توڑ جواب دیتے اچھا خاصہ بے عزت کیا تھا.

زیمل کے انداز پر جہاں ارحم اور ماہ روش اپنی ہنسی نہ روک پائے تھے وہیں سوہا پیر پٹختی اُٹھ گئی تھی.

"ویسے میجر ارتضٰی سکندر کچھ زیادہ اکڑو سے نہیں لگ رہے. مجھے تو لگ رہا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں نگل جائیں گے. "

ارحم نے پر مزاح انداز میں کہتے جھڑجھڑی سی لی تھی.

"شرم کرو سینئر ہیں وہ ہمارے. "

ارحم کی بات ماہ روش کو ایک آنکھ نہیں بھائی تھی. اِس لیے اُسے گھورتے ہوئے ٹوکا.

"ماہی تمہیں کیوں بُرا لگ رہا ہے اتنا. ویسے تم نے تو اُن کے ساتھ پہلے بھی ایک مشن کیا ہے نا. "

زیمل مشکوک ہوئی. جب ماہ روش نے اُس کے آگے ہاتھ جوڑتے جان بخشی کروائی تھی. کیونکہ اُسے اِس بات کی بھنک بھی پڑجاتی تو اُسے ماہ روش کی جان عذاب کر دینی تھی.

"میجر جاذل کافی سویٹ سے لگے مجھے. سنجیدہ اور سوبر."

ارحم کے اگلے تبسرے پر زیمل نے کانوں کو ہاتھ لگایا.

"استغرﷲ ارحم کچھ تو خدا کا خوف کروں وہ بندہ کہاں سے تمہیں سوبر لگا."

زیمل نے اُسے لتاڑا. ایک تو پہلے ہی اُس کو میجر کے رُوپ میں دیکھ کر وہ شاک تھی اُوپر سے ارحم کی بات اُسے مزید آگ لگا گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب کو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بلیک میلرز کی جانب سے ایک باکس وصول ہوا تھا. ابھی وہ اُسے کھول ہی رہی تھی جب فون بجا تھا.

"میرا تحفہ تو پہنچ ہی چکا ہوگا تم تک. اُس باکس کو کھولو اور اُس میں جو لاکٹ ہے اُسے پہن لو. اِس لاکٹ کو اپنی گردن سے جدا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت. اِس میں ایک چپ لگی ہے جس میں تمہاری ہر بات ہم تک پہنچے گی. اِس لیے کوئی بھی ہوشیاری مت کرنا اور اگر اِسے گردن سے اُتارا تو ہمیں فوراً سگنل مل جائے گا پھر تم اپنی خیر منا لینا."

اُس نے اچھا خاصہ ڈرانے دھمکانے کے بعد فون بند کردیا تھا. ریحاب جو ارحم کو آج سب کو کچھ بتانے کا ارادہ رکھتی تھی. اب اُس میں بھی ناکامی ہوتے دیکھ مزید پریشان ہوچکی تھی.

اُس کے دل میں خوف سر اُٹھا رہا تھا کہ اگر وہ اتنی باریکی سے اُس پر نظر رکھے ہوئے تھے تو وہ کچھ ایسا ویسا کر کے انیس کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی.

"ارحم کو تو وہ پہلے ہی ملنے کے لیے کال کرچکی تھی اپنا پرس اُٹھاتی ہاسٹل سے نکل آئی تھی.

"وہ دراصل مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا اُس دن جس طرح آپ نے خود کو خطرے میں ڈال کر مجھے بچایا وہ واقعی بہت قابلے تحسین تھا. "

ریحاب کی بات پر ارحم نے آنکھیں پھاڑے اُس کی طرف دیکھا.

وہ دونوں ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے. ریحاب ڈارک بلو سوٹ میں بالوں کو کھلا چھوڑ رکھا تھا. وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سی ارحم کو اپنے طرف متوجہ ہونے پر مجبور کررہی تھی.

"کیا ہوا آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں. "

دل میں چور ہونے کی وجہ سے ریحاب کو اُس کے اِس طرح دیکھنے سے گھبراہٹ ہوئی تھی.

"مجھے یقین نہیں آرہا آپ اتنے مہذب انداز میں بھی بات کرسکتی ہیں. "

ارحم نے اُس کی شکل دیکھتا زور سے قہقہ لگایا تھا.

ریحاب کا دل چاہا تھا اُس کے دو تین دانت تو ضرور توڑ ڈالے اِسے وہ پہلے ہی اتنی زہنی ٹینشن کا شکار تھی اُوپر سے اتنی مشکل ایکٹنگ کرنے پر وہ بجائے اچھے سے بات کرنے کے اُس کا مذاق اُڑا رہا تھا.

"اوکے اوکے آئم سوری آپ ناراض مت ہوں میں صرف مذاق کررہا تھا. "

ارحم نے فوراً معذرت خواہ انداز اپنایا تھا.

ریحاب کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ بات آگے کیسے بڑھائے. زیادہ دیر چپ رہنا بھی ٹھیک نہیں تھا.

"آپ کو کسی قسم کی کوئی دھمکی وصول تو نہیں ہوئی نا. سب نارمل ہے. "

ارحم اُسے جانچتی نظروں سے دیکھتے بولا.

ریحاب کا دل زور سے دھڑکا تھا

"نہیں تو ﷲ کا شکر ہے. میں تو بہت ڈری ہوئی تھی مگر کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا اُنہوں نے مجھ سے. اور جس طرح آپ نے اُن کی دُرگت بنائی تھی. مجھے نہیں لگتا دوبارہ اُن کی ہمت ہوگی. "

ریحاب نے اپنے لہجے کو بہت حد تک نارمل رکھا تھا.

"گڈ یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر پھر بھی آپ کو اپنے اِردگرد کوئی بھی مشکوک انسان نظر آئے مجھے ضرور انفارم کیجئے گا. "

ارحم کی بات پر اثبات میں سر ہلاتے ریحاب نے دو ٹیبل چھوڑ کر بیٹھے شخص کو دیکھا جو مسلسل اُسے گھورے جارہا تھا. اور ہاتھ میں پکڑی نائف گھماتے اُس کا انداز کچھ وارن کرتا ہوا تھا.

"ویسے آپ اصل میں کرتے کیا ہیں پہلی ملاقات میں آپ نے کہا آپ پولیس آفیسر. اُس دن آپ نے خود کو غنڈہ کہا لیکن اُن غنڈوں کے سامنے آپ کا روپ دیکھ آپ تو مجھے اِس سے بھی کوئی بڑی چیز لگ رہے. "

اُس کے بارے میں جانتے ہوئے بھی ریحاب نے جان بوجھ کر لاعلمی کا اظہار کرتے پوچھا.

"ہاہاہاہا ایسا ہی سمجھ لیں کیونکہ میں ایک آرمی آفیسر ہوں. اور پاک فوج کے بارے میں تو آپ اچھے سے جانتی ہی ہوں گی. بڑے بڑے سورماؤں کو مار گرانے کا دم رکھتے ہیں. "

ارحم فخریہ لہجے میں بولا.

جبکہ دوسری طرف اُس کی بات سنتا غفور بل کھا کر رہ گیا تھا.

"واؤ زبردست مجھے تو آرمی آفیسر بہت پسند ہیں کیا آپ مجھ سے فرینڈشپ کریں گے. "

ریحاب جانتی تھی اُس کا انداز بہت ہی بھونڈا تھا مگر اُسے اِس سب کے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں تھا. لڑکے تو دور اُس نے آج تک کبھی کسی لڑکی کے سامنے بھی دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تھا.

کرن لوگوں سے بھی دوستی اُن کی کوششوں کی وجہ سے ہوئی تھی. مگر آج اُس نے سوچ لیا تھا واپس جا کر اُن دونوں سے مکمل ٹریننگ لینی پڑے گی.

"شیور وائے ناٹ. "

اُس کا بڑھا ہوا نازک ہاتھ تھامتے ارحم مسکرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


گاڑی کلب کے سامنے رُکتے ہی ماہ روش اپنا ریڈ گاؤن سنبھالتے باہر نکل آئی تھی.

سیاہ بالوں کو خوبصورت سے جوڑے کی شکل میں سیٹ کیا گیا تھا. فل میک اپ نے اُس کے نقوش کی دلکشی میں مزید اضافہ کر دیا تھا. بالوں کی کٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی لٹیں کان کے پیچھے اڑسنے کے باوجود بار بار نکل کر اُس کے چہرے پر آرہے تھے.

ریڈ کلر میں اُس کی دودھیا رنگت مزید دھک رہی تھی. اُس کا حُسن ایمان شکن ثابت ہورہا تھا. ماہ روش کے گاؤن کا گلا آگے پیچھے سے بہت گہرا تھا. جس کو اُس نے بیوٹیشن سے پنز کے ذریعے سیٹ کروایا تھا.

ارحم ابھی تک نہیں پہنچا تھا. کلب کے باہر مدھم سی ریڈ اور بلو کلر کی لائٹ آن تھی. ماہ روش کو باہر کھڑے ہوکر ارحم کا انتظار کرنا مناسب نہ لگا تھا وہ آگے بڑھی ہی تھی جب پاس رکھی بینچ سے گاؤن اُلجھا تھا. گاؤن تو ماہ روش نے نکال لیا تھا مگر جھٹکا لگنے سے اُس کی پنز کُھل گئی تھیں اور دونوں طرف سے اُس کا گہرا گلا واضح ہورہا تھا.

اُس کے پاس ڈوپٹے کے نام پر ایک چھوٹا سا مفلر تھا جو گلے کو کور کرنے کے لیے ناکافی تھا. آس پاس سے گزرتے مردوں کی ہوس بھری نظروں کو ماہ روش نے بہت مشکل سے برداشت کیا تھا ورنہ دل تو چاہا تھا. اِن کی آنکھیں نوچ لے.

خود پر قابو پاتی وہ کلب کے اندر قدم رکھ چکی تھی. جب کچھ قدم چلنے پر ہی کسی نے پیچھے سے اُس کے پیٹ پر ہاتھ لپیٹتے اپنی جانب کھینچا تھا.

ماہ روش اِس اچانک رونما ہونے والی صورتحال پر مشکوک نہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا خاص ری ایکشن دیے بغیر نارمل انداز میں مزاحمت کرتے اُس کے ساتھ کھنچی چلی گئی تھی. مگر دل بُری طرح دھڑک رہا تھا.

مقابل نے اُسے ایک کمرے میں کھینچ کر دیوار سے لگاتے دروازہ لاک کیا تھا.

"اتنا بے ہودہ لباس پہننے کو کس نے کہا تمہیں. "

ارتضٰی اُس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر دیوار سے لگاتے کان کے قریب جھکتا ہلکی آواز میں دھاڑا تھا. ماہ روش کے وجود پر پڑتی سب کی ہوس بھری نگاہیں ارتضٰی کے سینے میں آگ بھڑکا گئی تھیں.

ارتضٰی کی خوشبو محسوس کرکے ماہ روش نے مزاحمت ترک کر دی تھی اور حیران نظریں خود پر مکمل طور پر حاوی ارتضٰی سکندر کے چہرے پر ڈالی تھیں. جو اُس کےحلیے کو دیکھتے سلگتے ہوئے انداز میں غصے سے پاگل ہورہا تھا.

ماہ روش کی دھڑکنوں میں ایک ارتعاش برپا ہوچکا تھا.

پوری طرح اُس پر جھکے ہونے کی وجہ سے اُس کا چہرا ماہ روش کے بے انتہا قریب تھا. جب ارتضٰی کی نظر اُس کی پیشانی پر موجود نشان پر پڑی تھیں. جو اُسی کا دیا ہوا تھا.

ارتضٰی اُس نشان کو دیکھ کر جیسے بے خود ہوا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اُسے چھونا چاہا تھا. جب ماہ روش کی آواز اُسے واپس ہوش کی دُنیا میں لے آئی تھی. اُس نے جلدی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تھا.

"یہاں انٹر ہونے کے لیے ایسا ہی لباس مناسب تھا. "

ارتضٰی کو ماہ روش کا انداز کافی بدلہ بدلہ سا لگا تھا. جیسے وہ اُس سے دور ہونا چاہتی ہوں گریز برتنا چاہتی ہو.

"یہ لباس مناسب لگا تمہیں امیزنگ. "

ارتضٰی کے دیکھنے کے انداز اور جس حلیے میں ماہ روش اُس کے سامنے کھڑی تھی. اُس کا دل چاہ رہا تھا شرم سے ڈوب مرے.

ارتضٰی اُس کا سُرخ پڑتا چہرا دیکھ اُس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ اچھے سے لگا سکتا تھا.

"سر مجھے اندر جانا ہے کیپٹن ارحم میرا ویٹ کررہے ہوگے. "

ماہ روش بُری طرح نروس ہورہی تھی. لیکن اِس حلیے میں واقعی اندر جانا بلکل مناسب نہیں تھا. مگر اتنا اہم کام چھوڑ کر وہ یہاں سے واپس بھی نہیں پلٹ سکتی تھی. ابھی اِسی کشمکش میں اُلجھی ہوئی تھی. جب ارتضٰی نے اپنا بلیک کوٹ اُتار کر اُس کی طرف بڑھایا تھا.

"اِسے پہن لو. اور آئندہ پہلے خود کو کمفرٹیبل کرنا پھر کسی مشن کے لیے نکلنا."

ماہ روش نے جھجھکتے ہوئے اُس کا کوٹ پکڑتے پہنا تھا. جو باقی سب کچھ تو کور کرگیا تھا مگر آگے سے گلا ابھی بھی واضح ہو رہا تھا.

جسے دیکھ ارتضٰی کا پارہ مزید چڑھ گیا تھا.

ماہ روش نے فوراً رُخ موڑتے پنز لگا کر اُسے سیٹ کرنا چاہا تھا. مگر ارتضٰی کی وجہ سے پزل ہوتے اُس کے ہاتھ بُری طرح کپکپا رہے تھے اور پنز لگ ہی نہیں رہی تھیں.

ارتضٰی پہلے تو بہت مشکل سے ضبط کرکے کھڑے اُسے زور آزمائی کرتے دیکھتا رہا مگر جب بہت دیر بعد بھی وہ ویسے ہی رُخ پھیرے رہی تو ارتضٰی کی برداشت جواب دیتی محسوس ہوئی تھی. کیونکہ اُنہیں باہر بھی جانا تھا پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی.

ارتضٰی نے اُسے کندھوں سے تھام کر واپس اُس کا رُخ اپنی طرف کرتے دیوار کے ساتھ لگایا اور اُس کے ہاتھ سے چھیننے کے انداز میں پن لیتے اُس پر جھکا تھا.

ماہ روش آنکھیں پھاڑے ششدر سی اُسے دیکھ رہی تھی. اُس کے دل کی دھڑکن شدت پکڑ چکی تھیں. اِس سنگدل کی ایک نظر اُسے مشکل میں ڈال دیتی تھی اور اِس وقت اُس کی قربت پر ماہ روش کو اپنی جان نکلتے محسوس ہو رہی تھی.

ارتضٰی کی گرم سانسیں وہ اپنے کندھے پر محسوس کررہی تھی. جو اُس کے کندھے سے گاؤن کو پن سے سیٹ کررہا تھا. مگر ارتضٰی نے اپنا ہاتھ ایک بار بھی اُس کے کندھے سے ٹچ نہیں ہونے دیا تھا. یہی بات تو ماہ روش کو ارتضٰی کا مزید دیوانہ کرتی تھی. جو ایک پختہ کردار رکھتا تھا اور اپنی حدود جانتا تھا.

ماہ روش کے ساتھ ساتھ ارتضٰی بھی اچھی خاصی آزمائش میں پڑ چکا تھا. جلدی جلدی اُس کی پن لگا کر وہ پیچھے ہٹا تھا.

وہ خود کو بہت مضبوط اعصاب کا انسان تھا. مگر اِس لڑکی کے قریب آتے ہی دل اُس کی طرف ہمکنے لگتا تھا. اُس کو پانے کی خواہش کرتا تھا. ایک عجیب سی کشش محسوس ہوتی تھی جو اُسے اِس کی طرف کھینچتی تھی.

ارتضٰی نے محسوس کیا تھا ماہ روش کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا. ارتضٰی اُس سے دور ہوتا فوراً کمرے سے نکل گیا تھا. اُس کو جاتا دیکھ ماہ روش اپنے دل پر ہاتھ رکھتی آنکھیں موند کر دیوار سے سر ٹکاتے خود کو نارمل کرنے لگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بے شرم بے ضمیر لوگ کیسے مسلمان ہیں یہ. ماں باپ سمجھتے ہیں پال پوس کر بڑا کردیا اب ذمہ داری ختم اور یہ لوگ معاشرے کا ناسور بن کر رہ جاتے ہیں. ﷲ ہدایت دے اِنہیں بھی اور اِن کے ماں باپ کو بھی. "

زیمل نے اردگرد پھیلی فحاشی اور بے حیائی دیکھ جھڑجھڑی سی لی تھی. جہاں لڑکیاں لڑکے نشے میں دھت جھومتے ایک دوسرے میں گم تھے.

جاذل نے نظروں کا زاویہ بدلتے زیمل کی طرف دیکھا جو سُرخ چہرا لیے غصے سے اُس کے بلکل قریب کھڑی تھی.

مہرون کلر کی ٹاپ اور کھلے پائنچوں والی جینز پہنے وہ دراز قد ہونے کے باوجود بھی جاذل کے کندھے تک آرہی تھی.

اردگرد کے ماحول کی وجہ سے اُس کے چہرے پر پھیلی سُرخی دیکھ جاذل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری تھی.

"ڈونٹ وری بس تھوڑی ہی دیر ہے اِن کو انجوائے کرنے دیں. "

جاذل کے پر مزاح انداز پر زیمل نے اُسے غصے سے گھورا. جو اب کسی اور طرف دیکھنے میں مصروف تھا.

زیمل نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا مگر سامنے کامنظر دیکھ زیمل کا دماغ گھوم گیا تھا.

جاذل سامنے کھڑی ویٹر کی سکرٹ کو گھور رہا تھا.

"جب محافظ ہی ایسے ہوں تو لٹیروں سے کیسا گلا. آپ کو شرم نہیں آتی کسی لڑکی کو اِس طرح گھورتے ہوئے. وہ بچاری یہاں کس مجبوری کی وجہ سے نوکری کررہی ہوگی."

زیمل اُس لڑکی کی طرف دیکھتی اب کی بار جاذل کا دماغ گھوما گئی تھی.

جاذل نے اُس کے دونوں کندھوں پر دباؤ ڈالتے اپنے نزدیک کیا تھا. زیمل جاذل کے تیور دیکھتی جذبذ سی ہوئی تھی.

"محترمہ کبھی تو کچھ سوچ کر بول لیا کریں. ہر وقت مجھ پر الزام تراشی ہی کرتی رہتی ہیں. میں اُس بچاری لڑکی کی سکرٹ کو نہیں گھور رہا بلکہ سکرٹ کی پاکٹ میں موجود ڈرگز کے پیکٹ کو گھور رہا تھا. جو وہ آپ کی ہاتھ میں موجود ڈرنک کے ساتھ ساتھ باقی سب کی ڈرنکس میں بھی ملا چکی ہے. مجھ پر نظر رکھنے کے بجائے جس کام کے لیے یہاں آئی ہیں اُس پر کنسنٹریٹ کریں گی تو زیادہ بہتر ہوگا. "

جاذل کو بہت کم ہی غصہ آتا تھا مگر اِس وقت اپنے پروفیشن پر کی گئی بات اُسے اچھا خاصہ تپا گئی تھی.

جاذل کی بات پر زیمل نے غور کیا تو وہ ویٹر اُسے بھی بہت مشکوک لگی تھی.

مگر جس طرح وہ ایکٹ کررہی تھی اُس کا نظروں میں آنا اتنا آسان نہیں تھا. زیمل خود کو لتاڑنے کے ساتھ ساتھ جاذل کی ذہانت سے اچھی خاصی ایمپریس بھی ہوئی.

کچھ دیر بعد جاذل کو وہ لڑکی کلب کے اندرونے حصے کی طرف جاتی نظر آئی.

"میں اُس ویٹر کی طرف جارہا ہوں. آئی تھنک وہ یہاں اپنا کام کمپلیٹ کرکے کسی سے ملنے جا رہی ہے. آپ یہاں پر ہی نظر رکھیں اور مجھ سے رابطے میں رہیں گا. "

جاذل زیمل کو ہدایت دیتا نارمل انداز میں چلتا اُس ویٹر کی طرف بڑھا تھا.

جاذل دبے پاؤں اُس کے پیچھے چل رہا تھا. وہ لڑکی کوریڈور کے آخری سرے پر بنی سیڑھیوں سے اُوپر کی طرف جاتی نظر آئی تھی. وہ تھوڑی دیر بعد پیچھے پلٹ کر بھی دیکھ لیتی تھی. جس سے جاذل کو اپنا شک یقین میں بدلتے نظر آیا تھا.

وہ اُوپر آکر دو کمرے چھوڑ کر تیسرے کمرے میں داخل ہوئی تھی.

جاذل نے دروازے کے قریب کھڑے ہوتے اندر کے حالات جاننے چاہئے تھے. اندر سے آتی آوازیں اُس کے شک پر یقین کی مہر ثبت کر گئی تھیں.

جاذل گن نکالتے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا. اچانک کسی کے نوارد ہونے پر اُس شخص کے اُوپر جھکی ویٹر فوراً سیدھی ہوئی تھی.

جاذل نے زرا بھی موقع دیے بغیر اُس شخص کو ایک زور دار مکہ مارتے پیچھے پھینکا تھا. ویٹر نے جاذل کو اپنے ساتھی کی طرف متوجہ دیکھ اپنی گن نکالتے اُس پر وار کرنا چاہا. لیکن جاذل کو بے خبر سمجھنے کی غلطی اُسے بہت مہنگی پڑی تھی.

جاذل اُس کے گولی چلانے سے پہلے ہی اُس کے ساتھی کو دبوچے سلنسر لگی گن سے اُس کے بازو پر فائر کر چکا تھا.

"میجر جاذل ایوری تھنگ اِز آل رائٹ. "

جاذل کو اپنے ائیر پیس سے زیمل کی آواز سنائی دی تھی.

"یس ایوری تھنگ اِز انڈر کنٹرول. "

جاذل کا جواب سن کر مطمئن ہوتے زیمل جیسے ہی آگے بڑھی جب عجلت میں سامنے سے آتے شخص سے بُری طرح ٹکرا گئی تھی.

"اوہ آئم سوری. "

زیمل کی بات کا سر کے اشارے سے جواب دیتے وہ کلب کے ایگزٹ کی طرف بڑھا تھا.

زیمل کی چھٹی حس کو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا تھا. جس پر ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر وہ اُس کے پیچھے بھاگی تھی. وہ بھاگتے ہوئے کلب سے باہر نکل آئے تھے.

اُس شخص نے جیسے ہی زیمل کو اپنے پیچھے آتے نوٹ کیا اُس نے گن نکالتے زیمل پر فائر کیا تھا. اُس کا ارادے سے آگاہ ہوتے زیمل نے فوراً جھک کر خود کو بچایا تھا. وہ بھاگنے کے ساتھ ساتھ بار بار پلٹ کر فائر کر بھی رہا تھا.

جب کچھ آگے آنے کے بعد اُس شخص کے پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اُسے زیمل کہیں نظر نہیں آئی تھی. وہ حیران سا وہاں رُکتا چوکنا ہوکر اردگرد کا جائزہ لینے لگا تھا. جب پیچھے سے زیمل کے اُس کے سر پر زور دار وار کرنے پر وہ اپنے ہوش و حواس کھوتا نیچے جاگرا تھا.

زیمل اُسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے کلب کی طرف بڑھی تھی جہاں اب پولیس سائرن کی آوازیں آرہی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی اور ماہ روش کلب کے اندر موجود تھے. جہاں فل والیم میں میوزک آن تھا. سٹیج پر تین لڑکیاں بہت ہی نازیبا ڈریس پہن کر ناچتیں اپنی اداؤں سے وہاں کھڑے لوگوں کو پاگل کر رہی تھیں.

ماہ روش کو یقین نہیں آیا تھا کہ یہ پاکستان کی ہی کوئی جگہ تھی. جو ملک دین اسلام کے اصولوں کے مطابق آزاد زندگی گزارنے کے لیے بنایا گیا تھا وہاں کچھ اسلام دشمنوں نے اپنے نفس کی تسکین کے لیے ناپاک عزائم شروع کر رکھے تھے.

سٹیج پر رقص کرتی ایک لڑکی اُتر کر نیچے آئی تھی اور بہت سارے مردوں کے قریب سے گزرتے ارتضٰی کے قریب بھی آئی تھی. اُس نے جیسے ہی ارتضٰی کے سینے پر ہاتھ پھیلایا ماہ روش کا دل چاہا تھا. ہاتھ اُٹھا کر اِس بے حیا لڑکی کا گلا دبا دے مگر ارتضٰی کی طرح وہ بھی اپنے جذبات پر قابو پاتے خاموشی سے کھڑی رہی تھی. ماہ روش نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے سے پکڑے بہت مشکل سے کچھ بھی کرنے سے خود کو باز رکھا تھا.

لیکن اگلے ہی لمحے ارتضٰی کی طرف دیکھتے اُسے مزید آگ لگی کیونکہ وہ اُس لڑکی کی طرف سمائل پاس کررہا تھا. اِسی بات کا ہی تو انتظار تھا. اُس لڑکی کو وہ ارتضٰی کو آنکھوں سے کوئی اشارہ کرتی سائیڈ پر بنے رومز کی طرف بڑھ گئی تھی.

ارتضٰی بنا ماہ روش کی طرف دیکھتے اُس لڑکی کے پیچھے بڑھا تھا.

ماہ روش کو ارتضٰی کی مشن کے بارے میں کہی بات اب سمجھ آئی تھی. کہ یہ مشن پہلے والے مشنز سے بہت مختلف تھا. آزمائشوں سے بھرا ہوا اور پہلی آزمائش تو ماہ روش کے سامنے تھی.

ارتضٰی کو اُس لڑکی کے پیچھے گئے پانچ منٹ گزر چکے تھے. ماہ روش کی سانسیں اُسے کسی لڑکی کے ساتھ روم میں اکیلے ہونے کا سوچ کر اٹکی ہوئی تھیں.

اپنے بارے میں جان کر اُس نے یہی سوچا تھا کہ ارتضٰی کے بارے میں اپنے جذبات اپنے آپ سے بھی چھپا کر رکھے گی. اور زندگی میں کبھی بھی اُس کو حاصل کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گی مگر اِس وقت پوری زندگی تو کیا پانچ منٹ بھی عذاب لگ رہے تھے.

ماہ روش کی جان ایسے ہی سولی پر اٹکے پورے 30منٹ گزر چکے تھے. جب اُسے ارتضٰی کے ساتھ وہ لڑکی روم سے باہر آتی دیکھائی دی تھی. دونوں کے چہروں پر موجود مسکراہٹ دیکھ ماہ روش کا دل خاک ہوا تھا.

ارتضٰی نے اُس کے پاس پہنچ کر باہر آنے کا اشارہ کیا تھا اور بنا کچھ کہے آگے نکل گیا تھا.

ماہ روش حیران سی اُس کے پیچھے چل پڑی تھی. اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا. کہ آخر یہ ہوکیا رہا ہے. پہلے ارحم کی جگہ ارتضٰی کا یہاں آنا پھر ارتضٰی کا اُس لڑکی کے ساتھ اتنی دیر کمرے میں بند رہنا اور اب بغیر ریڈ کروائے خاموشی سے نکل آنا.مگر پوچھتی بھی تو کس سے اِس کھڑوس نے بھلا کہاں اُسے کچھ بتانا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب پچھلے ایک ہفتے سے تقریباً روز ہی ارحم کو کال کررہی تھی. کرن لوگوں سے اچھی خاصی ٹریننگ لینے کے بعد اُسے اب کچھ حد تک ارحم کو پٹانے کا آئیڈیا ہوچکا تھا. جس میں اُسے تھوڑی کامیابی نظر آنے بھی لگ گئی تھی.

کیونکہ ارحم اُس کی ہر بات کا اچھے سے رسپانس دیتا تھا. اور دونوں کے درمیان کافی بے تکلفی ہوچکی تھی. مگر ساتھ ہی ریحاب کے لیے پریشانی کی بات یہ بھی تھی کہ ارحم کچھ زیادہ ہی فری ہورہا تھا. اور اُس کی کوئی کوئی بات تو ریحاب کو اچھا خاصہ غصہ دلا دیتی تھی.

اِس وقت بھی وہ اُسی سے ہی بات کرنے میں مصروف تھی.

"آپ نے کبھی اپنی کسی گرل فرینڈ کا ذکر نہیں کیا. کتنی گرل فرینڈز ہیں آپ. میں جانتی ہوں آپ جیسے بندے کی بہت ساری گرل فرینڈز ہوں گی."

ریحاب کی بات کو ارحم نے کافی انجوائے کیا تھا.

اُسے پہلی ملاقات میں ہی یہ کیوٹ سی لڑکی باقی لڑکیوں سے کافی مختلف لگی تھی. اور پھر ہر ملاقات میں اُس نے ریحاب کا الگ انداز دیکھا اُس کا ہر انداز ہی ارحم کو بہت انوکھا اور پیارا لگا تھا.

کالج لائف تک اُس کا سوشل سرکل بہت وسیع تھا جس میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی شامل تھیں. لیکن پھر بعد میں اپنی ٹف روٹین کی وجہ سے وہ اُس سب سے دور ہوچکا تھا.

لیکن اب ریحاب سے بات کرنا اُسے اچھا لگ رہا تھا. اُس کی معصومانہ باتیں وہ بہت انجوائے کرتا تھا.

"نہیں میری کوئی گرل نہیں ہے میں نے آپ کو بتایا تھا میں کتنا شریف انسان ہوں. مگر اب نیت خراب ہوتی محسوس ہورہی ہے. ارادہ بن رہا ہے کیونکہ ایک لڑکی نے دل کو بہت ڈسٹرب کر رکھا ہے."

ارحم کی بات اور انداز پر ریحاب کا دل زور سے دھڑکا تھا.

"اچھا کون ہے وہ لڑکی. "

ریحاب نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ایسی چیپ باتیں بھی کبھی کسی سے کرنا پڑیں گی. مگر اُس کی لائف پہلے کب اُس کی سوچ کے مطابق چل رہی تھی جو اب ایسا ہوتا.

"جس سے اِس وقت میں بات کر رہا ہوں. "

ارحم نے ہونٹ بھینچ کر بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا تھا. کیونکہ آنکھوں کے پردے پر ریحاب کا پھولا ہوا چہرا لہرایا تھا.

"حج جی آپ کا کیا مطلب میں سمجھی نہیں. "

ریحاب دل ہی دل میں اُسے فلرٹی , چھیچھورا اور نجانے کن کن القابات سے نوازتی بظاہر شرمانے کی ایکٹنگ کرتے بولی.

"کوئی بات نہیں جلد ہی آپ کو سمجھ بھی آجائے گی. "

ارحم کی معنی خیز بات ریحاب کے سر سے ہی گزری تھی.

"ویسے آپ بہت کیوٹ اور بیوٹیفل ہو."

ارحم کو اُسے تنگ کرنے میں بہت مزا آرہا تھا.

ایسے ہوتے ہیں شریف لوگ. کتنا بے شرم انسان ہے یہ میرے زرا فری ہونے پر لائنوں پر لائنیں ماری جارہا ہے. یہ بلیک میلرز نے بھی مجھے کس بندے کے پیچھے لگایا ہے. اِس چھیچھورے سے شادی کروں گی میں. کبھی نہیں یاﷲ جی پلیز میری مدد کریں. کیا کروں میں آگے کنواں پیچھے کھائی ہے.

ریحاب کا دل چاہا تھا فون سے نکل کر اُس کا منہ توڑ دے.

"کیا ہوا آپ کو میری بات بُری لگی. "

ارحم نے اُس کی خاموشی نوٹ کرتے پوچھا.

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ مجھے اپنی ایک بہت امپورٹنٹ اسائنمنٹ تیار کرنی ہے تو میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں."

ریحاب نے اُسے خدا حافظ کرتے فون رکھ دیا تھا.

یہ بلیک میلرز میری اِس شخص سے شادی کروا کر اُس سے نہیں بلکہ لگتا ہے مجھ سے کوئی بدلہ لینا چاہتے ہیں.

ریحاب بیڈ پر پھینکتی کمرے سے ہی نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

زیمل تھوڑی دیر پہلے ہی آفس میں داخل ہوئی تھی. جب اُس کی نظر سامنے سے آتے میجر جاذل پر پڑی تھی.

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے. "

زیمل ہاتھ کی اُنگلیاں مروڑتے تذبذب کا شکار تھی.

میجر جاذل کو ہر ملاقات میں سوچے سمجھے بغیر وہ کچھ بھی بول دیتی تھی . مگر اُنہی باتوں پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا. وہ منہ پھٹ ضرور تھی مگر کسی کو اپنی باتوں سے ہرٹ کرنا اُس کا مقصد بلکل نہیں تھا. اُسے محسوس ہورہا تھا کل میجر جاذل کو وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی.

"کیا ہوگیا بھئ آج کیپٹن زیمل کو بات کرنے سے پہلے اجازت کی ضرورت پڑ گئی."

میجر جاذل نے ہاتھ سینے پر باندھتے طنز کیا تھا.

"دیکھئے میں اپنی کل والی بات پر شرمندہ ہوں اور اُسی وجہ سے معذرت کرنا چاہتی ہوں. اِس لیے آپ کو بھی چاہئے کہ شرافت سے میری بات سن لیں."

اُس کے انداز پر زیمل بہت مشکل سے ضبط کرتے چبا چبا کر بولی.

"صرف کل والی بات پر. اور جو پہلی دو ملاقاتوں میں آپ نے مجھ پر الزام لگائے وہ. "

جاذل زیمل کی بات پر آبرو چڑہاتے قدم اُٹھاتے آگے بڑھا تھا.

"وہ تو بلکل ٹھیک کہا تھا میں نے آپ کو. آپ کی حرکتیں ہی ٹھرکیوں والی تھیں. "

اُس کی بات پر زیمل کی زبان ایک بار پھر پھسلی تھی. مگر اپنے الفاظ کی سنگینی محسوس کرتے اُس نے جاذل کی طرف دیکھا جو غصے سے اُس کی طرف بڑھا تھا.

زیمل اُس کے تیور دیکھ جلدی سے پیچھے ہٹی تھی مگر دیوار ہونے کی وجہ سے وہ صرف چند قدم ہی پیچھے ہوپائی تھی.

"آپ ہوش میں تو ہیں کیپٹن زیمل. میں نے آپ پر کب ٹھرک جھاڑا ہے. آپ اِس لفظ کا مطلب بھی جانتی ہیں. "

جاذل دیوار پر اُس کے اِردگرد ہاتھ رکھتے اُس پر جھکا تھا.

"دیکھیں پلیز میرا وہ مطلب نہیں تھا. "

زیمل بُری پھنسی تھی. معافی مانگنے کے بجائے وہ معاملہ مزید بگاڑ چکی تھی.

جبکہ جاذل اُس کی گھبراہٹ پر دل ہی دل میں محظوظ ہوا تھا.

"اب تو آپ کو بتانا ہی پڑے گا کہ ٹھرک پن ہوتا کیا ہے. تاکہ آئندہ آپ کو بولنے سے پہلے کچھ تو آئیڈیا ہو ہی سہی. "

جاذل کی نظریں زیمل سُرخ ہوتے چہرے پر تھیں. دونوں اِس وقت فل یونیفارم میں موجود تھے. جاذل نے زیمل کی آنکھ پر آئے بالوں کی لٹ کو اپنی اُنگلی پر لپیٹا تھا.

"مسٹر جاذل آپ حد سے بڑھ رہے ہیں. "

جاذل کی حرکت پر زیمل نے غصے اور گھبراہٹ سے لال ہوتے باز رکھنا چاہا تھا. اور ہاتھ بڑھا کر اُس کی گرفت سے اپنے بال چھڑانے چاہے تھے. مگر جاذل نے اُس کے ہاتھ کو گرفت میں لیتے اُس کے ہونٹوں پر رکھتے کچھ بھی بولنے سے باز رکھا تھا.

زیمل کوشش کے باوجود بھی اُس سے اپنا ہاتھ آزاد نہیں کروا پائی تھی. اور خونخوار نظروں سے اُسے گھورا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بابا مجھے آپ سے ہر حال میں ملنا ہے. بہت ضروری بات کرنی ہے آپ سے. آپ کتنے دنوں سے مسلسل مجھے ٹال رہے ہیں. "

ماہ روش اپنے دھیان میں فون پر بات کرتی کوریڈور میں داخل ہوئی تھی. اُس کا رُخ جنرل یوسف کے آفس کی طرف تھا.

وہ جانتی تھی آسیہ بیگم نے اُس سے جھوٹ نہیں بولا ہوگا. مگر پھر بھی اپنے دل کی تسلی کے لیے وہ ایک بار ذوالفقار صاحب سے ضرور پوچھنا چاہتی تھی. ساری سچائی جاننا چاہتی تھی. اُس کے دل کو کہیں نہ کہیں امید تھی کہ اُس کے بابا جیسے بھی تھے مگر کسی عورت کے ساتھ اتنا بُرا نہیں کرسکتے تھے.

اور اگر یہ سب سچ تھا تو وہ اُن سے پوچھنا چاہتی تھی اُس کی سگی ماں کون ہے کہاں ہے. جب سے اُسے اِس ادھورے سچ کا پتا چلا تھا وہ ایسے ہی سچائی جانے کے لیے بے چین تھی.

ماہ روش ذوالفقار صاحب سے گھر آنے کا وعدہ لیتے جیسے ہی پلٹی کچھ ہی فاصلے پر ارتضٰی کھڑا اُسے نفرت بھری نظروں سے گھور رہا تھا.

شاید وہ اُس کی باتیں سن چکا تھا. اور اُس کا اپنے باپ سے اتنی محبت سے بات کرنا ارتضٰی کو دہکتے کوئلوں پر دھکیل گیا تھا. دونوں لبوں کو مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے اُس کی کنپٹی کی رگ واضح ہورہی تھی.

ماہ روش نے ناسمجھی سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جس پر ارتضٰی نخوت سے سر جھٹکتا آگے بڑھا تھا. مگر چند قدم چل کر اُسے وہیں رُکنا پڑ گیا تھا.

اُس کے رُکنے پر ماہ روش نے بھی سامنے دیکھا مگر وہاں نظر آتے سین پر ماہ روش بھی ساکت ہوئی تھی.

جاذل اور زیمل ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے ہوئے تھے. ماہ روش نے ارتضٰی کے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے دل ہی دل میں زیمل کو کوستے شرمندگی سے سر جھکایا لیا تھا.

جب ارتضٰی کے کھنکھارنے پر وہ دونوں اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہڑبڑا کر سیدھے ہوئے تھے. کیونکہ وہ ارتضٰی کے آفس کے آگے ہی کھڑے تھے جس پر بے دھیانی میں دونوں نے ہی خیال نہیں کیا تھا.

زیمل پہلے ہی بُری طرح شرمندہ تھی اُوپر سے ماہ روش کے آنکھیں پھاڑ کر گھورنے پر مزید شرمندہ ہوتی جلدی سے وہاں سے نکل گئی تھی.

اُس کے ساتھ ماہ روش نے بھی منظر سے ہٹنا ہی مناسب سمجھا تھا.

جبکہ ارتضٰی نے نفی میں سر ہلا کر جاذل کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی. جس پر اُس نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا ئے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"یہ کیا چل رہا تھا باہر. "

ماہ روش زیمل کے پیچھے سٹاف روم میں داخل ہوتے بولی.

"ماہی تم مجھ پر شک کر رہی ہو. "

زیمل نے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگایا تھا.

"میں نے جو پوچھا ہے پہلے اُس کا جواب دو. "

ماہ روش اُسے ایک کے بعد پانی کا دوسرا گلاس چڑاہتے اُس کے ہاتھ سے گلاس چھینتے ہوئے بولی.

ارحم اُن دونوں کو دیکھ کر مسکراتے واپس موبائل میں مصروف ہوچکا تھا.

"ماہی کیا ہوگیا ہے یار. شکی بیویوں کی طرح کیوں بی ہیو کررہی ہو. اور باہر ایسا کچھ نہیں ہورہا تھا جو تم سمجھ رہی ہو. وہ میجر جاذل ایک نمبر کا چھیچھورا انسان ہے اور میرا دماغ خراب ہوگیا تھا. جو اُس سے بات کرنے چلی گئی تھی. پتا نہیں سر ارتضٰی میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے. "

زیمل کو جاذل پر اچھی خاصی تپ چڑھی ہوئی تھی جو دوسری بار اُسے ارتضٰی کے سامنے شرمندہ کروا چکا تھا.

"وہی سوچ رہے ہوں گے جو اِس وقت میں سوچ رہی ہوں."

ماہ روش ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی.

"یار ایسا کیا ہوگیا باہر جو تم لوگ ایسے پنجے جھاڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے پڑ گئی ہو. "

ارحم نے ویسے ہی موبائل میں مصروف اُن سے پوچھا تھا. جس پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی ارحم کی طرف متوجہ ہوئیں.

کچھ دنوں سے وہ نوٹ کررہی تھیں ارحم کچھ زیادہ ہی موبائل پر مصروف رہنے لگ گیا تھا.

"ہماری چھوڑو تم کس کے ساتھ بزی ہو. "

ماہ روش اُس کے پیچھے سے جاکر موبائل چھینتے بولی.

"ماہ روش یہ کیا حرکت ہے میرا موبائل واپس کرو. "

ارحم فوراً اُٹھتے ماہ روش کی طرف لپکا تھا

"ماہی جلدی دیکھو یہ آس پاس سے بےگانہ ہوکر کس سے بات کر رہے ہمارے کیپٹن ارحم. "

زیمل نے ہنستے ہوئے درمیان میں آتے اُسے وہیں روک دیا تھا.

"واؤ یہ ڈی پی والی لڑکی تو بہت کیوٹ ہے. ریحاب نام تو اُس سے بھی زیادہ پیارا ہے. "

ماہ روش جلدی جلدی موبائل کنگھالتے بولی.

"ماہ روش یہ بہت غلط ہے موبائل واپس کرو مجھے. "

ارحم زیمل کو سائیڈ پر کرتا ماہ روش کی طرف آیا تھا. ماہ روش سر نفی میں ہلاتے پیچھے کی طرف بھاگی تھی اور اندر داخل ہوتے ارتضٰی کو نہ دیکھتے اُس کے چوڑے سینے سے جاٹکرائی تھی. اُس کے سینے سے شرٹ دبوچ کر خود کو گرنے سے بچایا تھا کیونکہ ارتضٰی نے اُسے تھامنے کی کوشش بلکل نہیں کی تھی.

ارتضٰی کو وہاں دیکھ زیمل اور ارحم فوراً ہاتھ پیچھے باندھتے سر جھکا گئے تھے. جبکہ ماہ روش فوراً ارتضٰی سے دور ہوئی تھی.

"کیپٹن ماہ روش اگر آپ نے دل کھول کر اچھے سے انجوائے کر لیا ہوتو تھوڑا سا ٹائم کیس پر بھی لگا لیں. اِس طرح کا نان سیریس بی ہیوئیر میں بلکل برداشت نہیں کروں گا. "

ماہ روش پر اُسے پہلے ہی شدید غصہ آیا ہوا تھا اور ابھی ارحم کے ساتھ اُسے کھلکھلاتا دیکھ مزید بڑھ گیا تھا.

"کیپٹن ارحم ابھی اور اِسی وقت میرے آفس میں آئیں آپ. "

ارتضٰی کے سرد انداز پر ارحم کو بھی اپنی شامت آتی نظر آئی تھی.

ارتضٰی کے جانے کے بعد اُن دونوں نے ماہ روش کا اُترا ہوا چہرا دیکھا. کچھ دیر پہلے جو شرارت سے چمک رہا تھا اِس وقت مرجھا چکا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"یس سر آپ نے بلایا مجھے. "

چند ہی منٹ بعد ارحم ارتضٰی کے آفس میں اُس کے سامنے موجود تھا.

جب ارتضٰی نے کچھ لمحے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھتے دراز سے ایک لفافہ اور فائل اُٹھا کر ٹیبل پر ارحم کے سامنے رکھی تھیں. اور آنکھوں کے اشارے سے ارحم کو اُنہیں کھولنے کا کہا تھا.

ارحم نے جیسے ہی لفافہ کھولا اُس میں ارحم کی ریحاب کے ساتھ بنائی گئی بہت ساری تصویریں تھیں. ریحاب کے ساتھ کھڑے , غنڈوں کو مارتے اور ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے.

اور ساتھ پڑی فائل میں ریحاب کی ساری ڈیٹیلز تھیں.

"میں اِس سب کے بارے میں کچھ نہیں پوچھنا چاہتا. کیونکہ مجھے ایک ایک بات کے بارے میں علم ہے. صرف اتنا بتائیں کیا آپ اِس لڑکی کہ ساتھ سیریس ہیں یا یہ صرف اپنے مقصد کی خاطر کر رہے ہیں. اگر ایسا ہے تو کوئی اور راستہ اختیار کرلیں. کیونکہ آپ اچھے سے جانتے ہیں اپنے مقصد کے لیے کسی کے جذبات سے کھیلنا ہم لوگوں کا شیوہ بلکل نہیں ہے. "

ارحم نے فوراً ارتضٰی کی طرف دیکھا مگر اُس کا بے تاثر چہرا دیکھ سر جھکا گیا تھا.

"سر ایسا نہیں ہے. "

ارحم کو سمجھ ہی نہیں آیا تھا کیا کہے.

"آپ کو آگے چل کر اِس لڑکی سے نکاح بھی کرنا پڑسکتا ہے.؟"

ارتضٰی نے کھوجتی نظریں اُس پر گاڑھی تھیں. جب ارحم نے ارتضٰی کو بخشنے کے موڈ میں نہ دیکھ گہری سانس ہوا میں خارج کی تھی.

"سر آئم ہنڈرنڈ پرسنٹ شیور. میں خود کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار کر چکا ہوں. اور اُس لڑکی کی عزت اور حفاظت کی ذمہ داری اب میری ہے. "

ارحم کے مضبوط لہجے پر ارتضٰی مطمئین ہوتے اُسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا.

ارحم کے نکلتے ہی جاذل اندر داخل ہوا تھا.

"میجر ارتضٰی آپ نے ہمیشہ غلط ٹائم پر انٹری مارنے کی قسم کھا رکھی ہے کیا. ہائے کاش میں بھی کبھی آپ کی ایسی ہی کوئی حرکت پکڑتا."

جاذل کی بات پر ارتضٰی نے اُسے گھورا تھا.

"شرم تو نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے. اچانک ہو کیا گیا ہے تمہیں. سب ٹھیک تو ہے نا. اگر دوبارہ کیپٹن زیمل کے اردگرد ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. "

ارتضٰی کے انداز پر جاذل نے قہقہ لگایا تھا.

"یار ایسی کوئی بات نہیں ہے. جو تم سمجھ رہے ہو. ویسے کیپٹن زیمل ہے بڑے مزے کی چیز. جب بھی سامنے آتی ہے اُسے تنگ کرنے پر بہت دل کرتا ہے. "

جاذل کو آج زیمل کا گھبرانا بہت مزا دے گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


چاروں اُور رات کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی. وہ تیز تیز قدم اُٹھاتے آگے کی طرف بڑھ رہی تھی. بلیک کلر کی ہُڈ والی جیکٹ پہنے وہ رات کا ہی ایک حصہ لگ رہی تھی. جس نے اُس کے سر کے ساتھ ساتھ آدھے چہرے کو بھی کور کر رکھا تھا.

آفس کی مین بلڈنگ کے پاس پہنچتے اُس نے گہری نظروں سے سیکیورٹی کو جائزہ لیا تھا. مین انٹرنس پر دو سیکورٹی گارڈز بیٹھے نظر آئے. اُس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی بے ہوش کرنے والی ڈوؤب گن نکالی.

ڈوؤب گن کا رُخ گارڈز کی طرف کرتے پہلے ایک اور پھر دوسرے کی گردن پر ڈاٹ فائر کیا. جس اُن کی گردنیں وہیں لڑھک گئیں.

آگے بڑھنے سے پہلے وہ انٹرنس کی طرف رُخ کرکے لگائے گئے. سی سی ٹی وی کیمرہ کی طرف دیکھتے دائیں طرف مڑی جہاں ایک بلب لگا ہوا تھا.

اُس نے پہلے بلب کو ہولڈر سے نکالا اور پھر ہولڈر کی جگہ پر سکہ رکھ کر واپس بلب لگا دیا. اُس کے ایسے کرتے ہی فیوذ اُڑنے کی ایک زور دار آواز گونجی. اور ساتھ ہی لائٹ بند ہوگئی. وہ جانتی تھی جنریٹر سٹارٹ ہونے اور کیمروں کو دوبارہ آن ہونے میں پانچ منٹ لگ سکتے تھے. اِس لیے جلدی سے انٹرنس کی طرف بڑھتے اُس نے پہلے گارڈز کی گردنوں سے پنز نکالی اور پھر اُنہیں اِس طرح بیٹھایا جیسے دیکھنے والے کو لگے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سو گئے ہیں.

جلدی سے ڈپلیکیٹ کیز سے دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوئی. اُسے یہ سب کرتے دو منٹ گزر چکے تھے.

جلدی جلدی لاکر روم کی طرف بڑھتے اُس کا بھی لاک اوپن کرتے وہ اندر داخل ہوئی اور ٹارچ آن کرتے اپنے مطلوبہ لاکر کی جانب بڑھی. اُسے اِس بات کی تسلی تھی. کہ لاکر روم میں کوئی کیمرہ نہیں تھا.

لاکر میں موجود فائل دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اُبھری تھی. فائل نکالتے وہ ابھی اُسے کھولنے ہی لگی تھی جب اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس کرتے وہ پلٹی تھی.

مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ گھبراہٹ اور پکڑے جانے کے خوف سے فائل اُس کے ہاتھ سے چھوٹتی زمین پر جا گری تھی.

"واؤ امیزنگ مس ریحاب مجھے یاد کر رہی ہیں. یہ معجزہ کیسے ہوگیا. "

ارحم ریحاب کی بات پر مسکرایا تھا. جس نے اُس کے بار بار پوچھنے پر تنگ آتے بول دیا تھا. کہ وہ اُسے بہت زیادہ مس کررہی ہے.

" آپ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں. اب کیا میں آپ کو مس بھی نہیں کرسکتی. "

اُس کے پُر مزاح لہجے پر ریحاب نے منہ پُھلایا.

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں. میری بھلا اتنی مجال کہاں. ویسے مس تو میں بھی آپ کو بہت کررہا ہوں. ایک ملاقات ہو ہی نہ جائے. آپ سے ایک بہت ضروری بات بھی کرنی ہے. "

ارحم کی بات پر ریحاب گھبرا کر سیدھی ہوئی تھی.

"نہیں ابھی کیسے مل سکتے. میرا ہاسٹل کا گیٹ بند ہوچکا اب مجھے باہر جانے کی پرمشن نہیں ہے. "

ریحاب کو آج زندگی میں پہلی بار ہاسٹل کے رولز بہت اچھے لگے تھے.

"آپ باہر نہیں آسکتی مگر میں تو اندر آسکتا ہوں نا. میرا بہت دل کررہا ہے آپ سے ملنے کو. "

ارحم اُسے مزید تنگ کرتے بولا.

"آپ کیسے آسکتے میرا مطلب اِس ٹائم ہاسٹل میں کسی کو انٹر ہونے کی اجازت نہیں. "

ریحاب نے اُسے بتانے سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی.

"اُس کی آپ فکر مت کریں. بس فوراً گراؤنڈ میں لیفٹ سائیڈ پر بنے جھولے کے پاس پہنچ جائیں میں تھوڑی دیر تک وہیں آپ کو ملتا ہوں اوکے بائے. "

ارحم اُس کی بات سنے بغیر عجلت میں فون رکھ چکا تھا. جبکہ ریحاب کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا تھا.

واقعی یہ فوجی لوگ اُلٹی کھوپڑی کے ہوتے ہیں

مذاق میں کی گئی بات کو سیریس ہی لے گیا ہے. پر لگتا ہے ابھی تک ہاسٹل کی دیواروں کو ٹھیک سے جائزہ نہیں لیا. اب ہاتھ پاؤں تڑوائے گا نا تب ہی مزا آئے گا.

ریحاب بڑبڑاتے ہوئے باہر کی طرف بڑھی تھی.

ریحاب کو انتظار کرتے پندرہ منٹ گزر چکے تھے مگر ابھی تک ارحم کا کوئی اتا پتا نہیں تھا. ریحاب ریلیکس سی ہوکر جھولے پر جا بیٹھی تھی. وہ جانتی تھی ارحم ہاسٹل کی اتنی ٹائٹ سیکیورٹی میں اندر قدم رکھ ہی نہیں سکتا. مگر شاید وہ ابھی اچھے سے ارحم کو جانتی نہیں تھی جو اتنے مشکل مشن کرچکا تھا کہ ہاسٹل کی یہ دیوار پار کرنا اُس کے لیے عام بات تھی.

ارحم نے جیسے ہی اندر جمپ کیا اُس کی نظر سیدھی کچھ فاصلے پر موجود جھولے پر بیٹھی ریحاب پر پڑی. جو چاند کو گھورتے نجانے کونسے شکوے کرنے میں مصروف تھی.

گراؤنڈ کا یہ حصہ قدرے تاریک تھا.

ڈھیلے ڈھالے بلیک ٹراؤزر اور ریڈ ٹی شرٹ پہنے بلیک کلر کی شال کو کندھوں کے گرد لپیٹے بالوں کو جوڑے کی شکل میں اونچا کرکے کیچڑ میں مقید کررکھا تھا.

رف سے حلیے میں بھی وہ ارحم کے دل کی دنیا ہلا گئی تھی.

ارحم کچھ دیر کھڑا اُس کے حسین مکھڑے کو دیکھتا رہا پھر قدم اُٹھاتا اُس کے پاس جھولے پر آبیٹھا.

ریحاب اپنے خیالوں میں اتنی گم تھی کہ اچانک ارحم کے ساتھ بیٹھنے پر ڈر کے مارے اُس کی چیخ نکل گئی تھی جسے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر ارحم دبا گیا تھا.

ریحاب حیرت سے آنکھیں پھاڑے اپنے بلکل ساتھ جُڑ کر بیٹھے ارحم کو دیکھ رہی تھی. جھولے پر وہ دو لوگ آرام سے بیٹھ جاتی تھیں مگر ارحم کے چوڑے وجود کی وجہ سے ریحاب بلکل پیچھے پھنس چکی تھی.

اُوپر سے جس طرح ارحم اُس کے منہ پر ہاتھ رکھے جھکا ہوا تھا. اِس بات پر ریحاب کی مزید جان نکلی جارہی تھی.

ریحاب کی موٹی موٹی آنکھیں خوف سے مزید بڑی ہوکر ارحم کو بہکنے پر مجبور کررہی تھیں. مگر اپنے جذبات پر قابو پاتے وہ اُس کے ہونٹوں سے ہاتھ اُٹھاتے سیدھا ہوا تھا.

"دیکھ لیں آپ یاد کر رہی تھی اور میں آپ سے ملنے پہنچ گیا. "

ارحم خود کو نارمل کرتا ریحاب کی طرف دیکھتا بشاشت سے بولا. جو اُس کے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے لال ٹماٹر ہوچکی تھی.

اُس کی بات کا بمشکل مسکرا کر جواب دیتے ریحاب نے وہاں سے اُٹھنا چاہا تھا مگر ارحم نے اُس کا بازو پکڑ کر دوبارہ واپس بیٹھا دیا تھا.

"مجھ سے شادی کریں گی. "

ارحم نظریں اُس کے چاندنی چھلکاتے چہرے پر گاڑھے بولا.

جب کہ ریحاب نے اچانک ملنے والے اِس نئے جھٹکے پر حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھا.

اُس کی اِس انوکھی ادا پر ارحم کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل گئی تھی.

وہ اِس طرح منہ کھولے اُسے بہت کیوٹ لگی تھی. ارحم نے ریحاب کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اُس کا منہ بند کیا تھا. جس پر ریحاب فوراً ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی.

"کیا ہوا آپ کو میری بات پسند نہیں آئی. "

ارحم نے اُس کی خاموشی پر سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا.

"نہیں ایسی بات نہیں مگر شادی اِس طرح کیسے. ابھی نہ آپ میرے گھر والوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ میں. "

ریحاب سے اُس کی نظروں سے پزل ہوتے کچھ بولا ہی نہیں گیا تھا.

"اُس بات کی فکر مت کریں آپ. میں آپ کی فیملی کے بارے میں سب جانتا ہوں. اور جہاں تک میری فیملی کی بات ہے تو بہت جلد آپ کو اُن سے ملوا دوں گا. میری فیملی ویسے بھی کوئی لمبی چوڑی نہیں ہے. ایک ڈیشنگ سے بابا ہیں اور ایک سویٹ سی ماما اور میں اُن کو آپ کے بارے میں سب بتا چکا ہوں. وہ تو بے صبری سے آپ سے ملنے کا انتظار کر رہی ہیں. کیا اب بھی آپ کو اعتراض ہے. "

ارحم نے گہری نظروں سے ریحاب کے چہرے کے اُتاڑ چڑھاؤ کا جائزہ لیتے بولا.

"نہیں ایسی بات نہیں ہے. "

ریحاب نے بے چینی سے اُنگلیاں چٹخائی تھیں.

"ڈونٹ وری بیوٹی فل گرل آپ آرام سکون سے سوچ کر جواب دیں کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں ہے. "

وہ اچھے سے ریحاب کی کیفیت سمجھ رہا تھا. اِس لیے اُسے مزید تنگ کرنا ترک کرتے وہاں سے اُٹھنے کا فیصلہ کیا تھا.

اُس کی بات پر ریحاب نے ایک نظر ارحم کے وجیہہ چہرے پر ڈالی.

"گڈ نائٹ. "

اُس کے دیکھنے پر ارحم ہولے سے ہاتھ بڑھا کر اُس کے گال کی نرماہٹوں کو محسوس کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.

جبکہ ریحاب ساکت سی کتنی ہی دیر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی تھی.

ارحم کی باتیں اور انداز اُس کا دل کسی اور ہی لے پر دھڑکا گئے تھے. وہ اِس وقت خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر بوجھل دل کے ساتھ روم کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"کیپٹن ماہ روش کیا ہورہا ہے یہاں. "

جنرل یوسف کے بولنے کے ساتھ ہی لائٹ بھی آن ہوچکی تھی.

اُنہوں نے چہرے پر سخت تاثرات سجائے اُسے گھورتے آگے بڑھ کر فائل اُٹھا لی تھی.

اور کھول کر ماہ روش کے سامنے کیا تھا. اُس میں چند غیر ضروری کاغذات کے علاوہ کچھ نہیں تھا.

جنرل یوسف کو پہلے ہی آئیڈیا ہوچکا تھا کہ ماہ روش یہاں تک پہنچنے والی ہے اِس لیے اُنہوں نے ساری انفارمیشن اِس لاکر سے نکال لی تھی.

"آئم ریلی سوری انکل میں جانتی ہوں یہ بہت ہی غلط حرکت کی میں نے لیکن میں جاننا چاہتی ہوں ایسا کیا ہے میرے پاسٹ میں کے جس کو بھی اُس کے بارے میں پتا چلتا ہے وہ مجھ سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے. پلیز انکل آپ سب جانتے ہیں نا دادو نے آپ کو سب بتایا ہوا تھا نا. میری مشکل دور کر دیں. ورنہ میں اِس بارے میں سوچ سوچ کر ہی پاگل ہوجاؤں گی. "

ماہ روش روتے ہوئے اُن کے قدموں میں بیٹھ چکی تھی.

ماہ روش کو اذیت میں دیکھ کر اُن کا دل بھی دُکھا تھا. اور نم آنکھیں لیے اُسے کندھوں سے پکڑ اپنے سامنے کھڑا کیا تھا.

"بیٹا کیا آپ اتنی ہمت رکھتی ہیں کہ سچائی سن پائیں گی. "

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش نے بھیگی آنکھیں اُٹھائی تھیں. اور زور و شور سے اثبات میں سر ہلایا تھا.

وہ کتنے ٹائم سے یہاں تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھی. اور آج اتنے قریب پہنچ کر وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی.

"خالہ جان نے ہی مجھے منع کیا تھا آپ کو کچھ بھی بتانے سے. وہ آپ کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں.اور سچائی جاننے کہ بعد آپ کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے. "

ماہ روش نے ناسمجھی سے اُن کی طرف دیکھا تھا. ایسا کیا تھا اُس کے پاسٹ میں. اور کس سے خطرہ ہوسکتا تھا اُسے.

"لیکن اب تو میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں نا. میں پہلے کی طرح کمزور نہیں رہی. اب تو آپ مجھے سب بتاسکتے ہیں. "

ماہ روش آج ہر حال میں سچائی جاننا چاہتی تھی.

"اوکے میں وعدہ کرتا ہوں آپ کو ایک ایک بات بتاؤں گا مگر اُس کے لیے آپ کو تھوڑا سا انتظار اور کرنا ہوگا. جہاں اتنا انتظار کیا ہے سات دن اور کر لیں. پھر آپ کے ایک ایک سوال کا جواب دوں گی.

اور ایک بات اور اپنی ماں کی کہی کسی بات کا بھی ذکر اپنے باپ سے نہ کرنا. "

جنرل یوسف بات کرکے اُسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے وہاں سے نکل آئے تھے. جب ماہ روش بوجھل سانس ہوا میں خارج کرتی اُن کے پیچھے وہاں سے نکل آئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ذی ایس کے اپنی پانچ گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ اپنے عالی شان بارہ منزلہ ذی ایس کے پلازے میں داخل ہوا تھا. جس میں ایک ایک قدم کی دوری پر گارڈز موجود تھے.

گاڑیوں کے رُکتے ہی گارڈز نے بھاگ کر قریب آتے دروازہ کھولا تھا.

ذی ایس کے مغرور سی اکڑی ہوئی گردن اُٹھائے گاڑی سے نکلتا بلڈنگ کے اندر داخل ہوا تھا. جہاں بلیک کلر کی وردی میں اسلحہ سے لیس سینکڑوں کی تعداد میں گارڈز چوکنے سے کھڑے تھے. جہاں جہاں سے وہ گزر رہا تھا وہاں کھڑے گارڈز اپنا سر جھکا دیتے تھے. جیسے اُس کی طرف دیکھنے سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوجانا تھا.

جیسے ہی اُس نے وسیع ہال میں قدم رکھا وہاں صوفے پر بیٹھے نفوس بھی فوراً احتراماً کھڑے ہوئے تھے.

ذی ایس کے شان سے چلتے بڑے سے صوفے پر جا بیٹھا تھا. اُس کو بیٹھتا دیکھ باقی سب بھی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوئے تھے.

"بُرہان کیا خبر ہے یہاں کی. "

خان کے سنجیدہ انداز پر بُرہان تھوڑا گھبرایا تھا.

"بابا ہمارے دو کلب پر ریڈ کرکے اُنہوں نے چار افراد کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ وہ جگہ اپنے قبضے میں لے لی ہے اور حیرت کی بات کے سب سے بڑے کلب کو چھوڑ دیا گیا اور نہ ہی کسی مشکوک شخص کی کوئی حرکت دیکھی گئی وہاں . سیکیورٹی کافی ٹائٹ تھی شاید یہ ریزن بھی ہوسکتا. "

خان کے چہرے کا رنگ ایک دفعہ غصے کی وجہ سے متغیر ہوا تھا. مگر پھر اگلے ہی پل خود کو نارمل کرتے گویا ہوا.

"لگتا ہے میری کچھ دنوں کی خاموشی بہت گراں گزری ہے اُن پر. جو پھر سے اپنی تباہی اور بربادی کو دعوت دینے نکل پڑے ہیں.

مگر جانتے نہیں چند دنوں بہت جو میں کرنے والا ہوں وہ اُن کے ملک کی بنیادیں ہلا دے گا. اور جب ہر طرف چیخ و پکار ہوگی مجھے بڑا مزا آئے گا."

خان کے بات کرنے کے ساتھ ہی ایک بے ہنگم قہقہ وہاں گونجا تھا جس میں اُس کا ساتھ وہاں موجود سب لوگوں نے دیا تھا.

ذی ایس کے کچھ دنوں کے لیے آؤٹ آف کنٹری گیا ہوا تھا. اِس لیے اپنے آدمیوں کی گرفتاری اور اپنے دو اتنے بڑے اڈوں کے بند ہوجانے پر ہونے والے نقصان کا سن کر وہ اندر ہی اندر بھڑک اُٹھا تھا. آج تک اُس نے ناکامی کا منہ نہیں دیکھا تھا باقی ملکوں کی طرح وہ پاکستان کی بھی اندر ہی اندر سے جڑیں کاٹنا شروع ہوچکا تھا. اپنے خلاف تیار کی ہوئی کتنی ہی ٹیموں کو ٹھکانے لگا چکا تھا.

اور اِس بار بھی پوری طرح اُن سب کا مقابلہ کرنے کو تیار تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش عجلت میں مال کے اندر داخل ہوئی تھی. زیمل کا بڑتھ ڈے آرہا تھا اور گفٹ نہ ملنے پر زیمل نے اُسے کسی صورت نہیں بخشنا تھا. اِس لیے اپنی تمام ٹینشن پریشانیوں اور مصروفیات سے بہت مشکل سے ٹائم نکال کر وہ یہاں پہنچی تھی.

جلدی جلدی زیمل کے لیے ایک ڈریس پسند کرکے وہ پیمنٹ کے لیے کاؤنٹر کی طرف بڑھی تھی.

"ایکسکیوزمی میم."

ماہ روش نے آواز پر جیسے ہی پلٹ کر دیکھا سامنے ہی ایک خوبرو سا شخص اُسے پرشوق نظروں سے دیکھتا نظر آیا.

"جی."

ماہ روش نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا.

"کیا آپ میری ایک ہیلپ کرسکتی ہیں."

اُس کی بات پر ماہ روش نے اچھنبے سے پہلے اُسے اور پھر اُس کے پیچھے گن اُٹھائے کھڑے دو ہٹے کٹے آدمیوں کی طرف دیکھا.

"ہیلپ؟. میں کیا ہیلپ کرسکتی ہوں آپ کی. "

ماہ روش نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے عجلت میں کہا.

جب کے مقابل کو تو نگاہیں اُس کے حسین چہرے سے ہٹانا اِس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام لگا تھا.

مگر ماہ روش کے بدلتے تاثرات پر وہ فوراً سنبھلا تھا.

"مجھے اپنی سسٹر کے لیے کچھ شاپنگ کرنی ہے. اور آج سے پہلے میں نے کبھی لیڈیز شاپنگ نہیں کی کیا آپ میری ہیلپ کرسکتی ہیں. "

ماہ روش سے بات کرتے ہمایوں کے چہرے سے مسکراہٹ ایک پل کے لیے نہیں ہٹی تھی.

شاپنگ تو اُس نے اپنی سسٹر کے لیے ہی کرنی تھی. مگر وہ لیڈیز شاپنگ پہلے بھی کرچکا تھا. اور اچھا خاصہ ایکسپرٹ بھی تھا.

اُسے ماہ روش کی دلکشی نے بہت متاثر کیا تھا. اِس لیے وہ اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا.

"یہ جو اتنی ساری لیڈیز کھڑی ہیں یہاں اِن کو پے اِسی کام کے لیے ملتی ہے. آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک اچھے ڈریس دکھائیں گی. آئم سوری میں لیٹ ہورہی ہوں ورنہ آپ کی ہیلپ ضرور کرتی. "

ماہ روش سہولت سے انکار کرتی شاپ سے نکل آئی تھی. جبکہ ہمایوں اپنا سا منہ لئے حیران کھڑا رہ گیا تھا.

اُسے تو لگا تھا باقی لڑکیوں کی طرح یہ بھی اُس کے مخاطب کرنے پر پھولے نہ سمائے گی. اور فوراً سے پہلے اُس کی مدد کے لیے تیار ہوجائے گی.

"حُسن کے ساتھ ساتھ ادائیں بھی کمال کی ہیں. پہلی نظر میں ہی گھائل کر گئی ہے. آگے نجانے کیا کیا ستم ڈھائے گی. مگر نہیں جانتی اِس کا پالا ہمایوں خان سے پڑنے والا ہے. جس کی وجاہت کی دنیا دیوانی ہے. "

ہمایوں خان مسکراتا خود بھی باہر کی طرف نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بابا کی جان کیسی ہے. "

ذوالفقار صاحب ماہ روش کو دیکھ کر سینے سے لگاتے محبت سے بولے.

ماہ روش نے اُن کے انداز پر ساری باتیں دماغ سے نکالتے سکون سے اُن کے سینے پر سر رکھا تھا.

"میں بلکل ٹھیک ہوں مگر آپ سے بہت ناراض ہوں. میں کتنے ٹائم سے آپ کو واپس آنے کا بول رہی تھی. مگر آپ کو میری پرواہ ہی نہیں. ماما بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں. میں بلکل اکیلی ہوگئی ہوں بابا."

ماہ روش کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ اچانک اُسے کیا ہوا تھا. کہ وہ ذوالفقار صاحب کے سینے پر سر رکھتے روتی چلی گئی تھی. اتنے دنوں سے جو غبار دل میں اکٹھا ہوا پڑا تھا کسی اپنے کا لمس محسوس کرتے ہی وہ بکھر گئی تھی.

ذوالفقار صاحب کو اُس کی حالت دیکھ پریشان سے ہوگئے تھے.

"میری گڑیا اِس میں رونے والی کیا بات ہے. اور تمہاری ماما ناراض ہے تھوڑی مگر تم فکر مت کرو تمہاری خاطر میں خود جاکر اُسے لے آؤ گا. بس اب مجھے میری بیٹی کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو نظر نہ آئیں."

ذوالفقار صاحب پیار سے اُس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے بولے.

اُن کے ہر انداز سے اُس کے لیے بے پناہ محبت چھلک رہی تھی.

نہیں میرے بابا ایسا نہیں کر سکتے. وہ کتنی محبت کرتے نا ہم سب سے. ہاں اپنے بزنس میں بہت زیادہ بزی ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں ٹائم نہیں دے پائے مگر صرف اِس ایک بات کو مد نظر رکھ کر بابا پر اتنا بڑا الزام لگانا بھی تو غلط ہےنا. ضرور ماما نے غصے میں مجھے ایسا بولا تھا. کیونکہ اگر یہ سچ ہوتا تو وہ بہت پہلے ہی بابا کو اور مجھے چھوڑ کر چکی جاتیں. ہاں ایسا ہی ہوگا. میرے بابا اتنا گھناؤنا کام نہیں کرسکتے."

ماہ روش کو بھی ہر بیٹی کی طرح اپنے بابا دنیا کے سب سے اچھے انسان لگے تھے. اِس لیے ہر خیال کو دل سے جھٹکتے اُس نے خود کو تسلی دی تھی.

مگر یوسف انکل اُنہوں نے ایسا کیوں کہا کہ میں بابا کو کچھ نہ بتاؤں.

ماہ روش ایک بار پھر اُلجھی تھی.

اُنہوں نے یہ بھی تو کہا ہے کہ وہ مجھے ایک ہفتے تک سب بتائیں گے. اور شاید اُنہوں نے اِس لیے کہا ہو کہ میں بابا سے ایسا ویسا کوئی سوال پوچھ کر ہرٹ نہ کروں.

ذوالفقار صاحب سے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران ماہ روش اپنے دل کو تسلیاں دینے میں مصروف تھی.

اتنے ٹائم بعد آج اُس کے بابا نے اُسے پہلے کی طرح پیار کیا تھا. وہ بہت خوش اور مطمئن تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

"یہ سب لڑکیوں کو کیا ہوا ہے ایسے آنکھیں پھاڑے کیا دیکھ رہی ہیں. ایسا کون سا عجوبہ داخل ہوگیا کینٹین میں. "

ریحاب نے موبائل سے سر اُٹھا کر جوس کا گلاس قریب کرتے اردگرد نگاہ دوڑائی.

" زرا پیچھے دیکھو تمہیں خود سمجھ آجائے گا. "

کرن بھی انٹرنس پر نظریں جمائے بولی.

"کیا مطلب ایسا کیا ہے میرے پیچھے. "

ریحاب نے ناسمجھی سے پوچھا مگر پیچھے مڑ کر ابھی بھی نہیں دیکھا.

"تمہارا ہیرو کھڑا ہے. بلکہ صرف تمہارا نہیں ہم سب کا ہیرو کھڑا ہے. کیپٹن ارحم آصف. جلدی سے جاؤ اُس کے پاس ورنہ جیسے لڑکیاں اُسے دیکھ رہی ہیں نظروں ہی نظروں میں نگل جائیں گی. "

کرن کی بات سنتے ریحاب جھٹکے سے پلٹی تھی.

ارحم کیفے کی انٹرنس پر کھڑا نظر آیا تھا.

بلیک پینٹ پر بلیک ہی شرٹ پہنے وہ وہاں موجود تمام لڑکیوں کا دل دھڑکا گیا تھا.

ریحاب پر نظر پڑتے ہی ارحم نے ہاتھ ہلایا تھا. جس پر ریحاب اردگرد دیکھتی جلدی سے اُس کی طرف بڑھی تھی.

ابھی وہ ارحم ہی سے موبائل پر بات کر رہی تھی. ریحاب کو لگا تھا وہ مذاق کر رہا ہے. لیکن ارحم سچ میں اُس سے ملنے پہنچ چکا تھا.

ارحم کو ریحاب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے تھے. وہاں موجود لڑکے لڑکیوں نے حسد , رشک اور کچھ کچھ حیرت سے بھی اُن کی طرف دیکھا تھا کیونکہ آج تک کسی نے بھی ریحاب کو یونی میں لڑکوں سے نارمل بات کرتے بھی نہیں دیکھا تھا.

ریحاب نے ارحم کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا تھا. کیونکہ اِس وقت وہ دونوں کیفے میں سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے.

"آج میں آپ کو اپنے پیرنٹس سے ملوانا چاہتا ہوں. "

ارحم نے اُس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتے پوچھا. جب اُس کی بات پر ماہ روش کے اندر بے چینی پھیلی تھی. ارحم کے ساتھ ساتھ وہ اُس کے پیرنٹس کی فیلنگز ہرٹ نہیں کرسکتی تھی. مگر بلیک میلرز کی روز دی جانے والی دھمکیوں سے وہ بے بس ہوکر رہ گئی تھی.

" کیا ہوا آپ کو کوئی اعتراض ہے کیا. "

ارحم نے گاڑی میں بیٹھتے اُس کی خاموشی کے خیال سے پوچھا. اور گہری نظروں سے اُس کا جائزہ لیا.

جو ییلو اور وائٹ کنٹراس کے سوٹ میں بالوں کی ٹیل پونی کیے بہت پیاری لگ رہی تھی.

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں. "

ریحاب اُس کی بولتی نظروں سے کنفیوز ہوتے سیٹ بیلٹ سے اُلجھ رہی تھی. جو پریشانی اور نروس ہونے کی وجہ سے بندھ ہی نہیں رہا تھا.

"لائیں میں ہیلپ کر دیتا ہوں. "

اُس کو کوفت میں مبتلا ہوتے دیکھ ارحم آگے ہوتے اُس کے قریب جھکا تھا.

ریحاب نے اُسی وقت چہرا پیچھے ہٹایا تھا. جب اُس پر جھکتے ارحم کے ہونٹ بے اختیاری میں ریحاب کے روئی جیسے گلابی گالوں سے ٹچ ہوئے تھے.

یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ دونوں ہی اپنی جگہ ٹھٹھکے تھے. اُس کے ہونٹوں کے لمس سے ایک برقی رو ریحاب کے جس میں دوڑ گئی تھی.

ارحم نے فوراً سیدھے ہوتے گاڑی سٹارٹ کردی تھی. یہ پہلی بار تھا کہ وہ کسی لڑکی کے اِس طرح قریب ہورہا تھا. اور لڑکی بھی وہ جو اُس کے دل کے تاروں کو بُری طرح چھیڑ چکی تھی.

ریحاب کو ابھی بھی اپنے گال پر ارحم کا دہکتا لمس محسوس ہورہا تھا.

باقی باتوں کے بارے میں سوچتے اُس نے اِن تقاضوں پر تو غور ہی نہیں کیا تھا. بے شک یہ ایک بے اختیاری عمل تھا. لیکن آگے جب ارحم کو اُس پر پورا حق حاصل ہوگا تو پھر... اِس سے آگے ریحاب کچھ سوچ ہی نہیں پائی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"مے آئی کم اِن سر. "

کیپٹن سوہا نے میجر ارتضٰی کے آفس میں داخل ہوتے پوچھا.

"یس کم اِن. "

ارتضٰی کی مصروف سی بھاری آواز اُبھری تھی.

"سر وہ سب لوگ میٹنگ کے لیے آچکے ہیں. اور آپ کا ویٹ کر رہے ہیں. اور کیپٹن ماہ روش کا کہنا ہے کہ وہ آج نہیں آپائیں گی میٹنگ میں. "

فائلز بند کرتے ارتضٰی کے ہاتھ ماہ روش کے نام پر تھمے تھے. سوہا ارتضٰی کے سخت ہوتے تاثرات پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی تھی. اُس کا تیر نشانے پر لگا تھا.

"کیوں نہیں آپائیں گی وہ ایسا کیا کام پڑگیا ہے اُنہیں جو اِس کیس سے بھی زیادہ ضروری ہے. "

ارتضٰی ماہ روش کا ذکر کرتے زرا تیز لہجے میں بولا.

" جی میں نے پوچھا اُن سے اُن کا کہنا ہے آج وہ اپنے بابا کے ساتھ ہیں اُنہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے. "

سوہا ابھی ابھی زیمل سے سن کر آرہی تھی. کہ ماہ روش کے بابا آئے ہوئے ہیں.

جس پر سوہا نے ماہ روش کو کال کرکے جھوٹ بولا تھا. کہ میٹنگ دوگھنٹے لیٹ ہوچکی ہے اور اب سوہا بات کو اپنے مطابق ڈھال کر ارتضٰی کے سامنے پیش کررہی تھی.

وہ ارتضٰی اور ماہ روش کے درمیان کچھ گڑبڑ نوٹ کرچکی تھی. اب بس کسی صورت اُس کا پتا لگانا تھا تاکہ وہ اُسے اپنے کام کو آسان بنانے کے لیے استعمال کرسکے.

اور اُسے اپنا وار کامیاب ہوتا نظر بھی آرہا تھا.

"اوکے آپ جائیں میں آرہا ہوں. "

ارتضٰی نے اپنے اندر اُٹھتی آگ پر قابو پاتے سپاٹ سے انداز میں سوہا کو مخاطب کیا تھا.

سوہا کے جاتے ارتضٰی نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ساری چیزیں نیچے پھینکی تھیں. اور ایک زور دار مکہ بنا کر دیوار سے دے مارا تھا. جس کی شدت اتنی تھی کہ اُس کے ہاتھ سے نکلا خون دیوار پر اپنے نشان چھوڑ گیا تھا.

وہ دھوکے باز لڑکی ہے. ڈھونگ کرتی ہے وہ معصومیت کا. میں اتنا کمزور نہیں ہوسکتا کہ اُس لڑکی کے سامنے بےبس محسوس کروں.

وہ اچھے سے واقف ہے میرے جذبات سے. اور اپنے باپ کے ساتھ مل کر بے وقوف بنانا چاہتی ہے مجھے. کیپٹن ماہ روش ذوالفقار بہت ہوگیا مگر اب مزید نہیں. ایک دفعہ تمہاری کوئی غلطی میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں. "

ارتضٰی کی آنکھوں سے ماہ روش کے لیے نفرت کے شرارے پھوٹ رہے تھے. اگر وہ دیکھ لیتی تو ضرور جل کر بھسم ہوجاتی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی جیسے ہی اُن سب کو آگے کا لائحہ عمل بتا کر میٹنگ ختم کرنے ہی والا تھا. جب ماہ روش اُسی لمحے اندر داخل ہوئی تھی.

اُسے دیکھ ارتضٰی کے نقوش غصے سے ایک بار پھر تن گئے.

"کیپٹن ماہ روش گیٹ لاسٹ. جاؤ واپس اور پہلے اپنے ضروری کام نبٹاؤ جاکر. تم جیسی آفیسر کی میری ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہے. "

ماہ روش کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ارتضٰی دھاڑا تھا. اِس وقت وہ ماہ روش کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا.

ارتضٰی کی دھاڑ پر ماہ روش کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھے سب لوگ دہل گئے تھے. سب لوگ پہلے بھی ارتضٰی کا ماہ روش کے ساتھ روڈ بی ہیوئیر نوٹ کرچکے تھے. مگر آج ارتضٰی کے انداز میں موجود واضح نفرت اُن سب کو حیرت ذدہ کر گئی تھی.

"آئم ریلی سوری سر وہ میں... "

"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ. میرے سامنے کسی قسم کا فضول ایکسکیوزدینے کی کوشش بھی مت کرنا. "

ماہ روش لرزتے لہجے میں بولی ہی تھی جب ارتضٰی اُس کی بات بیچ میں ہی کاٹتا چیئر سے اُٹھتا اُس کی طرف لپکا تھا. اور وہاں بیٹھے کسی بھی شخص کی پروا کیے بغیر ماہ روش کے بے انتہا قریب جاکھڑا ہوا تھا. ماہ روش نے سہم کر پیچھے ہٹنا چاہا تھا جب ارتضٰی نے اُس کا نازک بازو اپنی آہنی گرفت میں لیتے اُس کو خود سے دور ہونے سے روکا تھا.

باقی سب بھی بھی اُلجھن بھری نظروں سے یہ سب دیکھ رہے تھے.

زیمل کو ماہ روش کے ساتھ ارتضٰی کا یہ انداز پہلے دن سے ہی عجیب سا لگا تھا. مگر ارتضٰی کی پرسنیلٹی اور اُس کے لگن سے کام کرنے کے انداز سے وہ بہت ایمپریس تھی. ماہ روش کے علاوہ وہ تمام فی میل آفیسرز سے عزت سے ہی پیش آتا تھا. لیکن زیمل کو آج اِس طرح اُس کا ماہ روش پر چلانا بہت بُرا لگا تھا وہ بہت مشکل سے خود پر ضبط کرکے کھڑی تھی.

جاذل نے پریشانی سے ارتضٰی کو دیکھا وہ اُس کے ہر مزاج سے آشنا تھا. اور ارتضٰی کا ماہ روش کے ساتھ ایسا برتاؤ دیکھ اُس کی چھٹی حس کچھ غلط ہونے کا الارم دے رہی تھی.

"اِس معصوم چہرے کے پیچھے کتنا گھناؤنا رُوپ چھپا ہے تمہارا. اور کتنا دھوکہ دو گی. بس ایک بار ثبوت میرے ہاتھ لگنے پھر جو حال میں تمہارا کروں گا زندگی بھر یاد رکھو گی. "

ارتضٰی کے حقارت بھرے انداز اور الزام پر ماہ روش نے آنسوؤں سے تر چہرا اُس کی طرف اُٹھایا تھا.

کوئی اتنا سنگدل کیسے ہوسکتا تھا. ماہ روش کا دل چاہا تھا پوچھے اُس سے ایسا کیا گھٹیا کام کرتے دیکھا تھا اُس نے جو وہ اتنا بڑا الزام لگا رہا تھا. مگر اتنی ہمت کہاں سے لاتی کہ اِس دشمنِ جاں سے کوئی بھی سوال کرسکے.

"بہت مشکل ہے اب ہم دونوں کا اِس مشن پر کام کرنا. کیونکہ میں اب کسی صورت تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا. "

ارتضٰی ماہ روش کے بے حد نزدیک کھڑا تھا. اور اُس کی آواز کا سرد پن ماہ روش کو اپنے اندر تک اُترتا محسوس ہورہا تھا. لیکن ارتضٰی کی بات پر نفی میں سر ہلاتے کچھ بولنا چاہا تھا.

مگر ارتضٰی اُسے کسی قسم کا موقع دیے بغیر جھٹکے سے اُس کو دور دھکیلتا وہاں سے نکل گیا تھا. ماہ روش کی کمر بُری طرح دروازے سے ٹکراتی اُسے زخمی کر گئی تھی.

ماہ روش کسی بھی بات کی پرواہ کیے بغیر ارتضٰی کے پیچھے اُس کے آفس کی طرف بڑھی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"یہ سب کیا ہے. سر ارتضٰی کیوں ماہ روش کے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہے ہیں. اُن کے انداز سے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اُن کی ٹیم کا حصہ نہیں بلکہ اُن کی محرم ہو."

اُن دونوں کے جاتے ہی زیمل غصے اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولی.

"کیا پتا واقعی وہ اُن کی محرم ہو. "

سوہا ایک ادا سے اپنے شولڈر کٹ بالوں کو جھٹکتے بولی.

مگر ماہ روش اِس وقت اُس سے بات کرکے مزید اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی.

سوہا اُس کے اگنور کرنے پر لاپرواہی سے سر جھٹکتی وہاں سے نکل گئی تھی. وہ اپنی طرف سے آگ لگا چکی تھی. اب باقی کا کام میجر ارتضٰی کے ایگریسو موڈ نے کرنا تھا.

اپنے کام میں ایسے ہی تو اُس نے ایک نام نہیں بنایا تھا وہ ہتھیاروں سے زیادہ جذبات سے کھیلتی تھی.

وہ اپنی کامیابی پر خوش ہوتی یہ بھول چکی تھی کہ اِس بار اُس کا پالا میجر ارتضٰی سے پڑا تھا.

جو ہر میدان کا ماہر کھلاڑی تھا. مسٹر ہنڈرنڈ پرسنٹ کا خطاب اُس نے ایسے ہی تو نہیں جیتا تھا.

"آپ اپنے دوست کو سمجھاتے کیوں نہیں. یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا. یہاں ماہ روش کی بہادری اور ذہانت سے سب واقف ہیں. اُس نے بہت کم وقت میں اپنا ایک نام بنایا ہے.

مگر ایک لیڈر ہونے کی حیثیت سے بھی سر ارتضٰی کا اتنا حق نہیں بنتا بات بات پر ماہ روش کو ذلیل کرنے کا. "

زیمل کا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر ڈالے.

"محترمہ وہ اِس وقت میرے دوست نہیں ایک آفیسر کی طرح آن ڈیوٹی پر ہیں. اور میں اچھے سے جانتا ہوں ارتضٰی کو بغیر کسی ریزن کے وہ کسی کے ساتھ اتنا بُرا برتاؤ نہیں کرسکتا ایک لڑکی کے ساتھ تو بلکل نہیں."

جاذل خود بھی ارتضٰی کی وجہ سے پریشان تھا. کیونکہ آج ارتضٰی اُسے بہت ڈسٹرب لگا تھا.

ارتضٰی اپنے جذبات چھپانے میں ماہر تھا.مگر آج ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ آپے سے باہر ہوگیا تھا.

"تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے سر نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ماہ روش کے ساتھ جو کیا وہ بلکل ٹھیک ہے. "

زیمل نے لڑنے والے انداز میں رخ جاذل کی طرف موڑا.

"اُف اب آپ لوگ لڑنا مت شروع ہوجانا پہلے ہی ماحول اچھا خاصہ خراب ہوچکا ہے. "

ارحم اُن دونوں کے بگڑے تیور دیکھ کر بولتا وہاں سے نکل گیا تھا. ماہ روش اُس کو بلکل بہنوں کی طرح عزیز تھی اور وہ بھی اُسے سگے بھائی سے کم نہیں مانتی تھی.

ماہ روش کے آنسو دیکھ اُس کا دل بہت دُکھا تھا.

"زیمل آپ کو ہمیشہ بات کو غلط رنگ دینے کا اتنا شوق کیوں ہے. میں نے ایسا کب بولا کہ وہ ٹھیک تھا. "

جاذل بھی اُسی کے انداز میں بولا.

"میں غلط رنگ نہیں دیتی آپ کی بات ہوتی ہی غلط ہے."

زیمل جاذل کو گھورتی اپنی سیٹ سے اُٹھی تھی. اُس کے ساتھ ایک کرسی چھوڑ کر ہی جاذل کی کرسی تھی.

جاذل کو گھورنے کی وجہ سے وہ مڑے ہوئے کارپٹ کو

نہیں دیکھ پائی تھی. اور اچانک ٹھوکر لگنے کی وجہ سے لڑکھڑا کر وہ منہ کے بل گرنے ہی والی تھی. جب جاذل نے ہاتھ بڑھا کر اُس کے آگے اپنا بازو پھیلاتے اُسے گرنے سے بچاتے اپنی طرف کھینچا تھا.

زیمل اچانک رونما ہونے والی افتاد پر سیدھی جاذل کی گود میں جاگری تھی.

جاذل کے اُوپر اپنی پوزیشن دیکھ زیمل شرم سے پانی پانی ہوئی تھی. اُس کا سر جاذل کے کندھے سے لگا ہوا تھا اور اُس نے بے ساختگی میں جاذل کے کالر کو دبوچ رکھا تھا.

جاذل نے زیمل کے نرم گرم وجود کو بہت ہی نرمی سے تھام رکھا تھا. جیسے وہ کوئی کانچ کی گڑیا ہو اور اُس کے زرا سے زور سے پکڑنے پر ٹوٹ جائے گی.

"اب لگا دیں مجھ پر الزام کے میں نے جان بوجھ کر آپ کو اپنے اُوپر گرایا ہے. "

جاذل نے فرصت سے زیمل کے سُرخ چہرے کی طرف دیکھا. بہت کم ہی ایسا نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا. جس میں زیمل کنفیوز ہوتی تھی اور اُس کی بولتی بند ہوجاتی تھی.

زیمل اُس کی کسی بھی بات کا جواب دیے بغیر اُس کی بانہوں کا حصار توڑتی وہاں سے نکل گئی تھی اور اپنی بے دھیانی پر خود کو ہی کودنے لگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"سر پلیز آپ ایک بار میری بات تو سن لیں. "

ماہ روش بھاگتے ہوئے ارتضٰی کے پیچھے آفس میں داخل ہوئی تھی.

"اگر اپنی بھلائی چاہتی ہو تو چلی جاؤ یہاں سے. "

ارتضٰی رُخ موڑے کر اپنے غصے پر قابو پاتے برداشت کے کڑے مراحل پر تھا.

"سر آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں. ایسا کیا قصور سرذد ہوا ہے مجھ سے کہ جس کے بارے میں میں بھی نہیں جانتی. "

ماہ روش نے ہمت کرکے اپنی بات پوچھ ہی لی تھی. مگر غلط ٹائم اور غلط جگہ پر.

ارتضٰی اُس کی بات پر طیش میں آتے ماہ روش کی طرف پلٹا تھا. اور اُسے کمر سے دبوچتے اپنے بے حد نزدیک کر گیا تھا. وہ دونوں اِس وقت ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ بآسانی ایک دوسرے کی دھڑکنے محسوس کرسکتے تھے.

ماہ روش کا دل اتنی قربت پر بُری طرح دھڑکا رہا تھا. اور ٹانگیں بھی ہولے ہولے کانپ رہی تھیں.

" تم اور تمہارے باپ نے میرا سب کچھ چھین لیا. میرے خاندان کی خوشیاں چھن گئیں. میرے اپنے ہنسنا بھول چکے ہیں. ترستا ہوں میں اپنی ماں اور جان سے عزیز پھوپھو کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے کے لیے.

اور تم پوچھتی ہو نفرت کی وجہ بتاؤں میں تمہیں. "

ارتضٰی کا چہرا ماہ روش کے اتنے قریب تھا. کہ اُس کے بولنے پر ہلتے لب ماہ روش کے گال سے بُری طرح ٹچ ہورہے تھے. ماہ روش پر اُس کی قربت اور باتوں سے دوھری قیامت گزر رہی تھی.

ارتضٰی کا ایک ہاتھ ماہ روش کی گردن جبکہ دوسرا کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا. جس کی وجہ سے ماہ روش ہل بھی نہیں پارہی تھی. ارتضٰی کی گرم سانسوں اور ہونٹوں کے لمس سے ماہ روش کو اپنا چہرا جلتا محسوس ہورہا تھا. مگر ارتضٰی آج اُسے کسی صورت بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا.

" جس طرح میرے گھر کو برباد کیا ہے اگر میں چاہوں تو ایک ہی پل میں تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی کرکے تمہارے باپ کا سارا غرور مٹی میں ملا دوں. "

ارتضٰی کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر نمایاں ہوا تھا. اور ارتضٰی نے ایک ہاتھ ماہ روش کے سُرخ نرم ملائم ہونٹوں پر رکھ کر اُنہیں بے دردی سے مسل دیا تھا.

ماہ روش اُس کے عمل پر درد محسوس کرتی حصار سے نکلنا چاہا تھا.

اُسے ارتضٰی سے خوف محسوس ہونے لگا تھا.

" مگر میرے ﷲ کا شکر ہے میں تم لوگوں کی طرح بے ضمیر اور بے حس نہیں ہوں. اور نہ ہی تمہارے باپ کی طرح نفس کا غلام ہوں. لیکن بہت جلدی جو درد ناک انجام تم لوگوں کا ہونے والا ہے تیار رہنا اُس کے لیے اور اپنے اُس (گالی) باپ کو بھی بتادینا."

ارتضٰی نے بے دردی سے ماہ روش کو اپنے حصار سے آزاد کرتے دور کیا تھا. جس پر ماہ روش لڑکھڑاتے اندر داخل ہوتے جنرل یوسف کے قدموں میں جاگری تھی.

"میجر ارتضٰی..."

جنرل یوسف ماہ روش کو اُٹھاتے ارتضٰی کی طرف مڑتے شدت سے چلائے تھے. وہ ماہ روش کی حالت دیکھ اپنی جگہ ششدر سےرہ گئے تھے.

"میں نے آپ سے کہا تھا مجھے اِس لڑکی کو اپنی ٹیم میں نہیں رکھنا. جس کی رگوں میں ایک غدار کا خون دوڑتا ہے. وہ کیسے وفا دار ہوسکتی ہے. "

ارتضٰی اُن کا زرا بھی لحاظ رکھے غرایا تھا

اُس کی ہر بات برداشت کرتی ماہ روش اپنے کام اپنے جنون کے بارے میں اتنے بڑے الزام پر تڑپ اُٹھی تھی.

"سر آپ کو میرے پروفیشن پر اُنگلی اُٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے. "

ماہ روش بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی مضبوط قدم اُٹھاتی بلکل اُس کے سامنے چند قدموں کے فاصلے پر جاکھڑی ہوئی تھی.

اس وقت وہ ارتضٰی کے پیار میں دیوانی ماہ روش نہیں بلکہ ایک آرمی آفیسر لگ رہی تھی جس کی بے داغ وردی پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا.

" حق ہے کیونکہ اِس وقت تم میری ٹیم کا حصہ ہو. تمہاری ایک ایک حرکت پر میری نظر ہے اگر کچھ لوگوں کی سپورٹ نہ ہوتی تو تم اِس وقت یہاں نہ کھڑی ہوتی."

ارتضٰی نے دو قدم کا فاصلہ بھی طے کرتا اُس کے سامنے کھڑے ہوتے ایک طنزیہ نظر جنرل یوسف پر ڈالی تھی.

جنرل یوسف نے ایک بے بس نظر اُن دونوں پر ڈالی تھی.

وہ جانتے تھے یہ دونوں اِس وقت کتنی تکلیف میں ہیں. اُن کا دل چاہا تھا ابھی اُن دونوں کے درمیان موجود تمام غلط فہمیاں دور کر دیں.

مگر اِس وقت وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے.

جنرل یوسف نے مزید معاملہ بگڑتے دیکھ ماہ روش کو باہر جانے کا کہا تھا اور ارتضٰی کی طرف بڑھے تھے.

"میجر ارتضٰی آپ نے کیپٹن سوہا کی بات پر ماہ روش کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کیا ہے. آپ بھول تو نہیں گئے سوہا کی اصلیت وہ ہماری نہیں دشمنوں کی ساتھی ہے. اُس کی من گھڑت بات میں آکر آپ نے ماہ روش کو اتنا غلط بول دیا. مجھے آپ سے ایسی امید نہیں تھی. "

جنرل یوسف نے ملامت کرتی نظروں سے غصے سے بپھرے ارتضٰی کو دیکھا.

کیپٹن سوہا ذی ایس کے کی بھیجی گئی جاسوس تھی جس کو وہ لوگ جانتے ہوئے بھی اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے خود کو بے خبر ظاہر کر رہے تھے. وہ سوہا کے تھرو بہت ساری غلط انفارمیشن دشمنوں تک پہنچا چکے تھے.

" امید تو مجھے بھی آپ سے اِس بات کی نہیں تھی جو آپ نے کیا.اتنی بڑی بات چھپا کر. اور میں نہیں مگر شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں میجر ارتضٰی ہوں. آپ کی بہت کوششوں کے باوجود بھی میں معلوم کرچکا ہوں کہ اُس دن آفس میں گارڈز کو بے ہوش کرکے اندر داخل ہونے والی سوہا نہیں ماہ روش تھی. آپ نے جھوٹ بول کر اُسے مجھ سے بچانے کی کوشش کی. "

ارتضٰی بہت کوشش کے باوجود بھی اپنے لہجے پر قابو نہیں رکھ پارہا تھا. جب اُس کی بات پر جنرل یوسف نگاہیں چرا گئے تھے.

"ماہ روش کا اِس طرح چوری چھپے وہاں داخل ہونا پھر اُس ذوالفقار کا اُس سے ملنا. کیا معنی نکلتا ہے اِن باتوں کا. "

ذوالفقار کا ذکر کرتے ارتضٰی کی آنکھیں خون رنگ ہوئی تھیں. اُسے زیادہ آگ اِسی بات پر لگی ہوئی تھی. کہ ماہ روش اپنے باپ کے ساتھ کیوں تھی. اگر وہ واقعی ایک ایماندار آفیسر تھی تو کیوں نہیں چھوڑ رہی تھی اپنے باپ کو.

اُسے ماہ روش پر غصہ میٹنگ میں نہ آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس کا ذوالفقار کے ساتھ ہونے پر تھا.

اُس کی ریسرچ کے مطابق تو ماہ روش اپنے گھر میں اکیلی رہ رہی تھی اور ذوالفقار بہت عرصے سے اُس سے ملا بھی نہیں تھا. یہ سب جان کر ارتضٰی ماہ روش کے ساتھ کچھ بہتر رویہ اختیار کر رہا تھا. مگر اب اُس کا اپنے باپ کے قریب ہونا ارتضٰی کی نفرت کو دوبارہ جگا گیا تھا.

ارتضٰی جنرل یوسف سے مزید کوئی بھی بات کیے وہاں سے نکل آیا تھا. اِس وقت وہ نہیں چاہتا تھا جس موڈ میں اِس وقت وہ ہے اُن سے کوئی مس بی ہیو کر بیٹھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" وہ دیکھیں ماما چاچو آگے. اب تو ہم ہوم ورک بعد میں ہی کریں گے. "

طلحہ اور ہادی ارتضٰی کو اندر داخل ہوتا دیکھ اپنی بکس وہیں پھینکتے بھاگ کر اُس کی طرف بڑھے تھے.

"چاچو کے شہزادے کیا کر رہے تھے. "

ارتضٰی اُنہیں اپنے چوڑے شانوں میں بھینچتا بازوؤں میں اُٹھاتے محبت سے بولا.

رات کا ٹائم تھا اِس لیے ڈرائنگ روم میں اِس وقت تقریباً سب لوگ ہی موجود تھے سوائے ناہید بیگم کے.

ارتضٰی اُن دونوں کو گود میں لیے زینب بیگم کے ساتھ جا بیٹھا. جو محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں. اور دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتاری تھی.

ارتضٰی فل یونیفارم میں تھکا تھکا سا بہت وجیہہ لگ رہا تھا. بال کشادہ پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے. سلیوز کو کہنیوں تک فولڈ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے اُس کے بالوں سے بھرے سفید مضبوط بازوں کی دلکشی نمایاں ہورہی تھی.

"چاچو ماما ہمیں ڈانٹ رہی تھیں اور کھیلنے بھی نہیں دیا. "

وہ دونوں نیہا کی گھوری پر ارتضٰی کے سینے میں منہ چھپاتے منمنائے.

"بھابھی آپ نے اتنا بڑا ظلم کیوں کیا اتنے معصوم بچوں پر. "

ارتضٰی کی بات پر جس طرح معصومیت سے اُن دونوں نے شکل بنائی تھی. ارتضٰی سمیت سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

" جی بلکل معصومیت میں تو یہ پورے کے پورے تم پر گئے ہیں."

ارباز کی بات پر ارتضٰی سر خم کرتے مسکرایا.

اپنوں کے درمیان آکر کچھ دیر پہلے والی کیفیت سے اب باہر آچکا تھا.

" پھوپھو ماما نظر نہیں آرہی کہاں ہیں وہ. "

ارتضٰی ناہید کو وہاں نہ پاکر ذینب سے بولا.

" اپنے کمرے میں ہیں. میری جان مجھے بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو تم جاؤ جاکر ریسٹ کرلو. اپنی صحت کی تو زرا بھی پرواہ نہیں ہے تمہیں. "

زینب بیگم اُس کی آنکھوں میں موجود سُرخ ڈوروں کو دیکھتے فکرمندی سے بولیں جو نجانے کتنی ہی راتوں سے نیند پوری نہ ہونے کی چغلی کھا رہی تھیں.

" اوکے باس جو حکم آپ کا. "

ارتضٰی مسکرا کر ان کا ہاتھ چومتا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا تھا.

" چلے جاؤ یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے."

ارتضٰی کو اپنے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ ناہید بیگم منہ دوسری طرف پھیڑتے غصے سے بولیں.

اُس دن ہوٹل والے واقعے کے بعد ارتضٰی سے اُنہوں نے کوئی بات نہیں کی تھی. اور ارتضٰی بھی کیس میں بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے گھر نہیں آپایا تھا.

وہ ناہید بیگم کی ناراضگی کی وجہ ذہن میں لاتے ٹھنڈی سانس بھرتا اُن کی طرف بڑھا تھا.

" ماما آپ ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے. "

ناہید بیگم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں جب ارتضٰی اُن کے قدموں میں بیٹھتے دونوں ہاتھ اُن کی گود میں رکھتے بولا

"ارتضٰی کون تھی وہ لڑکی جس کے ساتھ تم اتنے برے طریقے سے پیش آئے. "

ناہید بیگم نے اُس کی طرف کھوجتی نظروں سے دیکھا. ارتضٰی میں اُن کی جان بستی تھی اور اب اُس کے کام کی وجہ سے وہ اور زیادہ اُس کے لیے پریشان رہتی تھیں. ارتضٰی شروع سے ہی سخت مزاج کا تھا. غصہ تو ہر وقت اُس کے ناک پر سوار رہتا ہے. مگر بچپن میں پیش آنے والے حادثے اور اِس جاب نے اُسے مزید ایگریسو بنا دیا تھا.

اب تو گھر میں بھی سب لوگ اُس کے مزاج کے خلاف بات کرنے سے ڈرتے تھے. ارتضٰی اپنے ایگریشن پر قابو پانے کی بہت کوشش کررہا تھا. مگر یہ ایگریشن اُس وقت تک ختم نہیں ہونا تھا. جب تک اپنے خاندان کے بربادی کے ذمہ داروں کو انجام تک نہ پہنچا دیتا.

ناہید بیگم جانتی تھیں کہ اُن کا بیٹا غصے کا جتنا بھی تیز ہے مگر بلاوجہ کسی کو ہرٹ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا. لیکن اُس دن ماہ روش کے ساتھ اُس کا برتاؤ دیکھ ناہید بیگم کو بہت زیادہ فکرمند کر گیا تھا.

" ماما چھوڑیں نا اُسے وہ لڑکی اتنی اہم نہیں کہ اُسے ڈسکس کیا جائے. "

ارتضٰی اپنے دل کی آواز دباتے نخوت سے بولا.

" مگر مجھے جاننا ہے کون ہے وہ. جس کو تکلیف دے کر میرا بیٹا خود اذیت محسوس کر رہا تھا. "

ناہید بیگم کی بات پر ارتضٰی نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا.

" ماما کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ میں کیوں بھلا کسی کی وجہ سے اذیت میں رہوں گا. "

ارتضٰی کے مضبوط لہجے پر ناہید بیگم مسکرائی تھیں اور اُس کا چہرا ہاتھ سے اُوپر کرتے بولیں.

" ماں ہوں تمہاری خود سمیت پوری دنیا کو بے وقوف بنا سکتے ہو مگر مجھے نہیں. میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. کیسی تڑپ تھی تم دونوں کی نگاہوں میں ایک دوسرے کے لیے. کیوں اذیت دے رہے ہو خود کو. میرا دل پھٹتا ہے تمہیں اِس طرح دیکھ کر. کیوں مرنے والوں کے ساتھ اپنی خوشیاں بھی دفن کردی ہیں. پلیز خود کے لیے جینا سیکھو. اُس لڑکی کی آنکھوں میں بھی میں نے تمہارے لیے بے پناہ چاہت دیکھی ہے. اگر اُس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کردو اُسے. "

ناہید بیگم کی بات پر ارتضٰی کے ڈھیلے پڑے نقوش پھر سے تن گئے تھے.

" ماما جھوٹی ہے دھوکے باز ہے وہ لڑکی. ناٹک کررہی ہے صرف. نہیں ہے اُسے مجھ سے محبت اور نہ مجھے اُس سے. صرف اور صرف نفرت ہے مجھے اُس سے بے تحاشا نفرت. "

ارتضٰی نے اُن کے پاس سے اُٹھ کر رُخ پھیر لیا تھا.

" ارتضٰی کون ہے وہ لڑکی. "

ارتضٰی کے اتنے شدید رد عمل پر ناہید بیگم نے کسی بات کے زیرِ اثر پوچھا تھا. اور شدت سے دعا کی تھی کہ جیسا وہ سوچ رہی ہیں ویسا بلکل نہ ہو. مگر شاید یہ وقت قبولیت کا نہیں تھا.

" ذوالفقار کی بیٹی ہے وہ ماہ روش ذوالفقار ."

ارتضٰی کی بات پر ناہید بیگم نے زور سے آنکھیں میچ لی تھیں. اُن کے بیٹے کے ساتھ ہی ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا تھا. وہ سمجھ گئی تھیں کہ ارتضٰی نے اُس لڑکی کے لیے اپنی محبت پر نفرت کی چادر کیوں اوڑھ لی تھی.

" ماہ روش. "

ناہید بیگم زیرِ لب بڑ بڑائی تھیں. مگر آواز پھر بھی ارتضٰی کے کانوں تک پہنچ گئی تھی.

"جی ہاں وہی لڑکی جس نے ہم سے ہماری معصوم گڑیا کے ساتھ ساتھ اُس کا نام تک چھین لیا. "

ارتضٰی اذیت کے زیرِ اثر بولا.

" مگر ارتضٰی وہ ایک حادثہ تھا. اُس میں اِس بچی کا کوئی قصور نہیں تھا. ہماری گڑیا اتنی ہی زندگی لکھوا کر لائی تھی. "

ناہید بیگم نے بہت مشکل سے خود پر قابو پاتے ماہ روش کی سائیڈ لیتے ارتضٰی کی نفرت ختم کرنی چاہی تھی.

" حادثہ؟ ماما وہ حادثہ نہیں تھا ایک سوچی سمجھی سازش تھی. جس کی ذمہ دار صرف اور صرف وہ لڑکی ہے. اور آپ پلیز اُس کی سائیڈ لے کر میرے دل میں موجود اُس کے لیے نفرت ختم نہیں کرسکتیں. یہ نفرت اُس کے ساتھ ہی ختم ہوگی. "

ارتضٰی اپنی بات مکمل کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا. ناہید بیگم کا اپنے لخت جگر کی تکلیف پر دل پھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا.

وقت کے ساتھ ساتھ جس کی اذیت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


الوینہ لرزتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ بہت مشکل سے تیز تیز قدم اُٹھاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی. جلدی سے کمرے کے قریب پہنچ کر اندر داخل ہوتے اُس نے دروازہ لاک کردیا تھا.

اور وہی کھڑے ہوکر دروازے کے ساتھ سر ٹکاتے گہرے گہرے سانس لینے لگ گئی تھی.

وہ جو کام ابھی کرکے آرہی تھی اِس کے بارے میں پہلے وہ سوچنا بھی گناہ سمجھتی تھی. وہ ذی ایس کے کے خلاف بغاوت کرنے جارہی تھی. شاید زندگی میں ایسا کرنے کی ہمت بھی کبھی نہ کر پاتی اگر اُس کی ملاقات اُس فرشتہ صفت شیر دل انسان سے نہ ہوئی ہوتی. جس سے ملنے کے بعد جیسے اُس کی زندگی ہی بدل گئی تھی.

ارتضٰی کا خیال آتے ہی ایک دلکش مسکان الوینہ کے ہونٹوں پر بکھر گئی تھی. اور اُس کے ساتھ گزارے چند لمحوں میں کھو سی گئی تھی.

الوینہ چودہ سال کی تھی جب وہ اِن ظالموں کے ہاتھ لگی تھی. جہاں اُس کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا. اور غلط کاموں پر مجبور کیا جاتا.

پہلے پہل تو وہ روتی چلاتی انکار کرتی مگر کب تک ایسا کرسکتی تھی. جب اُسے یقین ہوگیا کہ اب اُس کا اِس دلدل سے نکلنا ناممکن ہوگیا ہے تو اُس نے بھی بے حس بنتے خود کو اِن لوگوں کے مطابق ڈھال لیا. اُسے ایک کھیلونے کی طرح نجانے کتنے لوگوں کے آگے پیش کیا جاتا. جو اُس کی عزت سے کھیلتے رہے.

اب تو اُسے بارہ سال ہوچکے تھے اِس کام اور وہ اب ذی ایس کے کے گینگ کا ایک بہت اہم حصہ تھی. اُس کی اداؤں اور حُسن کی وجہ سے بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی. جس کی وجہ سے اب وہ گینگ کے سب سے بڑے کلب میں بار ڈانسر جیسے کام کرتی تھیں. اور اُس پر لوگ پیسا بھی بہت پھینکتے تھے.

وہ معمول کی طرح اپنے رقص میں مصروف تھی جب اُس کی نظر بے اختیار ارتضٰی پر پڑی تھی. اتنے سالوں سے اِس کام میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنے وجود پر اُٹھتی ہر طرح کی نظروں کو پہچانتی تھی.

اُسے وہاں موجود تمام مردوں کی نظروں میں اپنے لیے ہوس نظر آرہی تھی سوائے ارتضٰی سکندر کے. جو وہاں موجود تو تھا اور مصنوعی مسکان سجائے الوینہ کی طرف دیکھ بھی رہا تھا. مگر اُس کی آنکھوں میں ہوس نہیں بے زاری اور اُکتاہٹ تھی.

الوینہ کو وہ وہاں کھڑے تمام مردوں میں سب سے مختلف اور نمایاں لگا تھا. وہ اُس کی وجاہت اور رعب دار پرکشش شخصیت کی آثیر ہونے لگی تھی. جب اچانک دل میں اُٹھتی خواہش پر وہ سٹیج سے اُترتے ارتضٰی کی طرف بڑھی تھی. اور اُسے چھوتے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ دیا تھا.

لیکن جیسے ہی ارتضٰی نے اُس کے پیچھے قدم بڑھائے الوینہ اُسے بھی باقی عام مرد تصور کرتے خود پر ہنستی کمرے میں داخل ہوئی تھی.

ارتضٰی نے بھی کمرے میں داخل ہوکر دروازہ لاک کردیا تھا. الوینہ جن کپڑوں میں ملبوس تھی وہ اُس کے جسم کو چھپانے کے بجائے مزید واضح کررہے تھے. ارتضٰی خاموشی سے کھڑا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا وہ جانتا تھا یہاں کوئی کیمرہ موجود نہیں ہوگا پر بھی دیکھ کر ایک بار تسلی کرلینا چاہتا تھا.

جب اچانک الوینہ نے اُس کے بے حد قریب ہوتے ارتضٰی کے گلے میں بانہیں ڈال دی تھیں. وہ جیسے ہی اپنا چہرا ارتضٰی کے چہرے کے پاس لائی ارتضٰی نے اُسے وہیں روک دیا تھا.

اور ہاتھ بڑھا کر الوینہ کے گریبان کے بٹنز بند کردیے تھے. جو اُس نے ارتضٰی کے قریب آنے سے پہلے کھولے تھے.

الوینہ نے آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی بھرے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا.

ایسا پہلے کب ہوا تھا اُس کے ساتھ. آج سے پہلے کب کسی نے اُسے ڈھانپنے کی کوشش کی تھی.

" حالات سے سمجھوتہ کرکے اپنے ضمیر کو مار کر خود کو گندگی اور دلدل کا حصہ بنا لینا کہاں کی عقل مندی ہے. "

ارتضٰی کی بات پر الوینہ نے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھا تھا. ارتضٰی کب سے اُسے خود سے دور ہٹا چکا تھا.

" کون ہیں آپ. "

ہولے سے اُس کے لب ہلے تھے.

" آپ کا اور اِس ملک کی بہن بیٹیوں کی عزت کا محافظ."

ارتضٰی نے جواب دیا. جس پر الوینہ کو پہلی دفعہ کسی سے تحفظ محسوس ہوا تھا.

" میرے پاس کیوں آئے ہو کیا چاہتے ہو مجھ سے. "

الوینہ نے اُلجھن بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

" آپ کو اور آپ جیسی تمام لڑکیوں کو اِن درندوں کے چنگل سے نکالنا چاہتا ہوں. جو میرے لیے آسان تب ہی ہوسکتا ہے. اگر آپ میرا ساتھ دیں تو. میں آپ کے تعاون کے بغیر بھی یہ سب کرسکتا ہوں مگر تب تک اور بھی نجانے کتنی معصوم لڑکیاں اِن بھیڑیوں کے ہاتھ لگ کر برباد ہوسکتی ہیں. جو میں ہر گز نہیں چاہتا. "

الوینہ کی نظریں ارتضٰی سکندر کے ایک ایک نقوش کا جائزہ لیتی جیسے بے خود ہوئی تھی.

"مگر آپ کو اتنا یقین کیسے ہے کہ میں آپ کی مدد کروں گی. اِس طرح دشمنوں میں گھرے اُن کے خلاف پلان بناتے آپ کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے. آپ کو ڈر نہیں لگتا."

الوینہ کی بات پر پہلی بار ارتضٰی مسکرایا تھا.

اور الوینہ کو اُس کے گال پر بنتے گڑہوں میں اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا.

" میں اُس پاک ہستی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا. زندگی دینے والا بھی وہی ہے اور چھیننے والا بھی. یہ انسانوں کی کھال میں چھپے جانور میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.

میں آپ کے بارے میں ہر بات سے واقف ہوں. اور وعدہ کرتا ہوں. آپ میرا ساتھ دیں نہ دیں آپ کو اِن کے چنگل سے نکال کر آپ کے گھر والوں تک بحفاظت پہنچانے کی ذمہ داری میری ہے. "

اُس کے مضبوط لہجے اور روشن پیشانی سے اُس کے ارادوں کی پختگی صاف ظاہر ہورہی تھی.

ارتضٰی کی طرف ہی دیکھتے الوینہ نے بے ساختگی میں اثبات میں سر ہلا گئی تھی. ہر طرح کے خطرے کو پیچھے جھٹکتے اُس کے دل نے اِس شخص کے حق میں اُس سے بغاوت کردی تھی.

" آپ حکم کریں میں اپنی جان پر بھی کھیل کر آپ کی مدد ضرور کروں گی. "

الوینہ آج اتنے سالوں بعد دل سے مسکرائی تھی. اُسے ارتضٰی اِس وقت کسی فرشتےسے کم نہیں لگا تھا. اُسے یقین نہیں آرہا تھا. اِس دنیا میں ابھی بھی ایسے مرد موجود تھے جو عورت کی عزت چھیننا نہیں بلکہ عزت دینا جانتے تھے.

ارتضٰی اُسے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا. اور نہ ہی الوینہ نے پوچھا تھا. وہ تو بس اُس کے سحر میں جکڑی اُس کی ہر بات دل و جان سے سن رہی تھی.

ارتضٰی نے اُسے اپنا نمبر دیا تھا اور مزید کچھ اہم باتوں سے آگاہ کرتے وہ دونوں وہاں سے نکل آئے تھے.

وہ دن تھا اور آج الوینہ اُس شاندار اور باکردار مرد کے سحر سے نکل ہی نہیں پائی تھی.

اچانک ہوش میں آتے الوینہ کو احساس ہوا تھا. اُسے جلد از جلد تھوڑی دیر پہلے سنی اپنے آدمیوں کی باتیں ارتضٰی کو بتانی چاہئیں. وقت بہت کم تھا.

ذی ایس کے کے آدمی ایک بہت بڑا پلان ڈسکس کررہے تھے. جس کے مطابق کل لاہور میں ہونے والے سکولز کے ایونٹ جس میں بارہ سکول شرکت کرنے والے تھے. جن میں تیس ہزار سٹوڈنٹس, دو ہزار ٹیچرز اور پانچ ہزار کے قریب باقی سکول کا عملہ شامل تھے. اُس ایونٹ میں خود کش حملہ کروانے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی. الوینہ جلدی سے ارتضٰی کو اِس بارے میں آگاہ کرنا چاہتی تھی اُسے پورا یقین تھا ارتضٰی اپنے لوگوں کو اِس تباہی اور بربادی سے بچا لے گا.

الوینہ نے جلدی سے الماری میں چھپایا ارتضٰی کا نمبر نکالتے اُسے کال ملائی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

جنرل آصف اور صائمہ بیگم کو معصوم سی ریحاب بہت پسند آئی تھی. ارحم اُن دونوں کو پہلے ہی سب سچائی بتا چکا تھا.

جنرل آصف کو تو ویسے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا. اُنہیں اپنے بیٹے کے فیصلے پر فخر محسوس ہوا تھا. اور صائمہ بیگم بھی ایک پڑھی لکھی سُلجھی ہوئی خاتون تھیں. اُن کو جو تھوڑے بہت خدشات تھے وہ ریحاب سے مل کر اُسے دیکھ کر ختم ہوگئے تھے.

اُن کے پوچھنے پر ریحاب نے اُن دونوں سمیت ارحم کو بھی یہی بتایا تھا کہ اُس کے پیرنٹس کی ڈیتھ ہوگئی ہے اور اکلوتا ہونے کی وجہ سے اُس کا کوئی بہن بھائی نہیں ہے. وہ اِس دنیا میں بلکل اکیلی ہے. ریحاب کے مطابق یہ ایک عارضی رشتہ تھا جو بہت جلد ختم ہوجانا تھا. اِس لیے وہ گھر والوں میں سے کسی کو انوالو نہیں کرنا چاہتی تھی.

مگر ریحاب یہ بات بھول گئی تھی کہ اُس کا پالا کیپٹن ارحم سے پڑا ہے. جو اُس کی فیملی کی ایک ایک ڈی ٹیل کے ساتھ ساتھ اُس کے بلیک میل ہونے کے بارے میں ایک ایک بات جانتا تھا. اور ریحاب کو اُن خطرناک لوگوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے یہ سب کررہا تھا.

یہ بات تو ارحم کو بھی اب آہستہ آہستہ سمجھ آرہی تھی. کہ ریحاب کو تو وہ ہر حال میں اُن کے چنگل سے نکال لے گا مگر شاید خود ساری زندگی ریحاب کی محبت کی قید سے کبھی نہ نکل پائے گا. وہ ریحاب کی معصومانہ اور کچھ کچھ بے وقوفانہ حرکتوں کا بُری طرح عادی ہوچکا تھا.

ریحاب کے فون کالز کی ریکارڈنگ کی جارہی تھی. جس کی وجہ سے اُن غنڈوں کی ریحاب سے کی جانے والی ہر بات اور دھمکی سے ارحم باخبر تھا. انیس کی سیفٹی کا بھی ارحم بندوبست کرچکا تھا. ارحم کے بھیجے گئے لوگ غنڈوں کی نظر میں آئے بغیر انیس کی حفاظت کر رہے تھے. ارحم چاہتا تو آرام سے ریحاب کو بلیک میل کرنے والوں کو پکڑسکتا تھا. مگر اُس کا مقصد صرف اُن تک پہنچنا نہیں بلکہ اُن کی پشت پناہی کرنے والے مافیہ کو پکڑنا تھا. تاکہ اُن کو جڑ سے ختم کرسکے. جس کی وجہ سے ابھی اُسے اُن غنڈوں کے ساتھ ساتھ ریحاب کے ساتھ بھی آنکھ مچولی کا یہ گیم جاری رکھنا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"ماہی تم ٹھیک ہو. سر کو تمہارے ساتھ اتنا مس بی ہیو نہیں کرنا تھا. "

زیمل نے فکرمندی سے پوچھا.

اُسے ماہ روش کی بہت ٹینشن ہورہی تھی. اِس لیے گھر آتے ساتھ ہی فوراً ماہ روش کو کال ملائی تھی.

" میری فکر مت کرو میں ٹھیک ہوں. کون سا پہلی بار ہوا ایسا. اب تو نفرت سہنے کی عادت سی ہوچکی ہے. "

ماہ روش تلخی سے مسکرائی تھی. اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر آنکھوں کے گوشے ایک بار پھر نم ہوئے تھے.

" ماہی پلیز ایسا مت بولو. مجھے پورا یقین ہے بہت جلد تمہاری ساری آزمائشیں ختم ہوجائیں گی. "

زیمل اپنی بہن جیسی دوست کی تکلیف پر دل سے دکھی ہوئی تھی. جو چھوٹی سی عمر سے ہی نجانے کتنے دکھ برداشت کر چکی تھی.

" مجھے تو لگتا ہے یہ ساری اذیتیں اب میرے ساتھ ہی ختم ہوگی. "

ماہ روش آج کے واقع کے بعد کچھ زیادہ ہی دل برداشتہ ہو چکی تھی. ارتضٰی سکندر کے نفرت کے چلائے گے تیر ابھی بھی اُس کو اپنے دل کے آڑ پار محسوس ہورہے تھے.

" ماہی میری جان کیوں ایسا سوچ رہی ہو. اور سر یوسف نے تم سے وعدہ کیا ہے ساری سچائی تمہیں بتائیں گے. کیا پتا سب سچ جان کر تمہاری ساری تکلیفیں دور ہوجائیں. اور ہاں وہ تمہیں تمہاری ماما کا بھی تو بتائیں گے نا. "

زیمل اُس کو تسلی دیتے بولی.

مگر ماہ روش کو محسوس ہو رہا تھا سچائی جان کر اُس کی اذیت کم نہیں بلکہ بڑھنے والی تھی.

" ﷲ کرے ایسا ہی ہو. اچھا چھوڑو اِن ساری باتوں کو. آنٹی کی طبیعت کیسی ہے اب. "

ماہ روش تکلیف دہ ٹاپک چینج کرتے بولی.

" ماما کی طبیعت تو اب بہتر ہے ماہی. مگر مسلسل ایک ہی بات کی ضد پکڑے وہ میری طبیعت بگاڑنے کے چکروں میں ہیں. "

زیمل اکتاہٹ بھرے انداز میں بولی.

" کیوں کیا ہوا."

ماہ روش حیران ہوئی.

" وہ میری شادی کروانے کے لیے ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ چکی ہیں. اب تو اِس معاملے میں میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں."

زیمل کے انداز پر ماہ روش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی.

" تو مان کیوں نہیں لیتی اُن کی بات. شادی تو کرنی ہی ہے نا ایک دن. "

ماہ روش بیڈ کراؤن سے سر ٹکاتی بولی.

" مجھے نہیں کرنی یہ شادی وادی. ہزار جھنجھٹ ہوتے اِس کے. اور اِس شادی کی وجہ سے ماما کے ساتھ ساتھ اپنے پیشن اپنے پروفیشن سے بھی دور ہونا پڑے گا. جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی. "

زیمل کافی پریشان تھی کیونکہ سلمہ بیگم کا اسرار دن بدن بڑھ رہا تھا.

" ہممہ اور اگر کوئی ایسا بندہ مل جائے تمہیں. جو اِن دونوں چیزوں سے تمہیں دور کیے بغیر تم سے شادی کر لے تو. "

ماہ روش کچھ سوچ کر مسکرائی.

" کوئی اتنا اچھا نہیں ہوسکتا جو اتنا کمپرومائز کرے. "

زیمل منہ بناتے بولی.

" ہو بھی سکتا ہے. اپنے اردگرد نگاہیں تو دوڑاؤ. "

ماہ روش کا اشارہ جاذل کی طرف تھا. اُس دن ارتضٰی کے آفس کے باہر جاذل اور زیمل کو اکٹھا دیکھ کر ماہ روش نے بعد میں بھی اُن دونوں کو جب بھی میٹنگ میں یا کہیں بھی اکٹھا دیکھا تو جاذل کی آنکھوں میں زیمل سے بات کرتے ایک الگ سی چمک محسوس کی تھی.

" ماہی کس کی بات کررہی ہو مجھے نہیں سمجھ آرہا. "

زیمل اُلجھی.

" میجر جاذل کی بات کررہی ہوں یار. جو اتنے اچھے سے بات کرتے مگر تم ہر وقت اُن سے چونچیں لڑانے کو تیار رہتی ہو. "

ماہ روش کی بات پر زیمل کی بھنوئے تن گئے تھے.

" ماہی تمہیں میرے لیے سوچنے کے لیے اُس بدتمیز میجر کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا تھا کیا. "

زیمل کے دانت پیسنے پر ماہ روش مسکرائی.

" بدتمیز کہاں ہیں اتنے سُلجھا ہوئے ہیں. اتنی عزت سے بات کرتے. اب تم کرتی جو ایسے ہو اُن کے ساتھ. اب اُس بندے نے جواب تو دینا ہے نا. "

ماہ روش نے زیمل کو چھیڑا.

" اگر سُلجھے ہوئے انسان ایسے ہوتے ہیں تو میں بدتمیز ہی ٹھیک ہوں. "

زیمل نے چڑتے ہوئے جواب دیا.

" میں نے تو صرف ایک مشورہ دیا ہے. ایک بار سوچنا ضرور اِس بات پر. کیونکہ تمہارے ساتھ ایسا کول مائینڈڈ بندہ ہی گزارا کرسکتا ہے. "

ماہ روش نے فون بند کرتے ہوئے ایک بار پھر یاددہانی کروائی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی شاور لے کر سیدھا جم خانے میں چلا گیا تھا. سینے میں بھڑکتی آگ کی وجہ سے نیند تو اُسے آنی نہیں تھی.

مسلسل کئی گھنٹے گزرنے کے بعد وہ اذانوں کے ٹائم کمرے میں داخل ہوا تھا. جیسے ہی اُس نے اندر قدم رکھا اُس کا فون بجنے لگا تھا.

انجان نمبر دیکھ ارتضٰی نے فوراً کال پک کی تھی. مگر آگے سے آتی آواز پر وہ فوراً الرٹ ہوا تھا.

الوینہ کی دی گئی اطلاع پر وہ اُس کا شکریہ ادا کرتے عجلت میں واش روم کی جانب بڑھا تھا. اور اگلے دس منٹ میں گاڑی میں بیٹھ کر آفس کی جانب جاتے اُس نے ٹیم کے تمام ممبرز کے فون پر میسج سینڈ کیا تھا.

ارتضٰی کے پہنچنے کے پندرہ منٹ بعد ہی وہ سب بھی اُس کے سامنے موجود تھے.

اُن کے وہاں انٹر ہونے کے ساتھ ہی ارتضٰی کے کہنے پر اُن کے موبائل فونز اور اُن کے پاس موجود ہر طرح کی ڈیوائس فل چیکنگ کے بعد ضبط کر لی گئی تھی. وہ لوگ یہ ہوتا دیکھ اتنا تو سمجھ گئے تھے. کہ معاملہ کافی حساس ہے.

مگر ارتضٰی نے یہ سب صرف سوہا کی وجہ سے کروایا تھا. تاکہ وہ کسی سے کوئی رابطہ نہ کرسکے.

" آج لاہور میں ہونے والے تمام بڑے سکولز کے سالانہ ایونٹ میں ذی ایس کے ایک بہت بڑا حملہ کروانے والا ہے. جس میں ہزاروں کے حساب میں جانی نقصان ہونے کا خطرہ ہے. جس بلڈنگ میں یہ ایونٹ منعقد ہونا ہے وہ پانچ منزلہ ہے. یہ بھی ہوسکتا خود کش حملہ آور حلیہ بدل کر وہاں داخل ہوں یا پھر پہلے سے ہی وہاں بارودی مواد نصب کر چکے ہوں. کچھ نہیں کہا جاسکتا. مگر ہم نے کسی بھی صورت اُن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانا ہے. "

ارتضٰی کی بات پر وہاں موجود تمام نفوس کے دل میں ذی ایس کے کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کا عزم مزید پختہ ہوچکا تھا. سوائے ایک انسان کے جو سکون سے وہاں براجمان تھی.

اپنے لوگوں کو اِن سب کے باخبر ہونے کا نہ بتاسکنے کا افسوس بھی تھا. مگر اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے وہ خود ہی انکو ناکام کرنے کے پلان بنا چکی تھی.

" اگر ہم سیکیورٹی کو ہی ہائی الرٹ کردیں تو اُن کو اندر داخل ہونے سے بھی روکا جاسکتا ہے. "

جاذل کی بات پر ارتضٰی نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

" سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے. مگر ایونٹ آج صبح 9 بجے سٹارٹ ہونا ہے.جس میں اب صرف تین گھنٹے رہ گئے ہیں. اِسی کی وجہ سے وہاں کل سے ہی لوگ بڑی تعداد میں پہنچ چکے ہیں. اب یہ بھی ممکن ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی اندر موجود ہوں. اِس لیے کسی قسم کی جلد بازی کرکے نقصان ہوسکتا ہے. وہاں اردگرد بہت ساری بلڈنگز بھی موجود ہیں اِس لیے تباہی کے چانسز زیادہ ہیں. ہماری زرا سی بھی لاپروائی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے. "

ارتضٰی کی بات سے سب ایگری ہوئے تھے.

" سر میرے خیال میں ہمیں اردگرد کی بلڈنگز خالی کروا دینی چاہیے اگر اچانک ایک ساتھ لوگوں کو باہر نکالا تو ہڑبڑاہٹ میں لوگ خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے. "

ماہ روش نے کچھ سوچتے ہوئے ایک تجویز پیش کی تھی.

" لیکن اِس طرح تو حملہ آور الرٹ بھی ہوسکتا ہیں نا. اور ٹائم سے پہلے ہی اگر اُس نے بلاسٹ کردیا تو. "

اِس سے پہلے کے ارتضٰی ماہ روش کی بات کا جواب دیتا زیمل نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا.

" کیپٹن ماہ روش ٹھیک کہہ رہی ہیں بلڈنگز خالی کروانا ٹھیک رہے گا. اور ضروری نہیں بلڈنگز خالی کرانے کا مقصد ہم سیکیورٹی ریزن بتائیں. ہم دوسرے طریقے سے بھی خالی کروا سکتے ہیں. "

ارتضٰی نے آپس میں موجود ہر رنجش کو اِس وقت سائیڈ ہر رکھتے ماہ روش سے ایگری کیا تھا. کیونکہ اِس وقت اُن دونوں کا مقصد ہی اِس ملک کے محافظ بن کر بے قصور اور معصوم بچوں کی حفاظت کرنا تھا.

ارتضٰی بات ختم کرکے سب کو نکلنے کا اشارہ کرتے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


کچھ ہی دیر میں وہ سب مختلف گیٹ اپس میں اندر داخل ہوچکے تھے. ارتضٰی نے سوہا کو اپنے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا. جس کی وجہ سے سوہا کو کچھ بھی کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا.

سب نے کانوں میں ائیر پیس لگا رکھے تھے جس سے وہ ایک دوسرے سے رابطے میں تھے. تین پورشن کی اچھی طرح چیکنگ کرنے کے بعد وہ اتنا کلیئر کرچکے تھے. کہ یہاں کوئی بارودی مواد نصب نہیں ہے. اب دو پورشن رہ گئے تھے جہاں رش اور لوگوں کی زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے اُنہیں کافی مشکل پیش آرہی تھی.

اُن سب کی نظریں ایکسرے مشین کی طرح ہر ایک شخص کا گہرائی سے جائزہ لے رہی تھیں. مگر ابھی تک اُن کی نگاہوں میں کوئی ایسا مشکوک شخص نہیں آیا تھا. کیونکہ ذی ایس کے نے بھی اپنے بندے کافی ٹرینڈ کرکے بھیجے تھے جن کا پکڑا جانا آسان نہیں تھا.

ارتضٰی مسلسل تمام پورشنز میں لگے کیمروں کی نگرانی کروا رہا تھا. اور تمام فوٹیج چیک کرنے کی ہدایت دے رہا تھا. تاکہ چھوٹی سے چھوٹی مشکوک حرکت کو پکڑا جاسکے.

" کیپٹن زیمل آپ کی دائیں طرف سے گزر کر ایک مشتبہ عورت لیڈیز واش روم کی طرف بڑھ رہی ہے. فوراً اُس کے پیچھے جائیں. "

جاذل کو کافی دیر سے ایک عورت کی حرکتیں تھوڑی مشکوک لگ رہی تھیں. وہ کتنے ہی چکر تمام پورشنز کے لگا چکی تھی. اور اب اُسے واش روم کی طرف بڑھتے دیکھ جاذل نے فوراً زیمل کو اُس کے پیچھے جانے کا آرڈر دیا تھا. آٹھ بج چکے تھے اور نو بجے رش بڑھنے کے ساتھ ساتھ چیف گیسٹ کے آتے ہی بم بلاسٹ ہونے کا خطرہ تھا.

زیمل معمول کے انداز میں چلتی اُس کے پیچھے بڑی تھی. اُس عورت نے عبایا پہن رکھا تھا اور بار بار ٹشو سے اپنا پسینہ صاف کرتی زیمل کو شک میں مبتلا کرگئی تھی.

واش روم میں داخل ہوکر اُس نے واش بیسن پر جھک کر پانی کے چھینٹے منہ پر مارے تھے. زیمل بھی اُس کے ساتھ والا نل کھول کر کھڑی ہوگئی تھی. مگر زیمل کو فیل ہوا تھا کہ شاید اُس کے پاس کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ جو کام کرنے آئی تھی وہ نہیں کرپارہی تھی.

زیمل واش بیسن سے ہٹتے سائیڈ میں ترتیب سے بنائے گئے واش رومز کی طرف بڑھی تھی اور دوسرے واش روم میں داخل ہوئی جہاں سے اُس عورت کے سامنے شیشے سے اُس کی ہر حرکت دکھائی دے رہی تھی. زیمل نے دروازے کو ہلکا سا کھلا رکھا تا کہ آرام سے اُس عورت کو دیکھ سکے.

" کیپٹن زیمل ایوری تھنگ از آل رائٹ. "

کافی دیر کے انتظار کے بعد زیمل کی طرف سے کوئی رسپانس نہ ملنے پر جاذل نے پوچھا.

" یس."

زیمل نے مختصر سا جواب دیا تھا. جب اُس کی نظر شیشے سے نظر آتے منظر پر پڑی اُس عورت نے اپنے عبائے کے اگلے بٹن کھول رکھے تھے. جس کے اندر تھوڑی سی جگہ سے بارودی مواد والی جیکٹ نظر آرہی تھی.

زیمل نے ایک سیکنڈز کی بھی دیر کیے اُس عورت کی طرف بڑھی زیمل کو اپنی طرف آتے دیکھ وہ بھی الرٹ ہوتے زیمل پر وار کرنے پلٹی تھی مگر زیمل کے ایک ہی وار سے اُس کا سر دیوار سے جاٹکرایا تھا. زخمی ہونے کے باوجود وہ زیمل کی طرف لپکی تھی. اور ساتھ ہی پکڑے جانے کے خوف سے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کا ایک بٹن پریس کردیا تھا. جو کہ اپنے ساتھیوں کو الرٹ کرنے کا اشارہ تھا.

زیمل اُس کو دوبارہ دبوچتے اُس کا سر پکڑ کر بیسن پر پٹخہ تھا. وہ عورت نیم بے ہوش سی ہوگئی تھی. زیمل ابھی جھکی ہوئی تھی جب دو مرد اور ایک عورت بھاگتے اندر داخل ہوئے تھے.

اُس عورت نے زیمل کو گردن سے جکڑ کر اپنی ساتھی کو آزاد کروایا تھا. زیمل کو شدید مزاحمت کرتے دیکھ اُن میں سے ایک آدمی آگے بڑھ کر ہاتھ میں خنجر لیے زیمل پر حملہ آور ہوا تھا. مگر اپنے تک پہنچنے سے پہلے ہی زیمل اُس کے پیٹ کے نیچے کک مارتے اُسے بلبلانے پر مجبور کرگئی تھی. زیمل کی گردن پر اُس کو جکڑے کھڑی عورت کا دباؤ بڑھ رہا تھا. مگر سانس لینے میں مشکل ہونے کے باوجود زیمل ڈٹ کر اُن سب کا مقابلہ کر رہی تھی.

اِس سے پہلے کے وہ سب مل کر زیمل پر حملہ آور ہوتے جاذل اندر داخل ہوا تھا. اور زیمل کی طرف بڑھتے اُن دونوں آدمیوں کو فلائنگ کک سے دور اُچھالا تھا. اور ایک ساتھ دونوں کو بُری طرح پیٹتے لہولہان کرگیا تھا.

زیمل بھی اُن دونوں کو جاذل کے قبضے میں دیکھ پیچھے کھڑی عورت کی طرف متوجہ ہوئی تھی. جو زیمل کو قابو کرتے اب بے حال ہوچکی تھی. زیمل نے اُس کے سینے پر کہنی ماری جس پر درد سے کراہتے اُس کی گرفت ڈھیلی ہوئی تھی. اُس عورت کے ایک ہاتھ میں بے ہوشی کا انجکشن تھا جو وہ زیمل کے کندھے پر کھونپنے والی تھی. مگر زیمل نے اُس کا بازو مڑوڑتے اُس کا وار اُسی پر ہی لوٹا دیا تھا. جس پر چند سیکنڈز میں ہی وہ بے ہوش ہوتے نیچے گرگئی تھی.

جاذل اُن دونوں مردوں کے ساتھ بُری طرح گتھم گتھا تھا. جب اُس کی نظر پاس سے باہر کی طرف بھاگتی اُس عورت کی طرف پڑی تھی. جاذل نے اُس کے بھاگنے کا مقصد سمجھ کر روکنے کے لیے اپنی ایک ٹانگ آگے کردی تھی. جس پر لڑکھڑا کر وہ عورت منہ کے بل نیچے جاگری تھی.

اس سے پہلے کے وہ اپنے ہاتھ جیکٹ کی طرف بڑھاتے بلاسٹ کرتی زیمل نے جلدی سے اُس پر جمپ کرتے اُس کے دونوں بازو پکڑ کر کمر کی طرف موڑ دیے تھے.

جاذل نے بھی اُن میں سے ایک آدمی کو جیکٹ پہنے دیکھ قابو کررکھا تھا.

جاذل کے انفارم کرتے ہی آرمی اور رینجرز اہلکار اندر داخل ہوئے تھے اور پورے احتیاط سے اُن سب کو وہاں سے نکالتے اُس ایریے سے بہت دور لے گئے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کیپٹن ارحم جلدی سے ففتھ پورشن کے ہال نمبر 2 میں پہنچیں. "

ارتضٰی کے آرڈر پر ارحم جلدی سے لفٹ کی طرف بڑھا تھا. ارتضٰی کو سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرتے اہلکار سے وہاں کچھ افراد کی مشکوک حرکات کی اطلاع ملی تھی.

وہ خود اِس وقت فورتھ پورشن پر موجود تھا. یہاں سب سے زیادہ رش ہونے کی وجہ سے زیادہ ڈینجرس قرار دیا گیا تھا. کیونکہ ابھی اِس پورشن کو بارودی مواد سے بھی کلیئر قرار نہیں دیا جاسکا تھا اور ایک دو لوگ ارتضٰی کی نظروں میں بھی آچکے تھے. اِس لیے وہ یہاں سے کسی صورت نہیں ہٹنا چاہتا تھا.

ارحم لوگوں کے بیچ میں سے راستہ بناتا جلدی سے ہال نمبر 2 میں داخل ہوا.

ماہ روش بھی اُسی ہال میں موجود تھی. ماہ روش ارتضٰی کی آواز پر الرٹ ہوتی اردگرد کا گہرائی سے جائزہ لیتی چل رہی تھی جب ایک بچے کی آواز پر اُس طرف متوجہ ہوئی.

" ماما مجھے بلکل ویسی ہی گن چاہئے جیسی اُن انکل کے پاس تھی. آپ بابا سے بولیں گی نا مجھے لاکر دیں. "

وہ بچہ بار بار اپنی ماں سے ایک ہی ضد کررہا تھا. جس پر اُس کی ماں ڈانٹ کر چپ ہونے کا کہتی ہال کے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی. ماہ روش اُن کا چہرا نہیں دیکھ پائی تھی. مگر ایک احساس کے تحت وہ اُس

عورت کی طرف بڑھی.

" ایکسیوزمی میم. "

وہ عورت ماہ روش کی پکار پر بھی نہیں رکی اور سنی اَن سنی کرتی قدم مزید تیز کردیے تھے.

ماہ روش کو کسی کے پیچھے تیزی سے جاتے دیکھ ارحم بھی اُس کے پیچھے بڑھا.

عورت نے لفٹ میں قدم رکھتے جیسے ہی اُسے بند کرنا چاہا. ارحم اور ماہ روش ایک ساتھ اندر داخل ہوئے اور لفٹ کو بند کردیا. اُس عورت نے اُن دونوں کو دیکھ گھبراتے ہوئے اپنے بچے کو خود میں بھینچ لیا.

" آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں لگ رہی ہیں. پلیز اگر کوئی بھی پرابلم ہے تو ہمہیں بتا سکتی ہیں ہم آپ کی مدد کریں گے. "

ارحم کے بہت ہی نرمی سے بات کرنے کے باوجود بھی وہ عورت ویسے ہی سہمی رہی.

" مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے. اور آپ لوگ اِس طرح کرکے مجھے ہریس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. "

وہ عورت لہجے کو سخت بناتے بولی مگر اُس کے لہجے کی لڑکھڑاہٹ واضح تھی.

ماہ روش نے مزید ٹائم ضائع کرنے کے بجائے گھٹنے کے بل نیچے بیٹھتے اُس بچے کا پیار سے گال سہلایا.

" آپ کو گنز بہت پسند ہیں. "

ماہ روش کی بات پر بچوں کی آنکھوں میں چمک آئی تھی.

" جی آپی مجھے بہت پسند ہیں. میرے بابا نے مجھے بہت ساری گنز لے کر دی ہوئی ہیں. مگر اُن انکل کے پاس جو گن تھی ویسی میرے پاس نہیں ہے. "

بچہ اپنی معصومیت میں ہی بولی جارہا تھا. جب اُس عورت نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنے ساتھ لگایا تھا.

" کیا ایسی گن تھی اُن انکل کے پاس. "

ارحم نے اُس بچے کا ہاتھ تھام کر اُس کی ماں سے آزاد کرواتے اپنی خفیہ پاکٹ سے گن نکالتے اُس کے سامنے کی. جسے دیکھ بچے نے جوش میں آتے زور و شور سے سر ہلایا جبکہ عورت کے چہرے پر اب ہوائیاں اُڑ رہی تھیں.اُسے تو اپنا آپ اِس وقت ایسا لگ رہا تھا. کہ آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا.

" دیکھیں محترمہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. ہم سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا. آپ پلیز ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں اگر آپ نے کچھ ایسا ویسا دیکھا ہے تو بتا دیں. آپ تو اپنی جان بچا کر نکل جائیں گی مگر یہاں موجود اتنی ساری جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے. "

ارحم کے سمجھانے پر وہ عورت اُن دونوں کی طرف دیکھتی اب کچھ پرسکون ہوئی تھی.

" آپ آرمی کے لوگ ہیں. "

اُس نے تصدیق کرنی چاہی

" آپ بس یہ سمجھ لیں کہ ہم آپ کے محافظ ہیں. اور یہاں آپ کے بیچ آپ لوگوں کی حفاظت کے لیے موجود ہیں. "

ماہ روش کی بات پر اُس نے اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیے تھے.

" میں اپنے ہزبینڈ کی کال اٹینڈ کرنے ہال کے پیچھے بنی بالکونی میں گئی جہاں دو لوگ ہاتھ میں گن پکڑے کسی آدمی کو دبوچے کھڑے تھے. اور ڈرا دھمکا کر اُسے زبردستی کسی بات پر مجبور کررہے تھے. مگر وہ اُن کے آگے ہاتھ جوڑے کچھ بھی ماننے سے انکاری تھا.

یہ سب بولتے اُس عورت کے چہرے پر گھبراہٹ تھی اور اُس کا جسم کانپ رہا تھا.

وہ دونوں اُس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ سے اچھی طرح اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ سچ بول رہی ہے.

" تھینکیو سو مچ. آپ نے یہ سب بتا کر ہماری بہت زیادہ مدد کی. آپ نیچے پہنچیں ہمارے اہلکار آپ کو بحفاظت نکال دیں گے یہاں سے."

ارحم اور ماہ روش اُس عورت سے کچھ کچھ اُن لوگوں کا حلیہ سمجھتے اُسے ہدایت دیتے ففتھ فلور کے آتے ہی لفٹ سے باہر نکل آئے تھے.

وہ جیسے ہی بالکونی کی طرف گئے وہاں کوئی نہیں تھا وہ جگہ بلکل خالی تھی. وہ لوگ ابھی واپس پلٹنے ہی لگے تھے کہ اُنہیں ایک سائیڈ سے غوں غوں کی آوازیں آنے لگیں.

ارحم اور ماہ روش آواز کے تعاقب میں وہاں رکھے ڈرمز کو ہٹانے لگے جب تین چار ڈرمز ہٹاتے ہی آگے ایک آدمی کو پوری طرح سے رسیوں میں جکڑ کر وہاں باندھا گیا تھا. اُس کے منہ پر بھی پٹی باندھی ہوئی تھی.

اُنہیں دیکھ اُس نے زور زور سے آوازیں نکالتے اور سر ہلاتے اپنا منہ کھولنے کا اشارہ کیا تھا.

" بچا لو مجھے خدا کا واسطہ ہے بچا لو میں مرنا نہیں چاہتا. میں اپنے خاندان کا واحد سہارا ہوں یہ لوگ زبردستی مجھے یہاں لے کر آئیں ہیں. "

ارحم کے اُس کے منہ سے پٹی ہٹاتے ہی ہچکیوں کے درمیان وہ فریاد کرتا گرگرایا تھا.

" دیکھو کچھ نہیں ہوگا تمہیں. آرام سے ہمیں ساری بات بتاؤ. "

ارحم نے دلاسہ دیتے اُس کو رسیوں سے آزاد کرنا چاہا تھا مگر اُس نے چلاتے ارحم کو ایسا کرنے سے روکا تھا.

" وہ لوگ میرے اُوپر بم باندھ چکے ہیں. اور اُس کو ایسے اٹیچ کیا ہے کہ اگر یہ رسیاں کھولی گئیں تو بم بھی پھٹ جائے گا. "

اُس کی بات سنتے ہی ارحم نے فوراً بم ڈسپوزل سکواڈ کو کال ملائی تھی.

اگلے چند منٹوں میں اُس آدمی کو اُن کے حوالے کرتے وہ دونوں جلدی سے باہر کی طرف بڑھے تھے. کیونکہ اُس شخص کے مطابق اُس کے ساتھ اِن دو آدمیوں کے علاوہ دو عورتیں اور دو آدمی اور بھی یہاں انٹر ہوئے تھے.

جاذل اور زیمل باقی چار لوگوں کو تو ختم کرہی چکے تھے. اب صرف دو لوگ ہی رہ گئے تھے جو اِن سب کے لیڈر تھے اور زیادہ خطرہ بھی اُنہیں سے تھا.

ارحم نے ارتضٰی اور باقی سب کو بھی یہ انفارمیشن دے کر الرٹ کردیا تھا.

ارتضٰی پہلے ہی بہت ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ فورتھ پورشن میں لگا بم ڈسپوز کروا چکا تھا. سوہا فل ٹائم ارتضٰی کے ساتھ ہی تھی. اور ارتضٰی اور اُس کی ٹیم کو مسلسل کامیاب ہوتا دیکھ اب اندر ہی اندر غصے سے بل کھارہی تھی.

اُسے اپنا کوئی بندہ یہاں نظر نہیں آرہا تھا. وہ کب سے اِردگرد نظریں دوڑا کر تھک گئی تھی.

وہ ابھی اِسی کوفت میں مبتلا تھی جب اچانک اُس کی نظر اپنے گینگ کے ایک بندے پر پڑی تھی. اور اُسے صحیح سلامت دیکھ سوہا کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی. اب کسی بھی طرح سوہا کو اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا تھا. جو کہ اُسے کافی مشکل لگ رہا تھا کیونکہ اِس وقت وہ جس گیٹ اپ میں تھی. اُسے پہچان پانا تقریباً ناممکن ہی تھا.

ارتضٰی جو کافی چوکنا ہوکر اردگرد کے ماحول کے ساتھ ساتھ سوہا پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا. اور جس موقعے کی تلاش میں تھا وہ سوہا کی نظروں کا تعاقب کرتے مل گیا تھا.

سوہا مسلسل ارتضٰی سے نظر بچا کر ادھر اُدھر ہوتی اُس شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے چکروں میں تھی. ارتضٰی کو اُسے یہاں لانے کے اپنے فیصلے پر اب خوشی ہورہی تھی.

سوہا کی مسلسل کوششوں سے اب وہ شخص بھی اُس کی طرف متوجہ ہوچکا تھا. اور بس اِسی سگنل کا انتظار تھا ارتضٰی کو.

" کیپٹن سوہا آپ اُوپر والے پورشن پر جائیں. کیپٹن ماہ روش کے پاس گو فاسٹ. "

سوہا کو کچھ بھی پوچھنے کا موقع دیے بغیر ارتضٰی نے اُسے آرڈر دیا تھا.

سوہا کا دماغ اتنی محنت کے بعد اتنا اچھا موقع ہاتھ سے جاتا دیکھ خراب ہوچکا تھا. مگر ارتضٰی کا آرڈر فالو نہ کرکے وہ اپنی زندگی عذاب نہیں بنانا چاہتی تھی. اِس لیے بہت مشکل سے سرہلاتی وہاں سے نکل گئی تھی.

اور ایک بے بس نظر اپنے ساتھی پر ڈالی جو اب اُس کے بلکل آپوزٹ ڈائیریکشن کی طرف بڑھ رہا تھا.

سوہا کو بھیج کر ارتضٰی جلدی سے اُس آدمی کی طرف بڑھا تھا. اور جیسے ہی وہ کوریڈور کی طرف بڑھا ارتضٰی نے اُسے پیچھے سے دبوچ کر اندر ایک کمرے کی طرف دھکیل دیا تھا. ارتضٰی نے اُس کے دونوں بازو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے. تاکہ اگر اُس کے پاس کوئی بھی بارودی مواد ہو تو وہ کوئی حرکت نہ کرپائے.

" چھوڑو مجھے. "

اُس نے ارتضٰی سے خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کی تھی. ارتضٰی نے بغیر ٹائم ضائع کیے سلنسر لگا پستول نکال کر اُس کی کنپٹی پر رکھا تھا.

" تمہارے اور کتنے ساتھی موجود ہیں اور کیا کرنے والے ہو یہاں. مجھ سے کسی قسم کی ہوشیاری کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ اگلی سانس نہیں لے پاؤ گے تم."

ارتضٰی کی بات سنتے اُس آدمی نے ڈرنے کے بجائے زور دار قہقہہ لگایا تھا.

" آفیسر تمہیں کیا لگتا ہے. اگر مجھے اپنی جان پیاری ہوتی تو میں یہاں موجود ہوتا. ہاہاہاہا..... یہ بات معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ ابھی تھوڑی دیر میں اِس بلڈنگ سمیت اِس میں موجود لوگوں کی راکھ بنے والی ہے. "

اُس کی بات سن کر ارتضٰی کا دباؤ اُس کی کنپٹی پر مزید بڑھ گیا تھا. غصے سے کھولتے دماغ کے ساتھ ارتضٰی کا دل چاہا تھا ابھی اِس کا بھیجہ اُڑا دے مگر یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے والا تھا.

" بھول ہے تمہاری ہمارے ہوتے ہوئے. تم لوگ ہماری عوام کا ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتے. تمہارے پانچ آدمی پکڑے جاچکے ہیں. دو بم ڈسپوز کیے جاچکے ہیں. یہی ہے نا وہ پلاننگ جس سے اِس بلڈنگ کے پُرزے اُڑانے تھے تم نے. "

ارتضٰی نے بہت مشکل سے خود پر کنٹرول کرتے اُس کی طرف طنزیا مسکراہٹ اُچھالی. ارتضٰی کا ارادہ اُس سے مائینڈ گیم کھیلنے کا تھا. جس میں بہت جلد وہ کامیاب بھی ہوا تھا. کیونکہ ارتضٰی کی کچھ ہی باتیں سنتے اُس شخص کا اپنے کام کے متعلق جوش بڑھ چکا تھا.

" آفیسر صاحب اپنی اِن چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر زیادہ اُچھلنے کی ضرورت نہیں ہے. کیونکہ اتنی محنت کے باوجود بھی تم اور تمہاری ٹیم ابھی تک اُس تباہی کے قریب بھی نہیں پہنچ پائے جس میں اب صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں. "

اُس کی بات پر ارتضٰی کی چہرے کا رنگ متغیر ہوا تھا. جسے دیکھ وہ شخص کھل کر مسکرایا تھا.

" جس پورشن پر کھڑے ہونا اِس میں بھاری مقدار میں چار جگہوں پر بارودی مواد نصب کیا گیا ہے اُن میں سے ایک بھی پھٹا تو اِس بلڈنگ سمیت اردگرد موجود بلڈنگز کے بھی پرخچے اُڑ جائیں گے. اور ہاں ایک بات اور اِس پورشن پر سموک گرنیٹ بھی لگائے گئے ہیں. جن کے پھٹنے میں صرف پانچ منٹ باقی ہیں. اور اُس کے بعد جو زہریلا دھواں اردگرد پھیلے گا تو تمہارے یہ معصوم لوگ تڑپ تڑپ کر مریں گے. "

اُس کی بات ختم ہوتے ہی ارتضٰی نے ٹریگر دباتے اُس کو جہنم واصل کیا اور عجلت میں باہر کی طرف بھاگا تھا.

ارتضٰی نے اپنی ٹیم کو ساری معلوم دے کر الرٹ کرتے بلڈنگ کی سیکیورٹی کو جلد از جلد لوگوں کو باہر نکالنے کا آرڈر دیا تھا.

بیس منٹ بہت کم تھے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اِس بلڈنگ سے نکالنے کے لیے. اِس لیے اُنہیں کوئی اور طریقہ بھی سوچنا تھا.

بم ڈسپوزل سکواڈ بھی وہاں پہنچ چکا تھا. مگر اُنہوں نے بم کو چھیڑنا خطرناک قرار دے دیا تھا. کیونکہ اِس بم کو ڈفیوز کرنا رسک والی بات تھی. اگر یہ پھٹ جاتا تو باقی نصب شدہ مواد نے بہت بڑی تباہی کا باعث بننا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارحم نے ارتضٰی کو اطلاع دی تھی کہ دوسرے آدمی کو بھی مار گرایا ہے. مگر جو سب سے بڑی تلوار سر ہر لٹک رہی تھی اُن سب کو مل کر اُس سے مقابلہ کرنا تھا.

آرمی اور رینجرز اہلکار نیچے والے فلورز سے لوگوں کو جلدی جلدی باہر نکال رہے تھے. جب کہ ارتضٰی اور اُس کی ٹیم بلڈنگ کی چھت پر موجود تھی.

کیونکہ بلڈنگز کے قریب ہونے کی وجہ سے فاصلہ بہت کم تھا تو اُنہوں نے حالات کے پیش نظر ایک بلڈنگ کی چھت سے لکڑی کے بڑے بڑے پھٹے رکھ کر راستہ بنایا تھا.

جہاں سے اُوپر والے دونوں پورشنز پر موجود بچوں کو وہ لوگ اُٹھا کر دوسرے بلڈنگ پر پہنچا رہے تھے.

ارتضٰی اِس بلڈنگ کے سرے پر کھڑا تھا اور جاذل دوسری بلڈنگ کے اور بچوں کو جلدی جلدی وہاں سے نکال رہے تھے. جاذل سے آگے ارحم اور زیمل کھڑے ہوکر بچوں کو بلڈنگ کے سیف ایریا تک پہنچا رہے تھے. انہوں نے اطراف میں موجود تمام بلڈنگز میں سے سب سے بڑی بلڈنگ کا انتخاب کیا تھا. جس کا دوسرا حصہ اِس بلاسٹ سے محفوظ رہتا.

ماہ روش اور سوہا اندر سے بچوں کو باہر نکال رہی تھیں. بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ سوہا ماہ روش کا ساتھ دینے کے بجائے اُس کے لئے رکاوٹ کا باعث بن رہی تھی.

سوہا کی زیادہ کوشش یہی تھی کہ وہ ٹائم کو ضائع کروائے. تاکہ کچھ حد تک نقصان تو اِن کے حصے میں آنا ہی چاہئے.

سموک گرنیٹ پھٹنے کی وجہ سے دھواں ہر طرف پھیل رہا تھا. اور بہت سے بچے بے ہوش ہورہے تھے.

وہ لوگ دونوں پورشن سے تمام بچے نکال چکی تھیں. اب صرف بچے چھت پر ہی رہ گئے تھے. اور ٹائم بھی پانچ منٹ ہی بچا تھا. نیچے والا حصہ بھی تقریباً خالی ہوچکا تھا.

جب سوہا نے ماہ روش نے نظر بچا کر ایک بچے کو لئے اندر کی طرف بڑھی تھی اور بالکنی میں اُسے پھینک کر واپس آتے خود دوسرے بلڈنگ پر آگئی تھی. کیونکہ اب تمام بچے دوسری بلڈنگ پر پہنچ گئے تھے.

ارتضٰی , جاذل اور ارحم بچوں کو سیف سائیڈ پر لے آئے تھے. اور اُن تینوں کو بھی وہاں آنے کا بولا تھا. جب موقع دیکھتے سوہا پلٹی تھی. اور چیخ مار کر ماہ روش کو مخاطب کیا تھا.

" اوہ نو کیپٹن ماہ روش وہ دیکھیں ایک بچہ وہاں بے ہوش پڑا ہے. "

سوہا کی پکار پر ماہ روش نے بھی اُس طرف دیکھا تھا. اور ایک سیکنڈ بھی سوچے بغیر واپس اُس بلڈنگ کی طرف بھاگی تھی.

" ماہی کہاں جارہی ہو. پاگل ہوگئی ہوکیا. تین منٹ رہ گئے ہیں صرف. "

زیمل ماہ روش کو واپس دیکھ چلائی تھی.

" زیمل فوراً نیچے جاؤ اور سامنے والی بالکنی ہر پہنچو جلدی ہمارے پاس ٹائم بہت کم ہے. وہ بچہ مر جائے گا. "

ماہ روش زور سے چلاتی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی. اور ناچار زیمل کو بھی نیچے جانا پڑا تھا. کیونکہ اِس وقت دوستی سے زیادہ ڈیوٹی اہم تھی.

" ایم سوری کیپٹن ماہ روش مگر اپنے ملک کی خاطر اتنی قربانی تو دے ہی سکتی ہونا. تم لوگوں نے ملک کو بہت بڑے نقصان سے بچا لیا. بہت سے گھر اُجڑنے سے بچ گئے. اُس کا کچھ نہ کچھ ریٹرن تو بنتا ہے نا. اور میں جانتی ہوں ایجنسی والوں کے لئے اپنے ایک ایک آفیسر کی زندگی بہت قیمتی ہے. دھچکا تو اچھا خاصہ لگے گا."

سوہا سیف ایریا کی طرف بڑھتی مسکرائی تھی. جب ارتضٰی بھاگ کر اُس کے پاس سے گزرتا ماہ روش کے پیچھے اُس بلڈنگ میں کود چکا تھا.

ارتضٰی نے زیمل کے چلانے کی آواز سن لی تھی. اور ماہ روش کو بلڈنگ کے اندر جاتے دیکھ ارتضٰی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اُس کے پیچھے بھاگا تھا. جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے غیر اہم انسان کہتا تھا اِس وقت اُس کی جان خطرے میں دیکھ وہ اپنا نفع نقصان سب بھول چکا تھا.

" واہ امیزنگ اِس طرف تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا ایک تیر سے دو شکار. ہم سب کو بے وقوف بنا کر بظاہر نفرت کا اظہار کرتے ہو میجر صاحب. اور اب اپنی کیپٹن کو خطرے میں دیکھ آرام سے موت کے کنویں میں کود گئے ہو. "

سوہا اب مزے سے ہاتھ باندھے کھڑی سامنے والی بلڈنگ سے دھواں نکلتے دیکھ رہی تھی. جہاں سے اب اُن دونوں کا بچ نکلنا ناممکن تھا.

دھواں ناک اور منہ کے راستے ماہ روش کے اندر گھس چکا تھا. اُس نے بہت مشکل سے بچے تک پہنچ کر ہاتھ میں پکڑی رسی سامنے والی بلڈنگ پر کھڑی زیمل کی طرف اُچھالی تھی. تاکہ یہاں سے ہی بچے کو زیمل تک پہنچا سکے کیونکہ دھویں کی وجہ سے اُسے اپنے حواس کھوتے محسوس ہورہے تھے.

ماہ روش کے پہلی دفعہ کے پھینکنے پر ہی رسی کا سرا زیمل کے ہاتھ میں چلا گیا تھا. ماہ روش نے بالکنی سے آگے شیڈ پر آتے رسی کی مدد سے بچے کو زیمل کے حوالے کیا تھا.

" ماہی پلیز جلدی سے نکلو وہاں سے. "

زیمل بچے کو سنبھال چکی تھی. مگر ماہ روش کو چکراتے دیکھ زور سے چلائی تھی.

" زیمل تم بچے کو لے کر نکلو یہاں سے پلیز. "

ماہ روش بالکونی سے اندر کی طرف بڑھتے کھانستے ہوئے بولی مگر دو قدم ہی چل کر وہ وہیں بے ہوش ہوکر گر گئی تھی. دھواں اُس کے اندر داخل ہوچکا تھا.

زیمل چھت پر آکر سامنے کی طرف دیکھا تھا مگر وہاں سے ماہ روش کے باہر آنے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے.

اُس نے ٹائم دیکھا ڈیڑھ منٹ رہ گیا تھا. زیمل نے روتے ہوئے قدم اُس طرف بڑھا دیے تھے.

" کیپٹن زیمل ہوش کریں کہاں جارہی ہیں آپ."

جاذل نے اُسے بازو سے پکڑ کر روکا تھا. جان تو اُسکی اپنی بھی سولی پر اٹکی ہوئی تھی کیونکہ ارتضٰی بھی اندر ہی تھا. مگر اِس وقت اُن دونوں کے پیچھے جانا بے وقوفی ہی تھی.

" میجر جاذل ماہ روش اندر ہے ایک منٹ رہ گیا ہے. وہ....وہ نہیں میں اُسے کھونا نہیں چاہتی. مجھے جانے دیں پلیز. "

زیمل خود کو جاذل کے حصار سے آزاد کروانے کی کوشش کی تھی. وہ بُری طرح روتے ہچکیاں لے رہی تھی. ماہ روش اُسے بہت عزیز تھی. اور وہ پورے یقین سے کہہ سکتی تھی اگر اِس طرح وہ اندر ہوتی تو ماہ روش نے کچھ بھی کرکے اُس کے پیچھے پہنچ جانا تھا.

جاذل زیمل کا دکھ سمجھ سکتا تھا. کیونکہ وہ بھی ابھی اِسی تکلیف سے گزر رہا تھا. جاذل نے زیمل کی حالت دیکھتے اُس کے گرد بازو پھیلاکر سنبھالتے اپنے قریب کیا تھا. جب زیمل اُس کے سینے پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی.

اُسی لمحے کانوں کو چیڑتی آواز آئی تھی. اور جھٹکا اتنے زور سے لگا تھا کہ وہ دونوں ایک بار اپنی جگہ سے ہل گئے تھے.

دونوں نے سر اُٹھا کر آگ اور شعلوں کی لپیٹ میں آئی بلڈنگ کو دیکھا تھا. جس میں ارتضٰی اور ماہ روش موجود تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارتضٰی نے جیسے ہی ماہ روش کو بلڈنگ کی طرف جاتے دیکھا وہ بھی ٹائم کی پرواہ کیے بغیر اُس کے پیچھے بھاگا تھا.

بلڈنگ میں دھواں اتنا زیادہ پھیل چکا تھا کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا. ارتضٰی بہت مشکل سے دھویں کو چیڑتا آگے بڑھا. ٹائم بہت کم رہ گیا تھا مگر ارتضٰی ماہ روش کو چھوڑ کر باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا. دھویں سے اُس کی آنکھیں لال ہوچکی تھیں اور کھانس کھانس کر بُرا حال ہورہا تھا. مگر اُس کی نگاہیں بے قراری سے ماہ روش کو تلاش کررہی تھیں. جب اچانک اُسے ایک طرف ماہ روش بے ہوش پڑی نظر آئی.

ارتضٰی نے ماہ روش کے قریب پہنچتے اُسے اُٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا تھا. ایک منٹ رہ گیا تھا اور بہت زیادہ دھویں کی وجہ سے چھت کے راستے واپس جانے پر بہت ٹائم لگنا تھا.

ارتضٰی جلدی سے بالکنی کی طرف بڑھا تھا. جہاں ماہ روش کی پھینکی گئی رسی ابھی موجود تھی. جس سے ارتضٰی نے ماہ روش کو اپنے ساتھ باندھ لیا تھا اور بالکنی سے آگے شیڈ پر آتے قدموں کو پیچھے لے جاکر ایک لانگ جمپ لیا تھا. اگلے ہی سیکنڈ وہ دوسری بلڈنگ کے شیڈ تک پہنچ چکا تھا. شیڈ سے بالکنی پر آتے وہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگا تھا. ماہ روش کی سانسیں بہت دھیمی چل رہی تھیں کیونکہ بہت سارا دھواں اُس کے اندر جاچکا تھا.

ارتضٰی نے سیف ایریا میں داخل ہوتے وہاں روم میں ایک طرف رکھے صوفے پر ماہ روش کو لیٹا دیا تھا. ماہ روش کی نبض چیک کرتے ارتضٰی کی فکرمندی میں اضافہ ہوا تھا. وہ بہت مدھم چل رہی تھی.

ارتضٰی نے اُس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے ہاتھوں سے مسلا مگر ماہ روش ایسے ہی بے سُد لیٹی ہوئی تھی. جب ارتضٰی نے اپنا آخری ہربہ آزماتے ہوئے. ماہ روش کی مدھم سے مدھم ہوتی سانسوں کو نارمل کرنے کے لیے اُس کے چہرے کے قریب ہوا.

ماہ روش کے دونوں ہونٹوں کو نرمی سے تھام کر جدا کرتے ارتضٰی اُن کے اُوپر جھک گیا تھا اور اپنی سانسیں ماہ روش کے اندر اُتار دی تھیں. تھوڑی دیر اِسی پوزیشن میں رہتے ارتضٰی کو ماہ روش کے وجود میں کچھ ہلچل پیدا ہوتی محسوس ہوئی تھی. ارتضٰی اُس کے نرم ہونٹوں کو آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا. بے ہوشی میں بھی ارتضٰی کے لمس پر ماہ روش کے چہرے پر ایک سُرخی سی پھیلی ہوئی تھی.

ماہ روش نے کھانستے ہوئے ہوش میں آتے آنکھیں کھولی اور اپنے اُوپر تقریباً جھکے ارتضٰی سکندر کو دیکھا تھا. ماہ روش کو نارمل ہوتا دیکھ ارتضٰی کی کب سے اٹکی سانسیں معمول پر آئی تھیں.

ارتضٰی ماہ روش کو ٹھیک ہوتا دیکھ وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

ماہ روش کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ارتضٰی واقعی اُس کے اتنے قریب تھا یا یہ صرف اُس کا وہم تھا. مگر ہونٹوں پر کسی کا دہکتا پرشدت لمس ابھی بھی وہ محسوس کر سکتی تھی.

اُسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ زندہ بچ گئی ہے. اُس نے خود سے رُخ موڑ کر کچھ فاصلے پر کھڑے اپنے ستمگر کی طرف دیکھا تھا. جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر اُسے وہاں سے نکال لایا تھا.

ارتضٰی نے زیمل کو کال کردی تھی کہ آکر اپنی دوست کو سنبھالو. زیمل کے روم میں قدم رکھتے ہی ارتضٰی بنا ماہ روش کو دیکھے کمرے سے نکل آیا تھا کہ پلٹ کر دیکھنے سے جیسے پتھر کے ہوجانے کا خطرہ تھا. ارتضٰی کی بے رُخی پر ایک بےمول آنسو ماہ روش کی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ارتضٰی اُس کی جان بچانے کے لیے اُس کو جو تھوڑی دیر کا اپنا قرب بخشا تھا اُس پر اب اندر ہی اندر خود سے جنگ لڑ رہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"کیوں پاگل ہوجاتا ہوں میں اُسے تکلیف میں دیکھ کر. کیوں بھول جاتا ہوں دشمن ہے وہ میری. نفرت ہے مجھے اُس سے شدید نفرت. "

ارتضٰی بُری طرح پنچنگ بیگ کو ہٹ کرتا غصے سے کھولتے دماغ کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا.

" اگر اُس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو کیا میں اُس کے اتنے قریب جاتا. نہیں کبھی بھی نہیں. ایسی کونسی کشش ہے جو مجھے اُس کی طرف کھینچتی ہے اور میں ہر بات بھلائے اُس کے قریب چلا جاتا ہوں. نہیں ارتضٰی سکندر تم اتنے کمزور نہیں ہوسکتے کہ اُس لڑکی کے دھوکے میں آکر اپنے اور اپنے خاندان پر ہوئے ظلم کو بھول جاؤ نہیں ماہ روش ذوالفقار تم میری محبت کے نہیں صرف اور صرف نفرت کے قابل ہو. "

ارتضٰی کے مکوں کی سپیڈ بیگ پر تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی. وہ اپنے اندر کا سارا غصہ سارا غبار اِس پر نکال کر پرسکون ہوجانا چاہتا تھا. مگر شاید ابھی سکون اُسے میسر نہیں تھا. کیونکہ جس ہستی سے اُسے سب زیادہ سکون ملنا تھا ارتضٰی اُس کو اپنے سامنے بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا.

کتنے ہی گھنٹے اِسی کام میں مصروف آخر کار تھک ہار کر وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا.

ارتضٰی نے کل کے مشن کے بارے میں بات کرنے کے لیے سب کو میٹنگ کے لیے بلایا تھا. ماہ روش اچھے سے جانتی تھی کل کی اُس سے سرذد ہوئی لاپرواہی پر آج اُس کی خیر نہیں تھی.

ارتضٰی نے میٹنگ روم میں قدم رکھا تو وہاں پہلے ہی سب لوگ موجود تھے. ارتضٰی کی ایک بے اختیار نظر ماہ روش کی طرف اُٹھی تھی. جو زیمل کے ساتھ خاموشی سے سر جھکائے کھڑی تھی.

" کل پوری ٹیم نے مل کر جس طرح کام کیا اور اتنی بڑی تباہی کو روک لیا وہ قابلے تحسین ہے. اگر ہم آگے بھی اِسی طرح مل کر پوری بہادری اور لگن سے کام کریں تو انشاءﷲ بہت جلد ذی ایس کے ہمارے شکنجے میں ہوگا."

ارتضٰی کی بات پر سب نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

" مگر آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ مجھے اپنی ٹیم میں ایسے لوگ بلکل بھی نہیں چاہئیں جو انسانی جانوں کے ساتھ لاپرواہی کریں. جو کہ ہماری ایک ٹیم ممبر نے کل کے مشن میں کی ہے. "

ارتضٰی نے ایک سرد نگاہ ماہ روش پر ڈالی تھی.

" لیکن میجر ارتضٰی اِنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر بچایا بھی تو ہے نا اُس بچے کو. "

جاذل نے ماہ روش کی سائیڈ لینی چاہی تھی مگر یہ بات ارتضٰی کو مزید تپا گئی تھی.

جنرل یوسف سمیت ہر ایک اُس کی وکالت کیوں کرتا تھا. جبکہ ارتضٰی کو ماہ روش کی معصومیت صرف ایک دھوکہ لگتی تھی.

" میجر جاذل اُس بچے پر اگر کیپٹن سوہا کی نظر نہ پڑتی تو تم جانتے ہو کیا ہوسکتا تھا. بچے کو بچانے تو جانا تھا غلطی جو تھی. "

ارتضٰی کے اتنے سخت انداز پر زیمل نے پہلو بدلہ تھا. اُسے اِس وقت میجر ارتضٰی کی باتوں پر بہت غصہ آرہا تھا. بجائے ماہ روش کی بہادری پر اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کے وہ اُسے بُری طرح ڈانٹ رہے تھے.

"کیپٹن ماہ روش تمہیں زرا بھی اندازہ ہے تمہاری اِس ایک بے وقوفی کی وجہ سے ہمارے مشن کو کتنا بڑا خطرہ ہوسکتا تھا."

میجر ارتضٰی کی آنکھوں سے اُس کے لیے نفرت کے شرارے پھوٹ رہے تھے. اگر چند اہم وجوہات نہ ہوتیں تو وہ اِس لڑکی کو اپنی ٹیم سے نکال باہر کرتا جس کی وہ شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا.

"سر مجھے اُس وقت جو ٹھیک لگا میں نے کیا. لیکن پھر بھی آپ میرے اُس عمل پر جو سزا دینا چاہیں مجھے قبول ہے."

ماہ روش سر جھکائے بولی کیونکہ اُس میں ہمت نہیں تھی. اُس شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھنے کی جسے اُس نے زندگی میں سب سے زیادہ چاہا تھا.

"تم جیسی نا اہل انسان کی اتنی امپورٹنٹ فیلڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے اور میری ٹیم میں تو بلکل بھی نہیں. "

میجر ارتضٰی کی بات پر ماہ روش نے اپنی سرخ آنکھیں اُوپر اُٹھائی تھیں. اور نفی میں سر ہلاتے ملتجی انداز میں سامنے موجود سنگدل شخص کی طرف دیکھا تھا. جو اُسے اُن ناکردہ گناہوں کی سزا دے رہا تھا جن کے بارے میں ابھی وہ ٹھیک سے جانتی بھی نہیں تھی.

وہاں موجود باقی ٹیم ممبرز خاموشی سے ارتضٰی کا وہی جنونی رُوپ دیکھ رہے تھے جو صرف کیپٹن ماہ روش کے لیے مختص تھا. وہ نہیں جانتے تھے اِن دونوں کے درمیان ایسی کیا وجہ ہے کہ میجر ارتضٰی ماہ روش کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر اُسے ایسے ہی ذلیل کرکے رکھ دیتا تھا. لیکن اُن میں ایک ایسی فرد بھی تھی جسے یہ سب دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی تھی.

سوہا کل اِن دونوں کو زندہ دیکھ اور اپنے پلان کے فیل ہونے پر بہت زیادہ غصے میں تھی. مگر اِس وقت کیپٹن ماہ روش کی انسلٹ پر اُسے بہت سکون مل رہا تھا.

ماہ روش نے ارتضٰی کو کچھ کہنا چاہا تھا مگر ارتضٰی اُس کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر ایک امپورٹنٹ کال آنے پر وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

ماہ روش بھی بنا کسی سے بات کیے وہاں سے اُٹھ آئی تھی. اُس کا دل آج بہت اُداس تھا اور دادو کی بہت یاد آرہی تھی. ماہ روش کا شدت سے دل چاہا تھا کہ کاش اُسے اپنی ماں کا پتہ چل جائے تو وہ اُن کی گود میں سر رکھ کر اپنے اندر کے تمام غم اور دکھ بھلا دے.

لیکن وہ نہیں جانتی تھی ابھی اُس کے لیے بہت سی آزمائشیں باقی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" جاذل دیکھو شہر میں کتنی پیاری پیاری لڑکیاں ہیں. کوئی تو پسند کر لو."

غزالہ اور حمیرا ڈرائیور کے ساتھ شہر شاپنگ کے لیے آئی تھیں. جب اُن کے بے حد اسرار پر جاذل اُن کے ساتھ آگیا تھا. لیکن مال میں موجود ہر خوبصورت لڑکی کو دیکھ اُسے بھابھی بنانے کی خواہش اُن کے دل میں جاگ اٹھتی تھی.

" آپ لوگ چپ کرکے شاپنگ کرو ورنہ میں نے یہیں سے واپس لے جانا ہے. "

جاذل کی دھمکی پر وہ منہ بسور کر رہ گئی.

" آؤچ. دکھائی نہیں دیتا کیا. "

جاذل اُن دونوں کی طرف دیکھ کر بات کرتے سامنے سے آتی زیمل کو نہ دیکھ پایا تھا جس کے نتیجے میں ایک زور دار ٹکر ہوئی تھی. جاذل نے زیمل کا بازو تھام کر اُسے گرنے سے بچایا تھا. زیمل جاذل کو دیکھے بغیر غصے سے بولی.

" آئم سوری زیمل میں نے دیکھا نہیں آپ کو. "

جاذل نے فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا.

" اٹس اوکے. غلطی میری بھی تھی. "

جاذل کو سامنے دیکھ زیمل ہولے سے بولی

زیمل کے انداز پر جاذل نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جیسے یقین نہ آیا ہو کہ یہ بات زیمل نے ہی کہی ہو.

غزالہ اور حمیرا کے ساتھ ساتھ سلمٰہ بیگم نے بھی بہت غور سے آمنے سامنے کھڑے جاذل اور زیمل کو دیکھا تھا. جو ایک ساتھ کھڑے بہت اچھے لگ رہے تھے.

" بیٹا آپ لوگ جانتے ہو ایک دوسرے کو. "

سلمہ بیگم کو یہ روشن پیشانی اور چوڑے سینے والا نوجوان بہت پسند آیا تھا.

" جی آنٹی ہم کولیگز ہیں. "

جاذل نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ اُنہیں جواب دیا.

" کیسی ہیں آپ زیمل. میں جاذل کی بڑی سسٹر ہوں. جاذل سے بہت سنا تھا آپ کے بارے میں آج مل کر بہت اچھا لگا."

غزالہ کو بھی زیمل بہت اچھی لگی تھی اور سب سے اچھی بات جو اُس نے نوٹ کی تھی وہ جاذل کو مسکرا کر زیمل کو دیکھنا تھا. آج تک اُنہوں نے جاذل کو کبھی کسی لڑکی کے ساتھ اِس طرح بات کرتے نہیں دیکھا تھا.

غزالہ کی بات پر جہاں زیمل کو حیرت ہوئی وہیں جاذل نے اپنی بہنوں کو اچھی خاصی گھوری سے بھی نوازا تھا.

" تھینکیو مجھے بھی بہت اچھا لگا."

زیمل رسماً مسکرائی

" بیٹا آپ لوگ آؤ نا کبھی ہمارے گھر. مجھے بہت اچھا لگےگا."

" جی جی آنٹی ہم ضرور آئیں گے. "

جاذل سے پہلے ہی غزالہ جلدی سے بول پڑی. جیسے اُسے یقین ہو کہ جاذل نے منع کردینا ہے.

جبکہ جاذل اور زیمل حیران پریشان سے اُن لوگوں کی پھرتیاں چیک کررہے تھے.

" ماما اب چلیں ہم دیر ہورہی تھی ہمیں. "

زیمل نے اُنہیں اُن کی تھوڑی پہلے مچائی جلدی کی طرف دھیان دلایا. کیونکہ جس طرح وہ جاذل کو دیکھ رہی تھیں اُسے لگ رہا تھا ابھی پکڑ کر اُس سے نکاح پڑھوا دیں گی.

سلمہ بیگم اور غزالہ ایک دوسرے کا نمبر ایکسچینج کرتیں گھر آنے کی یادہانی کرواتیں وہاں سے ہٹ گئی تھیں.

"آپا یہ کیا حرکت تھی."

جاذل کڑے تیور لیے اُن کی طرف مڑا.

" کونسی حرکت نمبر ہی تو لیا ہے میں نے. "

جاذل کا اشارہ سمجھتے ہوئے بھی وہ انجان بنی.

" آپ نے زیمل سے جھوٹ کیوں بولا کہ میں اُس کی باتیں کرتا ہوں. میں نے تو آج تک نام بھی کبھی نہیں لیا اُس کا. "

" یہی تو غلط کیا تم نے اتنی پیاری سی کولیگ ہے تمہیں پسند بھی ہے. ہم ایسے ہی پاگلوں کی طرح لڑکیاں ڈھونڈتی پھررہی ہیں. یہ لڑکی تمہارے فیلڈ کی ہونے کے ساتھ ساتھ تمہارے ٹکر کی بھی ہے. "

غزالہ نے جاذل کی جھنجھلاہٹ کو کسی خاطر میں نہیں لایا تھا.

" واٹ پسند کرتا ہوں میں زیمل کو. خدا کا خوف کریں آپا کچھ بھی بول رہی ہیں. وہ صرف میری کولیگ ہے بس. مگر آپ سے بات کرنے کا فائدہ نہیں آپ نے کونسا سمجھنی ہے میری بات. چلیں جلدی کریں آپ لوگ ایک گھنٹے کا وقت ہے آپ کے پاس. "

جاذل افسوس سے سر ہلاتے بولا اور ہمیشہ کی طرح اُنہیں فکس ٹائم دیتا آگے بڑھ گیا. جانتا تھا اگر تھوڑی دیر یہی ٹاپک رہا تو اُس کی بہنوں نے شادی تک پہنچ جانا تھا.

" ویسے آپا بھابھی پسند بڑی آئی ہیں مجھے. جس طرح بھائی اُنہیں دیکھ رہے تھے دال میں کچھ تو کالا ضرور لگتا ہے. "

حمیرا کافی دیر سے ساری باتیں نوٹ کرتی بولی.

" آہستہ بولو. پسند تو مجھے بھی بہت آئی ہے. لیکن اگر ہمارے اُس بگڑے نواب ذادے نے بھابھی کا لفظ سن لیا تو دونوں کی خیر نہیں ہوگی. "

وہ دونوں مسکراتیں جلدی سے آگے چلتے جاذل کے پیچھے بڑھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش اپنے گھر جانے کے بجائے دادو کے گھر آگئی تھی. اور سیدھا دادو کے کمرے میں آتے اُن کے بیڈ پر آکر لیٹ گئی تھی. تکیے پر سر رکھے وہ اُن کی آغوش محسوس کرنا چاہتی تھی جنہوں نے اپنے ہوتے اُسے ہر غم سے بچا کر رکھا ہوا تھا. نجانے کتنے ہی پل ایسے ہی گزر گئے تھے جب ماہ روش کا فون بجا تھا.

کال اٹینڈ کرکے مقابل کی بات سنتے ماہ روش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی.

" جی انکل میں وہیں پر موجود. آپ کا ویٹ کر رہی ہوں آپ پلیز جلدی سے آجائیں. "

ماہ روش کی بے صبری پر جنرل یوسف مسکرائے تھے.

ٹھیک پندرہ منٹ بعد جنرل یوسف ماہ روش کے سامنے تھے.

" اِس وقت اپنی پیاری سی بیٹی کے ہاتھ کی بنی چائے پینے کا بہت دل کررہا ہے. مگر لگتا ہے ہماری بیٹی آج چائے پلانے کے موڈ میں نہیں ہے. "

ماہ روش کی بے تاب نظریں اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل پر نوٹ کرتے وہ مسکراتے ہوئے بولے.

" او آئم سوری انکل میں ابھی بنا کر لاتی ہوں. "

ماہ روش شرمندہ سی ہوتی جلدی سے اُٹھی تھی.

کچھ دیر بعد چائے بنا کر اُن کے آگے ٹیبل پر رکھتی سامنے پڑے صوفے پر آبیٹھی تھی.

" انکل آپ آج مجھے سب کچھ بتائیں گے نا. پلیز مجھے اپنی ماما کے بارے میں جاننا ہے. "

ماہ روش کے ہر ہر انداز سے بے چینی اور بے قراری ٹپک رہی تھی. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا. جنرل یوسف کے ہاتھ سے فائل لے کر چند سیکنڈز کے اندر سب کچھ جان لے.

" جی بیٹا آج میں آپکی زندگی کی تمام حقیقت آپ کے سامنے رکھ دوں گا مگر اُس سے پہلے آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا. "

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش نے ناسمجھی سے اُن کی طرف دیکھا.

" کیسا وعدہ میں سمجھی نہیں انکل. "

" تم حقیقت جاننے کے بعد میجر ارتضٰی سکندر کو کچھ نہیں بتاؤ گی. چاہے آگے جیسے بھی حالات پیدا ہوجائیں. جب تک میں نہ کہوں تم اُس سے کچھ نہیں کہو گی. "

ماہ روش نے اُلجھن بھرے انداز میں اُن کی طرف دیکھا.

" مگر انکل میرے ماضی سے میجر ارتضٰی کا کیا تعلق ہے. "

ماہ روش کی بات پر جنرل یوسف مسکرائے.

" بہت گہرا تعلق ہے."

اُن کی باتوں سے ماہ روش کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا تھا. اور ساتھ میں گھبراہٹ بھی بڑھی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" لگتا ہے بھول رہی ہو تم ہمیں. ایک ملاقات تو کرنی پڑے گی تم سے. "

ریحاب کے کافی دیر بعد کال اُٹھانے پر غفور دھمکی آمیز انداز میں بولا.

" نن نہیں ایسا کچھ نہیں ہے. میں تھوڑی مصروف تھی اِس لیے کال نہیں دیکھ سکی. "

ریحاب نے فوراً بہانہ گھڑا تھا. ورنہ دل تو کررہا تھا موبائل اُٹھا کر دیوار سے دے مارے.

" دیکھو لڑکی یہ بہانے تم اُس کیپٹن کے آگے بناؤ تو زیادہ اچھا ہوگا. اور تمہیں میری بات آرام سے سمجھ نہیں آتی کیا. میں نے تم سے کہا تھا جلد از جلد نکاح ہوجانا چاہئے. مگر تم ابھی تک کچھ نہیں کرسکی."

غفور غصے سے بھڑکا تھا.

" ہاں بہت جلدی نکاح کی ڈیٹ فائنل ہونے والی ہے. اگر میں اتنی جلد بازی دکھاؤں گی تو ارحم کو شک ہوسکتا ہے اِس لیے تھوڑی خاموش ہوں. "

ریحاب نے بہت ہی سوچ سمجھ کر جواب دیا تھا.

" ہممہ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو. مگر مجھے جلد از جلد تم اُس کیپٹن کے گھر میں چاہئے ہو. "

ریحاب کی بات بھی اُسے ٹھیک لگی تھی. اِس لیے مزید وارن کرتے اُس نے فون بند کردیا تھا.

" اُف میرے خدا کہاں پھنس گئی میں. "

غفور کے فون بند ہونے پر ابھی ریحاب نے سکھ کا سانس بھی نہیں لیا تھا جب ارحم کی کال آنا سٹارٹ ہوچکی تھی.

" ہائے سویٹ ہارٹ کیسی ہو. "

ریحاب جو پہلے ہی تپی ہوئی تھی ارحم کے اِس بے ہودہ طرز تخاطب پر مزید جلی تھی.

" آپ واقعی آرمی کیپٹن ہی ہیں نا. کیا آپ کو وہاں یہی فضول لفظ سیکھائے جاتے ہیں. "

ریحاب کی بات پر سپیکر سے ارحم کا ایک جاندار قہقہ گونجا تھا.

" ہاہاہاہا اوہ ہو موڈ بہت آف لگ رہا ہے پیارے سے لوگوں کا. ویسے ابھی کس سے کال پر بات کررہی تھی. میں نے فون کیا مگر بزی تھا."

ارحم نے جان بوجھ کر پوچھا.

" وہ میں فرینڈ سے بات کررہی تھی. "

ریحاب گڑبڑائی

" اوکے میں تو نارملی پوچھ رہا تھا اِس میں اتنا گھبرانے والی تو کوئی بات نہیں . "

ارحم نے اُسے مزید چھیڑا. جبکہ ریحاب کو اچانک اُس کی بدلتی ٹون پر پسینے چھوٹتے ہوئے محسوس ہوئے.

" نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں. "

ریحاب نے اب کی بار لہجے کو مضبوط بنایا.

" اوکے. ویسے میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ اگلے ہفتے کو ہمارا نکاح ہے. اور ساتھ رخصتی بھی. پورے پانچ دنوں بعد تیار رہنا. مسسز ارحم آصف بنا کر ہی ملاقات ہوگی اب تم سے. ماما کا سختی سے آرڈر ہے. وہ شاید کل تک تمہیں ہاسٹل سے لینے آجائیں. اِس لیے سوچا سب سے پہلے میں ہی تمہیں یہ خوشخبری سناؤں."

ارحم اُس کی غفور سے ہوئی بات سن چکا تھا. اِس لیے اُس کی مشکل آسان کرتے بولا.

" اوکے تو پھر اب پانچ دنوں بعد ہی بات ہوگی. کیپٹن صاحب ﷲ حافظ. "

ریحاب ارحم کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر فون بند کرچکی تھی.

نکاح کی ڈیٹ فائنل ہوجانے پر خوش ہونے کے بجائے اُسے ایک عجیب سی بے چینی نے آگھیرا تھا. اتنے پاکیزہ رشتے کی بنیاد وہ ایک جھوٹ پر رکھنے جارہی تھی. ارحم کے ساتھ ساتھ اُس کے پورے خاندان کے جذبات سے کھیل رہی تھی. اِس وقت اُسے اپنا آپ سب سے زیادہ خود غرض لگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" ماہ روش بیٹا جو راز آج میں آپ کو بتانے جارہا ہوں. اُس سے بہت کم لوگ واقف ہیں. آپ کو بھی صرف اِس لیے بتانے جارہا ہوں کیونکہ آپ اِس راز کا ایک بہت اہم حصہ ہو. "

جنرل یوسف کو بات شروع کرتا دیکھ ماہ روش پوری طرح سے اُن کی طرف متوجہ ہوئی.

" آج سے تیس سال پہلے میں نے اور میرے جگری دوست سکندر نے آرمی کے تھرو آئی ایس آئی جوائن کی. ہمارے حوصلے بہت بلند تھے. پاکستان پر میلی نظر ڈالنے والے کو دوبارہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑتے تھے.

مجھ سے بھی کئی گنا زیادہ سکندر پاگل تھا وطن کے پیار میں بلکل اپنے بیٹے ارتضٰی سکندر کی طرح . اُس کو ہمیشہ مشکل سے مشکل مشن دیا جاتا کیونکہ اُوپر بیٹھے لوگ جانتے تھے سکندر اُنہیں کبھی مایوس نہیں کریں گا.

سکندر نے اپنی فیملی میں کسی کو بھی اپنے ایک ایجنٹ ہونے کا نہیں بتایا تھا. سب ارتضٰی کی طرح اُسے بھی ایک آرمی آفیسر ہی سمجھتے تھے. سکندر کی اپنی فیملی میں جان بستی تھی. خاص کر زینب اور ارتضٰی اُن کو بے حد عزیز تھے. زینب اُن کو سگی بیٹیوں سے بڑھ کر تھی.

سکندر کی زندگی ہر طرح سے خوشحال اور پرسکون تھی جب اچانک پاکستان کے حالات خراب ہونے لگے تھے. دہشت گردی, ڈرگز کا استعمال اور اغوا عام ہوچکے تھے. جب تحقیق سے پتا چلا تھا کہ یہ تباہی اسلام اور مسلمان دشمن ذی ایس کے کی پھیلائی گئی ہے. جو بہت سے اسلامی ممالک تباہ کرنے کے بعد اب پاکستان لوٹ چکا ہے.

اِس تباہی اور بربادی کو روکنے کے لیے ہمیشہ کی طرح ذی ایس کے سے مقابلہ کرنے کا مشکل ترین مشن میجر سکندر کو سونپا گیا. جس کو ہمیشہ کی طرح سکندر نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ قبول کیا. مگر وہ اُس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ مشن اُس کی زندگی کا آخری مشن ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے خاندان کی بربادی کا باعث بھی بنے گا.

سکندر نے اِس مشن کی تکمیل کے لیے خود کو بھلائے دن رات ایک کردیے. یہاں تک کے ایک ہی شہر میں ہوتے مہینوں اپنے گھر والوں سے بات تک نہ کر پاتا. اُس کی اِسی محنت اور لگن کی وجہ سے وہ ذی ایس کے کے بہت قریب پہنچ چکا تھا. مگر اُس کی بدقسمتی تھی کہ ایجنسی کی طرف سے اُسے اسسٹ کرنے کے لیے جو کیپٹن دیا گیا تھا وہ ذی ایس کے کا ایک جاسوس نکلا. وہ سکندر کے ذی ایس کے کے خلاف اکٹھے کیے گئے ثبوت تو ختم نہیں کرسکا لیکن ذی ایس کے کو ساری اطلاع دے دی. جس کے بعد سکندر کو ثبوت ضائع کر دینے اور پیچھے ہٹ جانے کے لیے دھمکیاں ملنے لگیں. سکندر کے ایمان کو خریدنے کی بھی بہت کوشش کی گئی. لیکن وہ سکندر کو اُس کے پختہ اور اٹل ارادوں سے پیچھے نہ ہٹا سکیں.

جب ذی ایس کے نے دیکھا کہ سکندر اب اُس کے خاتمے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے تو اُس نے اپنی گھٹیا چال چلتے. سکندر کی سب سے بڑی کمزوری اُس کی لاڈلی بہن زینب کو اُس کی یونیورسٹی سے اُٹھوا لیا.

یہ خبر سکندر کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھی. مگر ذی ایس کے اتنی گھناؤنی حرکت کے باوجود بھی سکندر کے قدم ڈگمگا نہ سکا. ذی ایس کے کا ارادہ صرف سکندر کو دھمکانہ تھا. لیکن زینب کا بے پناہ حسن اُس کی نیت خراب کرگیا تھا. سکندر نے اپنی سر توڑ کوششوں سے زینب کو ذی ایس کے کی قید سے جلد ہی رہاں کروا لیا تھا. مگر اپنی بہن کو داغدار ہونے سے نہ بچا پایا تھا.

ذی ایس کے اپنے پکڑے جانے کے خوف سے ملک سے ہی فرار ہوگیا تھا.

زینب کی اُجڑی حالت دیکھ اور اپنی اکلوتی لاڈلی بہن کی حفاظت نہ کرنے کے احساس نے سکندر کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا تھا. لیکن اِس کے باوجود اپنی بہن کو ٹوٹنے بکھرنے نہیں دیا تھا.

گھر والے چاہتے تھے کہ زینب کی کوک میں پلنے والا ناجائز بچہ ختم کردیا جائے مگر سکندر اتنے بڑے گناہ کے حق میں نہیں تھا. پھر جب زینب کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو زینب اُس ننھے سے معصوم وجود کو دیکھتے سکندر کے گلے لگ کر بہت روئی تھی. جو بھی ہوا تھا لیکن زینب نے اُسے اپنی کوک سے جنم دیا تھا اُسے دیکھ کر ممتا کا احساس جاگا تھا. وہ بلکل اُس کا عکس تھی بلکہ زینب سے بھی کہیں زیادہ حسین تھی. اُس کے ساتھ ہوئے ظلم میں اِس معصوم کا تو کوئی قصور نہیں تھا. تو اُسے کیوں وہ سزا دیتیں. سکندر نے بہت محبت سے زینب کی بیٹی کو گود میں لیتے اُس کا نام ماہ روش رکھا تھا."

جنرل یوسف کی باتیں سنتے اپنے نام پر ماہ روش نے جھٹکے سے سر اُٹھایا تھا اور بھیگی آنکھوں میں حیرت لیے اُن کی طرف دیکھا.

ماہ روش کی سوچ پڑھنے کے باوجود اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھی.

" اِس سب واقعے نے زینب کو چپ سی لگا دی تھی. وہ اپنی بیٹی کو گود میں اُٹھائے یا تو روتی رہتی یا خاموشی سے اُسے تکتے یہی سوچتی رہتی کہ اُس کا مستقبل کیا ہوگا. معاشرہ اُسے کبھی قبول نہیں کرے گا. یہ بات اُنہیں مزید بے چین کر رہی تھی. زینب سب گھر والوں کے بے حد اسرار کے باوجود شادی کے لیے ہامی نہ بھر سکی. وہ کوشش کے باوجود خود کو اِس رشتے کے لیے تیار نہ کر پارہی تھی. اپنی بہن کا دکھ سکندر کو اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا.

زینب کی پریشانی اور فکر کو دیکھتے سکندر نےمناسب وقت دیکھتے اپنے دس سال کے بیٹے ارتضٰی سے زینب کی چھ سالہ بیٹی کا نکاح کردیا تھا. جس میں سب گھر والوں کی رضامندی شامل تھی.

اُن کی یہ چھوٹی سی گڑیا گھر بھر کی بہت لاڈلی تھی. ہر ایک کی جان بستی تھی اُس میں. وہاں سب نے اُسے دل سے قبول کیا تھا. خاص کر ارتضٰی کی تو لاڈلی تھی وہ ارتضٰی کم عمری کے باوجود بہت سمجھدار تھا. جسے دیکھتے سکندر نے ارتضٰی کو ہر بات بتا دی تھی. تاکہ آگے چل کر اُن کے بچوں کی زندگی میں کوئی پرابلم نہ ہو. لیکن ارتضٰی نے بھی ساری سچائی کو کھلے دل سے قبول کیا تھا.

ابھی اُن کی زندگی پہلے کی طرح نارمل ہو ہی رہی تھی جب ذی ایس کے دوبارہ پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آگیا تھا.

ذی ایس کے نے پہلے سے دو شادیاں کر رکھی تھیں مگر اُس کے باوجود اُس کی نظر زینب پر تھی. لیکن زینب تک پہنچنا اب اُس کے لیے ناممکن تھا. جب اُسے اپنے آدمیوں سے پتا چلا کہ زینب کے پاس اُس کی ناجائز بیٹی ہے تو اُس کا گھٹیا دماغ اپنی پلاننگ شروع کرچکا تھا.

ذی ایس کے اچھے سے جانتا تھا سکندر اُس تک پہنچنے کی پوری پوری کوشش کررہا ہے. اُس نے سکندر کے پاس زینب سے نکاح کرنے کا پیغام بھجوایا تھا اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ لوگ نہ مانے تو وہ زینب کی بیٹی کو مار دے گا.

سکندر نے اُس کے پیغام پر غصے اور طیش میں آتے اُس کے کچھ بڑے بڑے اڈوں پر حملا کروا دیا تھا جس کے نتیجے میں ذی ایس کے کو اپنے اتنے لوگوں کے مرنے کے ساتھ اربوں کا نقصان بھی اُٹھانا پڑا تھا.

اپنے اتنے نقصان پر ذی ایس کے پاگل ہوگیا تھا. مگر چیخنے چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر پایا تھا.

جب اُنہی دنوں ذی ایس کے کے کسی دشمن نے اُس سے بدلہ لینے کے لیے اُس کی اور آسیہ بیگم کی بیٹی کو اغوا کروا لیا تھا.

ذی ایس کے اُسے سکندر کی سازش سمجھا تھا. اور انتقامی کارروائی کرتے اپنی ہی بیٹی ماہ روش کو سکول سے واپسی پر ڈرائیور کے ساتھ آتے اُس کی گاڑی کو بلاسٹ سے اُڑا دیا تھا.

ماہ روش کی ڈیتھ کی خبر سن کر زینب کی حالت اور پورے خاندان کو غم سے نڈھال دیکھ سکندر ہر حال میں ذی ایس کے کو ختم کرنے کے عزم سے گھر سے نکلا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا. سینئرز نے سکندر کو سختی سے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اُٹھانے سے منع کیا تھا. اُن کا مقصد تمام ثبوتوں کے ساتھ ذی ایس کے کو گرفتار کرنا تھا.

سکندر جیسا مضبوط شخص جو ہمیشہ کامیاب ہوتا آیا تھا. اتنی بڑی ناکامی برداشت نہ کرسکا تھا. اور خود سے جنگ لڑتے اپنی گاڑی ٹرک سے مار بیٹھا تھا.

سکندر کے کہنے پر میں اپنے طور پر خفیہ تحقیق کر رہا تھا. جس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کار بلاسٹ سے پہلے ہی ماہ روش کو کار سے نکال کر کوئی اور لڑکی کو بیٹھا دیا گیا تھا. اور ڈی این نے بھی یہ بات ثابت کردی گئی تھی. ذی ایس کے کے دشمنوں نے اُس کی بیٹی کو مار دیا تھا. جس کے بعد سکندر سے بدلہ لینے کے لیے اُس نے ماہ روش کو اپنی بیٹی کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لیا تھا.

میں یہ ساری سچائی سکندر کو بتائے بغیر کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا. جس کو ایکسیڈنٹ کے بعد بہت بُری حالت میں ہاسپٹل لایا گیا تھا. سکندر کو پورے ایک ہفتے بعد ہوش آیا تھا. مگر اُس کی حالت بہت خراب تھی. اُس نے آئی سی یو میں ملنے صرف مجھے ہی بلایا تھا.

یہ بات سن کر کے ماہ روش زندہ ہے سکندر نے مجھے کسی کو بھی بتانے سے منع کردیا تھا. اور وعدہ لیا کہ میں یہ بات کسی کو بھی اور خاص کر ارتضٰی کو نہ بتاؤں اِس سے ماہ روش کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا تھا.

میں نہیں جانتا تھا کہ وہ بات میری اپنے عزیز دوست سے کی گئی آخری بات ہوگئی.

لیکن سکندر سمجھ چکا تھا کہ تھا کہ اب اُس کے پاس زیادہ سانسیں نہیں بچیں تو اُس نے ایک بیان ریکارڈ کروایا تھا جو کہ خاص ارتضٰی کے لیے تھا. میں اُس وقت سکندر کی دوراندیشی نہیں سمجھ پایا تھا مگر بعد میں ارتضٰی کے اِس فیلڈ میں قدم رکھنے اُسے جاننے کے بعد سمجھ گیا تھا کہ سکندر نے ایسا کیوں کیا. "

جنرل یوسف کا چہرہ بھی اپنے دوست کے غم کو دوہراتے تر ہوچکا تھا.

"ذی ایس کے مطلب میرے بابا ذوالفقار صمد خان. "

ماہ روش کے لب ہولے سے پھپھرائے تھے.

جنرل یوسف نے سر اٹھایا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. حقیقت جان کر اُس کے چہرے پر زلزلے کے سے آثار تھے.

" ہاں مولوی صمد خان کا بیٹا. اِس مشن پر کام کرتے تم ذی ایس کے کی حقیقت سے تو واقف ہی ہو "

" لیکن اُن کے گھر والوں کی تو ڈیتھ ہوچکی ہیں تو دادو مطلب اُس کی ماں کیسے زندہ تھیں. "

ماہ روش ابھی بھی اُلجھی ہوئی تھی

" خالہ جان سگی ماں نہیں تھیں ذوالفقار کی بلکہ اُس کی سگی خالہ تھیں جنہوں نے اُسے اپنی بہن کی آخری نشانی سمجھ کر پاس رکھا سنبھالا لیکن یہ جاننے کے بعد کے وہ غلط سرگرمیوں میں ملوث ہوچکا ہے وہ کوشش کے بعد بھی اُسے روک نہ پائیں.

سکندر نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں آپ کا ہر طرح سے خیال رکھوں اور خاص کر ذوالفقار کے شر سے بچاؤں اِسی وجہ سے میں نے خالہ جان سے ملا اور اُن کو ذوالفقار کے سکندر کے خاندان پر کیے سارے ظلم کے ساتھ ساتھ آپ کے بارے میں بھی بتایا. میرے کہنے پر ہی اُنہوں نے آپ کو اپنے پاس رکھا. کیونکہ ذوالفقار پر ہم کسی طرح بھروسہ نہیں کرسکتے تھے. "

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش کے دل کا درد مزید بڑھا تھا. کیسی قسمت پائی تھی اُس نے کہ اُسے اپنے باپ سے ہی خطرہ تھا.

" ارتضٰی کی مجھ سے اتنی نفرت کی کیا وجہ ہے انکل میرا تو اِس سب میں کوئی قصور نہیں ہے پھر وہ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں. اور سکندر انکل نے ارتضٰی کے لیے کیا بات ریکارڈ کی تھی. "

ماہ روش نے آخر کار وہ بات پوچھ ہی لی تھی جو کب سے اُس کو بے چین کررہی تھی.

اُسے اب سمجھ آرہا تھا ارتضٰی کے قریب آنے پر اُسے بُرا کیوں نہیں لگتا. وہ اُس کا محرم تھا اور شاید اِس رشتے کی کشش ہی تھی جو اُسے ارتضٰی کی جانب کھینچتی تھی اور اُس سے محبت کرنے پر مجبور کرتی تھی.

" بیٹا آپ اچھے سے واقف ہو ارتضٰی کے غصے سے. وہ شروع سے ہی ایسا تھا. اور بہت شارپ مائینڈڈ ہونے کی وجہ سے اپنے خاندان سے پیش آنے والے تمام حالات سے واقف بھی تھا. جس نے اُسے مزید پتھر بنا دیا تھا.

سکندر ارتضٰی کی آئی ایس آئی جوائن کرنے کی خواہش سے واقف تھا اور جانتا تھا ارتضٰی کی اِس خواہش کے پیچھے مقصد ذی ایس کے کو اُس کے انجام تک پہنچانا تھا.

سکندر جانتا تھا ارتضٰی اِس فیلڈ میں آتے ہی اُن باتوں کا بھی پتا لگا لے گا جو اُس سے چھپائی گئی تھیں. اُن میں سب سے پہلی بات ارتضٰی کی گڑیا یعنی کہ ماہ روش کے زندہ ہونے کی تھی.

اور سکندر جانتا تھا اگر ارتضٰی کو پتا چل گیا کہ ماہ روش زندہ ہے تو وہ ایک پل بھی اُسے ذوالفقار کے پاس نہیں رہنے دے گا. اور اپنے پاس لے آئے گا. جو کہ ارتضٰی کے ساتھ ساتھ ماہ روش کے لیے بھی خطرناک تھا. ارتضٰی کو یہ سب کرنے سے روک سکتی تھی ایک چیز اور وہ تھی. سکندر کی ریکارڈنگ. ارتضٰی کے اِس فیلڈ میں آنے کے بعد مجھے جیسے ہی لگا وہ اپنی خفیہ تحقیق شروع کرنے لگا ہے میں نے اُسے سکندر کی ریکارڈنگ سنا دی جس میں وہ ارتضٰی کو اِس بات پر یقین دلا رہا تھا کہ اُن کی ماہ روش مر چکی ہے. اور ذوالفقار کو اُس کے انجام تک پہنچانے کے لیے اپنی قسم دی تھی. ارتضٰی جو اپنے باپ کو آئیڈیل مانتا تھا اُن کی زبانی سنی بات پر پورے دل سے یقین کرچکا تھا.

سکندر اپنے آخری وقت میں اپنے بیٹے سے غلط بیانی کرنے پر بہت تڑپا تھا. لیکن اپنے ملک اور خاندان کی سلامتی کی خاطر مجبور تھا. کیونکہ ارتضٰی کا جذبات میں اُٹھایا گیا ایک قدم بہت بڑی تباہی کا باعث بننا تھا. ارتضٰی اب یہی سمجھتا ہے کہ تم زینب کی بیٹی اور اُس کی بیوی کی قاتل ہو. اور اپنے باپ کے کہنے پر ماہ روش کا نام استعمال کرکے اور اپنے باپ کے نقشے قدم پر چل کر ایک بار پھر اُسے اور اُس کے خاندان کو تکلیف پہنچانا چاہتی ہو.

مگر بیٹا ارتضٰی تم سے نفرت نہیں کرتا. بہت پیار کرتا ہے لیکن ابھی سمجھ نہیں پا رہا."

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش پھیکا سا مسکرائی تھی.

" انکل مجھے اپنی ماما سے ملنا ہے. اُنہیں دیکھنا ہے. پلیز کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں. "

ماہ روش نے آس بھرے لہجے میں اُن کی طرف دیکھا. جواب میں جنرل یوسف نے فائل اُس کی طرف بڑھائی تھی.

ماہ روش نے جیسے ہی اُسے کھولا سامنے ہی ایک بہت ہی خوبصورت اور گریس فل سی خاتون کی پک موجود تھی جو اُس کی سگی ماں تھی جو اُس کی طرح ہی اُس کے لمس کو ترس رہی تھی.

ماہ روش نے اُن کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے عقیدت سے اُن کی تصویر چوم لی تھی. جب فائل میں پڑے پیپرز کو کھولا جس پر لکھی تحریر اُس کا دل دھڑکا گئی تھی.

اُس کا اور ارتضٰی کا نکاح نامہ.

ماہ روش نے جیسے ہی پارک میں قدم رکھا اردگرد کے ماحول نے اُس کی طبیعت پر اچھا اثر ڈالا تھا. گھر میں تو اُسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا.

دو دن گزر چکے تھے ماہ روش کو اپنی زندگی کی بھیانک سچائی جانے. نور پیلس پر اپنے باپ کے ڈھائے گئے ظلم کا سوچ کر اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا.

اُسے ہمیشہ یہی لگا تھا کہ اُس کے ساتھ غلط ہورہا ہے لیکن جو اُس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا اُس کے مقابلے میں تو یہ کچھ بھی نہیں تھا. اُس کا باپ اتنا ظالم کیسے ہوسکتا تھا.

ذی ایس کے جو نجانے کتنے لوگوں کو مار چکا تھا. کتنی ہی لڑکیوں کی عزت لوٹ چکا تھا. اور مزید کتنی ہی تباہی پھیلانے کی پلاننگ کیے بیٹھا تھا. وہ اُس کا سگا باپ تھا.

اپنے باپ کے نام پر جہاں بیٹیاں فخر محسوس کرتی ہیں وہیں اپنے باپ کے بارے میں سوچتے اُس کا ڈوب مرنے کو دل چاہ رہا تھا.

ارتضٰی کے درد کا سوچتے ماہ روش کو اپنا دل درد سے پھٹتا محسوس ہورہا تھا.

اِس جان لیوا سچائی میں ایک خوبصورت سچ جو اُس کے سامنے آیا تھا وہ ماہ روش کے دل کو اندر تک سکون بخش گیا تھا. یہ احساس ہی کتنا خوش کن تھا کہ وہ ارتضٰی سکندر پر پورا حق رکھتی تھی. اُس اکڑو مگر پیارے سے انسان کو سوچنے اور چاہنے کا اختیار صرف اُسی کے پاس تھا.

لیکن ارتضٰی کی بے پناہ نفرت بہت تکلیف دے تھی اُس کے لیے. ارتضٰی اُسے غدار اُس کے باپ کی وجہ سے کہتا تھا. ماہ روش کو اِس وقت اپنے باپ سے شدید نفرت محسوس ہورہی تھی. لیکن اُس نے خود سے عہد کیا تھا. وہ ارتضٰی سمیت باقی سب پر بھی ثابت کردے گی کہ وہ ایک ملک فروش ظالم درندے کی بیٹی ہونے کے باوجود اِس ملک کی مخافظ تھی. چاہے اِس کے لیے اُسے اپنی جان بھی کیوں نہ قربان کرنی پڑ جائے وہ کرے گی.

میجر ارتضٰی کے مطابق ذی ایس کے کی ایک بیٹی اور دو بیٹے بھی اُس کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں. اُسے اِس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ آسیہ ماما کے دونوں بچوں میں سے تو کوئی نہیں ہوسکتا تو مطلب وہ اُن کی دوسری وائف کی اولاد میں سے تھے.

ماہ روش اپنی ہی سوچوں میں گم چلتی جارہی تھی جب بے دھیانی میں سامنے پڑے پتھر کو نہ دیکھ پائی تھی. اِس سے پہلے کے لگنے والی ٹھوکر پر وہ لڑکھڑا کر گرتی کسی نے اُس کا ہاتھ تھام کر گرنے سے بچایا تھا. جلدی سے سنبھلتے ماہ روش نے جیسے ہی نظریں اُوپر اُٹھائیں ہمایوں مسکراتی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا.

اور یہی لمحہ تھا جب وہاں داخل ہوتے ارتضٰی کی نظر اُن دونوں پر پڑی تھی.

ماہ روش کا ہاتھ ہمایوں خان کی گرفت میں دیکھ ارتضٰی نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں. اُس کا دماغ غصے سے کھول اُٹھا تھا.

ماہ روش نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا لیکن ارتضٰی کی آنکھوں میں اُسے ہمایوں خان کے ساتھ کھڑے دیکھ شعلے نکل رہے تھے. وہ ہمایوں کی نگاہوں میں ماہ روش کے لیے پسندیدگی کے جذبات دور سے ہی دیکھ پارہا تھا. جب خود پر کنٹرول کھوتے وہ طیش کے عالم میں اُن دونوں کی طرف بڑھا تھا.

" ارتضٰی کیا ہوگیا ہے اتنے غصے میں کہاں جارہے ہو. "

جاذل نے ارتضٰی کو بازو سے پکڑ کر روکا. اور اُس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے کا منظر دیکھا تھا.

" کیپٹن ماہ روش اُس ہمایوں کے ساتھ کیا کررہی ہے یہاں. ذوالفقار تو چلو مان لیتے ہیں اُس کا باپ ہے. مگر اُس کے اِس پالتو کتے کے ساتھ کیوں کھڑی ہے. کتنی گھٹیا نظروں سے دیکھ رہا ہے وہ خبیث اُسے. "

ارتضٰی اپنے الفاظ پر غور کیے بغیر چلایا. جاذل ارتضٰی کا ماہ روش کے لیے یہ رُوپ دیکھ کر حیرت ذدہ تھا.

" تمہیں اپنی ٹیم ممبر کیپٹن ماہ روش کا اپنے دشمن کے ساتھ کھڑا ہونا اچھا نہیں لگ رہا یا کسی کی اُس لڑکی پر پڑتی نظریں برداشت نہیں ہورہیں."

جاذل نے کھوجتی نظریں ارتضٰی کے ضبط کرتے چہرے پر گاڑھیں.

" فضول بات مت کرو. وہ لڑکی میرے لیے اتنی امپورٹنٹ نہیں ہے. میں صرف اپنے مشن کی وجہ سے کہہ رہا ہوں."

ارتضٰی جاذل کی بات کا مطلب سمجھ کر سنبھلتے ہوئے بولا. نظریں ابھی بھی ہمایوں کے سامنے کھڑی ماہ روش پر تھیں.

وائٹ ڈریس پر بلیک شال سے خود کو کور کیے پُرکشش نقوش کے ساتھ وہ لڑکی کسی کو بھی اپنے پیار میں پاگل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی.

جاذل اُس کی بات پر مسکرایا تھا. ارتضٰی اک پل میں ہی اپنی دلی حالت اُس پر عیاں کر گیا تھا. جاذل ارتضٰی کی آنکھوں میں ماہ روش کے لیے محبت کی شدت دیکھ سکتا تھا. اور یہی بات اُسے سب سے زیادہ حیران کررہی تھی کہ اتنی محبت کے باوجود وہ ماہ روش سے بظاہر اتنی نفرت کا اظہار کیوں کرتا تھا.

جاذل ارتضٰی کی زندگی کی تقریباً ساری باتوں سے واقف تھا. مگر سوائے ماہ روش والے چیپٹر کے.

وہ دونوں یہاں کسی شخص کے بارے میں کچھ معلومات اکٹھی کرنے آئے تھے. لیکن ارتضٰی کا موڈ دیکھ جاذل کو اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا.

ارتضٰی کو واپس مڑتا دیکھ جاذل نے بھی قدم باہر کی طرف بڑھا دیے تھے.


" آپ ٹھیک ہیں. آپ کو لگی تو نہیں. "

ماہ روش کے فوراً ہاتھ کھینچنے پر ہمایوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری.

" نہیں میں ٹھیک ہوں. تھینکس. "

ماہ روش سنبھل کر اپنی شال ٹھیک کرتے بولی.

" میں اتنا بُرا بھی نہیں ہوں کہ آپ دو منٹ کھڑے ہوکر مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہ کریں. "

ماہ روش کو وہاں سے ہٹتا دیکھ ہمایوں اُس کے حُسن کی تابناکی میں کھوتے بولا.

" دیکھیے مسٹر مجھے یوں انجان لوگوں سے فری ہونے کا بلکل بھی کوئی شوق نہیں ہے. اور آپ جیسے بزدل مردوں سے تو بلکل بھی نہیں. جن کو اکیلا باہر نکلنے سے ڈر لگتا ہے دس دس گارڈز لیے پھرتے ہیں ساتھ. "

ماہ روش اُس دن کی طرح آج بھی ہمایوں کے پیچھے کھڑے گارڈز کو دیکھ طنزیہ لہجے میں بولتی وہاں سے نکل آئی تھی. اُسے اِس شخص کی نظریں کچھ ٹھیک نہیں لگی تھیں.

ہمایوں نے گہری نظروں سے اُس موم کی گڑیا کی طرف دیکھا. جو دوسری بار ٹکا سا جواب اُس کے منہ پر مار کر جاچکی تھی. اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اُسے اِس لڑکی کی باتیں زرا بھی بُری نہیں لگتی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" آنٹی آپ فکر مت کریں. میں اور ماہ روش ہیں نا ریحاب کو ایک دن کے اندر اندر ہی ساری شاپنگ کروا دیں گی. ویسے بھی آج کے دن ہم بلکل فری ہیں. "

زیمل صائمہ بیگم کو تسلی دیتے بولیں. جو ارحم کی اتنی جلدی مچانے پر اچھی خاصی ٹینشن میں آچکی تھیں. ارحم کی ضد پر شادی سادگی سے ہی ہورہی تھی لیکن پھر بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی پر صائمہ بیگم اپنے سارے ارمان پورے کرنا چاہتی تھیں.

" جی آنٹی اور تو نہیں مگر ہماری زیمل شاپنگ میں بہت ایکسپرٹ ہیں. اِس لیے اِس طرف سے آپ بلکل ٹینشن فری ہوجائیں. "

ماہ روش کی بات پر صائمہ بیگم مسکرائیں جبکہ زیمل نے اُسے گھوری سے نوازا.


" آنٹی ویسے یہ ہماری ہونے والی بھابھی کہاں ہیں. اور آپ نے اُسے ارحم سے پردے میں ہی رکھا ہوا ہے نا. "

زیمل نے روایتی نندوں والا انداز اپنایا تھا.

" بلکل فل پردے میں رکھا ہوا ہے. ریحاب اُوپر ہے جہاں ارحم کو جانے کی بلکل اجازت نہیں ہے جاؤ آپ لوگ مل لو جاکر. "

صائمہ بیگم کے کہنے پر وہ دونوں ریحاب کو ملنے اُٹھی تھیں. ارحم کے ساتھ اُن کا بہت پیارا رشتہ تھا. کافی ٹائم سے وہ لوگ ایک ساتھ کام کررہے تھے. اِس لیے ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا تھا.

ماہ روش ارحم کی ایک کال پر اپنا دکھ اندر چھپائے اُس کی خوشی میں شریک ہونے پہنچ گئی تھی. ارحم کی کوئی بہن نہیں تھی اِس لیے صائمہ بیگم نے تمام ذمہ داری اُن دونوں کو سونپی تھی.

وہ دونوں ریحاب کے روم میں داخل ہونے لگی لیکن اندر سے آتی آواز پر حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتیں وہیں رُک گئیں.

" میری بات سمجھنے کی کوشش کریں آپ لوگ. ابھی میں اِس گھر کے صرف ایک کمرے تک محدود ہوں. جنرل آصف تو دور ارحم کے روم تک بھی نہیں جاسکتی. پھر کیسے لاکر دوں آپ کو وہ فائل."

ریحاب کی گھبرائی آواز سن کر وہ دونوں خاموش نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتےجیسے سارا معاملہ سمجھ گئی تھیں.

ارحم کے اِس طرح اچانک شادی کا شوشہ چھوڑنے کی وجہ اور وہ بھی اُس لڑکی سے جسے وہ کچھ ٹائم پہلے ہی ملا تھا.

دونوں نے اپنے فیس ایکسپریشن نارمل کرتے دروازے پر ہلکا سا ناک کیا تھا. ریحاب نے جلدی سے فون بند کرتے اندر آنے کی اجازت دی

" واؤ آپ تو ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہیں. "

ریحاب سے مل کر اُس کے پاس بیٹھتے ماہ روش ستائشی انداز میں بولی.

اُنہیں ریحاب بہت ہی پیاری اور معصوم سی لگی تھی. ریحاب کو دیکھ کر ابھی تھوڑی دیر پہلے سنی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا.

" تھینکیو. مگر آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوں."

ریحاب نے مسکرا کر جواب دیا.

" یہ دونوں پیاری پیاری لیڈیز ایک دوسرے کی تعریف ہی کرتی رہیں گی یا شاپنگ پر بھی چلیں گی. ٹائم بہت کم ہے ہمارے پاس."

زیمل کی بات پر وہ دونوں مسکرائیں.

" جی بلکل چلیں گی ورنہ اِس تیسری حسین لیڈی نے چھوڑنا ہے ہمیں. "

ماہ روش ریحاب کو تیار ہونے کا اشارہ کرتی زیمل کے ساتھ باہر آگئی تھی.

" ماہی تمہیں کیا لگتا ہے ارحم ریحاب کی اصلیت سے واقف ہوگا. "

زیمل کی آواز میں اب پہلے جیسا جوش مفقود تھا. ارحم اُسے بلکل سگے بھائی کی طرح عزیز تھا. ارحم اگر واقعی ریحاب سے پیار کرتا ہے اور وہ اُسے صرف دھوکہ دے رہی ہے تو یہ بات بہت پریشان کن تھی.

" میرا جہاں تک خیال ہے. ارحم سب جانتا ہوگا. کیونکہ ریحاب مجھے ایک بہت ہی سادہ سی لڑکی لگی ہے. ارحم جیسا شخص اُس سے اتنی آسانی سے بے وقوف نہیں بن سکتا. "

ماہ روش کے لہجے میں بھی فکرمندی صاف ظاہر تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


نور پیلس میں اِس وقت بلکل خاموشی چھائی ہوئی تھی. سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جاکر سوچکے تھے. لیکن ایک وجود ایسا بھی تھا جو پچھلی تمام راتوں کی طرح آج بھی سب سے چھپ کر اپنی عزیز ہستی کی یاد میں تڑپ رہا تھا.

زینب بیگم ہاتھ میں پکڑے فوٹو کو تکی جارہی تھیں. جس میں اُن کی چھ سال کی ننھی پری کھلکھلا رہی تھی. اُن کی ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ گھر والوں کے سامنے اپنے اندر کا دکھ عیاں کرکے اُن کی پریشانی کا باعث نہ بنیں. اِس لیے رات کے وقت وہ اپنی گڑیا کے ساتھ ٹائم گزارتی تھیں. اپنے دل کی ہر بات اُس سے کہتی تھیں.

کتنا ہی وقت ایسے ہی بیٹھے بیٹھے گزر گیا تھا. جب گھڑی پر ٹائم دیکھتے اپنے آنسو صاف کرتے اُنہوں نے فوٹو فریم دراز میں رکھ دیا تھا. رات کا 1 بج چکا تھا ارتضٰی کے آنے کا وقت تھا اور وہ جانتی تھیں ارتضٰی نے سب سے پہلے اُنہیں کے کمرے میں آنا تھا.

سلیپنگ پلز لے کر زینب کمفرٹر اوڑھتی لیٹ گئی تھیں. جب کچھ ہی دیر بعد وہ نیند کی آغوش میں تھیں. کب سے انتظار کرتی ماہ روش کھڑکی کے راستے اُن کے کمرے میں داخل ہوئی تھی. دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی ماہ روش بیڈ کی طرف بڑھی تھی.

زینب پر نظر پڑتے ماہ روش کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے تھے. اُس کا شدت سے دل چاہا تھا کہ جاکر اپنی ماں کے سینے میں سما جائے. ماں کی گود کی گرمی محسوس کرتے دنیا کا ہر غم بھلا دے. مگر چاہنے کے باوجود وہ ایسا نہیں کر پائی تھی.

ماہ روش کتنی ہی دیر اُن کے ایک ایک نقش کو اپنی آنکھوں سے حفظ کرتی رہی تھی. اور اپنے جذبات پر قابو نہ پاتےجھک کر نرمی سے اُن کی پیشانی چوم لی تھی.

ماہ روش نے ٹائم دیکھا تو جلدی سے واپس کی طرف پلٹی لیکن کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھ کر ایک پل کے لیے اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا. اور ساتھ ہی پریشانی بھی بڑھی تھی کیونکہ میجر ارتضٰی سکندر فون کان سے لگائے سامنے ہی موجود تھا. اگر وہ یہاں سے اُترتی تو فوراً پکڑا جانا تھا.

ماہ روش جلدی سے روم کے دروازے کی طرف بڑھی تھی. مگر باہر نکل کر اُس کا دماغ چکرا گیا تھا. نور پیلس جتنا بڑا تھا وہاں انجان بندہ دن کے ٹائم بھٹک جاتا تھا اور وہ تو پھر رات کی تاریکی میں یہاں گھسی تھی. جنرل یوسف کی مدد سے وہ نور پیلس میں داخل تو آرام سے ہوگئی تھی لیکن اب نکلنا عذاب ہورہا تھا.

ماہ روش کو دس منٹ تو سیڑھیاں ڈھونڈنے میں لگ گئے تھے. مگر وہ ابھی تک ناکام رہی تھی.

" کیا مصیبت ہے کہاں پھنس گئی میں. "

ماہ روش اچھا خاصہ جھنجھلا چکی تھی. جب اچانک اُسے ایک سائیڈ سے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی.

" اوہ نو. "

خاموشی میں مضبوط بھاری قدموں کی دھمک قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی. ماہ روش ارتضٰی کے خوف سے بنا سوچے سمجھے دو قدموں کے فاصلے پر موجود روم کا دروازہ کھول کر اندر گھس گئی تھی.

روم میں بلکل اندھیرا تھا. کھڑکی کے راستے باہر سے آتی ہلکی سی روشنی میں ماہ روش سنبھل سنبھل کر چلتی سامنے گرے دبیز پردوں کی طرف بڑھی جن کے پیچھے اُسے ٹیرس کا گمان ہو رہا تھا.

ابھی ماہ روش پردوں تک پہنچی ہی تھی جب اُسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی. وہ جلدی سے پردوں کے پیچھے چھپ کر بلکل ساکت ہوئی. مگر اندر داخل ہونے والے کو دیکھ ماہ روش کا اُوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا.

" اُف میرے خدا ماہ روش تمہیں کھڑوس کا ہی روم ملا تھا چھپنے کے لیے. اگر سر کی نظر پر گئی مجھ پر تو اُنہوں نے کچھ بھی پوچھے بغیر گولی مار دینی ہے مجھے. "

ماہ روش نے ارتضٰی کو اندر داخل ہوکر دروازہ لاک کرتے دیکھ دل میں سوچا.

ارتضٰی لائٹ آن کرکے بیڈ کی طرف بڑھا. وہ اِس وقت بلیک ٹراؤزر شرٹ میں دراز قد کے ساتھ اُلجھا بکھرا ماہ روش کے دل کی دنیا ہلا گیا تھا. عنابی ہونٹ ہمیشہ کی طرح بھینچے ہوئے تھے. مغرور کھڑی ناک اُس کی شخصیت کے رعب میں مزید اضافہ کر رہی تھی. ماہ روش اپنی سچویشن بھلائے بے خود سی اُسے دیکھے گئی تھی. لیکن اگلے ہی لمحے سُرخ ہوتے پردہ آگے کردیا تھا کیونکہ ارتضٰی اپنی شرٹ کے بعد اب نیچے پہنی بلیک بنیان بھی اُتار چکا تھا. اُس کا کسرتی جسم بغیر شرٹ کے دیکھ ماہ روش پسینہ پسینہ ہوتی پیچھے ہوگئی تھی.

" یا ﷲ جی یہ مجھے کیا ہورہا ہے. "

ماہ روش کا دل تو پہلے ہی اِس ستمگر کا دیوانہ تھا. مگر یہ جاننے کے بعد کے وہ اُس کا محرم ہے دل مزید اُس کی طرف ہمک رہا تھا. جس کی دھڑکنوں کو کنٹرول کرتی ماہ روش ہلکان ہوئی جارہی تھی. لیکن مقابل کو پرواہ بھی نہیں تھی کہ کوئی نازک وجود اُس کی چاہت میں دیوانگی کی حدود کو چھو رہا ہے.

ارتضٰی کو واش روم کی طرف بڑھتا دیکھ ماہ روش نے سکھ کا سانس لیا تھا. لیکن فون بجنے پر وہ پھر واپس پلٹا تھا.

" جی کیپٹن ارحم کام ہوگیا. "

ارتضٰی موبائل کان سے لگائے ماہ روش کی طرف آیا تھا. ارتضٰی کا روم بہت ہی بڑا اور شاندار تھا. جس میں گرے کلر کی انٹیریر ڈیزائینگ کی گئی تھی. کمرہ نفاست سے سجا اپنی عمدہ مثال پیش کررہا تھا. لیکن ماہ روش نے کمرے میں موجود ہر چیز میں یوز گرے کلر کو دیکھ کر منہ بنایا تھا کیونکہ یہ اُس کا سب سے ناپسندیدہ کلر تھا. لیکن اگلے ہی لمحے یہ بات سوچ کر اُسے خود پر ہی ہنسی آئی تھی کہ اِس کمرے کے مالک کو تو اُس سے ہی سخت نفرت تھی اُس کی پسند اور ناپسند تو بہت دور کی بات تھی.

ماہ روش اپنی سوچوں سے باہر تب نکلی جب ارتضٰی کی جان لیوا خوشبو ماہ روش کے بہت نزدیک پہنچ چکی تھی.

" اِس ارحم کے بچے نے آج تک کوئی سیدھا کام کیا ہے کیا. اِس وقت کال کرنے کی کیا ضرورت تھی. "

ماہ روش اِس وقت ارحم کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی. ماہ روش کے بہت قریب آکر ارتضٰی واپس پلٹا اور فون بند کرکے بیڈ پر پھینکتے جلدی سے واش روم میں چلا گیا تھا.

واش روم کا دروازہ بند ہوتے دیکھ ماہ روش نے سکھ کا سانس لیا تھا. اُس نے زرا بھی ٹائم ضائع کیے ٹیرس کی طرف کا دروازہ کھولا اور ٹیرس کے راستے نیچے اُتر گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" ماما میں نے آپ سے کہا نا مجھے شادی نہیں کرنی. آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں میری بات. پلیز ماما میں اپنی اِس لائف میں بہت خوش ہوں. "

زیمل اچھی خاصی جھنجھلائی ہوئی تھی.

" زیمل بس بہت ہوگئی تمہاری یہ فضول کی ضد اب اور نہیں. تمہارے پاس صرف پندرہ دنوں کا ٹائم ہے. اگر کوئی لڑکا پسند ہے تو ملواؤ مجھے ورنہ میری مرضی کے مطابق شادی کرنی ہوگی تمہیں. "

سلمہ بیگم آج زیمل کی کوئی بھی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھیں.

" مگر ماما ایسے کیسے میری بات تو سنیں. "

اُن کے اتنے سخت لہجے پر زیمل ہولے سے منمنائی

" مجھے اِس ٹاپک پر مزید کوئی بات نہیں کرنی. "

سلمہ بیگم دو ٹوک انداز میں کہتے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی تھیں.

" اب جب مجھے کوئی پسند ہی نہیں ہے. تو کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں میں لڑکا. کیا کروں اب میں. "

زیمل سر ہاتھوں میں گرائے پریشانی سے بڑبڑائی.

وہ نجانے کتنا ہی ٹائم انہیں سوچوں میں گزار دیتی جب بجتے فون نے اُس کی توجہ اپنی جانب مبذول کی.

" میجر جاذل سپیکنگ. کیپٹن زیمل میں آپ کے گھر کے باہر موجود ہوں. ابھی اور اِسی وقت باہر آئیں. "

جاذل کے نئے آرڈر پر وہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی.

" کیا ہوا. سب ٹھیک تو ہے نا. "

زیمل جلدی سے روم کی طرف بڑھی.

" آپ سے جتنا کہا گیا ہے اُتنا ہی کریں. ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے. "

زیمل کو کافی حیرانی ہوئی تھی. آج تک ہر ارجنٹ مشن کے لیے ارتضٰی ہی کال کرتا تھا. اور آج جاذل اور وہ بھی ایسے اچانک.

" سب خیریت ہے نا. ارتضٰی سر نے تو کچھ بتایا ہی نہیں. "

زیمل کے بیٹھتے ہی جاذل نے گاڑی آگے بڑھا دی تھی.

" آپ کے ارتضٰی سر کا دماغ فلحال جگہ پر نہیں ہے. اِس لیے مجھے بھیج دیا. "

جاذل روڈ پر نگاہیں جمائے بولا.

گاڑی کی سپیڈ بہت زیادہ تھی. جیسے اُنہیں بہت جلدی کہیں پہنچنا ہو.

" ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں. "

جاذل کی مسلسل خاموشی پر زیمل کا تجسس بڑھ رہا تھا.

" تھوڑی دیر تک آپ خود ہی دیکھ لیجئے گا. "

جاذل کے جواب پر زیمل کو مزید تپ چڑی.

" اور اگر آپ بتا دیں گے تو مجھے نہیں لگتا آپ کا کوئی نقصان ہوجائے گا. "

وہ کہاں چپ بیٹھنے والی تھی.

" کڈنیپ کرکے لے جارہا ہوں آپ کو کیپٹن زیمل. وہاں جہاں آپ کے اور میرے سوا کوئی نہیں ہوگا. "

جاذل زیمل کی جانب جھکتے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا.

زیمل اُس کی بات سے زیادہ اُس کے انداز پر جذبز ہوتی پیچھے ہٹی.

" بدتمیز میجر سیدھی طرح جواب نہیں دے سکتا کسی بات کا. "

زیمل نے دل میں کوسا. اور خاموشی سے باہر کی طرف دیکھنے لگی تاکہ راستے کا تعین کرسکے.

جاذل نے چپ سادھ کر بیٹھی زیمل کو مسکراتی نظروں سے دیکھا.

" جس روڈ پر ہم ہیں یہاں سے ایک طرف راستہ گھنے جنگلوں کی طرف نکلتا ہے. اطلاع ملی ہے کہ وہاں ذی ایس کے کا منشیات کا بہت بڑا اڈا موجود ہے. وہیں جارہے ہیں. "

جاذل کے تفصیل بتانے پر بھی زیمل نے کوئی بات نہیں کی.

" پہلے اگر یہی بات بتا دیتے تو کیا ہوجانا تھا. "

زیمل نے کھڑکی کے باہر اندھیرے پر نظریں جمائے سوچا.

جاذل نے جنگل کے ایک سرے پر جھاڑیوں میں جاکر گاڑی روک دی. گاڑی ایسی جگہ کھڑی کی تھی جہاں اردگرد درختوں کا جھنڈ تھا. کسی کا بھی آرام سے گاڑی کو دیکھ پانا ممکن نہیں تھا.

وہ دونوں سنبھل کر قدم اُٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے. اطلاع کے مطابق اڈا جنگل کے بلکل وسط میں تھا.

چلتے چلتے اُنہیں تقریباً ایک گھنٹہ ہونے والا تھا. مگر ابھی تک صحیح لوکیشن تک نہیں پہنچے تھے.

" کیپٹن زیمل اگر آپ تھک گئی ہیں تو بتا دیں تھوڑا ریسٹ کر لیتے ہیں. "

اندھیرے میں چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں جھاڑیوں کے بیچ میں سے چلنا کافی کٹھن تھا. لیکن اِس جگہ پر ٹارچ کا استعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا. زیمل کی ٹانگوں کو ایک دو ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں لگ کر زخمی کرچکی تھیں. اِس لیے جاذل کو اُس کی فکر ہوئی تھی.

" نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں. آپ کو کچھ آئیڈیا ہے مزید کتنا ٹائم لگ سکتا ہے. "

زیمل کو تھکن اور تکلیف کی زرا پرواہ نہیں تھی.

اُس کی بات سنتے جب اچانک جاذل کی نظر آگے موجود دلدل پر پڑی تھی اِس سے پہلے کے زیمل وہاں پاؤں رکھتی جاذل نے ہاتھ بڑھا کر زیمل کو اپنی طرف کھینچا تھا زیمل نے سینے سے جاذل کے شرٹ دبوچتے خود کو گرنے سے بچایا تھا. زیمل نے گھور کر جاذل کی طرف دیکھا لیکن اُس کی نظروں کا تعاقب کرنے پر معاملہ سمجھتے تشکر بھری سانس خارج کی. اگر اِس دلدل میں پھنس جاتی تو آج کی رات یہیں گزر جانی تھی.

زیمل سنبھلتے فوراً پیچھے ہٹی.

" لوکیشن کے تو قریب پہنچ چکے ہیں ہم مگر ٹائم کافی لگ سکتا ہے ابھی. کیونکہ یہ اڈا زمین کے اندر موجود ہے جس میں ہم اُن کے ہی کسی آدمی کے تھرو داخل ہوسکتے ہیں. اُس کے بغیر داخل ہونا ناممکن ہے. "

جاذل زیمل کے آگے آگے چل رہا تھا.

" اُن کا آدمی ہمیں اندر داخل ہونے میں مدد کیوں کرے گا. "

زیمل کو جاذل کی بات سمجھ نہیں آئی.

" کیونکہ وہ اُن کے بھیس میں ہمارا آدمی ہے. "

وہ دونوں اِس وقت بلیک ڈریسز میں ملبوس رات کا ہی حصہ لگ رہے تھے.

تھوڑا آگے جاکر جاذل نے رُکتے ہوئے اردگرد کا جائزہ لیا. جگہ کے سیف ہونے کا یقین کرتے جاذل نے سائیڈ پر رکھے دو بڑے بڑے پتھروں کو اُٹھا کر کچھ فاصلے پر رکھا ایک پر بیٹھتے پاس کھڑی زیمل کو دوسرے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا.

یہاں بیٹھ کر اُنہیں اپنے آدمی کے سنگل کا انتظار کرنا تھا.

جاذل نے گہری نظروں سے بلیک قمیض شلوار میں ملبوس اور بلیک کلر کے دوپٹے سے ہی خود کو کور کیے زیمل کی طرف دیکھا. اُس کا چاندنی چھلکاتا چہرا چاند کی روشنی کو مات دے رہا تھا.

جاذل کو وہ ہر وقت چہکنے والی چڑیا اِس وقت بہت خاموش اور اُداس سی لگی تھی.

" زیمل آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا. "

جاذل کی بات پر اپنے خیالوں سے نکلتے زیمل نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا.

" جی میں بلکل ٹھیک ہوں. "

جاذل کو زیمل کا اتنا فارمل انداز ہضم نہیں ہوا تھا.

" تو کیا آپ نے میری گاڑی میں کہی بات مائینڈ کی ہے. "

جاذل اُس کی اُداسی کی وجہ اُگلوانا چاہتا تھا.

" نہیں ایسا کچھ نہیں ہے. "

اب تو جاذل کو یقین ہوچکا تھا کہ ضرور کوئی بات ہے ورنہ زیمل اور اتنے سیدھے جواب دے اُسے ممکن نہیں تھا. "

" تو کیا آپ اپنی اُداسی اور پریشانی کی وجہ شیئر کرسکتی ہیں مجھ سے. "

جاذل کے ڈائریکٹ پوچھنے پر زیمل نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا.

" ایسی کوئی بات نہیں ہے. میں کیوں اُداس اور پریشان ہوں گی. آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے شاید. "

زیمل نے سنبھل کر جواب دیا.

اب وہ اُسے کیا بتاتی اپنی پریشانی کا. کہ اُس کی ماما گن پوائنٹ پر اُس کی شادی کروانا چاہتی ہیں اور پندرہ دن کے اندر اُسے لڑکا ڈھونڈ کر اُن کے سامنے پیش کرنا ہے. ورنہ وہ اپنی پسند کے کسی بھی انجان بندے سے اُس کی شادی کروا دیں گی.

" پرابلمز شیئر کرنے سے کم ہوتے ہیں. اگر کوئی پرابلم ہے تو آپ مجھ سے ڈسکس کرسکتی ہیں. کیا پتا کوئی حل نکل ہی آئے یا میں آپ کی کوئی مدد کرسکوں."

جاذل کو یہ پیاری سی لڑکی یوں اُداس بیٹھی بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی. وہ ہر ٹائم مسکراتی اور لڑتی جھگڑتی ہی اچھی لگتی تھی.

" سوچ لیں آپ کر سکیں گے میری مدد. "

زیمل نے جاذل کی بات کو مذاق میں اُڑایا.

" بلکل آپ اپنی پرابلم بتائیں. بندہ حاضر ہے. "

یہ اُن کی تمام ملاقاتوں میں پہلی دفعہ تھا کہ وہ بغیر لڑے اتنے آرام سے ایک دوسرے سے بات کررہے تھے.

" شادی کریں گے مجھ سے. "

اُس نے ایسے پوچھا تھا جیسے نارملی بندہ کسی سے کھانے پینے کا پوچھتا ہے.

زیمل کی اِس غیر متوقع بات پر جاذل نے حیرت سے آنکھیں پھاڑے اُس کی طرف دیکھا جو اُس کے فیس ایکسپریشن پر ہنس رہی تھی.

" کیا ہوا میجر جاذل ابراہیم ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بڑی بڑی باتیں کررہے تھے. اب کیا ہوا. "

زیمل نے ہنستے ہوئے اُس کا مذاق بنایا.

" کیپٹن زیمل آپ سیریس ہیں یہی پرابلم تھی آپ کی. "

جاذل کو یقین کرنا کافی مشکل ہورہا تھا.

" جی یہی پرابلم ہے. میری ماما کی طرف سے دھمکی ملی ہے مجھے. پندرہ دن کے اندر لڑکا اُن کے سامنے حاضر کروں یا اُن کی پسند پر رضامندی دے دوں ورنہ انجام کی ذمہ داری میں خود ہوں گی.

لیکن آپ پریشان نہ ہوں میجر صاحب مذاق کررہی تھی میں آپ سے. "

زیمل نے اُس کی مشکل آسان کی.

" لیکن اب میں سیریس ہوں. "

جاذل کچھ سوچتے ہوئے بولا.

" کیا مطلب. "

زیمل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا.

" میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں کیونکہ آپ کی مدد کرنے سے میری بھی پرابلم سالو ہوسکتی ہے. "

جاذل نے اپنے دماغ میں آنے والے آئیڈیے پر خود کو ہی داد دی.

" میجر جاذل آپ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہیں. مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کی بات. "

زیمل اُلجھن کا شکار ہوئی.

" آپ بھی شادی نہیں کرنا چاہتیں اور میں بھی. لیکن ہم دونوں کے گھر والے کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہیں تو کیوں نا ہم دونوں ایک ڈیل کر لیں. "

جاذل کی بات ابھی بھی زیمل کے اُوپر سے ہی گزری.

" کیسی ڈیل. "

" ہم دونوں گھر والوں کو کہیں گے کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں.اور نکاح کرنا چاہتے ہیں. مگر رخصتی اپنے اِس مشن کے کمپلیٹ ہونے کے بعد کریں گے. اِس طرح گھر والوں کے ارمان بھی پورے ہوجائیں گے. اور ہماری بھی ٹینشن ختم ہوجائے گی.

اور جہاں تک بات ہے رخصتی کی تو مشن کے پورا ہونے تک ہم رخصتی سے پہلے ہی کسی نہ کسی طرح یہ نکاح والا ایگریمنٹ ختم کردیں گے. "

جاذل کو شادی دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا تھا. اُس کے مطابق وہ جس فیلڈ میں تھا وہاں کسی بھی وقت کوئی اندھی گولی اُن کا خاتمہ کرسکتی تھی. تو وہ خود سے کسی کومنسلک کرکے اُس کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا.

لیکن اپنی ماں اور بہنوں کی خواہش کی خاطر وہ اتنا تو کرہی سکتا تھا.

زیمل کو اِس بات کا تو زرا اندازہ نہیں تھا کہ جاذل بھی اُس جیسی پریشانی کا شکار ہے. جاذل کا دیا آئیڈیا اُس کی پریشانی تو ختم کرسکتا تھا. لیکن کیا اُس پر اتنا ٹرسٹ کرنا چاہئے. اور کیا یہ غلط نہیں ہوگا کیونکہ اِس رشتے میں دو لوگ نہیں دو فیملیز جڑیں گی.

" کیا ہوا کیپٹن زیمل پسند نہیں آیا میرا آئیڈیا آپ کو. "

جاذل زیمل کو بلکل خاموش دیکھ بولا.

" نہیں ایسا نہیں ہے. مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا یہ سب ٹھیک رہے گا. ہم اِس طرح اپنے اور ایک دوسرے کے گھر والوں کو دھوکہ نہیں دیں گے. بعد میں جب یہ رشتہ ختم ہوگا تو اُن کی فیلنگز ہرٹ نہیں ہوں گی."

زیمل بہت کنفیوژن کا شکار تھی.

" آئی نو یہ بہت بڑا فیصلہ ہے. اور اپنوں کی فیلنگز بھی ہرٹ ہوسکتی ہیں لیکن کسی کو خود سے وابستہ کرکے اُس کی زندگی خراب کرنے سے یہ سب زیادہ بہتر ہے.

ابھی ہم لوگ اپنی لائف کے سب سے اہم اور خطرناک مشن میں قدم رکھ چکے ہیں. جس میں آگے چل کر کچھ بھی ہوسکتا ہے. ہمارے پیرنٹس صرف اور صرف ہماری خوشی چاہتے ہیں. وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہم کس فیلڈ کا حصہ ہیں. اِس لیے صرف اُن کی خوشی کی خاطر کسی تیسرے کو اپنی زندگی میں شامل کرکے خوشیوں سے محروم کرنا بھی غلط ہے. "

جاذل نے بات ختم کرکے زیمل کیطرف دیکھا. جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی.

جاذل کی بات اُس کے دل کو لگی تھی. اُس کی ماما نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایک ایجنٹ ہے اُس کی زندگی اُس سے بھی زیادہ اِس وقت ملک کی امانت تھی. جسے اُسے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ذی ایس کے جیسی آفریت سے نجات دلانی تھی.

ماما صرف یہی تو چاہتی تھیں کہ اپنے ہوتے اُسے مضبوط رشتے میں باندھ دیں ایسے شخص کے ساتھ جو ہر پل اُن کی بیٹی کا خیال رکھے ہر مشکل میں اُس کا ساتھ دے. اور جاذل کے آئیڈیے کے مطابق اُس کی ساری پرابلم سالو ہوسکتی تھی.

" صحیح کہا آپ نے میجر جاذل لیکن آپ اگر بعد میں اپنے وعدے سے مکر گئے تو اِس مشن سے بچ بھی نکلے مگر میری گولی سےبچ نہیں پائیں گے آپ."

زیمل کے دھمکی آمیز لہجے پر جاذل نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا.

اِس سے پہلے کے وہ کچھ بولتا. اُسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی. سوکے پتوں پر پیر رکھنے کی وجہ سے ہلکی سی چڑچڑاہٹ پیدا ہوئی تھی.

جاذل اور زیمل فوراً اُٹھ کر درخت کی اوٹ میں ہوئے تھے. جاذل کے سامنے آجانے کی وجہ سے زیمل بلکل چھپ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب کو دھمکی پر دھمکی دی جارہی تھی کہ کسی بھی طرح ارحم کے کمرے میں جاکر ایک بہت امپورٹنٹ فائل کا ڈیٹا اُن تک پہنچائے. ریحاب کے کسی بھی انکار کو وہ لوگ خاطر میں نہیں لا رہے تھے جس پر ناچار ریحاب کو یہ رسکی قدم اُٹھانا پڑا تھا.

ریحاب اردگرد دیکھتے بہت احتیاط سے سیڑھیاں اُتر رہی تھی. اُس کا پورا وجود بُری طرح کپکپا رہا تھا. لائٹس آف ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ ڈر رہی تھی.

اُسے صائمہ بیگم سے پتا چلا تھا کہ ارحم آج رات گھر نہیں آئے گا. اِس لیے وہ اِس طرف سے کچھ مطمئن تھی. ارحم کے روم میں داخل ہونے سے پہلے ریحاب نے محتاط نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیا. ہر طرف خاموشی اور اندھیرا پھیلا دیکھ وہ جلدی سے اندر داخل ہوئی تھی. اور دروازہ اندر سے لاک کرتے وہی کھڑے ہوکر دروازے سے سر ٹکاتے گہرے گہرے سانس لیتے خود کو نارمل کیا تھا.


روم میں بلکل اندھیرا تھا ریحاب نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں. اور اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی. جب اچانک ایک احساس پر اُس کی دھڑکنے تھمی تھیں.

اپنے چہرے پر کسی کی سانسوں کی تپش محسوس کرتے ریحاب نے پٹ سے آنکھیں کھولیں. کسی کو اپنے اُوپر اتنے قریب جھکا دیکھ اِس سے پہلے کے ڈر کے مارے ریحاب کی چیخ برآمد ہوتی جب سامنے والے نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا. اور اُس کے مزاحمت کرتے دونوں بازو ایک ہاتھ کی گرفت میں لیتے اُس کے سر کے اُوپر لے جاکر دروازے کے ساتھ لگا دیے تھے. ریحاب کی آنکھیں خوف کے مارے باہر آرہی تھیں. وہ اندھیرے میں مقابل کو پہچان نہیں پارہی تھی. اور اِس طرح انجان گھر میں رات کے اِس پہر کسی مرد کے قبضے میں ہونے کا سوچ اُس کی جان نکل رہی تھی.

اِس وقت اُس کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ یہ شخص ارحم ہی ہو کیوں کہ پکڑے جانے سے بھی زیادہ اپنی عزت جانے کا خوف اُسے زیادہ ستا رہا تھا.

وہ جانتی تھی ارحم اُس کے لیے نامحرم ہے مگر اتنا ٹائم اُس سے بات کرنے کے بعد ریحاب اُس کے مضبوط کردار کی گواہی دے سکتی تھی.

وہ گھبراہٹ اور ڈر کے مارے بے ہوش ہی ہونے والی تھی جب مقابل نے اُس کے کان کے اُوپر جھکتے گھمبیر سرگوشی کی تھی. اُس کی بات سنتے اور اُسے کے ہلتے لب اپنی کان کی لوح پر محسوس کرتے ریحاب کی جان ہوا ہوئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر میں ایجنٹ 24. لوکیشن پر پہنچ چکا ہوں. راستہ بلکل کلیئر ہے. آپ لوگ اندر داخل ہوسکتے ہیں. "

جاذل کے آئیر پیس سے آواز گونجی تھی.

" اوکے تم نکلو یہاں سے اِس سے پہلے کے کسی کو کوئی شک ہو تم پر. "

جاذل زیمل کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے کچھ فاصلے پر موجود ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی کی طرف بڑھا. جہاں اُن کا آدمی موجود تھا جو بظاہر ذی ایس کے لیے کام کرتا تھا. اُن دونوں کو قریب آتا دیکھ وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا. جاذل اور زیمل کھڑکی کے راستے جھونپڑی میں داخل ہوئے. جس کے اندر موجود بڑے بڑے پتھروں کو سائیڈ پر کرتے گھاس کی بنائی گئی مصنوعی تہہ کو بھی اُٹھا کر سائیڈ پر کیا تھا

وہاں کا حصہ باقی زمین سے تھوڑا مختلف لگ رہا تھا. جاذل نے زور لگا کر اُسے دبایا تو وہ پیچھے ہوتا چلا گیا. جس کے ہٹنے سے اُنہیں زمین کے اندر جانے کے لیے ایک چھوٹی سی سرنگ نظر آرہی تھی.

مزید دیر نہ کرتے جاذل زیمل کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے سرنگ میں اُتر گیا تھا. زیمل بھی جاذل کے پیچھے اندر داخل ہوئی. وہ سرنگ اتنی تنگ اور تاریک تھی کہ زیمل کو اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا.

" زیمل آپ ٹھیک ہو. "

جاذل نے گہری گہری سانس لیتی زیمل سے پوچھا.

" یس میں ٹھیک ہوں. "

جاذل کو زیمل کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی تھی. جس میں آگے بڑھنے کا جوش صاف ظاہر ہورہا تھا.

پتھروں اور مٹی کے سہارے کافی نیچے آکر اُنہیں روشنی دیکھائی دی.

سنبھل کر قدم رکھتے وہ دونوں آگے بڑھے سرنگ کے ختم ہوتے ہی زمین کے اندر ہی آگے تھوڑے فاصلے پر بہت مضبوط سے دو ہال نما کمرے بنائے گئے تھے. جن کے باہر چار سے پانچ لوگ پہرے پر موجود تھے. اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے دونوں نے ایک ساتھ اٹیک کرتے دو پہرے داروں کی گردن اُڑا دی تھی.

" گلزار کیا ہوا آواز کیسی ہے وہاں. "

دور کھڑے ایک پہرا دار نے کچھ ہلچل محسوس کرتے آواز لگائی جواب نہ ملنے پر جیسے ہی وہ اُس طرف بڑھا زیمل نے ایک ہی جست میں اُس پر جھپٹتے اُس کا بھی کام تمام کردیا تھا.

دو لوگوں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہال کے بلکل سامنے موجود باقی دو پہرا دار ہوشیار ہوئے لیکن اُن کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے جاذل سلنسر لگے پسٹل سے اُن کی گردنیں اُڑا چکا تھا. جب اچانک جاذل نے کچھ محسوس ہونے پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور جلدی سے زیمل کو اپنی طرف کھینچتے پیچھے سے کیے جانے والے خنجر کے وار سے بچایا. زیمل اچانک رونما ہونے والی افتاد پر جاذل کے سینے سے جا ٹکرائی تھی. جاذل کے فولادی جسم سے ٹکرانے پر زیمل کے سر سے ٹیسیں اُٹھی تھیں.

زیمل پر اُٹھا خنجر جاذل کے کندھے میں گھب چکا تھا. اُس کے سینے سے سر اُٹھاتے زیمل نے جاذل کے چہرے پر موجود تکلیف کے آثار دیکھے تھے.

یہ اندھیرے میں ایک طرف چھپ کر بیٹھے اُن کے ایک اور ساتھی کی حرکت تھی جو ایک بار پھر حملہ آور ہوا

مگر جاذل جیسے باڈی بلڈر کو قابو کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا. اور یہی ہوا تھا اگلے چند سیکنڈز بعد وہ شخص جاذل کے رحموں کرم پر تھا.

زیمل جاذل کو اُس پر قابض ہوتا دیکھ پہلے ہی ہال کے قریب پہنچ چکی تھی. جس کمرے میں اُس نے قدم رکھا وہاں منشیات کا نام و نشان نہیں تھا . لیکن ایک طرف چار لوگ شراب کے نشے میں دھت تاش کھیلنے میں مصروف اِدھر اُدھر جھول رہے تھے. زیمل نے حقارت بھری نظروں سے دیکھتے اُن سب کو گولیاں سے بھونتے زمین کو اُن کے ناپاک وجود سے چھٹکارا دلایا تھا.

جاذل جو باہر موجود اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا زیمل کو وہاں سے نکلتا دیکھ دوسرے ہال کمرے میں داخل ہوا لیکن اندر داخل ہوتے ہی سامنے کا منظر دیکھ وہ دھنگ رہ گئے تھے. اطلاع کے مطابق وہاں بھاری مقدار میں منشیات کا ذخیرہ موجود تھا. جس سے اِس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن نوجوان کو عادی بناکر اُنہیں ختم کیا جارہا تھا.

جاذل نے آگے بڑھتے وہاں بم اٹیچ کیا اور ٹائم سیٹ کرتے وہ دونوں بھاگتے ہوئے باہر نکل کر واپس سرنگ میں داخل ہوئے تھے.

جاذل زیمل کا ہاتھ تھامے جلدی جلدی اُوپر کی طرف چڑھ رہا تھا. کندھے میں لگے خنجر کی وجہ سے خون کافی زیادہ بہہ رہا تھا. لیکن جاذل نے بہادری سے اپنے درد پر قابو پاتے اپنا کام جاری رکھا تھا.

سرنگ سے نکل کر وہ جنگل میں اُس جھونپڑی سے کافی دور آگے تھے. جب اُنہیں ایک زور دار دھماکے کے ساتھ زمین پھٹتی محسوس ہوئی تھی. اُس جگہ سے نکلنے والے آگ کے شعلوں سے جنگل میں رات کی جگہ دن کا گمان ہونے لگ گیا تھا.

وہ لوگ بنا رکے اپنی گاڑی تک پہنچے تھے. جب گاڑی کی روشنی میں زیمل کی نظر جاذل کے آگے کی طرف کندھے پر پڑی تھی. وہ پورا خون سے لال ہوچکا تھا. لیکن خنجر ابھی اندر موجود ہونے کی وجہ سے خون کے بہاؤ میں کمی واقعہ ہورہی تھی.

" میجر جاذل میں گاڑی ڈرائیو کرتی ہوں. آپ کو مزید درد ہوگا. "

زیمل نے جاذل کو زبردستی ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹایا تھا. اور سپیڈ میں گاڑی وہاں سے نکال لی تھی. آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد جب زیمل کو یقین ہوگیا کہ اب وہ لوگ اُس علاقے سے نکل آئے ہیں تو وہ روڈ کے ایک سائیڈ پر گاڑی روکتے جاذل کی طرف مڑی. جو ہونٹ بھینچے ضبط کیے ہوئے تھا.

زیمل نے گاڑی کی بیک سیٹ سے فرسٹ ایڈ باکس نکالا اور جلدی سے اُس کو کھولتے جاذل پر جھکی.

" میں خنجر نکالنے لگی ہوں. زیادہ دیر اِس کا اندر رہنا ٹھیک نہیں ہے. آپ کو درد ہوگا پر پلیز چیخنا مت ورنہ میں نے بھی چلانا شروع کر دینا ہے. "

جاذل نے اپنے اُوپر بہت قریب جھکی زیمل کو ضبط سے سُرخ ہوتی آنکھوں سے دیکھا. جو اُس کا درد محسوس کرتی رونی صورت بنائے ہوئے تھی.

اُس کی معصومانہ دھمکی پر درد کے باوجود جاذل کا قہقہ برآمد ہوا تھا.

" شکر ہے آپ ڈاکٹر نہیں کیپٹن ہیں ورنہ پیشنٹ نے تو آپکی دھمکی سے ہی گھبرا کر اُوپر پہنچ جانا تھا. "

جاذل اپنے بے حد قریب موجود زیمل کے دلکش نقوش کا جائزہ لینے میں مصروف تھا.

" اور شکر ہے آپ وکیل نہیں میجر ہیں ورنہ آپ نے تو کسی اور کو بولنے کا موقع بھی نہیں دینا تھا ہر بات کا جواب موجود ہوتا ہے آپ کے پاس.

زیمل نے جاذل کو اپنی اُوٹ پٹانگ باتوں میں مصروف کرتے خنجر پر گرفت مضبوط کرتے باہر کھینچا تھا. اور ساتھ ہی خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا.

زیمل کی دھمکی کے مطابق جاذل نے تو اپنی چیخ کو کنٹرول کر لیا تھا. لیکن زیمل اپنی چیخ پر قابو نہ پاسکی تھی. اور ساتھ ہی کئی آنسو بھی لڑھک کر اُس کے رُخسار پر بکھرے تھے.

" وآئے آر یو کرائنگ. "

جاذل اپنا درد بھلائے سنجیدہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا. زیمل کی آنکھوں میں موجود آنسو جاذل کو بے چین کر گئے تھے.

زیمل بغیر جاذل کی بات کا جواب دیے اُس کے زخم سے نکلنے والا خون روکنے میں ہلکان ہورہی تھی.

اور ساتھ ساتھ آنسو بھی بہائے جارہی تھی. وہ بظاہر جتنا بھی مضبوط اور سخت بننے کی کوشش کرتی لیکن اندر سے وہ ایک حساس اور نرم دل کی مالک تھی. کسی کا اِس طرح خون بہتا دیکھنا اور اُس کی وجہ بھی اگر وہ خود ہو تو یہ اُس کے لیے بہت تکلیف دہ عمل تھا.

جاذل نے خود پر ضبط کھوتے دوسرے ہاتھ سے زیمل کے آنسو ہاتھ کی پوروں سے چنتے اُس کو اپنے قریب ترین کیا تھا.

زیمل اُس کی پہلی حرکت پر ہی ساکت ہوئی تھی جب اُس کے سینے کے اُوپر خود کو بلکل گرا دیکھ وہ کچھ بول ہی نہیں پائی تھی. اِس وقت وہ خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی. اُسے اچانک سے کیا ہو رہا تھا اِس شخص کا درد اُسے اتنی تکلیف کیوں دے رہا تھا.

" میں تو آپ کو بہت بہادر آفیسر سمجھتا تھا. لیکن یہ کیا زرا سا خون دیکھ کر آپ تو سہمی ہوئی ہرنی لگ رہی ہیں. "

جاذل کے بظاہر سنجیدہ لہجے مگر آنکھوں سے جھانکتی شرارت دیکھ زیمل نے خود کو دیے جانے والے نام پر اُسے غصے سے گھورا.

لیکن جاذل کی دھڑکنے اپنے بہت قریب محسوس کرتے اپنی پوزیشن کا خیال آتے وہ شرمندہ سی ہوتی فوراً اُس کے سینے سے پیچھے ہٹی تھی. جو بہت ہی پرشوق نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.

آج جاذل کو زیمل کے بہت ہی منفرد اور پیارے رُوپ دیکھنے کو مل رہے تھے جنہیں وہ اپنا درد بھلائے انجوائے کرنے میں مصروف تھا.

زیمل اُس کی پل پل بدلتی نظروں سے کنفیوز ہوتے جلدی جلدی زخم پر دوا لگا کر سرجیکل ٹیپ سے پٹی کو کور کرتی فوراً سے پہلے پیچھے ہٹی.

" میں واقعی میں ہی بہت بہادر ہوں. لیکن کسی کا اِس طرح خون نکلتا دیکھنا میں برداشت نہیں کرسکتی."

زیمل کہاں چپ رہنے والی تھی. سنبھل کر بیٹھتے فوراً اُسے جواب لوٹایا تھا.

جس پر جاذل مسکرائے بنا نہ رہ سکا.

" میں ڈرائیو کرتا ہوں. یہاں کا راستہ ٹھیک نہیں ہے آپ تھک جائیں گی. "

زیمل کو گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ جاذل سیدھا ہوتا بولا.

" بلکل بھی نہیں میں ڈرائیو کر لوں گی. آپ آرام سے پیچھے ہوکر بیٹھیں. "

زیمل نے اُسے سختی سے منع کرتے گاڑی آگے بڑھا دی تھی. اُسے اب جاذل کی فکر ہورہی تھی کیونکہ خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اُس کا رنگ زرد ہورہا تھا. جبکہ جاذل بلکل ریلکیکس تھا اُس کے لیے بلکل نارمل بات تھی. انڈیا میں مشن کے لیے جانے سے پہلے اُسے اور ارتضٰی کو جتنی سخت ٹریننگ دی گئی تھی یہ درد تو اُس کے آگے کچھ بھی نہیں تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کیا چرانے آئی ہو میرے روم سے. "

ارحم کی آواز اتنی مدھم تھی کہ ریحاب بھی بمشکل سن پائی تھی. ریحاب کو ارحم کی آواز سن کر ایک سکون سا بھی ملا تھا.

ارحم اندھیرے میں بھی ریحاب کا ڈر اور خوف اچھے سے محسوس کرسکتا تھا.

" کک کیا مطلب. "

ارحم کے ہاتھ ہٹاتے ہی ریحاب منمنائی

اپنے پکڑے جانے کا خوف دوبارہ جاگا تھا.

" ایک دل ہی تو تھا مجھ غریب کے پاس وہ تو چرا ہی لیا ہے. اب اِس وقت میرے کمرے میں آکر جان بھی لینے کا ارادہ ہے کیا. "

ارحم ہونٹوں پر ہنسی سجائے بولا. جب اُس کی بات سن کر ریحاب نے تشکر بھرا سانس خارج کیا.

" وہ میں پانی لینے آئی تھی کچن سے. راستہ بھول کر اِدھر آگئی. پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے جانے دیں."

ریحاب کی بات سنتے ارحم نے اُس کے بازو آذاد کرتے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کردی تھی. اور ایک نظر اپنے سامنے کھڑی لڑکی پر ڈالی جو اُس کی وجہ سے مصیبت میں پھنسی ہوئی تھی. اور اپنی تمام بے وقوفیوں اور نادانیوں سمیت اُس کے دل میں بھی بہت گہری جگہ بنا چکی تھی.

ریحاب ارحم کے انداز سے آج بہت زیادہ کنفیوز ہورہی تھی.

" پلیز مجھے جانے دیں. "

ریحاب اُس کی خاموشی اور وارفتہ نگاہوں سے گھبرا کر پھر بولی. جو اُس کے اردگرد بازو رکھے اُسے قید کیے ہوئے تھا.

" اوکے چلی جاؤ سویٹ ہارٹ ویسے بھی چار دن بعد تو یہیں آنا ہے پھر تم مجھ سے بلکل نہیں بچ سکوگی. صرف دو دن اور پھر تم صرف اور صرف میری ہوگی. "

ارحم نے ریحاب کی آنکھوں میں جھانکا تھا. اور پہلی بار اُس کے دل نے خواہش کی تھی کہ ریحاب بھی اُسے ویسے ہی چاہے جیسے وہ اُسے چاہنے لگا ہے. لیکن اِس وقت اُسے ریحاب کی آنکھوں میں ایسا کوئی جذبہ نہیں دکھا تھا.

اُس کے پیچھے ہٹتے ہی ریحاب دروازہ کھولتی فوراً باہر بھاگی تھی.

ریحاب کے نکلتے ہی ارحم کے تاثرات سخت ہوئے تھے وہ اچھے سے جانتا تھا ریحاب کا اِس روم میں آنے کا مقصد. ریحاب کو جس طرح بلیک میل کیا جارہا تھا ارحم کے لیے یہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا لیکن ابھی کچھ ٹائم خاموش رہنا اُس کی مجبوری تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" ماہی بات تو سنو نا یار میں بتا تو رہی ہوں نا تمہیں . "

زیمل مسکین سا منہ بنائے شعلہ جوالہ بنی ماہ روش کی طرف دیکھا. جو اِس وقت اُسے کسی صورت بخشنے کے موڈ میں نہیں تھی.

" ابھی بھی کیا ضرورت تھی بتانے کی. آرام سے شادی کرکے بتانا تھا. پہلے یہ ارحم صاحب اور اب تم. مجھے بات ہی نہیں کرنی تم دونوں سے. "

ماہ روش نے زیمل کے ساتھ ساتھ ارحم کو بھی لپیٹ میں لیا.

زیمل اور ارحم اِس وقت ماہ روش کے گھر پر موجود تھے.

پہلے ارحم نے سب کچھ طے کرکے اُنہیں اچانک شادی کی نیوز دی تھی اور اب زیمل نے بھی اُسے جاذل کے ساتھ اپنی بات طے ہونے کا بتایا تھا.

ماہ روش اِس وقت بہت غصے میں تھی دونوں پر.

" زیمل کی بچی تمہارا قصور ہے سارا میری شادی تو ہونے دیتی پہلے. تمہیں کس بات کی جلدی تھی اتنی. "

ارحم نے بھی زیمل کو گھورا. جو ایسے مجرموں کی طرح کھڑی تھی جیسے بہت بڑا قصور کردیا ہو.

جاذل نے جیسے ہی اپنے گھر والوں کو زیمل کا بتایا وہ بغیر کسی تاخیر کیے کہ کہیں جاذل کا پلان پھر نہ بدل جائے ہتھیلی پر سرسوں جماتے اگلے ہی دن زیمل کے گھر رشتہ لیے پہنچ گئے تھے.

سلمہ بیگم کو تو پہلی نظر میں ہی جاذل بہت پسند آیا تھا اِس لیے اُنہیں تو اِس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا. اور اُوپر سے زیمل کے اتنے آرام سے اقرار کرنے پر اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا.

جاذل اور زیمل نے پلین کے مطابق اپنے گھر والوں سے رخصتی مشن کے کمپلیٹ ہونے تک ملتوی کرنے کا وعدہ لیا تھا. جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی بڑوں کو اُن کی بات ماننی پڑی تھی. لیکن اپنی بھی ایک بات منوا کر ہی رہے تھے جس کے مطابق نکاح ایک ہفتے کے اندر اندر کرنے کا کہاں تھا.

ارتضٰی کو بھی جاذل سب کچھ بتا چکا تھا. اِس لیے وہ بھی وہاں موجود تھا. اور اپنی ٹیم ممبرز کے اچانک اِس شادیوں کا سیزن شروع کرنے پر کافی جھنجھلاہٹ کا شکار بھی تھا. اُسی کے مشورے کے مطابق ارحم کے نکاح کے ساتھ ساتھ زیمل اور جاذل کا نکاح ایک ہی جگہ پر ہونا طے پایا تھا.

یہ سب اتنی جلدی دو دنوں کے اندر ہوا تھا کہ زیمل ماہ روش کو کچھ بتا ہی نہ پائی تھی اور آج تیسرے دن ماہ روش کے آگے اُس کی پیشی لگی ہوئی تھی. جس میں ارحم کو بھی اُس نے ساتھ گھسیٹ لیا تھا.

" ارحم تمہیں یہاں معاملہ سنوانے بلایا ہے مزید خراب کرنے نہیں."

زیمل نے ارحم کو تنبیہہ کرتے آنکھیں نکالیں.

" تم دونوں کو میرا گھر ہی ملا ہے لڑائی کرنے کا. اُٹھو اور نکلو یہاں سے. مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم دونوں سے. "

ماہ روش اُن کے نان سیریس ایٹیچیوڈ سے مزید تپی.

" ماہی سوری نا یار معاف کردو. تمہاری ہر سزا ماننے کو تیار ہوں پر پلیز ناراض تو مت ہونا. پرسوں میرا نکاح ہے پلیز. "

زیمل کان پکڑے معصوم سی صورت بنائے رُخ موڑے کھڑی ماہ روش کے سامنے آئی تھی.

" اور ماہ روش میرا اتنی جلدی شادی کرنے کا ریزن تو پتا ہے نا تمہیں. یہ بھی مشن کا ہی ایک حصہ ہے. "

ارحم نے بھی ماہ روش کے سامنے آتے کان پکڑے کیونکہ غلطی تو واقعی اُن دونوں نے کی تھی.

" ماہی تم بھی بے شک ہمارے ساتھ ایسا ہی کرنا. بلکہ تم تو نکاح کرنے کے بعد بتانا ہمیں. ہم کچھ نہیں بولیں گے. پلیز نا راضی ہوجاؤ."

زیمل اُسے منانے کے چکر میں جو دماغ میں آرہا تھا بولی جارہی تھی.

جب اُس کی بات سنتے ماہ روش ایک پل کے لیے سٹپٹائی تھی. اُس کا نکاح تو ہو بھی چکا تھا. اور اُس نے زیمل اور ارحم کو ابھی تک اِس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا. اِس لیے اب وہ کچھ نرم پڑی تھی.

" بس کرو تم لوگ اپنے ڈرامے. معاف کیا میں نے دونوں کو جاؤ کیا یاد کرو گے. "

ماہ روش کی بات سنتے ہی زیمل نے خوشی سے اُس کا گال چومتے اُسے کس کر جپھی ڈالی تھی.

" ویسے ایک بات مجھے ابھی بھی کھٹک رہی ہے. زیمل کل تک تو تم میجر جاذل کی شکل دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھی. یہ اچانک ہوا کیا تمہیں. ایک رات کے اندر محبت کیسے ہوگئی تمہیں. "

ماہ روش اپنی دوست کی رگ رگ سے واقف تھی اِسی لیے اُس کی من گھڑت کہانی پر کسی صورت یقین نہیں کرپارہی تھی.

" ماہی محبت تو ایک بے اختیاری عمل ہے اس کے لیے تو ایک لمحہ چاہئے ہوتا ہے کبھی بھی کسی بھی وقت ہوسکتی ہے. مجھے بھی ہوگئی. "

زیمل نے بہت مشکل سے لفظوں کا چناؤ کرتے ماہ روش کو یقین دلانا چاہا تھا.

" بس بس زیادہ فلاسفر بننے کی ضرورت نہیں ہے. "

ماہ روش کو اُس کی بات پر یقین تو ابھی بھی نہیں آیا تھا لیکن کچھ سوچتے خاموش ہوگئی تھی کیونکہ زیمل جس بھی وجہ سے راضی ہوئی تھی مگر جاذل جیسے سُلجھے ہوئے انسان کے ساتھ اپنی دوست کا نصیب جُڑنے پر وہ دل سے بہت خوش تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" ماشاءﷲ ماشاءﷲ تم دونوں کتنی خوبصورت لگ رہی ہو. آج تو میجر جاذل اور کیپٹن ارحم گئے کام سے. "

ماہ روش نے محبت سے اپنے سامنے دلہن کے رُوپ میں موجود زیمل اور ریحاب کی طرف دیکھا. جو نکاح کی دلہنیں بنی غضب ڈھا رہی تھیں.

گولڈن لہنگے میں ریڈ ڈارک میک اپ نے ریحاب کے دلکش نقوش کی تراش میں مزید اضافہ کر دیا تھا. پور پور سجی وہ آنے والے لمحات کا سوچ پاگل ہورہی تھی. اتنا بھاری لباس اور زیورات اُس نے پہلی بار پہنے تھے اِس لیے وہ بہت زیادہ اُن کمفرٹیبل فیل کر رہی تھی. اور مسلسل سوچوں اور ٹینشن کی وجہ سے اُسے ہلکا ہلکا فیور بھی محسوس ہورہا تھا.

اپنی لائف کے اتنے اہم موقع پر اپنے پیارے بھائی کی کمی اُسے شدت سے محسوس ہورہی تھی. چاہے اِس رشتے کی بنیاد کیسی بھی تھی لیکن صبح سے نجانے کتنی بار وہ اپنے پیرنٹس اور انیس کو یاد کرکے رو چکی تھی جو اِس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اُس کے ساتھ نہیں تھے اِس وقت.

اُداسی اور سوگواریت نے اُس کے حُسن کی رعنائیوں کو مزید بڑھا دیا تھا. ارحم نے پہلی نظر میں ہی چاروں شانے چت ہو جانا تھا آج.

" ماہی یار یہ کیا لاد دیا ہے تم لوگوں نے میرے اُوپر. میرا دم گھٹ رہا ہے اِس سب میں. پتا نہیں یہ مولوی صاحب کہاں رہ گئے ہیں. "

زیمل کی اُکتائی ہوئی آواز پر ماہ روش اُس کی بات کو انجوائے کرتے کھلکھلائی تھی.

زیمل ڈارک پرپل میکسی اور لائٹ سے میک اپ میں آج معمول سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے پہچانی ہی نہیں جارہی تھی. جیولری بہت انکار کے باوجود بھی سلمہ بیگم نے اُسے اچھی خاصی پہنا دی تھی.

ہمیشہ لاپرواہ سے حلیے میں رہنے والی زیمل اِس وقت سجی سنوری پریوں کے حُسن کو بھی مات دے رہی تھی. زیمل کے سہانے روپ کو دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کہ آج میجر جاذل کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہنے والے ہیں. وہ آج کسی صورت زیمل کے قاتلانہ حُسن کے وار برداشت نہیں کرپائے گا.

" میری بے صبری دلہن حوصلہ رکھو. اور ساتھ تھوڑی شرم بھی کر لو. تمہاری نندیں باہر ہی موجود ہیں کیا کہیں گی کہ کتنی بے شرم بھابھی ملی ہے انہیں ایسے ہی منہ پھاڑے مولوی صاحب کا پوچھ رہی ہے. "

ماہ روش نے اُسے فوراً ٹوکا. جب غزالہ کو اندر داخل ہوتا دیکھ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتی زیمل وہی رکی تھی.

ماہ روش اُسے ہاتھ ہلا کر انجوائے کرنے کا اشارہ کرتی اُس کی بہت گھوریوں کے بعد بھی روم سے نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" اسلام و علیکم بیٹا کیسی ہیں آپ. "

ماہ روش سلمہ بیگم سے بات کرکے پلٹی ہی تھی جب اُس کا سامنا ناہید بیگم سے ہوا تھا.

ماہ روش اُنہیں اِس طرح سامنے دیکھ بہت خوش ہوئی تھی. اور بہت ہی عقیدت سے اُن کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا تھا. اور اُنہیں دیکھ کہیں نہ کہیں ایک امید جاگی تھی کہ شاید اُس کی ماما بھی یہاں آئی ہوں.

" آنٹی میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں. "

ماہ روش نے بھرپور گرم جوشی سے جواب دیا تھا.

" ﷲ کا کرم ہے بیٹا. مجھے آپ سے اُس دن ارتضٰی کے رویے کے لیے معذرت کرنی تھی. وہ دراصل کچھ غلط فہمی کی وجہ سے اُس نے آپ کو ہرٹ کر دیا. "

ماہ روش جو بہت ہی محبت سے اُن کی طرف دیکھ رہی تھی. اُن کی بات سن کر ارتضٰی کا خیال آتے ہی فوراً دور ہوئی تھی. وہ کھڑوس بھی تو یہی کہیں ہوگا اگر اُس نے اُسے اپنی ماں کے ساتھ کھڑا دیکھ لیا تو اُس سے کوئی بعید نہیں تھی سب کے سامنے ہی اُسے جھاڑ کے رکھ دے.

" اٹس اوکے آنٹی. آپ پلیز ایسے مت کہیں اور مجھے اُس دن کسی بھی بات کا بُرا نہیں لگا تھا. "

ماہ روش اُن کی بات کا جواب دے کر نرمی سے معذرت کرتی وہاں سے ہٹ گئی تھی.

دنوں جوڑیوں کے نکاح کا بندوبست ایک ہی ہال میں کیا گیا تھا. ارحم اور جاذل کی فیملیز کے ساتھ ساتھ تمام مہمان بھی وہاں پہنچ چکے تھے کچھ ہی دیر میں نکاح ہونا تھا.

جاذل کے نکاح میں ارتضٰی کی پوری فیملی شریک تھی.

" جاذل تم جیسے میچیور انسان سے مجھے اِس بات کی امید بلکل نہیں تھی. "

ارتضٰی کو شک تو جاذل پر اِس رشتے کے بارے میں سنتے ہی ہوگیا تھا کہ یقیناً کوئی گڑبڑ ہے اور اِسی وجہ اب بہت جلد اُس نے جاذل سے سب سچائی اگلوا بھی لی تھی.

" یار اور کیا کرتا میں. گھر میں سب ہاتھ دھو کر میری شادی کے پیچھے پڑ گئے تھے. ہر بار گھر جانے پر پتا نہیں کون کون سی لڑکیوں کی تصویریں دکھائی جاتیں. اِس لیے یہ فیصلہ سب سے مناسب لگا مجھے. اور ویسے بھی ہر کوئی ارتضٰی سکندر تو ہوتا نہیں ہے. جو اپنے سامنے کسی کو اپنی شادی کے بارے میں نام بھی نہ لینے دے. "

جاذل کی بات پر ارتضٰی نے اُسے سخت گھوری سے نوازا.

" کرو یہ اُوٹ پٹانگ حرکتیں لیکن بعد جب کچھ گڑبڑ ہوئی تو مجھ سے کسی قسم کی اُمید نہ رکھنا. "

ارتضٰی اُس کے اِس طرح شادی کرنے کے حق میں بلکل نہیں تھا.

" آج تو بخش دو یار نکاح ہے آج میرا. "

جاذل نے آخر کار اُس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے. جس پر ارتضٰی نفی میں سرہلاتا مسکرایا تھا. وہ دونوں اِس وقت سٹیج سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے.

فل بلیک تھری پیس سوٹ میں ایک ساتھ کھڑے مسکراتے وہ وہاں موجود تمام دوشیزائیوں کو اپنا اسیر کر رہے تھے.

ماہ روش جو کسی کام سے وہاں آئی تھی. ارتضٰی کو دیکھ ایک پل کے لیے اُس کے قدم وہیں جم گئے تھے. آج کتنے ٹائم بعد اُس دشمنِ جاں کو مسکراتے دیکھا تھا. مسکرانے پر اُس کے گالوں پر اُبھرنے والے ڈمپلز کی دیوانی وہ اُنہیں پورے حق سے دیکھتی بے خود ہوئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" ماہ روش حمیرا بیٹا جاؤ. آپ لوگ زیمل اور ریحاب کو نیچے لے آؤ. "

صائمہ بیگم کے اشارے پر ماہ روش بھی حمیرا کے پیچھے برائیڈل روم کی طرف بڑھی تھی. تھوڑی دیر پہلے نکاح بخیر و آفیت ہوچکا تھا. اِس لیے اب زیمل اور ریحاب کو سٹیج پر جاذل اور ارحم کے ساتھ بیٹھایا جانا تھا.

ماہ روش اپنے نیچے گرتے ڈوپٹے کو سیٹ کرتے چل رہی تھی جب ایک طرف مڑتے سائیڈ سے آتے ارتضٰی کو نہ دیکھ پائی تھی. اور سیدھی اُس کے چوڑے وجود سے جا ٹکرائی تھی.

ارتضٰی جو اپنے ہی دھیان میں فون پر بات کرتا وہاں ٹہل رہا تھا. اِس اچانک تصادم پر ماہ روش کی آواز سنتے ہاتھ بڑھا کر فوراً اُسے پکڑا تھا.

" کیپٹن ماہ روش آنکھوں کا استعمال.. "

ارتضٰی جو ماہ روش کو اچھی خاصی سنانے کے موڈ میں تھا. مگر اُس کا ہوش رُبا حُسن دیکھ اپنے الفاظ ہی بھول چکا تھا.

ماہ روش مہرون کلر کے بھاری کامدار شارٹ فراک کے ساتھ فل امبرائیڈڈ شرارہ پہنے کالے گھنے سیاہ بالوں کا خوبصورت سا ہیئر سٹائل بنا کر آگے سے ایک سائیڈ پر کرکے اُن میں بیٹس لگائے ہوئے تھے.

نفیس سے جھمکے اور صراحی دار گردن میں نازک سا لاکٹ پہنے وہ پہلی والی سادہ سی ماہ روش تو بلکل نہیں لگ رہی تھی.

ماہ روش کو پکڑنے کے لیے بڑھایا گیا ارتضٰی کا ہاتھ ابھی بھی اُس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا. جس کی وجہ سے ماہ روش پیچھے بھی نہیں ہٹ پارہی تھی. ماہ روش کا اپنا ہاتھ بھی گرنے سے بچنے کے لیے ارتضٰی کے سینے کے اُوپر دھرا تھا.

اور ارتضٰی کے اِس طرح اچانک چپ ہوجانے پر دھڑکتے دل کے ساتھ حیرت سے نگاہیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. اور یہی لمحہ تھا جب اُس کی ترسی نگاہیں ارتضٰی کی سرد نگاہوں سے ٹکرائی تھیں. مگر یہ کیا آج اُن آنکھوں میں نفرت غصے نہیں بلکہ کچھ اور ہی نظر آرہا تھا. جو اِس وقت ماہ روش کو صرف آنکھوں کا دھوکہ ہی لگ رہا تھا. بھلا اِس ستمگر کی نظروں میں اُس کے لیے چاہت اور دیوانگی کیونکر ہوسکتی تھی.

ماہ روش کا دماغ اِس کو خوش فہمی سے زیادہ کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں تھا.

کتنے ہی پل ایسے ہی ایک دوسرے میں کھوئے گزر گئے تھے. دونوں کو اِس بات کا ہوش نہیں تھا کہ وہ لوگ اِس وقت پبلک پلیس پر ہیں.

ارتضٰی چاہنے کے باوجود بھی اپنے حواسوں پر قابو نہیں پا رہا تھا. یہ لڑکی اُسے ہپنوٹائز کر رہی تھی. ہمیشہ اپنے احساسات جذبات کو کنٹرول کرنے والا میجر ارتضٰی سکندر اِس وقت اِیک لڑکی کے حصول اور قربت کی خواہش میں قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا.

ارتضٰی نجانے اور بھی کتنے لمحے ماہ روش میں کھویا رہتا جب اُس کی نظر کوریڈور سے اِس طرف آتے شخص پر پڑی تھی. اگر وہ اُن دونوں کو ایک ساتھ کھڑا دیکھ لیتا تو بہت بڑی گڑبڑ ہوجانی تھی.

ارتضٰی نے اگلے ہی لمحے ماہ روش کی کمر پر دباؤ ڈالتے اُسے اپنے سینے میں بھینچا تھا. اور اُس کے بالوں میں لگے کیچڑ کو نکالتے اُن میں اپنا چہرا گھسا دیا تھا.

" ڈونٹ مو. "

ماہ روش کی مزاحمت کرنے پر ارتضٰی ہلکی آواز میں غرایا تھا.

ماہ روش جس کی جان پہلے ہی مشکل میں تھی ارتضٰی کی اِس بے انتہا قربت اور دھکتے لمس پر حواس بھی سات چھوڑتے محسوس ہوئے تھے.

ارتضٰی کی سانسوں سے اُسے اپنی گردن جھلستی محسوس ہورہی تھی. وہ سمجھنے سے قاصر تھی آخر اُسے اچانک ہوا کیا ہے.

" تمہارا باپ یہاں کیا کررہا ہے. یہ جانتے ہوئے کہ میری فیملی یہاں موجود ہے. تم نے ہی بلایا ہوگا اِسے. "

ارتضٰی کی لمس میں پہلے والی نرمی اب مفقود تھی. ماہ روش جو پہلے ہی اُس کی اتنی قربت پر بے حال تھی اب ارتضٰی کی اُنگلیاں اپنی کمر میں کُھبتی محسوس ہورہی تھیں. ذوالفقار کے وہاں سے ہٹتے ہی ارتضٰی نے ایک جھٹکے سے اُسے خود سے دور کیا تھا.

ماہ روش اُس کے پھنکارتے لہجے پر حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی.

اتنی بد قسمت کیوں تھی وہ. اِس شخص کی صرف نفرت ہی ہمیشہ اُس کے نصیب میں کیوں آتی تھی.

ارتضٰی ذوالفقار کے یہاں آنے کی وجہ ماہ روش کو ہی سمجھ رہا تھا. آج کچھ پل کے لیے اُس نے خود پر چڑھایا نفرت کا خول اُتار کر ماہ روش کی طرف بڑھنا چاہا تھا. مگر ذوالفقار کو یہاں دیکھ وہ پھر واپس اپنے خول میں آگیا تھا.

" میں نہیں جانتی وہ یہاں کیوں آئے ہیں. "

مقابل کی نگاہوں میں شدید نفرت دیکھ ماہ روش کی آنکھیں نم ہوئی تھیں. لیکن وہ ہر رشتے کو اچھے سے نبھانے والا اُس کے معاملے میں شاید بہت ہی بے پرواہ تھا.

ارتضٰی ماہ روش کی آنکھوں میں موجود اپنے لیے تڑپ واضح دیکھ سکتا تھا. لیکن اِس وقت سنگدلی کی انتہاؤں کو چھوتا وہ بے رُخی سے اُس کے پاس سے ہٹ گیا تھا. اِس بات سے انجان کے وہ بہت جلد ہی اپنی اِس سنگدلی پر کتنا تڑپنے والا تھا. مگر تب پچھتاوے کے سوا اُس کے پاس اور کچھ نہیں بچنا تھا.

ماہ روش آنسو بہاتی وہی جم گئی تھی. اور خود سے دور جاتے میجر ارتضٰی سکندر کے چوڑے شانوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے وہ بس یہی سوچی جارہی تھی کہ کیا کبھی وہ اِس بے رحم انسان کو اپنی وفاداری کا یقین دلا پائے گی. کبھی اُس کی نفرت بھری سرد نگاہوں میں اپنے لیے محبت بھرے جذبات دیکھ پائے گی. یا باقی بہت سی چیزوں کی طرح اِس سے بھی محروم رہنے والی تھی.

محبت اتنی ظالم کیوں تھی. جو انسان کو بے بس کرکے رکھ دیتی تھی.

زیمل کا خیال آتے ہی آنسو پونچھتے ماہ روش جلدی سے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


زیمل اور ریحاب کو انٹرنس سے داخل ہوتا دیکھ جاذل اور ارحم مبہوت رہ گئے تھے.

جاذل کی نگاہیں اپنی ہرنی کے دلکشی بکھیرتے وجود پر تھیں. دل کی دھڑکنوں کا ساز جیسے بدل رہا تھا. وہ اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا. پر جو بھی تھا یہ احساس اُسے بہت مزا دے رہا تھا. کیونکہ فلحال وہ محبت جیسے خوبصورت جذبے سے انجان تھا.

دوسری طرف ارحم بھی ریحاب کا یہ رُوپ دیکھ کر دھنگ رہ گیا تھا.

ریحاب کے دو آتشہ حُسن نے ارحم سے اُس کے رہے سہے حواس بھی چھین لیے تھے. وہ بےخود سا کھڑا ریحاب کو اپنے قریب آتے دیکھ رہا تھا.

وہ دور سے ہی ریحاب کی اُداسی اور پریشانی نوٹ کرسکتا تھا. صائمہ بیگم سے اُسے پتا چلا تھا کہ ریحاب کی طبیعت بھی خراب ہے. اِس لیے ارحم کو اُس کی بہت فکر ہورہی تھی.

ریحاب کے سٹیج کے قریب پہنچتے ہی ارحم آگے بڑھا تھا اور انتہائی نرمی سے اُس کا ہاتھ تھامتے اُوپر چڑھنے میں مدد دی تھی.

" ریحاب تم ٹھیک ہو. اگر ایزی فیل نہیں کررہی تو ہم گھر چلتے ہیں. "

ارحم ریحاب کا ذرد پڑتا چہرا دیکھ فکرمندی سے بولا.

" نہیں میں ٹھیک ہوں. اِس طرح مہمانوں کے بیچ اُٹھ کر جانا اچھا نہیں لگے گا. اور اب میں پہلے سے کافی بہتر فیل کررہی ہوں. "

ریحاب ارحم کو اُٹھتا دیکھ جلدی سے بولی. کیونکہ اُسے ایسے فنکشن چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لگ رہا تھا.

" بیوٹی فل. کیپٹن زیمل اتنے ہتھیاروں سے لیس مجھے مارنے کا ارادہ تو نہیں ہے آج. "

جاذل زیمل کو ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں بیٹھاتے بولا.

" آپ کا تو پتا نہیں میجر صاحب مگر سب خواتین نے مل کر جو اتنا وزن مجھ پر لاد دیا ہے. یہ فنکشن ختم ہونے سے پہلے میں نے ضرور اُوپر پہنچ جانا ہے. "

زیمل جاذل کی تعریف کو یکسر نظر انداز کرتی بولی. جب اُس کی کوفت ذدہ سی جھنجھلائی ہوئی آواز پر جاذل کا قہقہ بلند ہوا تھا.

" میجر جاذل زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے. اگر آپ کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا پھر میں پوچھتی آپ سے. "

زیمل کو اُس کا ہنسنا مزید تپا گیا تھا. جب اُسے ایسے دانت پیستے دیکھ سلمہ بیگم نے ماہ روش کو اُس کی طرف بھیجا تھا.

" زیمل تم دلہن ہو کچھ تو دلہناپے کا خیال کرو. سٹیج ہر بیٹھ کر بھی تمہاری لڑائیاں ختم نہیں ہو رہیں. سلمہ آنٹی خفا ہورہی ہیں. "

ماہ روش زیمل کے قریب جھکتے آہستہ آواز میں بولی.

" یار ماہی ایک تو مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی یہ واقعی میں میری سگی ماں ہیں کیا. "

زیمل دور کھڑی سلمہ بیگم کی گھوریا نوٹ کرتی روہانسی آواز میں بولی.

" ہاہا بدتمیز. "

ماہ روش کے ساتھ ساتھ اُس کی بات سنتے جاذل نے بھی قہقہ لگایا تھا.

جب اُسی لمحے ارتضٰی کے ساتھ کھڑی زینب کی نگاہ ماہ روش پر پڑی تھی.

" ارتضٰی یہ سٹیج پر زیمل کے ساتھ جو لڑکی بیٹھی ہے یہ کون ہے. "

زینب نے نگاہیں ماہ روش کے چہرے پر ٹکائے ارتضٰی سے پوچھا تھا. جب ارتضٰی کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ناہید بیگم اور باقی سب نے بھی ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

ارتضٰی اچانک اُن کے پوچھنے پر کچھ بول ہی نہ پایا تھا. اُسے اِس بات کا تو زرا بھی آئیڈیا نہیں تھا کہ زینب ایسے ماہ روش کے بارے میں پوچھیں گی. اور ذوالفقار جیسے گھٹیا انسان کا نام تو وہ اُن کے سامنے لینا بھی نہیں چاہتا تھا.

" واؤ کتنی بیوٹیفل اور اٹریکٹیو ہے یہ لڑکی. "

نیہا نے بھی ستائشی نگاہوں سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا. اپنے تمام فیملی ممبرز کی نگاہوں میں ماہ روش کے لیے پسندیدگی دیکھ ارتضٰی کی کشادہ پیشانی پر موجود سلوٹوں میں مزید اضافہ ہوا تھا.

" ارتضٰی بیٹا آپ نہیں جانتے کیا اِس کو. "

زینب نے ایک بار پھر سوال کیا تھا. اُن کو نجانے کیوں اپنا دل اِس معصوم صورت لڑکی کی طرف ہمکتا محسوس ہورہا تھا.

ارتضٰی نے ایک نظر اپنی طرف سنجیدہ نظروں سے دیکھتیں ناہید بیگم کی طرف دیکھا تھا جو ماہ روش کی اصلیت سے واقف تھیں.

" پھوپھو جان کولیگ ہے میری. میرے ساتھ کام کررہی ہے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کے کھلکھلاتے حسین چہرے سے نگاہیں چرائی تھیں. آج تو اُس کے لئے سب کچھ ایک امتحان ہی بنا ہوا تھا.

" کیا تم مجھے اِس لڑکی سے ملوا سکتے ہو. "

زینب بیگم کو سمجھ نہیں آرہا تھا ایسی کونسی کشش تھی اِس لڑکی میں جو اُنہیں اُس سے ملنے بات کرنے کے لیے بے چین کر رہی تھی.

اِس سے پہلے کہ ارتضٰی اُنہیں کوئی جواب دیتا موبائل بجنے پر معذرت کرتا سائیڈ پر ہوا تھا.

" تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں کچھ بھی کرو کہ ذی ایس کے کو اِس ہوٹل سے باہر جانا پڑے. میں کسی صورت اُس کی موجودگی یہاں برداشت نہیں کرسکتا. اور اِس ہال میں تو وہ بھول کر بھی قدم نہ رکھ پائے. "

ارتضٰی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ذوالفقار کو ابھی کہ ابھی شوٹ کر دے. وہ اپنی فیملی پر اُس کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا.

نیہا کے کہنے پر ویٹر نے ماہ روش کو اُن کا پیغام دیا تھا. ماہ روش ویٹر کا زینب کی طرف اشارہ دیکھ شش و پنج میں مبتلا ہوئی تھی. اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا جائے یا نہیں اور اگر ارتضٰی نے اُسے اُن کے پاس کھڑا دیکھ لیا تو. ماہ روش نے عجیب سی کشمکش کا شکار ہوتے دل کے مجبور کرنے پر قدم اُن کی طرف بڑھا دیے تھے جہاں ارتضٰی کی فیملی کے تقریباً سب لوگ ہی موجود تھے. ماہ روش کے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہورہی تھی.

" اسلام و علیکم. آنٹی آپ نے بلایا مجھے "

ماہ روش نے سب کی طرف دیکھتے سلام کیا تھا.اپنی ماں کو اُس کے رشتے سے پکارنے کا حق بھی نہیں رکھتی تھی وہ. اپنی ماں اور سب قریبی رشتوں سے ایسے اجنبیوں کی طرح ملنے پر آنکھوں میں نمی در آئی تھی جسے بہت مشکل سے پیچھے دھکیلا تھا.

" وعلیکم اسلام. جی بچے میں نے ہی آپ کو بلایا تھا "

زینب نے ماہ روش کا ہاتھ تھامتے غور سے اُس کے ایک ایک نقوش کو دیکھا تھا. اُن کے مہربان لمس پر ماہ روش کا دل چاہا تھا سب کچھ بھلائے اُن کے گلے لگ جائے اور اپنے اندر کے تمام غم بہا دے.

" ارتضٰی نے بتایا آپ اُن کی کولیگ ہیں. ہمیں تو یقین ہی نہیں آرہا. آپ جیسی نازک لڑکی پاک آرمی کا حصہ ہے. "

زینب کی بات پر ماہ روش ہولے سے مسکرائی تھی. اُسے ہمیشہ ہر جگہ یہی کمپلیمنٹ ملتا تھا.

وہ اپنی ماما کو بتانا چاہتی تھی کہ اُن کی بیٹی کتنی بہادر تھی. اتنی کم عمری میں کتنی کامیابیاں سمیٹ چکی تھی.

ماہ روش اُن کے پاس کھڑی پرسکون سا محسوس کرتی اُن کی باتوں کا جواب دے رہی تھی. جب ارتضٰی وہاں زینب کے ساتھ آکھڑا ہوا تھا. اُسے وہاں دیکھ ماہ روش کی دھڑکنے بے ترتیب ہوئی تھیں. اور خود کو اپنی متوقع ہونے والی بے عزتی کے لیے تیار کرنے لگی تھی.

مگر ارتضٰی کی خاموشی پر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی.

ماہ روش ارتضٰی کی موجودگی اور پرتپیش نگاہوں کی وجہ سے کسی کی بات کا سہی جواب بھی نہیں دے پارہی تھی.

" آپ لگتی تو نہیں مگر پھر بھی آپ میریڈ ہیں کیا. "

نیہا کو ماہ روش بہت پسند آئی تھی. وہ آج کل ویسے بھی اپنے بھائی کے لیے لڑکیاں دیکھ رہی تھی.

ماہ روش جو پہلے ہی ارتضٰی کی نظریں مسلسل خود پر محسوس کرکے پزل ہورہی تھی. نیہا کی سوال پر مزید سٹپٹا گئی تھی.

" جی نہیں."

ماہ روش کے منہ سے صرف اتنے ہی الفاظ نکلے تھے.

ارباز اپنی بیوی کی پھرتیوں پر نفی میں سر ہلا کر رہ گیا تھا.

" اور کیا آپ کہیں انگیج ہیں. "

نیہا کے سوال ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے تھے.

ماہ روش کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا جواب دے. کیونکہ انگیج تو بہت چھوٹا لفظ تھا. وہ تو اپنا سب کچھ سامنے کھڑے سنگدل کے نام لکھوا چکی تھی. جس کا دل شاید پتھر کا تھا.

ارتضٰی فرصت سے ماہ روش کا جائزہ لے رہا تھا. بار بار بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستی. ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتی وہ کانفیڈنٹ سی لڑکی اُس کی گرم نگاہوں کی تپیش سے گھبراتی وہاں سے بھاگنے کے پر طول رہی تھی.

ارتضٰی کو نیہا کا اِس طرح ماہ روش سے انٹرویو لینا بلکل پسند نہیں آرہا تھا.

" بھابھی آپ جس مقصد کے لیے اتنی محنت کررہی ہیں ویسا نہیں ہوسکتا. اِن کا سٹیٹس بہت اُونچا ہے. آپ وہاں تک نہیں پہنچ پائیں گی. "

ارتضٰی کاٹ دار لہجے میں بات نیہا سے کررہا تھا مگر اُس کی سخت نگاہیں ماہ روش پر جمی ہوئی تھیں.

نیہا کے ساتھ ساتھ سب نے ارتضٰی کی طرف حیرت سے دیکھا کیونکہ ماہ روش کی طرف ارتضٰی جن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ نارمل انداز بلکل نہیں تھا.

" کیوں مس ماہ روش ٹھیک کہا نا میں نے. "

ارتضٰی نے اپنی سرخ آنکھوں سے ماہ روش کی آنکھوں میں جھانکا.

نیہا ارتضٰی کے انداز پر اپنی جگہ شرمندہ سی ہوگئی تھی. ناہید بیگم کو ارتضٰی کا ماہ روش سے اِس طرح سب کے سامنے شروع ہوجانا بلکل پسند نہیں آیا تھا.

" ارتضٰی آپ ماہ روش کے باس صرف کام کے ٹائم پر ہو ابھی دھونس جمانے کی کوشش بلکل مت کریں. "

زینب ماہ روش کا ذرد پڑتا رنگ دیکھ کر بولیں.

ماہ روش اُن سے ایکسکیوز کرتی وہاں سے ہٹ گئی تھی. ارتضٰی وہاں سے مڑتے ماہ روش کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکا تھا. جس پر غصے سے اُس نے مٹھیاں بھینچی تھیں.

" ارتضٰی ہم نارملی بات کررہے تھے اُس بچی سے. "

ناہید بیگم نے ارتضٰی کو گھورا لیکن آگے پرواہ کسے تھی.

" آپ لوگوں کو کیا ضرورت ہے ہر ایرے غیرے سے بات کرنے کی. اور میں نے تو صرف بھابھی کی ہیلپ کی."

ارتضٰی لاپرواہی سے کاندھے اُچکاتے بولا.

زینب کو ارتضٰی کا لہجہ بہت عجیب سا لگا تھا. وہ ارتضٰی کی رگ رگ سے واقف تھیں. اور جس طرح ارتضٰی ماہ روش کو دیکھ رہا تھا اُنہیں وہ نگاہیں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور کررہی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر کام ہوگیا ہے. ابھی دو منٹ پہلے ذی ایس کے ہڑبڑاہٹ میں ہوٹل سے باہر نکلا ہے. "

اپنے آدمی کی بات سنتے ہی ارتضٰی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی. جانے یا انجانے میں مگر ذی ایس کے اُس کی فیملی کے قریب آیا تھا جو کہ ارتضٰی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا تھا. اِس لیے اِس بات کا بدلہ ارتضٰی نے اُس کے بیٹے بُرہان پر حملہ کروا کر لیا تھا. اُسی کا سن کر ذوالفقار اتنی ہڑبڑاہٹ میں وہاں سے نکل گیا تھا.

" ویلڈن."

ارتضٰی فون رکھتے جاذل کی طرف بڑھا مگر پر موجود کارنر پر کھڑی ماہ روش پر نظر پڑتے ہی اُس کا دماغ گھوم گیا تھا.

ماہ روش کے فراک کی زپ پیچھے سے کھلی ہوئی تھی. اور بال بھی آگے ہونے کی وجہ سے اُس کی گردن اور نیچے کا کچھ حصہ واضح ہورہا تھا. ماہ روش نیٹ کے دوپٹے سے اپنی بیک کو کور کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی.

اُس کی اتنی لاپرواہی پر ارتضٰی کی رگیں غصے سے تن چکی تھیں. ابھی تک کسی کی نظر ماہ روش پر نہیں پڑی تھی کیونکہ کوئی اُس طرف متوجہ نہیں تھا اور اچھا ہی تھا سب کے لیے ورنہ ارتضٰی جتنی طیش میں آچکا تھا. ماہ روش کی طرف نظر اُٹھانے والے کی خیر نہیں ہوتی.

ارتضٰی نے ماہ روش کے قریب پہنچتے کندھے سے تھام کر اُسے اپنی طرف گھمایا تھا.

اور آگے کی طرف کیے بال پکڑ کر اُس کی کمر پر پھینکتے اُسے ڈھانپنے کی کوشش کی تھی.

" سر آپ ؟ کیا ہوا یہ کیا کر رہے ہیں. "

ماہ روش کو اچانک ارتضٰی کی حرکت سمجھ نہیں آئی تھی.

جب ارتضٰی کچھ بھی بولے بغیر اُس کا بازو اپنی سخت گرفت میں لیتے برائیڈل روم کی طرف بڑھا تھا.

" کیا بے ہودگی پھیلا رکھی ہے تم نے. اگر ایسے لباس کیری کرنے نہیں آتے تو پہنتی ہی کیوں ہو.

ارتضٰی ماہ روش کو روم میں لاکر ایک جھٹکے سے اُس کا بازو چھوڑتے دہاڑا. ماہ روش نے دیوار کا سہارا لیتے خود کو گرنے سے بچایا تھا.

" سر آپ ایسے..."

ماہ روش اِس سے پہلے کے مزید کچھ بولتی ارتضٰی نے اُس کا بازو پکڑتے اُس کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا کر دیا تھا. ماہ روش کی بیک مرر کی طرف تھی. جب اُس نے ناسمجھی سے پلٹ کر مرر کی طرف دیکھا. مگر سامنے کانظارہ دیکھ اُس کا دل چاہا تھا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے.

اُس کے بال سائیڈ پر ہوئے تھے جن کے پیچھے سے اُس کی دودھیا کمر جھانک رہی تھی.

ماہ روش نے سُرخ ہوتے فوراً اپنی بیک پیچھے ہوکر دیوار کے ساتھ ٹکا دی تھی. ارتضٰی وہاں سے ہٹنے کے بجائے مزے سے سینے پر بازو باندھے اُسے اپنا ہاتھ پیچھے لے جاکر زپ سے زور آزمائی کرتے دیکھ رہا تھا.

ماہ روش کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کیونکہ ارتضٰی کا تو وہاں سے ہٹنے کا کوئی موڈ نہیں لگ رہا تھا.

" مے آئی ہیلپ یو. "

ارتضٰی نے نجانے کس بات کے زیرِ اثر نرمی سے پوچھا تھا.

" نو سر پلیز...."

ماہ روش نے ارتضٰی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ گھبراہٹ میں مزید دیوار کے ساتھ چپکتے اُسے منع کرنا چاہا تھا.

مگر ارتضٰی نے پہلے کبھی اُس کی سننی تھی جو اب سنتا.

" جی وہ تو مسلسل آپ کی ناکام کوششوں سے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ رات تک آپ شاید کامیاب ہو ہی جائیں گی. "

ارتضٰی نے طنز کیا

اور ہاتھ میں پکڑا موبائل پاس پڑے ٹیبل پر رکھا تھا. ارتضٰی نے جیسے ہی دو قدم مزید ماہ روش کی طرف بڑھائے پہلے سے دھکتا اُس کا چہرا مزید سُرخ ہوا تھا.

ماہ روش کا توبہ شکن حسین رُوپ ارتضٰی جیسے مضبوط اعصاب کے مالک انسان کو بہکانے کا باعث بن رہا تھا.

ارتضٰی یک ٹک اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا.

وہ چاہے ماہ روش سے کتنا ہی نفرت کا اظہار کر لیتا لیکن یہ بات ماننے سے بھی انکار نہیں کرسکتا تھا کہ جب بھی یہ لڑکی اُس کے قریب ہوتی تھی. اُس کی دھڑکنوں کا انداز بدل ہوجاتا تھا. ایک اَن دیکھی کشش اُسے ماہ روش کی طرف کھینچتی تھی. مگر ارتضٰی ہمیشہ اپنے دل پر جبر کرتے اُسے خاموش کروا دیتا تھا.

مگر ایک بات تو اب شاید وہ اور اُس کا دل بھی اچھے سے سمجھ چکے تھے کہ اگر نفرت کا اتنا بڑا ریزن اُن دونوں کے درمیان نہ ہوتا تو یہ لڑکی اُس کی زندگی میں سب سے پہلے نمبر پر ہوتی. جسے اُس نے اِس وقت اپنی زندگی میں سب سے آخری درجہ دے رکھا تھا.

ارتضٰی نے آگے کو جھکتے ماہ روش کے اردگرد دیوار پر ہاتھ رکھے تھے.

ارتضٰی یہ بات نہیں جانتا تھا مگر ماہ روش اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اُس کا شوہر ہے اُس سے بھی زیادہ ارتضٰی اُس پر اور اُس کے وجود پر حق رکھتا ہے. اِس لیے ماہ روش نے اُسے منع کرنے کی یا روکنے کی زرا کوشش نہیں کی تھی.

ارتضٰی نے اُسے دونوں کندھوں سے تھامتے رُخ موڑا تھا. جب اگلے ہی لمحے ماہ روش کی نیٹ کے دوپٹے سے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی رعنائیاں بکھیرتی کمر ارتضٰی کے سامنے تھی.

وہ اچھے سے ماہ روش کا کپکپانا نوٹ کرسکتا تھا.

ماہ روش کے لیے ارتضٰی کی قربت ہمیشہ کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی تھی. اِس وقت بھی اُسے لگ رہا تھا جس سپیڈ سے دل دھڑک رہا ہے کسی بھی وقت پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا.

ارتضٰی کے ہاتھوں کا لمس زپ پر محسوس کرتے ماہ روش نے کانپتے ہاتھوں سے فراک کو مٹھیوں میں بھرا تھا.

ارتضٰی جو ماہ روش کے بال سائیڈ پر کیے زپ بند کررہا تھا اور پوری کوشش تھی کہ ماہ روش کی کمر سے ہاتھ ٹچ نہ ہوں اِس وقت دل پر کیا گیا جبر کافی کمزور پڑتا نظر آرہا تھا.

وہ نہیں جانتا تھا ایسا کیوں ہے مگر وہ ماہ روش کو کہیں نہ کہیں اپنی ملکیت سمجھتا تھا. یہی وجہ تھی کہ وہ اُس پر کسی ایرے غیرے یہاں تک کے اُس کے باپ کی موجودگی بھی اُس کے اردگرد برداشت نہیں کرسکتا تھا. اور اِس بات کا اظہار ہمیشہ غصے کی صورت ماہ روش پر نکلتا تھا.

ارتضٰی بہت احتیاط سے اُس کی زپ بند کرتا پیچھے ہٹا تھا. بے اختیار اُس کا دل چاہا تھا ماہ روش کے سیاہ گیسوؤں کی نرماہٹ کو چھونے کا محسوس کرنے کا مگر دل کی اِس بے تکی فرمائش پر اُسے سرزنش کرتا پیچھے ہٹا تھا.

ماہ روش جو ارتضٰی کی جکڑ لینے والی خوشبو کی زیر اثر تھی اُس کے پیچھے ہٹتے ہی پلٹی تھی. اُس کے لیے اپنے ظالم محبوب کی یہ تھوڑی سی قربت بھی جان لیوا تھی.

ابھی وہ اِسی سحر کے حصار میں تھی جب سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل بجنے لگا تھا.

ماہ روش کی نظر جیسے ہی موبائل سکرین پر پڑی وہاں جگمگاتی تصویر کے ساتھ نام دیکھ اُس کا دماغ گھوم گیا تھا. جہاں تصویر میں ارتضٰی کے چہرے کے بہت قریب چہرا کیے ایک لڑکی مسکرا رہی تھی.

ارتضٰی موبائل کی طرف دیکھتے مسکرایا تھا.

اُسے ابھی تک یہی لگ رہا تھا کہ اگر ارتضٰی کی لائف میں وہ نہیں تھی تو کوئی اور لڑکی بھی نہیں. کیونکہ ماہ روش ارتضٰی کو کسی اور لڑکی کے ساتھ سوچ بھی نہیں سکتی تھی. مگر سامنے کسی لڑکی کو اُس کے اِس قدر قریب اور لو کے نام سے سیو نمبر دیکھ ماہ روش کے اندر آگ بھڑک اُٹھی تھی.

اچانک نجانے ماہ روش میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی کہ اُس نے ارتضٰی کے فون اُٹھانے سے پہلے ہی جھپٹنے کے انداز میں موبائل اُٹھا کر کال کاٹ دی تھی.

ارتضٰی ششدر سا ماہ روش کو دیکھ رہا تھا جو جذبات میں یہ حرکت کر تو گئی تھی مگر اب ارتضٰی کے متوقع ردِعمل پر ڈرتے نگاہیں جھکا گئی تھی.

" آر یو میڈ کیا حرکت تھی یہ. "

ارتضٰی غصے سے ماہ روش کے ہاتھ سے اپنا موبائل چھینتے بولا. ماہ روش کا بازو دوبارہ ارتضٰی کی سخت گرفت میں آچکا تھا.

مگر اپنے شوہر کی کسی لڑکی سے اتنی سی قربت بھی ماہ روش کو انگاروں ہر لٹا گئی تھی اِس لیے وہ بھی بغیر ڈرے ارتضٰی کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی.

" سر آپ مجھے بتا سکتے ہیں کیا یہ بے ہودگی نہیں ہے جیسے وہ لڑکی آپ کے گلے میں بانہیں ڈالے کھڑی تھی. "

ماہ روش کی بات پر ارتضٰی ایک لمحے کو تو ششدر رہ گیا تھا.

پہلے ماہ روش کی حرکت اور اب اُس کی بات اُسے ماہ روش کی دماغی حالت پر شبہ گزرا تھا.

لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ماہ روش اُس کے معاملے میں اُس سے بھی زیادہ پوزیسو تھی. اور کسی لڑکی کو اُس کے اتنے قریب برداشت نہیں کر سکتی تھی.

" واہ ماہ روش ذوالفقار لگتا ہے میری تھوڑی دیر کی نوازشات کو تم کچھ اور ہی سمجھ بیٹھی ہو. جو اتنا فضول بول رہی ہو. مگر میری ایک بات یاد رکھو تمہاری میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے. تم میرے لیے صرف ایک بے ضمیر ملک فروش درندے کی بیٹی ہو. اور اُس غدار کا خون سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن وفادار کبھی نہیں ہوسکتا. تم پر میں کبھی بھروسہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اِس قابل سمجھتا ہوں. "

ارتضٰی اپنے اندر کی نفرت اذیت کی صورت ماہ روش کے حوالے کرتے وہاں سے نکل گیا تھا. وہ نہیں جانتا تھا عنقریب اُس کے یہی الفاظ اُسے خون کے آنسو رُولانے والے تھے.

جب کے ماہ روش بھیگی آنکھوں سے اپنے ظالم محبوب کو جاتے دیکھ رہی تھی. وہ آرام سے اُس کے دل پر نشتر چلاتا دل کی بھڑاس اُس نازک جان پر نکال گیا تھا.

ماہ روش اُس کی شدید نفرت دیکھ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ اُس کی اصلیت جان کر ارتضٰی اُسے شاید کبھی بھی اپنی بیوی کے رُوپ میں تسلیم نہ کر پائے. اِس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہ پائی تھی.

اُسے شاید اب رہتی زندگی اِس نفرت کی آگ میں جلنا تھا.

یہ بات اُسے اندر ہی اندر تڑپا رہی تھی کہ ارتضٰی کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہے. اپنی خوش فہمیاں یاد کرتے وہ خود پر ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی.

جب کہ قسمت اُس کے ساتھ کوئی اور ہی کھیل کھیلنے والی تھی. جس سے شاید اُسے اپنے سارے غموں سے نجات ملنے والی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب کی طبیعت کو دیکھتے ارحم اُسے جلدی ہی ہال سے واپس لے آیا تھا. ریحاب کو ارحم کے فلی ڈیکوریٹڈ روم میں اُس کی سیج پر بیٹھایا گیا تھا.

وہ آنے والے لمحوں کا سوچتے گھبراہٹ سے بےہوش ہونے کے قریب تھی. اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے ارحم کو خود سے دور رکھے اور اُسے بتائے کہ یہ رشتہ صرف عارضی ہے. لیکن اتنا دماغ لگانے کے بعد بھی وہ ابھی کوئی ترکیب سوچ نہیں پائی تھی.

ابھی وہ اپنے خیالوں میں ہی اُلجھی ہوئی تھی جب دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز کے ساتھ اُسے بھی اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئی تھیں. ہاتھ پاؤں بلکل سرد ہوچکے تھے.

سلام کرتے ارحم ریحاب کے قریب بیڈ پر جا بیٹھا تھا. اور محبت پاش نظروں سے اُس حسین مورتی کو دیکھ رہا تھا. جس نے اُس کی بے رنگ زندگی میں قدم رکھ کر اُسے بہت سے خوبصورت جذبات اور احساسات سے روشناس کروایا تھا.

ارحم نجانے کتنے ہی لمحے اُس کے حسین سراپے میں کھویا رہا تھا. جب ریحاب کی چوڑیوں کی کھنک پر ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا. اور ریحاب کا چوڑیوں اور مہندی سے سجا نازک ہاتھ نرمی سے اپنی گرفت میں لیا تھا. ریحاب اُس کے لمس پر کسمسائی تھی.

" میری زندگی میں داخل ہوکر مجھے اُسے معتبر کرنے کا شکریہ. میں نہیں جانتا نجانے کب کیسے تم سے اتنی محبت کرنے لگا ہوں. کہ اب ایک سیکنڈ بھی تم سے دور رہنا مشکل ہوگیا ہے. میں محبت کے بہت بڑے بڑے وعدے نہیں کروں گا. کیونکہ آنے والی زندگی میں تم خود دیکھ لو گی اپنے لیے میرے محبت کی شدت. مگر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اپنی آخری سانس تک تمہاری حفاظت کروں گا. کچھ بھی ہوجائے تم پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گا. "

ارحم نے ہولے سے اُس کے ہاتھ ہر ہونٹ رکھے تھے. ریحاب نے ارحم کے محبت بھرے لمس اور باتیں سن کر یکدم نظریں اُٹھاتے اُس کی طرف دیکھا. جب نگاہیں ملنے پر اُس کے جذبات کی شدت برداشت نہ کرتے ریحاب جلدی سے نگاہیں چرا گئی تھی.

اُس کے ٹھنڈے پڑتے جذبات میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی. ارحم کا لمس اُس کا محبت بھرا انداز ریحاب کے دل میں کوئی اور ہی داستان رقم کر رہا تھا.

وہ اِس ساحر کے جادو میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اِس وقت اُس کے آگے بے بس ہورہی تھی. ارحم اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا. مگر ریحاب کا دل تو اُس کی گرفت میں موجود اپنے ہاتھ میں دھڑکنے لگا تھا.

" کیا ہوا تم کچھ نہیں بولو گی آج. میں بھی اظہار سننا چاہتا ہوں. اب تو اِس سب کا حق حاصل ہے مجھے. "

ارحم جو اُس کے قریب بیڈ پر ترچھا لیٹ کر گہری نظروں سے اُس کا جائزہ لے رہا تھا. اُس کو مسلسل خاموش دیکھ ایک جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تھا. جس پر ریحاب سنبھلنے کا موقع ملے بغیر ارحم کے سینے کا حصہ بنی تھی.

" میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز. "

ریحاب ارحم کی گرم سانسیں اپنے چہرے کے بہت قریب محسوس کرتے جلدی سے بولی.

جب ارحم نے اپنا حق استعمال کرتے ریحاب کی پیشانی پر پہلا استحقاق بھرا لمس چھوڑا تھا. اُس کے ہونٹوں کے شدت پر ریحاب اندر تک کانپ گئی تھی.

وہ کسمسا کر اُس کے حصار سے نکلی تھی. ہر گزرتا لمحہ اس کے خوف اور گھبراہٹ میں اضافہ کر رہا تھا.

اُس کے گریز پر ارحم دھیرے سے مسکرایا تھا. وہ ریحاب کی کیفیت اچھے سے سمجھ رہا تھا.

اُٹھ کر ریحاب کے قریب ہوتے اُس کی نظر ریحاب کے گلے میں پہنے لاکٹ پر پڑی تھی جس کی اصلیت وہ اچھے سے جانتا تھا. نجانے اُسے اچانک کیا ہوا تھا کہ اُس نے ہاتھ بڑھا کر ریحاب کی نازک سی گردن میں پہنا وہ لاکٹ اُتارنا چاہا تھا. جو اُن دونوں کی پرائیوسی ڈسٹرب کررہا تھا.

" پلیز ارحم یہ آپ کیا کررہے ہیں. "

ریحاب کو اُس سے ایسی کسی حرکت کی امید نہیں تھی. اُس کے دماغ میں غفور کی دھمکی گھوم رہی تھی.

مگر ارحم نے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا.

" تمہاری اِس خوبصورت گردن میں یہ نہیں بلکہ میری محبت کی نشانی ہونی چاہیے. "

ارحم اپنی خمار آلود نظریں اُس پر گاڑھے بولا. اور ایک ہاتھ اُس کی گردن کے پیچھے لے جاکر لاکٹ اُتار دیا تھا. ریحاب چاہنے کے باوجود بھی اُسے روک نہیں پارہی تھی کیونکہ ارحم آج کسی اور موڈ میں ہی تھا. ارحم کی اُنگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے ریحاب کی سانسیں بگڑ رہی تھیں.

ارحم نے وہ لاکٹ سائیڈ دراز میں ڈال کر اپنی پاکٹ سے ایک ڈائمنڈ کا پینڈنٹ نکال کر اُسے ریحاب کی گردن میں پہنا دیا تھا.

ارحم نے ریحاب کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے اپنے چہرے کے بہت قریب کیا تھا.

" میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کبھی کسی سے اتنی محبت بھی ہوجائے گی. کوئی میرے لیے اتنا ضروری بھی ہوسکتا ہے. محبت کے ساتھ ساتھ تمہارے لیے میرے دل میں بہت عزت اور بھروسہ ہے.

تم پر بے حد یقین ہے مجھے کہ تم کبھی کچھ غلط نہیں کرو گی. کبھی بھی کسی موڑ پر میرا بھروسہ نہیں توڑو گی. ایسا ہے نا؟. "

ارحم نے ریحاب کی آنکھوں میں اپنی جذبوں سے بوجھل آنکھیں گاڑھی تھیں. جن کے وار سے بچنا شاید اب ریحاب کے لیے بھی ناممکن تھا. وہ نہیں جانتی تھی جھوٹ کی بنیاد پر قائم کیا گیا یہ رشتہ اُن دونوں کے دلوں کی گہرائی میں اُتر جائے گا.

ریحاب نے ارحم کے پر حدت لمس کے زیرِ اثر اثبات میں سر ہلایا تھا.

" محبت سے بھی زیادہ مجھے تمہارا یقین چاہئے میں چاہتا ہوں. تم مجھ پر سب سے زیادہ اعتبار کرو. کبھی بھی کوئی بات نہ چھپاؤ مجھ سے. ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی پردہ نہیں ہونا چاہئے. "

ارحم کی ایک ایک بات ریحاب کے دل میں اُتر رہی تھی. وہ مبہوت سی اپنے سامنے بیٹھے اِس وجیہہ شخص کی طرف دیکھ رہی تھی جس کے نام آج اُس نے اپنی زندگی لکھ دی تھی.

" کیا ہمارے درمیان ابھی کوئی ایسی بات ہے جس کے بارے میں مجھے نہیں پتا یا تم مجھے بتانا چاہتی ہو. جو تمہیں پریشان کر رہی ہے. اگر کوئی بھی بات ہے تو تم مجھے بلاجھجک بتا سکتی ہو. میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں."

ارحم چاہتا تھا ریحاب اُس پر بھروسہ کرے اُسے بلیک میلر کے متعلق اپنے منہ سے ساری بات بتائے. اِس لیے وہ اُسے اپنا اعتبار سونپتے بولنے پر اُکسا رہا تھا.

ریحاب کا دل چاہا تھا سب کچھ ارحم کو بتا دے. اُس کے سینے کے مضبوط حصار میں چھپ کر اپنی تمام پریشانیاں اور خوف ختم کر دے. اب تو ارحم اُس کا وہ لاکٹ بھی اُتار چکا تھا. اُس کا دماغ بار بار اُسے ارحم کو سب کچھ بتانے پر آمادہ کررہا تھا.

لیکن دل کی اپنی دہایا جاری تھی جو اُسے یہ جذباتی قدم اُٹھانے سے روک رہی تھیں. اگر ارحم کو پتا چل جاتا کہ ریحاب کا یہاں اُس کی سیج پر بیٹھنا صرف ایک پلاننگ کے تحت ہوا ہے تو جن آنکھوں میں وہ ابھی اپنے لیے بے پناہ چاہت دیکھ رہی ہے وہاں نفرت دیکھنا اُس کے لئے بہت اذیت ناک ہوجاتا.

ارحم کی محبت کا پودا تو بہت پہلے ہی اُس کے دل میں اُس چکا تھا. مگر اُس کی موجودگی کا احساس ریحاب کو آج ہورہا تھا. اور یہ اُس کے لیے بہت ہی اچھوتا احساس تھا کہ یہ شخص بغیر کسی غرض اور لالچ کے اُسے چاہتا تھا.معتبر تو اُس نے ریحاب کو کیا تھا اتنے لوگوں کی موجودگی میں اپنا نام اور ایک مقام دے کر.

وہ ارحم کو سچائی بتا کر خود سے بدگمان بلکل نہیں کرنا چاہتی تھی.

" نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے اگر آگے کوئی بھی بات ہوئی تو میں آپ سے ہی شیئر کروں گی. "

ریحاب نے نظریں چراتے کہا.

اُس کے جھوٹ پر ارحم نے افسوس سے اُس کی طرف دیکھا تھا. مگر ریحاب شاید اب بھی اُس پر بھروسہ نہیں کر پائی تھی.

ریحاب کی طبیعت کافی دیر بیٹھے رہنے کی وجہ سے مزید خراب ہورہی تھی. ارحم بھی بخار سے تپتے اُس کے وجود کی گرماہٹ برداشت کرسکتا تھا.

" ریحاب تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے چینج کر کے آرام کرلو. میں ابھی تھوڑی دیر تک آتا ہوں. "

ارحم ہولے سے اُس کا گال تھپتھپاتے روم سے نکل گیا تھا. اُس کا موڈ ریحاب کا اعتبار اب بھی نہ جیت پانے پر سخت آف ہوچکا تھا

ریحاب نے خاموش نظروں سے اُسے وہاں سے جاتے دیکھا تھا. اُس سے جھوٹ بولنے پر دل عجیب خالی خالی سا لگ رہا تھا.

ارحم کا آج کی رات اِس طرح دور ہو جانے پر جہاں اُسے خوش ہونا چاہئے تھا وہیں وہ اُس کے اِس طرح جانے پر اُداس ہوئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کس کی اتنی جرأت کے میرے بیٹے پر حملہ کرے. فوراً پتا لگواؤ اِس حملے میں کس کا ہاتھ ہے. کون ہے یہ مائی کا لال جو مجھ سے ٹکر لینے کی کوشش کررہا ہے.

کون بے وقوف ہے یہ جو خود ہی اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے. پہلے میرے کلب پر حملہ کرکے آدمی گرفتار کیے , میرے حملوں کو ناکام بنا دیا, میرے اڈوں کو تباہ کردیا اور اب میرے بیٹے پر حملہ کر دیا.

ضرور یہ ایجنسی کے ہی لوگ ہیں ورنہ کسی اور میں اتنی ہمت کہاں . "

ذی ایس کے اپنے آدمیوں پر دہاڑتے غصے کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا. مسلسل ناکامیوں نے اُس کو کچھ حد تک پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا.

" جی سر خبر ملی ہے کہ ایک نئی ٹیم تیار ہوچکی ہے آپ کے خلاف. اور اِس دفعہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں یہ لوگ. "

ابھی سر جھکائے کھڑا اُس کا آدمی اتنا ہی بولا تھا جب ذوالفقار کا پڑنے والے ایک زور دار تھپڑ پر وہ دور جا گرا تھا.

" حرام خور تم اب بتا رہے ہو مجھے. ابھی بھی کیا ضرورت تھی بتانے کی جب وہ میرے قریب پہنچ جاتے تب بتانا تھا نا. صرف کھلانے پلانے کے لیے ہی تو رکھا ہوا ہے میں نے تم لوگوں کو. "

ذی ایس کا بس نہیں چل رہا تھا. اتنی اہم خبر اتنا لیٹ سنانے پر اُس کی گردن اُڑا دے.

وہ سب خاموشی سے سر جھکائے اُس کا چیخنا چلانا سن رہے تھے اور مزید کسی بھی بات کا جواب دے کر اپنے لیے مزید مشکل پیدا نہیں کر سکتے تھے.

" کہاں ہے وہ سوہا. پتا کرو اُس کا اُس نے ابھی تک مجھے کوئی خبر کیوں نہیں دی زندہ بھی ہے یا کہیں ہمارا کام کرنے سے پہلے ہی اُن لوگوں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گئی."

ذی ایس کے اپنے بیٹے کی حالت دیکھ اِس وقت انگاروں پر لُوٹ رہا تھا.

سوہا اُس کے ایک بہت ہی خاص دوست کی بیٹی تھی. جو اِن گھناؤنے کاموں میں اُس کا ساتھی تھا. سوہا کی ذہانت کو دیکھتے ذی ایس کے نے اُسے اپنا جاسوس بنا کر وہاں بھیجا تھا تا کہ ایجنسی والوں کی تمام خبریں اُس تک پہنچ سکیں. لیکن ابھی تک سوہا اُس کے کسی کام نہیں آسکی تھی.

اُس نے بلکل اسی طرح سکندر کو بھی اپنے جاسوس سے ٹریپ کروا کر ساری انفارمیشن ضائع کروا دی تھی لیکن وہ نہیں جانتا تھا اِس بار اُس کا جس سے پالا پڑا تھا. وہ کسی معاملے میں بھی کمزور پڑنے والا نہیں تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" نور پیلس والے خود تو سرپرائز دیتے نہیں ہیں اور اگر کوئی اور بندہ دینا چاہے تو اُس کا بھی خراب کر کے رکھ دیتے ہیں. "

ارتضٰی نے جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا سامنے ہی بیلا میڈم ہمیشہ کی طرح نان سٹاپ بولنے میں مصروف تھیں. گھر والے سب ہی وہاں موجود اُس کے گلے شکوے سننے میں مصروف تھے.

" یار اب بھلا ہمیں کیا پتا تھا کہ تم آج ہی سرپرائز دینے پہچنے والی ہو. تھوڑا بہت ہنٹ تو دینا ہی چاہئے تھا نا. "

منیزہ کی بات پر بیلا نے اُسے تیز نظروں سے گھورا تھا.

" اگر پہلے بتا دیتی تو سرپرائز کیسا."

بیلا نے منہ پھلا کر کہا تھا جب اچانک اُس کی نظر دروازے سے اندر داخل ہوتے ارتضٰی پر پڑی تھی.

" خالہ جان آپ جانتی ہیں آپ کے اِن ہونہار لاڈلے سپوت نے تو میرا فون ہی کاٹ دیا تھا. "

بیلا کے نروٹھے انداز پر ارتضٰی نفی میں سر ہلاتے مسکراتے آگے بڑھا تھا.

" ماما یہ چڑیل اچانک کہاں سے ٹپک پڑی. "

ارتضٰی کے مذاق اُڑانے پر بیلا نے اُسے ایک گھوری سے نوازا. مگر ارتضٰی کی مسکراہٹ دیکھ وہ ساری ناراضگی بھولتی اُس کی طرف بڑھی تھی. اتنے دور سے وہ صرف اِسی شخص کا دیدار کرنے ہی تو آئی تھی.

وہ وہاں بیٹھے بڑوں کی پرواہ کیے بغیر ارتضٰی کے گلے جا لگی تھی. ارتضٰی کے لیے بھی اُس کا یہ انداز معمول کے مطابق ہی تھا.

بیلا ارتضٰی کی سگی خالہ کی اکلوتی بیٹی تھی. وہ لوگ شروع سی ہی امریکہ میں مقیم تھے. اکثر و بیشتر وہ لوگ پاکستان آتے رہتے تھے. بیلا دل وجان سے ارتضٰی سکندر پر فدا تھی. جس کے متعلق ارتضٰی اچھے سے جانتا تھا لیکن کبھی اُس کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی.

گھر والے بھی یہی چاہتے تھے کہ ارتضٰی اور بیلا کی شادی ہوجائے مگر ارتضٰی کے مرضی کے خلاف کوئی جا نہیں سکتا تھا. اِس لیے اپنی بات دل میں ہی دبائے سب خاموش تھے. لیکن بیلا اِس بار پورا ارادہ کرکے آئی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ارتضٰی کو منا کر ہی رہے گی.

یورپ میں پرورش پانے کی وجہ سے بیلا کافی بے باک تھی. وہ کھلے عام سب کے سامنے ارتضٰی سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرچکی تھی. مگر ارتضٰی سکندر جیسے اکڑ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا.

ارتضٰی کے آنے کے بعد بیلا کسی اور کو لفٹ کروانے کے موڈ میں ہی نہیں تھی. وہ مزے سے ارتضٰی کے ساتھ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی. ارتضٰی کو بیلا کے ساتھ بیٹھا دیکھ زینب کے دل میں دبے اک درد نے سر اٹھایا تھا. کہ کاش اُن کی بیٹی زندہ ہوتی تو آج یہ حق یہ مقام اُس کا ہوتا.

اُن کی آنکھوں میں ضبط کرنے کی کوشش کے باوجود بھی ہلکی سی نمی دوڑ گئی تھی. جب اُسی لمحے ارتضٰی نے اُن کی طرف دیکھا تھا. اور زینب کا درد سمجھتے اُس کا اپنا دل بوجھل سا ہوا تھا. جب سے وہ ماہ روش کو ایسے چھوڑ کر آیا تھا. اُس کا دل عجیب بے چین سا تھا. وہ سمجھ نہیں پارہا تھا ایسا کیوں ہورہا ہے اُس کے ساتھ.

ماہ روش جب اُس کے لیے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی تو اُس کا دل ماہ روش کے حوالے سے اتنا اُداس کیوں ہورہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر بہت بُری خبر ہے."

دلاور پریشانی کے عالم میں بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا تھا.

" کیا مطلب کیا ہوا ہے. "

غفور سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا ہوا بولا.

" سر انیس غائب ہو گیا ہے. کل رات جیسے ہی ریحاب کی چپ نے کام کرنا بند کیا. میرے آدمیوں نے اُسی وقت انیس کو اُٹھانے اُس کے ہاسٹل کے اندر داخل ہوگئے تھے. مگر حیرت کی بات یہ کہ پورا ہاسٹل کنگھالنے کے باوجود وہ لڑکا نہیں ملا. اور ریحاب بھی اب اُس کیپٹن کی فل سیکیورٹی میں ہے. اُس تک پہنچنا بھی آسان نہیں ہے. "

دلاور کی بات پر غفور کا رنگ غصے سے متغیر ہوا تھا.

" اِس کا مطلب وہ کیپٹن ارحم پہلے سے ہی سب جانتا تھا. اور ہم اُسے نہیں بلکہ وہ ہمیں بے وقوف بنا رہا تھا. اگر وہ لڑکی بھی اُس کے ساتھ ملی ہوئی ہے تو میں اُس کا وہ حال کروں گا ساری زندگی یاد رکھے گی. "

غفور کا گھٹیا دماغ اپنا نیا پلان بنا چکا تھا.

" میں سمجھا نہیں اب ہم کیا کریں گے. "

دلاور کو غفور جی بات سن کر تھوڑا حوصلہ ملا تھا.

" بہت ہلکے میں لے گیا وہ جنرل کا بیٹا ہمیں مگر اب جو میں کرنے والا ہوں. وہ خود چل کر میرے پاس آئے گا. اپنی بیوی کی جان اور عزت کی بھیک مانگنے. اور جب میں اُس کے سامنے اُس کی بیوی کو ختم کروں گا اور اُسے عبرت ناک انجام تک پہنچاؤ گا تب پورا ہوگا میرا بدلا."

غفور کی آنکھوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی.

" لیکن ہم ریحاب تک پہنچیں گے کیسے. "

دلاور کے اندر ریحاب کے لیے ہوس ایک بار پھر سے جاگ اُٹھی تھی.

" وہ تم مجھ پر چھوڑ دو اور دیکھو اب میں کرتا کیا ہوں."

غفور صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھتا کوئی نمبر ملانے میں مصروف ہوگیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ریحاب ناشتے سے فارغ ہوکر صائمہ بیگم کو کچھ دیر ریسٹ کرنے کا کہتی اپنے کمرے میں آگئی تھی. کل رات چینج کرنے کے بعد وہ سوگئی تھی. کیونکہ اُس کے کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی ارحم روم میں نہیں آیا تھا. اور صبح اٹھنے کے بعد بھی ارحم گھر میں موجود نہیں تھا.

صائمہ بیگم سے ہی اُسے پتا چلا تھا کہ کسی ارجنٹ کام کی وجہ سے اُسے جانا پڑا. ریحاب سمجھ نہیں پارہی تھی. کہ ارحم واقعی کام کی وجہ سے گیا ہے یا اُس کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ناراض ہے.

لیکن اِس وقت زیادہ پریشانی اُسے انیس کی ہورہی تھی. صبح سے کتنی بار وہ اس کا نمبر ٹرائے کر چکی تھی مگر کوئی جواب نہیں آرہا تھا. بلیک میلرز کا دیا گیا لاکٹ بھی ارحم نے رات کو اُتار دیا تھا. جس کی وجہ سے اُسے زیادہ پریشانی ہورہی تھی. اگر اُن لوگوں نے اپنے کہے کے مطابق واقعی انیس کو کوئی نقصان پہنچا دیا ہوا تو.

ریحاب پریشانی کے عالم میں کمرے میں ٹہل رہی تھی. اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے.

ارحم فون پر بات کرتا اندر داخل ہوا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اُسے خوشگواریت محسوس ہوئی تھی.

ریحاب سٹائلش سے سی گرین کلر کے شیفون کے فراک میں لائٹ سے میک اپ اور جیولری میں نک سک سے تیار اُس کی ساری تھکن ختم کر گئی تھی.

ریحاب جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھی اچانک ارحم کو سامنے دیکھ ہڑبڑا گئی تھی. کیونکہ وہ دوپٹہ بیڈ پر ڈالے لاپرواہی سے کھڑی یہ بھولی ہوئی تھی کہ یہ کمرہ صرف اُس اکیلی کا نہیں تھا.

ارحم اُس کے حسین سراپے پر نظریں گاڑے فون پر بات کرنے میں مصروف اُس کی طرف بڑھا تھا. ریحاب نے جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھنا چاہا تھا مگر ارحم نے اُس کے بازو کو گرفت میں لیتے اپنی طرف کھینچا تھا. ریحاب سیدھی اُس کے کشادہ سینے سے جاٹکرائی تھی. اُسنے پیچھے ہونا چاہا تھا مگر ارحم اُس کے گرد اپنے مضبوط بازوں کا حصار کھینچتے فرار کے تمام راستے ختم کردیے تھے. ارحم کے اتنے قریب آجانے پر ریحاب کی دھڑکنوں میں ہلچل مچ چکی تھی.

" گڈ مارننگ سویٹ ہارٹ. "

ارحم نے فون بند کرتے اُس کے کان کے قریب جھکتے سرگوشی کی تھی. اور اپنے دھکتے لبوں سے اُس کے کان کی لوح کو چوما تھا. ریحاب اُس کی حرکت پر سُرخ ہوتے چہرا دوسری طرف موڑ گئی تھی.

" آئم سوری رات کو کام سے جانا پڑا. اگر کام بہت ضروری نہ ہوتا تو بلکل نہ جاتا."

ارحم نے ریحاب کا چہرا ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا تھا. ریحاب نے بہت مشکل سے نظریں اُٹھا کر اُس کی جذبے لوٹاتی آنکھوں میں دیکھا. جہاں صرف اور صرف اُس کی محبت کے دیپ روشن تھے.

ارحم نے جھک کر اُس کے گلابی گال کو چوما تھا. جو پہلے ہی اُس کی قربت پر لال ہوچکے تھے.

" لگتا ہے میری جان مجھ سے ناراض ہوگئی ہے. اِس لیے کسی بات کا کوئی جواب نہیں دے رہی. پر کوئی بات نہیں مجھے منانا اچھے سے آتا ہے. "

ارحم مسلسل ریحاب کی خاموشی نوٹ کرتا اُس کے ہونٹوں پر جھکا تھا مگر اُس سے پہلے ہی ریحاب نے گھبرا کر ارحم کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اُس کو باز رکھنا چاہا تھا.

" نہیں میں بلکل بھی ناراض نہیں ہوں. اور میں سمجھ سکتی ہوں. کہ آپ کا کام ضروری تھا تو آپ کو جانا پڑا ."

ریحاب کے جلدی جلدی اپنی بات کہنے پر ارحم کا ایک زوردار قہقہ برآمد ہوا تھا.

" مطلب ناراض نہیں ہو مجھ سے تم. "

ارحم نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے تصدیق کرنی چاہی تھی. جس کے جواب میں ریحاب نے زور زور سے اثبات میں سر ہلاتے اُسے یقین دلایا تھا.

" میری بیوی اگر مجھ سے ناراض نہیں ہے سب ٹھیک ہے تو کیوں نہ تھوڑا سا پیار کرلیا جائے. "

ارحم کی معنی خیز بات پر ریحاب نے مشکوک انداز میں اُسے دیکھتے پیچھے ہٹنا چاہا تھا. مگر ارحم اُس کے گرد گرفت مضبوط کرتے اُسے اپنے قریب تر کرچکا تھا.

" میں اتنا بھی شریف نہیں ہوں ڈئیر وائف. "

ارحم کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی.

" ارحم پلیز.. "

ریحاب اِس سے پہلے کے کچھ کہتی ارحم اُس کے ہونٹوں کو اپنی قید میں لیتے اپنی محبت کی شدتوں سے اُسے روشناس کرواتا چلا گیا تھا. ریحاب نے ارحم کی شرٹ کو سختی سے مٹھیوں میں جکڑ رکھا تھا. ارحم کے لمس میں بے پناہ محبت کے ساتھ ساتھ بے حد نرمی بھی تھی. ریحاب کو اپنا سانس رُکتا محسوس ہورہا تھا. جب اُس نے ارحم کے سینے پر دباؤ ڈالتے اُسے دور دھکیلا تھا.

ارحم بھی ریحاب کا خیال کرتے فوراً پیچھے ہوا تھا. جو سر اُس کے سینے پر ٹکائے گہرے گہرے سانس لیتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہی تھی.

" ابھی سے یہ حال ہورہا ہے. ابھی تو میں نے ٹھیک سے پیار کیا ہی نہیں. "

ارحم نے اپنی چھوئی موئی سی نازک بیوی کی حالت دیکھتے اُس کا مذاق اُڑایا تھا. جس کے جواب میں ریحاب اُسے گھور بھی نہ سکی تھی. وہ جو سوچ کے آئی تھی کہ ارحم کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دے گی. اور نہ ہی اپنے دل کو کسی بھی صورت اِس شخص کے سامنے کمزور پڑنے دے گی. سارے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے. دل اُسے دغا دے گیا تھا.

وہ ارحم اور اُس کے گھر والوں کے اچھے سلوک اور بے پناہ محبت کے آگے ہار رہی تھی. آج سے پہلے اُس نے اِس طرح کا فیملی کا پیار اور کیئر کہاں دیکھی تھی. اِنہیں چیزوں کے لیے ہی تو وہ ساری زندگی ترستی آئی تھی. اور اب جب ملی تھیں تو وہ بھی ادھوری خوشی لیے.

کاش کہ وہ ارحم کو سب سچ بتا سکتی. اپنے پیرنٹس انیس کے بارے میں اور سب سے بڑی بات بلیک میلرز کے بارے میں.

یا

کاش یہ تلخ حقیقت ہوتی ہی نہ اُن کے بیچ تو سب کتنا اچھا ہوتا. ارحم کا خود سے دور جانے کا ڈر نہ ہوتا اُسے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" واؤ خیریت آج اتنی بیوٹی فل لیڈیز نے مجھے کیسے یاد کرلیا."

ارتضٰی نے جیسے ہی ناہید بیگم کے کمرے میں قدم رکھا سامنے ہی زینب بیگم اور ناہید بیگم کو منتظر پایا تھا.

" ارتضٰی بیٹا ہم دونوں کو آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے اور ہمیں اُمید ہے آپ ہماری بات کا مان ضرور رکھیں گے. "

زینب نے محبت پاش نظروں سے اپنے لاڈلے بھتیجے کی طرف دیکھا تھا. جس نے ہمیشہ اُنہیں اپنی ماں کے جتنا درجہ دیا تھا.

" آپ لوگوں کا ہر حکم سر آنکھوں پر مگر سوائے ایک بات کے. اِس لیے اُس ٹاپک سے ہٹ کر کوئی بات ہے تو ضرور کریں."

ارتضٰی مسکراتے ہوئے اُن دونوں کے سامنے صوفے پر بیٹھتے اپنا مطلب باور کروا گیا تھا. جس پر دونوں نے بے بسی سے اُس کی طرف دیکھا.

" ارتضٰی بیٹا ایسا کب تک چلے گا. آپ کو نہیں مگر ہمیں آپ کی فکر ہے. اور ہم لوگ کسی صورت صرف ایک ضد میں آپ کو پوری زندگی خراب نہیں کرنے دے گے. آپ کو شادی کرنی ہی ہوگی. اور بیلا سے اچھی لڑکی مجھے نہیں لگتا کوئی اور ہوگی. جو آپ کو اور آپ کے مزاج کو اچھے سے سمجھ سکے. مگر پھر بھی اگر آپ کو کوئی اور پسند ہے تو بتا سکتے ہیں. کیونکہ شادی تو آپ کی اب ہوکر رہی گی. "

ناہید بیگم بھی اُسی کی طرح دوٹوک انداز میں بولیں. اُن کی بات پر ماہ روش کا بھیگا چہرا اُس کی آنکھوں کے پردے پر لہرایا تھا. اور دل کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا تھا.

وہ اپنے اندر کی گھٹن سے تنگ آچکا تھا. اور سکون چاہتا تھا جو اُسے کسی صورت مل ہی نہیں رہا تھا.

" اوکے اگر میں آپ لوگوں کی خوشی کی خاطر شادی کر بھی لوں. مگر جس رشتے میں میری دلی رضامندی شامل نہیں ہوگی وہ میں کیسے نبھا سکتا ہوں. اِس طرح تو دوسرے فریق کی زندگی خراب کرنے والی بات ہے."

ارتضٰی سکندر کو کسی بات کے لیے منانا اُن کے لیے ہمیشہ ہی بہت مشکل ہی رہا تھا. اور یہ تو پھر بات ہی ایسی تھی.

" ارتضٰی بیٹا آپ کیوں خود کو بلا وجہ کی سزا دے رہے ہو. میرے دل پر پہلے ہی بہت باتوں کا بوجھ ہے. آپ کو اِس طرح کی بے رنگ زندگی گزارتے دیکھنا میرے لیے بہت مشکل ہے. مجھے اپنا آپ مزید گنہگار لگتا ہے."

زینب بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے. وہ چہرہ دونوں ہاتھوں پر گرائے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھیں. ارتضٰی اُن کی بات پر تڑپ اُٹھا تھا. وہ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھتا زینب کے سامنے جا بیٹھا تھا. وہ اُن کو کسی صورت دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا.

" پھوپھو آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں. آپ کسی کی گنہگار نہیں ہیں. آپ اور ہم سب اچھے سے جانتے ہیں آپ کا کسی بھی بات میں کوئی قصور نہیں تھا.

اوکے ٹھیک ہے اگر آپ سب لوگوں کی یہی خواہش ہے تو میں آپ کی بات ماننے کو تیار ہوں. آپ لوگوں کی مرضی آپ جس لڑکی سے چاہتے ہیں میں شادی کرنے کو تیار ہوں. "

ارتضٰی اپنے دل پر جبر کرتا بہت مشکل سے بولا تھا. کیونکہ اُس کے لیے اپنی فیملی سب سے زیادہ اہم تھی اور اُن کو کسی صورت دکھی وہ نہیں دیکھ سکتا تھا.

ناہید اور زینب بیگم اُس کی بات سنتے خوشی سے کھل اُٹھی تھیں. چاہے جیسے بھی مگر اُس نے شادی کے لیے رضامندی دے دی تھی. اُن کے لیے یہی کافی تھا.

" میں آصفہ اور احمد بھائی سے بات کر لوں پھر بیلا کے حوالے سے. وہ لوگ تو نجانے کتنی بار دبے لفظوں میں اِس رشتے کے متعلق بات کرچکے ہیں. "

ناہید بیگم جلدی سے بولیں تھیں کہ کہیں ارتضٰی پھر نہ موڈ چینج کر لے.

" ماما جیسے آپ کو مناسب لگے آپ کرلیں. "

ارتضٰی اُن دونوں کے خوشی سے جگمگاتے چہروں کو دیکھتے مسکراتا وہاں سے باہر نکل گیا تھا.

لیکن شادی کے لیے ہاں کرکے اُس کی بے سکونی مزید بڑھ گئی تھی. وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اُس کے ساتھ. ہمیشہ ماہ روش کو ہرٹ کرکے وہ خود بے چین کیوں ہوجاتا تھا.

وہ اُس لڑکی کے ساتھ جو اُس کے سب سے بڑے دشمن کی بیٹی تھی کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتا تھا لیکن جانے انجانے میں اُسے سب سے گہرا رشتہ دل کا رشتہ بنا بیٹھا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" ماہی چلو میرے ساتھ. اتنے اچھے ہیں وہ سب. دیکھنا تمہیں اُن سب سے مل کر بہت اچھا لگے گا. "

زیمل ماہ روش کے بہت انکار کے باوجود بھی اُسے نور پیلس ساتھ گھسیٹ لائی تھی.

" زیمل کبھی تو کسی کی سن لیا کرو. ایسے اچھا تو نہیں لگتا نہ کسی کے گھر جانا. "

ماہ روش ارتضٰی کی وجہ سے وہاں جانے سے گریزہ تھی. ورنہ اُس کا بہت دل چاہ رہا تھا اپنی ماما سے ملنے کا اُن سے بات کرنے کا.

" نکاح والے دن ناہید آنٹی نے خود بولا تھا مجھے کہ تمہیں کبھی لاؤں اُن کے گھر."

زیمل ماہ روش کا ہاتھ تھامے نور پیلس کے اندر قدم رکھ چکی تھی.

" تھینک گارڈ زیمل آنی آپ آگئیں. یہ دیکھیں اِس ہادی نے کیا کیا ہے. سارا آئل فرش پر پھینک دیا ہے. اور پینٹنگ ابھی تک مکمل نہیں کرپایا. آپ پلیز ہماری ہیلپ کر دیں گی."

زیمل کو ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا دیکھ طلحہ بھاگتا ہوا اُس کے پاس آیا تھا. اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا.

ماہ روش حیرت سے زیمل کو جاتے دیکھتی رہی تھی. جب ایک طرف سے اُسے ناہید بیگم آتی دکھائی دی تھیں.

" ارے بیٹا آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں اندر آئیں نا. "

ناہید بیگم ماہ روش سے ملنے کے بعد اُسے اندر کی طرف لے گئی تھیں.

جہاں سامنے ہی نیہا, منیزہ اور صباحت بیگم کے ساتھ بہت سارے ڈریسز پھیلائے بیٹھی تھیں.

" آپ کے گھر کوئی شادی کا فنکشن ہے کیا. "

ماہ روش نے وہاں پھیلی چیزوں اور ہلچل دیکھ کر سرسری سا پوچھا تھا. مگر آگے سے ملنے والا جواب اُس کو ہلا کر رکھ گیا تھا.

" بیٹا لگتا ہے ارتضٰی نے ابھی تک اپنے کولیگز میں نہیں بتایا. دراصل کل اُس کی منگنی ہے میری بھانجی بیلا کے ساتھ. "

ناہید بیگم نے بات کرتے جانچتی نظروں سے ماہ روش کا چہرہ دیکھا تھا اور ماہ روش کا بدلتا رنگ دیکھ کر اُن کا شک ٹھیک نکلا تھا. ماہ روش اور ارتضٰی کے درمیان ضرور کچھ تھا جس کو وہ دونوں خود سے بھی چھپانے کی کوشش کررہے تھے.

ماہ روش کو لگا تھا ہوا میں آکسیجن کم ہوگئی ہو. اُس کا فرض اُس کی ڈیوٹی مزید اُس سے کتنا امتحان لینے والی تھی. اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کا شوہر میجر ارتضٰی سکندر کسی اور لڑکی سے شادی کرنے والا تھا.

ماہ روش ابھی انہیں سوچوں میں اُلجھی ہوئی تھی جب دروازے کے اندر سے اُسے ارتضٰی کے بازو میں بازو ڈالے بیلا اندر آتے دکھائی دی تھی. ہنستے ہنستے جب بیلا نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھا تو ماہ روش کے اندر آگ سی بھڑک اٹھی تھی.

اُس کا دل چاہا تھا اُس لڑکی کو کھینچ کر ارتضٰی سکندر سے دور پھینک دے جو صرف اُس کا تھا. مگر پھر ارتضٰی پر نظر پڑتے وہ اندر سے ٹوٹی تھی وہ بھی تو بیلا کے ساتھ کتنا خوش لگ رہا تھا.

اور ویسے بھی ارتضٰی کے نزدیک اُس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی. وہ اُس کے لیے ایک غدار اور دھوکے باز سے زیادہ کچھ نہیں تھی. ماہ روش کو ارتضٰی اِس وقت اپنی دسترس سے بہت دور لگا تھا.

ارتضٰی ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا جب لان میں کہیں سے بیلا اُس کی طرف آتے ہمیشہ کی طرح اپنے سٹائل میں اُس کے قریب ہوئی تھی. ارتضٰی کو آج بیلا کا انداز پہلے سے بھی زیادہ بے باک لگا تھا. شاید اُسے بھی ارتضٰی کے اقرار کی خبر مل چکی تھی. اِس لیے وہ مکمل حق جمانے کی کوشش کرتے اُس کے قریب ہورہی تھی. جو کہ ارتضٰی کو بلکل پسند نہیں آرہا تھا.

ارتضٰی اُسے خود سے دور کرنے ہی والا تھا. جب اُس کی نظر ڈرائنگ روم میں بیٹھی ماہ روش پر پڑی تھی. جو ڈبڈبائی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی.

ناہید بیگم اُن دونوں کی ایک ایک حرکت نوٹ کررہی تھیں. ماں تھیں وہ ارتضٰی چاہے اُنہیں کبھی نہ بتاتا مگر وہ اُس کے دل کی حالت اچھے سے سمجھ رہی تھیں.

ماہ روش سے مزید وہاں بیٹھنا بہت مشکل ہورہا تھا. جب وہ کال آنے کا بہانا کرتی وہاں سے نکلی تھی. ارتضٰی سے کچھ فاصلے پر ہی تھی وہ جب فرش ہر گرے آئل پر توجہ نہ دیتے وہ وہاں پاؤں رکھ چکی تھی. لیکن اگلے ہی لمحے اُس کی چیخ ڈرائنگ روم میں گونجی تھی.

کیونکہ اُس کا پاؤں پھسلا تھا. اِس سے پہلے کے وہ بُری طرح زمین بوس ہوتی. ارتضٰی بیلا کو خود سے دور کرتا ماہ روش کی جانب بڑھا تھا. اور اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے گرنے سے بچانا چاہا تھا. مگر وہاں گرے آئل کی وجہ سے ارتضٰی کا پاؤں بھی پھسل گیا تھا اور وہ دونوں ایک ساتھ اُوپر نیچے فرش پر زمین بوس ہوئے تھے. ارتضٰی نے ماہ روش کو اپنے حصار میں لیتے چوٹ لگنے سے بچا لیا تھا.

سب لوگ حیرت سے منہ کھولے یہ منظر دیکھ رہے تھے. وہاں کوئی کم عقل ہی ایسا ہوگا جو ارتضٰی کے انداز میں موجود ماہ روش کے لیے تڑپ نہ دیکھ پایا ہو.

ناہید بیگم نے اُسی لمحے سیڑھیوں سے نیچے آتی زینب کو آنکھوں سے اپنا شک ٹھیک ہونے کا کہتے اُن دونوں کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا تھا.

جو ایک دوسرے میں کھوئے اردگرد موجود لوگوں کو فراموش کرچکے تھے. ارتضٰی نیچے جبکہ ماہ روش اُس کے اُوپر گری تھی. ماہ روش کا سر ارتضٰی سکندر کے چوڑے سینے پر دھرا تھا. ایک ہاتھ کندھے اور دوسرا اُس کے سینے پر رکھا تھا. جبکہ ارتضٰی کے دونوں ہاتھ ماہ روش کی نازک کمر کے گرد لپٹے ہوئے تھے.


" آپ دونوں ٹھیک ہو آپ لوگوں کو چوٹ تو نہیں لگی. اِن بچوں کا کوئی کام سیدھا نہیں ہے. "

نیہا ارتضٰی کے غصے کے ڈر سے جلدی سے اُن دونوں کے قریب آئی تھی. لیکن ارتضٰی سکندر تو اُس وقت شاید کسی اور دنیا میں ہی پہنچا ہوا تھا. ماہ روش کے قریب آنے سے اُس کے تڑپتے بے سکون دل کو قرار آجاتا تھا.اور اِس وقت تو وہ اُس کے بہت قریب تھی اتنا کہ وہ اُس کی دھڑکنے اپنے دل پر محسوس کرسکتا تھا.

نیہا کے کھنکھارنے پر پہلے ماہ روش نے ہوش میں آتے ارتضٰی کے اُوپر سے اٹھنا چاہا تھا مگر ارتضٰی کے آہنی بازوں کی گرفت کی وجہ سے وہ واپس اُس کے سینے پر آگری تھی. ماہ روش کا چہرا خفت اور شرمندگی سے سُرخ ہوا تھا. وہ سب کی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی.

جب ارتضٰی نے اپنے بےقابو ہوتے جذبات کو کنٹرول کرتے اُسے اپنے حصار سے آزاد کیا تھا.

ماہ روش آزادی ملتے ہی وہاں بغیر کسی سے نظریں ملائے باہر کی طرف بڑھ گئی تھی.

ارتضٰی نے اُٹھتے سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا جو اُسے عجیب نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھیں. ارتضٰی کے دیکھنے پر سب وہاں سے ہٹتے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوچکی تھیں. بیلا بھی کچھ اُلجھی سی وہاں سے ہٹ گئی تھی لیکن ناہید بیگم اور زینب بیگم ارتضٰی کو خوشمگی انداز میں گھورنے مصروف تھیں.

" کیا ہوا آپ دونوں کو ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں مجھے."

ارتضٰی کو اُن دونوں کے دیکھنے کا انداز کسی اور طرف اشارہ کررہا تھا. لیکن اُن دونوں کے نفی میں سر ہلانے پر وہ چینج کرنے کی غرض سے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا.

" بھابھی آپ ٹھیک کہہ رہی تھیں. ارتضٰی ماہ روش کے لیے ضرور کچھ محسوس کرتا ہے یہ صرف نام کی وجہ سے نہیں ہے. ماہ روش کو دیکھ کر ارتضٰی کی آنکھوں میں جو چمک آتی ہے. وہ کوئی عام بات نہیں ہے. "

زینب کو بھی ناہید بیگم کی بات پر یقین آگیا تھا آج اُن دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر. مگر ناہید بیگم نے ابھی تک زینب کو ماہ روش کے فادر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے آج پورے ایک سال کے بعد اپنے بابا کے آفس میں قدم رکھا تھا. کیونکہ آج اُن کی برسی تھی. وہ ہر سال اسی دن اُن کے آفس میں آتا تھا اور ذی ایس کے کو اُس کے انجام تک پہنچانے کے عزم کو مزید پختہ کرتے اُن سے کیے گئے عہد کو تازہ کرتا تھا.

اور ساتھ ہی ذوالفقار کے لیے دل میں موجود انتقام اور نفرت میں بھی مزید اضافہ ہوتا تھا. ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی جنرل یوسف یہاں سے گئے تھے.

ارتضٰی آنکھیں موندے سکندر کی چیئر سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا جب اُس کا موبائل بجا تھا. موبائل کان سے لگاتے آگے سے جو خبر ملی تھی وہ ارتضٰی کے قہر کو آواز دے گئی تھی.

اُن کے ایک آفس پر حملہ کرکے تین اہلکار کو شہید کردیا گیا تھا. ارتضٰی کا دل چاہا تھا ابھی جاکر ذی ایس کے کو تباہ و برباد کردے. اُس کا وہ حال کرے کہ آئندہ کوئی بھی دشمن اِس پاک سر زمین کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی کوشش بھی نہ کرے مگر اِس وقت وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا.

ماہ روش کا کل سے رو رو کر بُرا حال تھا. یہ جانتے ہوئے بھی کہ ارتضٰی سکندر اُسے کبھی قبول نہیں کرے گا. دل پھر بھی اُس بے مہر ستمگر کے لیے پاگل ہورہا تھا. کیونکہ وہ میجر ارتضٰی سکندر سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ عشق کی حد تک چاہنے لگی تھی. اُس کے ہر بات ٹھکرانے کے باوجود اُس کے جذبات میں کمی آنے کے بجائے مزید شدت آرہی تھی.

ماہ روش یہ جانتی تھی کہ ارتضٰی اور گھر کے تمام لوگوں کو اُس کے زندہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا. لیکن وہ تو جانتی تھی نا. اِس لیے وہ جنرل یوسف سے بات کرکے ایک آخری کوشش کرنا چاہتی تھی.

ماہ روش کو بتایا گیا تھا کہ جنرل یوسف میجر سکندر کے آفس میں موجود ہیں اِس لیے ماہ روش پہلی بار اُس طرف آئی تھی. وہ آفس میں ہلکا سا ناک کرتے اندر داخل ہوئی تھی.

چیئر کا رُخ پیچھے کی طرف موڑے دیوار کی طرف کیا گیا تھا. اِس لیے ماہ روش اُن کا چہرا دیکھ نہیں پائی تھی. اور اِس وقت وہ جس کنڈیشن میں تھی اُس نے اتنا دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا تھا.

" انکل مجھے آپ سے میجر ارتضٰی سے متعلق بہت ضروری بات کرنی ہے. "

اُس دشمنِ جاں کا نام لیتے ماہ روش کی آنکھوں میں نمی دوڑ گئی تھی.

" انکل آپ جانتے ہیں نا وہ میرے لیے کیا ہیں. میں اُن سے کتنا پیار کرتی ہوں. اُن کے بغیر نہیں رہ سکتی نہ اُنہیں کسی اور کا ہوتے دیکھ سکتی ہوں. پر مجھے پتا چلا ہے وہ شادی کررہے ہیں. پلیز انکل اُنہیں کسی طرح روک لیں پلیز. میں اُن سے بہت محبت کرتی ہوں. اُن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی. پلیز انکل اگر وہ کسی اور کے ہوگئے تو میں مر جاؤ گی."

ماہ روش نے پہلی بار ارتضٰی کے متعلق کسی کے سامنے اِس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا. وہ بھی صرف اِس لیے کہ وہ کسی صورت ارتضٰی کو کھونا نہیں چاہتی تھی. اور اِس سب میں اُس کی ہیلپ صرف جنرل یوسف ہی کرسکتے تھے.

ماہ روش کو حیرانی ہوئی تھی کہ اُس کی اتنی پریشانی سننے کے باوجود جنرل یوسف نے اُس کی طرف ایک بار بھی دیکھا کیوں نہیں. اور نہ کسی بات کا جواب دیا. ماہ روش ابھی اِسی کشمکش تھی جب چیئر گھمائی گئی تھی. اور سامنے بیٹھے ارتضی سکندر کو دیکھ ماہ روش کے پسینے چھوٹ چکے تھے.

ماہ روش شاک کے عالم میں ارتضٰی کو دیکھ رہی تھی. جس کا چہرا اس وقت ہر احساس سے عاری تھا. ماہ روش اپنی بے وقوفی اور جلد بازی پر جی بھر کر پچھتا رہی تھی. اُس نے سر جھکا کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کی تھی. اور وہاں سے پلٹنے ہی لگی تھی جب ارتضٰی کی آواز اُس کے قدم وہیں جکڑ گئی تھی.

" ویلڈن ماہ روش ذوالفقار ویری امپریسو. بہت اچھی کوشش تھی مگر افسوس. تمہاری ساری محنت بےکار گئی. "

ارتضٰی سیٹ سے اُٹھتا ماہ روش کی طرف بڑھا تھا. جو اُس کی بات پر ناسمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی.

" کیا ہوا ماہ روش ذوالفقار اتنی حیرت کس بات کی ہے. اب ہر کھیل میں جیت تم باپ بیٹی کی تو نہیں ہوسکتی نا.

تمہیں کیا لگا مجھے جنرل یوسف سمجھنے کا ناٹک کرکے تم. اپنے جھوٹے جذبات کا اظہار کرو گی اور میں یقین کر لوں گا. "

ارتضٰی کی بے اعتباری پر ماہ روش نے تڑپ کر اُس کی طرف دیکھا تھا. جو اُس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا اور اُس کو نفرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا.

" سر آپ غلط سمجھ رہے ہیں. میں سچ بول رہی تھی. اور میرے جذبے جھوٹے نہیں ہے."

ماہ روش اپنی محبت کو جھوٹا کہے جانا برداشت نہیں کرپائی تھی. اور سامنے کھڑے بے درد انسان کو یقین دلانے کی ایک کوشش کرتے نجانے کتنے ہی آنسو اُس کے رُخسار پر بکھرے تھے.

مگر ارتضٰی سکندر اِس وقت خود اذیت کے آخری مراحل میں تھا. جہاں اُس کے سامنے کھڑی لڑکی ماہ روش نہیں بلکہ ذوالفقار کی بیٹی تھی جو اُس کے ملک اور خاندان کی بربادی کی وجہ تھا.

" تم تھکتی نہیں ہو اِس طرح معصومیت کا ناٹک کرکے. تم جیسے لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں. دوہرے چہرے لے کر گھوم رہی ہو تم. ایک چہرے پر بچارے اور ایماندار ہونے کا نقاب چڑھا رکھا ہے جبکہ دوسرا چہرہ شاطر اور غدار کا ہے جو کہ تمہارا اصلی چہرہ بے. تم نے بہت بےوقوف بنا لیا اِس طرح کرکے مگر اب اور نہیں. "

ارتضٰی نے آج بغیر کوئی لحاظ کئے ماہ روش کے دل کو مزید لہولہان کیا تھا.

ماہ روش خاموش کھڑی اُس کی نفرت کی انتہا دیکھ رہی تھی. مگر ارتضٰی سکندر اِس وقت کسی طرح بھی اُس پر رحم کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہا تھا.

" سر آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے. اگر آپ کو مجھ سے اتنی ہی نفرت ہے تو میں اب آپ کے سامنے کبھی نہیں آؤں گی. مگر پلیز آپ میری محبت اور میری ایمانداری کو اِس طرح نہیں جھٹلا سکتے. میں بہت جلد آپ کو یہ ثابت کردوں گی کہ میں غدار نہیں ہوں.

ہاں صرف ایک قصور ہے میرا. کہ میں ذوالفقار صمد خان کی بیٹی ہوں. جس حقیقت کو میں چاہنے کے باوجود تبدیل نہیں کرسکتی."

اُس نے صرف ماہ روش کے جذبات کو ہی نہیں بلکہ اُس کے پروفیشن پر بھی الزام لگایا تھا. ماہ روش کے پاس اب مزید ارتضٰی کو کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا. وہ آج مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی.

ماہ روش ایک حسرت بھری نظر سامنے کھڑے شاندار انسان پر ڈال کر آگے بڑھی تھی. جو اُس کا ہوتے ہوئے بھی اُس کا نہیں تھا.

ماہ روش ایک قدم ہی آگے بڑھی تھی. جب اُس کا سر زور سے چکرایا تھا. اِس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑا کر زمین بوس ہوتی پاس کھڑے ارتضٰی نے اُس کو بازو کے حصار میں لیتے گرنے سے بچایا تھا.

ماہ روش جلدی سے سر کو تھامتی ارتضٰی سے دور ہوئی تھی. جب وہ اُسے اتنی ہی نفرت کرتا تھا. تو یہ کیئر کیسی. ماہ روش اب مزید دل کے اِس فریب میں نہیں آنا چاہتی تھی جو پہلے ہی اُس کی بربادی کا سبب بن چکا تھا.

ماہ روش کا اِس طرح بازو جھٹک کر پیچھے ہونا ارتضٰی کو مزید غصہ دلا گیا تھا. خود وہ چاہے اُسے کتنا بھی دھتکارتا لیکن اُس کا اِس طرح خود سے دور ہونا وہ بلکل برداشت نہیں کرسکتا تھا. وہ اب عادی ہوچکا تھا ماہ روش کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت اور تڑپ دیکھنے کا. اور اُس کے اپنے لیے جذبات کی سچائی سے بھی واقف تھا. مگر ابھی غصے اور ذی ایس کے کی حرکتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدگمانی نے ارتضٰی کی ماہ روش کے لیے محبت کو کہیں اندر ہی دبا دیا تھا. اور وہ اُس سے مزید تلخ ہوگیا تھا.

اچانک نجانے کس احساس کے زیرِ اثر ارتضٰی نے باہر کی طرف جاتی ماہ روش کو بازو سے تھامتے ایک جھٹکے سے اپنی طرف کھینچتے اپنے بے حد قریب کیا تھا.

ارتضٰی کی اِس حرکت پر ماہ روش کا دل اُچھل کر حلق میں آگیا تھا.

ارتضٰی نے اپنا چہرا ماہ روش کے چہرے کے بےحد قریب کیا تھا. ماہ روش اُس کے مضبوط حصار میں ہل بھی نہیں پارہی تھی.

" مجھے اپنی محبت اور ایمانداری کا یقین دلانے کے لیے کیا کرسکتی ہو تم. "

ارتضٰی کی گرم سانسیں ماہ روش کے چہرے کو چھو رہی تھیں. ماہ روش کو اپنا وہم لگا تھا یا جو بھی بھی مگر اُسے ارتضٰی کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت نظر آئی تھی.

" اپنی جان دے سکتی ہوں. "

ماہ روش اُس کی مقناطیسی قربت کے زیرِ اثر ارتضٰی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پورے یقین سے کہا تھا. مسلسل رونے کی وجہ سے ماہ روش کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی. جنہیں وہ بمشکل کھولے کھڑی تھی.

اچانک ارتضٰی کو نجانے کیا ہوا تھا کہ جھک کر باری باری اُس کی دونوں آنکھوں پر اپنے ہونٹوں کا مرہم رکھ دیا تھا. اِس مہربان لمس پر ماہ روش کا دل زور سے دھڑکا تھا.

ارتضٰی اِس لڑکی کی قربت میں خود کو پگھلتا محسوس کررہا تھا. اُس ہمیشہ ماہ روش کی قربت میں سکون محسوس ہوتا تھا. وہ نجانے کتنی ہی دیر ایک دوسرے میں کھوئے رہتے جب موبائل کی آواز نے ارتضٰی کو جھنجھوڑ دیا تھا.

" کاش کہ تم ذوالفقار کی بیٹی نہ ہوتی اور میں تمہاری باتوں پر یقین کرپاتا. "

ارتضٰی اُن لمحوں کے حصار سے نکلتا اپنے مخصوص انداز میں اُسے باور کروا گیا تھا.

ماہ روش جو ارتضٰی کی سحرذدہ خوشبو کے حصار میں تھی اُس کی بات پر دل کی خوشگمانی وہیں ختم ہوئی تھی. اور اپنے آپ پر غصہ آیا تھا. وہ ہمیشہ اِس شخص کے سامنے اتنی بے بس کیوں ہوجاتی تھی. مگر اُس نے سوچ لیا تھا. اب کچھ بھی ہوجائے وہ اپنا دل ارتضٰی سکندر کی طرح پتھر کرے گی. اُس کو دل سے نکال تو نہیں سکتی تھی مگر دل پر پہرے تو بیٹھا سکتی تھی. اب وہ مزید عزت نفس کھونا نہیں چاہتی تھی.

ارتضٰی مزید کچھ بھی کہے بغیر اُسے خود سے دور کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


جاذل گاؤں کی طرف جارہا تھا. وہ ابھی شہر سے کچھ دور ہی پہنچا تھا. جب اُسے ایک طرف سے چلانے کی آواز آئی تھی. جو کہ یقیناً ایک لڑکی کی آواز تھی.

جاذل نے فوراً گاڑی روکتے سائیڈ پر لگائی تھی. اور گاڑی سے باہر نکل کر آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا تھا. جب ایک بار پھر اُسے چیخنے کی آواز آئی تھی. لیکن فوراً ہی وہ آواز جیسے کسی نے دبا دی تھی.

مگر تب تک جاذل آواز کا تعاقب کرتے قدم اُس طرف بڑھا چکا تھا. تھوڑا سا آگے جاکر اُسے جھاڑیوں میں ایک لڑکی اور تین آدمی نظر آئے تھے. جو لڑکی کو قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے اور وہ مسلسل اُن کی کوشش ناکام بناتے خود کو چھڑوانے میں لگی ہوئی تھی.

تبھی اُن میں سے ایک آدمی نے کھینچ کر ایک زور دار تھپڑ اُس لڑکی کے منہ پر دے مارا تھا. اور بس وہی جاذل کی برداشت ختم ہوئی تھی. اپنے سامنے وہ کسی لڑکی کے ساتھ اِس طرح تشدد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا. یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دشمن کی کوئی چال بھی ہوسکتی ہے.

جاذل آگے کی طرف بڑھا تھا. اور اُن میں سے دو آدمی کو گردن سے دبوچتے زور دار گھونسے دے مارے تھے. وہ لوگ اچانک کسی اجنبی کو دیکھ بوکھلا گئے تھے.

مگر جاذل اُنہیں سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اُن پر ٹوٹ پڑا تھا. وہ اکیلا ہی اُن تینوں پر بھاری تھا. وہ لڑکی حیرت سے آنکھیں پھاڑے اپنے لیے لڑتے اُس اجنبی کو دیکھ رہی تھی. جو اُس کو جانے بغیر اِس طرح اُس کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مشکل میں کود پڑا تھا.

اُسے یقین نہیں آرہا تھا اِس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود تھے کیونکہ جہاں تک اُس نے سنا تھا. یہاں کے لوگ تو اپنے خون کے رشتوں کو نہیں پوچھتے تھے. یہ تو پھر اُس کے لیے بلکل انجان شخص تھا.

جاذل نے کچھ ہی دیر میں اُن تینوں کا بھڑکس نکال دیا تھا. جب اُس کی نظر سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی تھی.

جو اُسے کہیں سے بھی ڈری سہمی یا خوف ذدہ نہیں لگی تھی. بلکہ آنکھیں پھاڑے اُسے کا بھرپور نظروں سے معائنہ کرنے میں مصروف تھی.

" آپ ٹھیک ہیں. یہ کون لوگ تھے اور آپ کو یہاں کیوں لے کر آئے. "

جاذل خود ہی آگے بڑھتا اُس سے مخاطب ہوا تھا.

" میں نہیں جانتی کون لوگ ہیں یہ. میں تو یہاں سے گزر رہی تھی جب اِنہوں نے مجھ پر حملہ کر دیا اور اسلحہ کے زور پر مجھے یہاں اُٹھا لائے. "

سونیا جاذل کی بات پر جلدی سے بولی.کیونکہ جس طرح جاذل نے اُن لوگوں کو مارا تھا اور اب جیسے جانچتی نظروں سے اُس کا جائزہ لے رہا تھا. سونیا کو وہ کوئی عام بندہ بلکل نہیں لگا تھا.

" آپ اِس جنگل سے پیدل گزر رہی تھیں کیا. "

جاذل اُس لڑکی کے حوالے سے مشکوک ہوا تھا.

" نہیں میں نے بتایا نا آپ کو. یہ لوگ اسلحہ کے زور پر مجھے یہاں لائے ہیں. اور میری گاڑی تو بہت دور رہ گئی کہیں. "

سونیا تھوڑا سا گڑبڑائی تھی.

وہ اب اُسے کیا بتاتی کہ یہ اُس کے اپنے آدمی ہی تھے. اور اب اچانک نیت خراب ہونے پر اُسی پر حملہ کر بیٹھے تھے.

مگر جو بھی تھا. وہ اِس وقت جاذل کی بہت شکر گزار تھی. جس نے ٹھیک ٹائم پر آکر اُس کی عزت اور جان بچا لی تھی. کیونکہ بہت زیادہ ٹرینڈ ہونے کے باوجود بھی وہ اِن تین لوگوں کا مقابلہ بنا اسلحہ کے نہیں کرسکتی تھی.

اور دوسری بات سونیا کی نظریں بھٹک بھٹک کر جاذل کی طرف جارہی تھیں. جس کی بہادری نے اُسے بہت امپریس کیا تھا.

" بہت بہت شکریہ آپ کا. میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی. جو آپ نے آج مجھ پر کیا ہے. پلیز ایک فیور اور کر دیں کیا. "

سونیا کی بات پر جاذل نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا.

" کیا آپ مجھے لفٹ دے سکتے ہیں. میرے پاؤں میں بہت چوٹ لگی ہے. اِس حالت میں گاڑی ڈھونڈنا اور اُس تک پہنچنا میرے لیے بہت مشکل ہوگا. "

جاذل خود بھی اُسے یہی کہنے والا تھا. اُس کی بات پر سر ہلا کر ساتھ آنے کا اشارہ کرتے واپسی کی طرف چل پڑا تھا.

سونیا نے مسکراتی نظروں سے اُس کے چوڑے وجود کو دیکھا تھا. اِس شخص کا ایٹیٹوڈ اُسے بہت پسند آیا تھا. جو شاید پہلا ایسا شخص تھا جو سونیا کی خوبصورتی سے امپریس نہیں لگ رہا تھا.

جاذل سے لفٹ مانگنے کا مقصد اُس کے بارے میں جاننا تھا. ورنہ اُس کی ایک کال پر بہت سی گاڑیاں اُس کے لیے حاضر ہوجانی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر ہمارا شک ٹھیک نکلا. ریحاب ابھی اپنے بھائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی. ارحم نے اُسے کچھ نہیں بتایا. وہ یہی سمجھ رہی ہے. کہ انیس کو غائب کرنے کے پیچھے ہمارا ہاتھ ہے اور انیس ہمارے قبضے میں ہے. اب آگے کیا کرنا ہوگا ہمیں. کیونکہ اُس کیپٹن کے گھر سے اُس کی بیوی کو اُٹھانا ناممکن ہی ہے. "

دلاور فل جوش میں غفور سے مخاطب تھا.

غفور کے کہنے پر اُس نے ارحم کے گھر سے نکلتے ہی ریحاب کو فون کیا تھا. جب اُس کی ڈری سہمی آواز سن کر .سمجھ گیا تھا کہ وہ ابھی اُن کے خوف کے زیرِ اثر ہے اور کچھ نہیں جانتی.

" ہم کچھ نہیں کریں گے بلکہ اب سب کچھ وہ لڑکی کرے گی. پہلے وہ خود ہمارے پاس آئے گی اور پھر اپنے شوہر کو بھی لائے گی. کیپٹن ارحم کی ساری پلاننگ پر اُس کی اپنی بیوی پانی پھیر دے گی. "

غفور بہت خوش ہوا تھا.

" مگر وہ کیسے. "

دلاور تجسس سے بولا.

" انیس کی آواز جیسی جو آواز ریکارڈ کروائی تھی. وہ بھیجو اُس لڑکی کو. اور دھمکی دو ساتھ کے ابھی اور اِسی وقت ہماری بتائی گئی جگہ پر پہنچ جائے. اگر ٹائم پر نہ پہنچی یا کسی کو بتایا اِس بارے میں تو اپنے بھائی کی لاش دیکھنے کو بھی نہیں ملے گی اُسے. "

غفور کی بات پر دلاور مسکرایا تھا. وہ حُسن کی مورتی اب اُسے ملنے والی تھی. جس کا وہ کب سے منتظر تھا.

" اوکے سر آپ بے فکر ہوجائیں کچھ دیر میں ہی وہ لڑکی ہمارے قبضے میں ہوگی. اور پھر ہوگی جنرل آصف اور کیپٹن ارحم کی بربادی."

دلاور کی بات پر غفور کا بےڈھنگا قہقہ گونجا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب گارڈز سے نظر بچا کر جلدی سے گھر سے نکل آئی تھی. صائمہ بیگم اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں. جبکہ ارحم اور آصف صاحب گھر پر موجود نہیں تھے. ریحاب کو جب سے بلیک میلرز نے انیس کو کڈنیپ کرنے کا بتایا تھا. اُس کی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی. اور اب انیس کی آواز سن کر وہ اُن کی دھمکی پر بنا سوچے سمجھے باہر نکل آئی تھی. وہ کسی صورت اپنے بھائی کو کھونا نہیں چاہتی تھی.

ریحاب نے خود کو بلیک چادر میں چھپا رکھا تھا. وہ تھوڑا سا ہی آگے آئی تھی جب ایک گاڑی اُس کے پاس آکر رکی تھی.

جب اندر بیٹھے شخص کے اشارہ ملنے پر ریحاب گاڑی میں جا بیٹھی تھی. اُس کا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی. جو وہ کررہی تھی وہ ٹھیک ہے یا غلط مگر وہ کسی طرح بھی انیس پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتی تھی.

ریحاب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی. اُسے کچھ پتا نہیں چل پارہا تھا کہ اُسے کہاں لے جایا جارہا ہے.

کافی دیر بعد گاڑی کہیں پر جاکر رکی تھی. اور کسی نے ہاتھ پکڑ کر ریحاب کو گاڑی سے باہر نکالا تھا.

جب کچھ دیر چلنے کے بعد ریحاب کا ہاتھ چھوڑتے اُس شخص نے ریحاب کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی تھی.

ریحاب نے پٹی ہٹتے ہی آنکھوں کو مسلتے اردگرد انیس کو تلاش کرنا چاہا تھا. مگر انیس اُن کے پاس ہوتا تو نظر آتا نا.

وہاں بیٹھے دلاور اور غفور نے ہوس بھری نظروں سے ریحاب کی طرف دیکھا تھا. اُن کا شکار اُن کے سامنے تھا. مگر ابھی چاہ کر بھی وہ اُسے ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے. جب تک کیپٹن ارحم کو وہ اپنے بس میں نہ کرلیتے.

" کیا ہوا میڈم آپ اتنی حیران کیوں ہورہی ہیں. اوہ لگتا ہے آپ نے پہچانا نہیں ہمیں. بھئی ہم وہی تو ہیں جن سے اتنا ٹائم فون پر بات کرتی رہیں آپ. آپ کے پرانے ساتھی."

اُن کی نظروں سے گھن محسوس کرتے ریحاب خود میں سمٹی تھی.

" میرا بھائی کہاں ہے. میں نے تم لوگوں کی بات مان لی ہے نا. اب خدا کے لیے میرے بھائی کو چھوڑ دو. اُس کا اِس سب میں کوئی قصور نہیں ہے. "

ریحاب اُن کے سامنے گڑگڑائی تھی. مگر اُن جیسے درندوں پر ایسی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہونا تھا.

" اتنی بھی کیا جلدی ہے. ابھی جس کام کے لیے آپ یہاں تشریف لائی ہیں. پہلے وہ تو کر لو. بھائی سے بھی ملاقات کروا دیں گے. "

غفور اُٹھ کر ریحاب کے قریب آیا تھا.

" کک کونسسا کام.. "

ریحاب اُن کے انداز اور باتوں سے خوفزدہ ہوئی تھی. اُس کو اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دی تھی.

" ابھی اور اِسی وقت اپنے شوہر کیپٹن ارحم کو کال کرکے یہاں بلاؤ. اور اُسے کہنا اکیلا آئے اگر اُس نے زرا سی بھی ہوشیاری کی تو اپنی بربادی کا ذمہ دار وہ خود ہوگا."

غفور کی بات پر ریحاب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا. یہ تو وہ اچھے سے جان گئی تھی. کہ اِن لوگوں کی دشمنی اُس سے نہیں بلکہ ارحم سے تھی. اور اتنے لوگوں کے بیچ اُس کو اکیلے بلاکر وہ کسی صورت بھی ارحم کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی.

" جلدی کرو."

غفور نے دوبارہ اپنے دیے گئے فون کی طرف اشارہ کیا تھا. کیونکہ ریحاب کا فون اُس سے پہلے ہی لے لیا گیا تھا.

جس پر ریحاب نے جان بوجھ کر ارحم کا نمبر ملانے کے بجائے اپنا ایک دوسرا نمبر ملا دیا تھا. جو کہ کب سے بند پڑا تھا.

اُن لوگوں کو ریحاب سے اِس ہوشیاری کی امید نہیں تھی. اِس لیے وہ بنا اِس طرف دھیان دیے خاموشی سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے. فون سپیکر پر تھا.

اتنی بار ریحاب کے ٹرائے کرنے پر آگے سے کوئی رسپانس نہ ملنے پر وہ دونوں بھی اچھے خاصے اُکتا گئے تھے.

" نمبر یہی ہے نا. اگر ہمارے ساتھ چالاکی کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا تمہارے بھائی کا بہت بُرا حشر کریں گے ہم."

غفور کی آنکھوں سے ریحاب کو بہت خوف محسوس ہورہا تھا.

" ارحم کا صرف یہی ایک نمبر ہے میرے پاس اور آپ لوگوں کے سامنے ہی تو کال کر رہی ہوں. پتا نہیں کیوں بند جارہا ہے. "

ریحاب کمزور سی آواز میں بولی.

" سر کیپٹن ارحم نہیں تو یہ لڑکی اُس کے ساتھیوں کو تو جانتی ہی ہوگی نا. اتنے ٹائم سے اُس سے رابطے میں ہے. اِس سے پہلے کے کیپٹن ارحم اِس کی غیر موجودگی نوٹ کرتے کوئی ایکشن لے. اُس کے کسی اور ساتھی کو اپنے قبضے میں کرنا ہوگا. کیونکہ ہمیں اِن کا ایک بندہ تو ہر حال میں چاہیئے. "

دلاور کی بات پر غفور نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

" ارحم کے اور کس ساتھی کو جانتی ہو تم. جھوٹ بولنے کی کوشش مت کرنا. کیونکہ کسی نہ کسی کو تو تم جانتی ہی ہو. جھوٹ بول کر تم اپنے لیے صرف مشکل پیدا کرو گی. "

غفور کا لہجہ اب سخت ہوا.

ریحاب کو سمجھ نہیں آرہی تھی. اب کیا کرے کیسے نکلے اِس مشکل سے. اپنی وجہ سے وہ کسی اور کی زندگی خطرے میں کیسے ڈال سکتی تھی.

ارحم کے فون پر بات کرتے اُسے پتا چلا تھا کہ جاذل گاؤں چلا گیا ہے. اور ارتضٰی سے تو اُسے ویسے ہی بہت ڈر لگتا تھا اُس کو یہاں بلانے کی غلطی تو وہ کسی صورت نہیں کرسکتی تھی. پیچھے بچتی تھیں ماہ روش اور زیمل ریحاب جانتی تھی وہ دونوں بہت بہادر تھیں آرام سے اِن کا مقابلہ کر سکتی تھیں.مگر اِس طرح دھوکے سے اُن کو جھوٹ بول کر یہاں بلانا اُسے بہت غلط لگ رہا تھا.

" کیا ہوا ریحاب میڈم کس مراقبے میں چلی گئی ہیں آپ."

دلاور کی آواز پر ریحاب اپنی سوچوں سے باہر نکلی تھی.

" میں ارحم کی صرف ایک ساتھی کو جانتی ہوں. ماہ روش نام ہے اُس کا. "

ریحاب اپنی خود غرضی پر دل میں گلٹی محسوس کرتی خود سے بھی بہت شرمندہ تھی. مگر اِس وقت وہ اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی. ارحم اور انیس کو خطرے سے بچانے کے لیے اُس نے ماہ روش کو خطرے میں ڈال دیا تھا. مگر وہ جانتی تھی ماہ روش اُس کی مدد ضرور کرے گی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش کمرے میں بند اپنی بدنصیبی اور محرومیوں سے گزاری زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی. اُس کا دل چاہ رہا تھا ابھی ہی خود کو ختم کردے. ایسی زندگی کا کیا کرنا جس میں وہ اپنی ماں کے قریب نہیں جاسکتی تھی. جس میں ارتضٰی سکندر کا ساتھ نہیں تھا.

مگر باقی سب باتوں کی طرح اِس معاملے میں بھی وہ بے بس تھی.

اب تو اُس ستمگر کے لیے رو رو کراُس کے آنسو بھی ختم ہوچکے تھے.مگر ارتضٰی کی شدید نفرت دیکھ کر لگتا تھا. شاید وہ ماہ روش کے مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہونی تھی.

ماہ روش کی حالت اِس وقت بہت قابلے رحم لگ رہی تھی. وہ ارتضٰی کی نفرت پر اب بہت بُری طرح ٹوٹ اور بکھر چکی تھی. اُسے کسی بہت اپنے کی ضرورت تھی. مگر اُس کی بدقسمتی کہ اُس کے پاس تو ایسا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا. سوائے زیمل کے.

ماہ روش بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے نیچے بیٹھی ہوئی اپنی قسمت پر رو رہی تھی. جب اُس کا فون بجا تھا.

زیمل کا نام دیکھ ماہ روش نے فوراً کال ریسیو کی تھی. اِس وقت وہ اتنی بُری کنڈیشن میں تھی کہ اگر اپنا دکھ شیئر نا کرتی تو اُس کا دماغ پھٹ جانا تھا.

" ماہی کیا ہوا ہے تم رو کیوں رہی ہو. تم ٹھیک تو ہونا. "

زیمل ماہ روش کی آواز سنتی فکرمندی سے بولی.

جس کے جواب میں ماہ روش اپنا ضبط کھوتی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی.

اور اپنی زندگی کی تمام تلخ حقیقتوں سے اُس کو آگاہ کرتی چلی گئی تھی. ارتضٰی کے لیے اپنی بے پناہ محبت اور اُس کا ہر بار بے دردی سے ٹھکرانا.

ساری حقیقت جان کر زیمل کا دل اپنی جان سے پیاری دوست کے دکھ پر درد سے پھٹ رہا تھا. جو اتنی سی عمر میں کتنے غم برداشت کر رہی تھی.

" زیمل کیا تمہیں بھی میری اصلیت جاننے کے بعد مجھ سے نفرت محسوس ہورہی ہے. کیا میں واقعی اتنی قابلے نفرت ہوں. "

ماہ روش نے کرب سے آنکھیں میچتے پوچھا تھا. اُس کے سامنے بار بار ارتضٰی کی نفرت سے بھرپور نگاہیں گھوم رہی تھیں.

" ماہی میری جان کیسی باتیں کر رہی ہو. پلیز خود کو اتنا ہلکان مت کرو."

زیمل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے سنبھالے ماہ روش کو.

" زیمل سر مجھ سے بہت نفرت کرتے ہیں. میں نہیں برداشت کرسکتی اُن کی نفرت. بہت بہت زیادہ چاہتی ہوں اُنہیں. وہ کیوں نہیں سمجھتے میں بے قصور ہوں. میرے بابا کے گناہوں کی سزا وہ مجھے کیوں دے رہے ہیں. "

ماہ روش آج خود کو بلکل بھی نہیں سنبھال پارہی تھی.


" سر ارتضٰی تم سے نفرت نہیں کرتے. صرف کچھ غلط فہمی کا شکار ہیں. مگر ماہی خود کو سنبھالو ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا. میں ابھی آفس میں ہوں تھوڑی دیر تک تمہارے پاس پہنچتی ہوں. "

زیمل جلدی جلدی اپنی جگہ سے اُٹھتے بولی. اِس وقت ماہ روش کو اُس کی بہت زیادہ ضرورت تھی.

زیمل سے بات کرنے کے بعد ماہ روش کال بند کر کے موبائل رکھنے ہی والی تھی. جب ایک بار پھر اُس کا فون بجا تھا. انجان نمبر دیکھ ماہ روش نے ایک دو بیل کے بعد کال اٹینڈ کر لی تھی. مگر آگے سے ریحاب کی گھبرائی روتی ہوئی آواز سن کر ماہ روش الرٹ ہوئی.

" ماہ روش مجھے آپ کی مدد کی بہت سخت ضرورت ہے. پلیز میری مدد کریں. "

ریحاب روتے ہوئے بولی.

" ریحاب ہوا کیا ہے. ارحم کہاں ہے اِس وقت. اور آپ کہاں ہو. "

ماہ روش فکرمندی سے بولی.

"میں نہیں جانتی ارحم کہاں ہے. مجھے کچھ لوگوں نے کڈنیپ کر لیا ہے. پلیز یہ مجھے مار دیں گے. ارحم میری کال اٹینڈ نہیں کررہے پلیز میری ہیلپ کریں. "

ریحاب ڈرے سہمے لہجے میں بولی.

" واٹ. تم فکر مت کرو. کچھ نہیں ہوگا تمہیں. تم پریشان مت ہو. کیا تمہیں کچھ آئیڈیا ہے وہ لوگ تمہیں کہاں لے کر گئے ہیں. "

ماہ روش فوراً گاڑی میں بیٹھتی گھر سے نکل آئی تھی. شام رات میں ڈھل رہی تھی. ہلکا ہلکا اندھیرا ہر طرف پھیل رہا تھا.

ریحاب نے اُن لوگوں کے بتائے گئے ہنٹس دیتے ماہ روش کو راستہ سمجھایا تھا.

ماہ روش نے ریحاب کو جلد ہی وہاں پہنچنے اور اُسے بچانے کی تسلیاں دیتے فون بند کردیا تھا. اور جلدی سے ارحم کا نمبر ڈائل کیا تھا.

اِس وقت وہ اپنی پریشانی بھول کر اپنی ڈیوٹی اپنے فرض اور اپنی دوستی کو نبھانے میں سرگرم ہوچکی تھی.

ارحم اُسے بتا چکا تھا کہ ریحاب کو بلیک میل کرنے والے کوئی عام لوگ نہیں تھے. بلکہ ایک بہت بڑا اور خطرناک گینگ تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارحم اور ارتضٰی اِس وقت ایک بہت ہی اہم مشن پر تھے. ذی ایس کے نے باہر سے اپنے کچھ بہت اہم دوستوں کو بلوایا تھا. جن کی آج کی خفیہ میٹنگ میں اُن کے نئے عزائم بے نقاب ہونے تھے.

ارتضٰی کا پورا ارادہ تھا کہ اُن سے معلومات ملنے کے بعد وہ اُنہیں موقع ملتے ہی گرفتار کر لیں گے. وہ دونوں پچھلے آٹھ گھنٹوں سے یہاں موجود تھے.

وہ بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے اور اب میٹنگ کے دوران اپنے خفیہ کیمروں اور ریکارڈز سے بہت ساری معلومات حاصل کر چکے تھے.

ارحم ارتضٰی کے قریب بلکل مختلف حلیے میں کھڑا تھا. اُن دونوں کو پہچاننا اور شناخت کر پانا کسی کے لیے ممکن نہیں تھا.

ابھی وہ خاموشی سے کھڑے تھے جب ارحم کا فون بجا تھا. ہلکی سی وائبریشن پر ارتضٰی نے اُسے ایک گھوری سے نوازا تھا.

ارحم نے بھی اِس وقت کال اٹینڈ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا. مگر یکے بعد دیگر بار بار فون آنے پر ارحم کے ساتھ ساتھ ارتضٰی کو بھی حیرت ہوئی تھی. ارتضٰی کے کہنے پر ارحم نے یس کا بٹن پریس کیا تھا. جب اُس کے کانوں میں لگے ہینڈ سیٹ میں ماہ روش کی پریشان آواز گونجی تھی.

" ماہ روش کیا ہوا سب خیریت ہے. "

ماہ روش کے نام پر ارتضٰی بھی ارحم کی طرف متوجہ ہوا. ارحم کی آواز اتنی آہستہ تھی. کہ ماہ روش اور ارتضٰی ہی بمشکل سن پارہے تھے. وہاں وہ لوگ اُونچا بول کر کسی کو مشکوک نہیں کرسکتے تھے.

مگر ماہ روش کی سنائی جانے والی خبر پر ارحم کے بدلتے رنگ پر ارتضٰی بھی حیران ہوا.

ریحاب اُن درندوں کے قبضے میں تھی یہ بات ہی اُس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھی. ریحاب تو اُس کے گھر میں فل سیکیورٹی میں تھی. اور انیس بھی سیف تھا تو ریحاب باہر کیسے نکلی تھی.

ارحم صبح سے اِس کام میں اُلجھا ہوا ریحاب کی طرف سے مطمئن تھا. مگر وہ نہیں جانتا تھا. اتنا بھیانک سرپرائز اُس کا منتظر ہوگا.

" ارحم تم فکر مت کرو. میں جانتی ہوں تم اِس وقت جہاں ہو. وہاں سے کام ادھورا چھوڑ کر نکلنا بہت مشکل ہے تمہارے لئے. مگر تم پریشان مت ہو میں وعدہ کرتی ہوں تم سے ریحاب کو کچھ نہیں ہونے دوں گی. "

ارحم ابھی اُسے منع کرنے ہی والا تھا جب ماہ روش نے جلدی جلدی اُسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بغیر اپنی بات ختم کی جب کال کٹ گئی تھی. کیونکہ ماہ روش کے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہوجانے کی وجہ سے فون بند ہوچکا تھا. ارحم کے بار بار ٹرائے کرنے پر فون بند ہی مل رہا تھا.

ارحم سمجھ چکا تھا ریحاب کو اُن لوگوں نے ٹریپ کیا ہے. ورنہ اُس کے گھر کے اندر تک جانا اُن لوگوں لیے ممکن نہیں تھا. ریحاب کی جان تو اب خطرے میں تھی ہی مگر اب جس طرح ماہ روش کو وہاں بلایا جا رہا تھا. یہ سب ماہ روش کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا تھا.

ارحم نے جیسے ہی ساری بات ارتضٰی کو بتائی. ریحاب کی بے وقوفی اور ماہ روش کے جذباتی پن پر غصے سے اُس کا دماغ گھوم گیا تھا.

ماہ روش کا خود کو خطرے کی طرف لے جانے پر ارتضٰی کا دل کسی انہونی کے خیال سے بے چین ہوا تھا.

" ارحم وہ بہت خطرناک لوگ ہیں. ماہ روش کو بلانا ضرور اُن کی کوئی سازش ہے. میں جانتا ہوں ماہ روش بہت ذہین اور بہادر ہے مگر وہ اِس وقت ریحاب کا اُن لوگوں کے ہاتھ میں کٹپتلی بنائے جانے کے بارے میں نہیں جانتی. اِس لیے ماہ روش کا اکیلا وہاں جانا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے. تم فوراً نکلو اُس کے پیچھے. میں یہاں سب سنبھال لوں گا."

ارحم نے پہلی بار ارتضٰی کے منہ سے ماہ روش کے لیے تعریف سنی تھی. اور اُس کے لیے اتنا فکرمند دیکھا تھا. اگر ماہ روش ارتضٰی کو اپنے لیے اِس طرح پریشان ہوتے دیکھ لیتی تو ضرور اپنے حواس کھو دینے تھے.

" مگر سر آپ اتنے سارے لوگوں کا یہاں اکیلے مقابلہ کیسے کریں گے. یہاں پر بھی تو خطرہ ہے. "

ارحم دونوں طرف سے پریشان ہوا تھا. ایک طرف فرض تھا.تو دوسری طرف محبت اور بہنوں جیسی دوست تھی.

مگر ارتضٰی کو اِس وقت ماہ روش کی فکر ہورہی تھی. جس کی جان کو ریحاب سے بھی زیادہ خطرہ تھا.

اُس نے سختی سے ارحم کو وہاں سے جانے کا آرڈر دیا تھا. اُس کا اپنا دل چاہ رہا تھا کہ کسی بھی طرح اُڑ کر ماہ روش تک پہنچ جائے مگر اِس وقت اپنی ڈیوٹی اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر وہ بے بس تھا.

اُس نے ارحم کو اپڈیٹ کرتے رہنے کی ہدایت کرتے وہاں سے بھیج دیا تھا. بار بار ماہ روش کا آنسوؤں سے بھیگا چہرا اُس کی آنکھوں کے سامنے آکر اُسے ڈسٹرب کررہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش نے ریحاب کی بتائی گئی لوکیشن سے کافی فاصلے پر گاڑی روک دی تھی. وہاں ہر طرف درخت تھے اور آگے کی طرف گھنا جنگل تھا.

ٹریننگ میں اُنہیں سب سے پہلے یہی بات سیکھائی گئی تھی کہ کسی پر بھی آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کیا جائے. اِس لیے وہ ریحاب کی بات پر پوری طرح سے یقین نہیں کرپائی تھی.

ریحاب کا بات کرنے کا انداز اور لوکیشن بتانا ماہ روش کو کسی حد تک شک میں مبتلا کر گیا تھا. اُسے اتنا تو یقین تھا کہ ریحاب اُس کے ساتھ دھوکہ نہیں کرسکتی. مگر اُن لوگوں کے ڈر سے وہ اُن کی باتوں میں آکر کچھ غلط بیانی کر بھی سکتی تھی. اِس لیے ماہ روش نے آگے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا.

ماہ روش بتائی گئی ڈائریکشن میں سیدھ میں چلتی جارہی تھی. جب کافی آگے آکر اُسے ہر طرف لوہے کی باڑ لگی نظر آرہی تھی. جو درختوں کے ساتھ باندھ کر آگے جانے کا رستہ بند کیے ہوئے تھی.

دائیں سائیڈ پر تھوڑا سا آگے جانے پر ماہ روش کو ایک جگہ سے باڑ ہٹی ہوئی دکھائی دی تھی. جہاں سے شاید آگے جانے کا راستہ بنایا گیا تھا. ماہ روش نے قدم آگے بڑھایا ہی تھا. جب ایک خیال کے آتے محتاط ہوتے اُس نے پاؤں پیچھے کر لیا تھا.

اندھیرا کافی حد تک پھیل چکا تھا. مگر ابھی بھی ہلکی ہلکی روشنی موجود تھی. ماہ روش نے گہری نگاہوں سے اردگرد کا جائزہ لیا تھا. جب اچانک ایک درخت پر لگے کیمرے پر ماہ روش کی نظر پڑی تھی.

اُس کا شک ٹھیک نکلا تھا. اِس جگہ کو مانیٹر کیا جارہا تھا. کیونکہ اِن لوہے کی باڑز کو پار کرنا بہت مشکل تھا تو اندر داخل ہونے کے لیے یہ ہی راستہ استعمال کیا جانا تھا. جس پر اُنہوں نے کیمرہ لگا رکھا تھا. تاکہ جو بھی اندر داخل ہو. آسانی سے اُن لوگوں کی نظر میں آسکے.

ماہ روش وہاں سے پیچھے کی طرف ہٹتے تیزی سے دوسری جانب بڑھی تھی. ہر طرف باڑ لگی ہوئی تھیں. نا اُوپر سے پھلانگ کر جایا جاسکتا تھا اور نہ ہی نیچے سے. ماہ روش نے اپنا دماغ استعمال کرتے زمین کے تھوڑا سے ہی اُوپر لگی باڑ کے نیچے موجود مٹی کو دونوں ہاتھوں سے ہٹانا شروع کردیا تھا.

کافی دیر کی محنت کے بعد مٹی ہٹا کر گڑھا کافی گہرا کھود دیا تھا. جس کے اُوپر سے رینگتے وہ بآسانی اندر کی طرف کھسک گئی.

وہاں سے تیز قدموں سے اندر کی طرف کافی دور آکر اُسے ایک بوسیدہ مگر کافی بڑی عمارت نظر آئی تھی. جسے دیکھ ماہ روش اندازہ لگا سکتی تھی کہ ریحاب یہی موجود ہے.

ماہ روش درختوں کے اُوٹ میں ہوتے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی. جب اُسے اندر سے ہاتھ میں بندوق تھامے ایک شخص باہر کی طرف آتے اور اردگرد کا جائزہ لیتے نظر آیا تھا.

ماہ روش اُس کے قریب موجود درخت کی اُوٹ میں کوئی تھی. وہ جیسے ہی پلٹا ماہ روش نے پیچھے سے اُس پر جھپٹتے اُس کی گردن کو پکڑا تھا. اور اپنے بازو پر باندھی رسی کو اُس کی گردن پر لپیٹتے اُس کا گلا گھونٹ دیا تھا. کچھ دیر تڑپنے کے بعد ہوش سے بے گانہ ہوتے وہ شخص ایک طرف لڑھک گیا تھا.

ماہ روش کچھ دیر وہاں سائیڈ پر چھپی رہی تھی. جب کافی دیر بعد کوئی شخص باہر نہ آیا تو ماہ روش نے پہلے والے شخص کی زمین پر گری چادر کو اُٹھا کر اپنے گرد لپیٹا اور ﷲ کا نام لیتے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے تھے.

اندر ہر طرف بلکل اندھیرا تھا. ماہ روش کو آگے بڑھنے میں بہت دشواری پیش آرہی تھی. ایک دفعہ اُس کا سر دیوار سے بُری طرح ٹکرایا تھا. درد کے ساتھ ساتھ ماہ روش کو پیشانی پر ہلکی سی نمی کا احساس ہوا تھا. مگر اِس وقت اُس کا فوکس صرف ریحاب کو ڈھونڈنا تھا.

ماہ روش کو دو کمروں سے بولنے اور قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں. جن کو سنتے وہ جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی تھی.

اُوپر تقریباً سارے کمرے ہی کھلے تھے سوائے ایک کے جسے باہر سے لاک کیا گیا تھا. ماہ روش جلدی سے کوریڈور میں بنی کھڑکی سے باہر کی طرف کود گئی تھی. اور باہر لگے پائپس کی مدد سے ہال کی دیوار کے قریب پہنچتے اُس کی کھڑکی پر ہلکا سا دباؤ ڈالا تھا.

جس سے وہ فوراً کھلتی چلی گئی تھی. اور ایک ہی جمپ میں ماہ روش اگلے ہی لمحے ہال کے اندر تھی.

وہ ہال کافی بڑا تھا. جہاں بہت سارے لکڑی کے ڈبے رکھے گئے تھے.

ماہ روش جیسے ہی آگے بڑھی اُسے کسی کی ہچکیوں کی آواز سنائی دی تھی. آواز کا تعاقب کرتے وہ جیسے ہی اُس طرف آئی ایک طرف کونے میں ریحاب کو سکڑ سمٹ کر بیٹھے دیکھ ماہ روش نے ایک گہرا پرسکون سانس ہوا میں خارج کیا تھا. ریحاب کو سہی سلامت دیکھ وہ بہت خوش ہوئی تھی.

" ریحاب تم ٹھیک ہو. "

ماہ روش کی پکار پر ریحاب نے جیسے ہی سر اُٹھایا سامنے کھڑی ماہ روش کو دیکھ وہ ساکت ہوئی تھی. اُسے یقین نہیں آرہا تھا. ماہ روش اُس کے سامنے کھڑی ہے. وہ بھاگ کر ماہ روش کے گلے لگی تھی.

" ریحاب فکر مت کرو. میں اب تمہارے ساتھ ہوں کچھ نہیں ہونے دوں گی تمہیں. چلو میرے ساتھ. "

ماہ روش نے اُس کے آنسو صاف کرتے ہاتھ تھام کر ساتھ چلنے کو کہا.

ماہ روش نے ایک قدم چل کر ریحاب کی طرف دیکھا تھا. جو اُسی طرح اپنی جگہ پر کھڑی تھی.

" میں آپ کے ساتھ نہیں آسکتی. "

ریحاب کا لہجہ اچانک تبدیل ہوا تھا. ماہ روش نے ناسمجھی سے اُس کی طرف دیکھا.

جب اُسی لمحے ہال کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی. ماہ روش نے ریحاب کا ہاتھ کھینچتے اپنے ساتھ چلنے کو کہاں تھا کیونکہ وہ لوگ کسی بھی وقت اندر داخل ہوکر اُن تک پہنچ سکتے تھے. مگر ریحاب اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں تھی. بس خاموش نظروں سے ماہ روش کی طرف دیکھ رہی تھی.

" ریحاب کیا کررہی ہو. پاگل ہوگئی ہو کیا چلو یہاں سے. "

ماہ روش کو اب ریحاب پر غصہ آرہا تھا.

" ماہ روش چھوڑو میرا ہاتھ. "

ماہ روش نے جیسے ہی ریحاب کو اپنے ساتھ کھینچا. ریحاب زور سے چلائی تھی. اور اُسی لمحے غفور دلاور اپنے باقی آدمیوں کے ساتھ وہاں داخل ہوا تھا.

" واؤ واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز کیپٹن ماہ روش. آپ تو ہماری سوچ سے بھی زیادہ بہادر نکلیں. "

غفور کی بات پر ماہ روش نے بے یقین نظروں سے ریحاب کی طرف دیکھا تھا. جو اِس وقت خود کو ماہ روش سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں سمجھ رہی تھی.

" کیا ہوا. اِس طرح کیا دیکھ رہی ہیں. اب ہر ایک کو اپنی جان بچانے کا حق حاصل ہے. آپ کے دوست کی وائف نے بھی یہی کیا."

غفور نے بے ہنگم قہقہ لگایا تھا.

" سر یہ مال تو پہلے والے مال سے بھی زیادہ حسین ہے. "

ماہ روش کے بے پناہ حُسن کو دیکھ دلاور کی لال ٹپک رہی تھی. اُس کی بات پر غفور نے بھی گھٹیا نگاہوں سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

جو اِس وقت سچویشن سمجھنے کی کوشش کررہی تھی. ریحاب اُنہیں اُس کے بارے میں ساری انفارمیشن دے چکی تھی اور اُن کی بلیک میلنگ میں آ کر اُسے دھوکے سے یہاں بلایا تھا.

" بکواس بند کرو اپنی تم گھٹیا انسان. اور تم جیسے پالتو کتوں میں اتنی ہمت نہیں کے میرے قریب بھی آسکو. "

کس ٹائم سے اُن کی گھٹیا باتیں اور نظریں برداشت کرتی ماہ روش کا دماغ گھوما تھا.

" ہاہاہاہا کانفیڈنس اچھا ہوتا ہے. مگر آپ پر تو آور کانفیڈنس بھی بہت جچتا ہے کیپٹن صاحبہ. ویسے ایک نظر ہماری تعداد تو دیکھ لیں. آٹھ لوگوں سے آپ جیسی ایک نازک لڑکی کیسے مقابلہ کرے گی. "

غفور استہزایہ لہجے میں بولتا اُس کی طرف آیا تھا.

ماہ روش نے ایک نظر اُس کی طرف دیکھ کر پیچھے کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا تھا.

اور ایک مسکراتی نظر اُن سب پر ڈالتے اپنی پاکٹ سے پپر سپرے نکال کر سیدھا اُن کی آنکھوں میں چھڑکا اور حیران پریشان کھڑی ریحاب کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہال کی دوسری سمت بھاگی تھی. پیچھے سے ایک دو فائر ہوئے تھے. مگر ماہ روش ریحاب کو نیچے جھکنے کا کہتی وہاں رکھے بڑے بڑے ڈبوں کے پیچھے جا چھپی تھی.

" یہ تم ٹھیک نہیں کررہی. خود ہی باہر آجاؤ ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی. "

غفور اپنی آنکھیں مسلتے غصے سے دھاڑا تھا.

ریحاب اِس سچویشن سے بُری طرح گھبرا گئی تھی.

وہ لوگ دس منٹ تک اُن دونوں کو ڈھونڈتے رہے تھے. مگر ماہ روش ریحاب کی سیفٹی کی خاطر اُسے لیے ایک طرف چھپی رہی تھی.

جب اچانک ہال میں انیس کے چلانے کی آواز گونجی تھی. ریحاب نے جلدی سے اُٹھنا چاہا تھا. مگر ماہ روش نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر نفی میں سر ہلاتے اُسے روکا تھا.

" ریحاب اگر اپنے بھائی کی زندگی چاہتی ہو تو فوراً باہر آجاؤ. "

ریحاب نے التجائی انداز میں ماہ روش کی طرف دیکھا تھا. جو اُسے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں. انیس اِن کے پاس نہیں ہے.

مگر ریحاب کو انیس کی آواز اپنے کانوں میں گونجتے سن کر ماہ روش کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا.

ریحاب نے جیسے ہی ماہ روش کا دھیان دوسری ہوتے دیکھا. اُس کو دھکا دے کر اُس کے بازو کو دور جھٹکتے ریحاب نے ماہ روش کے ہاتھ سے گن چھین لی تھی.

اور جلدی سے کھڑے ہوکر ماہ روش پر ہی گن تان لی تھی.

ماہ روش سکتے کے عالم میں ریحاب کی طرف دیکھ رہی تھی. جو بھیگی آنکھوں سے انتہائی بے بسی کی حالت میں اُس پر گن تانے ہوئی تھی. ماہ روش اُس کی کنڈیشن سمجھ سکتی تھی. انیس ریحاب کا اکلوتا پیارا رشتہ تھا. جو اُس کے لیے سب کچھ تھا. وہ کیسے اُس کی چیخوں کی پکار پر آرام سے بیٹھ سکتی تھی.

اور یہی لمحہ تھا جب ارحم اور زیمل نے ہال میں قدم رکھا تھا. اور ریحاب کو ماہ روش پر گن تانے دیکھ وہ دونوں بے یقینی سے اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے.

دلاور اور غفور اپنا تیر نشانے پر لگتے دیکھ ہنستے ہوئے ارحم اور زیمل کی آمد سے انجان اُن دونوں کی طرف بڑھے تھے. جب پیچھے سے زیمل اور ارحم نے اُن پر فائر کھول دیے تھے.

زیمل کو جیسے ہی ماہ روش اور ریحاب کا پتہ چلا تھا. وہ بھی ارحم کے ساتھ وہاں آگئی تھی. وہ ماہ روش کی ذہنی حالت سے واقف تھی. اِس لیے اُس کے لیے بہت زیادہ پریشان تھی.

اچانک حملہ ہوجانے کی وجہ سے وہ سب بوکھلا گئے تھے. اور جوابی فائرنگ شروع کر دی تھی. ماہ روش نے بھی ریحاب کو سائیڈ پر کرتے اُس کے ہاتھ سے گن کھینچتے اُن پر فائرنگ شروع کر دی تھی.

وہ لوگ اردگرد پڑی چیزوں کے پیچھے چھپ رہے تھے. اُن کے تین آدمی ہلاک ہوچکے تھے. جبکہ ارحم کا ارادہ غفور اور دلاور کو زندہ گرفتار کرنے کا تھا.

ماہ روش مسلسل فائر کررہی تھی. جب اچانک اُس کی نظر غفور پر پڑی تھی. جو ریحاب کے قریب پہنچ چکا تھا. اور اُس پر گولی چلانے والا تھا.

ماہ روش نے اُس کے بازو پر فائر کرنا چاہا تھا مگر

ماہ روش کی گن میں گولیاں ختم ہوچکی تھیں. لیکن ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر ماہ روش نے جلدی سے بھاگ کر آگے آتے ریحاب کو پیچھے کی طرف دھکیلا تھا.

جب سامنے والے کی بندوق سے نکلنے والی چاروں کی چاروں گولیاں ماہ روش کے وجود میں پیوست ہوئی تھیں.

اُس کو خون میں لت پت زمین پر گرتے دیکھ زیمل اُس شخص کو گولیوں سے چھلنی کرتی چلا کر ماہ روش کو پُکارتی اُس کی طرف بھاگی تھی.

دشمنوں سے مقابلہ کرتے ارحم نے نم آنکھوں سے ماہ روش کو گرتے دیکھا تھا. ماہ روش نے واقعی اُس سے کیا وعدہ پورا کردیا تھا. لیکن وہ ماہ روش کو بھی تو کسی صورت کھونا نہیں چاہتا تھا.

ہال کی طرف بھاگتے قدموں سے بڑھتے میجر ارتضٰی کو نجانے کیوں اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھیں. ایک لمحے کی بھی دیر کیے بغیر اُس نے اندر قدم رکھا تھا. لیکن سامنے کا منظر دیکھتے ہوش سنبھالے زندگی میں پہلی بار اُس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا.

زیمل کی گود میں سر رکھے ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ ماہ روش نے ہال کے دروازے پر ہی کھڑے ارتضٰی کی طرف تکلیف کے باوجود مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا. اُس کی آنکھوں کے اندر کی اُداسی اور اذیت جیسے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی تھی کہ میجر ارتضٰی سکندر آج میں نے ثابت کر دیا میں غدار نہیں ہوں. آج تو یقین کرو گے نا میرا.

"ماہ روش آنکھیں کھولو پلیز."

ماہ روش کو آنکھیں موندتے دیکھ زیمل روتے ہوئے بولی. لیکن ہمیشہ اُس کی ہر بات ماننے والی اُس کی جان سے عزیز دوست شاید اس دفعہ اُس سے بے وفائی کر گئی تھی.

ارتضٰی نفی میں سر ہلاتے دیوانوں کی طرح ماہ روش کی طرف بڑھا تھا. لیکن یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی ماہ روش غافل ہوچکی تھی.

" ماہ روش .."

ارتضٰی ماہ روش کے بے جان وجود کو اپنے بازو میں لیتے چلایا تھا. اُس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے. اردگرد کی پرواہ کیے بغیر وہ ماہ روش کو پکارتا پاگل ہو اُٹھا تھا.

زیمل بھی روتے ہوئے ارتضٰی کی حالت دیکھ رہی تھی.

ارتضٰی نے ماہ روش کی نبض چیک کی. جو ابھی بھی ہلکی ہلکی چل رہی تھی. ارتضٰی کے مردہ ہوتے دل کو لگا تھا جیسے وہ دوبارہ جی اُٹھا ہو. وہ ایک سیکنڈ کی دیر کیے بغیر ماہ روش کے وجود کو احتیاط سے بانہوں میں سمیٹتے باہر کی طرف بھاگا تھا.

زیمل جلدی سے ارحم کی طرف بڑھی تھی. جو باقی لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد غفور اور دلاور کو اپنے قبضے میں کر چکا تھا. آرمی کے اہلکار بھی وہاں پہنچ چکے تھے. اور اُن کو گرفتار کرکے وہاں سے لے جانے لگے تھے.

جب اُدھر سے فارغ ہوتے ارحم نے ایک نظر ریحاب پر ڈالی تھی. جو ماہ روش کی حالت پر پتھرائی آنکھوں سے اُس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں ماہ روش کا خون زمین پر پھیلا ہوا تھا.

" تمہارے ہر جھوٹ اور فریب کو جانتے ہوئے بھی سر آنکھوں پر بیٹھایا تھا میں نے تمہیں. مگر تم.... تم نے کیا کیا. کوئی اتنا خود غرض کیسے ہوسکتا ہے."

ارحم غصے سے ریحاب کی طرف بڑھا تھا جب زیمل نے اُس کا بازو پکڑ کر اُسے کوئی بھی جذباتی عمل کرنے سے روکا تھا.

ارحم کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت اور غصے کی چنگاریاں دیکھ ریحاب کو لگا تھا اُس نے سب کچھ کھو دیا ہے.

ارحم غصے سے مٹھیاں بھینچتے مزید ایک نظر بھی ریحاب پر ڈالے بغیر وہاں سے نکل گیا تھا.

زیمل نے ارحم کو باہر کی طرف جاتے دیکھ ایک نظر ریحاب پر ڈالی تھی. جو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی. زیمل کی آنکھوں کے سامنے باربار وہ منظر گھوم رہا تھا جب ریحاب نے ماہ روش کے اُوپر بندوق تانی تھی. مگر اِس وقت وہ ماہ روش کی دوست نہیں بلکہ ایک آرمی آفیسر تھی.ریحاب کو بحفاظت یہاں سے نکالنا اُس کی ڈیوٹی تھی. اور ماہ روش نے بھی تو ریحاب کے دھوکے کے باوجود خود پر گولیاں کھا کر اُسے محفوظ رکھا تھا.

زیمل نے ریحاب کا ہاتھ تھام کر کھڑا کیا تھا. اور اپنے ساتھ لیے آگے بڑھی تھی.

ریحاب اِس وقت خود سے بھی نظریں ملانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی. اُس نے ماہ روش کے ساتھ کیا کیا تھا. مگر ماہ روش پھر بھی اُس پر ایک خراش بھی نہیں آنے دی تھی.

ریحاب کا دل ماہ روش کی خیریت کے لیے دعا گو تھا. اگر ماہ روش کو کچھ ہوجاتا تو شاید پھر اتنے گلٹ کے ساتھ وہ بھی زندہ نہ رہ پاتی.

زیمل کا ارادہ تھا کہ ریحاب کو گھر ڈراپ کرکے. خود جلد سے جلد ہاسپٹل پہنچے مگر ریحاب کی ہاسپٹل جانے کی التجا پر مجبوراً گاڑی اُس طرف ہی موڑ دی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی کی نظریں آئی سی یو کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں. اُس کے کپڑے پوری طرح ماہ روش کے خون سے لال ہوچکے تھے. مگر اُسے کسی بھی بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی. اِس وقت اُس کے لیے اپنی سانسوں سے بھی زیادہ ماہ روش کی سانسیں ضروری تھیں.

ڈاکٹرز کے ماہ روش کی کنڈیشن پر مایوسی کا اظہار کرنے پر ارتضٰی اُن پر اچھا خاصہ بھڑک چکا تھا. کیونکہ ماہ روش کے حوالے سے کوئی بھی غلط نیوز سننے کی ارتضٰی میں اِس وقت ہمت بلکل نہیں تھی.

اُسے اب احساس ہورہا تھا ماہ روش اُس کے لیے کتنی ضروری ہے. جسے ہر وقت وہ ٹھکراتا اور بے عزت کرتا آیا تھا. اور اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتا آیا تھا. جسے اُس نے زندگی میں سب سے غیر اہم انسان کہا تھا.

وہ تو اُس کی سانسوں میں بستی تھی. اُس کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھی. اُس کی بے سکونی نہیں بلکہ اُس کے سکون کی وجہ تھی.

ماہ روش کا زخمی وجود بار بار نظروں کے سامنے آکر ارتضٰی کی تڑپ میں مزید اضافہ کررہا تھا. اُس کی تکلیف کا احساس ارتضٰی کی جان نکال رہا تھا.

ارتضٰی کو ماہ روش کو کہا ایک ایک لفظ رُلا رہا تھا.

اُس نے ماہ روش کو غدار اور نجانے کیا کچھ کہا تھا. اور آج ماہ روش نے اُسے ثابت کردیا تھا کہ وہ جیسے ظاہر سے تھی ویسا ہی اُس کا باطن تھا.

وہ آج ارتضٰی کو بہت بڑی ہار سے دوچار کر گئی تھی.

جاذل , ارحم, زیمل اور ریحاب بھی وہاں پہنچ چکے تھے. جاذل نے ارتضٰی کے پاس آتے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا.

" ارتضٰی حوصلہ رکھو. اُوپر والا سب بہتر کرے گا. "

ارتضٰی نے جاذل کی آواز پر سرخ انگارہ آنکھیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. جب اُسی وقت آئی سی یو کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر نکلا تھا.

" ڈاکٹر صاحب ماہ روش کی حالت کیسی ہے. وہ ٹھیک ہوجائے گی نا. ہوش میں کب آئے گی. "

ارتضٰی کی حالت اِس وقت ایک لُٹے پُٹے شخص جیسی ہورہی تھی جس کا سب کچھ چھن چکا ہو اور اب اُس کے پاس جیسے جینے کو کچھ بچا ہی نہ ہو.

" اُن کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا. بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے. ہم پوری کوشش کررہے ہیں. ہمارے سینئرز ڈاکٹرز کی ٹیم بھی آچکی ہے. ابھی تھوڑی دیر میں آپریشن ہے اُس کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے."

ڈاکٹر بات کرکے جلدی سے آگے کی طرف بڑھ گیا تھا.

ارتضٰی اِس وقت بے بسی اور اذیت کی انتہاؤں پر تھا. اُسے آج ماہ روش کی تڑپ کا شدت سے احساس ہورہا تھا. وہ بھی تو اُس کے لیے ایسے ہی تڑپ رہی تھی. مگر ارتضٰی نے اُس کی حالت پر رحم نہیں کیا تھا تو آج وہ کیوں کرتی.

ارتضٰی جیسے ہی پلٹا اُس کی نظر زیمل کے ساتھ کھڑی ریحاب پر پڑی تھی. جو ماہ روش کی اِس حالت کی ذمہ دار تھی.

ارتضٰی طیش کے عالم میں ریحاب کی طرف بڑھا تھا.

" تم تمہارا کیا بگاڑا تھا اُس نے. کیوں کیا اُس کے ساتھ ایسا. تم ہم میں سے کسی اور کو بھی بلا سکتی تھی. اور جب وہ تمہاری مدد کرنے پہنچی تو تم نے اُسی کو دھوکہ دے دیا.

یاد رکھنا اگر میری ماہ روش کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا. "

ارتضٰی نے زور سے ریحاب کی نازک گردن کو اپنے آہنی ہاتھ کے شکنجے میں لیا تھا. ریحاب کو تو پہلے ہی اُس سے بہت ڈر لگتا تھا. اب بھی اُس کی سخت گرفت سے ریحاب کو اپنی سانس رُکتی محسوس ہورہی تھی. وہ بُری طرح کھانس رہی تھی. مگر اُس نے ارتضٰی کو روکنے کی یا اُس کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کی تھی. وہ خود کو اِسی سلوک کے قابل سمجھ رہی تھی.

جاذل نے جلدی سے آگے آتے ارتضٰی کو اُس سے دور کیا تھا. ورنہ وہ آج ریحاب کا گلا گھونٹ ہی دیتا.

ارحم اِس وقت خود اتنا شرمندہ تھا کہ وہ پہلے ہی وہاں سے باہر جا چکا تھا.

ارتضٰی کا دل چاہ رہا تھا اِس وقت پوری دنیا کو آگ لگا دے. سب کچھ تہس نہس کر دے اُسے کسی بھی حالت میں ماہ روش چاہئے تھی. اپنا سکون واپس چاہئے تھا.

" ارتضٰی. "

زینب کی روتی آواز پر ارتضٰی جھٹکے سے پلٹا تھا. مگر وہاں جنرل یوسف کے ساتھ اپنے گھر والوں کو کھڑا دیکھ حیران ہوا.

" پھوپھو کیا ہوا آپ کو. آپ رو کیوں رہی ہیں. ماما کیا ہوا ہے. "

ارتضٰی پہلے ہی اتنا پریشان تھا. اُن سب کو اِس طرح روتا اور پریشان دیکھ اُس کے حواس جھنجھنا گئے تھے.

جب جنرل یوسف کے اشارے پر زینب بیگم ارتضٰی کا ہاتھ پکڑ کر سائیڈ پر موجود ایک روم کی طرف بڑھ گئی تھیں.

" ارتضٰی آئی سی یو میں موجود زندگی اور موت کی جنگ لڑتی لڑکی کوئی اور نہیں. میری بیٹی ہے ارتضٰی وہ میری ماہ روش ہے. ماہ روش مری نہیں تھی وہ زندہ تھی. اور میں نے پوری زندگی اِسی غم میں. اُس خبر پر یقین کرتے اُس سے دور رہ کر گزار دی."

زینب بیگم ارتضٰی کے سر پر بم پھوڑتی اُس کے سینے سے لگ کر بُری طرح رونے لگ گئی تھیں. اور جنرل یوسف کی بتائی ساری سچائی اُس کو بتاتی چکی گئی تھیں.

جبکہ ارتضٰی اُن کی بات پر بلکل ساکت اور بے جان ہوچکا تھا. اُسے کسی بات کا ہوش نہیں رہا تھا. نہ سینے سے لگی زینب کو تھاما تھا. نہ باقی گھر والوں کی اذیت پر کچھ بول سکا تھا.

اُس کی تو آنکھوں میں وہ ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح گھوم رہا تھا. جس میں اُس نے ماہ روش کو بے عزت کیا تھا. اُسے غدار کی بیٹی کہہ کر دھتکارا تھا. اُس کو ٹارچر کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا. کتنی اذیت دی تھی اُس معصوم کو جس کا کسی معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا.

اور جس نے زندگی میں سب سے زیادہ تکلیف اور محرومی برداشت کی تھی.

ارتضٰی کا دل کررہا تھا. خود کو شوٹ کرلے. یا اپنے آپ کو اِس سے بھی زیادہ درد ناک سزا دے. مگر سزا تو واقعی اُسے بہت ہی درد ناک مل رہی تھی. ماہ روش کی تکلیف پر اُس کو اپنا دل چیرتا محسوس ہورہا تھا.

" ارتضٰی میری بچی زندہ تھی. میری نظروں کے سامنے تھی اور میں اُسے پہچان بھی نہ پائی. کتنی بد نصیب ماں ہوں میں. میری بیٹی ملی بھی مجھے تو کس حال میں. "

ارتضٰی نے دکھ سے اُن کی طرف دیکھا تھا. وہ اِس وقت اُن کی تکلیف پر کچھ نہیں کرسکتا تھا. کیونکہ وہ خود اِس وقت اذیت کی حدوں کو چھو رہا تھا.

" آپ نے اور بابا نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا. میں نے کہا تھا نا آپ سے ماہ روش کے بارے میں انویسٹی گیشن کرنے دیں. اُس گھٹیا شخص نے کیا پتا ماہ روش کو زندہ رکھا ہو نہ مارا ہو. مگر آپ دونوں نے مجھے جھوٹے ثبوت دیکھا کر روک دیا.

بہت بڑی غلطی کی میں نے آپ لوگوں پر بھروسہ کرکے. ماہ روش کو کتنی اذیت دی میں نے. اور آپ خاموش تماشائی بنے رہے. "

ارتضٰی نے جنرل یوسف کو غصے اور شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا.

جنرل یوسف نے شرمندہ ہوتے نظریں چرا لی تھیں. مگر سکندر کے وعدے اور مصلحت کے تحت وہ یہ سچائی نہیں بتا سکتے تھے.

لیکن آج ماہ روش کے بارے میں خبر ملتے ہی اُنہیں اب یہ سب چھپانا ٹھیک نہیں لگا تھا. وہ جانتے تھے کہ ماہ روش کی حالت کتنی کریٹیکل ہے. اِس لیے نور پیلس جاکر اُنہوں نے ساری سچائی بتا دی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اندر ماہ روش کا آپریشن جاری تھا. سب لوگ باہر ہی موجود تھے. وہاں موجود ہر ایک کا دل اور زبان ماہ روش کی سلامتی کے لیے دعا گو تھا.

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ارتضٰی کو اپنی دھڑکنے مدھم ہوتی محسوس ہورہی تھیں. اِس وقت ارتضٰی کی حالت دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا. کہ یہ وہی کھڑوس اور اکڑو میجر ارتضٰی سکندر ہے.

وہ تو اِس وقت ماہ روش کے عشق میں پاگل کوئی دیوانہ لگ رہا تھا.

ارتضٰی کو ماہ روش کے ساتھ روا رکھا جانے والا اپنا رویہ اور اُس کی ایمانداری اور محبت کو ٹھکرانے کا پچھتاوا اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا.

زیمل کا دل اپنی دوست کی تکلیف پر خون کے آنسو رو رہا تھا.

جن لوگوں کے لیے کچھ دیر پہلے ماہ روش بے چین تھی. وہ سب اِس وقت دل و جان سے ماہ روش پر قربان ہونے کو تیار تھے.

اور جس شخص کی محبت پانے کے لیے وہ تڑپ رہی تھی. وہ تو اپنا آپ فراموش کیے صرف اُس کا منتظر تھا. اُس کو ایک نظر دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا.

ریحاب اِس وقت خود کو سب کا مجرم تصور کررہی تھی. اُس نے ایک نظر خود سے بہت دور کھڑے ارحم کو دیکھا. جو اُس پر ایک نگاہ غلط ڈالنے کا بھی روادار نہیں تھا.

وہ سب ابھی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے . جب آئی سی یو کا دروازہ کھلا تھا.

ارتضٰی اور باقی سب بھی فوراً ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئے تھے.

مگر ڈاکٹرز کی دی گئی خبر نے اُن سب کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی.

" آئم سوری. ہم نے بہت کوشش کی مگر پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہونے کی وجہ سے ہم اُنہیں کوما میں جانے سے نہیں بچا پائے. "

ڈاکٹر کی بات سنتے ارتضٰی نفی میں سر ہلاتے پیچھے کی طرف ہوتے لڑکھڑایا تھا. زینب اور باقی سب بھی صدمے کی حالت میں ڈاکٹر کی طرف دیکھ رہے تھے.

" ڈاکٹر صاحب ریکوری کے کتنے پرسنٹ چانسز ہیں. "

ارحم نے ایک اُمید کے زیرِ اثر پوچھا تھا.

" کچھ نہیں کہا جاسکتا. آپ لوگوں کو ہر وقت کسی بھی سچویشن کے لیے تیار رہنا ہوگا. پیشنٹ کو چند گھنٹوں, دنوں یا مہینوں میں بھی ہوش آسکتا ہے.

اور

سوری ٹو سے. پر شاید زندگی بھر وہ ایسے ہی رہیں.

لیکن یہ صرف میں اُن کی کنڈیشن کو دیکھ کر کہہ رہا ہوں. ورنہ اُوپر بیٹھا وہ رب بہت غفور و رحیم ہے. شفا دینا تو اُسی کہ ہاتھ میں ہے. آپ کی پیشنٹ کو دعاؤں کی سخت ضرورت ہے. "

ڈاکٹر اپنی بات کہتے وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ کمرے میں قدم رکھا تھا. ماہ روش بیڈ پر مشینوں کے سہارے بے سُد لیٹی تھی.

دھیرے سے چلتے ارتضٰی اُس کے بیڈ کے قریب پہنچا تھا. جن آنکھوں میں اُس نے ہمیشہ اپنے لیے چاہت اور بے پناہ محبت دیکھی تھی. اُن پر اِس وقت گھنیری پلکوں کی چادر گرائے ماہ روش آنکھیں موندے ہوئے تھی.

ابھی کل ہی تو ماہ روش نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اُس سے. اور اُس نے کیا کیا تھا. انتہائی بے دردی سے اُسے دھوکے باز اور جھوٹا کہہ دیا تھا.

ارتضٰی پورے استحقاق سے ماہ روش کے بیڈ پر اُس کے پاس جا بیٹھا تھا. اور احتیاط سے اُس کا نرم و ملائم ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے چوم لیا تھا.

" بہت بُرا ہوں میں بہت زیادہ. یہ سب کچھ میرے ساتھ ہونا چاہیئے تھا. تم کسی صورت اتنی تکلیفوں کی حق دار نہیں ہو. تم تو بہت معصوم , صاف اور سچے دل کی مالک ہو.

بہت محبت کرتا ہوں تم سے. پلیز ایک بار آنکھیں کھول دو. کبھی خود سے جدا نہیں کروں گا. ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھوں گا. کوئی دکھ کوئی درد تمہارے قریب بھی نہیں بھٹکنے دوں گا. مگر خدا کے لیے مجھے اتنی بڑی سزا مت دو. اُٹھ جاؤ میری زندگی پلیز. "

ارتضٰی نے جھک کر ماہ روش کی پیشانی چومی تھی. جب ایک آنسو ٹوٹ کر ماہ روش کے بالوں میں جذب ہوا تھا.

مگر اُس کی یہی محبت دیکھنے کی خواہش کرنے والی وہ لڑکی اِس وقت ہر چیز سے بے گانہ تھی.

ارتضٰی آج تک کبھی اتنا نہیں ٹوٹا تھا جتنا اِس وقت خود کو مجبور محسوس کررہا تھا. ہر گزرتے دن اور واقعہ کے ساتھ اُس کے اندر ذوالفقار کے لیے نفرت اور انتقام کے جذبے مزید شدت پکڑ رہے تھے. ارتضٰی کے ہاتھوں اُس کا انجام بہت بُرا ہونے والا تھا.

مگر اِس وقت ماہ روش کا سب سے بڑا مجرم تو وہ خود تھا. جو سب سے زیادہ اُس کی تکلیف کا باعث بنا تھا.

اُسے کتنا ہرٹ کیا تھا.

مگر بہت سی دکھی اور تکلیف دہ باتوں میں ایک بات جو ارتضٰی کو اندر ہی اندر سکون بخش رہی تھی کہ ماہ روش صرف اُس کی تھی. وہ اُس کے نکاح میں تھی. اِس دنیا میں سب سے زیادہ وہی حق رکھتا تھا اُس پہ.

ذوالفقار تو کیا اب دنیا کی کوئی طاقت اُسے ماہ روش سے دور نہیں کرسکتی تھی.

وہ جانتا تھا اُس کے ناروا سلوک کی وجہ سے ماہ روش اُس سے ناراض ہوگی. کیونکہ آخری ملاقات میں جس طرح ارتضٰی نے اُسے اپنے الفاظ سے چھلنی کیا تھا. وہ اُس پر خفا ہونے کا حق رکھتی تھی.

اور ارتضٰی خود بھی تو یہی چاہتا تھا وہ اُسے لڑے جھگڑے مگر اِس طرح اُس سے غافل ہوکر نہ رہے. وہ اُس کی نفرت بھی سہنے کو تیار تھا. لیکن اب اُس کو تکلیف میں اِس طرح نہیں دیکھ سکتا تھا.

ارتضٰی کتنے ہی لمحے اُس کے حسین چہرے کو بنا پلک جھپکے دیکھتا رہا تھا.

وہ مزید نجانے کتنے گھنٹے وہاں ایسے ہی بیٹھا رہتا جب موبائل کی وائبریشن پر ماہ روش کا ہاتھ احتیاط سے واپس بیڈ پر رکھتا ہلکے سے اُس کے رخسار کی نرماہٹوں کو محسوس کرتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

ارتضٰی نے ماہ روش کے لیے سیکیورٹی کا بہت سخت انتظام کروا رکھا تھا. اور اُس نے ذوالفقار کو بھی زیمل کے تھرو ماہ روش کے نمبر سے میسج بھیج دیا تھا کہ وہ کسی یونیورسٹی ایونٹ کے سلسلے میں کراچی جارہی ہے. تاکہ گھر میں اُس کی غیر موجودگی کو نوٹ کرکے ذوالفقار کو کوئی شک نہ ہو.

یہ سب اُس نے صرف جنرل یوسف کی ریکویسٹ پر کیا تھا. ورنہ اب مزید وہ ماہ روش کو ذوالفقار کے پاس بھیجنا تو دور ماہ روش پر اُس کا سایہ بھی برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب نے ہلکے سے دروازہ ناک کیا. جب اجازت ملنے پر وہ اندر داخل ہوئی تھی.

جنرل آصف اور صائمہ بیگم نے نظریں جھکائے کھڑی ریحاب کی طرف دیکھا تھا.

" ماما بابا میں جانتی ہوں. آپ لوگ بھی مجھ سے بہت ناراض ہیں. اور ہونا بھی چاہئے میں نے آپ سب کے ساتھ کیا ہی ایسا ہے.

آپ لوگوں کو دھوکہ دیا. آپ کی فیلنگز ہرٹ کی. مگر میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا میں بہت مجبور تھی. بہت ڈر گئی تھی. "

ریحاب کے آنسو قطار در قطار اُس کے گالوں پر بکھر رہے تھے. اِس وقت وہ بھی کم اذیت میں نہیں تھی.

" اگر میں اُن لوگوں کی بات نہ مانتی تو وہ میرے بھائی کو مار دیتے. بچپن سے اپنے قریب صرف یہی ایک رشتہ دیکھا ہے میں نے. میں کسی صورت کھونا نہیں چاہتی تھی اُسے. میرے سگے ماں باپ تو اپنی لائف میں سیٹ ہیں اُنہیں کوئی پرواہ نہیں ہم جیئے یا مریں. انیس ہی میرا اکلوتا رشتہ تھا. جسے کھونے کے ڈر سے مجھے سیلفش ہونا پڑا.

میں جانتی ہوں جو میں نے آپ سب کے ساتھ کیا اور خاص کر ماہ روش کے ساتھ کیا وہ کسی صورت قابلے معافی نہیں ہے. مگر پھر بھی اگر ہوسکے تو مجھے معاف کردیجئے گا. "

ریحاب کی حالت دیکھتے صائمہ بیگم کا دل پسیج گیا تھا. وہ اچھے سے اُس کی کنڈیشن سمجھ رہی تھیں. اُس کی جگہ کوئی بھی انسان ہوتا تو یہی کرتا.

اُنہوں نے ریحاب کو پکڑ کر اپنے پاس بیٹھاتے اُس کے آنسو صاف کیے تھے.

" بیٹا جیسے وقت اور حالات تھے. آپ کی جگہ اگر کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا. مگر ایک بہت بڑی غلطی کی آپ نے ارحم پر ٹرسٹ نہ کرکے.

اگر آپ ارحم کو ساری بات بتا دیتیں. گھر سے اِس طرح نہ جاتیں تو شاید یہ سب نہ ہوا ہوتا. ارحم آپ کی ساری سچائی جانتا تھا. آپ کو بس ایک بار ارحم پر بھروسہ کرکے اُسے اپنی پریشانی بتانی چاہئے تھی.

لیکن اب جو ہونا تھا ہوگیا. بس اب ﷲ سے یہی دعا ہے کہ ماہ روش جلد سے جلد صحت یاب ہوجائے بہت دکھ دیکھیں ہیں اُس بچی نے. اب اُوپر والا اُس کی ساری آزمائشیں دور کردے. "

صائمہ بیگم کی بات پر ریحاب نے حیرت سے اُنکی طرف دیکھا تھا.

آصف صاحب نے بھی اُس کے سر پر ہاتھ رکھے اُسے اپنی اِس غلطی سے سبق سیکھنے اور خوش رہنے کی دعا دی تھی. اور ضروری کام کا کہتے وہاں سے نکل گئے تھے.

کتنے اعلٰی ظرف تھے وہ اور اُس نے کتنا غلط کیا تھا اُن کے ساتھ. ریحاب کے گلٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا.

" ماما میں ارحم سے بھی آخری بار مل کر اُن سے معافی مانگنا چاہتی تھی. مگر وہ تو میری شکل دیکھنے کو تیار نہیں ہیں. اور نہ ہی کل سے گھر آئیں ہیں. "

ارحم کا ذکر کرتے ریحاب کے آنسو ایک بار پھر بہہ نکلے تھے.

جبکہ صائمہ بیگم نے تو اُس کے آخری بار کہنے پر حیرت اُس کی طرف دیکھا تھا.

" بیٹا میں سمجھی نہیں آخری بار کا کیا مطلب. "

صائمہ بیگم نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا.

" ماما ارحم شادی سے پہلے ساری سچائی جانتے تھے. اور اُنہوں نے یہ شادی بھی صرف میری مدد کرنے کے لیے کی تھی. اور میں نے بھی تو اِس لیے ہی کی تھی نا. تو اب جب سب ٹھیک ہوگیا ہے تو.

یہ بات ہی تو اُسے سب سے زیادہ پریشان کی ہوئی تھی. کہ اب اُسے ارحم سے علیحدہ ہونا پڑے گا. جس کے نام وہ اپنا سب کچھ کر بیٹھی تھی. عزت اور محبت دینے والا وہ پیارا انسان اُس کے لیے بہت اہم ہوچکا تھا. مگر اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے اُس نے اُسے خود سے بہت دور کر دیا تھا.

ریحاب کے رونے کے درمیان ادھوری چھوڑی جانے والی بات پر اُن کا دل چاہا تھا اپنا سر پیٹ لیں.

جبکہ تھوڑی دیر پہلے آکر کمرے کے دروازے پر کھڑا ارحم غصے سے واپس پلٹ گیا تھا.

" کیا واقعی یہی ریزن تھا. اِس کے علاوہ آپ کی اِس رشتے میں کوئی دلی رضامندی شامل نہیں تھی. یا اِس رشتے میں بندھ کر بھی آپ کے دل میں ارحم کے لیے کوئی جذبات پیدا نہ ہوسکے. "

صائمہ بیگم اُس کی حالت سے اچھے سے سمجھ تو گئی تھیں. مگر پھر بھی ایک بار اُس کے منہ سے سننا چاہتی تھیں.

" ماما میں بہت پیار کرنے لگی ہوں ارحم سے. ایسے لگتا ہے اگر اُن سے الگ ہوئی تو مر جاؤں گی.

میں نہیں رہ پاؤں گی اُن سے علیحدہ ہوکر مگر وہ مجھ سے بہت نفرت کرتے ہیں اب. اور مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے. "

ریحاب کے معصوم سے اظہار پر اُن کے لب مسکرائے تھے.

یہ پاگل سی لڑکی چند دنوں میں ہی اُنہیں بہت عزیز ہوگئی تھی.

جو اُن کے بیٹے کو بہت چاہتی تھی. اور یہ نہیں جانتی تھی کہ ارحم بھی اُس سے کتنی محبت کرتا ہے. جتنا بھی ناراض ہو اُسے خود سے علیحدہ کبھی نہیں کرے گا.

" اگر محبت کرتی ہو. تو بغیر اُس سے بات کیے. اُسے منائے آرام سے اُس کی زندگی سے نکل جاؤ گی. محبت کرنے والے ایسا تو بلکل نہیں کرتے.

اگر واقعی ہی محبت کرتی ہوں اُس سے. تو معافی مانگ کر مناؤ اُسے. دوبارہ سے اُس کا دل جیتنے کی کوشش کرو. اتنا سخت دل بلکل بھی نہیں ہے معاف کردے گا تمہیں.

اور یہ کبھی مت سمجھنا کہ وہ نفرت کرتا ہے تم سے. اگر تم جاننے کی کوشش کرو گی تو تمہیں پتا چلے گا کتنی محبت کرتا ہے وہ تم سے.

اِس وقت اپنی بہنوں جیسی دوست کو اِس حال میں دیکھ کر دکھی ہے. غصہ میں ہے. مگر اگر تم پیار سے مناؤ گی تو ضرور مان جائے گا. "

صائمہ بیگم نے اُسے بلکل سگی بیٹی کی طرح سمجھایا تھا.

" کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں وہ مجھے معاف کر دیں گے نا."

صائمہ بیگم کی بات پر ریحاب کی آنکھیں جگمگائی تھیں. اُسے تو لگا تھا سب ختم ہوگیا ہے. مگر امید کی ایک نئی کرن روشن ہوئی تھی اُس کے لیے.

اُن کی باتیں سنتے اُس نے خود سے عہد کیا تھا. کہ وہ کسی بھی طرح ارحم کو منا کر رہے گی. اُس کی محبت واپس حاصل کرکے رہے گی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


زیمل ماہ روش کے کمرے کے باہر بینچ پر افسردہ سی سر جھکائے بیٹھی تھی. جب کندھے پر کسی کا لمس محسوس کرتے اُس نے چہرا موڑ کر اُوپر دیکھا تھا. جاذل کو ایک نظر دیکھ وہ واپس چہرا جھکا گئی تھی.

کیونکہ اُس کے آنسو پھر سے گالوں پر لڑھک آئے تھے.

" وہ بہت معصوم ہے اُس نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا. تو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہی بُرا کیوں ہوتا ہے. کیوں ہر دکھ اُسی کے لیے لکھا ہے.

ساری زندگی اُس نے پیار کو ترستے محرومیوں میں گزاری ہے. اور اب جب اُس کے سب اپنے اُس کے قریب ہیں تو وہ یہ سب دیکھنے کے قابل نہیں رہی. "

زیمل نے بے دردی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے. اور آنکھوں میں شکوہ بھرے کہتی وہ اِس وقت ہر ایک سے ناراض لگی تھی اُسے.

جاذل سے ہر وقت ہنستی مسکراتی زیمل کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی. آج تیسرا دن تھا. اور وہ بغیر کچھ کھائے پئے پچھلی تین راتوں سے جاگتی ارتضٰی اور اُس کے باقی گھر والوں کی طرح یہاں ماہ روش کے پاس موجود تھی.

جاذل اُسے کتنی بار کہہ چکا تھا. مگر وہ وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں تھی. بہت مشکل سے اُس نے صرف تھوڑا سا جوس پیا تھا.

" آزمائشیں بھی ہمیشہ اچھے لوگوں کی زندگی میں آتی ہیں. اور اُوپر بیٹھا رب کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گا.

ماہ روش کے لیے تو اتنے لوگ دعائیں کر رہے ہیں. دیکھنا انشاءﷲ وہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی. "

جاذل زیمل کی طرف دیکھتے پر یقین لہجے میں بولا تھا.

" مگر اِس طرح کرکے آپ اپنی طبیعت خراب کر لیں گی. اِس لیے چلیں میں آپ کو گھر ڈراپ کر دیتا ہوں. کچھ دیر آرام کر لیں پھر بے شک دوبارہ آجائیں گا. "

جاذل نے ایک بار پھر اُسے جانے کو کہا تھا. مگر زیمل ابھی بھی اپنی ضد پر قائم تھی. جب بہت دفعہ اُسے اسرار کرنے پر بھی وہ نہ مانی تو جاذل کو ناچار ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس اُس کی طرف بڑھانا پڑا تھا.

" اوکے گھر نہیں چلنا تو یہ پی لیں تھوڑا سا. صبح سے کچھ نہیں کھایا. اب اتنی تو بات مان سکتی ہیں نا میری."

جاذل کے اتنے اسرار پر زیمل کو مزید انکار کرنا اچھا نہیں لگا تھا. اور اُس کے ہاتھ سے گلاس تھامتے زیمل نے ہونٹوں سے لگا لیا تھا.

جوس پیئے ابھی زیمل کو چند منٹ ہی گزرے تھے. جب اُسے اپنا سر چکراتا محسوس ہوا تھا.اور اُس پر غنودگی سی چھا رہی تھی. جاذل جو اُس کے پاس ہی بیٹھا تھا. جوس میں ملائی دوا کا اُس پر اثر ہوتا دیکھ جاذل نے اُس کے گرد اپنا بازو پھیلایا تھا.

جب اگلے ہی لمحے زیمل اُس کے کندھے پر سر ٹکاتی اُس کے بازوؤں میں جھول گئی تھی.

جاذل بہت ہی احتیاط اور نرمی سے اُسے اپنی بانہوں میں بھرتا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

زیمل کی ضدی طبیعت سے تو وہ واقف ہو ہی چکا تھا. اور جانتا تھا وہ اُس کی بات بلکل نہیں مانے گی. اِس لیے اُس کی حالت کے پیش نظر جاذل کو یہ طریقہ مناسب لگا تھا.

رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا. جاذل کو اِس وقت سلمٰہ بیگم کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں لگا تھا. اِس لیے وہ زیمل کو اُس کے گھر لے کر جانے کے بجائے اپنے فلیٹ پر لے آیا تھا.

اندر داخل ہوکر دروازہ پاؤں مار کر بند کرتے جاذل زیمل کو اُسی طرح بانہوں میں اُٹھائے اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا تھا. اور بہت ہی نرمی سے زیمل کو بیڈ پر لٹا دیا تھا. زیمل اِس وقت لائٹ اورنج کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں رف سے حلیے میں بھی اُسے اچھا خاصہ اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی.

بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھا گیا تھا. جس سے بال نکل کر اُس کے چہرے کے اردگرد پھیلے ہوئے تھے. وہ سوتے ہوئے اُسے کوئی کیوٹ سی بچی لگی تھی. زیمل کے چہرے پر پہلی جیسی شادابی نہیں تھی. مسلسل ٹینشن اور تھکن کی وجہ سے اُس کا ہر وقت کھلکھلاتا خوبصورت چہرا مرجھایا ہوا تھا.

جاذل کتنے ہی پل اُس حسین پیکر کو دیکھتا رہا تھا.

زیمل اُس کی زندگی کی وہ پہلی واحد لڑکی تھی. جسے دیکھ جاذل کو اپنے دل میں کچھ ہلچل سی محسوس ہوتی تھی. محبت نہیں کہہ سکتا تھا مگر ہاں وہ اُسے پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی.

جاذل اُس کے صبح اٹھنے کے بعد والے ردعمل کے بارے میں سوچ کر مسکرایا تھا. جب اِس جنگلی بلی نے پنجے جھاڑ کر اُس پر چڑھ جانا تھا.

کافی دیر اُسے دیکھتے رہنے کے بعد ہوش میں آتے اُس پر کمبل پھیلا کر واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب کو ملازمہ سے پتا چل گیا تھا کہ ارحم گھر آگیا ہے. اور اپنے کمرے میں ہے پہلے تو اُس کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی کمرے میں جانے کی مگر پھر کافی دیر بعد ہمت جمع کرتے وہ اُٹھی تھی.

کمرے میں قدم رکھتے اُسے وہ خالی ملا تھا. مگر واش روم کے بند دروازے کو دیکھتے وہ دھڑکتے دل کے ساتھ صوفے کی طرف بڑھ گئی تھی.

پانچ منٹ بعد ارحم واش روم سے باہر نکلا تھا. اِس وقت وہ صرف ٹراؤزر میں ہی موجود تھا. ریحاب نے سُرخ ہوتے فوراً نگاہیں جھکا لی تھیں. ارحم نے ایک سخت نگاہ ڈالنے کے بعد دوبارہ ریحاب کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی.

ریحاب کو پہلی بار ارحم سے خوف محسوس ہوا تھا. اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا بات کا آغاز کیسے کرے.

ارحم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا. اور ساتھ ہی مرر سے ایک غصے بھری نظر ریحاب پر بھی ڈالی تھی. جو ہاتھ کی اُنگلیوں کو بُری طرح مڑورتی صوفے سے اُٹھ کر اُس کے قریب آرہی تھی.

" مجھے آپ سے بات کرنی ہے. پلیز ایک دفعہ میری بات تو سن لیں. "

ارحم کو وہاں سے ہٹتے دیکھ ریحاب ہولے سے منمنائی.

" مگر مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی. اور ویسے بھی اب کہنے سنے کو بچا ہی کیا ہے. "

ارحم شرٹ پہنتا دوبارہ باہر جانے کو تیار ہورہا تھا.

ریحاب نے ہمیشہ اُس کا نرم لہجہ ہی دیکھا تھا. اِس لیے کسی صورت اُس کی بے رُخی برداشت نہیں ہوپارہی تھی.

" میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا. اُس وقت جو حالات پیدا ہوگئے تھے میں کچھ سمجھ ہی نہیں پائی."

ریحاب کو ارحم کی بے اعتنائی پر پھر سے رونا آرہا تھا. جو اُس کی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں تھا.

جب ارحم نے اُس کی طرف مڑتے اُس کے بازو کو جھٹکا دیتے نزدیک کیا تھا.

" ریلی جان بوجھ کر نہیں کیا تم نے. مجھے بغیر بتائے گھر سے نکل جانا. اور وہاں پر بھی مجھے کال کرنے کے بجائے تم نے ماہ روش کو جھوٹ بول کر بلوا لیا. کیا تمہیں مجھ پر زرا بھی بھروسہ نہیں تھا."

ارحم کو پہلے ہی اُس پر بہت غصہ تھا. اور اب ریحاب کی صائمہ بیگم سے کہی بات اُسے مزید تپا گئی تھی.

" نہیں ایسا نہیں ہے. "

ریحاب نے کچھ کہنا چاہا مگر ارحم نے اُسے روک دیا تھا.

" ایسا ہی ہے. کیونکہ تمہارے لیے میں ہمیشہ ایک مہرا ہی رہا ہوں. جسے تم نے صرف اپنے بھائی کی حفاظت اور اپنی مدد کے لیے یوز کیا.

میں جانتا ہوں میری غلطی ہے مجھے تمہیں انیس کے بارے میں بتا دینا چاہئے تھا. مگر میں چاہتا تھا تم ایک بار مجھ پر ٹرسٹ کرکے ساری بات مجھے بتا دو مگر میری اِس خواہش نے تمہاری نظروں میں میری اہمیت کو واضح کردیا ہے. "

ریحاب نے نظریں اُٹھا کر اپنے قریب کھڑے ارحم کی طرف دیکھا تھا. جو بدگمانی کی انتہا پر تھا. اور اُس کی کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا.

" اور اب بھی تو صرف اپنا گلٹ کم کرنے کے لیے معافی چاہئے تمہیں. تاکہ تمہیں سکون مل سکے پرواہ تو تمہیں اب بھی نہ میری ہے نہ کسی اور کی.

مگر جب تک ماہ روش ٹھیک نہیں ہوجاتی تمہیں معاف کرنا میرے بس میں نہیں ہے. "

ارحم سپاٹ چہرے کے ساتھ اُسے دیکھتا روم سے نکل گیا تھا.

ریحاب اپنا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی تھی. اُس نے اپنی بےوقوفی اور نادانی میں اپنے آپ کو کتنا غلط بنا لیا تھا سب کی نظروں میں اور خاص کر ارحم کی نظروں میں.

لیکن وہ کیا بتاتی اُسے کہ پوری زندگی اپنے ماں باپ فیملی سے دور ہاسٹل میں رہنے کی وجہ سے آج تک اُسے ایسے رشتوں سے واقفی تھی ہی نہیں.

جن رشتوں میں آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے پر یقین کیا جاتا ہے. جن پر آپ کو بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دیں گے. کبھی کسی بھی سچویشن میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے.

کیونکہ اُس کے ساتھ تو ہوا ہی ایسا تھا. ماں باپ جنہیں دنیا کا سب سے مقدس اور پیارا رشتہ کہا جاتا ہے. اگر اُنہوں نے ہی اُس کا یقین, بھروسہ اعتبار توڑا تھا تو کسی اور پر یقین کرنا اُس کے لیے بہت مشکل تھا. اور اِسی بات کی سزا وہ آج بھگت رہی تھی.

ارحم اُسے اپنی سزا سنا کر چلا گیا تھا. بنا اُس کی سنے کے وہ اُس کے لیے اتنی سیلفش کیوں ہوئی تھی. وہ ارحم کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


جاذل شاور لے کر واپس آیا تو زیمل بنا کروٹ بدلے ویسے ہی لیٹی ہوئی تھی.

جاذل پہلے تو کھڑا سوچتا رہا تھا کہ سوئے کہاں یہی پر یا دوسرے کمرے میں. مگر اِس وقت وہ بہت تھکا ہوا تھا. اور اپنے بیڈ کے علاوہ کہیں اور سوکر وہ ویسی پرسکون نیند نہیں لے سکتا تھا. جس کی ابھی اُسے طلب تھی. اور آج تو ویسے بھی بیڈ پر ایک رعنائیاں بکھیرتا وجود اُس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا تھا. جس پر پورا حق رکھتا تھا وہ. کچھ سوچتے مسکراتے ہوئے وہ بیڈ کی طرف بڑھا تھا.

جاذل بیڈ پر زیمل سے کچھ فاصلے پر لیٹ گیا تھا. اُسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ لڑکی جس پر جائز حق رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ دل میں اُس کے لیے کچھ خوبصورت جذبات بھی محسوس کرتا ہو. اپنے بہت قریب ہونے پر خود کو بہکنے سے روک سکے.

لائٹ آف کرتے جاذل نے چت لیٹے آنکھوں پر بازو رکھ دیا تھا.

رات کا نجانے کون سا پہر تھا. جب اے سی کی کولنگ کی وجہ سے زیمل کو ٹھنڈ محسوس ہوئی تھی. اور وہ تھوڑا سا سرک کر جاذل کے قریب ہوئی تھی. اور اُس کے کمبل میں گھسنے کی کوشش کی تھی.

جاذل کی آنکھ فوراً کھل گئی تھی. جب اُسے ٹھنڈ کی وجہ سے زیمل اپنے بہت قریب سکڑے سمٹے سوئی نظر آئی تھی. جاذل نے اے سی کی کولنگ کم کرتے زیمل کے اُوپر اچھے سے کمبل اوڑھا تھا.

مدھم سی زیرو پاور کی روشنی میں زیمل کا چاندنی بکھرتا چہرہ جاذل کے بہت قریب تھا. اُس نے جلدی سے رخ موڑ لیا تھا.

زیمل کو یہاں لانے اور اب ایک ہی بیڈ پر سونے کے فیصلے پر اب وہ خود ہی پچھتا رہا تھا. کیونکہ یہ سب اُس کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تھا. وہ زیمل کے ساتھ دل کا کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتا تھا. کیونکہ اُن دونوں کو ہی اپنے رشتے کی اصلیت سے واقف تھے. جو ایک دن اُنہوں نے ختم کر دینا تھا.

مگر میجر جاذل ابراہیم نہیں جانتا تھا کہ یہ اُس کا کوئی مشن نہیں تھا. جس میں وہ اپنی پلاننگ کے مطابق کامیاب ہوکر آخر میں سرخرو ہوجائے بلکہ وہ اب زندگی کے ایک ایسے مشن میں پھنس چکا تھا. جس سے بچ نکلنا اتنا آسان نہیں تھا.

جاذل دل ہی حالت پر گھبراتا بیڈ سے اُٹھتا فوراً کمرے سے نکل گیا تھا. نیند تو اب آنی نہیں تھی. اِس لیے وہ کچن میں جاکر اپنے لیے کافی بنانے لگ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


دن بارہ بجے کے قریب زیمل کی آنکھ کھلی تھی. جب خود کو کسی انجان جگہ پر دیکھ وہ حیرت ذدہ سی جلدی سے بیڈ سے اُتری تھی.

اُس کا دماغ پوری طرح بیدار ہوچکا تھا. اور وہ سوچ رہی تھی کہ وہ تو ہاسپٹل میں تھی یہاں کیسے پہنچی.

یہی سوچتے وہ ہلکے سے دروازہ کھولتی محتاط سے انداز میں باہر نکلی تھی. اِس وقت اُس کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا. اِس لیے اُس نے ہتھیار کے طور پر کمرے میں رکھا ایک وزنی سا ڈیکوریشن پیس اُٹھا لیا تھا.

کمرے سے نکل کر سامنے ہی لاؤنج سا بنا ہوا تھا. وہ جیسے ہی آگے بڑھی ساتھ والے روم سے اُسے کوئی نکلتا ہوا محسوس ہوا تھا. اِس سے پہلے کے وہ زیمل پر حملہ کرتا زیمل نے ہاتھ میں پکڑا ڈیکوریشن پیس اُس کے سر پر دے مارا تھا.

مگر جیسے ہی اُس کی نظر جاذل پر پڑی وہ فوراً خجل ہوتی پیچھے ہوئی تھی. جاذل کے ماتھے سے نکلتے خون کو دیکھتے زیمل کو ندامت اور شرمندگی نے آن گھیرا تھا.

" اوہ آئم ریلی سوری. وہ مجھے لگا کسی نے مجھے کڈنیپ کر لیا ہے. اِس لیے میں نے اپنے بچاؤ کے لیے ایسا کیا. آئم ریلی ویری سوری. "

جاذل کے خوشمگی نگاہوں سے گھورنے پر وہ جلدی سے بولی.

" کیپٹن زیمل آپ کوئی عام لڑکی نہیں. ایک آرمی آفیسر ہیں. بنا سوچے سمجھے کسی پر اٹیک کرنا آپ کو بلکل بھی نہیں سیکھایا گیا. "

جاذل نے زیمل کو شرمندہ دیکھ اندر ہی اندر مزہ لیتے اُسے مزید تنگ کرنا چاہا تھا. اور جان بوجھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے اُسے ظاہر کروایا تھا جیسے اُسے بہت درد ہورہا ہے. کیونکہ وہ زیمل کا اِس بات سے دھیان ہٹانا چاہتا تھا کہ وہ یہاں آئی کیسے.

اور زیمل اُس وقت جاذل کی باتوں میں آبھی گئی تھی.

" میں مانتی ہوں میں نے غلط کیا مگر آپ کا خون بہہ رہا ہے. آپ پلیز یہاں بیٹھیں میں بینڈیج کر دیتی ہوں. "

زیمل نے جاذل کے ماتھے سے خون کا قطرہ ٹپکتے دیکھ فکرمندی سے کہا.

جس پر جاذل پوری تابعداری کے ساتھ سامنے پڑے صوفے پر جا بیٹھا تھا. اور زیمل اُس کے اشارے پر جلدی سے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکال لائی تھی.

زیمل جاذل کے قریب تھوڑا سا اُوپر جھکتے روئی سے اُس کا زخم صاف کرنے لگی تھی. جب کے جاذل آنکھیں بند کیے زیمل کی قربت کی خوشبو محسوس کرتا کسی اور ہی دنیا میں پہنچ چکا تھا.

" کیا بہت زیادہ درد ہورہا ہے. "

زیمل کی آواز پر جاذل چونکہ. اور آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا.

جاذل کی خمار آلود نگاہوں کو دیکھتے زیمل فوراً پیچھے ہٹی تھی. اُسے آج جاذل کے انداز بدلے بدلے سے لگ رہے تھے.

جب اچانک اُس کے دماغ میں پھر سے اپنے یہاں ہونے کی وجہ گھوم گئی تھی. اور اُس نے شکی نگاہوں سے جاذل کی طرف دیکھا تھا.

" میں تو ہاسپٹل میں تھی نا. پھر یہاں کیسے پہنچی. "

زیمل کے انداز پر جاذل نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے تھے.

" آپ کو پتا ہونی چاہیے یہ بات. میں آپ کا باڈی گارڈ تھوڑی نہ ہوں. "

جاذل کا لہجہ اب بھی شریر تھا.

" میجر جاذل ابراہیم زیادہ معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے. جتنا مجھے یاد ہے. میں لاسٹ ٹائم ہاسپٹل میں آپ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی. اور ہاں آپ نے مجھے جوس دیا تھا. ایسا کیا ملایا تھا اُس جوس میں کہ مجھے کچھ یاد نہیں. اور میں یہاں پہنچ گئی. "

زیمل ہاتھ سینے پر باندھے اُسے گھور رہی تھی. جو اب مزے سے صوفے کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا.

" کیپٹن زیمل جاذل آپ کی کل کی حالت دیکھتے مجھے ایسا کرنا پڑا. ورنہ آپ کی ضد کے آگے کسی کی چلتی کہاں ہے.

بلکل ٹھیک سمجھا آپ نے. میں نے ہی آپ کے جوس میں نیند کی دوا ملائی تھی. تاکہ آپ کچھ آرام کرسکیں. اور جو خود کو تھکا کر بیمار ہونے کا سوچے بیٹھی ہیں. وہ نہ ہوپائے."

جاذل کی بات اور ڈھٹائی پر زیمل جی بھر کر تپی تھی. جو اپنی حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے مزید چوڑا ہورہا تھا.

" واہ اور اِس کے علاوہ آپ کے اِس ذہانت سے بھرپور دماغ میں کوئی اور آئیڈیا نہیں آسکا.

مجھے لگا تھا کہ شاید سٹارٹ میں مجھ سے آپ کو پہچاننے میں غلطی ہوگئی تھی. اِس لیے ایک شریف انسان سمجھ کر آپ سے نکاح کے لیے راضی بھی ہوگئی. مگر آپ واقعی ہی ہو تو چھچھورے کے چھچھورے ہی. "

زیمل غصے سے اُسے باتیں سناتی وہاں سے جانے لگی تھی. جب جاذل نے آگے ہوتے اُس کی کلائی کو تھام کر ہلکا سا جھٹکا دیتے اپنی طرف کھینچا تھا. جب اگلے ہی لمحے زیمل اِس اچانک افتاد پر سنبھلنے کی کوشش کے باوجود جاذل کی گود میں جاگری تھی.

" یہ کیا بے ہودگی ہے. آپ کو شرم آنی چاہئے ایسی حرکت کرتے ہوئے. "

زیمل کا غصہ مزید بڑھا تھا. جبکہ جاذل بہت ہی پرسکون انداز میں بیٹھے اُسے اپنی بانہوں میں قید کیے ہوئے تھا.

اُسے زیمل کی کوئی بھی بات بُری نہیں لگ رہی تھی. کیونکہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ زیمل کا یہی ری ایکشن ہوگا. اُس نے یہ سب صرف زیمل کی فکر میں کیا تھا.

مگر اب اُس کا دل غصے سے چڑی زیمل کو تنگ کرنے کا تھا.

زیمل نے پیچھے ہونا چاہا تھا. مگر جاذل کی گرفت میں وہ ہل بھی نہ پائی تھی.

" ہمیشہ آپ نے مجھے چھیچھورا کہا ہے. کیوں نہ آج واقعی تھوڑا سا چھچھورا پن دیکھا دوں. اور اب تو آپ کے ساتھ ساری چھچھوری حرکتیں کرنے کا حق حاصل ہے مجھے."

جاذل نے زیمل کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اُوپر کرتے اپنے مزید قریب کیا تھا.

زیمل اُس کی حرکتوں پر دانت پیس کر رہ گئی تھی. وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی وہ اُسے جان بوجھ کر تنگ کر رہا ہے.

" اب آپ بھول رہے ہیں کہ میں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں. میرے ساتھ آپ اتنی آسانی سے اپنی یہ چھچھوری حرکتیں نہیں کر سکتے. ورنہ میں نے آپ کے ماتھے پر دوسری سائیڈ پر بھی ایسا ہی ڈیزائن بنا دینا ہے. "

زیمل کے دھمکی آمیز انداز پر جاذل کا زور دار قہقہہ برآمد ہوا تھا.

زیمل مسلسل جاذل کی گود سے اٹھنے کی کوشش میں تھی. مگر ہر بار جاذل اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیتا تھا.

" اوکے تو خود کو پروو کریں اور میرے حصار سے نکل کر دکھائیں. "

زیمل کا سُرخ پڑتا چہرا دیکھ جاذل کا لہجہ شریر ہوا تھا.

اِس وقت جو اُن دونوں کی پوزیشن تھی. اور جیسے وہ بچوں کی طرح لڑ رہے تھے کوئی بھی اُنہیں دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ سیکریٹ سروسز کے اعلیٰ عہدوں پر فائز آفیسرز ہیں.

جاذل لیٹنے کے انداز سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا. اور زیمل اُس کے اُوپر گری مکمل طور پر اُس پر جھکی ہوئی تھی. وہ جب بھی اُٹھنے کی کوشش کرتی جاذل اپنی ایک ٹانگ ڈھیلی کر دیتا زیمل دوبارہ پھسل کر اُس کے اُوپر گر جاتی.

زیمل نے ایک بار پھر اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی تھی. جب جاذل کی وہی حرکت دوھرانے پر زیمل توازن برقرار نہ رکھتے جاذل کے سینے پر جاگری تھی.

اچانک اتنے قریب آجانے پر دونوں اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے. زیمل کا دل جاذل کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے زور سے دھڑکا تھا.

زیمل کو اپنے اتنے قریب دیکھ جاذل بے خود سا ہوا تھا. اور اُسی کے زیرِ اثر جاذل کے ہونٹوں نے زیمل کی ٹھوڑی کو چھوا تھا. جاذل کے لمس پر زیمل کو اپنی سانس رُکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی.

مذاق مذاق میں سین ہی بدل چکا تھا.

جب جاذل کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے زیمل جلدی سے اُس کے حصار سے نکلی تھی. اور واپس روم کی طرف بڑھ گئی تھی.

دروازہ بند کرکے اُس کے ساتھ سر ٹکاتے اُس نے اپنی سانسوں کو اعتدال پر لانا چاہا تھا. اُس کی فیلنگز بہت عجیب ہورہی تھیں. جنہیں وہ سمجھنے سے قاصر تھی.

باہر جاذل مزے سے بیٹھا ابھی تھوڑی دیر پہلے رونما ہونے والے واقعہ انجوائے کر رہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش کو ایسے ہی بے سُدہ پڑے دو ہفتے ہوچکے تھے. زینب بیگم اور باقی گھر والے دن بھر اُس کے پاس ہوتے تھے. اور ارتضٰی اپنی اتنی مصروفیات میں سے ٹائم نکال کر دن میں کافی دفعہ چکر لگا لیتا تھا.

اور رات کو سب گھر والوں کو وہ واپس گھر بھیج دیتا تھا. پوری رات وہ ماہ روش کو دیکھتے جاگتے گزار دیتا تھا.

آج بھی ایسا ہی تھا. ارتضٰی ماہ روش کے بیڈ کے قریب چیئر رکھ کر بیٹھ گیا تھا. جبکہ ماہ روش ویسے ہی ہر ایک سے غافل تھی.

ارتضٰی کا بس نہیں چل رہا تھا. کسی بھی طرح کرکے ماہ روش کو ٹھیک کردے. ڈاکٹرز نے ابھی تک اُس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں بتائی تھی. جو ارتضٰی سمیت سب گھر والوں کے لیے بہت تکلیف کا باعث تھا.

زینب بیگم جو پہلے صرف گھر والوں کی خاطر اپنی زندگی کے دن گن گن کے گزار رہی تھیں. ماہ روش کی حقیقت جان کر ایک پل کے لیے لگا تھا کہ جیسے اُن کی زندگی کی تمام بہاریں واپس آگئی ہوں. مگر ماہ روش کی حالت دیکھ وہ ایک بار پھر ٹوٹ چکی تھیں.

اپنی جوان بیٹی کو اِس طرح بے جان بیڈ پر پڑا دیکھنا اُن کو بہت اذیت دے رہا تھا.

ارتضٰی جنرل یوسف سے بہت ناراض تھا. اور اُن سے ماہ روش کے متعلق تمام ثبوت مانگے تھے کیونکہ اب وہ اُن سمیت کسی پر بھی بھروسہ کرنے کا روادار بلکل نہیں تھا. اِس لیے ایک بار تمام ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اُس نے یقین کیا تھا.

ماہ روش کو تو اب وہ کسی صورت خود سے جدا کرنے کے حق میں نہیں تھا. چاہے ثبوت میں یہ ثابت نہ بھی ہوتا تب بھی.

ارتضٰی نے اپنی سوچوں سے نکلتے محبت سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

اِن دو ہفتوں میں ہی ماہ روش کی اپنی زندگی میں اہمیت سے ارتضٰی اچھے سے آگاہ ہوچکا تھا. وہ اُس کے لیے بہت ضروری ہو گئی تھی. اب صبح سب سے پہلے ماہ روش کا چہرہ دیکھے بغیر دن گزارنا اُس کے لیے بہت مشکل ہوجاتا تھا.

اُسے اپنی حالت پر بہت حیرت ہوتی تھی کیونکہ اُسے نہیں لگا تھا کہ کبھی وہ بھی کسی کو اتنا چاہے گا. مگر جو بھی تھا یہ احساس اُس کے لیے بہت ہی خوبصورت تھا.

ارتضٰی نے ماہ روش کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگایا ہوا تھا. اور اُس کے چہرے کے بہت قریب جھکے اُس کے ایک ایک نقوش کو ازبر کررہا تھا.

اُسے اچانک فیل ہوا تھا جیسے ماہ روش کا چہرہ سرخ ہوا ہے. اُسے اپنے قریب ہونے پر ماہ روش کی طرف سے ایک ری ایکشن سا ملا تھا. ارتضٰی سمجھ نہیں پایا تھا کہ ایسا ہوا ہے یا صرف اُس کا وہم ہے مگر جو بھی تھا. اُس کے لیے بہت خوشی کا باعث تھا.

ارتضٰی نے فوراً بیڈ پر اُس کے قریب بیٹھتے اُس پر جھک کر اُس کے گال پر اپنے پر شدت لب رکھ دیے تھے.

اب کی بار ماہ روش کے چہرے کی سُرخی میں مزید اضافہ ہوا تھا.

ارتضٰی کے چہرے پر زندگی سے بھرپور دلکش مسکراہٹ کھیل گئی تھی.

ماہ روش اُسے اتنی شدت سے چاہتی تھی کہ اِس حالت میں بھی اُس کی اپنی قریب موجودگی محسوس کر پا رہی تھی.

کیونکہ ارتضٰی سکندر نہیں جانتا تھا کہ ماہ روش نے اُس سے محبت نہیں عشق کیا تھا. اُس کی نفرت کے باوجود اُسے چاہا تھا اُس کے لیے تڑپی تھی.

ارتضٰی نے اُسی وقت ڈاکٹر کو بلاوایا تھا.

اُسے اپنی قسمت پر رشک آیا تھا کہ یہ لڑکی اُسے اتنا چاہتی ہے. بے ہوشی میں بھی اُسے ارتضٰی کا خیال تھا.

ڈاکٹر نے ماہ روش کے چیک اپ کے بعد اُس کی طبیعت میں بہتری کا بتایا تھا.

ارتضٰی کو لگا تھا ماہ روش اب اُس سے نفرت کرتی ہوگی. مگر وہ پاگل لڑکی تو اب بھی اُسے چاہتی تھی. اور وہ بھی اتنی شدت سے. اِس پل ارتضٰی کا دل چاہا تھا. ماہ روش کو اپنی بانہوں میں لے کر بھینچ لے. اُسے اتنا پیار دے کے پچھلے اُس کے رواں رکھے گئے سلوک کو وہ بھول جائے.

ارتضٰی جب بھی اپنے بدترین رویے کے بارے میں سوچتا. ماہ روش کا آنسو سے بھیگا چہرا اُس کو مزید درد سے دوچار کر دیتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" رابطہ کیوں نہیں کررہی وہ سوہا. اگر اُن لوگوں کی باتوں میں آکر اُس نے مجھے دھوکہ دینے کے بارے میں سوچا بھی تو مجھ سے بُرا کچھ نہیں ہوگا. "

ذوالفقار غصے سے دھاڑا تھا. سب لوگ اُس کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے.

کیونکہ پچھلے اتنے سالوں سے اُسے کبھی کسی کام میں شکست سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا. مگر اب تو ہر کام اُس کو ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا.

" سر ہم کوشش کر رہے ہیں پتا لگانے کی. "

اُن میں سے ایک آدمی ہلکی آواز میں بولا.

" کوشش کوشش اِس کے علاوہ تم لوگوں کو کوئی اور بات آتی بھی ہے یا نہیں. ابھی تک اُس ٹیم کے نام تو لا نہیں سکے میرے پاس.

سمجھ نہیں آرہی مجھے وہ لوگ بہت شاطر ہو گئے ہیں. یا میرے آدمی نکمے ہوگئے ہیں. "

ذی ایس کے کسی طرح بھی اپنے خلاف تیار کی گئی نئی ٹیم تک پہنچنا چاہتا تھا. جو اندر ہی اندر سرگرم اُس کی جڑیں کاٹنا شروع ہوچکی تھی.

اِس بار تو وہاں بھیجے گئے اُس کے جاسوس بھی فیل ہوچکے تھے. سوہا جس کی ذہانت پر اُسے پورا اعتماد تھا وہ ہی اُس کے ہاتھ نہیں آرہی تھی. وہ اندر ہی اندر خوفزدہ ہوچکا تھا.

کیونکہ اُسے لگ رہا تھا اِس بار اُس کے خلاف کوئی بہت بڑی سازش تیار کی جا رہی ہے.

ذوالفقار ابھی اُن کو مزید ہدایت دے رہا تھا. جب ہمایوں اندر داخل ہوا تھا.

ذوالفقار اپنے آدمیوں کو جانے کا اشارہ کرتے اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا.

ہمایوں اُس کی بیوی کے پہلے شوہر کی طرف سے سوتیلا بیٹا تھا. اور شروع سے ساتھ ہونے کی وجہ سے اُس سے انسیت اور اُس کی ذہانت کو دیکھتے ذوالفقار نے اُسے بھی اپنے ساتھ اِس کام ملا لیا تھا. جس کے بعد ہمایوں اُس کے لیے بہت فائدہ مند بھی ثابت ہوا تھا.

" ہمایوں کچھ پتا چلا. کہاں ہے سوہا اُس کے باپ سے بھی پتا کرواچکا ہوں مگر کچھ نہیں جانتا وہ بھی اُس کے بارے میں.

اگر وہ اُن لوگوں کے ہاتھ لگ گئی تو ہمارے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے. "

ذوالفقار کے فکرمند انداز پر ہمایوں نے نفی میں سرہلایا تھا.

" سوہا ٹھیک ہے اُن کے ہاتھ نہیں لگی. اور وہ سب ٹیم ممبرز کے بارے میں انفارمیشن اکٹھی کر چکی ہے. اور سب سے اچھی بات کہ وہ بھی اُسی ٹیم کا حصہ ہے. اُن لوگوں پر ایجنسی کی طرف سے بہت سخت نظر رکھی جا رہی ہے. اِس لیے اتنے دن وہ ہم سے رابطہ نہیں کرسکی. مگر اُس کا کہنا ہے کہ موقع دیکھ کر وہ ہم سے مل کر ہمیں ساری انفارمیشن دے دے گی. "

ہمایوں کی پوری بات سنتے ذی ایس کے کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے. اور اُس نے فخریہ انداز سے ہمایوں کی طرف دیکھا تھا. جو کام اُس کے آدمی اتنے دنوں سے نہیں کرپارہے تھے. وہ ہمایوں نے محض ایک ہفتے میں کردیا تھا.

" ہممہ ایک بار اِن لوگوں کا پتا لگ جائے پھر اِن کا جو حشر کروں گا میں. دوبارہ ایجنسی والے کوئی ٹیم بناتے ہوئے بھی ڈریں گے. "

ذوالفقار بے ہنگم انداز میں قہقہ لگاتے ہنسا تھا.

جب اُسے خوش دیکھ ہمایوں نے اپنے مطلب کی بات کرنی چاہئے تھی.

" ماہ روش کو اِس سب میں شامل کرنے کا کیا ارادہ ہے آپ کا. اُس کی معصومیت اور اُس کے چہرے کا بھولپن آپ کے لیے بہت فائدہ مند ہوسکتا ہے بابا. "

ہمایوں یہ سب کہہ کر صرف ذوالفقار کی رائے لینا چاہتا تھا.کہ وہ ماہ روش کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے. ورنہ وہ خود بھی کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ ماہ روش اِن گھناؤنے کاموں میں شامل ہو.

ماہ روش کے ذکر پر ذوالفقار کے چہرے کا رنگ بدلہ تھا. کیونکہ ایک ماہ روش کے ساتھ اُسے اور بھی بہت سی باتیں اور لوگ یاد آگئے تھے.

" نہیں میں ماہ روش کو اِس سب میں نہیں ڈالنا چاہتا. اُس کی معصومیت اگر فائدہ دے سکتی ہے. تو اُس کی پاکیزگی اور نیک سیرت طبیعت ہمیں بہت بڑا نقصان بھی دے سکتی ہے. بیٹی ہے وہ میری چاہے اُس سے دور رہا ہوں مگر اُس کے بارے میں اتنا تو جانتا ہی ہوں."

ذوالفقار ماہ روش کے ذکر پر نرم پڑا تھا. وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا ہمایوں ماہ روش میں انٹرسٹ لے رہا ہے. کیونکہ ہمایوں پہلے بھی اُس سے ماہ روش کے بارے میں بات کرچکا تھا.

ہمایوں اُس کے خیالات جان کر خوش ہوا تھا. اب وہ آسانی سے ماہ روش کو حاصل کر سکتا تھا.

" جو بھی تمہارے مائینڈ میں چل رہا ہے. تم کہہ سکتے ہو مجھ سے. "

ذوالفقار نے جانچتی نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

" وہ ماہ روش مجھے بہت پسند ہے... "

ہمایوں کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی ذوالفقار زور سے ہنسا تھا.

" اِس کا مطلب جو میں سوچ رہا تھا ویسا ہی ہے. مل جائے گی ماہ روش تمہیں مگر اُس سے پہلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا. اگر تم اُس میں کامیاب ہوئے تو ماہ روش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہاری. "

ذوالفقار جس گھٹیا انداز میں ماہ روش کے بارے میں بات کررہا تھا. کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا. وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بات کررہا تھا.

ہمایوں ذوالفقار کی بات سنتے خوشی سے پاگل ہوا تھا.

" کیا کرنا ہوگا مجھے. میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں. "

ہمایوں کا بس نہیں چل رہا تھا. ابھی اُس کی شرط پوری کرکے ماہ روش کو حاصل کرلے.

" ابھی نہیں. وقت آنے پر بتاؤں گا. کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا تمہیں. "

ذوالفقار کی اگلی بات نے اُس کی خوشیوں پر اوس پھیر دی تھی.

وہ دونوں ماہ روش کا سودہ کرتے یہ بھول گئے تھے کہ ماہ روش اب میجر ارتضٰی سکندر کے مضبوط حصار میں ہے. وہ لوگ اب اُس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


کمرہ بلکل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا. وہ مضبوط رسیوں میں جکڑی کرسی پر بندھی ہوئی تھی.

جب دروازہ کھلنے پر ہلکی سی پیدا ہونے والی روشنی اُسے اپنی آنکھوں میں چبتی ہوئی محسوس ہوئی تھی. اُس نے فوراً منہ پیچھے موڑ لیا تھا.

" تو کیا سوچا اب آپ نے کیپٹن سوہا. اپنے لیڈر سے غداری کرکے اِس پاک سرزمین کا قرض چکانا ہے. یا اُن درندوں کا ساتھ دیتے اپنی آخرت خراب کرنا چاہتی ہو."

ارتضٰی کی گھمبیر آواز کمرے میں گونجی تھی.

جس پر سوہا نے اپنا جھکا کر اُٹھا کر ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا.

اُسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اپنی اصلیت سامنے آجانے کے باوجود بھی اِن لوگوں نے اب تک اُسے زندہ رکھا ہوا تھا. اور سب سے بڑی بات اُس کی عزت ابھی بھی محفوظ تھی.

اتنا اچھا سلوک تو اُن کے ہاں اپنے ساتھیوں سے نہیں کیا جاتا تھا. جتنا یہاں مجرموں سے کیا جارہا تھا. اُس کے دل میں ارتضٰی سکندر کے لیے عزت اور جذبات بڑھ گئے تھے. جو اُس کے پاس کتنی بار آچکا تھا. مگر ایک بار بھی اُس نے سوہا کی طرف غلط نگاہ سے نہیں دیکھا تھا.

" آپ کا ساتھ دینے کے بعد مجھے کیا ملے گا. اِس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ لوگ مجھے زندہ رکھیں گے. یا میری عزت محفوظ رہے گی. "

سوہا جس جگہ سے آئی تھی. یہاں کے اُن سب کے اتنے اچھے رویے کے باوجود اُن پر یقین کرنا سوہا کے لیے کافی مشکل تھا.

ارتضٰی نے اُس کی بات پر طنزیا انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا.

" سب سے بڑی گارنٹی تمہارا ابھی بھی یہاں سہی سلامت ہونا ہے. اور آگے بھی ہر طرح کا خیال رکھنے کی گارنٹی دیتا ہوں میں تمہیں. اِس کے علاوہ اور کیا چاہئے تمہیں. "

ارتضٰی کی بات پر سوہا نے فوراً اُس کی طرف دیکھا تھا.

" میجر ارتضٰی سکندر چاہئے مجھے. مل سکتا ہے کیا. "

ارتضٰی کو اُس سے ایسی ہی کسی بات کی امید تھی اِس لیے اُس کی بات پر ایک استہزاء مسکراہٹ اُس کے چہرے پر اُبھر کر فوراً معدوم ہوئی تھی.

" ڈونٹ وری میجر صاحب جانتی ہوں میری یہ خواہش لاحاصل ہی رہے گی. کیونکہ آپ پہلے ہی کسی بہت ہی خوش قسمت انسان کو اپنا سب کچھ دے چکے ہیں."

سوہا کی بات پر ارتضٰی کے سامنے ماہ روش کا چہرہ جگمگایا تھا. اور ایک خوبصورت سی نرم مسکراہٹ نے اُس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا.

" سوہا دو دنوں کا وقت ہے تمہارے پاس ایک بار پھر اچھے سے سوچ لو. کیونکہ اگر تم نے زرا بھی ہوشیاری کرنے یا مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کی تو بہت عبرت ناک انجام ہوگا تمہارا. "

ارتضٰی ایک بار پھر سرد انداز میں اُسے وارن کرتا باہر نکل گیا تھا. اور سوہا نے حسرت بھری نظروں سے اُس کی چوڑی پشت کو دیکھا تھا.

ایک منتھ پہلے ارتضٰی نے اُسے یہاں قید کردیا تھا. کیونکہ جیسے ہی اُس بلڈنگ والے واقعے کی تحقیقات مکمل ہوئی تھیں. اور ارتضٰی کے سامنے سوہا کا وہ کارنامہ آگیا تھا.

جس کے بعد سوہا کا اِس طرح سب کے درمیان رہنا ارتضٰی کو کسی خطرے سے خالی نہیں لگا تھا. اُس نے سوہا کا کنٹیکٹ تو پہلے ہی اُس کے آدمیوں سے ختم کیا ہوا تھا. اب سوہا کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا.

سوہا جو پہلے ہی ارتضٰی سکندر سے کافی مرعوب تھی. اب تو مکمل طور پر اُس کی دیوانی ہوچکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش کو کوما میں گئے ڈھائی مہینے ہوچکے تھے. جن میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ ارتضٰی اُس کے پاس نہ رہا ہو. مگر اب وہ پچھلے دو دنوں سے ماہ روش سے ملنے ہاسپٹل نہیں جا پایا تھا. کیونکہ وہ کسی بہت ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر آیا ہوا تھا. مگر وہ اندر سے بُری طرح بے چین تھا.

اُس کے دل کو ماہ روش کے بغیر کسی طرح سکون نہیں مل رہا تھا.

مگر ابھی کچھ دیر پہلے جو خبر اُسے ملی تھی. پوری طرح سے اُس کے ہوش اُڑا چکی تھی. وہ پانچ گھنٹوں کا فاصلہ تین گھنٹوں میں طے کرتا وہ بھاگتا ہوا ہاسپٹل کے اندر داخل ہوا تھا.

جیسے ہی اُس نے کمرے کے اندر قدم رکھا سامنے کے منظر نے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی.

ماہ روش کا بیڈ بلکل خالی پڑا تھا. اور اُس کے سیکورٹی گارڈز ندامت سے سرجھکائے وہاں موجود تھے.

ماہ روش کو وہاں نہ پاکر ارتضٰی کو ایک پل کے لیے اپنی سانسیں رُکتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں. اچانک جو خبر اُسے ملی تھی کہ ماہ روش ہاسپٹل سے غائب ہوگئی ہے. اُس کے حواس چھیننے کے لیے کافی تھی.

" کہاں ہے ماہ روش. "

ارتضٰی زور سے دھاڑا تھا. اُس کی دہشت پر ایک پل کے لیے تو وہ ہٹے کٹے گارڈ بھی کانپ گئے تھے.

جب ارتضٰی نے نوٹ کیا تھا کہ یہاں زیمل, جاذل, ارحم کے سمیت گھر کا کوئی فرد موجود نہیں تھا. اور یہی ایک لمحہ لگا تھا. اُسے سارا معاملہ سمجھنے میں.

اُس نے موبائل نکالتے کنٹرول روم میں کال ملاتے اِس کمرے میں ماہ روش کی سیکیورٹی کے لیے لگوائے اپنے سپیشل کیمرے کی پچھلے دو دنوں کی فوٹیج بھیجنے کو کہا تھا. اُسے اِس وقت کسی پر بھی کوئی ٹرسٹ نہیں تھا. اِس لیے اُس نے یہ کیمرہ سب سے خفیہ طور پر لگوایا تھا. یہاں تک کے جاذل سمیت گھر کے کسی فرد کو اِس بارے میں کوئی علم نہیں تھا.

ڈاکٹرز کو بلوا کر ارتضٰی نے اچھے سے اُن کی خبر لی تھی. جس پر ایک سینئر ڈاکٹر نے ڈرتے ہوئے جو بات اُسے بتائی تھی. ارتضٰی کو لگا تھا اُسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہو. اُس کی ماہ روش ہوش میں آچکی تھی. وہ ٹھیک ہوچکی تھی.

ارتضٰی نے ڈاکٹرز کو واپس بھیجتے اپنے موبائل پر آئی ویڈیو پلے کی تھی. اور جیسے جیسے وہ فوٹیج دیکھتا گیا تھا. اُس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی تھی.

ماہ روش کوما سے باہر آچکی تھی. اور سہارے پر اُٹھ کر بیٹھ بھی رہی تھی. ماہ روش کو صحیح سلامت دیکھ ارتضٰی کے اندر تک سکون اُتر گیا تھا.

ماہ روش کو پرسوں ہوش آیا تھا اور ارتضٰی کو کسی نے بتانا گوارا ہی نہیں کیا تھا. آج بھی اُس کے سختی سے پوچھنے پر ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا تھا.

ارتضٰی کو غصہ تو بہت آرہا تھا. مگر پھر نہ بتانے کی وجہ سوچتے وہ کھل کر ہنسا تھا. اُس کی بیگم صاحبہ اُس سے ناراض تھیں. اُس سے کسی صورت ملنا نہیں چاہتی تھیں. اور تمام گھر والوں کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کر لیا تھا.

ارتضٰی کی گالوں پر موجود گڑھے اُس کے مسلسل مسکرانے پر آج بہت دنوں بعد اِس طرح واضح ہورہے تھے. جن کی ماہ روش دیوانی تھی.

ارتضٰی فوراً گھر کے لیے نکلا تھا. جہاں اُس کی زندگی موجود تھی. جسے محسوس کرنے کے لیے وہ بُری طرح تڑپ رہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" میری جان تھوڑا سا اور پی لو. اتنے سے بھلا کیا ہوگا. ابھی میڈیسن بھی لینی ہیں. "

زینب بیگم ماہ روش کے پاس بیٹھی اُسے سوپ پلانے میں ہلکان ہورہی تھیں. باقی سب بھی وہیں اُس کے روم میں موجود تھے. زیمل تو اُس کے ہوش میں آنے کے بعد سے اُس کے پاس ہی تھی. ارحم بھی کئی چکر لگا چکا تھا.

ماہ روش اپنے آس پاس اتنی محبتیں دیکھ خود پر رشک کررہی تھی. وہ نہیں جانتی تھی یہ حادثہ اُسے اپنوں کے اتنے قریب لے آئے گا.

زینب اور ناہید بیگم تو اُس کے واری صدقے جارہی تھیں. اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُسے پلکوں پر بیٹھا کر رکھیں.

ماہ روش کے واپس ملنے اور زینب کو خوش دیکھ سب لوگ بہت خوش تھے.

مگر سب لوگ ارتضٰی کا ردعمل سوچ کر اندر سے تھوڑا ڈرے بھی ہوئے تھے. کیونکہ آج تیسرا دن تھا ماہ روش کو ہوش میں آئے. لیکن اُس کی ضد پر کسی نے ارتضٰی کو خبر نہیں کی تھی.

ماہ روش کو سب سے ارتضٰی کی دیوانگی اور پاگل پن کا پتا چلا تھا. مگر وہ کسی صورت بھی اِن سب باتوں پر یقین نہیں کر رہی تھی کہ ارتضٰی سکندر اُسے اتنی شدت سے چاہتا ہے. اُس کے مطابق وہ ارتضٰی کے لیے بلکل بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی.

ہاں یہ ضرور ہوسکتا تھا کہ وہ اُس سے ہمدردی کے ناطے اور ماہ روش سے سامنے آنے والے اپنے رشتے کی وجہ سے کچھ بدلہ ہو مگر وہ سب ہرگز محبت اور دیوانگی نہیں ہوسکتی.

کیونکہ ارتضٰی کے مطابق وہ ایک غدار کی بیٹی تھی. جو کبھی بھی کسی بھی وقت اُسے دھوکہ دے سکتی تھی. تو اب کیسے وہ اُسے قبول کرسکتا تھا. ماہ روش کو لگ رہا تھا. یہ سب صرف اپنے گھر والوں کی خوشی کی خاطر کررہا ہے.

" ماما بس. پلیز اگر آپ لوگ اسی طرح مجھے کھلاتے رہے تو بیڈ سے اُٹھنے تک میں نے بہت موٹا ہوجانا ہے."

ماہ روش کے منہ بسورنے پر زینب بیگم نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے آگے ہوکر اُس کا ماتھا چوم لیا تھا. اُن کی نظروں کی پیاس بجھ ہی نہیں رہی تھی.

" بھابھی فکر مت کریں آپ. بھیا پھر بھی آپ سے شادی کرلیں گے. "

منیزہ نے اُسے چھیڑنے کے لیے جان بوجھ کر بھابھی کا لفظ استعمال کیا تھا. جب ماہ روش کا دل اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر ہی زور سے دھڑکنے لگا تھا.

اُسے اب سب کی باتیں جھوٹ ہی لگ رہی تھیں. کیونکہ ہوش میں آئے اُسے آج تیسرا دن تھا اور میجر ارتضٰی سکندر نے اُس کی کوئی خیر خبر نہیں لی تھی.

" مجھے نہیں کرنی شادی وادی کسی بھی کھڑوس سے. "

ماہ روش ناہید بیگم کے کندھے پر سر رکھے پیچھے ہوئی تھی.

جب اُس کے کھڑوس کہنے پر وہاں موجود تمام نفوس کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

" نہیں پھوپھو ہمارے چاچو تو بہت اچھے ہیں. ہاں کبھی کبھی غصہ کرتے ہیں لیکن اگر آپ اُن کو پیاری سی کِسی کرو گی تو وہ بلکل ٹھیک ہوجائیں گے. میں اور ہادی بھی یہی کرتے ہیں. "

طلحہ بہت ہی سمجھداری سے اُسے بتا رہا تھا.

اُس کی بات سن کر جہاں ماہ روش خفت سے سُرخ ہوئی تھی. وہیں باقی سب کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا تھا.

جب اچانک باہر سے ایک ملازمہ بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی.

" وہ بیگم صاحبہ ابھی مین گیٹ پر موجود گارڈ نے کال کی ہے کہ ارتضٰی سر گھر کے اندر داخل ہوچکے ہیں.

اُس کی بات پر ماہ روش کے ساتھ ساتھ باقی سب کا بھی رنگ اُڑا تھا.

" اوہ نو لگتا ہے ارتضٰی سر کو پتا چل چکا ہے. ورنہ اُنہوں نے تو ابھی دو دن مزید وہاں سٹے کرنا تھا. "

زیمل پرسوچ انداز میں بولی.

" ماما مجھے اُن سے نہ ملنا ہے اور نہ ہی کوئی بات کرنی ہے. آپ پلیز اُنہیں یہاں مت آنے دیں. "

ماہ روش دل میں اُٹھتے شور کو دباتی گھبرائے لہجے میں بولی.

سب لوگ ہی اُٹھ کر باہر جاچکے تھے. سوائے زیمل کے. تاکہ ارتضٰی کو اِس بات پر شک نہ ہو کے ماہ روش اِس گھر میں ہی ہے.

مگر وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ آگے بھی ارتضٰی سکندر تھا جس کو بے وقوف بنانا آسان نہیں تھا.

ماہ روش نے زیمل سے کہتے روم کو اندر سے لاک کروا دیا تھا. تاکہ اگر ارتضٰی وہاں آنا بھی چاہیے تو نہ آسکے.

اُس کی معصوم سی احتیاطی تدابیر پر زیمل مسکرائی تھی.

" ماہی یہ بچکانہ حرکتیں کیوں کررہی ہو. تمہیں کیا لگتا ہے تم میجر ارتضٰی سکندر کو روک پاؤ گی اپنے پاس آنے سے.

یا خود رہ پاؤ گی اُن کے بغیر. "

زیمل کی بات پر دو موٹے آنسو ٹوٹ کر ماہ روش کی گالوں پر جاگرے تھے. اُسے خود پر غصہ آرہا تھا کیوں اُس کا دل اُس ستمگر کے معاملے میں اُس سے بے وفائی کر جاتا تھا. اُس کے اتنے ناروا سلوک کے باوجود دل اُسی کا تمنائی تھا.

کیوں وہ اُس کی طرح سخت دل نہیں ہوسکتی تھی.

" وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے زیمل صرف اپنی فیملی کی خوشی کی خاطر مجھے قبول کرنے کی بات کررہے ہیں.

اور پہلے ٹھیک ہی تو کہتے تھے وہ. مجھ جیسی ناجائز اور ایک ملک فروش درندے کی چھاؤں میں پلنے والی لڑکی کو اپنانا کسی بھی شریف انسان کے لیے بہت مشکل ہے. میں چاہتی تھی. وہ پورے دل سے مجھے اپنائیں ایسے مجبوری میں نہیں. "

ماہ روش کی بات پر زیمل گہرا سانس بھر کر رہ گئی تھی. اب اُسے اِس سب پر یقین ارتضٰی کی اپنے لیے چاہت دیکھ کر ہی آنا تھا.

ارتضٰی نے جیسے ہی ڈرائنگ روم میں قدم رکھا وہاں سب لوگ نارمل انداز میں ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے.

" ماہ روش کہاں ہے."

بغیر کوئی اور بات کیے ارتضٰی نے سپاٹ لہجے میں ایک ہی بات پوچھی تھی.

" ہمیں نہیں معلوم. "

زینب نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیا تھا.

" آپ لوگ ابھی تک. ماہ روش کے ہوش میں آنے کی خبر مجھ سے چھپا کر جو غلطی کرچکے ہیں. اُسے مزید مت بڑھائیں. آپ سب کے لیے بہتر ہوگا. "

ارتضٰی مٹھیاں بھینچے سرد لہجے میں بولا.

" اوہ تو لگتا ہے. میجر صاحب ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں. جو کرنا ہیں کر لیں ہم نہیں ڈرتے آپ سے. ماہ روش ہماری بیٹی ہے. اب دوبارہ اُسے آپ کے حوالے کرکے ہم اپنی معصوم بیٹی پر ظلم نہیں کرسکتے. "

ناہید بیگم کو ارتضٰی کی ماہ روش کے لیے اتنی تڑپ اور محبت بہت اچھی لگ رہی تھی. اُن کے بیٹے کو اتنی تکلیفوں کے بعد فائنلی اب سکون ملنے والا تھا. اُس کی محبت ملنے والی تھی.

" اوہ رئیلی تو آپ سب لوگوں کو کیا لگتا ہے. اِس طرح اُسے مجھ سے دور رکھ پائیں گے. آرام سے آپ سب پیچھے ہٹ جائیں ورنہ میں اپنی بیوی کو آپ سب سے چھین کر لے جاؤں گا."

ارتضٰی نے اُنہیں دوبدو جواب دیا تھا. جو سب اُس کے اور ماہ روش کے درمیان موجود اُس کے صبر کو آزما رہے تھے.

" ہماری بیٹی خود تم سے نہیں ملنا چاہتی. اُس کا سختی سے آرڈر ہے کہ کوئی بھی کھڑوس انسان اُس کے آس پاس بھی نظر نہ آئے. "

چچی کی بات سنتے ارتضٰی اپنا سخت انداز بھولتا دل سے مسکرایا تھا. تو اِس کا مطلب اُس کی معصوم سی زندگی اُس سے ناراض تھی. اور یہ سب اُسی کی مرضی سے ہوا تھا.

ارتضٰی کو ہنستے مسکراتے دیکھ گھر کا ہر فرد خوش ہوا تھا. اُس کے سنجیدہ چہرے کے باوجود اُس کی آنکھوں سے خوشی چھلک رہی تھی.

" تو اِس کا مطلب آپ لوگ میری بیوی کو. میرے حوالے نہیں کریں گے. "

ارتضٰی نے سوالیہ انداز میں اپنے تمام فیملی ممبرز کی طرف دیکھا تھا. جن پر چند دنوں کے اندر ہی ماہ روش کی دل موہ لینے والی شخصیت کا جادو چل چکا تھا. وہ تھی ہی اتنی پیاری اور اچھی کے کیسے نہ قریب ہوتے وہ سب اُس کے.

" جی بلکل. اور ہاں آپ اپنی شادی کو جاری رکھیں کسی پر ترس کھا کر اُسے ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے."

زینب بیگم کی بات پر ارتضٰی کا قہقہہ بے ساختہ تھا.

وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا یہ کس کے الفاظ ہیں.

" اوکے آپ سب نے جو کرنا تھا کر لیا. اب جو میں کروں گا اُس پر آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.

اور ہاں میری شادی کی تیاریاں جو روک دی گئی تھیں. وہ دوبارہ سے شروع کر دی جائیں. کیونکہ اب میں کسی کی خاطر زیادہ ویٹ نہیں کرسکتا."

ارتضٰی اُن سب کو مصنوعی دھمکی دیتے آخر میں آنکھوں میں شرارت لیے بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا.

کیونکہ ناہید بیگم نے اُسے آنکھوں سے اِس وقت ماہ روش سے نہ ملنے کی درخواست کی تھی. اور باقی سب کا انداز بھی کچھ ایسا ہی تھا کیونکہ ماہ روش نے نور پیلس میں آنے کی شرط بھی یہی رکھی تھی کہ وہ لوگ ارتضٰی کو اُس کے سامنے بھی نہیں آنے دیں گے.

جب اُن سب کی ریکویسٹ پر ارتضٰی نے دل پر پتھر رکھتے ابھی ماہ روش کی طرف جانے کا ارادہ ترک کردیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کیا ہوا ارتضٰی سب خیریت ہے نا. "

جاذل نے ارتضٰی کی پانچ مس بیل دیکھ جلدی سے کال بیک کی تھی.

" خیریت تو تمہاری کل نہیں ہوگی. تم نے بھی سب کے ساتھ مل کر جو غداری کی ہے. اُس کی سزا تو بعد میں ملے گی. مگر ابھی فورا یہاں آؤ. اپنی بیوی کو لے کر جاؤ. دن میں اپنے گھروالوں کی وجہ سے نے دل پر جبر کرلیا. مگر اب بلکل بھی نہیں. "

ارتضٰی کی تڑپ پر جاذل مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا تھا.

" بہت مزا آرہا. میجر ارتضٰی سکندر کا یہ دیوانوں والا رُوپ دیکھ کر.

اور آ تو میں جاؤ مگر میری بیوی تمہاری بیوی کی طرح معصوم بلکل بھی نہیں ہے. اُس نے جو وہاں سب کے سامنے مجھے بے عزت کرتے میرے ساتھ آنے سے انکار کردیا تو. ویسے ہی مجھ سے ناراض ہے وہ. "

جاذل بے چارگی سے بولا.

" شرم کرو.اور اپنی حرکتیں ٹھیک کرو. اتنے بڑے آفیسر ہوکر بیوی سے بات کرنے سے ڈرتے ہو."

ارتضٰی نے اُس کا مذاق اڑایا تھا. جس کو انجوائے کرتے جاذل بھی ہنسا تھا. اور کچھ دیر میں وہاں پہنچنے کا کہتے فون بند کردیا تھا.

زیمل ماہ روش کے کمرے کی طرف پانی لے جارہی تھی. جب کوریڈور سے گزرتے کسی نے اُسے بازو سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا.

اِس سے پہلے کے زیمل سچویشن سمجھتی .جاذل نے اُسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اپنی بانہوں میں قید کیا تھا.

" اتنی بے رُخی بھی ٹھیک نہیں ہوتی مائی بیوٹیفل لیڈی."

جاذل نے اُس کے کان کی لوح کو لبوں سے چھوتے ہلکی سے سرگوشی کی تھی.

جاذل کو محسوس کرتے زیمل کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں. اُس دن کے بعد سے وہ جاذل کے سامنے آنے سے مکمل گریزہ تھی. اُسے اپنے دل کی حالت کچھ گڑبڑ ہوتی محسوس ہوئی تھی.

وہ ماہ روش کی حالت دیکھ اِس جان لیوا کام میں پڑنا ہی نہیں چاہتی تھی. مگر وہ اِس بات سے انجان تھی کہ یہ ایک ایسا اَن دیکھا جذبہ ہے جس سے خود کو محفوظ رکھنا بہت مشکل تھا.

" میجر جاذل پلیز. "

زیمل اُس کے حصار سے نکلنے کی تگ و دو کرتی بمشکل بولی تھی. ورنہ اُس کی دھڑکنوں کی آواز اپنے کانوں میں سنتے اُس کا اپنا دل پگھل رہا تھا.

" کیپٹن زیمل کیا میں اتنے دنوں کے آپ کے گریز کی وجہ جان سکتا ہوں. "

جاذل نے زیمل کی کمر پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکاتے اُس کے اُوپر جھکتے اُس کی آنکھوں میں جھانکا تھا.

" ایسا کچھ نہیں ہے. میں بہت بزی تھی. اور ماہ روش کی وجہ سے پریشان تھی. اِس کے علاوہ کوئی بات نہیں."

زیمل نے نظریں چراتے جواب دیا. وہ کسی طرح بھی جاذل کی طلسماتی نگاہوں کے حصار میں نہیں آنا چاہتی تھی.

جاذل اُس کے انداز دیکھ کر مسکرایا تھا.

" رئیلی مطلب میری اُس دن والی حرکت بُری نہیں لگی تھی آپ کو. دوبارہ بھی ایسا کرنے کی اجازت ہے. "

جاذل کا اشارہ جوس میں دوا ملانے کے ساتھ ساتھ زیمل کو کس کرنے کی طرف بھی تھا.

اُس نے زیمل کی ٹھوڑی کو انگلی سے چھوا تھا.

" دیکھیں میجر جاذل آپ زیادہ فری ہورہے ہیں. اور آپ بھول رہے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک کنٹریکٹ ہوا تھا."

زیمل خود کو اُس کے آگے کمزور پڑتا دیکھ جو منہ میں آیا تھا بول گئی تھی. جب اُس کے سنجیدہ انداز پر جاذل چونکا تھا.

اُسے تو لگا تھا کہ زیمل بھی اُس جیسی فیلنگز کا ہی شکار ہے. مگر زیمل کا سپاٹ انداز دیکھ جاذل پیچھے ہٹا تھا.

زیمل نے جاذل کے پیچھے ہونے پر سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا.

آنکھوں میں موجود پہلی والی شریر مسکراہٹ اب ختم ہوچکی تھی.

" آئم سوری. مجھے واقعی اپنی حد نہیں بھولنی چاہیے تھی. "

جاذل زیمل کو اپنے حصار سے آزاد کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.

زیمل کو اُس کا یوں دور جانا اور اپنا روڈ لہجہ اچانک بہت بُرا لگنے لگا تھا. اُسے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا. وہ پانی کی بوتل پاس پڑے ٹیبل پر رکھتی باہر کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے نیم تاریکی میں ڈوبے کمرے میں قدم رکھا تھا. جہاں اُس کی عزیز ہستی موجود تھی.

یہاں آنے سے پہلے زینب اور ناہید نے اُسے ماہ روش کے حوالے سے بہت ساری ہدایت کی تھی. وہ اچھے سے جانتی تھیں ارتضٰی کے غصے کو اِس لیے ماہ روش کی ہر بات کو تحمل سے سننے کا کہا گیا تھا اُسے.

کیونکہ ماہ روش نے اُن سب کو منع کیا تھا کہ وہ کسی صورت ارتضٰی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی مگر شاید وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ ارتضٰی سکندر ہے جسے روکنا ناممکن تھا.

ارتضٰی کی بے تاب نظروں نے بیڈ پر لیٹے اُس نازک وجود کی طرف دیکھا تھا. جو ہمیشہ اُس کی نفرت برداشت کرتی آئی تھی.

اور وہی نفرت اب شدید محبت میں تبدیل ہوکر پچھلے کئی دنوں سے اُسے سلگائے ہوئے تھی.

کمرے میں مدھم سی چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی. جس کی وجہ سے ماہ روش کی دودھیا رنگت مزید دھمک رہی تھی.

ماہ روش پوری طرح گردن تک کمبل میں لپٹی ہوئی تھی. اُس کی ایک کلائی کمبل سے باہر تھی. جس پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی. اور ماتھے پر بھی چوٹ کا نشان تھا.

ارتضٰی کتنی دیر اُس کا ایک ایک نقش آنکھوں میں جذب کرتا رہا تھا. اور بے اختیار ہوتے اُس کی پیشانی پر لب رکھ دیے تھے.

اُس نے ماہ روش کے پاس لیٹتے اُس کا سر اپنے سینے پر رکھ لیا تھا. اور اُس کی کمر کے گرد بازو لپیٹتے اُسے نرمی سے خود میں بھینچا تھا.

ارتضٰی کے انداز میں فکر اور احتیاط کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. وہ اُسے اتنی نرمی سے چھو رہا تھا جیسے وہ کانچ کی گڑیا کہیں ٹوٹ نہ جائے.

ماہ روش نے کسمساتے ارتضٰی کا کالر اپنی مٹھی میں دبوچا تھا. اور مزید اُس کے قریب ہوتے اُس کی گردن میں اپنا منہ چھپا لیا تھا. جیسے اُسے نیند میں بھی ارتضٰی کا لمس محسوس ہورہا ہو. اور وہ اُس کی قربت میں سکون محسوس کررہی ہو.

ارتضٰی نے ماہ روش کو محبت پاش نظروں سے دیکھا تھا. جو اب بلکل اُس کے ساتھ چپک کر سو چکی تھی.

ارتضٰی کو ایسا لگا تھا جیسے اُسے ہمیشہ سے رُوٹھا اپنا سکون واپس مل گیا ہو. ماہ روش کا نرم گرم وجود اُسے زندگی کا خوشگوار احساس بخش رہا تھا.

اُسے خود پر جی بھر کر غصہ آرہا تھا. اُس نے کتنی بار دھتکارا تھا ماہ روش کو. جو صرف پیار اور محبت کے قابل تھی. جس کا کبھی کہیں کسی بات میں کوئی قصور رہا ہی نہیں تھا.

ارتضٰی نے جھک کر اُس کے بالوں پر ہونٹ رکھے تھے. جو دوائیوں کے زیرِ اثر نیند میں تھی. اور نہیں جانتی تھی جس کھڑوس کے سامنے بھی نہیں آنا چاہتی تھی. اِس وقت اُس کی بانہوں میں سمٹی ہوئی تھی.

ماہ روش کی سانسیں ارتضٰی کو اپنی گردن پر محسوس ہورہی تھیں. اور اُس کے نازک سے ہاتھ کی گرفت ابھی بھی ارتضٰی کے کالر پر تھی.

ایک لمحے کے لیے بہت دلکش مسکراہٹ نے ارتضٰی کے لبوں کا احاطہ کیا تھا. ارتضٰی سکندر کے گریبان تک پہنچنا ناممکن تھا. اور اُس کی لاڈلی بیگم صاحبہ نیند میں بھی اُسے دبوچے ہوئے تھیں.

ارتضٰی نے اُس کے ہاتھ کو ہلکے سے چوما تھا. اور چہرا اُس کی سیاہ نرم زلفوں میں چھپاتے پر سکون سا آنکھیں موند گیا تھا.

جس سکون کے لیے وہ سالوں سے تڑپ رہا تھا. آج آخر کار وہ اُسے نصیب ہو ہی گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کیا کروں میں کیسے بتاؤں ارحم کو اپنی فیلنگز. اِس سے پہلے کے ارحم مجھے خود سے دور کرنے کے لیے کوئی انتہائی قدم اُٹھائیں. مجھے اُنہیں بتانا ہوگا کہ میں اُن سے بہت پیار کرتی ہوں. اور کسی صورت علیحدہ نہیں ہونا چاہتی. "

ریحاب کمرے میں کب سے چکر کاٹتی ہلکان ہورہی تھی. مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.

جب ارحم سے پیار کا ناٹک کرنا تھا تو اُس نے کتنے آرام سے ارحم کو ہر بات کہہ دی تھی. مگر اب جب سچ میں وہ اُس کے لیے فیل کرنے لگ گئی تھی تو کچھ بھی بولنا اُس کے لیے جان لیوا ثابت ہورہا تھا.

وہ ماہ روش سے مل کر اُس سے معافی بھی مانگ چکی تھی. مگر ارحم کی طرف سے ابھی بھی اُس کی سزا ختم نہیں ہوئی تھی. وہ گھر بہت کم آتا تھا اور اگر آتا بھی تو اُس سے کوئی بات نہیں کرتا تھا. ریحاب اب تنگ آچکی تھی اِس سب سے.

صائمہ بیگم کے کہنے پر اُس نے یونیورسٹی دوبارہ سے جوائن تو کر لی تھی. مگر اُس کا دماغ بار بار بھٹک کر ارحم کی طرف ہی چلا جاتا تھا.

اُس نے سوچ لیا تھا کہ ارحم کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کریں گی. اگر ارحم نے اُسے انکار کیا تو وہ ہمیشہ کے لیے ارحم کو چھوڑ کر اپنی دنیا میں واپس چلی جائے گی. یہ فیصلہ اُس کے لیے بہت مشکل تھا مگر وہ اُس پر زبردستی مصلت نہیں ہونا چاہتی تھی.

لیکن سب سے بڑی مشکل اُس کے لیے تھی کہ وہ ارحم کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیسے کرے. ارحم کا روڈ بی ہیوئیر دیکھ کر اُس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی.

جب کچھ سوچتے اُس نے اپنی ڈائری کا پیج پھاڑتے اپنی خوبصورت سی رائٹنگ میں اپنے جذبات لکھنے شروع کردیئے تھے.

اُس نے وہ تمام فیلنگز لکھ دی تھیں جو وہ ارحم کے لیے اپنے دل میں رکھتی تھی. اور شاید وہ زبان سے اُسے کبھی نہ کہہ پاتی.

وہ ابھی پیج فولڈ ہی کر رہی تھی جب اُسے ارحم کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا. وہ ایکسائیٹڈ ہوتی فوراً ٹیرس کی طرف بڑھی تھی. مگر ارحم کے ساتھ اُس کی کسی بات پر ہنستی کوئی لڑکی گاڑی سے نکل رہی تھی. ریحاب اُسے ارحم کی کوئی کولیگ سمجھ کر اگنور کر دیتی مگر جس طرح وہ لڑکی ارحم کو دیکھ رہی تھی وہ انداز ریحاب کو عام بلکل نہیں لگا تھا. اور رات کے اِس پہر کسی غیر لڑکی کو گھر لانا بھی عام بات نہیں تھی. ریحاب کے اندر آگ سی لگ چکی تھی.

اچانک ارحم کی غیر ارادی نظر ریحاب پر پڑی تھی. جس پر شرارتاً ارحم نے اُس لڑکی کا ہاتھ تھام لیا تھا. اور بس یہ منظر دیکھتے نجانے کتنے ہی آنسو ریحاب کے چہرے پر بہہ نکلے تھے. جنہیں کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ارحم دیکھ نہیں پایا تھا.

ریحاب کمرے میں بے چینی سے چکر لگاتے ارحم کا انتظار کر رہی تھی. مگر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی ارحم روم میں نہیں آیا تھا. جب ریحاب صبر کا دامن چھوڑتی کمرے سے نکل آئی تھی.

صائمہ بیگم اور آصف صاحب دو دنوں کے لیے کسی رشتہ دار کی شادی میں کراچی گئے ہوئے تھے. اِس لیے گھر میں ملازموں کے ساتھ ریحاب ہی تھی.

وہ جیسے ہی باہر نکلی ڈرائنگ روم میں بلکل سناٹا چھایا ہوا تھا. ارحم یا اُس لڑکی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا.

ملازمہ سے پوچھنے پر جو خبر اُسے ملی تھی. اُس کے اندر لگی آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا کام کر گئی تھی.

پچھلے ایک گھنٹے سے وہ لڑکی ارحم کے ساتھ ایک ہی کمرے میں موجود تھی. اور ارحم نے کسی کو بھی وہاں آنے یا ڈسٹرب کرنے سے منع کیا تھا.

ریحاب واپس کمرے میں آتے سب سے پہلے کندھے پر ڈالے ڈوپٹے کو دور صوفے پر اُچھالا تھا. پھر ہاتھ میں صائمہ بیگم کے کہنے پر پہنی چوڑیاں اُتار پھینکی تھیں.

اُسے تو لگا تھا ارحم بھی اُس کے لیے فیلنگز رکھتا ہے. مگر اُسے کسی اور لڑکی کے ساتھ اِس طرح دیکھ ریحاب کا دل چیخ چیخ کر رونے پر کررہا تھا.

شروع سے اُس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا تھا. کہ وہ جس سے پیار کرنا چاہتی تھی. وہ انسان اُس سے سب سے دور ہوجاتا تھا. پہلے ماں باپ اور اب ارحم. اُس نے انیس کو بھی اِسی لیے ہمیشہ خود سے دور رکھا تھا.

اور اگر اپنے پیار کو بچانے کی کوشش کی تھی تو اُس پر خود غرضی کا ٹیگ لگا دیا گیا تھا.

ریحاب پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل روئے جارہی تھی. اُس کا دل چاہا تھا ابھی وہاں جاکر ارحم کو اُس لڑکی سے دور کر دے. مگر ابھی اُسے اتنا حق ہی کہاں حاصل تھا. کہ ایسا کچھ کرسکے.

دو گھنٹے ہوچکےتھے اُسے ویسے ہی انگاروں پر لوٹتے. جب اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر ریحاب نے جلدی سے رُخ موڑتے اپنے آنسو صاف کیے تھے.

ارحم نے ایک نظر بیڈ پر رُخ موڑ کر بیٹھی ریحاب کی طرف دیکھا تھا. مگر اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا.

ارحم نے اُسے مخاطب کرتے سلام کیا تھا. مگر جواب ندارد تھا.

" کیا ہوا سب ٹھیک ہے."

ارحم ریحاب کی طرف قدم بڑھاتے بولا.

جب اُس کی آواز سنتے ریحاب کو دوبارہ رونا آیا تھا. مگر وہ بہت مشکل سے ضبط کر گئی تھی.

" ریحاب میں تم سے بات کررہا ہوں. "

ارحم کا لہجہ کچھ تیز ہوا تھا.

" مگر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی."

ریحاب اُس کے قریب آنے پر بیڈ سے اُٹھتے بولی. شدید غصے میں وہ یہ بھول چکی تھی کہ اِس وقت وہ بغیر ڈوپٹے کے موجود ہے.

ارحم نے بلیک کپڑوں میں اُس کے دلکش سراپے کو گہری نظروں سے دیکھا تھا. جو اِس وقت غصے اور ناراضگی سے سُرخ ہوتے چہرے کے ساتھ مزید حسین لگ رہی تھی.

ارحم نے پاس سے جاتی ریحاب کا ہاتھ پکڑ لیا تھا.

اُس کی نگاہیں ریحاب کی سُرخ آنکھوں کا جائزہ لے رہی تھیں.

" تم شاید بھول رہی ہو. ناراض میں تم سے ہوں. تم مجھ سے نہیں. "

ریحاب نے اُس کی بات پر ایک شکوہ بھری نظر اُس پر ڈالتے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی تھی.

جب ارحم کی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے پنک کلر کے پیج پر پڑی تھی. اِس سے پہلے کے وہ آگے بڑھ کر وہ اُٹھاتا. ریحاب نے جھپٹنے کے انداز میں اُسے سے پہلے آگے ہوتے اُس پیج کو اپنی مٹھی میں دبا لیا تھا.

" کیا ہے اِس میں. "

ارحم نے اُس کے ہاتھ سے وہ لینا چاہا تھا. مگر ریحاب ہاتھ کو کمر کے پیچھے لے جاتے دو قدم دور ہوئی تھی.

" کک کچھ نہیں ہے."

ریحاب کو اُس پر اِس وقت بہت غصہ تھا. اِس لیے وہ اب اُسے یہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی.

" اگر کچھ نہیں ہے تو اتنا چھپانے کی کیا بات ہے. "

ارحم سنجیدہ لہجے میں کہتے ریحاب کی طرف بڑھا تھا. جو مسلسل پیچھے کی طرف جارہی تھی. اُس نے ہاتھ ابھی بھی پیچھے کی طرف موڑے ہوئے تھے.

جب اُس کے نفی میں سر ہلانے پر ارحم نے دونوں ہاتھ اُس کی کمر کے پیچھے لے جاکر اُسے اپنے حصار میں لیتے اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا.

ارحم کے اچانک اتنے قریب آجانے پر ریحاب کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں.

" پلیز چھوڑیں مجھے. "

ریحاب نے ارحم کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے کانپتی آواز میں کہا تھا.

" پہلے مجھے دیکھاؤ. اِس میں ایسا کیا لکھا ہے جو تم مجھے دیکھانے سے اتنا گھبرا رہی ہو. کیا ابھی بھی بھروسہ نہیں ہے مجھ پر. "

ارحم کے بولنے پر اُس کے ہونٹ ریحاب کی گردن سے ٹچ ہوئے تھے. اُس کی بات کے ساتھ ساتھ لمس پر بھی ریحاب نے تڑپ کر اُس سے دور ہونا چاہا تھا.

" کچھ نہیں ہے اِس میں. اور آپ کیوں یہاں اپنا ٹائم ویسٹ کرنے آگئے ہیں جائیں. وہاں آپ کی خاص دوست انتظار کر رہی ہوگی آپ کا. "

ریحاب جو پہلے ہی دل برداشتہ ہوئی پڑی تھی. اُس کے طنز پر دوبارہ رونے والی ہوگئی تھی. وہ شاید زندگی میں اتنا کبھی نہیں روئی تھی. جتنا اب اِس شخص کے لیے رو رہی تھی.

" ہمم بات تو ٹھیک ہے تمہاری. مگر پہلے بتاؤ اِس میں کیا ہے. پھر میں چلا جاؤں گا. "

ارحم کو اُس کی جیلسی پر ہنسی تو بہت آئی تھی. مگر وہ ہونٹ دانتوں میں دباتے چھپا گیا تھا. اور اُس کی ہلکی ہلکی سوجی آنکھوں میں دیکھتے بولا.

اُس کی بات سنتے ریحاب نے غصے میں آتے جھٹکے سے خود کو ارحم سے آزاد کروایا تھا. ارحم کے اچانک گرفت ڈھیلی کرنے پر ریحاب لڑکھڑا کر پیچھے گرنے لگی تھی. جب گرنے سے بچنے کے لیے اُس نے ارحم کی شرٹ کو سینے سے پکڑا تھا. مگر اگلے ہی لمحے دھڑام کی آواز کے ساتھ وہ دونوں اُوپر نیچے بیڈ پر گرے تھے.

ریحاب کو چند منٹ لگے تھے اپنے حواس بحال کرتے مگر جیسے ہی وہ خود کو نارمل کرتے سیدھی ہوئی.

ارحم کو بلکل کو اپنے اُوپر دیکھ ریحاب کی سانسیں ایک بار پھر رکی تھیں.

جو بڑے ہی بے باک انداز میں اُسے گھور رہا تھا.

ریحاب نے اب نوٹ کیا تھا کہ باقی دنوں کی نسبت ارحم کا موڈ آج کافی بہتر تھا.

ریحاب نے اُس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے اُسے پیچھے کرکےاُٹھنا چاہا تھا. مگر ارحم نے اُس کی دونوں کلائیوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتے اُس کے سر کے اردگرد بیڈ سے لگا دیا تھا.

وہ اُس کے اچانک بدلتے انداز پر گھبرائی تھی. جب ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالتی وہ شرم سے سُرخ پڑی تھی.

وہ بغیر ڈوپٹے کے فٹنگ والے ڈریس میں اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت اُس کی قید میں تھی.

ارحم نے غور سے ریحاب کی طرف دیکھا تھا. جس سے دور رہ کر پیچھلے دنوں وہ اُس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی سزا دے رہا تھا.

ماہ روش کے ہوش میں آنے کے بعد بہت حد تک اُس کا غصہ ختم ہوچکا تھا. مگر وہ اِس بات پر شیور نہیں تھا کہ ریحاب بھی اُسے چاہتی ہے یا ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ صرف وقتی جذبہ ہے مگر آج اُس کی جیلسی اور اپنے لیے اتنی شدت پسندی اُس کو بہت سکون دے گئی تھی. صرف وہی نہیں ریحاب بھی اُسے چاہتی تھی.

ارحم نے بے اختیار ہوتے جھک کر اُس کی دونوں آنکھوں کو چوما تھا. جو مسلسل رونے کی وجہ سے بلکل لال ہوچکی تھیں.

" وہ لڑکی کون ہے جس کے ساتھ آپ پورے تین گھنٹے ایک ہی روم میں رہے. "

ریحاب نے چھوٹتے ہی پہلا سوال ہی یہی کیا تھا.

جس پر ارحم اب کی بار اپنا قہقہ نہ روک پایا تھا.

" قسم سے کولیگ ہے وہ میری اِس سے زیادہ کچھ نہیں. "

ارحم نے اُس کی کیفیت کو دیکھتے نرمی سے جواب دیا تھا.

مگر ریحاب اب بھی شکی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی. اور ایک بار پھر اُس سے اپنے بازو چھڑوانے چاہے تھے. ارحم اُس کی حرکت پر کوئی ردعمل دیتا جب اچانک ٹائم دیکھتے وہ سیدھا ہوا تھا.

" ابھی بہت ارجنٹ کام ہے کچھ ہی دیر میں واپس آرہا ہوں. مگر میرے آنے تک جاگتی رہنا آکر تمہاری ساری غلط فہمی دور کرتا ہوں. اگر میرے واپس آنے پر سوتی ملی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. "

ارحم جلدی جلدی اپنا موبائل اور کیز پاکٹ میں چیک کرتا بولا.

اور ریحاب کو بیڈ سے اُٹھتا دیکھ ایک بار پھر اُس کے ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے لگاتے جھک کر اُس کے کھلے گلے سے جھانکتی دودھیا گردن پر پوری شدت سے اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے وہاں سے نکل گیا تھا.

جب کے ریحاب کو جاتے جاتے کی جانے والی اُس کی بے باک حرکت پر اپنی جان حلق میں اٹکتی محسوس ہوئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


صبح آٹھ بجے کے قریب ماہ روش کی آنکھ کھلی تھی. آنکھیں کھلتے ہی اُس کے نتھنوں سے جو خوشبو ٹکرائی تھی اُس کے حواس جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھی.

اُس نے جلدی سے اپنا چہرا پیچھے کیا تھا. جب اپنی پوزیشن سمجھتے اُس کا دل بُری طرح سے دھڑکا تھا. ارتضٰی کی بانہوں میں اپنے قریب اُس کی گرم سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرتے ماہ روش کی سانسیں رُکی تھیں.

وہ ضدی اکڑو شخص اپنی منوا کر ہی رہا تھا. اور اُس تک پہنچ چکا تھا.

اُس نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تھا. اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے. وہ بلکل ارتضٰی کے ساتھ چپکی ہوئی تھی. اپنے زخموں کی وجہ سے وہ زیادہ مومنٹ نہیں کرسکتی تھی. اور اگر زرا سا ہلتی بھی تو ارتضٰی کی آنکھ کھل جانی تھی. جس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہیں پائی تھی.

کیونکہ ابھی وہ نیند میں تھا تو اُس کا یہ حال تھا. اگر جاگ جاتا تو اُس کے سامنے اپنی پوزیشن پر خفت کے مارے اُس نے اُوپر ہی پہنچ جانا تھا.

ماہ روش نے دل ہی دل میں زیمل کو اچھی خاصی گالیوں سے بھی نوازا تھا. جو اُس کے ساتھ رہنے کا وعدہ کرکے اچانک غائب ہوگئی تھی.

ماہ روش نے ایک بار بھی سر اُٹھا کر ارتضٰی کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا تھا. کیونکہ وہ اب دوبارہ اُس ساحر کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی. مگر دل کی دہایا مسلسل جاری تھیں. جو اتنے دنوں بعد اُسے دیکھ کر آنکھوں کی پیاس بجھانے پر مجبور کررہا تھا.

مگر ماہ روش نے اپنے دل کو سنبھالتے ارتضٰی کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی تھی.

اُس نے اپنی کمر کے گرد لپٹے ارتضٰی کے بازو کو ہٹانا چاہا تھا. مگر یہ کیا ہٹنے کے بجائے گرفت اور مضبوط ہوئی تھی. ماہ روش نے جھٹکے سے گردن گھما کر ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو اب آنکھیں کھولے مسکراتی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.

اور جس بات کا اُسے ڈر تھا وہی ہوا تھا. ماہ روش اُس کے مسکرانے پر اُس کے رخساروں پر بننے والے ڈمپل دیکھ کر بے خود ہوئی تھی. کتنی حسرت تھی نا اُسے یہ قریب سے دیکھنے کی محسوس کرنے کی.

ماہ روش کے دیکھنے پر ارتضٰی کے لب کھل کر مسکرائے تھے

" گڈ مارننگ زندگی. "

ارتضٰی نے سر کو ہلکا سے آگے کرتے ماہ روش کی دونوں آنکھوں کو باری باری چوما تھا.

اُس کی آواز اور ہونٹوں کے نرم لمس پر ماہ روش جیسے ہوش میں آئی تھی.

اُس نے فوراً اپنا چہرا جھکا لیا تھا.

اُس کا چہرا لال ٹماٹر ہوچکا تھا. ارتضٰی اُس کے منہ پھیرنے پر ہولے سے مسکرایا تھا.

" کیسی طبیعت ہے اب. "

ارتضٰی جان بوجھ کر فارمل ہوا تھا. مگر ماہ روش اُس کو مکمل اگنور کرنے کی کوشش کرتے دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی.

ارتضٰی اُس کی ناراضگی اچھے سے سمجھ رہا تھا. لیکن اُسے ماہ روش کا یہ انداز بھی دیوانہ کررہا تھا.

" میرے کان آواز سننا چاہتے ہیں تمہاری کچھ تو بولو. "

ارتضٰی نے ماہ روش کا مزاحمت کرتا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے کہا. مگر ماہ روش نے اُس کا تب بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا.

" رئیلی تو مطلب میری بات نہیں مانو گی تم. ڈونٹ وری میں خود منوا لیتا ہوں. "

ارتضٰی نے اُس کا ہاتھ چھوڑتے ٹھوڑی سے تھام کر اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا. اور فوراً ماہ روش کے ہونٹوں پر جھکا تھا.اُس کے انداز پر گھبراتے اِس سے پہلے کے وہ اُس کے ہونٹوں کو قید کرتا ماہ روش نے جلدی سے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا.

" سر پلیز یہ آپ کیا کررہے ہیں. "

ارتضٰی کروٹ کے بل اُس کے اُوپر جھک گیا تھا. ارتضٰی کی شوخ نظریں اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتے ماہ روش کے پسینے چھوٹ رہے تھے. اُس نے پہلے کب دیکھا تھا ارتضٰی کا ایسا رُوپ.

" پیار کررہا ہوں. اور پلیز مجھے ڈسٹرب مت کرو. "

ارتضٰی نے اپنے ہونٹوں پر رکھے ماہ روش کے ہاتھ کی ایک ایک اُنگلی کو لبوں سے چھوا تھا. ماہ روش کو اُس کے انداز پر اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی.

ارتضٰی سکندر کی اِن شدتوں سے تو وہ لاعلم تھی.

اُس کے ہر انداز کی طرح پیار جتانا بھی دھونس جماتا ہی لگا تھا.

نہ اپنے پچھلے رویے پر ندامت کا اظہار کیا تھا اور نہ ہی اپنی شادی والی بات کلیئر کی تھی.

اور اب بھی میجر صاحب اُسے آرڈر ہی دے رہے تھے.

کھڑوس کہیں کا.

ماہ روش دل میں بڑبڑانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی تھی.


" میجر ارتضٰی سکندر میں اب بھی ایک غدار کی بیٹی ہی ہوں. جس سے آپ کو شدید نفرت ہے جو کبھی بھی آپ کو دھوکہ دے سکتی ہے. "

ماہ روش اپنے دل میں اُٹھتے احتجاج کو دبا نہیں پائی تھی. اور نم آنکھوں میں شکوہ لیے اُس کی طرف دیکھا تھا.

جو آنکھوں میں جذبوں کا جہاں آباد کیے اُسے دیکھ رہا تھا. ماہ روش کو لگا تھا ارتضٰی کو اُس کی بات سن کر غصہ آجائے گا اور وہ اُس سے دور ہوجائے گا مگر اُس کی بات سنتے ارتضٰی نے نرم مسکراہٹ سے اُس کی طرف دیکھا تھا. ماہ روش کو حیرت نے گھیرا تھا.

" میری جان بہت جلد اِس بات کا جواب بھی دے دوں گا میں تمہیں. بس اب تک کے لیے صرف ایک بات یاد رکھنا کہ ارتضٰی سکندر کی زندگی میں اِس وقت جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ اُس کی بیوی ہے. جس پر صرف اُسی کا حق ہے. اور اِس دنیا میں ابھی تک کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا کہ جو مجھ سے اُسے یا اُس سے پیار کرنے کا حق چھین سکے. وہ خود بھی نہیں. "

ارتضٰی نے گھمبیر لہجے میں اُسے باور کرواتے اُس کے ہونٹوں کو ہلکے چوما تھا. اور پیچھے ہٹا تھا. ماہ روش نے خفا نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جس سے وہ بہت لڑنا چاہتی تھی. بہت شکوے کرنا چاہتی تھی. مگر اُسے تو جیسے پرواہ ہی نہیں تھی کسی بھی بات کی.

ارتضٰی نے ایک نظر ماہ روش کے رُوٹھے انداز کی طرف دیکھا تھا. اُس کے پھولے چہرے پر اُسے بے اختیار ٹوٹ کر پیار آیا تھا.


مگر تھوڑا سا انتظار مزید کرنا تھا پھر وہ اُس کے سارے گلے شکوے دور کرنے والا تھا. اُس کی ہر محرومی ہر ادھوری خواہش کو اپنی بے پناہ چاہت سے پوری کرنے والا تھا.

وہ اُس کے تمام شکوے ناراضگی اور غلط فہمیوں کو اپنی محبت سے مٹانے والا تھا.

مگر اُسے کچھ دنوں کا ویٹ تھا. جب اُس کی ماہ روش بلکل ٹھیک ہوکر اُس کی تمام تر شدتیں سہنے کے لیے تیار ہوگی.

" مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا. میں اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوں. اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کا حق رکھتی ہوں. "

ارتضٰی ابھی اُٹھا ہی تھا. جب ماہ روش کی آواز پر پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا تھا.

" تم مجھے غصہ دلانے کی کوشش کررہی ہو. "

ارتضٰی ہنسا تھا. جب ایک بار پھر اُس کے ڈمپلز واضح ہوئے تھے. ماہ روش نے فوراً نظروں کا زاویہ بدلہ تھا.

" میں ایسا کچھ نہیں چاہتی اور نہ ہی میں اب آپ کے غصے سے ڈرتی ہوں. "

ماہ روش اُٹھ کر بیٹھتے بولی. اُس کا ارتضٰی پر غصہ مزید بڑھ گیا تھا. جسے باہر نکالنے کا موقع نہ ملنے پر وہ عجیب چڑچڑی سی ہوگئی تھی.

" رئیلی نہیں ڈرتی تم. ویسے اب ایسا ہوگا بھی نہیں. اب تم میرے غصے سے نہیں بلکہ میرے بے پناہ پیار سے ڈرو گی. "

ارتضٰی واپس اُس کے قریب ہوا تھا. اور اُس کی چھوٹی سی ناک پر ہلکے سے بائٹ کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.

اُس کا دل ماہ روش کو اِس طرح ناراض چھوڑ کر جانے پر بلکل نہیں تھا. مگر آج اُسے بہت امپورٹنٹ کام کے لیے نکلنا تھا. کیونکہ وہ ذی ایس کے کو اُس کی زندگی کی پہلی سب سے بڑی ہار دینے والا تھا.

جس کے بعد وہ کچھ ٹائم صرف اور صرف ماہ روش کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارحم کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی مگر ریحاب کی دھڑکنیں ابھی بھی معمول پر نہیں آرہی تھیں.

ارحم کے انداز سے لگ رہا تھا وہ اُسے معاف کر چکا ہے. مگر ریحاب ایک بار اُس سے بات کلیئر کرکے معافی مانگنا چاہتی تھی. لیکن ارحم کی آج کی شوخیاں دیکھ اُسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اُس سے بات کیسے کرے.

ایک دفعہ تو گھبرا کر ریحاب کا دل چاہا تھا کہ سو جائے. مگر پھر ارحم کی پیار بھری دھمکی یاد آتے اُس کی دھڑکنے تیز ہوجاتی تھیں.

دو گھنٹے ہونے والے تھے جب ریحاب اپنی سوچوں سے گھبرا کر بیڈ کی طرف بڑھی تھی. اور خود کو اچھے سے کمبل سے کور کرتے سونے کی کوشش کرنے لگی تھی. مگر رات کے دو بج جانے کے باوجود نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی.

جب اچانک اُسے ارحم کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا. ریحاب کی دھڑکنوں کی رفتار نے مزید سپیڈ پکڑی تھی. اگلے پانچ منٹ میں ارحم کمرے میں داخل ہوا تھا.

جب ریحاب پر نظر پڑتے ہی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر بکھری تھی. وہ جانتا تھا اُسے آگے سے کوئی ایسا نظارہ ہی ملنے والا ہے.

واش روم سے چینج کرکے نکلتے ارحم ریحاب کی طرف بڑھا تھا. ریحاب نے کمبل کو سر سے پیر تک اوڑھ رکھا تھا. ارحم دو منٹ تو اُس کے پاس کھڑے جائزہ لیتا رہا کہ وہ واقعی سو گئی ہے یا صرف اُس سے بچنے کے لئے ایکٹنگ کی جارہی ہے.

ارحم کے بلکل پاس کھڑے ہونے کی وجہ سے ریحاب کو اپنی سانس رُکتی محسوس ہوئی تھی.

ارحم نے اچانک آگے ہوتے ریحاب کے اُوپر سے کمبل کھینچ کر دور اُچھال دیا تھا. ریحاب جو پہلے ہی گھبرا رہی تھی. اِس اچانک حملے پر ہڑبڑا کر اُٹھی تھی.

" یہ کیا بدتمیزی ہے. "

ریحاب نے غصے سے ارحم کو گھورنا چاہا تھا. مگر اُس کی آنکھوں کی گستاخیوں پر گھبرا کر جلدی سے نگاہوں کا زاویہ بدلہ تھا.

" بدتمیزی یہ نہیں میڈم وہ تھی جو ابھی آپ کررہی تھیں. میں نے بولا تھا نا سونے کی کوشش مت کرنا ورنہ بہت بُرا ہوگا. "

ارحم نے دیکھا ریحاب نے کمبل میں کور کرنے سے پہلے خود کو دوپٹے میں اچھے سے کور کر رکھا تھا. ایک محظوظ کن مسکراہٹ ارحم نے ریحاب کی طرف اچھالی تھی.


جو آہستہ آہستہ بیڈ کے دوسرے طرف ہوتی وہاں سے کھسکنے کی کوشش کر رہی تھی. جب اُس کی فرار کی حرکت نوٹ کرتے ارحم نے ایک ہی جست میں اُس پر جھپٹتے اُسے اپنے قبضے میں کیا تھا.

ایک بار پھر ریحاب کی دونوں کلائیاں ارحم کی قید میں تھیں. جنہیں وہ نرمی سے پکڑ کر تکیے سے لگا چکا تھا.

" ناکام کوشش کیوں کر رہی ہو. مجھ سے فرار اب ناممکن ہے میری جان."

ارحم نے جھک کر ریحاب کے ماتھے پر ہونٹ رکھے تھے.

" وہ لڑکی کون تھی. "

ریحاب کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی. اُس کے بیویوں والے شکی انداز پر ارحم کا قہقہ برآمد ہوا تھا.

" کافی خوبصورت تھی نا وہ. لگتا ہے تمہیں بھی بہت اچھی لگی ہے. "

ارحم نے شرارتی انداز اپناتے اُسے مزید چڑایا تھا.

" اوکے بہت خوبصورت ہے نا تو جائیں اُسی کے پاس دوبارہ. یہاں واپس آنے کی کیا ضرورت تھی. "

ارحم کی بات ریحاب واقعی سیریس لے گئی تھی. اور اُس کی گرفت سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی خفا لہجے میں بولی.

ارحم کو ریحاب کے خفا انداز پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا. مگر اُسی کی آنکھوں کی نمی نوٹ کرتے اُسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا.

" وہ میری ایک کولیگ ہے. اِس سے زیادہ کچھ نہیں. "

ارحم نے اُس کی فکر ختم کرنا چاہی تھی. ریحاب نے اُس کے سنجیدہ انداز پر بغور اُس کو جائزہ لیا تھا.

" اگر ایسا ہے تو آپ اُس کے ساتھ روم میں اتنا ٹائم کیا کررہے تھے. اور ساتھ میں کسی کو ڈسٹرب کرنے سے بھی منع کیا تھا. "

بات کرتے ریحاب کی گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے.

جب کے ریحاب کی اپنے لیے اتنی پوزیسونیس دیکھ ارحم کو خوشی ہوئی تھی مگر ریحاب کے آنسو اُسے بے چین کر گئے تھے.

" ایسا کچھ نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو. ہم دونوں ایک بہت امپورٹنٹ مشن ڈسکس کررہے تھے. اِس لیے میں نے ملازمہ کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی وہاں آکر ہمیں ڈسٹرب نہ کرے. اور کیا اگر ایسا کوئی چکر وکر ہوتا تو میں اُس لڑکی کو گھر لاتا کیا."

ارحم کی بات سنتے ریحاب کی ٹینشن ختم ہوئی تھی. مگر شرارتی انداز میں کہی گئی ارحم کی آخری بات پر ریحاب نے اُسے گھورا تھا.

ارحم نے جھک کر اُس کی دونوں گالوں سے ایک ایک کرکے آنسو اپنے ہونٹوں سے چن لیے تھے. جبکہ ارحم کے پرشدت لمس پر ریحاب کا دل دھک سے رہ گیا تھا. ہاتھ بھی قید ہونے کی وجہ سے وہ کوئی موومنٹ نہیں کر پائی تھی.

اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا ہو.

" ریحاب تمہارے دل میں جو بھی خدشات ہیں اُنہیں ختم کر دو. کیونکہ میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں. تم میری زندگی کی وہ پہلی لڑکی ہو جس نے میرے دل تک رسائی حاصل کی ہے. اور اب تم سے نکاح کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم ہی میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو.

تمہاری معصومیت اور باقی تمام لڑکیوں سے منفرد انداز نے مجھے تم سے شدید محبت کرنے پر مجبور کر دیا ہے. اور یہ سب دوسری ملاقات سے ہی شروع ہوچکا تھا مگر ریلائز بعد میں ہوا. میں نے تمہاری اِس شادی پر رضامندی کی وجہ جاننے کے باوجود سچے دل سے تمہیں اپنایا ہے. کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میری محبت تمہیں مجھ پر محبت اور اعتبار کرنے پر مجبور کردے گی.

لیکن تمہارے مجھ پر اعتبار نہ کرنے نے مجھے بہت بُری طرح سے ہرٹ کیا. جس کا غصہ تم سے دور رہ کر نکالتا رہا میں. "

ریحاب جو ارحم کا اتنا خوبصورت اظہار دم سادھے سن رہی تھی. اُس کی آخری بات پر شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی.

ریحاب نے کچھ بولنا چاہا تھا جب ارحم نے اُس کے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر اُسے کچھ بھی کہنے سے روکا تھا.

" میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں ہے. میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر بھروسہ کرو آگے زندگی کے ہر موڑ پر میں ہر حال میں تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا. بولو کیا تم ایسا کرو گی. "

ارحم کی بات پر ریحاب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا.

" اُس دن آپ کو نہ بتانے اور بلانے کا ریزن یہ نہیں تھا کہ مجھے آپ پر ٹرسٹ نہیں تھا. بلکہ میں آپ کو کھونے سے ڈر گئی تھی. "

ریحاب نظریں جھکائے اعتراف کرتی ارحم کے دل کے تار چھو گئی تھی.

جب وہ بہکتے اُس کے ہونٹوں پر جھکا تھا. مگر ریحاب نے جلدی سے چہرہ موڑتے خود کو اُس کے وار سے بچایا تھا.

" ہاہاہاہا تمہیں کیا لگتا ہے اِس طرح کرنے سے بچ جاؤ گی مجھ سے. "

ارحم نے اُس کی حرکت کو بہت انجوائے کیا تھا.

" دیکھیں پلیز ابھی تو ہماری دوستی ہوئی ہے. ابھی اتنی جلدی فری ہونے کی کوشش مت کریں مجھ سے. "

ریحاب نے ارحم کی گرفت ڈھیلی پڑتے دیکھ اُسے پیچھے کی طرف دھکیلا تھا. ارحم بیڈ پر آرام سے لیٹتے اُس کی پھرتیاں دیکھ رہا تھا. ریحاب جیسے ہی بیڈ سے اترنے لگی اُس کا دوپٹہ لیٹے لیٹے ہی ارحم اپنی گرفت میں لے چکا تھا.

" مجھے اتنی مہنگی دوستی بلکل نہیں کرنی. "

ریحاب کے ملتجی انداز پر ارحم نے نفی میں سر ہلاتے اُس کے دوپٹے کو ایک جھٹکا دیا تھا. جس کے نتیجہ میں اگلے ہی پل ریحاب ارحم کے سینے پر آگری تھی.

ارحم نے اُس کے گرد دونوں بازوؤں کا حصار باندھتے اپنے بے حد قریب کیا تھا.

اور دل کی خواہش پر لبیک کہتے اُس کے گلابی رس بھرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ریحاب کی تیز ہوتی سانسوں کو اپنے اندر اتارنے لگا تھا.

ریحاب نے ارحم کو شرٹ کو زور سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا تھا. ارحم کا شدت بھرا لمس اُسے دنیا بھلا رہا تھا. اسی پوزیشن میں رہتے ارحم نے ریحاب کو اپنے نیچے لیتے اُس کا سر تکیے پر ٹکا دیا تھا.

کافی دیر بعد ریحاب کی حالت دیکھتے ارحم نے اُس کی سانسوں کو آزاد کیا تھا. جبکہ ریحاب سُرخ چہرے کے ساتھ گہرے گہرے سانس لیتی ارحم کی شوخ نظروں سے بچنے کے لیے اُسی کے سینے میں چہرا چھپا گئی تھی.

ارحم نے ریحاب کا سر اپنے بازو پر رکھتے اُسے اپنے قریب کیا تھا.

وہ ریحاب کا گریز اچھے سے سمجھ رہا تھا. جو اپنے پیرنٹس کی رضامندی کے بغیر یہ رشتہ شروع نہیں کرنا چاہتی تھی. اِس لیے ارحم نے اُس کی خواہش کو ترجیح دیتے اپنے بے قابو جذبوں پر بند باندھ لیا تھا.

جبکہ ریحاب کو بنا کہے ارحم کے سمجھ جانے پر اپنے دل میں اُس کا مقام مزید اُونچا محسوس ہوا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


جاذل کا موڈ کل زیمل سے ملاقات کے بعد سخت آف تھا. اُسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا. کہ اُسے اچانک ہوا کیا تھا. وہ کیوں زیمل کی طرف اتنا اٹریکٹ ہورہا تھا. وہ اپنے رشتے کی اصلیت سے اچھے سے واقف تھا.

مگر پھر بھی دل نجانے کیوں بے ایمان ہورہا تھا. زیمل نے اُسے ٹھیک ہی تو کہاں تھا. اِس لیے جاذل نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب ایسی کوئی بے اختیار حرکت نہیں کرے گا بلکہ سرے سے ہی زیمل کو اگنور کردے گا تاکہ دل اُس کے بارے میں کوئی بے ایمانی نہ کرسکے.

جاذل اپنی ہی سوچوں میں گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا. جب اچانک کوئی لڑکی ایک طرف سے بھاگ کر آتی بہت زور سے اُس سے ٹکرائی تھی جاذل فوراً اُسے سنبھالتا نہیں تو ضرور اُس نے زمین بوس ہوجانا تھا.

اُس لڑکی نے بھی سنبھلتے بڑی ادا سے جاذل کی شرٹ کو دونوں کندھوں سے جکڑا تھا.

جب جاذل اُسے سیدھا کھڑا کرتے فوراً پیچھے ہٹا تھا.

" تھینکیو سو مچ آپ نے مجھے گرنے سے بچا لیا. "

سونیا بڑی نزاکت سے مسکراتے بولی. وہ اندر ہی اندر اپنی شاندار ایکٹنگ پر مسکرائی تھی. اُسے جاذل پہلی نظر میں ہی بہت بھا گیا تھا. اور اُوپر سے اُس کا مغرور انداز سونیا کو مزید دیوانہ کرنے کے لیے کافی تھا.

" آئی تھنک انسان کو اتنا لاپرواہ نہیں ہونا چاہئیے کہ ہر وقت کسی نہ کسی مصیبت کو ہی اپنے گلے لگاتا رہے. "

جاذل نے اُس کے مسکراتے انداز کود دیکھتے ہلکا سا طنز کیا تھا. کیونکہ اُسے یہ لڑکی کافی عجیب سی لگی تھی.

" اگر بچانے والا آپ جیسا ہو تو میں دنیا جہان کی مصیبتوں کو اپنے گلے سے لگانے کے لیے تیار ہوں. "

سونیا نے جاذل کے سنجیدہ انداز کا کھلکھلاتے ہوئے جواب دیا تھا.

اُس کی بات پر جاذل نفی میں سر ہلاتے وہاں سے جانے لگا تھا. جب وہ دوبارہ اُس کے سامنے آئی تھی.

" اوہ ہو لگتا ہے آپ مائینڈ کرگئے میں تو صرف مذاق کر رہی تھی."

سونیا ایک بار پھر کھلکھلائی تھی.

" لیکن میں نہ ہی اجنبیوں سے مذاق کرتا ہوں اور نہ ہی مجھے دوسروں سے یہ سب پسند ہے."

جاذل اپنے مخصوص انداز میں بولا.

" اوکے سوری. مگر مجھے اُس دن کے لیے شکریہ ادا کرنا تھا. جیسے آپ نے غنڈوں سے میری جان اور عزت بچائی بہت احسان مند ہوں میں آپ کی.

ویسے کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں."

سونیا نے انتہائی تہذیب سے بات کرتے اُسے سوال کیا تھا.

" جاذل ابراہیم. کیا اب میں جاسکتا ہوں. "

جاذل نے اُسے مختصر سا جواب دیتے اُسے آگے سے ہٹنے کا اشارہ کرتے پوچھا.

" نو پلیز صرف ایک آخری سوال. آپ نے اُس دن جس طرح اُن غنڈوں کی ہڈی پسلی ایک کی ویسے کوئی عام انسان تو بلکل نہیں کرسکتا.

آپ کیا کرتے ہیں کیا آپ فورسز کا حصہ ہیں. "

سونیا کی بات پر جاذل نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جس طرح وہ جاذل کو جج کر رہی ہے اُسے بھی وہ کوئی عام لڑکی نہیں لگی تھی.

" نہیں مجھے فورسز والوں سے نفرت ہے. میں ایک بہت عام اور چھوٹا سا بزنس مین ہوں. اور یہ فائٹنگ کی وجہ میرا بلیک بیلٹ ہونا ہے. "

جاذل نے تفصیل بتاتے کہا. جب اُس کے فورسز سے منسلک نہ ہونے کا سن کر سونیا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی. وہ بھی تو نفرت کرتی تھی فورسز والوں سے.

" اور میرا نام سونیا خان ہے. "

سونیا نے جاذل کی طرف ہاتھ بڑھاتے اپنا تعارف کروایا تھا. جسے جاذل نے ناچاہتے ہوئے بھی تھام لیا تھا. اُسے کانفیڈنٹ لڑکیاں پسند تھیں. مگر اتنی بے باک بلکل نہیں

" نائس ٹو میٹ یو مس سونیا. پر ابھی مجھے بہت ارجنٹ کام ہے. سو پلیز گڈ بائے. "

جاذل اب کے سنجیدہ انداز میں اُسے جواب دیتا وہاں سے نکل آیا تھا.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے گھروالوں کو شادی کی تیاری کے لیے دو ہفتوں کا ٹائم دیا تھا. کیونکہ اُسے اِس بات پر بھروسہ تھا. کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ذی ایس کے کو بہت بڑا دھچکا دے گا. اُس کو ارتضٰی آسمان سے اُٹھا کر زمین پر پٹخنے والا تھا.

اور تب تک ماہ روش کی طبیعت بھی کافی حد تک بہتر ہوجانی تھی. ارتضٰی کے لیے اب بہت مشکل تھا ماہ روش سے دور رہنا مگر ذی ایس کے کو اُس کے گناہوں کی سزا دینے کے لیے اُسے کچھ ٹائم ماہ روش سے دور رہنے کی قربانی دینی پڑی تھی.

وہ جب بھی ماہ روش کے بارے میں سوچتا تھا. اُس کا رُوٹھا رُوٹھا سا چہرہ سامنے آجاتا تھا. ماہ روش اب بھی اُس کے پہلے والے رویے کے زیرِ اثر تھی اور اُس کے رُعب کی وجہ سے کھل کر اُس سے لڑ نہیں سکی تھی. مگر وہ اب اپنے اور ماہ روش کے درمیان موجود ہر دیوار کو گرانا چاہتا تھا.

ماہ روش کو اُس کی اصل حیثیت دے کر اُس کو اپنی زندگی میں اُس کے مقام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا.

وہ ماہ روش کی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ اُس کے حوالے سے کتنی اِن سیکیور تھی. اور ہونا بھی چاہیے تھا آج تک ارتضٰی نے اُسے اعتبار بخشا ہی کہا تھا.

ارتضٰی نے اُسے ہمیشہ ہر لمحے بےعزت کیا تھا. جس پر وہ زندگی بھر بھی پچھتاتا تو کم تھا. مگر اب وہ اُسے سب کے سامنے معتبر کرے گا کہ وہ پچھلی ساری باتیں بھول جائے.

اُسے اُس کی اپنی زندگی میں اہمیت سے کبھی روشناس کروایا ہی نہیں تھا. وہ اُسے اب بتانا چاہتا تھا کہ اِس دنیا میں اگر اُس کے جینے کے لیے سب سے ضروری وہ ہی تھی.

ارتضٰی مزید کتنے ہی لمحے اُنہیں سوچوں میں کھویا رہا جب اچانک میٹنگ کا خیال آتے ہی وہ فوراً اپنی سیٹ سے اُٹھا تھا.

اُس نے ارحم, زیمل اور جاذل کو اپنے اگلے لائحہ عمل کے بارے میں آگاہ کرنا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارحم اور زیمل میٹنگ روم میں بیٹھے اپنی ہی کسی امپورٹنٹ بات کو ڈسکس کرتے ہنس رہے تھے. جب جاذل اندر داخل ہوتے زیمل کے ساتھ والی چیئر پر آبیٹھا تھا. اُس نے کافی لیے دیے انداز میں سلام کیا تھا. جو زیمل نے کافی فیل کیا تھا.

زیمل نے موبائل پر مصروف میجر جاذل کو کن اکھیوں سے دیکھا تھا. مگر وہ اِس وقت اُسے مکمل طور پر اگنور کررہا تھا.

" سر نے کچھ بتایا کہ اچانک میٹنگ کیوں بلوائی ہے. "

زیمل نے بات کا آغاز کرتے اُسے مخاطب کرنا چاہا تھا.

" نو. "

جاذل نے بنا اُس کی طرف دیکھے سپاٹ سے انداز میں جواب دیا تھا.

زیمل کو اُس کا انداز کچھ زیادہ ہی روڈ لگا تھا.

جس کی وجہ سے زیمل کو بھی اب جاذل پر غصہ آنے لگا تھا. اُس نے ایسی بھی کوئی غلط بات نہیں کی تھی. کہ جس پر جاذل اتنا اوور ری ایکٹ کررہا تھا.

زیمل جاذل کو گھورتی دل ہی دل میں اُس کے رویے پر کرہنے لگی تھی. اُس نے ہمیشہ اپنے ساتھ جاذل کا نرم رویہ ہی دیکھا تھا. اور کچھ دنوں سے تو اُس کی مکمل توجہ بھی پائی تھی. مگر اب اچانک جاذل کا یوں اجنبی ہوجانا اُسے کسی صورت ہضم نہیں ہورہا تھا.

" السلام وعلیکم! ایوری ون. "

ارتضٰی نے اندر داخل ہوتے اُن سب کو سلام کرتے اپنی طرف متوجہ کیا تھا.

" آپ سب کو یہاں بلانے کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ اب ہم مشن کے دوسرے اور سب سے اہم حصے میں قدم رکھنے والے ہیں. جس میں ذی ایس کے کو ایسا جھٹکا دینا ہے. جو اُسے بُری طرح ہلاکر رکھ دے اور جس سے وہ کبھی سنبھل نہ پائے."

ارتضٰی کی بات پر سب لوگ ہمہ تن گوشہ تھے. اور جو کچھ ذی ایس کے اِس ملک کے ساتھ کرچکا تھا. وہ لوگ پوری طرح اُس کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے.

" سوہا ہمارے لیے کام کرنے کے لیے بلکل تیار ہے. اور بہت جلد وہ اُن کو ہماری ٹیم کی غلط انفارمیشن بھی پہنچا دے گی.

جس کے بعد شروع ہوگا ہمارا کام. ہمارا مین ٹارگٹ ہے ذی ایس کے کے بیٹے برہان اور اُس کی بیٹی جو پچھلے چار سالوں سے اِس کام میں ملوث ہے. اور اب ہمارا ٹارگٹ بھی یہی دو ہی ہیں. "

ارتضٰی کی آنکھوں میں نفرت اور انتقام صاف دیکھا جاسکتا تھا.

" ذوالفقار کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں اُسے اندر سے کمزور اور کھوکھلا کرنا ہوگا. اور اُس کی اولاد ہی اُس کی سب سے بڑی کمزوری ہے. اگر وہ ہی نہیں رہے گی. تو ذوالفقار کا ٹوٹنا کنفرم ہے.

پہلی تمام ٹیمز نے ہمیشہ اُس کی طاقت کو اپنی طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی ہے. اور ذوالفقار ہمیشہ اپنے شاطر پن سے پیچھے سے وار کرتے اُن کو ناکام کیا ہے. اِس بار بھی وہ یہی کرنا چاہتا ہے. مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے. ہم ہمیشہ اُس سے دو قدم آگے ہی رہیں گے.

اب اُس کے عروج کا وقت ختم ہوچکا ہے. اُس کے مقدر میں صرف زوال ہی آئے گا. اور بربادی ہی بردباری ہوگی."

ارتضٰی کی بات سنتے سب کے چہروں پر ایک عزم تھا. اُس درندے کو ختم کرنے کے لیے وہ ہر وقت تیار تھے.

" کیا وہ اتنی آسانی سے ہماری فیک آئی ڈینٹاٹیز پر یقین کر لیں گے. اور ماہ روش اگر اُنہیں زرا بھی ماہ روش پر شک ہوگیا تو. "

زیمل کو ماہ روش کی فکر ہوئی تھی.

ماہ روش کے نام پر ارتضٰی نے فوراً زیمل کی طرف دیکھا تھا.

" ماہ روش پر اب اُس گھٹیا شخص کا سایہ بھی نہیں پڑسکتا."

ارتضٰی کے اٹل انداز پر زیمل سمیت ارحم کو بھی بہت خوشی ہوئی تھی.

" لیکن ہم ذوالفقار کی بیٹی کا تو نام تک نہیں جانتے پھر اُس پر حملہ کیسے کریں گے. مطلب اُس کی شناخت جب اتنی پوشیدہ رکھی گئی ہے تو ہم کیسے پہنچ پائیں گے. اُس تک. "

جاذل کی بات پر ارتضٰی نے ایک معنی خیز مسکراہٹ اُس کی طرف اچھالی تھی.

" آپ بہت اچھے سے جانتے ہیں اُسے. بلکہ کافی قریب سے بھی اِس لیے آپ کو تو پریشان ہونے کی ضرورت بلکل نہیں ہے. "

ارتضٰی کی بات پر سب نے ہی حیرت سے اُسے دیکھا تھا. جن میں سب سے زیادہ حیران تو جاذل خود ہوا تھا.

جب ارتضٰی نے سامنے پڑے ریموٹ کو اُٹھاتے پروجیکٹر آن کیا تھا. مگر سکرین آن ہوتے ہی جو چیز اُن کے سامنے آئی تھی. اُس نے سب کو شاک کر دیا تھا. جاذل بچارہ حیران پریشان سا سکرین پر چلتی اپنی تصویروں کو دیکھ رہا تھا.

یہ تو وہ لڑکی سونیا تھی. جس سے دو دفعہ اُس کی اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی. مگر جس طرح کے پوز تصویر میں کیپچڑ کیے گئے تھے وہ اُسے سب کے سامنے شرمندہ کر گئے تھے.

جاذل نے خونخوار نظروں سے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو مزے سے مسکرا رہا تھا. اُس نے جاذل کے سب سے مل کر اُس سے دھوکہ کرنے کی سزا کے طور پر کیا تھا یہ.

جنگل میں جاذل اور سونیا ایک دوسرے کے بہت ہی قریب کھڑے تھے. اور ایک تصویر میں سونیا نے اُس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.

جاذل کو یاد آیا تھا کہ اچانک سونیا کا پاؤں پھسلا تھا اور گرنے سے بچنے کے لیے اُس نے جاذل کا بازو تھامہ تھا.

اور کل کی ملاقات میں لی گئی تصویریں تو جاذل کو سر جھکانے پر مجبور کر گئی تھیں.

ایک تصویر میں وہ جاذل کی بانہوں میں بہت قریب موجود تھی. جبکہ اگلی میں جاذل اُس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا.

زیمل نے شاکی نظروں سے جاذل کی طرف دیکھا تھا. لیکن ارحم ارتضٰی کی مسکراہٹ دیکھ کچھ نہ کچھ اندازہ کر ہی چکا تھا.

" جیسا یہاں نظر آرہا ہے ویسا کچھ نہیں ہے. دو دفعہ ہی ملاقات ہوئی میری اِس لڑکی سے اور میں بلکل نہیں جانتا تھا کہ یہ ذوالفقار کی بیٹی ہے. "

جاذل نے سب کی طرف دیکھتے اِن ڈائریکٹلی زیمل کو کلیئر کیا تھا.

" واؤ امیزنگ. دو ملاقاتوں میں اتنی فرینکنس. "

زیمل نے بھی سامنے کی طرف دیکھتے ہلکا سا طنز کیا تھا. اُسے اِس وقت جاذل پر بہت غصہ آرہا تھا. جسے سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھی. کیونکہ اُس کے مطابق تو وہ دونوں اپنی زندگی کے کسی بھی فیصلے یا کام میں ایک دوسرے کے پابند نہیں تھے. پھر بھی اُسے جاذل کو اِس طرح کسی اور کے قریب آنا غصہ کیوں دے گیا تھا.

زیمل کے جلے ہوئے انداز پر ارتضٰی اور ارحم نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا تھا.

جاذل نے آگے ہوکر ارتضٰی سے ریموٹ لیتے سکرین آف کر دی تھی.

جب اگلے ہی لمحے ارتضٰی نے سنجیدہ ہوتے واپس اپنی بات شروع کی تھی.

" برہان میرے اور کیپٹن ارحم کا ٹارگٹ ہوگا جبکہ سونیا کو میجر جاذل اور کیپٹن زیمل آپ دونوں ٹریپ کریں گے. کیونکہ جاذل تم پہلے ہی اُسے بتا چکے ہو کہ تم ایک بزنس مین ہو تو اب تمہیں وہی گیٹ اپ اختیار کرتے ہوئے سونیا کہ قریب جانا ہوگا.

وہ لڑکی تم میں بہت انٹرسٹ لے رہی ہے. تو اب تمہیں بھی اُس کا رسپانس دینا ہوگا.

زیمل آپ کو میجر جاذل کی پی آئے کے طور پر ہر وقت اُن کے ساتھ رہنا ہے.

آپ لوگ جانتے ہیں کہ آج تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی عورت کو مہرا بنا کر جیت حاصل کرنا ہمارا شیوا بلکل نہیں رہا. سونیا کا انتخاب اِس لیے کیا گیا ہے کیونکہ وہ خود کئی ہزار بے قصور لوگوں کو اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار چکی ہے. اِس لیے ہمارا ٹارگٹ صرف ذوالفقار کی بیٹی نہیں بلکہ اِس ملک کی دشمن سونیا خان ہے. جس کے لیے ہمارے نزدیک کوئی رعایت نہیں. اگر مقصد صرف ذوالفقار کی بیٹی کو ٹارگٹ کرنا ہوتا تو اُن کی دوسری بیوی کی دونوں اولادوں جو کہ لندن میں مقیم ہیں. اُن تک پہنچنا ہمارے لیے مشکل بلکل نہیں تھا."

ارتضٰی کی بات سن کر وہ لوگ سمجھ گئے تھے کہ وہ ذی ایس کے کو ہرانے کے لیے اُسی کی جیسی چال چلنے والا تھا. مگر اُس میں بھی اپنے اصولوں کو مد نظر رکھا گیا تھا.

ارتضٰی ارحم کو بھی کچھ ہدایت دیتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

ارتضٰی کے نکلتے ہی زیمل بھی فوراً نکل گئی تھی. جاذل نے ٹھنڈا سانس بھرتے خاموشی سے اُسے وہاں سے جاتے دیکھا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے جیسے ہی نور پیلس کے اندر قدم رکھا ماہ روش کے کھلکھلانے کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی تھی. جو ارتضٰی کی تھکن کو منٹوں میں ختم کرگئی تھی.

اِس سے پہلے اُس کا اتنا اچھا استقبال کبھی نہیں ہوا تھا.

" بس کر دیں آپ لوگ اب تو ہنس ہنس کے میرے پیٹ میں درد سٹارٹ ہوچکا ہے. "

ماہ روش کی زندگی سے بھرپور آواز ارتضٰی کو اندر تک سکون بخش گئی تھی.

آوازوں کا تعاقب کرتے ارتضٰی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا تھا. جہاں ماہ روش سمیت گھر کے تقریباً تمام ممبرز موجود تھے.

" اسلام وعلیکم!"

ارتضٰی کے گھمبیر آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تھی. ارتضٰی کی آواز سنتے ماہ روش کی ہنسی کو فوراً بریک لگی تھی. جب ارتضٰی ماہ روش کی دائیں طرف بیٹھی منیزہ کو وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کرتے ماہ روش کے قریب آبیٹھا تھا. ارتضٰی کی خوشبو ماہ روش کے حواس معطر کر رہی تھی.

ماہ روش کھانا کھا چکی تھی. اور اب ارتضٰی کے پاس بیٹھنے سے اُس کی باقی کی بھوک تو ویسے بھی اُڑ گئی تھی. اِس لیے وہ اب جلد سے جلد یہاں سے جانے کے پر طول رہی تھی جسے بھانپتے ارتضٰی کے ہونٹ مسکرائے تھے.

ارتضٰی نے ارباز سے بات کرتے نہایت ہی چالاکی کے ساتھ ٹیبل پر پڑا ماہ روش کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا تھا. ماہ روش اُس کی سب کے سامنے ایسی حرکت پر بوکھلا گئی تھی. مگر ارتضٰی نے بڑے ہی نارمل انداز میں ماہ روش کے ہاتھ کی اُنگلیوں میں اپنی اُنگلیاں پھنساتے ارتضٰی نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ لیا تھا.

ارتضٰی کی حرکت پر ماہ روش کو پسینے چھوٹ چکے تھے. کیونکہ ارتضٰی بظاہر سب سے بات کرتا بلکل نارمل ہی لگ رہا تھا. مگر نیچے ماہ روش کے ہاتھوں کی نرماہٹ اپنے انگوٹھے سے سہلا کر محسوس کرتے وہ ماہ روش کی جان نکالنے کے در پے تھا.

ماہ روش اب کافی بہتر فیل کررہی تھی. اور اب وہ خود چل پھر بھی سکتی تھی. مگر پھر بھی احتیاط کے طور پر ابھی اُسے اکیلا کسی سہارے کے بغیر چلنے نہیں دیا جارہا تھا.

ماہ روش کو سب گھر والوں نے یہی بتایا تھا. کہ ارتضٰی اپنے ے شادی کے فیصلے پر ابھی بھی قائم ہے. اور دو ہفتوں بعد ارتضٰی کی شادی ہے.

ماہ روش یہ سب سن کر بُری طرح ہرٹ تھی. مگر اُس نے کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا. وہ سب کی خاطر خاص کر زینب بیگم کی خاطر مسکراتی رہتی تھی. نہ ہی اُس نے کسی سے پوچھا تھا اور نہ اُسے کسی نے بتایا تھا کہ ارتضٰی کی شادی ہو کس سے رہی ہے. کیونکہ ماہ روش کے خیال میں اُس کی شادی بیلا سے ہی ہورہی تھی.

ماہ روش کا دل چاہا تھا کہ اُس کا گریبان پکڑ کر پوچھے کہ آخر اُس کے ستم اور مظالم کی آخری حد کیا ہے. وہ اتنا سنگدل کیوں ہے. مگر ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ ایسا کچھ نہیں کر پائی تھی.

جب گھر والے سب اُس کے اتنے بڑے فیصلے پر خاموش تھے. تو وہ کیا کہہ سکتی تھی.

مگر ارتضٰی کی یہ حرکتیں اُسے مزید اُلجھا دیتی تھیں. وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ ارتضٰی ایسا کیوں کررہا تھا. کیا وہ یہ سب کرکے اُس کے جذبوں کا مذاق اُڑا رہا تھا.

ماہ روش نے اپنی لامحدود سوچوں پر سر جھٹکتے ارتضٰی سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تھی. مگر وہ ہنوذ اپنے شغل میں مصروف تھا.

" ماہی کیا ہوا کھانا کھاؤ نا تم رُک کیوں گئی. "

ماہ روش کو ایسے ہی بیٹھے دیکھ ناہید بیگم پیار سے بولیں. جبکہ ماہ روش نے بے چارگی سے اُن کی طرف دیکھا تھا. اب وہ اُنہیں کیا بتاتی کہ اُن کا یہ کھڑوس بیٹا اُس کا ہاتھ چھوڑے گا تب ہی تو وہ کچھ کھا پائے گی.

ماہ روش نے کن اکھیوں سے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو خود مزے سے کھانا کھانے میں مصروف تھا.

" بڑی ماما میں اتنا تو کھا چکی ہوں. میرا پیٹ بھر گیا ہے. "

ماہ روش نے ہلکی سی آواز میں جواب دیا تھا. جبکہ نیچے اُن دونوں کے ہاتھوں کی لڑائی جاری تھی.

" سر پلیز یہ آپ کیا کر رہے ہیں میرا ہاتھ چھوڑیں. "

ماہ روش سرگوشیانہ لہجے میں بولی تھی. تاکہ آواز کسی اور تک نہ پہنچ پائے.

" کیا ہوا ماہ روش تم نے مجھ سے کچھ کہا. "

ارتضٰی کی ایکٹنگ پر ماہ روش کا دل چاہا تھا. سب کے سامنے اپنا ہاتھ چھوڑنے کو بول دے مگر اُس کے بعد کی شرمندگی بھی اُسی کو ہی اُٹھانی تھی. کیونکہ ارتضٰی کو دیکھ کر نہیں لگ رہا تھا کہ اُسے کوئی فرق پڑے گا.

ماہ روش نے ہولے سے نفی میں سر ہلا دیا تھا.

ارتضٰی کی بولتی شوخ نگاہیں ویسے ہی اُس کی سانسوں کو اتھل پتھل کیے ہوئے تھیں. اور اُس کے ہاتھ کی مضبوط مگر نرم گرفت پر ماہ روش کو اپنا ہاتھ پگھلتا محسوس ہورہا تھا.

وہ اُس کی یہی توجہ اور محبت ہی تو چاہتی تھی. جو اُسے مل تو رہی تھی مگر پھر بھی پرائی اور ادھوری سی لگ رہی تھی. اور کسی طرح بھی اُس کے دل کو وہ خوشی نہیں دے پارہی تھی جو وہ چاہتی تھی.

ارتضٰی جس طرح آرام آرام سے کھا رہا تھا. ماہ روش کو لگا تھا. آج کی رات ایسے ہی گزر جانی ہے. اور اگر وہ مزید کچھ ٹائم بھی اسی سچویشن میں رہی تو ضرور رو دے گی.

" ماما میری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے. "

آخر کار ارتضٰی کی ڈھٹائی پر تنگ آکر ماہ روش نے زینب بیگم کو مخاطب کیا تھا. جب ماہ روش کی بات پر ارتضٰی سمیت سب فکرمند ہوتے اُس کی طرف متوجہ ہوئے تھے. مگر ارتضٰی نے ہاتھ ابھی بھی نہیں چھوڑا تھا. ماہ روش کی طرف دیکھتے وہ سمجھ گیا تھا ماہ روش نے ایسا کیوں بولا ہے.

" پھوپھو آپ بیٹھیں میں لے جاتا ہوں ماہ روش کو اُوپر."

ارتضٰی ماہ روش کی حالت سے حظ اٹھاتے اُس کا ہاتھ چھوڑتے اپنی جگہ سے اُٹھا تھا. جو سب کے سامنے اُس کے اِس طرح کرنے پر شرم سے سُرخ ہوچکی تھی.

" نہیں میں خود چلی جاؤں گی. "

ماہ روش نے ارتضٰی کو اپنی بات پر عمل کرتے دیکھ بے چارگی سے کہا تھا. کیونکہ سب ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ لیے اُن دونوں کی طرف متوجہ تھے.

ارتضٰی کی باقی بہت سی کوالٹیز کی طرح ماہ روش کو آج اُس کی ایک اور کوالٹی بھی پتا چلی تھی کہ میجر صاحب انتہا کے بے شرم انسان ہیں.

" ماہی چلی جاؤ. دیور جی پوری احتیاط سے لے کرجائیں گے. "

نیہا نے ماہ روش کی حالت پر اُسے چھیڑا تھا. جبکہ ماہ روش کا دل کررہا تھا شرم سے ڈوب مرے.

وہ نہیں جانتی تھی کہ ہر معاملے میں کسی کی پرواہ نہ کرنے والا ارتضٰی سکندر اِس معاملے میں بھی کسی کی پرواہ نہیں کرے گا.

جب ارتضٰی نے تھوڑا سا جھکتے بہت ہی نرمی سے ماہ روش کو اپنی بانہوں میں اُٹھاتے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے تھے.

ماہ روش کا ایک ہاتھ سینے پر جب دوسرے ہاتھ سے اُس نے بے اختیار ارتضٰی کے کالر کو پکڑ لیا تھا. ارتضٰی نے اُس کی حرکت پر مسکراتے اُس کا سُرخی مائل حسین چہرہ دیکھا تھا.

مگر ماہ روش ارتضٰی کو دیکھنے سے مکمل گریزہ تھی. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی ارتضٰی کے بازوؤں سے نکل کر کہیں چھپ جائے مگر ارتضٰی کی مضبوط گرفت میں وہ ایسا صرف سوچ ہی پائی تھی.

" سر پلیز مجھے اُتار دیں میں اب چل لوں گی. "

ماہ روش نے کمرے میں پہنچتے ارتضٰی کی بانہوں سے نکلنے کی کوشش کی تھی.

مگر ارتضٰی ابھی اِس موڈ میں بلکل نہیں تھا.

ارتضٰی ماہ روش کو لیے صوفے پر جا بیٹھا تھا. بیٹھنے کی وجہ سے ماہ روش اب بلکل ارتضٰی کی گود میں آچکی تھی.

" میرے ہوتے آپ کو تکلیف اُٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں. "

ارتضٰی نے ماہ روش کے چہرے کو اپنی طرف موڑتے کہا. لیکن اُس کا ہر انداز ماہ روش کو اپنی محبت کا مذاق اڑاتا لگا تھا.

" کیوں کررہے ہیں آپ میرے ساتھ یہ سب. نفرت کرتے ہیں مجھ سے تو یہ منافقت کیوں کررہے ہیں. میں اچھے سے جانتی ہوں آپ کی زندگی میں میری کیا حیثیت ہے. اِس لیے یہ ہمدردیاں دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے.

میں بہت سٹرانگ ہوں اِس لیے اپنی زندگی کا ہر دکھ اکیلے سہہ سکتی ہوں."

ماہ روش ارتضٰی کی بانہوں کا حصار توڑ کر نکلتی اُس سے دور جا کھڑی ہوئی تھی.

" آپ جیسے شخص پر یہ منافقت بلکل سوٹ نہیں کرتی اِس لیے پلیز یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

اور آپ فکر مت کریں میں جلد ہی اِس نور پیلس سے آپ کے اپنوں سے بہت دور چلی جاؤں گی. میری وجہ سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا. کیونکہ میں آج بھی ذوالفقار کی بیٹی ہوں. اور آپ کے اِس حوالے سے اپنی ذات سے متعلق خدشات سے اچھی طرح واقف بھی ہوں.

میں ہر معاملے میں بہت سٹرانگ ہوں. مگر محبت کے معاملے میں چاہنے کے باوجود خود کو مضبوط نہیں کر پائی. اِس لیے آپ کا یہ محبت کا ناٹک میرے زخموں کو مزید چھلنی کر دیتا ہے. میری محبت بہت سچی اور پاکیزہ ہے میں اِس کا مذاق بنتا بلکل برداشت نہیں کر سکتی. "

ماہ روش کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح جاری تھے. جو اِس بات کے گواہ تھے کہ یہ باتیں کہتے ماہ روش کتنی اذیت میں ہے.

ارتضٰی دم سادھے کھڑا اُس کی باتیں سن رہا تھا.

آج تک کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ارتضٰی سکندر کو چپ کروا سکے. مگر آج اِس چھوٹی سی لڑکی نے اُسے بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا.

ارتضٰی کو شدت سے احساس ہوا تھا کہ اتنے ٹائم سے وہ جو کڑواہٹ اپنی باتوں اور لہجے سے ماہ روش کے اندر بھرتا رہا ہے. وہ ختم کرنا اتنا آسان نہیں تھا.

ماہ روش کے آنسو اُسے اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے. وہ اپنی بات ختم کرتے آنسو بے دردی سے رگڑتے واش روم میں داخل ہوگئی تھی.

" ماہ روش میری بات سنوں. "

ارتضٰی ماہ روش کی طرف بڑھا تھا مگر تب تک ماہ روش خود کو لاک کرچکی تھی.

ارتضٰی بے چینی سے اپنی پیشانی مسلتے وہاں سے نکل آیا تھا. اُس نے تو سوچا تھا اب ماہ روش کے نزدیک کوئی دکھ نہیں آنے دے گا. کبھی اُس کے آنسو نہیں بہے گا. مگر اُس کے سب سے بڑی دکھوں کی وجہ تو وہ خود تھا. تو بھلا وہ باقیوں کو کیا کہتا.

ماہ روش کا بھیگا چہرا اور اُس کی باتیں ارتضٰی کو مزید بے قرار کررہی تھیں.

ماہ روش کو وہ خود سے اِس حد تک بدگمان کرچکا تھا کہ وہ اُس کی محبت کو ہی سرے سے ناٹک کا نام دے گئی تھی.

ارتضٰی ماہ روش کو اِس طرح تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا. اِس لیے وہ اُسے ہر بات کلیئر کرنے کے ارادے سے واپس مڑا تھا. لیکن ابھی وہ دو قدم ہی آگے بڑھا تھا جب موبائل کی آواز نے اُس کے قدم وہیں روک دیے تھے. کال اٹینڈ کرتے آگے سے جو خبر ملی تھی ارتضٰی فوراً باہر کی طرف بھاگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


جاذل اور زیمل نے ایک ساتھ شہر کے جانے مانے مشہور کلب میں قدم رکھا تھا. جہاں زیادہ تر بزنس مین ہی پائے جاتے تھے.

مگر اُن دونوں کا یہاں آنے کا مقصد کوئی بزنس ڈیل نہیں بلکہ سونیا خان کی یہاں موجودگی تھا.

جاذل اپنے فیملی بزنس کا انوالو کرتے اپنا ایک مصنوعی بزنس سیٹ اپ کھڑا کر چکا تھا. اور اب پلان کے مطابق اُسے سونیا کو بلکل اپنا گرویدہ کرنا تھا.

اُنہیں پتا چلا تھا کہ سونیا آج اسی کلب میں آرہی ہے تو وہ دنوں بھی وہاں پہنچ چکے تھے. پچھلے دو دنوں سے ساتھ کام کرنے کے باوجود اُن دونوں کے درمیان بات نہ ہونے کے برابر تھی. اور ابھی بھی گاڑی میں یہاں تک کا سفر دونوں نے ہی حیرت انگیز طور پر خاموشی سے کیا تھا.

دونوں ہی اپنی اپنی وجوہات کو لے کر ایک دوسرے سے ناراض اور ایک دوسرے کو اگنور کرنے میں لگے تھے.

اُوپر سے جاذل کو جو مشن ملا تھا. اور جس طرح اُسے زیمل کے سامنے یہ سب کرنا تھا. دونوں کے لیے اچھی خاصی آزمائش بننے والی تھی.

جاذل اِس وقت براؤن کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس بے حد ڈیشنگ لگ رہاتھا. جبکہ زیمل آف وائٹ کپڑوں میں مہروں کلر کا مفلر اپنی گردن کے گرد لپیٹے سادہ سے حلیے میں بھی بہتر پرکشش لگ رہی تھی.

کوشش کے باوجود بھی جاذل اپنی نظروں کو اُس کی طرف بھٹکنے سے روک نہیں پایا تھا.

ابھی اُنہیں وہاں پہنچے پندرہ منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب سونیا کی اچانک جاذل پر نظر پڑی تھی.

" واؤ دعائیں اتنی جلدی بھی قبول ہوجاتی ہیں مجھے آج پتا چلا. "

سونیا چہکتی ہوئی جاذل کی طرف بڑھی تھی. اور مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ جاذل کی طرف بڑھایا تھا.

مگر ہمیشہ کی طرح اِس بار جاذل کے چہرے پر بےزاری کے تاثرات بلکل نہیں تھے. اُس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجائے سونیا کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا تھا.

" رئیلی مس سونیا کیا آپ مجھ سے ملنے کی دعا کر رہی تھیں. یقین نہیں آرہا مجھے. "

جاذل نے حیرت کا اظہار کرتے کہا.

دونوں نے پاس کھڑی زیمل کو بلکل اگنور کردیا تھا. جس کی نظریں سونیا کے ہاتھ میں موجود جاذل کے ہاتھ پر تھیں. جو اُس نے ابھی تک نہیں چھوڑا تھا.

" سونیا کے دل تک رسائی حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے. اور اگر جو یہاں تک پہنچ جائے تو وہ دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہے. اور آپ اُنہیں میں سے ایک ہیں."

سونیا وارفتگی سے جاذل کو دیکھتے بولی.

جبکہ جاذل کے ایکسپریشن ایسے تھے کہ وہ اُس کی بات سے بہت زیادہ امپریس ہوا ہو.

" امیزنگ آج سے پہلے مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ میں اتنا خوش قسمت انسان ہوں. "

جاذل نے بھی اُس کی طرف ایک دلکش مسکراہٹ اُچھالی تھی.

" فضول تھرڈ کلاس ڈائیلاگز مار کر ایسے دانت نکال رہے دونوں جیسے بہت بڑا تیر مار لیا ہو دونوں نے. "

زیمل اُن کی باتوں پر اندر ہی اندر دانت پیس کر رہ گئی تھی.

جبکہ سونیا آج جاذل کا اتنا خوشگوار موڈ دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی. اُسے اپنا جادو جاذل پر چڑھتا محسوس ہورہا تھا.

" یہ کون ہے. کہیں آپ کی گرل فرینڈ تو نہیں. "

زیمل پر نظر پڑتے ہی فوراً سونیا کا موڈ خراب ہوا تھا. کیونکہ زیمل کا سادگی میں بھی چھپا بے پناہ حسن اور اُوپر سے جاذل کے ساتھ کھڑا ہونا اُس کا دماغ گھما گیا تھا.

" ہاہاہاہا کیسی باتیں کررہی ہیں آپ. میرا سٹینڈرڈ اب اتنا گیا گزرا بھی نہیں ہے. یہ میری پی آئے ہے. "

جاذل کی بات سنتے جہاں سونیا کے چہرے کی رونق لوٹی تھی وہیں زیمل کا دل چاہا تھا. ایک ہی زور دار گھونسا مارتے جاذل کے دانت توڑ دے جو آج کسی صورت اندر جانے کو تیار ہی نہیں تھے.

جب کہ جاذل کن اکھیوں سے زیمل کے ایکسپریشنز نوٹ کرتے بہت محظوظ ہوا تھا. جو اپنا غصہ کنٹرول کرتی پوری لال ہوچکی تھی.

" کیا آپ میرے ساتھ ڈانس کرنا پسند کریں گے. پلیز انکار مت کیجئے گا. پلیز. "

سونیا ابھی بھی جاذل کا ہاتھ تھامے کھڑی بہت ہی لجاجت سے بولی.

جب ارتضٰی ایک دو بار منع کرنے کے بعد اُس کی بات مانتے آگے کی طرف بڑھ گیا تھا.

" واہ کیا کپل بنا ہے نا. اچھا ہوا اِس چھچھورے انسان کو اُس کی چھیچھوری پارٹنر مل گئی.

بڑا شریف بننے کی کوشش کرتا ہے. اب ساری اصلیت سامنے آرہی ہے. ارتضٰی سر نے صرف تھوڑی بہت فرینکنس کا بولا تھا. مگر خوبصورت لڑکی دیکھ یہ شخص اپنی حد بھول چکا ہے.

پر مجھے کیا جو مرضی کرنا ہے کرے. مجھے اتنا بُرا کیوں لگ رہا ہے میری طرف سے بھاڑ میں جائیں دونوں. "

زیمل اُن دونوں کو ڈانس کرتے دیکھ غصے سے حل بھن رہی تھی.

" استغفراللہ کتنے بے شرم ہیں یہ دونوں. زرا شرم نہیں آرہی اِس لڑکی کو کہ وہ اِس کا نامحرم ہے. کیسے چپک رہی ہے."

سونیا ڈانس کرتے اچانک جاذل کے بہت کلوز آگئی تھی. اور اُس کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی کمر پر رکھا تھا. جبکہ جاذل نے پھر بھی درمیان میں فاصلہ قائم رکھنے کی پوری کوشش کی تھی. اور نامحسوس انداز میں سونیا کی کمر سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا تھا.

زیمل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جاکر سونیا کو جاذل سے دور پھینک دے یا پھر جاذل کو ہی کھینچ کر اپنے ساتھ لے جائے.

مگر ساتھ ہی خود پر بھی غصہ تھی کہ اُسے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے. جاذل جو مرضی کرے اُن دونوں کا رشتہ صرف کاغذی ہی ہے. اِس سے زیادہ کچھ نہیں.

زیمل ابھی خود سے ہی اُلجھ رہی تھی. جب ایک شخص ہاتھ میں دو جوس کے گلاس لیے اُس کے قریب آیا تھا. اور بہت ہی بے باک نظروں سے زیمل کو گھورنے لگا تھا.

" جی فرمائیں کوئی مسئلہ ہے کیا. "

زیمل پہلے ہی سڑی بیٹھی تھی. اِس لیے اُس بندے کو تیز نظروں سے گھورتی چبا چبا کر بولی.

" جی بہت بڑا مسئلہ ہورہا. اتنی حسین لڑکی اِس طرح اکیلی اُداس کھڑی بلکل اچھی نہیں لگ رہی. اِس لیے سوچا اِس پیاری سی لڑکی کو کمپنی دی جائے. "

وہ شخص زیمل کو دیکھتے بڑے انداز سے بولا تھا.

جب زیمل کا دل چاہا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں پکڑے گلاس اُس کے سر پر دے مارے اور اُسے بتائے کہ ایسی ہے اُس کی کمپنی.

مگر وہ یہاں ایسا صرف سوچ کر ہی رہ گئی تھی.

جاذل جو زیمل کے دھیان سے تھوڑی دیر بعد ایک نظر اُس پر ڈال دیتا تھا کہ وہ وہاں ٹھیک کھڑی ہے یا نہیں. اُس کے ساتھ کسی مرد کو کھڑے دیکھ وہ سونیا سے اپنا دھیان ہٹاتا پوری طرح زیمل کی طرف متوجہ ہوا تھا.

" دیکھئے مسٹر میرے بار میں اتنا سوچنے اور فکرمند ہونے کا بہت بہت شکریہ. مگر مجھے یہاں آپ کی یا کسی کی بھی کمپنی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے. "

زیمل اُس کو ٹکا سا جواب دیتی دوسری طرف جاکر کھڑی ہوگئی تھی.

جبکہ جاذل دور سے ہی اُس شخص کی اُترتی شکل اور اپنی شیرنی کے دیے جانے والے جواب کو سمجھ کر مسکرایا تھا.

" مسٹر جاذل ابراہیم کیا آپ کا آج کی پوری رات ڈانس کرنے کا ارادہ ہے. "

دو تین گھنٹے گزر چکے تھے مگر سونیا کا دل بھر ہی نہیں رہا تھا. جب آخر کار تنگ آکر زیمل کو ہی اُنہیں ہوش دلانا پڑا تھا.

کان میں لگی بلوٹتھ ڈیوائس پر زیمل کی طنز سے بھرپور آواز سنتے جاذل مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا.

جب وہ سونیا سے مزید ایک دو باتیں کرکے زیمل کی طرف آیا تھا. اور اُسے اپنے ساتھ باہر آنے کا اشارہ کرتے وہاں سے نکل گیا تھا.

جاذل نے خاموشی سے زیمل کے انتہائی بگڑے موڈ کو دیکھا تھا.

" ویسے سر ارتضٰی بھی کتنے جینئس ہیں نا. وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ کس بندے کو کس ٹائپ کا کام سونپنا ہے. "

جاذل نے گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھائی ہی تھی جب زیمل نے جاذل کو مخاطب کیا تھا.

" کیا مطلب میں سمجھا نہیں. "

جاذل جان بوجھ کر انجان بنا تھا.

جبکہ زیمل اُس کے اِس ناسمجھ انداز پر اُسے گھورا تھا.

" جس طرح اتنے گھنٹے آپ دونوں ڈانس کرتے رہے ہیں. مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمارے مشن کے لیے زرا بھی فائدہ مند تھا. میرے خیال میں تو مشن کی آڑ میں پچھلے کوئی ارمان پورے کیے گئے ہیں. "

زیمل جس بات کو لے کر کب سے خود سے ہی اُلجھ رہی تھی. آخر کار وہ زبان پر آہی گئی تھی.

جبکہ زیمل کی بات سنتے جاذل نے بہت مشکل سے قہقہ روکا تھا.

اور اچانک گاڑی ایک طرف روک دی تھی.

" یہ یہاں سے سمیل آرہی ہے کیا. "

جاذل اک دم سنجیدہ ہوتے زیمل کے قریب جھکا تھا. جبکہ زیمل جاذل کے اچانک اِس طرح قریب آجانے پر گھبرا سی گئی تھی.

" کیسی سمیل. "

زیمل مختصر ہی بول پائی تھی. کیونکہ جاذل اب مزید آگے ہوتے اُس کی دوسری طرف جھکا تھا. جس وجہ سے جاذل کی گرم سانسیں ایک پل کے لیے زیمل کے چہرے سے ٹکرائی تھیں. اُس کی دھڑکنیں ایک پل کے لیے مدھم ہوئی تھیں.

" جلنے کی سمیل کیونکہ مجھے فیل ہورہا ہے جیسے کوئی انسان بُری طرح جیلس ہوا ہے. "

جاذل زیمل کی کان میں سرگوشی کرتے واپس سیدھا ہوا تھا. اور گاڑی دوبارہ سٹارٹ کردی تھی.

اُس کی بات کا مطلب سمجھتے زیمل نے خونخوار نظروں سے اُسے گھورا تھا. جو بڑے ہی محظوظ کن مسکراہٹ کے ساتھ ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہوچکا تھا.

" میجر جاذل ابراہیم لگتا ہے آپ کو کچھ زیادہ ہی خوش فہمی آئی مین غلط فہمی ہورہی ہے.

میری طرف سے آپ دونوں پوری زندگی اسی طرح ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ڈانس کرتے رہیں. آئی ڈونٹ کیئر.

مگر نیکسٹ ٹائم اگر ایسا کوئی فضول پروگرام ہو تو مجھے ساتھ لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.

اور تھینک گارڈ آپ کا سٹینڈرڈ میں نہیں. وہ سونیا ہی ہے. بہت سوٹ کرتے آپ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پرفیکٹ کپل. "

زیمل جاذل کے مذاق اڑاتے انداز پر مزید تپ کر غصے میں آتے اپنی اندر کی تمام بھڑاس نکالنے لگی تھی. جو تمام باتیں جاذل کے یقین پر سچ کی مہر لگا گئی تھیں.

زیمل اُسے سونیا کے ساتھ دیکھ اچھی خاصی ڈسٹرب ہوئی تھی.

اپنی بات کہہ کر مزید جاذل کی کوئی بھی بات سنے بغیر زیمل اُس کی طرف سے بلکل رُخ موڑ گئی تھی.

زیمل کا کچھ اُلجھا کچھ کہتا انداز جاذل کے دل کو بھا رہا تھا.

اُس کا ایک بار پھر زیمل کو چھیڑنے کا دل چاہا تھا. مگر اُس کو پہلے ہی شعلہ جوالہ بنا دیکھ جاذل اپنا ارادہ ترک کرتے روڈ پر نظریں مرکوز کر گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


الوینہ نے ارتضٰی کو ذی ایس کے کے ایک اور بہت اہم منصوبے کی مخبری کر دی تھی.

جس کے مطابق دو سو سے اُوپر لڑکیوں کو بارڈر کے راستے افغانستان سمگل کیا جانا تھا. ارتضٰی نے یہ مشن ارحم کو سونپا تھا.

ارحم پچھلے دو دنوں سے اِس پر کام کر رہا تھا. اور اپنی بہادری اور ذہانت کی وجہ سے وہ اپنی پاک سرزمین کی بیٹیوں کی عزت اور جان بچانے دشمنوں کے سر پر پہنچ چکا تھا.

مختلف علاقوں سے اغوا کی گئی لڑکیوں کو جس جگہ اکھٹا کیا گیا تھا وہاں کا اتنے کم وقت میں پتا لگانا بہت مشکل تھا. مگر ارحم نے اُس کام میں اپنے دن رات ایک کر دیے تھے. وہ کسی صورت بھی ذی ایس کے کو اُس کے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا.

جس وجہ سے ارحم اپنے تین اہلکاروں کے ساتھ دو گھنٹے پہلے ہی اُس اڈے پر پہنچ چکا تھا.

جہاں پر سمگل کی جانے والی لڑکیوں کو کڑے پہرے میں رکھا گیا تھا. اور کچھ ہی دیر میں اُنہیں ٹرکوں میں بیٹھا کر یہاں سے نکالا جانا تھا. ارحم جو پہلے ہی اُن پر ٹارگٹ سیٹ کیے ہوئے تھا. بس اسی لمحے کا انتظار تھا. اور اگلے ہی پل وہ لمحہ اُسے مل بھی گیا تھا.

نجانے کتنے ہی گھروں کی بیٹیوں اُن کی عزتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں شفٹ کیا جارہا تھا. جیسے ہی ٹرک وہاں سے نکلنے کے لیے تیار ہوئے ارحم کے اشارے پر اُس کے تینوں آدمیوں نے اپنی جگہ پر ہی کھڑے سیلینسر لگے پستول سے ٹرک پر سوار ڈرائیورز پر فائر کھول دیے تھے. اُن پر پہلے ہی نشانے باندھے گئے تھے. اِس لیے اُنہیں ڈھیر کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی. اُن کے ہلاک ہوتے ہی تینوں اہلکار اندھیرے میں بہت ہی ہوشیاری سے اندر موجود آدمیوں سے نظر بچاتے ٹرکوں کی طرف بڑھ گئے تھے. جبکہ ارحم اُس بلڈنگ کی طرف بڑھ گیا تھا تاکہ اندر موجود لوگوں کے باہر نکل کر حالات جاننے سے پہلے ہی اُن کو ختم کردے.

باقی تینوں لوگ ڈرائیورز کو ٹرکوں سے نیچے پھینکتے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ٹرک سٹارٹ کرچکے تھے. جب اچانک بنا سگنل دیے ٹرک کو نکلتے دیکھ اندر بیٹھے لوگ الرٹ ہوئے تھے.

جلدی سے باہر بھاگتے اُنہوں نے ٹرک کو روکنے کے لیے پیچھے سے اُن کے ٹائروں پر فائرنگ کرنی چاہی تھی. مگر ارحم نے سامنے آتے اُن پر حملہ کر دیا تھا.

وہ سات افراد تھے جبکہ ارحم اکیلا ہی اُن پر بھاری پڑ رہا تھا.

لیکن شاید قسمت اُس وقت ارحم کے حق میں بلکل نہیں تھی. اُن میں سے ایک آدمی کی اطلاع پر برہان اپنے ساتھ دس پندرہ بندوں کو لیے وہاں پہنچ چکا تھا. اور اتنے ہی لوگوں کو ٹرکوں کے پیچھے بھیج دیا تھا. جو بات ارحم کو فکر مند کر گئی تھی. اُسے اپنے آدمیوں پر پورا بھروسہ تھا مگر پھر بھی وہ کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ زرا سی بھی کوئی گڑبڑ ہو. اِس لیے اُن سب سے مقابلہ کرتے اُس نے ارتضٰی کو کال کرتے ساری صورتحال سے آگاہ کیا تھا. اور ٹرکوں کی ڈائریکشن بتاتے جلدی سے وہاں پہنچنے کو کہا تھا.

جسے سنتے ارتضٰی فوراً وہاں جانے کے لیے نکل آیا تھا.

ارحم پر ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کی جارہی تھی. جس کا وہ بہت ہی ڈٹ کر مقابلہ کررہا تھا. ارحم وہاں موجود کنٹینرز کے پیچھے چھپے اُن کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر چکا تھا.

جب اچانک ایک سنسناتی ہوئی گولی ارحم کے بازو میں آکر پیوست ہوئی تھی. اور وہاں سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے تھے. مگر درد کی پرواہ کیے بغیر ارحم اُسی طرح اُن پر گولیاں برسانے میں مصروف رہا تھا.

برہان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کنٹینر کے پیچھے موجود اُس شخص کی بوٹی بوٹی کرکے رکھ دے جو اُس کے اتنے آدمیوں کو ختم کرچکا تھا مگر پھر بھی قابو میں نہیں آرہا تھا.

برہان کو معلوم تھا کہ وہ زخمی ہو چکا ہے. مگر پھر بھی اُس کے ہمت نہ ہارنے پر اب اُس کی خود کی ہمت جواب دے رہی تھی. وہ اپنے آدمیوں میں سب سے آخر پر موجود تھا. کیونکہ وہ اِس سب کے پیچھے اپنے باپ کی طرح اتنا پاگل نہیں تھا. کہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتا. اُسے اپنی زندگی بہت عزیز تھی. اِس لیے وہ کبھی خود کو زیادہ خطرے میں نہیں ڈالتا تھا.

برہان نے تلملا کر اپنے آدمیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ہی تھا. جب اچانک سے دائیں طرف سے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی تھی.

ارحم ارتضٰی کو وہاں دیکھ مطمئن ہوا تھا. کیونکہ ارتضٰی کا یہاں ہونا اِس بات کا ثبوت تھا کہ ٹرک سیفلی یہاں سے نکل چکے ہیں.

ارتضٰی اور ارحم نے مل کر اگلے پانچ منٹوں میں برہان کے تمام آدمیوں کو مار گرایا تھا. برہان نے یہ سب دیکھتے جلدی سے وہاں سے فرار ہونا چاہا تھا. مگر تب تک وہ دونوں اُس کے گرد گھیرا تنگ کر چکے تھے.

" ہمارا ٹارگٹ تو خود چل کر ہمارے پاس آگیا. ہمیں زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑی. "

ارتضٰی بندوق تانے برہان کی طرف بڑھتے زہر خند لہجے میں بولا. جبکہ برہان اچانک کایہ پلٹ جانے پر گھبراتے پیچھے ہٹا تھا.

" کک کون ہو تم لوگ. خبردار جو میرے قریب آنے یا مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو. میرے باپ کو جانتے نہیں ہو تم لوگ. تمہاری نسلیں برباد کردے گا وہ."

برہان پیچھے ہٹتے گھگھیائے لہجے میں بولا.

جب اُس کی دھمکی پر ارتضٰی اور ارحم کا ایک جاندار قہقہ برآمد ہوا تھا.

" نسلیں تو اب برباد ہوں گی تمہارے اُس گھٹیا باپ کی. "

ارتضٰی کا دل تو چاہا تھا ابھی ہی اُس کی اچھی طرح طبیعت صاف کردے مگر جگہ اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے وہ لوگ اُس کو بےہوش کرکے گاڑی میں ڈالتے اڈے کو تباہ کرتے وہاں سے نکل آئے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش جیسے ہی سوکر اُٹھی ایک بہت ہی زبردست سی خوشبو کمرے میں بکھری ہوئی تھی. جسے محسوس کرتے ماہ روش نے اردگرد نظریں دوڑائی تھیں.

جب اُس کی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے انتہائی دلکش سے ریڈ اور وائٹ کلر کے گلابوں سے سجے بکے پر پڑی تھی. ماہ روش کے چہرے پر ایک خوش کن سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی. اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُنہیں اُٹھاتے اُن کی خوشبو اپنی سانسوں میں اُتاری تھی. جب اچانک اُس کی نظر اُسی جگہ پر موجود ایک خوبصورت سے کارڈ پر پڑی تھی.

" بیوٹی فل روزیز فار مائی بیوٹیفل وائف.

سوری فار ایوری تھنگ. "

کارڈ پر لکھی تحریر پڑھ کر ماہ روش کا دل زور سے دھڑکا تھا. کارڈ کی پوری شیپ ہی سوری کی شکل میں بنی ہوئی تھی.

جب ماہ روش کے غور کرنے پر اُسے پتا چلا تھا. کہ بکے میں بھی فلاورز کی ڈیزائننگ میں سوری لکھا ہوا تھا.

ماہ روش کے چہرے کے تاثرات فوراً بدلے تھے. وہ ارتضٰی کے یہ سب کرنے کا مقصد سمجھنے سے قاصر تھی. کیونکہ اُس کے مطابق ارتضٰی کو اُس سے محبت نہیں تھی.

ماہ روش بکے واپس وہی پر رکھتے بیڈ سے اُٹھ گئی تھی.

شاور لے کر فریش ہوتے وہ جیسے ہی باہر نکلی روم کے باہر ہی کچھ فاصلے پر پڑے ٹیبل پر اُسے ایک ریڈ فلاور کے ساتھ ایک خوبصورت سا کارڈ اور وائٹ کلر کا کیس رکھا نظر آیا تھا. جسے کوشش کے باوجود ماہ روش اگنور کرکے آگے نہ بڑھ سکی تھی.

ماہ روش نے کارڈ کھول کر دیکھا جہاں بھی سوری کے ساتھ لکھی لائن ماہ روش کی دھڑکنیں تیز کر گئی تھی. کارڈ پر ارتضٰی کی خوبصورت سی ہینڈ رائٹنگ میں لکھا تھا.

" آئم سوری.

آئم نیور لیو ود آؤٹ یو مائی لولی وائف.

یو آر مائی لائف لائن. "

ماہ روش کو یقین کرنا بہت مشکل ہورہا تھا کہ یہ سب ارتضٰی نے ہی لکھا ہے اور وہ بھی اُس کے لیے. مگر ارتضٰی کی ہینڈ رائٹنگ اِس بات کا ثبوت تھا کہ یہ اُسی نے ہی لکھا ہے.

ماہ روش نے پاس پڑا کیس کھولا تھا. جس میں ایک نازک سی پائل تھی. جس میں چھوٹے چھوٹے بیٹس کی شکل میں سوری لکھا گیا تھا.

میجر ارتضٰی سکندر اور اتنے رومینٹک انداز. ایک پل کے لیے تو تمام باتیں بھلاتے ماہ روش کے ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی. وہ شخص اتنا بھی کھڑوس اور خشک مزاج بلکل نہیں تھا. جتنا وہ اُسے سمجھتی تھی. مگر یہ خیال کچھ پل کے لیے ہی تھا اگلے ہی لمحے ماہ روش وہ ساری چیزیں واپس ٹیبل پر رکھتی وہاں سے آگے بڑھ گئی تھی.

" اسلام وعلیکم!"

ماہ روش نے لاؤنج میں قدم رکھتے سب کو سلام کیا تھا. جبکہ نگاہوں نے بے اختیار اُس دشمنِ جاں کو ڈھونڈہ تھا. مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا.

" وعلیکم اسلام!. کیسی طبیعت ہے اب میری بیٹی کی."

ناہید بیگم نے ہاتھ پکڑ کر ماہ روش کو اپنے قریب بیٹھایا تھا.

" بڑی ماما اب کافی بہتر ہے. ماما کہاں ہیں نظر نہیں آرہیں."

ماہ روش نے زینب بیگم کی کمی محسوس کرتے فوراً پوچھا تھا.

" وہ اُوپر ہیں ارتضٰی کے روم میں. دونوں پھوپھو بھتیجے کی کوئی بہت امپیورٹنٹ میٹنگ چل رہی ہے شاید. "

نیہا کے جواب پر ماہ روش کے کان کھڑے ہوئے تھے. اور ساتھ ہی ارتضٰی کی گھر میں موجودگی کا سوچ کر اُس نے پہلو بدلہ تھا.

" آپ کو بھی تجسس ہورہا ہوگا نا. ایسا کیا ڈسکس کررہے ہیں وہ دونوں. آپ اُوپر جاکر پتا کر لیں نا. ہم تو ارتضٰی بھائی کے کمرے میں نہیں جاسکتے مگر آپ کو تو ہر طرح کی پرمیشن حاصل ہے. "

منیزہ نے بےچارہ سا منہ بناتے کہا. جب کہ اُس کی بات پر ماہ روش کو حیرت ہوئی تھی.

" کیوں آپ کیوں نہیں جاسکتی."

ماہ روش نے ملازمہ کے ہاتھ سے چائے کا مگ تھامتے پوچھا.

" آپ کو نہیں پتا کیا. ارتضٰی بھائی کو بلکل پسند نہیں کہ اُن کے روم میں کوئی بھی قدم رکھے تو. بڑوں کو تو کچھ نہیں کہتے مگر ہم سب کی خیر نہیں ہوتی. "

منیزہ کی بات سنتے ماہ روش نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا تھا.

سڑیل کھڑوس کہیں کے.

ماہ روش دل ہی دل میں بڑبڑائی.

مگر جیسے ہی اُس کی نظر چائے کی سطح پر پڑی اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا.

جس کے اُوپر کریم سے ہارٹ کے ساتھ سوری لکھا ہوا تھا.

ماہ روش نے اردگرد دیکھا کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا. ماہ روش نے اُسے ختم کرنے کے لیے جلدی سے چائے کا گھونٹ بھر لیا تھا.

تبھی سیڑھیوں سے زینب اور ارتضٰی نیچے آتے نظر آئے تھے. ماہ روش فوراً سے نظریں پھیر گئی تھی. جبکہ اُسے ارتضٰی کی پرتپیش نظریں اپنے چہرے پر جمی محسوس ہورہی تھیں.

لیکن ماہ روش نے ایک بار بھی نگاہیں اُٹھا کر ارتضٰی کی طرف نہیں دیکھا تھا. ارتضٰی اُس کو یہ ناراض ناراض سا بے رُخی جتاتا رُوپ مزید دیوانہ کررہا تھا.

ماہ روش اِس وقت ییلو اور وائٹ کلر کے ڈریس میں بہت ہی فریش اور نکھری نکھری سی لگ رہی تھی. اور ارتضٰی کو اگنور کرنے کی کوشش کرتی وہ اُسے بہت پیاری لگی تھی. ارتضٰی کو بے اختیار اُس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا.

مگر اِس وقت وہ کوئی ایسی ویسی حرکت کرکے اُسے مزید خفا نہیں کرنا چاہتا تھا.

آج تک اُس نے کبھی کسی کو منانا تو دور سوری تک نہیں کہا تھا کسی سے بھی. کیونکہ آج تک اُسے کبھی کسی کی ناراضگی سے فرق ہی نہیں پڑا تھا. اور نہ ہی اُسے یہ سب کرنا آتا تھا.

مگر اب اپنی زندگی کے سب سے اہم انسان کو منانے کے لیے اُسے وہ سب کرنا پڑ رہا تھا. جسے کرنے کے بارے میں کچھ وقت پہلے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

ماہ روش کو وہ اب بہت ہی نرمی اور احتیاط سے ہینڈل کرنا چاہتا تھا. وہ اُسے پہلے ہی بہت بار توڑ چکا تھا. اب مزید ہرٹ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

ماہ روش دل میں دعائیں کررہی تھی کہ ارتضٰی اُسے کسی صورت مخاطب نہ کرے اور ایسا ہی ہوا تھا. اُس کی اٹکی سانسیں تب بحال ہوئی تھیں جب ارتضٰی اُس پر ایک گہری بھرپور نظر ڈالتے سب کو خدا حافظ کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.

ماہ روش کی نگاہوں نے اُس کی چوڑی پشت کا دور تعاقب کیا تھا.

وہ جتنا بھی انکار کرتی مگر یہ شخص اُس کی سانسوں میں بستا تھا. دل کی دہائیوں کے باوجود وہ اُسے معاف کرنے اُس کے پاس جانے کے حق میں نہیں تھی. پہلے ہی اِسی دل کے ہاتھوں مجبور اپنی عزتِ نفس کو سائیڈ پر رکھ کر کئی بار وہ اُس سے اپنی محبت کی بھیک مانگ چکی تھی. مگر اب وہ ایسا بلکل نہیں کرنا چاہتی تھی.

وہ محبت میں انا کو بیچ میں لانے کی قائل بلکل نہیں تھی. مگر اُس کی بس اتنی سی خواہش تھی کہ اگر ارتضٰی سکندر واقعی اُس سے محبت کرتا ہے. اور اُسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے تو اُس کی زندگی کی تمام تلخ حقیقتوں کو قبول کرکے اُسے اپنائے. اُسے سب کے سامنے پوری عزت اور مان سے قبول کرتے اپنا نام دے.

وہ ہمیشہ سے جس تحفظ جس مان کو اپنے باپ میں تلاشتی آئی تھی.اور ہمیشہ جس سے محروم رہی تھی. وہ سب ارتضٰی سے ملنے کے بعد اُسے لگا تھا پورا ہوجائے گا. مگر ارتضٰی کے رویے نے اُسے واپس اُنہیں محرومیوں میں دھکیل دیا تھا.

لیکن اب ارتضٰی کا واپس پہلے والا انداز دیکھ اِس خواہش نے دوبارہ سر اٹھایا تھا. اور وہ یہ سب دوبارہ ارتضٰی سے پانے کی خواہش مند تھی.

مگر اُس نے خود سے عہد کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے یہ اب باتیں کسی سے نہیں کہے گی. یہ ارتضٰی کا امتحان تھا اگر وہ واقعی اُس سے پیار کرتا ہے تو اُس کی ہر خواہش بن کہے جاننی ہوگی. اُس کی آنکھوں کی محرومیوں کو پہچاننا ہوگا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" بابا آئی نو آپ کی وہاں بہت زیادہ مصروفیت ہے. جسے چھوڑ کر آنا آپ کے لیے بلکل پاسبل نہیں ہے. مگر کیا پچھلی پوری زندگی کی طرح اِس اتنے اہم موڑ پر بھی مجھے اپنے پیرنٹس کے بغیر اکیلے ہی آگے بڑھنا ہوگا. "

بات کرتے ریحاب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے. کیونکہ اُس کے بابا نے اُس کی شادی کی بات سن کر بھی آنے سے انکار کردیا تھا.

ریحاب اپنے روم میں ہی کھڑکی کے پاس کھڑی فون پر بات کرنے میں مصروف تھی. جب ارحم نے دبے پاؤں اندر داخل ہوتے ریحاب کو پیچھے سے جاکر اپنی بانہوں کے حصار میں لیا تھا.

ریحاب جس کا پورا دھیان موبائل کی طرف تھا. اچانک ہونے والے اِس حملے پر بوکھلاتے اُس کی ہلکی سی چیخ نکل گئی تھی.

اور بہت مشکل سے موبائل ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا.

ارحم نے اُس کے گرد بازو باندھ کر مکمل طور پر اُسے اپنے حصار میں قید کر لیا تھا. اور اپنی ٹھوڑی ریحاب کے کندھے پر ٹکاتے اپنا گال اُس کی گال کے ساتھ مس کیا تھا.

ریحاب نے ارحم کی گرفت سے نکلنے کی بہت کوشش کی تھی. مگر ہمیشہ کی طرح گرفت بہت مضبوط تھی.

" حج جی بابا میں ٹھیک ہوں. جی آواز بھی آرہی ہے. "

ریحاب نے بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے تھے. کیونکہ ارحم کا ایک ہاتھ اُسے اپنے پیٹ پر گردش کرتا محسوس ہوا تھا. جبکہ ارحم اُوپر سے کبھی اُس کے کھلے بالوں کی مسحور کن خوشبو محسوس کرتے اُن میں چہرا چھپا رہا تھا. اور کبھی اُس کے چہرے کو چھو رہا تھا.

" جی جی بابا میں آپ کی بات سن رہی ہوں."

ریحاب سے بولنا دشوار ہورہا تھا. لیکن ارحم کو تو اپنی ہی مستیاں سوجی ہوئی تھیں.اور وہ جان بوجھ کر ریحاب کو تنگ کررہا تھا.

جس پر ہلکا سا چہرہ موڑ کر ریحاب نے ملتجی انداز میں ارحم کی طرف دیکھا تھا. جو نہ تو اُسے چھوڑ رہا تھا اور نہ ہی اپنی حرکتیں بند کررہا تھا.

" بابا ماما آپ سے زیادہ مصروف ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اُنہیں آؤٹ آف کنٹری جانا ہے. اُن کے مطابق میں آپ سے کنٹیکٹ کروں اور آپ کا کہنا ہے کہ اُن سے. اِس کا مطلب میں آپ کی طرف سے بھی انکار ہی سمجھوں. "

ریحاب نے بہت مشکل سے اپنی بات مکمل کی تھی کیونکہ اُسے ارحم کی سانسیں اب اپنی گردن پر محسوس ہورہی تھیں.

" اوکے بابا آپ کا جو بھی فیصلہ ہوا مجھے انفارم کردیجئے گا. "

ریحاب نے فون بند کرنا ہی مناسب سمجھا تھا.

" کیپٹن ارحم آصف آپ دن بدن بہت ہی بے شرم ہوتے جارہے ہیں. "

ریحاب نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ارحم کو گھورنا چاہا تھا. مگر ارحم کی کی جانے والی اگلی جسارت پر ریحاب کچھ کہہ ہی نہیں پائی تھی.

" جان من ابھی آپ نے ہماری بے شرمی دیکھی ہی کہاں ہے. "

ارحم نے اُس کو رُخ اپنی طرف موڑتے ریحاب کا سُرخی مائل چہرہ دیکھا تھا. جو کچھ ٹائم تو اُس کی حرکت پر کچھ بول ہی نہیں پائی تھی.

" یہ آپ کو آرمی کی ٹریننگ ہی دی گئی ہے نا. یا کہیں غلطی سے آپ کوئی اور ہی ٹریننگ لے کر آگئے ہیں. "

ریحاب نے ایک زور دار تھپڑ اُس کے بازو پر مارا تھا. جو سیدھا کل لگنے والی گولی کے زخم پر جالگا تھا.

" آؤچ."

تھپڑ عین زخم کے اُوپر لگنے کی وجہ سے وہاں سے خون نکل آیا تھا. اور درد کی وجہ سے ارحم ہلکا سا بلبلا کر رہ گیا تھا.

" کک کیا ہوا یہ. آپ کا خون کیسے آرہا."

ریحاب ارحم کے چہرے پر درد کے آثار دیکھ کر اور وائٹ شرٹ پر لگا خون دیکھ کر گھبرا گئی تھی. ارحم نے ابھی بھی ریحاب کو اپنے حصار سے آزاد نہیں کیا تھا.

" ڈونٹ وری کچھ نہیں ہوا. ہلکا سا زخم ہے ٹھیک ہوجائے گا. "

ارحم نے ریحاب کی آنکھوں میں نمی دیکھ اُسے تسلی دیتے کہا.

" نہیں ہلکے سے زخم سے اتنا خون نہیں نکلتا. آپ ضرور مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں. اور آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے کہ یہاں زخم ہے. جانتی ہوں آپ آرمی والے بہت باہمت ہوتے ہر طرح کا درد برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے مگر اتنی لاپرواہی بھی اچھی نہیں ہوتی. بیٹھیں یہاں مجھے دیکھنے دیں اتنا خون کیوں نکل رہا ہے. "

ریحاب کی نظریں تو ارحم کی بازو سے خون آلود شرٹ پر ہی جمی ہوئی تھیں. خود کو اُس کے حصار سے آزاد کرواتے اُس نے ارحم کو صوفے پر بیٹھا دیا تھا.

" یار کچھ بھی نہیں ہے تم ایسے ہی اتنا پریشان ہورہی ہو. اور یہاں میں تم سے بازو کے زخم کا علاج کروانے نہیں آیا بلکہ اِس بچارے کا علاج کروانے آیا ہوں. "

ارحم نے ریحاب کا ہاتھ اپنے دل پر رکھتے ہوئے کہا. درد کے باوجود آنکھوں میں شوخی واضح تھی.

" اِس کا علاج بھی میں کر دیتی ہوں. پہلے آپ اپنی شرٹ اُتاریں. "

ریحاب کو ارحم کا مسلسل نکلتا خون اب فکرمند کررہا تھا. جبکہ ارحم کو اپنی مستیوں میں اِس بات کی پرواہ ہی نہیں تھی.

یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا. وہ پہلے بھی بہت بار گولیاں کھا چکا تھا. اور ڈاکٹر کی ہدایت کو فالو نہ کرتے رات بھر کام کرنے اور مسلسل مومنٹ کی وجہ سے اُس کی بینڈیج خراب ہوچکی تھی.

" واؤ اگر میری بیگم کا موڈ اتنا ہی رومینٹک ہورہا ہے تو وہ خود ہی میری شرٹ اُتار دے. "

ارحم نے آرام سے صوفے کی بیک سے سر ٹکاتے ریحاب کو چھیڑا.

ریحاب نے ایک نظر ارحم کے بازو پر ڈالا تھا. اور ایک نظر ارحم کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ ناچار اُس کی طرف جھکتے ریحاب نے کانپتے ہاتھوں سے ارحم کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کیے تھے.

اب ارحم کو ریحاب کا یہ کیئر کرتا فکرمند انداز بہت اچھا لگ رہا تھا. جھکنے کی وجہ سے ریحاب کے بالوں کی چند لٹیں ریحاب کے چہرے پر آگئی تھیں. جنہیں ارحم نے نرمی سے اُس کے چہرے سے ہٹاتے اُس کے کان کے پیچھے اڑاسا تھا.

ارحم کی شوخ نظریں اور حرکتوں سے ریحاب کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا. بمشکل بٹن کھولتے ریحاب نے ارحم کے بازوؤں سے شرٹ نکالی تھی.

اُس کو شرٹ لیس اتنے قریب دیکھ شرم کے مارے ریحاب بلکل لال ہوچکی تھی. مگر جیسے ہی ریحاب کی نظر ارحم کے بازو پر پڑی. اُسے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تھی.

ریحاب نے جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لاکر ارحم کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے اُس کی پہلی سے کی گئی بینڈیج کو اُتارنا شروع کردیا تھا.

پر جیسے جیسے ارحم کا زخم ریحاب کے سامنے آرہا تھا. ریحاب کے آنسوؤں میں مزید اضافہ ہو رہا تھا.

" ریحاب میری جان رو کیوں رہی ہو. کچھ نہیں ہوا مجھے یہ صرف ایک معمولی سا زخم ہے. "

ارحم کو ریحاب کے آنسو بے چین کر گئے تھے. وہ دوسرے ہاتھ سے ریحاب کے آنسو اپنی پوروں پر چنتے پیار سے بولا.

" آپ جھوٹ بول رہے نا مجھ سے. یہ معمولی زخم نہیں ہے. آپ کو گولی لگی ہے. اتنا بڑا زخم ہے اتنا خون بہہ رہا ہے. آپ کو درد تو بہت ہورہا ہوگا نا. "

ارحم کا درد محسوس کرتے ریحاب سے اپنے آنسو روکنا مشکل ہورہے تھے. جبکہ ارحم کو اپنے زخم سے زیادہ ریحاب کے آنسو تکلیف دے رہے تھے.

ریحاب نے جلدی جلدی ارحم کا خون صاف کرتے دوبارہ سے اچھی طرح بینڈیج کر دی تھی.

بچپن سے اپنا ہر زخم کا مرہم وہ خود ہی کرتی آئی تھی. اِس لیے بینڈیج میں تو وہ اچھی خاصی ایکسپرٹ تھی.

" گولی چھو کر گزر گئی تھی. کچھ ہی دنوں میں یہ زخم ٹھیک ہوجائے گا. اور میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں. مجھے اب بلکل بھی درد نہیں ہورہا اور جب مرہم اتنے پیارے ہاتھوں نے رکھا ہو تو درد کیسے ہوگا. "

ارحم نے ریحاب کو اپنے بازو کے حصار میں لیتے قریب کیا تھا.

" پکا نا آپ کو درد نہیں ہورہا. "

ریحاب کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا. ارحم نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے یقین دلایا تھا.

" میں ابھی ہلدی والا دودھ لے کر آتی ہوں آپ کے لیے. "

ریحاب نے اُس کے پاس سے اُِٹھنا چاہا تھا جب ارحم نے اُس کا ہاتھ تھام کر روک لیا تھا.

" یار چھوڑو اُس سب کو اور یہاں میرے پاس بیٹھو. مجھے ابھی دوبارہ بہت ضروری کام سے جانا ہے. میں یہاں صرف تم سے ملنے آیا تھا تھوڑی دیر. "

ارحم کی بات پر ریحاب نے اُسے آنکھیں نکال کر غصے سے دیکھا.

" بلکل بھی نہیں. آج تو میں کسی صورت نہیں جانے دوں گی آپ کو. زخم دیکھا ہے اپنا. اُٹھیں یہاں سے اور خاموشی سے وہاں بیڈ پر جاکر آرام کریں. "

ریحاب کے غصے پر ارحم ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے صوفے سے اُٹھتے بیڈ کی طرف بڑھا تھا.

" ریحاب پلیز میرے اُوپر یہ کمبل تو پھیلا دو. مجھ سے ہو نہیں رہا. "

ارحم نے بیڈ پر لیٹتے بے چارگی سے ریحاب کو آواز دی تھی.

ریحاب نے جلدی سے اُس کے پاس آتے کمبل پھیلایا تھا. مگر وہ جیسے ہی پیچھے ہٹنے لگی. ارحم نے اُس کے بازو کو گرفت میں لیتے زور سے جھٹکا دیتے اپنے اُوپر گرا لیا تھا.

ریحاب کی اِس اچانک افتاد پر زور دار چیخ برآمد ہوئی تھی.

" مجھے دودھ تو لانے دیں. "

ریحاب نے ارحم کے سینے سے اُٹھنا چاہا تھا. مگر ارحم کروٹ بدلتے اُسے اپنی قید میں لے چکا تھا.

" پر مجھے دودھ سے بھی زیادہ اِس وقت تمہاری ضرورت ہے. "

ارحم کی سرگوشی ریحاب کی سانسیں منتشر کر گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سب کے سب نکمے مارے گئے. آخر ہوکیا گیا ہے میرے آدمیوں کو. میں ایک ہفتے کے لیے باہر کیا گیا. یہاں تو سب برباد کردیا تم لوگوں نے. برہان لاپتہ ہوگیا ہے. تینوں کے تینوں ٹرک غائب ہوگئے. وہ چار لوگ آکر سب کچھ تباہ کرکے چلے گئے. اور تم لوگ میرے آنے کا انتظار کرتے رہے. ہمایوں اور سونیا کہاں ہے بلاؤ اُنہیں. "

ذی ایس کے ایک ہفتے کے لیے انڈیا گیا ہوا تھا. جب واپس آیا تو پانچ دن پہلے ہونے والے نقصان کا سنتے اُس کا دماغ چکرا گیا تھا.

اُس کا جانشین اُس کا بیٹا دشمنوں کے ہاتھ لگ چکا تھا. یہ بات ذوالفقار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کافی تھی.

ذوالفقار کے حکم پر اُس کا آدمی سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا تھا. جب اُسی وقت برہان کا خاص آدمی عجلت میں اندر داخل ہوا تھا.

" ہاں جلدی بولو. کچھ پتا چلا کہ اتنے خفیہ رکھے جانے والے کام کی مخبری کس حرام خور نے کی. ایسا کون ہے ہمارے بیچ جسے اپنی زندگی پیاری نہیں ہے. اور جو ہمارے دشمنوں کو ہر خبر پہنچا رہا ہے. "

ذی ایس کے کے زہر خند لہجے پر سامنے کھڑا شخص کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی کانپ گیا تھا. کیونکہ جو خبر وہ سنانے والا تھا وہ ذی ایس کے کے غضب میں مزید اضافہ کرنے والی تھی.

" بولو بھی یا یوں ہی بت بنے میرے سامنے کھڑے رہو گے."

ذوالفقار ایک بار پھر دھاڑا تھا.

" وہ...وہ جو ہماری ہر خبر دشمنوں تک پہنچاتی رہی ہے. جو دشمنوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کام کررہی ہے. وہ کوئی اور نہیں الوینہ ہے.

جس دن سمگلنگ کے بارے میں پورا منصوبہ بنایا گیا. اُسی دن سی سی ٹی وی کیمروں میں الوینہ کو وہاں مشکوک حرکتیں کرتے پایا گیا. اور اُس نے چھپ کر تمام باتیں سنی بھی. "

اُس کی بات سنتے ہی ذوالفقار کا رنگ متغیر ہوا تھا.

" ابھی کہ ابھی لے کر آؤ. اُس حرام زادی کو میرے پاس. آج میں اُس کا وہ حال کروں گا. کہ اپنی موت کی بھیک مانگے گی وہ مجھ سے. "

ذوالفقار کی بات سنتے اِس وقت تو سامنے کھڑے شخص نے آج اپنی زندگی بچ جانے کی دعا کی تھی.

" سر وہ ہماری اتنی سیکیورٹی کے باوجود بھی کل رات کو پتا نہیں کیسے فرار ہوگئی. ہم لوگ رات سے ہی اُسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کر رہے ہیں. مگر اُس کا اب تک کوئی پتا نہیں چل سکا. "

ابھی اُس نے بات ختم کی ہی تھی. جب ذوالفقار کے بھاری ہاتھ کا پڑنے والے تھپڑ نے اُس دو فٹ دور جا پٹخا تھا.

" اتنے کیمروں کے اتنے گارڈز کے ہوتے وہ زرا سی چھوکڑی یہاں سے فرار ہوگئی. اور تم لوگوں کو پتا بھی نہ چل سکا. تمہارا انعام تو بنتا ہی ہے. "

ذوالفقار نے پستول نکالتے اُس کی دونوں ٹانگوں پر فائر کردیا تھا. جس پر وہ درد سے بلبلاتے کچھ دیر بعد وہیں بے ہوش ہوگیا تھا.

ذوالفقار اُسے پاؤں سے پڑے دھکیلتے وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش اب مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی تھی. اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ جلد ہی یہاں سے چلی جائے گی. وہ مزید اُس کھڑوس انسان کے احسان نہیں لینا چاہتی تھی.

مگر گھر والوں کی محبت نے اُسے ابھی کوئی بھی انتہائی قدم اُٹھانے سے روک رکھا تھا. اُس نے پہلی بار اپنے پرخلوص اور سچے رشتے دیکھے تھے. اِس مختصر سے عرصے میں سب لوگوں سے اُسے جو محبت ملی تھی. وہ اُس کی زندگی بھر کا اثاثہ تھی.


اُس کا بس چلتا تو کبھی بھی اِن سب سے خاص کر اپنی ماما سے دور جانے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں لیکن ایک سنگدل انسان کی سنگدلی نے اُسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا تھا.

ارتضٰی کے بارے میں سوچتے ماہ روش کی آنکھیں نم ہوئی تھیں. وہ خود اُسے نجانے کتنی بار باتیں سنا چکا تھا. اور اُس کی صرف ایک بار کی کہی باتوں پر وہ اتنا اٹیچیوڈ دیکھا رہا تھا کہ اُس کے بعد ایک بار بھی اُسے مخاطب نہیں کیا تھا.

مگر گفٹ دینے اور سوری کرنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا. پچھلے پانچ دنوں کے دوران ماہ روش ارتضٰی کی طرف سے اِن ڈائریکٹلی سو سے اُوپر سوری کے کارڈز اور گفٹ وصول کر چکی تھی.

ماہ روش اپنی سوچوں میں اُلجھتی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی. وہ تھوڑی دیر ایک ضروری کام سے آفس جانا چاہتی تھی. اِس لیے بلیک کپڑوں میں سر اور چہرے کو اچھی طرح بلیک کلر کے خوبصورت سے سکارف سے کور کیے وہ بہت ہی پُرکشش لگ رہی تھی. اُس کی بڑی بڑی دلکش آنکھیں جو کسی کو بھی اپنے ایک وار سے چاروں شانے چت کردینے کی طاقت رکھتی تھیں. نیہا کے زبردستی اُن میں کاجل لگانے کی وجہ سے مزید قاتل لگ رہی تھیں.

ماہ روش کے پاس آنے پر کچھ فاصلے پر سر جھکائے ڈرائیور نے بہت ہی مودبانہ انداز میں ماہ روش کی طرف گاڑی کی کیز بڑھائی تھیں.

ماہ روش نے اُس سے کیز لیتے جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا سامنے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک اور نئے طرز کا سوری والا کارڈ پڑا تھا. جس کے ساتھ وائٹ پھولوں کا ایک بکے اور سلور کلر کے ریپر میں پیک کوئی گفٹ پڑا تھا. ماہ روش نے چہرا گھما کر ایک نظر پیچھے کھڑے ڈرائیور کی طرف دیکھا مگر وہ ویسے ہی سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا تھا.

ماہ روش نے گہرا سانس بھرتے گاڑی میں بیٹھتے کارڈ کھولا. مگر سامنے لکھی تحریر پڑھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

" سوری میری جان اب تو اپنے اِس کھڑوس پلس بےچارے ہزبینڈ کو معاف کر دو.

پچھلے ایک ہفتے سے جو حرکتیں میں کررہا ہوں.

اب تو میرے تمام ملازمین اور گارڈز بھی مجھے ہمدردی بھری نظروں سے دیکھتے ہیں."

ماہ روش نے ارتضٰی کی لکھی تحریر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے بہت مشکل سے دل پر پتھر رکھتے تمام چیزوں کو اُٹھا کر بیک سیٹ پر رکھ دیا تھا.

اور گاڑی سٹارٹ کرتے نور پیلس سے نکل آئی تھی.

ماہ روش آفس جانے کے راستے پر ہی تھی جب سگنلز پر گاڑی رکی تھی.

گاڑی میں بیٹھے اچانک ماہ روش کی نظر دو گاڑیاں چھوڑ کر تیسری گاڑی پر پڑی تھی. اور سامنے کا منظر دیکھتے ماہ روش کی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پوری کی پوری کھل گئی تھیں.

اُس گاڑی میں ارتضٰی کے ساتھ کوئی لڑکی موجود تھی. جس نے چہرے پر چادر ایسے پھیلا رکھی تھی کہ اُسے پہچاننا مشکل تھا.

سگنل کھلتے ہی جیسے ہی ارتضٰی نے گاڑی آگے بڑھائی ماہ روش نے بھی گاڑی کی سمت چینج کرتے ارتضٰی کی گاڑی کی طرف موڑ دی تھی.

ارتضٰی کو اِس طرح کسی اور لڑکی کے ساتھ دیکھ ماہ روش کے اندر آگ لگ چکی تھی.

ابھی تو بیلا والا معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ اب یہ نئی لڑکی کہاں سے ٹپک پڑی تھی. ماہ روش نے گھر میں بیلا کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا. نہ اُس کا کوئی ذکر سنا تھا اور نہ ہی خود پوچھنا مناسب سمجھا تھا. مگر جس طرح ارتضٰی کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں اِس کا تو یہی مطلب تھا کہ بیلا پاکستان میں ہی موجود تھی.

ماہ روش نے ارتضٰی کو شک نہ ہوجائے اِس لیے گاڑی کافی فاصلے پر رکھی ہوئی تھی. اور سپیڈ بھی ارتضٰی کی گاڑی کی سپیڈ جتنی ہی رکھی ہوئی تھی.

مگر پہلے میجر ارتضٰی سکندر کی نظر سے کچھ بچ پایا تھا جو اب ایسا ہوتا. اور الوینہ کی حفاظت کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی الرٹ تھا.

اُسے کافی دیر سے محسوس ہورہا تھا. جیسے پچھلی گاڑی اُس کا پیچھا کر رہی ہے. ارتضٰی نے سپیڈ کم کرتے بیک ویو مرر سے پچھلی گاڑی کا جائزہ لیا تھا. مگر اپنے ہی گھر کی گاڑی دیکھ اُسے حیرانی ہوئی تھی.

مگر مزید غور کرنے پر جو چیز سامنے آئی تھی. ارتضٰی کے چہرے پر ایک دلکش اور بے ساختہ مسکان چھوڑ گئی تھی.

اُس کی اپنی زوجہ محترمہ اُس کا پیچھا کررہی تھیں. ارتضٰی نقاب میں سے بھی ماہ روش کو بآسانی پہچان گیا تھا.

ارتضٰی کو ماہ روش کی یہ حرکت غصہ دلانے کے بجائے ایک خوشگوار سا تاثر بخش گئی تھی.

ماہ روش کی اُس کے لیے محبت میں زرا بھی کمی نہیں آئی تھی. وہ اب بھی ویسے ہی اُسے چاہتی تھی. اُس کے ساتھ کسی لڑکی کو برداشت نہیں کرپائی تھی.

ارتضٰی نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی تھی. ماہ روش نے بھی ارتضٰی کو سپیڈ بڑھاتے دیکھ سپیڈ بڑھا دی تھی. جب اگلے ہی لمحے ارتضٰی نے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ سجائے سپیڈ بلکل آہستہ کر دی تھی.

جس کی وجہ سے تیز سپیڈ میں آتی ماہ روش کی گاڑی ارتضٰی کی گاڑی کے بہت قریب آگئی تھی. ماہ روش نے بہت مشکل سے گاڑی کی سپیڈ کو کنٹرول کرتے ارتضٰی کی گاڑی سے دور رکھا تھا.

ماہ روش غصے میں اِس طرف دھیان دینا بھول چکی تھی کہ آخر اچانک ارتضٰی ایسا کیوں کررہا ہے. وہ تو ارتضٰی کی حرکتوں پر مزید تپ چکی تھی.

جبکہ ارتضٰی کو ماہ روش کو تنگ کرکے بہت مزہ آرہا تھا. اُس کے برابر میں بیٹھی الوینہ دلچسپی سے ارتضٰی سکندر کا سنجیدگی اور دوٹوک انداز سے ہٹ کر یہ نیا رُوپ دیکھ رہی تھی.

ارتضٰی کے مسلسل مسکرانے کی وجہ سے اُس کے رخسار پر موجود گڑھے مزید گہرے ہورہے تھے. الوینہ کو اپنا آپ اِس شاندار اور سب سے منفرد حسین مرد کی چاہت میں ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا.

ارتضٰی سے ملاقات کے بعد اُس نے کسی مرد کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا. وہ جانتی تھی کہ وہ اِس بدکردار مرد کے قابل بلکل بھی نہیں تھی.

مگر اب وہ اپنی آگے کی زندگی اِس شخص کے نام پر گزارنا چاہتی تھی.

ارتضٰی سے ملاقات کے بعد اُس نے بہت عرصے بعد نماز اور قرآن پاک پڑھا تھا. اور دل کی اولین خواہش کے باوجود ارتضٰی کو ایک بار بھی اپنے لیے دعاؤں میں نہیں مانگا تھا. صرف اور صرف اُس کی سلامتی اور کامیابی کی دعا مانگی تھی.

اور ساتھ ہی اُوپر والے سے اُس جہنم سے نکلنے کی دعا بھی کی تھی. جو ارتضٰی کی شکل میں اب پوری کردی گئی تھی.

الوینہ نے ایک بار پھر ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. کل رات سے وہ اُس کے ساتھ تھی مگر ایک بار بھی اُس نے ارتضٰی کے چہرے پر بھولے سے بھی مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی. مگر ابھی کچھ دیر پہلے پتا نہیں ایسا کیا ہوا تھا کہ ارتضٰی کے چہرے سے مسکراہٹ ہٹ ہی نہیں رہی تھی.

ارتضٰی ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل ڈرائیونگ کرتا رہا تھا. کہ کیا پتا ماہ روش ہار مان کر وہاں سے چلی جائے.

مگر آگے سے بھی کیپٹن ماہ روش تھی جو ارتضٰی سکندر کے معاملے میں پوری دنیا سے غافل ہوکر بے گانہ نہیں پائی تھی. تو اب کیسے ہوتی.

ارتضٰی ابھی ماہ روش کی اپنے لیے دیوانگی سے واقف ہی نہیں تھا.

ارتضٰی نے آخر کار اپنے فلیٹ کے قریب پہنچ کر گاڑی روک دی تھی. کیونکہ اِس طرح باہر رہنا الوینہ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا. ورنہ اُن دونوں ضدی میاں بیوی میں سے تو کسی نے ہار نہیں ماننی تھی.

ارتضٰی کے ساتھ اُس لڑکی کو اندر کی طرف بڑھتا دیکھ ماہ روش نے بھی گاڑی سائیڈ پر پارک کی تھی. اُسے پہلے تو ایک بار محسوس ہوا تھا کہ ارتضٰی کو اُس پر شک ہوگیا ہے. مگر اب ارتضٰی کو اُس لڑکی کے ساتھ اندر جاتا دیکھ ماہ روش اُسے اپنی غلط فہمی ہی سمجھی تھی.

اُن کے اندر داخل ہوتے ہی ماہ روش بھی جلدی سے اندر داخل ہوئی تھی.

مکمل ڈھکا ہونے کی وجہ سے ماہ روش کو اِس بات کی ٹینشن نہیں تھی کہ وہاں کوئی بھی اُسے پہچان سکے گا.

ارتضٰی الوینہ کے ساتھ فلیٹ کے اندر داخل ہوا. اور دانستہ ماہ روش کی خاطر دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا تھا.

" مس الوینہ آپ نے ہماری بہت زیادہ مدد کی ہے. جس کا احسان ہم زندگی بھر نہیں چکا سکتے. مگر ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اب آپ بلکل محفوظ ہیں. اب دوبارہ کبھی وہ درندے آپ کی پرچھائی تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے. جب تک ذی ایس کے کا دی اینڈ نہیں ہوجاتا. آپ آرمی کے انڈر ہی رہیں گی.

اور اُس کے بعد آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق ایک بہترین زندگی فراہم کی جائے گی. "

ارتضٰی کی بات پوری توجہ سے سنتی الوینہ نرمی سے مسکرائی تھی.

" مدد میں نے نہیں آپ نے میری کی. مجھے ہدایت کا راستہ دیکھا کر. مجھے میری زندگی اور آخرت سنوارنے کا موقع دے کر.

آپ کو میرا نہیں بلکہ احسان مند تو مجھے آپ کا ہونا چاہیے کہ اُس دلدل سے نکال کر مجھے عزت اور تحفظ بخشا ہے. جہاں سے میں شاید کبھی نہ نکل پاتی. "

الوینہ نے بھی اپنے دلی جذبات سے آگاہ کیا تھا.

جب ارتضٰی نے مزید ایک دو باتیں کرنے کے بعد اُسے آرام کرنے کے لیے کمرے میں بھیج دیا تھا.

اور اپنی معصوم سی نازک جاسوس کی تلاش میں نظریں دوڑائیں.

ماہ روش اُن دونوں کے داخل ہونے کے دس منٹ کے بعد فلیٹ کا دروازہ کھلا دیکھ اندر داخل ہوئی تھی.

وہ اُن دونوں کی باتیں تو نہیں سن پائی تھی. مگر ماہ روش نے اُس لڑکی کو روم میں جاتے دیکھا تھا.

ارتضٰی نے جان بوجھ کر باہر کی تمام لائٹس آف کردی تھیں.

ماہ روش جو ارتضٰی کے ڈرائنگ روم میں آنے پر دروازے کے پیچھے چھپی تھی. اچانک لائٹ بند ہونے پر چونکنے انداز میں اُس نے اردگرد دیکھا تھا. مگر اُسے وہاں ارتضٰی کہیں بھی نظر نہیں آیا تھا.

ماہ روش کو یکدم خیال آیا تھا کہ ارتضٰی بھی کہیں اندر روم میں تو نہیں چلا گیا. آخر وہ لڑکی ہے کون جس کو ارتضٰی اتنی امپورٹنس دے رہا ہے. ماہ روش کے دماغ پر اِس وقت سخت قسم کا غصہ سوار ہوچکا تھا.

ایک طرف وہ ارتضٰی سے دور جانے کی باتیں کرتی تھی اور دوسری طرف ارتضٰی کو کچھ پل کے لیے بھی کسی اور لڑکی کے ساتھ برداشت نہیں کر پارہی تھی.

ماہ روش طیش کے عالم میں بنا سوچے سمجھے روم کی طرف بڑھی تھی. مگر آدھے راستے میں ہی اُسے رکنا پڑا تھا. کیونکہ ارتضٰی سکندر نے پیچھے سے ہاتھ اُس کے گرد لپیٹتے اپنے حصار میں لیا تھا.

ارتضٰی کے مضبوط ہاتھ کی گرفت اپنے پیٹ پر محسوس کرتے ماہ روش کی سانسیں تیز ہوئی تھیں.

" کون ہو تم اور یہاں کیا کررہی ہو. "

ارتضٰی نے ہلکا سا دباؤ ڈالتے ماہ روش کو اپنے قریب تر کیا تھا. ماہ روش کی کمر بلکل ارتضٰی کے سینے کے ساتھ لگ گئی تھی. اور اُس کا سر ارتضٰی کے کندھے سے ٹچ ہورہا تھا.

ارتضٰی کی گھمبیر سرگوشی ماہ روش کے غصے میں مزید اضافہ کرگئی تھی.

کیونکہ ماہ روش کو لگا تھا ارتضٰی اُسے پہچان چکا ہے اِس لیے اُسے اِس طرح اپنے قریب کیا ہے. مگر یہ سوچ کہ ارتضٰی کسی انجان لڑکی کو بھی اِس طرح اپنے قریب کرسکتا ہے. ماہ روش کو اُس لمحے مزید بھڑکا گئی تھی. یہ سوچ ہی ماہ روش کے لیے جان لیوا تھی کہ کوئی لڑکی اِس طرح ارتضٰی کے قریب آئے.

ماہ روش نے ایک زور دار کہنی ارتضٰی کے سینے میں مارتے خود کو اُس سے آزاد کروایا تھا.

ارتضٰی ماہ روش کو جتنا تپا چکا تھا اُسے آگے سے ایسے ہی کسی ردعمل کی اُمید تھی. اُس نے جان بوجھ کر اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ دی تھی. مگر ماہ روش کو شک نہ ہو اِس لیے ہلکے پھلکے انداز میں اُس سے اپنا دفاع کررہا تھا. جو اِس وقت مکمل شعلہ جوالہ بنی ہوئی تھی.

ماہ روش نے آزاد ہوتے ہی پلٹ کر ارتضٰی پر دوبارہ حملہ کرنا چاہا تھا. جب ارتضٰی کی گرفت میں اُس کی دونوں کلائیاں آچکی تھیں. ارتضٰی کے چھونے کا انداز ماہ روش کو مزید تیش دلا رہا تھا.

کیونکہ اپنی گرفت میں لے کر ارتضٰی نے اُس کی کلائیوں سے ہاتھ اُوپر لے جاتے اُس کے دودھیا بازوؤں کی نرماہٹوں کو محسوس کیا تھا. وجہ صرف اور صرف ماہ روش کے غصے کی حد دیکھنا تھا. کہ وہ اُس کے معاملے میں کتنی پوزیسو ہے.

اور ایسا ہی ہوا تھا ماہ روش کا ہر انداز اُسے اپنے لیے محبت کی شدت کا پتا دے رہا تھا.

ماہ روش اپنی کلائیاں ارتضی کی مضبوط گرفت سے چھوڑوانے میں ناکام تھی. مگر وہ مسلسل ٹانگوں سے ارتضٰی پر حملہ آور ہورہی تھی.

جب اچانک ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے ماہ روش کا نقاب ہٹانا چاہا تھا. اِس سے پہلے کے ارتضٰی ایسا کرتا ماہ روش نے ایک جھٹکے سے اپنی کلائیاں آزاد کرواتے ارتضٰی کو ایک زور دار دھکا مارتے پیچھے موجود دیوار کے ساتھ لگایا تھا. اور اپنا خنجر نکال کر ارتضٰی کی گردن پر رکھا تھا.

مگر ارتضٰی کے چہرے پر بے ساختہ آنے والی مسکراہٹ دیکھ ماہ روش حیران ہوئی تھی.

ارتضٰی گہری بےباک نظروں سے ماہ روش کا جائزہ لے رہا تھا. ماہ روش ارتضٰی کے سینے پر دونوں بازو ٹکائے تقریباً آدھی اُس کے اُوپر ہی گری ہوئی تھی. اُس کا ایک ہاتھ ارتضٰی کی گردن پر خنجر دبائے ہوئے تھا. جبکہ دوسرے ہاتھ سے اُس نے ارتضٰی کا کالر جکڑ ہوا تھا.

اِس وقت ارتضٰی کو اپنی معصوم سی بیوی پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا. جس کی حالت اپنے شوہر کو کسی اور لڑکی کے قریب جاتے دیکھ اتنی غیر ہوچکی تھی. کہ وہ کتنے گھنٹوں سے اُس کے پیچھے ہلکان ہورہی تھی.

اور ابھی بھی اپنی خوبصورت گہری آنکھوں میں نمی لیے اُسے دیکھ رہی تھی.

جسے کسی صورت بھی ارتضٰی گالوں پر بہنے نہیں دینا چاہتا تھا. اِس لیے ماہ روش کے نقاب میں مقید چہرے کو اپنے دونوں میں لیتے اُس کی آنکھوں میں جھانکا تھا.

" میجر ارتضٰی سکندر صرف اور صرف کیپٹن ماہ روش ارتضٰی کا ہے. جو خواب میں بھی کسی اور لڑکی کے قریب جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا.

اُس کے دل کی دھڑکنوں میں ہمیشہ ایک ہی لڑکی کا نام رہا ہے. اور ہمیشہ اُسی کا ہی رہے گا. جو اُس کا سکون ہے. جو اُس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے. جس کے بنا رہنا کا اب وہ تصور بھی نہیں کرسکتا.

اُس سے ملنے سے پہلے ارتضٰی سکندر زندہ تو تھا. مگر جینا اُس کی ماہ روش کی موجودگی نے سکھایا ہے اُسے. "

ارتضٰی نے بنا اپنی گردن پر رکھے خنجر کی پرواہ کیے جھک کر ماہ روش کی نقاب کے اُوپر سے دونوں آنکھوں کو عقیدت سے چوم لیا تھا.

ماہ روش دم سادھے ارتضٰی کی بات سن رہی تھی. ارتضٰی سکندر کا معتبر کرتا انداز اُسے آسمان کی بلندیوں پر لے گیا تھا.

ارتضٰی کے جھکنے کی وجہ سے اُس کی گردن پر رکھا خنجر جلد کے اندر اُتر گیا تھا. اور اُس کی گردن کو زخمی کرتا خون آلود کر گیا تھا.

" اوہ نو. آئم ریئلی سوری."

ارتضٰی کا خون دیکھ ماہ روش اپنی ساری ناراضگی اور غصہ بھولتی خنجر دور پھینکتی بے چینی سے ارتضٰی کے مزید قریب ہوئی تھی.

" آئم ریلی سوری میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا. آپ کو اِس طرح جھکنا نہیں چاہئے تھا. "

خون ارتضٰی کا نکل رہا تھا مگر تکلیف میں ماہ روش لگ رہی تھی. ماہ روش نے اپنی پاکٹ سے ٹشو نکالتے ارتضٰی کی گردن پر رکھا تھا. مگر ارتضٰی کی ہائٹ زیادہ ہونے وجہ سے ماہ روش ٹھیک سے اُس کا زخم صاف نہیں کرپارہی تھی.

بنا ارتضٰی کی پرشوق گہری نظروں کی طرف دھیان دیے ماہ روش ارتضٰی کے دونوں پاؤں پر اپنے پاؤں رکھتے اُونچا ہوکر اُس کی گردن کا زخم صاف کرنے لگی تھی.

جب کہ اُس کے اِس طرح مسئلے کا حل کرنے پر ارتضٰی اپنا بے ساختہ قہقہ نہیں روک پایا تھا.

جبکہ ماہ روش اُس کی ہنسی پر مبہوت ہی تو رہ گئی تھی. ہمیشہ وہ اُس کے سامنے چہرے پر سنجیدگی اور بے گانگی کا ماسک چڑھائے ہی رہا تھا. ماہ روش کو اپنا دل ارتضٰی کے اِن خوبصورت گڑھوں میں ڈوبتا محسوس ہوا تھا.

ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے ماہ روش کا نقاب گرا دیا تھا. ماہ روش نے فوراً ہوش میں آتے ارتضٰی کی شوخ نظروں سے گھبرا کر پیچھے ہونا چاہا تھا. مگر ارتضٰی نے دونوں ہاتھوں سے اُس کی کمر کو جکڑے ہلکا سا اُوپر اُٹھاتے اُس کا چہرہ اپنے چہرے کے بہت قریب جھکا لیا تھا.

اُس نے ماہ روش کو بلکل گڑیا کی طرح اُٹھا رکھا تھا. ماہ روش کے پیر اچھے خاصے اُوپر اُٹھے ہوئے تھے. ماہ روش اپنے دل کی بدلتی کیفیت پر اچھی خاصی جذبز ہوئی تھی. وہ یہاں کس مقصد کے لیے آئی تھی.

مگر اِس ساحر نے اُسے اپنے سحر میں جکڑ کر کہیں کا نہیں چھوڑا تھا. ماہ روش نے مزاحمت کرنی چاہیے تھی. مگر ارتضٰی کی گرفت میں وہ صرف پھڑپھڑا کررہ گئی تھی.

" سر پلیز چھوڑیں مجھے. "

ماہ روش نے گرنے کے ڈر سے ارتضٰی کے کالر کو پکڑ لیا تھا.

آج تک جہاں پہنچنے کی جرأت بھی کوئی نہیں کر پایا تھا. اُس کی یہ حسین زندگی بات بے بات اُسے جکڑ لیتی تھی. اگر ایسی حرکت کوئی اور کرتا تو کب سے دنیا چھوڑ چکا ہوتا مگر ماہ روش کو تو وہ اپنی زندگی کا مالک بنا چکا تھا. اُسے تو ہر بات کا حق حاصل تھا.

" اوکے چھوڑ دوں گا مگر ابھی جو میرے ساتھ کیا ہے. اِس کا بدلہ لے کر. اور میرا پیچھا کیوں کر رہی تھی. "

ماہ روش کا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا. اُس نازک جان سے ارتضٰی سکندر کی اتنی قربت برداشت کرنا جان لیوا تھا.

" میں نے آپ کو جان بوجھ کر نہیں مارا. اور آپ جیسے ہم سب ٹیم ممبرز کے ہر کام پر نظر رکھتے ہیں. ویسے ہی مجھے آپ پر شک ہوا تو میں نے بھی آپ کا پیچھا کرنا مناسب سمجھا. اب پلیز مجھے چھوڑیں. "

ارتضٰی کا چہرہ ماہ روش کی گردن سے ٹچ ہورہا تھا. ماہ روش کو لگ رہا تھا شرم کے مارے اُس نے یہیں بےہوش ہوجانا ہے.

جبھی ارتضٰی کو اُس پر رحم آیا تھا. ارتضٰی نے اپنے دہکتے لبوں سے ماہ روش کی ٹھوڑی کو چھوتے اُسے نیچے اُتار دیا تھا.

" ایک منٹ مجھے ایک سچ جاننا ہے کہ جس شک کی بنا پر میرا پیچھا کیا ہے. وہ شک ایک آفیسر کا تھا یا ایک بیوی کا. "

ماہ روش جو جلدی سے وہاں سے نکلنے کے چکروں میں تھی. ارتضٰی نے اُس کو بازو سے پکڑ کر روکتے پوچھا.

ماہ روش کو سمجھ نہیں آرہا تھا. کہ کیا جواب دے اُس کی بات کا.

" ایک آفیسر کا. "

ماہ روش نے نظریں چراتے جھوٹ بولا تھا.

" تو کیا وہ شک دور ہوگیا. "

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش نے انتہائی معصومیت سے سر جھکائے نفی میں سر ہلایا تھا. کیونکہ ارتضٰی کا اِس طرح کسی لڑکی کو اپنے فلیٹ میں لانا ماہ روش سے کسی صورت ہضم نہیں ہورہا تھا.

جس پر ارتضٰی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

" ملنا چاہتی ہو اُس لڑکی سے. "

ارتضٰی نے محبت پاش نظروں سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

چند لمحوں بعد الوینہ اُن دونوں کے سامنے تھی.

" مس الوینہ اِن سے ملیں. یہ میری پیاری سی اکلوتی وائف ہیں. "

ارتضٰی نے بہت ہی محبت سے ماہ روش کے کندھے پر ہاتھ پھیلاتے الوینہ سے اُس کا تعارف اپنی بیوی کے طور پر کروایا تھا.

ارتضٰی کے تعارف پر جہاں ماہ روش کا دل دھڑکا تھا وہیں الوینہ نے رشک بھری نظروں سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

الوینہ کو اُن دونوں کا کپل ایک دوسرے کے ساتھ بلکل پرفیکٹ لگا تھا. ایسے لگ رہا تھا جیسے اُوپر والے نے اُن دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہو.

" ماشاءﷲ سر آپ کی وائف بہت پیاری اور کیوٹ ہیں. "

الوینہ کو ماہ روش بہت پسند آئی تھی.

" جی بلکل اِن سے زیادہ پیاری چیز اِس دنیا میں بنی ہی نہیں ہے. "

ارتضٰی کی بات اور انداز پر ماہ روش کانوں تک لال ہوئی تھی. جو کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی بول دیتا تھا.

ارتضٰی اچانک کال آجائے پر دس منٹ تک آنے کا کہتا وہاں سے نکل گیا تھا.

" آپ یہاں کیسے مطلب آپ اِن کو کیسے جانتی ہیں."

ماہ روش ارتضٰی کے جاتے ہی فوراً اپنے مین مدعے پر آئی تھی.

جس پر الوینہ نے اُسے ارتضٰی سے ملنے سے پہلے اور بعد کی تمام کہانی سنا دی تھی.

اُس کی پوری بات سنتے ماہ روش کے دل میں ارتضٰی کا مقام مزید بڑھ گیا تھا.

اُسے ایک دم اپنی قسمت پر رشک آیا تھا کہ اُس کے نصیب میں ارتضٰی جیسا مضبوط اور باکردار مرد تھا. اُس دن کلب میں بھی ارتضٰی الوینہ کی مدد کرنے گیا تھا. اُس کے پیچھے نہ کے کسی غلط ارادے سے.

ماہ روش تو پہلے ہی اُس کی دیوانی تھی. اب تو دل پہلے سے زیادہ اُس شخص کا طلبگار ہوگیا تھا.

ماہ روش ابھی الوینہ سے ابھی مزید کوئی بات کرتی جب ارتضٰی واپس اندر آگیا تھا.

" چلیں."

ارتضٰی نے ماہ روش سے پوچھتے سوالیہ انداز میں دیکھا تھا.

" نہیں میں خود چلی جاؤں گی. میری گاڑی باہر ہی کھڑی ہے. "

ماہ روش الوینہ کو خدا حافظ کرتی ارتضٰی کو ٹکا سا جواب دیتی وہاں سے نکل گئی تھی.

ارتضٰی کو الوینہ کے سامنے ماہ روش کا انداز اچھا خاصہ غصہ دلا گیا تھا.

وہ بھلا کہاں عادی تھا ایسے لہجوں اور الفاظ کا. اتنے دنوں سے اپنے مزاج کو ایک طرف رکھتے وہ نجانے کیسے ماہ روش کا سخت لہجہ برداشت کررہا تھا. مگر اب وہ چاہنے کے باوجود خود پر کنٹرول نہیں کر پایا تھا.

الوینہ کو ہدایت دیتا وہ ماہ روش کے پیچھے نکل گیا تھا.

" ماہ روش یہ کیا بدتمیزی تھی. "

ماہ روش جو گاڑی کا دروازہ ان لاک کر رہی تھی. ارتضٰی کی دھاڑ پر اُس کے ہاتھ وہی پر ہی جم گئے تھے.

ارتضٰی ماہ روش کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف موڑتے گاڑی کی بیک سے ٹکاتے دونوں ہاتھ اُس کے اردگرد ہاتھ رکھتے اُس پر جھکا تھا.

" میں نے کوئی بدتمیزی نہیں."

ماہ روش ارتضٰی کے پہلے والے غصیلے لہجے پر اندر ہی اندر سہمتی ہولے سے منمنائی .

" تو میرے ساتھ آنے سے انکار کیوں کیا."

ارتضٰی کا غصہ ہنوز تھا.

" کیونکہ میں آپ کے ساتھ جانا ہی نہیں چاہتی. "

ماہ روش نے اپنی ساری ہمت جمع کرتے اُسے جواب دیا.

" اور کیوں نہیں آنا چاہتی تم. "

ارتضٰی نے سپاٹ لہجے سوال کیا.

" کیونکہ مجھے آپ کے ساتھ جانا پسند نہیں. اور نہ ہی میں آپکی پابند ہوں. "

ماہ روش کی بات پر ارتضٰی نے حیرت سے اُس کی آنکھوں میں جھانکا تھا. اُسے یقین نہیں آیا تھا ماہ روش ایسی بات بھی کرے گی.

ارتضٰی کا کچھ دیر پہلے کا خوشگوار موڈ بُری طرح آف ہوچکا تھا.

" اوکے. تم جا سکتی ہو. "

ارتضٰی ایک دم پیچھے ہٹ گیا تھا. جبکہ ماہ روش کو ارتضٰی کے اِس طرح دور ہوجانے پر اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہوا تھا.

اگر ارتضٰی نے اُسے ہرٹ کیا تھا تو کم وہ بھی نہیں کررہی تھی. جس طرح اُس نے ارتضٰی پر شک کرتے اُس کا پیچھا کیا تھا. اور جیسے اُس سے بی ہیو کررہی تھی. وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اُسے ارتضٰی کتنی رعایت دے رہا ہے ورنہ ارتضٰی جتنا مزاج کا سخت اور اصولوں کا پکا تھا. اگر ماہ روش کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا.

ارتضٰی سینے پر ہاتھ باندھے فاصلے پر کھڑے بے تاثر نظروں سے ماہ روش کو دیکھ رہا تھا. جو ہاتھوں کی انگلیاں مڑورتی ابھی وہیں کھڑی تھی. اور ایک قدم بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی.

کچھ پل اُسی طرح کھڑے وہ دو قدم ارتضٰی کے قریب ہوئی تھی.

" آئم سوری. "

ماہ روش کو لگا تھا اُس نے ارتضٰی کو ہرٹ کیا ہے. وہ بہت ہی نرم دل کی مالک تھی. خود ہر بات برداشت کر لیتی تھی. مگر خود کی وجہ سے کسی اور کو ہرٹ کرنا برداشت نہیں کرپاتی تھی. اور یہ تو پھر ارتضٰی سکندر تھا. اُسے ناراض کیسے کر سکتی تھی.

" سوری فار واٹ."

ارتضٰی نے نقاب میں مقید اُس کے صبیحہ چہرے کی طرف دیکھا تھا.

ارتضٰی کی بات کے جواب میں ماہ روش کچھ نہیں بولی تھی. مگر ایک آنسو ٹوٹ کر اُس کی آنکھ سے گرا تھا. اور یہیں پر ارتضٰی کی بس ہوئی تھی.

" پاگل اِس میں رونے کی کیا بات ہے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے قریب کیا تھا.

جب ماہ روش اُس کے سینے پر سر ٹکاتے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوچکی تھی.

" ماہ میری جان کیا ہوا ہے. میں ناراض نہیں ہوا مذاق کررہا تھا تم سے. "

ارتضٰی نے اُس کے گرد اپنے دونوں بازو پھیلاتے اپنے سینے میں بھینچا تھا. ارتضٰی نے ماہ روش کو رونے دیا تھا تاکہ رو کر وہ اپنے دل کی تمام بھڑاس نکال سکے.

کافی دیر آنسو بہانے کے بعد ماہ روش نے ارتضٰی کے سینے سے سر اُٹھایا تھا. ارتضٰی کی شرٹ ماہ روش کے آنسو کی وجہ سے سینے سے بلکل بھیگ چکی تھی.

" آپ بہت بُرے بہت ظالم ہیں. مجھے آپ سے بلکل بات نہیں کرنی. "

ماہ روش ارتضٰی کے مضبوط بازوؤں کے حصار میں سُرخ بھیگی آنکھیں لیے کھڑی شکوہ کرتی ارتضٰی کو کوئی چھوٹی سی بچی لگی تھی.

" اگر اپنی ہر غلطی ہر ظلم کی تلافی کر دوں کیا تب بھی بات نہیں کرو گی."

ارتضٰی نے ہلکا سا ماہ روش کی پیشانی چومی تھی. ماہ روش کے معاملے میں اُس کا دل اب بلکل نرم ہوچکا تھا. وہ اب شاید کبھی اُس پر غصہ نہ کر پاتا.

ارتضٰی کے لمس پر سُرخ ہوتے ماہ روش نے نفی میں سر ہلایا تھا.

" جاناں اتنا پیار دوں گا کہ مجھ سے بات کیے بغیر تمہارا بھی گزارا ناممکن ہوگا. "

ارتضٰی کی سرگوشی پر ماہ روش کا دل زور سے دھڑکا تھا. وہ اُسے کیا بتاتی کہ اُس کے بغیر اُس کا گزارا اب بھی ممکن نہیں تھا.

ارتضٰی نے جھک کر نقاب کے اُوپر سے ماہ روش کا گال چوما تھا.

" سر یہ آپ کیا کررہے ہیں. ہم پبلک پلیس پر ہیں. "

ارتضٰی کو بہکتے دیکھ ماہ روش کا پسینہ چھوٹا تھا. وہ جلدی سے اُس کی مضبوط بانہوں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی تھی.

جب اُس کی غیر ہوتی حالت دیکھتے ارتضٰی نے اُس کا دوسرا گال بھی چومتے آزاد کردیا تھا.

ماہ روش جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے وہاں سے نکل گئی تھی. جبکہ ارتضٰی اُس کی جلدبازیاں دیکھتا مسکرا دیا تھا.

صرف دو دن رہ گئے تھے. جس کے بعد وہ ماہ روش کو دیے ہر دکھ کی تلافی کرنے والا تھا. اُسے بتانے والا تھا کہ وہ پیاری سی لڑکی کس مقام کی مستحق تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" کیا ہوا میجر صاحب آپ کی سونیا ابھی تک تشریف نہیں لائیں. بہت شدت سے انتظار ہورہا ہے اُس کا. "

جاذل جو آفس میں اپنی سیٹ پر بیٹھا شدت سے دعا کررہا تھا کہ آج سونیا کسی صورت نہ آئے اُسے کوئی ضروری کام پر جائے. آج وہ کسی صورت سونیا کو جھیلنے کے موڈ میں نہیں تھا.

سونیا کی فضول حرکتوں نے پچھلے ایک ہفتے سے اُسے بُری طرح تپا کررکھا ہوا تھا. اور اُوپر سے بنا دیکھے وہ سب کے سامنے خاص کر زیمل کے سامنے ایسے ہی اس سے لپٹ جاتی تھی.

زیمل کو تو جو آگ لگتی تھی وہ الگ. جاذل خود بھی اُس کے بے باک انداز پر بےزاری اور اکتاہٹ کا شکار تھا.

زیمل کے طنزیا انداز پر جاذل نے اُسے گھورا تھا.

جاذل اور زیمل اِس وقت ایک ویل سیٹلڈ آفس میں موجود تھے. جو خاص طور پر اِس مشن کے لیے تیار کیا گیا تھا.

اِس سے پہلے کے زیمل مزید اُسے تنگ کرتی انٹر کام پر ملنے والی اطلاع پر جاذل کے منع کے بدلتے زاویے دیکھ زیمل سمجھ گئی تھی کہ وہ مس چھمک چھلو تشریف لاچکی ہیں.

" میں جاؤں. "

زیمل نے جلدی سے فائل اُٹھاتے وہاں سے اُٹھنا چاہا تھا.

" خبردار آپ یہاں سے ہلی بھی سہی تو. چپ کرکے بیٹھی رہیں. "

جاذل کی بات پر زیمل کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی. وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی جاذل اُسے وہاں کیوں روک رہا ہے. اُس کے سامنے سونیا پھر کچھ حد میں رہتی تھی.

دروازہ کھلنے کی آواز پر زیمل نے فوراً اپنا سر فائلز پر جھکا لیا تھا.

سونیا زیمل کو یکسر نظرانداز کرتی سیدھی جاذل کی طرف بڑھی تھی. جس پر جاذل بھی والہانہ انداز میں اُس کا استقبال کرتا اپنی سیٹ سے کھڑا ہوا تھا.

زیمل نے کن اکھیوں سے اُن دونوں کی طرف دیکھا تھا. مگر جاذل کے سینے سے چمٹی سونیا کو دیکھ زیمل کا پارہ ہائی ہوا تھا. آج تو سونیا اُس کا لحاظ بھی بھول چکی تھی.

" کیا ہوا سونیا آج تم بہت سیڈ لگ رہی ہو اب ٹھیک ہے."

جاذل نے نرمی سے سونیا کو پیچھے کرنا چاہا تھا. مگر اُس سے پہلے ہی سونیا کی ریڈ لپسٹک جاذل کی وائٹ شرٹ داغ دار کرائی گئی تھی.

جاذل کے عین سینے پر لپ سٹک کا نشان زیمل کو کوئلوں کی بھٹی پر بیٹھا گیا تھا.

" جاذل میں بہت پریشان ہوں. ایک ہفتہ ہوچکا ہے مگر بھیا کا کچھ پتا نہیں چل پارہا."

سونیا آنکھوں میں آنسو بھرے جاذل کے مزید قریب ہوتے بولی.

" اوہ یہ تو بہت بُری نیوز ہے مگر تم اِس طرح رو کر خود کو ہلکان مت کرو. تمہارا بھائی ضرور مل جائے گا. "

جاذل دل ہی دل میں خوش ہوتے چہرے پر ہمدردی کا تاثر لیے بولا.

" اسی لیے تو تمہارے پاس آئی ہوں. تمہارے پاس آکر میں اپنی ہر پریشانی بھول جاتی ہوں. "

سونیا بنا زیمل کی پرواہ کیے جاذل کے قریب تر ہوتے اُس کے ہونٹوں کو چھونا چاہا تھا. اِس سے پہلے کے جاذل خود اُسے دور دھکیل ایک زور دار آواز پر سونیا دہلتے پیچھے ہٹی تھی.

جبکہ جاذل نے زیمل کا غصے اور شرم سے سرخ چہرا دیکھتے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی.

زیمل نے اُن دونوں کو اتنا قریب دیکھ سامنے رکھا پیپر ویٹ زور سے لکڑی کے ٹیبل پر دے مارا تھا. جو زور دار آواز پیدا کرتے دور جاگرا تھا.

" آر یو کریزی یہ کیا کیا ہے تم نے. جاذل یہ کتنا عجیب سٹاف ہے تمہارا. "

سونیا نے بدمزہ سا ہوتے زیمل کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا.

" آئم سو سوری میم."

زیمل جلدی سے معذرت کرتی وہاں سے نکل گئی تھی.

اور باہر آتے زور سے ساری فائلز اپنے کیبن میں آن پٹخی تھیں.

" بے حیا بے ہودہ لڑکی. زرا شرم نہیں ہے اِس میں میرے ہی سامنے میرے شوہر کو جپھیا ڈال رہی ہے. اور وہ محترم وہ تو آگے سے ڈبل مزے لے رہے ہیں. بس اور نہیں مناسب لگتا ہے یا نہیں مگر آج تو میں ارتضٰی سر کو اِس بندے کے کرتوت بتا کر ہی رہوں گی. "

زیمل غصے اور اشتعال میں وہاں چکر کاٹتے مسلسل بڑبڑائے جارہی تھی. وہ وہاں سے تو آگئی تھی مگر اُس کا دلوں دماغ ابھی بھی وہیں پر موجود تھا. زیمل مزید نجانے کب تک جلتی کڑہتی رہتی جب موبائل کی رنگ پر ماہ روش کا نمبر دیکھ جلدی سے کال ریسیو کی تھی.

" ماہی تمہاری وہ بہن ایک نمبر کی بے ہودہ عورت ہے. اُس سے بڑی چھچھوری میں نے آج تک نہیں دیکھی. جسے زرا شرم لحاظ نہیں میرے ہی سامنے میرے شوہر کے گلے پڑ رہی ہے. اُسے کس کر رہی ہے. اور میرے شوہر نامدار بھی اپنی ڈیوٹی کا اصل مقصد بھلائے انجوائے کرنے میں مگن ہے. تم جانتی ہو اگر میں نہ روکتی تو وہ دونوں کس کر دیتے.

اور اگر ایسا ہوجاتا. تو آئی سویئر اُس کے بعد جاذل ابراہیم کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے کوئی نہ بچا پاتا."

زیمل بنا ماہ روش کو بولنے کا موقع دیے اپنی بھڑاس نکالتی گئی تھی. خاموش تو وہ تب ہوئی جب اُسے سپیکر پر ماہ روش کا قہقہ سنائی دیا تھا.

" ماہی تمہیں یہ سب فنی لگ رہا ہے."

زیمل مزید تپی تھی.

" زیمل میں پہلے تو تم بریک پر پاؤں رکھو. پانی وانی پپو. اور ریلیکس ہوجاؤ. چلو شاباش. اور اُس کے بعد مجھے میری ایک بات کا جواب دو. "

ماہ روش کی بات پر عمل کرتے زیمل نے پانی کا ایک گھونٹ بھرا تھا.

" ہاں بولو اب."

زیمل کا انداز ہنوذ تھا.

" تمہیں اتنا بُرا کیوں لگ رہا ہے. اگر وہ کِس کر بھی دیتے تو تمہیں کیا فرق پڑنا تھا. "

ماہ روش کی بات پر زیمل کا پارہ پھر سے چڑھا تھا.

" ماہی وہ میرا شوہر ہے نکاح ہوا ہے ہمارا. کیسے فرق نہیں پڑتا مجھے. "

زیمل چبا چبا کر بولی.

" رئیلی زیمل. مگر جہاں تک مجھے پتا ہے. اِس رشتے کی تو کوئی حقیقت نہیں. یہ تو ایک کاغذی رشتہ ہے نا. جو یہ مشن ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا. پھر ایسے رشتے کے لیے اتنی تڑپ اتنی بے چینی کیوں.

کہیں تم اِس رشتے کے بارے میں سیریس تو نہیں ہوگئی. کہیں تمہیں میجر جاذل نے محبت تو نہیں ہوگئی. کیونکہ میرے خیال میں تو ایسا ہی کوئی حادثہ رونما ہوچکا ہے میری جان تمہارے ساتھ. اور اگر ایسا ہے تو میں بہت خوش ہوں. میجر جاذل نے اچھا لائف پارٹنر تمہارے لیے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا. "

زیمل ماہ روش کو اپنے رشتے کی حقیقت بتا چکی تھی. اور اتنے بڑے بیوقوفانہ فیصلے پر ماہ روش سے اچھی خاصی سن بھی چکی تھی. مگر آج زیمل کا انداز دیکھ ماہ روش بہت خوش ہوئی تھی. جاذل کی نگاہوں میں تو وہ پہلے ہی زیمل کے لیے پسندیدگی نوٹ کرچکی تھی. اُسے فکر تھی تو صرف زیمل کی مگر آج وہ بھی دور ہوگئی تھی. کیونکہ وہ زیمل کی رگ رگ سے واقف تھی. اور اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ زیمل محبت کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی.

ماہ روش کی باتیں سنتے زیمل بلکل خاموش ہوگئی تھی. کیونکہ ماہ روش بہت ہی آرام سے اُسے آئینہ دیکھا گئی تھی.

واقعی جس طرح اُن دونوں نے رشتہ جوڑا تھا. اُسے تو کوئی حق نہیں بنتا تھا جاذل کو کچھ کہنے کا اُسے سے کسی بھی بات کا جواب مانگنے کا. اور سب سے بڑی بات جو زیمل کو محسوس ہوئی تھی کہ اُسے سونیا کا جاذل کے قریب ہونا کیوں اتنا بُرا لگ رہا تھا.

کیا ماہی ٹھیک کہہ رہی ہے. میں واقعی جاذل سے پیار کرنے لگ گئی ہوں. نہیں اگر ایسا ہے تو بہت غلط ہوا ہے. مجھے خود کو روکنا ہوگا.

ورنہ سب سے پہلے میرا مذاق اُس چھچھورے میجر نے ہی بنانا ہے. نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا.

مجھے کوئی فرق نہیں کرتا. وہ سونیا کہ ساتھ رہے یا کی اور کے ساتھ.آئی ڈونٹ کیئر.

زیمل نے اپنے دل کو بُری طرح ڈپتے چپ کروایا تھا.

زیمل نے ماہ روش کو بھی یہی دلیلیں دیتے چند ایک باتیں کرکے فون بند کردیا تھا. کیونکہ لاکھ کوششوں کے باوجود دل کا شور بڑھ رہا تھا. جس پر بنا کان دھرے. زیمل نے سامنے پڑی فائل کھل لی تھی.

" ہیلو مس زیمل کیسی ہیں آپ. "

کاظم کی آواز پر زیمل نے فائل سے سر اُٹھاتے اُس کی طرف دیکھا. وہ اِس وقت اُس کے کولیگ کے بھیس میں اُنہی کی ایجنسی کا بندہ تھا. اور پہلے بھی ایک دو ملاقاتوں میں زیمل سے اُس کی سلام دعا ہوچکی تھی.

" میں بلکل ٹھیک. آپ پلیز تشریف رکھیں نا. "

زیمل جو اِس وقت خراب موڈ کی وجہ سے اُسے ٹکا سا جواب دینے والی تھی. جاذل اور سونیا کو آفس سے نکلتے دیکھ زیمل ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے بولی.

جس پر کاظم خوشی سے بے قابو ہوتا فوراً کرسی پر براجمان ہوا تھا. ہمیشہ غصہ ناک پر دھڑے رکھنے والی زیمل کا یہ انداز اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.

جبکہ جاذل کا میٹر اُن دونوں کو خوش گپیاں لگاتے دیک گھوم چکا تھا.

" کیا ہو رہا ہے یہاں. مسٹر کاظم اگر آپ اپنی سیٹ پر جاکر اپنا کام کریں گے تو زیادہ بہتر ہوگا. اور مس زیمل آپ آفس میں آکر میری بات سنیں. "

جاذل سونیا کو وہیں سے بائے کہتا زیمل کے کیبن کی طرف آتا سخت لہجے میں بولا. جس پر کاظم فوراً وہاں سے کھسک گیا تھا.

جاذل زیمل کو بھی آرڈر دیتا اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا تھا.

مگر زیمل جاذل کی بات سنی اِن سنی کرتی ویسے ہی بیٹھی رہی تھی. جب پانچ منٹ بعد انٹر کام بجا تھا.

" کیپٹن زیمل آپ کو شاید میری بات سنائی نہیں دی میں نے آپ کو اپنے آفس بلایا ہے. "

جاذل دوبارہ اپنی بات دوہراتے ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا.

" سر میں اِس وقت نہیں آسکتی. بہت ضروری کام کر رہی ہوں."

زیمل جتنا اُسے اگنور کرنا چاہتی تھی وہ اُتنا ہی اپنی ضد پر اڑ گیا تھا.

" کیپٹن زیمل بھاڑ میں گیا آپ کا کام ابھی اور اِسی وقت میرے آفس آئیں ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا. "

جاذل جانتا تھا کہ زیمل سونیا کو اُس کے اتنے قریب دیکھ اندر ہی اندر اچھی خاصی ناراض ہوچکی ہے. اِس لیے وہ ایک بار اُس سے بات کرکے کلیئر کرنا چاہتا تھا مگر وہ زیمل ہی کیا جو آرام سے بات مان لے. اِس لیے جاذل اپنا لہجہ تیز کرتے غصے سے بولا.

" سر بھاڑ میں جائیں آپ اور بھاڑ میں جائے آپ کا آرڈر نہیں آؤں گی میں آفس. جو کرنا ہے کر لیں. "

زیمل جاذل کی سوچ سے بھی زیادہ تپی ہوئی تھی. اِس لیے اُسی کے لہجے میں جواب دیتے اُس نے فون رکھنا چاہا تھا.

" اگر آپ اگلے دس منٹ میں میرے آفس نہ آئیں تو میں وہاں سے سب کے سامنے اُٹھا کر یہاں لے آؤں گا. پھر کسی بھی بات کا گلہ مجھ سے مت کیجئے گا. "

جاذل نے بات کہتے کھٹاک سے فون رکھ دیا تھا.

جب کے جاذل کی بات سنتے زیمل کا دل زور سے دھڑکا تھا.

اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے پہلے پانچ منٹ تو وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہی مگر پھر جاذل کی دھمکی کا سوچتے وہ فائل اُٹھاتی آفس کی طرف بڑھ گئی تھی. کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ کہیں واقعی اپنی بات پر عمل کرتے وہ یہاں نہ پہنچ جائے.

" جی فرمائیں کیا مسئلہ ہے آپ کو."

زیمل زور سے فائل اُس کے ٹیبل پر پٹختے بولی.

" مسئلہ تو کچھ خاص نہیں ہے. مگر ایک بہت ضروری کام تھا آپ سے. یہ لپسٹک کا مارک دھلوانا تھا. "

جاذل کو زیمل کا تپا تپا سا انداز بہت مزا دے رہا تھا. اِس لیے جاذل نے مزید اُسے غصہ دلاتے کہا.

جاذل کی بات پر ماہ روش کی نظریں فوراً اُس کی وائٹ شرٹ پر موجود ریڈ کلر کے ہونٹوں کے نشان پر گئی تھیں.

جسے دیکھ زیمل کے اندر پھر سے آگ بھڑک اٹھی تھی.

" آئم سوری سر میرے پاس آپ کے فضول کاموں کے لیے بلکل ٹائم نہیں ہے. اور ویسے بھی میں آپ کو صرف اتنا بتانے آئی تھی کہ آپ کی وہ چہیتی اب جاچکی ہے. اِس لیے اب میرا ڈیوٹی ٹائم بھی ختم ہوگیا ہے.

مجھے مسٹر کاظم کے ساتھ ڈنر پر جانا ہے. مجھے پہلے ہی کافی دیر ہوچکی ہے. اوکے بائے. "

زیمل بھی حساب برابر کرتے وہاں سے پلٹی تھی کیونکہ اب آگ لگنے کی باری جاذل کی تھی.

" واٹ ربیش. تم اُس گھونچو کے ساتھ ڈنر پر جاؤ گی."

جاذل فوراً آپ سے تم پر آیا تھا.

اُسے زیمل کی بات کسی صورت ہضم نہیں ہوئی تھی. سونیا کے ساتھ میل جول اُس کی ڈیوٹی کا حصہ تھا. مگر زیمل کا کاظم میں انٹرسٹ لینا جاذل کو زہر سے بھی بُرا لگا تھا.

" پلیز میجر جاذل آپ کسی کی یوں انسلٹ نہیں کرسکتے. اور میری مرضی میں جو مرضی کروں. کاظم کے ساتھ ڈنر پر جاؤں یا کسی اور کے ساتھ آپ مجھے نہیں روک سکتے. "

جاذل اپنی چیئر سے اُٹھ کر قریب آچکا تھا. جب زیمل سینے پر دونوں بازو باندھے جاذل کو چڑاتے ہوئے بولی. اُسے جاذل کا طیش زدہ انداز اب مزہ دے رہا تھا.

" تم نہیں جاؤ گی ڈنر پر نہ اُس کے ساتھ اور نہ کسی اور کے کے ساتھ. "

جاذل دو قدم اُٹھاتے زیمل کے قریب آتے بولا. دونوں کے درمیان اب صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا.

" میں جاؤں گی آپ کے پاس مجھے روکنے کا کوئی حق نہیں ہے. "

زیمل بھی بنا جاذل سے گھبرائے اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی.

" حق ہے اِن فیکٹ سب سے زیادہ حق تو مجھے ہی حاصل ہے. شوہر ہوں میں تمہارا. "

جاذل کے بدلتے انداز پر زیمل نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

" آپ اچھے سے جانتے ہیں وہ ایک کاغذی رشتہ ہے. اِس سے زیادہ کچھ نہیں. آپ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتے. نہ ہی میں ایسا کوئی حق مانتی ہوں. "

زیمل کو جاذل کے اٹل انداز سے خوف محسوس ہونے لگا تھا. مگر وہ اپنے لہجے کو مضبوط بنائے اُس سے ڈٹ کر مقابلہ کررہی تھی.

"مگر میں آج اور ابھی سے مانتا ہوں. "

جاذل مزید پھیلا تھا.

" مجھے ڈنر کے لیے جانا ہے دیر ہورہی ہے. "

زیمل اُس کی بات کو صاف نظر انداز کرتی جانے کے لیے مڑی تھی.

جب جاذل نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنی جانب کھینچا تھا. زیمل سنبھلنے کی کوشش کیے بغیر سیدھی جاذل کے سینے سے جا ٹکرائی تھی.

" یہ کیا بدتمیزی ہے. "

زیمل نے آنکھیں پھاڑے غصے سے جاذل کو گھورا. اور اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے دور ہونا چاہا تھا. مگر جاذل نے اُسے ایسا کوئی بھی موقع دیے بغیر اپنے بانہوں میں اُٹھائے باہر کی طرف بڑھا تھا.

" واٹ نان سینس میجر جاذل یہ آپ کیا کررہے ہیں. مجھے نیچے اُتاریں. "

زیمل نے ٹانگیں ہلاتے اترنے کی کوشش کی تھی. مگر جاذل اُس کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہونے دیتے وہاں سے نکل آیا تھا.

جاذل بلڈنگ کی خفیہ سیڑھیوں سے ہوتے بیک گیٹ پر موجود اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا.

" آپ یہ کیا کررہے ہیں مجھے کہاں لے کر جارہے ہیں. "

زیمل نے جاذل کو گاڑی کا دروازہ کھولتے دیکھ غصے سے پوچھا. کیونکہ اُس کی مسلسل مزاحمت کا تو جاذل پر کوئی اثر ہو نہیں رہا تھا. زیمل کے ناخن جاذل کی گردن پر ایک دو خراشیں بھی ڈال چکے تھے مگر جاذل کو پرواہ کہاں تھی.

" ڈنر پر لے کر جا رہا ہوں. وہیں جانا تھا نا آپ نے. "

جاذل نے زیمل کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے گاڑی کو لاک کیا تھا.

" مگر میں خود جاسکتی ہوں. "

زیمل فوراً جذبز ہوئی تھی. اُس نے تو جھوٹ بولا تھا. اب وہ وہاں پر کاظم کو کیسے بلائے گی.

جاذل زیمل کی کسی بھی بات کا جواب دیے بغیر گاڑی ڈرائیو کرتا رہا تھا.

کچھ دیر بعد گاڑی ایک خوبصورت سے گھر کے سامنے جا رکی جو باہر سے تو بہت ہی شاندار لگ رہا تھا مگر اندر سے بلکل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا. گارڈ کے گیٹ کھولتے ہی جاذل گاڑی اندر لے آیا تھا.

" یہ کس کا گھر ہے آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں. "

زیمل کے سوال ایک بار پھر سٹارٹ ہوچکے تھے.

مگر جاذل نے اُسی طرح خاموشی سادھے زیمل کا ہاتھ پکڑتے اُسے گاڑی سے باہر نکالا تھا.

پورچ سے نکلتے جاذل اُسے لیے گھر کے اندر کی طرف بڑھا تھا.

جیسے ہی زیمل نے اندر قدم رکھا اچانک سے لائٹس آن ہوئی تھیں. اور سامنے کا دلفریب منظر دیکھتے زیمل مبہوت رہ گئی تھی.

پورے ہال کو وائٹ کلر کے مختلف قسم کے پھولوں سے سجایا گیا تھا. سٹائلش سے دیے پھولوں کے درمیان پڑے اُن کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہے تھے.

زیمل نے اردگرد کا جائزہ لیتے قدم اندر کی طرف بڑھائے.

اُس کے لیے یہ سب بہت ہی انوکھا اور خوبصورت تھا.

اتنی زبردست اور دلفریب ڈیکوریشن اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.

وائٹ کلر اُس کا فیورٹ تھا. مگر آج جس طرح سے ہر چیز میں اُس کا استعمال کیا گیا تھا. یہ کلر اُسے اتنا اچھا کبھی نہیں لگا تھا.

ہال کے بلکل درمیان فانوس کے بلکل نیچے ایک خوبصورت سے سجے ٹیبل کے گرد دو چیئرز رکھی گئی تھیں.

زیمل اُس ماحول میں اتنی مدہوش ہوچکی تھی کہ اُسے جاذل کا خیال ہی نہیں آیا تھا.

زیمل نے اچانک ہوش میں آتے پلٹ کر جاذل کی طرف دیکھا تھا. جو وہیں پر موجود سینے پر ہاتھ باندھے زیمل کی طرف دیکھ رہا تھا. اُس کے اپنی طرف متوجہ ہونے پر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ اُس کے قریب آیا تھا.

" یہ سب کیا ہے. مطلب یہ سب کس کے لئے."

زیمل کے بے تکے سوال پر جاذل نے مسکراتے سر نفی میں ہلایا تھا.

" سونیا کے لیے کیا سب. اچھا ہے نا اُس پسند آئے گا کیا."

جاذل کی آنکھوں میں چھپی شرارت پر بغیر غور کیے اُس کی بات کو سچ سمجھتے زیمل کا موڈ آف ہوا تھا.

" ہاں بہت اچھا ہے اُسے بہت پسند آئے گا. "

زیمل جاذل کو دانت پیس کر جواب دیتی وہاں سے جانے کے لیے مڑی تھی.

" کیپٹن زیمل کیا آپ اِس چھچھورے بندے کے ساتھ آگے کی اپنی پوری زندگی گزارنا چاہیں گی."

جاذل نے زیمل کی کلائی کو اپنی گرفت میں لیتے جو بات کہی تھی اُس نے زیمل کو پلٹنے پر مجبور کردیا تھا.

اُسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ جاذل نے یہ بات مذاق میں کہی ہے یا وہ واقعی ہی سیریس ہے.

زیمل کے ساکت انداز پر جاذل ہولے سے مسکرایا تھا.

" میں اظہار کے معاملے میں بلکل اناری ہوں نہیں جانتا تم تک اپنے جذبات کیسے پہنچاؤں. ہاں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں. محبت جس رشتے سے کچھ ٹائم پہلے واقف بھی نہیں تھا. اب ایک پاگل سی سرپھری لڑکی سے اُسی رشتے میں بُری طرح گرفتار ہوچکا ہوں.

ہمارا رشتہ جو صرف ایک کنٹریکٹ کی بیس پر کیا گیا تھا. میں اُس کو اپنی زندگی کا سب سے اہم رشتہ بنانا چاہتا ہوں کیا تمہیں بھی میرا ساتھ منظور ہے. "

جاذل کی بات پر زیمل حیرت ذدہ سی اُسے دیکھے گئی تھی. اُسے اِس وقت بلکل بھی جاذل سے کسی ایسی بات کی امید نہیں تھی.

اور جاذل کے اتنے بڑے اظہار پر اُس کا دماغ جھنجھا اُٹھا تھا.

پہلی دفعہ اُسے اپنے دل کی دھڑکنے آؤٹ آف کنٹرول ہوتی محسوس ہوئی تھیں. مگر وہ ابھی کچھ بھی سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی. اُس کے لیے یہ سب بہت نیا تھا.

نہ ہی وہ خود کو مینٹلی تیار کر پائی تھی.

" نہیں ایسا نہیں ہوسکتا. میجر جاذل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں. آئی تھنک آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے. "

زیمل کی بات پر جاذل کو جھٹکا لگا تھا.

" آر یو کریزی زیمل غلط فہمی کی بنیاد پر میں یہ سب کروں گا. "

زیمل کے اُلٹے جواب پر جاذل کا دماغ گھوم چکا تھا.

وہ اچھے زیمل کی اپنے لیے فیلنگز سمجھ چکا تھا. مگر زیمل خود ہی ابھی کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی.

" نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا. "

زیمل نے جاذل کا بدلتا موڈ دیکھتے بات کو سنبھالنا چاہا تھا. مگر اُس سے پہلے ہی جاذل کے موبائل پر آنے والی رنگ پر وہ اُس طرف متوجہ ہوا تھا.

اور بات سنتے ہی عجلت میں زیمل کو ڈرائیور کے ساتھ گھر جانے کی ہدایت کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.

جبکہ زیمل خاموش نظروں سے اُسے جاتے دیکھ رہی تھی. اُسے جاذل کو ایک بار پھر سے ناراض کردیا تھا. جاذل اُس کے ایک بار دھتکارنے کے باوجود اتنی محبت سے اُس کی طرف بڑھا تھا. مگر ایک بار پھر بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے وہ اُسے خود سے دور کر چکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" اگر میرا بیٹا اُن ایجنسی والوں کے ہاتھ لگ گیا تو میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کچھ تباہ کردوں گا. "

ذی ایس کے کو کسی پل چین نہیں مل رہا تھا. وہ ہر حال میں اپنے بیٹے تک پہنچنا چاہتا تھا. مگر برہان کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا.

اِس وقت بھی اپنے آدمی کی مخبری پر وہ ایک علاقے میں پہنچا تھا. مگر وہاں پر برہان کا نام ونشان بھی موجود نہیں تھا.

" بابا آپ کو اِس طرح وہاں اکیلے نہیں جانا چاہئے تھا. یہ دشمنوں کی کوئی سازش بھی ہوسکتی ہے. اور وہ علاقہ تو ویسے بھی ہمارے لیے سیف نہیں ہے. "

ہمایوں ذی ایس کے سے بات کرتا فکرمند لہجے میں بولا.

" تو کیا میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں. اور اپنے بیٹے کی موت کی خبر کا انتظار کروں. "

ذی ایس کے نے غصے میں کہتے فون بند کردیا تھا. جب اچانک اُس کی گاڑی پر فائرنگ سٹارٹ ہوچکی تھی. اُس کے پروٹوکول کی والی پہلی گاڑی کو بلاسٹ سے اُڑا دیا گیا تھا.

یہ سب دیکھتا ذوالفقار جلدی سے اپنا اسلحہ نکالتا گاڑی سے نکلا تھا. مگر باہر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوچکی تھی. اُس کے آدمی ایک کہ بعد ایک گرے رہے تھے.

ذوالفقار کااکیلا اُن سے مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا تھا. ابھی اُسے اپنی جان بچانا بھی مشکل ہی لگ رہا تھا. کیونکہ آگے والی دونوں گاڑیوں کو آگ لگ چکی تھی.

ذوالفقار نے جیسے ہی اپنی گاڑی کے پیچھے سے نکل کر بھاگنا چاہا. حملہ آوروں نے دور سے ہی اُس پر فائر کھول دیا تھا. اُس کا نشانہ سیدھا ذوالفقار کے سینہ پر تھا. اِس سے پہلے کے اُس کی گن سے نکلنے والی گولیاں ذوالفقار کا کام تمام کرتیں.

کسی سے نے اُسے بازو سے پکڑ کر دوسری جانب گھسیٹا تھا. اور ذوالفقار کی ڈھال بنتے حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ شروع کردی تھی.

جس طرح وہ شخص دھڑا دھڑ حملہ آوروں کو گرا رہا تھا. اِس وقت وہ ذوالفقار کو کسی فرشتے سے کم نہیں لگا تھا.

پر زور انداز سے اُن سب کا مقابلہ کرتے اُس شخص نے اگلے چند منٹوں میں اُن سب لوگوں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا.

خطرہ ٹلتے دیکھ وہ جلدی سے ذوالفقار کی طرف بڑھا تھا.

" صاحب آپ ٹھیک ہو. آپ کو چوٹ تو نہیں لگی. "

ذوالفقار کو پکڑ کر اُوپر اُٹھاتے اُس نے پوچھا.

" تم کون ہو. یہاں کیسے پہنچے اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر میری جان کیوں بچائی."

ذوالفقار نے اُس کی بات کو اِگنور کرتے اپنے دماغ میں موجود اُلجھنوں کو ختم کرنا چاہا تھا.

ذوالفقار کے مشکوک انداز پر وہ شخص ہولے سے مسکرایا تھا.

" صاحب گلزار نام ہے میرا یہ جس گاؤں سے آپ گزر رہیں ہیں. اِسی کا ہی ایک غریب سا باسی ہوں میں. میں وہاں اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا. جب یہاں کسی کو مشکل میں دیکھ کر مدد کرنے آگیا.

اپنے علاقے میں کسی کے ساتھ ایسا ہوتے نہیں دیکھ سکتا. "

گلزار نے اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے اپنا تعارف کروایا تھا.

" مگر جس مہارت سے تم نے اُن سب لوگوں کا مقابلہ کیا ہے. اور تمہارا بندوق استعمال کرنے کا انداز دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ تم ایک عام انسان ہو. "

گلزار کی بات سننے کے باوجود ذوالفقار کی تسلی نہیں ہوپائی تھی.

" صاحب پیٹ کی بھوک کچھ بھی کروا دیتی ہے. اور اِن سے تو چولی دامن کا ساتھ ہے. مگر دو سال ہوگئے اِن کا ساتھ چھوڑے. یہ تو ابھی وہاں آپ کے آدمی کے پاس سے اُٹھائی ہے.

اوکے صاحب اب میں چلتا ہوں. "

گلزار ہاتھ میں پکڑی بندوق ذوالفقار کی طرف بڑھاتے وہاں سے جاتے بولا.

" ایک منٹ رکو. کیا تم مجھے اپنی کہانی تفصیل سے سنا سکتے ہو. کیا پتا میں تمہاری کوئی مدد کرسکوں."

گلزار کے بڑھتے قدم ذوالفقار کی آواز پر تھمے تھے.

" کیا مطلب کیسی مدد. "

گلزار نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا.

" تم پہلے اپنے بارے میں سب بتاؤ مجھے. پھر میں تمہیں جواب دوں گا اِس بات کا. "

ذوالفقار کی گہری نظریں گلزار کا ایکسرے کرنے میں مصروف تھیں. اُسے وہ اپنے کام کا بندہ لگا تھا.

" نہ صاحب جی مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے کیا. جو اپنے پچھلے سارے کرتوت آپ کو بتا دوں. آپ جو آگے سے کوئی پولیس والے نکلے میں تو بے موت مارا جاؤں گا. "

گلزار نے پولیس کا سوچتے جھجھری لی تھی.

اُس کے انداز کو دیکھتے ذی ایس کے نے قہقہ لگایا تھا.

" ایسا کچھ نہیں ہے تم مجھ پر اعتبار کرسکتے ہو. "

ذوالفقار کے بار بار یقین دلانے پر آخر کار گلزار راضی ہو ہی گیا تھا.

" صاحب ماں تو میرے پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئی. باپ نے ہی مزدوری کرتے پال پوس کر بڑا کیا. مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا. ابھی میں بمشکل پندرہ سال کا ہوا. جب میرا باپ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوگیا. میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے. اتنے مہنگے علاج کا انتظام کہاں سے کرتا.

مگر اپنے باپ کو یوں تڑپ تڑپ کر مرنے بھی نہیں دے سکتا تھا. اُنہیں دنوں میری ملاقات ایک کالی نامی شخص سے ہوئی جو اُس وقت کا ایک مشہور ڈاکو مانا جاتا تھا. میری پریشانی سمجھتے کچھ دنوں کی ٹریننگ دینے کے بعد اُس نے مجھے بھی اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا. ڈاکو ہونے کے ساتھ ساتھ میں کچھ ہی عرصے میں کرائے کا غنڈہ بھی بن گیا.

پیسے کی بھوک ہی ایسی ہوتی ہے صاحب. باپ کے علاج کے لیے اب میرے پاس پیسا ہی پیسا تھا. مگر وہ پیسا سب بے کار چلا گیا کیونکہ دو سال پہلے میرا باپ زندگی کی جنگ ہارتے مجھے اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا. "

بات کرتے گلزار کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے.

ذوالفقار کی اُس کی ایک ایک حرکت پر نظر تھی. گلزار کی آنکھوں کا چھلکتا دکھ اُس کی باتوں کی سچائی کا گواہ تھا.

ذوالفقار نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسے حوصلہ دیا تھا.

"دو سال ہوئے وہ کام چھوڑے. مگر آج اِن بندوقوں کو دیکھتے اندر کی آگ باہر آگئی. "

گلزار نے اپنے آنسو صاف کرتے کہا.

" میرے ساتھ کام کرو گے. "

ذوالفقار کی بات پر گلزار نے جھٹکے سے سر اُٹھایا تھا.

" کک مطلب صاحب میں سمجھا نہیں. آپ اتنے بڑے آدمی ہو آپ کو میری کیا ضرورت. "

گلزار اُس کی شاندار گاڑیوں اور گارڈز کی طرف دیکھتے بولا.

" بہت ضرورت ہے. تم اچھے سے سوچ لو یہ میرا ایڈریس ہے. کل اِس پر آجانا. تمہارا انکار ہم دونوں کے لیے فائدے مند ہوسکتا ہے.

عیش کرو گے میرے ساتھ کام کرکے. "

ذوالفقار کی آنکھوں کی فرعونیت واضح تھی.

جب اُسی لمحے ہمایوں اپنے گارڈز سمیت وہاں پہنچا تھا.

" تھینک گارڈ بابا آپ ٹھیک ہیں. آئیں پلیز گاڑی میں بیٹھیں یہاں رُکنا خطرے سے خالی نہیں ہے. "

ہمایوں نے غور سے گلزار کو گھورتے ذی ایس کے سے کہا تھا.

جب اُس کی بات پر ذی ایس کے مسکرایا تھا.

" مجھے یہاں اب کوئی خطرہ نہیں ہے. "

اُس کا اشارہ گلزار کی طرف تھا. جس پر گلزار نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو ہلکے سے خم دیا تھا.

ذوالفقار اُسے ایک بار پھر اپنی بات ماننے کی ہدایت دیتا وہاں سے نکل آیا تھا.

" بابا یہ شخص کون تھا. "

گاڑی میں بیٹھتے ہمایوں نے فوراً تجسس کے مارے سوال کیا تھا. کیونکہ ذوالفقار کے مزاج سے وہ اچھے سے واقف تھا. وہ کسی بھی شخص سے بلاوجہ بات نہیں کرتا تھا. اور مسکرانا تو بہت دور کی بات ہے.

" اِسی نے حملہ آوروں سے بچایا ہے مجھے. محسن ہے میرا یہ. "

ذی ایس کے کو گلزار نے کچھ زیادہ ہی امپریس کردیا تھا.

" مگر آپ کو اِس طرح اتنی جلدی کسی پر اتنا ٹرسٹ نہیں کرنا چاہیے."

ہمایوں نے اُسے ہوشیار کرنا چاہا تھا.

" ہمم جانتا ہوں. اِس لیے تمہاری ڈیوٹی ہے کل تک اِس گلزار کا سارا بائیو ڈیٹا میرے سامنے ہونا چاہیے."

ذوالفقار کی بات پر ہمایوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا

" سوہا نے جن لوگوں کی نشاندہی کی. کچھ پتا چلا اُن کا یا نہیں. مجھے جلد از جلد اُس ٹیم کے ہر ممبر کی ساری انفارمیشن چاہئے. "

ذوالفقار کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا. اُس کی چھٹی حس اُسے کچھ بُرا ہونے کا الارم دے رہی تھی. اِس بار تو وہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس کا بیٹا خطرے میں تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" آج تو بڑی رونق لگی ہوئی یہاں. واؤ کتنی زبردست مہندی لگ رہی ہے. "

ماہ روش لاؤنج میں داخل ہوتے خوشگواریت سے بولی. جہاں ہر طرف رنگ اور خوشبو پھیلی ہوئی تھی.

" ماہی آؤ نا تم بھی لگواؤ. "

نیہا جو دونوں ہاتھوں میں بھر بھر کر مہندی لگوا چکی تھی. ماہ روش کو بھی اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تھا.

باقی سب خواتین بھی وہیں براجمان کسی نہ کسی کام میں مصروف تھیں

" مگر یہ سب ہو کس خوشی میں رہا ہے. "

زیمل نیہا کہ پاس بیٹھتے بولی. جواب دینے سے پہلے نیہا ماہ روش کا ہاتھ مہندی لگانے والی کے ہاتھ میں دے چکی تھی.

" ارتضٰی بھائی کی شادی ہورہی نا. تمہیں بتایا تھا نا اُن کی شادی کے بارے میں تم بھول گئی شاید. "

نیہا کی بات پر ماہ روش ساکت نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی. آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوچکے تھے. جنہیں چھپانے کے لیے ماہ روش نے فوراً چہرہ جھکا لیا تھا. سب لوگ اُنہیں دونوں کی طرف متوجہ تھے.

ماہ روش کوئی سخت ردعمل دے کر کسی کے سامنے کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی.

اُس کا دل چاہا تھا ابھی اُس سنگدل بے وفا کے پاس جائے اور اُس سے پوچھے کہ اور کتنے ظلم ڈھانے باقی ہیں. اگر یہ سب ہی کرنا تھا تو وہ نرم محبت بھرا رویہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی.

کیوں دل میں بہار لاکر ایک بار پھر اُسے ویرانیوں کے سپرد کرنا چاہتے ہو.

مگر ماہ روش نے سوچ لیا تھا. بس بہت ہوگیا. بہت بے مول کر لیا تھا اُس نے خود کو اور اپنی محبت کو اُس پتھر دل شخص کے سامنے. اب اور نہیں.


ارتضٰی کو کسی اور عورت کا ہوتا دیکھنا ماہ روش کے لیے موت کے برابر تھا. لیکن اب اُس نے پتھر ہوتے یہ درد سہنے کا فیصلہ کرلیا تھا.

" اسلام وعلیکم بیوٹیفل لیڈیز. "

زیمل اور ریحاب نے لاؤنج میں داخل ہوتے با آواز بلند سلام کیا تھا.

جس پر ماہ روش کے سوائے وہاں موجود سب لوگوں نے اُن کا خوشدلی سے استقبال کیا تھا.

ماہ روش نے زیمل کے چہکتے انداز پر کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

" واؤ ماہی کتنی پیاری مہندی لگ رہی تمہارے ہاتھوں پر. مجھے بھی لگوانی ہے. "

زیمل ماہ روش کی گوریوں کو مکمل نظر انداز کرتے باقی سب سے باتوں میں مصروف تھی.

ماہ روش نے ایک ہاتھ پر مہندی لگتے ہی جان چھڑواتے فوراً اُٹھنا چاہا تھا.

" ارے ماہ روش آپ کہاں جارہی. دوسرے ہاتھ پر بھی لگوائیں نا. بہت اچھی لگے گی. "

ماہ روش کو اُٹھتے دیکھ ریحاب نے اُس کو بنا کچھ بولنے کا موقع دیے اُس کا دوسرا ہاتھ بھی آگے کردیا تھا.

ماہ روش نے بے چارگی سے ریحاب کی طرف دیکھا جو جواب میں ہلکا سا مسکرائی تھی.

ماہ روش کو اِس وقت ہر بندہ اپنا دشمن لگ رہا تھا. زینب, ناہید بیگم سب لوگ بڑے خوش اور مطمئن انداز میں اپنی تیاریوں میں مصروف تھیں. اُس کی کسی کو پرواہ ہی نہیں تھی.

اور زیمل تو ارتضٰی کے بارے میں اُس کی فیلنگز سے اچھے سے واقف تھی. وہ ارتضٰی کی بیلا کے ساتھ شادی پر ایسے خوش ہورہی تھی. جیسے ماہ روش نہیں بیلا اُس کی بیسٹ فرینڈ ہو.

ماہ روش نے غصے سے گھور کر اپنے ہاتھوں کی دیکھا. مہندی تو اُس کے ہاتھوں میں ایسے لگی ہوئی تھی جیسے وہی دلہن ہو.

" ماما میرے سر میں درد ہورہا ہے. میں کچھ دیر آرام کرنے جارہی ہوں. "

ماہ روش مہندی ختم ہوتے ہی جلدی سے وہاں سے اُٹھی تھی. تاکہ کمرے میں جاکر جلد سے جلد اِسے دھو سکے.

" بیٹا آپ چلی جانا. پر پلیز تھوڑی دیر کے لیے ادھر آنا مجھے ایک ہیلپ چاہئے تھی آپ کی. "

ناہید بیگم نے پیار سے پچکارتے ماہ روش کو اپنی طرف بلایا تھا کیونکہ وہ ماہ روش کے اندر جانے کا مقصد اچھے سے سمجھ گئی تھیں.

ماہ روش مجبوراً اُن کے پاس جا بیٹھی تھی.

" بیٹا آج ہی یہ سیٹ جیولر نے بنا کر بھیجا ہے ارتضٰی کی دلہن لے لیے بنوائے میں نے. مگر سمجھ نہیں آرہا. کل بارات کے لیے اِن سب میں سے کون سا سیٹ اچھا لگے گا."

ناہید بیگم کی بات پر ماہ روش نے ایک خفا نظر اُن پر ڈالی تھی. اُس کے یہاں آنے سے لے کر اب تک ناہید بیگم نے اُس سے زینب بیگم سے بھی زیادہ پیار دیا تھا. اُسے اپنی سگی بیٹی مانا تھا.

مگر اب اُس کے دل کی حالت سے اتنی انجان کیوں بن رہی تھیں وہ.

" بڑی ماما سب ہی بہت اچھے ہیں. مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی. آپ پلیز جس نے یہ پہننا ہے اُسی سے ہی پوچھ لیں نا. "

ماہ روش کا صبر جواب دے چکا تھا. وہ بہت ہی نرمی سے اُنہیں جواب دیتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی.

اُس کے وہاں سے جاتے ہی سب نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا.

" ہائے ﷲ مجھے تو ماہی سے بہت ڈر لگ رہا ہے. کل جیسے ہی اُسے سب سچ پتا چلے گا. سب سے پہلے اُس نے میرا گلا ہی دبانا ہے. ابھی بھی کتنے غصے سے دیکھ رہی مجھے.

ارتضٰی سر کو بھی لگتا ہے اتنے مشکل مشکل مشن کرتے اب اپنی اصل زندگی میں بھی ہر کام اُلٹے طریقے سے کرنے کی عادت ہوگئی ہے. "

زیمل کی بات پر وہاں سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

" ماہی کا اُترا چہرا دیکھ میرا تو اپنا دل کررہا تھا . اُسے سب سچ بتا دوں مگر پھر اپنے اُس بقول ماہی کے کھڑوس بیٹے کا سوچ کر چپ کر گئی. "

ناہید بیگم بھی ماہ روش کو اُداس دیکھ خود بھی اُداس ہوئی تھیں.

" اب اتنا کھڑوس بھی نہیں ہے میرا بیٹا. ماہی کو نہ بتانے کے پیچھے بھی اُس کا کوئی ریزن ہوگا. کیونکہ ماہی کو پریشان تو اب وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتا."

زینب بیگم کے لہجے میں ارتضٰی کے لیے بے پناہ محبت تھی.

" ریحاب زیمل بیٹا آپ دونوں کے ڈریسز تیار کروادیے ہیں میں نے آپ لوگ اُوپر جاکر ایک دفعہ چیک کر لیں. نیہا آپ جاکر دیکھا دو. "

ناہید بیگم کی بات پر وہ تینوں سر ہلاتے اُوپر کی طرف بڑھ گئی تھیں.

ماہ روش غصے بھری نظروں سے سامنے پڑے ڈریس کو گھورے جارہی تھی. جو آج رات کی مہندی میں پہننے کے لیے اُس کی طرف بھجوایا گیا تھا.

ماہ روش کا دل چاہ رہا تھا اِس ڈریس کو آگ لگا دے. کسی کو اس کی اور اُس کے جذبات کی پرواہ ہی نہیں تھی. شام سے رات ہوچکی تھی مگر نہ ہی وہ باہر نکلی تھی اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر اُس کے کمرے میں آیا تھا. بس ایک بار ملازمہ نے ہی آکر ڈریس اور جیولری اُسے دی تھی.

ماہ روش کو اپنی بے وقعتی پر رونا آرہا تھا. اُس پر جان چھڑکنے والی اُس کی ماما اور بڑی ماما بھی آج اُسے بھولی ہوئی تھیں. اِس لیے آج اُسے ارتضٰی سے تو کوئی گلہ تھا ہی نہیں کیونکہ وہ تو تھا ہی سدا کا ظالم اور سنگدل انسان اُسے تو پہلے بھی کبھی ماہ روش کے جذبات کی پرواہ رہی ہی نہیں تھی. جو آج کرتا. آج تو ویسے بھی وہ ہواؤں میں اُڑ رہا ہوگا.

ارتضٰی سمیت گھر والوں کی بے حسی کے بارے میں سوچتے ماہ روش کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے. اُس کی بیسٹ فرینڈ زیمل جو اچھے سے ارتضٰی کے لیے اُس کی بے انتہا محبت اور تڑپ سے آگاہ تھی. شام میں آچکی تھی مگر اُسے بھی ایک بار توفیق نہیں ہوئی کہ آکر اُس کا حال پوچھ جائے.

مگر ماہ روش یہ نہیں جانتی تھی کہ اُن سب کے آج دور دور رہنے کی وجہ ماہ روش کو اگنور کرنا یا بھولنا نہیں بلکہ اُس کے سامنے پول نہ کھل جائے یہ ریزن تھا.

ماہ روش اپنی سوچوں میں بُری طرح غرق تھی جب اُسی وقت دروازہ ناک کرتے زینب بیگم اندر داخل ہوئی تھیں.

ہلکے گولڈن کلر کے خوبصورت سے شیفون کے سوٹ میں ڈوپٹے کو نفاست سے سر پر سجائے وہ بہت ہی پروقار سی لگ رہی تھیں.

اُن کو دیکھ ماہ روش کو اندازہ ہو چکا تھا کہ باہر اب سب لوگ ریڈی ہوچکے ہیں.

" بیٹا آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی. بس تھوڑی ہی دیر میں مہندی کا فنکشن سٹارٹ ہونے والا ہے. "

زینب بیگم ماہ روش کے پاس آتے بولیں.

" ماما میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے. پلیز مجھے فنکشن میں نہیں جانا. "

ماہ روش نے پلکیں جھپکتے بہت مشکل سے اپنے آنسو روکے تھے.

" ماہ روش میں آپ کے اِس رویے کی وجہ سمجھ نہیں پارہی .آپ ایسا بی ہیو کیوں کررہی ہیں. نیچے سب مہمان آچکے ہیں بار بار آپ کا پوچھ رہیے ہیں. اور آپ کب سے روم میں بند ہوکر بیٹھی ہیں.

کیا اِس سب کا ریزن ارتضٰی کی شادی ہی ہے."

زینب بیگم نے کھوجتی نظروں سے ماہ روش کی طرف دیکھا تھا.

" نہیں ماما ایسی بات نہیں ہے. "

ماہ روش کے نفی کرنے پر بھی ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا باہر نکل گیا تھا.

ماہ روش کی کیفیت دیکھتے زینب کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا. وہ یہاں صرف اپنی تسلی کرنے ہی آئی تھیں. کہ ماہ روش ارتضٰی سے انکاری سچ میں تھی یا صرف کچھ غلط فہمیوں کی بنا پر ایسا کررہی تھی. کیونکہ ہر حال میں اُنہیں اپنی بیٹی کی خوشی ہی عزیز تھی.

" اچھی بات ہے. ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے. بیٹا یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے. آپ نے ہی جب ارتضٰی سے ملنے تک سے انکار کردیا ہے. تو ارتضٰی کو اپنی لائف کے بارے میں کوئی فیصلہ تو کرنا ہی تھا نا.

اِس لیے اب میری پیاری بیٹی فوراً اُٹھے اور اچھا سا تیار ہوکر باہر آجائے سب لوگ تم سے ملنا چاہتے ہیں. میں زیمل اور ریحاب کو بھیجتی ہوں وہ آپ کے جلدی تیاری میں مدد کروا دیں گی. "

زینب محبت سے ماہ روش کو پچکارتے وہاں سے نکل گئی تھیں.

ماہ روش نے غصیلی نظروں سے سامنے پڑے لہنگے کی طرف دیکھا تھا. پنک اور لائٹ گرین کنٹراس کا وہ بہت ہی خوبصورت کامدار بھاری لہنگا تھا.

ماہ روش کا ایک پرسنٹ بھی دل نہیں تھا. تیار ہونے پر اور باہر جانے پر. مگر مجبوراً اُسے اُٹھنا پڑا تھا.

جب زیمل اور ریحاب سجی سنوری روم میں داخل ہوئی تھیں.

اُن دونوں کو دیکھتے ماہ روش کے غصے میں مزید اضافہ ہوا تھا. جس کا بھرپور اظہار کرتے ماہ روش نے بیڈ پر پڑے کشن اُٹھا کر اُن پر اُچھال دیے تھے.

" ابھی بھی کیا ضرورت تھی آنے کی. جاؤ جاکر باہر انجوائے کرو نا. "

ماہ روش کے دانت پیسنے پر وہ دونوں بے ساختہ اُمڈ آنے والی ہنسی چھپاتی اُس کے حملوں سے بچتی آگے بڑھی تھیں.

" ماہی نیچے بہت کام تھا. وہیں مصروف تھے. اور ہم نے سوچا تم آرام کررہی ہو اِس لیے تمہیں ڈسٹرب نہ کریں. "

زیمل نے صلحہ جو انداز میں آگے بڑھتے ماہ روش کا غصہ کم کرنا چاہا تھا.

" ماہ روش جلدی سے تیار ہوجاؤ. نیچے فنکشن شروع ہونے ہی والا ہے. "

ریحاب کو ڈر تھا کہ زیمل ماہ روش کی حالت دیکھ کچھ بول ہی نہ دے اِس لیے وہ جلدی سے بیچ میں بول پڑی.

" ہاں جا رہی ہوں. "

ماہ روش بے دلی سے ڈریس اُٹھاتے واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


مہندی کے فنکشن کا انتظام نور پیلس کے بڑے سے لان میں کیا گیا تھا. اور سیکیورٹی ریزنز کی وجہ سے انوائیٹ بھی صرف کچھ خاص اور قریبی لوگوں کو ہی کیا گیا تھا.

خوبصورت سے لان کا نظارہ آج دیکھنے لائق تھا. وہاں موجود ہر چیز کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا. ہر طرف رنگ اور خوشبو پھیلی ہوئی تھی.

سٹیج کو بہت ہی دلکش انداز میں گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا. جن میں زیادہ استعمال اورنج اور ییلو فلاورز کا کیا گیا تھا.

سٹیج پر رکھے لکڑی کے جھولے کو بھی بہت ہی شاندار اور منفرد انداز میں سجایا گیا تھا. جس پر دلہا دلہن نے بیٹھنا تھا.

" ریحاب زیمل بیٹا ماہ روش کہاں ہے وہ آئی نہیں آپ لوگوں کے ساتھ. "

ناہید بیگم اُن دونوں کو وہاں آتے دیکھ اُن کے قریب آئی تھی.

" آنٹی آپ فکر مت کریں. ماہی تیار ہوچکی ہے بس آتی ہی ہوگی. "

زیمل کی بات پر ناہید بیگم مطمئن ہوتے باقی مہمانوں کی طرف بڑھ گئی.

اُسی اثنا دلہا کی آمد کا شور اُٹھا تھا.

سب کی نظریں انٹرس کی طرف گئی تھیں. جہاں سے ارتضٰی , جاذل اور ارحم تینوں بلیک کرتے شلوار میں ملبوس بڑی شان سے چلتے وہاں داخل ہوئے تھے.

وہ تینوں وہاں موجود تمام لڑکیوں کے دل کی دنیا ہلا گئے تھے.

جبکہ ارتضٰی سکندر کی تو آج چھب ہی نرالی تھی. ہمیشہ سنجیدہ اور سخت مزاج رکھنے والے ارتضٰی کے چہرے سے آج مسکراہٹ غائب ہی نہیں ہورہی تھی.

ناہید اور زینب بیگم نے آگے بڑھتے اُن تینوں کی نظر اُتاری تھی.

ناہید بیگم آج اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کو اتنا خوش اور مطمئن دیکھ اندر تک سرشار ہوگئی تھیں. اُن کی نظریں ارتضٰی کے خوش و خرم چہرے سے ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھیں.

ارتضٰی کی متلاشی نظروں نے اردگرد ماہ روش کو ڈھونڈا تھا. مگر اُسے وہاں نہ پاکر مایوسی سے لوٹ آئی تھیں.

" حوصلہ کریں میجر صاحب کیپٹن ماہ روش نے ادھر ہی آنا ہے. "

ارتضٰی کی بے چینی نوٹ کرتے ارحم نے اُسے چھیڑا.

" ماما کہاں ہے ماہ روش مجھے دیکھنا ہے اُسے اب لے بھی آئیں. مجھ سے مزید ویٹ نہیں ہورہا. "

وہ بھی آگے سے ارتضٰی سکندر تھا ارحم کی بات کا اثر لیے بغیر بڑی ہی ڈھٹائی سے اُس نے ناہید بیگم کو کہا تھا.

" ہاں جی اچھے سے دیکھ رہی ہوں. تم سب کی نظروں کو تینوں جو بے چینی سے ادھر اُدھر گھما رہے ہو. تھوڑا سا صبر کر لو ابھی آتی ہیں تینوں. "

ناہید بیگم نے ہنستے اُن سب کا مذاق بنایا تھا. وہ اچھے سے اُن تینوں کی بھٹکتی نظریں نوٹ کر رہی تھیں.

اُن کی بات کو انجوائے کرتے تینوں کا مشترکہ قہقہ گونجا تھا.

جب اچانک کال آجانے پر جاذل معذرت کرتا سائیڈ پر چلا گیا تھا.

ارتضٰی کے ساتھ باتیں کرتے ارحم کی نظر اچانک زیمل کے ساتھ اُس کی کسی بات پر کھلکھلا کر ہنستی اندر آتی ریحاب پر پڑی تھی.

ریحاب پر نظر پڑتے ہی ارحم اپنی بات بھول چکا تھا.

اورنج اور گولڈن کنٹراس کے لانگ فراک کے نیچے گولڈن لہنگا پہنے بڑے سے کامدار ڈوپٹے کو آگے سے سینے اور شانوں پر پھیلائے کھلے بالوں کے ساتھ وہ ارحم کے حواس معطل کر گئی تھی.

ریحاب نے دونوں ہاتھوں میں چھوڑیاں اور گجرے پہن رکھے تھے. جبکہ گلے اور کانوں میں بھاری سیٹ زیب تن کر رکھا تھا.

" آہم آہم کیپٹن ارحم ہوش میں آجائیں. "

ارتضٰی نے ارحم کی حالت پر محظوظ ہوتے اُسے چھیڑا کیونکہ کچھ دیر پہلے وہ اُسے بھی ایسے ہی تنگ کررہا تھا.

ریحاب نے خود پر کسی کی پرتپیش نظریں محسوس کرتے جیسے ہی سامنے دیکھا. ارحم کو وہاں دیکھ ریحاب کا دل زور سے دھڑکا تھا. وہ کب سے اُسی کی تو منتظر تھی.

زیمل کی نظروں نے بھی ارتضٰی اور ارحم کو وہاں دیکھ فوراً جاذل کو ڈھونڈنا چاہا تھا. مگر اُسے وہ کہیں نظر نہیں آیا تھا. جس پر زیمل کا دل فوراً بُجھ سا گیا تھا. اُسے اپنی ساری تیاری بیکار جاتی محسوس ہوئی تھی. اُسے پوری اُمید تھی کہ آج جاذل ضرور آئے گا اور وہ اُس سے اپنے بُرے سلوک کی معافی مانگ لے گی مگر جاذل کو شاید اِس بار اُس نے زیادہ ناراض کردیا تھا.

زیمل خراب موڈ کے ساتھ ریحاب کو ماہ روش کا پتا کرنے اندر جانے کا کہتی وہاں سے پلٹی تھی. اپنی ہی سوچوں میں اُلجھی وہ آگے چل رہی تھی. جب اچانک اُس کا پیر لہنگے میں اُلجھا تھا. اِس سے پہلے کے وہ لڑکھڑا کر گرتی دو مضبوط بازوؤں نے فوراً اُسے اپنے حصار میں لیتے گرنے سے بچایا تھا.

جاذل کو اپنے سامنے دیکھ زیمل کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا. دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں اتنا گم ہوچکے تھے کہ اردگرد کا ہوش ہی بھول گئے تھے. بنا اُس کے بازوؤں سے نکلنے کی کوشش کیے زیمل اُسی پوزیشن میں جاذل کی بانہوں میں سمٹی رہی تھی.

جبکہ جاذل زیمل کا سہانا رُوپ دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا. پرپل اور گولڈن لہنگا فراک میں بھاری گوٹے سے مزین ڈوپٹے کو دائیں کندھے پر ڈالے وہ گولڈن کلر کی ہی بھاری جیولری میں نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی.

ہمیشہ رف اور ٹف حلیے میں رہنے والی زیمل اِس وقت تمام ہتھیاروں سے لیس جاذل کو چاروں شانے چت کرگئی تھی. زیمل نے بالوں کو کھلا چھوڑ کر ایک طرف کرکے کے آگے کی طرف کر رکھا تھا. جب کہ دوسری طرف اُس نے نفیس سا خوبصورت جھومر لگا کر بالوں کو سیٹ کر رکھا تھا. جو اُس کے چہرے کے پیارے سے فیس کٹ کو مزید دلکشی بخش رہا تھا.

جاذل اور زیمل ایک دوسرے میں اِس بُری طرح سے کھوئے ہوئے تھے. کہ ماہ روش کے قریب آجانے کا بھی نوٹس نہیں لیا تھا.

ماہ روش کے ہلکا سا کھنکھارنے پر وہ دونوں ہوش میں آتے ایک دوسرے سے جدا ہوئے تھے.

" آئم سوری ڈسٹرب کرنے کے لیے مگر وہ دراصل آپ لوگ راستہ بلاک کرکے کھڑے تھے تو مجبوراً مجھے ایسا کرنا پڑا. "

ماہ روش نے اُن دونوں کو جھینپ کر پیچھے ہٹتا دیکھ شرارتی مسکراہٹ سے بتایا.

مگر جاذل زیمل پر ایک سپاٹ نظر ڈالتے بنا کوئی بات کیے وہاں سے ہٹ گیا تھا.

جاذل کے اِس طرح جانے پر ماہ روش نے سوالیہ نظروں سے زیمل کی طرف دیکھا.

" تم دونوں کی صُلحہ نہیں ہوئی کیا اب تک. "

ماہ روش کی بات پر زیمل نے بے چارہ سا منہ بناتے نفی میں سر ہلایا.

" زیمل کوئی حال نہیں تمہارا. جاذل جیسے اچھے بندے کو تم بلاوجہ ہرٹ کررہی ہو. "

زیمل ماہ روش کو اپنی حرکت بتا چکی تھی.

" اچھا نا آج کوشش کرتی ہوں نا سب کلیئر کرنے کی. "

زیمل منہ بناتے منمنائی.

" کلیئر ہی کرنا منانے کی کوشش مت کرنا."

ماہ روش پہلے ہی اچھی خاصی تپی ہوئی تھی. اِس لیے زیمل کے انداز پر مزید چڑتے کہا. اور اندر کی طرف بڑھ گئی.

وہاں داخل ہوتے ہی ماہ روش کی نظر سیدھی سٹیج کی طرف گئی تھی. جہاں مہندی کا فنکشن سٹارٹ ہوچکا تھا.

ارتضٰی سکندر بڑے ہی شہانہ انداز میں جھولے پر براجمان تھا. جبکہ گھر کی تمام بڑی عورتیں اُسے مہندی لگانے میں مصروف تھیں.

سب لوگ آج ارتضٰی کے انداز دیکھ حیران تھے. جو رسمیں ہمیشہ سے ارتضٰی کو ٹائم ویسٹنگ اور بکواس لگتی تھیں. آج وہ مزے سے وہ سب انجوائے کر رہا تھا. سب لوگ سٹیج پر ہونے والی اُن کی نوک جھونک انجوائے کررہے تھے.

ڈی جے نے ماحول کے مطابق میوزک آن کردیا تھا. جس نے ماحول کو مزید رونق بخشی تھی.

ماہ روش کونے پر موجود کرسی کا انتخاب کرتی وہاں جا بیٹھی تھی.

جب اچانک ارتضٰی کی نظر ماہ روش پر پڑی تھی. اور واپس پلٹنا بھول گئی تھیں.

حسین تو وہ پہلے ہی بہت تھی مگر آج تو وہ مکمل حُسن اور نزاکت کا پیکر بنے حوروں کے حُسن کو بھی مات دے رہی تھی.

ماہ روش نے پنک کلر کے فراک جو گرین اور سلور کلر کی فل ایمبرائیڈری سے مزین تھا کہ نیچے ڈارک پنک کلر کا ہی لہنگا زیب تن کررکھا تھا. جو مکمل گوٹے کے کام سے بھرا ہوا تھا.

لائٹ گرین کلر کے بھاری کامدار ڈوپٹے جس کے کناروں پر پنک کلر کی خوبصورت سی لیس لگی ہوئی تھی ماہ روش نے ڈوپٹے کا ایک پلو سر پر لیتے دوسرے کو کندھے کے پیچھے لے جاکر بازو پر رکھا ہوا تھا.

اُس کے لمبے گھنے بال آج ہر قید سے آزاد کچھ کمر پر اور کچھ آگے کندھے پر بکھرے ہوئے تھے. جیولری کے نام پر زینب بیگم نے ماہ روش کو اچھا خاصہ بھر دیا تھا. ماہ روش کے انکار کے باوجود اُس کی ایک نہیں سنی گئی تھی.

بھاری جھمکے اور ہار سیٹ تو اُسے پہنایا ہی گیا تھا. مگر ارتضٰی کی فرمائش پر نتھ اور ماتھا پٹی بھی پہنائی گئی تھی. گاؤں میں مشن کے دوران ارتضٰی نے ماہ روش کو نتھ پہنے دیکھا تھا. تب سے اُسے دوبارہ اُسی رُوپ

میں دیکھنے کی خواہش تھی جسے آج بے دھڑک سب کو بتاتے اُس نے پوری کروا لی تھی.

ماہ روش کو یہ سب بہت اوور لگ رہا تھا مگر بار بار سب کے اصرار کرنے پر ناچاہتے ہوئے بھی اُس نے پہن لیا تھا.

ارتضٰی کو کسی اور کا ہوتا دیکھ ماہ روش کو اپنی بدقسمتی پر رونا آئی جارہا تھا.

بلیک کرتے کے بازو کہنیوں تک فولڈ کیے وہ ہاتھ پر رکھے نوٹ پر مہندی لگوا رہا تھا. جب زینب نے اُس کے بالوں میں تیل لگاتے اُس کے نفاست سے سیٹ کیے بالوں کو بگاڑا تھا.

جس پر ارتضٰی ناراض سا منہ بناتا ماہ روش کو بہت پیارا لگا تھا. وہ ارتضٰی کا اپنے لیے یہی رُوپ ہی تو دیکھنے کی خواہش مند تھی. اور آج دیکھ بھی لیا تھا مگر تب جب وہ کسی اور کا ہورہا تھا.

ماہ روش کو ایک بات کی حیرانی تھی کہ یہاں بیلا اور اس کے گھر والے کوئی بھی موجود نہیں تھے مگر نیہا سے پوچھنے پر اُسے پتا چلا تھا کہ مہندی کا فنکشن سیپریٹ ہی رکھا گیا ہے.

ماہ روش کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھ ارتضٰی نے ناہید بیگم کو اشارہ کرتے ماہ روش کو سٹیج پر لانے کا کہا تھا.

" ماہی بیٹا آپ یہاں کیوں بیٹھی ہو. آؤ نا ارتضٰی کو مہندی لگاؤ. "

ناہید بیگم کے کہنے پر ماہ روش کا دل چاہا تھا یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے. کیوں ہر کوئی اُس کے صبر کو آزمانے پر تُلا ہوا تھا. ایک امتحان ختم ہوتا تھا تو دوسرا شروع ہوجاتا تھا.

ماہ روش کو کوئی انکار نہ بن پاتے ناچار اُن کے ساتھ جانا پڑا تھا.

" بڑی ماما آپ بھی آئیں نا میرے ساتھ پلیز. "

سٹیج پر ایک دو لوگ ہی موجود تھے. اُن کو بھی نیچے آتا دیکھ ماہ روش نے گھبراتے ہوئے ناہید بیگم کو سٹیج سے کے نیچے ہی رُکتے دیکھ لیا.

" بیٹا آپ چلو میں آتی ہوں. "

کسی گیسٹ کے بلانے پر اُس کی طرف بڑھتے اُنہوں نے ماہ روش کو ایک بار پھر ہدایت کی تھی.

ماہ روش نے اپنا لہنگا دونوں ہاتھوں سے سنبھالتی سٹیج پر قدم رکھا.

سب لوگ جھولے پر ارتضٰی کے پاس بیٹھ کر ہی مہندی لگا رہے تھے. یہ دیکھ ماہ روش کے پسینے چھوٹ گئے تھے. اُس نے سوچ لیا تھا کھڑے کھڑے مہندی لگا کر جلدی سے اُتر جائے گی. اور اِسی پر عمل کرتے ماہ روش نے ارتضٰی کے قریب جاتے ٹیبل پر رکھی مہندی اٹھاتے ارتضٰی کے ہاتھ پر لگانی چاہیے تھی. مگر اُس سے پہلے ہی ارتضٰی ماہ روش کی نازک کلائی اپنی گرفت میں لے چکا تھا.

یوں سر عام ارتضٰی کی حرکت پر ماہ روش کی دھڑکنے میں وبال مچ چکا تھا. اُس نے سُرخ ہوتے کلائی آزاد کروانی چاہیے تھی. جب ارتضٰی نے اُس کو ہلکا سا جھٹکا دیتے اپنے قریب جھولے پر کھینچا تھا. ماہ روش اگلے ہی لمحے پوری کی پوری ارتضٰی کے پہلو میں جاگری تھی.

ماہ روش کے بال ارتضٰی کے کندھے اور چہرے پر بکھر گئے تھے. جن کی مسحور کن خوشبو کو محسوس کرتے ارتضٰی نے اپنی سانسوں میں اُتارا تھا.

" سر یہ آپ کیا کررہے ہیں. میرا ہاتھ چھوڑیں. "

ماہ روش سب کی نظریں خود پر محسوس کرتی اُس سے اپنی کلائی آزاد کرواتے بے بسی سے بولی.

" اوکے چھوڑ دوں گا. مگر پہلے مجھے مہندی تو لگاؤ. "

ماہ روش کے حسین رُوپ کو قریب سے دیکھتے ارتضٰی کو خود پر اک خمار سا چھاتا محسوس ہوا تھا.

ماہ روش نے بڑی مشکل سے کپکپاتے ہاتھ سے ارتضٰی کو مہندی لگائی تھی.

" ماہی یہ کیا صرف مہندی نہیں لگانی رسم پوری کرو. "

نیہا نے اُسے صرف مہندی لگا کر پیچھے ہوتا دیکھ نیچے سے ہی ہانک لگائی تھی.

اُس کی طرف دیکھ کر ہنستی نیہا ماہ روش کو اِس وقت سب سے زیادہ بُری لگی تھی.

وہ پہلے ہی بُری طرح اپنے حواس قائم رکھے ہوئے تھی.

اُوپر سے ارتضٰی کی بے باک نظروں اُسے مزید کنفیوز کررہی تھیں.

ماہ روش نے آگے کو ہوتے گلاب جامن اُٹھاتے ارتضٰی کی طرف بڑھایا تھا. جسے ارتضٰی نے ایک ہی بار منہ میں لیتے ماہ روش کے تو دو اُنگلیوں کو بھی اپنے ہونٹوں میں دبا لیا.

ارتضٰی کی شرارت پر ماہ روش کی چیخ نکلتے نکلتے بچی تھی. جلدی سے ہاتھ واپس کھینچتے شرم سے سُرخ ہوتے ماہ روش نے اُس کے پاس سے اُٹھنا چاہا تھا. مگر اُس سے پہلے ہی ارتضٰی نے اُس کا دوپٹا اپنے ہاتھ پر لپیٹتے اُس کی کوشش کو پھر سے ناکام بنایا تھا.

ارتضٰی نے اپنی پاکٹ سے نوٹ نکالتے ماہ روش کی ہتھیلی پر رکھتے مہندی کا ایک ٹکرا اُس پر رکھ دیا تھا. ماہ روش نے حیرت سے اُس کا عمل دیکھا.

" سر یہ آپ کیا کررہے ہیں. مہندی میری نہیں آپکی ہے. "

ماہ روش نے اُس کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی تھی.

" کیا فرق پڑتا ہے بات تو ایک ہی ہے. "

ارتضٰی لاپرواہی سے کاندھے اُچکاتے بولا.

جبکہ ماہ روش کو اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا.

ارتضٰی کے اشارے پر سب لوگ ایک ایک کرکے آتے ارتضٰی کے ساتھ ساتھ ماہ روش کو بھی مہندی لگانا شروع ہوچکے تھے. جبکہ ماہ روش حیران پریشان سی سب کے زومعنی چہروں کی طرف دیکھنے لگی.

وہ پہلے ہی نجانے کیا کیا سوچ کر اپنا دماغ اتنا خراب کرچکی تھی. کہ یہ سب معاملہ سمجھنا اُس کی سمجھ سے باہر ہورہا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ریحاب کی ارحم سے سہی بات نہیں ہوسکی تھی. اور نہ ہی وہ اُسے کہیں نظر آرہا تھا.

ریحاب متلاشی نظروں سے اردگرد ارحم کو ڈھونڈتی لان کی انٹرنس کی طرف بڑھ رہی تھی جب سائیڈ پر موجود درخت کی اُوٹ میں سے کسی نے بازو سے پکڑ کر اُسے اپنی جانب کھینچا تھا.

اِس اچانک حملے پر ریحاب کی زور دار چیخ نکلتی مگر اُس سے پہلے ہی مقابل نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا.

" لکنگ بیوٹیفل مائی لولی لیڈی. "

ارحم نے ریحاب کو اپنے قریب کرتے جھک کر اُس کے کان میں سرگوشی کی تھی. جب ارحم کی آواز سنتے ریحاب کا اٹکی سانسیں بحال ہوئی تھیں.

" ارحم آپ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی. "

ریحاب نے ارحم کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر اُوپر اُٹھاتے اُسے گھورا.

" سویٹ ہارٹ جان تو میں اب نکالوں گا. "

ارحم اُس کے ریڈ لپسٹک سے سجے ہونٹوں کی طرف دیکھتا اُس پر جھکا تھا.

" ارحم کیا کر رہے ہیں کوئی آجائے گا. "

ریحاب نفی میں سر ہلاتے فوراً پیچھے ہٹی تھی.

" کوئی نہیں آتا ادھر اور ویسے بھی ہمیں بھلا کسی کی کیا کروا. "

ارحم اِس وقت ٹلنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا. جبکہ ریحاب اپنی تیاری خراب ہوجانے کے ڈر سے اُس کو قریب آنے دینے پر تیار نہیں تھی.

ارحم نے ریحاب کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر کمر پر لے جاتے اُسے اپنے قریب کیا تھا.

" ناہید آنٹی آپ. "

ارحم جیسے ہی ریحاب کے قریب ہوا. ریحاب کی بات سنتے ارحم فوراً پیچھے ہٹا تھا. مگر وہاں ناہید بیگم تو کیا کوئی بھی موجود نہیں تھا.

" ہاہاہاہا کیا ہوا کیپٹن صاحب ابھی تو بڑی بڑی باتیں کررہے تھے. اب اچانک کیا ہوا. "

ریحاب ارحم کے بے وقوف بن جانے پر کھلکھلا کر ہنستی اُس سے دور ہوتے وہاں سے کھسکی تھی.

" ریحاب کی بچی اب تو نہیں بچ سکتی تم مجھ سے. "

ارحم ریحاب کی شرارت سمجھتا چہرے پر غصے کے مصنوعی تاثرات سجائے ریحاب کی طرف بڑھا تھا.

اِس سے پہلے کے ریحاب وہاں سے نکلتی وہ ایک بار پھر ارحم کی مضبوط گرفت میں قید ہوئی تھی.

ریحاب کا حسین رُوپ تو پہلے ہی ارحم کو دنیا بھلائے ہوئے تھا اور اُوپر سے ریحاب کا پہلے والا شرارتی انداز دیکھ ارحم مزید اُس کا دیوانہ ہوا تھا.

ارحم نے ریحاب کی گردن سے بال ہٹاتے وہاں ہونٹ رکھ دیے تھے.

جب کہ ریحاب اُس کے لمس کی شدت پر کسمساتی اُس کے مضبوط حصار میں سمٹی تھی.

ریحاب کو کبھی نہیں لگا تھا کہ اُس کی لائف میں کبھی کوئی اتنی محبت اور چاہت دینے والا آئے گا. جس کے لیے وہ بہت اہم ہوگی. جو اُسے دیوانگی کی حد تک چاہے گا. جو اُس کی بڑی سے بڑی خطا بن کہے معاف کردے گا. اِس وقت ریحاب خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی شمار کررہی تھی. کہ جس کا لائف پارٹنر ارحم جیسا شخص تھا.

وہ آگے آنے والے قسمت کے کھیل سے بے خبر ارحم کے مضبوط حصار میں سکون سے آنکھیں موندے اُس کے چوڑے سینے پر اپنا سر ٹکا گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


زیمل منیزہ کے ساتھ باتیں کرتے ایک چور نظر دور کھڑے جاذل پر بھی ڈال لیتی تھی. جس نے ایک بار بھی نگاہ اُٹھا کر اُس کی طرف نہیں دیکھا تھا.

زیمل کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اُس سے بات کا آغاز کرے. اور جتنے خراب موڈ کے ساتھ جاذل وہاں کھڑا تھا. زیمل کو ڈر تھا کہ کہیں اُس کے بلانے پر جاذل ڈانٹ ہی نہ دے. اِس لیے کچھ سوچتے زیمل طلحہ اور ہادی کی طرف بڑھی.

" ہائے کیوٹ بوائز کیا ہورہا ہے. "

طلحہ اور ہادی جو اپنی ہی مستیوں میں مصروف تھے. زیمل کو دیکھ مسکرائے تھے.

" لگتا ہے آپ کو کوئی کام ہے ہم سے. مگر اب ہمارے چارجز بڑھ گئے ہیں. پہلے بتارہے ہیں."

زیمل کے اتنے پیار سے بات کرنے پر وہ دونوں اپنا شاطر دماغ چلاتے مشکوک نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے بولے.

ارتضٰی سر کے بھتیجے اور جاذل کے بیسٹ فرینڈز ہیں اتنے منہ پھٹ تو ضرور ہوں گے.

زیمل اُن کا جواب سنتے دل میں سوچ کررہ گئی تھی. مگر پھر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے اُن کی تمام شرائط مانتے زیمل نے اپنا کام کرنے پر آخر کار اُنہیں منا ہی لیا تھا.

زیمل کو روم میں ٹہلتے جاذل کا انتظار کرتے دس منٹ ہوچکے تھے. مگر ابھی تک اُس کے آنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے.

اُس طلحہ اور ہادی کو کسی بھی بہانے جاذل کو اندر لانے کا کہا تھا. مگر اب تک تو وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے تھے.

کافی دیر انتظار کرنے کے بعد آخر کار زیمل باہر جانے کا فیصلہ کرتے روم سے نکلی تھی.

" طلحہ ہادی بچے ایسا کیا ہے اندر جو تم لوگ ابھی مجھے اتنا ارجنٹ گھسیٹ لائے ہو یہاں. "

ابھی وہ دروازے پر ہی تھی جب اُسے جاذل کی جھنجھلائی آواز سنائی دی تھی.

جاذل دروازے کے قریب آیا تھا. جب اُسے پاس آتا دیکھ زیمل اُلٹے قدموں پیچھے ہٹی تھی. مگر اُس کے بھاری گھیرے دار لہنگے میں پاؤں الجھنے کی وجہ سے وہ بُری طرح پھسلی تھی. اور گرنے سے بچنے کے لیے اندر داخل ہوتے جاذل کو پکڑا تھا.

جاذل اچانک اِس سب کے لیے بلکل تیار نہیں تھا. خود سنبھلنے یا زیمل کو سنبھالنے سے پہلے ہی جاذل بھی زیمل کے ساتھ پھسلتے پیچھے کی طرف گرا تھا.

مگر گرنے سے پہلے جاذل نے زیمل کے نازک وجود کے گرد اپنے بازو پھیلاتے اُسے اپنے اُوپر لیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اُس کا بھاری وجود زیمل کے اُوپر آتا تو اُس کی ہڈیاں ٹوٹنا لازم تھا.

زیمل نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں خود جاذل کے سینے پر اُس کی بانہوں کے حصار میں پایا تھا. جاذل نے بھی سر اُٹھاتے زیمل کی طرف دیکھا تھا. کہ کہیں گرنے کی وجہ سے اُسے کوئی چوٹ تو نہیں آئی.

زیمل کو جیسے ہی اپنی پوزیشن کا خیال آیا اُس نے جاذل کے سینے سے سر اُٹھاتے اُٹھنا چاہا تھا.


مگر اگلے ہی پل گردن کھنچنے کی وجہ سے وہ فوراً واپس ہوئی تھی.

اُس کا گلوبند جاذل کے گریبان کے بٹن سے بُری طرح اٹک گیا تھا. جس کی وجہ سے وہ گردن بھی اُوپر نہیں اُٹھا پارہی تھی.

اُس نے ایک ہاتھ جاذل کے سینے پر رکھ کر درمیان میں فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے دوسرے ہاتھ سے اُس کو چھڑانا چاہا تھا.

جاذل خاموشی سے بازو موڑ کر سر کے نیچے رکھتے زیمل کو زور آزمائی کرتے دیکھ رہا تھا.

زیمل آج اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اُس سے ناراضگی کے باوجود بھی جاذل کا دل چاہا تھا کہ وہ ایسے ہی اُس کے قریب رہے اور وہ اُسے گھنٹوں بیٹھ کر دیکھتا رہے.

" میجر جاذل اگر آپ ہیلپ کردیں گئے تو آپ کا کوئی نقصان ہوگا. "

زیمل جاذل کے انداز پر چڑہتے ہوئے بولی.

جو اُس کی مدد کرنے کے بجائے ایسے مزے سے لیٹا ہوا تھا. جیسے فرش پر نہیں. کسی عالیشان تحت پر لیٹا ہو.

زیمل کے پاس سے اُٹھتی مہندی اور موتیے کی خوشبو جاذل کے حواسوں پر بُری طرح اثر انداز ہورہی تھی.

" جس کی وجہ سے یہ اب ہوا ہے وہی بھگتے."

جاذل ویسے ہی لاپرواہی سے بولا.

جب کہ زیمل مسلسل جدوجہد کرتے اب تنگ آچکی تھی.مگر وہ ہار چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. نہ وہ پیچھے ہوسکتی تھی اور نہ ہار اُتار سکتی تھی. اگر ایسا کرتی تو وہ جاذل کے قریب ترین ہوجاتی. جس کے بارے میں سوچتے ہی اُس کے پسینے چھوٹ رہے تھے.

آخر کار اُس کی حالت کو دیکھتے جاذل کو اُس پر رحم آہی گیا تھا.

جاذل نے اُس کی کمر کے گرد اپنا بازو پھیلاتے اُسے اپنے حصار میں لیا تھا.

جبکہ جاذل کے ہاتھ کا لمس اپنی کمر پر محسوس کرتے زیمل کی سانسیں رُکی تھیں.

جاذل اُسی پوزیشن میں ہی اُوپر اُٹھا تھا. اُس نے پورا دھیان رکھا تھا کہ زیمل کی گردن ہرٹ نہ ہو.

جاذل کے اُٹھ کر بیٹھنے کی وجہ سے زیمل بلکل اُس کی گود میں آگئی تھی.

اتنا اکورڈ اُس نے پہلے زندگی میں کبھی فیل نہیں کیا تھا جتنا اِس وقت کررہی تھی.

جاذل نے جھک کر اپنے بٹن سے زیمل کو ہار خدا کیا تھا. آزادی ملتے ہی زیمل فوراً جاذل کے اُوپر سے اُٹھی تھی.

" مجھے یہاں بلانے کا مقصد. "

زیمل کے باہر جاتے قدموں کو جاذل کی آواز نے روک لیا تھا

" وہ دراصل مجھے اپنے غلط رویے کے لیے معافی مانگنی تھی. "

زیمل جو کب سے دماغ میں جملے ترتیب دیے بیٹھی تھی کہ جاذل کے سامنے یہ بولے گی. اِس وقت سارا کچھ اُلٹ پلٹ ہوچکا تھا.

" مگر آپ نے تو ایسا کچھ نہیں کیا جس پر سوری کی جائے. آپ کو جو مناسب لگا وہ بولا. آپ کو میرا ساتھ منظور نہیں ہے تو اٹس اوکے. "

جاذل زیمل کو اپنی دلی حالت بیان کرنے پر اُکساتے ہوئے بولا.

" نہیں ایسی بات نہیں ہے. "

زیمل کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جاذل کو اپنی بات کیسے سمجھائے.

ہر بات دھرلے سے کہنے والی زیمل اپنے جذبات کا اظہار کرتے بُری طرح اُلجھن کا شکار تھی.

" کیپٹن زیمل مجھے نہیں لگتا آپ کو واقعی مجھ سے کوئی بات کرنی ہے. آپ یہاں کھڑے ہوکر میرا اور اپنا دونوں کا ٹائم ویسٹ کررہی ہیں. میرے خیال میں ہم یہاں جس مقصد کے لیے آئے ہیں وہی کرلینا چاہئے. "

جاذل اپنے متعلق زیمل کے جذبات سے اچھے سے واقف تھا. اور اگر نہ بھی ہوتے تو جاذل اب اپنے نکاح کے رشتے کو دل سے مان چکا تھا. وہ کسی صورت بھی زیمل کو خود سے جدا نہیں کرنے والا تھا. اور کسی بھی قیمت پر زیمل کو خود سے محبت پر مجبور کرہی لینا تھا.

مگر یہ جان کر کہ زیمل بھی اُس سے محبت کرتی ہے. جاذل کی اب ایک ہی ضد تھی کہ زیمل اُس سے اب خود محبت کا اظہار کرے گی.

کیونکہ وہ تو کتنی دفعہ اپنا ہاتھ زیمل کی طرف بڑھا چکا تھا.

مگر زیمل ہر بار اپنی نادانی میں اُسے خراب کر بیٹھی تھی.

جاذل زیمل کو ٹکا سا جواب دیتا وہاں سے نکل گیا تھا. جبکہ زیمل وہیں سر پکڑے بیٹھتے خود کو کوسنے لگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر یہ سب کیا مذاق ہے. اِس جگہ پر بیلا کو ہونا چاہئے تھا. اُسے مہندی لگنی چاہیئے تھی. کیونکہ اُسی کی مہندی ہے آج. "

ماہ روش کو باقی سب نظر انداز کرتے نیچے ہی مصروف رہے. کوئی اُس کے قریب آنے پر تیار ہی نہیں تھا. اور ارتضٰی نہ تو اُسے وہاں سے ہلنے دے رہا تھا اور نہ ہی اُسے کچھ بتا رہا تھا.

" اِس جگہ پر جس کو ہونا تھا. وہی موجود ہے. "

ارتضٰی ماہ روش کے مہندی اور جیولری سے سجے خوبصورت ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں قید کرتے محبت سے بولا.

ماہ روش کو اُس کی بات پر حیرت کا جھٹکا لگا تھا. اُس نے ناسمجھی سے ارتضٰی کی طرف دیکھا.

اِس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھتی میوزک فل والیم میں آن ہوچکا تھا.

گھر کا ہر فرد آج بہت خوش تھا. ارتضٰی اور ماہ روش کو خوش اور ایک ساتھ دیکھ کر نور پیلس کی ساری خوشیاں واپس لوٹ آئی تھیں.

سب لوگ اپنی خوشی کا اظہار کرتے سٹیج کے سامنے بنائے گئے ڈانس ریمپ پر آگئے تھے. کوئی ڈانس کوئی بھنگڑا ڈالتے اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے.

ارباز اور نعمان نے مل کر بھنگڑا شروع کردیا تھا. جب اچانک ارباز مسکراتا ارتضٰی کی طرف بڑھا تھا اور اُس کا ہاتھ کھینچتا نیچے کی طرف بڑھ گیا تھا.

نعمان بھی ارحم اور جاذل کو وہاں کھینچ لایا تھا. جب اُن سب نے مل کر بھنگڑا سٹارٹ کیا تب وہاں موجود افراد میں سے کوئی بھی خود کو اِس دل موہ لینے والے منظر میں کھونے سے نہ روک پایا تھا. وہ تینوں ایک ساتھ ہاتھ اُوپر لے جاکر نیچے لے جاتے. اپنے لمبے لمبے بازو پھیلاتے اتنے ہینڈسم لگ رہے تھے. کہ وہاں موجود اُن کی اپنی بیویوں کے ساتھ ساتھ باقی لڑکیاں بھی اُن کی دیوانی ہوئی تھیں.

ریحاب کے لیے یہ سب کچھ بلکل نیا تھا. اُسے فیملی کیا ہوتی ہے ایک ساتھ خوشیاں کیسے منائی جاتی ہیں. آج پتا چلا تھا.

ارحم نے اُس کو اپنی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتا پاکر شوخی سے ایک آنکھ دباتے اُس کی طرف ایک فلائنگ کس اُچھالی تھی. جبکہ ریحاب سرعام ارحم کی حرکت پر گڑبڑاتے ادھر اُدھر دیکھنے لگ گئی تھی.

جبکہ دوسری طرف اتنی ٹینشن کے باوجود ارتضٰی کا یہ نیا اور دلفریب رُوپ دیکھ ماہ روش کے ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

ارتضٰی کا ہر نیا رُوپ ہر بار اُس کے عشق کی شدت کو مزید بڑھا دیتا تھا.

ارتضٰی نے نظر اُٹھا کر ماہ روش کی طرف دیکھا تھا. جب دونوں کی مسکراتی نظریں ایک دوسرے سے ملی تھیں. ارتضٰی کی آنکھوں میں موجود جذبات کی شدت پر گھبرا کر ماہ روش نے فوراً نظریں پھیر لی تھیں.

زیمل جاذل کی طرف دیکھ رہی تھی. مگر وہ زیمل کی طرف متوجہ بلکل نہیں تھا.

جب سلمہ بیگم کے بلانے پر اُن کی طرف بڑھی. جیسے ہی وہ جاذل کے پاس سے گزری کچھ فاصلے پر کھڑی نیہا نے شرارتاً زیمل کو ہلکا سے جاذل کی طرف پُش کردیا تھا. زیمل جو پہلے ہی اتنے بھاری لہنگے کو سنبھالتی مشکل سے چل رہی تھی. اِس اچانک حملے پر سیدھی جاذل کے اُوپر گئی تھی. جاذل جو مسکراتے پیچھے کی طرف پلٹا تھا. زیمل کو اپنے اتنے قریب دیکھ وہیں جاذل وہی رکا تھا.

" کیا ہوا. "

جاذل کو حیرت ہوئی.

" جاذل بھائی زیمل بھی آپ کے ساتھ ڈانس کرنا چاہتی ہے. "

نیہا نے زیمل کو مزید چھیڑا تھا. مگر آگے سے بھی زیمل تھی. اُس نے فوراً ارباز کو ہانک لگائی تھی.

" ارباز بھائی نیہا بھابھی آپ کے ساتھ ڈانس کرنا چاہتی ہیں. مگر میرے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہی ہیں. "

نیہا اچانک ماحول بدل جانے پر سٹپٹائی تھی.

جاذل زیمل کی شرارت پر مسکرایا تھا.

" ہاں دل تو میرا چاہ رہا ہے. مگر اب اکیلا کپل ڈانس کرتا اچھا نہیں لگتا نا. تو تم لوگ بھی ہمارے ساتھ کرو گے. "

نیہا بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی.

" اوکے بھئی نیکی اور پوچھ پوچھ. ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے. کیوں جاذل. "

ارباز نے ہنستے ہوئے بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی تھی. نیہا جاذل اور زیمل کے درمیان ایک کھینچاؤ سا محسوس کررہی تھی. اِس لیے اُن دونوں کو ایک ساتھ لانے کی کوشش کرنی چاہی تھی.

ارباز اور نیہا کے مجبور کرنے پر وہ دونوں ناچار آگے بڑھے تھے.

" زیمل کیا ہوا ہے. آپ کمفرٹیبل فیل نہیں کررہی کیا. "

جاذل نے زیمل کو سٹل ایک ہی جگہ کھڑا دیکھ ہاتھ آگے بڑھایا تھا.

" جی کیونکہ مجھے ڈانس نہیں آتا. آپ کی طرح گھنٹوں کبھی کسی کے ساتھ ڈانس نہیں کیا نا. اِس لیے عادت نہیں ہے. "

زیمل کے انداز پر جاذل نے قہقہ لگایا تھا.

زیمل ابھی تھوڑی دیر پہلے کے جاذل کے روڈ انداز پر اچھی خاصی تپی ہوئی تھی.

" تو کیا خیال ہے آج رات پھر آپ کا شوق پورا نہ کردیا جائے."

جاذل نے زیمل کے لال ہوتے گالوں کو دیکھ اُس کا ہاتھ پکڑ کر قریب کرتے پوچھا تھا.

" میجر جاذل یہ آپ کیا کررہے ہیں سب ادھر ہی دیکھ رہے ہیں. آپ پاگل تو نہیں ہوگئے."

زیمل جاذل کے اچانک بدلتے انداز پر جلدی سے اُس سے اپنا بازو چھڑواتے پیچھے ہٹی تھی.

جبکہ زیمل کا گھبرانا جاذل کو بہت مزا دے گیا تھا.

اِس سے پہلے کے ارتضٰی واپس اُس کے پاس آتا ماہ روش جلدی سے سٹیج سے نیچے اُتر آئی تھی.

ارتضٰی اُس کی جلد بازیاں دیکھتا مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا.

" بھابھی میں بہت تھک گئی ہوں اتنا بھاری ڈریس پہن کر. میں اپنے روم میں جارہی ہوں. پلیز آپ ماما کو بتا دیجئے گا. "

ماہ روش نیہا کو بتاتی جلدی سے وہاں سے نکل آئی تھی.

اُس کا دماغ بلکل بھٹک چکا تھا. ارتضٰی کا رویہ اور انداز اُسے کچھ اور بات سوچنے پر مجبور کررہا تھا.

مگر وہ اب مزید کوئی خوش فہمی نہیں پالنا چاہتی تھی. اِس لیے اُس نے چینج کرکے سونا ہی مناسب سمجھا تھا. آج کا دن اُس کے لیے بہت ہیکٹک ثابت ہوا تھا. اِس لیے وہ اب تمام اذیت بھری سوچوں سے چھٹکارا چاہتی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" سر آپ جانتے بھی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں. آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں. "

جنرل یوسف کی بات سنتے ارتضٰی کا دماغ گھوم چکا تھا. وہ آج کے دن کسی بھی بات پر کوئی غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا. مگر جنرل یوسف نے جو نئی بات اُس کے سامنے رکھی تھی. ارتضٰی نے پتا نہیں کیسے اُن کا لحاظ کیا تھا. ورنہ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرور اِس بات کی سزا پاچکا ہوتا.

جاذل, زیمل اور ارحم ارتضٰی کا جنونی انداز دیکھ بلکل چپ تھے. دونوں ہی اپنی جگہ ٹھیک تھے. مگر جنرل یوسف اپنی بات پر ڈٹے ہوئے تھے. اور ارتضٰی اُن کی بات سننے کو بھی تیار نہیں تھا.

" ارتضٰی ماہ روش صرف تمہاری بیوی نہیں اِس ایجنسی کی ایک بہت اہم آفیسر ہے. تم اُس کے متعلق اِس طرح کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے. اُسے ہر حال میں ذوالفقار کے پاس جانا ہوگا.

کیونکہ اِس مشن کی کامیابی تب ہی ممکن ہے. اگر ہم میں سے کوئی انسان اُس کے بہت قریب رہے اور ایسا صرف ماہ روش کے تھرو ہی ممکن ہے. وہ اپنے باپ کے پاس اُس کے گھر میں رہ کر ہی اُس کے خلاف ساری انفارمیشن اکٹھی کرسکتی ہے."

جنرل یوسف جانتے تھے ارتضٰی کسی بنیاد پر بھی اِس بات پر ایگری نہیں ہوگا. اِس لیے وہ بھی اُسی کے جیسا سخت لہجے اپناتے ہوئے بولے.

" تو کیا آپ ماہ روش کو وہاں ایک آفیسر کی حیثیت سے بھیج رہے ہیں. اگر یہی وجہ ہے تو آپ کسی اور فی میل آفیسر کو بھیج دیں نا.

مگر نہیں آپ ماہ روش کو اُس کے اذیت ناک رشتے میں منسلک کرکے وہاں بھیجنا چاہتے ہیں جو اُس کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے. آپ سیلفیش ہورہے ہیں. یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں ماہ روش کو کتنا خطرہ ہوسکتا ہے. وہ اُس کا باپ نہیں ہے. باپ کے رُوپ میں بھیڑیا ہے. جو پہلے ہی اُس پر قاتلانہ حملہ کروا چکا ہے.

مگر جو بھی ہو آپ اِسے رولز کی خلاف ورزی سمجھیں یا جو بھی میں کسی صورت ماہ روش کو وہاں نہیں جانے دوں گا.

میں اور جاذل پوری کوشش کر تو رہے ہیں. اور بہت حد تک اُس کے قریب پہنچ بھی چکے ہیں. ارحم بھی برہان کے تھرو انفارمیشن حاصل کرنے کی پوری کوشش کررہا تھا. لیکن لگتا ہے آپ کو ہماری صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ہے. "

ارتضٰی اِس وقت اتنے غصے میں تھا. کہ اُس کا دل چاہا تھا ہر چیز کو تہس نہس کر دے.

اِس لیے اپنے غصے پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا وہ جنرل یوسف کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر وہاں سے نکل گیا تھا.

اُسے جاتا دیکھ جنرل یوسف نے بے بسی سے باقی سب کی طرف دیکھا تھا.

" سر ارتضٰی کبھی نہیں مانے گا. ماہ روش کو اب کسی قسم کی بھی تکلیف میں دیکھنا ارتضٰی کے بس میں نہیں ہے.

کیا اِس کا کوئی اور حل نہیں نکل سکتا. "

جاذل ارتضٰی کا انداز دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ اِس بارے میں کبھی نہیں مانے گا. اِس لیے مزید اِس بارے میں ڈسکس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا.

مگر جنرل یوسف کے دماغ میں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا. اُنہیں ارتضٰی اور اُس کی ٹیم کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا. مگر وہ ارتضٰی سے زیادہ ذی ایس کے کے گھٹیا اور شاطر پن سے واقف تھے. اِس لیے وہ اُس کو ہرانے کے لئے ماہ روش کو بیچ میں انوالو کرنا چاہتے تھے. جس سے ماہ روش کو خطرہ تو بہت تھا. مگر وہ اِس سے مشن میں کامیابی کے بہت نزدیک پہنچ سکتے تھے.

ارتضٰی کا اُنہیں یقین ہوچکا تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گا. مگر وہ جو سوچے بیٹھے تھے اُسے پورا کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے.

لیکن اُنہوں نے سوچ لیا تھا کہ اب کیا کرنا ہے اُنہیں.

آج ماہ روش اور ارتضٰی کی بارات تھی اِس لیے اُنہوں نے آج ہی یہ بات کرنا مناسب سمجھا تھا. اور ارتضٰی سمیت اُس کی پوری ٹیم کو صبح کے چھ بجے بلوا لیا تھا. ارتضٰی کو کچھ حد تک تو جنرل یوسف کے ارادے کا علم ہوچکا تھا. اِس لیے وہ ماہ روش کو نہیں لایا تھا اور نہ ہی اُس نے باقی کسی کو ماہ روش کو ڈسٹرب کرنے دیا تھا. کیونکہ وہ آج کہ بعد ماہ روش کی آگے آنے والی ساری زندگی کو خوشیوں سے بھرنا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماہ روش کی جیسے ہی آنکھ کھلی اُسے کمرے میں بھینی بھینی سی خوشبو محسوس ہوئی تھی. ماہ روش نے بیڈ پر اُٹھ کر بیٹھتے بال سمیٹتے جیسے ہی اردگرد کا جائزہ لیا اُس کے ہاتھ اپنی جگہ پر ساکت ہوئے تھے.

پورے کمرے کو گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا. کوئی چیز ایسی نہیں تھی.جس پر گلاب کے پھول موجود نہ ہوں. اور فرش پر بھی پھولوں کی چادر بچھی ہوئی تھی.

اُٹھتے ہی اتنا خوبصورت نظارہ دیکھ کر ماہ روش کا موڈ ایک دم فریش ہوا تھا.

مگر وہیں اُسے یہ اُلجھن بھی ہوئی تھی کہ یہ سب کیا کس نے ہے. دماغ میں فوراً ارتضٰی کا خیال آیا تھا. لیکن ساتھ ہی اُس کی شادی کا خیال آتے ہی ماہ روش کا دل بجھ سا گیا تھا.

ماہ روش کی نظر جیسے ہی سامنے وال پر لگی گھڑی پر گئی وہ ایک دم ہڑبڑا کر بیڈ سے اُٹھی تھی.

" اُف میرے خدا میں اتنی دیر تک کیسے سوتی رہی. آج تو بارات کا فنکشن ہے اور ماما میرے اتنی دیر سے باہر نہ نکلے پر پھر ناراض نہ ہوجائیں. "

ماہ روش کمر پر بکھری بالوں کی آبشار سمیٹتی جلدی سے واش روم کی طرف بڑھی تھی.

فریش ہو کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آتے وہ ایک پل کے لیے رکی تھی. اپنی آنکھوں کا ادھورا پن اُسے شدت سے محسوس ہوا تھا. اور شاید اب شاید یہ ہمیشہ ایسے ہی رہنی تھی.

کیا مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ آج میں اپنے سامنے ارتضٰی سکندر کو کسی اور کا ہوتا دیکھ پاؤں گی. وہ شخص جسے میں نے اپنا سب کچھ مانا ہے. جس کے بغیر میری زندگی ویرانیوں اور اُداسیوں کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے. کیا میں اُس کے بغیر رہ پاؤں گی.

نہیں کبھی بھی نہیں.

آنسو ٹوٹ کر ماہ روش کے رخساروں پر بکھرے تھے. جب دروازے پر دستک ہوئی تھی.

ماہ روش نے جلدی سے آنسو صاف کرتے دروازہ کھولا تھا. مگر سامنے کھڑے ارتضٰی سکندر کو دیکھ وہ حیرت سے پیچھے ہٹی تھی.

" گڈ مارننگ مائی بیوٹیفل لائف."

ارتضٰی نے اُسے پیچھے ہٹتے دیکھ محبت سے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنے قریب کیا. اور اُس کے ماتھے پر ہونٹ رکھ دیے تھے.

ماہ روش نے اُس کے لمس پر کسمساتے پیچھے ہونا چاہا تھا. مگر ارتضٰی نے اُسے ایسا کوئی بھی موقع دیے بغیر اپنی بانہوں میں اُٹھایا اور باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

" سر یہ آپ کیا کررہے ہیں. نیچے اُتاریں مجھے پلیز کہا لے کر جارہے ہیں. "

ماہ روش نے مزاحمت کرتے نیچے اُترنا چاہا تھا.

جب اُسی لمحے اُن دونوں پر سُرخ گلاب کی پتیوں کی برسات شروع ہوچکی تھی. ارتضٰی اُسے لے کر جہاں سے بھی گزر رہا تھا. وہاں پر پھولوں کی برسات جاری تھی.

ماہ روش حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی. وہاں اردگرد کوئی بھی موجود نہیں تھا. پتا نہیں سب لوگ کہاں چلے گئے تھے.

ارتضٰی بنا کچھ بولے اُسے اپنی مضبوط بانہوں میں لئے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا تھا.

ہر طرف ملگجا سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا. ماہ روش کو بس اتنا سمجھ آیا تھا کہ ماحول کی سیٹنگ بلکل بدلی ہوئی تھی. ہر طرف چھوٹے چھوٹے جلتے دیے ہلکی ہلکی سی روشنی پیدا کررہے تھے. پورا گھر اِسی طرح سجا ہوا تھا. اور پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی.

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی پھولوں کی برسات مزید تیز ہوئی تھی.

ماہ روش نے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھتے ارتضٰی کے سینے میں چہرہ چھپایا تھا. ارتضٰی ماہ روش کی اِس معصوم ادا پر دلوں جان سے فدا ہوا تھا.

ارتضٰی نے آگے آتے ماہ روش کو ڈرائنگ روم کے بلکل سینٹر میں بنائی گئی پھولوں کی خوبصورت سی سیٹنگ کے اندر کھڑا کیا تھا.

ماہ روش نے بت بنے حیرت سے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا.

جب ارتضٰی نے بلکل ماہ روش کے مقابل آتے اپنی بات کہنا شروع کی تھی.

" ماہ روش وہ لڑکی جس کا نام ہوش سنبھالتے ہی میں نے ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ سنا. ہمیشہ میں نے ایک معصوم سی گڑیا کو اپنے اردگرد پایا. جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ صرف میری ہے. جس پر سب سے زیادہ حق مجھے حاصل ہے.

مگر بہت جلد ایک بھیانک حادثے نے اُسے مجھ سے چھین لیا. اُسی دن ایک نرم خو اور زندہ دل زندگی کو جینے والے ارتضٰی سکندر کی موت ہوئی تھی. اور تب جنم لیا تھا ایک بے حس اور پتھر دل ارتضٰی سکندر کا.

جو صرف نفرت کرنا جانتا تھا جو اپنی زندگی میں محبت لفظ کو بھی داخل نہیں کرنا چاہتا تھا. جس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا. ذوالفقار صمد خان اور اُس سے منسلک ہر شخص کا خاتمہ.

وہ اپنی نفرت اور انتقام میں اتنا آگے چلا گیا تھا. کہ ماہ روش جو اُس کی زندگی میں سب سے اُونچا مقام رکھتی تھی. اُسے ہی نہیں پہچان پایا تھا.

اپنے دل میں موجود اُس لڑکی کے لیے پیار اور محبت کے اُٹھتے ڈھیروں جذبات کو کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر دل میں دباتے اُسے اپنی شدید نفرت کی بھٹی میں جلانے لگ گیا تھا. "

ارتضٰی کی نظریں ماہ روش کے آنسوؤں سے تر چہرے پر جمی ہوئی تھیں. جسے ہاتھ بڑھا کر ارتضٰی نے اپنی پوروں سے صاف کیا تھا.

" میں نہیں جانتا تھا کہ تم ہی میری منکوحہ اور زینب پھوپھو کی بیٹی ماہ روش ہو.

میری آنکھوں پر ذوالفقار سے بدلہ لینے کی ایسی پٹی بندھ چکی تھی کہ میں تمہاری معصومیت تمہاری پاکیزگی دیکھ ہی نہیں پایا. اور تمہیں ذوالفقار کی بیٹی کی حیثیت سے دکھ پر دکھ دیتا گیا. جس پر شاید میں زندگی بھر بھی پچھتاؤں تو کم ہوگا میرے لیے.

میرا دل اندر ہی اندر تمہاری محبت میں پگھل چکا تھا. مگر میری انا یہ سوچ کر کہ تم ذوالفقار کی بیٹی ہو مجھے تمہاری طرف بڑھنے سے روکتی رہی.

مگر اُس دن تمہیں گولی لگتے اور بے جان ہوتے دیکھ پہلی بار مجھے لگا تھا کہ زندگی ختم ہونا اور جسم سے روح پرواز کرنا کیسا ہوتا ہے. تمہیں دنیا سے غافل دیکھ مجھے زندگی بے معنی سی لگی تھی. میں سانسیں تو لے رہا تھا. مگر اندر سے آہستہ آہستہ ختم ہورہا تھا.

ٹوٹ رہا تھا بکھر رہا تھا.

مجھے اُن دنوں احساس ہوا تھا کہ تمہارا میری زندگی میں کیا مقام ہے. اگر تم مجھے واپس نہ ملتی تو میں شاید مر جاتا. "

وہ درد اور اذیت بھرے دن یاد کرتے ارتضٰی کی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں.اور اُن میں موجود ہلکی ہلکی تیرتی نمی دیکھ ماہ روش کو بھی اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا.

اُس نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر ارتضٰی نے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اُسے روک دیا تھا.

" ماہ روش میں قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم زینب پھوپھو کی بیٹی نہ بھی ہوتی تو میں تب بھی تمہیں کبھی خود سے جدا نہ کرتا.

میرے لیے صرف تم امپورٹنٹ ہو تم سے منسلک کوئی حوالہ نہیں. اِس کے علاوہ بھی اگر تمہارے دل میں کوئی بھی محرومی باقی ہے تو اُسے ختم کردو.

کیونکہ میرے نزدیک تم سے زیادہ پاکیزہ اور وفادار لڑکی اِس دنیا میں کوئی نہیں ہے. "

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش روتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ لیے اُسے دیکھ رہی تھی.

ماہ روش کی نظر اچانک سامنے کھڑی زینب بیگم پر پڑی تھی. اُس نے جیسے ہی گردن گھمائی وہاں زیمل جاذل ریحاب اور ارحم سمیت گھر کا ہر فرد موجود تھا.

ماہ روش نے محبت پاش نظروں سے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا جو آج اُسے سب کے سامنے معتبر کر گیا تھا اُس کے اندر کا احساس کمتری مٹ چکا تھا. اُسے اِس وقت اپنا آپ ہواؤں میں اُڑتا محسوس ہوا تھا کہ وہ ارتضٰی سکندر کے لیے اتنی خاص تھی. جسے اُس نے زندگی سے بڑھ کر چاہا تھا. آج شاید زندگی میں پہلی بار وہ دل سے مسکرائی تھی.

" میں جانتا ہوں میں نے آج تک تمہارے ساتھ جو بھی سلوک روا رکھا وہ کسی صورت بھی معاف کرنے کے قابل نہیں ہے. لیکن پھر بھی تم سے اپنی پچھلی ہر غلطی ہر خطا پر معافی مانگتا ہوں. اور میں تمہاری ہر سزا ماننے کو تیار ہوں. میں چاہتا ہوں تم بھی مجھے سزا دو. وہ سزا مجھ سے دور جانے کے علاوہ چاہے جو بھی ہو مجھے دل و جان سے منظور ہے. مگر کبھی بھی مجھ سے دور جانے کا سوچا بھی تو میں تمہاری اور اپنی جان ایک کردوں گا. "

ارتضٰی نے بات کرتے ایک دم گھٹنوں کے بل ماہ روش کے سامنے بیٹھتے اُس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے تھے.

سب لوگ ارتضٰی کو زندگی میں پہلی دفعہ اِس طرح کسی کے سامنے جھکتا ہوا دیکھ رہے تھے. مگر ارتضٰی سکندر کی معافی بھی اُس کی طرح منفرد اور ہٹ کر تھی.

سب لوگ اُس کی معافی میں بھی موجود دھمکی سنتے اپنی مسکراہٹ نہ روک پائے تھے. زینب بیگم اپنی بیٹی کی اتنی اچھی قسمت دیکھ دل ہی دل میں ﷲ کے حضور شکر بجا لائی تھیں.

ماہ روش نے ارتضٰی کو اِس طرح اپنے سامنے ہاتھ جوڑتا دیکھ تڑپ کر نفی میں سر ہلاتے آگے ہوتے اُس کے دونوں ہاتھ تھام لیے تھے. مگر اُس کی دھمکی اور معنی خیز نگاہوں پر گھبرا کر فوراً پیچھے ہٹنا چاہا تھا. مگر اُس کا ہاتھ ارتضٰی کی گرفت میں قید ہوچکا تھا.

" کیا تم مجھ جیسے اکڑو , خود سر, ضدی, غصیلے اور کھڑوس انسان کو زندگی بھر جھیلنے کے لیے تیار ہو. ویسے مہندی تو رات کو ہماری ہوچکی ہے. انکار کی کوئی گنجائش نہیں بچتی اب."

ماہ روش کے ہاتھ پر ہونٹ رکھتے ارتضٰی نے محبت لُٹاتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

جبکہ ماہ روش نے ارتضٰی کی حرکت اور اُوپر سے اُس کے الفاظ پر سٹپٹاتے سب کی طرف دیکھا تھا. جو چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ سجائے اُسے ہی دیکھ رہے تھے.

" دیورانی جی کیسا لگا ہمارا سرپرائز."

نیہا کی چہکتی آواز پر ماہ روش نے سب کو گھور کر دیکھا تھا.

ارتضٰی نے پاکٹ سے ایک بہت ہی نازک سی بیش قیمت ڈائمنڈ رنگ ماہ روش کی اُنگلی میں پہنا دی تھی. جس پر سب نے کلیپنگ کرتے دونوں کو وش کیا تھا.

" مگر مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی. "

ماہ روش ارتضٰی کے دوبارہ مقابل آجانے پر اپنا ہاتھ اُس کی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرتی ناراضگی سے بولی تھی.

" یعنی تم مجھے انکار کررہی ہو. یہ تو اور بھی زیادہ انٹرسٹنگ ہے. اِس کا مطلب اپنے طریقے سے معافی مانگنی ہی پڑے گی تب تم مانو گی. یہ تو سب کے سامنے ہونے کی وجہ سے میں نے بہت شرافت کا مظاہرہ کیا ہے. اگر تمہیں پسند نہیں آیا تو کوئی بات نہیں.

میں اپنے طریقے سے منانے کو تیار ہوں. "

ارتضٰی ماہ روش کے قریب ہلکی سی سرگوشی کرتے بولا.

جبکہ ماہ روش ارتضٰی کے اچانک بدلتے انداز اور الفاظ پر گھبراتے فوراً پیچھے ہٹی تھی.

" دیور جی بس کردیں اب باقی کا پیار رات کے لیے بچا کر رکھیں. "

نیہا کے چھیڑنے پر جہاں ارتضٰی نے مسکراتے ماہ روش کی طرف دیکھا وہیں ماہ روش سب کے ہنسنے پر جھینپتے ناہید بیگم کی آغوش میں چھپ گئی تھی.

ماہ روش سب کو مصنوعی غصہ تو دیکھا رہی تھی. مگر اندر ہی اندر وہ اس وقت جتنی خوش تھی وہ بیان کرنے سے باہر تھا.

واقعی ارتضٰی اُس سے سچا پیار کرتا تھا جس کی وجہ سے اُس کے اندر کا ہر درد ہر دکھ سمجھتے آج اُس کے دل کی ہر محرومی اور کمتری کے احساس کو ختم کر گیا تھا. اور اعلیٰ ضرفی کا مظاہرہ کرتے سب کے سامنے اُس کے آگے جھک گیا تھا.

جن لوگوں کے سامنے اُسے پہلے بے عزت کیا تھا. آج اُنہیں کے سامنے اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے اُسے معتبر کر گیا تھا.

اُس کے اندر کا تمام خوف اور ڈر آج ختم ہوچکا تھا. ارتضٰی سکندر اپنے بے شمار محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ صرف اور صرف اُس کا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بارات کے لیے ہائی سیکیورٹی آرمی ہال بک کروایا گیا تھا. جہاں خاندان کے بہت اہم لوگ اور کچھ خاص دوست احباب ہی مدعو کیے گئے تھے.

ارتضٰی سمیت سب لوگ ہال میں پہنچ چکے تھے. اب شدت سے سب کو دلہن کی آمد کا انتظار تھا. ریحاب اور زیمل ماہ روش کے ساتھ پارلر گئی ہوئی تھیں. اُن کو پک کرکے بحفاظت ہال تک پہنچانے کی ڈیوٹی جاذل اور ارحم کی تھی. ارتضٰی نجانے کتنی بار کال کر کے پتا کروا چکا تھا.

وہ جلد از جلد ماہ روش کو اپنی دلہن کے رُوپ میں اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا خود ہی ماہ روش کو لینے پہنچ جائے.

" جاذل یہ پارلر یہاں لاہور کی حدود میں ہی موجود ہے نا. یا دنیا کے آخری کونے پر واقعہ ہے جو تم لوگ اب تک اُن کو لے کر نہیں پہنچے. "

ارتضٰی نے ایک بار پھر کال ملائی تھی

جب اُس کی غصے بھری بے چین آواز سنتے جاذل کا قہقہ برآمد ہوا تھا.

" یار ہم لوگ کیا کریں پچھلے ایک گھنٹے سے یہاں موجود ہیں. مگر وہ تینوں لیڈیز نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں. اُن کے پانچ منٹ ختم ہی نہیں ہورہے. "

جاذل بھی اچھا خاصہ اُکتایا ہوا تھا. جب ریحاب اور زیمل کو پارلر سے نکلتا دیکھ ارتضٰی کو جلد ہی پہنچنے کا کہتے فون بند کردیا تھا.

ارحم کی نظریں تو ریحاب پر جم سی گئی تھیں. ڈارک گرے کلر کی میکسی میں جس پر گرے کلر کی ہی فل ایمبرائیڈری کی گئی تھی. اُس کا نفیس کام سے سجا دوپٹہ کمر سے لاتے آگے کی طرف دونوں کلائیوں پر رکھے وہ ماہ روش کا ہاتھ تھامے سہج سہج چلتی ارحم کو اردگرد کا ہوش بھلا گئی تھی.

اُس نے دونوں کلائیوں میں گولڈ کے خاندانی کنگھن پہن رکھے تھے. جبکہ کانوں اور گلے میں ڈائمنڈ کا نازک سا سیٹ پہنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹ رکھا تھا. جس سے کچھ لٹے نکل کر اُس کے منموہنے چہرے کے گرد بکھری ہوئی تھیں.

" کیپٹن صاحب آپ کی ہی ہیں. جتنا دل چاہے بعد میں دیکھتے رہیے گا. مگر ابھی جلدی کریں ورنہ اُس سر پھرے میجر نے ہم دونوں کا نہیں چھوڑنا."

جاذل ارحم کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے اُسے چھیڑتے ہوئے مسکرایا. جب اُس کی بات پر ارحم بھی ہوش میں آتے ریحاب کے سحر سے باہر آیا تھا.

" وہ زیمل کو ابھی پانچ منٹ مزید لگے گے. اِس لیے اُس کا کہنا ہے کہ آپ لوگ چلے جاؤ. میں خود آجاؤ گی."

ریحاب ماہ روش کو گاڑی میں بیٹھاتے اُن دونوں سے مخاطب ہوئی.

" پاگل ہے وہ اِس طرح اکیلی کیسے آئے گی. ارحم تم ریحاب اور ماہ روش کو لے کر پہنچو. میں زیمل کو لے کر آتا ہوں. "

جاذل کو زیمل کے لاپرواہ انداز پر غصہ آیا تھا. وہ اُن کو جانے کا کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا.

پانچ منٹ تو کیا پندرہ منٹ سے اُوپر ہوچکے تھے. مگر زیمل کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں تھا. آخر کار زچ ہوتے جاذل نے پارلر کے اندر جانے کا فیصلہ کیا تھا.

جاذل ابھی اندر داخل ہونے ہی والا تھا جب باہر نکلتا کوئی خوشبوئیں بکھیرتا وجود اُس سے آکر ٹکرایا تھا.

" اُف میرا ناک. "

زیمل کا ناک جاذل کے کندھے سے بُری طرح ٹکرایا تھا. زیمل درد سے بلبلاتی پیچھے ہوئی تھی. مگر سامنے کھڑے جاذل کو دیکھ وہ اپنا درد بھول چکی تھی.

" اوہ نو کیا ہوا تم ٹھیک ہو. "

جاذل زیمل کو ابھی اتنا ہی بولا تھا جب زیمل کے سہانے روپ پر نظر پڑتے بہت کوشش کے باوجود جاذل آج بھی زیمل کو اگنور نہیں کر پایا تھا. وہ لگ ہی اتنی حسین رہی تھی. کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ارحم کو ٹوکنے والا جاذل مبہوت سا اُسے دیکھے گیا تھا.

زیمل پیچ کلر کی خوبصورت سی میکسی زیب تن کیے لائٹ سے میک اپ اور ہلکی پھلکی جیولری میں جاذل کے دل کی دنیا تہس نہس کرگئی تھی. بالوں کو ہلکے سے جوڑے کی شکل میں باندھ کر اُس نے ایک طرف گردن پر ڈال رکھا رکھا تھا.

زیمل کے میکسی کے فل بازو بلکل فٹنگ میں تھے. اور تصادم کی وجہ سے جاذل کا ہاتھ ابھی بھی زیمل کے بازو کو تھامے ہوئے تھا. جس کی نرماہٹیں محسوس کرتے جاذل کے دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی.

" ایکسکیوزمی."

وہ دونوں نجانے کتنے ہی پل ایسے ہی ایک دوسرے میں کھوئے رہتے جب راستے میں کھڑے ہونے کی وجہ سے پیچھے کھڑی لڑکیوں کے مخاطب کرنے پر وہ دونوں ہوش میں آئے تھے.

جاذل زیمل کو ساتھ آنے کا کہتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا.

"میجر جاذل اتنا ایٹیٹوڈ کس بات کا دیکھا رہے ہیں آپ. "

زیمل گاڑی میں مسلسل جاذل کو خاموش بیٹھا دیکھ آخر کار تنگ آکر بول پڑی.

" ریئلی کیپٹن زیمل میں ایٹیٹوڈ دیکھا رہا ہوں. "

جاذل حیرانی سے زیمل کی بات پر اُس کی طرف دیکھتے بولا

" ہاں تو اور کیا. سیدھے طریقے سے بات بھی نہیں کررہے. اور نہ ہی میری بات سن رہے ہیں. "

زیمل منہ پھلاتے بولی.

" اوکے تو بولیں کیا کہنا چاہتی ہیں آپ. "

جاذل یکدم گاڑی ایک سائیڈ پر روکتے رُخ زیمل کی طرف موڑتے مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا.

جبکہ زیمل جاذل کے اِس طرح اچانک قریب آجانے پر پزل ہوتی دروازے کے ساتھ جا لگی تھی.

" وہ مجھے کہنا تھا کہ... "

زیمل کو زندگی میں کبھی کوئی کام اتنا مشکل نہیں لگا تھا جتنا اِس وقت جاذل کے سامنے اپنے جذبوں کا اظہار کرنا تھا.

" کہ.. "

جاذل نے سوالیہ نظروں سے زیمل کی طرف دیکھا تھا.

زیمل جاذل کی نگاہوں سے کنفیوز ہوتے خود میں سمٹی تھی.

جاذل اُس کے دلفریب رعنائیاں بکھیرتے وجود سے نظریں ہی نہیں ہٹا پارہا تھا. اور اُس کی گہری شوخ نگاہوں سے زیمل کے پسینے چھوٹ رہے تھے.

" کہ کچھ نہیں ہمیں دیر ہورہی نا. ارحم لوگ پہنچ بھی چکے ہوں گے. "

زیمل نے ٹشو سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتے رخ کھڑکی کی طرف موڑتے کہا.

اُس کا دل اِس قدر شدت سے دھڑک رہا تھا کہ ایک پل کے لیے تو اُسے محسوس ہوا تھا جیسے دل پسلیاں توڑ کر باہر ہی نہ نکل آئے.

جاذل کو زیمل کا یہ انداز بہت اچھا لگ رہا تھا.

کچھ کہنے کی کوشش کرتی کچھ گھبراتی سی زیمل کا یہ انداز جاذل کو مزید اُس کے قریب کررہا تھا. اُس کا دیوانہ کررہا تھا.

جاذل کا دل چاہا تھا کہ ایک ہاتھ کی دوری پر بیٹھی اِس پیاری لڑکی کو اپنے قریب کرکے اپنے دل کی ہر بات ہر جذبہ بیان کردے.

اُسے بتائے کہ نکاح کہ بعد سے وہ اُسے کتنا چاہنے لگا ہے. مگر اِس پل وقت کی کمی کے باعث وہ یہ باتیں فنکشن کے بعد کرنے پر چھوڑتا گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھ چکا تھا.

" کیپٹن زیمل آپ جو بات اتنے دنوں سے کہنے کی کوشش کررہی ہیں. میرے خیال میں اُسے رہنے ہی دیں کیونکہ میرے خیال میں یہ سب آپ کے بس کی بات تو بلکل بھی نہیں ہے. "

زیمل کو گاڑی سے اُترتے دیکھ جاذل اُسے چھیڑے بغیر نہ رہ سکا تھا.

" میجر جاذل آپ مجھے چیلنج کررہے ہیں کیا. اِس دنیا میں کوئی ایسا کام نہیں ہے جو میں نہ کرسکوں."

زیمل جاذل کے مذاق اڑاتے انداز پر چڑ بھی گئی تھی.

" جی چیلنج بھی سمجھ سکتی ہیں آپ اِسے. باقی کاموں کا تو پتا نہیں مگر اتنا پتا ہے کہ اپنے جذبات سمجھنے اور اُن کا اظہار کرنے میں تو آپ فیل ہوچکی ہیں.

اِس معاملے میں آپ سے اچھی تو پھر وہ سونیا ہی ہے. جو اپنی فیلنگز کا اظہار تو پوری ایمانداری سے کرتی ہے."

جاذل دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ زیمل کے تن بدن میں آگ لگاتا گاڑی سے نکل گیا تھا.

" میجر جاذل لگتا ہے آپ مجھے ابھی تک ٹھیک سے سمجھے نہیں ہیں. اب میں آپ کو بتاؤں گی کہ کیپٹن زیمل آخر ہے کیا چیز. "

زیمل کو سونیا کا ذکر کسی صورت ہضم نہیں ہوا تھا. وہ غصے سے بل کھاتی اُس کے پیچھے بڑھ گئی تھی.

اُس کے لیے یہ پیار محبت کے جذبات بلکل نئے تھے. جس جاذل ابراہیم کے ساتھ وہ آج تک ہمیشہ لڑتی ہی آئی تھی. اب اُس کے سامنے محبت کا اظہار کرنا اُس کے لیے بہت مشکل ہورہا تھا.

اُوپر سے جاذل کی شوخ نظریں اُسے ویسے ہی پزل کر کے رکھ دیتی تھیں. جو اُسے سب کچھ بھلا دیتی تھیں. مگر اب زیمل نے سوچ لیا تھا کہ کیا کرنا ہے اُسے. اِس چھچھورے میجر کو اُسی کے طریقے سے ہینڈل کرنا تھا اب اُسے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی کو شدت سے ماہ روش کا انتظار تھا. مہمانوں کے ساتھ کھڑے اُس کی نظریں بھٹک بھٹک کر بار بار انٹرنس کی طرف اُٹھتی تھیں. مگر انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا.

" شادی بہت بہت مبارک ہو میجر ارتضٰی سکندر. "

ارتضٰی ابھی وہیں کھڑا تھا. جب اِس آواز پر جھٹکے سے سر اُٹھایا تھا.

جنرل یوسف چہرے پر مسکراہٹ سجائے اُس کے سامنے کھڑے تھے.

" بہت بہت شکریہ ورنہ اسے خراب کرنے کی آپ کی پوری کوشش تھی. "

ارتضٰی طنزیا انداز میں بولا تھا.

" خوشی کا موقع ہے. غصہ تھوک دو اور آؤ گلے ملو. یہاں میں ایک آفیسر کی حیثیت سے نہیں بلکہ تمہارے باپ کی حیثیت سے آیا ہوں. "

جنرل یوسف نے بات ہی ایسی کی تھی. کہ ارتضٰی مزید اپنی ناراضگی قائم نہیں رکھ پایا تھا.

ارتضٰی اُن سے بغل گیر ہوکر ہٹا ہی تھا. جب اُس نظر انٹرنس کی طرف اُٹھی تھی. اور ارتضٰی کو لگا تھا کہ جیسے دنیا کی ہر چیز تھم گئی ہو.

ماہ روش ریحاب اور نیہا کے درمیان چلتی آسمان سے اُتری کوئی پری ہی لگ رہی تھی.

سُرخ لہنگے میں سولہ سنگھار کیے وہ ارتضٰی کو سیدھا اپنے دل میں اُترتی محسوس ہوئی تھی.

ارتضٰی تو اُس کا دیوانہ تھا ہی مگر وہاں موجود سب لوگ ہی ماہ روش کے بے پناہ حُسن کو دیکھتے مبہوت ہوئے تھے.

ماہ روش بلڈ ریڈ کلر کے بیش قیمت بھاری لہنگے میں سر کے بالوں سے لے کر پاؤں تک سجی چہرے پر ہلکی نرم مسکراہٹ سجائے وہ پورے ماحول پر چھائی لگ رہی تھی. اُس نے آج اپنا پور پور ارتضٰی سکندر کے لیے سجایا تھا.

ماہ روش گولڈ کی ہیوی جیولری پہنے ہوئی تھی. اور آج بھی ارتضٰی کی فرمائش پر اُسے ناک میں بہت ہی خوبصورت نازک سی نتھ پہنائی گئی تھی. جو اُس کے حسین رُوپ کو مزید چار چاند لگا رہی تھی.

ارتضٰی کو اپنا آپ ماہ روش کے دو آتشہ حُسن میں پگھلتا محسوس ہوا تھا.

جب اُس کے سحر میں جکڑے ارتضٰی سرشار سا اُس کی طرف بڑھا تھا. اُس کے قریب پہنچتے ارتضٰی نے اپنی مضبوط چوڑی ہتھیلی ماہ روش کے سامنے پھیلایا تھی.

ارتضٰی کو سامنے دیکھ ماہ روش کی دھڑکنوں کا شور بڑھا تھا.

ارتضٰی بلیک تھری پیس میں موجود اپنی رعب دار ڈیشنگ پرسنیلٹی کے ساتھ ماہ روش کو ایک بار پھر اپنا اسیر بنا گیا تھا.

ماہ روش نے ارتضٰی کی لوح دیتی شوخ نظروں سے گھبراتے اُس کے ہاتھ میں اپنا نازک ہاتھ دے دیا تھا.

" ماشاءﷲ کتنے پیارے لگ رہے ہمارے بچے. ﷲ اِن کو ہمیشہ خوش رکھے. اب مزید کوئی دکھ درد اِن کے قریب بھی نہ بھٹک پائے. بہت مصیبتیں اور غم برداشت کیے ہیں انہوں نے. لیکن یا رب اِن کی آنے والی زندگی خوشیوں سے بھر دینا."

اُن دونوں کو ایک ساتھ سٹیج کی طرف بڑھتا دیکھ ناہید بیگم کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے تھے. آج اُن کا ارتضٰی خوش تھا. اُسے اُس کا سکون اُس کی ماہ روش مل چکی تھی.

" آمین ثم آمین بھابھی. انشاءﷲ اب ایسا ہی ہوگا."

زینب ناہید بیگم کا ہاتھ دباتے محبت سے بولیں. کتنی خواہش تھی نا اُن کی اپنی ماہ روش اپنی گڑیا کو دلہن کے رُوپ میں دیکھنے کی جو آج پوری ہوچکی تھی. وہ نجانے کتنی بار اُن دونوں کی نظر اُتار چکی تھیں.

ایک ساتھ بیٹھے وہ اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ اُن کی جوڑی سے کسی کی نظریں ہٹ ہی نہیں رہی تھیں.

ارتضٰی ماہ روش کے بلکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا. جبکہ اُس کا بازو صوفے کی ٹیک کے اُوپر رکھا تھا.

ماہ روش کی کمر سے ارتضٰی کا بازو ٹچ ہورہا تھا. اور ماہ روش کی دھڑکنوں کا شور ارتضٰی کے اتنے قریب ہونے اور اُوپر سے کمر پر اُس کا لمس محسوس کرتے اتنا بڑھ چکا تھا کہ اُسے کچھ اور سنائی ہی نہیں دے رہا تھا.

ماہ روش کو دیکھ ارتضٰی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی اِس نازک سی گڑیا کو پوری دنیا سے چھپا کر اپنے دل میں چھپا لے.

ارتضٰی ماہ روش کو ایک دو بار مخاطب کرچکا تھا. مگر وہ چہرے پر مصنوعی ناراضگی سجائے ارتضٰی سے کوئی بات بھی کرنے کو تیار نہیں تھی.

" ڈونٹ وری جاناں آج تمہاری ہر ناراضگی ہر شکوہ اتنی محبت سے دور کروں گا. کہ تم دوبارہ کبھی مجھ سے ناراض ہونے کے بارے میں سوچو گی بھی نہیں. "

ارتضٰی کی گھمبیر سرگوشی پر ماہ روش کو اپنی ہتھیلیاں پانی سے بھیگتی محسوس ہوئی تھیں. آنے والے لمحوں کا سوچتے ماہ روش کی حالت غیر ہونے لگی تھی. کیونکہ ارتضٰی کی شوخیاں تو ابھی سے عروج پر تھیں.

آخر کار وہ ٹائم آہی گیا تھا جس کے لیے ارتضٰی بے قراری سے انتظار کر رہا تھا.

مگر ماہ روش کی سانسیں اُس وقت اٹکی تھیں. جب اُسے ارتضٰی کے ساتھ اکیلا گاڑی میں بیٹھایا گیا تھا.

" ماما آپ لوگ بھی آئیں نا میرے ساتھ. "

ماہ روش اپنا لہنگا سیٹ کرتی زینب کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولی کیونکہ ارتضٰی بھی پاس ہی کھڑا تھا. محتاط انداز میں کی گئی کپکپاتی سرگوشی ارتضٰی کی سماعتوں تک پہنچ چکی تھی. جسے سنتے اک محظوظ کن مسکراہٹ ارتضٰی کے ہونٹوں پر بکھر گئی تھی.

" میری جان ارتضٰی آپ کے ساتھ ہے. آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے. "

زینب بیگم اُسے محبت سے سمجھاتیں اُس سے مل کو پیچھے ہٹ گئی تھیں.

اب ماہ روش اُنہیں کیا بتاتی کہ ارتضٰی سکندر ہی تو اُس کی گھبراہٹ کی وجہ تھا. جس کی بے رُخی برداشت کرنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں تھا. اور اب اُس کا یہ بے باک اور شوخ انداز بھی اُس کی جان نکالے ہوئے تھا.

کچھ گھنٹے پہلے ارتضٰی کے اپنے متعلق جذبات سن کر اور اُس کی محبت کی شدت دیکھ ماہ روش اپنی پچھلی زندگی کی تمام تلخیاں بھول چکی تھی.

یہ خیال ہی بہت اچھوتا اور دلفریب تھا کہ وہ دشمنِ جاں صرف اور صرف اُس کا ہے.

بیلا یا کوئی بھی اور لڑکی نہ کبھی اُن کے درمیان تھی. اور نہ ہی دوبارہ کبھی آسکے گی.

ناہید بیگم نے بیلا والی غلط فہمی بھی اُسے کلیئر کردی تھی. کہ ارتضٰی نے اُس کے ساتھ شادی پر رضامندی صرف گھروالوں کی خوشی کی خاطر دی تھی. ورنہ اُس کا کبھی بیلا میں کوئی انٹرسٹ نہیں رہا تھا.

اور ماہ روش کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا تھا. اُس کے بعد تو ارتضٰی نے صاف انکار کر دیا تھا شادی سے جس پر بیلا نا اُمید ہوتے اُس کے بے ہوشی کے دوران ہی واپس لوٹ گئی تھی.

کیونکہ ارتضٰی کی ماہ روش کے لیے دیوانگی دیکھ وہ سمجھ گئی تھی کہ میجر ارتضٰی سکندر کی زندگی میں ماہ روش کے سوا کسی لڑکی کی کوئی گنجائش نہیں تھی.

ساری حقیقت سنتے ماہ روش کے دل میں موجود آخری پھانس بھی نکل گئی تھی. وہ اب بلکل ہلکی پھلکی ہوکر یہ خوشیوں بھرے لمحے انجوائے کر سکتی تھی.

مگر اپنے اتنے دن بے وقوف بنائے جانے پر اُس نے سب سے اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور کیا تھا. جس کے جواب میں سب سارا الزام ارتضٰی پر ڈالتے اِس سب سے بری الذمہ ہوئے تھے. اور اِس سارے کام کے پیچھے ماسٹر مائنڈ ارتضٰی سکندر کو بناتے اُنہوں نے ماہ روش کو ارتضٰی سے ناراض ہونے اور لڑائی کرنے کو کہا تھا.

جبکہ ماہ روش جو واقعی ارتضٰی سے ناراض رہنے اور لڑائی کرنے کا پورا پلان بنائے بیٹھی تھی. اِس وقت اُس کے جان لیوا انداز پر وہ سب کچھ بھولے اپنی سانسوں کو شمار کرنے میں مصروف تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" زیمل پہلے مجھے شک تھا. مگر اب یقین ہوگیا ہے کہ تمہارے دماغ کے سکرو ناصرف ڈھیلے ہیں بلکہ اچھے خاصے ہلے بھی ہوئے ہیں. تم جانتی بھی ہو کہ تم کیا کرنے کو کہہ رہی ہو. "

ارحم زیمل کی بات سنتا ہتھے سے اکھڑا تھا.

" ارحم تم مجھے انکار کررہے ہو. مجھے کم از کم تم سے یہ اُمید نہیں تھی. آج تک کبھی تمہیں کسی بات سے انکار نہیں کیا. اور اب جب مجھے ضرورت پڑی ہے تو تم اِس طرح صاف انکار کررہے ہو.

اگر تمہاری جگہ ماہ روش ہوتی تو کبھی انکار نہ کرتی. بلکہ اب تک تو میری مدد کرنے کے لیے تیار بھی ہوچکی ہوتی. "

زیمل نے ارحم کو مسلسل انکاری دیکھ ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا تھا. کیونکہ اِس وقت صرف ارحم ہی اُس کی مدد کرسکتا تھا.

" جیسے میں تو جانتا ہی نہیں ہوں نا ماہ روش کو. وہ تو اب تک اچھا خاصہ سنا کر فون بھی بند کرچکی ہوتی. ایک میں ہی ہوں جو تمہارے ساتھ سر کھپارہا ہوں. "

ارحم کا لہجہ ہنوز تھا.

" پر یار اتنا غلط بھی کیا ہے اِس میں. "

زیمل کو اگر اِس وقت ارحم سے اتنا ضروری کام نہ ہوتا تو وہ اب تک ناراض ہوکر فون بند بھی کرچکی ہوتی.

" کیپٹن زیمل آپ مجھے میجر جاذل کو کڈنیپ کرنے کا کہہ رہی ہیں. اِس میں صحیح بات کا ہے. "

ارحم زچ ہوتے بولا.

" تو کونسا سچ مچ کا کڈنیپ کرنا ہے. کچھ دیر کے لیے ہی تو کرنا ہے نا. پلیز ہیلپ کر دو. میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی. "

زیمل اب منتوں پر اُتر آئی تھی جب آخر کار کچھ سوچتے ارحم نے اُسے ہاں میں جواب دیتے فون بند کردیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" مائی لولی وائف گھر میں ایک بہت زبردست سرپرائز منتظر ہے تمہارے لیے. میں ابھی کچھ دیر تک آتا ہوں. مگر میرے واپس آنے پر چینج نہیں کرنا مجھے ابھی اِس حسین رُوپ میں جی بھر کر دیکھنا ہے تمہیں. اور اپنے سرپرائز کے ری ٹرن میں اپنی مرضی اور پسند کا گفٹ بھی وصول کرنا ہے. "

ارحم گاڑی گھر کے سامنے روکتے بولا. اور جھک کر محبت پاش نظروں سے اُس کے حسین سراپے کو آنکھوں میں بساتے اُس کی پیشانی کو چوم لیا تھا.

جب کہ اُس کی سرپرائز والی بات سن کر ریحاب جو ایکسائیٹڈ ہوئی تھی. مگر اُس کی اگلی معنی خیز بات اور انداز نے اُسے خود میں سمٹنے پر مجبور کردیا تھا.

" جی نہیں میں بہت زیادہ تھک چکی ہوں. اور مجھے نیند بھی بہت آئی ہے. اِس لیے میں آپ کا انتظار بلکل نہیں کروں گی."

ریحاب نے اُسے چھیڑنے کے لیے لاپرواہ انداز میں کہتے گاڑی سے اترنا چاہا تھا.

مگر ارحم نے اُس کی کلائی پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا.

ریحاب اچانک اِس حملے پر گھبرا گئی تھی. ارحم کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ریحاب کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں.

" تو تم میرا انتظار نہیں کرو گی. "

ارحم نے ریحاب کے نرم گال پر اُنگلی پھیرے پوچھا. ریحاب کا مزاحمت کرتا دوسرا ہاتھ بھی ارحم کی گرفت میں آچکا تھا.

ارحم کے انداز پر گھبرانے کے باوجود ریحاب نے شرارتاً نفی میں سر ہلایا تھا.

" ایک بار پھر سوچ لو. "

ارحم نے اب کی بار ریحاب کے گداز ہونٹوں پر انگوٹھا پھیرتے ہلکے سے مسلا تھا.

مگر اب بھی دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں کے باوجود ریحاب نے ارحم کے حصار سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے نفی میں سر ہلایا تھا.

" لاسٹ ٹائم پوچھ رہا ہوں. "

ارحم کا انداز وارننگ دیتا ہوا تھا. کیونکہ اب اُس کا ہاتھ ریحاب جوڑے کی پن تک پہنچ چکا تھا.

اِس سے پہلے کہ ریحاب دوبارہ نفی میں سر ہلاتی ارحم یکدم اُس کے ہونٹوں پر جھکا تھا.

" ارحم پلیز میں انتظار کروں گی. "

ریحاب گردن پر ارحم کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتے. اور اُس کو ہونٹوں پر جھکتا دیکھ جلدی سے بولی تھی. کیونکہ اب کی بار اُسے اپنی مستی مہنگی پڑنے والی تھی.

اُس کے گھبرا کر بولنے پر ارحم کا جاندار قہقہ گاڑی میں گونجا تھا.

" یہ ہوئی نا بات. "

ارحم ریحاب کا لال ہوتا چہرہ دیکھ اپنی مسکراہٹ نہ روک پایا تھا.

جب ریحاب مصنوعی غصے سے اُسے گھورتی گاڑی سے نکل گئی تھی.

ریحاب نے جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھا سامنے براجمان شخصیت کو دیکھ وہ اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی.

مگر اگلے ہی لمحے آنکھوں میں نمی بھرے وہ آصف صاحب کے ساتھ صوفے پر بیٹھے اپنے بابا کی طرف بڑھی تھی. وہ بھی اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے بانہیں پھیلائے اُس کی طرف بڑھے تھے. اُن کے آنکھوں میں ندامت واضح تھی.

" بابا میں نے آپ کو بہت مس کیا. آپ نے اتنی دیر کیوں کردی واپس آنے میں. کیا آپ کو زرا خیال نہیں آیا میرا اور انیس کا. اتنے سالوں میں ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا آپ نے. کیا آپ کو کبھی ہم دونوں کی یاد نہیں آئی. "

ریحاب اُن کے سینے سے لگی اپنا ہر گلہ ہر شکوہ کہتی چلی گئی تھی. جبکہ وہ نادم سے اُس کو اپنے سینے میں بھینچ گئے تھے. آصف صاحب اُن دونوں باپ بیٹی کو ٹائم دینے کے خیال سے وہاں سے اُٹھ گئے تھے.

کافی دیر بعد ریحاب جب اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرچکی تو اُن سے دور ہوئی تھی.

جو بھی تھا اُس کے بابا نے اُس کے ساتھ زندگی بھر جتنا بھی غلط کیا تھا. مگر وہ اُس کے لیے اب بھی بہت قابلے احترام تھے. وہ اُن کو اِس طرح شرمندہ اور معافی مانگتے نہیں دیکھ سکتی تھی. اِس لیے اپنا ظرف بڑا کرتے وہ اُن کے یہاں تک آجانے پر ہی خوش ہوتی اُنہیں اُن کی کوتاہیوں پر معاف کرچکا تھی.

اُن کی زبانی یہ جان کر کہ ارحم صرف اُس کی خوشی کی خاطر اُنہیں یہاں لایا تھا. ریحاب اپنی قسمت پر نازاں ہوئی تھی. ارحم اُس کی آنکھوں کی اُداسی برداشت نہیں کر پایا تھا.

ریحاب کو اب شدت سے ارحم کا انتظار تھا. جو اِس دنیا میں سب سے زیادہ اُس کا اپنا تھا. اُس کے بن کہے اُس کی ہر بات سمجھنے والا. ابے پناہ محبت اور چاہے جانے کا احساس کیا ہوتا ہے یہ اُسی شاندار انسان نے ہی تو بتایا تھا.

اُس کی زندگی کی ہر کمی تو وہ پہلے ہی اپنی بے پناہ محبت سے دور کرچکا تھا. اور آج اُس کی اُداسی کی آخری وجہ بھی دور کرگیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


زیمل جو کب سے گاڑی میں بیٹھی ارحم کے میسج کا انتظار کر رہی تھی. میسج کی ٹیون بجتے ہی فوراً گاڑی سٹارٹ کرتی آگے بڑھا دی تھی.

" یہ پکڑو فلیٹ کی کی اب اگر میجر جاذل نے اِس فضول حرکت پر تمہارا سر پھاڑا تو مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا."

ارحم زیمل کو فلیٹ کی کیز دیتے انجام سے آگاہ کرتے بولا.

" اب ڈراؤ تو مت."

زیمل اُس کی بات پر اُسے گھورتے ہوئے بولی.

" تو اور کیا. بے چارے میجر جاذل نے بھی کیا قسمت پائی ہے. اُن کی اپنی بیوی نے اُنہیں کڈنیپ کروایا ہے. وہ بھی کہاں اُنہیں کے فلیٹ میں.

بہت اعلیٰ کیا کہنے آپ کے کیپٹن زیمل. اوکے اب میں چلتا ہوں. "

ارحم اُس کا مذاق بناتے اُسے گڈ لک کہتا وہاں سے نکل گیا تھا.

زیمل نے جھجھکتے اندر قدم رکھا تھا.

جاذل کو کرسی پر رسیوں سے باندھا گیا تھا. اُس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف لے جاکر باندھے گئے تھے. جبکہ ہونٹوں پر بلیک کلر کی پٹی بندھی ہوئی تھی.

اور بے ہوش ہونے کی وجہ سے اُس کا سر ایک جانب لڑھکا ہوا تھا. کمرے میں سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا.

جب آہستہ آہستہ ہوش میں آتے جاذل نے آنکھیں کھولی تھیں. اندھیرے کی وجہ سے وہ کچھ خاص دیکھ نہیں پایا تھا. اُسے اپنے سامنے کوئی کھڑا نظر آیا تھا.

مقابل نے اُس کی پریشانی کو دیکھتے جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ جاذل ساکت ہوا تھا.

" تم تم نے مجھے کڈنیپ کیا. اور یہ سب کیا ہے. "

جاذل نے منہ پر بندھی پٹی کو منہ جھٹک کر نیچے کرتے بمشکل پوچھا.

جاذل کی آنکھوں میں موجود حیرت اور بے یقینی دیکھ وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی.

" بلکل ایسا ہی ہے تو پھر کیسا لگا میرا سرپرائز میجر جاذل ابراہیم."

زیمل نے سینے پر ہاتھ باندھے اُس سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے ہوئے مزے سے پوچھا.

" یہ بچکانہ حرکت کرنے کی وجہ. "

جاذل نے سپاٹ تاثرات سے اُس کی طرف دیکھا.

" بچکانہ نہیں میجر جاذل. اِسے چیلنج پورا کرنا کہتے ہیں. "

زیمل جاذل کے ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے شیر ہوتے بولی.

" چیلنج مجھے کڈنیپ کرنا نہیں تھا. "

جاذل زیمل کے تیور پر غور کرتے بولا. جو اُسے رسیوں میں باندھوا کر بڑی دلیر بنی اُس کو تنگ کررہی تھی.

" یہ چیلنج میں نہیں تھا مگر اب میں چیلنج پورا کروں گی نا. "

زیمل کچھ فاصلے پر رکھی کرسی گھسیٹ کر جاذل سےاچھا خاصہ دور رکھتے بیٹھ گئی تھی.

جبکہ جاذل تحمل سے بیٹھا اُس کی تمام حرکات نوٹ کررہا تھا. اُس نے ایک بار بھی ہاتھ چھڑانے کی یا مزاحمت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی.

" اگر آپ سیٹ ہوگئی ہیں تو میرے ساتھ یہ اب کرنے کی وجہ بیان کریں گی. "

جاذل کے طنز پر زیمل نے اُسے ایک گھوری سے نوازا تھا.

" نہیں ابھی ایک کام رہتا ہے. "

زیمل نے اپنی کلائی پر بندھی پٹی کھول کر جاذل کی آنکھوں پر باندھ دی تھی. جو سب سے زیادہ فساد کی جڑ تھیں. اور اُسے ہر بار کنفیوز کردیتی تھیں.

" واٹ نان سینس زیمل یہ کیا کررہی ہیں آپ. "

جاذل اُس اِس حرکت پر اچھا خاصہ تپا تھا. مگر وہ زیمل ہی کیا جس پر اثر ہو.

" میجر جاذل خاموش ہوکر بیٹھیں ورنہ میں نے آپ کے منہ کو بھی ایسے ہی باندھ دینا ہے. بھولیں مت آپ مکمل طور پر میرے رحم و کرم پر ہیں. "

زیمل نے جاذل کو بے بس کرکے بہادر بنتے کہا.

" میجر جاذل ابراہیم آپ نہیں جانتے کہ میں کیسی جذبات سے عاری لڑکی تھی. جس کو یہ پیار محبت سب فضول اور ٹائم ویسٹنگ سے زیادہ کچھ نہیں لگتا تھا.

شادی تو میرے لیے ایک زبردستی مسلط کرنے والا بندھن ہی تھا.

مگر پھر ایک اُلٹے دماغ کے میجر نے آکر بہت ہی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ مجھے ایسے اپنی باتوں میں الجھایا کہ شادی کے نام پر چڑنے والی زیمل آرام سے شادی پر مان گئی. اور بس یہیں تک نہیں رہا. اُس چھچھورے میجر نے اپنی حرکتوں سے نے میرے معصوم سے دل کو ایسا اپنے حال میں پھنسایا کہ پیار محبت کی باتوں پر ہنسنے والی خود ہی اِن کا بُری طرح شکار ہوگئی. "

زیمل کی انوکھی اور دلچسپ کہانی سنتے جاذل کے چہرے پر ایک زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھر گئی تھی.

آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے کی وجہ سے وہ زیمل کے ایکسپریشنز تو نہیں دیکھ پایا تھا. مگر اُس کے منفرد انداز میں کیا گیا اظہار اُسے مزا دے گیا تھا.

" یہ کیسا اظہار ہوا. کیپٹن زیمل محبت کا بھلا ایسا اظہار کون کرتا ہے. اور اب تو یہ پٹی ہٹا دیں میری آنکھوں سے. "

جاذل جان بوجھ کر اُسے چھیڑتے ہوئے بولا.

" یہ میرا سٹائل ہے. اور یہ پٹی آپ خود کھول لیجئے گا میں تو جارہی ہوں. "

زیمل جلدی سے کرسی سے اُٹھتے باہر کی طرف بڑھی تھی. مگر اُس سے پہلے ہی جاذل نے رسیوں سے ہاتھ چھڑاتے زیمل کی کلائی اپنی گرفت میں لیتے اُسے ہلکا سا جھٹکا دیتے اپنی گود میں گرایا تھا.

" اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے ڈارلنگ. "

جاذل زیمل کے گرد اپنی بانہوں کا حصار باندھتے بولا.

جبکہ جاذل کے کھلے ہاتھ اور آنکھوں سے ہٹی پٹی دیکھ زیمل کا اُوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ارتضٰی نے گاڑی ایک بہت ہی خوبصورت سے فارم ہاؤس کے سامنے جاکر روکی تھی. جب اُس کے پہلے ہی ہارن بجانے پر بڑا سا گیٹ کھلتا چلا گیا تھا.

ماہ روش جو باہر سے ہی وہاں کی خوبصورتی کا اندازہ لگا رہی تھی. جیسے ہی گاڑی اندر داخل ہوئی اردگرد وسیع اعراضی پر پھیلا لان جس پر رات کے اندھیرے میں بھی دور دور تک پھیلے جگمگاتے دیے اور وہاں لگے پھول پودوں پر لگی مختلف رنگوں کی برقی قمقمے ایک الگ ہی نظارہ پیش کررہی تھیں.

پورا فارم ہاؤس مختلف سٹائل کی دلکش لائٹنگز سے سجا ہوا تھا. اتنا خوبصورت منظر ماہ روش کے موڈ کو بلکل فریش کرگیا تھا.


جاری ہے


#ایپیسوڈ_نمبر_44

پارٹ_ٹو

#اے_عشق_تیری_خاطر

#از_قلم_فروا_خالد


ماہ روش ابھی اِس خوبصورت ماحول کے زیر اثر تھی. جب ارتضٰی نے اُس کی سائیڈ کا دروازہ کھولتے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا. ماہ روش کا خود اور مطمئین انداز ارتضٰی کے دل سے بہت سارا بوجھ سرکا گیا تھا.

ماہ روش ارتضٰی کی جذبے لُٹاتی آنکھوں میں دیکھتے فوراً نظریں جھکا گئی تھی. اور کچھ ہچکچاتے اپنا جیولری اور مہندی سے سجا ناذک ہاتھ اُس کے مضبوط ہاتھ پر رکھ دیا تھا.

اندر کو جاتی پوری روش پر پھولوں کی چادر بچھائی گئی تھی. ارتضٰی کا ہاتھ تھامے اُس کے ساتھ قدم اُٹھا کر اندر کی طرف بڑھتے ماہ روش کا دل چاہا تھا یہ حسین پل کبھی ختم نہ ہوں. آج اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی تھی. اُس نے آج میجر ارتضٰی سکندر کو پالیا تھا ہمیشہ کے لیے.

ماہ روش نے کن اکھیوں سے اپنے ساتھ چلتے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو اُس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہلکے سے مسکرایا تھا.

اور جھک کر اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھاتے اُس کی دونوں آنکھوں کو چوم لیا تھا.

" مجھے چھپ چھپ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں. مجھے سر عام دیکھنے اور پیار کرنے کا حق صرف اور صرف تمہارے پاس ہے. "

بڑے سے گھیرے دار لہنگے میں ارتضٰی کی بانہوں میں وہ کوئی نازک سی گڑیا لگ رہی تھی. اِس وقت اُسے دیکھ کر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایک بہت ہی بہادر اور خطرناک آفیسر ہے. کیونکہ اِس وقت عروسی جوڑے میں اپنا پور پور سجائے وہ ارتضٰی سکندر کی سہاگن لگ رہی

تھی. جو اپنے تن من دھن سے صرف میجر ارتضٰی سکندر پر فدا تھی.

اُسے اُس شخص سے محبت نہیں عشق تھا. جبھی تو اُس کی اتنی بے رُخی کے باوجود بھی وہ اُس سے بدگمان نہیں ہوپائی تھی. بلکہ اپنے عشق اور محبت پر یقین رکھتے آج اُسے پا لیا تھا.

" مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی. پلیز مجھے نیچے اُتاریں. "

ماہ روش ارتضٰی کی شوخ حرکتوں اور نظروں سے پزل ہوتے بمشکل اپنی ناراضگی کا اظہار کر پائی تھی.

فارم ہاؤس اندر سے اِس قدر خوبصورت تھا کہ ماہ روش باہر کا منظر تو بھول ہی گئی تھی.

" تو میں کونسا بات کرنا چاہتا ہوں.آج تو میں صرف اور صرف پیار کرنے کے موڈ میں ہوں."

ارتضٰی اُسے ویسے ہی بانہوں میں اُٹھائے بیڈ روم میں داخل ہوا تھا. ارتضٰی کے اندر قدم رکھتے ہی اُن دونوں پر پھولوں کی ہلکی ہلکی برسات شروع ہوچکی تھی.

بیڈ روم کی سجاوٹ تو دیکھنے لائک تھی. مدھم سی روشنی ایک رومانوی سا ماحول پیش کررہی تھی. پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ پر ایک سحر سا طاری کررہی تھی.

ارتضٰی نے ماہ روش کو اندر لے جاتے بیڈ روم کے وسعت میں جاکر اُتار دیا تھا. جب ماہ روش اُس کی بات سن کر شرم سے دوھری ہوئی تھی.

ارتضٰی نے گہری نظروں سے اُس کے دلنشین سراپے کی طرف دیکھا.

گھنیری پلکیں ارتضٰی کی پرتپیش نظروں سے لرز رہی تھیں. لال لپسٹک سے سجے شنگرفی ہونٹ کپکپانے لگے تھے.

ارتضٰی نے ماہ روش کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے قریب کیا تھا.

" ماہ روش تم جانتی ہو. اپنی پوری زندگی میں نہ میں نے کبھی کسی سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی کبھی کوئی بات میرے لیے ڈر کی وجہ بنی ہے.

مگر اُس دن تمہیں خون میں لت پت دیکھ. میری جان نکل گئی تھی. زندگی میں پہلی بار میرا دل خوفزدہ ہوا تھا. زندگی چھن جانے کا ڈر کیا ہوتا ہے. مجھے اُس دن پتا چلا تھا.

آج تک اپنی زندگی میں کیے کسی بھی عمل پر کبھی نہیں پچھتایا میں. نہ کبھی کسی بات پر ندامت محسوس ہوئی کیونکہ میرے نزدیک میں ہر معاملے میں پرفیکٹ تھا.

مگر میری پرفیکشن فیل ہوگئی کیونکہ تمہارے ساتھ جو سلوک میں نے رواں رکھا اُس پر اگر میں زندگی بھر بھی پچھتاؤں تو شاید تب بھی کم ہے. جس شخص سے تمہیں سب سے زیادہ عزت ملنی چاہی تھی. جسے سب سے زیادہ تمہیں مان اور وقار کا بخشنا چاہئے تھا. وہ ہی تمہیں سب سے زیادہ تکلیف اور دکھ دیتا رہا. بنا کسی قصور کے بات بے بات بےعزت کرتا رہا.

لیکن میری باتیں اگر تمہیں تکلیف پہنچاتی تھیں تو سکون میں میں بھی نہیں ہوتا تھا. تمہیں خود سے دور کرکے تمہیں دھتکار کر میں خود بھی بہت تڑپا ہوں. ایک پل چین نہیں پاسکا. کیونکہ میرے سکون میرے قرار کی وجہ تو تم تھی. میری بے پناہ محبت کی حقدار صرف تم ہو. تم وہ واحد ہستی ہو اِس دنیا میں جسے دیکھ کر ارتضٰی سکندر کے دل و جان میں سکون سرایت کرتا ہے."

ماہ روش دم سادھے ارتضٰی کی طرف دیکھ رہی تھی. اُس کا ایک ایک لفظ ماہ روش کو اپنے دل میں اُترتا محسوس ہورہا تھا.

اُس کا دل چاہا تھا ارتضٰی سکندر ایسے ہی بولتا رہے اور وہ تاعمر اُسے سنتی رہی. ایسی ہی تو دیوانی تھی. وہ ارتضٰی سکندر کی.

"میں دل کی پوری سچائی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں. کہ ارتضٰی سکندر اپنی ماہ روش کے بغیر کچھ نہیں ہے. میں جانتا ہوں میں شاید دنیا کا سب سے بُرا اور ظالم انسان ہوں. جس نے اپنی ہی محبت کو اذیت میں رکھا.

میں جانتا ہوں جتنا بُرا میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں. مجھے معاف کرنا میرے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنا تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا.

اور نہ ہی میں تمہیں کسی بھی معاملے میں فورس کرو گا. کیونکہ تمہارے معاملے اب یہ دل موم سے بھی زیادہ نرم ہوچکا ہے. تم اِس دنیا کی وہ واحد ہستی ہو. جس کا میں زندگی بھر غلام بن کررہنے کو تیار ہوں.

تمہاری ہر بات سر آنکھوں پر لیکن اگر کبھی مجھے چھوڑنے یا مجھ سے دور جانے کی بات کی تو ارتضٰی سکندر کو واپس پہلے والے رُوپ میں آنے سے شاید کوئی نہ روک پائے.

قریب ہوتے ہوئے بھی تم سے دور رہنا میرے لیے بہت جان لیوا ثابت ہوگا. مگر میں اب اِسے آگے مزید کوئی کام بھی تمہاری مرضی کے بغیر نہیں کرنا چاہتا. کیونکہ اب میرے لیے خود سے بھی زیادہ تم اور تمہاری خوشی امپیورٹنٹ ہے. "

ارتضٰی اپنا شدت بھرا لمس اُس کے ماتھے پر چھوڑتا اُس کی کمر سے ہاتھ ہٹاتا پلٹا تھا.

اور بس یہیں تک تھی ماہ روش کی صبر کی انتہا. ارتضٰی سکندر آج بھی اُسے سمجھ نہیں پایا تھا. وہ تو اُس سے کبھی ناراض بھی نہیں ہوپائی تھی. اُس کا ہر ستم سر آنکھوں پر رکھے وہ ہمیشہ اُس کے پلٹنے کی منتظر رہی تھی.

کیونکہ اُس نے ارتضٰی کو جنون کی حد تک چاہا تھا. جس میں بنا کسی نفع نقصان کہ وہ صرف اپنے محبوب کی ایک نظر کرم کی منتظر رہی تھی. اور اُس کا کیا کہنا تھا کہ ارتضٰی سکندر کا ساتھ اُس کے لیے خوش کن نہیں تھا.

ماہ روش نے بنا ڈرے طیش میں آتے خود سے دور ہٹتے ارتضٰی سکندر کے کالر کو اپنے ہاتھ میں جکڑے اُس کا رُخ اپنی جانب موڑا تھا.

کیونکہ ارتضٰی کی بات سیدھا اُس کے دل پر جا کر لگی تھی.

" میجر ارتضٰی سکندر آپ واقعی بہت بُرے ہیں. آپ کو نہ کبھی پہلے میری فیلنگز کا خیال تھا نہ اب ہے. آپ جیسا سنگدل انسان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.

آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ آپ کا ساتھ میرے لیے تکلیف کا باعث بن سکتا ہے. جس شخص کو میں نے اِس دنیا میں سب سے زیادہ چاہا ہے. ہر پل جس کی خواہش کی ہے. جس کی تڑپ میں میں اندر ہی اندر جل رہی تھی. اُس کا کہنا ہے کہ میں اُس کے ساتھ پر خوش نہیں ہوں. "

آج پہلی بار پورے ہوش و حواس میں ماہ روش نے خود ارتضٰی کو اپنے قریب کیا تھا. کیونکہ ہمیشہ اُس کی بات پورے تحمل اور صبر سے سننے اور سہنے والی آج یہ بات کسی طور برداشت نہیں کر پائی تھی.

ماہ روش اپنی ہی دھن میں بولتی ارتضٰی کی آنکھوں میں تیرتی شرارت اور پر شوق انداز نہیں دیکھ پائی تھی.

" سر آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں. آپ نے جو کچھ بھی کیا اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو ایسا ہی کرتی. اپنے پورے خاندان اور ملک کی بربادی کے ذمہ دار درندہ صفت شخص کی بیٹی کو اپنے سامنے دیکھنا آپ کے لیے کتنی تکلیف کی بات ہوگی میں سمجھ سکتی ہوں.

اور بدگمان ہونا تو دور کی بات میں تو آج تک کبھی آپ سے ناراض بھی نہیں ہوپائی. کیونکہ آپ سے دور ہونا میرے لیے شاید ناممکن ہو.

آپ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے میری دیوانگی میرے پاگل پن کو کیونکہ ماہ روش ارتضٰی سکندر کو آپ سے محبت نہیں عشق ہے. اور جس میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے. میں مر تو سکتی ہوں مگر ارتضٰی سکندر سے عشق کرنا نہیں چھوڑ سکتی. مگر آپ جیسا سنگدل اور کھڑوس انسان کبھی مجھے سمجھ ہی نہیں سکا.

دشمن کی چھوٹی سی چھوٹی حرکت پر نظر رکھنے والے میجر ارتضٰی سکندر. میرے دل کی بات کبھی سمجھ ہی نہیں پائے.

اُس دن اگر غصہ میں میں نے آپ سے کچھ بول دیا تو بجائے مجھ سے بات کلیئر کرنے کے آپ نے مجھ سے مزید دوری اختیار کرلی. آپ سے زیادہ بُرا اِس پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے. آئی ہیٹ یو. آئی ہیٹ یو سو مچ. "

ماہ روش ارتضٰی کے گریبان کو جکڑے غصے میں اُسے اپنے دل کی ہر بات بتاتی چلی گئی تھی. اُس کے لیے اپنی تڑپ, اپنی چاہت اور سب سے بڑھ کر اپنی دیوانگی کی انتہاؤں کو چھوتا عشق.

ارتضٰی ماہ روش کے غصے میں کیے گئے اظہار پر اندر تک سرشار ہوا تھا. ماہ روش سے دور رہنا تو اُس کے لیے اب کسی صورت ممکن نہیں تھا. مگر دل کہیں نہ کہیں اُس کا اظہار سننا چاہتا تھا. ارتضٰی جانتا تھا ایسے تو آرام سے ماہ روش اُس کے سامنے کبھی اظہار نہیں کرے گی. اِس لیے ارتضٰی نے اپنا طریقہ آزمایا تھا. اور فوراً اُس میں کامیاب بھی ہوا تھا.

ماہ روش جو اپنی بات کہتے بنا ارتضٰی کی آنکھوں میں چھاتی خماری محسوس کرتی جیسے ہی غصے سے وہاں سے پلٹنے لگی تھی. ارتضٰی نے اُس کی دودھیا کلائی اپنی گرفت میں قید کر لی تھی.

" سر پلیز مجھے اب آپ سے مزید کوئی بات نہیں کرنی. آپ اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں. "

ماہ روش نے ارتضٰی سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی تھی.

" یار کوئی اتنا سوفٹ کیسے ہوسکتا ہے. تم کیا کھاتی ہو ایسا. مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں آج میں اِن کو کھا ہی نہ جاؤں. "

ارتضٰی ماہ روش کی ہاف سلیوز سے جھانکتی نرم و نازک سُرخ کلائیوں پر اپنے ہاتھ پھیڑ کر اُن کی نرماہٹیں محسوس کرتے بہکے ہوئے لہجے میں بولا.

جب کہ اُس کے لمس اور الفاظ پر ماہ روش کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سے محسوس ہوئی تھی.

" سر پلیز یہ کیا کررہے ہیں آپ. ابھی تو آپ دور رہنے کی بات کررہے تھے نا. "

ارتضٰی کے بدلتے تیور دیکھ ماہ روش کے اوسان خطا ہوئے تھے. اُسے احساس ہو گیا تھا کہ شاید جذبات میں وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی ہے.

" مائی ڈئیر اِنوسینٹ وائف. میری بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی کیا. اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اتنی تڑپ اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد بھی آج تم سے دستبردار رہ سکوں گا.

وہ سب صرف تمہارے اپنے بارے میں جذبات جاننے کے لیے بولا تھا. اور دیکھو میری باتوں کے جال میں پھنستے تم نے سب کہہ دیا. جو اتنے آرام سے شاید کبھی نہ کہتی."

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش کو اپنی بے وقوفی اور جلدبازی پر جی بھر کر افسوس ہوا تھا. مگر اب کیا ہوسکتا تھا اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا.

ارتضٰی سکندر کی شوخیاں اور بے باکیاں ماہ روش کے دل میں اودھم مچا رہی تھیں.

ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے ماہ روش کے دوپٹے کو پنوں سے آزاد کردیا تھا. جو لڑھک کر اُس کے کندھوں سے ہوتے نیچے فرش پر جاگرا تھا.

ماہ روش کا پورا جسم ارتضٰی کی اِس طرح نزدیکی اور اپنے حلیے پر لرزنے لگا تھا.

" آپ بہت تیز ہیں مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی."

ماہ روش نے جلدی سے وہاں سے فرار ہونا چاہا تھا. مگر اُس سے بھی پہلے ارتضٰی نے اُس کی نازک کمر میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اپنے قریب ترین کرلیا تھے.

اُس کے بال جو جوڑے کی شکل میں لپٹے ہوئے تھے. ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے اُن کو بھی آزادی بخش دی تھی. جو کسی آبشار کی طرح ماہ روش کی کمر پر بکھر گئے تھے.

ماہ روش کا ہوشربا حُسن ارتضٰی کے لیے اب ایمان شکن ثابت ہورہا تھا. اِس سے زیادہ وہ اپنے صبر کا امتحان نہیں لے پایا تھا.

ارتضٰی پوری بے تابی اور بے قراری کے ساتھ ماہ روش کے سُرخیاں چھلکاتے چہرے ہر جھکا تھا. اور اپنے والہانہ پیار کا ثبوت دیتا چلا گیا تھا. ارتضٰی کے ہونٹوں کا لمس ماہ روش کے چہرے کے ایک ایک نقوش پر اپنی بے

قراریوں کا نشان چھوڑتا اُس کو مزید دھکا گیا تھا. ماہ روش کو اپنا آپ ارتضٰی کے ٹھاٹھیں مارتے محبت کے سمندر میں ڈوبتا محسوس ہوا تھا.

" سر می...... "

ماہ روش نے ہلکا سا کسمساتے کچھ کہنا چاہا تھا. جب ارتضٰی اُس کے ہونٹوں پر جھکتے اُس کے الفاظ اپنے اندر دبا گیا تھا.

ارتضٰی کی شدتوں پر ماہ روش نے بے حال ہوتے اُس کی شرٹ کو سختی سے اپنے ہاتھوں میں دبوچا تھا. کیونکہ ارتضٰی اپنی سانسیں اُس کی سانسوں میں اُنڈھیلتا اُسے آدھ موا کرگیا تھا.

جب کافی دیر تک ارتضٰی نے محسوس کیا تھا کہ ماہ روش کی سانسیں اٹک رہی ہیں تو اُس پر ترس کھاتے ارتضٰی نے اُس کے ہونٹوں کو آزادی بخشی تھی.

ماہ روش نے ارتضٰی کے سینے پر سر ٹکاتے اپنی اُکھڑتی سانسوں کو بحال کرنا چاہا تھا.

" بہت دکھ اور غم دیے ہیں نا میں نے تمہیں مگر اب اتنا پیار اتنی محبت دوں گا. کہ پچھلی ہر کوتاہی ہر حساب سود سمیت پورا کردوں گا. کہ تم اپنی قسمت پر رشک کرو گی. "

ارتضٰی نے جھک کر ماہ روش کے کان میں سرگوشی کی تھی. جسے سنتے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ماہ روش نے آسودگی سے اُس کے سینے پر سر ٹکا دیا تھا.

جب اُسے اپنی گردن پر ارتضٰی کا لمس محسوس ہوا تھا. اور اُس کی نارمل ہوتی سانسیں ایک بار پھر تیز ہوئی تھیں. ارتضٰی نے ماہ روش کی گردن کو بھاری نیکلس کے بوجھ سے آزاد کردیا تھا.

ماہ روش ارتضٰی کے سینے سے سر ہٹاتے پیچھے ہٹی تھی.

جب ارتضٰی نے اُس کی نتھ کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا.

" یار اِس نے بہت ڈسٹرب کیا ہے مجھے اب. "

ارتضٰی کی بات کا مطلب سمجھتے ماہ روش شرم سے دوھری ہوئی تھی.

" سر مجھے چینج کرنا ہے. "

ماہ روش ارتضٰی کی حرکتوں پر قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی. ارتضٰی کی بولتی نگاہیں اُسے خود میں سمٹنے پر مجبور کررہی تھیں.

" اُسی میں ہی تو ہیلپ کررہا ہوں. "

ارتضٰی نے اُس کے بالوں کو ہٹاتے اُس کی قمیض کی ڈوری کو اپنی گرفت میں لیا تھا.

ماہ روش کو لگ رہا تھا ارتضٰی کی بڑھتی گستاخیاں برداشت کرتے اگر وہ مزید کچھ دیر یہاں کھڑی رہی تو ضرور بے ہوش ہو کر گر جائے گی.

اُسے اِس بات کا تو بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہمیشہ سخت مزاج اور روڈ سا رہنے والا وہ اکڑو کھڑوس میجر ارتضٰی سکندر اتنا رومینٹک بھی ہوسکتا ہے.

" سر پلیز مجھے آپ کی ایسی کوئی ہیلپ نہیں چاہیئے. "

ماہ روش سے بولنا مہال تھا.

" مگر مجھے تو کرنی ہے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کی ڈوری کو ہلکا سا جھٹکا دیتے کھول دیا تھا.

ماہ روش نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں. شرم اور حیا سے وہ پوری طرح کانپ رہی تھی. اب تو اُس کے لیے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا بھی محال ہورہا تھا.

جب ارتضٰی اُس کو ایک بار پھر اپنی مضبوط بانہوں میں اُٹھائے بیڈ کی طرف بڑھا تھا. ماہ روش کو نرمی سے بیڈ پر لٹاتے ارتضٰی اپنا کوٹ اُتار کر صوفے پر اُچھالتے تیز تیز سانسیں بھرتی ماہ روش پر جھکا تھا.

" کیا ہوا میری جان ابھی سے گھبرا گئی. ابھی تو میرے اتنے سالوں کی تڑپ , بے قراری اور دیوانگی سہنا باقی ہے. اور آج تمہارے اِس بے پناہ حُسن اور اِس دلکش پاگل کرتے رُوپ نے میرے رہے سہے اوسان بھی خطا کردیے ہیں. اب میرے لیے اِن بے قابو جذبوں پر قابو پانا ممکن نہیں رہا. میں آج تمہیں مکمل طور پر اپنے رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہوں. "

ارتضٰی کی گرم سانسوں کی تپش اور اُس کی لوح دیتی آنکھوں میں موجود جذبوں کی آنچ ماہ روش کو مزید اُس کا اسیر بنا رہی تھی.

ارتضٰی کو اپنے گردن پر جھکتا دیکھ ماہ روش نے خود سپردگی کے عالم میں اُسے اپنا آپ سونپ دیا تھا. وہ اُس کا سب کچھ ارتضٰی سکندر کے لیے ہی تو تھا.

ارتضٰی جیسے انا رکھنے والے شخص نے جس طرح سب کے سامنے اُس کے آگے جھک کر معافی مانگی تھی. یہ بات ارتضٰی کو ماہ روش کے دل میں سب سے اونچی مسند پر بیٹھا گئی تھی.

اُس کا شوہر عام مردوں کی طرح نہیں تھا. اگر اُس نے کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر اگر اُس کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا تھا. تو سب کے سامنے اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنی زندگی میں سب سے اُونچا مقام بھی بخشا تھا.

ورنہ ایک ناجائز اور ایک ملک فروش گھٹیا شخص کے سائے میں پلنے والی لڑکی کو اپنانا اور اتنی عزت دینا آج کل کے دور میں آسان کام نہیں تھا.

لیکن ارتضٰی سکندر جیسا اٹل اور پختہ ارادے رکھنا والا شخص ہی اتنا اعلیٰ ظرف ہی ہوسکتا تھا.

ارتضٰی ماہ روش کی کالی گھنی سیاہ زلفوں میں چہرہ چھپائے اپنی محبت کی داستان سنا رہا تھا.

ارتضٰی سکندر نے ماہ روش کو اُس رات اپنی محبتوں, چاہتوں اور شدتوں کی بارش میں اتنا بھیگویا تھا کہ اُسے اپنے ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" یہ یہ سب کیا. آپ کے ہاتھ تو بندھے ہوئے تھے. تو پھر آپ یہ......... اِس کا مطلب ارحم کے ساتھ مل کر آپ لوگوں نے مجھے بے وقوف بنایا."

زیمل کے چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا. کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ جو کچھ کہہ اور کر چکی تھی. اُس کا انجام سوچتے زیمل کی جان ہوا ہوئی تھی.

" رئیلی کیپٹن زیمل ایک آفیسر ہوکر آپ اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کرسکتی ہیں. "

جاذل نے اُسے مزید چڑایا تھا. مگر اُس کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی اپنی گود سے اٹھنے نہیں دیا تھا.

" بے وقوفی نہیں. اُس بدتمیز کیپٹن ارحم پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا. میرا دوست ہوکر اُس نے میرے ساتھ ہی غداری کی. اُس کو تو میں چھوڑوں گی نہیں."

ماہ روش ابھی اِس خوبصورت ماحول کے زیر اثر تھی. جب ارتضٰی نے اُس کی سائیڈ کا دروازہ کھولتے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا. ماہ روش کا خود اور مطمئین انداز ارتضٰی کے دل سے بہت سارا بوجھ سرکا گیا تھا.

ماہ روش ارتضٰی کی جذبے لُٹاتی آنکھوں میں دیکھتے فوراً نظریں جھکا گئی تھی. اور کچھ ہچکچاتے اپنا جیولری اور مہندی سے سجا ناذک ہاتھ اُس کے مضبوط ہاتھ پر رکھ دیا تھا.

اندر کو جاتی پوری روش پر پھولوں کی چادر بچھائی گئی تھی. ارتضٰی کا ہاتھ تھامے اُس کے ساتھ قدم اُٹھا کر اندر کی طرف بڑھتے ماہ روش کا دل چاہا تھا یہ حسین پل کبھی ختم نہ ہوں. آج اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی تھی. اُس نے آج میجر ارتضٰی سکندر کو پالیا تھا ہمیشہ کے لیے.

ماہ روش نے کن اکھیوں سے اپنے ساتھ چلتے ارتضٰی کی طرف دیکھا تھا. جو اُس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہلکے سے مسکرایا تھا.

اور جھک کر اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھاتے اُس کی دونوں آنکھوں کو چوم لیا تھا.

" مجھے چھپ چھپ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں. مجھے سر عام دیکھنے اور پیار کرنے کا حق صرف اور صرف تمہارے پاس ہے. "

بڑے سے گھیرے دار لہنگے میں ارتضٰی کی بانہوں میں وہ کوئی نازک سی گڑیا لگ رہی تھی. اِس وقت اُسے دیکھ کر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایک بہت ہی بہادر اور خطرناک آفیسر ہے. کیونکہ اِس وقت عروسی جوڑے میں اپنا پور پور سجائے وہ ارتضٰی سکندر کی سہاگن لگ رہی

تھی. جو اپنے تن من دھن سے صرف میجر ارتضٰی سکندر پر فدا تھی.

اُسے اُس شخص سے محبت نہیں عشق تھا. جبھی تو اُس کی اتنی بے رُخی کے باوجود بھی وہ اُس سے بدگمان نہیں ہوپائی تھی. بلکہ اپنے عشق اور محبت پر یقین رکھتے آج اُسے پا لیا تھا.

" مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی. پلیز مجھے نیچے اُتاریں. "

ماہ روش ارتضٰی کی شوخ حرکتوں اور نظروں سے پزل ہوتے بمشکل اپنی ناراضگی کا اظہار کر پائی تھی.

فارم ہاؤس اندر سے اِس قدر خوبصورت تھا کہ ماہ روش باہر کا منظر تو بھول ہی گئی تھی.

" تو میں کونسا بات کرنا چاہتا ہوں.آج تو میں صرف اور صرف پیار کرنے کے موڈ میں ہوں."

ارتضٰی اُسے ویسے ہی بانہوں میں اُٹھائے بیڈ روم میں داخل ہوا تھا. ارتضٰی کے اندر قدم رکھتے ہی اُن دونوں پر پھولوں کی ہلکی ہلکی برسات شروع ہوچکی تھی.

بیڈ روم کی سجاوٹ تو دیکھنے لائک تھی. مدھم سی روشنی ایک رومانوی سا ماحول پیش کررہی تھی. پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ پر ایک سحر سا طاری کررہی تھی.

ارتضٰی نے ماہ روش کو اندر لے جاتے بیڈ روم کے وسعت میں جاکر اُتار دیا تھا. جب ماہ روش اُس کی بات سن کر شرم سے دوھری ہوئی تھی.

ارتضٰی نے گہری نظروں سے اُس کے دلنشین سراپے کی طرف دیکھا.

گھنیری پلکیں ارتضٰی کی پرتپیش نظروں سے لرز رہی تھیں. لال لپسٹک سے سجے شنگرفی ہونٹ کپکپانے لگے تھے.

ارتضٰی نے ماہ روش کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے قریب کیا تھا.

" ماہ روش تم جانتی ہو. اپنی پوری زندگی میں نہ میں نے کبھی کسی سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی کبھی کوئی بات میرے لیے ڈر کی وجہ بنی ہے.

مگر اُس دن تمہیں خون میں لت پت دیکھ. میری جان نکل گئی تھی. زندگی میں پہلی بار میرا دل خوفزدہ ہوا تھا. زندگی چھن جانے کا ڈر کیا ہوتا ہے. مجھے اُس دن پتا چلا تھا.

آج تک اپنی زندگی میں کیے کسی بھی عمل پر کبھی نہیں پچھتایا میں. نہ کبھی کسی بات پر ندامت محسوس ہوئی کیونکہ میرے نزدیک میں ہر معاملے میں پرفیکٹ تھا.

مگر میری پرفیکشن فیل ہوگئی کیونکہ تمہارے ساتھ جو سلوک میں نے رواں رکھا اُس پر اگر میں زندگی بھر بھی پچھتاؤں تو شاید تب بھی کم ہے. جس شخص سے تمہیں سب سے زیادہ عزت ملنی چاہی تھی. جسے سب سے زیادہ تمہیں مان اور وقار کا بخشنا چاہئے تھا. وہ ہی تمہیں سب سے زیادہ تکلیف اور دکھ دیتا رہا. بنا کسی قصور کے بات بے بات بےعزت کرتا رہا.

لیکن میری باتیں اگر تمہیں تکلیف پہنچاتی تھیں تو سکون میں میں بھی نہیں ہوتا تھا. تمہیں خود سے دور کرکے تمہیں دھتکار کر میں خود بھی بہت تڑپا ہوں. ایک پل چین نہیں پاسکا. کیونکہ میرے سکون میرے قرار کی وجہ تو تم تھی. میری بے پناہ محبت کی حقدار صرف تم ہو. تم وہ واحد ہستی ہو اِس دنیا میں جسے دیکھ کر ارتضٰی سکندر کے دل و جان میں سکون سرایت کرتا ہے."

ماہ روش دم سادھے ارتضٰی کی طرف دیکھ رہی تھی. اُس کا ایک ایک لفظ ماہ روش کو اپنے دل میں اُترتا محسوس ہورہا تھا.

اُس کا دل چاہا تھا ارتضٰی سکندر ایسے ہی بولتا رہے اور وہ تاعمر اُسے سنتی رہی. ایسی ہی تو دیوانی تھی. وہ ارتضٰی سکندر کی.

"میں دل کی پوری سچائی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں. کہ ارتضٰی سکندر اپنی ماہ روش کے بغیر کچھ نہیں ہے. میں جانتا ہوں میں شاید دنیا کا سب سے بُرا اور ظالم انسان ہوں. جس نے اپنی ہی محبت کو اذیت میں رکھا.

میں جانتا ہوں جتنا بُرا میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں. مجھے معاف کرنا میرے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنا تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا.

اور نہ ہی میں تمہیں کسی بھی معاملے میں فورس کرو گا. کیونکہ تمہارے معاملے اب یہ دل موم سے بھی زیادہ نرم ہوچکا ہے. تم اِس دنیا کی وہ واحد ہستی ہو. جس کا میں زندگی بھر غلام بن کررہنے کو تیار ہوں.

تمہاری ہر بات سر آنکھوں پر لیکن اگر کبھی مجھے چھوڑنے یا مجھ سے دور جانے کی بات کی تو ارتضٰی سکندر کو واپس پہلے والے رُوپ میں آنے سے شاید کوئی نہ روک پائے.

قریب ہوتے ہوئے بھی تم سے دور رہنا میرے لیے بہت جان لیوا ثابت ہوگا. مگر میں اب اِسے آگے مزید کوئی کام بھی تمہاری مرضی کے بغیر نہیں کرنا چاہتا. کیونکہ اب میرے لیے خود سے بھی زیادہ تم اور تمہاری خوشی امپیورٹنٹ ہے. "

ارتضٰی اپنا شدت بھرا لمس اُس کے ماتھے پر چھوڑتا اُس کی کمر سے ہاتھ ہٹاتا پلٹا تھا.

اور بس یہیں تک تھی ماہ روش کی صبر کی انتہا. ارتضٰی سکندر آج بھی اُسے سمجھ نہیں پایا تھا. وہ تو اُس سے کبھی ناراض بھی نہیں ہوپائی تھی. اُس کا ہر ستم سر آنکھوں پر رکھے وہ ہمیشہ اُس کے پلٹنے کی منتظر رہی تھی.

کیونکہ اُس نے ارتضٰی کو جنون کی حد تک چاہا تھا. جس میں بنا کسی نفع نقصان کہ وہ صرف اپنے محبوب کی ایک نظر کرم کی منتظر رہی تھی. اور اُس کا کیا کہنا تھا کہ ارتضٰی سکندر کا ساتھ اُس کے لیے خوش کن نہیں تھا.

ماہ روش نے بنا ڈرے طیش میں آتے خود سے دور ہٹتے ارتضٰی سکندر کے کالر کو اپنے ہاتھ میں جکڑے اُس کا رُخ اپنی جانب موڑا تھا.

کیونکہ ارتضٰی کی بات سیدھا اُس کے دل پر جا کر لگی تھی.

" میجر ارتضٰی سکندر آپ واقعی بہت بُرے ہیں. آپ کو نہ کبھی پہلے میری فیلنگز کا خیال تھا نہ اب ہے. آپ جیسا سنگدل انسان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.

آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ آپ کا ساتھ میرے لیے تکلیف کا باعث بن سکتا ہے. جس شخص کو میں نے اِس دنیا میں سب سے زیادہ چاہا ہے. ہر پل جس کی خواہش کی ہے. جس کی تڑپ میں میں اندر ہی اندر جل رہی تھی. اُس کا کہنا ہے کہ میں اُس کے ساتھ پر خوش نہیں ہوں. "

آج پہلی بار پورے ہوش و حواس میں ماہ روش نے خود ارتضٰی کو اپنے قریب کیا تھا. کیونکہ ہمیشہ اُس کی بات پورے تحمل اور صبر سے سننے اور سہنے والی آج یہ بات کسی طور برداشت نہیں کر پائی تھی.

ماہ روش اپنی ہی دھن میں بولتی ارتضٰی کی آنکھوں میں تیرتی شرارت اور پر شوق انداز نہیں دیکھ پائی تھی.

" سر آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں. آپ نے جو کچھ بھی کیا اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو ایسا ہی کرتی. اپنے پورے خاندان اور ملک کی بربادی کے ذمہ دار درندہ صفت شخص کی بیٹی کو اپنے سامنے دیکھنا آپ کے لیے کتنی تکلیف کی بات ہوگی میں سمجھ سکتی ہوں.

اور بدگمان ہونا تو دور کی بات میں تو آج تک کبھی آپ سے ناراض بھی نہیں ہوپائی. کیونکہ آپ سے دور ہونا میرے لیے شاید ناممکن ہو.

آپ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے میری دیوانگی میرے پاگل پن کو کیونکہ ماہ روش ارتضٰی سکندر کو آپ سے محبت نہیں عشق ہے. اور جس میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے. میں مر تو سکتی ہوں مگر ارتضٰی سکندر سے عشق کرنا نہیں چھوڑ سکتی. مگر آپ جیسا سنگدل اور کھڑوس انسان کبھی مجھے سمجھ ہی نہیں سکا.

دشمن کی چھوٹی سی چھوٹی حرکت پر نظر رکھنے والے میجر ارتضٰی سکندر. میرے دل کی بات کبھی سمجھ ہی نہیں پائے.

اُس دن اگر غصہ میں میں نے آپ سے کچھ بول دیا تو بجائے مجھ سے بات کلیئر کرنے کے آپ نے مجھ سے مزید دوری اختیار کرلی. آپ سے زیادہ بُرا اِس پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے. آئی ہیٹ یو. آئی ہیٹ یو سو مچ. "

ماہ روش ارتضٰی کے گریبان کو جکڑے غصے میں اُسے اپنے دل کی ہر بات بتاتی چلی گئی تھی. اُس کے لیے اپنی تڑپ, اپنی چاہت اور سب سے بڑھ کر اپنی دیوانگی کی انتہاؤں کو چھوتا عشق.

ارتضٰی ماہ روش کے غصے میں کیے گئے اظہار پر اندر تک سرشار ہوا تھا. ماہ روش سے دور رہنا تو اُس کے لیے اب کسی صورت ممکن نہیں تھا. مگر دل کہیں نہ کہیں اُس کا اظہار سننا چاہتا تھا. ارتضٰی جانتا تھا ایسے تو آرام سے ماہ روش اُس کے سامنے کبھی اظہار نہیں کرے گی. اِس لیے ارتضٰی نے اپنا طریقہ آزمایا تھا. اور فوراً اُس میں کامیاب بھی ہوا تھا.

ماہ روش جو اپنی بات کہتے بنا ارتضٰی کی آنکھوں میں چھاتی خماری محسوس کرتی جیسے ہی غصے سے وہاں سے پلٹنے لگی تھی. ارتضٰی نے اُس کی دودھیا کلائی اپنی گرفت میں قید کر لی تھی.

" سر پلیز مجھے اب آپ سے مزید کوئی بات نہیں کرنی. آپ اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں. "

ماہ روش نے ارتضٰی سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی تھی.

" یار کوئی اتنا سوفٹ کیسے ہوسکتا ہے. تم کیا کھاتی ہو ایسا. مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں آج میں اِن کو کھا ہی نہ جاؤں. "

ارتضٰی ماہ روش کی ہاف سلیوز سے جھانکتی نرم و نازک سُرخ کلائیوں پر اپنے ہاتھ پھیڑ کر اُن کی نرماہٹیں محسوس کرتے بہکے ہوئے لہجے میں بولا.

جب کہ اُس کے لمس اور الفاظ پر ماہ روش کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سے محسوس ہوئی تھی.

" سر پلیز یہ کیا کررہے ہیں آپ. ابھی تو آپ دور رہنے کی بات کررہے تھے نا. "

ارتضٰی کے بدلتے تیور دیکھ ماہ روش کے اوسان خطا ہوئے تھے. اُسے احساس ہو گیا تھا کہ شاید جذبات میں وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی ہے.

" مائی ڈئیر اِنوسینٹ وائف. میری بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی کیا. اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اتنی تڑپ اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد بھی آج تم سے دستبردار رہ سکوں گا.

وہ سب صرف تمہارے اپنے بارے میں جذبات جاننے کے لیے بولا تھا. اور دیکھو میری باتوں کے جال میں پھنستے تم نے سب کہہ دیا. جو اتنے آرام سے شاید کبھی نہ کہتی."

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش کو اپنی بے وقوفی اور جلدبازی پر جی بھر کر افسوس ہوا تھا. مگر اب کیا ہوسکتا تھا اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا.

ارتضٰی سکندر کی شوخیاں اور بے باکیاں ماہ روش کے دل میں اودھم مچا رہی تھیں.

ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے ماہ روش کے دوپٹے کو پنوں سے آزاد کردیا تھا. جو لڑھک کر اُس کے کندھوں سے ہوتے نیچے فرش پر جاگرا تھا.

ماہ روش کا پورا جسم ارتضٰی کی اِس طرح نزدیکی اور اپنے حلیے پر لرزنے لگا تھا.

" آپ بہت تیز ہیں مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی."

ماہ روش نے جلدی سے وہاں سے فرار ہونا چاہا تھا. مگر اُس سے بھی پہلے ارتضٰی نے اُس کی نازک کمر میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اپنے قریب ترین کرلیا تھے.

اُس کے بال جو جوڑے کی شکل میں لپٹے ہوئے تھے. ارتضٰی نے ہاتھ بڑھاتے اُن کو بھی آزادی بخش دی تھی. جو کسی آبشار کی طرح ماہ روش کی کمر پر بکھر گئے تھے.

ماہ روش کا ہوشربا حُسن ارتضٰی کے لیے اب ایمان شکن ثابت ہورہا تھا. اِس سے زیادہ وہ اپنے صبر کا امتحان نہیں لے پایا تھا.

ارتضٰی پوری بے تابی اور بے قراری کے ساتھ ماہ روش کے سُرخیاں چھلکاتے چہرے ہر جھکا تھا. اور اپنے والہانہ پیار کا ثبوت دیتا چلا گیا تھا. ارتضٰی کے ہونٹوں کا لمس ماہ روش کے چہرے کے ایک ایک نقوش پر اپنی بے

قراریوں کا نشان چھوڑتا اُس کو مزید دھکا گیا تھا. ماہ روش کو اپنا آپ ارتضٰی کے ٹھاٹھیں مارتے محبت کے سمندر میں ڈوبتا محسوس ہوا تھا.

" سر می...... "

ماہ روش نے ہلکا سا کسمساتے کچھ کہنا چاہا تھا. جب ارتضٰی اُس کے ہونٹوں پر جھکتے اُس کے الفاظ اپنے اندر دبا گیا تھا.

ارتضٰی کی شدتوں پر ماہ روش نے بے حال ہوتے اُس کی شرٹ کو سختی سے اپنے ہاتھوں میں دبوچا تھا. کیونکہ ارتضٰی اپنی سانسیں اُس کی سانسوں میں اُنڈھیلتا اُسے آدھ موا کرگیا تھا.

جب کافی دیر تک ارتضٰی نے محسوس کیا تھا کہ ماہ روش کی سانسیں اٹک رہی ہیں تو اُس پر ترس کھاتے ارتضٰی نے اُس کے ہونٹوں کو آزادی بخشی تھی.

ماہ روش نے ارتضٰی کے سینے پر سر ٹکاتے اپنی اُکھڑتی سانسوں کو بحال کرنا چاہا تھا.

" بہت دکھ اور غم دیے ہیں نا میں نے تمہیں مگر اب اتنا پیار اتنی محبت دوں گا. کہ پچھلی ہر کوتاہی ہر حساب سود سمیت پورا کردوں گا. کہ تم اپنی قسمت پر رشک کرو گی. "

ارتضٰی نے جھک کر ماہ روش کے کان میں سرگوشی کی تھی. جسے سنتے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ماہ روش نے آسودگی سے اُس کے سینے پر سر ٹکا دیا تھا.

جب اُسے اپنی گردن پر ارتضٰی کا لمس محسوس ہوا تھا. اور اُس کی نارمل ہوتی سانسیں ایک بار پھر تیز ہوئی تھیں. ارتضٰی نے ماہ روش کی گردن کو بھاری نیکلس کے بوجھ سے آزاد کردیا تھا.

ماہ روش ارتضٰی کے سینے سے سر ہٹاتے پیچھے ہٹی تھی.

جب ارتضٰی نے اُس کی نتھ کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا.

" یار اِس نے بہت ڈسٹرب کیا ہے مجھے اب. "

ارتضٰی کی بات کا مطلب سمجھتے ماہ روش شرم سے دوھری ہوئی تھی.

" سر مجھے چینج کرنا ہے. "

ماہ روش ارتضٰی کی حرکتوں پر قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی. ارتضٰی کی بولتی نگاہیں اُسے خود میں سمٹنے پر مجبور کررہی تھیں.

" اُسی میں ہی تو ہیلپ کررہا ہوں. "

ارتضٰی نے اُس کے بالوں کو ہٹاتے اُس کی قمیض کی ڈوری کو اپنی گرفت میں لیا تھا.

ماہ روش کو لگ رہا تھا ارتضٰی کی بڑھتی گستاخیاں برداشت کرتے اگر وہ مزید کچھ دیر یہاں کھڑی رہی تو ضرور بے ہوش ہو کر گر جائے گی.

اُسے اِس بات کا تو بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہمیشہ سخت مزاج اور روڈ سا رہنے والا وہ اکڑو کھڑوس میجر ارتضٰی سکندر اتنا رومینٹک بھی ہوسکتا ہے.

" سر پلیز مجھے آپ کی ایسی کوئی ہیلپ نہیں چاہیئے. "

ماہ روش سے بولنا مہال تھا.

" مگر مجھے تو کرنی ہے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کی ڈوری کو ہلکا سا جھٹکا دیتے کھول دیا تھا.

ماہ روش نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں. شرم اور حیا سے وہ پوری طرح کانپ رہی تھی. اب تو اُس کے لیے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا بھی محال ہورہا تھا.

جب ارتضٰی اُس کو ایک بار پھر اپنی مضبوط بانہوں میں اُٹھائے بیڈ کی طرف بڑھا تھا. ماہ روش کو نرمی سے بیڈ پر لٹاتے ارتضٰی اپنا کوٹ اُتار کر صوفے پر اُچھالتے تیز تیز سانسیں بھرتی ماہ روش پر جھکا تھا.

" کیا ہوا میری جان ابھی سے گھبرا گئی. ابھی تو میرے اتنے سالوں کی تڑپ , بے قراری اور دیوانگی سہنا باقی ہے. اور آج تمہارے اِس بے پناہ حُسن اور اِس دلکش پاگل کرتے رُوپ نے میرے رہے سہے اوسان بھی خطا کردیے ہیں. اب میرے لیے اِن بے قابو جذبوں پر قابو پانا ممکن نہیں رہا. میں آج تمہیں مکمل طور پر اپنے رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہوں. "

ارتضٰی کی گرم سانسوں کی تپش اور اُس کی لوح دیتی آنکھوں میں موجود جذبوں کی آنچ ماہ روش کو مزید اُس کا اسیر بنا رہی تھی.

ارتضٰی کو اپنے گردن پر جھکتا دیکھ ماہ روش نے خود سپردگی کے عالم میں اُسے اپنا آپ سونپ دیا تھا. وہ اُس کا سب کچھ ارتضٰی سکندر کے لیے ہی تو تھا.

ارتضٰی جیسے انا رکھنے والے شخص نے جس طرح سب کے سامنے اُس کے آگے جھک کر معافی مانگی تھی. یہ بات ارتضٰی کو ماہ روش کے دل میں سب سے اونچی مسند پر بیٹھا گئی تھی.

اُس کا شوہر عام مردوں کی طرح نہیں تھا. اگر اُس نے کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر اگر اُس کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا تھا. تو سب کے سامنے اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنی زندگی میں سب سے اُونچا مقام بھی بخشا تھا.

ورنہ ایک ناجائز اور ایک ملک فروش گھٹیا شخص کے سائے میں پلنے والی لڑکی کو اپنانا اور اتنی عزت دینا آج کل کے دور میں آسان کام نہیں تھا.

لیکن ارتضٰی سکندر جیسا اٹل اور پختہ ارادے رکھنا والا شخص ہی اتنا اعلیٰ ظرف ہی ہوسکتا تھا.

ارتضٰی ماہ روش کی کالی گھنی سیاہ زلفوں میں چہرہ چھپائے اپنی محبت کی داستان سنا رہا تھا.

ارتضٰی سکندر نے ماہ روش کو اُس رات اپنی محبتوں, چاہتوں اور شدتوں کی بارش میں اتنا بھیگویا تھا کہ اُسے اپنے ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


" یہ یہ سب کیا. آپ کے ہاتھ تو بندھے ہوئے تھے. تو پھر آپ یہ......... اِس کا مطلب ارحم کے ساتھ مل کر آپ لوگوں نے مجھے بے وقوف بنایا."

زیمل کے چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا. کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ جو کچھ کہہ اور کر چکی تھی. اُس کا انجام سوچتے زیمل کی جان ہوا ہوئی تھی.

" رئیلی کیپٹن زیمل ایک آفیسر ہوکر آپ اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کرسکتی ہیں. "

جاذل نے اُسے مزید چڑایا تھا. مگر اُس کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی اپنی گود سے اٹھنے نہیں دیا تھا.

" بے وقوفی نہیں. اُس بدتمیز کیپٹن ارحم پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا. میرا دوست ہوکر اُس نے میرے ساتھ ہی غداری کی. اُس کو تو میں چھوڑوں گی نہیں."

زیمل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی ارحم اُس کے سامنے آجائے اور وہ اُس کا حشر بگاڑ دے. 

" کیپٹن ارحم کو بعد میں دیکھیئے گا. پہلے اپنے اِس چھچھورے میجر سے تو نبٹ لیں. "

جاذل نے زیمل کی پیشانی پر انگلی رکھ کر اُس کے چہرے کو چھوتے ہونٹوں تک لایا تھا.جبکہ زیمل جاذل کی حرکت پر سٹپٹاتے رُخ موڑ گئی تھی. 

" کیا ہوا کیپٹن زیمل کہاں گئی. آپ کی تھوڑی دیر پہلے والی بہادری. "

جاذل کو زیمل کا یہ گھبرایا شرمندہ شرمندہ سا رُوپ بہت اچھا لگ رہا تھا. 

" ہاں تو میں اب بھی بھلا کہاں ڈر رہی ہوں. آپ اِس طرح مجھے بے بس نہیں کرسکتے. پلیز چھوڑیں مجھے."

زیمل نے اپنی آواز اور لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے اُسے باور کروانا چاہا تھا. 

مگر جاذل کے اتنے قریب ہونے اور اُس کی سانسوں کی گرماہٹ اپنے چہرے پر محسوس کرتے زیمل بُری طرح نروس ہورہی تھی. 

جاذل اُس کے لہجے کی کپکپاہٹ محسوس کرتے اپنا جاندار قہقہ نہیں روک پایا تھا. 

جب اُس کو ہنستا دیکھ زیمل جلدی سے اُس کے بازو پیچھے جھٹک کر وہاں سے اُٹھ گئی تھی. 

اِس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکل کر بھاگتی جاذل اُس کا بازو اپنی گرفت میں لیتے اُسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا. 

" کیپٹن زیمل میرے چنگل سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے. اور یہ کڈنیپ کرکے ہاتھ پاؤں, منہ اور یہاں تک کہ آنکھیں باندھ کر کون محبت کا اظہار کرتا ہے. ظالم لڑکی."

جاذل زیمل کے اردگرد دیوار پر ہاتھ رکھتے اُس کے اُوپر چھا رہا تھا. جاذل کی پر تپیش سانسیں زیمل کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے اُس کی سانسوں سے اُلجھ کر اُسے پاگل کررہی تھیں. 

" تو میں اور کیا کرتی. آپ کو جب بھی کچھ بولنے لگتی آپ اِس طرح دیکھتے ہیں کہ میں کچھ بول ہی نہیں پاتی تھی. "

زیمل نے جاذل کا چہرا بلکل قریب ہونے کی وجہ سے نظریں جھکائے ہلکی آواز میں کہا. 

اُسے آج تک زندگی میں کوئی کام اتنا مشکل نہیں لگا تھا جتنا جاذل کی پرحدت نگاہوں میں دیکھ کر بات کرنا لگتا تھا. اِس وقت بھی اُسے اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی. 

" اچھا اور بھلا کس طرح سے دیکھتا ہوں میں. وضاحت کریں گی پلیز. "

جاذل نے زیمل کے کانوں میں پہنے ٹاپس کو چھوا تھا. زیمل کو اپنا سارا خون کان پر سمٹتا محسوس ہوا تھا. کیونکہ جاذل آب جھک کر وہاں ہونٹ رکھ چکا تھا. 

" پلیز مجھے جانے دیں. دیر ہوجائے گی ماما ویٹ کررہی ہوں گی اور پریشان بھی ہورہی ہوں گی. "

زیمل کو جاذل کا دیوانہ بناتا لمس اور اُس کی بولتی کچھ کہتی نظریں بُری طرح پزل کر رہی تھیں. اِس لیے وہ جلد سے جلد یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی. 

" ڈونٹ وری اُن کو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں. کہ ایک بہت ضروری کام کے لیے نکلنا ہے ہم دونوں کو. "

جاذل کی بات پر زیمل نے آنکھیں پھاڑے اُس کی طرف دیکھا تھا. مطلب اب اُسے پوری رات یہیں رہنا تھا جاذل کے ساتھ. 

جاذل کا دل بے اختیار اِن خوبصورت آنکھوں کو چومنے کا چاہا تھا. جو اُس کے منہ زور جذبات کو اچھا خاصہ بھڑکا گئی تھیں. 

" آپ نے ماما سے جھوٹ کیوں بولا. اور مجھے بلکل بھی نہیں رہنا آپ کے ساتھ یہاں. "

زیمل کی بات پر جاذل ہولے سے مسکرایا تھا. 

" جھوٹ بلکل بھی نہیں بولا. ضروری کام کرنے کے لیے ہی تو موجود ہیں ہم یہاں. "

زیمل اپنے ہی حال میں بُری طرح پھنس چکی تھی. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا اپنی اتنی بڑی لاپرواہی اور بے وقوفی پر خود کو ہی تھپڑ لگا دے. 

وہ جاذل ابراہیم کے معاملے میں  اتنی لاپرواہی کیسے برت سکتی تھی. 

" مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے کیا آپ مجھے کھانے کے لیے کچھ بنا کر دے سکتی ہیں. "

آج اتنی مشکلوں سے تو زیمل اُس کے ہاتھ آئی تھی. تو وہ کیوں نہ اپنی فرمائشیں پوری کرواتا. 

جاذل کی بات پر زیمل نے مشکوک انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا کہ کہیں یہ اُس کی کوئی چال تو نہیں دوبارہ بے وقوف بنانے کے لیے. 

" اگر میں کھانا بنا دوں تو کیا اُس کے بعد جا سکتی ہوں واپس. "

جاذل کی نظریں اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتے زیمل نے اُسے گھورتے پوچھا. کیونکہ جاذل کے بہکے بہکے انداز اُسے بہت خوف زدہ کیے ہوئے تھے.

ہر ایک کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہونے والی کیپٹن زیمل کی اِس وقت جاذل کے قبضے میں ساری ہوا نکل چکی تھی. 

اُوپر سے وہ جنتا بہادر بننے کی کوشش کر رہی تھی. اندر سے اُتنا ہی دھڑکنوں کا شور جاری تھا. 

" یار یہ آپ کے ہونٹ اتنے لال کیسے ہیں خون تو نہیں پیتی لوگوں کا. "

جاذل کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی. وہ بڑے ہی بے باک انداز میں زیمل کے لہو چھلکاتے سُرخ رس بھرے ہونٹوں کو دیکھتے بولا. 

اور ساتھ ہی انگوٹھا بڑھاتے اُن کو چھوتے دبایا تھا. 

جبکہ اُس کی بات اور حرکت پر زیمل کا دماغ گھوما تھا.

" میجر جاذل آپ واقعی بہت ہی چھچھورے انسان ہیں. آپ کو شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے. "

زیمل شرم سے لال ہوتی بولی. اُسے پہلے کہاں عادت تھی ایسے انداز کی.

اُس کی بے قابو ہوتی سانسیں اور دھڑکنوں کا بڑھتا شور اُس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر رہے تھے. 

" اِس میں شرم کی کونسی بات ہے. میں تو اِن کو ٹیسٹ کرکے کنفرم کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں. کہ یہ اصل ہی ہیں نا. "

جاذل بنا کوئی لحاظ کیے ماہ روش کے ہونٹوں پر جھکا تھا. مگر اُس سے پہلے ہی زیمل نیچے کو کھکسکتی اُس کی قید سے نکلی تھی. اور فوراً دروازے کی طرف دوڑ لگا دی تھی. 

جبکہ جاذل اُس کے فرار کے انداز اور اُس کا لال ٹماٹر چہرہ دیکھ اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا. 

"آپ کو کیا لگتا ہے کیپٹن زیمل اِس طرح کرکے مجھ سے بچ پائیں گی. "

جاذل نے اُسے گھورتے پوچھا. 

مگر آگے کا سوچنے کے بجائے زیمل اِس وقت بچ جانے کا شکر منا رہی تھی. 

" میجر جاذل میں کچن میں جارہی ہوں. آپ خاموشی سے یہاں بیٹھے رہیں. اگر باہر آنے کی کوشش کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. "

زیمل جاذل کو وارن کرتی کچن کی طرف بڑھ گئی. 

جاذل بھی اُس کے پیچھے جانے ہی والا تھا. جب سونیا کا جگمگاتا نمبر اُس کے قدم وہیں روک گیا. 

زیمل اتنی ہیوی میکسی پہنے جس میں اُس کے لیے چلنا دوبھر تھا جاذل کے لیے جلدی جلدی کھانا بنانے میں مصروف تھی.زیمل چولہے کے پاس کھڑی تھی. جب  اپنی کمر پر کسی کے مضبوط ہاتھوں کا پرحدت لمس محسوس کرتے اُس کے دل کی دھڑکنیں بگڑی تھیں. 

جاذل کے ہاتھ اُس کی کمر سے سرکتے اُسکے پیٹ پر جاکر رکے تھے. اور وہاں گرفت مضبوط کرتے جاذل نے اُسے اپنے قریب کیا تھا. 

" میجر جاذل چھوڑیں مجھے یہ کیا کررہے ہیں آپ. "

جاذل زیمل کے کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے اُسے مکمل طور پر اپنے حصار میں لے چکا تھا. 

جب کہ اپنے پیٹ پر جاذل کے رینگتے ہاتھوں کا لمس زیمل کی جان اٹکائے ہوئے تھا. اُسے اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں. مگر جتنا وہ جاذل کو پہلے تنگ کر چکی تھی. اب وہ سہنا بھی تھا. 

" یار تمہارے محبت کے اظہار کے بدلے تھوڑا سا پیار تو بنتا ہے نا. "

جاذل کے ہونٹوں نے زیمل کے کانوں کو چھوا تھا. اور اُس کے کانوں سے ٹاپس نکال کر کارنر پر رکھتےاُن کے بوجھ سے ہوئے اُس کے سُرخ کانوں کو ہلکا سا سہلانے لگا تھا. 

جاذل کا نرم گرم لمس زیمل کو راحت بخش رہا تھا. مگر ساتھ ہی دل کی دھڑکنوں کی رفتار میں ہر پل اضافہ ہورہا تھا. 

جاذل کی شوخ مستیوں کے بیچ زیمل نے بہت مشکل سے کھانا بنا کر اُس کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھا. 

" اوکے اب تو میں جاسکتی ہوں نا میں نے کھانا بنا دیا ہے. "

زیمل نے اتنی نرمی سے زندگی میں پہلی بار بات کی تھی. کیونکہ وہ کچن میں آنے سے پہلے دروازے کا لاک چیک کرچکی تھی جو جاذل کی مرضی کے بغیر نہیں کھلنا تھا. 

اور اگر مزید وہ اِس طرح جاذل کی جان لیوا قربت میں رہتی تو ضرور آج فوت ہوجانا تھا. جاذل ابراہیم کی زرا سی بے رُخی برداشت کرنا بھی اُس کے بس سے باہر تھا. اور اب اُس کی بے انتہا محبت بھی اُس کے حواس معطل کر رہا تھا. 

" کیا مطلب میں نے ایسا کب کہا. "

زیمل نے اُس کے لاپرواہ انداز پر اور مزے لے لے کر کھانے پر غصیلی نظروں سے اُسے گھورا اور وہاں سے واک آوٹ کرنے ہی لگی تھی. جب جاذل نے اُسے روک لیا تھا. 

اور اُس کا بازو پکڑ کر اُسے اپنی گود میں گرا لیا تھا. وہ زیمل کو پوری طرح زچ کیے ہوئے تھا. 

" اوکے یہاں سے باہر جانا ہے نا. تو اپنے اِن پیارے پیارے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلا دیں. پھر شاید میں اِس بارے میں سوچ سکتا ہوں. "

جاذل نے اُس کے ہاتھ کو چومتے ایک نئی فرمائش کی تھی. مطلب آج جاذل ابراہیم نے قسم کھا رکھی تھی کہ زیمل کی ایک نہیں چلنے دینی.

" آپ کو ﷲ نے اپنے ہاتھ دیے ہیں. اِس لیے خود کھائیں میں ایسا بلکل نہیں کروں گی. "

زیمل اُس کی فرمائش پر سرے سے انکاری ہوئی تھی. اور ایک بار پھر اُس کے اتنے قریب اُس کی گود میں آجانے سے وہ شرم سے دوھری ہوئی تھی. 

جاذل تو بار بار اُسے ایسے اپنی گود میں بیٹھا رہا تھا جیسے وہ واقعی کوئی چھوٹی سی گڑیا ہو. 

" اوکے ایز یو وش. اگر آپ نہیں جانا چاہتیں تو یہ زیادہ اچھی بات ہے. میں تو ایک موقع دے رہا تھا. "

جاذل نے کندھے اُچکاتے کھانا کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا. جب اُس سے پہلے ہی زیمل نے نوالہ بنا کر جاذل کی طرف بڑھایا تھا. 

جب اُس کی طرف شرارتی نظروں سے دیکھتے جاذل نے نوالے سمیت اُس کی اُنگلیاں بھی اپنے منہ میں لے لیں تھیں. 

جس پر زیمل کی ایک زور دار چیخ برآمد ہوئی تھی. 

" جنگلی انسان. "

زیمل کی بڑبڑاہٹ پر جاذل مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا. 

" ابھی تو بتانا باقی ہے. آپ کو کے کتنا جنگلی ہوں میں."

جاذل نے جس انداز میں اُس کی طرف دیکھتے یہ بات کہی تھی. زیمل کا دل چاہا تھا. واپس پٹی لے کر اُس کی آنکھوں اور ہونٹوں کو باندھ دے. جو آج بلکل ہی شرارت پر آمادہ تھیں. 

" واؤ سو یمی اِس سے زیادہ اچھا کھانا میں نے پہلے کبھی نہیں کھایا. "

جاذل کی بات پر زیمل صرف اُسے گھور ہی پائی تھی. کیونکہ جاذل کی بڑھتی گستاخیاں اُس کے حواس صلب کررہی تھیں. ایک تو وہ اُس کی گود میں تھی. اُوپر سے اتنی قریب.

جاذل نے بڑے ہی مزے میں زیمل کو اچھا خاصہ تپاتے کھانا ختم کیا تھا. 

" اوکے اب میں چلوں. "

زیمل کے پوچھنے پر جاذل کے ہونٹوں پر محظوظ کن مسکراہٹ بکھر گئی. 

" کیوں."

آب کی بار زیمل اچھی خاصی چڑی تھی. 

" آپ سے بڑا چیٹر کوئی نہیں ہوسکتا. آپ مسلسل جھوٹ بول کر مجھ سے اپنی باتیں منوائی جارہے ہیں. "

زیمل نے اُس کے اُوپر سے اٹھنا چاہا تھا جب جاذل اُسے دونوں بانہوں میں اُٹھاتے وہاں سے کھڑا ہوتا بیڈ روم کی طرف بڑھا تھا. 

" مگر میں نے تو ایک بار بھی نہیں کہا کہ میں جانے دوں گا. میں نے کہا تھا میں سوچوں گا مگر اِس بات پر کافی غور کرنے کے باوجود میں کوئی فیصلہ نہیں کرپایا."

جاذل بات ایسے کررہا تھا جیسے زیمل کی نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی کے بارے میں غور و فکر کرتا رہا ہو.

" دیکھیں میجر جاذل آپ ٹھیک نہیں کر رہے. "

زیمل نے اُسے وارن کرنا چاہا تھا.

" سویٹ ہارٹ پیار کرنے کی کوشش ہی تو کررہا ہوں. آپ نے ہی تو موقع دیا ہے. ویسے کہاں اتنی آسانی سے ہاتھ آنا تھا. اور یہاں اغوا کرکے تو آپ ہی مجھے لائی ہیں. ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہائی جیک میں نے آپ کو کرلیا ہے. "

جاذل بیڈ روم میں داخل ہوتے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بولا 

جبکہ جاذل کے تیور زیمل کو بلکل بوکھلائے ہوئے تھے. 

" میں اِس اتنے بھاری لباس میں بہت تھک گئی ہوں. مجھے چینج کرکے ریلیکس ہونا ہے."

زیمل نے اپنا آخری ہربہ آزمایا تھا. 

" وہ سامنے وارڈروب موجود ہے آپ کو جو ڈریس بھی پہننا ہے پہن سکتی ہیں. "

جاذل نے زیمل کو نیچے اُتارتے سامنے بنی وارڈروب کی طرف اشارہ کیا تھا. 

" یہ تو سارے آپ کے کپڑے ہیں. "

زیمل نے اُسے کھولتے منہ بنا کر کہا. 

" آف کورس میری کبرڈ ہے تو میرے کپڑے ہی ہوں گے. اور اِس وقت تو آپ یہی شیئر کر سکتی ہیں. "

جاذل کی طرف دیکھ کر کچھ سوچتے زیمل نے ایک ڈھیلی ڈھالی سی وائٹ شرٹ اور بلیک ٹراؤزر سلیکٹ کرتے قدم واش روم کی طرف بڑھا دیے تھے. کیونکہ جاذل کے تو اُسے یہاں سے بھیجنے کے تیور بلکل نہیں لگ رہے تھے. اور مزید یہ بھاری میکسی پہننا اُس کے بس کی بات بلکل نہیں تھی. 

اِس لیے ناچار اُسے جاذل کے کپڑے سلیٹ کرنے ہی پڑے تھے. 

جاذل بڑے ہی پرسکون انداز میں صوفے پر بیٹھا اُس کے واپس آنے کا منتظر تھا. 

جاذل کو زیمل دن بدن اپنے دل کے قریب سے قریب تر ہوتی محسوس ہورہی تھی. اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُسے بھی کبھی کسی لڑکی سے پیار ہوگا. 

کوئی اُس کے لیے کبھی اتنا امپورٹنٹ بھی ہوگا. اور وہ بھی زیمل جیسی شوخ و چنچل زندگی کو جینے والی اُوپر سے سخت مگر اندر سے بلکل نرم اور سچے دل کی مالک پیاری سی لڑکی. 

زیمل کے بارے میں سوچتے جاذل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی تھی. وہ ابھی اُسی کی سوچوں میں گم بیٹھا تھا جب واش روم کا دروازہ کھولتے زیمل باہر نکلی تھی.

جاذل جیسے ہی پلٹا اپنے کپڑوں میں اُس کا نکھرا نکھرا سا رُوپ دیکھ وہ مبہوت ہوا تھا. 

مگر زیمل جاذل کے کپڑے پہننے اور اب اس کی نظروں سے بہت زیادہ گھبرا رہی تھی. اِس لیے اُس نے اپنا بھاری کامدار ڈوپٹہ اپنے شانوں پر پھیلا رکھا تھا. 

" زیمل. "

زیمل کی طرف قدم بڑھاتے جاذل نے گھمیر آواز میں اُس کو پکارا تھا. 

جاذل کی پکار پر زیمل کا دل پوری شدت سے دھڑکتے اُسے بے حال کر گیا تھا. 

جاذل نے زیمل کے مقابل آتے دونوں کندھوں سے تھام کر اُس کی ٹھوڑی کو پکڑ کر رُخ اپنی جانب موڑا تھا. 

" زیمل سچ کہوں تو پہلی ملاقات میں ہی یہ دل تمہارا اسیر ہوچکا تھا.  تمہاری ہر ادا ہر انداز باقی تمام لڑکیوں سے منفرد اور جدا ہے. 

ہر قسم کی بناوٹ سے پاک تمہارا یہ پیارا سا دل مجھے اپنا دیوانہ بنا چکا ہے. جب ہمارے درمیان یہ نکاح کا ایگریمنٹ ہوا تو میں اپنے جذبات کا اتنا خاص ادراک نہیں کر پایا تھا. مگر اُس کے کچھ عرصے بعد ہی میرے دلی جذبات مجھ پر ایسے عیاں ہوئے کہ اب مجھے لگتا ہے.میں مر سکتا ہوں مگر اِس نکاح کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا. "

جاذل کی بات سنتے زیمل کا دل زور سے دھڑکا تھا. 

وہ خود بھی تو یہی چاہتی تھی. کہ اب کبھی بھی اُس کا نام جاذل کے نام سے جدا نہ ہو. یہ شخص اپنی تمام تر کج ادائیوں کے ساتھ اُس کے دل پر قابض ہوچکا تھا. 

" میں بھی ایک بار پھر کھلی آنکھوں کے ساتھ تمہارا اظہار سننا چاہتا ہوں. تمہارے چہرے پر اپنی محبت کے رنگ بکھرے دیکھنا چاہتا ہوں. 

کیا تم میری یہ خواہش پوری کرو گی. "

جاذل زیمل کی اُٹھتی گرتی لرزتی پلکوں کا رقص دیکھتے مبہوت ہوا تھا. 

اِس وقت زیمل دشمن کو پچھاڑ کر رکھ دینے والی کیپٹن زیمل نہیں بلکہ چھوئی موئی سی حیا سے کپکپاتی میجر جاذل کی محبت لگ رہی تھی. جو اُس کی شوخ نظریں تک برداشت نہ کرپاتے بے حال ہورہی تھی. 

" میں زیادہ اِس پیار محبت کے بارے میں کچھ نہیں جانتی. ہاں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں آپ کے قریب کسی دوسری لڑکی کا وجود برداشت نہیں کرسکتی. آپ کی تھوڑی سی بھی اگنورینس یا مجھ پر توجہ نہ دینا میرے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے. 

آپ میری زندگی کے وہ پہلے اور آخری مرد ہیں جسے دیکھ یہ دل دھڑکا ہے. 

میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ کے بغیر اب میرے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہے. اور مجھ جیسی پاگل لڑکی کو اتنی محبت سے ہینڈل کرنا اور بنا کسی غصے اور ناراضگی کہ بن کہے میری ہر کوتاہیوں کو معاف کرنا صرف جاذل ابراہیم کے بس کی بات ہی ہے. 

مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ جو میں آپ کے لیے فیل کرتی ہوں. وہ محبت نہیں بلکہ اُس سے  بھی بڑھ کر کوئی جذبہ ہے.

اور بس یہی دعا ہے کہ یہ جان لیوا مشن جلدی سے ختم ہوجائے. کیونکہ وہ سونیا مجھے آپ کے قریب ایک پل کے لیے بھی برداشت نہیں.  "

نظریں جھکائے ہاتھوں کو مسلتے وہ جاذل کا دل بے اختیار کر گئی تھی. اُس کے اتنے خوبصورت اظہار پر جاذل کو اپنے تن بدن میں سرشاری سی اُترتی محسوس ہوئی تھی. اور آخر میں جس طرح اُس نے سونیا کا ذکر کیا تھا جاذل کو اُس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا. 

جاذل کو یہ جان کر بے پناہ خوشی ہوئی تھی کہ صرف وہی نہیں زیمل بھی اُسے دیوانگی کی حد تک چاہتی تھی. 

زیمل کی سانسیں اتنی سی بات کرتے بھی اِس قدر پھول چکی تھیں کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بہت بڑا قلعہ فتح کرکے آئی ہو. اور اُس کے مطابق جاذل ابراہیم کے سامنے اظہار محبت کرنا بھی کسی مارکے سے کم نہیں تھا.

جاذل نے اپنی قربت پر زیمل کے ہولے ہولے لرزتے وجود کو بازو پھیلا کر اپنے حصار میں لیا تھا. 

زیمل کا اپنی فیلنگز کا اتنا خوبصورت اظہار جاذل کو اندر تک سرشار کر گیا تھا. 

" تھینک یو سو مچ. اتنے خوبصورت اظہار اور مجھے کڈنیپ کروانے کے لیے. اور ویسے بھی اگر تم ایسا نہ کرتی تو آج میرا پلان تھا. ایسا کرنے کا. "

جاذل کی بات پر زیمل نے چہرہ اُوپر کرتے اُسے گھورا تھا. جب جاذل کی نظر زیمل کی گردن پر موجود نیکلیس کے نشان پر پڑی تھی. 

گردن کی جلد ایک جگہ سے بُری طرح سُرخ ہوچکی تھی. جاذل نے اُس کو نرمی سے چھونا چاہا تھا جب زیمل کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ محبت سے اُس پر اپنے ہونٹوں کا مرہم رکھ دیا تھا. 

زیمل جاذل کے اِس بے اختیار عمل پر بوکھلا سی گئی تھی. 

اِس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی جب جاذل کے موبائل پر ایک بار پھر سونیا کا نام جگمگایا تھا. 

" یہ چڑیل اتنی رات کو آپ کو کال کرکے کیا کہتی ہے. آپ رات میں بھی اِس سے بات کرتے ہیں. "

سونیا کا نمبر دیکھ زیمل کا پارہ ہائی ہوچکا تھا. 

" وہی باتیں جو تم ابھی نہیں کرنے دے رہی."

جاذل کو بیویوں کی طرح حق جماتی وہ بہت اچھی لگی تھی. موبائل مسلسل بج رہا تھا. مگر دونوں ہی اِس وقت اُس طرف متوجہ ہونے کے موڈ میں نہیں تھے.

" آپ کو شرم نہیں آتی. ویسے ارتضٰی سر نے بھی سب لوگوں میں سے چن کر آپ کو یہ مشن دیا ہے. وہ بھی دوست ہیں نا آپ کے اچھے سے واقف ہوں گے آپ کی حرکتوں سے. "

جاذل کی بات زیمل کو آگ لگانے کے لیے کافی تھی. 

" اوہ ہو میری جنگلی بلی مذاق کررہا ہوں. ایسا کچھ نہیں ہے. سٹارٹ میں ایک دو بار کرنے کی کوشش کی تھی اُس نے مگر میں نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ مجھے جلدی سونے کی عادت ہے. اور اِس طرح دیر تک جاگنا میرے لیے بہت مشکل ہے. "

زیمل کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھ جاذل نے فوراً لائن پر آتے سیدھی طرح بتا دیا تھا. ورنہ اُس کا دل ابھی مزید زیمل کو تپانے کا کررہا تھا. 

" آپ سچ کہہ رہے ہیں نا. "

زیمل نے کچھ مشکوک ہوتے پوچھا. مگر جاذل کی آنکھوں کی سچائی اُس کی ہر بات کی گواہی دے رہی تھی. 

" بلکل سچ میری جان. "

جاذل نے اُس کی پر نم آنکھوں پر نرمی سے ہونٹ رکھ دیے تھے. اُسے اِس بات کا بلکل اندازہ نہیں تھا کہ زیمل اُس کے لیے اتنی شدت پسند ہے. 

زیمل نے جاذل کی جو شرٹ پہنی ہوئی تھی وہ سلیولیس تھی. مگر واش روم سے نکلنے سے پہلے وہ دوپٹے سے اپنے بازوؤں کو اچھی طرح ڈھانپ چکی تھی. مگر اب جاذل کی حرکتوں کی وجہ سے دوپٹہ آدھے سے زیادہ پھسل کر نیچے گر چکا تھا. اور جاذل کے کپڑوں میں زیمل کا دلکش نازک سراپا مزید نمایاں ہو رہا تھا. 

" واؤ میرے کپڑے تو مجھ سے زیادہ آپ پر سوٹ کررہے ہیں. "

جاذل نے بغور اُس کا جائزہ لیتے معنی خیزی سے کہا تھا. اُس کی وائٹ شرٹ اِس قدر کھلی تھی کہ زیمل اُس میں بلکل چھپ سی گئی تھی. جبکہ اُس کے بلیک ٹراؤزر کی جگہ زیمل نے اپنی میکسی والا ٹراؤزر ہی پہن رکھا تھا. شرٹ کا گلہ کافی کھلا تھا. جسے زیمل بار بار اُوپر کرتی تھی. یا کبھی ڈوپٹے سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھی. 

اُس کی مشکل کو دیکھتے جاذل نے وارڈروب کی طرف بڑھتے اپنی ایک جیکٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھائی تھی.

" تھینکس."

 جیکٹ پہننے سے زیمل اچھی خاصی کور ہوچکی تھی. اور کافی کمفرٹیبل بھی. 

" مجھے کہاں سونا ہے. "

جاذل کو بیڈ کی طرف بڑھتا دیکھ زیمل اپنی ایک اور مشکل کے خیال سے پریشان ہوئی تھی. 

" یہاں میرے پاس."

جاذل کے بیڈ پر اپنے قریب اشارہ کرنے پر زیمل کا رنگ ذرد ہوا تھا. 

" نہیں میں یہاں صوفے پر ہی سو جاتی ہوں. مجھے وہاں نہیں سونا."

زیمل جاذل کی گہری نظروں سے نگاہیں چراتی پلٹی تھی. اور جاکر صوفے پر بیٹھ گئی تھی. 

" اوکے تو پھر میں بھی وہاں آپ کے ساتھ سو جاتا ہوں. کیونکہ مجھے تو آپ کے ساتھ سونا ہے. چاہے بیڈ پر یا پھر صوفے پر. مجھے کوئی ایشو نہیں ہے. "

جاذل بیڈ سے اُٹھتا اُس کی طرف بڑھا تھا. 

جبکہ جاذل کی بات سنتی زیمل ہونک ہوئی تھی. اُس نے ایک نظر اپنی طرف بڑھتے جاذل اور ایک نظر صوفے کی طرف دیکھا تھا. جہاں جاذل کے اکیلے کا فٹ آنا بھی بہت مشکل تھا. دونوں کا یہاں پورا آنا ناممکن تھا. 

" مگر یہاں صوفے پر ہم کیسے سو سکتے ہیں. آپ کوئی سیدھا کام نہیں کر سکتے. "

زیمل جاذل کے اپنے ساتھ بیٹھنے پر اُسے گھور بھی نہ سکی تھی. 

" آپ کی چوائس ہے. صوفے پر سونا ورنہ میں تو بیڈ پر ہی کہہ رہا تھا. لیکن صوفے بھی بُرا آپشن نہیں ہے. ہم اِس پر اُوپر نیچے کمفرٹیبل ہوکر سو سکتے ہیں. "

جاذل کا سلوشن سن کر زیمل کی کانوں کی لوح تک تپ اُٹھی تھی. 

" میجر جاذل آپ جیسا بے شرم انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا. مجھے اِس کمرے میں آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے. میں دوسرے کمرے میں جارہی ہوں. "

زیمل فوراً صوفے سے اُٹھی تھی. جب جاذل اُس کا بازو پکڑ کر ایک بار پھر اُس کو بانہوں میں بھرتے بیڈ کی طرف بڑھا تھا. زیمل نے اُس کے حصار سے نکلنے کے لیے اچھے خاصے ہاتھ پاؤں چلائے تھے. مگر ناکام ہی رہی تھی. 

" کل سے ہمارے اِس مشن کا آخری اور سب سے اہم مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے. میں نہیں جانتا اِس دوران ہمیں ایک ساتھ ٹائم سپینڈ کرنے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں تو میں چاہتا ہوں. آج کی پوری رات میں تمہارے ساتھ جاگ کر گزاروں. 

میں اِن لمحوں کو حسین بنانا چاہتا ہوں. پتا نہیں یہ ہمیں دوبارہ نصیب ہوں بھی یا نہیں. اور ہاں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. مجھے اپنی حدود پتا ہیں.  ہمارا ابھی صرف نکاح ہوا ہے. رخصتی نہیں. اور اتنا تو تم مجھے جان ہی گئی ہوگی کہ میں اصولوں کا بہت پابند انسان ہوں. وقت آنے پر پورے استحقاق سے اپنا حق وصول کروں گا. مگر اب بہت زیادہ شرافت کی اُمید بھی مت رکھنا مجھ سے. "

جاذل اُس کو بیڈ پر لٹا کر اُس پر جھکتے مدھم سرگوشیوں سے اُسے ریلیکس کرگیا تھا. 

مگر اُس کی آخری بات سنتے زیمل کی نارمل ہوتی سانسیں ایک بار پھر تیز ہوئی تھیں. جنہیں نوٹ کرتے بہت دلنشین مسکراہٹ جاذل کے ہونٹوں پر بکھر گئی تھی. 

جاذل نے ایک شوخ سی گستاخی کرتے زیمل کو سمٹنے پر مجبور کردیا تھا. جس پر شرم سے دوھرا ہوتے جاذل کے بازو پر سر رکھے زیمل اُس کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی. 

اُس کی اِس معصوم ادا پر نہال ہوتے جاذل اُسے اپنے مزید قریب کر گیا تھا. 

ایک دوسرے سے باتیں کرتے شرارتوں اور مستیوں میں اُن دونوں کی زندگی کی سب سے حسین رات قطرہ قطرہ ڈھلتی اُنہیں ایک دوسرے کے مزید قریب لے آئی تھی. محبت کے نام سے بھی دور بھاگنے والے اِس وقت بُری طرح اُس کے سحر میں پھنستے دنیا جہاں سے غافل ہوچکے تھے.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ریحاب کو ارحم کا انتظار کرتے چار گھنٹے سے اُوپر کا ٹائم ہوچکا تھا. مگر ابھی تک اُس کے آنے کے آثار نہیں لگ رہے تھے. 

ریحاب کا دل اک عجیب سے احساس سے گھبرانے لگا تھا. اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اب. کافی بار وہ ارحم کا نمبر ٹرائے کر چکی تھی. مگر آگے سے کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا. جو بات اُس کی پریشانی میں مزید اضافہ کر رہی تھی. 

اِس وقت ماما پاپا کو بتا کر وہ ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی. مسلسل پریشانی سے ٹہل ٹہل کر اُس کے پیر شل ہوچکے تھے. لیکن دل کا بوجھل پن بڑھتا ہی جارہا تھا. ارحم نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا تھا کہ جو ٹائم بتا کر جائے اُس سے لیٹ ہو یا پھر اِس طرح فون ہی بند کردے. ریحاب دل ہی دل میں نجانے کتنی دعائیں اور وظائف کر چکی تھی. 

ریحاب نے ٹیبل پر پڑے موبائل کی طرف بڑھتے اُس کے دوستوں سے پوچھنے کا سوچا تھا. 

مگر ماہ روش اور ارتضٰی کو ڈسٹرب کرنا اُسے آج بلکل مناسب نہیں لگا تھا. کچھ سوچ کر اُس نے زیمل کا نمبر ملایا تھا. مگر پھر کچھ سوچتے فون کاٹ دیا تھا. آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا. سب لوگ تھک کر سوئے ہوں گے ریحاب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے. 

وہ کپڑے چینج کرنے کی غرض سے واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی. جو ارحم کی فرمائش پر اُس نے اب تک چینج نہیں کئے تھے. 

واپس روم میں آتے ریحاب جائے نماز بچھاتی اُس پر جا کھڑی ہوئی تھی. اور ارحم کے باخیرو عافیت واپس آجانے کی دعائیں کرتے. اُس نے پوری رات جائے نماز پر ہی بیٹھے گزار دی تھی. مگر شاید ارحم نے نہ لوٹ کر آنا تھا اور نہ ہی وہ آیا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

صبح چھ بجے کے قریب ارتضٰی کی آنکھ کھلی تھی. جب پہلی نظر ہی سینے سے لگ کر سوئی ماہ روش پر پڑی تھی. جسے دیکھتے ارتضٰی کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ بکھر گئی تھی. 

سوتے میں بھی ماہ روش کے چہرے پر اِس قدر سکون اور اطمینان تھا کہ جیسے اُس کی زندگی بھر کی ساری تھکن اُتر گئی ہو. اُس کے معصوم پاکیزہ چہرے پر اب اذیت اور محرومی کے کوئی آثار موجود نہیں تھے. بلکہ ماہ روش کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا. جیسے پیارا سا دل رکھنے والی اُس کی نازک سی بیوی کوئی بہت ہی حسین خواب دیکھ رہی تھی. جس کی وجہ سے اُس کے گلابی پنکھڑی لبوں پر اک دلنشین سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی. 

ارتضٰی نے جھک کر اُن گلابی پنکھڑیوں پر اپنے لب رکھتے اُس کی مسکراہٹ کو اپنی سانسوں میں اُتارنا چاہا تھا. 

جب نیند میں بھی ارتضٰی کی نظروں کی تپیش اور لمس پر ماہ روش نے ہلکا سا کسمساتے آنکھیں کھول دی تھیں. اُس کی آنکھوں نیند کی خماری سے سُرخ ڈوریں لیے ارتضٰی کو مبہوت کر گئی تھیں. ارتضٰی کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ ماہ روش کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا. 

" میری بے رنگ زندگی میں داخل ہوکر اُسے رنگوں اور خوشیوں سے بھرنے کا بہت بہت شکریہ. "

ارتضٰی نے جھک کر باری باری اُس کی دونوں آنکھیں چوم لی تھیں. ماہ روش ابھی اُس کی رات والی شدتوں پر ہی نہ سنبھلی تھی. جب اُس کے ایک بار پھر قریب آنے پر اُس کی حالت غیر ہوئی تھی. 

ماہ روش نے ارتضٰی سے بچنے کے لیے اُسی کے سینے میں منہ چھپا لیا تھا. 

 ارتضٰی کے مسکرانے پر اُس کے رخساروں پر بننے والے ڈمپل ماہ روش کو اپنے سحر میں جکڑ رہے تھے.  جب ہر سوچ کو دور جھٹکتے اپنے دل کی خواہش پر ماہ روش نے ارتضٰی کے گالوں کو اپنی نرم اُنگلیوں سے چھوا تھا. 

اُس کی بے اختیار حرکت پر ارتضٰی کے گڑھے مزید گہرے ہوئے تھے. 

جبکہ ارتضٰی کی پر شوق نظروں کی تپیش پر ہوش میں آتے ماہ روش نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تھا. وہ پہلے ہی بیتی رات کے بارے میں سوچتے ارتضٰی سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی. اور اب ایک اور بے ساختہ حرکت کر گئی تھی. 

اچانک ماہ روش کی نظر ارتضٰی کے مضبوط کسرتی بازوؤں پر پڑی تھی. ارتضٰی کو شرٹ لیس دیکھ ماہ روش کا دل بُری طرح دھڑکا تھا.اُس نے فوراً پیچھے سرکنا چاہا تھا. جس پر ارتضٰی نے اپنی شرٹ میں لپٹی ماہ روش کو شرٹ کے کالر سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا. 

" اتنی جلدی بھی کیا ہے. پہلے میری شرٹ تو واپس کرتی جاؤ. "

ارتضٰی کی بے باک حرکت پر ماہ روش کی دھڑکنیں اتنی تیز ہوئی تھیں. جیسے اُس کا دل پسلیوں کی مضبوط دیوار توڑ کر باہر آجائے گا. 

" سر پلیز...میں چینج کرکے آپ کو دے دیتی ہوں. "

ماہ روش ارتضٰی کے سنجیدہ چہرے مگر آنکھوں میں ناچتی شرارت اچھے سے سمجھ رہی تھی. 

" مگر مجھے تو ابھی چاہئے یہیں پر. "

ارتضٰی نے ہلکا سا جھٹکا دیتے اُسے قریب کیا تھا. 

ارتضٰی کی گرفت شرٹ کے کالر پر مضبوط تھی. اُس کے ہاتھ کے لمس پر ماہ روش کے پسینے چھوٹ چکے تھے. 

جس کو دیکھتے ارتضٰی نے اُس کی مشکل آسان کرتے گرفت ختم کردی تھی. مگر اُس کو اپنے مزید قریب تر کرلیا تھا. ماہ روش کی قربت کا خمار اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. ارتضٰی کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایسے ہی ماہ روش کو اپنے سینے سے لگائے ساری زندگی گزار دے. 

" تم نے رات کو میرے ایک سوال کا جواب ہی نہیں دیا. "

ارتضٰی ماہ روش کے چہرے پر بکھری بالوں کی لٹیں اپنی  اُنگلی پر لپیٹتے بہت ہی سنجیدہ لہجے میں بولا تھا. 

" کونسا سوال.... "

ارتضٰی کی شوخ جسارتوں پر ماہ روش سے کچھ بولا بھی نہیں جارہا تھا.

" یہی کہ تم کیا کھاتی ہو جو اتنی سافٹ ہو. تمہیں چھوتے ایسا لگتا ہے جیسے تم روئی کی بنی ہو."

ارتضٰی کی بات سنجیدگی سے سنتی ماہ روش اُس کی شرارت پر اُسے گھور بھی نہیں پائی تھی. جو ماہ روش کے لال ٹماٹر چہرے کو دیکھ اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا. 

" سر آپ بہت بُرے ہیں مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی. "

ماہ روش نے خفگی آمیز لہجے میں کہتے اُٹھنا چاہا تھا. مگر ارتضٰی نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا. 

" یار یہ کیا تم مجھے بار بار سر بولی جارہی ہو. میرا نام ارتضٰی سکندر ہے. تمہارا سر میں صرف ڈیوٹی کے ٹائم پر ہوں. ابھی صرف اور صرف تمہارا ارتضٰی سکندر ہوں. اور  ابھی تمہارے اِن خوبصورت ہونٹوں سے اپنا نام سننا چاہتا ہوں. "

ارتضٰی نے اُس کے سُرخی مائل ہونٹوں پر اُنگلی پھیرتے اپنی فرمائش ظاہر کی تھی. 

ارتضٰی کی بات پر ماہ روش نے اُلجھن بھرے انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا. 

" مگر میں نے آپ کو ہمیشہ سر ہی کہا ہے. اب آپ کا نام کیسے لوں. اور مجھے آپ کو ایسے ہی پکارنا اچھا لگتا ہے. "

ماہ روش نے ارتضٰی کے سوالیہ انداز پر اپنی اُلجھن بیان کی تھی. جسے سنتے ارتضٰی ہولے سے مسکرایا تھا. 

" تو مطلب جب ہمارے بچے ہوں گے تو تم اُن کے سامنے بھی ایسے ہی پکارو گی مجھے. "

ارتضٰی کی اگلی بات ماہ روش کو ایک بار پھر نظریں جھکانے پر مجبور کر گئی تھیں. ارتضٰی کی بے باکی پر ماہ روش نے ایک زور دار مکہ اُس کے سینے پر رسید کیا تھا. جس کے جواب میں ہنستے ارتضٰی نے اُس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں قید کرلیا تھا. 

" ہاں تو بولو اب."

ارتضٰی ابھی بھی اپنی ضد پر قائم تھا. 

" ارتضٰی آپ بہت زیادہ بُرے اور کھڑوس ہیں. "

ماہ روش کو آخر کار اُس کی بات ماننی ہی پڑی تھی کیونکہ ارتضٰی نے اپنی شوخیوں سے اُس کی ناک میں دم کر رکھا تھا. 

" اوہ اچھا تو کھڑوس ہوں میں. ابھی بتاتا ہوں میں تمہیں اپنا کھڑوس پن. '

ارتضٰی ماہ روش کے شرارتی لہجے پر مصنوعی غصہ چہرے پر سجائے اُسے ایک بار پھر اپنے شکنجے میں دبوچ چکا تھا. جبکہ ماہ روش اُس کے جھپٹنے کے انداز پر کھلکھلاتے اُس کے جذبات کو مزید بڑھا گئی تھی. 

ابھی اُنہیں ایک دوسرے میں کھوئے کچھ ہی لمحے گزرے تھے. جب ارتضٰی کے موبائل کی رنگ ٹون بجی تھی. 

جس پر ارتضٰی بد مزہ سا ہوتا فون کی طرف متوجہ ہوا تھا. مگر وہاں جگمگاتے جنرل یوسف کا نمبر دیکھ ارتضٰی نے فوراً کال ریسیو کی تھی. 

اتنی صبح اُن کی کال ارتضٰی کو کسی خطرے کا الارم دے گئی تھی. 

" واٹ. اوہ نو ایسا کیسے ہوسکتا ہے. ذی ایس کے ہمارے اتنے خفیہ مقام تک بھلا کیسے پہنچ سکتا ہے. اوکے ہم ابھی پہنچ رہے ہیں. "

ارتضٰی کی پریشانی دیکھ ماہ روش بھی فکرمندی سے اُس کی طرف دیکھتی اُٹھ بیٹھی تھی. 

" کیا ہوا سب خیریت ہے. "

ماہ روش کی بات پر نفی میں سر ہلاتے ارتضٰی فوراً بیڈ سے اُتر گیا تھا. 

" ماہی جلدی سے ریڈی ہوجاؤ. ہمیں ابھی اور اِسی وقت آفس پہنچنا ہے. کل رات ذوالفقار ہمارے خفیہ مقام پر پہنچ کر اپنے بیٹے برہان کو بازیاب کروا چکا ہے. اطلاع ملنے پر ارحم بھی وہاں پہنچا تھا. 

مگر ارحم کا کچھ پتا نہیں چل پا رہا. اُن لوگوں نے اُس جگہ کو بلکل جلا کر راکھ کر دیا ہے. اِس لیے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ارحم اُن کے قبضے میں ہے یا پھر. "

ارتضٰی ارحم کے متعلق کوئی غلط الفاظ استعمال نہیں کرپایا تھا. 

اُس کے چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی. اُس کی پوری بات سنتے ماہ روش کا ہاتھ دل پر پڑا تھا. ارحم کی گمشدگی کا سنتے ماہ روش کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" اگر اُس گھٹیا شخص نے ارحم کو زرا بھی خراش پہنچائی تو میں اُسے چھوڑوں گا نہیں. "

ارتضٰی نے اشتعال کی کیفیت میں زور دار مکہ سامنے پڑے ٹیبل پر رسید کیا تھا. 

وہ سب اِس وقت میٹنگ روم میں موجود تھے. جہاں جنرل یوسف نے اُنہیں رات کو گزر جانے والی قیامت کے بارے میں آگاہ کیا تھا. 

اُن سب کا غصے اور صدمے سے بُرا حال تھا. برہان کے بازیاب ہونے سے بھی زیادہ ارحم کی گمشدگی اُن کے لیے پریشانی کا باعث تھی.

زیمل اور ماہ روش کی آنکھیں تو نجانے کتنی بار نم ہوچکی تھیں. ریحاب کی بھی نجانے کتنی کالز آچکی تھیں. اُس کو ابھی تک کچھ بتایا تو نہیں گیا تھا. مگر پھر بھی ریحاب کسی حد تک معاملے کی سنگینی سمجھ چکی تھی. اور اُس نے رو رو کر اپنی حالت خراب کر لی تھی. 

صائمہ بیگم بھی بہت مشکل سے خود پر ضبط کیے ریحاب کو سنبھالے ہوئے تھیں. جس کی حالت زیادہ قابلے رحم تھی. کیونکہ اُس کے لیے اب زندگی کی وجہ ہی ارحم تھا. اُس کے بغیر جینے کا تصور اب ریحاب کے لیے ناممکن ہوچکا تھا. 

" ارتضٰی یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے. اگر تم اِسی طرح غصے میں بھڑکتے رہو گے تو اِس سے بھی زیادہ بڑی تباہی ہوسکتی ہے. آرام سے ٹھنڈے دماغ سے سوچو اگر ارحم اُس کے قبضے میں ہے بھی تو کیسے اُس کو بازیاب کروانا ہے. کیونکہ یہ جان کر کہ ارحم آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے. وہ ارحم کو مار دے گا. اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے. "

جنرل یوسف نے ارتضٰی کو سمجھانا چاہا تھا. جو شدید غم و غصے میں اِس وقت آپے سے باہر لگ رہا تھا. 

اُس کے لیے اپنی ٹیم کا ہر فرد بہت قیمتی تھا. وہ اپنی جان تو دے سکتا تھا مگر اُن میں سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچنے دے سکتا تھا. 

" سر آپ فکر مت کریں. میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جس سے ارحم سمیت ہم میں سے کسی کو نقصان پہنچے یا ہماری اتنے مہینوں سے کی گئی محنت ضائع جائے. "

ارتضٰی کے خود کو سنبھالنے اور پروفیشنل انداز میں کہے جانے والے الفاظ پر جنرل یوسف مطمئن ہوئے تھے. 

" میجر جاذل سونیا والا کام کہاں تک پہنچا. "

ارتضٰی کی بات پر سب جاذل کی طرف متوجہ ہوئے تھے. 

" کل رات فون آیا تھا اُسکا ملنا چاہتی ہے مجھ سے. اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ کہ وہ مجھے ذی ایس کے پلازہ میں بلا رہی ہے. "

جاذل کی بات پر زیمل نے فکرمندی سے اُس کی طرف دیکھا تھا. 

" ہممہ بات تو واقعی عجیب سی ہے. مگر ایک دو دن کا مزید ویٹ کر لو اور اُس کے بعد جانا. کیا پتا یہ بھی اُن کی کوئی چال ہو. 

جس طرح وہ لوگ ہمارے قریب پہنچیں ہے. یہ بات اِگنور کی جانے والی بلکل بھی نہیں ہے. اور اگر جس پر مجھے شک ہے یہ سب اُس نے کیا ہے تو میں اُسے چھوڑوں گا نہیں."

ارتضٰی کے جاذل کو منع کرنے پر زیمل کے اعصاب ریلیکس ہوئے تھے. کیونکہ جاذل کا اکیلا ذی ایس کے پلازہ میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا. 

" میں بھی یہی سوچ رہا ہوں. اور جہاں تک میرا خیال ہے مجھے وہاں اکیلے جانا چاہیے. زیمل کو اپنے ساتھ وہاں لے کر جانا میرے خیال میں مناسب نہیں ہے. 

آگے سے حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں."

جاذل زیمل کی نظریں خود پر محسوس کرتے بنا اُسے دیکھے ارتضٰی سے مخاطب تھا. 

وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو خطرے میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے. 

" مگر میجر جاذل یہ مشن صرف آپ کا نہیں میرا بھی ہے. اور جب شروع سے میں آپ کے ساتھ رہی ہوں تو اب جب اِس کی کامیابی کا ٹائم آیا ہے. تو آپ مجھے سائیڈ پر کرکے سارا کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں. "

ارتضٰی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی زیمل بول پڑی تھی. 

جب اُس کی بات سنتے اتنی سیریس سچویشن میں بھی سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی. 

جاذل سب کے سامنے اُسے محبت پاش نظروں سے گھورنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پایا تھا. 

سب لوگ زیمل کی باتوں کی وجہ اچھے سے سمجھ رہے تھے. جس نے یہ سب کریڈٹ لینے کے لیے نہیں بلکہ جاذل کو اکیلے نہ جانے دینے کی وجہ سے بولا تھا. 

" کیپٹن زیمل میجر جاذل بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں. آپ اُن کے ساتھ نہیں جائیں گی. "

ارتضٰی کے دوٹوک انداز پر زیمل دانت پیس کر رہ گئی تھی. جاذل تو اِس وقت اُسے بلکل اگنور کیے ہوئے تھا. جس پر اُس نے ماہ روش کی طرف ملتجی انداز میں دیکھتے ارتضٰی سے سفارش کرنے کا کہا تھا. 

ماہ روش کو بھی جاذل اور ارتضٰی کی بات مناسب لگی تھی. اِس لیے اُس نے کندھے اُچکاتے زیمل کی کسی قسم کی مدد کرنے پر بے بسی کا اظہار کیا تھا. 

کچھ دیر مزید ڈسکشن کے بعد سب ایک دوسرے کو گڈ بائے کہتے اپنے اپنے مشنز پر نکل چکے تھے. اُنہیں کسی بھی طرح سب سے پہلے ارحم کو ڈھونڈنا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" برہان اِس سے ملو. یہ گلزار ہے میرا محسن جس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے میری جان بچائی ہے. اب یہ میرا سب سے زیادہ خاص آدمی ہے. "

ذی ایس کے نے گلزار کو بلواتے برہان سے ملوایا تھا. جو بیڈ پر لیٹا ہوا تھا. اُس کے چہرے اور جسم پر تشدد کے نشان تھے. 

" صاحب جی اِن کا یہ حال کس نے کیا. آپ بس مجھے اُس کا نام بتا دیں. میں اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپ کے آگے ڈھیر کر دوں گا. "

برہان جو اپنے باپ کے اتنی جلدی کسی پر ٹرسٹ کرنے پر حیران تھا. مگر گلزار کا بغور جائزہ لیتے اور اُس کی بات میں چھپے کچھ کر دیکھانے کا جذبہ برہان کو بھی اُس سے متاثر کر گیا تھا. 

" وہ بھی پتا چل جائے گا. ابھی اتنی بھی کیا جلدی ہے. کیونکہ جس نے میرے بیٹے پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے. اُس کا انجام درد ناک ہی ہوگا. 

ایک کا تو کر چکے اب اُس کے باقی ساتھیوں کی باری ہے."

ذی ایس کے کے لہجے میں نفرت اور بدلے کی چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں. جب اُس کی آخری بات پر گلزار نے اپنے تاثرات حتی الامکان طور پر نارمل رکھنے کی کوشش کرتے خاموش نظروں سے اُن کی طرف دیکھا تھا. 

جو دونوں باپ بیٹا اپنی بات پوری کرتے اب قہقے لگا رہے تھے. 

گلزار چاہنے کے باوجود اُن سے پوری بات نہیں پوچھ پایا تھا. 

" گلزار تم جاؤ باہر اور ہمایوں کو میرے پاس بھیجو. "

ذوالفقار کے حکم پر گلزار وہاں سے نکل گیا تھا. 

" بندہ تو کافی کام کا لگ رہا ہے. مگر پھر بھی آپ نے یہاں بلانے سے پہلے اِس کے بارے میں ساری معلومات اکٹھی کر لی ہے نا. اِس وقت کسی پر بھی بھروسہ کرنا سہی نہیں رہے گا. "

گلزار کے نکلتے ہی برہان نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا. 

کیونکہ کچھ وقت دشمنوں کے قبضے میں رہ کر اُس نے جو تکلیف برداشت کی تھی. اب دوبارہ وہ اُس کے قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہتا تھا. 

" تم فکر مت کرو. میں ساری تسلی کر چکا ہوں. اِس نے جو بھی اپنے بارے میں بتایا ہے. وہ سب سچ ہے. ہمارے آدمی اِس کے گاؤں میں جاکر ساری تسلی کر آئے ہیں. "

باپ کو پوری طرح سے مطمئن دیکھ برہان بھی مطمئن ہوا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" سر مجھے وہاں جانے میں کوئی پرابلم نہیں ہے. مگر میں ارتضٰی سر کی پرمیشن کے بغیر ایسا کوئی قدم نہیں  اُٹھاؤ گی. "

جنرل یوسف کی پوری بات سنتے ماہ روش عجیب کشمکش میں پھنس چکی تھی. 

وہ چاہتے تھے ماہ روش اپنے باپ کے پاس جاکر رہے اور اندر ہی اندر ذی ایس کے پلازہ میں چھپائی گئی ذوالفقار کے خلاف ساری انفارمیشن حاصل کر لے. 

لیکن اُن کے مطابق ارتضٰی اِس بات پر بلکل بھی راضی نہیں تھا. اور سختی سے اِس بات کو دوبارہ نہ چھیڑنے کا کہا تھا. اِسی لیے جنرل یوسف ماہ روش سے چاہتے تھے کہ وہ بنا ارتضٰی کو بتائے وہاں چلی جائے. اور ماہ روش کا دل یہ بات ماننے کو قطعی تیار نہیں تھا.

وہ اتنا بڑا قدم اٹھا کر ایک بار پھر ارتضٰی کو اپنی جانب سے بدگمان نہیں کرنا چاہتی تھی. مگر دوسری طرف جنرل یوسف کے پلان پر چلتے وہ ذوالفقار کے خلاف تمام ثبوت حاصل کر سکتی تھی. اُس کا دماغ بلکل ماؤف ہوچکا تھا. اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اِس موڑ پر لیا گیا اُس کا کون سا فیصلہ ارتضٰی سمیت اُس کی پوری ٹیم اور ملک کے لیے مفید ثابت ہوسکتا تھا. 

" کیپٹن ماہ روش آپ جذباتی ہوکر سوچ رہی ہے. آپ جانتی ہیں آپ کے اِس انکار سے کیا کیا ہوسکتا ہے. 

کیپٹن ارحم کی جان جاسکتی ہے. ذی ایس کے کے اتنے قریب پہنچ کر اُس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے وہ فرار ہوسکتا ہے. جیسے اُس نے پہلے کیا تھا. یا اگر اُس نے کوئی انتہائی قدم اُٹھایا تو ملک میں تباہی و بربادی پھیل سکتی ہے. نجانے پھر کتنے بے قصور مظلوم لوگ درد ناک موت کے گھاٹ اُترتے اپنی جانیں کھو سکتے ہیں. 

اور ہاں

ارتضٰی سکندر بہت محبت ہے نا آپ کو اُس سے. تو ہمیشہ ہر مشن میں سرخرو لوٹنے والا. میجر ارتضٰی سکندر اِس مشن کی ناکامی کا بوجھ برداشت کر پائے گا. 

وہ سکندر کی طرح ایک غیرت مند مرد ہے. جو مر تو سکتا ہے. مگر ہار برداشت نہیں کرسکتا. "

جنرل یوسف نے ماہ روش کو ایموشنل بلیک میل کرتے اپنی بات پر راضی کرنا چاہا تھا. 

وہ اچھے سے جانتے تھے ماہ روش کو کیسے ہینڈل کرنا ہے. کیونکہ ارتضٰی اُسے کسی صورت جانے نہیں دے گا اُنہیں جو کچھ بھی کرنا تھا. ارتضٰی کی بے خبری میں ہی کرنا تھا. 

" مگر ارتضٰی سر کو منا کر بھی تو میں اُن کی مرضی سے جاسکتی ہوں نا. میں وہاں جانے سے انکار بلکل نہیں کررہی. مجھے پلیز ایک بار اُن سے بات کرنے دیں میں اُنہیں منا لوں گی. "

ماہ روش نے جنرل یوسف سے آخری بار التجا کرتے ہوئے کہا تھا. 

مگر اِس وقت وہ خود بے بس تھے. وہ ماہ روش سے کوئی ہمدردی نہیں جتا سکتے تھے. 

" ارتضٰی کو میں ہر طرح سے منانے کی کوشش کر چکا ہوں. مگر نہ وہ مانا ہے. اور نہ ہی اُس نے اب ماننا ہے. اگر مجھے زرا سا بھی لگتا کہ آپ کے منانے سے وہ مان جائے گا تو میں آپ کو اِس طرح ارتضٰی کو بنا بتائے جانے کا کبھی نہ کہتا. "

جنرل یوسف کی بات پر ماہ روش نے نم آنکھوں سے اُن کی طرف دیکھتے سر اثبات میں ہلا دیا تھا. 

" اوکے سر میں ارتضٰی سر کو بنا بتائے بنا ملے وہاں جانے کو تیار ہوں."

ماہ روش نے یہ بات کس دل سے کی تھی یہ وہی جانتی تھی. ارتضٰی کی ناراضگی کا سوچتے اُس کا دل نجانے کتنی بار ٹکڑوں میں بٹا تھا. 

اپنے باپ کے گھر جاتے اُسے اِس بات پر یقین نہیں تھا کہ وہ اب وہاں سے زندہ لوٹ پائے گی بھی یا نہیں. دوبارہ کبھی وہ ارتضٰی سے مل پائے گئی دیکھ پائے گی بھی یا نہیں. 

مگر ماہ روش اپنے آنسو صاف کرتے ارتضٰی کے ساتھ بیتائے اُن چند حسین لمحوں کو اپنے دل میں بسائے خود کو مضبوط کرتے وہاں سے نکل گئی تھی. 

ماہ روش کے جاتے ہی جنرل یوسف کرسی پر ڈھانے کے انداز میں بیٹھ گئے تھے. 

اُنہوں نے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے خود غرض بنتے اِس معصوم لڑکی سے بہت بڑی قربانی مانگ لی تھی.

مگر اُن سب آفیسرز کی زندگی ہوتی ہی ایسی تھی. ہر موڑ پر نئے سے نیا امتحان اُن کا منتظر ہوتا تھا. 

اپنے ملک اور اُس کے لوگوں کے لیے وہ اپنی زندگیاں بھلائے. صرف اُن کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتے تھے. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارتضٰی آندھی طوفان کی طرح جنرل یوسف کے آفس میں داخل ہوا تھا. 

" آپ کو منع کیا تھا نا ماہ روش کو وہاں بھیجنے سے پھر بھی آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی. کیوں کیا آپ نے ایسا. اور وہ بے وقوف لڑکی آپ کی بات پر عمل کرتے وہاں چلی بھی گئی. "

ارتضٰی اُن کے ٹیبل پر موجود تمام چیزوں کو ہاتھ مار کر نیچے گراتے ٹیبل پر تقریباً جھکتے دہاڑا تھا. 

اُس کو ابھی ابھی پتا چلا تھا. کہ ماہ روش ذی ایس کے پلازہ میں داخل ہو چکی ہے. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دنیا کی ہر چیز کو تہس نہس کر دے. 

ماہ روش اکیلی اُن درندہ صفت انسانوں کے بیچ پہنچ چکی تھی. جہاں ماہ روش کا ایک منٹ رہنا بھی سیف نہیں تھا. 

" میجر ارتضٰی بی ہیو یور سیلف. یہ کیا طریقہ ہے.اپنے آفیسر سے بات کرنے کا. میں اپنے کسی بھی عمل میں تمہارا جواب دہ بلکل نہیں ہوں."

جنرل یوسف ارتضٰی کی حالت سے نظریں چراتے سخت لہجے میں بولے تھے.

" وہ میری بیوی ہے. جس کو آپ نے میرے منع کرنے کے باوجود موت کے منہ میں بھیج دیا ہے. آپ کس بات کی دشمنی نکال رہے ہیں مجھ سے. پہلے اتنے سالوں اُس کے بارے میں سب جانتے ہوئے بھی اُسے مجھ سے دور رکھا. ہم دونوں کی تڑپ ہمارا درد کوئی چیز آپ کو پگھلا نہیں پائی اور اب جب اتنی آزمائشوں کے بعد وہ مجھے ملی تو آپ نے پھر اُسے مجھ سے دور کردیا. آخر کیوں توڑنا چاہتے ہیں آپ مجھے. "

بات کرتے کرتے ارتضٰی کی آواز مدھم سی ہوگئی تھی. 

جبکہ اُس کی تکلیف پر جنرل یوسف کو اپنا دل چیرتا ہوا محسوس ہوا تھا. یہ دونوں بچے اُن کو بہت زیادہ عزیز تھے. اور آج دونوں کو پھر سے ایک دوسرے کے لیے ٹوٹتے بکھرتے دیکھنا جنرل یوسف کو اذیت سے دوچار کر گیا تھا. 

" اینی ویز. آپ کو جو کرنا تھا آپ کر چکے. اب جو مجھے مناسب لگے گا میں وہ کروں گا. "

ارتضٰی قہر بھری نظروں سے اُن کی طرف دیکھتے وہاں سے نکل گیا تھا. 

جبکہ جنرل یوسف اُسے آوازیں دیتے ہی رہ گئے تھے. مگر اِس وقت ارحم کے ساتھ ساتھ ارتضٰی سکندر کی ماہ روش خطرے میں تھی. وہ کیسے چین سے بیٹھ سکتا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ہمایوں کو جیسے ہی پتا چلا تھا کہ ماہ روش ذی ایس کے کے پاس آنا چاہتی ہے تو ذوالفقار کو انکار کرتا دیکھ ہمایوں نے نجانے کون کون سی وجوہات اور نجانے کتنی دلیلیں دے کر راضی کیا تھا. 

ذوالفقار کا ارادہ ماہ روش پر اِس طرح اپنی اصلیت ظاہر کرنے کا نہیں تھا. مگر پھر ہمایوں کے سمجھانے پر اول تو ماہ روش جیسی معصوم لڑکی اپنے باپ کے خلاف جانے کے بارے میں سوچے گی بھی نہیں اور اگر ایسا کوئی اعتراض ظاہر کیا تو اُس کو یہاں سے نکلنے ہی نہیں دیا جائے گا. 

ہمایوں بس کسی صورت چاہتا تھا کہ ماہ روش اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے قریب آجائے. جس دن سے اُس نے ماہ روش کو دیکھا تھا. اُس کے بے پناہ حُسن نے اُس کی نیندیں اُڑا دی تھیں.

ماہ روش کے یہاں آنے کے بعد ہمایوں کا اگلا کام اُس سے شادی کرنی تھی. جس کے لیے ابھی اُسے ماہ روش اور ذوالفقار کو منانے کے لیے طویل جنگ لڑنی تھی. 

مگر فلحال جو جنگ اُس نے لڑی تھی. وہ اب ہمایوں جیت چکا تھا. اور ماہ روش اُس کی خواہش کے مطابق اب اُس کے سامنے موجود تھی.

" بابا آپ کو میں نے اتنا زیادہ مِس کیا مگر آپ نے ایک بار بھی مجھ سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش نہیں کی. اِس لیے اب آخر کار تنگ آکر میں نے خود ہی آپ کے پاس آنے کا فیصلہ کر لیا. "

ماہ روش ذوالفقار کے سینے سے لگی اپنے شکوے کیے جارہی تھی. جس پر ذوالفقار کچھ کچھ بے زاری سے جواب دے رہا تھا. 

" پیاری لڑکی اب تو آپ اپنے بابا کہ پاس آچکی ہیں. اب اتنا سیڈ کیوں ہورہی ہیں. آپ کے اِس خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ اور زیادہ حسین لگے گی. اِس لیے میری خاطر تھوڑا سا مسکرا دیں. "

ہمایوں کی بات پر ماہ روش کا دل چاہا تھا. اِس گھٹیا تاڑو انسان کا دماغ ٹھکانے لگا دے مگر اِس وقت وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی.

ہمایوں کی بات پر ہولے سے مسکرا دی تھی. 

" اوکے بچو تم دونوں بیٹھو باتیں کرو. مجھے زرا تھوڑا ضروری کام ہے. میں ابھی آتا ہوں تھوڑی دیر میں. "

ذوالفقار اُن دونوں کو کہتا وہاں سے نکل گیا تھا. 

جب اُسی لمحے گلزار نے وہاں قدم رکھا تھا. ماہ روش اور  ہمایوں کو آمنے سامنے صوفے پر بیٹھا دیکھ اُس نے سرد نگاہیں دونوں پر ڈالتے مٹھیاں بھینچ کر اپنے غصے کو کنٹرول کرنا چاہا تھا. 

خود پر کسی کی گہری پر تپیش نظریں نوٹ کرتے ماہ روش نے اِردگرد دیکھا تھا جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑے گلزار پر پڑی تھی. 

جس کی لال انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھ ماہ روش کو خوف سا محسوس ہوا تھا. گلزار کے گھنی مونچھوں تلے لب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست اُس کے اندر بھڑکتے لاؤے کا پتا دے رہے تھے. 

ماہ روش ابھی بغور اُس کا گہری نظروں سے جائزہ لینے ہی والی تھی. جب ہمایوں کی آواز پر وہ واپس پلٹ آئی تھی. 

" ماہ روش میرے خیال میں اب آپ کو کچھ دیر آرام کرنا چاہئے. اتنا لمبا سفر طے کرنے سے آپ تھک گئی ہوں گی. "

ہمایوں کی گھٹیا نگاہیں ماہ روش کے وجود پر پھسلتی گلزار کے قہر کو بڑھا گئی تھی. 

ہمایوں کی معیت میں چلتے ماہ روش نے ایک نظر پلٹ کر گلزار کی طرف دیکھا تھا. اُس کی چھٹی حس اُسے بتا رہی تھیں کہ یہ بندہ اُس کا کوئی اپنا ہی ہے. مگر ایسا کون ہے جس نے ذوالفقار کے گھر تک رسائی حاصل کر لی. کہیں ارتضٰی تو نہیں.

اچانک خیال آتے ہی ماہ روش نے فوراً پلٹ کر دیکھا تھا. مگر اب وہ وہاں موجود نہیں تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ماہ روش کی ذی ایس کے پلازہ میں آج دوسری رات تھی. کل کی رات اُس نے بلکل نارمل انداز میں گزاری تھی. تاکہ اگر کوئی اُس پر نظر رکھ بھی رہا ہو تو شک نہ ہوسکے. 

مگر آج اچھی طرح تسلی کے بعد کے اُس پر نظر نہیں جارہی ماہ روش نے آج اُوپر موجود دو آخری پورشنز پر جانے کا فیصلہ کیا تھا. جہاں ذی ایس کے نے کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی تھی. 

یہاں تک کہ سونیا,  برہان اور ہمایوں بھی وہاں نہیں جا سکتے تھے. جس سے ماہ روش کو اتنا تو آئیڈیا ہوچکا تھا کہ ذی ایس کے کے تمام راز وہاں ہی موجود ہیں. اور آج اُس نے اُوپر جانے والے راستے کا تعین کرتے وہاں جانے کا پورا ارادہ کر لیا تھا. 

ارتضٰی سے ملے بات کیے پورے دو دن گزر چکے تھے. جو کہ ماہ روش کے لیے سب سے زیادہ بے چینی کا باعث تھا. اور یہ سوچ کر کے ارتضٰی اُس کے اِس اقدام پر کتنا غصے میں ہوگا. ماہ روش کی بے قراری اور پریشانی مزید بڑھ گئی تھی. اِس وقت اُس کا شدت سے دل چاہا تھا ارتضٰی سے ملنے پر اُس سے بات کرنے پر. چاہے وہ ڈانٹ ہی دے مگر وہ اُس کی آواز سننا چاہتی تھی. 

جب وہ نہیں ملا تھا تو کیسے بھی کرکے ماہ روش اپنے دل کو سنبھال لیتی تھی. مگر اب جب اُس کی قربت میسر آکر پھر چھین لی گئی تھی تو ماہ روش کے لیے صبر کرنا انتہائی مشکل ہورہا تھا. 

مگر وہ جانتی تھی اِس وقت کسی صورت اُس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی. جب کافی دیر بعد ارتضٰی سکندر کی محبت کی حسین یادوں سے نکلتے ماہ روش گھڑی پر ٹائم دیکھتے بستر سے اُٹھی تھی. وہ اِس وقت ریڈ اور بلیک کنٹراس کے گرم سوٹ میں ملبوس تھی. جس میں اُس کی دودھیا رنگت مزید دھمک رہی تھی. باہر کس کو شک نہ ہو اِس لیے ماہ روش نے لائٹ آن نہیں کی تھی. زیرو پاور کے بلب کی مدھم روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی. 

ماہ روش نے اپنی بلیک شال اُتار کر بیڈ پر ڈالتے کھلے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپٹنا چاہا تھا. وہ یہاں سے اپنا حلیہ بلکل چینج کرکے نکلنا چاہتی تھی. تاکہ اگر کسی کی نظر پڑ بھی جائے تو کوئی اُسے پہچان نہ سکے. 

ماہ روش جوڑا بنا کر پلٹی ہی تھی. جب اچانک کلک کی آواز پر الرٹ ہوتے ماہ روش کی نظریں فوراً کھڑکی کی طرف اُٹھی تھیں. 

" کک کون ہے وہاں. "

کسی کو کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوتے دیکھ ماہ روش نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی تھی. کیونکہ اِس وقت بہادر بن کر اپنی اصلیت کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی. 

مگر سامنے موجود شخص کو دیکھ ماہ روش کی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں. 

ذی ایس کے کا خاص بندہ رات کے اِس پہر اُس کے روم میں کیا کررہا تھا. اور جس طرح باہر سے کھڑکی کا لاک کھول کر مہارت سے وہ اندر داخل ہوا تھا. ماہ روش سمجھ گئی تھی کہ یہ کوئی بہت ہی پکا کھلاڑی ہے. 

" تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے روم میں قدم رکھنے کی."

ماہ روش نے بیڈ پر پڑی اپنی شال اُٹھا کر اپنے گرد لپیٹتے سخت لہجے میں اُس سے پوچھا تھا. 

مگر آگے سے وہ کوئی بھی جواب دیئے بغیر سرد نگاہوں سے ماہ روش کو گھورتے اُس کی طرف بڑھا تھا. 

وہ جیسے ہی ماہ روش سے چند قدموں کے فاصلے پر پہنچا تھا. اُس کی خوشبو ماہ روش کے نتھنوں سے ٹکراتی اُسے حیرت کا دوسرا جھٹکا دے گئی تھی. 

اِس خوشبو کو تو وہ کروڑوں میں بھی پہچان سکتی تھی. کیونکہ یہ اُس کے کھڑوس میجر کی سحر ذدہ کر دینے والی خوشبو تھی. جو اُسے زندگی کا احساس بخشتی تھی. 

ماہ روش نے جھٹکے سے سر اُٹھایا تھا. اور بغور مقابل کا جائزہ لیتے جیسے ہی اُس کی آنکھوں میں جھانکا خوشی اور سکون کی لہر ماہ روش کے تن بدن میں دور گئی تھی. وہ اُس کا ارتضٰی سکندر تھا کیسے نہ پہچان پاتی وہ اُسے. 

ارتضٰی کا حلیہ اِس وقت بلکل چینج تھا. کیونکہ اُس نے مکمل طور پر گلزار نامی شخص کا گیٹ اپ کر رکھا تھا. 

" کس سے اجازت لے کر آئی ہو تم یہاں. کہا تھا نا میں نے تمہیں کبھی مجھ سے دور جانے کی کوشش مت کرنا."

ارتضٰی کی مدھم مگر چنگارتی آواز پر ایک پل کے لیے ماہ روش سہمی تھی. مگر اگلے ہی لمحے اُس کے غصے کو خاطر میں لائے بغیر ماہ روش ارتضٰی کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے اُس کے سینے میں منہ چھپائے اُس سے بلکل لپٹ گئی تھی. 

" میں اِس وقت کتنا مِس کر رہی تھی آپ کو. لو یو اینڈ تھینکیو سو مچ. "

ماہ روش اپنا سارا شرم اور جھجھک ایک سائیڈ پر رکھتے ارتضٰی کے سینے میں چھپی اپنے بے قرار دل کو قرار بخش رہی تھی.

جبکہ ارتضٰی کو ماہ روش سے ایسے کسی والہانہ پن کی اُمید بلکل نہیں تھی. وہ تو کل سے اتنے غصے میں تھا کہ نجانے کتنے لوگوں کو اپنے قہر کا نشانہ بنانے کے باوجود نارمل نہیں ہو پایا تھا. اور آج موقع ملتے وہ غصے میں بھڑکتے ماہ روش کے پاس پہنچا تھا. وہ ماہ روش کی اچھی خاصی کلاس لینے کے موڈ میں تھا. مگر یہاں آکر تو پانسا ہی پلٹ گیا تھا. 

ماہ روش کے نرم گرم لمس اور مسحور کن سانسوں نے اُس کا سارا غصہ اور اشتعال جھوک کی طرح بیٹھا دیا تھا.

" میں جانتی ہوں آپ مجھ سے بہت ناراض ہیں . مگر آپ خود سوچیں اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ بھی تو یہی کرتے نا. اگر میرے یہاں آنے سے ہمارے مشن کے کامیابی کے تھوڑے سے بھی چانسز بڑھ سکتے ہیں تو میں کیسے پیچھے ہٹ جاتی. میں بھی تو ذی ایس کے سے اپنی ماں پر کیے ظلم کا بدلہ لینا چاہتی ہوں. اپنی زندگی کی تمام محرومیوں کا حساب لینا ہے مجھے اُس سے. اور آپ کو اپنی ماہ روش پر اتنا یقین تو ہونا چاہیے کہ وہ اِن درندوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے. میجر ارتضٰی سکندر کی بیوی اُس کا سر کبھی نہیں جھکنے دے گی. 

ہاں آپ کو بتائے بنا یہاں آکر میں نے بہت غلط کیا اُس کے لیے میں آپ سے معافی مانگتی ہوں اور آپ جو بھی سزا دینا چاہیں میں تیار ہوں اُس کے لیے. "

ارتضٰی کے سینے پر لب رکھتے ماہ روش نے جس طرح اپنی بات سمجھاتے اُس کے آگے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا. ارتضٰی سکندر کا رہا سہا غصہ بھی ختم ہوچکا تھا. 

ماہ روش کے ہونٹوں کا نرم گرم لمس ارتضٰی سکندر کے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا کر گیا تھا. ماہ روش ارتضٰی کے گرد ویسے ہی بانہوں کا حصار باندھے ہوئے تھی. مگر ارتضٰی نے ابھی تک اُسے اپنی بانہوں میں نہیں بھرا تھا.

وہ اِس وقت بے انتہا حیرت ذدہ تھا کہ اُس کا غصہ اتنے آرام سے کیسے اُتر گیا. کیونکہ اُس کی لائف میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا. مگر آج سے پہلے اُس کی ماہ روش بھی تو اُس کے پاس نہیں تھی. اور اگر تھی بھی سہی تو اتنا حق اُس کے پاس نہیں تھا جو ساتھ گزاری اُس حسین رات میں ارتضٰی سکندر نے اُسے بخشا تھا. تبھی تو آج ماہ روش اتنی ہمت کرپائی تھی. 

ورنہ ارتضٰی سکندر کے غصے کو ختم کرنا ہمیشہ سب کے لیے ناممکن ہی رہا تھا. 

ارتضٰی ماہ روش کے اِس استحقاق بھرے انداز پر اور اُس کے الفاظ پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا. غصہ تو اُس کا اب بلکل ختم ہوچکا تھا. مگر ماہ روش سے ناراضگی کے اظہار کرکے وہ تھوڑا بہت تو اُسے اُس کی غلطی کا احساس کروانا چاہتا تھا. جو وہ اُسے بنا بتائے یہاں آکر کر چکی تھی. کیونکہ ہمایوں کا ماہ روش کو دیکھنے والا منظر بار بار ارتضٰی کے سامنے آکر اُس کے غصے کو بڑھا دیتا تھا. 

" آپ معاف نہیں کریں گے مجھے. بہت ناراض ہیں مجھ سے. "

ماہ روش نے ارتضٰی کو ویسے ہی بے حس کھڑا دیکھ اُس کے سینے سے سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. 

" تم نے جو غلطی کی ہے وہ میں کسی صورت معاف نہیں کر سکتا. "

ارتضٰی نے بغور اُس کے حسین رُوپ کو آنکھوں میں بساتے سخت لہجے میں کہا. اُس نے ماہ روش کو خود سے قریب ابھی بھی نہیں کیا تھا. جو بات ماہ روش کی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی. 

" میں معافی مانگ تو رہی ہوں نا."

بات کرتے دو آنسو ٹوٹ کر ماہ روش کی گالوں پر بکھرے تھے اور بس یہی پر ارتضٰی کی ساری ایکٹنگ ختم ہوئی تھی. 

" اِس میں رونے والی کیا بات ہے پاگل لڑکی نہیں ہوں ناراض تم سے مذاق کر رہا تھا. "

ارتضٰی ماہ روش کے آنسو اپنے پوروں پر چنتے محبت پاش لہجے میں بولا. ماہ روش کے آنسو تو وہ اب کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا تھا. 

" نہیں آپ مجھ سے ناراض ہیں. ورنہ آپ اِس طرح بے رُخی نہ دیکھاتے. آپ نے ایک بار بھی مجھے خود سے قریب نہیں کیا اِس کا یہی مطلب.."

ماہ روش کی بات پر جہاں ارتضٰی کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ بکھری تھی. وہیں ماہ روش نے زبان دانتوں تلے دباتے اپنی بے اختیاری پر خود کو کوسا تھا. 

" اوہ تو اتنا رونا اِس لیے آرہا ہے میری خوبصورت سی وائف کو. "

ارتضٰی نے ماہ روش کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے خود سے قریب کیا تھا. اور ماہ روش کے خفت سے سُرخ پڑتے چہرے پر جھکتے اُس کے ایک ایک نقش کو اپنے ہونٹوں سے چھونے لگا تھا. 

ارتضٰی کی جان لیوا قربت پر ماہ روش کی سانسیں تیز سے تیز تر ہوئی تھیں. اُس کے ہونٹوں کا پر شدت لمس ماہ روش کی جان نکال رہا تھا. ارتضٰی ماہ روش کی حالت کی پرواہ کیے بغیر اُس کے چہرے پر پے در پے اپنے ہونٹوں کے نشان چھوڑتا اُس کی گردن پر جھکا تھا. اور ہاتھ بڑھاتے اپنی راہ میں حائل ماہ روش کی بلیک شال کو اُس کی گردن سے جدا کرتے وہاں بھی اپنی محبت کے پھول کھلاتا چلا گیا تھا. 

ارتضٰی نے چند ہی منٹوں میں ماہ روش کو بے حال کرکے رکھ دیا تھا. 

" سر پلیز... "

بہت دیر بعد ماہ روش لڑکھڑاتی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ پائی تھی. 

" کیا ہوا اتنی جلدی گھبرا گئی. ابھی تو میں نے اچھے سے بتایا ہی نہیں کہ میں  ناراض نہیں ہوں. "

ارتضٰی ماہ روش پر رحم کھاتے پیچھے ہٹا تھا. مگر پھر بھی شوخ نظروں سے دیکھتے اُسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا. جو گہرے گہرے سانس لیتی ٹھیک سے اُسے گھور بھی نہیں پائی تھی. 

" میرا وہ مطلب نہیں تھا. آپ بہت بُرے ہیں مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی. "

ماہ روش ارتضٰی کی بے باک نظروں سے گھبراتی اُس سے دو قدم دور ہوئی تھی. 

جب اُس کے بغیر ڈوپٹے کے حسین سراپے پر  پرشوق نظریں گاڑھے ارتضٰی اُس کی طرف بڑھا تھا. 

" ابھی تو مزید بُرا بننا ہے مجھے اور دور کہاں جارہی ہو. یہاں آؤ میرے پاس میری گزری رات کا حساب کون دے گا. "

ارتضٰی ماہ روش کو اُلٹے قدموں پیچھے جاتے دیکھ اُسے وارن کرتے بولا. 

جس پر ماہ روش نے کھلکھلاتے نفی میں سر ہلایا تھا. مگر اِس کے بعد وہ مزید ایک قدم بھی پیچھے نہیں بڑھا پائی تھی کیونکہ ارتضٰی نے ایک ہی جست میں اُس کی طرف اپنا بازو بڑھاتے اُسے واپس اپنے قریب کھینچ لیا تھا. 

" کل مجھے گلزار کے رُوپ میں دیکھ کر تمہیں زرا سا بھی شبہ نہیں ہوا مجھ پر. "

ارتضٰی اُسے اپنے بے حد قریب کرتے سینے میں بھینچتے ہوئے بولا. آنکھوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھ رہی تھی. پچھلے دو دن ماہ روش کے بغیر اُس نے کیسے گزارے تھے یہ وہی جانتا تھا. یہ لڑکی خون بن کر اُس کی رگوں میں دوڑنے لگی تھی. جس کے بغیر اُسے اب یہ زندگی بے معنی لگتی تھی. 

" نہیں اِس دل نے آپ کے آس پاس ہونے کی گواہی دی تھی مجھے. آپ کو پتا ہے میں یہاں اتنے آرام سے کیسے آگئی. اِس لیے کہ میں جانتی ہوں میں جہاں بھی جاؤ گی بلکل محفوظ ہوں. میرا شوہر میری جان اور عزت کا محافظ ہر جگہ سائے کی طرح میرے ساتھ ہوگا. اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا. 

جس تحفظ کے احساس کو میں بچپن سے ترس رہی ہوں. اُس کا احساس مجھے آپ نے کروایا ہے. آپ کے مل جانے سے مجھے زندگی کی ہر خوشی مل گئی ہے."

ماہ روش ارتضٰی کے پیروں پر پیر رکھے اُس کے سینے پر ٹھوڑی ٹکائے محبت بھرے لہجے میں اپنے دل کی بات کہتی ارتضٰی کو مبہوت کر گئی تھی. ارتضٰی نے جھک کر مسکراتے ماہ روش کے گلابی بھرے بھرے گالوں کو چوم لیا تھا. 

" میں وعدہ کرتا ہوں میری جان تمہارا یہ محافظ ہمیشہ ایسے ہی تمہارے آگے کھڑا رہے گا. کوئی بُری نظر کوئی دکھ و غم تمہارے قریب بھٹک نہیں پائیں گے. "

ارتضٰی کی مسکراہٹ پر ماہ روش اُس کے ڈمپل دیکھ مبہوت ہوئی تھی. جب ارتضٰی نے اُس کی یہ حرکت نوٹ کرتے اپنے گال اُس کے سامنے کیے تھے. 

اور آج ماہ روش نے بھی اپنی ساری جھجھک سائیڈ پر رکھتے ارتضٰی کے گڑھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھو لیا تھا. وہ ہمیشہ سے دیوانی رہی تھی اِن کی اور آج اُن کو چھو بھی لیا تھا. 

وہ دونوں اِس وقت ایک دوسرے کی قربت میں مدہوش یہ بھول چکے تھے کہ وہ اِس وقت کہاں موجود ہیں. جب اچانک دروازے پر ہونے والی دستک نے اُنہیں اپنی طرف متوجہ کیا تھا. 

مگر جیسے ہی دستک دینے والے کی آواز ارتضٰی کے کانوں سے ٹکرائی وہ ارتضٰی کی سرد پڑتی آگ کو پھر سے ہوا دے گئی تھی. ہمایوں دستک دینے کے ساتھ ساتھ ماہ روش کا نام بھی پکار رہا تھا. 

" اِس کمینے کی اتنی جرأت اِس وقت میری بیوی کے کمرے میں آنے کی ہمت کیسے کی اِس نے. "

ارتضٰی بھسم کرنے والے انداز میں دروازے کی طرف بڑھا تھا. جب جلدی سے ماہ روش نے اُس کو بازو سے تھام کر روکا تھا. 

" ارتضٰی آپ کیا کررہے ہیں. اگر اُس نے آپ کو اِس طرح میرے کمرے میں دیکھ لیا تو ہمارا سارا پلان خراب ہوسکتا ہے. آپ پلیز رُک جائیں. "

ماہ روش ارتضٰی کو طیش کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ جلدی سے سامنے آتے بولی. 

" نہیں میں اِس خبیث کو آج سبق سیکھا کر ہی رہوں گا."

ارتضٰی اِس وقت ماہ روش کی کوئی بات بھی سننے کو تیار ہی نہیں تھا. اُس کے سر پر تو ہمایوں کو ختم کرنے کا خون سوار ہوچکا تھا. 

اِس سے پہلے کے ارتضٰی دروازے تک پہنچ کر لاک اوپن کرتا ماہ روش نے ایک بار پھر اس کے آگے آتے اُسے کالر سے پکڑ کر اپنے ہونٹ ارتضٰی کے ہونٹوں پر رکھ دیے تھے.  ارتضٰی ماہ روش کے عمل پر اپنی جگہ ساکت ہوا تھا. 

ماہ روش کی کمر دروازے سے لگی ہوئی تھی. اور آنکھیں بند کیے وہ ہولے ہولے کانپتے ارتضٰی سکندر کو روکنے میں کامیاب ہوچکی تھی. 

ارتضٰی کے رُک جانے اور باہر سے بھی دستک کا سلسلہ ختم ہوتا محسوس کرتے ماہ روش نے ارتضٰی سے الگ ہونا چاہا تھا. مگر اب ارتضٰی اُسے چھوڑنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا. 

وہ جانے انجانے میں اُس کی شدتوں کو بھڑکا گئی تھی. اور اب اپنی جلدبازی اور مصلحت میں اُٹھائے گئے اقدام کا انجام اُس کو اندر تک کانپنے پر مجبور کر گئی تھی. 

" یار مجھے نارمل کرنے کے یہ اتنے زبردست طریقے کہاں سے سیکھے تم نے. "

ارتضٰی کافی دیر تک ماہ روش کے اندر  اپنی سانسیں اُنڈیلنے کے بعد اُسے آزاد کرتے بولا.

جو اپنی الجھی بکھری سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ارتضٰی کے سینے پر سر رکھے ہوئے تھی. 

جس طرح ارتضٰی غصے میں دروازے کی طرف بڑھا تھا. ماہ روش کو سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہوا تھا.

اِس لیے اُس وقت جو دماغ میں آیا اُس نے ارتضٰی کو روکنے کے لیے کردیا تھا. مگر اب وہ حیا کے مارے ارتضٰی سے نظریں بھی نہیں ملا پارہی تھی.

" اوکے اب میں چلتا ہوں. اپنا بہت سا خیال رکھنا اور اِس شخص کا تو میں ایسا بندوبست کروں گا کہ دوبارہ تمہاری طرف تو کیا کسی بھی لڑکی کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر پائے گا.

اور ہاں تم میرے آنے سے پہلے جہاں جانے کی تیاری کر رہی تھی. وہاں اِس وقت جانا خطرے سے خالی نہیں ہے. وہاں جانے کا صحیح ٹائم صبح کے چھ بجے ہے. کیونکہ اُسی دوران وہاں پر پہرے پر موجود گارڈ تبدیل ہوتے ہیں.  اِس وقت سب سے زیادہ سیکیورٹی ہوتی ہے وہاں. "

ارتضٰی ماہ روش کو اپنے سینے میں بھینچ کر اُس کے ماتھے پر ہونٹ رکھتے بہت ضروری ہدایات دیتے اُس سے دور ہوا تھا. جب اُس کے جانے پر ماہ روش کی آنکھوں میں اُداسی سی چھا گئی تھی. 

مگر چہرے پر مسکراہٹ سجائے ماہ روش نے ہاتھ ہلاتے اُسے خدا حافظ کہتے رخصت کیا تھا. جو جاتے جاتے بھی اُس کی بہت مدد کر گیا تھا. 

ماہ روش جانتی تھی ارتضٰی اِس وقت تو اُس کی پریشانی کی وجہ سے رُک گیا تھا. مگر وہ ہمایوں کو اب کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا. 

ماہ روش کا دل ارتضٰی کی سلامتی کے لیے دعا گو تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ریحاب کو سوتا دیکھ صائمہ بیگم اُس کے اُوپر کمبل ٹھیک کرتیں لائٹ آف کرتیں اُس کے کمرے سے نکل گئی تھیں. 

آج تیسرا دن تھا ارحم کی ابھی تک کوئی خبر نہیں ملی تھی. ریحاب نے اتنی ٹینشن لی تھی کہ کل رات کو نروس بریک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہ اپنے روم میں  بے ہوش ہوکر گرگئی تھی. 

مسلسل پندرہ گھنٹوں کی بے ہوشی کے بعد اُسے ہوش آیا تھا. مگر اب بھی ارحم کو بار بار پکارتے اور روتے اُس کی حالت مزید بگڑ رہی تھی. صائمہ بیگم نے اُس کو بہت مشکل سے تھوڑا سا سوپ پلا کر میڈیسن دی تھی تاکہ اُس کا دماغ تھوڑا سا ریلیکس ہو جائے. 

ریحاب نیند کی آغوش میں تھی جب اُسے محسوس ہوا تھا. کہ ارحم اُس کے بہت قریب ہے. اُسے اپنے چہرے پر مانوس سا لمس محسوس ہوا تھا. اُس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنی چاہی تھی. مگر وہ نجانے کیوں کر ہی نہیں پارہی تھی. 

اُس نے روتے ہوئے ارحم کو پکارا تھا اور بہت کوشش کے بعد آخر کار آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہوتے وہ اُٹھ بیٹھی تھی. مگر ارحم وہاں کہیں موجود نہیں تھا. ریحاب کی امید سے جگمگاتی آنکھیں پھر سے ویران ہوئی تھیں. دیوانوں کی طرح اردگرد دیکھتے ریحاب نے ارحم کو ڈھونڈنا چاہا تھا. لیکن وہ وہاں کہیں موجود نہیں تھا. دروازہ ہنوز بند تھا. کھڑکی پر بھی ویسے ہی پردے گرے ہوئے تھے. 

بہت سے آنسو ٹوٹ کر ریحاب کے چہرے کو بھگوتے چلے گئے تھے. وہ بے دم سی ہوتی واپس بستر پر گری تھی. 

" کہاں ہیں ارحم آپ پلیز لوٹ آئیں پلیز. نہیں رہ سکتی میں آپ کے بغیر. مر جاؤ گی میں. واپس آجائیں خدا کے لیے واپس آجائیں آپ کی ہر بات مانوں گی کبھی آپ کو ہرٹ نہیں کروں گی. "

ریحاب ہچکیوں کے درمیان روتے ارحم کو پکاری جارہی تھی. 

" یاﷲ جی ہمیشہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ایسا. کیوں تمام آزمائشیں میری زندگی میں ہی لکھ دی گئی ہیں. میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں مگر پلیز ارحم کو مجھ سے مت چھینے گا."

ریحاب گرگراتے اُوپر والے سے فریاد کرتے ارحم کے واپس لوٹنے کی دعائیں مانگ رہی تھی. مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کی سنی جائے گی یا ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے گا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" تمہیں کہا تھا میں نے کہ میرے ساتھ زرا بھی ہوشیاری کرنے کی کوشش مت کرنا. ورنہ تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں. بولو ذوالفقار ہمارے خفیہ ٹھکانے تک کیسے پہنچا. ارحم کے بارے میں کیسے پتا چلا اُسے. "

ارتضٰی سوہا کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچتے اُس پر دھاڑا تھا. 

سوہا پچھلے چار دنوں سے غائب تھا. ارتضٰی کو پہلے ہی اُس کی طرف سے کسی گڑبڑ کا اندازہ ہوچکا تھا. مگر برہان کی بازیابی اور ارحم کی گمشدگی اُس کو سوہا کی طرف سے مکمل طور پر مشکوک کر گئی تھی. 

اِس لیے تین دنوں کی تلاش کے بعد آج آخر کار سوہا کو ڈھونڈ نکالا تھا. 

ارتضٰی کی نظروں میں موجود چنگاریاں دیکھ وہ سمجھ گئی تھی کہ اُس کا انجام قریب ہے. 

" میجر صاحب جھوٹ نہیں بولوں گی میں آپ سے. میں بہت مجبور تھی. میرا باپ اور بھائی اُس کے قبضے میں تھے. وہ اُنہیں مار دیتا اِس لیے مجبوراً مجھے ایسا کرنا پڑا. "

سوہا سر جھکائے روتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کر گئی تھی. اور وہیں ارتضٰی کی سانسیں تھمی تھیں. مطلب اُس کے پوری ٹیم خطرے میں تھی. 

" کیا کیا بتایا ہے تم نے. جلدی بولو. "

ارتضٰی کے چلانے پر سوہا مزید سہمی تھی. کیونکہ اُس کے پیچھے کھڑی ارتضٰی کی فی میل اہلکار اُس کی پہلے ہی چمڑی اُدھیر چکی تھیں. اور ابھی بھی ارتضٰی کے ایک اشارے کی منتظر تھیں.

" کیپٹن ارحم, میجر جاذل اور کیپٹن زیمل کے بارے میں تمام انفارمیشن دے چکی ہوں میں اُن کو. اور اب کیپٹن ارحم کے بعد میجر جاذل اور کیپٹن زیمل پر حملہ کرنے کا  ارادہ رکھتے ہیں وہ. "

سوہا کی بات پر ارتضٰی نے اُس کی گردن کو اپنی ہاتھ میں بُری طرح دبوچ لیا تھا. اُس کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے. 

" ماہ روش کے بارے میں کیا بتایا ہے تم نے. "

ارتضٰی نے اُس کی گردن کو آزاد کرتے اپنا آخری سوال پوچھا تھا. 

جب بُری طرح کھانستے تکلیف کے باوجود بھی سوہا مسکرائی تھی. 

" فکر مت کریں میجر صاحب آپ کی محبت بلکل محفوظ ہے. آپ کے لیے یہ بات مضحکہ خیز ہی ہوگی مگر بہت محبت ہوگی ہے آپ سے. اِس لیے اپنی محبت اور اُس کی محبت پر آنچ آتے نہیں دے سکتی تھی میں اِس لیے آپ دونوں کا نام تک نہیں بتایا اُن لوگوں کو. "

سوہا کے منہ سے محبت نام سنتے ارتضٰی کو یہ لفظ بھی اِس وقت انتہائی بُرا لگا تھا. 

جب اُس کی کسی بات کا جواب دیے بغیر وہ پیچھے کھڑی اہلکارز کو اشارہ کرتا وہاں سے نکل گیا تھا. جب پیچھے سوہا کی دلخراش چیخیں ہر طرف پھیل گئی تھیں. 

ارتضٰی وہاں سے نکل کر بھاگتے ہوئے اپنی گاڑی میں آبیٹھا تھا. اور ساتھ ہی جاذل کا نمبر ٹرائے کیا تھا. ارتضٰی کا دل بس یہی دعا کررہا تھا. کہ جاذل ابھی تک ذی ایس کے پلازہ میں داخل نہ ہوا ہو. مگر اُس کا نمبر مسلسل بند مل رہا تھا. جس کا مطلب تھا جاذل وہاں پہنچ چکا ہے. 

ارتضٰی نے زیمل کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر اُس کی طرف سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہورہا تھا. جس پر ارتضٰی کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی. 

وہ گاڑی کی سپیڈ تیز سے بھی تیز تر کرتا گیا تھا تاکہ جلد از جلد وہاں پہنچ سکے. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

جاذل آج سونیا کے بلانے پر ذی ایس کے پلازہ میں پہنچ چکا تھا. وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے. مگر یہاں آنے سے پہلے وہ خود کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار کرکے آیا تھا. 

زیمل اُس سے ناراض تھی کیونکہ وہ بھی جاذل کے ساتھ جانا چاہتی تھی. مگر جاذل کے کہنے پر ارتضٰی کے منع کرنے پر وہ جاذل پر غصہ تھی. اور وہ اِس وقت اِس بات سے لاعلم تھی کہ جاذل وہاں جاچکا ہے. 

" ہائے ہینڈسم ."

سونیا وہاں داخل ہوتے چہکتے ہوئے بولی. اُس کو اندر داخل ہوتے دیکھ جاذل اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا. جب وہ سیدھی اُس کے سینے سے آلگی تھی. جاذل نے اُس کے گرد بازو کا حصار باندھتے اُس کی وارفتگی کا جواب دیا تھا. 

" میں بتا نہیں سکتی جاذل تمہیں یہاں دیکھ کر میں کتنی خوش ہوں. اور جس وجہ سے میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے. میں اچھے سے جانتی ہوں اُسے سن کر تمہیں بھی بہت خوشی ہوگی. "

سونیا جاذل کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے کہا. 

جبکہ جاذل اُس کے انداز سے چونکا تھا. اُسے سونیا آج کافی بدلی بدلی لگ رہی تھی. 

رئیلی ایسی کون سی بات ہے. جس سے میں اتنا خوش ہو جاؤں گا."

جاذل نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اُس کے گرد بازوؤں کا حصار قائم کیا تھا. 

سونیا اپنے اتنے سارے گارڈز کی موجودگی میں بھی بے باکی کی انتہاؤں پر تھی. 

" وہ بھی بہت جلد پتا چل جائے گی اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے. "

سونیا جاذل کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے بولی. جب دو تین  گارڈز کے ساتھ برہان وہاں داخل ہوا تھا. برہان کے سر اور ہاتھوں پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی. 

جاذل کا دل چاہا تھا ابھی اِس کی گردن دبوچ لے اور اِس سے ارحم کے بارے میں ہر بات اُگلوا لے. مگر برہان کو دیکھ وہ صرف مُٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا. کیونکہ اِس وقت وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا. 

برہان کو دیکھ سونیا خوشی سے اپنی جگہ سے اُٹھتی اُس کی طرف بڑھی تھی. 

برہان نے بھی گہری نگاہوں سے جاذل کی طرف دیکھا تھا. 

" بھیا یہ ہے جاذل. وہ شخص جس سے میں بہت زیادہ پیار کرتی ہوں. یہ اِس دنیا کا وہ واحد شخص ہے جو میرے معیار پر پورا اترتا ہے. "

سونیا برہان کے بازو سے لگی جاذل کی طرف اشارہ کرتے بولی. جس پر برہان نے آگے بڑھتے جاذل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا. 

" جاذل یہ میرے بھائی ہیں برہان. "

جاذل نے رسمی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے اُس کے ہاتھ کو تھام لیا تھا. 

" بہت اچھا لگا آپ سے مل کر مسٹر جاذل ابراہیم. سونیا نے بتایا آپ ایک بزنس مین ہیں. کیا ایسا ہی ہے. "

برہان کے چہرے کے تاثرات جاذل کو کافی حد تک مشکوک کر گئے تھے. پہلے سونیا اور اب برہان جاذل کی چھٹی حس اُسے کچھ غلط ہونے کا الارم دے رہی تھی. جاذل نے غیر محسوس انداز میں کلائی پر بندھی گھڑی کا بٹن پریس کر دیا تھا. جس میں موجود خفیہ سسٹم سے وہ ارتضٰی سے کنٹیکٹ کرسکتا تھا. 

ورنہ یہاں داخل ہوتے وقت اُس سے موبائل فون اور باقی چیزیں لے لی گئی تھیں. یہ بظاہر نارمل دکھنے والی گھڑی اور ایک گن ابھی بھی جاذل نے خفیہ طور پر اپنے پاس چھپا رکھی تھی. 

" سیم ہیئر. جی میں ایک بزنس مین ہوں. کیوں آپ کو یقین نہیں آرہا اِس بات پر. "

جاذل نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا تھا. 

" نہیں اب بہن آپ کے حوالے کرنے سے پہلے میں اتنا جاننے کا تو حق رکھتا ہوں نا."

برہان کی بات پر جاذل نے چونک کر سونیا کی طرف دیکھا تھا. جو محبت لُٹاتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی. 

" کیا مطلب میں سمجھا نہیں. "

جاذل نے ناسمجھی سے اُن دونوں بہن بھائیوں کی طرف دیکھا تھا. جس پر وہ دونوں ہی معنی خیزی سے مسکرا دیے تھے. 

" ارے سونیا تم نے اِن کو ابھی تک بتایا نہیں کہ آج اور ابھی آپ دونوں کا نکاح ہے. "

برہان نے مسکراتے جو بات کی تھی. وہ جاذل کے لیے کسی خودکش حملے سے کم نہیں تھی. 

اتنے شدید جھٹکے کے باوجود بھی جاذل نے اپنے چہرے کے تاثرات نارمل ہی رکھے ہوئے تھے. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارتضٰی جنرل یوسف کو کال کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کر چکا تھا. اور اُنہیں جلد از جلد فورسز کو تیار کرنے کا کہا تھا. کیونکہ ابھی اور اِسی وقت اُسے ذی ایس کے پلازہ پر ریڈ کرکے ذوالفقار کا کام تمام کرنا تھا. اور ساتھ ہی اپنی ٹیم کو وہاں سے بحفاظت نکالنا تھا. 

ارتضٰی مسلسل ماہ روش سے رابطے میں تھا. اُس نے ماہ روش کو مختصراً ساری بات بتا دی تھی. اور اُسے احتیاط سے اُوپر جانے کا آرڈر دے دیا تھا. تاکہ ذوالفقار کے اب تک کے کیے سارے کالے کرتوتوں کے ثبوت اکٹھے کر سکے. 

اُن لوگوں کو اتنا تو کنفرم ہوچکا تھا کہ وہ سارے ثبوت اِس وقت ذی ایس کے پلازہ میں ہی موجود ہیں. ماہ روش کے اشارے پر ہی ارتضٰی نے آرمی اور رینجرز اہلکارز کو ذی ایس کے پر حملہ کرنے کا سگنل دینا تھا. 

لیکن اپنی ٹیم کو مشکل میں دیکھ ارتضٰی باہر نہیں رہ سکتا تھا. اِس لیے وہ واپس گلزار کا گیٹ اپ اپناتے پلازہ میں داخل ہوچکا تھا. مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جاذل اِس وقت کس پورشن پر موجود ہے. 

ارتضٰی کی فکرمندی میں مزید اضافہ تب ہوا تھا. جب اُسے زیمل کی گمشدگی کی خبر ملی تھی. مگر سوہا کی دی گئی انفارمیشن کے بعد وہ اتنا تو سمجھ چکا تھا کہ یہ کام ذوالفقار کا ہی ہے. اور اُسے کہیں نہ کہیں لگ رہا تھا کہ زیمل بھی یہی پر ہی موجود ہے. 

اور پھر اگلے ہی کچھ منٹوں بعد اُسے ایک اہلکار کی طرف سے یہ پتا چلا تھا. کہ زیمل کے ہاتھ میں لگی چِپ اِسی جگہ کی لوکیشن شو کررہی ہے. 

" میجر ارتضٰی سکندر تمہیں آج ہر صورت کامیاب لوٹنا ہوگا. مجھے آج ہر حال میں ذوالفقار زندہ سلامت تمام ثبوتوں کے ساتھ چاہئے. اور ہاں تم سمیت میرے باقی پانچ آفیسرز کو کچھ نہیں ہونا چاہئے.

اِس وقت تم پر بہت سے کاموں کی ذمہ داری ہے. اور میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ کی طرح اِس مشن میں بھی سُرخرو لوٹو. کیونکہ یہ جنگ تم نے صرف اپنے ملک کی خاطر نہیں بلکہ اپنے خاندان کے اپنے باپ کی خاطر لڑنی ہے. تمہیں کچھ بھی کرکے اِسے جیتنا ہوگا. "

ارتضٰی کے کانوں میں ابھی تھوڑی دیر پہلے کی جنرل یوسف کی کہیں ساری باتیں گونج رہی تھیں. جو اُس کا حوصلہ کئی گنا بڑھا گئی تھیں. 

ارتضٰی تک جاذل کی تمام گفتگو پہنچ رہی تھی. جاذل تو نہیں مگر ارتضٰی اب اُن دونوں بہن بھائیوں کی چلائے جانے والی چال اچھے سے سمجھ رہا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

" اتنی جلدی نکاح مگر کیوں میری تو سونیا سے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی. "

جاذل نے سونیا کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تھا. 

" جاذل میں تم سے پیار کرتی ہوں. تم مجھ سے کرتے ہو. نکاح تو ہم نے ایک دن کرنا ہی تھا نا تو پھر آج کیوں نہیں. "

سونیا صوفے پر اُٹھ کر جاذل کے قریب آتے بولی. جبکہ دوسری طرف ارتضٰی تک یہ ساری گفتگو بآسانی پہنچ رہی تھی. 

" میں مانتا ہوں تمہاری بات ایسا ہی ہے. مگر اتنی جلدی یہ سب کیسے میں ابھی مینٹلی طور پر اِس بات کے لیے تیار نہیں ہوں. تمہیں اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے ایک بار مجھ سے ڈسکس تو کر لینا تھا. "

جاذل کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کا ابھی اِسی وقت گلا دبا دے. وہ سوچ بھی کیسے سکتی تھی. کہ جاذل ابراہیم اپنی زیمل کے ساتھ اتنی بڑی نا انصافی کرے گا. چاہے مشن میں ہی سہی مگر جاذل کا دل ایسا کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا. زیمل کی جگہ وہ کسی کو نہیں دے سکتا تھا. 

" جاذل یہی وجہ ہے انکار کی یا کوئی اور بات ہے. "

اچانک سونیا کی آنکھوں کا رنگ بدلہ تھا. اُس کی بات پر برہان نے بھی سوالیہ انداز میں جاذل کی طرف دیکھا تھا. 

" کیا مطلب اور کیا ریزن ہوسکتا ہے. "

جاذل کو سونیا کا انداز کسی اور بات کی طرف اشارہ کررہا تھا. 

" یہ تو تمہیں پتا ہوگا نا جاذل ابراہیم."

برہان خاموشی سے جاذل کے ایکسپریشنز نوٹ کرنے میں لگا ہوا تھا.

" سونیا تمہیں اچانک ہو کیا گیا ہے. تم مجھے جانتی ہونا کہ میں کیسا ہوں. "

جاذل نے سونیا کا ہاتھ تھامتے سچویشن کو سنبھالنا چاہا تھا. کیونکہ وہ ابھی شیور نہیں تھا کہ یہ لوگ اُس کی سچائی جان چکے ہیں یا نہیں. 

" یہی تو غلط فہمی تھی مجھے کہ میں جانتی ہوں تمہیں. "

سونیا نے معنی خیزی سے کہتے پاس کھڑے اپنے آدمی کو اشارے سے قریب بلایا تھا. 

جس نے آگے بڑھتے نکاح کے پیپرز جاذل کے سامنے رکھ دیے تھے. 

" سونیا تم اِس طرح زبردستی یہ سب نہیں کرسکتی. میں کسی صورت یہ سب نہیں کروں گا. "

جاذل غصے سے بھڑکا تھا. 

سونیا نہیں جانتی تھی وہ کس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہے. 

" جاذل کول ڈاؤن اپنے جذبات پر قابو رکھو. "

جاذل اِس سے پہلے کے کچھ اور کہتا ارتضٰی کی تنبیہی آواز اُس کے کان میں لگے باریک سے مائیکرو فون میں سنائی دی تھی. 

جاذل نے فوراً خود کو نارمل کیا تھا. 

" ایسا تو تمہیں کرنا پڑے گا. پیار کرتی ہوں میں تم سے اب تم چاہ کر بھی مجھ سے دور نہیں جاسکتے.

اور تمہارے اِس انکار کا حل بھی موجود ہے میرے پاس. بلکہ ایک ایسا سرپرائز موجود ہے میرے پاس جسے دیکھ تم انکار کر ہی نہیں پاؤ گے. "

سونیا نے جاذل کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے بے باکی سے کہا. جاذل کو بس نہیں چل رہا تھا اِس بے شرم لڑکی کی عقل ٹھکانے لگا دے. 

جب سونیا کے اشارے پر اُس کے آدمی جس ہستی کو رسیوں میں جکڑے اندر لائے تھے اُسے دیکھ جاذل کے سامنے زمین آسمان گھوم گئے تھے. 

" کیسا لگا میرا سرپرائز میجر جاذل ابراہیم. "

سونیا نے جاذل کی پھٹی پھٹی آنکھوں میں جھانکتے کہا. 

زیمل کو رسیوں میں پوری طرح سے جکڑا گیا تھا. اور وہ خاموش نظروں سے جاذل کو سونیا کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہی تھی. 

" آپ کو کیا لگا تھا. میجر جاذل سونیا کو بے وقوف بنانا اتنا آسان ہے. ساری اصلیت جان گئی ہوں میں آپکی. جسے اپنا پی اے بنا کر ساتھ ساتھ رکھا وہ تو آپ کی محبت آپکی بیوی نکلی. بہت اچھا کھیل کھیلا ہے آپ نے میرے ساتھ. 

اِس لیے اب میری باری ہے. بے شک آپ نے مجھ سے جھوٹی محبت کی ڈرامہ کیا ہو. مگر میں سچی محبت کرتی ہوں آپ سے. اِس لیے نکاح تو آپ کا مجھ سے ضرور ہوگا. اگر آپ نے انکار کیا تو آپ کی یہ پیاری بیوی جان سے جائے گی. "

جاذل سونیا کی بات سنتا خاموش نظروں سے زیمل کی طرف دیکھ رہا تھا. جو رسیوں میں جکڑے ہونے کے باوجود مسلسل نفی میں سر ہلاتے اُسے ایسا کچھ بھی کرنے سے روک رہی تھی. زیمل کے اُوپر تین تین آدمی گنز تانے کھڑے تھے. مگر اُسے پرواہ کہاں تھی. وہ تو بس جاذل کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی.

سونیا کو جاذل کے اتنے قریب بیٹھا دیکھ زیمل کا دل چاہا تھا. ابھی اُس لڑکی کو شوٹ کردے. 

زیمل آج صبح ریحاب سے ملنے گئی تھی. جب وہاں سے واپسی پر اُس کی گاڑی کو چار گاڑیوں نے گھیر لیا تھا. اور بہت مقابلے کے باوجود بھی زیمل کو اُن گاڑیوں میں سوار تیس لوگوں نے یرغمال بنا لیا تھا. 

اور زیمل کو رسیوں میں جکڑ کر اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ذی ایس کے پلازہ لایا گیا تھا. 

مگر زیمل کو بلکل بھی آئیڈیا نہیں تھا کہ آگے اُس کو یہ سچویشن فیس کرنی پڑے گی.

جاذل زیمل کو اِس حال میں نہیں دیکھ سکتا تھا. اور ارتضٰی اِس بات سے اچھے سے واقف تھا. اِس لیے اِس سے پہلے کہ جاذل کوئی حرکت کرتا. ارتضٰی جلدی سے بول پڑا. 

" جاذل وہ لوگ جو کہتے ہیں چپ کرکے کرتے جاؤ. یوں سمجھو ذیمل بلکل سیف ہے. تمہیں بس اُن کا دھیان بٹا کر ٹائم ضائع کرنا ہے. 

مجھ پر بھروسہ رکھو وعدہ ہے میرا تم سے زیمل کو کچھ نہیں ہوگا. زیمل کے ساتھ دائیں طرف کھڑا شخص ارحم ہے. وہ زیمل کو کچھ نہیں ہونے دے گا. اور میں بھی تم لوگوں کے آس پاس ہی موجود ہوں."

ارتضٰی کی آواز ایک بار پھر مائیکروفون سے اُبھری تھی. جس پر فوراً جاذل نے مختلف گیٹ اپ میں موجود زیمل پر گن تانے کھڑے ارحم کی طرف دیکھا تھا. جس نے آنکھوں کے اشارے سے اُسے اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا. 

" زیمل بھی ارحم کے بارے میں کچھ نہیں جانتی."

ارتضٰی کی آواز اب مائیکروفون سے آنا بند ہوچکی تھی. 

" جاذل آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے. ورنہ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی. "

زیمل جاذل کو پین اُٹھاتے دیکھ چلائی تھی. 

مگر جاذل زیمل کو بچانے کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر سکتا تھا اور یہ تو پھر بہت پیچھے آتا تھا.

سونیا کو زیمل کا چیخنا چلانا بہت مزا دے رہا تھا. 

ارحم خاموش نظروں سے بس یہ منظر ہی دیکھ سکتا تھا. مگر اِس وقت زیمل کو کچھ بھی نہیں بتا سکتا تھا. 

ارحم پچھلے تین دن سے ذی ایس کے کے آدمی کے گیٹ اپ میں ہی اِن سب کے درمیان موجود تھا. 

اُس رات زیمل سے مل کر جب وہ گھر کے لیے نکل رہا تھا. تب اُس کو اپنے ایک آدمی سے خفیہ ٹھکانے پر جہاں برہان کو رکھا گیا تھا وہاں حملہ ہوجانے کا پتا چلا تھا. جس پر ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے ارحم وہاں پہنچا تھا. 

لیکن جیسے ہی ارحم نے وہاں قدم رکھا دشمن اُس جگہ کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے. اور پوری شدت سے ارحم پر گولیاں کی بوچھاڑ کر دی گئی تھی. لیکن ارحم نے اُن کی سازش اُنہیں پر ہی اُلٹ دی تھی. بہت ہی پُھرتی سے اپنی گاڑی سے نکل کر ارحم نے اُن کے ایک آدمی کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا. اور اُس کے گیٹ اپ میں آتے ارحم نے اُسے مار کر گاڑی میں ڈال دیا تھا. گالی پر اتنی فائرنگ کی گئی تھی کہ آگ لگ جانے کی وجہ سے اندر موجود انسان کی ڈیڈ باڈی کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوچکا تھا. 

ذی ایس کے نے اپنے آدمیوں سے کہہ کر ارحم کی ڈیڈ باڈی بھی وہاں سے نکال لی تھی. تاکہ ایجنسی والے اُس کو گمشدہ سمجھ کر صرف اُس کی تلاش میں لگے رہیں. اتنا تو اُسے علم تھا کہ اِن لوگوں کے لیے اپنا ایک ایک آدمی کتنا قیمتی تھا. مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ایک آدمی بھی اُس کو کتنا بڑا بے وقوف بنا گیا تھا. 

اپنے ہی دشمن کو وہ اپنا آدمی سمجھ کر ساتھ لے آیا تھا.  ارحم اپنی ٹیم سے رابطہ کرکے انہیں اپنی خیریت کا بتانا چاہتا تھا. اور سب سے زیادہ ٹینشن اُسے ریحاب اور اپنے پیرنٹس کی تھی. جن کا اُس کی گمشدگی کا سن کر کتنا بُرا حال ہوا تھا. 

بہت کوششوں کے بعد بہت ہی محتاط انداز میں سب لوگوں سے چھپ کر ارحم کل ہی ارتضٰی سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا. اور اُس کے بارے میں جان کا ارتضٰی کو لگا تھا. اُس کی آدھے سے زیادہ ذمہ داری پوری ہوچکی ہے. ارحم کی آواز اور اُس کا کارنامہ سن کر ارتضٰی کا جوش مزید بڑھ چکا تھا. 

اُسے ارحم کی ذہانت اور اُن کی چال بہت ہی بہادری سے اُن پر اُلٹنے پر اُس پر بہت زیادہ پراؤڈ فیل ہوا تھا. 

بہت ہوشیاری کے ساتھ ارحم یہاں موجود تھا. اور یہاں کی بہت سی خبریں ارتضٰی تک پہنچا رہا تھا. کسی کو اُس پر زرا سا بھی شک نہیں ہو پایا تھا. 

ارتضٰی نے ارحم کو جاذل اور زیمل کے حوالے سے الرٹ کردیا تھا. جس پر ارحم بہت مشکلوں سے زیمل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا. اور ارتضٰی کو زیمل کو پروٹیکٹ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی. 

ارحم نے زیمل کو کوئی اشارہ نہیں دیا تھا. اُسے ابھی صحیح موقع کی تلاش تھی. کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا اُس کی زرا سی بھی غلطی زیمل کے لیے خطرے کا باعث بنے. 

" جاذل رک جائیں آپ یہ نکاح نہیں کرسکتے. میں کبھی بات نہیں کروں گی آپ سے. "

زیمل بغیر کسی سے ڈرے اُونچی آواز میں چیخ رہی تھی.وہ کسی طرح بھی اُسے اِس عمل سے باز رکھنا چاہتی تھی. اُسے پرواہ نہیں تھی کہ وہ کتنے لوگوں کی بندوقوں کی ذد میں ہے. 

مگر جاذل کو اِس وقت صرف زیمل کی زندگی عزیز تھی. وہ پیپرز کے اُوپر پین رکھ چکا تھا. 

" واہ میجر تمہاری بیوی تو بڑی حسین ہے اور کافی بہادر بھی. کیا خیال ہے کچھ دنوں کے لیے میں اِسے اپنے پاس ہی نہ رکھ دوں. "

کب سے خاموشی سے بیٹھ کر ساری صورتحال انجوائے کرتے برہان نے ہوس بھری گندی نظروں سے زیمل کی طرف دیکھا تھا. 

اُس گھٹیا شخص کی بات سنتے جہاں ارحم کا دل چاہا تھا. کہ بندوق کا رُخ زیمل سے ہٹا کر برہان پر کردے. وہیں میجر جاذل ابراہیم کا صبر بھی ختم ہوا تھا . وہ بنا سائن کیے پین کو وہیں پھینکتے زیمل کی طرف قدم بڑھاتے برہان پر جھپٹا تھا.

سونیا اچانک جاذل کے طیش میں آکر اُٹھنے پر اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی.

" رک جاؤ جاذل ورنہ میں تمہاری بیوی کو مار دوں گی. "

جاذل برہان کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اُس کو اپنے چند مکوں سے ہی بے حال کر چکا تھا. 

جب سونیا کی پکار پر وہ پلٹا تھا. 

سونیا جو زیمل پر بندوق تانے کھڑی تھی. جاذل کو نہ رُکتے دیکھ زیمل پر گولی چلا دی تھی. 

 مگر اُس سے پہلے ہی اُنہیں کے آدمیوں کے بھیس میں موجود زیمل پر گن تانے کھڑے ارحم نے زیمل کا بازو پکڑ کر دوسری جانب کھینچا تھا. اور زیمل کی رسی کی ڈھیلی سی باندھی گئی گِرا کھول دی تھی. 

زیمل جلدی جلدی رسیاں خود پر سے ہٹانے لگی تھی. 

سونیا اور برہان کے آدمی اُن پر فائرنگ کھول چکے تھے. مگر وہ وہاں پڑے فرنیچرز کے پیچھے چُھپتے اُن کی فائرنگ کا پورا پورا جواب دے رہے تھے. زیمل بھی خود کو رسیوں سے آزاد کرواتی ارحم کی پھینکی گن اُٹھاتے بہادری سے مقابلہ کر رہی تھی. 

سونیا اچانک بدل جانے والے اِس منظر پر ہکا بکا رہ گئی تھی. جاذل برہان کو بُری طرح سے پیٹ کر زمین پر پھینک کر اپنی گن نکالتا سونیا کی طرف بڑھا تھا. جو پیچھے سے آکر زیمل پر نشانہ باندھ چکی تھی. 

مگر اُس کے گولی چلانے سے پہلے ہی جاذل سونیا پر گولی چلا چکا تھا. سونیا نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے جاذل کی طرف دیکھا تھا. اور اگلے ہی لمحے لڑکھڑا کر زمین بوس ہوئی تھی. گولیوں کی آواز پر باہر سے بہت سے گارڈز اندر داخل ہوئے تھے. 

اُسی لمحے ارتضٰی کے اشارے پر فورسز کے اہلکار ذی ایس کے پلازہ میں داخل ہوگئے تھے. جاذل,  زیمل اور ارحم کو پوری بہادری کے ساتھ اُن کا مقابلہ کر رہے تھے. وہاں سچویشن انڈر کنٹرول دیکھ ارتضٰی ماہ روش کی طرف بڑھا تھا. 

کیونکہ وہ ذوالفقار کو ہڑبڑاہٹ میں اُوپر جاتے دیکھ چکا تھا. جسے اپنی جان اور اپنا ریکارڈ اتنا عزیز تھا کہ وہ حملہ ہوجانے پر اپنی اولاد کو خطرے میں جھونکتا وہاں سے بھاگنے کے چکروں میں تھا.

کیونکہ اُس کے آرڈر پر بلڈنگ کی چھت پر ہیلی کاپٹر تیار ہو چکا تھا. 

مگر وہ نہیں جانتا تھا. اِس بار اُس کا پالا ارتضٰی سکندر اور اُس کی ٹیم سے پڑا تھا. جن کے ہاتھوں سے بچ نکلنا اب اُس کے بس کی بات نہیں تھی. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ماہ روش بہت ہی ہوشیاری سے اپنی ذہانت کا استعمال کرتی اور ارتضٰی کی مسلسل ملتی ہدایات کو فالو کرتے ذوالفقار کی خفیہ لائبریری تک پہنچ چکی تھی. 

مگر پچھلے پندرہ منٹ سے بہت ساری فائلز کنگھالنے کے باوجود وہ اب تک ذوالفقار کے خلاف ثبوت نہیں ڈھونڈ پائی تھی. 

الماریوں میں سے فائلز باہر پھینکتے اچانک ماہ روش کو محسوس ہوا تھا جیسے الماری کے پیچھے والی دیوار میں کچھ عجیب پن تھا. وہاں موجود باقی فائلز بھی نیچے گراتے ماہ روش نے اُس دیوار پر دباؤ ڈالتے اُسے ہلانا چاہا تھا. 

جب اُس کی بہت بار کی کوشش سے کافی دیر بعد جاکر وہ لکڑی کی بنائی گئی دیوار وہاں سے زرا سی کھسکی تھی. جسے دیکھ ماہ روش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی. ماہ روش نے ہمت نہ ہارتے اپنی ساری طاقت صرف کرتے اُسے ویسے ہی پیچھے کی طرف کھسکانا شروع کردیا تھا. 

جیسے ہی ماہ روش وہ دیوار ہٹانے میں کامیاب ہوئی. سامنے ایک اور لاکر موجود تھا. جسے دیکھ ایک پل کے لیے ماہ روش پریشان ہوئی تھی. 

مگر پھر کچھ سوچتے ماہ روش نے ارتضٰی کی دی گئی جدید طرز سے بنائی گئی چابی کو ﷲ کا نام لیتے اُس میں ڈال دی تھی. 

چابی کو گھماتے ہی کلک کی آواز پر وہ لاکر کھلتا چلا گیا تھا. ماہ روش ارتضٰی کا سوچ کر مسکرائی تھی. جو اُس کے ساتھ موجود نہ ہوکر بھی اُس کے ساتھ تھا.

ماہ روش نے ہاتھ بڑھاتے اُس لاکر میں موجود بہت ساری فائلز میں سے ایک اُٹھا کر کھولی تھی. جسے دیکھ ماہ روش کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا تھا. وہ ذوالفقار کے خلاف تمام ثبوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی. 

اِس سے پہلے کہ ماہ روش وہ ساری فائلز وہاں سے نکالتی اپنے پچھے ذوالفقار کی آواز سنتے وہ جھٹکے سے پلٹی تھی. 

" تم یہاں؟. تو اِس کا مطلب تم بھی اِن لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو. آخر ثابت کر ہی دیا نا کہ تمہارا تعلق اُسی گھٹیا خاندان سے ہے. "

ماہ روش کو سامنے دیکھ ذوالفقار کے چہرے کا رنگ بدلا تھا. مگر اُس کے ہاتھ میں پکڑی فائل دیکھ کر ذوالفقار کی آنکھوں میں نفرت بھر گئی تھی. وہ سمجھ گیا تھا کہ ماہ روش بھی اِن لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے. اور اتنے سالوں بعد اچانک اُس کے پاس آنے کا مقصد بھی یہی تھا. 

" سب کے منع کرنے کے باوجود اپنے گھر میں ہی آستین کا سانپ پالتا رہا. اپنے باپ کو دھوکہ دے کر ٹھیک نہیں کررہی تم. ابھی بھی وقت ہے میرا ساتھ دو. زندگی بچ سکتی ہے تمہاری."

ذوالفقار ہاتھ میں پستول تھامے ماہ روش کی طرف بڑھتے بولا. 

" گِھن آتی ہے مجھے اب اِس باپ نام کے لفظ سے بھی. نہیں مانتی میں تم جیسے درندے صفت انسان کو اپنا باپ. اور اگر مجھے زندگی پیاری ہوتی تو آج یہاں موجود نہ ہوتی. انسانیت کے ناطے میرا مشورہ ہے تمہیں سرینڈر کر دو. ورنہ تمہارا انجام اِس سے بھی زیادہ درد ناک ہوگا."

ماہ روش نے ذوالفقار کو خود پر گن تانے دیکھنے کے باوجود بھی بنا ڈرے جواب دیا تھا. 

جب اُس کے اتنے نڈر انداز پر ذوالفقار حیران رہ گیا تھا. 

" اگر تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں تم پر گولی نہیں چلاؤں گا تو یہ تمہاری بھول ہے. میرے لیے اِن سب سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے. "

ذوالفقار کی بات پر ماہ روش ہنسی تھی. 

" مجھے تم سے متعلق ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہے. میں اچھے سے جانتی ہوں تمہارے لیے پیسوں اور طاقت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے. ہاں مگر نیچے تمہاری باقی کی وہ جائز اولاد اِسی غلط فہمی میں ماری گئی. کہ شاید تم اُنہیں بچانے آؤ گے. "

ماہ روش کے پاس اِس وقت کوئی ہتھیار موجود نہیں تھا. مگر پھر بھی اُس کے چہرے پر خوف شبہ تک موجود نہیں تھا. وہ بس اتنا چاہتی تھی کہ ارتضٰی جلد از جلد یہاں پہنچ کر ذوالفقار کو اُس کے خلاف موجود تمام ریکارڈ کے ساتھ اُسے اریسٹ کرلے.

جبکہ والفقار کی گرفت پسٹل پر سخت تھی. اور وہ کسی بھی وقت گولی چلا سکتا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ارتضٰی جلدی سے اُوپر والے پورشن میں پہنچا تھا. جب اُسے وہاں ایک طرف سے ہمایوں آتا دکھائی دیا تھا. اور ارتضٰی کے اندر کی آگ کل رات والا واقعہ سوچ پھر سے بھڑک اُٹھی تھی. اگر سوہا والا معاملہ شروع نہ ہوتا تو ارتضٰی آج صبح ہی سب سے پہلے ہمایوں کا کام تمام کرنے کا ارادہ رکھتا تھا. اُس معاملے میں اِس بُری طرح اُلجھا تھا کہ ہمایوں کو سبق  نہیں سیکھا پایا تھا. 

مگر دیر ابھی بھی نہیں ہوئی تھی. 

ہمایوں ارتضٰی کو گلزار سمجھتے اُس کی طرف بڑھا تھا. 

" گلزار جلد از جلد میرا اور بابا کا یہاں سے نکلنے کا انتظام کرو. جلدی کرو. وہ لوگ کسی بھی وقت اُوپر پہنچتے ہوں گے. "

ہمایوں کی نادانی پر ارتضٰی مسکرایا تھا. جبکہ اپنی اتنی پریشانی کے جواب میں ایسے ردعمل پر ہمایوں نے اچنبھے سے ارتضٰی کو گھورا تھا. 

مگر ارتضٰی کے چہرے پر موجود پراسراریت اُسے کسی اور بات کا پتا دے رہی تھی. 

" کک کون ہو تم."

ارتضٰی کو آنکھوں میں دہشت بھرے اپنی طرف بڑھتے دیکھ ہمایوں کی آواز خوف سے کانپی تھی. کیونکہ ارتضٰی اپنے چہرے پر چڑھایا ماسک اُتار چکا تھا. 

" تمہارا باپ میجر ارتضٰی سکندر. "

ارتضٰی نے ایک زور دار پنچ ہمایوں کے منہ پر دے مارا تھا. جس کی شدت اتنی سخت تھی. کہ ہمایوں زمین پر جاگرا تھا اور اُسے اپنے اگلے دانت ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوئے تھے. 

اُس نے اُٹھ کر کھڑے ہوتے ارتضٰی پر جوابی حملہ کرنا چاہا تھا. مگر ارتضٰی نے اُسے ایسا کوئی بھی موقع دیے بغیر اُس بُری طرح پیٹ ڈالا تھا. 

جب ارتضٰی کو لگا کہ اب اُس میں جان تقریباً ختم ہونے والی ہے تو اُسے آدھ موا حالت میں زمین پر پھینکتے ماہ روش کی طرف بڑھا تھا.  اُسے اندر سے گولی کی آواز سنائی دی تھی. ارتضٰی وہاں گرے آدمیوں اور چیزوں سے پھلانگتا جلدی سے اندر داخل ہوا تھا. 

لیکن سامنے کا منظر دیکھتے ارتضٰی ماہ روش کی طرف بڑھا تھا. ذوالفقار نے ماہ روش پر گولی چلا دی تھی. جو ماہ روش کے یکدم سائیڈ پر ہوجانے کی وجہ سے مِس ہوگئی تھی.

ذوالفقار دوبارہ ماہ روش پر گولی چلانے والا تھا جب ماہ روش نے پھر سے سائیڈ پر ہونا چاہا تھا. ماہ روش ارتضٰی کا انتظار کرتی جان بوجھ کر ٹائم ویسٹ کررہی تھی. مگر ماہ روش کا پاؤں وہاں پڑی ایک رسی میں اُلجھ گیا تھا. 

 "اب کیسے بچو گی میری پیاری بیٹی."

 اُس کو وہاں بے بس ہوتا دیکھ ذوالفقار نے خوش ہوتے زور دار قہقہہ لگایا اور ماہ روش پر گولی چلا دی تھی. مگر ماہ روش کو لگنے سے پہلے ہی ارتضٰی نے اُس  کو اپنے حصار میں لیتے اپنے چوڑے وجود کے پیچھے چھپالیا تھا. جس کی وجہ سے یکے بعد دیگر دو گولیاں ارتضٰی کے کندھے اور بازو میں پیوست ہوئی تھیں. 

" ارتضٰی ."

ماہ روش ارتضٰی کا خون نکلتا دیکھ چیخی تھی. 

ارتضٰی سکندر کو اپنے سامنے دیکھ ذوالفقار مزید بوکھلا گیا تھا. کیونکہ ارتضٰی گلزار کے گیٹ اپ سے کافی حد تک باہر آچکا تھا. ذوالفقار کی بوکھلاہٹ کا فائدہ اٹھاتے. ارتضٰی نے بنا اپنے زخمی ہونے کی پرواہ کیے. اُس کے دونوں بازوؤں پر فائر کرتے بے بس کیا تھا.

" ارتضٰی آپ کا خون بہت زیادہ بہہ رہا ہے. پلیز آپ اِس بازو کو زیادہ موو مت کریں. "

ارتضٰی کے بازو اور کندھے سے فوارے کی طرح خون نکل رہا تھا. مگر اُس کو اِس وقت اپنے درد کی زرا برابر پرواہ نہیں تھی. 

مگر ماہ روش نے ارتضٰی سے زبردستی گن چھین لی تھی تاکہ وہ اپنے دائیں بازو کو زیادہ نہ ہلا سکے. ارتضٰی کو ماہ روش کی طرف متوجہ دیکھ ذوالفقار نے وہاں سے فرار ہونا چاہا تھا. 

مگر وہ دونوں ہی اُس کی اِس حرکت سے باخبر تھے. 

" وہی رُک جاؤ ذوالفقار ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا." 

ماہ روش کی بات پر توجہ دیے بغیر ذوالفقار نے جلدی سے وہاں سے بھاگنا چاہا تھا مگر ماہ روش کی چلائی گئی گولی ٹانگ پر لگنے کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر نیچے جا گرا تھا.

نیچے گرتے ہی اُس کی آنکھوں میں اپنے دردناک انجام کا خوف نمایاں تھا. 

" تم لوگ یہ ٹھیک نہیں کر رہے. چھوڑوں گا نہیں میں تم لوگوں کو. ارتضٰی سکندر پہلے تو صرف تمہاری پھوپھو کا حشر بگاڑا تھا. مگر اب تمہارے پورے خاندان کا وہی حال کروں گا. جن کا انجام دیکھ اپنے باپ کی طرح تم بھی موت کو گلے لگانے کو تیار ہوجاؤ گے. "

ذوالفقار جانتا تھا آئی ایس آئی کے ہاتھ لگنے کے بعد اب اُس کا کتنا عبرت ناک انجام ہونے والا ہے. اِس لیے اُس نے ارتضٰی کو غصہ دلانا چاہا تھا. تاکہ طیش میں آکر وہ اُسے مار دے. 

لیکن وہ ارتضٰی سکندر کو ٹھیک سے جانتا نہیں تھا ابھی.

" مان گیا میں تمہیں ذوالفقار صمد خان. بہت ہی شاطر اور گھٹیا دماغ پایا ہے تم نے. کاش کے اِس کے انعام کے طور پر میں تمہیں اتنی آسان موت دے سکتا. 

مگر نہیں اتنی جلدی تمہیں ختم کرکے جہنم میں نہیں بھیجنا چاہتا. ابھی تو تمہیں اور تمہاری اولاد کو تم لوگوں کے ہر ظلم کا حساب سود سمیت لوٹانا ہے. پھر تمہاری یہ مرنے کی خواہش بھی پوری کر دوں گا. "

ارتضٰی ذوالفقار کے منہ کو سختی سے اپنے ہاتھ میں دبوچے ہوئے تھا. جس سے ذوالفقار کو اپنا جبڑہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا. 

اِس سے پہلے کے ارتضٰی اُس کو مزید اپنے قہر کا نشانہ بناتا رینجرز اور آرمی کے اہلکار وہاں پہنچ چکے تھے. 

ارتضٰی کے اشارے پر اُنہوں نے ذوالفقار کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی تھیں. 

" بہت جلد ٹارچر سیل میں ملاقات ہوتی ہے تم سے ذی ایس کے. میرا انتظار کرنا. "

ارتضٰی کی آنکھوں میں موجود انتقام کی آگ میں ذوالفقار کو اپنا عبرت ناک انجام صاف نظر آرہا تھا. اور زندگی میں پہلی بار اُس نے خوف کھاتے اپنی جلد از جلد مر جانے کی دعا مانگی تھی. 

" ارتضٰی اب پلیز آپ چلیں ہاسپٹل آپ کا خون بہت زیادہ بہہ گیا ہے. آپ کو خطرہ ہوسکتا ہے پلیز. "

ماہ روش ارتضٰی کی بگڑتی حالت پر روتے ہوئے بولی. مگر ارتضٰی ایک بار اپنی آنکھوں سے اپنی ٹیم کے باقی لوگوں کو بھی صحیح سلامت دیکھنا چاہتا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

میجر ارتضٰی سکندر اور اُس کی ٹیم اپنے سب سے بڑے اور مشکل ترین مشن میں کامیاب ہوچکی تھی. 

جنرل یوسف سے کیے گئے عہد کے مطابق ارتضٰی نے ناصرف ذوالفقار اور اُس کے بچوں کو تمام ثبوتوں کے ساتھ زندہ گرفتار کیا تھا. 

بلکہ اپنی ٹیم کے کسی بھی ممبر پر زرا سی آنچ بھی نہیں آنے دی تھی. مگر بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ارتضٰی کی حالت تشویش ناک تھی. 

ٹی وی,  سوشل میڈیا ہر طرف ذی ایس کے جیسے ناسور کو جڑ سے مٹا دیئے جانے کی نیوز چل رہی تھیں. مگر ہمیشہ کی طرح اپنی جان پر کھیل کر اتنا خطرناک مشن کرنے والے اُن گمنام ہیروز نے اپنی شناخت گمنام ہی رکھی تھی. 

پوری عوام میں اتنی اچھی خبر سن کر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی. نجانے کتنے ہی خاندانوں کو نئی زندگی مل گئی تھی. سب لوگ اپنے اِن گمنام ہیروز کو تو نہیں جانتے تھے. مگر اُن کے دل سے اُن سب کی سلامتی اور خوشیوں کی دعائیں نکل رہی تھیں. 

ارتضٰی کی وجہ سے وہ سب لوگ سیدھا ہاسپٹل میں آئے تھے. ماہ روش کا رو رو کر بُرا حال تھا. ارتضٰی نے اُسے بچانے کے لیے خود کو قربان کیا تھا. ارتضٰی اپنے کیے گئے وعدے پر پورا اُترا تھا. مگر ماہ روش کو لگ رہا تھا کہ اگر تھوڑی دیر مزید ارتضٰی کے ہوش میں آنے کا پتا نہ چلا تو اُس کی سانس بند ہوجائے گی. 

ارحم کو ابھی تھوڑی دیر پہلے جاذل نے گھر بھیج دیا تھا. کیونکہ اُس کے گھر والے بھی اُس کی وجہ سے بہت پریشان تھے. ارحم ارتضٰی کو اِس حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا. مگر پھر گھر والوں کا خیال آتے جاذل کو ارتضٰی کے حوالے سے اپڈیٹ دینے کا کہتے وہاں سے نکل آیا تھا. 

ارحم کو بھیج کر جاذل نے کن اکھیوں سے زیمل کی طرف دیکھا تھا. جس نے اُس سے ایک بار بھی بات نہیں کی تھی. اور مسلسل اُسے اگنور کیے ہوئے تھی. 

زیمل ماہ روش کے پاس بیٹھی تھی. اِس لیے جاذل نے اُسے مخاطب نہیں کیا تھا. کیونکہ وہ جانتا تھا مشن میں جو حرکت میں کرنے جارہا تھا. وہاں سے تو جان بچ گئی تھی مگر اب زیمل سے بچنا کافی مشکل تھا. وہ جاذل کو ایسے اگنور کیے ہوئے تھی جیسے وہ وہاں پر موجود ہی نہ ہو. 

جاذل اُس سے آرام سے بات کرنے کے موڈ میں تھا. لیکن اِس وقت جاذل کا دل صرف اور صرف ارتضٰی کی فکر میں بے چین ہورہا تھا. جس کا آپریشن جاری تھا. 

ارتضٰی نے آج ایک ٹیم لیڈر ہونے کا پورا حق ادا کیا تھا. وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پہلے اُن سب کے پاس موجود رہا تھا. اور اُنہیں ہر لحاظ سے گائیڈ کرتا رہا تھا. جب وہاں سے تمام حالات انڈر کنٹرول ہوئے تو وہ ماہ روش کو خطرے میں دیکھ اُوپر کی طرف بڑھ گیا تھا. 

ارتضٰی کے بغیر وہ لوگ شاید اتنی کامیابی سے یہ مشن کبھی نا پورا کر پاتے. 

نور پیلس میں اِس بارے میں سب کو لاعلم ہی رکھا گیا تھا. کیونکہ اُن کے مطابق ارتضٰی اور ماہ روش اِس وقت فارم ہاؤس پر ہی موجود تھے. 

ارتضٰی نہیں چاہتا تھا کہ وہ لوگ کسی طرح کی بھی بُری خبر سن کر پریشان ہوں. اِسب لیے اُس کا ارادہ گھر جاکر ہی سب کو سچ بتانے کا تھا. حواس کھوتے وقت بھی ارتضٰی نے ماہ روش کو کسی کو بھی بتانے سے منع کیا تھا. 

ماہ روش کو لگتا تھا کہ اُس کا عشق ارتضٰی سکندر کے لیے لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا. جس شخص کو اپنی اتنی تکلیف میں بھی اپنے گھر والوں اپنی ٹیم کا خیال تھا. 

اُس کا کھڑوس مگر بہت پیارا دل رکھنے والا میجر ہر معاملے میں ہمیشہ پرفیکٹ ہی تھا. اِسی وجہ سے تو اُوپر والا بھی ہمیشہ ہر کام میں اُسے سُرخرو کرتا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

صائمہ بیگم اور آصف صاحب سے مل کر ارحم جلدی سے ریحاب کی طرف بڑھا تھا. کیونکہ اُن کی طرف سے ریحاب کی خراب طبیعت کا سن ارحم بہت زیادہ پریشان اور فکرمند ہوا تھا. 

ارحم نے روم میں داخل ہوتے بیڈ پر لیٹی ریحاب کی طرف بڑھا تھا. ریحاب پر نظر پڑتے ہی ارحم کو لگا تھا جیسے کسی نے اُس کا دل مُٹھی میں جکڑ کر مسل دیا ہو. 

ریحاب تین دنوں میں ہی اُسے صدیوں کی بیمار لگی تھی. ارحم کو زرا اندازہ نہیں تھا کہ اُس کی گمشدگی کا ریحاب پر اتنا بُرا اثر پڑے گا. ارحم نے ریحاب کے پاس بیٹھتے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے اُس کی پیشانی چوم لی تھی. اور باری باری اُس کی دونوں آنکھوں پر ہونٹ رکھے تھے. ریحاب جو دوائیوں کے زیرِ اثر گہری نیند میں تھی. ارحم کا پرشدت لمس اپنے چہرے پر محسوس کرتے اُس کا ذہن بیدار ہوا تھا. 

جب بہت کوششوں کے بعد ریحاب اپنی بوجھل پلکوں کو کھولنے میں کامیاب ہوگئی تھی. 

ارحم کو سامنے دیکھ ریحاب کی آنکھوں میں ایک پل کے لیے چمک اُبھری تھی. مگر اگلے ہی لمحے وہاں اُداسی پھیل گئی تھی. ریحاب نے اپنی نم آنکھیں واپس بند کردی تھیں.

ارحم نے حیرانی سے ریحاب کی یہ کیفیت نوٹ کی تھی. وہ ریحاب کی ذہنی حالت کچھ کچھ سمجھ رہا تھا. شاید ریحاب اُس کی وہاں موجودگی اپنا وہم سمجھ رہی تھی. 

" ارحم پلیز واپس آجائیں. میں اب بھول چکی ہوں آپ کے بغیر جینا. مر جاؤں گی میں. "

ریحاب کی بڑبڑاہٹ بہت مشکل سے ارحم کے کانوں تک پہنچ پائی تھی. ریحاب کی بند آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرے تھے. جنہیں ارحم نے فوراً ہاتھ بڑھاتے اپنی پوروں پر چن لیا تھا. 

" ریحاب میری جان میں بلکل ٹھیک ہوں. اور زندہ سلامت تمہارے سامنے موجود ہوں. کہیں نہیں جاؤ گا اب. تم ایک بار آنکھیں تو کھولو. "

ارحم کی محبت بھری پکار پر ریحاب نے فوراً سے آنکھیں کھولی تھیں. اور ارحم کو مسکراتا دیکھ جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھتی اُس کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا. 

جیسے یقین کرنا چاہتی ہو وہ واقعی میں اُس کے پاس موجود ہے یا یہ پھر اُس کا کوئی وہم ہے. 

مگر اِس بار تو اُس کے چھونے پر بھی ارحم وہاں سے غائب نہیں ہوا تھا. ریحاب دیوانوں کی طرح ارحم کے چہرے کے ایک ایک نقوش کو چھوتی اُس کے ہونے کا یقین کررہی تھی. 

جیسے ہی اُسے اِس بات کا یقین ہوا کہ یہ اُس کا وہم نہیں ارحم سچ میں اُس کے پاس موجود ہے. تو ریحاب روتی آنکھوں کے ساتھ مسکراتی ارحم کے سینے سے جالگی تھی. 

ریحاب کو لگا تھا جیسے اُسے واپس سانسیں مل گئی ہوں. اُس کا مردہ دل ایک بار پھر جی اُٹھا تھا. اُس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا.

اُس کی دعائیں سن لی گئی تھیں. ارحم لوٹ آیا تھا. 

ارحم جو حیرت سے ریحاب کی اپنے لیے بے پناہ  محبت اور اُس کا پاگل پن دیکھ رہا تھا. اُس کے سینے سے لگنے پر ارحم نے بھی اُس کے گرد بازو پھیلاتے اُسے خود میں بھینچ لیا تھا. اور اُس کے کھلے بالوں میں اُنگلیاں چلاتے اُس کو دل سے محسوس کرنے لگا تھا. 

ریحاب کافی دیر تک ارحم کے سینے سے لگی آنسو بہاتی رہی تھی. جب کافی دیر بعد خیال آنے پر اُس سے الگ ہونا چاہا تھا. مگر ارحم نے ایسا نہیں کرنے دیا تھا. 

" اوہہم یار مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ میرے بیوی مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے. "

ارحم نے ریحاب کے بال گردن سے ہٹاتے اپنے لب رکھے تھے. 

ریحاب اُس کے لمس پر کسمسائی تھی. 

" آپ کہاں تھے تین دن. ایک بار بھی مجھے کال نہیں کی. ایک بار تو بات کرکے بتا دیتے. آپ نہیں جانتے میں نے یہ تین دن کتنی اذیت میں گزارے ہیں. "

ریحاب نے ارحم کی ڈھیلی پڑتی گرفت سے نکلتے شکوہ کناں انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا. 

" سویٹ ہارٹ. کل رات آیا تو تھا. مگر تمہیں اپنی نیند اتنی پیاری تھی. کہ مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی. تو میں مایوس ہوکر واپس لوٹ گیا. "

ارحم نے آنکھوں میں شرارت بھرے بےچارہ سا منہ بناتے کہا تھا. جب اُس کی بات سنتے ریحاب نے غصے اور بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھا تھا. 

" مطلب کل رات میرا وہم نہیں تھا. آپ سچ میں میرے پاس آئے تھے. ارحم آپ کتنے بڑے چیٹر ہیں. مجھے جگائے بغیر مجھ سے بات کیے بغیر خاموشی سے آئے اور چلے بھی گئے. "

ریحاب کو اُس کی مسکراہٹ پر مزید تپا گئی تھی. جس پر اُس نے ارحم کے بال اپنی دونوں مٹھیوں میں نوچ لیے تھے. 

ارحم اُس کے انداز پر ہنستے اپنا بچاؤ کرتا رہ گیا تھا. اور اگلے ہی لمحے ریحاب کو بازو سے تھام کر بہت ہی نرمی سے بیڈ پر لٹاتے اُس پر جھک گیا تھا. 

" اُس دن تو میں اپنا گفٹ نہیں لے پایا مگر آج اپنی پسند کا گفٹ ہر حال میں وصول کرکے ہی رہوں گا. "

ارحم ریحاب کی کان کی لوح چومتے سرگوشیانہ لہجے میں بولا تھا. 

جب اُس کا بہکا انداز ریحاب کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا. 

" میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے. "

ریحاب نے گھبراتے ہلکا سا احتجاج کیا تھا. ورنہ دل تو آج اِس شخص کی قربت کا خواہاں تھا. 

" وہیں تو ٹھیک کرنا چاہ رہا ہوں. "

ارحم نے ریحاب کے بال گردن سے ہٹاتے وہاں لب رکھ دیے تھے.  

جب اُس کے شدت بھرے انداز پر ریحاب نے زور سے آنکھیں میچ لی تھیں. 

" ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بڑا پیار جتایا جارہا تھا. اب کیا ہوا. "

ارحم ریحاب کے سُرخ پڑتے چہرے کی طرف دیکھتا شوخی سے بولا تھا. 

جس پر ریحاب نے شرماتے اُس کے سینے میں منہ چھپا لیا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ماہ روش کو تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹرز نے ارتضٰی کا آپریشن کامیاب ہونے کی خبر دیتے جیسے زندگی کی نوید سنا دی تھی. 

ڈاکٹرز کے مطابق کچھ دیر تک ارتضٰی کو ہوش آجانا تھا. جس کا ماہ روش کو شدت سے انتظار تھا. ماہ روش زیمل کو بتاتی شکرانے کے نوافل پڑھنے چلی گئی. 

جب وہ نوافل ادا کرکے لوٹی تو زیمل کو کوریڈور میں اپنا انتظار کرتا پایا. 

" ماہی جلدی سے اندر جاؤ. ورنہ ارتضٰی سر نے بیڈ سے اُٹھ کر تمہیں ڈھونڈنے نکل پڑنا ہے."

زیمل نے ماہ روش کو دیکھ چھیڑا تھا. کیونکہ ارتضٰی کو ہوش میں آئے پندرہ منٹ ہوچکے تھے. اور وہ کوئی پچاس بار ماہ روش کا پوچھ چکا تھا. 

زیمل کی بات پر ماہ روش نے اُسے مصنوعی گھوری سے نوازتے قدم اندر کی طرف بڑھا دیے تھے. 

ماہ روش دبے قدموں آنکھیں موندے لیٹے ارتضٰی کے بیڈ کی طرف بڑھی تھی. ماہ روش کی نظر ارتضٰی کے خوبرو چہرے پر تھی. اور ہمیشہ کی طرح اُس کے دل میں ایک خیال گزرا تھا کہ کوئی مرد اتنا خوبصورت اور پرفیکٹ کیسے ہوسکتا ہے. 

ارتضٰی کے گھنے سیاہ بال اُس کی پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے. ماہ روش کو اپنا اسیر بنانے والی اُس کی سحر ذدہ آنکھیں اِس وقت بند تھیں. مغرور کھڑی ناک, عنابی مضبوط ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست اِس وقت بلکل ساکت تھے. 

ماہ روش نے ہاتھ بڑھاتے اُس کے گڑھوں والی جگہ کو چھوا تھا. جب ارتضٰی کے چہرے پر اچانک اُبھرتی مسکراہٹ دیکھ ماہ روش نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچا تھا. مگر اُس سے پہلے ہی ارتضٰی اُس کا ہاتھ اپنی گرفت میں قید کرچکا تھا. 

" یار یہ کیا دور دور سے پیار کررہی ہو. زرا قریب آکر طبیعت پوچھو میری. "

ارتضٰی ماہ روش کو وارفتگی سے دیکھتا بولا. 

آج اُس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد پورا ہوچکا تھا. بغیر کسی نقصان اور مزید کسی قربانی کے وہ ذی ایس کے کو اُس کے انجام تک پہنچا چکے تھے. ارتضٰی آج بہت خوش تھا. دنیا کی ساری خوشیاں اُس کے پاس تھیں جن میں سب سے بڑی خوشی اُس کی ماہ روش تھی. 

" آپ جیسے خطرناک لوگوں کی دور سے ہی پوچھنی ٹھیک ہے. "

ماہ روش نے ارتضٰی کی قید سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش تھی. مگر ہمیشہ کی طرح ناکام رہی تھی. کیونکہ وہ خود بھی ارتضٰی سے فرار ہونے میں کامیاب ہونا بھی نہیں چاہتی تھی. 

" اچھا جی تو پھر رکو. میں بتاتا ہوں. تمہیں کتنا خطرناک ہوں میں. "

ارتضٰی نے ماہ روش کا ہاتھ کھینچتے اُسے اپنے سینے پر گرایا تھا. 

جبکہ ارتضٰی کی چوٹ کے خیال سے ماہ روش کی چیخ نکل گئی تھی. 

 " ارتضٰی یہ کیا کر رہے ہیں. آپ کو ہرٹ ہوگا. "

ماہ روش نے ارتضٰی کے اُوپر سے ہٹنا چاہا تھا. مگر ایسا نہیں کرپائی تھی. 

" تمہارا قریب آنا مجھے کبھی ہرٹ نہیں کرسکتا. بلکہ تمہاری قربت سے زیادہ سکون کا باعث اِس دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے میرے لیے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹوں کو اپنی اُنگلی پر لپیٹتے کہا. 

" آپ جانتے ہیں ہر انسان اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے. مگر میرا ہمیشہ ایک ہی خواب رہا ہے  ارتضٰی سکندر کی زندگی میں میں سب سے اہم ہونے کا. میں چاہتی تھی کبھی میجر ارتضٰی سکندر مجھ سے بھی اُسی طرح نرم لہجے میں بات کرے جیسے  اپنے قریبی لوگوں سے کرتے ہیں. ایک ٹائم پر تو ایسا لگا تھا کہ شاید میرا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوپائے گا. "

آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اپنے ماضی کے بارے میں بات کرتے ماہ روش کی آنکھیں نہیں بھیگی تھیں. 

کیونکہ ارتضٰی اُسے چند دنوں میں ہی جتنا پیار جتنی عزت دے چکا تھا. وہ ماہ روش کی پچھلی ساری زندگی کو پیچھے چھوڑ گیا تھا. 

" میری جان ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کبھی تم سے نفرت کی ہو. تم ہمیشہ سے میرے لیے اہم رہی ہو. تمہاری تکلیف پر تم سے بھی زیادہ میں تڑپا ہوں. "

ارتضٰی نے ماہ روش کی چھوٹی سی ناک کو دانتوں میں لیتے ہلکا سا بائٹ کیا تھا. 

ماہ روش اپنی ناک سہلاتی ارتضٰی کو گھور کر رہ گئی تھی. 

" یار اب میں کیا کروں. کہا تو ہے تم سے اتنی میٹھی اور نرم ہو کسی دن کھا ہی نہ جاؤں میں  تمہیں."

ارتضٰی کی بے باکی پر ماہ روش کانوں تک سُرخ ہوئی تھی. جو اِس حالت میں بھی باز نہیں آرہا تھا. 

" ارتضٰی آپ بہت بے شرم ہیں. "

ماہ روش اِس سے زیادہ کچھ بول ہی نہیں پائی تھی. 

" ابھی کہاں ابھی تو میری بے شرمی دیکھانا باقی ہے. "

ارتضٰی نے ماہ روش کے ہونٹوں پر اپنی اُنگلی پھیری تھی. 

" ارتضٰی آپ کیا کررہے ہیں یہ ہاسپٹل ہے. کوئی بھی اندر آسکتا ہے. "

ماہ روش ارتضٰی کی بڑھتی جسارتوں پر گھبراتے دور ہوئی تھی. مگر ارتضٰی اُسے واپس اپنے قریب کر گیا تھا. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

زیمل ارتضٰی کے ہوش میں آنے کے بعد ماہ روش کو بتا کر گھر واپس آگئی. پچھلے تین دنوں کی ذہنی ٹینشن اور مسلسل کام کرنے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ تھکن کا شکار تھی. اور اُوپر سے آج دن میں جو کچھ ہوا تھا. وہ بات زیمل کو اندر تک ہلا کر رکھ گئی تھی. 

جاذل اگر وہ پیپر سائن کر دیتا تو یہ بات دماغ میں آتے ہی زیمل کو لگتا تھا کہ وہ ساری دنیا کو آگ لگا دے. جاذل ایسا کیسے کرسکتا تھا. 

زیمل کو جاذل کا آرام سے سونیا کے ساتھ نکاح کے پیپر پر سائن کرنا کسی صورت ہضم نہیں ہورہا تھا. کیونکہ زیمل کے مطابق تو جاذل ارحم کی موجودگی اور ارتضٰی کی پلاننگ سے لاعلم تھا. 

زیمل اپنی ہی سوچوں میں اُلجھی دل میں پکا عہد کر چکی تھی کہ جاذل سے کسی صورت بات نہیں کریں گی. کیونکہ جاذل کے نزدیک اگر اِس رشتے کی زرا بھی اہمیت ہوتی تو وہ کبھی سونیا سے نکاح پر حامی نہ بھرتا. 

زیمل اپنے ہی خیالوں میں گیلے بالوں سے ٹاول نکالتے پاس رکھی چیئر پر ڈالتے اپنے بال سہلانے لگی تھی. جب اُسے اچانک کسی کی گہری نگاہوں کی تپیش اپنے وجود پر محسوس ہوئی تھی. 

زیمل جیسے ہی پلٹی اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا. 

جاذل بڑے ہی ریلیکس انداز میں اُس کے بیڈ پر لیٹا پوری  توجہ سے زیمل کو گھور رہا تھا. 

زیمل اِس وقت سُرخ لباس میں بنا ڈوپٹے کے کھلے بالوں کے ساتھ اُس کو اچھا خاصہ بہکا گئی تھی. 

زیمل نے جلدی سے ڈوپٹے کی تلاش میں نظریں دوڑائی تھیں. مگر دوپٹہ وہاں ہوتا تو ملتا. 

" آپ یہاں کیا کررہے ہیں. آپ میں زرا مینرز نہیں ہیں کہ کسی کہ کمرے میں بنا اجازت داخل ہونا غیر اخلاقی حرکت ہے. "

زیمل کو جاذل پر جس قدر غصہ تھا. اُس کا بس نہیں چل رہا تھا اِس وقت نجانے کیا کر گزرے. 

" بلکل کسی کے روم میں بنا اجازت داخل ہونا غیر اخلاقی حرکت ہے. مگر میں تو اپنی بیوی کے روم میں آیا ہوں. "

جاذل نے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ سجائے زیمل کی طرف قدم بڑھائے تھے. 

" کچھ نہیں لگتی میں آپکی. جس سے آج بہت شوق ہورہا تھا نا نکاح کرنے کا جائیں اُسی کے پاس. اور وہیں رُک جائیں میرے قریب آنے کی ضرورت نہیں ہے. "

زیمل جاذل کو اپنے قریب آتا دیکھ غصے سے بولی. 

مگر جاذل اُسی طرح دل جلانے والی مسکراہٹ لیے اُس کی طرف بڑھ رہا تھا. 

"مطلب تم چاہتی ہو. میں سونیا کے پاس چلا جاؤ. "

جاذل کو رُکتے نہ دیکھ ماہ روش نے بھی اپنے قدم پیچھے کی طرف لے جانا شروع کردیئے تھے. 

" ہاں تو اُسی سے نکاح کرنے کے لیے ہی تو آج بہت بےچین ہورہے تھے آپ. "

زیمل کو اچانک رُک جانا پڑا تھا. کیونکہ پیچھے اُس کا رائٹنگ ٹیبل پڑا تھا. زیمل نے وہاں سے نکلنا چاہا تھا. مگر جاذل اُس کے اردگرد ہاتھ رکھتے اُس کی راہیں مسدود کر گیا تھا. 

" بھاگ کہاں رہی ہیں ڈئیر وائف. اگر لڑنا چاہتی ہیں تو ڈٹ کر لڑو. ڈر کس بات کا ہے."

جاذل نے اُس کے گیلے بالوں میں چہرہ چھپاتے اُن کی مسحور کن خوشبو اپنی سانسوں میں اُتاری تھی. 

" دیکھئے مسٹر جاذل میرے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے. اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ سے لڑنے کا. "

زیمل نے جاذل کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے اُسے دور ہٹانا چاہا تھا. مگر نتیجہ میں جاذل اُس کے مزید قریب ہوا تھا. 

" زیمل آپ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں کہ میں آپکی جگہ کسی اور کو دے سکتا ہوں. آج جو کچھ بھی ہوا. وہ صرف اُن لوگوں کا سوچا سمجھا پلان تھا.

میں صرف ارتضٰی کے کہنے پر ٹائم ویسٹ کررہا تھا. تاکہ اُوپر ماہ روش کو ٹائم مل سکے. "

جاذل زیمل کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرے اُس کو پیار سے سمجھاتے بولا. 

جب اُس کی بات پر زیمل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا.

" ہاں میں سب جانتا تھا. ارتضٰی مجھ سے کنٹیکٹ میں تھا. ارحم اور ارتضٰی کی وہاں موجودگی سے میں اچھے سے واقف تھا. اور ہمارا یہ ڈرامہ تھوڑی دیر ہی مزید چلنا تھا. مگر اُس گھٹیا شخص کی بات کی وجہ سے طیش میں آتے میں نے پہلے ہی ڈراپ سین کر دیا تھا. 

آپ جیسا سوچ رہی ہو. ویسا کچھ نہیں ہے. سونیا تو کیا اِس دنیا کی کوئی لڑکی بھی ہمارے درمیان کب

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aye Ishq Teri Khatir Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Aye Ishq Teri Khatir written by  Farwa Khalid Aye Ishq Teri Khatir by Farwa Khalid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment