Pages

Wednesday 24 July 2024

Ada E Jan By Aleezy Khan New Complete Romantic Novel

Ada E Jan By Aleezy Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ada E Jan By Aleezy Khan Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ada E Jan

Writer Name: Aleezy Khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اکھیاں میری پوچھ رہی ہیں۔

دل کو میرے چین نہیں ہے  

کیتھے لڑائیاں وے 

تو اکھیاں کیتھے لڑائیاں وے

کیسے تجھ کو میں بتاؤں 

راہیں تیری تکتی جاؤں 

نینداں چرایاں وے 

توں میریاں نینداں چرایاں وے 

دھڑکن یہ کہتی ہے 

دل تیرے بن دھڑکے نہ 

اک توں ہی یار میرا

 مجھ کو کیا دنیا سے لینا 

 وہ دونوں اسٹیج پر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گا رہی تھیں ان کی سحر زدہ آواز نے وہاں بیٹھے افراد پر سحر طاری کر دیا تھا  

اک تو ہی یار میرا 

مجھ کو کیا دنیا سے لینا 

دونوں نے ایک ساتھ  گانا ختم کیا تو حال تالیوں سے گونج اٹھا 

وہ دونوں اپنی دوستی کی وجہ سے پورے کالج میں مشہور تھیں جبکہ دونوں ہی ایک دوسرے سے مختلف تھیں

 "بازغہ عازم خان " جو ایک  فیشن ایبل ، نک چڑھی لڑاکا لڑکی تھی جبکہ اسکے برعکس "امامہ شمعون شاہ " سادگی پسند ،نرم دل ، دھیمے  مزاج کی معصوم سی لڑکی  جو لڑائے جھگڑے سے سو میل دور رہتی تھی ،،،، لیکن جہاں بازغہ ہو وہاں پنگا نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا 

 وہ کالج میں جھانسی کی رانی مشہور تھی کسی نے امامہ کو کچھ کہہ دیا تو پھر بازغہ اسے چھوڑتی نہیں تھی،،، ان دونوں کی دوستی بے مثال تھی 

امامہ یار جلدی چل نہ بھائی آگئے ہونگے ،،،، بازغہ نے اپنا بیگ اٹھائے باہر نکلتے کہا تو امامہ  اپنی چادر سے نقاب کرتے اسکے پیچھے بھاگی 

بازغہ روکو یار میں آرہی ہوں 

جلدی کرو یار تم بھائی کو نہیں جانتی انہیں انتظار کرنا بلکل نہیں پسند ،،،، ٹائم کے پابند ہیں وہ ایک منٹ اوپر نیچے ہو تو بس پھر سامنے والے کی خیر نہیں ،،،، مجھے تو اپنی ہونے والی بھابھی پر ابھی سے ترس آرہا ہے 

ہممم آنا بھی چاہیے  ،،،، پتا نہیں میرا کیا ہوگا ،،،، امامہ اسکی بات سن کر دھیمے سے بڑبڑائی

تم نے کچھ کہا ہے کیا ؟ 

میں نے  نہیں تو ،،،مم میں کیا کہوں گی ،،، ، چلو نہ دھیر ہورہی ہے ،،،، اسکے پوچھنے پر امامہ سٹپٹائی تو بازغہ کاندھے اچکاتے آگے بڑھ گئی جبکہ امامہ نے گہرا سانس لیا 

شکر ہے بننچ گئی ،،،،،تیرا کچھ نہیں ہوسکتا امامہ ،،،، خود کو ملامت کرتے وہ گیٹ سے باہر نکلی تو نظر سڑک کے اس پار " ضرار عازم خان" پر پڑی جو  بلیک پینٹ اور بلیک ہی شرٹ میں جسکی کہنیاں فولڈ کی ہوئی تھی ،،،،،، کالر کے  اوپری بٹن کھلے ہوئے تھے جس سی اسکے گلے میں چمکتا زیڈ کا لاکٹ جگمگا رہا تھا ،،  ماتھے پر بکھرے کالے بال اور چمکتی کالی آنکھیں ،،، وہ وجاہت کا شہکار تھا ،،،، اسکی رعب دار پرسنالٹی ایسی تھی کہ دیکھنے والے کو اپنے  سحر میں جکڑ لیتی 

اسکو دیکھتے ہی امامہ کی سانسیں تھمی تھی شہد رنگ آنکھوں میں ایک چمک سے آگئی تھی  وہ اپنا آپ بھول کر دیوانہ وار اسے دیکھے گئی یہ شخص جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا کب اس معصوم لڑکی کا عشق بنا اسے خبر تک نہ ہوئی 

 اس نے منہ پر ماکس لگایا ہوا تھا لیکن پھر بھی امامہ کو اسکے چہرے پر چھائے بیزاری اور سنجیدہ تاثرات کا  اندازہ ہوگیا  اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا وہ بار بار ہاتھ میں پہنی گھڑی میں ٹائم دیکھتے گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا  

وہ اسے دیکھنے میں مگن تھی جب بازغہ نے اسکا کاندھا ہلایا 

اوئے کیا ہوا کہاں کھوئی ہوئی ہے ؟ 

ہممم ہاں ،،،،،کک کیا ہوا ؟ 

طعبیت ٹھیک ہے نہ تمہاری کہاں کھوئی ہوئی تھی ،،، بازغہ نے اسکی غائب دماغی پر جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا 

ہن ہاں میں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے ،،، امامہ نے گہرا سانس لیتے دھیما سا مسکراتے کہا 

آر یو شیور ناں 

یس ہنڈریڈ پرسنٹ

اوکے سن تیرا ڈرائیور تو نہیں آیا تو ایسا کر ہمارے ساتھ چل ہم تجھے ڈراپ کردیں گے ،،، بازغہ نے کہا تو امامہ نے ضرار کو دیکھا جو ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ غصے سے گھور رہا تھا 

نن نہیں میں ویٹ کر لوں گی تم جاؤں وہ غصہ ہو رہے ہونگے ،،، امامہ نے ضرار کے غصے سے گھبراتے کہا 

وہ کون ،،،؟ 

بازغہ میں تمہارے بھائی کی بات کررہی ہوں وہ غصہ کررہے ہیں ،،،، امامہ نے بازغہ کو گھورا 

او بھائی کی بات کررہی ہو ،،،،،،ارے وہ مجھ پر غصہ نہیں کرتے آخر کو انکی اکلوتی بہن ہوں تم انکی فکر مت کرو اور چلو بس ،،،، بازغہ نے مسکراتے کہا اور اسکے ناں ناں کرنے کے باوجود بھی  زبردستی اپنے ساتھ لے گئی

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️ 

اسلام علیکم بھائی سوری آپکو انتظار کرنا پڑا ،،،،، گاڑی کے پاس پہنچتے بازغہ نے چہکتے سلام کیا 

وعلیکم السلام یہ ،، ضرار نے جواب دیتے سوالیہ نظروں سے امامہ کو دیکھا جو اسے اپنے رُو برو پاکر اپنی سانسیں روک گئی تھی اسکے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے تھے ،،، پلکیں اٹھنے سے عاری تھیں ایسے جیسے منوں بوجھ آ پڑا ہو،،، جبکہ دل کی حالت ایسی تھی کہ دھڑکنیں کانوں میں گونجنے لگی تھیں 

بھائی یہ میری بیسٹی میری بیسٹ فرینڈ امامہ خان ،،، اصل میں آج اسکا ڈرائیور نہیں آیا تو یہ ہمارے ساتھ جائے گی ،، آپ پلیز اسے ڈراپ کردیں گے پلیز ،،، بازغہ نے آنکھیں پٹپٹاتے کہا تو ضرار نے ایک نظر امامہ کو دیکھا جو مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی پھر سے اثبات میں سر ہلاتے گاڑی میں بیٹھا 

یا ہو ،،، دیکھا مومی تم ایسے ہی ڈر رہی تھیں چلو جلدی سے بیٹھو ،،، بازغہ نے چہکتے کہا اور دروازہ کھولتے اسے اندر بیٹھنے کا کہا لیکن امامہ ٹس سے مس نہ ہوئی 

امامہ کیا کررہی ہو یار جلدی کرو نہ ،،، بازغہ نے  اسے وہیں جمے دیکھ کر بازو سے پکڑتے گاڑی میں بیٹھایا اور خود ضرار کے ساتھ والی سیٹ پر جا بیٹھی اسکے بیٹھتے ہی گاڑی روڈ پر فراٹے بھرنے لگی

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️ 

 ریحاب ملازموں سے کہہ کر سامان پیک کرو ہمیں حویلی جانا ہے ،،،، شمعون نے سنجیدگی سے کہا 

حویلی جانا ہے لیکن اتنا اچانک سے سب خیریت ہے ناں ،،،، ریحاب نے حیرانگی سے دیکھتے پوچھا 

ہاں سب خیریت ہے بس وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا وعدہ پورا کریں 

لیکن شمعون ،،،، زرناب سے آپ نے پوچھا 

اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے یقین ہے اپنی بیٹی پر اسے ہمارے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا 

لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے ہمیں اس سے بات کر لینی چاہیے ،،،، ریحاب زرناب کی خودسر طعبیت سے واقف تھی اس لئے وہ چاہتی تھی کہ شمعون ایک بار خود زرناب سے بات کرے 

بیگم کچھ نہیں ہوتا خوامخواہ میں پریشان نہ ہو اچھا یہ بتاؤ امامہ کہاں ہے ابھی آئی نہیں کالج سے ،،،، شمعون نے اس کے خدشات کو ہوا میں اڑاتے پوچھا 

نہیں آنے والی ہوگی ،،،، آپ فریش ہوکر آجائیں میں کھانا لگاتی ہوں ،،، ریحاب نے سر جھٹکتے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

 چھوٹے سائیں ،،،،، چھوٹے سائیں غضب ہوگیا ،،،،، وہ چودھریوں کے لڑکے نے اللّٰہ دتے کے بیٹے کو مار دیا سائیں ،،،،، مکرم شاہ کسانوں کو ہدایت دیتے ڈیرے کی طرف جارہا تھا جب اسکے ملازم شاکر نے آکر اطلاع دی 

کیا چودھریوں کی اتنی ہمت کہ شاہوں کے  علاقے میں آکر ہمارے لڑکے کو مار دیا  ،،،،، مکرم نے غصب ناک ہوتے کہا 

شاکر ،،،، اسکی دھاڑ پر ڈر سے شاکر کا جسم کانپا 

 "جی حکم سائیں "

آبان سے کہو گاڑی نکالے  آج ہم ان چودھریوں کو چھوڑیں گے نہیں  ،،،، عبرت کا نشان بنا دیں گے انہیں،،،،  مکرم نے سرد و سپاٹ لہجے میں کہا اور اپنی گن اٹھائے آندھی طوفان بنا باہر نکل گیا 

بڑے سائیں کو بتانا پڑے گا ورنہ چھوٹے سائیں جزبات میں آکر کچھ غلط کردیں گے ،،،،،، شاکر نے اسکو جاتے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا اور حویلی کی طرف بھاگ گیا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

ہیلو موم ہیلو ڈیڈ ،،،، زرناب نے ڈائننگ ٹیبل پر آتے خوشگوار انداز میں کہا تو ریحاب نے اسے گھورا 

کتنی بار کہا ہے زرناب یہ ہیلو لفظ مت بولا کرو سلام نہیں کر سکتی کیا  

کیا موم اتنا غصہ کیوں کرتی ہے ،،،، غصہ کرنے سے آپکے فیس پر جھریاں پڑ جائیں گی پھر آپ بوڑھی ہو جائیں گی ،،،،،، اور ڈیڈ دوسری شادی کرلیں گے ،،،،، چل یار ،،، زرناب نے مزاحیہ انداز میں کہا تو ریحاب کا چہرہ سرخ ہوگیا 

مجال ہے جو یہ لڑکی میری کوئی بات سریس لے لے ،،،، آپ کیا ہنس رہے ہیں سمجھائیں اسے کل کو اگلے گھر جاکر ہماری ناک کٹوائے گی ،،،،،، ریحاب نے شمعون کو ہنستے دیکھ کر ناراضگی سے کہا 

ارے بیگم ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے ہماری بیٹی غصہ کرنے سے آپ بوڑھی ہوگئی تو پھر ہمیں دوسری شادی کا سوچنا پڑے گا ،،،، شمعون نے اسکی بات کو سنجیدہ لئے بنا شرارت سے کہا 

دونوں باپ بیٹی ایک جیسے ہیں ایک میری امامہ ہے ،،،،، دو سال چھوٹی ہے اس سے ،،،،،لیکن کتنی سمجھدار ہے 

ہاں ہاں آپکی امامہ تو بہت مہان ہے ،،،محبت کی دیوی ،،،،بوڑھی آتما ،،،،، ہاہاہا ،،، زرناب نے امامہ نامے پر ہنستے کہا تو ریحاب نے غصے سے اسے دیکھا 

اوکے ریلیکس میں مزاق کر رہی تھی امامہ بہت اچھی بچی ہے ،،،،،،،لیکن مام  ،،،،،،میں امامہ نہیں زرناب ہوں ،،،، "زرناب شمعون شاہ " تو مجھے زرناب ہی رہنے دیں اوکے بائے ،،،، زرناب نے سنجیدگی سے کہا اور جوس کا گلاس اٹھائے چلی گئی 

دیکھا آپ نے کتنی خودسر ہے یہ اس لئے کہتی ہوں میں اسے پہلے اس رشتے سے آگاہ کردینا چاہیے 

تم بہت زیادہ سوچتی ہو ریحاب بچی ہے وہ بیس سال کی ہے اتنی بڑی نہیں ہوئی سمجھ جائے گی ،،،، شمعون نے بے پروائی۔ سے کہا انہیں اپنی بیٹی پر یقین تھا لیکن نہیں جانتے تھے کہ یہ یقین بہت جلد ٹوٹنے والا تھا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

ہیلو کہاں ہو تم  کال کیوں نہیں اٹھا رہی ،،،،،اسکے کال پک کرتے ہی ضرار نے غصے سے کہا

اففف تمہارا یہ غصہ ،،،،، بہت کیوٹ لگتے ہو غصے میں قسم سے

میں مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں زری 

"اوکے اوکے ایم سوری 

 میں باہر موم ڈیڈ کے ساتھ تھی اور موبائل روم میں پڑا تھا اس لئے پتا نہیں چلا 

 اچھا یہ بتاؤ کہ اتنی کالز کیوں کی خیریت سب ٹھیک ہے ناں ،،،، زرناب نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے مسکراتے پوچھا 

دماغ خراب ہوگیا تھا تو سوچا پاگل خانے فون کرلیتا ہوں ،،،، ضرار نے تپ کر کہا تو زرناب کا قہقہ گونجا 

سریسلی تو مسٹر ضرار عازم خان آپ نے رونگ نمبر ڈائل کیا ہے یہ پاگل خانہ نہیں ہے نہ ہی یہاں پاگلوں کا علاج ہوتا ہے 

پاگل خانہ نہیں ہے تو کیا ہوا میرا علاج تو رونگ نمبر والی کرسکتی ہے ناں  ،،، ضرار نے گمبھیر لہجے میں کہا 

" اچھا جی  

ہاں جی " اب مجھے یہ بتاؤ تمہارے فائنل ایگزیم کب ہیں

ہمممم نیکسٹ ویک سے سٹارٹ ہیں،،،، کیوں ؟ 

بس تمہارے ایگزیم کے ختم ہوتے ہی موم ڈیڈ کو تمہارے گھر بھیجوں گا ہمارے رشتے کے لئے ،،،،، ضرار نے سنجیدگی سے کہا 

کیا اتنی جلدی ،،، زرناب نے حیرت سے پوچھا

کوئی جلدی نہیں ہے بیس سال کی ہوگئی ہو تم اب کیا پچاس سال کی عمر میں شادی کرو گی ،،،، دیکھ لو تب تک میرے پانچ چھے بچے ہونگے ،،،،، وہ بھی تمہارے جتنے ،،،،، پھر نہ کہنا ضرار نے بےوفائی کی ،،،، ضرار نے شرارت سے کہا تو زرناب کا چہرہ سرخ ہوگیا 

میں جان لے لوں گی تمہاری اور تمہاری چڑیل بیوی کی ،،،،، زرناب نے جلتے کلستے کہا 

ہاہاہا ریلیکس زری مزاق کر رہا ہوں ،،،، ویسے غصے میں تم ایک دم خونخوار چڑیل لگتی ہوں ،،،، ضرار نے اسے تپانے کو کہا اور زرناب تپ بھی گئی 

ضرار ررررر 

ہاہاہااچھا سوری 

وہ آندھی طوفان بنا حویلی پہنچا اور اپنی گ*ن لوڈ کرتے جیپ کی طرف بڑھا 

مکرم کیا ہوا ،،،،، کہاں جارہے ہو تم ؟؟،،،، شازم شاہ نے اسکے غصے سے سرخ چہرے پر چھائے سرد و سپاٹ تاثرات  دیکھتے پوچھا 

بابا سائیں آج میں چودھریوں کو نہیں چھوڑوں گا ،،، بہت پر نکل آئے ہیں انکے ،،،، ہمارے گاؤں کے لڑکے کا قتل کیا ہے انہوں نے ،،،،، جانتے نہیں کہ شاہوں سے دشمنی کا  انجام کتنا بھیانک ہوسکتا ہے مکرم نے سفاک لہجے میں کہا غصے سے اسکا برا حال تھا  

مکرم ہوش سے کام لو ،،، مت بھولو تم ہمارے وارث اور اس گاؤں کے ہونے والے سردار ہو ،،،، جو بھی فیصلہ ہوگا وہ جرگے میں ہوگا ،،، شازم نے اسکی بات سنتے سنجیدگی سے کہا 

وہ لوگ ہمارے گاؤں میں گھس کر ہمارے  لوگوں  کا خو*ن بہائیں اور ہم چوڑیاں پہن کر بیٹھ جائیں ،،، نہیں بابا سائیں ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے ،،،،،، مکرم نے زخمی شیر کی طرح دھاڑتے کہا تو شازم نے اسکے ہاتھ سے گ*ن لیتے آبان کو پکڑائی

تم میرے ساتھ آؤ ،،،،، وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا کہتے اندر چلے گئے 

مکرم ضبط سے مٹھیاں بھینچتے انکے پیچھے گیا 

بیٹھو ،،،، کمرے میں جاتے شازم نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ ہونٹ بینچتے بیٹھ گیا 

شازم نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا جس کی بھوری پُر کشش آنکھوں میں غصے سے چھائی سرخی ،،، مونچھوں تلے بینچے عنابی لب  ،، کشاد پیشانی پر پڑی سلوٹیں اور تنی بھنویں ،، اسکے اندر کے اشتعال کا پتا دے رہی تھیں سفید سوٹ میں ملبوس کاندھے پر شال ڈالے وہ مردانہ وجاہت کا شہکار تھا  جسکی سحر انگیز پرسنالٹی جو دیکھنے والے کو اپنے سحر میں قید کر لینے کی صلاحیت رکھتا تھا  

بات بات پر جزباتی نہیں ہوتے مکرم سائیں تحمل سے کام لینا چاہیے ،، اپنے غصے پر کنڑول کرنا سیکھو غصہ انسان کی عقل کھا جاتا ہے ،،، جسکے بعد انسان ایسے غلط فیصلے لیتا ہے ،،،،،، یا کاروائی کر جاتا ہے  کہ جسکے بعد صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں 

میں کوئی غلط فیصلہ نہیں کررہا بابا سائیں انصاف دلا رہا ہوں اس ماں کو جس کا کلیجہ نکال لیا گیا ،،،،اس بوڑھے باپ کو جسکے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا گیا،،،، انکے مجرموں کو سزا دینے جارہا ہوں  ،،، انصاف کے تقاضے یہی کہتے ہیں بابا ،،،خو*ن کا بدلہ خو*ن ،، مکرم نے سپاٹ لہجے میں کہا 

تمہیں کیا لگتا ہے کسی اور ماں کا کلیجہ نکال کر تم انصاف کرو گے ،،، نہیں مکرم سائیں ،،،  غلط سوچ ہے تمہاری ،،، تم بھی کسی ماں کا کلیجہ نکال کر ظلم کرو گے انصاف نہیں ،،، اور ایسا کرنے سے دشمنی بڑھے گی آج تم جاکر ایک کو مارو گے کل وہ آکر دو کو مار کر چلے جائیں گے 

 اس لئے ہوش سے کام لو جو بھی فیصلہ ہوگا جرگے میں ہوگا سمجھ رہے ہو نہ ،،، شازم نے سنجیدگی سے کہا تو مکرم نے اثبات میں سر ہلایا 

تم جانتے ہو تمہارے چاچا سائیں آرہے ہیں

" جی جانتا ہوں 

اور یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کس مقصد کے لئے آرہے ہیں ،،،، شازم نے جانچتی نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتے کہا 

جی یہ بھی جانتا ہوں  

ہممم تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے ناں ؟ اگر ہے تو ہمیں بتا دو ؟  

نہیں بابا سائیں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے جیسا آپ کو بہتر لگے

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

بابا سائیں آپ لوگ حویلی جائیں مجھے کل ایک میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے میں بعد میں آجاؤں گا ،،،، سب ڈنر کے وقت اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب دلاور نے کہا

حویلی کون جارہا ہے ؟  ،،،، زرناب نے دلاور کی بات سن کر حیرت سے پوچھا 

ہم جارہے ہیں ،،،، تم  دونوں اپنا سامان پیک کر لوں کل صبح ہمیں نکلنا ہے ،،، ریحاب بیگم نے دونوں کو دیکھتے کہا تو امامہ نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا 

لیکن موم میں وہاں نہیں جاؤں گی میرے ایگزیم ہیں نیکسٹ ویک سے مجھے تیاری کرنی ہے ،،،،  آپ لوگوں کو جانا ہے تو جائیں 

زرناب میں بحث کے موڈ میں نہیں ہوں جتنا کہا ہے اتنا کرو ہر بات میں ضد کرنا ضروری نہیں ہوتا 

جہاں تک رہا تمہارے ایگزیم کا مسلہ تو ابھی ایک ہفتہ رہتا ہے تب تک ہم واپس آجائیں گے ،،،، ریحاب بیگم نے سختی سے کہا تو زرناب اپنا سا منہ لے کر رہ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

کیا یار سب کا حویلی جانا ضروری ہے کیا ،،، زرناب نے کمرے میں آتے چڑتے کہا 

آپی امی نے کہا تو ہے ہم آپکے ایگزیم سے پہلے واپس آجائیں گے تو پھر کیا پریشانی ہے ویسے بھی گاؤں میں کتنا مزہ آتا ہے ،،، ہرے بھرے کھیت ،،،، باغ ، نہریں اور وہاں کا پرسکون ماحول ،،، دھول مٹی سے پاک تازہ ہوا روح کو سکون بخشتی ہے قسم سے میرا بس چلے تو میں وہیں رہ جاؤں ،،،، امامہ نے آنکھیں بند کئیے مسکراتے کہا جیسے وہ سب محسوس کر رہی ہوں 

تو رہ جاؤ نہ وہیں ،،،، لیکن مجھے معاف ہی رکھو مجھے نہیں پسند ،،،، یاد نہیں پچھلی بار جب گئے تھے تو سلطانہ پھوپھو کیسے بار بار طنز کر رہی تھی اور بات بات پر روک ٹوک یہ کرو ،، وہ نہ کرو ،، دھیما بولو ،،، ہنسو مت لڑکیاں منہ پھاڑ کر نہیں ہنستی ،،،، جیسے لڑکیاں تو انسان ہی نہیں ہوتیں

 اور تم نے دیکھا تھا پھوپھو کو ،،،، خود کیسے ہنستی تھی،،،،، انکے جناتی قہقہے مجھے ابھی تک یاد ہیں،،،،،  مجھے تو خواب میں بھی انکے قہقے دیکھتے ہیں ،،،،،، زرناب نے جلتے کہا تو امامہ کی ہنسی چھوٹ گئی 

اور تائی امی کا بیٹا مکرم شاہ پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو ،،،، اسکا ایٹٹیوڈ دیکھا ہے تم نے مانا کہ بہت ہینڈسم ہے پرسنالٹی اچھی ہے لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ سامنے والے کی کوئی عزت ہی نہیں ،،،،، عجیب لوگ  ،،،، میرا تو دم گھٹنے لگتا ہے وہاں ،،،، زرناب نے سوچتے جھرجھری لی تو امامہ ہنس دی 

آپی پھوپھو کو تو عادت ہے وہ کسی کو نہیں چھوڑتی ،،،  تائی امی کتنی سویٹ ہیں ،،، اور جہاں تک بات مکرم بھائی کی ہے تو انکی نیچر ہی ایسی ہے ،،،،  کچھ دن کے لئے تو جارہے ہیں،،، ہم نے کونسا ساری زندگی وہیں رہنا ہے ،،،،،،امامہ نے کبرڈ سے سلیپنگ سوٹ نکالتے کہا اور واش روم چلی گئی جبکہ زرناب موبائل اٹھائے میسج ٹائپ کرنے لگی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

واٹ مطلب اب پورے ویک تمہیں دیکھ نہیں سکتا بات نہیں کر سکتا  ،،، کوئی ضرورت نہیں جانے کی  ضرار زرناب کے حویلی جانے کا سن کر غصہ ہوا 

ضرار جانا تو پڑے گا موم ڈانٹیں گی   

تم منع کردو نہ کوئی بہانہ بنا لو 

نہیں کر سکتی موم نے سختی سے کہا ہے کہ وہ کوئی بہانہ نہیں سنیں گی ،،، چلیں ایک ہفتے کی بات ہے میں کونسا ساری زندگی وہاں رہوں گی ،،،، زرناب نے کہا تو ضرار نے فون کو گھورا جیسے فون کی جگہ زرناب ہو 

تمہارے لئے یہ سات دن کچھ بھی نہیں میرے لئے یہ سات دن عزاب سے کم نہیں ظالم لڑکی ،،، ضرار نے بیچارگی سے کہا تو زرناب اسکی دیوانگی پر ہنس دی

 "اتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے

" محبت نہیں عشق کرتا ہوں تم سے  تم اندازہ نہیں لگا سکتی میری دیوانگی کا " ،،، ضرار نے بھاری لہجے میں کہا 

اوکے اب میں جارہی ہوں،،،،،  نیچے سب میرا انتظار کر رہے ہیں ،،، زرناب نے اسکی باتیں سن کر دھڑکتے دل سے کہا 

ہمممم ٹھیک ہے اپنا بہت سارا خیال رکھنا میرے لئے ،،،، اور  پہنچ کر مجھے اطلاع دے دینا ،،، ضرار نے محبت سے کہا 

ہمم اوکے ٹیک کئیر ،،،، اللّٰہ حافظ ،،، زرناب نے کہتے کال کاٹی تب ہی اسکی میسج ٹیون بجی 

"آئی مس یو سو مچ

میسج پڑھتے ہی زرناب کے لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ آئی 

" تمہارا واقعی کچھ نہیں ہوسکتا " پاگل " زرناب نے میسج ٹائپ کرتے سینڈ کیا اور مسکراتے باہر نکل گئی جہان سب اسکا انتظار کر رہے تھے 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

بازغہ بیٹا یہ ٹرے پکڑو ،،، جاؤ اپنی چاچی کو ناشتہ کروا کر دوائی دے دو پلیز ،،،، میں تمہارے بابا کو دیکھو جاکر انہیں آفس سے دیر ہورہی ہے ،،، بازغہ کچن میں آئی تو رومیسہ بیگم نے ناشتے کی ٹرے اسکے ہاتھ میں دیتے کہا

جی امی میں کرا دوں گی آپ جائیں ،،، بازغہ نے مسکراتے کہا اور ٹرے اٹھائے زینت بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی 

اسلام علیکم چاچی جان 

ارے بازغہ وعلیکم السلام بیٹا ،،،، آج سورج کہاں سے نکلا تھا ،،، اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر زینت بیگم کو خوشگوار حیرت ہوئی 

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں چاچی جان بس آج یہ سورج آپ کو اس لئے نظر آرہا ہے کیونکہ آج میں نے کالج سے چھٹی مار لی ہے ،،،، بازغہ نے ہنستے کہا 

کیوں خیریت تو ہے ناں ؟ 

بس چاچی جان آج میری جگر کالج نہیں گئی تو میرا بھی دل نہیں کیا ،،، بازغہ نے کاندھے اچکاتے کہا 

او مطلب امامہ کالج نہیں گئی ؟ 

ہاں جی وہ اپنے گاؤں گئی ہوئی ہے پورے ایک ویک کے لئے آپ کو پتا ہے نہ آسکے بنا میرا دل نہیں لگتا یہ ویک پتا نہیں کیسے گزرے گا ،،،، میرا بس چلے تو اسے اپنے پاس رکھ لوں ،،،،بازغہ نے اداسی سے کہا تو زینت بیگم ہنس دی

تو بیٹا تم اب بھی اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہو  

ہیں ،،،،سچ میں،،،، مگر کیسے ؟ بازغہ نے زینت بیگم کو دیکھتے اشتیاق سے پوچھا 

سمپل اپنی بھابھی بنا کر ،،،، زینت بیگم نے کہا تو بازغہ کا منہ کھلا 

ہاااا ،،،، سریسلی ،،،،یہ ہوسکتا ہے ،،،، امامہ میری بھابھی ،،،،،  یہ آئیڈیا مجھے کیوں نہیں آیا ،،،، امامہ کو اپنے گھر کا فرد اور اپنے بھابھی کے روپ میں سوچ کر ہی  بازغہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا 

کیونکہ تم عقل مند نہیں ہو ،،، پاگل ،،، زینت بیگم نے اسکے سر پر چت لگائے کہا تو بازغہ ہنستے انکے گلے لگ گئی 

تھنک یو سو مچ چاچی جان آپ نے تو میرا مسلہ ہی حل کر دیا بس اب امی کے کانوں تک یہ بات پہنچانی ہوگی بھائی کو وہ خود سنبھال لیں گی ،،، بازغہ نے چہکتے کہا تو زینت بیگم اداسی سے مسکرا دی 

  امامہ انہیں بھی بہت پسند تھی ایک عجیب سی انسیت محسوس ہوتی تھی اس سے ،،،، زینت بیگم جب بھی اسے دیکھتی تھیں   انکے دل میں عجیب سے احساسات پیدا ہوتے تھے جنہیں وہ سمجھ نہیں پاتی تھیں

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

وہ لوگ حویلی پہنچ چکے تھے ،،،، سب نے خوش وخروش انداز میں انکا استقبال کیا ،،، مبشرہ بیگم زرناب کو دیکھ کر واری صدقے جارہی تھیں ،،،،،،، جاتی بھی کیوں نہ آخر کو انکی ہونے والی بہو تھی وہ ،،،، جبکہ سلطانہ بیگم کا انداز نارمل تھا 

رات ہونے والی تھی سب سے مل کر امامہ اور زرناب کمرے میں آرام کرنے چلی گئی جبکہ بڑے سب لاونج میں بیٹھے تھے

بھائی صاحب میں اپنا وعدہ پورا کرنے آیا ہوں ،،،،،، ماشاءاللہ سے زرناب کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے اور مکرم بھی زمہدار ہوگیا ہے  سرداری سنبھالنے والا ہے،،،، تو میں اسکی امانت اسے سونپنے آیا ہوں ،،،، شمعون شاہ نے کہا تو سب کے چہرے پر خوشی چھا گئی 

تو ٹھیک ہے نیک کام میں دیری کیسی ،،،، بسمہ اللہ کرتے ہیں ،،، بھئی آپ لوگ شادی کی تیاریاں شروع کریں،،، شازم شاہ نے مسکراتے کہا تو شادی کا سن کر ریحاب بیگم کی مسکراہٹ سمٹی 

بھائی صاحب معزرت لیکن شادی اتنی جلدی ،،،، مطلب میں کہہ رہی تھی کہ ابھی صرف نکاح کر لیتے ہیں ویسے بھی زرناب کے پیپرز ہیں ،،،، ایسے میں شادی ،،،، ریحاب بیگم نے سنجیدگی سے کہا 

ریحاب فکر کیوں کرتی ہو زرناب اب ہماری اور مکرم کی زمہ داری ہے اسکے امتحانات سے پہلے ہی شادی ہوجائے گی اور مکرم ہے نہ اسے لے جائے گا شہر ،،،، تم بس ہماری امانت ہمیں سونپ دو ،،،، مبشرہ بیگم نے ریحاب کا ہاتھ پکڑتے مان سے کہا تو وہ جبراً مسکرا دی لیکن دل میں اٹھتے وسوسے انہیں پریشان کر رہے تھے 

مکرم کے آتے ہی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی وہ بھی بنا زرناب کو بتائے ،،،،، 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

صبح زرناب اٹھی تو حویلی میں ہوتی ہلچل دیکھ کر حیران ہوئی 

اسلام علیکم امی اسلام علیکم تائی امی 

یہ اتنی تیاریاں کیوں ہورہی ہے کچھ خاص ہے کیا ،،،، زرناب نے لاونج میں بیٹھی ریحاب اور مبشرہ بیگم کو سلام کرتے حیران کن لہجے میں پوچھا 

ارے یہ کیا جس کی شادی ہے اسے پتا ہی نہیں کہ تیاریاں کیوں ہورہی ہیں ،،،، بھابھی آپ نے بتایا نہیں زرناب کو کہ یہ ساری تیاریاں اسکی اور مکرم کی شادی کے لئے ہورہی ہیں 

 ابھی ریحاب بیگم اسے بتانے ہی لگی تھیں جب سلطانہ بیگم نے آتے تمسخرانہ انداز میں مسکراتے کہا تو انکی بات سن کر زرناب کو لگا حویلی کی چھت اس پر گرا دی گئی ہو ،،، بے یقینی سے انکھیں پھاڑے وہ ریحاب بیگم کو دیکھتے اپنے کمرے میں بھاگ گئی 

 شرما گئی لڑکی ،،،،، بھابھی ناشتے میں کیا ہے ،،،،، سلطانہ بیگم نے اسکے بھاگنے پر مسکراتے کہا اور مبشرہ بیگم سے باتوں میں لگ گئی جبکہ ریحاب بیگم زرناب کا سوچ کر پریشان ہورہیں تھیں

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

امامہ جو صبح سے اداس تھی اسے جب زرناب اور مکرم کی شادی کی خبر ملی تو اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا بازغہ کو بتا کر وہ داجی کے کمرے کی طرف جارہی تھی جب سامنے سے آتے مکرم سے ٹکرائی 

ااہ میرا سر ،،،،،  اسکا سر مکرم کے سینے میں لگا تھا اپنا سر اسکے سینے سے ٹکائے وہ کراہی تو  مکرم اس خوشبوؤں بھرے نرم و نازک وجود کو اپنے قریب پاکر ساکت ہوا تھا اس کے ہاتھ کے نیچے مکرم کے دل کی رفتار تیز ہوئی تھی 

لیکن جلد ہی وہ اسکے حصار سے نکلتے ہوش میں آیا اور واپس اپنے خول میں سمٹتے غصے سے اسے گھورا 

آنکھیں کرائے پر دی ہوئی ہے کیا ،،،،، جو اندھوں کی طرح چل رہی ہو ،،، دھیان کہاں ہوتا ہے تمہا  مکرم نے بازو سے پکڑتے اسے خود سے دور کرتے سختی سے کہا  تو امامہ نے سر پکڑے اسے گھورا 

غلطی آپ کی ہے اور آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں ،،، دیکھیں کتنی چوٹ لگی ہے مجھے وہ بھی آپ کی وجہ سے   امامہ نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھتے کہا   

ہاں بہت چوٹ آئی ہے سر پھٹ گیا ہے تمہارا،،،  دیکھو کتنا خو*ن نکل رہا ہے  ،،،، بے وقوفی لڑکی ،،، آنکھیں کھلی رکھا کرو اپنی سمجھیں ،،،، مکرم نے بھنویں سکیڑتے اسے گھورتے کہا اور سائڈ سے نکلتے چلا گیا امامہ اسکی پشت کو گھور کر رہ گئی 

یہ سب کیا ہورہا ہے موم ،،،، میری شادی وہ بھی اس سائیکو انسان کے ساتھ 

 نو وے ،،، میں مر جاؤں گی لیکن اس گھمنڈی سے شادی نہیں کروں گی ،،،، آپ ڈیڈ سے کہیں واپس چلیں میں اب ایک منٹ بھی یہاں نہیں رکنا چاہتی ،،،،، زرناب نے غصے سے لال ہوتے کہا اور کبرڈ سے اپنے کپڑے نکال کر بیڈ پر پھینکنے لگی 

زرناب تم میری بات سمجھ کیوں نہیں رہی بیٹا،،،کہیں نہیں جا رہے ہم ،،،، تمہارے بابا نے تمہاری بہتری کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے   

کیا تمہیں اپنے بابا پر یقین نہیں ہے 

وہ تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں لیں گے بیٹا ،،،، تمہاری دادی نے بچپن میں ہی تمہیں مکرم کے لئے مانگ لیا تھا ،،،، ہم تمہیں بتانے والے تھے 

کب بتانے والے تھے ،،،،،میری شادی کے دن ،،،،، موم آپ سب کو ان لوگوں کی پرواہ ہے جو اس دنیا میں ہیں ہی نہیں اور جو زندہ ہیں آپ کو انکی فکر نہیں 

میں اس انسان کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتی ،،،، اور یہاں اس قید خانے میں تو کبھی نہیں 

کیوں نہیں گزار سکتی میں تمہارے بابا کو کیا وجہ بتاؤ گی انکار کی بولو ؟

میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں موم ،،،،، یہ وجہ ہے میرے انکار کی ،،، اگر آپ لوگوں نے زبردستی کی تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی 

،،،چٹاخ ،،،،،  زرناب نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا تب ہی ریحاب بیگم کا ہاتھ اٹھا اور اسکے گال پر نشان چھوڑ گیا   

" مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی زرناب" دو دن کی محبت کے لئے تم ہماری ساری زندگی کی محبت فراموش کردو گی " زرا بھی ہمارا ہماری عزت کا خیال نہیں تمہیں ،،،، ہماری محبت کا یہ صلہ دے رہی ہو تم ،،،، اتنی بد لحاظ ہوگئی ہو کہ بات کرنے کی تمیز تک بھول گئی ہو 

 ایک بات میری کان کھول کر سن لو تمہاری شادی ہوگی تو مکرم سے ہوگی سمجھی اگر گھر سے باہر نکلنے کا سوچا بھی نہ تو ٹانگیں توڑ دوں گی تمہاری ،،،، ریحاب بیگم نے غصے سے اسکا بازو دبوچے کہا جو ہکا بکا سی گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی 

موم آپ لوگوں نے مجھے نازوں سے اس لئے پالا تھا کہ بدلے میں مجھ سے اتنی بڑی قربانی مانگیں ،، میرا جینے  کا حق چھین لیں ،،،،  اگر ایسا ہے تو پھر آپ بھی سن لیں ،،،میں یہ شادی کسی صورت نہیں کروں گی پھر چاہے آپ میری جان ہی کیوں نہ لے لیں  ،،،،، زرناب نے ہٹ دھرمی سے کہا اور ڈریسنگ روم میں گھس گئی ریحاب بیگم نے بےبسی سے ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو دیکھا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئیں 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

آج اسکی مہندی تھی ،،،،، صبح سے حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی فنگشن رات کو رکھا گیا تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے مکرم اور شمعون شازم کے ساتھ جرگے میں گئے ہوئے تھے جہاں چودھریوں کا فیصلہ ہونا تھا ،،،،، ان لوگوں نے اپنے نادانستگی میں کئے گئے گناہ کی معافی مانگی ،،،، اور بدلے میں خون بہا دینے کا کہا ،،،،، تو اللّٰہ دتے نے خون بہا لینے سے منع کردیا اور اللّٰہ کی رضا کے لئے  انہیں معاف کردیا  اگر وہ خون کے بدلے خون مانگتا تو دشمنی بڑھتی،، جبکہ اس کے بوڑھے کاندھوں میں اور جنازے اٹھانے کی سکت نہیں تھی ،،،، بیشک اللّٰہ پاک معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے 

 شازم شاہ نے اپنے سپوت کی شادی کی خوشی میں غریبوں میں کپڑے تقسیم کئے ،،،، حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا  

" شمعون دلاور ابھی تک نہیں آیا آپ اسے فون تو کریں اس نے تو آج آنا تھا ناں 

بیگم فکر مت کرو میری اس سے بات ہوگئی ہے کہہ رہا تھا کہ کام زیادہ تھا اس وجہ سے نہیں آسکا کل آئے گا

 ویسے بہت خوبصورت لگ رہی ہو ،،،، شمعون نے مہندی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہلکا سا میک اپ کئے ریحاب کو دیکھتے اسکی طرف جھکتے سرگوشیانہ انداز میں مسکرا کر کہا 

شمعون ،،،،  سب دیکھ رہے ہیں کچھ تو خیال کریں ،،، ریحاب نے اسے گھورتے کہا تو شمعون ہنس دیا 

دیکھتے ہیں تو دیکھنے دو اپنی بیوی کی تعریف کر رہا ہوں اس میں کیا قباحت ،،، شمعون نے شرارت سے آنکھ ونک کرتے کہا تو ریحاب اسے گھور بھی نہ سکی 

زرناب نے ملٹی کلر کی کرتی اور لائٹ گرین کلر کا شرارا پہنا ہوا تھا جس میں پھولوں کے زیورات سے سجی وہ چاند کو بھی مات دے رہی تھی

امامہ نے گرین کلر کا لانگ فراک پہنا ہوا تھا ہاتھوں میں تازہ پھولوں کے گجرے پہنے ، کمر تک آتے سیاہ بالوں کو کھلا چھوڑے لائٹ سے میک اپ میں وہ کئی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی اسکی معصومیت اور چہرے پر چھائی کشش دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی تھی 

کدی لگیاں نوں توڑی نا 

رب دی سوں مر جاواں گے ساتھوں 

مکھڑا تو موڑیں نا 

 تیرے ناں دی مہندی 

مر کے نی رہندی 

ازلاں تو منگی ہوئ آں 

رنگ تیرے رنگی ہوئی آں 

امامہ بیٹا بات سنو ،،،، وہ گاؤں کی عورتوں کے ساتھ گارہی تھی جب مبشرہ بیگم نے اسے آواز دی تو وہ اپنا فراک سنبھالتے انکے پاس آئی 

جی تائی امی 

بیٹا یہ سامان تو اندر کچن میں رکھ دو ،،، میں زرا مہمانوں کو دیکھ لوں ،،، مبشرہ بیگم نے اسے ٹوکری تھمائی جس میں پھولوں کے ساتھ ابٹن اور مہندی کا سامان رکھا تھا 

جی تائی امی میں رکھ دوں گی آپ جائیں ،،،، امامہ نے ٹوکری لیتے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️ 

اک پل وی نا دور رویں 

تو جو ناں سامنے ہوویں 

سانوں چنگا کوئی لگدا نئیں 

وہ ٹوکری اٹھائے گنگناتے ہوئے جارہی تھی جب اسکی ہیل فراک میں اٹکی اس سے پہلے وہ گرتی مکرم جو کچن میں کھانا لینے آیا تھا اسے گرتے دیکھ کر  ہاتھ پکڑتے اپنی طرف کھینچا

 ٹوکری الٹی جس کی وجہ سے دونوں ابٹن میں رنگ گئے ،،،، مکرم نے اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا 

ہاااا میری ڈریس ،،،،، امامہ نے اپنے فراک سے ابٹن صاف کرتے روہانسی آواز میں کہا تو مکرم نے نظر بھر کر اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا 

مکرم بھائی ،،، یہ کیا کیا آپ نے میری ساری ڈریس خراب کر دی ،،،سامنے مکرم کو دیکھ کر وہ غصہ ہوئی

میں نے خراب کی ہے ٹکریں تم مارتی پھر رہی ہوں اور الزام مجھ پر لگا رہی ہو،،،،،، اس پوری حویلی میں تمہیں میں ہی ملا ہوں ٹکریں مارنے کے لئے ،،، مکرم نے اسکے حسین چہرے سے نظریں چراتے سرد لہجے میں کہا 

 یہی سوال میں آپ سے کروں تو ،،،، آپ بھی تو ہر بار مجھ سے ٹکرا جاتے ہیں ،،، غصے سے امامہ کی چھوٹی سی ناک جس میں سفید لونگ چمک رہی تھی سرخ ہوئی   

پہلے مجھے آپکی وجہ سے چوٹ لگی اور آج آپ کی وجہ سے  میری ڈریس خراب ہوگئی ،،،،،اب میں ایسے باہر جاؤں گی 

امامہ نے ہاتھ سے ابٹن صاف کرتے منہ بناتے نروٹھے پن سے کہا اور پھر اسہی ہاتھ سے اپنے چہرے پر بکھرے بال پیچھے کئے جس سے ابٹن اسکے گال پر لگ گیا 

اسکی معصوم ادائیں دیکھ کر مکرم کا دل بے قابو ہوا لیکن اس نے خود کو ڈپٹا 

اب میں تمہارے لئے نیو ڈریس آرڈر کرنے سے رہا تو عقل کا استعمال کرو اور جاکر اسے واش کر لو احمق لڑکی ،،،، مکرم نے بے نیازی سے کہا اور بنا کھانا کھائے باہر نکل گیا ویسے بھی امامہ کو دیکھتے اسکی بھوک اڑ چکی تھی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

فنگشن ختم ہونے کے بعد زرناب اپنے کمرے میں آگئی تھی مہندی کے جوڑے میں ملبوس وہ بالکنی میں کھڑی فون کان سے لگائے بے چینی سے ٹہل رہی تھی  

فون اٹھاؤ ضرار پلیز ،،،، بار بار نمبر ڈائل کرتے وہ بڑبڑائی   

ہ ہیلو ضرار ،،،، مم میں ز زرناب 

زرناب تم اس وقت کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں ،،،،، تم رو کیوں رہی ہو ؟؟ ضرار نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے اسکی سسکیوں کی آواز سن کر فکر مندی سے پوچھا 

ضرار مم میں ٹھیک نہیں ہوں ،،،، موم ڈیڈ ،،،، زبردستی میری شادی کروا رہے ہیں ،،،، مجھے یہ شادی نہیں کرنی ضرار ،،،،، زرناب نے روتے کہا 

کیاااا ،،،،،، ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ ،،،، تم ان سے بات کرو ناں

یہاں کوئی میری نہیں سن رہا تم پلیز آکر مجھے یہاں سے لے جاؤ ،،،، میں یہ شادی نہیں کروں گی ،،،،، اگر تم نہ آئے تو میں خود کو مار دوں گی ،،، زرناب نے جنونی انداز میں کہا

شٹ اپ زری ہوش میں تو ہو تم ،،،، ایسا سوچنا بھی مت سمجھیں،،،،،،  کچھ سوچتا ہوں ،،،،،میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گا ، ،،،، ضرار نے سختی سے ڈپٹتے سرد لہجے میں  کہا 

تم سوچتے رہنا یہاں میری شادی ہو جائے گی ،،،،، اگر نہیں آسکتے تو بتا دو میں خود کوئی راستہ نکال لوں گی  زرناب نے غصے سے چلاتے کہا 

پاگل ہوگئی ہو کیا ،،،، دماغ خراب ہے جو بکواس کئے جارہی ہو،،،،، جب کہہ دیا کہ میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گا تو سمجھ نہیں آرہی ،،،، ضرار نے اسکی بات سن کر  غصے سے کہا 

ایم سوری ضرار ،،، میں کیا کروں میرا دماغ کام نہیں کر رہا ،،،، میں تم سے پیار کرتی ہوں ،،،، کسی اور کو سوچ کر ہی میرا دم گھٹنے لگا ہے پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے ،،، زرناب نے اسکا غصہ دیکھ کر روتے کہا

اوکے رؤ مت میں ایسا کرتا ہوں موم ڈیڈ کو بھیجتا ہوں وہ انکل آنٹی سے بات کر لیں گے 

کسی کو نہیں بھیجو گے تم ،،، میں اپنے گھر والوں کو جانتی ہوں وہ کسی  کی نہیں سنیں گے ،،،، تم خود آ کر مجھے لے جاؤ ،،، ورنہ میں ،،،، میں کچھ کر دوں گی ،،،، زرناب نے شدت سے روتے ضدی لہجے میں کہا 

اوکے ریلیکس تم رونا بند کرو ،،،،،،  میں خود آؤں گا ،،،، بٹ  تم وعدہ کرو کہ  خود کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گی سمجھی 

مم میں وعدہ کرتی ہوں پلیز آجاؤ 

میں آرہا ہوں ،،، ضرار نے نرم  لہجے میں کہا تو زرناب کی جان میں جان آئی 

ہممم جلدی آنا ،،، پلیز ،،،، زرناب نے روتے کہا اور فون کاٹ دیا 

صبح کا سورج حویلی میں طوفان لے آیا تھا امامہ جب ناشتہ لے کر زرناب کے کمرے میں آئی تو خالی کمرہ اسکا منہ چھڑا رہا تھا 

آپی ،،، زری آپی کہاں ہیں آپ ؟ 

امامہ نے کمرے کی حالت دیکھتے پریشانی سے آواز دی لیکن زری ہوتی تو جواب دیتی ناں  

 کبرڈ سے سارے کپڑے نیچے بکھرے پڑے تھے اور زرناب کہیں بھی نہیں تھی کمرے کی حالت دیکھ کر اسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا

آپی ،،،، کہاں چلی گئی ،،،، امامہ پریشانی سے کہتے باہر جانے لگی جب اسکی نظر سامنے شیشے پر پڑی جہاں ایک چیٹ لگی ہوئی تھی 

امامہ نے حیرت سے شیشے کے قریب جاتے اس چیٹ کو نکال کر کھولا اور جیسے جیسے پڑھتی گئی اسکی آنکھیں پھیلتی گئیں وہ ایک لیٹر تھا جو زرناب چھوڑ کر گئی تھی لیٹر کو مٹھی میں دبائے وہ روتے باہر بھاگی 

امی ،،،،،امی کہاں ہیں آپ  ،،،،  سڑھیاں اترتے وہ بلند آواز میں چلائی تو سب جو ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے پریشانی سے اٹھ کر اسکی طرف آئے 

امامہ کیا ہوا ،،،، تم تو زرناب کو ناشتہ دینے گئی تھی ناں ،،،، رو کیوں رہی ہو بیٹا ،،،، ریحاب بیگم نے اسکے آنسو صاف کرتے پریشانی سے پوچھا 

اا امی وہ ،،، زرناب آپی ،،،،،، امامہ سے بولا نہیں جارہا تھا اسے روتے دیکھ کر مکرم کے چہرے پر ناگوار پتھریلے تاثرات نمودار ہوئے 

کیا ہوا زرناب کو ،،،، وو وہ ٹھیک تو ہے نہ ،،،، بولو امامہ،،،،، کیا ہوا زرناب کو ،،،، ریحاب بیگم نے زرناب کا سن کر اسے جھنجھوڑا تو امامہ نے روتے وہ لیٹر انکے سامنے کیا جسے شمعون شاہ نے لیتے پڑھا 

( اسلام علیکم موم ڈیڈ ،،،،، جس وقت آپ لوگوں کو یہ لیٹر ملے گا میں آپ سب سے بہت دور جاچکی ہونگی،،،، میں ایسا نہیں کرنا چاہتی ،،،لیکن آپ نے مجھے مجبور کیا میری بات نہیں سنی ،،،،،، تو مجبوراً مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا ،،،،،، میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی ،،، کیونکہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ،،، اس لئے میں جارہی ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ،،،، ہوسکے تو مجھے معاف کر دیجیے گا ،،،،مجھ سے نفرت مت کیجیے گا پلیز ،،،،، اور ناں ہی مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے گا ،،، کیونکہ ڈھونڈا اسے جاتا ہے جو کھویا ہو اپنی مرضی سے جو چھوڑ جائے اسے ڈھونڈا نہیں کرتے

ایم سو سوری موم ڈیڈ ،،،، مجھے معاف کر دیجیے گا  

آپکی نافرمان بیٹی زرناب )

خط پڑھتے شمعون کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے ،،،،،  مان توڑے جانے پر ،،،، اعتبار کے کرچیاں بکھرنے پر 

شمعون کک کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ،،،، کک کیا لکھا ہے اس میں ،،،، ریحاب بیگم نے انہیں روتے دیکھ کر دھڑکتے دل سے پوچھا لیکن تب ہی شمعون شاہ نیچے گرے 

بابا 

 بابا سائیں ،،، امامہ اور حویلی کے اندر آتا دلاور جو ابھی شہر سے آیا تھا شمعون کو گرتے دیکھ کر چلاتے دونوں اسکی طرف بھاگے 

بابا ،،، آنکھیں کھولیں ،،،، بھائی 

 بھائی بابا کو دیکھیں نہ ،،، کیا ہوا انہیں 

بابا آنکھیں کھولیں پلیز 

شمعون  ،،،،، ایسی کئی آوازیں انکے کانوں میں پڑی ،،، اور پھر انکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا 

سنو گڑیا اچھی لڑکیاں باپ کا مان رکھتی ہیں ،،، انکی پگڑی بچاتی ہیں ،،،مر جاتی ہیں لیکن باپ کا سر نہیں جھکنے دیتیں 

یہ محبت ایک جھانسا ہے ،،،، اسکے جھانسے میں نہ آنا ،،،،، یہ میٹھے لفظوں کا جال ،،، ہے جسکی کوئی حقیقت نہیں 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

یہ ایک اندھیر کمرے کا منظر تھا جہاں ایک نسوانی وجود چادر میں لپٹا زمین پر ہوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا ،،،،،، تھوڑی دیر بعد ہی کمرے کے باہر قدموں کھ آواز پیدا ہوئے اور دروازہ کھول کر دو عورتیں اندر آئیں 

اے لڑکی اٹھ ،،،،، جلدی سے کھانا کھا لے 

اٹھ جا ،،، ان میں سے ایک عورت نے اس وجود کو جھنجھوڑتے کہا تو وہ کسمسائی 

کک کیا ہوا ،،،،،،کہاں ہوں میں ؟ 

آپ لوگ کون ہیں ،،،، مم میں یہاں کیسے ؟؟ 

ہواس بیدار ہونے پر اجنبی عورت کو دیکھتے زرناب جھٹکے سے اٹھی تو خود کو  اس اندھیر کمرے میں بند دیکھ کر اسکے ہوش اڑے تھے 

میں یہاں کیسے پہنچی مجھے تو ،،،، جانا تھا ،،،، ضض ضرار ،،،،،  ضرار میرا انتظار کر رہا ہوگا ،،، تم ،، کون ہو تم لوگ اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو بولو ،،، زرناب نے  غصے سے بےحال ہوتے چلاتے کہا 

سنو لڑکی ہمیں نہیں پتا تمہیں یہاں کیوں رکھا گیا ہے ،،، ہم تو ملازم ہیں ،،، اپنے سردار  کے حکم کے تابع  کھانا پڑا ہے کھا لینا ،،،جو بھی پوچھنا ہے سردار سے پوچھنا ،،،، ان میں سے ایک  عورت نے کہا اور کھانے کی ٹرے رکھے دونوں دروازے کی طرف بڑھیں 

رکو کہاں جارہی ہو تم دونوں ،،، مجھے نکالو یہاں سے ،،،، تم لوگ جانتے نہیں مجھے ،،،، اے سنو،،، دروازہ کھولو  ،،،،  انکے دروازہ بند کرنے پرر زرناب چلائی لیکن وہ دونوں جاچکی تھی 

او گاڈ کہاں پھنس گئی ہوں میں ،،،، ضرار ،،، ضرار میرا انتظار کر رہا ہوگا ،،، پتا نہیں کیا سوچ رہا ہوگا میرے بارے میں کہ میں اسے بُلا کر خود نہیں آئی 

مجھے جانا ہوگا یہاں سے ،،،، لیکن اس قید خانے سے کیسے نکلو ،،،،زرناب نے پریشانی سے کمرے کو دیکھتے کہا لیکن بہت سوچنے کے بعد بھی کوئی تدبیر نہ سوجھی تو غصے سے کھانے کی ٹرے اٹھا کر دیوار میں دے ماری اور خود نیچے بیٹھ کر رونے لگی 

یہ جو بھی ہے نہ ،،، میں چھوڑو گی نہیں اسے ،،،،، اور نہ ہی تم سب کو چھوڑوں گی ،،، اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی تمہارے سردار کی  ،،،،زرناب روتے اونچی آواز میں چلائی لیکن وہاں اسکی سننے والا  کوئی نہیں تھا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

 ضرار انتظار کرنے کے بعد گھر آگیا تھا اسے لگا زرناب وہاں سے نکل نہیں سکی اس لئے نہیں آئی اب اسکا ارادہ اپنے موم ڈیڈ کو حویلی بھیجنے کا تھا 

ضرار کہاں گئے تھے تم رات کو بھی گھر نہیں تھے ،،،، رومیسہ بیگم نے اسے اندر آتے دیکھ کر پوچھا 

موم دوست کی طرف گیا ہوا تھا ،،،، اسکو ہیلپ چاہیے تھی تو اس لئے ،،،، آپ اسے چھوڑیں یہ بتائیں ناشتہ میں کیا ہے قسم سے بہت بھوک لگی ہے ،،، ضرار نے ٹالنے والے انداز میں کہتے پوچھا 

تمہاری پسند کا ناشتہ ہے بیٹا تم جاؤں فریش ہو جاکر میں تب تک ناشتہ ٹیبل پر لگاتی ہوں ،،،، رومیسہ بیگم نے مسکراتے کہا تو ضرار تھکے انداز میں  اثبات میں سر ہلاتے سڑھیوں کی طرف بڑھ گیا

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

وہ سب پریشان سے  کمرے میں کھڑے تھے ،،،، ڈاکٹر شمعون شاہ کو چیک کر رہا تھا ،،،، امامہ کا رو رو کر ہچکیاں بندھی ہوئی تھی جبکہ ریحاب بیگم کا بھی یہی حال تھا 

 پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ،،، انہوں نے سٹریس لیا ہے کسی چیز کا اس لئے  انکا بی پی شوٹ کرگیا تھا جسکی وجہ سے انکی یہ حالت ہوئی ہے ،،،، آپ لوگ انکی ڈائٹ کا خیال رکھیں ،،، اور کوشش کریں کہ انہیں  پریشانی سے دور رکھیں 

 باقی یہ میں میڈیسن لکھ کر دے رہا ہوں ،،، آپ یہ دے دیجئے گا ،،، ڈاکٹر نے میڈیسن لکھتے کہا تو سب کی جان میں جان آئی 

بہت شکریہ آپکا ،،،، شازم نے چیٹ لیتے مشکور لہجے میں کہا 

سر اس میں شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض تھا ،،،، اگر کوئی مسلہ ہو تو آپ مجھے بلا لیجیے گا اب میں چلتا ہوں ،،، ڈاکٹر نے مسکراتے کہا اور باہر نکل گیا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ،،  زرناب کی جگہ امامہ کا نکاح ،،،،،، ایسا کیسے ہوسکتا ہے ،،،، شازم کی بات سنتے وہ سب پریشان ہوگئے تھے 

اس میں غلط کیا ہے اگر نکاح نہ ہوا تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری ،،،، اور امامہ ماشاءاللہ سے سمجھدار بچی ہے ،،، وہ ہماری بات کو سمجھے گی

بھائی صاحب وہ ابھی چھوٹی ہے ،،،، ریحاب نے کمزور سے انداز میں اپنی بیٹی کا دفاع کرنا چاہا ،،، کیونکہ شمعون کے تاثرات دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اس بات پر راضی ہیں جبکہ مکرم کے چہرے پر چھائے سپاٹ تاثرات سے کچھ بھی  اندازہ لگانا مشکل تھا 

اٹھارہ سال چھوٹی عمر نہیں ہے  ،،،، شازم نے نرمی سے کہا تو ریحاب بیگم کو خاموش ہونا پڑا 

بھائی صاحب بات تربیت کی ہوتی ہے بھابھی بیگم نے اپنی بچیوں کی تربیت ہی ایسی کی ہے کہ وہ خود سر ہوگئ ہیں ،،، میں تو زرناب کی زبان دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھی ،،، ایسے کینچی کی طرح چلتی ہے مجال ہے جو وہ لڑکی کسی کی سن لے

میں تو کہتی ہوں اب بھی سوچ لیں ایک تو منہ کالا کر کے بھاگ گئی دوسری بھی تو اسی کی بہن ہے ،،،، سگی ناں سہی لیکن بہن تو ہے ناں اسکے ساتھ پلی بڑی ہے  ،،،، بھئ اس سے پوچھ لینا اسکا بھی کوئی پلین تو نہیں سلطانہ بیگم نے تڑخ کر زہریلے لہجے میں کہا تو شازم نے سخت نظر اس پر ڈالی جس سے سلطانہ بیگم کی بولتی  بند ہوئی جبکہ ریحاب کی آنکھیں بھیگ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

امی ،،،، یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ،،، مم میں آپی کی جگہ ،،،، ایسا کیسے کرسکتے ہیں آپ لوگ،،،امامہ نے بےیقینی سے دلہن کے لئے لائے گئے سرخ جوڑے کو دیکھتے  ریحاب بیگم سے کہا

یہ تمہارے بابا اور تایا جان کا فیصلہ ہے امامہ ،،، حویلی کی عزت جسے زرناب نے داؤ پر لگایا ہے ،،،، تمہیں اسے بچانا ہوگا ،،،، اگر یہ نکاح نہیں ہوا تو سب برباد ہو جائے گا  

میں ہی کیوں امی ،،،، مجھے کیوں قربان کر رہے ہیں آپ لوگ ،،، میرا کیا قصور ہے ،،،پلیز ایسا مت کریں ،،،، مجھے یوں بے مول مت کریں ،،،، میری ہی نظروں میں مت گرائیں مجھے پلیز ،،،،میں ہاتھ جوڑتی ہوں ،،، امامہ نے ہچکیوں سے روتے کہا تو اسکو روتے دیکھ کر ریحاب بیگم بھی رو دیں 

میں بےبس ہوں میری جان ،،،، ہو سکے تو اپنی ماں کو معاف کردینا ،،، ریحاب بیگم نے بے بسی سے اسکے جڑے ہاتھ پکڑتے کہا اسکی پیشانی چومتے چلی گئیں

مم میں ایسا نہیں کر سکتی ،،، دل میں کوئی اور بسا ہو ،،،،،اور نکاح کسی اور سے ،،،، نہیں ،،، میں نہیں کر سکتی ،،،، یہ دوغلہ پن مجھ سے نہیں ہوگا ،،،، میں کسی کو دھوکا نہیں دے سکتی ،،، ،،، اللّٰہ جی ،،، یہ کیسی آزمائش ہے ،،،،، پلیز میری مدد کریں ،،،،، انکے جاتے ہی امامہ اس سرخ جوڑے کو دیکھتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی جو اسکے لئے کفن بننے والا تھا

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️ 

" امامہ شمعون شاہ " ولد شمعون شاہ آپکا نکاح  "مکرم شازم شاہ " ولد شازم شاہ سے پچیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے 

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟ 

مولوی صاحب نے پوچھا تو سب کی نظریں امامہ کی طرف اٹھیں جو ساکت بیٹھی تھی 

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟۔ مولوی نے پھر سے پوچھا سب دھڑکتے دل سے امامہ کو دیکھ رہے تھے جو خاموش بیٹھی تھی مکرم نے خونخوار نظروں سے جالی کے اس پار دیکھا جیسے ابھی اس لڑکی کی جان لے لے گا 

امامہ شمعون شاہ ،،، آپکا نکاح مکرم شازم شاہ سے پچیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ،،،، مولوی صاحب نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا سلطانہ بیگم اسکی خاموشی پر شمعون شاہ کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھ رہیں تھیں 

امامہ بیٹا مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں آپ سے ،،، ہاں بولو ،،، ریحاب بیگم نے اسکی طرف جھکتے سرگوشیانہ انداز میں منت بھرے لہجے میں کہا تو امامہ کے وجود میں ہلچل ہوئی 

نہیں ،،،، اور پھر اسکا سکتہ ٹوٹ ہی گیا  

مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے ،، امامہ نے سپاٹ لہجے میں کہا اور اپنا لہنگا سنبھالے وہاں سے چلی گئی 

ہاہ کتنی بے شرم لڑکی ہے یہ۔ ،،،،، دیکھا بھائی میں کہتی تھی نہ ،،،، یہ لڑکی ایک دن کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائے گی ،،،، کردیا نہ سب کے سامنے شرمندہ اسی بات  کا ڈر تھا مجھے ،،،، پہلے وہ زرناب بھاگ گئی اور اب یہ 

 یہ تو ہے ہی گندا خون  ،،،، تو گند ہی پھیلائے گی ناں ،،،،، امامہ کے جاتے ہی سلطانہ بیگم جو موقع دیکھ رہی تھیں اسکے انکار پر اپنے دل میں چھپا زہر اگلنے لگیں 

بس کریں پھوپھو ،،،،،آپکو تو بس موقع چاہے ہوتا ہے جو دل میں آتا ہے بول دیتی ہیں ،، دلاور شاہ نے غصے سے لال ہوتے کہا تو سلطانہ بیگم اسے گھور کر رہ گئیں 

بھائی میں بہت شرمندہ ہوں ،،،، ہوسکے تو مجھے معاف کردیجیے گا ،،،، شمعون شاہ نے شازم کے سامنے ہاتھ باندھتے سر جھکائے کہا تو شازم نے بڑھتے اسے سینے سے لگایا 

ایسے نہ کہو یار ،،،، سب ٹھیک ہو جائے گا ،،،،شازم نے اسکی پیٹ تھپتھپاتے کہا  وہ نہیں چاہتا تھا کہ شمعون کوئی پریشانی لے 

کیسے ٹھیک ہوگا بھائی حویلی مہمانوں سے بھری پڑی ہے سب کو کیا جواب دیں گے

تمہیں جواب دینے کی ضرورت نہیں ہم فلحال نکاح ملتوی کردیتے ہیں  

کوئی نکاح ملتوی نہیں کرے گا ،،، نکاح آج ہی ہوگا ،،،، آپ میرے ساتھ آئیں  ،،، ریحاب بیگم نے سرخ نظروں سے شمعون کو دیکھتے  سپاٹ لہجے میں کہا اور اندر چلی گئی اسکے پیچھے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر سلطانہ بیگم بھی گئی تھیں 

نا میرا بن سکا ہے تو نا میں تیرا

جدا تھی میری دنیا سے تیری دنیا 

کمرے میں آتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ،،، دل و دماغ کی جنگ میں الجھ کر رہ گئی تھی وہ 

 ریحاب اور شمعون کمرے میں آئے تو اسے روتے دیکھ کر ریحاب اسکی طرف بڑھی اور بازو سے دبوچتے اسکا رخ اپنی طرف موڑا 

کس گناہ کی سزا دے رہی ہو تم دونوں بہنیں بولو ،،،، وہ تو ہے ہی خودسر ،،،، تم نے ایسا کیوں کیا امامہ ؟ 

دیکھو اپنے بابا کو ،،،، دیکھو کس حال میں پہنچا دیا ہے تم دونوں نے ،،،،،، کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا  ،،،، جب انکار کرنا تھا تو باہر کیوں آئیں ،،، سب کے سامنے بےعزت کرنے ،،،،، بولو ،،، ریحاب بیگم نے اسکو جھنجھوڑتے غصے سے پوچھا 

اا امی ،،،، مجھے معاف کردیں ،،،، میں بے بس ہوں ،،،، میں ایسا نہیں کرنا چاہتی  لیکن میرا دل نہیں مان رہا ،،،،، میں نہیں کرسکتی ،،،، پلیز  ،،،، بابا ،،،، آپ مجھ سے میری جان مانگ لیں،،،،، افف تک نہیں کروں گی ،،،، لیکن میں یہ نکاح نہیں کر سکتی ،،،، امامہ نے اذیت سے روتے کہا 

نہیں تمہاری جان کیوں لیں تم ایسا کرو ناں ،،،، ہم دونوں کو مار دو ،،،، اسکے بعد جو تمہارے دل میں آئے کرتی رہنا ،،، ریحاب بیگم نے شدت سے چلاتے کہا 

امی ،،،،، امامہ نے بے یقینی سے انہیں دیکھا 

یہ دیکھو امامہ ،،،،یہ میرے جڑے ہاتھ ،،،، یہ نکاح کر کے ایک آخری احسان کر دو ہم پر ،،،،، ایک نے تو رسوا کردیا اب تم ایسا مت کرو میں ہاتھ جوڑتی ہوں ،،،، ریحاب بیگم نے بےبسی سے روتے کہا تو امامہ نے زخمی نظروں سے اسے اور شمعون کو دیکھا جو خود بھی روتے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے جن میں التجا تھی 

ٹھیک ہے مجھے یہ نکاح قبول ہے ،،،، امامہ نے ریحاب کے ہاتھوں کو پکڑ کر نیچے کرتے ،،،،، اپنے آنسو پونچھتے اذیت سے مسکراتے  کہا تو  اسکا ہر احساس ہر جذبے سے عاری تھا ،،،،،  لیکن سرخ آنکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے سائڈ ڈار کی طرف جاتے اس نے ایک شیشی اٹھاتے دوپٹے کی اوٹ میں چھپائی اور  شمعون ،ریحاب کا انتظار کئے بنا باہر نکل گئی 

نکاح پھر سے پڑھایا گیا 

"امامہ شمعون شاہ" آپکا نکاح "مکرم شازم شاہ" سے پچیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے 

اس سے پوچھا گیا تو اس نے کانپتی آواز میں "قبول ہے " کہا

"قبول ہے " آخری بار کہتے اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائن کئے اور پھر پین اسکے ہاتھ سے گر گیا سرخ آنکھوں سے بہتے آنسو بے مول ہوگئے 

نکاح کے بعد مبشرہ بیگم اسے مکرم کے کمرے میں بیٹھا کر چلی گئی انکے جاتے ہی وہ جو بے جان سی بیٹھی تھی اپنی قسمت پر  بلک بلک  کر روئی ،،، آنکھیں رو رو کر سرخ انگارہ ہورہی تھیں کافی دیر رونے کے بعد اس نے اٹھتے خود کو آئینے میں دیکھا روائتی دلہن کی طرح سجا سنوار وجود قیامت ڈھا رہا تھا  ، سوگوار حسن کے ساتھ وہ آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی

 خود کو دلہن کے روپ میں دیکھتے وہ پھر سے رو دی 

یا اللّٰہ  میرے اپنوں نے مجھے  کس دہرائے پر لا کھڑا کیا ہے  ،،،،، میں اپنے ضمیر پر پڑا بوجھ کیسے اتاروں   اس بوجھ کے ساتھ میں خود سے نظریں نہیں ملا پارہی ،،، کہ میں بےوفائی کر رہی ہو ،،،،، محبت کسی اور سے اور شادی

 نن نہیں   ،،،،، مم میں بےوفا نہیں ہوں ،،، نہ ہی دھوکے باز ،،، زخمی نظروں سے خود کو دیکھ کر جنونی انداز میں کہتے اس نے اپنے ہاتھ میں دبی شیشی سے ٹیبلٹ نکالی 

اایم سوری بابا ،،،، مم مجھے معاف کر دیجیے گا ،،،،، میں آپکا مان تو رکھ لیا  ،،،، لیکن خود مر گئی ،،،، میں ضرار کو اپنے دل سے نہیں نکال سکتی وہ میری روح میں بستا ہے ،،،، اس کو نکالوں تو مجھ میں کچھ نہیں بچتا لیکن میں کسی اور کی زندگی بھی برباد نہیں کر سکتی ،،،، ہوسکے تو مجھے معاف کر دیجیے گا  

ہچکیوں سے رو کر کہتے اس نے وہ ساری ٹیبلیٹ کھا لیں 

مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد مکرم  کمرے میں آیا تو اسے بیڈ پر آڑا ترچھا لیٹا دیکھ کر انہونی کے احساس سے چونکا 

امامہ ،،،، امامہ اٹھو ،،،، اسکے پاس آتے مکرم نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا تو اسکے منہ سے نکلتے جھاگ اور اسکے پاس پڑی خالی شیشی کو دیکھ کر اسکی جان نکل گئی  

امامہ ،،، امامہ آنکھیں کھولو ،،،، میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ،،،، آنکھیں کھولو ،،،،،امامہ ،،،، امامہ کو بے جان دیکھ کر مکرم پاگل ہوگیا  کسی کو بتائے بنا اسکو اپنی باہوں میں بھرے وہ دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگا ،،،، اسکو گاڑی میں ڈالتے مکرم نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ،،،، اور فل سپیڈ میں گاڑی نکال لے گیا

 ڈیڈھ گھنٹے کا سفر اس نے آدھے گھنٹے میں طے کیا تھا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے کی دیواریں توڑتے باہر آجائے گا ،،،،، ہسپتال پہنچتے ہی کار  رُکی اور وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترتے تیزی سے امامہ کا پل پل سانسوں کی ڈور توڑتا نازک وجود اپنی  باہوں میں اٹھائے اندر کی طرف بھاگا

ڈاکٹر ،،،، ڈاکٹر

او مائی گاڈ کیا ہوا انہیں ،،،،، نرس اور ہسپتال کا عملہ اسکو چلاتے دیکھ کر اسکی طرف بڑھا

مکرم نے اسٹریچر کی طرف قدم بڑھائے اور اسے اسٹریچر پر لٹایا ،،،، امامہ کو ایسے دیکھ کر اسکی خود کی حالت خراب ہورہی تھی کہیں سے بھی وہ غصے والا ،، سخت دل مکرم شاہ نہیں لگ رہا تھا ہسپتال کی راہداری سے گزرتے لوگ حیرت سے اس لمبے چوڑے وجہیہ مرد کو دیکھ رہے تھے   

 ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی ،،،، اسکی آواز سن کر ڈاکٹر اپنے روم سے باہر آگیا مکرم دیوانہ وار امامہ کے زرد چہرے کو دیکھ رہا تھا بھوری چمکتی آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھی 

ڈاکٹر پلیز میری مسز کو دیکھیں ،،،اا اسے کچھ  نہیں ہونا چاہیے پلیز ،، ،،،، ضبط سے اسکا چہرہ لال ہورہا تھا دیوانگی سے بولتے وہ امامہ کے منہ سے نکلتا جھاگ صاف کر رہا تھا 

ریلیکس جنٹلمین ،،، کچھ نہیں ہوگا انہیں ،،،،،نرس انہیں اندر لے جائیں ہری اپ ،،،،،،،،  ڈاکٹر نے امامہ کی نبض ٹٹولتے کہا تو وہ لوگ اسٹریچر کو لے کر جانے لگے جب مکرم بھی انکے ساتھ جانے لگا پھر ڈاکٹر کے سمجھانے پر وہ بامشکل رکا لیکن بے چین نگاہیں بند دروازے پر ٹکی تھیں آنکھوں میں اس کے کھو جانے کا خوف ہلکولے لے رہا تھا 

اس حادثے نے اس پر آگاہی کے در کھول دئیے کہ وہ بے وقوف لڑکی اسکے لئے کتنی اہم ہوگئی ہے 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

کیا ہوا ڈاکٹر ،،،و وہ ٹھیک ہے نہ ؟ 

ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو مکرم نے اضطرابی کیفیت میں پوچھا 

اللّٰہ کا شکر ہے جنٹلمین کہ آپ کی مسز خطرے سے باہر ہے ،، وقت رہتے آپ اسے لے آئے اگر تھوڑی سی دیر ہوجاتی تو انہیں بچانا مشکل ہو جاتا ،،، کافی زیادہ مقدار میں میڈیسن کھانے کی وجہ سے انکی یہ حالت ہوئی ہے ،،،اس سے انکی جان بھی جاسکتی تھی

 ایک طرح سے یہ سوسائڈ کی کوشش کی گئی ہے ،،، آپ کو انکا خیال رکھنا ہوگا قسمت ہر بار ساتھ نہیں دیتی ،،،، ابھی ہم انکا اسٹامک واش کررہے ہیں ،،، کچھ دیر میں انہیں ہوش آجائے گا ،،، تو آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں

ڈاکٹر کی بات سن کر مکرم کا سانس بحال ہوا ،،،، لیکن خودکشی کی بات سن کر اسکے چہرے کے تاثرات سرد ہوئے اور آنکھوں میں سرخی چھا گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک

کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ

وہ آنکھیں میری ہو جائیں

کوئی صوم صلوٰۃ دُرُود بتا 

کہ وجّد وُجُود میں آ جائے

کوئی تسبیح ہو کوئی چِلا ہو

کوئی وِرد بتا وہ آن ملے

مُجھے جینے کا سامان ملے

گر نہیں تو میری عرضی مان

مُجھے مانگنے کا ہی ڈھنگ سِکھا

کہ اشّک بہیں میرے سجّدوں میں

اور ہونٹ تھرا تھر کانپیں بّس

میری خاموشی کو بھّید مِلے

کوئی حرف ادا نہ ہو لیکن

میری ہر اِک آہ کا شور وہاں سرِ عرش مچّے

میرے اشکوں میں کوئی رنگ مِلا

میرے خالی پن میں پُھول کِھلا

مُجھے یار ملا سرکار ملا

اے مالک و مُلک، اے شاہ سائیں

مُجھے اور نہ کوئی چاہ سائیں

مری عرضی مان، نہ خالی موڑ

مُجھے مان بہت مرا مان نہ توڑ

چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک

کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ

وہ آنکھیں میری ہوجائیں ۔

شاعر : سید مبارک شاہ

امامہ اب ٹھیک تھی وہ جب سے ہوش میں آئی تھی خاموش تھی مکرم نے بھی فلحال اس سے کچھ نہ کہا  ہسپتال سے اسے ڈسچارج کردیا گیا تھا ،،، مکرم چاہتا تھا کہ وہ لوگ صبح ہونے سے پہلے حویلی پہنچ جائیں تاکہ کسی کو امامہ کی اس حرکت کا علم ناں ہو 

سارا راستہ وہ دونوں خاموش تھے حویلی پہنچتے ہی امامہ گاڑی سے اترتے اندر جانے لگی جب سر چکرانے پر گاڑی کا سہارا لیا 

رکو میں ہیلپ کرتا ہوں ،،،، مکرم نے کہتے اسے اٹھایا اور اندر چلا گیا 

چچ چھوڑیں مجھے میں خود چل سکتی ہوں 

وہ تو میں جانتا ہوں ، تم چل سکتی ہوں لیکن اس حالت میں تم نے چلنا نہیں ہے گرنا ہے ،،، ہر بار مجھ سے ٹکراتی ہو اس بار دیواروں سے ٹکراؤ گی ،،،، جو تمہاری نازک جان کے لئے ٹھیک نہیں ہے ،،،،،اور میں اس بار کوئی رسک نہیں لے سکتا ،،، مکرم نے اسکی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گاڑھتے سرگوشیانہ انداز میں کہا 

مم مجھے آپکی ہیلپ کی ضرورت نہیں ہے ،،،امامہ نے نظریں جھکائے کمزور سے لہجے میں کہا 

تم سے پوچھا کس نے ہے ،،،، تم میری ہو ،،،، تو میری مرضی میں جو چاہے کروں ،،،،، مکرم نے اسکو اوپر کرکے اسکا چہرہ آپنے مقابل کرتے بھاری لہجے میں کہا تو امامہ کا سانس اٹکا 

اسکے بعد وہ ایک لفظ نہیں بولی کمرے میں آتے ہی مکرم نے اسے بیڈ پر لٹایا 

ابھی چھوڑ رہا ہوں کیونکہ تم ابھی اس حال میں نہیں ہو کہ میرے سوالوں کا جواب دے سکوں لیکن جو حرکت تم نے کی ہے اسکا حساب دینا ہوگا ،،،،،  اس پر بلینکٹ اوڑھتے مکرم نے سرد لہجے میں کہا اور پیشانی پر بوسہ دیتے اٹھ گیا جبکہ امامہ اسکی اچانک کی گئی جسارت پر آنکھیں بند کرتی اپنی دھڑکنیں سنبھالنے لگی  

اس کے ہر زخم پر دل جانثار ہوتا ہے 

چاہے کچھ بھی ہو یار تو یار ہوتا ہے 

صبح مکرم کی آنکھ کُھلی تو امامہ اسکے بازو پر سر رکھے سو رہی تھی ،،،، مکرم نے مسکراتے اسکے چہرے پر آئے بال ہٹائے

یہ صبح میری زندگی کی سب سے حسین صبح ہے ،،،،، مکرم نے اسکے دلکش نقوش اور چہرے پر چھائی معصومیت کو آنکھوں کے راستے دل میں اتارتے بھاری لہجے میں سرگوشی کی ،،،،، لیکن پھر اسے رات کا واقعہ یاد آیا تو پل میں مسکراتے نقوش  پتھریلے تاثرات میں ڈھلے ،،،، ہونٹ بینچتے دھیرے سے اسکا سر تکیے پر رکھتے وہ اٹھ گیا 

فریش ہوکر وہ واپس آیا تب تک امامہ جاگ چکی تھی ،،،،، اسے نظر انداز کئے مکرم گلے کے گرد لپٹا ٹاول نکال کر صوفے پر پھینکتے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا 

امامہ نے ترچھی نظروں سے اسکا جائزہ لیا جو بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے خود پر پرفیوم چھڑکتے صوبر اور ڈیشنگ لگ رہا تھا مکرم نے آئینے میں سے  اس پر نظر ڈالی تو چوری پکڑے جانے  پر امامہ نے سٹپٹاتے نظریں گھمائیں

ی یہ کسی کو بتا نہ دیں ،،،،، اگر امی بابا کو پتا چلا تو کیا ہوگا ،،،، امامہ سر جھکائے انگلیاں موڑتے بڑبڑائی 

چوری چوری نظر وہ مکرم پر بھی ڈال لیتی تھی جو باظاہر تو مصروف دِکھ رہا تھا لیکن وہ اسکی ہر حرکات کا باخوبی جائزہ لے رہا تھا 

سس سنیں ،،، آخر ہمت کرتے وہ اسے پکار بیٹھی 

ہمممم بولیں ،،، مکرم نے آئینے میں دیکھتے اسہی کے انداز میں بھنویں اچکاتے کہا 

وو وہ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے 

"ہممم میں سن رہا ہوں " اپنی گھڑی پہنتے مکرم اسکی طرف بڑھا 

مم مجھے کہنا تھا کہ ،،،، کل جو بھی ہوا ،،،، اا آپ وہ کسی کو مت بتائیے گا پلیز 

ہممم نہیں بتاؤ گا لیکن ایک شرط پر ،،،، جب تم مجھے سچ بتاؤ گے ،،،،،، کیا وجہ تھی جو تم نے وہ انتہائی قدم اٹھایا۔،،،،بولو  ؟ 

مکرم نے اسکے پاس بیٹھتے سنجیدگی سے پوچھا تو امامہ کے تصور میں ضرار کا عکس لہرایا اسکی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جمع ہونے لگے مکرم بغور اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا 

مم میں ،،،، میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ،،،،،، امامہ نے روتے کہا تو اسکی بات سنتے ہی مکرم کی آنکھیں سرخ ہوئی اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو دباتے مٹھیاں بھینچ لی اتنی شدت سے کہ اسکے بازو پر رگیں ابھر آئیں 

کیوں،،،، اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دباتے مکرم نے سرد لہجے میں یک لفظی پوچھا

کک ،،، کیونکہ ،،،،، یہ زری آپی کی جگہ ہے ،،،، میں انکی جگہ نہیں لینا چاہتی ،،،، امامہ نے اسکے لہجے کی سختی پر اٹکتے کہا تو مکرم نے آنکھیں سکیڑتے اس پاگل کو دیکھا 

واٹ آر یو میڈ ،،،،، تم نے اتنی سی بات کے لئے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ،،، آج مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تم دنیا کی احمق ترین لڑکی ہو  

دل تو کر رہا ہے رکھ کر دوں ایک ،،، عقل ٹھکانے آجائے تمہاری،،،، بےوقوف لڑکی ،،،، مکرم نے غصے سے لال ہوتے کہا تو امامہ کی آنکھیں چھلک پڑی 

رونا بند کرو ،،،، خبردار جو ایک آنسو بھی بہایا تو ،،،،،تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ تمہیں اس حال میں دیکھ کر مجھ پر کیا گزری تھی ،،، اگر اس سب کا چاچا چاچی کو پتا چل جائے تو سوچا ہے ان پر کیا بیتے گی ،،،،  مکرم نے اسکے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بنا سختی کہا وہ سب سوچ کر ہی مکرم کا دل ڈر گیا تھا 

آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں

نہیں تو ،،، جو حرکت تم نے کی ہے اسکے بعد تو مجھے تمہیں پھولوں کے ہار پہنانے چاہیے ہیں ناں

ایم سوری ،،،،،، آپ پلیز کسی کو مت بتانا 

" آج کے بعد تم نے ایسی کوئی حرکت کی یا خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اپنے ہاتھوں سے تمہارے جان لوں گا ،،،،، اور یہ جو خرافات تمہارے دماغ میں ہیں ناں انہیں نکال دو ،،،، تم نے کسی کی جگہ نہیں لی ،،،،، بلکہ تم اپنی صحیح جگہ اپنے اصل پر آگئی ہو

" انڈرسٹینڈ مسز مکرم شاہ " مکرم نے اسکی طرف جھکتے اپنی بھوری آنکھیں اسکی شہد رنگ آنکھوں میں گاڑھتے گمبھیر لہجے میں کہا 

تو اسکی نزدیکی پر بے ساختہ امامہ نے اثبات میں سر ہلایا 

"ہمم گڈ گرل " اب اٹھو جاکر فریش ہو جاؤ ،،،، مکرم نے اسکے انداز پر مسکراتے اسکا گال تھپتھاتے کہا امامہ تو جیسے انتظار میں تھی جیسے ہی اس نے کہا جھٹ سے اٹھتے واش روم کی طرف بھاگ گئی اسکی رفتار دیکھ کر مکرم دلکشی سے مسکرا دیا

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

موم ڈیڈ مجھے آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے ،،،، ضرار نے ناشتے کی ٹیبل پر سب کو دیکھ کر کہا 

ضروری بات ،،،،، بولو بیٹا اس میں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ رومیسہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے  کہا 

موم  ،،،، میں شادی کرنا چاہتا ہوں

کیاا ،،،، اسکی بات سن کر سب نے حیرت سے اسے دیکھا 

آپ لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں،،،،، میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا  ؟

بیٹا خیر تو ہے اچانک سے شادی کا خیال کیسے آگیا ،،، عازم خان نے مسکراتے پوچھا 

شادی تو کرنی ہے نہ ڈیڈ ،،،، تو اب کیوں نہیں 

ہممم بات تو ٹھیک ہے تمہاری ،،، بھئی بیگم آپ لوگ رشتہ ڈھونڈیں صاحب زادے کے لئے 

ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے بابا میری نظر میں بھائی کے لئے ایک بہت اچھی لڑکی ہے ،،،، اسکی اور بھائی کی جوڑی پرفیکٹ ہے ،،،، بازغہ نے چہکتے کہا 

اونہہ لو بھئی لڑکی کا مسلہ بھی حل ہوگیا ،،، کون ہے وہ ،،،،، ؟ 

وہ لڑکی میری دوست اما

ڈیڈ آپکی بہو میں نے ڈھونڈ لی ہے ،،، آپ لوگوں نے رشتہ لے کر جانا ہے ،،، بازغہ امامہ کا نام لینے ہی والی تھی جب ضرار نے اسکی بات کاٹتے سنجیدگی سے کہا تو سب کی انکھیں حیرت سے پھیلی تھیں 

لو جی اس نے لڑکی بھی خود ہی ڈھونڈ لی ،،، ٹھیک ہے برخوردار ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے جب تم کہو گے ہم رشتہ لے کر چلے جائیں گے ،،،، عازم خان نے ہنستے کہا 

ڈیڈ ہمیں کل ہی جانا ہے ،،، اصل میں ،،،،، ضرار نے سب کچھ بتا دیا کہ کیسے وہ لوگ زرناب کی شادی کروا رہے ہیں اور زرناب کا ریکشن  جسے سننے کے بعد سب پریشان ہوگئے جبکہ بازغہ خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی ،،، اسکا دل یہ سوچ کر  اداس ہوگیا تھا کہ اب امامہ اسکی بھابھی نہیں بن سکتی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

آج دوسرا دن تھا اسے اس قید میں رہتے ،،،،  بھوک سے نڈھال سی آنکھیں بند کئے  ایک کونے میں بیٹھی تھی

کمرے کے باہر بھاری قدموں کی چاپ سن کر وہ  ہمت کرتے اٹھی ،،،،اور دروازے کی طرف بڑھی 

کک کوئی ہے پلیز ،،،، پلیز ہیلپ می ،،،، کمزور سی آواز میں دروازہ کھٹکاتے کہا تو کلک کی آواز سے دروازے کا لاک کھلا زرناب آواز سنتے  پیچھے ہوئی تو دروازہ کھلتا گیا 

ایک دم سے آنکھوں میں روشنی پڑی تو زرناب کی آنکھیں چندھیا گئیں وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے آنے والے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ،،،، جس کی کلون کی خوشبو سے کمرہ مہک اٹھا تھا 

تھوڑی دیر بعد جب اس کی آنکھیں روشنی کی عادی ہوئی تو اس نے سامنے دیکھا 

"تت تم " اسے دیکھتے ہی زرناب کی آنکھیں حیرت و بے یقینی سے پھٹی تھیں 

         ہاں میں

میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنی گھٹیا حرکت بھی کرسکتے ہو ،،، زرناب نے غصے سے لال ہوتے کہا تو مکرم طنزیہ انداز میں ہنس دیا لیکن جلد ہی اسکے چہرے پر پتھریلے تاثرات نمودار ہوئے

گھٹیا حرکت ،،، یہ گھٹیا حرکت ہے تو جو حرکت تم نے کی وہ کس زمرے میں آتی ہے مس زرناب

تمہاری ہمت کیسے ہوئی حویلی سے باہر نکلنے کی ،،، کیا سوچا تھا تم نے ،،، کہ تم ہماری عزت روند کر بھاگ جاؤ گی 

 اونہہہ نہیں مس زرناب 

،،، مکرم شاہ کے رہتے ایسا ممکن نہیں ہے ،،،، عبرت کا نشان بنا دوں گا میں تمہیں ،،،، مکرم نے سرد و سپاٹ لہجے میں دھاڑتے کہا تو اسکے لہجے کی سرد مہری محسوس کرتے زرناب کا دل کانپا 

تت تم اچھا نہیں کر رہے ،،، یہ میری زندگی ہے میں جو کروں میری مرضی ،،،، تم ہوتے کون ہو مجھے یہاں قید رکھنے والے 

تمہاری مرضی نہیں چلے گی سمجھی ،،،،،،ناں تم اپنی مرضی سے اس دنیا میں آئی تھی نہ ہی اپنی مرضی سے جاؤ گی ،،،،، اپنی حدود معلوم ہونی چاہیں تمہیں ،،، انہیں پھلانگنے کا انجام بہت برا ہوسکتا ہے ،،، سمجھی تم 

تم میرے ماں باپ بنے کی کوشش مت کرو مجھ سے سوال جواب کا حق انہیں ہے تمہیں نہیں ،،، ناں ہی میں تمہیں جواب دہ ہوں  ،،، زرناب نے اسکی بات کو خاطر میں لائے بنا ہٹ دھرمی سے کہا 

بھول ہے یہ تمہاری ،،،،، کہ تم جواب دے نہیں ہو ،،،،، تم ہر اس شخص کو جواب دہ ہو جو تم سے جڑا ہے

گھر سے بھاگ کر غلطی کردی تم نے ،،،، اور یہ قید تمہاری اسہی غلطی کی سزا ہے جب تک تمہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوجاتا اور تم معافی نہیں مانگ لیتی تب تک یہیں سڑتی رہو گی ،،، کھانا دینے آئیں گی کھا لینا  ،،،، مکرم نے سخت لہجے میں کہا اور دروازہ بند کرتے چلا گیا 

تم ایسا نہیں کرسکتے ،،، پلیز چھوڑ دو مجھے ،،،مکرم ،،،، دروازہ کھولو ،،،، میرا دم گھٹتا ہے یہاں ،،،،،  مکرم شاہ یہ تم اچھا نہیں کر رہے  ،،،، زرناب چلاتی رہ گئی اور مکرم کے قدموں کی آواز دور ہوتی گئی 

 ناشتے کے بعد مکرم ضروری کام کا کہہ کر جاچکا تھا جبکہ شازم اور شمعون مردان خانے کی طرف چلے گئے تھے ،،، اب  لاونج میں صرف خواتین ہی بیٹھیں تھیں  

سلطانہ بیگم کی ایکسرے کرتی نظریں امامہ پر ٹکی تھی جو اسے ڈسٹرب کر رہی تھیں وہ انکی نظروں سے بچنے کے لئے بار بار پہلو بدل رہی تھی 

ریحاب دلاور کہاں گیا ہے کل سے دیکھائی نہیں دیا

پتا نہیں بھابھی ،،،، کل جو بھی ہوا اسکے بعد بہت غصے میں تھا فون بھی نہیں اٹھا رہا ،،،، مجھے بہت پریشانی ہورہی ہے ،،،، ریحاب بیگم نے بجھے لہجے میں کہا زرناب کے بعد اب دلاور کو لے کر انکے دل میں ہول اٹھ رہے تھے  

شکر ہے ہماری اولاد ایسی نہیں ہے ،،،، آپ کو پتا ہے بھابھی کرن کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ یاور نے عید پر پاکستان آنے کا ارادہ کرلیا ہے ،،، ماشاءاللہ سے کتنی سمجھدار ہے میری بچی

اور انہیں دیکھ لو  ،،،،، بھئی شہر میں پلے بڑھے ہیں آوارہ پھرتے رہے ہیں ،،، بری صحبتوں کا اثر تو ہو گا ناں ،،، سلطانہ بیگم نے طنزیہ لہجے میں کہا تو ریحاب نے بےبسی سے سلطانہ بیگم کو دیکھا جبکہ امامہ انکی بات سن کر اٹھ گئی 

امامہ بیٹا تم کہاں جارہی ہو  ؟ 

مبشرہ بیگم نے اسے اٹھتے دیکھ کر پوچھا 

میں داجی کے پاس جارہی ہوں ،،،، امامہ نے ایک نظر ریحاب پر ڈالتے کہا اور چلی  گئی وہ ریحاب اور شمعون سے ناراض تھی اس بات کا اندازہ ریحاب بیگم کو بھی تھا لیکن وہ مطمئن تھیں کہ جو فیصلہ انہوں نے کیا وہ بہتر تھا اور یہ بات  امامہ بھی مان جائے گی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

اسلام علیکم دادو 

کیسے ہیں آپ ؟ ،،، امامہ نے بیڈ پر پڑھے نحیف سے وجود کو دیکھتے سلام کیا تو اسکی آواز سن کر داجی نے آنکھیں کھولیں ،،،، بوڑھی آنکھوں میں امامہ کو دیکھتے ہی آنسو چمکے تھے

کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ،،،، امامہ نے انکے آنسو صاف کرتے پریشانی سے پوچھا تو داجی  نے کانپتے اپنا ہاتھ اٹھاتے اشارے سے اسے اپنے پاس آنے کا کہا امامہ نے انکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھتے انکے سینے پر سر رکھا 

آئی مس ہو دادو،،،،،، آپ کو پتا ہے دادو ،،، امی بابا نے زرناب آپی کی جگہ مکرم بھائی سے میری شادی کردی ،،،، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ،،،، زرناب آپی کو ڈھونڈنا چاہیے تھا ،،، لیکن نہیں ڈھونڈا 

داجی کے سینے پر سر رکھے اس نے شکایتی انداز میں کہا تو اسکی بات سن کر داجی کے جھریوں زدہ چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ نمودار ہوئی جیسے یہ بات سن کر انہیں خوشی ہوئی ہو 

دادو میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ،،،، لیکن پھر بھی کسی نے میری بات نہیں سنی ،،،، آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں پھر سب کی کلاس لیجئے گا ،،،،   زرناب آپی کی شادی مکرم بھائی سے کروا دیجئے گا  اور میری  ضرا ،،،،، ضرار کا نام لیتے امامہ کے گلابی لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ،،، اور اس نے سر اٹھاتے داجی کو دیکھا 

آپ کو پتا ہے داجی ،،، میں ان سے بہت محبت کرتی ہوں ،،،، وہ بھلے ہی میری نظروں سے دور ہیں لیکن ہمیشہ میرے دل کے قریب رہتے ہیں

میں انہیں بتا نہیں سکتی ،،، ڈر لگتا ہے کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں ،،، میں کسی کو دھوکا نہیں دینا چاہتی ،،، مکرم کو بھی نہیں اس لئے ،،،، آپ کو بتا رہی ہوں ،،، آپ کسی کو بتائیے گا نہیں ،،،، 

بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں،،،، ہم مل کر زرناب آپی کو ڈھونڈیں گے اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا پہلے جیسا ،،، امامہ نے انکا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگاتے کہا 

میری شہزادی ،،،، تمہارا نصیب تمہیں مل چکا ہے ،،، منزل پر پہنچ کر بھٹکنے کا مت سوچو ،،،، مکرم تمہارے لئے بہترین انتخاب ہے ،،،، یہ اللّٰہ کا فیصلہ ہے تمہارے حق میں  ،،،، اس پر راضی ہوجاو ،،،، گزرے وقت کو پھر سے مت دھراؤ ،،، ورنہ سب برباد ہو جائے گا ،،،،، داجی نے اداس نظروں سے اسے دیکھتے دل ہی دل میں کہا جو کھلکھلاتے انہیں اپنی اور بازغہ کی شرارتوں کے بارے بتا رہی تھی 

 ▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

آج دوسرا دن گزر گیا تھا اسے یہاں قید ہوئے اس نے پلین بنا لیا تھا  کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے گی ،،،،  اب بس موقع کی تلاش میں تھی جو جلد ہی اسے ملنے والا تھا  صبح کے کھانے میں سے اس نے دو تین نوالے زہر مار کر لئے تھے تاکے اس قید سے نکلنے کی طاقت آجائے

باہر قدموں کی چاپ سن کر اس نے اپنے پلین پر عمل کرتے آنکھیں بند کرتے بیہوش ہونے کا ناٹک کیا دروازہ کھولتے ہی وہ صبح والی عورتیں اندر آئیں 

  بی بی اٹھو کھانا کھا لو ،،،،،،، ان میں سے ایک عورت نے کھانے کی ٹرے نیچے رکھتے کہا لیکن  زرناب بے سد پڑی رہی

نسرین یہ تو اٹھ ہی نہیں رہی ،،،کہیں مر مرا نہ جائے ، اس عورت نے ٹرے نیچے رکھتے پریشانی سے دروازے میں کھڑی عورت سے کہا 

اُلو کی پٹھی ،،،،، بیہوش ہوئی ہوں مری نہیں ،،، زرناب نے اسکی بات سن کر دانت کچکائے 

 مر کیسے سکتی ہے ،،، یہ مرنے والی چیز لگتی ہے تجھے رک میں دیکھتی ہوں،،،،، نسرین اسکے پاس آئی اور زرناب کی ناک کے آگے ہاتھ کرتے سانسیں محسوس کی

ہاں مرنے والی چیز نہیں مارنے والی بلا ہوں میں ،،،، زرناب نے دل ہی دل میں کڑتے کہا 

مری نہیں ،،،، بیہوش ہوگئی ہے ،،،،تو اسکے پاس رُک  میں جاکر چھوٹے سردار کو فون کرتی ہوں ،،نسرین نے اسے ہدایت دیتے کہا اور باہر نکل گئی

تھوڑی دیر بعد زرناب نے آنکھ کی جھری سے اسے دیکھا جو کمرے میں چکراتے نسرین کا انتظار کر رہی تھی وہ جیسے ہی دوسری طرف  پلٹی زرناب نے جھٹکے سے اٹھتے ٹرے میں سے  پلیٹ اٹھائی اور پیچھے سے اسکے سر میں دے ماری وہ عورت اس اچانک حملے کے لئے تیار نہ تھی سر پکڑے دھڑک سے نیچے گری

 مجھے قید کرنے چلے تھے ،،،، بہت کر لی پہرے داری اب تھوڑا آرام کرو ،،،،، زرناب نے اسکو گرتے دیکھ کر  چہرے پر آئے پسینے کو صاف کرتے کہا پھر ٹرے سے گلاس اٹھا کر پانی پینے کے بعد گلاس تھامے دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہوگئی

دوسری طرف نسرین جو مکرم کو بتا کر واپس آئی تھی اپنی ساتھی کو بیہوش دیکھ کر جیسے ہی آگے آئی زرناب نے گلاس سے اس کے سر پر وار کیا  کمرے سے باہر نکلتے دروازے کو باہر سے کنڈھی لگاتے بھاگ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

مکرم جب وہاں پہنچا تو دروازہ کھلا دیکھ کر اسے تعجب ہوا سر جھٹکتے وہ اندر گیا 

 یہ دونوں کہاں چلی گئی ،،،،،، اتنی لاپرواہی ،،، کہا بھی تھا کہ ہوشیار رہنا ،،،، مکرم ان دونوں کی غیر موجودگی پر غصے سے بڑبڑاتے اندر گیا زرناب کے کمرے کی کنڈھی کھولتے وہ جیسے ہی آگے بڑھا سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا جہاں نسرین سر پکڑے دیوار کے ساتھ بیٹھی کراہ رہی تھی جبکہ زرینہ کا بھی یہی حال تھا 

کیا ہوا تم دونوں کو کس نے کیا یہ سب ،،،، مکرم نے ان دونوں کے سر سے نکلتے خون کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا 

چھوٹے سردار وہ لڑکی نہیں آفت ہے پوری ،،، دیکھیں کیا حال کردیا اس نے ہمارا ،،،،، نسرین نے روتے کہا تو مکرم غصے سے گہرا سانس بھر کر رہ گیا 

تم دونوں سے ایک چھٹانک بھر کی لڑکی تک نہیں سنبھالی گئی

چھوٹے سردار دیکھنے میں چونٹی لگتی ہے لیکن ہے نہیں ،،،، ہائے میرا سر ،،،، زرینہ نے کراہتے کہا تو مکرم بیچ و تاب کھا کر رہ گیا 

اچھا اٹھو تم دونوں میں شاکر سے کہتا ہوں تم دونوں کو کلینک لے جائے گا ،،،،مرہم پٹی کروا لو

 اس آفت کو تو میں دیکھ لوں گا ،،،،، مکرم نے سپاٹ لہجے میں کہا اور غصے سے باہر نکل گیا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

شمعون ،،، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے

اگر وہ ضروری بات زرناب کے حوالے سے ہے تو مجھے نہیں کرنی ،،،،،، شمعون نے کہتے سپاٹ نظروں سے ریحاب بیگم کو دیکھا 

شمعون وہ کوئی غیر نہیں ہے ،،،،، بیٹی ہے ہماری ،،،، آپ اسے ایسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں ،،،،،، پلیز اسے ڈھونڈیں ،،،، مجھے لگتا ہے ضرور وہ کسی مشکل میں ہے ،،،، ریحاب بیگم نے ملتجی انداز میں کہا 

 اس مشکلوں بھرے راستے کا انتخاب اس نے خود کیا ہے بیگم ،،،،، ڈھونڈا انہیں جاتا ہے جو کھو جائیں اپنی مرضی سے گئی ہے وہ ،،،،، اپنی مرضی سے چھپی ہے ،،،،،، کوئی فائدہ نہیں ڈھونڈنے کا

تو کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ،،،، نادان ہے ،،،، اور غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہے ،،،، ہماری بیٹی ہے وہ ،،،،، آپ پلیز اسے لے آئیں 

ریحاب میں اس ٹوپک پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ،،،، بھول جاؤں اسے سمجھ لو ہماری ایک ہی بیٹی تھی امامہ شمعون شاہ ،،،، بس ،،،، شمعون نے سخت لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ ریحاب بیگم بےبسی سے رو دی

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

مکرم سائیں ،،،، بڑے سائیں آپ کو یاد کررہے ہیں 

مکرم اپنے آدمیوں کو زرناب کی تلاش میں بھیج کر حویلی لوٹا تو آبان نے اسے شازم کا پیغام دیا 

کتنی بار کہا ہے آبان مجھے سائیں کہہ کر مت بلایا کرو ،،،، مکرم نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورتے کہا 

کیا کروں سائیں نمک کھایا ہے آپ کا  ،،،،، دل سے عزت کرتا ہوں آپ کی ،،،،،کوشش کے باوجود بھی نہیں کہہ سکتا عادت پڑ گئی ہے ،،،، آبان نے مسکراتے کہا 

 عادتیں بدلی بھی جاسکتی ہے آبان ،،،،مکرم نے اسکا کاندھا تھپکتے کہا اور مردان خانے چلا گیا 

اسلام علیکم بابا سائیں 

وعلیکم اسلام بیٹا سائیں ،،،، آؤ بیٹھو ،،،،، شازم نے محبت سے اسکے سلام کا جواب دیتے اپنے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھنے کا  اشارہ کیا

آپ نے یاد کیا ،،،، خیریت ؟ ،،،،، 

ہممم بیٹا تمہارے چاچا جان امامہ کی پڑھائی کو لے کر پریشان ہیں ،،،، اسکے امتحان نزدیک ہیں ،،،، تو وہ چاہتے ہیں کہ تم امامہ کو لے کر شہر چلے جاؤ اسکے امتحان ہونے تک ،،، جیسے ہی اسکے امتحان ختم ہوں تم دونوں واپس آجانا  ،،،، شازم شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

جی ٹھیک ہے بابا سائیں مجھے کوئی مسلہ نہیں ،،،، مکرم نے اثبات میں سر ہلاتے کہا 

ٹھیک ہے پھر تم ایسا کرو امامہ بیٹی سے کہو تیاری کر لے آبان تم دونوں کے ساتھ جائے گا 

جی بہتر

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

وہ مُسکرا کے ہمیں دیکھتا ہے اور ہم لوگ

جو ہو چُکے ہیں وہ نقصان بھول جاتے ہیں

مکرم مردان خانے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف آیا  دروازہ کھولتے اس نے اندر پیر رکھا ہی تھا کہ باہر آتی امامہ سے تصادم ہوا 

اففف اللّٰہ جی ،،،،، اس زبردست تصادم پر امامہ کراہتے گرنے کو تھی جب  مکرم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی اور کھینچتے گرنے سے بچایا 

خوشبوں میں مہکا وجود اسکے سینے سے آ لگا

مکرم کے کلون کی مہک امامہ کے نتھنوں سے ٹکراتے اسکو اپنے سحر میں جکڑ گئی 

 مکرم نے اسکے نازک وجود کو اپنے حصار میں قید کرتے مسکراتے پرشوخ نظروں سے اسکا سرخ چہرہ دیکھا 

تمہاری یہ ٹکریں مارنے والی عادت نہیں جائے گی ،،،،،،، مکرم نے مسکراتے اپنی بھوری چمکتی آنکھیں اسکی شہد رنگ آنکھوں میں گاڑھے کہا 

میں بکری ہوں جو آپ کو ٹکریں ماروں گی ،،، امامہ نے سرخ ہوتے چھوٹی سی ناک پھلائے کہا 

 ہاہاہا بکری نام سوٹ کرتا ہے تم پر ،،،، پِدو سی تو ہو ،،،،،  مکرم نے اسکے انداز پر قہقہ لگاتے اسکے چھوٹے قد پر چوٹ کرتے  کہا تو اسکے گال پر پڑتے گڑھوں کو دیکھتے امامہ مہبوت رہ گئی 

واؤ کتنے پیارے ہیں یہ ،،،،، اسکے گڑے کو انگلی سے چھوتے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو مکرم کی مسکراہٹ گہری ہوئی 

جند سائیں ،،،،تمہارے ہی ہیں ،،،، مکرم نے اسکی طرف جھکتے بھاری لہجے میں سرگوشی کی تو امامہ ہوش میں آئی اور سٹپٹاتے اس سے دور ہوئی 

سس سوری ،،،،، م میں جاتی  ہوں

رکو کہاں جارہی ہو ،،،،، مکرم نے اسے بھاگتے دیکھ کر مسکراتے پوچھا تو پھر سے اسکا ڈمپل نمودار ہوئے جسے دیکھ کر امامہ کا دل کیا انہیں چرا لے لیکن اپنے دل کو ڈپٹتے اس نے سر جھٹکا 

وو وہ امی بلا رہی ہیں ناں

اچھا ٹھیک ہے جلدی آ کر پیکنگ کر لوں ہمیں شہر کے لئے نکلنا ہے ،،،،،، مکرم نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے کہا تو امامہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی سے باہر نکل گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

ضرار ایک بار پھر سوچ لو بیٹا ایسے جانا ٹھیک رہے گا ،،،، عازم خان نے گاڑی میں بیٹھتے ضرار سے پوچھا 

ڈیڈ اور کوئی اوپشن نہیں ہے ،،،، ضرار نے کہتے گاڑی سٹارٹ کردی ،،،، بازغہ نے جانے سے صاف منع کردیا تھا ،،، یہ کہہ کر کے اسے اسائمنٹ بنانی ہے ،،،، زینت بیگم نے بھی منع کیا لیکن رومیسہ بیگم کے کہنے پر انہیں مجبوراً آنا پڑا ،،،، وہ لوگ حویلی کے لئے نکل گئے تھے لیکن نہیں جانتے تھے کہ آگے کونسا طوفان انکا منتظر تھا 

کیا ہوا زینت تمہاری طعبیت تو ٹھیک ہے ناں ،،،، زینت بیگم کو گہرے سانس لیتے دیکھ کر رومیسہ نے پریشانی سے پوچھا 

 م میں ٹھیک ہوں ،،،، بس پتا نہیں کیوں  ،،، عجیب سی گھبراہٹ ہورہی ہے ،،،، زینت بیگم کا دل گھبرا رہا تھا جیسے آج کچھ ہونے والا ہو لیکن کیا یہ تو آنے والا وقت ہی بنا سکتا تھا

آبان سامان گاڑی میں رکھوا دیا ہے

جی سائیں ،،،، آبان نے مؤدب انداز میں کہا 

مکرم اور امامہ شہر جانے کو تیار تھے وہ سب سے ملتے گاڑی کی طرف بڑھے جب ریحاب بیگم مکرم کے پاس آئیں 

مکرم بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے 

جی چاچی جان بولیں ،،، مکرم نے ریحاب کے پاس آنے پر احتراماً سر جھکایا 

بیٹا ایک گزارش تھی ،،،، تم وعدہ کرو کسی کو بتاؤ گے نہیں ،،، ریحاب نے دھیمے انداز میں کہا تو مکرم کو حیرت ہوئی 

جی میں کسی کو نہیں بتاؤ گا ،، آپ مجھ پر اعتبار  کرسکتی ہیں 

مکرم تمہارے چاچا  میرے بات نہیں سن رہے وہ غصے میں ہیں ابھی لیکن تم ،،، تم شہر جارہے ہو 

 میری زرناب کو ڈھونڈ لاؤ ،،،، ایک ماں کی التجا ہے بیٹا ،،،، کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے خاص کر تمہارے چاچا کو ،،،، ریحاب نے بےبسی کی تصویر بنے بھیگے لہجے میں کہا تو انکی بات سن کر مکرم کے تاثرات سنجیدہ ہوئے 

جی آپ پریشان نہ ہو میں اسے ضرور تلاش کروں گا ،،،، مکرم نے مسکراتے تسلی بخش انداز میں کہا 

ہمممم خوش رہو ،،،، امامہ کا خیال رکھنا ،،،، اچانک سے اتنی بڑی تبدیلی آنے پر کچھ الجھی ہوئی ہے وہ ،،،، اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو بیٹا درگز کرنا ،،، بہت معصوم ہے وہ ،،،، تم اسے پیار سے سمجھانا سمجھ جائے گی ،،،، ریحاب بیگم نے منہ پھلائے کار میں بیٹھتی امامہ کو دیکھتے کہا تو مکرم مسکرایا 

آپ فکر مت کریں چاچی جان ،،،امامہ میری ذمہ داری ہے ،،،آپ کو کوئی شکایت کا موقع نہیں دوں گا مکرم نے مسکراتے کہا اور دونوں کار کی طرف بڑھ گئے ،،،، ان کی کار جیسے ہی حویلی سے رخصت ہوئی اسکے تھوڑی دیر بعد ہی ایک اور کار  حویلی کے گیٹ پر آکر رکی 

چوکیدار نے گیٹ کھولا تو وہ  سب جو اندر جارہے تھے واپس پلٹے اور اجنبی حیران کن نظروں سے کار کو دیکھا 

ضرار یہ ،،،،، عازم خان نے حیرت سے گنگ لہجے میں کچھ کہنا چاہا لیکن سامنے شازم اور سب کو دیکھتے انکے لب خاموش ہوئے 

ڈیڈ چلیں باہر ،، ضرار نے ان سب کو سٹل  بیٹھے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا اور کار کا دروازہ کھولتے باہر نکلا 

بب بھابھی یہ ،،،،مم میں نہیں جاؤں گی ،،،، ضض ضرار سے کہیں واپس چلے ،،،، زینت بیگم نے گھٹی آواز میں اٹکتے کہا  

زینت کبھی ناں کبھی تو یہ ہونا تھا ،، چلو باہر رومیسہ بیگم کار کا دروازہ کھولتے زینت کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا تو کانپتے ہاتھوں سے دروازہ پکڑتے وہ باہر نکلی

 زینت بیگم کو دیکھتے ہی وہ سب ششدر رہ گئے ،،، اتنے سالوں بعد  شازم ،شمعون ،سلطانہ بیگم، مبشرہ اور ریحاب کو دیکھتے  زینت بیگم کی آنکھیں بھیگ گئی 

تم ،،،،،، تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی

بھائی نکالیں اسے ،،،، اسے کہیں چلی جائے یہاں سے ورنہ میں ،،،، میں اسکی جان لے لوں گی ،،،، ،زینت کو دیکھتے ہی سلطانہ کی آنکھوں سے غصے اور نفرت کی چنگاریاں پھوٹنے لگیں

اا آپی میری بات تو سنیں ،،،،،  اسکی نفرت دیکھتے زینت رونے لگی عازم اور رومیسہ اس صورتحال سے پریشان تھے جبکہ ضرار کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہوکیا رہا ہے

نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بات ،،،، سب برباد کرکے سکون نہیں ملا جو پھر سے چلی آئی  

سلطانہ آرام سے ،،، یہاں تماشہ مت لگاؤ اندر چل کر بات کرتے ہیں

آپ لوگ اندر آئیں ،،،،،  شازم نے سلطانہ کے غصے کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا اور سب کو اندر آنے کا کہا تو سلطانہ بیچ وہ تاب کھاکر رہ گئی 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

(ماضی )

یہ ہے شاہ حویلی کے لان کا منظر جہاں صبح کی کرنیں پھوٹیں تو ہر سو سنہری روشنی پھیل گئی وہ سفید لباس میں ملبوس نماز کے سٹائل میں دوپٹہ اوڑھے ارد گرد سے بےخبر پھول چنتے خود بھی کھلتا گلاب لگ رہی تھی   

عالم شاہ ٹاول سے پسینہ پونچھتے  جِم سے نکل رہا تھا سامنے اس حسین منظر کو دیکھتے رکا 

زینت پھول اٹھائے اندر جانے لگی جب دوپٹہ ٹہنی کے ساتھ اٹکا اور سارے پھول نیچے گر گئے ،،، اس نے خفگی سے بکھرے پھولوں کو دیکھا جیسے سارا قصور ان پھولوں کا ہو ،،، پھر دوپٹہ ٹھیک کرتے وہ نیچے بیٹھ کر بکھرے پھول چننے لگی 

میں کچھ ہیلپ کروں ؟

عالم شاہ ،،،جو ٹاول گلے میں لپیٹے  دیوار سے ٹیک لگا کر سینے پر ہاتھ باندھے فرصت سے اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا اسکے چہرے پر چھائے خفگی بھرے تاثرات دیکھتے اسکے پاس آکر مسکراتے کہا تو اچانک سے اسکی آواز سن کر ز ینت ڈر گئی 

اا عالم بھائی ،،،،، آپ ،،، ڈرا دیا مجھے 

سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی ڈرپوک ہو ،،، عالم نے اسکے انداز پر ہنستے کہا 

لگتا ہے آپی سے شکایت لگانی پڑے گی ،،، زینت نے اسے گھورتے کہا تو عالم کہ مسکراہٹ سمٹی 

کیا ہوا آپی کا نام سنتے ہی سٹی گم ہوگئی ،،،، واہ جی ،،، اتنی دہشت وہ بھی شادی سے پہلے ،،، ،،،، زینت نے اسکو سریس دیکھتے ہنستے کہا 

تمہاری آپی خوفناک چڑیل ہے جو میں اس سے ڈروں گا ،،، اور تم سے کس نے کہا میری شادی تمہاری آپی سے ہوگی ،،،،عالم نے پیشانی پر بل ڈالے کہا 

کس نے کہنا ہے بھئی میں بھی حویلی میں رہتی ہوں یہاں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے  سب پتا ہے مجھے ،،، زینت نے اتراتے کہا 

واہ تم تو نجومی بابا ہو ،،،، سب پتا ہے تمہیں ،،، پھر تو میرے دل کا حال بھی پتا ہوگا ،،،، عالم نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھتے ابرو اچکاتے پوچھا 

ہاں پتا ہے ناں ،،،، آپ کے دل میں محبت ہے ،،،،،لیکن آپ اظہار نہیں کرتے ،،،، ڈرتے ہیں ،کہیں آپی برا مان گئیں تو ،،،، ایسا ناں 

میری مانیں تو آپ اظہار کردیں ،،،، مانا آپی غصے والی ہیں لیکن دل کی بہت اچھی ہیں ،،، زینت نے بڑی اماں والے انداز میں سمجھاتے کہا تو عالم کی آنکھیں سرخ ہوئیں 

تمہیں اپنی آپی کی پڑی ہے میری کوئی پرواہ نہیں 

آپکی پرواہ ہے تبھی تو مشورہ دیا ہے

اچھا تو پھر ٹھیک ہے ،،،، کردیتا ہوں اظہار 

آئی لو یو ،،،،، محبت کرتا ہوں میں تم سے ،، شادی کرو گی مجھ سے ،،،، عالم نے سنجیدگی سے پوچھا تو زینت ششدر رہ گئی 

اا آپ مزاق کر رہے ہیں ،،،،، مم میں تو،،،،، زینت نے بوکھلاتے کہنا چاہا لیکن عالم نے اسکی بات پوری نہ ہونے دی 

زینت میں سریس ہوں ،،، میں تم سے محبت کرتا ہوں ،،،، بولو شادی کرو گی مجھ سے ؟،،،، عالم نے اسکے قریب ہوتے گمبھیر لہجے میں پوچھا  

 ی یہ کیا کہہ رہے ہیں بھائی آپ 

ہششش بھائی نہیں شاہ ،،،، شاہ کہہ کر مخاطب کرو مجھے ۔۔۔۔۔ بھائی نہیں ہوں میں تمہارا ،،،، عالم نے اسکے ہونٹوں پر انگشت شہادت رکھتے سرد لہجے میں کہا تب ہی انکی ملازمہ وہاں آگئی

 اسے دیکھتے ہی زینت جھٹکے  سے عالم سے دور ہوئی اسکا دل سو کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا جبکہ عالم کی باتیں سن کر گھبراہٹ کے مارے ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہوئے  

زینت بی بی ،،، بڑے سائیں ناشتے کے لئے بلا رہی ہیں ،،،،، سب آپکا انتظار کر رہے ہیں 

ہونہہ چچ چلو ،،،،، زینت نے ڈری ہوئی نظروں سے عالم کے بدلے تیور  دیکھے اور تیزی سے حویلی کے اندر چلی گئی

بھاگ لو جتنا بھاگنا ہے ،،،، آنا تو میری دسترس میں ہے جاناں ،،،،، عالم نے اسکی پشت کو دیکھتے مسکراتے کہا 

ممکن ہـــــے سارے لوگ آپس میں لڑ پڑیں 

ممــکن  ہے تیرے نام پہ  جنگِــــ  عظیم ہو

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

ابتسام شاہ ،شجاع شاہ دونوں بھائی تھے شجاع شاہ بڑے تھے جبکہ ابتسام شاہ چھوٹے ،،،، دونوں کی شادی خاندان میں ہوئی تھی ،،، شجاع شاہ کی ایک ہی اولاد تھی عالم شاہ ،،،، جبکہ ابتسام شاہ کے دو بیٹے تھے بڑا شازم شاہ چھوٹا شمعون شاہ ،،، جبکہ دو بیٹیاں تھی سلطانہ اور زینت جو سب سے چھوٹی تھی ،،،، ایک کار ایکسڈنٹ میں شجاع شاہ اور انکی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا، 

 سلطانہ عالم کی بچپن کی منگیتر تھی 

عالم جو خوبصورتی کی مثال تھا اسے فورس جوائن کرنے کا جنون تھا اسکا جنون دیکھتے ابتسام نے اسکا ساتھ دیا ،،، 

سلطانہ کو جب پتا چلا کہ وہ عالم کی بچپن کی منگ ہے تو اسکے دل میں عالم کے لئے محبت کے گلاب کھلنے لگی اور آنکھیں اسکے خواب بُننیں لگیں ،،،، جبکہ عالم زینت سے محبت کرتا تھا جسکا  اقرار بھی کردیا لیکن یہ اقرا کیا رنگ لانے والا تھا یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا ،،،

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

(حال)

جی فرمائیں ،،،، یہاں کا راستہ کیسے بھول گئے آپ لوگ ،،،، اس وقت لونگ روم میں خاموشی طاری تھی جب شازم شاہ کی آواز اس خاموشی کو چیرتی بلند ہوئی 

شازم ہم آئے تو کسی اور مقصد کے لئے تھے لیکن اب سمجھ نہیں آرہا کیسے کہوں ،،،،، عازم نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے کہا 

خاص مقصد کیا مطلب ؟ 

ہم یہاں اپنے بیٹے ضرار کے لئے  زرناب بیٹی کا رشتہ لینے آئے تھے ،،، مجھے پتا نہیں تھا کہ زرناب تمہاری بیٹی ہے ،،،، 

واہ بھئی واہ کیا کہنے آپ کے ،،،،،،،،،آپ لوگ بنا تصدیق کئے منہ اٹھا کر آگئے ،،،، سلطانہ بیگم نے تمسخرانہ نظروں سے ان لوگوں کو دیکھتے کہا 

سلطانہ ہم بات کر رہے ہیں ناں خاموش رہو تم ،،،، اور جہاں تک بات رہی زرناب کی تو اسکی شادی ہونے والی ہے ،،، اس لئے آپ لوگ جاسکتے ہیں ،،، 

آپ زبردستی اسکی شادی نہیں کر سکتے ،،،، میں نہیں جانتا آپ ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہیں لیکن ،،، میں زرناب سے محبت کرتا ہوں ،،،،اسے لیے بنا نہیں جاؤں گا  ،،،، وہ یہ شادی نہیں کرنا  چاہتی اس نے خود مجھے فون کر کے بتایا ہے آپ اسے بلائیں پلیز ،،، ضرار نے شازم کی بات سنتے کہا

دیکھا بھائی،،،،،،،، وہ بدتمیز لڑکی اس لڑکے سے عشق لڑا رہی تھی ،،،، اب یہی کسر رہ گئی تھی ،،،،، مجھے تو لگتا ہے وہ اسکے ساتھ گئی ہے اب یہ ڈرامہ کر رہے ہیں یہاں آکر ،،،، جاؤ۔ بھئی نہیں ہے تمہاری محبوبہ بھاگ گئی ہے وہ گھر سے ،،،،، ختم کرو ڈرامہ ،،،،، سلطانہ بیگم نے غصے سے ان سب کو دیکھتے کہا 

وااٹ ،،،، کیا مطلب زرناب گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے ،،،،،،

پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے تمہیں خبر ہی نہ ہو ،،،،، 

بھائی یہ لوگ ایک نمبر کے ڈرامے باز ہیں ،،، اور  یہ جو معصوم بنی بیٹھی ہے ناں ،،،، سب کیا دھرا اسکا ہے ،،،،   بدلہ لینے آئی ہے ہم سب سے ،،،،اس لئے زرناب کو ورغلا کر بھاگنے پر مجبور کیا اور اب ڈھونگ رچا کر یہاں آگئی 

،،،، سلطانہ نے نفرت سے زینت کو دیکھتے کہا 

بس کردیں آپ ،،،، زینت چاچی کا کوئی قصور نہیں ہے ،،، آپ بار بار ان پر کیوں بول مار رہی ہیں ،،،، ہمیں نہیں پتا زرناب کہاں ہے ،،،، اس رات زرناب نے مجھے فون کر کے بلایا تھا 

میرے سمجھانے کے باوجود بھی وہ ضد پر اڑی تھی  کہ اگر میں ناں آیا تو وہ خود کو مار دے  گی ،،، 

میں پوری رات اس کا  انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئی ،،،،،مجھے لگا اسکا ارادہ بدل گیا ہے اس لئے میں واپس چلا گیا تاکے موم ڈیڈ کے ساتھ یہاں آؤں ،،،، اس سب میں چاچی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ،،،، ضرار جو کب سے برداشت کررہا تھا  سلطانہ کی بات پر غصے سے کہا 

ضرار ،،،،، مت روکو انہیں ،،،، نکال لینے دو اپنی بھڑاس ،،،،، بہن ہیں وہ میری ،،،،، زینت بیگم نے روتے سلطانہ بیگم کو دیکھتے کہا تو ضرار ششدر رہ گیا 

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

  زرناب بس سٹوپ پر تو آگئی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ناں تو اسکے پاس کرائے کے  پیسے تھے ناں ہی فون کہ ایک کال ہی کر سکے ،،،، 

کافی سوچ بچار کے بعد اس نے اپنے ساتھ بینچ پر بیٹھے عورت کو مخاطب کیا 

آنٹی جی ،،،، میری بات سنیں ،،،،،مجھے آپکی ہیلپ چاہیے ،،، آپ پلیز مجھے اپنا فون دے سکتی ہیں تھوڑی دیر کے لئے ،،، مجھے ایک کال کرنی ہے ،،،،

کیااااا ،،،،، آنٹی کس کو بولا تم نے ہاں ،،،،، میں تمہیں آنٹی دِکھتی ہوں ،،،،، تم سے دو چار سال چھوٹی ہونگی ،،،،، بڑی آئی آنٹی کہنے والی ،،،

 اس عورت نے زرناب کی بات پر غصہ سے لال بھبھوکا ہوتے کہا تو زرناب نے آنکھیں پھاڑے سر تا پیر اسے دیکھا جو عمر میں پینتیس چھتیس سال کی موٹی سی عورت  تھی اور خود کو اس سے بھی چھوٹا کہہ رہی تھی 

سوری چھوٹی بہنا ،،،، اصل میں صبح سے کچھ کھایا نہیں ناں خالی پیٹ ہو،،،،، اس لئے ون پیس ڈبل لگ رہا ہے مجھے ،،،  زرناب نے جبراً مسکراتے طنزیہ انداز میں کہا کہ اب ضرورت پڑنے پر تو  گدھے  (اوپس سوری ،،،،،گدھی) کو باپ بنانا پڑے گا 

تم مجھے دوست کہہ سکتی ہو ،،،، اب اتنی خوبصورت لڑکی پر چھوٹی بہنا ،،،،بہن ٹائپ غائب سا لگتا ہے ،،،،، اس عورت نے اتراتے کہا تو زرناب نے نظریں گھمائیں ،،،، اسکا دل کر رہا تھا دل کھول کر قہقہے لگائے لیکن ضبط کر گئی 

اوکے فرینڈ اب پلیز مجھے فون دے دو ،،، میرا بیگ چوری ہوگیا ہے مجھے اپنے گھر والوں کو بتانا ہے تاکے وہ آکر مجھے یہاں سے لے جائیں ،،،،، زرناب نے گرمی کی شدت سے  سرخ ہوتے کہا 

او سو سیڈ  ،،،،،، یہ لو ،،، اس عورت نے فون دیا تو زرناب نے ضرار کا نمبر ڈائل کیا جو بند جارہا تھا کافی بار ٹرائے کرنے کے بعد اس نے میسج سینڈ کرتے موبائل سے نمبر اور میسج دونوں ڈیلیٹ کردیے ،،،، 

یہ لیں آپکا فون ،،،،  اینڈ 

تھنکس آنٹی جی ،،،، زرناب نے فون اس آنٹی کو پکڑاتے اس سے دور ہوتے  شرارت سے کہا اور کھلکھلاتے وہاں سے رفو چکر ہوگئی جبکہ وہ آٹنی تلملا کر رہ گئی 

( ماضی) 

وہ دل ہی کیا جو تیرے ملنے کی دعا نہ کرے

میں تجھ کو بھول کر زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ تیرا، پیار زندگی بن کر

یہ اور بات ہے زندگی میری وفا نہ کرے

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

قتیل شفائی

عالم شاہ کے اظہارِ محبت  کے بعد زینت اس سے چھپتی پھر رہی تھی اسے ڈر تھا اگر کسی کو پتا چل گیا تو ،،، اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ،،، حویلی میں عالم اور سلطانہ کی شادی کی باتیں ہونے لگی جو عالم تک جا پہنچی ،،، اس نے شادی سے انکار کرتے زینت سے پسندیدگی کا اظہار کیا تو سب کے سروں پر حیرتوں کے پہاڑ گڑ پڑے ،،،،،، اسی دن سے سلطانہ کے دل میں زینت کے لئے نفرت پیدا ہونے لگے 

سب نے اسے بہت سمجھایا لیکن عالم اپنی ضد پر اڑا رہا کہ شادی کرے گا تو زینت سے نہیں تو  کسی سے نہیں ،،،، اپنا فیصلہ سناتے وہ پشاور چلا گیا اپنی ڈیوٹی پر ،،،،، اس کی ضد کو دیکھتے خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ جلد سے جلد زینت کی شادی کردی جائے ،،،اس موقع پر شازم شاہ کے دوست نے اپنے  بھائی اشہد خان کے لئے زینت کا رشتہ مانگا جس پر سوچ بچار کے بعد ہاں کہہ دی گئی اور یوں ،،، عالم کی غیر موجودگی میں زینت کو رخصت کردیا گیا ،،،، 

عالم شاہ جب واپس آیا تو ایک قیامت اس کی منتظر تھی ،،، جب اسے زینت کی شادی کا علم ہوا تو اس نے وہ طوفان برپا کیا کہ اللّٰہ مان ،،،، اسکا جنون دیکھتے سب پریشان تھے لیکن سب کو لگتا تھا کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گا اس لئے ابتسام شاہ نے اسے بلیک میل کرکے اسکا اور سلطانہ کا نکاح کروا دیا ،،،، لیکن یہ سب کی خام خیالی تھی کہ عالم زینت کو بھول جائے گا ،،،، اس نے سلطانہ سے شادی تو کر لی لیکن کبھی اس کو محبت نہیں دے پایا ،،،،، سلطانہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ زینت کی محبت اپنے دل سے نہ نکال پایا ،،،،،، 

دوسری طرف زینت کو اللہ نے بیٹی جیسی رحمت سے نوازا وہ اپنے زندگی میں بہت خوش تھی ،،، وقت گزرتا گیا ،،، لیکن عالم شاہ وہیں رکا رہا جہاں زینت اس سے دور کردی گئی تھی ،،،، سلطانہ کو دیکھ کر سب گھر والوں کو اپنے فیصلے پر  پچھتاوا ہوتا تھا کہ اگر وہ سلطانہ کی شادی زبردستی عالم سے نہ کراتے تو آج وہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوتی ،،، لیکن اب سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچا تھا 

اور اس پچھتاوے پر کاری ضرب تب لگی جب عالم کی شہادت کی خبر حویلی پہنچی ،،،، اسکی لہو میں ڈوبی میت کو دیکھ کر ابتسام شاہ اپنے فیصلے پر روئے انہیں شدت سے احساس ہوا کہ وہ اپنے بھائی کی امانت کے ساتھ ناانصافی کرچکے ہیں، اس لیے وہ سب سے منہ موڑے زینت کی محبت کی حسرت اپنے سینے میں دبائے جاچکا تھا 

وہیں دوسری طرف ،،، حویلی آتے اشہد اور زینت کی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہوا جس میں ان کی بیٹی اور اشہد کی موت ہوگئی ،،، حویلی میں قیامت برپا تھی ابتسام شاہ دونوں بیٹیوں کے ایک ساتھ بیوہ ہونے کے غم میں نڈھال تھے 

ضروری نہیں غلطیاں ہمیشہ چھوٹوں سے ہی ہوں بعض اوقات بڑوں کے فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں جن کا احساس انھیں تب ہوتا ہے جب وقت انکے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے تب سوائے پچھتانے کے کچھ باقی نہیں رہتا 

****************************

(حال)

وہ دونوں شہر پہنچ چکے تھے امامہ تو آتے تھکن سے چور ہوتے بستر پر ڈھ گئی ۔۔۔۔۔ مکرم اس کے انداز پر ہنستے فریش ہونے چلا گیا فریش ہوکر واپس آیا تب تک امامہ سو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔

سویٹ ڈریم میری جان  ۔۔۔۔۔ مکرم نے اسکے پاس جگہ بنا کر لیٹتے اس کا سر اپنے بازو پر منتقل کیا اور اس کو حصار میں لے کان میں سرگوشی کرتے  سکون سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کی سرگوشی پر نیند میں ہوتے ہوئے بھی امامہ کے لبوں پر تبسم بکھر گیا 

***********************

 تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد اسے سوتا چھوڑ کر کام سے باہر چلا گیا ۔۔۔

امامہ کی آنکھ کھلی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے ---- اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے کمرے میں نظر دوڑائی 

یہ کہاں چلے گئے ؟ ۔۔۔۔مکرم کو نہ پاکر وہ بالوں کا جوڑا بناتے جلدی سے باہر آئی....

لاونج کو خالی دیکھ کر اس نے کچن میں قدم رکھا لیکن مکرم وہاں بھی نہیں تھا 

اففف اللّٰہ جی کہیں یہ مجھے اکیلا چھوڑ کر تو نہیں چلے گئے ۔۔۔۔ اب میں کیا کروں مجھے تو ان کا نمبر بھی نہیں آتا ۔۔۔۔۔ امامہ نے خود کو تنہا پاکر ڈرتے روہانسی آواز میں کہا تب ہی باہر بجلی چمکی جس سے ڈرتے امامہ چیخ مارتے اپنے کمرے کی طرف بھاگی 

 موسم کے تیور بگڑ رہے تھے آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے امامہ کو بادلوں کی گرج چمک سے ڈر لگتا تھا اس وقت بھی وہ کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی اسکا ڈر خوف میں تب بدلا جب اچانک لائٹ چلی گئی 

وہ اندھیرے میں بلینکٹ میں دبکی خوف سے تھر تھر کانپتے رو رہی تھی ۔۔۔۔۔ تیز ہواؤں سے کھڑکی کے پٹ کھل ، بند ہورہے تھے جن سے اندر آتی ٹھنڈی ہوا اور سرسراتے پردے ماحول کو پراسرار بنا رہے تھے 

مم مکرم ۔۔۔۔ پلیز آجائیں۔۔۔۔۔ورنہ میں خوف سے فوت ہو جاؤں گی ۔۔۔۔ 

*************************

مکرم  اپنے دوست ڈی ایس پی ذیشان کے پاس آیا تھا تاکہ اسے  زرناب کی گمشدگی سے متعلق صورتحال سے آگاہ کرسکے ۔۔۔۔۔۔ باتوں باتوں میں کب وقت گزرا اسے احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔۔جب بادلوں کی گرج چمک کی آواز سنی تو اسے امامہ کا خیال آیا ۔۔۔۔ وہ پریشان سا گھر کے لئے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔۔

گھر آتے  پورچ میں گاڑی روکتے وہ بھاگنے کے سے انداز میں اندر داخل ہوا 

پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا موبائل کی ٹارچ آن کرتے وہ سڑھیوں کی طرف بڑھا

کمرے کے باہر رکتے اس نے ہینڈل لاک گھمایا جس سے کلک کی آواز دیتے دروازہ کھل گیا اندر جاتے اس کی نظر جونہی بیڈ پر پڑی وہ حیران رہ گیا 

یہ ابھی تک سو رہی ہے ۔۔۔۔۔کہیں طعبیت تو خراب نہیں اس کی ۔۔۔۔۔مکرم نے سرگوشی کے سے انداز میں خود سے سوال کرتے کہا اور اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

یا اللّٰہ بچا لیں مجھے۔۔۔۔۔ میں کسی جن کے ہاتوں سے نہیں مرنا چاہتی ۔۔۔۔پلیز بچا لیں   امامہ نے قدموں کی آواز سنتے کلمہ پڑھنا شروع کردیا خوف سے اسکا چہرہ سفید پڑ گیا تھا 

مکرم نے جیسے ہی اس کے چہرہ سے بلینکٹ ہٹایا امامہ زور دار چیخ مارتے بیڈ سے اٹھتی خود کو بچانے کے چکر میں دھڑم سے نیچے جاگری اسکے اچھلنے پر مکرم بھی گرتے گرتے بچا تھا

یا وحشت لڑکی ۔۔۔۔بھوت دیکھ لیا ہے کیا ؟۔۔۔مکرم اس کی چیخیں سن کر بوکھلا گیا 

بچاؤ ۔۔۔۔ امی یہ بھوت مجھے مار دے گا ۔۔۔۔ امامہ نیچے گری آنکھیں بند کئے چلا رہی تھی مکرم نے ایک جست میں اس تک پہنچتے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اس کی آواز بند کی 

ہوش میں آؤں امامہ یہ میں ہوں مکرم شاہ کوئی جن بھوت نہیں ۔۔۔۔۔مکرم نے اسکے بھوت بھوت چیخنے پر خفگی سے کہتے موبائل کی ٹارچ سامنے کی جس کی روشنی میں ان دونوں کے چہرے واضح ہوئے 

امامہ نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا اور جیسے ہی حواس بحال ہوئے جھٹکے سے اسکے سینے سے لگتے رونے لگی ۔۔مکرم اس کی غیر متوقع حرکت پر ساکت رہ گیا 

امامہ کی نازک ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپٹے تھے جبکہ وہ اسکے سینے میں چھپے رو رہی تھی 

مکرم نے اس کی ہچکیاں سن کر خود کو ملامت کرتے نرمی سے اس کی پشت سہلائی ۔۔۔۔ اس کے نرم گرم وجود کو اپنے سینے سے لگے دیکھ کر ایک سکون سا اس کی رگ و پے میں دوڑ گیا ۔

اا آپ مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔۔۔ کیوں ؟ 

جانتے ہیں مجھے اندھیرے سے کتنا ڈر لگتا ہے۔۔۔۔ اگر آپ نہ آتے تو آج میں نے فوت ہوجانا تھا ۔۔۔۔ امامہ نے ہچکیوں سے روتے کہا تو اسکی بات سن کر مکرم کا دل ڈوب گیا ۔ 

ہشششش فضول باتیں مت کرو میری جان ۔۔۔۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاسکتا ۔۔۔۔۔ آخری سانس تک سائے کی طرح  تمہارے ساتھ رہوں گا ۔۔۔کوئی تمہیں مجھ سے جدا نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ مکرم نے محبت سے اس کے بکھرے بال سنوارتے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے کہا تو امامہ کا دل بے چین ہوا۔۔۔۔ اس محبت سے گوُندے شخص کا ہر انداز لاجواب تھا ہر بار وہ اسے چونکا دیتا تھا

 اب بھی اس کا لمس پاکر ایک سکون سا اسکی روح میں سرایت کرگیا امامہ سب فراموش کرتے آنکھیں بند کئے اسکی دھڑکنوں کو محسوس کرتے مسکرا دی 

**************************

حویلی سے لوٹتے ضرار نے جیسے موبائل آن کیا دھڑا دھڑ نوٹیفکیشن آنے شروع ہوگئے 

اؤ شٹ ۔۔۔۔۔ میسج پڑھتے ہی وہ گاڑی کی چابی اٹھائے باہر بھاگا 

زرناب کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچتے ضرار نے اسے نظریں گھماتے اسے ڈھونڈا جو تھوڑی دور ایک بیچ پر بیٹی اسکا انتظار کررہی تھی 

زرناب ۔۔۔۔۔ ضرار نے اسے پکاراتو زرناب نے نظریں اٹھاتے سامنے دیکھا ضرار کو دیکھتے ہی زرناب کھل اٹھی ۔۔۔۔۔

اتنا انتظار کروایا ہے تم نے ڈفر انسان ۔۔۔۔ اب جلدی سے مجھے کچھ کھلا دو بھوک سے میری آنتیں معدہ باہر آنے کو ہے ۔۔۔۔ اسکو پیشانی پر بل ڈالے خود کو گھورتے دیکھ کر زرناب نے مسکراتے کہا 

 تم پاگل ہو کیا ؟۔۔۔۔۔ عقل نام کی چیز ہے تمہارے پاس یا گھاس چرنے گئی ہے ؟۔۔۔ ضرار نے غصے سے اسکو بازو سے پکڑ کر کھڑا کرتے دھاڑتے کہا 

لیکن اس کی بات سننے سے پہلے ہی  زرناب اس کی باہوں میں جھول گئی 

زرناب ۔۔۔۔۔ زرناب آنکھیں کھولو ۔۔۔۔ زری ۔۔۔۔۔ اس کو بیہوش دیکھ کر ضرار کے ہوش اڑے ۔۔۔ ٹائم ضائع کئے بنا اسے باہوں میں اٹھائے گاڑی میں ڈالتے وہ ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا 

***************************

یا میرے خدایا ۔۔۔۔۔ امامہ ۔۔۔۔ یہ کیا ہے ؟ دوسرے دن مکرم دیر سے بیدار ہوا ۔۔۔۔ فریش ہوکر وہ جیسے ہی نیچے آیا سامنے کا منظر دیکھ کر دھاڑا 

اسکی آواز سن کر امامہ کا وجود ساکت ہوا 

آپ ۔۔۔۔ ؟ جھٹکے سے مڑتے اس نے مکرم کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے گھور رہا تھا 

" یہ کیا کر رہی ہو تم "۔۔۔۔ 

 مکرم نے اس کے آٹے سے بھرے ہاتھ اور چہرے سے نظر ہٹاتے کچن کو دیکھا جو اس وقت میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی اور کچن کی حالت دیکھ کر مکرم کا سر چکرا گیا 

 وہ میں ۔۔۔ ہم دونوں کے لئے ناشتہ بنا رہی تھی    امامہ نے آنکھیں پٹپٹاتے معصومیت سے کہا  تو مکرم نفی میں سر ہلاتے اس کی طرف بڑھا 

" چھوڑو اسے ادھر آؤ تم ۔۔۔ مکرم نے اس کو پکڑ کر کرسی پر بیٹھاتے خود اس کی سامنے نشست سنبھالی 

کچن کو دیکھتے ایک گہرا سانس بھر کر  امامہ کی طرف متوجہ ہوا جو ہونٹ چباتے اسے دیکھ رہی تھی مکرم کے دیکھنے پر سٹپٹاتے نظریں جھکا گئی اس کی اس ادا پر مکرم کو ٹوٹ کر پیار آیا 

 جند سائیں خود کو تھکانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ اگر بھوک لگ رہی تھی تو مجھے جگا دیا ہوتا " اس کے چہرے پر لگے آٹے کو نرمی سے صاف کرتے کہا تو اس کے لمس پر امامہ کی پلکیں لرزنے لگیں 

اآپ سو رہے تھے اس لئے نہیں جگایا۔۔۔۔ 

مم مجھے کھانا  بنانا آتا ہے ۔۔۔۔امامہ نے اتنی دھیمی آواز میں کہا کہ اگر مکرم اس کے پاس نہ ہوتا تو شاید سن نہ پاتا  مکرم کے ہاتھ اس کی گال پر حرکت کرتے سہلا رہے تھے امامہ کا دل اس کی لمس پر ایک سو بیس کی سپیڈ  سے دھڑک رہا تھا 

وہ تو نظر آرہا ہے مجھے ۔۔۔۔ مکرم نے ایک نظر کچن کو دیکھ کر ہنستے کہا  تو کچن کی حالت دیکھ کر شرمندگی سے امامہ کا چہرہ لال ہوگیا  

سس سوری میں نے سب خراب کردیا ۔۔۔۔ امامہ نے نمدیدہ لہجے میں کہا تو مکرم نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے مقابل کہا 

میری طرف دیکھو ۔۔۔۔

 امامہ میری طرف دیکھو  ۔۔۔۔۔ مکرم کی سنجیدہ آواز سن کر امامہ نے لرزتی پلکیں اٹھائیں

" اتنی چھوٹی سے بات کو لے کر کون روتا ہے ؟"

"آج کے بعد ایسی فضول باتوں پر میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھو "۔۔۔۔ اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے مکرم نے گمبھیر لہجے میں کہتے اس کی پلکوں پر اٹکے آنسو پر نرمی سے ہونٹ رکھے تو امامہ کا دل اچھل کر حلق میں اٹکا ۔۔۔۔۔ جسم کا  سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا لرزتے ہاتھوں کی مٹی بند کرتے اس نے چئیر کا سہارا لیا  

"مم مجھے بھوک لگی ہے " لرزتی آواز میں کہتے وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے دور ہوئی تو اس کی اس حرکت کو مکرم نے ناگواری سے دیکھا جبکہ وہ اپنے دل کو سنبھال رہی تھی جو اس کے لمس پر پاگل ہورہا تھا 

اس سے پہلے مکرم غصے میں اسے ہرٹ کرتا۔۔۔ نظر  اس کے چہرے پر پڑی ۔۔۔ تو لہو چھلکاتے چہرے کو دیکھ کر گہرا سانس بھر کر رہ گیا وہ اس کی اتنی سی قربت برداشت نہیں کر پائی تھی مکرم کو ٹوٹ کر اس نازک سی لڑکی پر پیار آیا 

تم روم میں جاکر فریش ہوکر آؤ ۔۔۔۔۔ تب تک میں کچھ کھانے کے لئے بناتا ہوں ۔۔۔ اسے کمرے میں بھیج کر مکرم نے کچن کو دیکھا

او خدایا ۔۔۔۔ اب کبھی میری معصوم جند کے چھوٹے سے دماغ میں کھانا بنانے کا خیال نہ آئے بس ۔۔۔ بیچارگی سے کہتے مکرم کف فولڈ کرتے ناشتہ بنانے لگا 

*****************************

ضرار ایمرجنسی وارڈ کے باہر پریشانی سا بیٹھا تھا تھوڑی دیر بعد ہی سامنے روم کا دروازہ کھولتے ڈاکٹر باہر آئی 

ڈاکٹر کیسی ہے وہ ۔۔۔۔۔ ضرار نے ڈاکٹر کو دیکھتے بےتابی سے پوچھا 

شی از فائن مسٹر ضرار ۔۔۔۔ آپ کی وائف کا بی پی لو ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ  سب ٹائم پر کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔پلیز ان کے کھانے پینے کا خیال رکھیں ۔۔۔۔ ابھی میں نے ڈرپ لگا دی ہے ۔۔۔۔جیسے ہی  ڈرپ ختم ہوگی آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور ایکسکیوز کرتے چلی گئی 

 ضرار نے گہرا سانس لیتے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور اندر چلا گیا 

****************************

 تم بچن سے ایسی ہو یا کوئی چوٹ وٹ لگی تھی ؟ وہ دونوں گھر آرہے تھے جب ضرار نے سنجیدگی سے پوچھا 

کیا مطلب ؟ زرناب جو اپنے ہاتھ پر ڈرپ کے نشان کو سہلا رہی تھی چونکتے اس کی طرف متوجہ ہوئی

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچپن سے بے وقوف ہو یا کسی چوٹ کا اثر ہے ۔۔۔ ضرار نے سریس موڈ میں پوچھا تو زرناب نے لال ہوتے بھونیں سکیڑتے اسے گھورا 

تم نے مجھے بے وقوف کہا  

جی بلکل میں تو بے وقوف کے علاؤہ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن چلو خیر ہے ۔۔۔ ضرار نے اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر ہنسی دباتے کہا 

ضرار ۔۔۔۔ بات مت کرنا مجھ سے ۔۔۔ تمہارے لئے میں نے اتنی مشکلات کا سامنا کیا ۔۔۔ اور تمہیں کچھ احساس ہی نہیں ہے۔۔۔ زرناب نے ناراضگی سے منہ موڑتے کہا 

"تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی زرناب ۔۔۔ میں نے منع کیا تھا نہ تمہیں " ضرار نے اس کا پھولا منہ دیکھ کر نرمی سے کہا 

نہیں رکھو گی اپنا خیال۔۔۔۔ بلکل نہیں رکھوں گی ۔۔۔۔ کیونکہ میرا خیال رکھنے کے لئے تم ہو ۔۔۔ تمہیں رکھنا پڑے گا سمجھے ۔۔۔ زرناب نے روتے دھونس بھرے لہجے میں کہا تو ضرار کو اس ضدی لڑکی پر پیار آیا جو اس کے دل کی ملکہ تھی 

اچھا رؤ تو مت ۔۔۔۔  ٹھیک ہے میں وعدہ کرتا ہوں ساری زندگی تمہارا خیال رکھوں گا ۔۔۔  لیکن بدلے میں تمہیں بھی میری زری کا خیال رکھنا ہوگا ۔۔۔۔ اگر میری زندگی کو ذرا سی بھی تکلیف دی یا رلایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا " ضرار نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے اسی کے انداز میں کہا تو زرناب کے ہونٹوں پر شرمگیں مسکراہٹ نمودار ہوئی 

تو ضرار یہ دھوپ چھاؤں سا منظر دیکھ کر مہبوت رہ گیا 

ٹھیک ہے مسٹر ضرار اب آپ سامنے دیکھ کر ڈرائیونگ کریں ۔۔۔کیونکہ میں ابھی جینا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔آپ کے ساتھ۔۔۔۔ 

اب پلیز مجھے کچھ کھلا دو بھوک سے پاگل ہورہی ہوں میں ۔۔۔ زرناب نے اس کا دھیان ڈرائیونگ پر دلاتے بیچارگی سے کہا 

او سوری یار میں بھول گیا تھا ۔۔۔ یہی پاس میں ہی بہت اچھا ریسٹورنٹ ہے وہاں چلتے ہیں ۔۔۔

*************************

امامہ کے ایگزیم سٹارٹ ہوگئے تھے مکرم اس کا بہت خیال رکھتا تھا بنا کہے اس کے دل کی بات سمجھ جاتا تھا

امامہ ۔۔۔۔ یہ لو ۔۔۔ جلدی سے یہ فینش کرو ۔۔۔  اب بھی وہ ایگزیم کی تیاری کر رہی تھی جب مکرم نے دودھ کا گلاس اس کے سامنے رکھتے کہا 

مجھے نہیں پسند ۔۔۔۔ دودھ کا گلاس دیکھ کر امامہ نے ناک چڑھاتے کہا تو مکرم نے سخت  گھوری سے نوازا 

سچی مجھے نہیں پسند۔۔۔۔ ویسے بھی مِلک تو چھوٹے بچے پیتے ہیں ۔۔۔ میں بچی ہوں کیا ؟ اس کے گھورنے پر آنکھیں پٹپٹاتے معصومیت سے کہا جانتی تھی مکرم جلد اس کی بات مان جاتا ہے 

بچی نہیں ہو لیکن تمہارا دماغ بلکل بچوں جیسا ہے ۔۔۔ چلو شاباش فینش کرو اسے ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی چلاکی پر گلاس پکڑ کر اس کے  لبوں سے لگاتے کہا تو مجبوراً آنکھیں میچتے امامہ کو پینا پڑا 

میں ناراض ہوں آپ سے ۔۔۔۔۔ایک سانس میں پورا گلاس خالی کرتے اس نے خفگی سے مکرم کو دیکھا

لیکن اس کی نظر تو امامہ کے چھوٹے سے ہونٹوں پر تھی۔۔۔۔۔ اس کے ہونٹ کے اوپر دودھ سے پتلی سی لکیر بن گئی تھی  جسے دیکھ کر مکرم کا دل ڈوب کر ابھرا اس کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگی دل شدت سے گستاخی پر اکسانے لگا 

بے خودی میں مکرم نے ہاتھ بڑھاتے اس کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ صاف کرتے اس پر انگوٹھے سے رب کیا تو امامہ نے سٹپٹاتے اسے دیکھا  جس کی سرخی مائل  بھوری آنکھوں میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا  

 نگاہیں چار ہوتے ہی ۔۔۔۔ دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا مکرم بے خود ہوتے اس کے ہونٹوں پر جھکا لمحے بھر کے لئے امامہ ساکت ہوگئی ۔۔۔۔۔نازک لبوں پر اس کا جان لیوا سلگاتا  لمس ۔۔۔۔۔۔ پھٹی آنکھیں اس کے بند پلکوں پر جمی تھیں۔۔۔۔۔ حلق سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔۔۔۔۔ دل جیسے کانوں میں دھڑکنے لگا ۔۔۔۔۔ سانسیں حلق میں اٹک گئیں اس سے پہلے مکرم کی گستاخیاں بڑھتی ہوش میں آتے امامہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے دھکا دیا 

ی یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔ شرم نہیں آتی آپ کو ۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ۔۔۔۔۔ آپ زرناب آپی کی امانت ہیں ۔۔۔۔ 

ہماری شادی صرف مجبوری کے تحت ہوئی تھی ۔۔۔۔ جو زرناب آپی کے ملنے کے بعد ختم ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔آپ نے ایسی گھٹیا حرکت کیسے کی؟ ۔۔۔۔ امامہ کے الفاظ تھے کہی پگھلا ہوا سیسہ جو مکرم کو ساکت کرگیا ۔۔۔۔۔ ساری بے خودی ہوا ہوگئی تھی 

مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی ۔۔۔۔ آئیندہ میرے قریب آنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا ۔۔۔۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی ۔۔۔۔۔ 

بس ۔۔۔۔ امامہ غصے سے جو منہ میں آیا کہتی جارہی تھی مکرم کی غصے بھری گرج دار آواز سن کر اسکا دل کانپا

آگے ایک لفظ بھی کہا تو جان لے لوں گا تمہاری ۔۔۔۔ تم بے وقوف ہو لیکن مجھے بے وقوف سمجھے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔

 بیوی تم ہو میری زرناب نہیں ۔۔۔ شادی تم سے ہوئی ہے ۔۔۔ زرناب سے نہیں ۔۔۔۔ مجھے ہر طرح کا حق حاصل ہے تم پر ۔۔۔۔ اور مجھ پر صرف تمہارا حق ہے ۔۔۔۔ مکرم نے سرخ آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑھتے سرد لہجے میں کہا تو  امامہ کی جان ہوا ہوئی اس کی سانسیں امامہ کا چہرہ جلسا رہی تھیں  

یاد رکھنا مکرم شاہ کسی کا حق نہیں مارتا اور نہ ہی اپنا حق مارنے دیتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ بات جتنی جلدی اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لوگی ۔۔۔۔اتنا اچھا ہوگا ہم دونوں کے لئے ۔۔۔۔

 مکرم نے اس کے چہرے پر  دھاڑتے کہا اور جھٹکے سے اسے دور کرتے سٹڈی روم میں چلا گیا ٹھاہ کی آواز سے دروازہ بند ہوا تو امامہ جو ساکت سی بیٹھی تھی دروازے کی آواز پر  اچھل پڑی 

                   

ایک بات بتاؤ زری ۔۔۔۔ جب میں تمہیں لینے آیا تھا تو تم باہر کیوں نہیں آئی ؟ ۔۔۔۔ ایسے خود کو مشکل میں کیوں ڈالا تم نے ؟ وہ دونوں ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے جب ضرار نے سنجیدگی سے پوچھا 

میں آئی تھی ضرار لیکن یہ سب اس ہلاکو خان کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔ اس نے مجھے کڈنیپ کرکے قید کر لیا تھا ۔۔۔۔

کون ہلاکو خان ؟۔۔۔۔ 

کہنا کیا چاہتی ہو ؟

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ؟ ضرار نے اسکے غصے کے باعث سرخ چہرے کو دیکھتے الجھتے پوچھا 

میں مکرم کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔ پتا نہیں کیسے اسے سب پتا چل گیا ۔۔۔۔ 

اس دن جب میں تمہاری پاس آرہی تھی تو مکرم نے مجھے کڈنیپ کرلیا ۔۔۔۔ پورے دو دن مجھے قید رکھا اس نے ۔۔۔۔ وہ تو اللہ نے میری مدد کی ۔۔۔۔اور میں اس کے چنگل سے رہا ہونے میں کامیاب ہوگئی 

تم جانتے ہو وہ اتنا گھٹیا انسان ہے کہ ۔۔۔ اس نے مجھ سے بدلہ لینے کے لئے میری چھوٹی بہن سے شادی کرلی ۔۔۔۔ 

لیکن ۔۔۔۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں 

میرا نام بھی زرناب شمعون شاہ ہے ۔۔۔۔ قسم کھاتی ہوں اس کا اصلی چہرہ سب کے سامنے لا کر رہوں گی  ۔۔۔۔۔۔

اپنی بہن کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی اسے ۔۔۔۔زرناب نے غصے سے لال ہوتے دانت کچکاتے کہا 

اوکے ریلیکس ۔۔۔۔ پہلے کھانا کھاؤ تم ۔۔۔۔۔ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔۔اس کے بعد کیا کرنا ہے یہ سوچیں گے  ۔۔۔ ضرار  نے اسے کھانے کی طرف متوجہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اور خود سوچنے لگا کہ زرناب کو منت کے بارے میں بتائے یا نہ بتائے 

******************************

صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی کھڑکی سے چھن کر آتی کرنیں امامہ کے چہرے پر پڑیں جو  اس کی نیند میں خلل پیدا کر گئیں  رات وہ مکرم کے ڈر سے  روتے روتے  سو گئی تھی ۔۔۔ 

جبکہ مکرم نے بھی رات  سٹڈی روم میں گزاری تھی ۔۔۔۔ 

امامہ کی آنکھ کھلی پہلے تو وہ غائب دماغی سے چھت کو گھورتی رہی لیکن جیسے ہی ذہن بیدار ہوتے رات کا واقعہ یاد آیا وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی 

 خالی کمرے کو دیکھتے اس نے مکرم کو ڈھونڈنا چاہا اسکی تلاش میں نگاہیں سٹڈی روم کے دروازے پر پڑھیں جو بند تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر امامہ نے شکر کا سانس لیا 

لگتا ہے ابھی اندر ہیں ۔۔۔۔۔

 اففف رات تو میری جان نکال دی تھی ۔۔۔۔

 شکر ہے سو رہے ہیں ۔۔۔۔

 چل اِمی بھاگ لے  ایسا نہ ہو پھر سے ڈریکولا جاگ جائے ۔۔۔۔ 

یہاں تو امی بابا بھی نہیں ہیں جو تجھے بچا لیں ۔۔۔۔۔

 وہ مکرم کے رات والے روپ سے خوف زدہ تھی ۔۔۔ اس کا غصہ دیکھ کر ڈر گئی تھی ۔۔اب بھی اس کے باہر نکلنے سے پہلے وہ فریش ہوتے بڑبڑاتے اسے نئے لقب سے نوازتے کمرے سے بھاگ گئی  

پتا نہیں اسے دیکھ کر مکرم کا کیا ریکشن ہوگا اور اس ڈر پوک میں اتنی ہمت  نہیں تھی کہ مکرم کے غصے کا سامنا کرسکے ۔۔۔

 اب کچن میں جانے کا رسک بھی نہیں لے سکتی تھی کہیں پھر سے وہ غصہ نہ کرے ۔۔۔۔۔۔ کل جو کچن کا  حشر  کیا تھا وہ سوچ کر جھرجھری لیتے ٹی وی لاونج میں جاکر بیٹھ گئی ۔۔۔

دوسری طرف مکرم ساری رات سگریٹ پھونکتے اپنا دل جلاتا رہا ۔۔۔۔ امامہ کی باتیں کسی ہتھوڑے کی طرح اس کے دماغ پر ضربیں  لگا رہی تھیں ۔۔۔۔صبح کے قریب اس کی آنکھ لگی تھی  ۔۔۔ مگر تھوڑی دیر بعد ہی کمرے سے آتی کھٹ پٹ کی آوازیں سن کر وہ نیند بھی اڑ گئی ۔۔۔ 

اس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا آنکھیں رُت جُگے کی وجہ سے سرخ انگارہ ہورہی تھیں پیشانی پر بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے اس نے سٹڈی روم کا جائزہ لیا جو سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا جگہ جگہ سگار پڑے تھے ۔۔۔  

ہونٹ بینچتے وہ کمرے میں آیا خالی کمرہ دیکھ کر غصے سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے شرٹ اتار کر نیچے پھینکی اور واش روم میں گھس گیا ۔۔۔۔ 

ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کے بعد اس کا غصہ  ٹھنڈا ہوا۔۔۔ 

 وہ ناراض تھا امامہ سے اور  چاہتا تھا کہ امامہ اسے منائے لیکن وہ بے وقوف لڑکی تو پتا نہیں کن ہواؤں میں تھی ۔۔۔ جسے احساس ہی نہیں تھا 

نہ اس کا ، ۔۔۔۔۔

نہ اپنا ،۔۔۔۔۔

 نہ ہی اپنے رشتے کا ۔۔۔۔ 

لیکن وہ بھی مکرم شاہ تھا جس نے ٹھان لی تھی

 کہ اس عقل سے پیدل لڑکی کو خود سے محبت کروا کر رہے گا ۔۔۔۔ 

او گاڈ ۔۔۔۔۔۔۔ لیٹ ہوگیا ۔۔۔۔۔پتا نہیں اس بےوقوف نے ناشتہ کیا ہوگا یا نہیں ۔۔۔۔۔ نالائق تو ہے ۔۔۔ سوائے بےوقوفانہ باتوں کے کچھ آتا نہیں ۔۔۔۔۔ بیٹھی ہوگی منہ پھلائے 

 ناراضگی کے باوجود مکرم کو اس کا خیال تھا بڑبڑاتے فریش ہوکر وہ اس کی تلاش میں باہر آیا 

سڑھیوں سے اترتے اس کی نظر امامہ پر پڑی جو صوفے پر سر جھکائے بیٹھی تھی 

 مکرم نے ایک گہری نظر اس پر ڈالتے اسے مخاطب کئے بنا کچن کا رخ کیا  ۔۔۔۔۔ 

امامہ جو اس خوش فہمی میں تھی کہ وہ اس سے سوری کہے گا ۔۔۔۔ لیکن اس کے برعکس مکرم کے  اگنور کرنے پر اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی 

اللّٰہ اللّٰہ کتنے بے مروت ہیں ۔۔۔۔ میں ان سے ناراض ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ منانے کے بجائے  ۔۔۔ الٹا یہ مجھے ہی ایٹٹیوڈ دیکھا  رہے ہیں ۔۔۔۔ 

اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی ۔۔۔۔۔ اب میں بھی انھیں اگنور کروں گی۔۔۔۔ دیکھتی ہوں کب تک بات نہیں کرتے ۔۔۔ منہ پھلا کر کہتی وہ ٹی وی  کی طرف متوجہ ہوگئی 

مطلب دونوں ہی ایک دوسرے سے ناراض تھے ۔۔۔۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی صلح کے لئے قدم بڑھانے میں پہل نہیں کر رہا تھا 

اب پتا نہیں کون زیر ہونے والا تھا 

اور کون زیر کرنے والا 

****************************

ضرار بیٹا کہاں سے آرہے ہو تم  ۔۔۔۔ اور یہ لڑکی کون ہے ؟ ۔۔۔۔۔ضرار اسے لے کر گھر میں داخل ہوا تو ناشتہ بنانے کے لئے کچن کی طرف جاتی رومیسہ بیگم کی نظر ان دونوں  پر پڑی اس کے ساتھ زرناب کو دیکھ کر انھوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا

موم یہ زرناب ہے ۔۔۔۔ زرناب شمعون شاہ ۔۔۔۔ 

کیاا۔۔۔۔۔ زرناب ۔۔۔۔۔۔

تم اسے یہاں کیوں لائے ہو ۔۔۔۔ ابھی کے ابھی اس کے گھر والوں کو بلاؤ ۔۔۔۔ اور اسے چلتا کرو ۔۔۔۔ 

پہلے ہی تمہاری وجہ سے زینت ہسپتال  پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔ اور ہم سب کو کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی ۔۔۔۔ کچھ احساس ہے تمہیں 

میں کہہ رہی ہوں ضرار ۔۔۔۔ میں مزید گھر میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی ۔۔۔۔اس لئے بہتر ہے تم اسے اس کے گھر پہنچا دو 

  رومیسہ بیگم نے زرناب کو گھورتے سختی سے کہا تو ان کے روڈ لہجے پر زرناب کی آنکھوں میں نمی پھیلی ان کی باتوں پر الجھتے اس نے ضرار کو دیکھا 

موم میں  تھک گیا ہوں ۔۔۔۔ اور زرناب بھی بہت تھک گئی ہے ۔۔۔۔ ہم بعد میں آرام سے بات کریں گے ۔۔۔۔ چلو زری میں تمہیں تمہارے روم تک چھوڑ دوں ۔۔۔۔ ریسٹ کر لو تم بھی 

ضرار نے رومیسہ بیگم کو جواب دیتے زرناب سے کہا 

ضرار یہ تم اچھا نہیں کر رہے تمہارے ڈیڈ کو پتا چلا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے تنبیہ لہجے میں کہا لیکن ضرار ان کی بات کو اگنور کئے زرناب کا  ہاتھ پکڑتے سڑھیوں کی طرف بڑھ گیا 

رومیسہ بیگم غصے سے کڑھ کر رہ گئیں 

***************************

کیا ہوا بیگم ۔۔۔۔ پریشان لگ رہی ہیں آپ ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نہ  ناشتے کی ٹیبل پر رومیسہ بیگم کو کھویا ہوا دیکھ کر عازم خان نے پوچھا  تو رومیسہ سٹپٹا گئی 

جی سب ٹھیک یے ۔۔۔۔ کوئی پریشانی نہیں 

لیکن آپ کے چہرے سے تو لگ رہا ہے جیسے آپ پریشان ہوں ۔۔۔۔ کھانا بھی نہیں کھا رہیں خیریت ۔۔۔ ضرار کہاں ہے ؟ عازم خان نے اس کے پلیٹ میں پڑے ناشتے کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا جو ویسے کا ویسا پڑا ہوا تھا تو سب رومیسہ بیگم کی طرف متوجہ ہوگئے 

نہیں  میں کھا رہی ہوں نہ ۔۔۔۔ ضرار اپنے کمرے میں ہے ۔۔۔۔ ابھی آتا ہی ہو 

اسلام علیکم ایوری ون ۔۔۔۔ ابھی رومیسہ بیگم کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ سڑھیوں سے اترتے ضرار نے بلند آواز میں سلام کیا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ ضرار کے ساتھ زرناب کو آتے دیکھ کر رومیسہ بیگم گھبرا گئی 

زرناب کو دیکھتے باقی سب بھی حیران رہ گئے ۔۔۔۔۔ 

سب کی نظروں کا مرکز وہی تھی ۔۔۔۔ جو ان سب کی موجودگی سے گھبرائی ہوئی بار بار اپنے ہاتھ کی مٹھی کھول بند کررہی تھی 

امی یہ تو زرناب ہے ۔۔۔۔ امامہ کی بڑی بہن ۔۔۔۔ یہ بھائی کے ساتھ یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ بازغہ زرناب کو دیکھتے ہی پہچان گئی ۔۔۔ امامہ نے اسے اپنی اور زرناب کی کافی ساری پکس دیکھائیں تھیں 

بازغہ کی بات سنتے زینت ساکت رہ گئی ۔۔۔۔ وہ زرناب تھی ۔۔۔۔ اس کے بھائی کی بیٹی اس کا خون ۔۔۔۔ زینت اٹھتے زرناب کی طرف بڑھی 

تت تم زرناب ہو ۔۔۔۔ مم میری زرناب ۔۔۔میری زری ۔۔۔۔ زرناب کے پاس جاتے زینت نے اس کا چہرے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے روتے اس کی پیشانی چومی ۔۔۔ اسے اب سمجھ آئی تھی کہ امامہ کو دیکھ کر وہ اس کی طرف کیوں کھینچی جاتی تھی ۔۔۔۔ یہ خون کی کشش تھی 

میری زرناب ۔۔۔۔۔پھپھو کی جان  ۔۔۔۔۔ تم آگئی ۔۔۔ آگئی ہو نہ اب دور مت جانا ۔۔۔۔  والہانہ انداز میں زرناب کو گلے لگائے زینت بیگم پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ جبکہ زرناب اس اچانک افتادہ پر بوکھلائی سی ناسمجھی سے ضرار کو دیکھ رہی تھی 

 جو خود بھی زینت بیگم کے ریکشن پر افسردہ سا انہیں دیکھ رہا تھا 

 کون ہیں آپ ۔۔۔۔ آپ میری پھپھو کیسے ہو سکتی ہیں ۔۔۔۔

ضرار یہ سب کیا ہے؟  ۔۔۔۔ زرناب نے زینت بیگم سے دور ہوتے الجھی نگاہوں سے زینت بیگم کو دیکھتے کہا 

یہ تمہاری پھپھو ہیں زرناب ۔۔۔۔ میں تمہیں سب بتاتا ہوں ۔۔۔۔ اس کے بعد ضرار نے اسے سب بتا دیا ۔۔۔۔ اپنی فیملی کو لے کر حویلی جانے سے لے کر سلطانہ بیگم کے رویے  اور شازم شاہ کے انکار تک سب بتا دیا اس کے انکشافات سن کر  زرناب ساکت رہ گئی  

عازم خان نے اس کی موجودگی کی اطلاع دینے کے لئے شازم شاہ کو کال کردی لیکن اس کا نمبر بند جارہا تھا ۔۔۔ 

ضرار تم زرناب کو لے کر آؤ ہم ابھی حویلی جائیں گے ۔۔۔۔ عازم خان نے موبائل رکھتے سنجیدہ لہجے میں کہا تو واپس جانے کی بات سن کر زرناب پریشان ہوگئی 

ڈیڈ پلیز  زرناب کہیں نہیں جائے گی اور آپ بھی کسی کو زرناب کی یہاں موجودگی کا نہیں بتائیں گے  ۔۔۔۔ 

آپ نہیں جانتے اصل بات کیا ہے ۔۔۔۔اور اس دن زرناب کہاں غائب ہوگئی تھی ۔۔۔۔ 

ابھی آپ لوگ ہمارے نکاح کی تیاری کریں ۔۔۔ میں زرناب سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ کل سادگی سے نکاح ہوگا ہمارا ۔۔۔۔ 

ضرار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں زرناب کو تسلی دیتے کہا  

******************************

 آج دوسرا دن تھا لیکن نا مکرم نے اسے مخاطب کیا تھا نہ ہی امامہ نے اسے مخاطب کرنے کی جرات کی تھی دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے 

مکرم اس کا ویسے ہی خیال رکھ رہا تھا جیسے پہلے رکھتا تھا لیکن وہ کچھ بول نہیں رہا تھا جب بھی امامہ کو دیکھتا اس کے الفاظ یاد آتے ہی غصہ بڑھنے لگتا ۔۔۔۔ امامہ کو اس کی خاموشی چبھنے لگی تھی پتا نہیں کیوں لیکن اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا مکرم کا لاتعلق سا انداز 

 سنیں ۔۔۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔ آپ میری ہیلپ کردیں گے ۔۔۔۔ پلیز 

اب بھی مکرم کو کمرے میں آتے دیکھ کر اس نے بہانہ بنایا حالانکہ اس کے ایگزیم ختم ہوگئے تھے پھر بھی اس نے مکرم کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کتاب کھول لی 

مکرم اس کی چلاکیوں کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا اس لئے ان سنا کرتے سٹڈی روم میں چلا گیا 

ہاا چلے گئے۔۔۔۔۔ 

سمجھتے کیا ہیں یہ خود کو ۔۔۔ جو دل میں آئے گا کریں گے ۔۔۔۔ایسی بھی کیا ناراضگی ۔۔۔۔۔

 جب میں نے بات کی تو انھیں بولنا چاہیے تھا 

 مجھے اگنور کریں گے ۔۔۔۔۔  ہلاکو خان کے جانشین ۔۔۔۔ ہر وقت غصہ کرتے ہیں۔۔۔۔ 

میں بھی اب بات نہیں کروں گی ۔۔۔۔ 

صبح ہوتے ہی بھائی کے ساتھ حویلی چلی جاؤں گی ۔۔۔

اس کے نظر انداز کرنے پر امامہ جو کل سے اس کی بےرخی برداشت کر رہی تھی 

ضبط کا دامن چھوٹا تو آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو نکلتے اس کے گال بھگو گئے 

غصے سے بڑبڑاتے کتاب سائڈ ڈار پر رکھتے لائٹ بند کرتے لیٹ گئی لیکن آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے بے دردی سے آنکھیں رگڑتے وہ سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن جیسے ہی آنکھیں بند کرتی مکرم کی باہوں کا حصار یاد آجاتا 

اس کی سانسوں کی تپش ۔۔۔۔  بالوں میں سرسراتی انگلیوں کا لمس ۔۔مہکتے کلون کی مہک جو اس کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی ۔۔۔ وہ سب یاد آتے ہی نیند بھک سے اڑ گئی   

اس مہربان کے روٹھنے پر نیند بھی جیسے آنکھوں سے روٹھ گئی تھی 

 کھڑکی سے چھن کر آتی چاند کی روشنی میں اس کا گلابی چہرہ دھمک رہا تھا چھوٹے سے گلابی ہونٹوں کو آپ میں پیوست کئے وہ پھر سے رو دینے کے در پر تھی دل تو کر رہا تھا دھاڑیں مار مار کر روئے تاکہ اس ڈریکولا کو سمجھ آجائے ۔۔۔۔ 

وہ چاہ کر بھی اس کی ناراضگی کو  نظر انداز نہیں کر پائی ۔۔۔۔ اس سحر انگیز شخصیت کے حامل شخص نے اسے اپنا عادی  بنانا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔

اور کہتے ہیں کسی کا عادی ہونا محبت ہونے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔  

وہ اس میں قید ہوتی جارہی تھی ۔۔۔ اسے مکرم شاہ کی توجہ اس کی محبت کا نشہ ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی 

اب بھی بے چینی سے کروٹیں بدلتے وہ بار بار سٹڈی روم کی طرف دیکھ رہی تھی کہ شاید وہ ابھی آجائے اور اسے اپنے باہوں کے گھیرے میں لے کر اسکی بےچینی ختم کردے۔۔۔ لیکن وہ تھا کہ پتھر بن گیا تھا 

کروٹیں بدلتے تھک ہار کر امامہ اٹھتے سٹڈی روم کی طرف بڑھی 

" شاہ "

آ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ ۔۔۔۔ کیا ناراض ہیں مجھ سے ؟ ۔۔۔۔ 

 مکرم سٹڈی روم میں بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے اپنا غصہ ضبط کرنے کی تگ ودو میں تھا۔۔۔۔ جس کے باعث اس کی دماغ اور گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ امامہ کی باتیں اس کے دماغ میں گردش کرتے اس کے اشتعال کو بڑھا رہی تھیں ۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا غصے میں وہ اس کو ہرٹ کرے اس لئے خود کو سٹڈی روم میں بند کر رکھا تھا ۔۔۔۔ 

لیکن وہ ضدی لڑکی  یہاں بھی اس کا ضبط آزمانے آ گئی تھی ۔۔۔۔ اس کی آواز سنتے مکرم نے بچی ہوئی سیگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے اس کی طرف دیکھا جو اپنے لبوں کو کچلتے معصوم چہرہ بنائے بیچارگی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

ایک پل کو مکرم کو اس پر ترس آیا۔۔۔ دل اس کو سینے سے لگانے کو تڑپ اٹھا لیکن مکرم نے سختی سے دل کو ڈپٹا  

میں تم سے کیوں ناراض ہونے لگا ۔۔۔۔ جاؤ جاکر سو جاؤ ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی  نیند کے باعث سرخ ہورہی آنکھیں دیکھ کر بے نیاز بنتے سپاٹ لہجے میں کہا ۔۔۔ 

مم مجھے نیند نہیں آرہی ۔۔۔۔ آپ کے پاس سونا ہے ۔۔۔۔ امامہ نے اس کے سرد بےتاثر لہجے پر روندی آواز میں کہا اور بڑے حق سے صوفے پر اس کے پاس جگہ بناتے اس کے سینے پر سر رکھتے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔ مکرم اس کی حرکت پر ششدر رہ گیا 

ااایم سوری ۔۔۔۔ میں نے بہت غلط بول دیا آپ کو ۔۔۔۔ مجھے ایسے مس بیہویر نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔سوری ۔۔۔ امامہ نے اس کے گرد حصار باندھتے دھیمی آواز میں کہا

امامہ کمرے میں جاؤ پریشان مت کرو۔۔۔ مکرم نے اپنی پشت پر  اس کی کپکپاتی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے بھاری لہجے میں کہا دل کیا اس کو خود میں بینچ لے

نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔  یہیں آپ کے ساتھ رہوں گی  ۔۔۔۔ امامہ نے ہٹ دھرمی سے کہتے سختی سے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں بینچا اس ڈر سے کہیں وہ خود سے دور نہ جھٹک دے 

امامہ ۔۔۔۔ مکرم نے تنبیہ کرتے لہجے میں پکارا 

شاہ میری آنکھوں میں درد ہورہا ہے۔۔۔ اس کے جواب میں امامہ نے سرخ نیند سے بوجھل آنکھوں سے اسے دیکھتے معصومیت سے کہا اور وہیں مکرم ہار گیا اپنے دل سے  ۔۔۔

 اس کی آنکھوں پر ہونٹ رکھتے اسے خود میں بینچا امامہ کا سر اس کے دل کے مقام پر تھا جبکہ مکرم کے ہات اس کے بال سہلا رہے تھے جس سے سکون کی لہر امامہ کے وجود میں دوڑ گئی 

YOU'RE MY SOULMATE .

اس نازک سی پری پیکر کی بھاری سانسوں کی تپش کو اپنے سینے پر محسوس کرتے مکرم نے مسکراتے سرگوشیانہ انداز میں کہتے اس کے بالوں پر ہونٹ رکھتے آنکھیں بند کیں 

زرناب ریڈی ہو تم ۔۔۔۔ 

کیوں ۔۔۔۔؟ کہیں جانا ہے کیا ؟ زرناب نے اچنبھے سے اسے دیکھتے پوچھا 

 مانا کہ ہمارا نکاح ان حالات میں نہیں ہورہا ۔۔۔۔ لیکن اب تم میری زمہداری ہو ۔۔۔اچھے سے جانتا ہوں ایسے لمحات پر لڑکیوں کے دل میں کتنے ارمان ہوتے ہیں ۔۔۔۔ کتنے خواب جڑے ہوتے ہیں ۔۔۔اور تمہاری ہر خواہش پوری کرنا میرا فرض ہے  

 اسلیے جلدی سے ریڈی ہو جاؤ ہم شاپنگ کرنے  جارہے ہیں ۔۔۔ ضرار نے محبت سے کہا 

اوکے تم جاؤ میں پانچ منٹ میں تیار ہوکر آتی

آہ زری ۔۔۔ میں کیا کہہ رہا تھا کہ تم ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ضرار نے دھیمی آواز میں کہا تو زرناب نے کاندھے اچکاتے اسے دیکھا 

تم لڑکیوں کے پانچ منٹ ایک گھنٹے کے برابر ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے چادر لو اور چلو ۔۔۔۔ ضرار نے اسکے کاندھے اچکانے پر ہنستے کہا تو زرناب تیکھی نظروں سے اسے گھورتے کبرڈ کی طرف بڑھی 

                    °°°°°°°°°°°°°°°°°°°

 دوسری طرف مکرم امامہ کو شاپنگ کے لئے لے کر آیا ہوا تھا اسی شاپنگ مال میں جہان ضرار اور زرناب آئے ہوئے تھے  ۔۔۔۔

 امامہ جس چیز پر ہاتھ رکھتی مکرم وہ پیک کرواتا جارہا تھا ۔۔۔۔ ایک بلڈ ریڈ کلر کی انتہائی خوبصورت فراک پر مکرم کی نظریں ٹھہر گئیں جس پر انتہائی نفاست سے ستاروں کا کام کیا گیا تھا اس کو دیکھتے مکرم کی نظروں میں امامہ کا سراپا لہرایا ۔۔۔۔ 

ایکسکیوزمی سسٹر ۔۔۔۔ وہ ریڈ کلر کی فراک بھی پیک کردیں ۔۔۔۔ مکرم نے امامہ کی نظروں سے بچتے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی سے کہا جو کب سے اسے گھور رہی تھی 

مکرم کے سسٹر کہنے پر وہ لڑکی سٹپٹاتے شرمندہ سی ڈریس پیک کرنے لگی 

شاہ ۔۔۔۔ میں تھک گئی ہوں ۔۔۔۔ بھوک بھی لگی ہے ۔۔۔۔ گھر چلیں پلیز ۔۔۔ امامہ کی نظروں سے اس لڑکی کا مکرم کو تاڑنا چھپا نہیں رہا تھا مکرم کو اس سے بات کرتے دیکھ کر  اس کا دل کیا اس لڑکی کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دے ۔۔۔۔ 

وہ سن نہیں پائی تھی کہ مکرم نے اسے کیا کہا ہے لیکن اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لئے مکرم کے پاس آتے اس کے بازو کے گرد اپنا ہاتھ ڈالتے انتہائی محنت سے آنکھیں پٹپٹاتے کہا تو مکرم اس کے انداز پر چونکا لیکن جیسے ہی اس کی تیکھی نگاہوں کا مرکز  کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو دیکھا تو سارا معاملہ سمجھتے اس کے عنابی لبوں پر خوشگوار مسکراہٹ رقصاں ہوئی 

اوکے تھنکس سسٹر ۔۔۔۔ چلیں جند شاہ ۔۔۔ مکرم نے اس کے انداز پر دلچسپی سے مسکراتے کہا اور شاپنگ بیگز اٹھائے اس کا ہاتھ پکڑے باہر نکل گیا 

شاہ ہم یہاں کیوں رکے ہیں ۔۔۔۔ اسے مال کے سامنے والے ریسٹورنٹ کے آگے گاڑی روکتے دیکھ کر امامہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا 

تمہاری بھوک کا انتظام کرنا ہے نہ ۔۔۔ چلو باہر آؤ ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی طرف کا دروازہ کھولتے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔ جسے ایک پل دیکھنے کے بعد ہچکچاتے امامہ نے پکڑ لیا 

اس کے باہر آتے ہیں مکرم نے گاڑی لاک کی اور ہوٹل کے اندر چلے گئے 

                     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°

 دل کہ آواز پہ بیعت بھی تو ہوسکتی ہے

تم اگر چاہو محبت بھی تو ہوسکتی ہے

اس لئے دیکھتا رہتا ہوں مسلسل تجھ کو

آنکھ محرومِ بصارت بھی تو ہوسکتی ہے

امامہ ایک بات پوچھوں ؟ 

جی پوچھیں......... 

تمہیں کبھی محبت ہوئی ہے ۔مکرم کے سوال پر امامہ نے کھانے سے ہاتھ کھینچتے اسے دیکھا محبت کے نام پر چھن سے ضرار کا عکس اس کی آنکھوں میں لہرایا 

ہاں ۔۔۔۔امامہ نے کھوئے ہوئے انداز میں جواب دیا تو اس کا جواب سن کر مکرم کا دل برق رفتاری سے دھڑکا 

کس سے ؟ ۔۔۔۔۔۔ پھر سے سوال کیا تو امامہ نے چونکتے اسے دیکھا جو زیرک نگاہوں سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا  بغور جائزہ لے رہا تھا 

 امامہ سر جھٹکتے کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی 

امامہ میں نے پوچھا کس سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ مکرم نے اسے خاموش دیکھ کر بھاری لہجے میں  پوچھا 

کسی سے نہیں ۔۔۔۔۔ مجھے کسی سے محبت نہیں ہے ۔۔۔۔۔ کپکپاتے لہجے میں کہتے اس نے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگایا 

مجھ سے بھی نہیں ۔۔۔۔ مکرم کے سوال پر امامہ نے سٹپٹاتے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایا ہورہے تھے 

آپ کی آنکھیں لال کیوں ہو جاتی ہیں ؟ ۔۔۔۔۔امامہ نے اسکی آنکھوں کو دیکھتے بات بدلنی چاہی لیکن سامنے بھی مکرم تھا 

 بات کو گھمانے کی ضرورت نہیں جو پوچھا ہے وہ بتاؤ ۔۔۔۔۔محبت کرتی ہو مجھ سے ؟ ۔۔۔۔۔مکرم نے اسکا ہاتھ پکڑتے پوچھا تو امامہ نے بےبسی سے اسے دیکھا

نن نہیں ۔۔۔۔۔۔

 اور پھر آنکھیں بند کرتے اس نے کہہ دیا جسے سن کر اسکے ہاتھ پر مکرم کی گرفت اتنی سخت ہوئی کہ امامہ کو اپنے ہاتھ کی ہڈیاں چٹخی محسوس ہوئی ہونٹ بھینچ کر درد برداشت کرتے اس نے نم آنکھوں سے مکرم کو دیکھا 

" نہیں کرتی میں آپ سے محبت۔۔۔۔۔۔یہ شادی صرف امی ابو کی رضا مندی سے ہوئی ہے ۔۔۔۔جیسے ہی زرناب آپی ملیں گی میں اس رشتے سے آزاد ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔ امامہ نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ کہا اور اسکا ہاتھ جھٹکتے باہر نکل گئی 

"مجھ سے آزادی چاہیے ۔۔۔۔۔قبر تک نہیں ملے گی ۔۔۔۔۔مکرم نے تعیش میں آتے ٹیبل کو اٹھا کر دور پھینکا اسکا غصہ دیکھ کر مینیجر اور ہوٹل کا عملہ ڈر گیا "

تمہیں اپنے پاس رکھنے کے لئے خود سے محبت کروانے کے لئے مجھے جو بھی کرنا پڑا میں کروں گا "

مکرم نے اپنے اس  ہاتھ کو دیکھتے مٹھی بند کرتے اتنی زور سے بھینچا کہ اسکے ہاتھ کی رگیں ابھر آئیں بھوری آنکھوں میں وحشت چھائی ہوئی تھی ایسی وحشت ایسا جنوں کہ سب تہس نہس کردے 

چہرے پر خطرناک تاثرات سجائے گاڑی کی چابی اٹھائے وہ تیزی سے باہر نکلا 

امامہ جو روتے ہوٹل سے باہر آگئی تھی اچانک اسکی نظر سڑک کے اس پار پڑی جہاں زرناب کو ایک لڑکے کے ساتھ دیکھ کر اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی 

زری آپی ۔۔۔۔

آپی ۔۔۔زرناب آپی رکیں ،،، زرناب کو گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر وہ چلاتے اسکی طرف بھاگی 

امامہ ۔۔۔۔۔ رکو ۔۔۔۔۔ بے وقوف لڑکی ،،،،، مکرم  اسے سڑک پر بھاگتے دیکھ کر پریشانی سے اسکی طرف بڑھا 

زری آپی ۔۔۔۔۔اہہہہ ۔۔۔۔۔وہ سڑک کے بیچ تھی تب ہی ایک گاڑی امامہ کو ہٹ کرتے گزر گئی اسکی چینخ سن کر مکرم کے قدم لڑکھڑائے  

امامہ ۔۔۔۔ وہ چلاتے دیوانہ وار اسکی طرف بھاگا امامہ کا خون میں لتھ پتھ وجود دیکھ کر مکرم کے جسم میں جان نہ رہی لوگوں کا ہجوم انکے گرد اکٹھا ہونے لگا 

مم مک مکرم ۔۔۔۔۔وو اا آپی ۔۔۔۔۔۔امامہ نے بند ہوتی آنکھوں سے مکرم کو دیکھتے لڑکھڑاتے  کہا اسکے سر سے بل بل خون بہہ رہا تھا اسکی بات سن کر مکرم نے لہو رنگ آنکھوں سے  پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں زرناب گاڑی میں بیٹھ کر جارہی تھی 

زرناب ۔۔۔۔۔زرناب ۔۔۔۔ میں جان لے لوں گا تمہاری ۔۔۔۔ اگر میری امامہ کو کچھ ہوا تو زندہ نہیں چھوڑوں گا تمہیں ۔۔۔۔ مکرم نے سرد لہجے میں غراتے کہا اور امامہ کے لہو لہان وجود کو اٹھائے گاڑی کی طرف بھاگا 

                    °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کیا ہوا ریحاب طعبیت ٹھیک ہے تمہاری ۔۔۔۔۔ شمعون شاہ نےکمرے میں آتے ریحاب کو بےچین دیکھ کر پوچھا 

شمعون پتا  نہیں کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔ ایسے جیسے کچھ بہت برا  ہونے والا ہو ۔۔۔۔ ریحاب نے رندے لہجے میں کہا

امامہ اور زرناب تو ٹھیک ہیں نہ۔۔۔۔ آپ مکرم کو فون کریں نہ پلیز ۔۔۔۔ 

ریحاب سب ٹھیک ہے  وہم مت کرو ۔۔۔۔

میرا وہم نہیں ہے شمعون ۔۔۔۔ میرا دل کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ کچھ غلط ہونے والا ہے ۔۔۔زرناب کو ڈھونڈیں آپ کو خدا کا واسطہ  ۔۔۔۔ ریحاب نے روتے شمعون کے سامنے ہاتھ باندھے 

پاگل ہوگئی ہو کیا ؟ ۔۔۔۔ ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ شمعون نے اس کے ہاتھ پکڑ کر نیچے کرتے کہا 

آپ پلیز مکرم سے کہیں امامہ سے میری بات کروائے ۔۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے میں کرتا ہوں فون ۔۔۔پریشان مت ہو ۔۔۔۔ شمعون نے کہتے مکرم کا نمبر ڈائل کیا دوسری طرف بیل جارہی تھی لیکن مکرم کال نہیں اٹھا رہا تھا

نہیں اٹھا رہا فون ۔۔۔مصروف ہوگا تھوڑی دیر تک بات کروا دوں گا اب تم سوچوں مت اور آرام کرو ۔۔۔۔ 

              •••••••••••••••••••••••••

امامہ کو ہسپتال میں ایڈمٹ کرلیا گیا ۔۔۔۔ اس وقت ایمرجنسی میں اس کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا جبکہ مکرم اضطرابی کیفیت میں باہر ٹہل رہا تھا ۔۔۔ 

کوئی آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر روم سے باہر آئے 

ڈاکٹر وہ ٹھیک ہے نہ ۔۔۔۔ دل میں آتے برے خیالات کو جھٹکتے مکرم نےصبری سے پوچھا 

شی از فائن مسٹر شاہ ۔۔۔ 

ان کے سر پر بہت گہری چوٹ آئی ہے ۔۔۔۔ ہم نے آپریٹ کردیا ہے ۔۔۔ لیکن ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔۔۔ آپ دعا کریں۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔۔ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟

 ڈاکٹر کی بات سنتے مکرم نے الجھتے اسے دیکھا 

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔۔ اگر انھیں ہوش نہ آیا تو وہ کومہ میں بھی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یا پھر ہوسکتا ہے سر پر چھوٹ لگنے کی وجہ سے ۔۔۔۔ ان کی یاداشت  چلی جائے ۔۔۔ 

واٹ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ یاداشت چلے جانا یہ صرف ڈراموں میں ہوتا ہے ۔۔۔ مکرم نے ڈاکٹر کے بات سن کر چڑتے کہا 

مسٹر شاہ ۔۔۔۔ یہ کوئی ڈرامہ نہیں  حقیقت ہے ۔۔۔۔ ایسے بہت سے کیسز دیکھے ہیں ۔۔۔۔ جس میں دماغ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان کو فالج ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ یا پھر یاداشت بھی جاسکتی ہیں ۔۔۔۔ابھی میں نے صرف شک کی بنیاد پر آپ سے ایسا کہا ہے ان کی مینٹل کنڈیشن کا  ہوش میں آنے کے بعد ہی پتا چلے گا 

ڈاکٹر نے اس کے انداز پر سخت لہجے میں کہا اور چلی گئی جبکہ مکرم غصے سے سر جھٹکتے کمرے کے اندر چلا گیا 

امامہ کو ہوش آگیا تھا ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کرنے کے بعد تسلی بخش جواب دیا ۔۔۔ تو مکرم اسے گھر لے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اپنے روم میں  آتے مکرم نے اسے بیڈ پر لٹایا اور آرام کرنے کا کہتے باہر چلا گیا ۔۔۔ 

ہیلو آبان ۔۔۔ میں نے جس کام کے لئے کہا تھا وہ ہوا یا نہیں ۔۔۔۔ 

جی سائیں ہوگیا ہے ۔۔۔۔ میں جنت کو لے کر آرہا ہوں  ۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر تک پہنچ جائیں گے 

سنو حویلی میں کسی کو بتایا تو نہیں ؟ ۔۔۔۔۔ 

نہیں سائیں میں نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی  ۔۔ 

ہمم ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اسے لے کر جلدی یہاں پہنچوں تمہارے لئے ایک اور کام ہے ۔۔۔۔ مکرم نے سنجیدگی سے کہتے دوسری طرف کا جواب سنتے کال کاٹ دی 

                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

بازغہ بیٹا تم یہاں کیوں بیٹھی ہو زرناب کے پاس جاؤ وہ اکیلی ہے ۔۔۔ تمہارے بھائی کا نکاح ہے اور تم ایسے منہ لٹکائے بیٹھی ہو ۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے کمرے میں آتے بازغہ کو دیکھتے کہا جو منہ بنائے بیٹھی تھی 

امی پلیز ۔۔۔۔ میں کہیں نہیں جارہی ۔۔۔ 

لیکن بیٹا ضرار کیا سوچے گا ۔۔۔۔ بھائی ہے وہ تمہارا ۔۔۔۔

انھیں جو سوچنا ہے سوچنے دیں ۔۔۔۔ انھوں نے کبھی ہمارے بارے میں سوچا ہے ہمیشہ اپنی ہی کرتے آئے ہیں ۔۔۔۔

 ان کی وجہ سے میں امامہ سے دور ہوگئی ۔۔۔۔ میری بھابھی امامہ نے بننا تھا ۔۔۔۔ اس کی بہن نے نہیں ۔۔۔۔ 

بازغہ آہستہ بولو بیٹا ۔۔۔۔ جو ہونا تھا ہوگیا ۔۔۔۔ یہ سب ایسے ہی لکھا تھا ۔۔۔۔ زرناب اور ضرار کی جوڑی اللہ نے بنائی ہے بیٹا ۔۔۔ قسمت کا لکھا موڑ نہیں سکتے  ۔۔۔۔ 

ہم کچھ نہیں بدل سکتے بیٹا ۔۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے نرمی سے سمجھاتے کہا 

کیوں نہیں بدل سکتے امی 

 ہم لوگ ہر چیز قسمت پر کیوں ڈال دیتے ہیں ۔۔۔۔ انسان میں اتنا ظرف کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو مان لے ۔۔۔۔ ان کا ازالہ کرے 

کچھ بھی ہو قسمت کا لکھا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔ ایسا کیوں ؟ بازغہ نے اداسی سے کہا 

بیٹا بعض اوقات ایسا ہوتا کہ ہم  اس چیز کی خواہش کرتے ہیں جو ہمارے لئے اچھی نہیں  ہوتی ۔۔۔ 

لیکن اللّٰہ پاک تو اپنے بندوں سے بڑی محبت رکھتا ہے ۔۔۔۔ وہ ہمیں ہماری خواہش سے  بڑھ کر عطا کرتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس وقت انسان شکر نہیں کرتا  ۔۔۔ سوچتا ہے جو ہم نے چاہا تھا اللّٰہ نے وہ تو دیا نہیں  ۔۔۔۔ 

جبکہ نادان ہے جانتا ہی نہیں اللّٰہ جو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے وہ بھلا اپنے بندے کو ایسی چیز سے کیوں نوازے گا جو اس کے حق میں بہتر نہ ہو 

اب دیکھو ۔۔۔۔ کوئی بچہ اپنے والدین سے ضد کرے کہ مجھے آگ سے کھیلنا ہے ۔۔۔ تو کیا والدین اسے کھیلنے کو آگ پکڑا  دیں گے نہیں نہ 

بلکل ایسے ہی اللّٰہ پاک ہمیں وہ عطا نہیں کرتا جو ہم چاہتے ہیں اس لئے کیونکہ وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتا ۔۔۔۔  

 اس کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے 

 لیکن ہم انسان  سمجھ نہیں پاتے ۔۔۔۔ 

 اس خالق کے حکم کے آگے انسان کی سب تدبیریں دھری رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔ 

ضرار کی شادی زرناب سے ہونے میں اللّٰہ پاک کی کوئی مصلحت ہوگی ۔۔۔۔

 اور رہی بات امامہ کی تو اس کے لئے بھی اللّٰہ نے بہترین ہمسفر منتخب کیا ہوگا ۔۔۔۔

 ان شاءاللہ آمین  

آمین۔۔۔۔ ان کی بات سن کر بازغہ نے آسودہ دلی سے دھیمی آواز میں کہا 

اب تم منہ لٹا کر مت بیٹھو ۔۔۔۔اور جاکر زرناب کو دیکھو وہ بیچاری اکیلی بیٹھی ہے پتا نہیں تیار بھی ہوئی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔ میں تب تک  تمہارے بابا کو دیکھ لوں 

رومیسہ بیگم نے محبت سے اس کے گال سہلاتے کہا اور باہر چلی گئی 

            ••••••••••••••••••••••••••••••

امامہ بچوں  جیسی ضد مت کرو ۔۔۔۔ منہ کھولو ۔۔

نن نہیں ۔۔۔۔م مجھے نہیں پسند ۔۔۔۔  مکرم اسے سوپ پلا رہا تھا جو کہ امامہ کو بلکل پسند نہیں تھا اس لئے وہ بار بار منع کرتے منہ کے عجیب وغریب سے  زاویے بنا رہی تھی لیکن سامنے بھی مکرم شاہ تھا جو  ٹلنے والا نہیں تھا 

اس لئے تو اتنی ویک ہو۔۔۔۔ ہوا کے علاؤہ کچھ کھاؤ گی تو صحت بنے گی ناں ۔۔۔۔۔ اس کے انکار کرنے کے باوجود وہ اسے ڈپٹتے سوپ پلا رہا تھا

اب بس کردیں پلیز میرا پیٹ بھر گیا ہے ۔۔۔ امامہ نے منہ پھلائے نروٹھے پن سے کہا تو مکرم اس کے پھولے گالوں  کو دیکھ کر ہنسی دبا گیا 

اوکے رکھ دیا بس۔۔۔۔۔باؤل کو واپس ٹرے میں رکھتے مکرم اس کی طرف متوجہ ہوا 

ٹھیک ہو نہ تم ؟

 پین تو نہیں ہورہا ؟ ۔۔۔ پیشانی پر بندھی پٹی کو چھوتے گمبھیر لہجے میں پوچھا 

نہیں ۔۔۔ ٹھیک ہوں میں ۔۔۔۔ 

تم  کیوں بھاگی تھی وہاں سے ؟ مکرم نے اس کا گال سہلاتے سپاٹ لہجے میں پوچھا

ش شاہ وہ زرناب آپی ۔۔۔۔۔ وہ یہاں ہیں ۔۔۔۔ اسی شہر میں ۔۔۔۔ میں نے انھیں خود دیکھا ۔۔۔۔اا ایک لڑکے کے ساتھ ۔۔۔۔۔ 

جندِ شاہ میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے کسے دیکھا  ۔۔۔۔ میں نے پوچھا تم وہاں سے کیوں بھاگی تھی ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سرد انداز میں پوچھا تو امامہ کے وجود میں سرسراہٹ دوڑی 

"مم میں وہ ۔۔۔۔۔۔ شاہ " جب اس سے کوئی بات نہ بن پڑی تو بےبسی سے رو دی  

امامہ ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس کے آنسو چنتے تنبیہ لہجے میں پکارا اس کے آنسو سب سے بڑا ہتھیار تھے جو مکرم کے غصے کو شکست دے دیتے تھے 

ہششش چپ ۔۔۔۔ رونا بند کرو ۔۔۔ 

اا آپ نے مجھے ڈانٹا ۔۔۔۔۔ امامہ کی شکایت پر مکرم نے اسے گھورا جس کی ناک اور آنکھیں پل میں سرخ ہوگئی تھی 

ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں صرف پوچھا ہے ۔۔۔۔ میرا سوال کرنا ڈانٹنے کے مترادف کیسے ہوگیا جاناں ۔۔۔۔ 

رونا بند کرو ورنہ سچ میں غصہ آجائے گا مجھے ۔۔۔۔ مکرم نے اس کے قریب جبگہ بناتے اسے اپنے سینے سے لگاتے دھمکی دیتے کہا تو فوراً امامہ نے آنسو صاف کئے ۔۔۔۔ اور اس کے سینے پر سر رکھتے اس کا ہاتھ اپنے بالوں پر رکھا یہ اشارہ تھا کہ وہ اس کے بال سہلائے 

جند سائیں ابھی کچھ نہیں کہہ رہا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں سب بھول جاؤ گا ۔۔۔۔ 

 ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ اس کے بعد تمہیں جواب دینا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔ اس سب کا جو تم نے کہا ۔۔۔۔ اتنی آسانی سے تمہاری جان خلاصی نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔ سن رہی ہو نہ ۔۔۔۔ 

وہ جو آنکھیں بند کئے اس کی انگلیوں کا لمس اپنے بالوں میں سرسراتے سکون محسوس کررہی تھی مکرم کی سرگوشی اور ہونٹوں کی تپش  اپنے گال پر محسوس کرتے سٹپٹاتے سختی سے آنکھیں میچ گئی 

مکرم نے اسے اس کی بند پلکوں پر بوسہ دیتے ایک بار پھر گال پر ہونٹ رکھتے شدت سے بوسہ دیا کہ اس کی بیرڈ کی چبھن  سے امامہ کے منہ سے بے اختیار سسکی نکلی     

یہ ایک چھوٹی سی سزا ہے ۔۔۔۔ لیکن حساب ابھی باقی ہے 

          °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

اسلام علیکم سائیں۔۔۔۔ آبان اور جنت نے اندر آتے اسے سلام کیا جس کا جواب مکرم نے انتہائی خوش دلی سے دیا 

وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔ کیسے ہو آبان ۔۔۔ حویلی اور گاوں میں سب ٹھیک جارہا ہے نہ کوئی مسلہ تو نہیں ہوا ۔۔۔ 

نہیں سائیں اللّٰہ کا کرم ہے سب ٹھیک ہے 

۔۔۔سائیں یہ جنت ہے ۔۔۔۔ رشید چاچا کی بیٹی ۔۔۔ میں نے اسے سب کام سمجھا دیا ہے ۔۔۔  آبان نے جنت کا تعارف کرواتے کہا 

جنت بیٹا  آج سے تم یہاں رہوں گی ۔۔۔۔ زیادہ کام نہیں ہے بس تمہیں اپنی چھوٹی بی بی کا خیال رکھنا ہے ۔۔۔ گھر کے کاموں کے لئے میں نے دوسری ملازمہ کا انتظام کرلیا ہے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ مکرم نے امامہ کی ہم عمر جنت کو ہدایت دیتے کہا 

جی بہتر سائیں ۔۔۔۔ چھوٹی بی بی کہاں ہیں ۔۔۔۔ جنت نے مؤدب انداز میں اثبات میں سر ہلاتے پوچھا 

وہ اوپر ہے یہاں سے رائٹ سائڈ پر پہلا کمرہ ہمارا ہے تم وہاں چلی جاؤ ۔۔۔۔۔ مکرم کے بتانے پر جنت اجازت لیتے سڑھیوں کی طرف بڑھ گئی 

آبان تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔۔ مکرم جنت کے جانے کے بعد آبان کو لے کر باہر آگیا 

جی سائیں حکم کریں ۔۔۔۔آبان نے باہر آتے سوالیہ انداز میں اسے دیکھتے کہا 

آبان ۔۔۔۔ زرناب شمعون شاہ اسی شہر میں موجود ہے ۔۔۔۔ اس کو ڈھونڈنے کی زمہداری تمہاری ہے ۔۔۔۔مکرم نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے کہا 

جی بہتر سائیں آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔ ان شاءاللہ میں دو دن سے پہلے اسے ڈھونڈ لوں گا ۔۔۔۔ 

  جبکہ دوسری طرف نکاح خواہ کے آتے ہی عازم خان کی سرپرستی میں  زرناب اور ضرار کا نکاح پڑھا دیا گیا ۔۔۔۔ 

نکاح نامے پر سائن کرتے اپنی فیملی کا سوچ کر ایک پل کو زرناب کے ہاتھ لرزے تھے آنکھوں میں نمی امڈ آئی تھی لیکن ہھر سر جھٹکتے اس نے سائن کرتے خود کو ضرار کے نام کردیا 

نکاح ہوتے ہی زرناب  اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔ 

موم ڈیڈ ۔۔۔۔ آج مجھے آپ لوگوں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ آپ نے مجھے تنہا کردیا ۔۔۔۔ صرف اس لئے کہ میں نے محبت کی ۔۔۔۔ آپ سے اپنی پسند کا اظہار کیا ۔۔۔۔ 

جب یہ حق اسلام لڑکیوں کو دیتا ہے تو والدین ان کی خوشی میں باخوشی راضی کیوں نہیں ہوجاتے ۔۔۔ 

بیٹیوں کے معاملے میں ان کی انا آڑے کیوں آجاتی ہے ۔۔۔۔ اپنی انا کی ضد میں کیوں ہمیں اس دہانے پر لے آتے ہیں آپ لوگ کہ ہم کوئی انتہائی قدم اٹھائے ۔۔۔ 

کوئی بیٹی کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے ماں باپ کو اس کی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کے والدین ان کی حق تلفی کریں ۔۔۔۔۔ ہاں وہ جو کرتے ہیں اپنی اولاد کی بہتری کے لئے کرتے ہیں حق ہے انکا 

لیکن اولاد کی خوشی کو بھی اہمیت دینی چاہیے یہ والدین کا فرض ہے ۔۔۔  

پسند کا اظہار کرو تو بے حیا بدکردار ٹھہرا دیا جاتا ہے

جب حضرت علی رضی اللّٰہ عنہا نے پیغام بھیجا تو  نبی کریم سرورِ کائنات صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللّٰہ عنہا سے فرمایا 

فاطمہ! علی کا رشتہ آیا ہے ہاں کر دوں" 

جب اللّٰہ کے نبی یہ فرما رہے ہیں تو ہم لوگ کیوں نہیں پوچھتے کیوں بیٹیوں کے معاملے میں نرمی اختیار نہیں کرتے   

لڑکی کی رضا مندی کے بنا نکاح ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ اس کی رضا مندی بھی اتنی اہم ہے جتنی والدین اور لڑکے کی یہ بات والدین کیوں نہیں سمجھتے کیوں بیٹیوں کو واسطے دے کر زبردستی کے رشتے میں باندھ دیتے ہیں اور پھر جب آگے زندگی میں وہ نبھا نہ کر سکیں تو ان کا کردار مشکوک قرار دے کر رسوا کردیا جاتا ہے    

 ہر صورت میں قصور وار بیٹیاں کیوں ٹھہرائی جاتی ہیں ۔۔۔۔

آج مجھے آپ کی آپ کی دعاؤں کی طلب تھی ۔۔۔ لیکن آپ نے مجھے اس سے محروم کردیا ۔۔۔۔ زرناب ہچکیوں سے روتے کہہ رہی تھی تب ہی دروازہ کھلنے کی آواز پر آنسو صاف کرتے مڑی 

نکاح مبارک ہو زرناب ضرار خان ۔۔۔۔ ضرار نے دلکشی سے مسکراتے کہا تو زرناب نے حیا سے سر جھکا دیا اس کے چہرے پر چھائے قوس و قزح کے رنگ دیکھ کر ضرار مہبوت رہ گیا

ماشاءاللہ میری محبت ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔اور تمہارے چہرے پر بکھرے محبت کے رنگ ۔۔۔۔ میرا دل قربان میری ہمسفر ۔۔۔۔ 

تم اللّٰہ کی طرف سے انمول تحفے کی صورت میری زندگی میں آئی اور دل کی دنیا کو درھم برھم کردیا ۔۔۔۔ تم میرے دل کا سکون ہو ۔۔۔ وعدہ کرتا ہو زندگی کے ہر موڑ پر تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا ۔۔۔۔ 

تم میری پسلی سے بنی ہو ۔۔۔۔۔ اپنے سینے سے لگا کر رکھوں گا ۔۔۔۔۔

 محبت کرتا ہوں تم سے  ۔۔۔۔ لیکن محبت سے بڑھ کر تمہارا احترام کروں گا ۔۔۔۔۔

 ضرار نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے کہا تو اس  کے اس خوبصورت اظہار پر زرناب نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا 

یہ آنسو کیوں میری جان ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ضرار بے چین ہوا ۔۔۔۔ 

م مجھے موم ڈیڈ کی یاد آرہی ہے ۔۔۔۔ مجھے ان کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔ 

اتنی اسی بات پر اتنے قیمتی موتی ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ جب تم کہو گی میں تمہیں ان کے پاس لے جاؤ گا ۔۔۔۔ ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔ خبردار اب تم نے ایک انسو بھی بہایا تو ۔۔۔۔ 

 ضرار نے ہتھیلی آگے کرتے اس کے گرتے آنسو کو مٹھی میں بند کرتے بھاری لہجے میں کہا تو زرناب نے اثبات میں سر ہلاتے اپنے آنسو صاف کئے 

رونا بند کرو اور چلو آجاؤ ۔۔۔۔ ایک ساتھ شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔ ضرار نے نرمی سے کہا تو زرناب نے تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھا 

پھر تھوڑی دیر بعد ہی وہ ضرار کے ساتھ نماز ادا کر رہی تھی 

          °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کون ہو تم۔۔۔۔ اور یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔ امامہ آنکھیں بند کئے سونے کی کوشش کررہی تھی جب دروازے کھلنے کی آواز پر سامنے انجان لڑکی کو دیکھ کر الجھتے پوچھا 

بی بی جی میرا نام جنت ہے ۔۔۔۔ مجھے چھوٹے سائیں نے یہاں بھیجا ہے آپ کا خیال رکھنے کے لئے  ۔۔۔ جنت نے مسکراتے کہا  

تمہارے چھوٹے سائیں خود کہاں ہیں ؟ 

وہ جی باہر آبان آیا ہے نہ اس کے ساتھ گئے ہیں شاید ۔۔۔۔ آپ کو کچھ چاہیے تو مجھے بتائیں ؟ 

نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے تم ایسا کرو جاؤ جاکر آرام کرو سفر سے آئی ہو تھک گئی ہوگی 

اور سنو اگر وہ نیچے ہیں تو انھیں بھیج دینا ٹھیک ہے ۔۔۔۔ 

جی بہتر ۔۔۔۔۔  جنت اثبات میں سر ہلاتے چلی گئی اسے من موہنی سے امامہ چھوٹی بی بی کے روپ میں بہت پسند آئی تھی 

اس کے جاتے ہی امامہ نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکاتے آنکھیں بند کی وہ دل و دماغ کی جنگ میں  الجھی ہوئی تھی دل بار بار مکرم کی طرف ہمکتا ۔۔۔ جبکہ دماغ اس کی نفی کر رہا تھا ۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے 

ایک طرف ضرار تو دوسری طرف مکرم ۔۔۔۔ ضرار کا سوچتی تو دل خالی سا محسوس ہوتا تھا 

  جبکہ مکرم کا سوچتے ہی دھڑکنیں تیز ہوجاتی اسے اپنی اس کیفیت سے ڈر لگنے لگا تھا ۔۔۔۔ اب بھی مکرم کا سوچتے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی لیکن اگلے ہی پل ہوش میں آتے وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی 

ی یہ کیا ہورہا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ میرا دل اتنا بڑا منافق کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ 

کیا میں شاہ سے محبت کرتی ہوں ؟ ۔۔۔۔۔ مکرم سے محبت کا سوچتے اس کا وجود ساکت ہوا تھا دل میں ہلچل ہوئی جیسے کہہ رہا ہوں ہاں تمہیں محبت ہوگئی ہے اس سے ۔۔۔۔ 

نن نہیں ۔۔۔۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔ مم میں کیسے زرناب آپی کا سامنا کروں گی ۔۔۔۔ مجھے نہیں ہے ان سے محبت ۔۔۔۔ کسی سے نہیں ہے ۔۔۔۔ امامہ نے اپنے دل کو ڈپٹتے نفی میں سر ہلاتے کہا  لیکن دل بھی ایک نمبر کا ضدی تھا مکرم مکرم پکارتا جارہا تھا 

مجھے محبت نہیں ہے سنا آپ نے ۔۔۔ آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔ `پ مجھے اپنی عادی نہیں بنا سکتے ۔۔۔۔  نہیں ہے محبت سنا آپ آنے ۔۔۔۔۔اپنے دل سے ہارتے امامہ نے سامنے دیوار پر لگی مکرم کی مسکراتی  تصویر کو دیکھتے غصے سے کہا اور پھر گٹھنوں میں سر دئیے پھوٹ پھوٹ کر رو دی  

          •••••••••••••••••••••••••••••••

مکرم آبان کو بھیج کر کمرے میں آیا تو اسے گھٹنوں میں سر دئیے دیکھ کر چونکا 

امامہ ۔۔۔۔۔ کیا ہوا تمہاری طعبیت تو ٹھیک ہے نہ ؟ اس کے پاس جاتے مکرم نے فکر مندی سے پوچھا 

مم مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔۔

لیکن کیوں اب میں نے کیا کِیا ہے ؟ مکرم نے اس کے رونے پر الجھتے پریشانی سے پوچھا 

بہت بڑے جادو گر ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں رہنا  آپ کے ساتھ 

آپ ۔۔۔۔ آ آپ جائیں یہاں سے مجھے اکیلا چھوڑ دیں بس ۔۔۔۔  امامہ نے خفگی سے روتے کہا تو اس کی بات سن کر مکرم کو غصہ آیا 

ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔ آج کے بعد میں تمہارے منہ سے دور جانے والی بات نہ سنو ۔۔۔۔ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے تا قیامت تک۔۔۔۔ اور یہ بات اپنے اس بھوسہ بھرے دماغ میں بیٹھا لو کم عقل لڑکی ۔۔۔۔۔

 میری محبت اور نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔

مکرم شاہ بننے پر مجبور کرو گی تو بہت پچھتاؤ گی ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے گمبھیر لہجے میں کہا تو امامہ جو پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی  سٹپٹا گئی 

Come here . 

مکرم نے اپنی طرف آکر لیٹے بازو پھیلاتے اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کرتے کہا تو امامہ حلق تر کرتے اس کی طرف کھسکی 

Sleep now . 

اس کے گرد حصار بناتے ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پر رکھتے مکرم نے سنجیدگی سے کہتے آنکھیں موندتے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے سو گیا امامہ اس کے سینے میں دبکی رہی جب بھاری سانسوں کی آواز آئی تو سر اٹھاتے اسے دیکھا 

 امامہ نے بغور اس کا جائزہ لیا ۔۔۔ جس کی بھوری چمکتی آنکھیں جن میں اپنے لئے محبت ہی دیکھی تھی اس وقت نیند میں ڈوبی تھیں  مونچھوں تلے بینچے عنابی لب ،، کشاد پیشانی ۔۔۔ کھڑی مغرور ناک ۔۔۔۔ اور گال میں پڑتا ہلکا سا گڑھا ۔۔۔۔ جسے دیکھتے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے  بے اختیار ہوتے امامہ نے  چھوا تو اسے ایسا لگا جیسے مکرم نیند میں اس کی حرکت پر مسکرایا ہو اس کے جاگنے کا گمان ہوتے امامہ ڈرتے جلدی سے دور ہوئی 

" ش شاہ "  دھیرے سے پکارتے اس کے نیند میں ہونے کی تصدیق کی لیکن مکرم گہری نیند میں تھا ۔۔۔۔ شکر کا سانس لیتے وہ اپنی حرکت پر شرم سے لال ہوگئی 

دوسرے دن صبح ہوتے امامہ کو اپنی رات کی گئی حرکت یاد آئی تو شرمندگی سے اس کا چہرہ لال ہوگیا وہ مکرم کے سامنے جانے سے کترا رہی تھی مکرم اس کے عجیب رویے کو نوٹ کر رہا تھا 

امامہ ۔۔۔۔ کھانا کیوں نہیں کھارہی تم ؟۔۔۔۔ اسے کھوئے ہوئے دیکھ کر مکرم نے سنجیدگی سے کہا 

جج جی ۔۔۔۔ وہ میرا پیٹ بھر گیا ہے ۔۔۔۔اا آپ کھائیں میں جنت کو دیکھ کر آتی ہوں ۔۔۔ امامہ نے سٹپٹاتے کہا تو مکرم نے ابرو اچکاتے اس کی پلیٹ کو دیکھا جس میں کھانا ویسے کا ویسا پڑا تھا اس سے پہلے وہ اسے روکتا مکرم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی رفو چکر ہوگئی 

ہوکیا گیا ہے اسے ۔۔۔ عجیب ہی حرکتیں کررہی ہے ۔۔۔ مکرم نے اس کی پشت کو دیکھ کر بڑبڑاتے کہا اور سر جھٹکتے کھانا کھانے لگا 

                   ••••••••••••••••••••

اففف یہ مجھے کیا ہوگیا ہے ۔۔۔۔ اگر مکرم جاگ جاتے تو ۔۔۔۔ اور اس تو سے آگے امامہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔ 

اللّٰہ کتنی شرمندگی اٹھانی پڑتی مجھے ۔۔۔۔ 

کیا ہوا چھوٹی بی بی کس سے باتیں کر رہی ہیں آپ ۔۔۔۔ امامہ کو بڑبڑاتے دیکھ کر جنت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

ہننن کسی سے نہیں ۔۔۔۔ تم کیا کر رہی ہو ؟۔۔۔ امامہ نے کاندھے اچکاتے مسکرا کر کہا تو جنت نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا 

اا ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔۔ میرے سر پر  سینگھ نکل آئے ہیں کیا ؟ اس کے گھورنے پر امامہ نے آنکھیں سکیڑتے پوچھا 

نہیں چھوٹی بی بی میں دیکھ رہی تھی آپ پر کوئی جن ون کا اثر تو نہیں ہوگیا ۔۔۔۔ 

آپ ہیں بھی بڑی سوہنی ۔۔۔

 میں نے سنا ہے سوہنی کڑیوں پر جن عاشق ہو جاتے ہیں ۔۔۔ جنت نے بڑی بوڑھیوں کے انداز میں کہا تو امامہ نے منہ بناتے اسے دیکھا 

تم سچ کہہ رہی ہو جنت ۔۔۔ اس جن نے مجھ پر کوئی جادو کردیا ہے ایسا سحر پھونکا ہے کہ مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی ۔۔۔ 

میرا دل نہیں لگتا اس کے بنا ۔۔۔

 مجھے نیند نہیں آتی اس کی باہوں کے سوا ۔۔۔۔۔

جیسے نشے کی لت لگتی ہے نہ ۔۔۔

 مجھے لت لگ گئی ہے اس کی ۔۔۔۔

وہ میرے دل پر قابض ہونے لگا ہے ۔۔۔۔ 

اگر ایسا ہوا تو ۔۔۔۔۔ 

تو میرا بچنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔امامہ نے مکرم کا سوچتے سہمے ہوئے لہجے میں کہا تو جنت ڈر گئی 

نہ کریں چھوٹی بی بی کیوں مجھے ہارٹ اٹیک دے رہی ہیں ۔۔۔۔ اللّٰہ نہ کرے ایسا کچھ ہو ۔۔۔ میں ابھی چھوٹے سائیں کو بتاتی ہوں وہ آپ کو گاؤں لے جائیں گے ۔۔۔۔ آپ فکر مت کریں ہم آپ کو کچھ نہیں ہونے دیں گے  ۔۔۔ جنت نے پریشانی سے کہا تو امامہ چونکتے اس کی طرف متوجہ ہوئی جس کے چہرے پر ڈر صاف نظر آرہا تھا 

اسے دیکھ کر امامہ کو شرارت سوجھی 

نہیں جنت ۔۔۔۔ تم کسی کو نہیں بتاؤ گی ۔۔۔۔ وہ جن غصے کا بہت تیز ہے ۔۔۔۔ 

اگر اسے پتا چل گیا کہ تم نے اس کے بارے میں سب کو بتایا ہے تو ۔۔۔۔ امامہ نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتے بات ادھوری چھوڑ دی 

تو کیا چھوٹی بی بی ۔۔۔۔ 

 جنت نے  اڑے رنگ کے ساتھ الٹے قدم لیتے پوچھا

تو وہ تمہیں چڑیلوں کے حوالے کردے گا جو کہ بہت ہی خوفناک ہیں ۔۔۔۔ جانتی ہو وہ انسانوں کا خون پیتی ہیں ۔۔۔۔ اگر تمہیں ان کے حوالے کیا تو وہ تمہارا خون پی جائیں گی ۔۔۔۔۔

پھٹی آنکھوں  سے اس کی باتیں سنتی جنت نے خوف سے جھرجھری لی  

 تو امامہ جو کب سے اپنی ہنسی ضبط کر رہی تھی اس کی آڑی رنگت دیکھ کر خود کو روک نہ پائی ۔۔۔ اس کو ہنستے دیکھ کر جنت بھونچکا رہ گئی 

چھوٹی بی بی ۔۔۔۔ آپ مزاق کر رہی تھیں ۔۔۔۔ ایسے مزاق کوئی کرتاہے کیا ۔۔۔۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔ میں سچ سمجھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔ جنت نے خفگی سے اسے دیکھتے روہانسی آواز میں کہا 

ہاہاہا ۔۔۔۔جنت ۔۔۔۔تم کتنی بھولی ہو نہ۔۔۔۔ پاگل جنوں کو لڑکیاں تاڑنے کے علاؤہ اور کوئی کام نہیں ہے کیا ۔۔۔۔ اب انسانوں کو چھوڑ کر جنات  میں بھی یہ کوالٹی آنے لگی تو کرلی دنیا نے ترقی ۔۔۔۔ 

لڑکی پر جن عاشق ہوگیا سریسلی۔۔۔۔۔۔۔

ایسا  کچھ نہیں ہوتا سمجھی ۔۔۔۔ یہ صرف من گھڑت کہانیاں ہیں یقین مت کیا کرو ۔۔۔۔ امامہ نے باسکٹ سے سیب اٹھا کر بائٹ لیتے اسے سمجھاتے کہا لیکن جنت کا روندو چہرہ دیکھ کر پھر سے ہنس دی 

ہنسیں مت ۔۔۔۔ میں صرف آپ کے لئے پریشان ہورہی تھی ۔۔۔۔ورنہ میں ڈرتی ورتی نہیں کسی سے ۔۔۔۔۔۔ جنت نے ناراضگی سے اسے دیکھتے کہا 

ہاں وہ تو نظر آرہا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ 

وہ امامہ کی ہم عمر تھی اس لئے اس کی جنت سے دوستی ہوگئی تھی وہ اس کے ساتھ بےتکلفی سے گفتگو کرتی تھی 

مکرم جو امامہ کو بعد میں کھانا کھانے کا کہنے آیا تھا اس کا شرارتی موڈ آن دیکھ کر ہنس دیا جنت کے آنے سے امامہ میں یہ تبدیلی مکرم کو اچھی لگی تھی 

ان دونوں کی بونگی باتیں سنتے نفی میں سر ہلاتے باہر چلاگیا 

             °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ہاں آبان کچھ پتا چلا ؟ 

جی سائیں ۔۔۔ اس فائل میں ساری ڈیٹیل ہے آپ دیکھ لیں ۔۔۔۔ آبان نے فائل اس کی طرف بڑھاتے کہا 

مکرم نے فائل کھول کر دیکھی ۔۔۔۔ 

یہ لڑکا کون ہے ؟ ۔۔۔۔ ضرار اور زرناب کی ایک ساتھ کھینچی گئی تصویر کو دیکھتے مکرم نے پوچھا

سائیں زرناب بی بی نے اس لڑکے سے نکاح کر لیا ہے ۔۔۔۔ اور اب وہ ان کے گھر میں رہتی ہیں ۔۔۔۔ اس لڑکے کی ساری ڈیٹیل فائل میں موجود ہے آپ دیکھ لیں ۔۔۔۔  

تو تم نے بغاوت کرہی دی ۔۔۔۔۔ اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی تصویر کو ٹیبل پر پھینکتے سرد لہجے میں غراتے کہا زرناب کے نکاح کا سن کر غصے سے اس کی آنکھیں لال ہوگئیں کشادہ پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہوئی 

میرے ساتھ آؤ آبان ۔۔۔۔ کچھ سوچتے اس نے آبان سے کہتے باہر کا رخ کیا  ۔۔۔۔

آبان اس کے پیچھے باہر نکلا  ۔۔۔ آج اتنے دنوں بعد اس نے مکرم کو پہلے والے روپ میں دیکھا تھا 

         ••••••••••••••••••••••••••••••••

زرناب کا نکاح ہوا تھا لیکن رخصتی تب ملتوی کردی گئی تھی  جب تک شمعون اور شازم شاہ مان نہیں جاتے ۔۔۔

ضرار کیا آپ فری ہیں ؟۔۔۔ اس کے دروازے سے جھانکتے زرناب نے پوچھا تو ضرار جو اپنے آفیس کے پروجیکٹ کی فائلز بنا رہا تھا مسکراتے اسے دیا 

جی جناب آجائیں ۔۔۔ اب تو تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے دھڑلے سے آ سکتی ہو ۔۔۔ ضرار نے پرشوخ نظروں سے اسے دیکھتے کہا

ضرار ۔۔۔ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔

کیا ہوا زری ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نہ ؟  زرناب کے سریس چہرے کو دیکھ کر ضرار کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا 

کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ضرار ۔۔۔۔ مجھے امامہ کو ڈھونڈنا ہے ۔۔۔ اسے مکرم سے بچا کر اس کا اصلی چہرہ دیکھانا ہے ۔۔۔۔ 

ہمممم تو اب کیا کرنا ہے ؟

میں چاہتی ہوں آپ اس کی تلاش میں میری مدد کریں ۔۔۔ میں اکیلے یہ سب نہیں کر سکتی ۔۔۔ مجھے آپ کا ساتھ چاہیے ۔۔۔۔ 

میں تمہارے ساتھ ہوں زری ۔۔۔۔ تم فکر مت کرو ۔۔۔۔ ان شاءاللہ ہم بہت جلد امامہ کو ڈھونڈ لیں گے ۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔۔۔ ضرار نے اس کو تسلی دیتے کہا تو زرناب نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا جب دروازہ نوک کرتے ملازم اندر آیا 

سر نیچے کوئی مکرم شاہ زرناب بی بی سے ملنے آئے ہیں ۔۔۔۔بیگم صاحبہ آپ کو نیچے بلا رہی ہیں ۔۔۔۔ ملازم کے کہنے پر زرناب کی آنکھیں پھٹی تھیں 

مکرم ۔۔۔۔ یہاں آیا ہے ؟ حیرت و بےیقینی سے کہتے اس نے ضرار کو دیکھا جو خود بھی حیران رہ گیا تھا

چلو چل کر دیکھتے ہیں اس مکرم شاہ کو ۔۔۔ایسی کون سی توپ چیز ہے یہ ۔۔۔ ضرار نے اٹھتے کہا تو زرناب بھی اس کے ساتھ باہر نکل گئی 

            °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ان دونوں کو سڑھیوں سے اترتے دیکھ کر مکرم استہزاء انداز میں مسکرایا ۔۔۔۔ بڑی ہی دل جلانے والی مسکراہٹ تھی ۔۔۔ زینت بیگم تو بس اسے دیکھے جارہیں تھیں ان کا دل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بلکل شازم شاہ کی کاپی تھا وہی آنکھیں وہی رعب دار شخصیت ۔۔۔۔جس آتے ہی پورے ماحول پر چھا گیا تھا ۔۔۔۔  

 کیوں آئے ہو یہاں ؟ ضرار نے اس کی دل جلانے والی مسکراہٹ پر  ضبط کرتے سنجیدگی سے پوچھا تو مکرم نے ایک ابرو اچکاتے اسے دیکھا 

نہ سلام نہ دعا ۔۔۔ آتے ہی سوال شروع ۔۔۔۔ لگتا ہے آپ لوگوں کی طرف مہمانوں کو ایسے ڈیل کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مکرم نے طنزیہ انداز میں کہا 

ہماری طرف مہمان نوازی کرتے ہیں مہمانوں کی ۔۔۔۔ 

رقیب کو ایسے ہی ڈیل کیا جاتا ہے ۔۔۔ ضرار نے چبھتے لہجے میں کہا تو مکرم نے سمجھتے سر ہلایا 

تو ٹھیک ہے پھر مدعے پر آتے ہیں۔۔۔۔ میں زرناب شمعون شاہ کو لینے آیا ہوں ۔۔۔۔ مکرم کے کہنے پر زرناب کی آنکھیں پھٹی تھیں 

زرناب کہیں نہیں جائے گی ۔۔۔۔ کیونکہ اب یہ زرناب شمعون شاہ نہیں ۔۔۔ بلکہ زرناب ضرار خان ہے ۔۔۔۔ ضرار نے اسی کے انداز میں کہا تو مکرم کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں ہونٹ بینچتے اس نے کاٹ دار نظروں سے  زرناب کو دیکھا 

 ہممم ٹھیک ہے  ۔۔۔۔ مجھے لگا تھا یہ اپنی بہن سے ملنا چاہے گی ۔۔۔ لیکن اب 

میں جاؤں گی ۔۔۔۔ مکرم کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی جب زرناب نے کہا تو ضرار نے حیرت سے اسے دیکھا 

میں جاؤں گی آپ کے ساتھ ۔۔۔ 

زرناب ۔۔۔۔۔ ضرار نے تنبیہ لہجے میں اسے پکارا جبکہ مکرم نے فاتحانہ انداز میں مسکراتے اسے دیکھا ۔۔۔۔ اس کی جلا کر راکھ کردینے والی مسکراہٹ پر ضرار نے غصے سے مٹھیاں بھینچی تھیں 

میں باہر گاڑی می انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔ پانچ منٹ میں باہر آؤ ۔۔۔۔ اس سے ایک سیکنڈ بھی اوپر نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ مکرم نے اٹھتے بھاری کرخت لہجے میں کہا اور باہر نکل گیا 

یہ کیا پاگل پن ہے زری ۔۔۔۔ تم کہیں نہیں جارہی ۔۔۔۔ مجھے اس مشکوک انسان پر یقین نہیں ہے ۔۔۔۔۔ 

ضرار آپ سمجھ نہیں رہے ۔۔۔ اگر میں نہ گئی تو امامہ کو کیسے اس کی قید سے رہائی دلواؤں گی ۔۔۔۔ 

لیکن زری تم ۔۔۔۔ 

ضرار ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے آپ کو سمجھانے کا ۔۔۔ میں وہاں جاکر آپ سے بات کروں گی اوکے  ۔۔۔ زرناب نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے کہا اور جلدی سے باہر نکل گئی جانتی تھی اگر ایک سیکنڈ بھی اوپر ہوتا تو وہ سائیکو انسان چلا جاتا 

اور زرناب یہ موقع

زرناب کے گاڑی میں بیٹھتے وہ روانہ ہوگئے ۔۔۔ دل ہی دل میں زرناب ڈر رہی تھی لیکن ۔۔۔ اسے امامہ کو ہر حال میں بچانا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک عالی شان بنگلے میں داخل ہوئی ۔۔۔ 

باہر نکلو  ۔۔۔ مکرم نے بیک مرر سے اسے دیکھتے  سرد لہجے میں کہا اور خود باہر نکلا 

زرناب اس کے حکم کی تعمیل کرتے باہر آئی 

تمہارا نکاح ہوگیا ہے یہ بات امامہ کو پتا نہیں چلنی چاہیے سنا تم نے

اگر اسے بتایا تو وہیں قبر کھود دوں گا تمہاری ۔۔۔۔ 

اور کوئی ہوشیاری کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔

 اب سے جو میں کہوں گا تم وہی کرو گی انڈر سٹینڈ ۔۔۔ مکرم نے اسے گھورتے سختی سے کہا  

اچھے سے جان گئی ہوں تمہیں مکرم شاہ ۔۔۔ میری معصوم بہن کی معصومیت کا فائدہ اٹھا رہے ہو لیکن میں ایسا ہونے نہیں دوں گی ۔۔۔۔ تم نے مجھے یہاں لاکر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔۔۔ اب تم دیکھنا میں کرتی کیا ہوں ۔۔۔

 اس کے بات سن کر زرناب نے اسکے حکمیہ لہجے پر بیچ و تاب کھاتے دل ہی دل میں کہا اور اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔ 

مکرم نے اس کے سر ہلانے پر ہنکار بھرتے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے قدم بڑھائے 

گھر کے اندر داخل ہوتے زرناب کی نظریں بےتابی سے امامہ کو ڈھونڈنے لگیں کچن سے آتی نسوانی قہقہوں  کی آواز پر مکرم کچن کی طرف بڑھا تو زرناب بھی اس کے پیچھے گئی 

چھوٹی بی بی یہ جل رہا ہے ۔۔۔ افف  کیا کر رہی ہیں آپ  ۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا آپ مت کریں میں بنا دوں گی ۔۔۔ جنت نے چولہا بند کرتے پتیلے میں جلے آمیزے کو دیکھتے کہا 

یہ تو جل گیا اب وہ کیا کھائیں گے ۔۔۔ امامہ نے افسوس سے پتیلے کو دیکھتے کہا 

آپ بیٹھیں میں بنا دیتی ہوں چھوٹے سائیں کے آنے میں ابھی وقت رہتا ہے تب تک ہم بہت اچھا سا کھانا بنا لیں گے ۔۔۔ جنت نے اس کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر کہا 

اہممم اہممم ۔۔۔ 

مکرم نے ان دونوں کو مگن دیکھ کر کھنکھارتے  اپنی طرف متوجہ کیا تو اس کی آواز سن کر دونوں جھٹکے سے  مڑیں ۔۔۔ ایسے کے جلی ہوئی پتیلی ان دونوں کے پیچھے چھپ گئی ۔۔۔ 

اا آپ آگئے وہ میں ۔۔۔۔ امامہ نے اٹکتے کہنا چاہتا جب مکرم کی پشت سے زرناب کو دیکھتے ساکت رہ گئی اس کو دیکھتے زرناب کی آنکھوں میں آنسو چمکے 

اا آپی  ۔۔۔ امامہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا خواب کی سی کیفیت میں کہتے وہ زرناب کے پاس گئی 

آپی آپ سچ میں میرے سامنے ہیں ۔۔۔۔ اللّٰہ تیرا شکر ہے ۔۔۔ امامہ تشکرانہ انداز میں بھیگے لہجے میں کہتے اس کے گلے لگی 

کہاں چلی گئی تھیں آپ ۔۔۔ ایسے پریشان کرتے ہیں اپنوں کو ۔۔۔ شکوہ کناں لہجے میں کہتے اس نے ناراضگی سے زرناب کو دیکھا 

ایم سوری یار ۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔۔۔۔ لیکن اب میں واپس آگئی ہوں نہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا بلکل پہلے جیسا ۔۔۔ زرناب نے اپنے آنسو پونچھتے کہا

 سس سب پہلے جیسا ۔۔۔۔۔ امامہ نے اٹک کر اس کے الفاظ دہراتے مکرم کو دیکھا

مطلب میں ان  سے دور ہو جاؤں گی ۔۔۔۔ 

مجھے تو عادت ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔

 ان کے بنا سکون نہیں آتا  ۔۔۔ 

کیا میں ان سے دور رہ پاؤں گی  ؟ ۔۔۔۔ 

یہ سوچتے امامہ کے وجود میں سناٹا چھا گیا دل بند ہونے لگا تھا ۔۔۔۔

مکرم اس کے چہرے پر چھائے اذیت ناک تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا امامہ کی آنکھوں میں کچھ ایسا تاثر تھا جس نے مکرم کو چونکا دیا  

امامہ موم ڈیڈ کیسے ہیں ۔۔۔۔اور بھائی ۔۔

زرناب کے پوچھتے پر وہ ہوش میں آتے پھیکا سا مسکرا دی 

سب ٹھیک ہیں آپی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور دلاور بھائی تو انگلینڈ چلے گئے ہیں گھر کسی سے بات ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔ 

یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔ سب میں نے بگاڑا ہے ٹھیک بھی اب میں ہی کروں گی ۔۔ زرناب نے پرعزم لہجے میں کہا تو مکرم اس کے میلو ڈرامے پر کوفت سے سر جھٹکتے چلا گیا 

امامہ جنت کو اچھا سا کھانا بنانے کا کہتے  زرناب کو اپنے کمرے میں لے گئی دونوں بہنیں باتیں کرتے ایک دوسرے کو  اپنے دل کا حال سناتی رہیں لیکن پھر زرناب نے ایسی بات کہہ دی جسے سن کر  امامہ کو لگا اب وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی

امامہ تم سن رہی ہو نہ میں کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ تم مکرم سے طلاق کا مطالبہ کرو ۔۔۔۔ اسے کہو تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔۔۔ زرناب نے اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر کہا تو امامہ نے چونکتے اسے دیکھا 

اا آپی میں ۔۔۔۔ اس سے بولا نہیں جارہا تھا  حلق سوکھ گیا تھا ایسے جیسے کانٹے چبھنے لگے ہوں 

      °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

مکرم نے اپنے بابا شازم شاہ کو کال کرتے زرناب کے بارے میں سب بتا دیا ۔۔۔ اس کا حویلی سے  نکلنا اور مکرم کا اسے دو دن تک قید میں رکھنا سب بتا دیا جسے سن کر شازم شاہ پریشان ہوگئے

ہمیں تم سے یہ امید نہیں تھی شاہ ۔۔۔۔ اگر تمہیں امامہ پسند تھی تو ہمیں بتاتے ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے لیکن یہ غلط حرکت کی ہے تم نے ۔۔۔ شازم نے غصے سے کہا 

بابا سائیں ۔۔۔۔ زرناب بھی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ گھر سے نکلی تھی اپنی مرضی سےیہ آپ بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔ زبردستی کے رشتے کبھی کامیاب نہیں ہوتے 

میں نے اس کے منصوبے کا ناکام کرتے سزا کے طور پر قید کیا تھا ۔۔۔ اس کے بعد میں اسے حویلی لے آتا مگر وہ چکما دے کر بھاگ گئی 

اور اب اس نے نکاح کر لیا ہے ۔۔۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ سب پہلے جیسا ہو جائے ۔۔۔۔ زرناب پر کوئی بات نہیں آئے گی بس آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا ۔۔۔۔ 

چاچا جان اور چاچی کو اعتماد میں لینے کے لئے۔ ۔۔۔ 

زرناب کا نکاح ہوگیا ہے یہ صرف آپ جانتے ہیں اس کا علم حویلی میں کسی کو نہیں ہے ۔۔۔ 

میں چاہتا ہوں چاچا چاچی زرناب سے ناراضگی ختم کردیں ۔۔۔

 جیسے ہی وہ راضی ہونگے 

ہم زرناب کا نکاح پھر سے چاچا چاچی کی رضا مندی کے ساتھ ضرار خان سے کروا دیں گے ۔۔۔ 

 مکرم نے ساری بات سمجھاتے کہا تو شازم شاہ کو اس کی بات مناسب لگی

ٹھیک ہے ۔۔۔۔لیکن یہ ہوگا کیسے ؟ ۔۔۔۔

یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤ گا بس آپ نے چاچا جان کو سنبھالنا ہے ۔۔۔ انھیں زرناب کے نکاح کا علم نہیں ہونا چاہیے

حویلی کب آرہے ہو تم  ؟ یہاں میں اکیلا سب نہیں سنبھال سکتا دلاور تو ایسا گیا ہے کہ واپس پلٹنے کا راستہ ہی بھول گیا ہے۔۔۔۔ چودھریوں نے بہت تنگ کر رکھا ہے سب کو ۔۔ گاؤں کے سردار تم ہو ۔۔۔۔ اور جب سردار نہ ہو تو مخالف لوگ  ساخت کو نقصان پہنچانے کے لئے  تلواریں تیز کر لیتے ہیں ۔۔۔ 

آپ پریشان نہ ہوں بابا سائیں  ۔۔۔۔۔دو تین دن میں یہاں کا کام وائنڈ اپ کر کے آرہا ہوں میں ۔۔۔۔ دیکھ لوں گا سب کو ۔۔۔۔۔  مکرم نے غصے سے دانت پیستے وڈیروں والے انداز میں کہا اور پھر الوداعی کلمات ادا کرتے کال کاٹ دی  

     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

رات کو مکرم واپس آیا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔۔۔ خالی لاونج کو دیکھتے وہ سڑھیوں کی طرف بڑھا ۔۔۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے  وہ چونکا ۔۔۔ کچھ تھا جو مسنگ تھا ۔۔۔۔

اور وہ تھا امامہ کا وجود ۔۔۔ جو کمرے میں نہیں تھی ۔۔۔ مکرم نے واش روم اور ڈریسنگ روم کے دروازے کی طرف دیکھا  دونوں کھلے ہوئے تھے ٹیرس کا دروازہ اندر سے بند تھا وہاں بھی وہ نہیں تھی 

وہ جو تھکا ہوا آیا تھا اس کی غیر موجودگی پر کڑھ کر رہ گیا ۔۔۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں سر درد سے پھٹ رہا تھا اور اس حال میں اسے طلب تھی تو صرف اس لاپرواہ لڑکی کی ہونٹ بینچتے وہ الٹے قدموں باہر نکلا ۔۔۔۔ 

اب اس کا رخ گیسٹ روم کی طرف تھا ۔۔۔ 

کمرے میں داخل ہوتے اس کی نظر سامنے بیڈ پر پڑی جہاں امامہ اور زرناب دونوں سو رہی تھیں ۔۔۔ گہرا سانس بھرتے وہ بیڈ کی طرف بڑھا بلینکٹ ہٹاتے امامہ کو باہوں میں اٹھاتے باہر نکل گیا 

   °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

امامہ جو زرناب کے کہنے پر اس کے ساتھ آگئی تھی زرناب کے سوتے ہی بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہی۔۔۔۔ اللّٰہ اللّٰہ کرکے اسے نیند آئی ہی تھی کہ تھوڑی دیر بعد اسے اپنا وجود ہوا میں معلق محسوس ہوا 

نیند کے خمار سے سر آنکھیں کھولی تو نظر مکرم کی گردن سے ہوتے چہرے پر پڑی ۔۔۔۔ اسے اپنا  خواب سمجھتے امامہ نے مسکراتے اس کی گردن کے گرد اپنے مخملی نازک ہاتھوں کا حصار باندھتے اس کے سینے پر سر رکھا 

اس کی اس حرکت پر مکرم چونکا ۔۔۔ اس کی نیند میں ڈوبے معصوم چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے اسے غصہ آیا 

میرا سکون چھین کر کتنے سکون سے سو رہی ہو جند سائیں ۔۔۔ لیکن میرا نام بھی مکرم شاہ ہے ہوش ٹھکانے نہ لگا دئیے تو کہنا ۔۔۔ 

مکرم نے اس کا گلابی بے داغ چہرہ دیکھتے کہا اور شدت سے اسے خود میں بینچا  تو امامہ سٹپٹا کر رہ گئی نیند سے بیدار ہوتے اس کی نظر مکرم کے سنجیدہ چہرے پر پڑی وہ جسے خواب سمجھ رہی تھی حقیقت میں دیکھ کر  بھونچکا رہ گئے 

شش شاہ آپ ۔۔۔۔۔ خود کو اس کی باہوں میں دبکا دیکھ کر امامہ کا چہرہ سرخ ہوا ۔۔۔۔۔ اس کے کلون کی بھینی بھینی مہک امامہ کو اپنی سانسوں میں اترتی محسوس ہوئی وہ بے یقینی کی کیفیت میں مکرم کو دیکھ رہی تھی اسے امید نہیں تھی کہ وہ اسے زرناب کے کمرے سے اٹھا لائے گا 

مکرم نے کمرے میں آکر  اسے بیڈ پر لٹاتے  تیکھی نظروں سے دیکھتے اس کی طرف جھکا 

کس کی اجازت سے تم اس کمرے میں سوئی ؟۔۔۔۔ سرخ انگارہ آنکھوں سے اسے دیکھتے سپاٹ لہجے میں پوچھتے وہ امامہ کا سانس خشک کر گیا 

وو وہ زرناب آپی ۔۔۔۔۔ امامہ نے اس کی بھوری سرخ آنکھیں دیکھ کر حلق تر کرتے  لرزتے کہنا چاہا جب مکرم نے اس کے ہونٹوں پر انگشت شہادت رکھا 

ہششش ۔۔۔۔۔۔ مجھے زرناب نامہ سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے  ۔۔۔

میری ایک بات کان کھول کر سن لو ۔۔۔ آج کے بعد تم میری موجودگی میں کمرے سے باہر نہیں جاؤں گی ۔۔اور نہ ہی کسی کے ساتھ بیڈ شئیر کرو گی ۔۔۔۔

سوائے میرے ۔۔ سمجھ آئی ۔۔۔۔ گمبھیر لہجے میں کہتے مکرم نے اس کی لرزتی پلکوں پر ہونٹ رکھتے اپنے جلتے دل کو سکون بخشا ۔۔۔۔ 

جج جی ۔۔۔۔۔ امامہ جس نے آج سے پہلے اسے اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا سہمی نظروں سے اسے دیکھتے منمناتے کہا 

اس کے شدت بھرے لمس پر امامہ کے وجود میں برق سی دوڑ گئی 

ایک طرف زرناب تھی جس نے اسے طلاق ہونے تک مکرم سے دور رہنے کا کہہ دیا تھا 

دوسری طرف مکرم اور اس کا ضدی دل تھا جو خود بھی دور جانے پر آمادہ نہیں تھا امامہ پھنس کر رہ گئی تھی 

          °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

مکرم کے لائے بلڈی ریڈ کلر کے پیروں تک چھوتے فراک میں ملبوس ، لائٹ سا میک اپ کئے وہ تیار ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔  ایک اچٹتی نظر  گھڑی پر ڈالتے باہر بھاگی مکرم کے آنے کا وقت ہوگیا تھا اور وہ شاندار انداز میں اس کا استقبال کرنا چاہتی تھی

  ہونٹوں پر شرمگیں مسکان سجائے تھوڑی نروس سی وہ داخلی دروازے کی طرف بڑھی تب ہی دروازہ کھلا اور مکرم شان سے چلتا اندر آیا اس کو دیکھ کر امامہ کے آگے بڑھتے قدم رکے 

وہ ساکت سی مکرم کی پشت پر کھڑے وجود کو دیکھ رہی تھی 

" ی یہ کون ہے شاہ " مکرم کی کاٹ دار طنزیہ نگاہیں خود پر جمی دیکھ کر امامہ نے اٹکتے پوچھا تو مکرم نے مڑتے اپنے پیچھے  کے لباس میں ملبوس لڑکی کا ہاتھ پکڑتے اپنے مقابل لایا اور مسکراتے امامہ کو دیکھا 

یہ میری بیوی ہے ۔۔۔ رابیل مکرم شاہ ۔۔۔۔ مکرم کے الفاظ تھے کہ پگھلا سیسہ امامہ کے قدم لڑکھڑائے بےیقینی سے مکرم کے ہاتھ میں دبے اس لڑکی کے ہاتھ کو دیکھا اور آگے بڑھتے غصے سے پاگل ہوتے کھینچ کر تھپڑ مارا 

آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔ میں جان لے لوں گی آپ کی اور اس پچھل پیری کی  ۔۔۔۔ امامہ نے غصے سے چیختے کہا 

مکرم جو گہری نیند میں تھا اچانک اس افتادہ پر ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی اسے سمجھ آیا غصے سے اس کی شریانیں پھول گئیں یہ بات ہی اس کا خون کھولا گئی تھی کہ امامہ نے اسے تھپڑ مارا 

امامہ ۔۔۔۔۔ بپرے انداز میں اٹھ کر دھاڑتے اس نے امامہ کو بازو سے پکڑ کر کھینچتے بیڈ پر بیٹھایا جو نیند میں جھولتے چلاتے روئی جارہی تھی 

میری جگہ لو گی ۔۔۔ میں تمہیں جہنم واصل کردوں گی چھپکلی ۔۔۔۔ شاہ صرف میرے ہیں ۔۔۔۔ تم انہیں مجھ سے نہیں چھین سکتی ۔۔۔۔امامہ نے نیند میں روتے ہزیانی انداز میں چیختے کہا تو مکرم جو غصے سے اس کو گھور رہا تھا اس کی بات سنتے حیران رہ گیا

 مطلب وہ خواب میں کسی سے لڑ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ بھی اس کے لئے ۔۔۔ اور یہ حرکت بھی لاشعوری طور پر خواب کے زیر اثر تھی 

امامہ ہوش میں آؤ کیا ہوگیا ہے ۔۔۔۔ اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھ کر مکرم نے اس کا گال تھپتھپاتے اپنے سینے سے لگاتے اس کی کمر سہلائی ۔۔۔ تو امامہ نے روتے سرخ سوجی آنکھیں کھولتے اسے دیکھا 

آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ 

آپ صرف میرے ہیں ۔۔۔۔

میں نہیں رہ سکتی آپ کے بنا ۔۔۔۔۔

امامہ نے بچوں کی طرح اس کے سینے میں منہ چھپاتے سسکتے کہا تو مکرم کا دل اس کے سسکنے پر تڑپ اٹھا ایک طرف یہ خوشی بھی تھی کہ امامہ کے دل میں بھی اس کے لئے محبت ہے تو دوسری طرف اس کا رونا مکرم کو تکلیف دے رہا تھا 

جند سائیں میرا دل تم پہ قربان ۔۔۔۔ تم میرے وجود کا حصہ ہو جو ہمیشہ میرے وجود کے ساتھ روح سے بھی جڑا رہے گا ۔۔۔۔ تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔ 

" رؤ مت میرے جگر کے ٹوٹے ۔۔۔۔ میں تمہارے پاس ہوں ۔۔۔۔ ریلیکس ۔۔۔۔۔ 

مکرم نے ہونٹوں سے اس کے آنسوں چنتے گمبھیر لہجے میں کہا تھوڑی دیر تک امامہ کی سسکیاں گونجتی رہیں اور پھر وہ واپس گہری نیند میں ڈوب گئی 

مکرم نے اسے بیڈ پر لٹاتے اس کی پیشانی پر بکھرے بال سنوارتے محبت سے اس کی سلوٹ زدہ  پیشانی پر ہونٹ رکھے جو نیند میں ہوتے ہوئے بھی بے چین و  مضطرب تھی 

اس کے بال سہلاتے مکرم نے اس کی بے چینی ختم کرنی چاہی اور اس میں کامیاب بھی رہا 

اس کے چہرے پر چھائے سکون کو دیکھتے مکرم ہنس دیا 

تو تمہارا مجھ سے عشق کرنا  تہہ ہوا امامہ مکرم شاہ ۔۔۔

تمہیں اس بات کا ادارک ہو ہی گیا کہ تم مجھ سے مکمل ہو ۔۔۔۔ 

 اب تم چاہ کر بھی کبھی مجھ سے دور نہیں جا سکتی ۔۔۔۔۔

 تمہارا یہ عشق یہ ضدی عشق تمہیں اجازت نہیں دے گا ۔۔۔

 تم بے بس ہوتے میں باہوں میں آسماؤ گی ... 

مکرم نے فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھتے سرگوشیانہ انداز میں کہا وہ مکرم شاہ تھا جو کبھی نہیں ہارتا تھا ۔۔۔ جسے فن آتا تھا اپنے سحر میں قید کرکے مقابل کو ڈھیر کرنے کا  ۔۔۔ اور اس نے جکڑ لیا تھا اس معصوم پری وش کو کیونکہ وہ فاتح تھا

•••••••••••••••••••••••••••••••••••••

صبح جب  زرناب اٹھی تو امامہ کو غائب پاکر اسے بہت غصہ آیا لیکن وہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی اور اٹھتے فریش ہوکر باہر آئی ابھی اسے امامہ سے ملنے کی جلدی تھی 

دوسری طرف امامہ کی آنکھ کھلی تو مکرم کہیں نہیں تھا رات اسکی کی گئی باتیں یاد آتے ہی امامہ کا خون چہرے پر سمٹ آیا ۔۔۔۔

اللّٰہ رات شاہ کو کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ اتنے غصے میں تھے وہ ۔۔۔۔ سچی والے ڈریکولا لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور میں یہاں 

اففف آپی کو پتا چل گیا تو ۔۔۔۔۔ پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہیں ہونگی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی اسے زرناب کا خیال آیا بڑبڑاتے بوکھلا کر اٹھتے کبرڈ سے جو ڈریس ہاتھ آیا نکالتے واش روم میں گھس گئی 

       ^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 وہ باہر آئی تو زرناب نے کاٹ دار نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔۔ جس پر خوامخواہ ہی امامہ شرمندہ ہوگئی 

سوری آپی وہ میں ۔۔۔ امامہ نے اس کے پاس جاتے آپ ی صفائی میں کچھ کہنا چاہا جب زرناب نے اس کی بات کاٹی 

میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ دور رہو اس سے ۔۔۔ پھر تم اس کے ساتھ کیوں گئی ۔۔۔ 

آپی میں نہیں گئی تھی ۔۔۔۔وہ خود ہی نیند میں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔۔۔ امامہ نے اسکے سخت لہجے پر روہنسا ہوتے کہا 

اچھا اب رونا مت ۔۔۔۔ 

اب تم اسے خود کے ساتھ زبردستی کرنے سے روکو گی ۔۔۔ 

بلکہ ایسا کرو آج ہی اس سے طلاق کی بات کرو ۔۔۔ زرناب نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے نرمی سے کہا اسے امامہ پر ترس آیا جو اس دیو جیسے انسان کی قید میں تھی 

پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ زرناب نے اس کے رونے کی وجہ مکرم کا جبر   سمجھ کر اسے دلاسہ دیا جبکہ امامہ تو اس دیو کی قید میں رہنے کے لئے رو رہی تھی اس کا دل کیا یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے 

****************************

شش شاہ ۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ۔۔۔۔ امامہ نے اٹکتے کہا بات کرتے اس کا جسم لرز رہا تھا 

ہمممم بولو ۔۔۔ شاہ نے مگن اندازمیں سنجیدگی سے کہا اسے سارا کام ختم کرکے حویلی جانا تھا اس لئے امامہ کا لہجہ نوٹ ہی نہیں کر پایا 

مم مجھے آپ سے ۔۔۔۔۔۔آپ سے طلاق چاہیے 

مم مجھے آپ سے ۔۔۔۔۔۔آپ سے طلاق چاہیے ۔۔۔ امامہ نے سختی سے لرزتے ہاتھوں کی مٹی بند کرتے کہا تو اس کے بات سنتے پیپرز چیک کرتے مکرم کے ہاتھ رکے ۔۔۔۔ 

پل میں غصے سے اس کی آنکھوں میں سرخی اور وحشت در آئی تھی جبکہ پیشانی اور گردن کے ساتھ ہاتھ پر بھی ہری نیلی نسیں ابھر آئیں 

غصے سے پیپرز ٹیبل پر پٹکتے وہ بپرے شیر کی مانند   جھٹکے سے اٹھتے اس کی طرف لپکا اور امامہ کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر پکڑ کر صوفے پر پٹکتے اس کے اطراف میں ہاتھ رکھتے جھکا 

کیا بکواس کی تم نے پھر سے کہو  ؟ مکرم نے اس کے قریب ہوتے غصے سے غراتے کہا تو اس کے غصے کو دیکھ کر  امامہ کا چہرہ سفید پڑ گیا 

شش شاہ ۔۔۔۔۔ م میں آپ ۔۔۔ ک کے ساتھ نہیں رہنا ۔چاہ۔۔ امامہ نے کپکپاتے لہجے میں کہنا چاہا تو مکرم کے سر پر لگی تلوں پر بجھی  ۔۔۔۔ اسکی بات مکرم کو تیش دلا گئی

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ بکواس کرنے کی بولو ۔۔۔۔ 

اب تمہارے منہ سے یہ لفظ نکلا تو جان لے لوں گا میں تمہاری ۔۔۔۔

 مجھ سے دور جانے کا سوچا بھی تو اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی فنا کردوں گا ۔۔۔۔  غصے سے اس کے جبڑے کو دبوچتے مکرم اس کے چہرے پر غرایا 

 اس کی  تپتی سانسیں ، آنکھوں سے پھوٹتی چنگاریاں امامہ کو جلا کر خاکستر کردینے کے در پر تھیں 

 اس کو اتنے غصے میں دیکھ کر امامہ کا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا تکلیف سے آنکھوں سے بل بل آنسو بہنے لگے

اور اس کے آنسو  ہی واحد ایسا ہتھیار تھے جو مکرم شاہ کو اس کے غصے کو مات دے سکتے تھے۔۔۔۔  جنہیں دیکھ کر اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا لیکن دل اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھا ایک وحشت سی تھی جو دل پر  طاری تھی 

امامہ نے ایسا سوچا بھی کیسے ۔۔۔ کیا وہ اتنی بے وقوف ، نادان یا چھوٹی بچی تھی کہ مکرم کے دل میں اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت نہ دیکھ سکی

 ایسا ہوسکتا تھا کہ وہ اس کے جزبات سے اس کے عشق و جنوں سے واقف نہ ہو  

 ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ 

 اللّٰہ تعالیٰ نے عورت کو ایسی صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ اپنی طرف اٹھتی نظروں کو پہچان جاتی ہے ۔۔۔۔سامنے والا اسے کس نگاہ سے کس نیت سے دیکھ رہا ہے اس کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے 

اور اتنے دن مکرم کے ساتھ رہتے وہ اس کی محبت سے غافل رہے ایسا ممکن نہیں تھا

 تو پھر کیا وجہ تھی جو اس نے اتنی بڑی بات کہہ دی ۔۔۔  یہ بات اسے کھٹک رہی تھی 

 مکرم نے شدت سے جھکتے اپنے ہونٹوں سے اس کے آنسوؤں کو قیمتی موتیوں کی مانند چُنا 

اس کی بیرڈ اور مونچھوں کی چبھن اپنے گال پر  محسوس کرتے امامہ کے وجود میں پھیریری سی دوڑ گئی اس کے لمس میں نرمی کا عنصر نہیں تھا بلکہ  شدت تھی 

وہ جو اسکی محبت کی عادی تھی اتنی سختی پر کوئی راہِ فرار نہ ملتے دیکھ بے بسی سے  پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنی پیشانی اس کے سینے سے لگادی 

 اسکی سسکیوں کی آواز پر مکرم نے اسے دیکھتے گہرا سانس بھرتے خود میں بھینچا 

'ششش رونا بند کرو "۔۔۔ 

میں جانتا ہوں یہ الفاظ تمہارے نہیں ہیں ۔۔

تم جو میرے سنانے بات کرتے بکری بن جاتی تھی ۔۔۔۔ اتنی بڑی بات کہی دی بنا ہچکچائے 

 جس کسی نے بھی تمہیں یہ سب کرنے پر اکسایا ہے نہ میں اسے چھوڑوں گا نہیں 

اب مجھے سچ سچ بتاو ۔۔۔

 کس کے کہنے پر تم نے یہ سب کہا ؟ مکرم نے اس کا چہرہ اوپر کرتے سپاٹ لہجے میں پوچھا جس کی رو رو کر حالت خراب ہوگئی 

شش شاہ ۔۔۔ مم مجھے جانے دیں ۔۔۔۔ یہ مم میرا نہیں ۔۔۔زر ۔۔۔۔زرناب آپی کا ۔۔۔ امامہ نے سسکیوں کو دباتے لرزتے لہجے میں کہا تو مکرم نے ہونٹ بینچتے اس کی ہونٹوں پر انگشت شہادت رکھی

زرناب نے کہا ہے ایسا کرنے کو  ؟ ۔۔۔ اس کے سوال پر امامہ نے خوفزدہ ہوتے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا

نن نہیں  آپی نے ک کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔ میں نے اپنی طرف سے کہا ہے ۔۔۔۔ ا آپ انھیں کچھ مت کہیں پلیز ۔۔ امامہ کی گھبراہٹ دیکھتے مکرم نے ہنکار بھرا 

کھانا کھایا تم نے ۔۔۔ اس کی سرخ  بھیگی آنکھوں پر انگلی پھیرتے سنجیدگی سے پوچھا تو امامہ نے نفی میں سر ہلایا 

ٹھیک ہے تم جاکر فریش ہو جاؤ تب تک میں جنت سے کھانا لگانے کا کہتا ہوں ۔۔۔ 

اور ایک بات اپنے اس دل و دماغ میں میں بیٹھا لو جند سائیں۔ ۔۔۔ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے ۔۔۔ تاحیات ۔۔۔ اور میرے ساتھ ہی بوڑھی ہونا ہے ۔۔۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہر دکھ سکھ میں تمہیں میرے شانہ بشانہ کھڑے رہنا ہے 

میری بیوی ہو تم ۔۔۔

میرے نام سے جُڑی ہو 

"امامہ مکرم شاہ " اپنے دماغ سے یہ فضولیات نکال دو کہ مجھ پر کسی اور کا حق  ہے یا تم نے کسی کا حق مارا ہے 

اس سب سوچوں سے اپنا دھیان ہٹا کر اگر تم مجھ پر دو تو اچھا ہوگا 

اب ایسی کوئی بات کرنے سے پہلے سوچ لینا  آج تو بخش دیا ہے  ۔۔اگلی بار مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا  ۔۔۔ 

مکرم نے سنجیدگی سے وارن کرتے لہجے میں کہا تو امامہ نے اثبات میں سر ہلاتے  جان بچ جانے پر دل ہی دل میں شکر ادا کریا اور چھپک سے واش روم میں گھس گئی 

اس کے جاتے ہی مکرم کے چہرے پر پتھریلے تاثرات نمودار ہوئے ۔۔۔

زرناب ۔۔۔۔ زرناب ۔۔۔۔

I won't Spare You . 

بڑبڑاتے غصے سے مٹھیاں بھینچے خطرناک تیورلئے وہ آندھی طوفان بنا باہر نکل گیا اس کا رخ زرناب کے کمرے کی جانب تھا 

یقیناً آج وہ اسے چھوڑنے والا نہیں تھا 

    °°°°°°°°°°°°°°°°°=°=°=°°°°°°°°°°°°°°

اففف یہ آنے میں اتنی دیر کیوں کر رہی ہے ۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوا ہوگا ۔۔۔ زرناب کمرے میں ٹہلتے امامہ کا انتظار کررہی تھی جب ٹھاہ کر کے دروازہ کھولتے وہ جارہانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا 

 یہ کک کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔ زرناب نے اس کی  غصے کے باعث سرخ آنکھوں کو دیکھ کر گھبراتے کہا جب مکرم نے سختی سے اس کی گردن جکڑتے اسے دیوار کے ساتھ پن کیا  اچانک سر اور کمر دیوار سے ٹکرانے پر زرناب کو دن میں تارے نظر آگئے 

بدتمیزی ۔۔۔۔۔ اگر یہ بدتمیزی ہے تو جو تم کر رہی ہو وہ کس زمرے میں آتا ہے ۔۔

 میرے گھر میں کھڑے ہوکر میری بیوی کو میرے خلاف ورغلا کر تم مجھ سے کس طرح کے رویے کی امید رکھتی ہو مس زرناب۔۔۔۔  

ہمت کیسے ہوئی ۔۔۔۔ امامہ سے وہ سب کہنے کی ۔۔۔۔ آج تمہاری وجہ سے وہ روئی ہے ۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے اس پر سختی کی میں نے ۔۔

Do I look like a Fool to you .

کیا لگا تھا تمہیں ۔۔۔ بچ جاؤ گی تم مجھ سے ۔۔۔۔بےوقوف ہوں میں ۔۔۔۔جو تمہاری چال نہیں سمجھوں گا ۔۔۔ 

 سپاٹ لہجے میں کہتے اس نے گردن پر دباؤ بڑھایا  تو زرناب کا منہ لال ہوگیا جبکہ خوف سے آنکھیں پھٹی ہوئیں تھیں 

اونہہہ ۔۔۔۔۔نن ۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلاتے اس کے ہاتھ ہٹانے چاہے لیکن اس کی فولادی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا  

اب بتاؤ کیا چل رہا ہے تمہارے خرافاتی دماغ میں ؟ ۔۔۔

کیوں تم نے امامہ سے وہ سب کہنے کو کہا ؟

بولو ورنہ گردن توڑ دوں گا تمہاری ۔۔۔ مکرم نے غصے سے دھاڑتے کہا تو زرناب کا دل اچھل کر حلق میں اٹکا ۔۔۔۔جبکہ بے بسی سے وہ آنکھیں بند کئے رو دی 

آخری بار سمجھا رہا ہوں ۔۔۔۔ میرے اور میری بیوی کے بیچ میں آنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔

ورنہ مکرم شاہ اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو کچل دیتا ہے۔۔۔۔ سمجھی ۔۔۔ اسے روتے دیکھ کر گرج دار لہجے میں کہتے اس نے جھٹکے سے اس کی گردن کو چھوڑا تو زرناب گلا پکڑ کر گہرے گہرے سانس لیتے نیچے بیٹھتی چلی گئی  

بد قسمتی سے میری جند سائیں کی بہن ہو اس لئے بخش دیا تمہیں ورنہ تمہاری جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یہ کمرہ اس کے لئے قبر بن چکی ہوتی ۔۔۔۔ 

So next time Be Careful .

سرد نظروں سے اسے دیکھتے وارن کرتے لہجے میں کہتے باہر چلا گیا 

      °°°°°°°°°°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°°°°

سائیں ضرار خان آیا ہے ۔۔۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔۔۔آبان نے اندر آتے مؤدب انداز میں کہا تو مکرم ٹھٹکا 

ہممم آنے دو اسے ۔۔۔۔ کچھ سوچ کر اس نے اجازت دی تو آبان واپس چلا گیا 

تھوڑی دیر بعد ہی ضرار خان کو آبان کے ساتھ اندر آتے دیکھ کر مکرم استہزاء مسکرایا 

اسلام علیکم ضرار خان ۔۔۔ 

ہمارے آشیانے پر خوش آمدید ۔۔۔ اس کے خوش اسلوبی سے کہنے پر ضرار چونکا اور پھر مکرم کو مسکراتے دیکھ کر اسے جی بھر کر  شرمندگی ہوئی 

وعلیکم السلام ۔۔۔۔ ضرار نے ہچکچاتے کہا 

اسے امید نہیں تھی کہ مکرم اس کا ایسے استقبال کرے گا 

اسے لگا تھا جیسے وہ مکرم سے بدتمیزی سے پیش آیا تھا مکرم بھی ویسا ہی رویہ رکھے گا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ مکرم شاہ تھا جو گھر آئے دشمن کو بھی عزت دیتا تھا اس کی اعلیٰ ظرفی پر ضرار کو ڈوب کر مرنا آیا 

وہاں کیوں کھڑے ہو ضرار خان ۔۔۔۔

 مہمان ہو ہمارے ۔۔۔۔ آؤ بیٹھو ۔۔۔ آبان ۔۔۔ جاؤ جنت سے کہو اچھا سا کھانا بنائے ۔۔۔۔ ضرار ہمارے ساتھ کھانا کھا کر جائے گا ۔۔۔ ضرار کو بیٹھنے کا کہتے اس نے آبان کو کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے چلا گیا 

بولو ضرار خان رقیب کے گھر کیسے آنا ہوا ؟ مکرم نے سنجیدگی سے پوچھا تو ضرار اسے دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔ جس کے لہجے میں نرمی ہے ساتھ ایک رعب تھا ۔۔۔۔ 

 میں  زرناب سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔ ہمت کرتے ضرار مدے کی بات پر آیا 

نہیں مل سکتے ۔۔۔میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دونگا ۔۔۔۔ مکرم نے سپاٹ لہجے میں کہا 

"کیوں نہیں مل سکتا بیوی ہے میری تم مجھے میری بیوی سے ملنے سے نہیں روک سکتے " 

روک سکتا ہوں ۔۔۔ تمہارا اس پر کوئی حق نہیں ہے اور میں ایسے کسی نکاح کو نہیں مانتا جس میں لڑکی کے والدین راضی نہ ہوں 

مسلمان ہو نہ تم ۔۔۔۔ پھر اتنا نہیں جانتے کہ ولی کی رضا مندی کے بغیر نکاح باطل ہوتا ہے ۔۔۔ 

ابی بردہ بن ابی موسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صہ نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ( المسلم ، والترمذی ) ۔  

تو پھر تم دونوں نے کیسے نکاح کر لیا ؟ مکرم نے سختی سے پوچھا تو ضرار خاموش رہ گیا 

دیکھو ضرار ۔۔۔۔ میری تم سے کوئی دشمنی نہیں نہ ہی زرناب سے کوئی بیر ہے ۔۔۔۔ 

لیکن اگر تم واقعی اس سے محبت کرتے ہو تو اس کے والدین کو راضی کر کے پوری دنیا کے سامنے پورے رسم و رواج کے ساتھ نکاح کرکے لے جاؤ ۔۔۔ 

" ایسے خود کو اور اسے گناہگار مت بناؤ "۔۔ مکرم کے نرمی سےسمجھایا تو ضرار اس کی بات کا ہدف سمجھ گیا 

ایم سوری میں اپنے رویے پر بہت شرمندہ ہوں ۔۔۔۔ تم بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔۔۔ میں ایسے نکاح نہیں کرتا اگر  زرناب خود کو نقصان پہنچانے کی دھمکی نہ دیتی اس کی  ضد کی وجہ سے کرنا پڑا ۔۔۔۔  

 لیکن اب مجھے کیا کرنا چاہیے ۔۔۔۔ ضرار نے کہتے سوالیہ نظروں سے اس دیکھا ؟ 

تمہیں انتظار کرنا ہے ۔۔۔۔ باقی سب میں دیکھ لوں گا ۔۔۔۔ 

        °°°°°°°°°°=°=°=°°°°°°°°°°°

ضرار کو رخصت کرتے مکرم کمرے میں آیا تو امامہ کو بلینکٹ میں دبکا دیکھ کر چونکا 

صبح سے وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی ۔۔۔ کہ کہیں پھر سے نہ ڈانٹ پڑ جائے  ۔۔۔۔

 ابھی تھوڑی دیر پہلے مکرم نے اسے زرناب کے کمرے سے نکلتے دیکھا تھا پھر اتنی جلدی کیسے سو سکتی تھی وہ ۔۔۔۔  خود سے بچنے کے لئے اس کی معصوم سی تدبیروں پر ہنس  دیا ۔۔۔۔

 امامہ ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم جاگ رہی ہو  ۔۔۔ اس لئے شرافت سے اپنی جگہ پر آجاؤ ۔۔۔اپنی جگہ پر آتے مکرم نے اس کی پشت کو دیکھتے کہا تو امامہ جو اس کے ڈر سے  آنکھیں میچے پڑی تھی اس کی آواز سن کر پٹ سے آنکھیں کھلی تھیں 

اس کی دھمکی پر معصوم صورت بناتے رخ اس کی طرف موڑتے بیچارگی سے ہونٹ چباتے دیکھا تو اس کی حرکتوں پر مکرم کو ٹوٹ کر پیار آیا اپنا ہاتھ اسے کی طرف بڑھاتے مکرم نے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا تو امامہ  گہرا سانس لیتے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق کھسکتے اس کے قریب گئی تو مکرم نے اس کو اپنے سینے سے لگایا 

میری جند سائیں ناراض ہے اپنے شاہ سے ۔۔۔ اس کے چہرے پر جھولتی لٹوں کو ہٹاتے مکرم نے محبت سے پوچھا تو امامہ نے ہونٹ چباتے  اثبات میں سر ہلایا 

شاہ اپنی جند کو منائے گا تو مان جاؤ گی نہ ۔۔۔ مکرم نے اس کی سرخ آنکھوں کو چومتے کہا 

تب بھی امامہ نے منہ پھلائے  نفی میں سر ہلایا 

 جند سائیں ناراض ہے اپنے شاہ سے ۔۔۔ اس کے چہرے پر جھولتی لٹوں کو ہٹاتے مکرم نے محبت سے پوچھا تو امامہ نے ہونٹ چباتے  اثبات میں سر ہلایا 

شاہ اپنی جند کو منائے گا تو مان جاؤ گی نہ ۔۔۔ مکرم نے اس کی سرخ آنکھوں کو چومتے کہا 

تب بھی امامہ نے منہ پھلائے  نفی میں سر ہلایا

 آہ اتنی ناراضگی کہ اپنے شاہ سے بات بھی نہیں کرو گی ۔۔۔ شاہ نے اس کی سرخ چھوٹی سے ناک کو کھینچتے محبت سے پوچھا تو امامہ نے لال ٹماٹر ہوتے ناک سہلاتے اسے گھورا  

ایسے مت دیکھو جند سائیں پھر میرا دل بغاوت پر اتر آتا ہے ۔۔۔۔ مکرم نے اسے قریب کرتے اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکاتے بھاری لہجے میں کہا  

م مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔۔ 

ا آپ نے مجھے ڈانٹا ۔۔۔۔۔ 

امامہ نے نظریں جھکائے دھیمی آواز میں کہا

غلطی کس کی تھی ؟ ۔۔۔۔ مکرم نے ابرو اچکاتے پوچھا 

مم میری ۔۔۔ دھیمی آواز میں جواب دیا 

غصہ کس نے دلایا تھا ؟ ۔۔۔ ایک اور سوال 

میں نے ۔۔۔۔ 

تو قصور وار کون ہوا ؟  ۔۔۔ 

میں ۔۔۔ آخری سوال پر امامہ جھنجھلائی 

اس حساب سے ناراض مجھے ہونا چاہیے جند سائیں۔۔۔ اور یہاں الٹا مجھے تمہیں منانا پڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔

 اس لئے مان جاؤ ورنہ  میرے پاس بہت سے طریقے ہیں منانے کے ۔۔۔ لیکن پھر مشکل تمہارے لئے ہوگی سوچ لو ۔۔۔۔ مکرم نے معنی خیز انداز میں کہا تو وہ سٹپٹا گئی

کک کیا مطلب ؟ ۔۔۔۔

 مطلب سمجھایا تو تم بیہوش ہو جاؤ گی ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی جھکی پلکوں کو چھوتے بھاری گمبھیر لہجے میں کہا اس کے معنی خیز  انداز پر امامہ سٹپٹا گئی  

 آپ نے مجھے اتنی زور سے ڈانٹا ۔۔۔ بات بدلنے کو اس نے منہ بناتے کہا 

 گستاخی معاف جند سائیں ۔۔۔۔

 آج کے بعد نہیں ڈانٹوں گا ۔۔۔۔لیکن تمہیں وعدہ کرنا ہوگا

 کبھی مجھ سے دور جانے کی بات نہیں کرو گی ۔۔۔ 

مکرم نے ہار مانتے سرینڈر کیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا 

 وعدہ کرو عمر بھر ساتھ نبھاؤ گی  ۔۔۔ 

 کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی ۔۔ 

محبت بن کر میری آنکھوں میں رہوں گی ۔۔۔ 

عشق بن کر میری رگوں میں دوڑو گی ۔۔۔ گمبھیر لہجے میں کہتے وہ امامہ کا دل دھڑکا گیا ایک سحر تھا جو اس پر پھونک دیا گیا تھا 

وعدہ کرو جند سائیں ۔۔۔  اس کے فسوں خیر لہجے پر بےخودی میں امامہ نے اپنا ہاتھ مکرم کے ہاتھ پر رکھا ایک سحر تھا جادو تھا جو اس پر پھونک دیا گیا تھا 

وعدہ کرتی ہوں ۔۔۔۔ آنکھوں سے آنکھیں چار ہوئیں تو کھوئے ہوئے لہجے میں کہتے وہ مکرم کو سرشار کرگئی اس کے ہاتھ کو کھینچ کر اپنی سینے سے لگاتے عقیدت سے اس کی پیشانی پر زخم کے نشان  پر  بوسہ دیا تو امامہ سرخ پڑتے اس کے وجود میں چھپنے لگی 

         °°°°°°°°°°°=°=°=°=°°°°°°°°°°°

دوسرے دن وہ لوگ حویلی کے لئے روانہ ہوگئے ۔۔۔ زرناب کو ڈر لگ رہا تھا کہ پتا نہیں اب اس کے ساتھ کیا ہوگا ۔۔۔ 

اس کے برعکس امامہ بہت خوش تھی ۔۔۔ 

مکرم نے شازم شاہ کو اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی 

حویلی میں ان کے استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں چار گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو سب کو اپنا منتظر پایا 

ماشاءاللہ بھابھی دونوں ایک ساتھ کتنے اچھے لگتے ہیں نہ ۔۔۔  ۔۔۔۔۔ امامہ اور مکرم کو ساتھ اندر آتے دیکھ کر ریحاب نے مسکراتے مبشرہ بیگم سے کہا 

بلکل اللّٰہ میرے بچوں کو نظرِ بد سے بچائے آمین ۔۔۔ مبشرہ بیگم نے ان کی بات کی تائید کرتے کہا

 امامہ اور مکرم کے ساتھ زرناب کو دیکھ کر سب کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی اس کی جگہ حیرت اور پریشانی نے لے لی تھی 

 شمعون شاہ غصے سے  اس کی طرف بڑھے 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ۔۔۔۔

" چاچا جان " اس سے پہلے ان کا ہاتھ زرناب کے چہرے پر پڑتا ۔۔۔ مکرم نے بیچ میں آتے انھیں روکا 

ہٹ جاؤ مکرم " ۔۔۔  

چاچا جان پرسکون رہیں .... سب ملازم دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ اندر چل کر بات کرتے ہیں پلیز ۔۔۔ مکرم نے دھیمے لہجے کہتے انہیں ملازموں کا احساس دلایا زرناب ہچکیوں سے رو رہی تھی

بھری دنیا کے سامنے اس نے ہمیں شرمندہ کردیا ۔۔۔۔ ہمارا سر جھکا دیا ۔۔۔ اور تم کہتے ہو پرسکون رہوں ۔۔۔ کیسے بولو ۔۔۔ کیسے پرسکون رہوں ۔۔۔شمعون شاہ نے غصے سے مکرم کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے دھکا دیتے کہا 

تو صورتحال بگڑتے دیکھ کر شازم شاہ نے شمعون کو قابو کیا اور اندر لے گئے 

ان کے جاتے ہی مکرم نے گہرا سانس لیتے مڑ کر زرناب کو دیکھا جو اس ساری صورتحال کی وجہ سے سہمی ہوئی کھڑی تھی 

ریحاب بیگم  ماں تھیں رہ نہ سکیں اس کے پاس جاتے اسے اپنے گلے سے لگایا تو زرناب پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

چاچی جان اندر لے آئیں اسے ۔۔۔۔ مکرم نے امامہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا اور اندر امامہ کو لئے اندر چلا گیا 

      °°°°°=°=°=°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°

شمعون سمجھ داری سے کام لو ۔۔۔۔ بیٹی ہے وہ تمہاری ۔۔۔۔ شازم نے شمعون کو تنبیہ کرتے لہجے میں کہا 

بھائی صاحب آپ میری تکلیف کا انداز نہیں لگا سکتے ۔۔۔ میں اپنے بچوں سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔ ان کا ہر خواب پورا کیا ۔۔۔۔ ہر خواہش پوری کی ۔۔۔ زندگی کی آسائشیں دی ۔۔۔ سب سے بڑھ کر ان پر عتبار کیا 

مجھے یقین تھا ۔۔۔۔کہ میری بیٹی کبھی میرا سر نہیں جھکنے دے گی۔۔۔۔ لیکن اس نے کیا کِیا

ہماری محبت کو ہماری تربیت کو بھاڑ میں جھونک کر چلی گئی 

امامہ میرا خون نہیں ہے لیکن اس نے بیٹی بن کر میرا مان رکھا ۔۔۔۔ اب سے میری ایک بیٹی ہے اور وہ صرف امامہ ہے

 اُسے کہیں جہاں سے آئی ہے وہیں واپس چلی جائے میرے لئے مر گئی ہے وہ ۔۔۔۔ شمعون نے غصے سے کہا بنا جانے کے ان کی بات اندر آتی امامہ نے سن لی ہے 

امامہ کو لگا اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو ۔۔۔۔ یہ سچ کہ وہ شمعون شاہ کی بیٹی نہیں ہے اس کا دل بند ہونے لگا تھا شدت غم سے جسم لرزنے لگا آنکھوں کے کنارے سرخ ہونے لگے  قدم لڑکھڑائے تو دیوار کا سہارا لیا  ۔۔۔ سن ہوتے دماغ کے ساتھ اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے 

اپنی ذات اسے سوالیہ نشان لگ رہی تھی ۔۔۔ آنکھیں اپنے ارزاں ہونے پر اشک بار تھیں ۔۔۔ 

وحشت ہونے لگی تھی اسے خود سے حویلی سے ۔۔۔ چلتے چلتے وہ حویلی کا گیٹ عبور کر گئی 

شمعون ۔۔۔۔ان۔ رازوں کو راز ہی رہنے دو عیاں کرو گے تو سب ختم ہو جائے گا ۔۔۔ رشتے بکھر جائیں گے ۔۔۔۔   

اور جہاں تک بات زرناب کی ہے تو  غلطی اس کی نہیں ہماری ہے ہم نے بچپن میں ان کو ایک دوسرے سے منسوب کرکے غلط کیا ۔۔۔۔ اور پھر بنا بتائے شادی کا فیصلہ لینا جبکہ یہ تمہارا  فرض تھا کہ زرناب سے اس کی رضا مندی معلوم کرو 

اب اسے  الزام دینا انصافی ہوگی 

جزباتی ہے وہ اور جزبات میں آکر  غلطی کردی اس نے ۔۔۔۔۔لیکن اب ہمیں بڑے پن کا ثبوت دینا ہوگا اور اس مسلے کو حل کرنا ہوگا ۔۔

کیا مطلب کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ؟ شمعون نے ان کی بات سن کر سوالیہ انداز میں  پوچھا  تو شازم شاہ نے ساری بات انھیں سمجھا دی  سوائے رزناب کی نکاح والی بات کے 

     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

امامہ کہاں ہے امی ۔۔۔۔ مکرم جو صبح سے ڈیرے پر تھا واپس آیا تو کمرے میں امامہ کو نہ پاکر باہر آتے مبشرہ بیگم سے پوچھا ۔۔۔۔  

 کمرے میں ہوگی بیٹا میں نے اسے نہیں دیکھا  ۔۔۔۔  وہ صبح سے نظر نہیں آئی تھی تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا اب مکرم کے پوچھنے مبشرہ بیگم نے کہا

امی کمرے میں نہیں ہے وہ ۔۔۔۔ میں دیکھ کر آیا ہوں ۔۔۔

اچھا دیکھو جنت کے ساتھ ہوگی ۔۔۔۔ اس سے کافی دوستی ہوگئی ہے نہ اس کی ۔۔۔ مبشرہ بیگم نے کہا تب ہی جنت وہاں آئی 

سائیں میں چھوٹی بی بی سے ملنے آئی تھی کہاں ہیں وہ ؟ ۔۔۔۔ جنت کے پوچھنے پر مکرم نے مبشرہ بیگم کو دیکھا 

اور تھوڑی دیر میں اس نے سارے ملازموں کی دوڑیں لگوا دیں ۔۔۔۔ پوری حویلی چھان ماری لیکن امامہ کہیں نہیں ملی ۔۔۔ سب اس کے اچانک غائب ہونے پر پریشان تھے 

         °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

چھوٹے چودھری ۔۔۔۔جی گاڑی تیار ہے ۔۔۔ 

ہممم چلو ۔۔۔۔ آج شکار کرنے کا مزہ آئے گا ۔۔۔ ولید چودھری نے اپنی بندوق اٹھاتے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھتے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔ ابھی وہ آدھے سفر تک ہی پہنتے تھے کہ ان کے گاڑی جھٹکے سے رکی 

کیا مصبیت ہے گاڑی کیوں روکی ۔۔۔۔ ولید چودھری نے غصے سے ڈرائیور پر دھاڑتے کہا 

صاحب جی ۔۔۔۔ گاڑی کی ٹکر ہوگئی ہے ۔۔۔۔ ڈرائیور نے اس کے غصے سے ڈرتے کہا تو ولید جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا 

نسوانی وجود کو دیکھتے اس نے نیچے بیٹھتے جیسے ہی اس کے چہرے سے بال ہٹائے ۔۔۔۔ ساکت رہ گیا

مکرم نے حویلی کے سب ملازموں کو بلا کر پوچھا لیکن کسی کو امامہ کی اچانک سے غائب ہونے کا علم نہیں تھا ۔۔۔ 

موم کہاں جاسکتی ہے وہ ۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو مجھ سے مل کر آئی تھی کہہ رہی تھی بابا سے بات کرنے جارہی ہے ۔۔۔ زرناب کے کہنے پر شازم شاہ نے چونکتے شمعون کو دیکھا جس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا 

کک کیا ۔۔۔ اس کا مطلب اس نے سب سن لیا ۔۔۔۔ 

کیا سن لیا چاچا جان ؟ ۔۔۔۔ مکرم نے ان کی اڑی رنگت دیکھ کر پوچھا 

یہ ہی کہ ۔۔۔ وہ ہماری بیٹی نہیں ہے ۔۔۔ شمعون کے کہنے پر ریحاب نے حیرت و بےیقینی کے انداز میں انھیں دیکھا جبکہ باقی سب بھی ششدر رہ گئے تھے 

شمعون ۔۔۔۔ ی یہ کیا کردیا آپ نے ۔۔۔۔ سب ختم کردیا ۔۔۔۔ اب ہم اسے کہاں ڈھونڈیں گے ۔۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو ۔۔۔ اور اس تو سے آگے کوئی کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا 

 تحمل سے کام لیں  ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ 

شمعون مجھے لگتا ہے اب وقت آگیا ہے سب کو سچ بتانے کا  ۔۔۔۔ شازم شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو سب کی سوالیہ نظریں ان کی طرف اٹھیں 

سب ٹھیک تو تب ہوگا نہ جب امامہ ملے گی ابھی تو آپ لوگ اسے ڈھونڈیں

کچھ نہیں ہوگا اسے ۔۔۔۔ میں اسے کچھ نہیں ہونے دوں گا  ۔۔میں اسے ڈھونڈ کر واپس لاؤ گا بابا ۔۔۔ مکرم نے ریحاب بیگم کو روتے دیکھ کر کہا  

 آبان ۔۔۔ 

حکم سائیں ؟۔۔۔ 

میرے ساتھ آؤ۔۔۔  مکرم نے گاڑی کی طرف جاتے آبان سے کہا جو اس کے کہنے پر ڈرائیونگ سیٹ پر جاکر بیٹھا مکرم کے بیٹھتے ہی گاڑی حویلی سے روانہ ہوگئی 

           °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

وہ جو کوئی بھی تھی بلاشبہ حسن کر پیکر تھی اس کا سنہرا روپ ۔۔۔۔۔چودیویں کے چاند کی مانند چمکتا چہرہ ۔۔۔۔۔ ولید چودھری کو مہبوت کر گیا 

 واللہ کیا حسن ہے ۔۔۔۔ ہم نے بہت سے حسین چہرے دیکھے لیکن ایسا حسن ایسی معصومیت ایسی دلکشی ولید چودھری کو کسی چہرے میں نظر نہیں آئی ۔۔۔۔ 

اس نے  امامہ کی سیاہ زلفوں کو سنوارے بھاری لہجے میں کہا جو بیہوش پڑی تھی 

 صاحب جی مجھے لگتا ہے مر گئی ہے یہ  ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کوئی آپ کو یہاں دیکھ لے چلیں یہاں سے ۔۔۔ ڈرائیور نے آس پاس نظریں دوڑاتے کہا تو ولید نے غصے سے اسے گھورا 

او تُو تو چُپ کر ۔۔۔۔ جب بھی منہ کھولے گا کچھ منحوس ہی بولے گا ۔۔۔۔ چل گاڑی سٹارٹ کر ۔۔۔ ہم واپس جارہے ہیں ۔۔۔ ولید نے اسے جھڑکتے کہا اور امامہ کو اٹھاتے گاڑی کی طرف بڑھا 

 سرکار یہ لڑکی بھی ساتھ جائے گی کیا ۔۔۔۔ ڈرائیور نے تعجب سے امامہ کو دیکھتے پوچھا تو ولید نے خطر ناک گھوری سے نوازا کہ اگر اب ایک اور لفظ بولا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔

وہ جی میں تو اس لئے کہہ رہا تھا کہ یہ شاہوں کا علاقہ ہے کہیں کسی مصیبت میں نہ پھنس  جائیں ۔۔۔۔ اس کی گھوری پر ڈرائیور گڑبڑایا 

در فٹے منہ تیرا ۔۔۔۔ اوئے مجھ سے بڑی مصبیت کوئی ہے ؟ نہیں نہ ۔۔۔۔۔۔ چل اب دروازہ کھول ۔۔۔ نہیں تو تیرا شکار کرلوں گا ۔۔ 

  ۔۔۔۔ اس کی وارن کرتی نظروں پر ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا  ولید نے امامہ کو پیچھے لٹایا جبکہ خود وہ ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھا اور جیسی ہی گاڑی سٹارٹ ہوئی ایک دھماکے سے جھٹکا کھاتے رک گئی 

بڑی ہی کالی زبان ہے تیری ۔۔۔ دیکھ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ ولید نے ڈرائیور پر دھاڑتے کہا جو خود بھی اس اچانک افتادہ پر گھبرایا ہوا تھا 

تجھ سے کچھ نہیں ہوگا مجھے ہی دیکھنا پڑے گا ۔۔۔ اس کی اڑی رنگت دیکھ کر ولید نے غصے سے کہا 

سرکار سامنے دیکھیں ۔۔۔ ڈرائیور کی گھبرائی ہوئی آواز پر اس نے جیسے ہی سامنے دیکھا مکرم شاہ کو گن تھامے  دیکھ کر پیشانی پر بل پڑے جو سرخ آنکھوں سے اسے ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی ٹکڑے ٹکڑے کردے گا ۔۔۔۔ 

 اب ان کو کیا موت پڑ گئی ہے ۔۔۔ چل دیکھتے ہیں نکل باہر ۔۔۔۔ کہتے اپنی بندوق سنبھالے وہ باہر نکلا ۔۔۔ 

سلام شاہ جی ۔۔۔۔ ہم پوچھ سکتے ہیں ہمارا راستہ کیوں روکا گیا ہے ۔۔۔۔ باہر آتے ولید نے وہیں سے آواز لگاتے پوچھا تو مکرم اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ 

اس کے قریب سے گزرتے گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے امامہ کو اٹھایا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ 

کہاں لے جارہے ہو اسے یہ ہماری ہے ۔۔۔۔ ولید نے اسے امامہ کو اپنی گاڑی میں لیٹاتے دیکھ کر چلاتے کہا اور اس کی طرف بڑھنے لگا جب آبان نے سامنے آتے اس کے ہاتھ سے بندوق چھینتے  گن تانی تو ولید کے قدم وہیں رک گئے ۔۔۔  

اس کے امامہ کو ہماری کہنے پر مکرم نے شدت ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی جس سے اس کی ہاتھ پر رگیں ابھر آئیں 

ہونٹ بینچتے وہ آرام سے امامہ کو گاڑی میں لٹاتے واپس مڑا

ولید چودھری ۔۔۔۔ وہ تمہاری نہیں میری ہے ۔۔۔۔ میری بیوی ۔۔۔۔۔۔ اس گاؤں کے سردار کی بیوی ۔۔۔۔ اگر وہ تمہاری کچھ لگتی ہے تو بہن 

سنا تم نے  

بہن ہے وہ تمہاری ۔۔۔۔۔ اگر اس کے لئے تمہارے دماغ میں کوئی گھٹیا سوچ آئی تو ۔۔۔۔ قسم کھاتا ہوں ۔۔۔۔ تمہاری کھوپڑی کے اتنے ٹکڑے کروں گا ۔۔۔۔۔۔ کہ کوئی گن نہیں پائے گا ۔۔۔ 

اب  اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو بھولے سے بھی کبھی مجھے اس علاقے میں نظر نہ آنا ۔۔۔۔ سمجھے ۔۔ مکرم نے سرد و سپاٹ لہجے میں اس کے چہرے پر پھنکارتے کہا اور اس کا کاندھا تھپتھپایا 

 ولید نے غصے سے  اسے گھورا لیکن کچھ کہنے کی جرات نہیں کی 

مکرم نے دائیں ابرو اٹھاتے اسے دفع ہونے کا اشارہ کیا تو ولید ڈرائیور کو اشارہ کرتے گاڑی میں جاکر بیٹھا ۔۔۔ جبکہ ڈرائیور بیچارا گاڑی کا ٹائر بدل رہا تھا جو مکرم نے بلاسٹ کیا تھا 

      °°°°°°°°°°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°°°°°°°

آبان میں حویلی جارہا ہوں تمہارے لئے دوسری گاڑی بھیج دوں گا جب تک یہ لوگ چلے نہیں جاتے تم یہاں سے ہلنا مت   ۔۔ مکرم نے آبان سے کہا اور گاڑی میں بیٹھتے ایک نظر امامہ کو دیکھتے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔ 

امامہ نے سر میں اٹھتی ٹھیس پر کراہتے بامشکل آنکھیں کھولیں تو نظر سیدھا مکرم پر پڑھی غائب دماغی سے وہ اسے دیکھتے صورتحال سمجھنے کی کوشش کررہی تھی جب اسے شمعون اور شازم کی باتیں یاد آئی ۔۔۔

تو آنکھیں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا  

شش شاہ ۔۔۔۔ دل میں اٹھتے درد پر سسکتے اس کے لبوں سے شاہ نکلا 

مکرم جو اسے ہوش میں آتے دیکھ کر بنا نوٹس لئے  لاتعلق سا بیٹھا تھا ۔۔۔ اس کے لبوں سے شاہ سنتے دل نے ساری لاتعلقی بھاڑ میں  جھونک دی ۔۔۔ 

اس نے درد میں پکارا تھا اسے مطلب وہ اسے اپنا سمجھتی تھی ۔۔۔ 

مکرم  گاڑی سائڈ پر روکتے اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ 

کیا ہوا شاہ کی جِند ۔۔۔۔ درد ہورہا ہے ۔۔۔۔ مکرم کا پوچھنا تھا کہ امامہ اس کے سینے سے لگتے بلک بلک کر روئی اتنا روئی کہ مکرم پریشان ہوگیا 

شش شاہ ۔۔۔بابا نے کہا ۔۔۔ م میں ان کی بیٹی نہیں ہوں ۔۔۔۔ میں ان کا خون نہیں ہوں ۔۔۔۔ وہ میرے امی بابا نہیں ہیں ۔۔۔۔ 

 میرا ک کوئی نہیں یہاں ۔۔۔امامہ نے ہچکیوں سے روتے کہا تو مکرم کا دل تڑپ اٹھا 

ایسا نہیں ہے میری جان ۔۔۔۔ تم چاچا چاچی کی بیٹی ہو ۔۔۔ ہمارا خون ہو ۔۔۔ 

خود کو اکیلا مت سمجھو ۔۔۔ میں ہوں نہ اپنی جند سائیں کے لئے ۔۔۔۔۔ کبھی اکیلا نہیں ہونے دوں گا تمہیں ۔۔۔ مکرم نے اس کی بھیگی آنکھوں کو چومتے کہا 

اا آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گے نہ ۔۔۔۔ 

مم میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ 

مجھے پتا ہی نہیں چلا کب مجھے آپ سے محبت ہوگئی ۔۔۔۔

 امامہ اپنے شاہ کے بنا نہیں رہ سکتی ۔۔۔ 

سنا آپ نے؟ 

امامہ مر جائے گی ۔۔۔۔ اس کے دل کے مقام پر سر رکھ کر کہتے وہ مکرم کو دیوانہ کر گئی 

اگر اس وقت صورتحال نارمل ہوتی  تو اس اظہار پر  مکرم پتا نہیں کیا کر جاتا 

مکرم صرف امامہ کا تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا 

جسم رہ کے بنا کر جاتا ہے ۔۔۔ ویسے کی مکرم امامہ کے بنا زندہ نہیں رہے گا ۔۔۔ اس کے دل میں اٹھتے وسوسوں کو سمجھتے مکرم نے اس کی کان میں سرگوشی کی تو امامہ کے بےقرار دل کو سکون آگیا ۔۔۔ 

لیکن یہ سکون وقتی تھا 

اگر زرناب آپی نے کہا کہ آپ ان سے شادی کرلیں تو آپ مجھے چھوڑ دیں گے ۔۔۔۔ اس کے دماغ کے کںھلبلاتا  سوال زبان پر آ ہی گیا 

ایسا ممکن نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ زرناب کی شادی ہونے والی ہے اس لئے ایسی سوچوں کو اپنے دماغ سے نکال دو جند سائیں۔ 

چھوٹو سا تو دماغ ہے میرے جگر کے ٹوٹے کا وہ بھی اتنا کچھ سوچتا رہتا ہے ۔۔۔ وہ بھی سب فضول ۔۔۔ 

مجھے کیوں نہیں سوچتی ہمم ؟  ۔۔۔۔ مکرم نے اس کی سرخ ناک پر ہونٹ رکھتے مسکراتے پوچھا تو امامہ نے سرخ ہوتے اسے آنکھیں دیکھائی 

ماشاءاللہ چشم بدور ۔۔۔ جند سائیں ایسے بیویوں والی ادائیں دیکھاتے تم بہت کیوٹ لگ رہی ہو ۔۔۔ مکرم نے اس کی انداز کر ہنستے کہا تو سرخ پڑتے امامہ سر جھکا گئی اس کے جھکے سر پر ہونٹ رکھتے مکرم نے گاڑی سٹارٹ کی 

شاہ ۔۔۔۔ مجھے حویلی نہیں جانا 

 •••••••••••••••••••••••••••••••

شاہ ۔۔۔۔۔مجھے حویلی نہیں جانا ۔۔۔۔ 

کیوں ؟ ۔۔۔۔ ڈرائیونگ کرتے مکرم نے ابرو اچکاتے پوچھا

میرا دل نہیں کر رہا ۔۔۔ آپ پلیز مجھے اپنے ساتھ لے چلیں ہمارے گھر ۔۔۔۔امامہ نے رندے لہجے میں کہا تو مکرم گہرا سانس بھر کر رہ گیا 

بیوی یار ۔۔۔۔۔ تم میری بات سمجھ نہیں رہی ۔۔۔۔ تھوڑا سا صبر کر لو ۔۔۔ 

بہت جلد ساری حقیقت سامنے آ جائے گی ۔۔۔

 یہ خیال اپنے دل سے نکال دو کہ تم ہمارا خون نہیں ۔۔۔۔

 تم ہم میں سے ہی ہو ۔۔۔ اس لئے فضول میں اپنا دل نہ جلاؤ ۔۔۔ مکرم نے نرمی سے اسے سمجھاتے کہا اور اس کی سنے بنا گاڑی کا رخ حویلی جاتی سڑک کی طرف موڑ دیا 

         °°°°°°°°°°=°=°=°=°°°°°°°°°

ضرار یہ تم کیا کرنے جارہے ہو ۔۔۔ میں سمجھا رہا ہوں تمہیں ۔۔۔ مت جاؤ ۔۔۔ 

اور کتنی بار شرمندہ کرواؤ گے ہمیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ عازم خان نے غصے سے کہا تو ضرار نے مسکراتے انھیں دیکھا 

ڈیڈ ۔۔۔۔ اس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا بس جیسا میں آپ کو کہوں گا آپ سب نے بالکل ویسے کرنا ہے ۔۔۔ اور دھیان رہے کسی کو میرے اور زرناب کے نکاح کی بھنک تک نہیں پڑنی چاہیے ۔۔۔۔ 

میں باہر گاڑی میں آپ سب کا ویٹ کروں گا 

) جلدی آئیں سب ۔۔۔ ضرار نے انھیں سمجھاتے کہا اور باہر نکل گیا 

بھابھی آپ لوگ جائیں مجھے نہیں جانا ۔۔۔ زینت  بیگم نے رومیسہ سے کہا 

زینت جانتی ہو نہ تمہیں لئے  بنا وہ کبھی نہیں جائے گا ۔۔۔۔ تم گھبراؤ نے ان شاءاللہ سب بہتر ہوگا ۔۔۔ 

چلو ۔۔۔ رومیسہ بیگم نے اس کی کیفیت سمجھتے کہا تو زینت بے بسی سے انھیں دیکھ کر رہ گئی اور پھر تھوڑی دیر میں ہی یہ پانچ لوگوں پر مشتمل قافلہ شاہ حویلی کی طرف روانہ ہوگیا ۔۔۔

        °°°°°°°°°=°=°=°=°=°=°°°°°°°°

امامہ میری جان  کہاں چلی گئی تھی تم ۔۔۔ جانتی ہو کتنا پریشان ہوگئے تھے ہم ۔۔۔۔

مم میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں ۔۔۔۔ آپ سب نے مجھ سے جھوٹ بولا مجھے دھوکے میں رکھا ۔۔۔ کیوں ؟۔۔۔۔

 کیوں کیا ایسا ؟ ۔۔۔۔ 

بولیں ؟ ۔۔۔۔ 

کون ہیں میرے ماں باپ ؟ ۔۔۔۔۔ 

بولیں پلیز ۔۔۔۔ امامہ نے روتے شدتِ غم سے نڈھال ہوتے کہا تو ریحاب بیگم نے اسے گلے لگایا 

 میری جان ہم نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔۔۔۔ تم ہماری بیٹی تھی ہو اور رہو گی سنا تم نے  ۔۔۔ ریحاب بیگم نے اس کی پیشانی چومتے کہا تب ہی ملازم نے مہمانوں کی آمد کی خبر دی ۔۔۔ 

امامہ بیٹا رونا بند کرو تمہیں تمہارے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے  ۔۔۔ ابھی تک  جاکر زرناب کو دیکھو تیار ہوگئی ہے یا نہیں ۔۔۔۔ 

اس کے ہونے والے سسرالی آئے ہیں ۔۔۔ ریحاب بیگم نے اس کے آنسو پونچھتے آنکھوں میں الجھن دیکھتے پوری بات بتائی تو امامہ اثبات میں سر ہلاتے سڑھیوں کی طرف بڑھ گئی 

     °°°°°°°°=°=°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°°°°

شازم شاہ سب سے ملتے زینت بیگم کی طرف بڑھے جو ہچکچائی سی ایک طرف کھڑی تھیں 

 شازم شاہ کو دیکھتے زینت نے سر جھکایا تو شازم نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ ان کا ہاتھ رکھنا تھا کہ زینت کی سسکی نکلی اور آنسو گال بھگونے لگے 

رونا بند کرو میری بہن  ۔۔۔۔ جانتا ہوں قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ سہہ  ہے تم نے ۔۔۔ بہت صبر کیا تم نے 

 اور اب تمہارے صبر کا پھل ملنے والا ہے ۔۔۔ جس سے تمہارے زخم مٹیں گے تو نہیں لیکن بھر ضرور جائیں گے ۔۔۔۔۔  شازم نے اسے روتے دیکھ کر نرمی سے کہا تو زینت نے ناسمجھی سے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

تمہارے سب سوالوں کے جواب اندر ہیں

چلو ۔۔۔۔ شازم نے کہتے اندر کی طرف قدم بڑھائے تو باقی سب بھی اندر چلے گئے 

          °°°°°°°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°°

بازغہ بیٹا کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہو ۔۔ بازغہ کو گم صُم دیکھ کر ریحاب بیگم نے پوچھا 

کچھ نہیں آنٹی بس یہ سوچ رہی ہوں کہ ہمیں یہاں دیکھ کر  امامہ کا کیا ریکشن ہوگا ۔۔۔

بازغہ نے مسکراتے کہا تب ہی  امامہ زرناب کے ساتھ اندر آئی تو سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے 

اسلام علیکم ۔۔۔ امامہ اور زرناب نے ایک ساتھ سلام کیا ضرار کو دیکھ کر زرناب کو خوشی کے ساتھ حیرت ہوئی اس نے پھٹی حیران کن نظروں سے شمعون شاہ اور ریحاب کو دیکھا اسے کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا

جبکہ امامہ تو بازغہ اور ضرار کو دیکھتے ساکت رہ گئی تھی 

میری جگر ۔۔۔۔ بازغہ اسے دیکھتے رہ نہ سکی اور اس کے گلے جا لگی آخر اتنے دن اس سے دور رہی تھی  ۔۔۔۔ اس کی اس بچگانہ حرکت پر سب ہنس دئیے تھے جبکہ امامہ جو ضرار کو دیکھ رہی تھی چونکتے بازغہ کی طرف متوجہ ہوئی  ۔۔۔ 

آج ضرار کو دیکھ کر اس کے دل میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی ۔۔۔ 

دل ایک دم ساکت اور خالی خالی تھا ۔۔۔۔

 اسے اجنبیت کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوا تھا ۔۔۔ 

جبکہ اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھے مکرم کو دیکھتے امامہ کے دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی ۔۔۔۔

 جو بھوری چمکتی پر شوخ نگاہوں سے اپنی چھوٹی سے جِند کو دیکھ رہا تھا

 نظر ملنے پر مکرم دلکشی سے مسکرایا جس سے اس کے گال میں پڑتا گڑھا نمودار ہوا تو مہبوت رہ گئی 

کہاں چلی گئی تھی تم  ۔۔۔۔ جانتی ہو کتنا مس کیا میں نے  تمھیں ۔۔۔ بازغہ نے پر نم لہجے میں  شکوہ کیا تو امامہ نے مکرم سے نظریں ہٹائیں 

میں نے بھی بہت مس کیا ۔۔۔ امامہ کے کہنے پر بازغہ نے اسے گھورا 

جھوٹی ۔۔۔۔ 

دھوکے باز ۔۔۔ 

بے وفا لڑکی  ۔۔۔۔ کوئی مس وس نہیں کیا تم نے ۔۔۔۔ 

 میرے بنا شادی کیسے کر لی ہنن ۔۔۔ 

 جیجو دیکھ لیں اپنی چلاک بیوی کو ۔۔۔ وعدہ کیا تھا ہم نے کہ ایک ساتھ شادی کریں گے 

اور اب اس نے مجھے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔۔ بازغہ نے امامہ سے کہتے مکرم کو مخاطب کیا جو دلچسپی سے انھیں دیکھ رہا تھا 

امامہ کا سرخ چہرہ دیکھ کر  ہاتھ کی مٹھی لبوں پر رکھے  اپنی مسکراہٹ  ضبط کی 

 بازغہ ۔۔۔۔ بس کردو اب ۔۔۔۔ امامہ کو مشکل میں دیکھتے رومیسہ بیگم نے بازغہ کو آنکھیں دیکھاتے خاموشی سے  واپس بیٹھنے کا اشارہ کیا

اتنی آسانی سے نہیں چھوڑو گی بیسٹی بہت سخت ناراض ہوں میں تم سے ۔۔۔ بازغہ نے اس کے طرف جھکتے دھیمی آواز میں کہا اور دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئی 

جبکہ امامہ نے فلحال  اپنی جان خلاصی پر شکر کا سانس لیا 

                 °°°°°°=°=°=°=°°°°°°

وہ سب باتیں کر رہے تھے جب شازم شاہ نے مکرم کو اشارہ کیا تو اثبات میں سر ہلاتے وہ اٹھتے اندر چلا گیا 

جب واپس آیا تو وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ابتسام شاہ تھے جو ویل چئیر پر بیٹھے تھے 

ان کے لاونج میں آتے ہی خاموشی چھا گئی 

زینت کو دیکھتے ابتسام کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے 

 آپ سب کے یہاں جمع ہونے کا مقصد زرناب اور ضرار کی شادی ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے ۔۔۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو پوشیدہ ہیں ۔۔۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان باتوں سے پردہ اٹھا دیا جائے 

زینت ۔۔۔۔ شازم نے کہتے زینت کو آواز دی جس نے چونکتے ان کی طرف دیکھا 

شازم نے امامہ کا ہاتھ پکڑا اور جاکر زینت کے ہاتھ میں دے دیا ۔۔۔ یہ رہا تمہارے صبر کا پھل ۔۔۔۔

 تمہاری بیٹی منام اشہد خان ۔۔۔۔ شازم شاہ کے کہنے پر سب ساکت رہ گئی  امامہ اور  زینت بیگم کا دماغ ماؤف ہوگیا سر میں دھماکے ہونے لگے ۔۔۔ 

پھٹی آنکھوں سے بےیقینی سے وہ دونوں شازم شاہ کو دیکھ رہیں تھیں  

بب بھائی ی یہ میری بیٹی ۔۔۔۔ ا ایسا ک کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ زینت نے صدمے کی کیفیت میں کہا 

یہ ہی سچ ہے زینت ۔۔۔۔ امامہ تمہاری بیٹی ہے ۔۔۔۔ 

اس دن وہ ایکسڈنٹ ایک حادثہ نہیں سوچی سمجھی سازش تھی ۔۔۔ جو اشہد کے بزنس پارٹنر نے کی تھی ۔۔۔ کمپنی کی لالچ میں اس نے اشہد کو ماروا دیا ۔۔۔ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو اشہد زندہ تھا اس نے ہمیں سب بتا دیا اور اسی کے کہنے پر ہم نے امامہ کو دنیا والوں کے سامنے مرا ہوا ثابت کردیا جبکہ ایسا نہیں تھا

اس دن معجزاتی طور پر امامہ بچ گئی تھی 

اس سے پہلے ہم اشہد کو لے کر ہسپتال پہنچتے وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا 

 لیکن اس نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم امامہ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ کیونکہ اس نے اپنی جائیداد امامہ کے نام کردی تھی اگر ان لوگوں کو پتا چلا کہ امامہ زندہ ہے تو وہ اسے بھی مار دیں گے 

انہی دنوں شمعون کے ہاں مردہ بچے کی پیدائش ہوئی ۔۔۔۔ تب ہم نے امامہ کو شمعون کی بیٹی بنا دیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔۔۔ لیکن یہاں بھی کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ امامہ تمہاری بیٹی ہے 

لیکن اب جب مکرم نے ان لوگوں سے اشہد کی جائیداد واپس لے کر اس کے قتل کے کیس میں انھیں عمر قید کی سزا دلوا دی ہے  اب امامہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا ۔۔۔ 

بھائی ۔۔۔۔آپ مجھے تو بتا سکتے تھے نہ ۔۔۔ اتنے سال میں اپنی بیٹی سے دور رہی۔۔۔۔ اس کو مرا ہوا سمجھ کر روتی رہی تڑپتی رہی  ۔۔۔۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔ زینت نے روتے کہا 

میری بیٹی ۔۔۔۔ میری منام ۔۔۔۔ زینت نے امامہ کو ساکت آنسو بہاتے دیکھ کر چومتے اپنے سینے سے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

      °°°°°°°°°°°°°°′′′°°°°°°°°°″′°°°°°°°°°°°

 ضرار اور زرناب کی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی تھی ۔۔۔ وہ لوگ آج کی رات حویلی میں رک گئے تھے ۔۔۔۔ 

زینت بیگم نے امامہ کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی تھی ۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ امامہ  کی رخصتی پورے رسم و رواج کے ساتھ  اس کے بابا کے گھر سے ہو ۔۔۔۔ ان کے اس خواہش کا احترام کرتے شازم نے اجازت دے دی تو مکرم جو منع کرنے والا تھا شازم کو دیکھ کر رہ گیا 

رات کے گیارہ بجے کا وقت جب مکرم بےچینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا امامہ کے بنا اسے یہ کمرہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا  

 وہ زینت بیگم کے ساتھ ان کے کمرے میں تھی مکرم کا بس نہیں چل رہا تھا اسے اٹھا کر واپس لے آئے ۔۔۔۔ 

جند سائیں کیا کردیا ہے تم نے ۔۔۔۔ اتنی بری عادت ڈالی ہے اپنی کہ اب سانس لینا مشکل لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔ بہت دیر ٹہلنے کے بعد جب اسے سکون نہ آیا تو گہرا سانس لیتے وہ کمرے سے باہر نکل گیا 

           °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

 رات پیاس لگنے پر اس کی آنکھ کھلی  مندی مندی آنکھیں کھولتے  سائڈ ٹیبل سے جگ اٹھایا تو وہ خالی تھا 

پیاس کی شدت پر مجبوراً اس نے اپنے کھلے بالوں کو جھوٹے میں قید کیا اور جگ اٹھائے باہر نکل گئی 

حویلی میں ملگجا سا اندھیرابتھا نیند کے خمار میں ڈوبے سڑھیوں سے اترتے وہ سامنے آنے والے وجود کو دیکھ نہ پائی اور زبردست تصادم ہوتے نیچے گرنے کو تھی جب مقابل نے سختی سے اس کی نازک کمر کے گرد حصار باندھتے کھینچا 

چور ۔۔۔۔۔ خود کو آہنی گرفت میں قید دیکھ کر اس کی نیند اڑن چھو ہوگی ۔۔۔اس کے چور چلانے پر مقابل نے سختی سے ہاتھ اس کے ہونٹوں پر جمایا 

"ششش خاموش رہو "

"شش خاموش رہو " 

دلاور جو ابھی آیا تھا  صبح سب سے ملنے کا ارادہ کرتے تھکا ہارا آرام کرنے کے غرض سے کمرے میں جارہا تھا کہ اچانک آن وارد ہوتی اس مصبیت پر جھنجھلایا 

بازغہ اس کی پکڑ میں سٹپٹائی ۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کے لئے سوہان روح تھی کہ وہ کسی مرد کی باہوں میں اس کے اتنے قریب کھڑی ہے ۔۔۔۔ اس کے پسینے چھوٹ گئے تھے ۔۔ دلاور نے موبائل کی ٹارچ آن کرتے اس کے منہ پر ماری ۔۔۔۔ 

 اچانک لائٹ پڑنے پر بازغہ کی آنکھیں چندھیا گئیں اس کی بند لرزتی پلکوں اور ماتھے پر چمکتے پسینے کے ننھے قطرے دیکھ کر دلاور چونکا ۔۔۔۔ اور پھر نرمی سے ہاتھ اس کے لبوں سے ہٹایا ۔۔۔۔ 

تم یہاں کیا کررہی ہو۔ ۔۔۔۔ بازغہ کو پہچانتے اس نے سنجیدگی سے پوچھا پہلے بھی امامہ کے ساتھ وہ بازغہ کو دیکھ چکا تھا کئی بار وہ ان کے گھر بھی آئی تھی 

دد دور ہٹیں ۔۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے ؟ ۔۔۔ 

آپ کو شرم نہیں آتی رات دھاڑے حسین لڑکی کو ڈراتے حراساں کرتے ۔۔ایسے چوروں کی طرح گھر آتے ہیں ۔۔ دلاور کو دیکھ کر بازغہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے غصے سے لال ہوتے کہا 

مس حسین لڑکی ۔۔۔۔ اندھوں کی طرح آپ چل رہی تھیں ۔۔۔ مجھ سے آپ ٹکرائی  ۔۔۔ 

اگر میں کہوں کہ رات دھاڑے آپ مجھ پر ڈورے ڈال رہی ہیں 

 یا مجھے لوٹنے کے ارادے سے مجھ سے ٹکرائی ہیں تو کیا یہ جھوٹ ہوگا ۔۔۔دلاور کو تو اس کے انداز پر پتنگیں لگ گئی ۔۔۔

 اسی کے انداز میں جواب دیتے وہ بازغہ کا پارہ ہائی کر گیا  

دیکھیں مسٹر دلاور مانا آپ میری بیسٹی کے بھائی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھ سے اس طرح بات کریں ۔۔۔۔  آپ جانتے نہیں مجھے ۔۔ 

کوئی بات نہیں اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو جان پہچان بھی بڑھا لیتے ہیں اس میں کون سا وقت لگتا ہے ۔۔۔ وہ دونوں لڑتے بحث کرنے میں مصروف تھے اس بات کا احساس کئے بنا کہ کوئی ان دونوں کو اس وقت اس حالت میں دیکھ لیتا تو کیا ہوتا 

بہت بدتمیز ہیں آپ ۔۔۔ بازغہ کے غصے سے کہنے پر دلاور کمینگی سے مسکرایا 

 ابھی تم نے میری بدتمیزی کے مظاہرے دیکھے کہاں ہیں پریٹی گرل ۔۔۔۔ دلاور نے اس کے جلنے کڑنے پر دل جلاتی مسکراہٹ پاس کرتے اس کے سرخ گال کھینچتے کہا 

استغفراللہ ۔۔۔ بازغہ نے اس کی زومعنی انداز میں کہی بات پر بےساختہ نگاہیں پھیرتے کہا تو دلاور اس کے انداز پر ہنس دیا  

گڈگرل ایسے ہی توبہ کرتی رہا کرو ۔۔۔۔ جنت میں ایک ساتھ جائیں گے ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا  میری ہمسفر جہنم میں جلے   ۔۔۔۔ دلاور نے اس کی طرف جھکتے سرگوشیانہ انداز میں کہا اور اس سے دور ہوتے اپنے بیگ اٹھائے سڑھیوں کی طرف بڑھ گیا جبکہ بازغہ تو اس کی سرگوشی پر ساکت رہ گئی تھی 

ہننن بدتمیز انسان ۔۔۔ سمجھتا کیا ہے خود کو ۔۔۔۔ ٹھرکی نہ ہو تو ۔۔۔۔

  امامہ کا بھائی ہے اس لئے چھوڑ دیتی ہوں ورنہ دن میں تارے دیکھا دو ایسی ہوں میں ۔۔۔۔ اندھیرے میں اس کی پشت کو گھورتے بڑبڑاتے وہ کوفت سے کچن کی طرف بڑھ گئی 

     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

دوسری طرف مکرم زینت بیگم کے کمرے کے باہر کھڑا تھا دروازہ کھٹکانے کو ہاتھ بڑھاتا  پھر یہ سوچ کر  

"پھوپھو کیا سوچیں گی"   واپس کھینچ لیتا 

آخر تھک ہار کر اس نے دروازہ کھٹکانے کی ہمت کر ہی لی ۔۔۔ 

پہلی سے دوسری دستک پر زینت بیگم کے بجائے امامہ نے دروازہ کھولا ۔۔۔۔ تو سامنے مکرم کو دیکھ کر آنکھیں پھیلی جبکہ مکرم کی تو مراد بھر آئی تھی 

"آپ "

" ہششش " پھپھو سو رہی ہیں ؟ مکرم نے اس کے لبوں پر انگشت شہادت رکھتے بیڈ پر سوئی زینت بیگم کو دیکھا اور ان کے نیند میں ہونے کا یقین کرتے امامہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر کھنچتے دروازہ بند کیا 

یہ کیا کررہے ہیں آپ ؟  ۔۔۔۔ امامہ اس ساری کاروائی پر ہکا بکا رہ گئی مکرم نے ٹارچ آن کرتے اسے دیکھا جس کی نیند کے خمار سے سرخ آنکھوں میں حیرانی تھی ۔۔ سلیپنگ سوٹ میں ملبوس ۔۔۔ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے ۔۔جس سے لٹکیں نکل کر گلابی چہرے پر جھول رہی تھیں ۔۔ مکرم اس کا خوابیدہ حسن دیکھ کر مہبوت رہ گیا 

یہ سوال مجھے تم سے پوچھنا چاہیے جند سائیں ۔۔۔ کیا کِیا ہے تم نے میرے ساتھ ۔۔۔۔ مکرم نے اسے دیوار سے لگاتے اطراف میں ہاتھ رکھتے اس کی طرف جھکتے بھاری لہجے میں کہا تو امامہ اس کے بدلے انداز پر گھبرا گئی 

مم میں نے تو کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔  کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔۔ 

جند سائیں میرا دل ۔۔۔۔۔ میرا سکون ۔۔۔۔ میرا چین قرار  سب لوٹ کر تم جو یوں انجان بن رہی ہو 

 یہ ستم نہیں تو کیا ہے ۔۔۔ 

اس ستم پر دل کرتا ہے ایسی سزا دو کہ تمہیں اپنی ہر آتی جاتی سانس سے میری مہک آئے۔۔۔۔ 

تم بھی میری دوری پر یونہی بے چین رہو ۔۔۔ 

اس کی لرزتی انگلیوں میں انگلیاں الجھاتے گمبھیر لہجے میں کہا تو امامہ کے وجود میں سنسناہٹ دوڑی ۔۔۔ مکرم کا انداز اسے لرزا گیا تھا عادت سے مجبور ہونٹ چباتے اس نے مکرم کو دیکھا 

جس کی آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد تھا 

مکرم کی نظر اس کی ہونٹوں پر گئی تو اسے اپنے حلق میں کانٹے سے چبھتے محسوس ہوئے ۔۔۔۔ 

ان پر کیوں ظلم کرتی ہو بیوی ۔۔۔۔ ایسی ادائیں دیکھاؤ گی تو بچنا مشکل ہو جائے گا ۔۔۔ مکرم نے اس کے ہونٹوں پر انگوٹھا پھیر کر آزاد کرواتے زومعنی انداز میں کہا تو اس کے لمس اور  نظروں کی گرمی پر امامہ کو اپنا آپ جلستا محسوس ہوا چہرے پر لالی بکھر گئی 

مم مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔۔۔ اس کی ساری باتوں کے جواب میں  نیند کے خمار سے سرخ نگاہیں جھکائے اس نے کانپتے لہجے میں کہا تو مکرم گہرا سانس بھر کر رہ گیا 

ہممم ٹھیک ہے جاؤ ۔۔۔ سو جاؤ ۔۔۔ میری نیند اڑا کر اپنی نیندیں پوری کر لو ۔۔۔اب جب میرے پاس آؤ گی تب  میری باری ہوگی  ۔۔۔۔ نیندیں اڑانے کی ۔۔۔۔۔۔

مکرم نے اس کی پیشانی  چومتے رہا کیا تو امامہ نے جھٹ سے کمرے میں جاتے دروازہ بند کیا مکرم اس کی تیزی پر دلکشی سے ہنس دیا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

دوسری صبح دلاور کو وہاں دیکھ کر سب کی خوشی میں اضافہ ہوگیا ۔۔۔ جبکہ بازغہ نے اسے دیکھ کر ناک بھوں چڑھایا جیسے رات کا غصہ ابھی بھی کم نہ ہوا ہو ۔۔۔ 

جب بھی وہ اسے دیکھتی دلاور مسکرا دیتا اور اس کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ بازغہ کڑ کر رہ جاتی  

ناشتہ کرنے کے بعد وہ سب امامہ کو لے کر رخصت ہوگئے 

 دونوں طرف شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں مکرم روزانہ امامہ کو کال کرتا تھا لیکن امامہ نے جیسے اسے اگنور کرنے کی قسم کھائی تھی ۔۔۔ 

کرلو جتنا نظر انداز کرنا ہے ۔۔۔۔ آنا تو میری دسترس میں ہے جند سائیں۔۔۔۔  صرف دو دن دو دن بعد اس سب کا حساب لوں گا وہ بھی سود سمیت  ۔۔۔ مکرم نے غصے سے میسج لکھ کر سینڈ کردیا  

دوسری طرف امامہ نے جب اس کا میسج پڑھا تو اس میں چھپی دھمکی پر اس کے ہاتھ پھیر پھول گئے اسے انداز تھا مکرم ناراض ہے اس سے ۔۔۔ لیکن اب اس کا میسج پڑھ کر اس کے غصے سے ڈر لگ رہا تھا  ۔۔۔۔  

اللّٰہ جی بچا لینا ڈریکولا سے ۔۔۔۔امامہ نے  اس کی وارننگ پر گھبراتے کہا اور کچھ سوچ کر  میسج ٹائپ کیا 

 سنو ناراض مت ہونا 

‏کبھی ایسا جو ہو جائے 

‏کہ تیری یاد سے غافل

‏ کسی لمحے جو ہو جاؤں

‏ بِنا دیکھے تیری صُورت 

‏کسی شب میں جو سو جاؤں

‏ تو سپنوں میں چلے آنا 

‏مجھے احساس دِلا جانا

‏ سُنو ناراض مت ہونا

‏ کبھی ایسا جو ہو جاۓ 

‏جنہیں کہنا ضروری ہو

‏ وہ مُجھ سے لفظ کھو جائیں

انا کو بیچ مت لانا

‏میری آواز بن جانا 

‏کبھی ناراض مت ہونا ۔۔

میسج سینڈ کرتے وہ مسکرائی ۔۔۔ مکرم جو موبائل بیڈ پر پھینک کر کبرڈ کی طرف جارہا تھا ۔۔۔۔ بپ کی آواز پر واپس آتے موبائل اٹھاتے سکرین آن کی 

میسج نوٹیفکیشن دیکھتے اس نے میسج کھولا ۔۔۔

 جیسے جیسے اس پڑھتا گیا عصاب ڈھیلے پڑتے گئے  جبکہ  بینچے عنابی لبوں پر مسکراہٹ بکھری گئی 

اففف میری چلاک لومڑی ۔۔۔۔ بچنے کی کوششوں میں ہے ۔۔۔ دیکھ لوں گا ایک بار میرے پاس آجاؤ ۔۔۔۔ مکرم نے مسکراتے کہا اور جواب دئیے بنا موبائل رکھتے چلا گیا 

جبکہ دوسری طرف میسج  سین ہونے پر بھی جواب نہیں آیا تو امامہ کا منہ کھلا ۔۔۔ 

لگتا ہے شدید ناراض ہیں۔۔۔۔۔  اففف اب کیا ہوگا ۔۔

 امامہ ٹھیک کہتے ہیں وہ تم نالائق لڑکی ہو ۔۔۔۔ کیا ہوجاتا اگر بات کر لیتی تو ۔۔۔۔

انھوں نے  فون سے نکل کر کھا تو نہیں جانا تھا تمہیں ۔۔۔۔ 

اللّٰہ اب کیا کرو ؟ کیسے مناؤ انھیں ۔۔ اب تو  میری خیر نہیں  ۔۔۔۔منہ پھلائے بڑبڑاتے وہ خود کو کوسنے لگی 

مہندی کی رسم امامہ اور زرناب کی ایک ساتھ حویلی میں کی گئی تھی ۔۔۔ چونکہ ان لوگوں نے زرناب کو مہندی لگانے حویلی آنا  تھا تو امامہ اور اس کی رسم ایک ساتھ ہی کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔ 

حویلی جانے کا سن کر امامہ کی آنکھیں چمکیں مطلب اب وہ مکرم کو منا سکتی تھی یہ سوچتے وہ پرسکون ہوگئی ۔۔۔ 

 حویلی کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا مہندی کی رسم چونکہ خواتین کی تھی اس لئے مرد حضرات سب مردان خانے میں تھے جبکہ خواتین سب حویلی کے صحن میں تھیں ۔۔۔ سلطانہ بیگم بھی سب بھلائے شادی میں پیش پیش تھیں

رسم کا آغاز ہوا باری باری سب نے زرناب اور امامہ کو مہندی لگائی ۔۔۔۔ 

ملٹی کلر کی شرٹ اور شرارے میں ملبوس پھولوں کے زیورات سے سجی امامہ آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی ۔۔۔  

اس کے برعکس زرناب بہاری رنگ کے فراک میں ملبوس پھولوں کے زیورات سے سجی حوروں کو بھی مات دے رہی تھی ۔۔۔۔ 

بازغہ نے گرین کلر کا فراک پہنا ہوا تھا ۔۔۔  

"کیا ہوا ڈارلنگ کس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہو "۔۔۔۔

 امامہ کی بے چین نگاہیں مکرم کی متلاشی تھیں ۔۔۔ اس کی نگاہوں کا مرکز اندرونی دروازہ دیکھ کر بازغہ نے شرارت سے اس کی کان میں سرگوشی کی تو امامہ سٹپٹا گئی ۔

نن نہیں میں تو حویلی کی سجاوٹ  دیکھ رہی تھی کتنی خوبصورت ہے نہ ۔۔۔۔امامہ نے نگاہوں  کا زاویہ بدلتے کہا 

سب سمجھ رہی ہوں میری جان ۔۔۔۔اپنے اُن کا انتظار ہے ۔۔۔ ہاؤ کیوٹ ۔۔۔۔ بازغہ نے اس کی چوری پکڑتے اس کے گال کھینچتے مسکراتے کہا تو امامہ اسے گھور کر رہ گئی 

       °°°°°°°°=°=°=°=°=°=°=°°°°°°°°°

یہ تو ناانصافی ہے بھائی ۔۔۔ آپ کی شادی ہے اور آپ کو ہی بےدخل کردیا گیا ۔۔۔ افسوس کا مقام ہے 

دلاور بہت دیر سے مکرم کو اکسا رہا تھا کہ وہ باہر جائے تو دلاور کو بھی موقع ملے  ۔۔۔۔ لیکن سامنے بھی مکرم تھا اس کی چلاکی باخوبی  سمجھ رہا تھا 

مکرم بھائی ۔۔۔۔ میں آپ کے حق میں آواز بلند کررہا ہوں اور آپ ہنس رہے ہیں ۔۔۔۔ دلاور نے جھنجھلاتے کہا 

بلکل ۔۔۔۔ جانتے ہو یہ رسمیں خواتین کی ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اب ایسے میں ہم لوگ باہر جاتے اچھے تھوڑی لگیں گے ۔۔۔ مکرم کے کہنے پر دلاور دل مسوہ کر رہ گیا ۔۔۔ 

بڈھی روح ہے آپ کی ۔۔۔۔ لگ ہی نہیں رہا آپ کی شادی ہے ۔۔ ایک آپ ہیں جو یہاں بورنگ باتیں کررہے ہیں 

اور وہاں دوسرے دولہا بھائی کو گھر کی چوکی داری کے لئے چھوڑا آئے ہیں  کتنی غلط بات ہے شادیاں بار بار تھوڑی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ 

میری شادی ہوگی نہ تب آپ  دیکھنا میں کیا کروں گا ۔۔۔ 

دیکھیں گے بھائی ضرور دیکھیں گے ۔۔۔۔ مکرم نے اس کے انداز پر ہنستے کہا اور چاچا لوگوں سے باتوں میں لگ گیا

      °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

امی میں تھک گئی ہوں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ رسم کے بعد گاؤں کے رواج کے مطابق ڈھولکی شروع ہوئی تو امامہ نے تھکے تھکے لہجے میں زینت بیگم سے کہا ۔۔۔ 

اچھا میں بازغہ سے کہتی ہوں وہ تمہیں اندر لے جائے گی ۔۔۔ زینت بیگم نے اس سے کہتے بازغہ کو بلایا اور اسے امامہ کے ساتھ رہنے کی ہدایت دیتے ۔۔۔ اندر لے جانے کا کہا ۔۔۔ 

چلیں میڈیم ۔۔۔۔ بازغہ زومعنی انداز میں مسکراتے اسے اندر لے گئی 

°°°°°°

دلاور جو کچن میں جارہا تھا بازغہ اور امامہ کو سڑھیوں کی طرف جاتے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکی 

مکرم بھائی ۔۔۔ سنیں ۔۔۔ آپ کے لئے اہم خبر لایا ہوں ۔۔۔ مردان خانے میں آتے مکرم کے پاس جاتے سرگوشی کی لیکن مکرم اس کی بات کو اگنور کرگیا ۔۔۔ 

سن لیں گے تو آپ کا ہی فائدہ ہے ۔۔۔ اس کے زومعنی انداز پر چونکتے مکرم اس کی طرف متوجہ ہوا 

ہمم بولو میں سن رہا ہوں ۔۔۔ مکرم نے اسے خاموش دیکھ کر کہا

اچھا ٹھیک ہے پہلے تھوڑا لین دین کی بات کر لیتے ہیں اب مفت میں تو کچھ نہیں ملنے والا ۔۔۔ دلاورکی چلاکی پر مکرم نے اسے گھورا 

دلاور شاہ ۔۔۔۔تم شاید بھول رہے ہو کہ اس وقت کس سے مخاطب ہو ۔۔۔۔ اس کے سنجیدہ انداز پر دلاور کے ہونٹوں پر دل جلاتی مسکراہٹ نمودار ہوئی

میں اچھے سے جانتا ہوں سردار مکرم شاہ ۔۔۔ لیکن آپ شاید بھول رہے ہیں کہ ہم دونوں میں کزن اور سردار کے علاؤہ ایک اور رشتہ بھی ہے  ۔۔۔۔

اس لئے سمجھا رہا ہوں مجھ سے بنا کر رکھیں گے تو فائدے میں رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دلاور نے شاطرانہ انداز میں کہا تو مکرم کڑ کر رہ گیا 

اچھا ٹھیک ہے اب کچھ پھوٹو گے یا نہیں ؟ ۔۔۔ مکرم نے جل کر کہا

جی بلکل سردار ۔۔۔۔ کان ادھر کریں  ۔۔۔۔ دلاور نے سب مرد حضرات کو دیکھتے کہا تو مکرم تھوڑا اس کی طرف جھکا ۔۔۔ دلاور کی بات سنتے اس نے شکی نظروں سے دلاور کو دیکھا 

تم میری مدد کیوں کررہے ہو ؟ مکرم کے شکی انداز پر دلاور کھسیانی ہنسی ہنس دیا 

سمجھا کریں نہ یار ۔۔۔۔ آپ کی تو شادی ہورہی ہے لیکن میرے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا ۔۔۔۔اس لئے میں خود ہی اپنے لئے راہیں ہموار کرنے لگا ہوں ۔۔۔ وہ نک چڑھی ہاں کردے تو آج ہی رخصتی کروا کر ولیمے کا اعلان کردو ۔۔۔۔

بڑے بے شرم ہو دلاور ۔۔۔۔ مکرم نے اس کے بےشرمی سے کہنے پر سرخ پڑتے کہا 

جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم ۔۔۔۔ دلاور نے آنکھ ونک کرتے شرارت سے  کہا تو مکرم ہنس دیا 

          °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

امامہ تمہیں کچھ چاہیے تو مجھے بتا دو 

میں کچن جارہی ہوں لیتی آؤں گی ۔۔۔ بازغہ کو بھوک نے ستایا تو اس نے امامہ سے پوچھا 

ہاں چائے کا ایک کپ پلیز ۔۔۔۔ 

اوکے میں ابھی بنا کر لائی ۔۔۔۔ بازغہ نے چٹکی بجاتے کہا اور باہر نکل گئی 

امامہ نے  ریلیکس ہوتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے  دوپٹے کی پین نکالی ۔۔۔ دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھا ہی تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے شیشے میں دیکھا تو مکرم کو دیکھ کر جھٹکے سے پلٹی 

اا آپ ۔۔۔۔ اسے یہاں موجود دیکھ کر امامہ کی آنکھیں پھیلی تھیں 

جبکہ مکرم تو مہبوت سا  اس کے حسن میں کھویا ہوا تھا ۔۔۔ چودہویں کے چاند کی مانند چمکتا چہرہ جس پر شرم کی لالی چھائی ہوئی تھی مکرم مدہوش سا اس کے قریب آیا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں جزبات کا سمندر دیکھتے امامہ نے سر جھکایا  

مکرم نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کرتے مخمور نگاہوں سے اس کے نقش نقش کو دیکھا ۔۔۔

کوئی اتنا پیارا کیسے ہوسکتا ہے 

پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے 

اس کے سرخ گال پر ہاتھ کی پشت پھیرتے بھاری لہجے میں سرگوشی کی تو امامہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا ۔۔۔۔

شش شاہ ۔۔۔ با بازغہ آنے والی ہوگی ۔۔۔ آپ جائیں ۔۔۔ امامہ نے دروازے کی طرف دیکھتے گھبراتے کہا 

جند سائیں کیوں اپنے شاہ پر ظلم کرتی ہو ۔۔۔ جانتی ہو تمہارے اس روپ کو دیکھ کر تم سے دور رہنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے ۔۔۔۔ مکرم نے اس کے ہاتھوں پر لگی مہندی کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اتارتے کہا 

ایک دن کی تو بات ہے ۔۔۔ اس کے بعد میں ہمیشہ کے لئے آپ کے پاس آجاؤں گی ۔۔۔۔ اس کی باتوں پر سرخ پڑتے کہا 

اس روپ میں سامنے آؤ گی  تو بندہ بشر بہک سکتا ہے جند سائیں ۔۔۔۔ اس کی پلکوں پر باری باری لب  رکھتے سرگوشی کی تو امامہ کا دل دھک سے رہ گیا 

 اا آپ ناراض تو نہیں ہیں نہ ۔۔۔ امامہ نے بات بدلتے پوچھا 

تم نے منایا ہی نہیں جند سائیں ۔۔۔ یک لفظی جواب دیتے اپنے تشنہ لب پیشانی پر رکھے ۔۔۔ دل تھا کہ بھر نہیں رہا تھا ۔۔۔ 

شاہ مجھے منانا نہیں آتا ۔۔۔ امامہ نے اس کے پرسکون لمس پر آنکھیں بند کرتے دھیمی آواز میں کہا 

نہیں آتا تب بھی منانا پڑے گا ۔۔۔۔ اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکائے بھاری لہجے میں کہا تو امامہ نے بےبسی سے اسے دیکھا

اس کے معصوم بننے پر مکرم ہنس دیا ۔۔۔۔جس سے اس کے گال کا ڈمپل واضح ہوگیا 

امامہ نے اس کے گال میں ابھرتے گڑھے کو دیکھتے بےخودی میں اس پر ہونٹ  رکھے سیکنڈ کے لئے  اس کی گستاخی پر مکرم ساکت رہ گیا

اب تو مان جائیں پلیز ۔۔۔۔ اپنی بےساختہ کی گئی حرکت پر سرخ پڑتے اسے کے سینے میں چھپتے منمناتے کہا تو مکرم ہوش میں آتے دلکشی سے ہنس دیا 

تمہاری یہ ادائیں کسی دن میرا کام تمام کردیں گی ۔۔۔۔ اس کے خود میں چھپے نازک وجود کو دیکھتے بھاری لہجے میں کہا تو امامہ مسکرا دی 

 اللّٰہ کی طرف سے اس خوبصورت انعام پر مکرم کا دل سجدہ زیر تھا ۔۔۔۔

             °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ہیلو مس حیسن لڑکی ۔۔۔۔ کیسی ہو ؟ بازغہ کو کچن میں دیکھ کر دلاور نے اندر آتے شوخی سے کہا 

آپ کو سکون نہیں ہے بار بار کالے بلے کی طرح میرا راستہ کاٹتے رہتے ہیں ۔۔۔ بازغہ نے اسے دیکھتے تڑخ کر کہا 

او ہو ۔۔۔ یہ تو لمحہِ فکریہ ہے ۔۔۔ اگر کالا بلا راستہ کاٹے تو سمجھو خطرہ ہے ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں تمہارے نصیب اس کالے بلے سے پھوٹنے والے ہیں ۔۔۔۔ دلاور نے گہری نظروں سے اس کا سجا روپ دیکھتے کہا 

" استغفراللہ " اللّٰہ نہ کرے ایسا کچھ ہو ۔۔۔۔ بازغہ نے اسے گھورتے کہا 

ویسے اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔۔تم کیوں پریشان ہورہی ہو ۔۔۔۔۔ فکر تو مجھے کرنی چاہیے کہ مجھے تمہیں برداشت کرنا پڑے گا ۔۔ 

ہیلو مسٹر ٹھرکی ۔۔۔ زیادہ آور سمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے ۔۔۔۔۔ میں اگر عزت سے پیش آرہی ہوں تو انسان بن کر رہو ۔۔۔ میرے سامنے اپنی یہ ٹھرک جھاڑی نہ تو ۔۔۔ 

تو کیا ۔۔۔۔۔ بازغہ کے بھڑک کر کہنے پر دلاور نے اس کے قریب جھکتے آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے سرگوشیانہ انداز میں پوچھا 

غصے میں مجھ سے شادی کر لو گی  ۔۔۔ مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتے بھاری لہجے میں کہا تو بازغہ کا دل دھک سے رہ گیا 

ی یہ کیا پاگل پن ہے ۔۔۔ ہ ہوش میں ہیں آپ ۔۔۔  گھبراہٹ کے مارے بازغہ سے بولا نہیں جارہا تھا 

 ہو تو تم نک چڑھی کریلی ۔۔۔ لیکن بہت پیاری ہو ۔۔۔۔ یہ اور بات کہ پکاتی بہت ہو ۔۔۔ لیکن پھر بھی مجھے پسند ہو ۔۔۔۔ اس کی گول مول بات پر الجھتے بازغہ نے گھورا اسے سمجھ نہیں آیا کہ یہ تعریف کی گئی ہے یا برائی 

شادی کرو گی مجھ سے ؟ اس کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے دلاور نے گمبھیر لہجے میں پوچھا بازغہ کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔۔۔۔ 

بڑی بڑی باتیں نہیں کروں گا ۔۔۔ بس یہ وعدہ ہے تم سے ۔۔۔۔میری وجہ سے تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آئیں گے ۔۔۔۔ سایہ بن کر تمہارے ساتھ چلو گا ۔۔۔۔

 زندگی بھر صرف تمہیں چاہوں گا ۔۔۔۔ اس کے فسوں خیر لہجے پر بازغہ نے لرزتی پلکیں اٹھائے اسے دیکھا اس وقت وہ لڑتی جھگڑتی بازغہ کی جگہ 

حیا سے سرخ شرمائی گھبرائی سی مشرقی لڑکی لگ رہی تھی 

اس چپ کو میں کیا سمجھو ۔۔۔۔ دلاور کے پوچھنے پر بازغہ نے آنکھیں بند کرتے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر اس کی دھڑکن محسوس کرتے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا اور اسے دھکا دیتے جھپک سے باہر نکل گئی 

پیچھے دلاور پتیلی میں پکتی چائے کو دیکھ کر بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرا دیا 

       °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

اور پھر بارات کا دن آ پہنچا ۔۔۔۔ مایوں کے بعد مکرم سب کو اپنے شہر والے بنگلے میں لے آیا تاکہ بارات کے دن مشکل نہ ہو ۔۔۔۔ 

دلاور نے بازغہ سے پسندیدگی کا اظہار ریحاب اور شمعون سے کرتے نکاح کی خواہش ظاہر کی ۔۔۔۔ ریحاب کو وہ چنچل اور شرارتی  سی لڑکی بہت پسند آئی تھی اس کی خواہش پر شازم شاہ اور مکرم  سے مشہورہ کرتے ان لوگوں نے عازم خان سے بازغہ کا رشتہ مانگا ۔۔۔۔ 

 وہاں سے مثبت جواب ملنے پر امامہ اور زرناب کی رخصتی کے ساتھ بازغہ کا نکاح رکھ دیا گیا

امامہ اور زرناب روائتی دلہنوں کے لباس میں سجی بے انتہا خوبصورت لگ رہیں تھیں دونوں پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا ۔۔۔

دوسری طرف مکرم شاہ اپنے وڈیروں والی پرسنالٹی میں انتہائی سوبر اور کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا جبکہ ضرار بھی انتہائی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔ 

بارات شہر کے بڑے ہال میں آئی تھی سب سے پہلے  زرناب ، ضرار ، دلاور اور بازغہ کے نکاح کی سنت ادا کی گئی ۔۔۔۔ اس کے بعد باقی رسموں کے ساتھ رخصتی کی رسم ادا کی گئی ۔۔۔۔۔ 

زرناب اور امامہ کی رخصتی کے وقت دلاور نے بہت شور ڈالا کہ اس کی دلہن کو بھی رخصت کردیا جائے ۔۔۔ لیکن کسی نے اس کی ایک نہیں سنی ۔۔۔ اور دو سال تک اس کی رخصتی ملتوی کردی 

بڑوں کی دعاؤں اور قرآن کے سائے میں زرناب خان ولا جبکہ امامہ شاہ ولا میں رخصت ہوگئی 

         °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

 جانتی ہوں زری اس دن کے لئے میں نے کتنی دعائیں مانگی تھیں ۔۔۔۔ 

میں نے سنا تھا محبت ہر کسی کو راس نہیں آتی ۔۔۔ اس لئے ڈرتا تھا تمہیں کھو نہ دو ۔۔۔ لیکن دیکھو اللّٰہ نے مکرم شاہ کو وسیلہ بنایا ۔۔۔ آج  ہم نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں بندھے ہیں تو مکرم کی وجہ سے  ۔۔۔۔ اور تم اسے غلط سمجھتی رہی ،،،

 ضرار نے اس کے دلہن کے روپ کو سراہتے آنکھوں میں قید کرتے کہا تو زری کا سر جھک گیا 

میں ان سے سوری کر لوں گی ۔۔۔ زرناب نے شرمندہ ہوتے دھیمی آواز میں کہا 

ہممم گڈ گرل ۔۔۔۔۔

میرے جیون کا حاصل ہو تم 

اللّٰہ تعالیٰ نے تاحیات کے لئے تمہیں میرے نام کردیاہے ۔۔۔ 

چلو شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔کیونکہ اس انعام پر خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔۔۔ ضرار نے اس کے زیورات اتارتے مسکراتے کہا تو زرناب نے اثبات میں سر ہلایا

     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

وہ نروس سی بیٹھی مکرم کا انتظار کر رہی تھی کمرے کا فسوں خیر ماحول اس کو گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا 

بار بار انگلیاں چٹخاتے وہ دروازے کو دیکھتی نیند اور تھکن سے آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے 

اس کی گھبراہٹ میں اضافہ تب ہوا  جب کلک کی آواز سے دروازہ کھولتے مکرم اندر آیا ۔۔۔۔

شال اتار کر صوفے پر رکھے وہ بیڈ کی طرف بڑھا اس کے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ امامہ کے دل کی دھڑکن بڑھتی گئی 

مکرم  اس کے ساتھ بیٹھا تو امامہ نے پلکیں جھکا لیں۔۔۔۔ اس کی اس ادا پر مسکراتے پر شوق نظروں سے اسے دیکھا ۔۔ 

 ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے مقابل کیا تو اس کا لہو چھلکاتا چہرہ دیکھ کر مہبوت رہ گیا 

 میری جند سائیں ۔۔۔ میرے روح کا سکون ۔۔ تم اتنی حسین ہو کہ جب جب تمہیں دیکھتا ہوں فدا ہو جاتا ہوں ۔۔۔

تم حور ہو ۔۔۔ میری آنکھوں کا نور ۔۔۔۔۔ 

جتنی بار دیکھو اتنی بار پیار آتا ہے ۔۔۔۔ میں بے بس ہوجاتا ہوں۔۔۔۔ میرے جگر کے ٹوٹے 

اس کے ہونٹ کو چھوتی نتھ کے موتی پر ہونٹ رکھتے گمبھیر لہجے میں کہتے وہ امامہ کی جان مشکل میں ڈال گیا 

'شش شاہ ' امامہ نے بولنا چاہا تو مکرم نے اس کے لبوں پر انگشت شہادت رکھتے خاموش رہنے کا اشارہ کیا 

آج نہیں جند سائیں۔ ۔۔۔ آج صرف میں بولوں گا ۔۔۔ تمہیں مجھے  سننا ہے ۔۔۔ مجھے محسوس کرنا ہے ۔۔۔ اس کے مہندی سے سجے ہاتھ کی خوشبوں سانسوں میں اتارتے چوڑیوں سے سجی کلائی پر تپتے ہونٹ رکھے تو امامہ سرخ پڑتے سر جھکا گئی

یہ محبتیں, یہ عنایتیں,

 یہ مسرّتیں تیرے نام ہیں،

میرے ہم قدم 

میرے ہم نشیں 

 یہ رفاقتیں تیرے نام ہیں____!!!

 کبھی گمشدہ, کبھی روبرو,

  کبھی آئینہ, کبھی عکس تو،

 میرےہم نوا......!!!

 میری خواہشیں 

میری صحبتیں تیرےنام ہیں،

 کبھی یہ ہنسی,کبھی یہ نمی,

کبھی رنجشیں ,کبھی قربتیں،

میری زندگی کی حسیں سبھی

 یہ عبارتیں تیرے نام ہیں

تیری ذات سےہیں جڑی ہوئی 

میری منتیں بھی دعائیں بھی،

میرے دلبرا میرےعشق کی

 یہ عبادتیں تیرےنام ہیں

 سرگوشیانہ کرتے اسے زیورات سے آزاد کرتے پیشانی پر بوسہ دیا تو شرمائی گھبرائی سی امامہ نے سرخ آنکھوں سے اس مہربان کو دیکھا جو صرف اس کا تھا ۔۔۔۔ خدا کے اس انعام پر شکر ادا کرتے اس نے پیش رفت کرتے مکرم کے دل کے مقام پر ہونٹ رکھتے  آسودگی سے آنکھیں موند لیں 

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ada E Jaan Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ada E Jan written by Aleezy Khan. Ada E  Jan by Aleezy Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment