Pages

Sunday 30 June 2024

Sulaghti Rahen Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic New Novel

Sulaghti Rahen Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic  New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sulaghti Rahen By Humna Tanveer Complete Romantic Novel 




Novel Name: Sulaghti Rahen  

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

رات کا نجانے کون سا پہر تھا بادل شور مچاتے اپنا دل ہلکا کر رہے تھے۔

اندھیرے میں رقص کرتے بارش کے قطرے غمزدہ کر رہے تھے۔

اس وسیع و عریض محل نما گھر کے ڈرائینگ روم کی کھڑکی پر بارش کی ننھی ننھی بوندیں گر کر بے مول ہو رہی تھیں۔

یہ شفاف بوندیں دل کے داغ دھو رہی تھیں بلکل اسی طرح جیسے آنسو دل پر جمی گرد کو صاف کر دیتے ہیں سیاہ دلوں کو منور کر دیتے ہیں۔ سیاہی ختم ہو تو ہیرے نکل آتے ہیں۔ دل بھی انمول موتی کی مانند ہے۔ دھند چھٹ جاےُ تو چمک اٹھتے ہیں۔باہر آسمان اپنے دکھ کی روداد سنا رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس کا غم سمجھنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ رات کی اس تاریکی میں بادل سرے عام رو رہے ہیں اور حیرت کی بات ہے کوئی ان کا مذاق نہیں بناتا جبکہ اگر انسان کسی کے سامنے روےُ تو لوگ مذاق بناتے ہیں۔ یہ فلک خوشنصیب ہے کہ لوگ اس کی تذلیل نہیں کرتے بلکہ اس کی قدر کرتے ہیں۔ فلک کے آنسو شدت پکڑ رہے تھے شاید وہ بھی تھک چکا تھا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بلکل اسی طرح جیسے انسان تھک جاتے ہیں دل میں بھید چھپاتے چھپاتے۔ خود سے لڑتے لڑتے۔ پھر یہ آنسو سہارا بنتے ہیں ﷲ کے بعد انسان کا بہترین سہارا یہ آنسو ہیں۔ لیکن افسوس کہ جب انسان اشک بہاتا ہے تو لوگ اس کے احساسات کو سمجھنے کی بجاےُ اس کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ کیسا تضاد ہے بندوں کا کہ آج کی صدی میں انسان انسان کو ہی سمجھ نہیں پاتا۔ دوسروں کے دکھوں پر ہنسنا ان کا تمسخر اڑانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ایسا کرتے ہوۓ ہم کبھی نہیں سوچتے کہ اس انسان پر کیا گزرے گی؟ اگر کوئی ہمارے سامنے رو پڑا ہے تو ہم اسے دکھاوا اور ڈرامے بازی کے خوبصورت القابات سے نوازتے ہیں بنا یہ سوچے کہ اس انسان کا دکھ نجانے کتنا دلدوذ ہو گا اس کی تکلیف کا کوئی کنارہ ہو گا بھی یا نہیں۔

اور ہم جیسے انسان تکلیف گھٹانے کی بجاےُ بڑھا دیتے ہیں ایک تکلیف دوسری تکلیف پر حاوی ہو جاتی ہے توڑنے کا ہنر سب کو آتا بات تو تب بنتی ہے جب جوڑنے کا ہنر آتا ہو۔ دلوں کو سنبھالنا آتا ہو۔

بڑی بڑی باتیں سب ہی کر لیتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے ہم بھی باقی سب کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کہہ سب لیتے ہیں لیکن عمل کوئی کوئی کر سکتا۔


ننھی ننھی بوندوں کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔

کھڑکی کے آگے قد آور پردے وا تھے جس کے باعث اندر بیٹھے نفوس باہر کی رم جھم دیکھنے کے قابل نہ تھے۔

وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہو چکی تھی اور مقابل کا رد عمل دیکھ رہی تھی۔


"یہ پیسے۔ باقی جب جب ضرورت پڑے مجھے ایک فون کال کر دینا اور ہاں جس طرح کی مدد درکار ہو مل جاےُ گی لیکن یہ کام نہایت محتاط انداز میں کرنا ہے۔۔۔"

اس کی آنکھوں میں تنبیہ تھی۔


مقابل نے نگاہیں اٹھا کر اس نفیس سی عورت کو دیکھا۔

سرد نگاہیں کسی بھی تاثر سے پاک جو باور کروا رہیں تھیں کہ وہ اپنا کام بخوبی جانتا ہے۔


"کام آپ کا۔کروں گا میں اپنی مرضی سے۔۔۔"

کھردرے پن سے کہتا وہ ایک ہاتھ سے بریف کیس اٹھاےُ دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگا۔


قدموں کی آہٹ خاموشی کو چیرنے لگی۔

آتش دان میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔

ویسی ہی آگ جو اس نفس کے اندر جل رہی تھی۔ اور جب آگ بھڑکتی ہے تو نقصان بھی نا قابل تلافی ہوتا ہے۔

~~~~~~~~~

وہ جھنجھلا کر بیڈ سے اٹھ بیٹھی۔

کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔

نائٹ بلب کی مدھم مدھم روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔


پورا کمرہ اس کے کلون کی خوشبو سے معطر تھا۔

سیاہ بال اس کے شانوں پر منتشر تھے۔

عدن نے ہاتھ بڑھاےُ اور بالوں کو سمیٹنے لگی۔


چہرے پر الجھن نمایاں تھی۔

روشن پیشانی پر شکنیں تھیں۔ وہ خفا دکھائی دے رہی تھی۔

عدن نے ہاتھ سے کمبل پرے کر دیا۔


دودھیا نرم گداز پاؤں باہر نکالے اور یخ بستہ ماربل کے فرش پر رکھ دئیے۔

ایک لمحے کے لیے اسے جاڑے کا احساس ہوا۔

لیکن اگلے لمحے وہ دونوں پاؤں زمین پر رکھے کھڑی تھی۔


نظریں سامنے کھڑکی پر مرکوز تھیں۔

کھڑکی کے آگے پردے سرک گئے تھے۔

عدن کی آنکھوں میں الجھن کی جگہ تحیر نے لے لی۔

اسے یاد تھا وہ پردے گرا کر سوئی تھی۔


ڈھنڈے فرش پر پاؤں رکھتی عدن کھڑکی کے سامنے آ گئی۔

بارش کی بوندیں بے دردی سے شیشے پر گر رہی تھیں۔ مانو انہیں تکلیف ہو رہی ہو۔

عدن نے دائیاں ہاتھ شیشے پر رکھا۔

وہ چھو کر محسوس کرنا چاہتی تھی لیکن محروم رہ گئی۔


عدن کی نگاہ کھڑکی سے ہوتی ہوئی پول کے پاس جا رکی۔

عدن کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

بجلی چمکی اور ایک سیاہ ہیولہ دکھائی دیا۔


"یہ کون ہے؟"

عدن کے لبوں سے الفاظ آزاد ہوۓ۔


ایک لمحے کے لیے ہر شے روشن ہوئی تھی لیکن اگلے ہی لمحے پھر سے وہی خوفزدہ کرنے والی تاریکی چھا گئی۔

عدن آنکھیں سکیڑے پول کے پاس کھڑے اس نفس کو دیکھنے کی سعی کرنے لگی۔


"رات کے اس پہر گھر کے اندر کسی فرد کی موجودگی؟ ناممکن۔۔۔"

عدن بے یقینی کی شکار تھی۔


گھٹائیں چھا رہی تھیں۔

بادل گرج رہے تھے پھر سے بجلی چمکی اورچاروں سو سفیدی چھا گئی۔

لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔


"سٹرینج!"

عدن پلک جھپکے بنا پول کے کنارے کو دیکھ رہی تھی جہاں چند لمحے قبل کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔


"میری نظروں کا دھوکہ تھا یا سچ میں کوئی تھا؟"

عدن پردے آگے کرتی ہوئی مڑ گئی۔


دو آنکھیں عدن کے کمرے کی کھڑکی پر جمی تھیں۔ لیکن عدن اس بات سے لاعلم تھی۔

عدن چلتی ہوئی بیڈ کے پاس سے گزر کر دروازے کے پاس آ گئی۔

سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا تو سارا کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔


اسی اثنا میں عدن کا فون رنگ کرنے لگا۔

خاموشی روٹھ گئی اب کمرے میں عدن کے فون کی آواز گونج رہی تھی۔

عدن کے چہرے ہر بیزاری تھی۔


وہ مرے مرے قدم اٹھاتی بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گئی۔

ایک پاؤں بیڈ پر اور دوسرا فرش پر تھا۔

نمبر دیکھ کر آنکھوں میں نفرت سر اٹھانے لگی۔


"مجھے کوئی بات نہیں کرنی اور بہتر ہو گا مجھے دوبارہ کال نہ آےُ۔۔۔"

عدن تقریباً چلائی۔

مقابل عدن کی آواز پر سہم گیا۔


"آئیندہ اگر کال کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔"

عدن کی زبان انگارے برسا رہی تھی۔


ایک لمحہ لگا تھا اسے سلگنے میں۔

عدن کھٹاک سے فون بند کر چکی تھی۔

عدن نے فون بیڈ پر اچھالا اور صوفے پر آ بیٹھی۔


شیشے کی میز پر سیگرٹ، لائٹر اور ایش ٹرے پڑا تھا۔

عدن کی مطلوبہ شے سامنے تھی۔

ایسے لمحوں میں اسے سموکنگ کی شدت سے طلب ہوتی تھی۔


عدن نے بنا کسی لمحے کا ضیاع کئے سیگرٹ کی ڈبی اٹھائی اور سلگا کر ہونٹوں میں دبا لی۔

سرمئ دھواں عدن کے ہونٹوں کی قید سے رہائی پاتا آزاد ہونے لگا۔


عدن کی آنکھیں دھیرے دھیرے سرخ ہو رہی تھیں۔

سرخی مائل آنکھوں میں نفرت چھلک رہی تھی۔

وہ بے سکون تھی۔ الجھن میں تھی لیکن لاچار تھی۔

اتنی بےبس تھی کہ اپنی ذات کے لئے بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔


سیگرٹ ایش ٹرے میں مسل کر عدن نے دوسری سیگرٹ اٹھا لی۔

نفرت کی جگہ اب تمس لے رہا تھا۔

یہ غیض کسی تباہی کا پیش خیمہ تھا۔

لیکن وہ خود پر قابو پا لیتی تھی۔ آج بھی وہ یہی توقع کر رہی تھی خود سے۔


دو انگلیوں میں سیگرٹ پکڑے وہ کش لے رہی تھی۔

کمرے میں اب سیگرٹ کی بو زور پکڑ چکی تھی۔

عدن نے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔

سیاہ آنکھوں میں تھکن تھی صدیوں کا سفر طے کرنے کی تھکن۔


انسان کتنا مجبور ہوتا ہے تھک بھی جاےُ تو رک نہیں سکتا۔ اسے چلنا پڑتا ہے کیونکہ زندگی چلتے رہنے کا نام ہے۔ اگر وہ رک جاےُ تو لوگ آگے بڑھنے کے چکر میں اسے گرا دیں گے اور دنیا کی بھیڑ میں جو گر جاےُ لوگ اسے روند دیتے ہیں اپنے پیروں تلے۔ پیروں کی دھول اس کا مقدر بن جاتی ہے اسی لئے چاہتے ہوۓ یا نا چاہتے ہوۓ چلنا پڑتا ہے اور ہم چلتے بھی ہیں۔

~~~~~~~~

"مام مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کو وہ عدن اتنی پسند کیوں ہے؟"

ملیحہ کوفت سے بولی۔


"بیٹا ضروری نہیں اوپر جانے کے لیے دوسروں کو نیچے گرایا جاےُ۔ آپ سیدھا راستہ اختیار کریں۔ یہ تو بزدلی ہوئی کہ دوسروں کو ریس سے باہر نکال کر خود آگے آ جانا۔ مقابلے میں جتنے حریف ہیں سب کا سامنا کریں انہیں ہرا کر دکھائیں اپنی صلاحیتوں سے نہ کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے۔۔۔"

ان کی آنکھوں میں نرمی کی جگہ خفگی نے لے لی۔


"مام آپ کے لیکچر آئی کانٹ بئیر۔۔۔"

وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔

مسز ادریس مسکرانے لگیں۔


"مام آپ اتنا ایزی کیسے ہیں؟ اس ڈرامے میں مجھے رول کرنا تھا لیکن میری جگہ عدن کو دے دی واےُ؟"

وہ روہانسی ہو گئی۔

ملیحہ ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی بولی۔


"وہ اس کا نصیب تھا۔۔۔"

شفق نرمی سے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔


"لک مائی فٹ۔۔۔"

ملیحہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


"ویری بیڈ۔۔۔"

شفق کہتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔


"لیٹ می گو ناؤ۔۔۔"

ملیحہ ہاتھ اٹھا کر انہیں دور رہنے کا اشارہ کرتی ہوئی الٹے قدم اٹھانے لگی۔

شفق سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔


"عدن! عدن! عدن! سب کو صرف عدن نظر آتی ہے نجانے کیا ہے اس میں جو سب اس کے پیچھے پاگل ہیں۔۔۔"

ملیحہ ٹھا کی آواز سے دروازہ بند کرتی ہوئی بڑبڑائی۔


وہ بےچینی سے ٹہلنے لگی۔

جینر پر لانگ جرسی پہنے ہاتھ مضبوطی سے آپس میں مبسوط کر رکھ تھے۔

سیاہ بال پونی کی زد میں تھے۔


کچھ سوچ کر ملیحہ نے فون اٹھایا اور حارب کا نمبر ملانے لگی۔

"کیا ہوا مانو؟"

حارب کی نیند میں ڈوبی آواز ملیحہ کی سماعتوں سے سرسرائی۔


"یار حارب ہمیشہ عدن کیوں مجھ سے جیت جاتی ہے؟"

ملیحہ بس رو دینے کو تھی۔


"تم ہمدم ڈرامے کی بات کر رہی ہو؟"

حارب اٹھ بیٹھا۔


"ظاہر ہے اور کس ڈرامے کی بات کرنی ہے؟"

ملیحہ جھنجھلا کر بولی۔


"یار کیا کہہ سکتے ہیں ڈائریکٹر کی مرضی وہ جسے مرضی ہائر کرے۔۔۔"

حارب بےبسی سے بولا۔


"میں کچھ نہیں جانتی تمہیں کچھ کرنا ہو گا۔۔۔"

عجیب ضدی انداز تھا ملیحہ کا۔


"ملیحہ میں کیا کر سکتا ہوں؟"

حارب جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔


"کچھ بھی کرو مجھے زہر لگتی ہے وہ عدن دل کرتا ہے اسے جان سے مار دوں۔۔۔"

ملیحہ آپے سے باہر ہو چکی تھی۔


"ملیحہ کام ڈاؤن۔ ریلیکس رہو اتنا سر پر سوار مت کرو اوکے؟"

حارب دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بولا۔


"کیا اوکے؟"

ملیحہ روہانسی ہو گئی۔


"اچھا صبح ملتے ہیں پھر دیکھتے ہیں ابھی تم آرام سے سو جاؤ۔۔۔"

حارب نے اسے ٹالنا چاہا۔


ملیحہ نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کئے لیکن پھر بولنے کا ارادہ ترک کرتی فون بند کر گئی۔

حارب سانس خارج کرتا فون کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔


ملیحہ نا چاہتے ہوۓ بھی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔

اگر حارب نے صبح کا بولا تھا تو یقیناً وہ کچھ کرے گا۔

ملیحہ نے سوچتے ہوۓ آنکھیں بند کر دیں۔

~~~~~~~~~

"نشاء یہ کیا پاگل پن ہے نیچے اترو! "

شاہد حلق کے بل چلایا۔


نشاء نے گردن گھما کر شاہد کے سراپے پر نظر ڈالی۔

سرخ و سپید رنگت پر بڑھی ہوئی شیو، بےترتیب سے بال اس کی دھڑکنوں کے بے ترتیب کر رہے تھے۔


"پہلے میری بات مانو پھر؟"

وہ نروٹھے پن سے بولی۔

شاہد کو یہاں آنے پر افسوس ہونے لگا تھا۔


"میں تمہاری کوئی فضول بات نہیں مان سکتا۔۔۔"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


"پھر میں بھی نیچے نہیں اتروں گی۔۔۔"

وہ دونوں بیس منزلہ عمارت کے ٹیرس پر تھے اور نشاء دیوار پر چڑھ کر کھڑی ہوئی تھی۔


رات کی تاریکی میں روشنیوں سے جگمگاتا شہر سکون کی نیند سو رہا تھا۔

نشاء بے خوف و خطر کبھی شاہد کو دیکھتی تو کبھی نیچے زمین کو۔ اتنی بلندی کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔


"نشاء مجھے صبح واپس جانا ہے اینڈ دِس از فائنل۔‍۔۔"

شاہد بے لچک لہجے میں بولا۔


"میں گر بھی سکتی ہوں۔۔۔"

نشاء گردن گھما کر اسے گھورتی ہوئی بولی۔


"نشاء سٹاپ دس نان سینس! "

شاہد غرایا۔


"یو ہیو ٹو ڈو واٹ آئی سیڈ!"

نشاء تحکم سے بولی۔


"لاسٹ ٹائم۔۔۔"

شاہد تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"واٹ ایور!"

نشاء خوشی سے چہکی۔


شاہد نے ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔

نشاء نرم مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی نیچے اتر آئی۔


"سو سوئیٹ آف یو شاہد! "

نشاء شریر لہجے میں بولی۔


"شٹ اپ۔۔۔"

شاہد ناگواری سے بولا۔


نشاء جانتی تھی اسے غصہ آ رہا ہے تبھی وہ اسے مزید سلگا رہی تھی۔

دونوں آہستہ آہستہ چلتے سیڑھیوں کے پاس آ گئے۔

نشاء آگے بڑھ کر زینے اترنے لگی شاہد فون جیب سے نکال کر دیکھتا ہوا نشاء کے عقب میں زینے اترنے لگا۔

~~~~~~~~

صبح کا سورج طلوع ہوا تو بادلوں کی گھن گرج کا زور بھی ٹوٹ گیا۔

سحر کے اجالے نے تاریکی کے سیاہ گھنے بادلوں کو دور کر دیا۔

سورج ہر سو اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔


یہ طلوع آفتاب کا وقت تھا جب کمرے میں خون کی بو زور پکڑنے لگی۔

کھڑکی سے کمرے کے اندر جھانکیں تو سرخ رنگ کا خون دکھائی دے گا۔

سرمئ رنگ کا فرش اس لمحے خون سے رنگ چکا تھا۔

بیڈ کے قریب فرش پر کوئی صنف نازک اوندھے منہ گری ہوئی تھی۔

یہ ہولی یقیناً اسی کے خون سے کھیلی گئی تھی۔

کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک نو عمر لڑکی اندر داخل ہوئی۔

اندر کا منظر دیکھ کر اس کا دماغ گھوم گیا۔

آنکھیں تحیر اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں پھیل گئیں۔


"ماما! "

وہ پکارتی ہوئی ان کی جانب لپکی۔

مسز فیصل خون میں لت پت تھیں۔


"ماما؟ کیا ہوا آپ کو؟ آنکھیں کھولیں یہ سب کس نے؟"

منال ان کا سر اپنی گود میں رکھے تھپتھپا رہی تھی۔


"ماما یہ سب کس نے؟"

اشک ٹوٹ کر مسز فیصل کے چہرے پر گرنے لگے۔


"پاپا؟ پاپا جلدی آئیں ماما کو دیکھیں! "

منال دروازہ کی جانب گردن گھما کر چلانے لگی۔


"ماما آپ آنکھیں تو کھولیں!"

وہ اشک بہاتی ان کا چہرہ تھپتھپا رہا تھی۔

منال کی آہ و بکا سن کر فیصل صاحب اِدھر آ نکلے۔


"کیا ہوا منال؟ کیوں رو رہی؟"

وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بول رہے تھے۔ رمشا کی لاش دیکھ کر ان کے الفاظ دم توڑ گئے۔


"پاپا دیکھیں ماما آنکھیں نہیں کھول رہیں! "

منال سوں سوں کرتی ہوئی بول رہی تھی۔


"منال چھوڑ دو تم نے ہاتھ کیوں لگایا؟"

وہ منال کو پیچھے کرتے ہوۓ بولے۔


"پاپا میں کیسے؟"

منال متحیر سی انہیں دیکھنے لگی۔


"بیٹا دیکھ نہیں رہی کسی نے کتنی بے دردی سے قتل کیا ہے تمہاری ماما کا اور تم انہیں پکڑ کر بیٹھ گئی؟"

وہ ششدر سے بولے۔


"کیا مطلب ہے آپ کا؟"

منال سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"بیٹا پاسٹ ماٹم کروائیں گے یہ پولیس کیس ہے تمہیں ہاتھ نہیں لگانا چائیے تھا۔۔۔"

وہ تاسف سے بولے۔


"مجھے اپنی ماما کی بے حرمتی نہیں کروانی۔ کوئی پاسٹ ماٹم نہیں ہو گا میں بتا رہی ہوں۔۔۔"

منال رمشا کے سرہانے بیٹھتی ہوئی بولی۔


فیصل صاحب آنکھوں میں اشک لئے کبھی رمشا کو دیکھتے تو کبھی منال کو۔

منال ہچکیاں لیتی رو رہی تھی پکار رہی تھی لیکن اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

بھلا جانے والے بھی آواز دیتے ہیں کیا؟ انہیں جتنا پکار لیا جاےُ جتنی منتیں کی جائیں پھر وہ نہیں بولتے جو ایک بار روٹھ کر منہ موڑ لیتے ہیں پھر وہ کہاں سنتے ہیں؟ نہ بولتے ہیں کتنا ہی گڑگڑا لیں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جو چلے جائیں پھر واپس نہیں آتے۔

فیصل صاحب منال کے سر پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دینے لگے۔


منال نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

آنسو ہر منظر کو دھندلا رہے تھے۔

منال کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے دھند دکھائی دے رہی تھی۔

سرمئ دھواں ہر منظر کو اپنے اندر سماتا جا رہا تھا۔

آوازیں مدھم ہو رہی تھیں یادیں دھندلی ہو رہی تھیں۔

فیصل صاحب اسے پکار رہے تھے لیکن شاید وہ سن نہیں رہی تھی۔

آنکھوں کے سامنے سیاہ بادل چھا گئے اور منال ہوش سے بیگانہ ان کی گود میں گر گئی۔

"منال بچہ آنکھیں کھولو؟"

فیصل صاحب اس کا منہ تھپتھپانے لگے۔

~~~~~~~~~

"جلدی کرو فیضی آنے والا ہو گا۔۔۔"

عزہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔

ملازمہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگی۔


عزہ سیاہ رنگ کی ساڑھی زیب تن کئے ہوۓ تھی۔ سیاہ رنگ نے اس کی گندمی رنگت کو چار چاند لگا دئیے تھے۔

نفاست سے کیا گیا میک اپ اسے مزید دلکش بنا رہا تھا۔ ہونٹ سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ تھے۔ ایک ہاتھ سے وہ ساڑھی کا پلو پکڑے ہوۓ تھی اور دوسرے ہاتھ میں فیضی کا فور پیس پکڑے قدم اٹھانے لگی۔

ہیل کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی۔


لبوں پر مسکراہٹ بکھیرے وہ بیڈ روم میں آ گئی۔

احتیاط سے فیضی کے کپڑے رکھے اور ایک نظر قد آور آئینے میں دکھائی دیتے اپنے عکس پر ڈالی۔

عزہ مسکرانے لگی۔


یہ مسکراہٹ لوگوں کے لئے تھے۔ یہ مسکراہٹ اپنا درد چھپانے کے لئے تھی۔ سب کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی کچھ لوگوں کے حصے میں ان پھولوں سے جڑے کاٹنے ہی آتے ہیں۔ اور کانٹوں پر سفر کرنا آسان نہیں۔ اگر آپ کانٹوں پر سفر کر رہے ہیں تو ہر گز یہ مت سمجھئیے گا کہ آپ کے پاؤں صحیح سلامت رہیں گے۔

عزہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنے بائیں رخسار کو چھوا۔


"سی! "

درد کی ایک لہر اس کے رگ و پے پر سرایت کر گئی۔

میک اپ سے اس نے اپنے زخم چھپا رکھے تھے جو چھونے پر رسنے لگتے۔

آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

عزہ کی آنکھوں کے سامنے کچھ دیر قبل کا منظر گھوم گیا۔


"تم نے ابھی تک کپڑے پریس نہیں کرواےُ؟"

فیضی چلاتا ہوا کمرے میں آیا عزہ جو میگزین کھولے بیٹھی تھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئی۔


"تم نے کہا تھا لیٹ جانا ہے اس لئے میں نے سوچا تھوڑی دیر تک۔۔۔"

وہ ابھی بول رہی تھی جب فیضی نے اس بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

عزہ متوحش سی فیضی کو دیکھنے لگی۔


"تمہیں کتنی بار بکواس کی ہے کہ اپنی جانب سے فیصلے مت لیا کرو۔۔۔"

فیضی دھاڑا۔

عزہ نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ,


"تڑاخ! "

فیضی کے تھپڑ سے عزہ بیڈ پر جا گری۔

ابھی وہ اس افتاد سے سنبھلی نہیں تھی کہ فیضی اس کے سر پر آ پہنچا۔


"کیا کر رہی تھی سچ سچ بتاؤ؟"

فیضی اس کی نازک کلائی دبوچے غرایا۔


"فیضی تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔۔۔"

عزہ نے اپنی بازو اس کی فولادی گرفت سے آزاد کروانی چاہی۔


"میرا دماغ خراب ہے؟ میرے آگے زبان چلاؤ گی تم؟"

فیضی نے کہتے ہوۓ اپنا ہاتھ عزہ کے نازک رخسار پر جھڑ دیا۔

عزہ اندر تک لرز گئی۔

وہ کسی وحشی درندے کی مانند عزہ پر لپکتا تھا۔


"وہ دیکھ لو میگزین پڑھ رہی تھی۔۔۔"

عزہ ٹوٹتے آنسو ہاتھ کی پشت سے رگڑتی ہوئی بولی۔

فیضی نے گردن گھما کر عقب میں گرے میگزین پر نظر ڈالی۔


"پاگل بناتی ہو مجھے؟"

اب عزہ کے بال فیضی کی زد میں تھے۔


"آہ! فیضی لیو! "

عزہ کراہ رہی تھی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔


"سدھر جاؤ تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔۔"

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلایا۔

عزہ اشک بہاتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔

ایک نظر عزہ کو گھورنے کے بعد فیضی اسے بیڈ پر پھینکتا باہر نکل گیا۔

عزہ نے سر ہاتھوں میں تھام لیا۔


"ایسا لگتا ہے روز مجھے ڈوز دیتا ہے۔۔۔"

وہ سسکتی ہوئی بولی۔

پھر کسی خیال کے تحت اٹھ بیٹھی۔


"اگر دیر ہو گئی تو پھر بلاوجہ مارے گا۔۔۔"

وہ دونوں ہاتھوں سے بال سمیٹتی وارڈروب کھول کر کھڑی ہو گئی۔


عزہ تلخی سے مسکرانے لگی۔

انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی وہ گھڑی دیکھنے لگی۔

"اب خود لیٹ کر رہا یہ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔"

وہ ایک آخری نظر خود پر ڈالتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

"ڈیڈ میں جا رہی ہوں۔۔۔"

عدن نک سک سی تیار ان کے سامنے کھڑی تھی۔


"ثمن گھر پر ہے یا وہ بھی جا رہی ہے؟"

علی صاحب اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔


"نہیں وہ گھر پر ہے۔۔۔"

وہ دروازے کی جانب قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔


"ٹھیک ہے بیٹا ٹیک کئیر!"

علی صاحب مسکراتے ہوۓ بولے۔

عدن مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔


ایک ہاتھ میں چابیاں تھیں اور دوسرے ہاتھ میں کلچ۔

عدن اس وقت سرخ رنگ کا پارٹی ڈریس زیب تن کئے ہوۓ تھی۔

سیاہ ریشمی بال کھول کر آگے ڈال رکھے تھے۔ بیوٹیشن کا ہنر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ دودھیا رنگت پر سرخ لپ اسٹک غضب ڈھا رہی تھی۔ سیاہ آنکھوں کے آگے گھنی پلکوں کی باڑ تھی۔

ڈرائیور مؤدب انداز میں دروازہ کھولے کھڑا تھا۔


"میں چلی جاؤں گی تم جاؤ۔۔۔"

عدن اپنی گاڑی کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔


"جی میم۔۔۔"

وہ سر جھکا کر دروازہ بند کرتا چل دیا۔


وہ دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھی اور فون کان سے لگا لیا۔

"یار تم واپس آےُ نہیں؟"

عدن دروازہ بند کرتی ہوئی بولی۔


"ہاں آ گیا ہوں۔۔۔"

مصروف سے انداز میں کہا گیا۔


"ناراض ہو؟"

عدن نے خدشہ ظاہر کیا۔


"تمہیں فرق پڑتا ہے؟"

وہ بےرخی سے بولا۔


"آف کورس!"

عدن بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔


"عدن مل کر بات کرتے ہیں۔۔۔"

اس نے ٹالنا چاہا۔


"پکا آؤ گے نہ؟"

عدن مطمئن نہیں ہوئی۔


"یس۔۔۔"

بس اتنا ہی کہا گیا۔

اس نے مایوسی سے فون بند کر دیا۔

جانتی تھی اب وہ نہیں آےُ گا۔

عدن نے ایک سرد آہ بھری اور گاڑی ریورس کرنے لگی۔


پارٹی میں گہما گہمی عروج پر تھی آج وہ لیٹ ہو گئی تھی۔

"عدن یو آر ٹو لیٹ۔۔۔"

عائشہ اس سے ملتی ہوئی شکوہ کرنے لگی۔


"آئم سوری مجھے اندازہ نہیں ہوا۔ شہری آیا ہے؟"

عدن آس پاس نظر ڈالتی ہوئی بولی۔


"تم دونوں کی جوڑی بھی اف! یار پہلے سب سے مل تو لو۔۔۔"

عائشہ خفگی سے بولی۔


"اوکے آؤ چلتے ہیں۔۔۔"

عدن سر جھٹکتی ہوئی بولی۔


ایک وسیع ہال روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔

لوگ ہاتھ میں گلاس پکڑے باتوں میں مشغول تھے۔

مدھم مدھم سی موسیقی سر پھونک رہی تھی۔

یہ تھی شوبز کی دنیا جہاں سے عدن کا تعلق تھا جو عدن کی دنیا تھی۔

عدن آگے بڑھ گئی۔


"کیسے ہو عمیر؟"

عدن اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔


"بلکل فٹ اور تم؟"

عمیر مسکراتا ہوا بولا۔


"ففٹی ففٹی!"

عدن بائیں آنکھ دباتی ہوئی بولی۔


"آہاں ناراضگیاں؟"

عمیر قہقہ لگاتا ہوا بولا۔

عدن آگے بڑھ کر ولید سے ملنے لگی جو کہ مشہور زمانہ سنگر تھا۔

اسی طرح ملنے ملانے کا دور تمام ہوا تو عدن عزہ کے سامنے آ گئی۔


"بیوٹی کوئین یہاں کیوں کھڑی ہو؟"

وہ بغل گیر ہوتی ہوئی بولی۔


"کیوں یہاں کھڑے ہونا منع ہے؟"

عزہ شرارت سے بولی۔


"نہیں نہیں منع کیوں ہو گا دراصل یہ جگہ کچھ الگ تھلگ ہو جاتی ہے اس لئے۔۔۔"

عدن بھرپور انداز میں اس کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔


"عزہ واٹ از دس؟"

عدن کی نظر اس کے بائیں رخسار پر ٹھر گئی۔


"واٹ؟"

عزہ ہڑبڑا گئی۔

عدن نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بائیں رخسار کو چھوا تو عزہ نے آنکھیں میچ لیں۔


"اس نے مارا ہے تمہیں؟"

عدن یکدم غصے میں آ گئی۔


"عدن لیو اٹ پارٹی ہے اینجواےُ کرتے ہیں۔۔۔"

عزہ اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

عدن اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلی جس کے باعث عزہ کو رکنا پڑا۔


"واٹ دا ہیل از دس؟"

عدن تاؤ کھاتی ہوئی بولی۔


"تم پارٹی خراب نہیں کرو گی۔۔۔"

عزہ کی آنکھوں میں تنبیہ تھی۔


"ہاؤ کوڈ یو؟"

عدن تاسف سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


"اس پر بہت بحث ہو چکی ہے کوئی فائدہ نہیں یہ بتاؤ شہری سے ملی؟ وہ کب سے ڈھونڈ رہا ہے تمہیں۔۔۔"

عزہ نے موضوع بدلا۔

شہری کے نام پر عدن کو اس موضوع کو چھوڑنا پڑا۔


"پاگل ہے ایک فون نہیں کر سکتا مجھے۔۔۔"

عدن نفی میں سر ہلاتی فون دیکھنے لگی۔


"عدن تم نے نیوز دیکھی؟"

عزہ جوس کا سپ لیتی ہوئی بولی۔


"کون سی؟"

عدن آبرو اچکا کر بولی۔


" ایڈووکیٹ رانا فیصل کی وائف کا مرڈر ہو گیا آج صبح۔۔۔"

عزہ تاسف سے بولی۔


"اوہو نائس تھیں وہ۔۔۔"

عدن افسوس کا اظہار کرتی ہوئی بولی۔


"شہری تم میرے سامنے آؤ پھر پوچھوں گی۔۔۔"

عدن فون کان سے لگاتی ہوئی بولی۔

دوسری جانب اسے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔


"سئیرئسلی بہت بگڑ گیا ہے یہ۔۔۔"

عدن فون بند کرتی ہوئی بولی۔

عزہ ہلکا سا مسکرائی۔

~~~~~~~~~

عشاء کی نماز پڑھ کر حسنین نے گھر کا رخ کیا۔

آج وہ وقت پر نماز نہیں پڑھ سکا تھا۔

حسنین نے دروازہ کھولا اور اندر آ گیا۔


"کھانا کھا لو حسنین میں کب سے انتظار کر رہی ہوں تمہارا۔۔۔"

وہ چالیس پچاس سال کی خاتون تھیں جو خفگی سے حسنین کو دیکھ رہی تھیں۔

حسنین سر کھجاتا ان کے پاس بیٹھ گیا۔


"آپ کو کہا ہے انتظار نہ کیا کریں میں خود گرم کر لیتا۔۔۔"

وہ خفا خفا سا بولا۔


"سارا دن کام کرتے ہو گھر آ کر بھی تم سے کام کروایا کروں؟"

ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔


"اچھا امی کل سے کوشش کروں گا جلدی آ جاؤں۔۔۔"

حسنین مسکراتا ہوا بولا۔

انہوں نے ایک نظر حسنین کو دیکھا تو مسکرانے لگیں۔

حسنین کی شہد رنگ کی آنکھیں چمکنے لگیں۔


"چلو اب کھا لو۔۔۔"

وہ حسنین کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔


"ویسے آپ جانتی ہیں نہ مجھے ساگ نہیں پسند؟"

حسنین ایک تنقیدی نظر ان پر ڈالتا کھانے لگا۔


"سب کچھ کھانا چائیے یہ بھی ﷲ کا رزق ہے۔۔۔"

وہ اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولیں۔

حسنین کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی جسے اس نے بروقت چھپا لیا۔


"اچھا آپ جا کر آرام کریں اب۔۔۔"

وہ چہرہ اٹھا کر بولا۔


"تم کھا لو پھر برتن سمیٹنے ہیں۔۔۔"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔


"میں رکھ دوں گا آپ جائیں آرام کریں صبح سے جاگ رہی ہیں۔۔۔"

حسنین خفگی سے بولا۔


وہ جانتی تھیں اگر وہ نہ گئیں تو حسنین بولتا رہے گا اسی لئے خاموشی سے صحن عبور کر کے کمرے میں چلی گئیں۔

حسنین پرسکون سا ہو کر کھانے لگا۔

~~~~~~~~

"تم کیوں نہیں جا رہی پارٹی میں؟"

حارب کش لیتی ملیحہ کو دیکھتا ہوا بولا جو اس وقت ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوۓ تھی۔ بال معمول کے خلاف بکھرے ہوۓ تھے۔ آنکھیں سرخ تھیں اور چہرہ بجھا ہوا تھا۔


"جہاں وہ عدن جاےُ گی میں نہیں جاؤں گی۔۔۔"

وہ قطعیت سے بولی۔


"پارٹی عدن کی نہیں عائشہ کی ہے۔۔۔"

حارب زور دے کر بولا۔


"واٹ ایور!"

ملیحہ لاپرواہی سے بولی۔


"مانو ایسا کب تک چلے گا؟"

حارب بیزاری سے بولا۔

ملیحہ نے سیگرٹ اس کے سامنے کی جو حارب نے بنا کسی حیل و حجت کہ تھام لی۔


"جب تک وہ عدن تباہ نہیں ہو جاتی۔۔۔"

ملیحہ سرمئ دھواں اڑاتی تنفر سے بولی۔

حارب بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔


"تم جانتے ہو میری زندگی میں سب سے بری چیز وہی ہے آئی جسٹ ہیٹ ہر۔۔۔"

ملیحہ کے ایک ایک لفظ سے حقارت چھلک رہی تھی۔


"مانو یار دفعہ کرو وہ اس فیلڈ میں ہے تمہیں فیس کرنا پڑے گا اور وہ اکیلی تو نہیں اور بھی بہت سی ایکٹرس اس سے زیادہ بلندی پر ہیں۔ نجانے کیوں تم نے اسی سے رقابت پال لی ہے۔۔۔"

حارب نے اسے سمجھانا چاہا۔


"میری بات سن لو حارب میں اسے تباہ و برباد کر دوں گی اور تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گی!"

ملیحہ انگلی اٹھا کر حارب کو گھورتی ہوئی بولی۔


"اوکے کچھ کرتے ہیں۔۔۔"

حارب کھڑا ہوتا ہوا بولا۔


"کہاں؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"جہاں تم نہیں جا رہی اب میں اپنے تعلقات تو خراب نہیں کر سکتا نہ؟"

حارب خفا خفا سا بولا۔


ملیحہ نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ حارب لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

ملیحہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔

~~~~~~~~

عدن ہال کے وسط میں کھڑی تھی۔

عین اس کے اوپر فانوس لٹک رہا تھا۔ روشنی سے چمکتا دمکتا فانوس۔

اس کے چہرے پر خفگی اور غصہ دونوں کا عنصر تھا۔


"شہری تم سامنے آؤ بخشوں گئ نہیں تمہیں۔۔۔"

عدن دائیں بائیں دیکھتی دانت پیستی ہوئی بولی۔


سیاہ دو آنکھیں عدن پر مرکوز تھیں جن سے وہ انجان تھی۔

فانوس کی زنجیر ٹوٹی ہوئی تھی دھیرے دھیرے وہ نیچے آ رہا تھا۔

موسیقی کے باعث کسی کو آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

شہری فون کان سے لگاےُ اسی سمت آ رہا تھا۔

چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔

وہ دو آنکھیں اب غائب ہو چکی تھیں۔


"واٹ! کون ہو تم؟ اور کیسے معلوم ہوا تمہیں؟"

شہری نگاہیں اوپر اٹھا کر فانوس کو دیکھتا ہوا بولا۔

آنکھوں میں خوف اور تحیر سمٹ آیا۔

نگاہیں نیچی کیں تو عدن کھڑی دکھائی دی۔


"نو! "

شہری بولتا ہوا بھاگنے لگا۔

عدن آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھور رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ جہاں وہ کھڑی ہے وہاں کسی بھی لمحے فانوس گر سکتا ہے۔


"عدن پیچھے ہٹو! "

شہری بھآگتا ہوا چلایا۔

عدن کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

وہ سن نہیں سکی تھی۔


"کیا کہہ رہے ہو؟"

عدن وہیں سے چلائی۔

شہری جھنجھلاتا ہوا اس کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر دور لے آیا۔


تیس سیکنڈ بعد فانوس چھن کر زمین بوس ہو چکا تھا۔

سب ہکا بکا سے اس ہونے والے دھماکے کو دیکھ رہے تھے۔

شیشہ کرچی کرچی ہو چکا تھا۔

زمین پر شیشے بکھر چکے تھے۔

وہاں موجود ہر ذی روح متحیر تھا۔

عدن کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔


"اگر تم مجھے نہ ہٹاتے پھر؟"

وہ منہ کھولے شہری کو دیکھتی ہوئی بولی۔

شہری تعجب سے کبھی اس گرے ہوۓ فانوس کو دیکھتا تو کبھی آس پاس موجود بھیڑ کو۔

عدن حواس باختہ سی شہری کو دیکھتی ہوئی اس کے سینے میں سر چھپا گئی۔

"تمہیں کیسے علم ہوا؟"

چند لمحے سرکنے کے بعد اس نے زبان کھولی۔


"مجھے سمجھ نہیں آ رہا کس نے کال کی تھی مجھے؟"

شہری دائیں بائیں گردن گھماتا موجود افراد کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔


"کال؟"

اس نے تعجب سے زیر لب دہرایا۔ اور دو قدم دور ہو گئی۔


"ہاں کسی انجان نمبر سے کال آئی تھی ابھی اور کہا کہ تمہیں بچاؤں جا کر اور جب تمہیں دیکھا تو سمجھ آیا لیکن وہ انسان خود کہاں ہے؟"

وہ ابھی تک الجھا ہوا تھا۔


"سٹرینج! اگر اسے معلوم تھا تو خود آ جاتا اور اگر یہاں ہی ہے تو پھر سامنے کیوں نہیں آیا؟ اور سب سے بڑھ کر اسے معلوم کیسے ہوا؟"

وہ شہری کو دیکھتی پے در پے سوال کرنے لگی۔


"تمہیں میں انسان لگتا ہوں یا نہیں؟"

وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھتا ہوا بولا۔

"آف کورس تم کیوٹ سے انسان پلس میرے! "

وہ بائیں آنکھ دباتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ کر شہری کے گال کھینچنے لگی۔


"تو پھر میرے پاس ان سب سوالوں کے جواب کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر مجھے معلوم ہوتا تو یوں الجھا ہوا نہ ہوتا۔۔۔"

وہ گھورتا ہوا بولا۔


"اچھا چلو کوئی بات نہیں۔آرام سے بیٹھ کر سوچتے ہیں اور یہ بتاؤ کہاں چھپ رہے تھے؟"

وہ اس کا کان کھینچتی ہوئی بولی۔

"آؤچ! "

وہ رونے والی شکل بناےُ اسے دیکھنے لگا۔

"میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں۔۔۔"

وہ آگے کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔


"مجھے سمجھ نہیں آ رہا یہ گر کیسے گیا اگر میرے کسی گیسٹ کو نقصان پہنچ جاتا پھر؟"

عائشہ مینیجر پر دھاڑ رہی تھی۔

شہری اور عدن گردن گھما کر انہیں دیکھتے آگے نکل گئے۔


"یہاں بیٹھتے ہیں۔۔۔"

وہ پول کے کنارے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

شہری بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

~~~~~~~~~

منال آنکھیں کھولے چھت کو گھورنے لگی۔

چند لمحے لگے اسے حواس بحال کرنے میں۔

دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو ہر چیز یاد آنے لگی۔

رمشا کا خون آلود چہرہ، زمین پر گرا خون، ہر چیز اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔


"ماما! "

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

"بیٹا آرام سے۔۔۔"

فیصل صاحب اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولے۔

"پاپا ماما کہاں؟"

وہ حیرت زدہ انہیں دیکھنے لگی۔


"بیٹا آپ کی ماما کی تدفین کر چکے ہیں ہم۔ آپ کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی اس لئے ڈاکٹر نے بیہوشی کا انجیکشن لگا دیا آپ کو۔۔۔"

وہ منال کی پیشانی پر منتشر بالوں کو درست کرتے ہوۓ بولے۔


"پاپا ایسے کیسے؟"

وہ ششدر رہ گئی۔

"بیٹا سنبھالو خود کو۔۔۔"

فیصل صاحب اس کا سر تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔


وہ بولنا چاہتی تھی لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

وہ ان کے سینے سے لگی سسکنے لگی۔

کمرہ میں خاموشی گونج رہی تھی جس میں منال کی سسکیاں ارتعاش پیدا کرتیں۔

~~~~~~~~~

"نشاء اب میں تمہارا مزید کوئی پاگل پن برداشت نہیں کروں گا۔۔۔"

فیصل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

وہ مسکراتی ہوئی اس کے مقابل آ گئی۔


"تم میرے ساتھ ایسے کیسے بات کر سکتے ہو؟"

آنکھیں خفا دکھائی دے رہی تھیں اور انگلی فیصل کے رخسار پر رقص کر رہی تھی۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر نشاء کا ہاتھ جھٹک دیا۔


"تم فضول کے وہم مت پالو۔ فرضی کہانیاں بُننا بند کر دو۔ دوستی کو ریلیشن کا نام مت دو۔۔۔"

اس کی آنکھوں میں کدورت تھی۔

وہ تنگ آ چکا تھا۔


اس ٹرپ نے اسے حد سے زیادہ زچ کر دیا تھا۔ وہ جو سوچ کر آیا تھا وقت اچھا گزرے گا صورتحال بلکل مختلف تھی۔

"فائن جاؤ عدن کے پاس میں نے کب روکا؟"

وہ بےرخی سے کہتی کھڑکی کی جانب قدم بڑھانے لگی۔

فیصل سانس خارج کرتا شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا۔


"نیور سی یو اگین۔۔۔"

وہ بیزاری سے کہتا باہر نکل گیا۔

نشاء کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔

وہ سانس خارج کرتی فون پر انگلیاں چلانے لگی۔


"شوٹ کہاں ہے؟"

اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"ٹھیک ہے مجھے انفارم کر دینا میں ریڈی ہوں۔۔۔"

اس کے لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔


دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا اور چہرہ کھل اٹھا تھا۔

جب دل کی مراد پوری ہو جاےُ تو چہرے کھل اٹھے ہیں۔

نشاء لب دباےُ گنگناتی ہوئی آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔

"ویری سون۔(بہت جلد) "

مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔

~~~~~~~~~

"کون سے جراثیم تمہارے اندر آ گئے ہیں بتانا ذرا؟"

عدن شہری کو آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولی۔


"میرا جرم کیا ہے جج صاحبہ! "

وہ سینے پر ہاتھ رکھے دہائی دیتا ہوا بولا۔


"آپ کا جرم یہ ہے کہ مجھے گزشتہ آٹھ گھنٹے سے ستا رہے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں آپ کو اب مجھے پوری رات کمپنی دینی ہو گی۔۔۔"

عنابی لب مسکرانے لگے تھے۔

وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے قہقہے لگانے لگا۔


"اور اگر ملزم کو سزا سے اختلاف ہو پھر؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"جج میں ہوں تم نہیں اس لئے سزا بھی میں ہی منتخب کروں گی۔۔۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"اچھا میری جنگلی بلی مجھے دل کی گہرائیوں سے آپ کی یہ سزا قبول ہے۔۔۔"

وہ عدن کے بال بکھیرتا ہوا بولا۔

وہ خفگی سے شہری کو گھورنے لگی۔


"یار شہری کچھ کرو نہ؟"

وہ اس کے شانے پر سر رکھتی ہوئی تھکے تھکے انداز میں بولی۔


"بات نہیں ہوئی تمہاری؟"

کچھ دیر قبل والی شوخی اب غائب ہو چکی تھی جس کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی۔

"ہوئی تھی اس نے کہا تھا آؤں گا لیکن نہیں آیا۔۔۔"

عدن نیلگوں شفاف پانی پر نگاہیں مرکوز کرتی ہوئی بولی۔


چہرے کا بوجھل پن اس کے اندر کی تھکن کی عکاسی کر رہا تھا۔

وہ الجھن کا شکار تھی اور شاید بے بس بھی۔


"اب تم فیس ٹو فیس بات کرنا۔ اس طرح فون پر بات مزید بگڑ جاتی ہے۔۔۔"

شہری چہرہ موڑے عدن کو دیکھتا ہوا بولا۔ لیکن وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔


"ہاں اب ایسے ہی کروں گی۔۔۔"

اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔

شہری نے خاموشی کو بولنے کا موقع دیا۔

بعض اوقات الفاظ سے زیادہ خاموشیاں سہارا دیتی ہیں۔ اور شہری کا ساتھ ہی عدن کا سہارا تھا۔

~~~~~~~~~

رات کا پچھلا پہر تھا۔ اس وقت منال مرے مرے قدم اٹھاتی چلتی جا رہی تھی۔

تاریکی میں گونجتی خاموشیوں وہ بخوبی سن رہی تھی۔

اس گھر کی در و دیوار سے اسے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ اپنی ماں کے سنگ گزارے لمحے یاد آ رہے تھے۔

منال بھیگی آنکھوں سے مسکرانے لگی۔

مسز فیصل اس کے بالمقابل کھڑی تھیں اور منال کو ڈانٹ رہی تھیں۔

وہ ان کی ڈانٹ کا اثر لئے بنا کھلکھلا رہی تھی۔

مسز فیصل کے چہرے پر خفگی کا عنصر مزید گہرا ہو گیا۔


منال نے مسکراہٹ دبانی چاہی لیکن ناکام رہی۔ وہ ماں تھیں بیٹی کی مسکراہٹ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہ لاتی ممکن ہی نہیں تھا۔

مسز فیصل کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ رینگ گئی جسے انہوں نے بروقت چھپا لیا۔


وہ حسرت زدہ سی اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔

آنسو نجانے کب سے ٹوٹ کر بے مول ہو رہے تھے لیکن وہ اس بات سے انجان تھی۔

دھند چھٹنے لگی تو یادیں بھی دھندلی پڑ گئیں۔ اس کے سامنے سواےُ اندھیرے کے کچھ بھی نہیں تھا۔

وہ حونق زدہ سی آگے بڑھی۔


"ماما؟"

بےقراری سے پکارا گیا۔

وہ انہیں پکار رہی تھی لیکن جواب ندارد۔

وہ گھٹنے زمین پر رکھے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔

آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو چکا تھا۔

گرم مادہ اس کے رخسار کو بھگو رہا تھا۔


تکلیف شدت پکڑ رہی تھی۔ درد کی جب انتہا ہو جاےُ تو انسان بےبس ہو جاتا ہے۔

ایک اضطراب اسے اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے جس سے وہ چاہ کر بھی نکل نہیں پاتا۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے انسان اتنا بےبس کیوں ہے؟ کیا اتنا سا بھی اختیار نہیں اسے اپنی زندگی پر؟


منال بےبسی کی انتہا پر تھی۔ ایسا اس کے ساتھ دو دن سے ہو رہا تھا۔ غم غصہ کی حالت میں تغیر ہو رہا تھا اور غیض بدلہ کی حالت میں۔

اس کی آنکھوں میں شعلے اٹھ رہے تھے۔

دل اب بدلے کی آگ میں جلنا شروع ہو چکا تھا۔


"جس انسان نے آپ کو مجھ سے دور کیا ہے میں اسے بخشوں گی نہیں۔"

منال ہاتھ کی پشت سے گال رگڑتی ہوئی بڑبڑائی۔


سورج کی پہلی کرن دیکھنے کے بعد منال نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھا۔

منال اس وقت گھٹنوں تک آتی سادہ سی قمیص کے ساتھ کیپری زیب تن کئے ہوۓ تھی۔ بال ہمیشہ کی مانند حجاب میں پوشیدہ تھے۔چہرہ مرجھایا ہوا تھا,سرخ آنکھیں رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔ گلابی لب سختی سے آپس میں مبسوط تھے۔


وہ پیدل چل رہی تھی۔ صبح سویرے ڈھنڈی ہوا کے جھونکے آ کر منال سے ٹکرا رہے تھے۔ ہوا خنکی میں اضافہ کر رہی تھی۔

منال ناک کی سیدھ میں چلتی جا رہی تھی۔ وہ گھر سے دور کچی آبادی کی جانب روانہ تھی۔


"ڈیڈ ہمیشہ ماما کو اس گھر میں جانے سے روکتے تھے۔ کہیں اس گھر کا لنک ماما کی ڈیتھ سے تو نہیں؟"

بلاآخر منال نے اپنے دماغ میں تانے بانے جوڑنے کا آغاز کیا۔


وہ بچپن سے اس گھر کے متعلق متجسس تھی جس کے متعلق اسے کبھی کچھ نہیں بتایا گیا۔

"میرے سوالوں کے جواب وہیں سے ملیں گے۔"

منال کا لہجہ پراعتماد تھا۔

~~~~~~~~~~

اس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا جو احساس تھا وہ بھاری سر کا تھا۔

ایسا اکثر اس کے ساتھ ہوتا تھا۔

یہ ان ڈرنکس کا اثر تھا جو وہ پارٹی میں پیتی تھی۔

عدن نے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔

اگلے ایک منٹ میں وہ بیڈ سے اتر چکی تھی۔


اسے اپنی روٹین کے مطابق خود کو سیٹ کرنا آتا تھا۔

سائیڈ ٹیبل سے کیچر اٹھا کر بکھرے بالوں کو باندھنے لگی۔

جمائی لیتی وہ واش روم کی جانب چل دی۔

اسے آج شوٹنگ کے لئے جانا تھا اور وہ تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی۔


بلیک جنیز پر وائٹ شرٹ پہنے شانے پر بیگ لٹکاےُ عدن کمرے سے باہر نکلی۔

توقع کے عین مطابق سب سو رہے تھے۔

خاموشی میں اس کی ہیل کی ٹک ٹک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔


"رابن جلدی سے مجھے کافی لا دو۔"

ٹی وی لاؤنج میں قدم رکھتے ہوۓ وہ مصروف سے انداز میں بولی۔

وہ اپنے بیگ میں کچھ تلاش رہی تھی۔

رابن سر جھکا کر وہاں سے چلا گیا۔


وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ صوفے پر بیٹھی فون پر انگلیاں چلا رہی تھی جب ثمن آنکھیں مسلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔

"سیٹ پر جا رہی ہیں؟"

وہ جمائی روکتی ہوئی اس کے بغل میں بیٹھ گئی۔


"یس جانی۔"

عدن ہلکا سا مسکرائی۔

"مجھے شاپنگ کے لئے جانا تھا آپ کے ساتھ لیکن لگتا ہے آج بھی ٹائم نہیں آپ کے پاس۔"

وہ مایوس ہوئی۔


عدن حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ایسا ہو سکتا ہے میرے پاس تمہارے لئے ٹائم نہ ہو؟"

اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا۔


"مطلب ڈن؟"

ثمن کا چہرہ کھل اٹھا۔

"آف کورس رات میں, میں فری ہوں تم ٹینشن مت لو آج ہی چلیں گے۔"

وہ کافی کا مگ دیکھتی ہوئی بولی جو رابن لئے کھڑا تھا۔


"میم آپ کے لئے کافی؟"

وہ سوالیہ نشان بنا کھڑا تھا۔

"نہیں بعد میں۔"

بیزاری سے جواب آیا۔

چند لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے۔


"اوکے ہنی ابھی مجھے جانا ہے رات میں ملتے ہیں۔"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔

ثمن پھیکا سا مسکرا دی۔

عدن اپنا بیگ سنبھالتی وہاں سے نکل گئی۔

~~~~~~~~~

منال اپنی سوچ کے دائرے کے گرد گردش کرتی چل رہی تھی جب اسے اپنے عقب سے ہارن سنائی دیا۔

اس ہارن نے اس کی سوچوں میں خلل پیدا کر دیا جس کے باعث اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


اس نے سر کو ہلکا سا دائیں جانب گھمایا۔

جگہ اتنی تھی کہ بآسانی گاڑی گزر سکے۔

اسے یکدم غصہ آنے لگا۔

گاڑی والا مسلسل ہارن دے رہا تھا۔


"آخر کیا تکلیف ہے اسے؟"

وہ کوفت سے بڑبڑائی۔

گاڑی والے کی ڈھٹائی کی بھی داد دینی چائیے جو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

وہ اپنی اپنی جگہ پر قائم تھے نہ منال سائیڈ پر ہونے پر رضامند تھی نہ ہی گاڑی والا۔

مزید گاڑی کا ہارن سننا منال نے گوارا نہ کیا۔ تن فن کرتی مڑی اور گاڑی کے پاس آگئی۔


"باہر نکلو؟"

حکم آیا تھا۔

مقابل کچھ حیران ہوا پھر اس خیال کر کے باہر نکل آیا۔


اتنی تابعداری شاید اس نے اپنے ماں باپ کی بھی نہیں کی ہو گی جتنی اس وقت اس انجان لڑکی کی کر گیا۔

منال دانت پیستی ہوئی اس کی جانب قدم بڑھانے لگی۔


"یہ سڑک تمہارے باپ کی نہیں ہے۔"

وہ لڑکا منال کی جانب بڑھتا ہوا درشتی سے بولا۔

"اور تمہارے باپ نے کب یہ سڑک بنوائی تھی؟"

منال کو بھی موقع مل گیا اندر کا غبار غصہ کی صورت میں نکالنے کا۔

مقابل تلملا اٹھا۔


"پیدل چلنے والے ایک سائیڈ پر ہو کر چلتے ہیں اتنا بھی نہیں سکھایا کسی نے تمہیں؟"

اب کہ برہمی سے جواب آیا۔


"اور تمہیں کسی بے یہ نہیں سکھایا کہ اگر راستہ ہو تو کسی کو تنگ نہیں کرنا چائیے تم آرام سے گزر سکتے تھے گاڑی تھوڑی سائیڈ کرنے میں کیا قباحت تھی؟"

وہ بھی میدان میں اتری۔


"مطلب ان ڈائریکٹلی تم مجھے غلط کہہ رہی ہو؟"

وہ سینے پر بازو باندھے فرصت سے منال کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔

"بلکل تمہاری غلطی ہے مجھے سمجھ نہیں آتی ایسے لوگوں کو گاڑی دیتا ہوں ہے؟"

وہ اشتعال میں آ گئی۔


"پہلے مجھے یہ بتاؤ تمہیں گھر سے کس نے نکلنے دیا چھٹانک بھر کی لڑکی ہو تم اکیلی کر کیا رہی ہو یہاں اور مجھے۔"


"تم میرے باپ نہیں ہو اور نہ ہی بنو تو بہتر ہوگا۔ میں جہاں چل رہی تھی وہیں چلوں گی دیکھتی ہوں کیا کروں گے تم۔"

وہ چیلینج کرنے والے انداز میں کہتی آگے کی جانب قدم بڑھانے لگی۔


"تم جیسی پاگل لڑکی کے منہ میں لگنا بھی نہیں چاہتا۔"

وہ کہتا ہوا واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔


منال سینے پر بازو باندھے بڑبڑاتی ہوئی چلتی جا رہی تھی جب اس لڑکے کی گاڑی سپیڈ سے منال کے پاس آئی۔ اگر بروقت منال دو قدم دور نہ ہٹتی تو یقیناً ٹکرا جاتی۔

وہ لڑکا منال کی جانب جلانے والے مسکراہٹ اچھالتا آگے نکل گیا۔


"دوبارہ کسی ایسے بے عقل سے پالا نہ پڑے۔"

منال کوفت سے دور جاتی گاڑی کو دیکھتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

"سیفی میرا میک اپ ٹھیک کرو۔"

عدن منہ بناتی ہوئی بولی۔

سیفی اس کا میک اپ آرٹسٹ جو چند قدم کی مسافت پر کھڑا تھا جلدی سے اس کے پاس آ گیا۔


عدن نے ہاتھ میں اسکرپٹ پکڑی اور اسے پڑھنے لگی اگرچہ اسے لائنز یاد تھیں لیکن پھر بھی اس نے ایک نظر دیکھنا بہتر سمجھا۔

دور درخت کے ساتھ ٹیک لگاےُ وہ کھڑا تھا۔ دو سیاہ آنکھیں عدن پر مرکوز تھیں۔ لیکن آج بھی وہ ناواقف تھی۔

عدن نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

چہرے پر خوشی کی رمق نمایاں تھی۔

شاہد تم؟"

وہ کہتی ہوئی اس کی جانب قدم اٹھانے لگی۔

سیفی اسے جاتا دیکھنے لگا۔

یہ بڑی ایکٹریس کے نخرے تھے سو انہیں اٹھانے پڑتے تھے۔


شاہد کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی عدن کو اس کی سنجیدگی کسی خطرے کا پیش خیمہ معلوم ہو رہی تھی۔

"تھینک گاڈ تمہیں بھی مجھ پر رحم آیا۔"

وہ اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

شاہد کی جانب سے کوئی خاطر خواہ گرمجوشی کا اظہار نہ ہوا۔

عدن پیچھے ہوئی اور اس کا چہرہ کھوجنے لگی۔


"تم ناراض ہو کیا؟"

اس کا دل مانو کسی نے مٹھی میں قید کر لیا۔ شاہد کی خاموشی اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔

"چلو میرے ساتھ۔"

وہ اس کی کلائی تھام کر قدم اٹھانے لگا۔


"شاہد میری شوٹنگ! "

"چوز کرو کسی ایک کو؟"

وہ اس کی بات کاٹتا ہوا تیزی سے بولا۔

عدن منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"تم جانتے ہو آج شوٹ کرنا ضروری ہے اس کے بعد مجھے۔"

"وقت نہیں ہے تمہارے پاس۔ میڈم آپوائنٹمنٹ دے دو۔"

تلخی سے جواب آیا۔


تم کیوں نہیں سمجھتے مجھے؟ عدن کہنا چاہتی تھی اسے لیکن خاموش رہی۔

" بس کچھ دیر انتظار کر لو آج لاسٹ ایپیسوڈ ہے۔"

عدن اس کی بازو پکڑتی ہوئی التجائیہ انداز میں بولی۔

وہ فل وقت ترس کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔


اس پر ایک سلگتی نگاہ ڈال کر وہ اپنی بازو آزاد کرواتا اس کی مخالف سمت میں قدم اٹھانے لگا۔

عدن کا دل ڈوبنے لگا تھا۔

تین دن بعد وہ اس سے مل رہی تھی اور اس ملاقات کا انجام کیا ہوا تھا۔

وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی۔


"میم آپ کا فون؟"

اس کے عقب میں لڑکا فون پکڑے کھڑا تھا۔

عدن نے گردن گھما کر اس لڑکے کو دیکھا اور فون تھام لیا۔

وہ دو سیاہ آنکھیں ابھی تک عدن کو اپنے حصار میں لئے ہوۓ تھیں۔

وہ مایوسی سے واپس آ گئی۔

اب اس کی سوچوں کا محور شاہد کے گرد تھا۔

~~~~~~~~~

"ولید میری بات کا یقین کرو تمہاری غیرموجودگی میں کوئی نہیں آیا یہاں۔"

ملیحہ بولتی ہوئی ولید کی جانب لپکی۔


"مجھے کچھ نہیں سننا۔"

وہ اس کا بازو ہٹاتا باہر نکل گیا۔

ملیحہ آنکھوں میں نمی لئے بےبسی سے دروازے کو دیکھنے لگی۔


"کٹ! "

ڈائریکٹر کی آواز پر سین کٹ ہوا۔

پروڈیوسر کیمرہ کے پاس آ کر دیکھنے لگا۔


"میڈم کے لئے چاےُ لے کر آؤ۔"

ڈائریکٹر کی آواز پر سرونگ بواےُ بھاگ کھڑا ہوا۔

ملیحہ شانے سے بال ہٹاتی کرسی پر بیٹھ گئی۔


"رات کا کیا پلان ہے تمہارا؟"

حارب اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔

"ڈائریکٹر عاصم سلیم نے ڈنر پر بلایا ہے۔ آج فری نہیں۔"

وہ چاےُ کا کپ اٹھاتی ہوئی بولی۔

وہ مایوسی سے اسے دیکھنے لگا۔


"تم نے عدن کے بارے میں کیا سوچتا؟"

ملیحہ سپ لیتی ہوئی بولی۔

"میں نے کیا سوچنا ہے؟"

خفگی سے جواب آیا۔


ملیحہ نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا۔

حارب بنا کچھ کہے کھڑا ہوا اور ملیحہ سے دور چلتا گیا۔

ملیحہ نفی میں سر ہلاتی چاےُ کپ چسکیاں لینے لگی۔

~~~~~~~~~

منال اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

چند لمحے سرکنے کے بعد اسے پاؤں کی چاپ سنائی دینے لگی۔

اندھیرا بڑھ رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔

آہٹ پر اس نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا اور اس شخص کو دیکھ کر آنکھوں میں پہلے تحیر بھی غیض سمٹ آیا۔


"تم میرا پیچھا کر رہے ہو؟"

وہ اس کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔


"مجھے کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو میں تمہاری جیسی ابنارمل لڑکی کا پیچھا کروں گا۔"

خاصی بدتمیزی سے کہا گیا۔

"تو پھر یہاں کیا کر رہے ہو؟"

وہ اس کی بکواس کو نظرانداز کرتی دانت پیستی ہوئی بولی۔


"میں تمہیں کیوں بتاؤں؟"

وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔

منال تلملا کر رہ گئی۔

"جس راستے پر تم جا رہی ہو آگے راستہ نہیں ملے گا جانے کا۔"

وہ اونچی آواز میں چلایا۔

منال نے چلتے ہوۓ گردن گھما کر اسے گھورا۔


"تم سے مشورہ نہیں مانگا اور دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا سائیکو۔"

وہ تپ کر بولی۔

اپنے عقب میں منال کو اس کا قہقہ سنائی دیا جو اسے مزید سلگا گیا۔


"پتہ نہیں لوگ کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں۔"

وہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی بیگ سے فون نکالنے لگی۔

موبائل کی ٹارچ آن کر کے وہ آگے بڑھنے لگی۔

اس نے ابھی دس منٹ کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ تاسف سے سامنے دیکھنے لگی۔


"اس کا مطلب وہ سائیکو ٹھیک کہہ رہا تھا۔"

اپنے سامنے پانی کے اس دلدل کو دیکھ کر وہ آہ بھر کر رہ گئی۔

اس سنسان گلی میں آگے جانے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ناچار اس کو واپس لوٹنا پڑا۔

وہ لڑکا ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ شاید وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔


منال کو واپس آتے دیکھ کر اس نے دانتوں کی نمائش کرنا ضروری سمجھا۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا اس لڑکے کا منہ نوچ لیتی۔ لیکن ضبط کرتی چلتی رہی۔

"کہا تھا نہ آگے راستہ نہیں ہے۔"

وہ ہنستا ہوا بولا۔


منال خاموشی سے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔

رات کی تاریکی بڑھتی جا رہی تھی اور اسکے ساتھ ہی خنکی بھی۔

اسے اب دوسرا راستہ سوچنا تھا۔


"ابنارمل لڑکی میں تمہیں آگے لے جا سکتا ہوں۔"

وہ لڑکا اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔

منال نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی۔

"اپنی خدمات کسی اور کو جا کر پیش کرو مجھے ضرورت نہیں۔"

نہایت بےرخی سے کہا گیا۔


مقابل برا مان گیا۔

"بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے تمہاری اتنی زبان تراشی اور بدتمیزی کے بعد بھی میں اپنا دل بڑا کر کے تم پر احسان کر رہا ہوں اور تم ہو کہ۔"


"میں نے تم سے احسان نہیں مانگا اپنے پاس رکھو۔"

وہ درشتی سے اس کی بات کاٹتی ہوئی بولی۔

"کسی جانور کی خوراک بن سکتی ہو تم۔"

وہ چہرہ موڑ کر دوسری جانب دیکھتا ہوا بولا۔


"منہ بند رکھو۔"

منال کو اس کی موجودگی زہر لگ رہی تھی۔

"رات میں یہاں عجیب عجیب چیزیں نکل آتی ہیں۔"

اب کہ وہ رازداری سے بولا۔


ایک لحظہ کے لئے منال کا دل کسی نے مٹھی میں قید کر لیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس لڑکے کو گھورتی ہوئی گویا ہوئی۔

"وہ چیزیں اگر تمہیں لے جائیں تو میں ضرور ان کا شکریہ ادا کروں گی۔"

وہ چبا چبا کر بولی۔


"ابھی کوئی آواز آنی ہے اور تم نے چیخیں مارتے ہوۓ میرے پاس آجانا ہے۔"

وہ تمسخر کا نشانہ بناتا ہوا بولا۔

"بھاڑ میں جاؤ تم۔"

وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


وہ پرسوچ انداز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی۔

واپس وہ جا نہیں سکتی تھی رات تک اسے یہیں انتظار کرنا تھا تاکہ دن کے اجالے میں راستہ تلاش کر سکے۔

"تم آخر جا کیوں نہیں رہے؟"

وہ کوفت سے بولی۔


"تمہارا بل آ رہا یے؟ یا یہ جگہ تمہارے باپ کی جائیداد میں آتی ہے؟"

اب کہ وہ منال کو آڑے ہاتھوں لیتا ہوا بولا۔

منال کلس کر اسے دیکھنے لگی اندھیرے کے باعث اسے واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔


"کاش اس گدلے پانی میں ڈوب مرو تم۔"

منال کے دل سے آہ نکلی۔

"دیکھو ایسی دعائیں نہیں مانگتے وہ بھی اپنے لیے...... نہ نہ بہت بری بات ہے... ﷲ ناراض ہوتا ہے۔"

وہ ناصح بنا اسے سمجھا رہا تھا۔


منال نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

"میں اپنے....."

"ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم اپنے بارے میں بات کر رہی ہو لیکن ایسے بولنا اچھی بات نہیں۔"

وہ منال کو تپانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا اور اس میں کامیاب بھی ہو رہا تھا۔


وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔

"تم کیا چیز ہو آخر؟"

وہ اکتا کر بولی۔

"میں تو تمہاری مدد کرنا چاہتا ہو لیکن تم ہو کہ پتہ نہیں کون سی اکٹر ہے جو ختم نہیں ہوتی۔"

وہ برا مان گیا۔


"اپنی بکواس بند رکھو اب منہ کھولا تو یہ جو ریڈیو سٹیشن ہے نہ توڑ دوں گی۔"

وہ خطرناک تیور لئے بولی۔

"تم سچ میں ایسا کروں گی؟"

وہ خوفزدہ ہو گیا۔


"بلکل۔"

وہ تائیدی انداز میں بولی۔

جواب میں اسے قہقہے سنائی دئیے۔

منال کا اب دل چاہ رہا تھا کسی دیوار میں اپنا سر دے مارے۔

"نہیں نہیں ایسا مت کرنا مجھ پر قتل کا الزام آ جاےُ گا۔"

وہ ہنستا ہوا منال کو دیکھ رہا تھا۔

اس نے تعجب سے اسے دیکھا اور ہولے سے لب کھولے۔

"کیا؟"


"اپنا سر مت مارنا بہت خون نکلے گا۔"

وہ دانت نکالتا ہوا بولا۔

"خون... "

اس نے زیر لب دہرایا۔

منال کی آنکھوں کے سامنے رمشا کے قتل کا منظر گھوم گیا۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


وہ مرے مرے قدم اٹھاتی کچھ فاصلے پر جا بیٹھی۔

تاریکی کے باعث وہ لڑکا منال کے آنسو دیکھنے سے قاصر تھا۔

"میری آفر محدود مدت کے لئے ہے ابھی سوچ لو بعد میں پچھتاؤ گئ جب کسی بھیڑیے کی خوارک بنی تو۔"

وہ اپنی ہی رو میں بولتا چلا جا رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ وہ خاموش آنسو بہا رہی ہے۔

~~~~~~~~~

"تمہیں بات کرنی چائیے اس۔"

عزہ بولتی ہوئی خاموش ہو گئی۔

فیضی تیکھے تیور لئے اسے گھور رہا تھا۔

عزہ فون بند کر کے کھڑی ہو گئی۔کسی مجرم کی مانند۔


"کون سا یار پھنسا لیا ہے اب تم نے؟"

وہ خطرناک تیور لئے آگے بڑھا۔


"فیضی پلیز میں اپنی دوست سے بات کر رہی تھی۔"

وہ دو قدم پیچھے ہوتی ہوئی بولی۔

"مجھے پاگل سمجھا ہوا یے؟"

وہ دھاڑا۔


"چاہو تو فون چیک کر لو۔"

اس سے قبل کہ وہ عزہ کے بالوں کو دبوچتا اس نے فون اس کی جانب بڑھا دیا۔

اس نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی اور فون بیڈ پر اچھال دیا۔

"شہری آیا ہے چلو نیچے اور خبردار اگر زیادہ اس کے ساتھ چپکی تو...."

وہ انگلی اٹھا کر وارن کرنے والے انداز میں بولا۔


وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔

فیضی الٹے قدم اٹھاتا واپس جا چکا تھا۔

وہ سکھ کا سانس لیتی آئینے کے سامنے اپنا سراپا دیکھنے لگی۔

تراشیدہ ہونٹوں پر نفاست سے لپ اسٹک لگا کر وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی باہر نکل آئی۔

شہری سے گلے مل کر عزہ فیضی کے بغل میں بیٹھ گئی۔


"کیسے ہو شہری؟"

عزہ ہلکا سا مسکرائی۔

"تمہارے سامنے ہوں۔"

شہری کی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نمایاں تھی۔


"تم نے بات کی تھی رومینہ سے؟"

فیضی نے مداخلت کی۔

"ہاں پوچھا تھا میں نے امید ہے وہ تمہارے ڈرامے کا او ایس ٹی بنانے پر رضامند ہو جاےُ گی۔"

وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔

ملازم لوازمات سے سجی ٹرے لئے سرو کرنے لگا۔


"رومینہ کی بجاےُ ندا کیسی رہے گی؟"

عزہ پرسوچ انداز میں بولی۔

فیضی نے ناگواری سے عزہ کو دیکھا جیسے اس کی مداخلت پسند نہ آئی ہو۔

"ندا کی ڈیمانڈ زیادہ یے۔"

شہری سوفٹ ڈرنک کا سپ لیتا ہوا بولا۔


"ہممم لیکن وہ ٹاپ پر بھی ہے۔"

عزہ فیضی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔

"تم اتنا ٹائم انڈسٹری میں رہی ہو تمہیں زیادہ معلوم ہو گا۔"

شہری ہاتھ کھڑے کرتا ہوا بولا۔


عزہ کے ساتھ شہری کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔

فیضی اس سب میں خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔

"تم کچن میں کھانے کا دیکھو میں شہری سے ڈسکس کرتا ہوں۔"

فیضی جبراً مسکراتا ہوا بولا۔


اس سے زیادہ وہ ضبط نہیں کر سکتا تھا۔

"ارے نہیں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ کچھ کام سے جانا ہے۔"

شہری نے عزہ کو ٹوک دیا۔

عزہ جو جانے کے لیے کھڑی تھی کبھی فیضی کو دیکھتی تو کبھی شہری کو۔

"تم جاؤ۔"

فیضی چبا چبا کر بولا۔


"یار فیضی نہیں میں زیادہ دیر نہیں رہوں گا۔"

شہری نے احتجاج کیا۔

"کوئی بات نہیں۔"

فیضی مسکرا کر بولا۔

عزہ وہاں سے جا چکی تھی اور فیضی کا اطمینان بھی بحال ہو چکا تھا۔

~~~~~~~~~

"جو لینا ہو جلدی لے لینا میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔"

حسنین فون پر نگاہیں جماےُ مصروف سے انداز میں بولا۔

"اچھا نہ بھائی اگر آج لے ہی آےُ ہو تو تھوڑا سا گھومنے بھی دو۔ اتنا مزہ آتا ہے ایسی جگہوں پر۔"

نمرہ آس پاس کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔


روشنیوں سے جھلملاتی دکانیں اور آتے جاتے مصروف سے لوگ۔ سب اپنے اپنے کام میں مگن تھے نہ کوئی کسی کو دیکھ رہا تھا نہ جائزہ لے رہا تھا۔

ایسے میں نمرہ تھی جو ان بڑے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔

اس کی آنکھوں میں ستائش تھی۔


وہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی اور ایسے لوگ اور ان کا لائف سٹائل اسے شروع سے ہی متاثر کرتا تھا۔ جو کہ ہر مڈل کلاس کو متاثر کرتا ہے۔

"بھائی میں یہ سوٹ لے لوں؟"

وہ ماریہ بی کا سوٹ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی۔

حسنین کی نگاہیں ابھی تک فون پر مرکوز تھیں۔


"ہاں لے لو۔"

اس نے ایک نظر ڈال کر پھر سے نگاہوں کا مرکز فون کو بنا لیا۔

"لیکن بہت مہنگا ہے یہ؟"

قیمت دیکھ کر وہ مایوسی سے گویا ہوئی۔


"آج تمہارا دن ہے لے لو فکر مت کرو۔"

حسنین کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

حسنین کو اب فکر لاحق ہونے لگی تھی۔

نمرہ کا چہرہ کھل اٹھا۔

وہ کاؤنٹر پر جا کھڑی ہوئی۔


دکان کے باہر انہیں معمول سے زیادہ شور سنائی دینے لگا۔

حسنین نے فون سے نگاہیں اٹھا کر باہر دیکھا۔

وہاں عدن خان تھی۔

گارڈز لوگوں کو اس کے قریب آنے سے روک رہے تھے اور وہ ہاتھ ہلاتی سب کی جانب مسکراہٹ اچھال رہی تھی۔

حسنین کی آنکھوں میں ناگواری در آئی۔

اسے حقارت سی محسوس ہونے لگی تھی۔


"بھائی آپ نے سنا عدن خان آئی ہوئی ہے اپنی بہن کے ساتھ۔"

نمرہ خوشی سے پھولے نہ سماں رہی تھی۔

"تم نے لے لیا ہے نہ چلو گھر چلیں۔"

حسنین بیزاری سے بولا۔


"بھائی ایک سیلفی تو لینے دیں پلیز۔"

وہ ہاتھ جوڑے منت کرنے لگی۔

"نمرہ پاگل مت بنو ایسے لوگ ہم جیسوں کو منہ بھی نہیں لگاتے اور تم سیلفی کی بات کر رہی ہو۔"

وہ نا چاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو گیا۔


"ایک بار کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟"

وہ اس طرح جانے پر رضامند نہیں تھی۔

مجھے اپنی عزت نفس بہت عزیز ہے۔ حسنین نمرہ سے یہ کہہ نہ سکا۔

"دیکھو باس کی کال آ رہی ہے مجھے جانا ہے ضروری کام کے لیے چلو اب۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑے باہر نکل آیا۔


لوگ پاگلوں کی طرح عدن کی جانب لپک رہے تھے اور وہ چاند کی طرح ان سے دوری اختیار کیے ہوۓ تھی۔ جنہیں وہ دیکھ سکتے تھے لیکن وہ ان کی دسترس میں نہیں آ سکتی تھی۔

"ثمن آج کچھ زیادہ ہی رش ہے۔"

عدن گاگلز سیٹ کرتی ہوئی بولی۔


"مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے لیکن کوئی بات نہیں آئیں وہاں چلتے ہیں۔"

ثمن انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"میم ایک سیلفی پلیز۔"

ان کے عقب میں لوگوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

عدن سب کو نظر انداز کرتی مطلوبہ دکان میں چلی گئی۔


"شاہد آ گیا واپس؟"

ثمن ڈریس دیکھتی ہوئی بولی۔

عدن ایک لحظہ کے لئے ٹھٹھک گئی۔ دماغ میں صبح والا منظر گردش کرنے لگا۔


"ہممم۔"

آہستہ سے کہا گیا۔

"میں یہ چیک کر کے آئی۔"

ثمن ہاتھ میں ڈریس پکڑے چل دی۔

عدن اداسی سے فون کو دیکھنے لگی جو ابھی تک خاموش تھا۔

~~~~~~~~

رات کا تیسرا پہر تھا وہ لڑکا سو چکا تھا اسی لئے خاموشی کا راج تھا۔

منال نے اس تاریکی میں اسے دیکھنے کی سعی کی لیکن ناکام رہی۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے جمائی روکنے لگی۔

"پتہ نہیں کب میری آنکھ لگی؟"

وہ خود سے مخاطب تھی۔


"جب تم نے میری باتوں کا جواب دینا بند کیا تھا۔"

اس لڑکے کی آواز سرسرائی۔

منال کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"تم تو سو رہے تھے؟"

وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔


"سو رہا تھا مر نہیں گیا تھا۔"

وہ قہقہ لگاتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

منال کے چہرے پر بیزاری تھی یقیناً وہ پھر سے شروع ہونے والا تھا۔


"مر ہی جاتے تو اچھا تھا۔"

وہ کلس کر بولی۔

"بیوقوف لڑکی ایسی دعا مت مانگو تمہیں راستہ صرف میں ہی بتا سکتا ہوں اس لئے قدر کرو میری۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"قدر مائی فٹ۔"

وہ کسی آفت کی مانند اس پر نازل ہوا تھا۔

"جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا۔"

وہ اپنی سریلی آواز میں گانا شروع کر چکا تھا۔

منال کو اس کی موجودگی سے کوفت ہو رہی تھی۔


"اپنا سوگ گھر جا کر منانا۔"

وہ سوکھے پتے اس کی جانب اچھالتی ہوئی بولی۔

"تم سے یہی امید تھی۔ تم تو مری ہوئی چھپکلی بھی نہیں مار سکتی آگے کیا جاؤ گی؟"

وہ مذاق بناےُ بنا نہیں رہ سکتا تھا۔

منال کو کبھی حیرانی ہوتی تو کبھی غصہ آتا۔

~~~~~~~~~~

وہ ٹراؤذر کے ساتھ سیاہ رنگ کی ڈھیلی شرٹ پہنے, سیاہ بالوں کو پونی میں قید کئے زینے چڑھ رہی تھی۔

کچھ شرارتیں لٹیں اس کے رخسار پر بوسے دے رہی تھیں۔

ٹیرس پر قدم رکھتے ہی تیز ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا۔

عدن نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لی۔ مانو اس تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارنا چاہ رہی ہو۔


ٹیرس خاموشی کے سنگ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔

فلک کی چادر پر ننھے منھے ستارے ٹمٹا رہے تھے اور مہتاب پوری آب و تاب کے ساتھ اندھیرے کو چیرنے کی سعی کر رہا تھا۔

اس نے ریلنگ پر ہاتھ رکھا اور اندھیرے میں نگاہ دوڑانے لگی۔


ہر طرف خاموشی اور تاریکی کا راج تھا۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر چہرے سے بال ہٹاےُ جو بار بار اس کے چہرے پر آ رہے تھے۔

نگاہ دم بخود فون کی جانب اٹھ جاتی جو توقع کے مطابق خاموش تھا۔


یہ تنہائی کسی آسیب کی مانند اسے اپنے گھیرے میں لے لیا کرتی تھی۔

اسے تنہائیوں سے نفرت تھی لیکن ستم ظریفی یہ کہ اکثر ہی یہ تنہائیاں اس کا مقدر بن جاتیں۔

"میم آپ کا پارسل آیا ہے۔"

رابن کی آواز نے اسے اپنی سوچوں کے محور سے کھینچ باہر نکالا۔


"ہاں؟"

وہ گردن گھما کر رابن کو دیکھنے لگی۔

"میم آپ کا! "

اس نے پارسل اس کی جانب بڑھاتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی۔


عدن کی پشت پر دو سیاہ نگاہیں تھیں اور ہمیشہ کی مانند آج بھی وہ انجان تھی۔

کوئی ساےُ کی مانند اس کے سنگ تھا لیکن وہ بے خبر تھی۔

"ٹھیک ہے جاؤ۔"

وہ اس کے ہاتھ سے پارسل لیتی ہوئی بولی۔


رابن سر ہلا کر سیڑھیوں کی جانب چل دیا۔

وہ بے دلی سے جھولے پر بیٹھ گئی۔

چند لمحے اسے گھورتے رہنے کے بعد اس نے اسے میز پر رکھ دیا۔

بےچینی ہی بےچینی تھی۔

اس کے اندر کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔


پھر سے وہی کال آ رہی تھی جس سے عدن کو سخت کوفت تھی۔

وہ نمبر بلاک کرنا بھی چاہتی تھی اور نہیں بھی۔ عجیب کشمکش میں مبتلا تھی وہ۔

اس نے فون میز پر زور سے دے مارا۔


"پتہ نہیں کون سی زبان میں سمجھاؤں۔"

وہ جھنجھلا کر کھڑی ہو گئی۔

کچھ دیر ٹہلنے کے بعد اس کا دھیان پارسل پر گیا۔

"کس نے بھیجا؟"

اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


وہ سوچتی ہوئی میز کے پاس آ کھڑی ہوئی اور اسے کھولنا شروع کیا۔

کھولتے ہی اس کی دل دوذ چیخ برآمد ہوئی۔

"ڈیڈ؟"

وہ چلاتی ہوئی جھولے پر چڑھ گئی۔


سانپ اس کے سامنے پھنکار رہا تھا۔

عدن کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ سانپ دھیمی چال چلتا آگے بڑھ رہا تھا۔ موت قریب سے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔

"ڈیڈ ہیلپ می؟"

اس کی آنکھوں میں موت کا خوف دکھائی دے رہا تھا۔


زندگی کے ختم ہونے کا ڈر۔

وہ جینا چاہتی تھی ابھی اسے مرنا نہیں تھا۔

"نو ڈیڈ پلیز جلدی آئیں! "

اس کا سانس بند ہونے کو تھا۔


"کیا ہوا بیٹ؟"

سانپ کو دیکھتے ہی ان کے الفاظ دم توڑ گئے۔

ان کے عقب میں رابن اور ثمن بھی تھے۔

"سر میں دیکھتا ہوں ایک منٹ۔"

رابن کہتا ہوا عدن کی مخالف سمت میں چل دیا۔


نجانے کہاں سے وہ لکڑی ڈھونڈ کر لایا۔

سانپ عدن کے پاؤں کے قریب آ چکا تھا۔

زبان نکالتا وہ قریب آتا جارہا تھا۔

عدن کی آنکھوں سے آنسو لڑی کی مانند بہنا شروع ہو گئے۔

وہ التجائیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

رابن نے لکڑی سانپ پر ماری اور عدن علی صاحب کے سینے میں آ چھپی۔


"میرا بچہ ٹھیک ہے نہ؟"

وہ عدن کا سر تھپکتے ہوۓ بولے۔

رابن سانپ پر پے در پے وار کر رہا تھا۔

سانپ زیادہ بڑا نہ تھا سو آسانی سے موت کی نیند سو گیا شاید عدن کو خوفزدہ کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔


"کس نے بھیجا تھا یہ؟"

علی صاحب کی غضب ناک آواز گونجی۔

رابن سیدھا ہو گیا۔


"سر ٹی سی ایس والا دے کر گیا تھا۔"

عدن ابھی تک خوف کے زیر اثر تھی۔

اتنی آسانی سے وہ کیسے فراموش کر جاتی کہ چند لمحے قبل وہ موت کے دہانے پر کھڑی تھی۔


"ڈیڈ اگر آپ نہ آتے تو؟"

اس سے آگے اس سے سوچا نہ گیا۔

"میرا بچہ فکر مت کرو تمہارے ڈیڈ ہیں نہ! "

وہ عدن کو دیکھتے ہوۓ شفقت سے بولے۔


"آئیں نیچے چل کر بیٹھتے ہیں۔"

ثمن فکرمندی سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"آپ ٹھیک ہیں نہ؟"

ثمن اس کی جانب پانی کا گلاس بڑھاتی ہوئی بولی۔


"ہاں میں ٹھیک ہوں۔"

وہ باوجود کوشش کہ مسکرا نہ پائی۔

"اس لڑکے کو بلاؤ جو تمہیں دے کر گیا تھا یہ پارسل۔"

علی صاحب رابن پر برس رہے تھے۔

"ایسے کیسے کوئی بھی میری بیٹی پر جان لیوا حملہ کر سکتا ہے؟"

وہ طیش میں چلاےُ۔


"ڈیڈ کام ڈاؤن! میں دیکھ لوں گی۔ آپ بتائیں آپ کے کیس کی ہیرنگ تھی آج؟"

اس نے توجہ اپنی جانب سے ہٹانی چاہی۔

"کیسے تم دیکھ لو گی؟ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتا؟"

وہ جذباتی ہو گئے۔


"ڈیڈ آپ ٹینشن نہ لیں میں خود دیکھتی ہوں۔ دیکھیں سفید بال آ رہے ہیں ٹینشن لینے کے باعث۔"

وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولی۔

وہ اپنے مسئلے خود حل کرنے کی عادی تھی۔


"لیکن آپ کیسے اتنا لائٹ لے سکتی ہیں؟

ثمن احتجاج کرتی ہوئی بولی۔

"ثمن میں کہہ رہی ہوں نہ۔"

عدن نے اسے آنکھوں سے تسلی دی۔

وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی خاموش ہو گئی۔


"چلیں اب بتائیں؟"

عدن علی صاحب کی جانب متوجہ ہو گئی۔

علی صاحب ہلکا سا مسکراےُ اور اسے تفصیل سے آگاہ کرنے لگے۔

~~~~~~~~~

"آگے نہیں بیوقوف پیچھے۔"

وہ منال کے سر پر چت لگاتا ہوا بولا۔

"بیوقوف کسے بولا؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورتی ہوئی بولی۔


وہ چہرہ اوپر اٹھاےُ دائیں بائیں دیکھنے لگا۔

منال کو اس کی حرکتوں پر طیش آ رہا تھا۔

"یہ پیڑ پودے تو بولنے سے رہے۔ اور بیوقوف یہاں صرف ایک ہی ہے اور وہ تم ہو۔"

وہ منال کی پیشانی شہادت کی انگلی سے دور کرتا ہوا بولا۔


"تم اپنی حد میں رہو۔"

وہ انگلی اٹھاےُ وارن کرنے والے انداز میں بولی۔

"ایسا کرتے ہیں پہلے حد قائم کر لیتے ہیں۔ ویسے فائدہ کوئی نہیں انڈیا کو ہی دیکھ لو حدود کے باوجود وہ اِدھر ہی آ نکلتا ہے۔"

اس کی آنکھوں میں شرارت ڈیرے جماےُ ہوۓ تھی۔


وہ پیر پٹختی آگے کی جانب قدم بڑھانے لگی۔

"میری ماں آگے نہیں پیچھے جانا ہے۔"

اب کہ وہ منال کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔

"تم نے میرا ہاتھ کیسے پکڑا؟"

وہ اپنی کلائی اس کی گرفت سے آزاد کرواتی ہوئی چلائی۔


"ایسے۔"

وہ اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

چہرے پر مسکراہٹ اور شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔

"دوبارہ ہاتھ لگایا نہ تو منہ توڑ دوں گی۔"

وہ کہہ کر قدم بڑھانے لگی۔

وہ مسکراتا ہوا منال سے آگے نکل گیا۔


"تم پاگل ہو کیا واپس کیوں جا رہے ہو؟"

وہ احتجاجاً بولی۔

"تم نے جہاں جانا ہے وہاں پہنچا کے دم لوں گا۔"

وہ اس کے بالمقابل کھڑا ہو گیا۔

منال دو قدم پیچھے سرک گئی۔


اس کی جانب ایک نرم مسکراہٹ اچھالتا وہ پھر سے قدم اٹھانے لگا۔

منال مرتی کیا نہ کرتی اس کے عقب میں چلنے لگی۔

وہ پھر سے سڑک پر آ چکے تھے۔

دل کر رہا ہے تمہارا سر پھاڑ دوں۔

وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔


وہ اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

وہ بائیں جانب دختوں کی جانب چل دیا۔

"کیا یہاں سے بھی راستہ ہو سکتا ہے؟ لیکن اسے کیا معلوم میں نے کہاں جانا ہے؟"

اس کے دماغ میں سوال سر اٹھا رہے تھے۔

وہ اپنی جگہ پر منجمد تھی۔


"زیادہ سوچو مت جلدی چلو مجھے سب معلوم ہے۔"

وہ ہلکا سا مسکرایا۔

منال کو اس پر شبہ ہونے لگا تھا۔

"کیسے وہ میرا دماغ پڑھ لیتا ہے؟"

وہ تعجب سے سوچتی چلنے لگی۔


"چلی جاؤ گی اب؟"

وہ یکدم اس کے سامنے آ رکا۔

منال نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"احسان نہیں کیا مجھ پر۔"

وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔


وہ منہ کھولے منال کی پشت کو دیکھنے لگا۔

"حد ہے ایک تھینکس تک نہیں بولا۔"

وہ خفگی سے کہتا منال کی مخالف سمت میں چل دیا۔

منال نے گردن گھما کر اس سر پھرے لڑکے کو دیکھا جو اپنی ہی رو میں چلتا ہوا جا رہا تھا۔

~~~~~~~~~

عدن بیڈ پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔

"پارٹی میں فانوس کا گرنا کوئی اتفاق تھا یا سازش؟"

روشن پیشانی پر شکنیں تھیں۔

"شہری کہاں ہو تم؟"

عدن فون کان سے لگاےُ آنکھیں بند کر گئی۔


"میڈم میں بیڈ پر ہوں۔ آج اتنی صبح کیسے یاد کیا؟"

وہ جمائی روکتا ہوا بولا۔

"یار ملنا ہے تم سے ٹائم نکالو۔"

وہ تھکے تھکے انداز میں بولی۔

ایک وہی تھا جس کے سامنے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی تھی۔ اس کا ٹیسٹ فرینڈ...


"اممم آج پروڈیوسر سے ملنے جانا تھا اور ایک کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ بھی ہے۔"

وہ دماغ پر زور ڈالتا ہوا بولا۔

"شہری! "

وہ خفگی سے بولتی اٹھ بیٹھی۔

"اوکے اوکے میں آ جاؤں گا۔ مجھے ٹیکسٹ کر دینا جہاں آنا ہو۔"

وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔

"اوکے۔"

عدن نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر دکھتے سر کو دبایا۔


"کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کون کر سکتا ہے یہ سب؟"

وہ جھنجلا کر ٹہلنے لگی۔

کچھ سوچ کر وہ صوفے پر آ بیٹھی اور پیک میں سے سیگرٹ نکالنے لگی۔ شاہد کے ٹیکسٹ نے اسے الگ پریشانی سے دوچار کر دیا تھا۔

دو گھنٹے بعد وہ باہر نکلی اور مطلوبہ ریسٹورنٹ کی جانب گاڑی ڈال دی۔

شہری کا ہشاش بشاش چہرہ دیکھ کر عدن کو کچھ ڈھارس ملی۔


"شکر آج تو ٹائم پر آےُ ہو۔"

وہ کہتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

یہاں ان دونوں کے علاوہ صرف ایک کپل تھا۔

"عدن لوک ایٹ یو۔ تم پہلے سے زیادہ سٹریس لینے لگ گئی ہو کیا؟"

شہری کی آنکھوں میں فکر نمایاں تھی۔

اترا ہوا چہرہ اور آنکھوں کے گرد حلقے شہری کو پریشان کر گئے۔

عدن پھیکا سا مسکرائی۔


"تم ہمیشہ جان جاتے ہو۔"

وہ کافی کا سپ لیتی ہوئی بولی۔

"اِدھر دیکھو تم نے ڈرگ لینا سٹارٹ تو نہیں کر دیا؟"

شہری اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

"رات میں شاید۔"

وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھی۔


"کیا مطلب شاید؟"

وہ ہکا بکا رہ گیا۔

"واؤ عدن تمہارے پاس میرے لئے ٹائم نہیں ہے لیکن اس شہری کے لئے ٹائم ہی ٹائم۔"

شاہد کی آواز پر شہری نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا جو کہ عدن کی تھوڑی پر تھا۔


"کون سا سین چل رہا تھا؟ اووہ میں نے خراب کر دیا۔"

شاہد دونوں ہاتھ میز پر رکھتا تاسف سے بولا۔

"شاہد ہر چیز کو الٹا مت لیا کرو۔"

وہ اکتا کر بولی۔

"ہاں شہری تمہارا بیسٹ فرینڈ اور بلا بلا بلا۔"

شاہد کے چہرے کی سختی بڑھتی جا رہی تھی۔


شہری اس سب میں خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ شاہد کے رویے پر وہ حیران بھی تھا۔

" تم میرے ساتھ چلو۔"

وہ اس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی۔

"یہیں بات ہو گی۔ اور تم میری بات سن لو کان کھول کر مجھے تمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔"


الفاظ تھے یا سیسہ جو عدن کو اپنے کان میں پگھلتا ہوا محسوس ہوا۔

وہ بےیقینی سے شاہد کو دیکھنے لگی۔ ہاتھ کی گرفت شاہد کی بازو پر ڈھیلی پڑ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے ہمارے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اس طرح۔"

عدن اس کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔


"مجھے کوئی بحث نہیں کرنی اس شہری کے ساتھ رہو تم۔"

شاہد سفاکی سے بولا۔

"شاہد نو!! تم غلط کیوں لے رہے ہو۔"

وہ دونوں ہاتھوں سے اس کا بازو پکڑے گڑگڑائی۔

"جیسی ماں ویسی بیٹی۔ تم بھی بےوفا ہو۔"

وہ ملامتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔


وہ اندر تک لرز گئی۔

"میری ماں کا طعنہ نہ ہی دو تو بہتر ہو گا۔ میں ان جیسی نہیں ہوں سمجھے۔"

بولتے بولتے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

"تم کچھ بھی کہہ لو فرق نہیں پڑتا۔ دنیا یہی کہتی ہے اور میں نے تو خود تجربہ کیا ہے۔"

وہ حقارت سے اس کا ہاتھ جھٹکتا ہوا بولا۔


وہ حواس باختہ سی اسے نظروں سے دور ہوتا دیکھنے لگی۔

"شہری رکو اسے۔"

اس کے حواس جواب دے رہے تھے۔

آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔

"عدن ریلیکس میں بات کروں گا اس سے۔"

شہری اسے تھامتا ہوا بولا۔


"وہ چلا جاےُ گا۔ مجھے روکنا چائیے.... "

عدن بولتی ہوئی شہری کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی۔

"جانے دو اسے ابھی وہ نہیں سمجھے گا۔"

شہری گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔


"شہری مجھے جانے دو۔"

آنسو ٹپ ٹپ اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

"عدن پاگل مت بنو۔ اس کی باتیں تمہیں تکلیف دیں گے سمجھ کیوں نہیں رہی تم۔"

وہ اسے جھنھوڑتا ہوا بولا۔


"نہ نہیں شہری مجھے جانا یے۔"

عدن ہچکیاں لیتی ہوئی بول رہی تھی۔

شہری اس کا سر تھپکنے لگا۔

عدن اس سینے سے لگی بلک رہی تھی۔

روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔


"ایک منٹ پانی لاتا ہوں۔"

شہری اسے خود سے الگ کرتا ہوا بولا۔

وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔

ہاتھوں میں چہرہ چھپاےُ وہ زاروقطار رونے لگی۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ وہ گھر سے باہر ہے۔


"عدن اٹھو پانی پیو۔"

شہری اس کے چہرے سے ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

شہری نے گلاس اس کے لبوں سے لگایا تو چند گھونٹ اس نے اپنے اندر اتارے اور گلاس ہاتھ سے پرے کر دیا۔


"چلو گھر چلیں۔"

شہری اسے ساتھ لئے چلنے لگا۔

وہ غائب دماغی سے آنسو بہاتی اس کے ہمراہ چلتی جا رہی تھی۔

~~~~~~~~

اس بیاباں میں صرف یہی ایک حویلی نما گھر تھا۔

رات کی تاریکی گہری ہو رہی تھی۔

حویلی کے اردگرد چھوٹی چھوٹی گھاس وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی۔

دور دور درخت دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا مانو صدیوں سے یہاں کسی نے قدم نہ رکھا ہو۔

منال چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی۔

گیٹ گرد سے اٹا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ رکھا اور اندر کی جانب دھکیل دیا۔

خاموشی میں لوہے کی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ مانو کسی کے چیخنے کی آواز ہو۔

خشک پتوں پر قدم رکھتے ہی ان کی چر مر ہونے کی آواز سنائی دینے لگی۔


"کتنی عجیب جگہ ہے۔"

منال اندر کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔

گیٹ کے بعد راہداری تھی جس کے بعد ایک اور دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔

وہ دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔

اندر گھپ اندھیرا تھا کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے فون کی ٹارچ آن کی۔

اس کے عقب سے کچھ گرنے کی آواز آئی۔


وہ گھبرا کر مڑی۔ دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ گئی۔ وہ حونق زدہ سی گرے ہوۓ اس چھوٹے سے گلدان کو دیکھنے لگی۔

منال کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔

وہ تھوک گلے سے اتارتی آگے بڑھنے لگی۔


اس نے ٹارچ آگے کی تو چوہا دکھائی دیا جو ایک لمحے میں صوفے کے نیچے گھس گیا۔

اس کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔

ہر شے گرد سے لبریز تھی۔ جو سانس لینے پر اندر اتر رہی تھی۔

وہ ناک پر ہاتھ رکھے آگے بڑھنے لگی۔

یہ ایک وسیع ہال تھا جس کے دائیں جانب سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔


وسط میں صوفے اور میز پڑے تھے۔

دیوار پر تصویریں مبسوط تھیں۔

حالت دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا مالک یونہی سب چھوڑ گیا ہے۔


"ماما یہاں رہی تھیں؟"

وہ زینے چڑھتی ہوئی خود سے استفسار کرنے لگی۔

اندھیری رات میں اس تاریک حویلی میں وہ تن و تنہا تھی۔ دل میں خوف سر اٹھا رہا تھا جسے وہ بار بار تھپک کر سلا رہی تھی۔


وہ سنبھل کر قدم اٹھاتی راہداری میں چل رہی تھی جب اسے کمرے میں سے کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔ قدم وہیں منجمد ہو گئے۔ حلق خشک ہو گیا۔ آواز مسلسل آ رہی تھی۔

"کون ہو گا اندر؟"

وہ خود کلامی کرتی دروازے پر ہاتھ رکھے سوچنے لگی۔


اگلے لمحے وہ دروازہ کھول کر اندر کھڑی تھی لیکن اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔

آواز ابھی بھی آ رہی تھی۔

اس کمرے سے ایک دوسرا کمرہ ملحق تھا۔

منال ہمت بندھاتی آگے بڑھنے لگی۔


پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔

کمرے کا دروازہ کھولا تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"تم؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"کیوں تم جن بھوت سمجھ رہی تھی؟"

وہ ہنستا ہوا بولا۔


منال کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

"تم میرا پیچھا کر رہے ہو؟"

وہ غصہ سے گویا ہوئی۔

"پیچھا کرنے کے لیے شکل بھی درکار ہے جو فل وقت تمہارے پاس نہیں۔"

وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔


وہ پیر پٹختی دوسرے کمرے میں آ گئی۔

"تو تم کیا سمجھ رہی تھی یہ دروازے تمہارے آٹا جی نے کھولے ہیں؟"

وہ خفگی سے کہتا اس کے پیچھے آ گیا۔

"مجھے تمہاری بکواس نہیں سننے جہاں سے آےُ ہو وہیں دفع ہو جاؤ۔"

وہ خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔


"امی جی مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سے۔"

وہ ڈرنے کی اداکاری کرتا ہوا بولا۔

منال کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔

خاموشی میں اس کے قہقہے سنائی دینے لگے۔

منال کو اس کے قہقہے زہر لگ رہے تھے۔


"ویسے میرا نام انیب ہے۔"

وہ منال کو باہر نکلتا دیکھ کر بولا۔

"میری بلا سے کچھ بھی ہو۔"

وہ چلاتی ہوئی نکل گئی۔

انیب ہنستا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا۔

~~~~~~~~~

"آؤ ڈانس کریں۔"

حارب ملیحہ کے ہاتھ سے ڈرنک لے کر ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔

ملیحہ اسے گھورتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

"نشاء کو دیکھو کیسے چپک رہی ہے ڈائریکٹر زاہد سے۔"

وہ ڈانس فلور پر آتی ہوئی بولی۔


"ہاں تو اسے نیکسٹ اس کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔"

حارب نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔

"یہ جان بوجھ کر اتنی اوور ڈریسنگ کرتی ہے تاکہ سب اسے ہی نوٹس کریں۔ کتنی ہوٹ لگ رہی ہیں آپ بلا بلا بلا۔"

وہ کلس کر بولی۔


"اب تمہیں نشاء سے بھی مسئلہ ہے؟"

وہ خفگی سے بولا۔

"ایک بار غور کرو اس پر۔"

وہ ابھی تک اپنی بات پر قائم تھی۔

حارب نے گردن گھما کر ڈانس کرتی نشاء کو دیکھا جس کے ڈریس کا گلا ضرورت سے زیادہ گہرا تھا۔


"واٹ ایور....اس کی مرضی۔"

وہ بیزاری سے بولا۔

ملیحہ کی نظر شاہد پر پڑی تو حارب سے الگ ہوتی اس کی جانب چل دی۔

حارب ہکا بکا رہ گیا۔


"ہاےُ ہنی!"

ملیحہ اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

چند جملوں کے تبادلے کے بعد ملیحہ اس کے ساتھ ڈانس فلور پر کھڑی تھی۔

شاہد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جو ملیحہ کو مسرت بخش رہی تھی۔

وہ اکیلا تھا جس کا مطلب تھا عدن اور ان دونوں کے بیچ ان بن چل رہی۔


اور یہ خیال ہی ملیحہ کو خوشی دے رہا تھا۔

وہ ہر لحاظ سے عدن کو تباہ کرنا چاہتی تھی۔

ہلکی ہلکی موسیقی پر رقص کرتے جوڑے ہر فکر سے آزاد تھے۔ وہاں موجود ہر لڑکی ہی بیہودہ لباس زیب تن کئے ہوۓ تھی۔نہ انہیں دنیا کی فکر تھی نہ دین کی۔

ڈی جے ایک کے بعد دوسرا گانا لگا رہا تھا۔


ایک طرف ڈرنکس کے لئے بار بنایا گیا تھا جہاں چھوٹے بڑے آرٹسٹ بیٹھے شراب نوشی میں محو تھے۔ کچھ کے ہاتھ میں سیگرٹ بھی دکھائی دے رہی تھی۔

اس محفل میں عدن اور شہری موجود نہ تھے۔ یہ پارٹی ایک جانے مانے فلم ڈائریکٹر کی جانب سے تھی جس میں ہر ایکٹر اور ایکٹرس شرکت کرنے کا خواہشمند تھا۔

~~~~~~~~~

منال ہر شے اپنے بیگ میں ڈالتی جا رہی تھی۔ بہت سی تصاویر وہ جمع کر چکی تھی۔ تصویر میں موجود لوگوں کو پہچاننے سے وہ انکاری تھی۔ کیونکہ یہ ماضی کا حصہ تھا۔

انیب صوفے پر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اب وہ الماری کھولنے کی سعی کر رہی تھی۔


"رکو ایسے نہیں کھلے گی۔"

وہ بولتا ہوا اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا۔

"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔"

اکھڑپن سے جواب آیا۔


"ہر وقت ضد کرنا اچھی بات نہیں۔"

معمول کے خلاف وہ سنجیدگی سے بولا۔

منال نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔

اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔

"میں کر لوں گی۔ اور یہ بتاؤ تم یہاں کیا رہے ہو؟ آخر مجھے میرا کام کرنے کیوں نہیں دیتے؟"

وہ کوفت سے بولی۔


"میری مرضی۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"ہوں۔ میری مرضی۔"

وہ سرجھٹک کر رہ گئی۔

جانتی تھی اسے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

وہ خاموشی سے الماری کے ساتھ الجھنے لگی۔

انیب سینے پر بازو باندھے اسے دیکھنے لگا۔

اسی اثنا میں الماری کے اوپر سے ایک باکس منال کے سر پر گرنے کے بعد زمین پر جا گرا۔


"آؤچ۔"

وہ سر پر ہاتھ رکھے الماری کے ساتھ پشت لگا کر کھڑی ہو گئی۔

"منع کیا تھا نہ؟"

وہ خفگی سے بولتا ہوا آگے آیا۔

"ہاتھ ہٹاؤ دیکھنے دو لگی تو نہیں۔"

وہ فکرمندی سے بولا۔


منال نے بنا چوں چراں کئے ہاتھ ہٹا دئیے۔

انیب اپنے فون کی ٹارچ سے اس کی پیشانی دیکھنے لگا جو سرخ ہو چکی تھی۔

"درد ہو رہا ہے؟"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا آہستہ سے بولا۔

منال یک ٹک اس کی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھے گئی۔

انیب نے انگلی سے اس کی پیشانی کے اس حصے کو چھوا جہاں وہ باکس لگا تھا۔


"سی۔"

درد کی ایک لہر اس پر سرایت کر گئی۔

"اب خوش ہو؟"

وہ خفگی سے بولا۔

"تمہیں کیا؟"

وہ گھورتی ہوئی بولی۔

انیب ہلکا سا مسکرایا۔


"توڑ دیتے ہیں ایسے نہیں کھلے گی۔"

وہ الماری کے سامنے کھڑا اس کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔

"کیسے؟"

وہ اب نرم پڑی۔

"کوئی چیز وغیرہ۔"

وہ بولتا ہوا اردگرد دیکھنے لگا۔

~~~~~~~~~

"عدن ایسا کب تک چلے گا؟"

شہری اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔

"شہری مجھے بات نہیں کرنی۔"

وہ بےرخی سے بولی۔

"اور میں نے تھپڑ مارنا ہے تمہارے۔ کل رات تم نے پھر سے ڈرگز لئے نہ؟"

وہ برہم ہوا۔


"تو کیا ہوا؟"

وہ اپنے حواس میں نہیں تھی۔

سرخ آنکھیں جنہیں وہ بمشکل کھولے ہوۓ تھی۔ رنگ زردی مائل ہو چکا تھا۔

"عدن آر یو میڈ؟"

شہری کا بس نہیں چل رہا تھا اس کے منہ پر ایک تھپڑ دے مارتا۔


"اٹھو چلو میرے ساتھ۔"

وہ اسے بازو سے اٹھانے کی سعی کرتا ہوا بولا۔

"شہری لیو می۔"

وہ جھنجھلا کر بولی۔

"شٹ اپ۔"

وہ کرختگی سے بولا۔


"مجھے نہیں جانا یہاں سے تم کیوں تنگ کرنے آ گئے ہو؟"

وہ اس کے مقابل کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

"مر نہیں گیا وہ جو تم ایسے سوگ منا رہی ہو۔ تمہاری آپوائنٹمنٹ ہے پارلر میں چلو۔ بھول گئی ایوارڈ شو ہے؟ لیکن تمہیں تو اپنا ہوش ہی نہیں ہے پاگل بنی ہوئی ہو"

وہ اس کی حالت پر ماتم کرتا ہوا بولا۔


"مجھے نہیں جانا۔"

وہ کہتی ہوئی بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گئی۔

"تم جاؤ گی۔ ابھی۔"

شہری تھوڑی سے اس کا چہرہ اوپر اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ منہ میں بڑبڑاتے ہوۓ اسے گھورنے لگی۔

"فائن۔"

وہ درشتی سے کہتی واش روم میں چلی گئی۔

اس کے جاتے ہی شہری نے سکھ کا سانس لیا۔

~~~~~~~~~

"تمہیں لے کر بھی گیا اور اب واپس بھی لے جا رہا ہوں تھینکس تو بول ہی سکتی ہو۔"

انیب جتانے والے انداز میں بولا۔

"میں تمہارے پاؤں نہیں پڑی تھی نہ ہی کوئی احسان کیا ہے تم نے مجھ پر۔"

وہ ابھی تک برہم تھی۔


"احسان فراموش لوگ۔"

وہ حویلی کا گیٹ بند کرتا ہوا بولا۔

"ہوں۔"

وہ سر جھٹکتی آگے نکل گئی۔


"منال بیٹا تم مجھے بتا کر جا سکتی تھی کیا میں منع کرتا تمہیں؟ کتنے فونز کئے میں نے لیکن تم نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ اندازہ ہے تمہیں میں کتنا پریشان تھا؟"

فیصل صاحب گزشتہ آدھے گھنٹے سے منال کی کلاس لے رہے تھے۔


"پاپا سوری بولا تو ہے اب کیا کروں؟"

منال منمنائی۔

"بیٹا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔"

ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔

"آئیندہ نہیں کروں گی۔"

وہ ان کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔


"آئیندہ میں معاف بھی نہیں کروں گا۔ عجیب وسوسے آ رہے تھے مجھے۔"

وہ ابھی تک خفا تھے۔

"اوکے نہ اب میں ریسٹ کر لوں بہت تھک گئی ہوں۔"

وہ ان کے گال پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

فیصل صاحب نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور جانے کا اشارہ کیا۔


اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ اس لمحے اسے اپنی ماں شدت سے یاد آئی۔

وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی اپنے کمرے کی جانب چل دی۔

یادیں پھر سے اپنی لپیٹ میں لینے لگی تھیں۔ ماں کی شفقت کہاں بھولتی ہے۔

"ماما کاش آپ نہ جاتیں ہمیں چھوڑ کر۔"

وہ آہ بھرتی بستر پر نیم دراز ہو گئی۔

~~~~~~~~~

"یار اس سب سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ان فیکٹ میں تو کہتی ہوں تم شکر کرو ابھی یہ سب معلوم ہو گیا کہ شاہد بھی شکی مردوں میں سے ہے۔ تمہارا کم از کم میرے والا حال نہیں ہوا۔میرا تمہیں مشورہ ہے کہ اپنا فیوچر بناؤ اپنے کیرئیر پر توجہ دو۔"

عزہ اس کا ہاتھ پکڑے سمجھا رہی تھی۔


"کہنا بہت آسان ہے۔ ہمارا ریلیشن کتنا پرانا ہے تم جانتی ہو نہ؟ کیسے چھوڑ دوں اسے؟"

عدن بےچارگی سے بولی۔

"عدن بات کو سمجھو۔ تم بھی میری طرح ساری زندگی روتے سسکتے گزارنا چاہتی ہو کیا؟"

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔


"شاہد ایسا نہیں ہے بس یونہی یہ سب بول گیا۔"

وہ ماننے سے انکاری تھی۔

"خود کو دھوکہ مت دو حقیقت کا سامنا کرو۔ یوں چھپ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ دیکھو کل رات فیضی نے کیا کیا؟"

وہ اپنی بازو پر ثبت ہوۓ سرخ نشاں دکھاتی ہوئی بولی۔


"کیا کیا اس نے؟"

عدن اسے دیکھتی فکرمند ہو گئی۔

"تم چھوڑو اسے۔ اب بس تم چل رہی ہو ایوارڈ شو پر سمجھی! کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے اسے گنوانا مت۔"

عزہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔


"یہ سب شہری نے بولا ہے نہ؟"

اس کے چہرے پر خفگی تھی۔

"نہیں۔ میں تمہیں ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتی اس لئے میری بات مانو گی تم۔ میری اچھی دوست ہو تم. کیسے اس حال میں دیکھ لوں تمہیں؟ اور بس ختم کرو سب سمجھی"

وہ حتمی انداز میں بولی۔


عدن کے چہرے پر اداسی کے ساےُ لہرا رہے تھے۔

"یہ ہے تمہارا ڈریس۔ خاص تمہارے لئے ڈیزائن کروایا ہے شہری نے۔"

وہ اس کے سامنے جامنی رنگ کی میکسی لہراتی ہوئی بولی۔

"شہری پاگل ہے۔"

اس کے چہرے کو ہلکی سی مسکراہٹ چھو کر گزری۔

"تو تم بھی پاگل ہو جاؤ اب بس مزید منت نہیں کرنے والی میں۔ اب ایک تھپڑ لگاؤں گی۔"

اب کی وہ خطرناک تیور لئے بولی۔


"میک اپ آرٹسٹ؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہر چیز تیار ہے۔ تم شاور لے لو۔ میں شہری سے بات کر کے آئی۔"

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔

عدن حسرت زدہ نظروں سے اس لباس کو دیکھنے لگی۔


کتنے خواب اس کی آنکھوں میں ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئے تھے اور اب یہ کرچیاں اسے چبھ رہی تھیں۔

نجانے کب آنسو بہہ نکلے اور اس کے رخسار کو بھگو گئے۔

دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کر کے وہ سلیپر پہننے لگی۔


"بیسٹ ٹی وی ایکٹریس ایوارڈ گوز ٹو....."

اس آواز پر سب کے دل تھم گئے۔

تمام ایکٹریس کی دھڑکنیں ساکن ہو چکی تھیں۔

"عدن خان.... "

عدن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی۔ وہ جانتی تھی اس پر اسی کا نام لکھا ہے۔

جہاں کچھ لوگوں نے تالیاں بجا کر داد دی وہیں بہت سی ایکٹریس حسد کا شکار ہو رہی تھیں۔ جن میں سر فہرست ملیحہ تھی۔

عدن سٹیج پر کھڑی اپنا ایوارڈ لے کر مائیک کے سامنے کھڑی تھی۔


"حارب یہ میرا ایوارڈ تھا۔"

ملیحہ کلس کر بولی۔

"ووٹنگ پر ہی عدن کو ملا ہے۔"

حارب تنک کر بولا۔

"تم مانو یا نہ مانو اس نے کچھ نہ کچھ کیا ہو گا۔ ہمیشہ اسے ہی کیوں ملتا ہے؟"

وہ بس رو دینے کو تھی۔


"تمہیں بھی ملے گا تم فکر مت کرو ابھی شو ختم نہیں ہوا۔"

حارب نے اسے جھوٹی ہی سہی تسلی دینی چاہی۔

"میں جانتی ہوں تم مجھے بہلا رہے ہو۔"

وہ رخ موڑ گئی۔

حارب سٹیج سے اترتی عدن کو دیکھنے لگا۔

اس کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔


"عدن تم خوش ہو؟"

شہری اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔

"شاید۔"

عدن کی نظر جب سے شاہد سے ٹکرائی تھی وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔

"کیا مطلب شاید؟ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تمہیں یہ ایوارڈ ملا ہے جس کے لئے سب ترستے ہیں۔"

شہری نے اسے احساس دلانا چاہا۔


"ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔"

وہ لاپرواہی سے بولی۔

فلحال میری نزدیک اہمیت کا حامل صرف وہ ایک شخص ہے۔ عدن چاہ کر بھی شہری سے کہہ نہ پائی۔

وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا۔

"میری جان سب ٹھیک ہو جاےُ گا۔"

وہ اس کا منہ تھپکتا ہوا بولا۔

اس نے مسکرانے کی سعی کی لیکن مسکرا نہ سکی۔


"کسی سائیکیٹرسٹ کو جانتے ہو؟"

عدن گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔

"ہاں لیکن کیوں؟"

شہری کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"شاید کچھ افاقہ ہو جاےُ۔"

وہ لاچار دکھائی دے رہی تھی۔

عدن کا فون رنگ کر رہا تھا۔ یہ وہی کال تھی جس سے اسے بے تحاشا نفرت تھی۔

اس نے ایک لمحہ کی تاخیر کئے بنا فون سائلنٹ پر لگا دیا۔

"کل بھیج دینا۔"

وہ سپاٹ انداز میں بولی۔


"اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ مفید ہے تو ٹھیک ہے میں کل بھیج دوں گا۔ لیکن تم پارٹی سے بھاگ نہیں سکتی سمجھی۔"

وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔

"تمہارے لئے سب کچھ حاضر ہے۔"

وہ سر کو ہلکا سا خم دے کر بولی۔


تاریکی میں کچھ فاصلے پر دو سیاہ آنکھیں ان کی گاڑی کو دیکھ رہی تھیں۔

ڈرائیور کے آتے ہی شہری عدن سے مل کر چلا گیا۔

گاڑی گھر کے راستے پر رواں دواں تھی۔

سڑکیں ویران تھیں سو گاڑی فل سپیڈ پر دوڑ رہی تھی۔

یک دم ان کے سامنے ایک تیز رفتار گاڑی آ گئی اور بچانے کی سعی کے باوجود ان سے ٹکرا گئی۔

اچانک بریک کے باعث عدن کا سر سیٹ سے ٹکرایا تھا۔

بروقت بریک لگانے کے باعث زیادہ بری ٹکر نہیں ہوئی تھی ورنہ نقصان بھی ناقابل تلافی ہوتا۔

"میم آپ ٹھیک ہیں؟"

ڈرائیور گردن گھما کر عدن کو دیکھتا ہوا بولا۔


"تمہیں نظر نہیں آتا؟"

وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے اس پر برسی۔

"سوری میم وہ۔"

وہ نادم تھا۔ جبکہ غلطی سامنے سے آنے والے کی تھی۔

"کون ہے یہ جاہل جسے دکھائی نہیں دیتا؟"

عدن کا اشارہ دوسری گاڑی والے کی جانب تھا۔

اس سے قبل کہ ڈرائیور جا کر استفسار کرتا وہ آدمی فرار ہو چکا تھا۔


"میم وہ جا چکا ہے۔"

ڈرائیور ششدر سا بولا۔

"اتنی جلدی؟"

وہ متحیر سی بولی۔

ٹکر دونوں کی ہوئی تھی اگر انہیں سنبھلنے کے لئے کچھ وقت لگا تو وہ کیسے اتنی جلدی چلا گیا؟

عدن کو اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔


"گھر چلو اب۔"

فلحال وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔

ڈرائیور نے تابعداری سے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

~~~~~~~~~

حسنین کمرہ لاک کر کے بیڈ پر آ بیٹھا۔ جہاں اس کا سامان بکھرا ہوا تھا۔

"عدن خان.... "

اس نے زیر لب دہرایا۔

ہاتھ میں عدن خان کی تصویر تھام رکھی تھی۔

عدن کی ہسٹری, بچپن, لڑکپن ہر شے اس کے سامنے تھی۔


اگر کوئی اس بات کا دعوا کرتا کہ وہ عدن خان کو جانتا ہے تو وہ حسنین کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔

اسے اب آگے کے لئے لائحہ عمل طے کرنا تھا نہایت محتاط انداز میں۔

وہ کیا کر رہا تھا؟ کیوں کر رہا تھا؟ کس کے کہنے پر کر رہا تھا؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

حسنین نے ایک دوسری تصویر اٹھائی جس میں عدن نہایت نازیبا لباس زیب تن کئے ہوۓ تھی۔


"تم خوبصورت ہو تو پھر اس بیہودگی کی کیا ضرورت؟"

اس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ بمشکل خود سن پایا۔

وہ تاسف سے عدن کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جہاں ایک نہیں ہزاروں رنگ تھے۔

"میں جو کروں گا تم یاد رکھوں گی عدن خان۔"

وہ جیسے خود کو یاد دہانی کروا رہا تھا۔


حسنین نے باکس اٹھایا اور چیزیں اس میں رکھنے لگا۔ سب سے آخر میں اس نے عدن کی وہ تصویر رکھی جو آج کے شو کی تھی ایوارڈ وصول کرتے ہوۓ۔

حسنین تلخی سے مسکرانے لگا اور باکس بند کر دیا۔

اسے سوچ سمجھ کر دھیرے چلنا تھا کچھوے کی چال کی مانند تبھی وہ اپنی منزل پر پہنچ پاتا۔


لائٹ آف کر کے وہ تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔

دماغ میں عدن اور اس سے جڑی چیزیں گردش کر رہی تھیں۔ آج کل اس کی سوچوں کا محور یہی ایک شخصیت تھی کیونکہ اس کے علاوہ کسی کو سوچنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں تھا۔

اپنے خیالات کو جھٹک کر اس نے دائیں کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں۔

~~~~~~~~

وہ باورچی خانے سے نکل کر راہداری میں چلنے لگی۔ دماغ ہمیشہ کی مانند الجھا ہوا تھا۔

کمرے کا دروازہ لاک کر کے اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور زمین پر الٹ دیا۔

وہ خود بھی زمین پر بیٹھ گئی۔

ایک لحظے کے لئے اس کے دماغ میں انیب کا جھماکا ہوا۔


"پاگل انسان۔"

منال ابھی تک اس کی گاڑی کا ہارن بھولی نہیں تھی۔

"یہ تصویریں کس کی ہو سکتی ہیں؟ اور یہ خط؟ اور اس کے مٹے ہوۓ الفاظ؟"

وہ ان چیزوں کو دیکھتے ہوۓ بول رہی تھی۔


"ماما وہاں رہتی تھی لیکن کوئی اور بھی تھا ان کے ساتھ۔ شاید خالہ یا ماموں؟"

وہ تانے بانے جوڑ رہی تھی۔

"منال؟"

فیصل صاحب کی آواز پر وہ ہڑبڑا گئی۔


جلدی سے سارا سامان بیگ میں ڈالا اور اسے صوفے پر رکھ کر دروازے کے پاس آ گئی۔

"جی پاپا؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"بیٹا ایک کیس کے سلسلے میں مجھے شہر سے باہر جانا ہے۔

اب آپ کی ماما بھی نہیں ہیں تو آپ کو اکیلے کیسے چھوڑ جاؤں؟"

وہ سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے۔


"پاپا آپ جائیں میں رہ لوں گی۔"

وہ پھیکا سا مسکرائی۔

"لیکن میرا دل نہیں مان رہا۔ سوچ رہا ہوں خالہ کو بلا لوں۔"

وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔


"جیسے آپ کو بہتر لگے۔"

اس نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

"چلو ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔"

وہ ہلکے پھلکے ہو کر چل دئیے۔

منال سانس خارج کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

عجیب کیفیت میں مبتلا تھی وہ۔


اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ کچھ دیر قبل والی تجسس اب مانند پڑ چکا تھا۔

وہ کروٹ لے کر بیڈ پر لیٹ گئی۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز ہو چکی تھیں۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن ضبط کے باوجود اشک بہہ نکلے۔

~~~~~~~~~

عدن گارڈز کے وسط میں چلتی ہوئی آ رہی تھی۔

چہرے پر دلکش مسکراہٹ احاطہ کئے ہوۓ تھی۔ آنکھوں سے غرور چھلک رہا تھا۔

مداح اس کی ایک تصویر کے لئے بے تاب تھے۔

آگے پیچھے دائیں بائیں ہر سمت سے آوازیں آرہی تھیں لیکن وہ صرف ایک مسکراہٹ اچھالتی چلی جا رہی تھی۔


اس کے ساتھ ایک میل ایکٹر بھی تھا جس کا حال عدن سے کچھ مختلف نہ تھا۔

یہ ایک پبلک پلیس تھی جہاں وہ دونوں ایک شوٹ کے لئے آےُ تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔

"کونگراچولیشن عدن خان۔"

حسن خوشدلی سے بولا۔


"تھینک یو۔"

وہ ہلکا سا مسکرائی۔

"ویل میں جانتا تھا یہ فلم تمہیں ہی ملے گی۔"

وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔

عدن نے سیاہ رنگ کے گاگلز لگا رکھے تھے جو اس کی دودھیا رنگت کو مزید نکھار رہے تھے۔


"پرفارمنس پر منحصر کرتا ہے۔ میں ڈیذرو کرتی ہوں یہ۔"

وہ تفاخر سے بولی۔

"ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں۔ تمہارے ساتھ کام کر کے اچھا لگا۔"

عدن بھی اس کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔


"مجھے بھی۔"

وہ کہتے ہوۓ فون پر انگلیاں چلانے لگی۔

"شہری تم آج بھی بھیجو گے یا نہیں؟"

عدن خفا تھی۔

"یس یس میری جان آج وہ آ رہا ہے۔ تم نہ بھی کہتی تو میں نے بھیج دینا تھا۔"

وہ اپنی خفت مٹانے کو بولا۔


"مہربانی۔"

وہ جل کر بولی۔

دوسری جانب اسے شہری کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔

اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے فون بند کر دیا۔


عدن شہری کے آفس میں بیٹھی تھی۔ اس وقت وہ سائکیٹرسٹ کا انتظار کر رہی تھی۔

عدن گلوب کو میز پر گھما رہی تھی جب دروازے کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔


اس نے گردن گھما کر آنے والی شخصیت کو دیکھا۔

پل بھر کے لئے اسے حیرانی ہوئی لیکن پھر شہری کا خیال آیا تو نارمل ہو گئی۔

"ہیلو میم!"

وہ اپنی شہد رنگ کی آنکھیں اس پر گاڑھتا ہوا بولا۔

عدن نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔


"مجھے شہری سر نے بھیجا ہے اور امید ہے انہوں نے آپ کو بتایا ہو گا کہ آپ بات ادھوری چھوڑ کر نہیں جا سکتی جب تک مکمل نہ ہو جاےُ۔"

وہ بریف کیس میز پر رکھ کر عدن کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔


"اوکے میں بیٹھی ہوں یہیں۔"

وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتی ہوئی بولی۔

حسنین نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی۔


سفید رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کی جینز جو کہ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی آج کل کے فیشن کے مطابق۔ بال کھول کر شانوں پر ڈال رکھے تھے۔ چہرہ نفاست سے کئے گئے میک اپ سے دمک رہا تھا۔ اس پر اس کا مغرورانہ انداز اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا۔

وہ مقابل کو مرعوب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی۔ حسنین نے جھرجھری لی۔


"وقت کا تعین آپ کریں۔ لیکن خیال رہے ایک منٹ پہلے بھی آپ سکپ نہیں کر سکتیں۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"اوکے بیس منٹ ہیں سٹارٹ کرو اب۔"

وہ شاید جلد از جلد اپنی الجھن سی چھٹکارا چاہتی تھی۔


"جو بھی سوال ہوں گے جیسے بھی ہوں گے آپ کو جواب دینا پڑے گا۔"

وہ اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

"اوکے۔"

وہ بیزاری سے بولی۔


"زندگی یا موت؟"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

"زندگی۔"

اس کی آنکھیں کسی بھی تاثر سے پاک تھیں۔

"دنیا یا آخرت؟"

اگلا سوال داغا۔


"دنیا۔"

اس نے بنا کسی جھجھک کے کہا۔

"سوچو اگر کسی شوٹنگ کے دوران تمہاری گاڑی تباہ ہو جاےُیا کسی گہری کھائی میں گر جاےُ پھر؟"

اس کی بات پر عدن کی آنکھوں میں الجھن دکھائی دی جس کی جگہ بعد میں خوف نے لے لی۔


واٹ ربش! یہ کیا فضول بکواس ہے نکلو یہاں سے ابھی کہ ابھی...."

وہ حلق کے بل چلائی۔

"تم نے بیس منٹ دئیے تھے اور ابھی میرا وقت ختم نہیں ہوا اس لئے میں کہیں نہیں جا رہا۔ اور اگر تم نے جانے کی کوشش کی تو؟"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

آنکھوں میں تنبیہ تھی۔


اس کی روشن پیشانی پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں۔

"تمہارے لئے سب سے اہم کیا ہے؟"

وہ پھر سے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

"میرا کیریئر۔"

وہ سنبھل کر بولی۔


"ﷲ کے لئے کیریئر کو چھوڑ سکتی ہو یا کیرئیر کے لئے ﷲ کو؟"

وہ تیز تیز بول رہا تھا مانو وقت بہت کم ہو۔

"میں کیریئر کو چوز کروں گی۔"

وہ نڈر سی بولی۔

"زندگی کیا ہے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔


"خوشی کے لمحے یا پھر موج مستی.... "

وہ مزید بولنا چاہتی تھی لیکن اسنے اگلا سوال داغ دیا۔

"اور موت؟"

وہ یکدم گھبرا گئی۔

شاید وہ اسے پاگل کرنا چاہتا تھا۔


"خواہشات کا خاتمہ...."

وہ ناسمجھی سے بولی۔

"اس شوبز کی زندگی میں خوشی ہے؟"

حسنین تاسف سے بولا۔

"خوشی تو شاید کہیں بھی نہیں ہے۔"

وہ یکدم مایوس ہوئی۔


"مسلمان ہو؟"

اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔

عدن نے لمحہ بھر کو اس کی شہد رنگ کی آنکھوں میں دیکھا پھر رخ موڑ گئی۔

"ہاں۔"

آہستہ سے جواب آیا۔


"کلمہ یاد ہے؟"

وہ جیسے مذاق بنا رہا تھا۔

"تم حد پار کر رہے ہو۔ میں نے اس لیے نہیں بلایا تمہیں۔"

عدن برہمی سے چلائی۔

"پھر کھونے سے ڈرتی ہو؟ جانتی ہو کھونا کیا ہے؟"

وہ اسے نظروں کے حصار میں لیتا ہوا بولا۔

بےساختہ عدن اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔


"پانے کے بعد کھونا یا پھر؟"

وہ خود ہی الجھ گئی۔

"کیا تم نے پایا تھا اسے؟"

وہ ہلکا سا مسکرایا۔

بلاشبہ اس کی مسکراہٹ سحر انگیز تھی۔


"نہیں۔"

وہ نادم ہو گئی۔

"جب پایا ہی نہیں پھر کھونے کا ملال کیسا؟"

وہ کرخت لہجے میں بولا۔

"لیکن میں اس کے بغیر کیسے؟"

وہ بولتی ہوئی خاموش ہو گئی۔


"چیزوں کو ڈسکور کرو جن چیزوں کو تم نے کبھی دیکھا نہیں جنہیں جانا نہیں؟ میرے سوال فضول نہیں ہیں انہیں سوچنا فراغت میں۔ آن چیزوں کی طرف آؤ جن کو کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کی"

وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


اپنا بریف کیس اٹھایا اور عدن کو دیکھے بنا باہر نکل گیا۔

عدن نے بازو پر بندھی واچ پر نظر ڈالی۔

ابھی بیس منٹ پورے نہیں ہوۓ تھے اور وہ چلا گیا۔ عدن کو نئی سوچ میں مبتلا کر کے۔


"کن چیزوں کو ڈسکور کرنے کی بات کر رہا تھا وہ؟"

وہ الجھ کر سوچنے لگی۔

"وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ کبھی مرنے کی باتیں تو کبھی ﷲ کے متعلق؟"

وہ جتنا سوچتی اتنا الجھتی جاتی۔

"میرے پاس وقت نہیں ہے ان چیزوں کو سوچنے کا۔"

وہ اپنے خیالات کو جھٹکتی کھڑی ہو گئی۔


"کل سیٹ پر بھی جانا ہے اور...."

وہ اپنا شیڈول یاد کرتی ہوئی چلنے لگی۔

اگر اس نے عدن کا دھیان ہٹانے کے لیے ایسی باتیں کیں تھیں تو بلاشبہ وہ کامیاب ہو چکا تھا اس کا دھیان اب شاہد کی جانب نہیں تھا۔

~~~~~~~~~

"فیضی آخر کب تمہارا یہ پاگل پن ختم ہو گا؟"

عزہ برداشت کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی بولی۔

"میری غیرموجودگی میں شہری کیوں آیا تھا یہاں؟"

وہ عزہ کی بازو پر گرفت مضبوط کرتا ہوا غرایا۔


"گولی مار دو پھر مجھے اگر وہ آیا تھا تو۔"

عزہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔

دائیں رخسار پر فیضی کی انگلیوں کے نشان ثبت ہو چکے تھے۔ فیضی کے تھپڑ کے باعث اس کا رخسار سرخ ہو رہا تھا۔


"سچ سچ بتا دو کیا چل رہا ہے تم دونوں کے بیچ؟"

وہ عزہ کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔

"چھوڑو مج مجھے جاہل انسان۔"

وہ اپنا منہ آزاد کرواتی ہوئی بولی۔

فیضی اسے جھٹکے سے دور کر کے ٹہلنے لگا۔

عزہ بےبسی سے اپنے ہاتھوں کو گھورنے لگی۔


"نجانے کیا لکھا ہے ان لکیروں میں۔ محبت کی اتنی بھیانک سزا ملے گی کبھی سوچا نہیں تھا۔"

وہ اتنا آہستہ بول رہی تھی کہ فیضی سن نہ سکا۔

"کسی دن تم مار کھاؤ گی مجھ سے سدھر جاؤ آخری بار کہہ رہا ہوں۔"

اس کی آنکھوں میں تنبیہ تھی۔


"میں تم جیسے انسان کو نہیں سمجھا سکتی وہ اسکرپٹ لینے آیا تھا کیونکہ تم نے کہا تھا کہ چیک کرنا۔"

عزہ کچھ دیر قبل کہی جانے والی بات پھر سے دہرانے لگی۔

"بکواس کرتی ہو تم۔"

فیضی بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا۔


عزہ اوندھے منہ بیڈ پر گر گئی۔

"یہ آزمائش شاید میری جان لے کر ہی ختم ہو گی۔"

وہ بےبسی سے بولی۔

کسی بھی انسان یا چیز کا انتخاب کرنے سے پہلے اچھے سے سوچ لینا چائیے کیونکہ ایک بار آپ آگے نکل جائیں تو واپس مڑنا ممکن نہیں۔ پھر کانٹے بھی دکھائی دیں تو چلنا پڑتا ہے۔


سواےُ کراہنے اور آنسو بہانے کے کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔ عزہ بھی ایک ایسی ہی سزا کاٹ رہی تھی۔ محبت کی شادی کی تاکہ فیضی کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے لیکن زندگی ایسا موڑ لے گی اسے اندازہ تک نہ تھا۔ آج نہ وہ واپس جا سکتی تھی نہ اس آزمائش سے بھاگ سکتی تھی۔ صرف برداشت کرسکتی تھی اور وہی کر رہی تھی۔

~~~~~~~~~

عدن آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔

میڈی اس کا میک اپ آرٹسٹ میک اپ کرنے میں مصروف تھا۔

"میڈی اور کتنا ٹائم لو گے؟"

وہ بیزاری سے بولی۔


"بس ہو گیا دو منٹ صبر کر لو۔"

وہ فائنل ٹچ دیتا ہوا بولا۔

"ہاں اب ٹھیک ہے۔"

وہ آخری نظر ڈالتا ہوا بولا۔

عدن خود کو دیکھتی آٹھ گئی۔


سین ریڈی تھا۔ سب عدن کے منتظر تھے۔

"تو بلآخر تمہیں میری محبت کا یقین آ ہی گیا۔"

ہیرو عدن کو اپنے قریب کرتا ہوا بولا۔

"زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"

عدن اس کی ناک کو چھیڑتی ہوئی نزاکت سے بولی۔


"جہاں اتنا وقت تمہارا انتظار کیا کچھ وقت اور سہی۔"

وہ ہلکا سا مسکرایا۔

"کٹ۔"

ڈائریکٹر کی آواز پر سین کٹ ہوا۔

عدن دو قدم پیچھے ہوئی۔


"تم لائنز پھر سے بھول گئے ہو؟ میں تمہارا منتظر رہوں گا جیسے کل رہتا تھا۔ یہ لائن تھی۔"

وہ سکرپٹ ہاتھ میں لئے بولا۔

"اوہ۔"

وہ کہتا ہوا سکرپٹ دیکھنے لگا۔


میڈی عدن کے بال درست کرنے لگا۔

عدن اس وقت پنک کلر کے بلاؤز کے ساتھ سکرٹ پہنے ہوۓ تھی جس میں سے اس کے پیٹ کا کچھ حصہ اور کمر کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ آستین سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔

میڈی کا ہاتھ اب عدن کا گلا درست کر رہا تھا۔ وہ بال کان کے پیچھے اڑستی اپنی لائنز یاد کر رہی تھی۔


شہری سین ختم ہونے کا منتظر تھا۔

اس کو دیکھتے ہی عدن کے لب مسکرانے لگے۔

"ہاےُ بیسٹی؟"

عدن اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

"کیسی ہو؟"

اس کی آواز میں فکر نمایاں تھی۔


"دیکھو بلکل فٹ ہوں میں لیکن کل...."

وہ بول رہی تھی جب شہری نے اسے ٹوک دیا۔

"یار بہت اچھے ڈاکٹر سے میں نے ڈسکس کیا تھا تمہارے بارے میں۔ لیکن کل وہ آ نہیں سکے آئم سوری؟"

وہ ندامت سے بول رہا تھا۔

"پھر وہ کون تھا؟"

عدن کا سوال خود سے تھا۔

اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی شہد رنگ کی آنکھیں گھوم گئیں۔

"شہری آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ؟"

وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔


"یار مجھے خود سمجھ میں نہیں آ رہا؟"

وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہوا بولا۔

وہ پیشانی مسلتی شیشے سے پار دیکھنے لگی۔

"شاہد کی کوئی خبر؟"

کافی دیر بعد عدن کی آواز نے خاموشی کو توڑا۔

"ہاں نیو سانگ کے لیے انڈیا گیا ہے کچھ دن تک آ جاےُ گا۔"

شہری کی نظریں سامنے سڑک پر تھیں۔


عدن نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ایک خلش تھی جسے وہ چاہ کر بھی پر نہیں کر پا رہی تھی۔

"یار فیضی کا دماغ خراب ہے عزہ کی کال آئی تھی مجھے رو رہی تھی وہ۔"

شہری کو یکدم عزہ کی فکر ستانے لگی۔


"میں نے بہت بار عزہ کو بولا ہے کہ الگ ہو جاےُ کیا فائدہ ایسے رشتے کا۔"

وہ بولتی ہوئی خاموش ہو گئی۔

بعض اوقات چیزیں ہمارے حق میں ہوتی ہیں لیکن ہم انہیں سمجھ نہیں پاتے اور اپنے ساتھ نا انصافی قرار دیتے ہیں۔

"تو کیا شاہد سے میرا الگ ہونا ہی بہتر تھا؟"

وہ خود سے مخاطب تھی۔


"ہاں شاید ایسا ہی ہے۔"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔

"میں نے بھی اسے یہی کہا ہے کہ ڈائیورس لے اور ختم کرے یہ سب۔"

وہ اپنی ہی رو میں بولتا چلا جا رہا تھا۔


"اب کرتے ہیں اس کا بھی کچھ۔"

وہ بےتاثر چہرے سے دیکھتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

منال اپنی سیٹ کی پشت سے سر ٹکاےُ آنکھیں موندے ہوۓ تھی۔

اس کے ساتھ والی نشست پر آ کر کون بیٹھا وہ انجان تھی۔ نہ ہی اس نے جاننے کی سعی کی۔ زندگی ایک عجیب راہ پر چل پڑی تھی جسے وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔


خرابی صحت کے باعث فیصل صاحب کی خالہ پاکستان نہیں آ سکتی تھی اور اب منال ان کے پاس جا رہی تھی۔ اس کی منزل آسٹریا تھی فلحال کے لیے۔

ساتھ بیٹھی شخصیت کے چہرے پر خوشی کی تاثرات تھے۔ مانو سفر میں ہم سفر مل گیا ہو۔


"آہم آہم۔"

اس نے گلا کھنکار کر منال کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا۔

"مس احسان فراموش۔"

یہ آواز منال کیسے نہ پہچان پاتی۔ جس انسان نے اسے حد سے زیادہ زچ کیا تھا اسے وہ کیسے بھول سکتی تھی؟

"تم؟"

وہ جھٹکا کھا کر سیدھی ہوئی۔


"مطلب مجھے پہچان لیا ہے۔"

وہ مسرور سا بولا۔ چہرے پر دلکش مسکراہٹ احاطہ کئے ہوۓ تھی۔

"بلکل بھی نہیں۔"

وہ بےرخی سے کہتی رخ موڑ گئی۔


"تھوڑا سا بھی نہیں؟"

وہ بولتا ہوا آگے ہوا۔

"اتنا سا بھی نہیں۔"

وہ انگلی سے اشارہ کرتی کھا جانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔


"بلکل تھوڑا سا تو یاد ہوں گا آخر میں تمہیں اس جن والی حویلی میں لے کر گیا پھر صحیح سلامت واپس لے کر آیا۔ ایک ٹریٹ نہ ہی پیارا سا تھینک یو تو بنتا تھا۔"

موقع ملتے ہی وہ گلا کر گیا۔

وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھور رہی تھی جس کی بک بک شروع ہو چکی تھی۔


"اگر تم زندہ جانا چاہتے ہو نہ تو اپنی یہ فضول قسم کی زبان بند رکھو۔"

منال انگلی اس کے سینے پر رکھتی فاصلہ بڑھاتی ہوئی بولی۔

انیب نے نگاہیں جھکا کر منال کی انگلی کو دیکھا پھر مسکرانے لگا۔


"علاوہ ازیں اور کون سی قسم ہوتی ہے زبان کی؟ قسم سے میری ٹیچر نے مجھے نہیں پڑھایا یہ۔"

جتنی معصومیت سے اس نے پوچھا منال کا دل چاہ رہا تھا کسی دیوار میں اپنا سر دے مارے۔


"تم میرا تعاقب کیوں کر رہے ہو یہ بتاؤ؟"

وہ خود پر قابو پاتی ہوئی بولی۔

سرخ و سپید رنگت حجاب میں دمک رہی تھی۔

انیب کو اسے دیکھ کر ایک سکون سا محسوس ہوتا۔

وہ انہماک سے اسے سن رہا تھا۔

منال کی بات پر وہ برا مان گیا۔


"پاگل لڑکی تعاقب چھپ کر کرتے ہیں سرے عام نہیں۔"

وہ سر پر ہاتھ مار کر اس کی عقل پر ماتم کرتا ہوا بولا۔

"تم میری جان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

وہ چہرہ اوپر اٹھاےُ سوچنے لگا۔


"ہر بات کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اس کی بھی نہیں ہے۔"

وہ نہایت ہلکے پھلکے انداز میں اس کے ہمراہ محو گفتگو تھا۔

وہ سر جھٹک کر باہر دیکھنے لگی۔

"ویسے مجھے زبان کی قسمیں نہیں بتائیں تم نے۔"

اب کہ اس کا انداز کچھ کچھ خفا تھا۔


"اپنی بکواس بند رکھو۔"

اس کے چہرے پر بلا کی سختی تھی۔

وہ خواہ مخواہ اس کی زندگی میں دخل اندازی کر رہا تھا اور منال نارمل حالات سے گزر رہی ہوتی تو شاید اس کا رد عمل اتنا برا نہ ہوتا۔

سفر شروع ہو چکا تھا۔

جہاز اپنی پروان چڑھتا آگے بڑھ رہا تھا۔

یہ چند لمحے انیب کیسے خاموش رہا وہی جانتا تھا۔


"مووی دیکھیں؟ میری پاس ساری نئی موویز ہیں۔"

آخر اس کا صبر جواب دے ہی گیا۔

وہ منال کی جانب دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا۔

"ایک کام کرو گے؟"

اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔


"ہاں لیکن پہلے بتاؤ؟"

وہ خوش ہو گیا۔

"خدا کے لئے اس جہاز سے چھلانگ لگا دو میرے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کی زندگی محفوظ ہو جاےُ گی۔"

وہ جو پرجوش ہو کر اس کی بات سن رہا تھا اب اس کا جوش مانند پڑ گیا۔


"مطلب تم مجھے اتنا گیا گزرا سمجھتی ہو؟"

اسے سچ میں برا لگا۔

"نہیں بلکل بھی نہیں۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

انیب کے دل کو کچھ ڈھارس ملی۔

"اس سے بھی زیادہ۔"

اس کی بات مکمل ہونے پر انیب کے چہرے پر مایوسی نے ڈیرے جما لیے۔


"انتہائی کوئی بے مروت بد لحاظ قسم کی لڑکی ہو تم۔ اخلاقیات تو جیسے چھو کر نہیں گزری تم سے۔"

اب وہ اپنی سیٹ سے ٹیک لگاےُ بھڑاس نکالنے لگا۔

"اگر مزید تعریف کرنا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"

اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔


"تم احسان فراموش لڑکی کو منہ بھی نہیں لگانا چائیے۔ اتنا کچھ کیا اور کچھ سمجھتی ہی نہیں۔"

اس کا دل بری طرح دکھا تھا۔

منال ہیڈ فونز لگا کر اپنے فون کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔


مزید وہ یہ ڈرامہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔

وہ نجانے کب تک بولتا رہا اس بات سے بے خبر کہ اس کی محنت رائیگاں جا رہی ہے کیونکہ منال ہیڈ فونز لگاےُ ہوۓ تھی۔

~~~~~~~~~

"حارب تم خاموش کیوں ہو؟ تم کچھ کرتے کیوں نہیں؟ جس طرح وہ عدن آگے بڑھ رہی ہے وہ وقت دور نہیں جب وہ ہالی وڈ میں پہنچ جاےُ گی۔"

ملیحہ اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔


"یار میں کیسے کچھ کر سکتا ہوں مطلب تم سمجھتی کیوں نہیں ہو؟"

وہ ہمیشہ لاجواب ہو جاتا۔

"میں نہیں سمجھتی یا تم نہیں سمجھتے؟"

وہ اشک بار آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"تمہیں بھی تو کام مل رہا ہے نہ؟ پھر کیا مسئلہ ہے؟"

وہ ہمیشہ اس بحث سے اکتا جاتا۔

"مجھے کام کی ضرورت نہیں مجھے شہرت چائیے۔ میں چاہتی ہوں لوگ صرف میرے بارے میں باتیں کریں صرف مجھے دیکھیں اور مجھے سوچیں۔"

وہ غیر مرئی نقطے کو دیکھتی ہوئی بولی۔

حارب سرد آہ بھر کر سیگرٹ سلگانے لگا۔


"وہ عدن خان ہے ایڈووکیٹ علی خان کی بیٹی اور معروف اداکارہ۔ وہ کوئی معمولی راہ چلتی لڑکی نہیں ہے جسے کہیں سے بھی اٹھا لیا کچھ بھی کر لیا۔"

اب کہ وہ سوچ بچار کر بولا۔


"تو؟ تمہارے رابطے اتنے تو مضبوط ہونے چائیں۔"

وہ جتانے والے انداز میں بولی۔

"میں کسی گینگ کا حصہ نہیں ہوں تو مجھ سے کوئی توقع مت رکھو میں اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتا۔"

وہ سرمئی دھواں ہوا میں اڑاتا ہوا بولا۔

ملیحہ ناگواری سے اسے دیکھنے لگی۔

ایسے جواب کی اسے توقع نہ تھی۔


"حارب تم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

"ہاں میں کچھ نہیں کر سکتا خوش اب۔"

وہ جیسے تھک چکا تھا۔

وہ اثبات میں سر ہلاتی اسے دیکھتی رہی یہاں تک کہ حارب وہاں سے چلا گیا۔


ملیحہ کی نظریں حارب کی پشت پر تھیں۔وہ کیا کھو رہی تھی اسے احساس تک نہیں تھا۔ ابھی اس کے لئے عدن کو ہٹانا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔

~~~~~~~~~

عدن آسم (معروف ایکٹر) کی گردن میں بازو حمائل کئے پوز دے رہی تھی۔ نزدیکیاں اتنی تھیں کہ دوریاں تھیں ہی نہیں۔

دو سیاہ آنکھیں آج بھی عدن کو اپنے حصار میں لئے ہوۓ تھیں۔

کلک کی آواز سے تصویریں قید ہو رہی تھیں۔


"ٹھیک ہے اب یہ ڈریس پہن لیں آپ۔"

فوٹوگرافر آرٹسٹ کے ہاتھ میں پکڑے ڈریس کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

عدن ڈریس لے کر چینج کرنے چلی گئی۔

واپس آ کر پھر سے تصویریں بنانے کا دور چلا۔


اب عدن آسم کی گود میں بیٹھی تھی۔ آسم کے ہاتھ عدن کی پشت پر تھی۔شانے سے لباس غائب تھا۔ وہ کسی برانڈ کے کپڑوں کی ایڈورٹائذمینٹ کر رہی تھی۔

رات اندھیری اپنے بن پر تھی۔

شوٹ تمام ہو چکا تھا۔ وہ لوگ پیک اپ کر رہے تھے۔

آہستہ آہستہ عملہ واپس جا رہا تھا۔


عدن بنا آستین والی شرٹ پہنے بال درست کرتی ہوئی باہر آ رہی تھی۔

یہ جگہ شہر سے کچھ ہٹ کر تھی۔

وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی جب عقب سے کسی نے اس کی کلائی پکڑی اور اپنے ہمراہ لے جانے لگا۔

"کون ہو تم؟ اور کہاں لے جا رہے ہو؟"

وہ احتجاج کرتی ہوئی بولی۔

مقابل اپنی ہی رو میں چلتا جا رہا تھا۔


"شہری تم ہو یہ؟"

وہ اس کا چہرہ دیکھنے کی سعی کرتی ہوئی بولی۔

وہ شخص اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔

عدن کو درخت کے ساتھ لگا کر اس نے اپنی آنکھیں اس پر گاڑھ دیں۔

"تم؟"

عدن کو جھٹکا لگا۔


"کون ہو تم؟ اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یہاں لانے کی؟ ایک منٹ میں تمہیں اندر کروا سکتی ہوں میں ہٹو میرے راستے سے۔"

وہ خفگی سے بولتی وہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔

"جانتی بھی ہو تم کیا کر رہی تھی؟"

اس کے نزدیک جیسے عدن کی باتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔


"کیا؟"

وہ ٹھٹھک گئی۔

"تمہیں خوف نہیں آتا؟"

حسنین شہد رنگ کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالے پوچھ رہا تھا۔

"کس سے؟"

وہ جیسے کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی۔


"جو تم کرتی ہو۔"

مدھم آواز میں کہا گیا۔

وہ جیسے ہرٹ ہوا تھا۔

"کیا کرتی ہوں میں؟ اور تم کون ہو؟ شہری نے تمہیں نہیں بھیجا تھا پھر؟"

عدن کی پیشانی پر شکنوں کا جال بنا ہوا تھا۔


"عدن خان کو موت سے ڈر لگتا ہے لیکن اپنے آپ سے نہیں۔"

وہ اسے کھائی میں دھکیلتا ہوا بولا۔

وہ عدن کی کلائی تھامے ہوۓ تھا ورنہ اب تک وہ زندہ نہ ہوتی۔

وہ اس اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھی۔

اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔


"یہ کیا پاگل پن ہے؟ تم جانتے ہو اس کی سزا کیا ہو گی؟"

وہ ہذیانی انداز میں چلانے لگی۔

"یہ خوف دیکھنا چاہتا ہوں میں تمہاری آنکھوں میں۔"

حسنین کے چہرے پر کوئی رنگ نہیں تھا۔

عدن کا چہرہ فق ہو چکا تھا۔


"مجھے اوپر کھینچو میں گر جاؤں گی۔"

وہ عقب میں اس گہری کھائی کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

تاریکی میں رقص کرتی موت,,عدن کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔

"آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے؟"

وہ شکست خور سی بولی۔


"تمہیں۔"

حسنین اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔

عدن نے بائیں ہاتھ سے اس کا کالر تھام لیا۔

"میں گر جاؤں گی۔ جلدی کھینچو۔"

وہ آنکھیں زور سے بند کئے بول رہی تھی۔


"آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا۔"

اس نے جھٹکے سے عدن کو اپنے سامنے کیا۔

وہ توازن برقرار نہ رکھ پائی اور اس کے سینے سے آ لگی۔ صرف ایک لمحہ اور حسنین دو قدم پیچھے ہو گیا۔


وہ عجیب عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

شاید یہ پاگل ہے اور مجھے بھی پاگل کرنا چاہتا ہے..... وہ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ کہہ نہ سکی۔

"موت سے ڈر لگتا ہے لیکن گناہوں سے نہیں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔


"تم میرے کوئی فین ہو؟ بتاؤ مجھے تنگ کر رہے ہو؟"

عدن دونوں ہاتھوں سے اس کا کالر پکڑتی ہوئی بولی۔

وہ استہزائیہ ہنسا۔

"فین اور تمہارا۔ ایک نظر خود کو دیکھو ذرا۔"

وہ جیسے مذاق کر رہا تھا۔

عدن کا منہ کھل گیا۔ پہلی بار وہ ایسا رد عمل دیکھ رہی تھی۔


"جانتے ہو ایک منٹ میں تم پر کیس کروا کے کیا سے کیا کر سکتی ہوں میں؟"

اب کہ عدن نے اسے ڈرانا چاہا۔

"اچھے سے جانتا ہوں۔ اور ہاں جن چیزوں سے بھاگتی ہو ان پر ایک بار نظر ثانی کر لو یہ نہ ہو موت اپنی آغوش میں لے جاےُ اور تم دیکھتی رہ جاؤ۔"

وہ ہمیشہ ہی الجھی ہوئی باتیں کرتا یا اسے ایسا معلوم ہوتا۔


"تم کیا بولتے ہو؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔"

وہ جھنجھلا کر بولی۔

"خود کو تلاش کرو۔تمہیں ایسا نہیں ہونا چائیے تھا۔"

وہ ایک ملامتی نگاہ ڈالتا الٹے قدم اٹھانے لگا۔

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دور ہوتا دیکھنے لگی۔


"کیا مطلب ہے تمہارا؟"

وہ الجھ کر بولی۔

اندھیرے میں حسنین اوجھل ہوتا جا رہا تھا اور اس کی آخری جھلک بھی غائب ہو گئی۔

"کہاں گیا وہ؟"

وہ اسی سمت میں قدم اٹھاتی ہوئی بولی جہاں سے وہ غائب ہوا تھا۔


جتنی آسانی سے وہ عدن تک پہنچا تھا اسے اتنا تو اندازہ ہو چکا تھا وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔

"پہلے تو کبھی نہیں دیکھا اسے۔ کون ہو سکتا ہے؟"

وہ سوچتی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب بڑھنے لگی۔

تقریباً سب ہی جا چکے تھے۔

ڈرائیور مؤدب انداز میں کھڑا اس کا منتظر تھا۔

~~~~~~~~

"بہت خوش ہو تم؟"

لاؤنج میں قدم رکھتے ہی شاہد کی آواز عدن کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

اس نے گردن گھما کر کھڑکی کے ساتھ کھڑے شاہد کو دیکھا۔


"میں فلحال کسی بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔"

وہ بیزاری سے بولی۔

"وقت تو تمہارے پاس پہلے بھی نہیں ہوتا تھا پھر آج کیسے ہو سکتا ہے؟"

وہ طعنہ دینے سے باز نہ آیا۔


"تم آےُ کیوں ہو؟"

وہ سینے پر بازو باندھے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"اتنا مسئلہ ہو رہا ہے میرے آنے سے؟"

وہ عدن کو اپنے قریب کرتا ہوا بولا۔

"ہاں ہو رہا ہے مسئلہ.... شاہد اٹس فنش ناؤ.. "

وہ اس کی گرفت میں کسمسائی۔


"تمہارے لئے ہو سکتا ہے لیکن میرے لئے نہیں۔"

وہ اس کے چہرے پر آئی لٹ کو ہاتھ سے ہٹاتا ہوا بولا۔

"لیو می...."

عدن کو پہلی بار اس سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔


"کیوں؟ کوئی اور مل گیا ہے کیا؟ پہلے تو تم ایسا نہیں کرتی تھی تو اب؟"

وہ نارمل انداز میں بول رہا تھا۔

"میں اپنی توہین بھولی نہیں ہوں۔ نہ ہی وہ الزامات کو تم نے مجھ پر لگاےُ۔"

وہ جھٹکے سے اسے خود سے دور کرتی ہوئی چلائی۔


"اووہ میں تو بھول گیا تھا تمہارے پاس تو شہری ہے پہلے سے ہی۔"

وہ چبا چبا کر بول رہا تھا۔

"گیٹ آؤٹ۔"

وہ انگلی سے دروازے کی جانب اشارہ کرتی حلق کے بل چلائی۔


"یاد رکھنا یہ؟"

وہ جتانے والے انداز میں بولا۔

"تم بھی یاد رکھنا۔"

کہہ کر وہ رکی نہیں لاؤنج پار کرتی زینے چڑھنے لگی۔

شاہد تلملاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

"میں ٹیکسی منگواؤں؟"

انیب ائیر پورٹ سے نکلتا ہوا بولا۔

منال نے ایک تنبیہ نظر اس پر ڈالی۔

"تمہارا مطلب ہے یس۔"

وہ خوش ہوا۔


"اپنے لیے زہر منگوا لو۔"

منال جتنا کڑوا بول سکتی تھی بول رہی تھی لیکن اس کی ڈھٹائی میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔

"اس کے لئے پہلے مجھے یہ شہر گھومنا پڑے گا تاکہ معلوم کر سکوں کہاں سے ملے گا؟ ابھی تو ٹیکسی۔"

"تم میرے والی وارث نہیں ہو۔ اس لئے یہ سب بند کرو اب۔"

وہ اپنا ہینڈ بیگ اسے مارتی ہوئی بولی۔


"اووہ تمہیں غصہ آ رہا ہے؟"

وہ جیسے محظوظ ہوا۔

"یاﷲ یہ انسان کی شکل میں کون سا نمونہ ہے؟"

وہ بڑبڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

"مس احسان فراموش سنو تو۔"

وہ ہنستا ہوا اس کے پیچھے لپکا لیکن عین اسی لمحے کسی لڑکی سے ٹکرا گئی۔


"آئم سو سوری..."

وہ معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھتا بیگ اٹھانے لگا۔

"اٹس اوکے۔"

وہ مسکرا کر کہتی چلی گئی۔

اس نے نظریں گھما کر منال کو دیکھنا چاہا... وہ ٹیکسی میں بیٹھ چکی تھی....


"شٹ۔"

وہ تاسف سے کہتا اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔

"مجھ سے ہی ٹکرانا تھا؟"

خفگی سے کہتا وہ سر جھکا کر چلنے لگا۔


"کیسی طبیعت ہے آپ کی خالہ؟"

منال سعدیہ سے ملتی ہوئی بولی۔

"شکر ہے ﷲ کا۔ تم سناؤ اب کیسی ہو؟ فیصل بتا رہا تھا کافی ڈسٹرب ہو۔"

وہ منال کا منہ تھپتھپاتی ہوئی استفسار کرنے لگیں۔

"جی ٹھیک ہوں میں بھی... آپ....."

وہ بولتی ہوئی خاموش ہو گئی۔


"بولو بیٹا! "

وہ نرمی سے پوچھنے لگیں۔

"پانی...."

وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔

"بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔"

وہ عمر رسیدہ خاتون دھیمی چال چلتی کچن میں داخل ہو گئیں۔


"سوری نانو لیٹ ہو گیا میں....دراصل آپ کے لئے کچھ دیکھ رہا تھا۔"

وہ بولتا ہوا اندر آ رہا تھا۔

اندر آتے ہی وہ ریک سے ٹکرا گیا اور کتابیں دھڑام کی آواز سے زمیں بوس ہو گئیں۔

اس افتاد پر منال نے گردن گھما کر دروازے سے آنے والی آفت کو دیکھا۔


آواز تو وہ بخوبی پہچان گئی تھی لیکن اس کی آمد پر متحیر تھی۔

اس کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر تھا۔

وہ منہ کھولے کھڑی ہو گئی۔

"واہ واہ مس احسان فراموش...تم اور میں۔"

اس نے دانت نکالتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی۔


"تم میرے پیچھے پیچھے یہاں بھی آ گئے؟"

وہ بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

"ارے انیب میری جان آ گئے تم؟"

سعدیہ اسے دیکھتی نرمی سے بولیں۔

"جی نانو لیکن شاید کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہورہا...جیسے یہ۔"

وہ خفا انداز میں کہتا ان کی جانب بڑھ گیا۔


"تم جانتے ہو منال کو؟"

وہ اسے پیار کرتی ہوئی بولیں۔

"جی نہیں۔"

منال سے قبل وہ بول پڑا۔

وہ گلاس پکڑے پانی پینے لگی۔

منال اثر لئے بنا بیٹھی رہی۔


سعدیہ باری باری دونوں سے حال احوال دریافت کر رہی تھیں۔

انیب خوشدلی جبکہ منال محتاط انداز سے جواب دے رہی تھی۔

"میں تو سونے جا رہا ہوں بہت تھک گیا۔ سفر میں کچھ لوگوں نے بہت تنگ کیا.... "

وہ جاتا جاتا طنز کرنا نہیں بھولا۔

منال نے گھورنے پر اکتفا کیا۔


"تم بھی آرام کر لو تھکاوٹ...."

"نہیں خالہ میں ٹھیک ہوں۔ اچھا یہ بتائیں یہ تصویر کس کی ہے؟"

وہ اپنے بیگ سے تصویر نکالتی ہوئی بولی۔

وہ آنکھیں چھوٹی کیے تصویر دیکھنے لگیں جہاں ایک بچے کے ساتھ ایک جوان لڑکی تھی۔


ان کی آنکھوں میں الجھنیں بڑھنے لگیں۔

چہرے پر پریشانی کی لکریں ابھرنے لگیں۔

"یہ تم نے کہاں سے لی؟ تم پرانی حویلی گئی تھی؟"

وہ بھانپ گئیں۔

"جی۔ پلیز مجھے بتائیں نہ...یہ لڑکی اور بچہ کون ہے؟"

اس کے لہجے میں تجسس تھا۔


"منال تم کیوں وہاں گئی مجھے بتاؤ؟ کیوں ماضی میں جانا چاہتی ہو؟ جو چیزیں تمام ہو چکی ہیں انہیں مت چھیڑو؟"

وہ آہستگی سے سمجھانے لگیں۔

"میں کسی چیز کو نہیں چھیڑ رہی مجھے بس یہ بتا دیں یہ کون ہیں؟ اور ماما کا ان سے کیا رشتہ تھا؟"

وہ بضد ہوئی۔


"اچھی لڑکیاں ضد نہیں کرتیں اور منال تو بہت اچھی ہے نہ؟"

وہ اس کا حجاب درست کرتی نرمی سے بولیں۔

منال کو اب غصہ آنے لگا تھا۔

ایک وہی تھی جسے انجان رکھا گیا تھا ماضی کی حقیقت سے۔ نہ وہ خود آشکار ہونے دیتے اور نہ اسے معلوم کرنے دیتے۔


"فائن۔"

وہ خفگی سے کہتی کھڑی ہو گئی۔

"سیڑھیاں چڑھ کر لیفٹ والا تمہارا کمرہ ہے۔"

اس نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔

وہ اوپر جا چکی تھی۔ اور اب پریشان کھڑی تھی۔

"کون سا کمرہ کہا تھا؟"

وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔


"میرا خیال ہے رائیٹ والا کہا ہو گا...."

وہ پرسوچ انداز میں کہتی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔

اندر کا منظر قابل دید بلکل نہیں تھا۔

انیب بنا شرٹ کے کمرے کے وسط میں کھڑا تھا۔ دونوں ہاتھوں میں شرٹس پکڑے وہ شش و پنج میں مبتلا تھا۔


آہٹ پر اس نے سر گھما کر دیکھا اور آنے والی شخصیت کو دیکھ کر آنکھوں میں شرارت رقص کرنے لگی۔

"خیر تو ہے مس احسان فراموش! "

وہ پرسکون انداز میں کہتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔

"شٹ..."

وہ رخ موڑ چکی تھی۔


"یہ تمہارا کمرہ ہے؟"

وہ چلائی۔

"نہیں بلکہ بھی نہیں۔ میں تو تمہارے لئے کمرہ تیار کر رہا تھا۔"

وہ دانت پیستا ہوا شرٹ پہننے لگا۔

وہ سر جھٹک کر باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~

"حسنین باجی کا کچھ معلوم نہیں ہوا؟"

اس کا ہاتھ ہوا میں معلق ہو گیا۔

ٹونٹی کو بند کر کے وہ چارپائی پر آ بیٹھا۔

وہ اس کے بولنے کی منتظر تھیں۔


"امی کتنے سال ہو چکے ہیں آپ کو لگتا ہے وہ ملیں گیں؟"

لہجے میں اکتاہٹ نمایاں تھی۔

"تم نے تلاش....."

"آپ کو لگتا ہے امی میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں انہیں ڈھونڈوں؟"

وہ ان کی بات کاٹ کر بولا۔

وہ مایوسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


"بھائی آج خالہ آپ کے لئے رشتہ لے کر آئیں تھیں... اور پتہ ہے لڑکی کون ہے؟"

نمرہ اشتیاق سے کہتی اس کے مقابل بیٹھ گئی۔

"نمرہ میں تھکا ہوا ہوں یہ کام امی کا ہے اسی لئے تم انہی کو رپورٹ کیا کرو....سمجھ گئی نہ؟"

آبرو اچکا کر پوچھا گیا۔


نمرہ سنبھل کر امی کو دیکھنے لگی جن کے چہرے پر خفگی تھی۔

"امی آپ کیوں نہیں بھول جاتیں خالہ کو... وہ نجانے کہاں ہوں گی... ﷲ جانے ہوں گی بھی یا نہیں.... "

وہ بے دھڑک بولتی جا رہی تھی۔


"منہ سے کوئی اچھی بات نکالا کرو... دیکھنا ایک دن میری بہن ضرور مل جاےُ گی مجھے۔"

وہ پرامید تھیں۔

حسنین نفی میں سر ہلاتا اپنے کمرے میں چل دیا۔

"بھائی آج چڑچڑے کیوں ہوۓ پڑے تھے؟"

نمرہ آلتی پالتی مارتی بیٹھ گئی۔


"مجھے کیا معلوم اکثر ہی اس کا موڈ خراب ہوتا ہے...شاید آفس میں کسی سے کوئی بات ہوئی ہو۔"

وہ محو سی بولیں۔

"اچھا میں پڑھنے جا رہی ہوں روٹی بن جاےُ تو مجھے بلا لینا.... "

وہ کہتی ہوئی چلنے لگی۔

~~~~~~~~~

عدن شاور لے کر صوفے پر ٹک گئی۔

سوچ کا محور حسنین کے گرد تھا۔

"کون ہے وہ؟ کیوں یہ سب کر رہا ہے؟"

وہ لائٹر اٹھاتی ہوئی بولی۔

وہ ایش ٹرے کو گھورتی ہوئی پوری یکسوئی کے ساتھ حسنین کے متعلق سوچ رہی تھی۔


دروازہ پر ہونے والی دستک نے اس تسلسل کو توڑا۔

وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتی دروازے کے پاس آ گئی۔

"کیسے ہو بنی؟"

سامنے موجود شخصیت کو دیکھتے ہوۓ عدن کے لبوں سے الفاظ آزاد ہوۓ۔


"میں ٹھیک ہوں اور آپ؟"

وہ عدن سے گلے ملتا ہوا بولا۔

"میں بلکل فٹ آ جاؤ دونوں اندر...."

وہ ثمن کو دیکھتی ہوئی بولی۔

کمرے میں ہلکی ہلکی سیگرٹ کی بو پھیلی ہوئی تھی۔


"کیسا رہا ٹوئر؟"

عدن مسکراتی ہوئی بولی۔

"ثمن نے بہت تنگ کیا مجھے میں سوچ رہا ہوں جرمنی آپ کے ساتھ جاؤں.... "

اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔


"ہاں... جرمنی مزہ آےُ گا... "

عدن محظوظ ہوئی۔

"آپ میرے بغیر چلی جائیں گیں؟ اور تم مجھے بتاؤ کب تنگ کیا میں نے؟"

ثمن بنی کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی۔

وہ قہقہ لگاتا عدن کو دیکھنے لگا۔


"تم تو میری پیاری سی بلی ہو...."

وہ ثمن کی گردن میں بازو ڈال کر اسے اپنے قریب کرتا ہوا بولا۔

"اچھے سے جانتی ہوں میری برائیاں کرتے ہو تم...اور آپ بھی اس کے ساتھ مل جاتی ہیں.... "

ثمن اس کا بازو ہٹاتی ہوئی شکوہ کرنے لگی۔


"بنی لاسٹ ٹائم کس نے ٹکٹس جلائی تھیں؟"

عدن کی نظریں ثمن پر تھیں لیکن مخاطب وہ بنی سے تھی۔

"میرے بائیں شانے والے شیطان نے... "

وہ ثمن کی ناک دباتا ہوا بولا۔

"اچھا تو ایک ہی بار کیا نہ.... "

وہ اپنی خفت مٹانے کو کھڑی ہو گئی۔


عدن اور بنی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

"میں پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا اور سب یہاں ہیں!"

علی صاحب خفگی سے کہتے اندر داخل ہوۓ۔

"رابن سے پوچھ لیتے آپ... اور اب آپ انہیں کہیں کہ میں بھی ساتھ جاؤں گی۔"

ثمن ان کا ہاتھ پکڑ کر بولنے لگی۔


عدن بے ساختہ ہنسنے لگی۔

"ثمن تم پوری پاگل ہو... "

عدن کی بجاےُ بنی کی جانب سے جواب آیا۔

ثمن نے جواباً گھوری سے نوازا۔

علی اور ثمن بھی بیٹھ چکے تھے اب یہ محفل صبح میں ہی تمام ہونی تھی....

~~~~~~~~

"کیسی ہے وہ؟"

ایک مدھم سی آواز اس نیم تاریک کمرے میں گونجی۔

"ٹھیک ہے.. لیکن۔"

وہ بولنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہو گیا۔


"میں جانتی ہوں یہ سب آسان نہیں... لیکن تم کر لو گے مجھے بھروسہ ہے تم پر۔"

ان کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔

وہ خاموش ہو گیا۔

شاید بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔


"آپ نے کھانا کھایا؟"

وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"ہاں... "

آہستہ سے کہا گیا۔

مزید اسکے لئے وہاں رکنا ممکن نہیں تھا۔

چہرے پر مایوسی سجاےُ وہ الٹے پیر باہر نکل آیا۔

~~~~~~~~

منال کھوےُ کھوےُ انداز میں سامنے چھاےُ بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔

بادل فلک کو اپنی اوٹ میں چھپاےُ ہوۓ تھے۔

ہاتھ میں اس کے وہی تصویر تھی جو اس کے لئے سب سے بڑا سوالیہ نشان تھا۔


انیب دبے قدموں چلتا ہوا وہاں آیا۔

منال سکون سے بیٹھی ہو یہ اسے برداشت نہیں تھا۔

"مس احسان فراموش یہ کون ہے؟"

وہ منال کے ہاتھ سے تصویر لے کر اسکے سامنے والی کرسی پر براجمان ہو گیا۔


"کیا بدتمیزی ہے یہ واپس کرو مجھے... میں تمہارا... "

وہ خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی اس کے ہاتھ سے تصویر لینے کی سعی کرتی ہوئی بولی۔

"اوہو ایسا کیا ہے اس میں؟ ہمیشہ سڑی رہتی ہو بندہ کبھی ہنس کر بھی بات کر لیتا ہے۔"

وہ تصویر کو الٹ پلٹ کرتا شکوہ کرنے لگا۔


"بندہ کسی کا قتل بھی کر سکتا ہے..واپس کرو مجھے۔"

وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔

"ایک منٹ مجھے لگتا ہے میں نے اسے دیکھا ہوا ہے... "

یکدم وہ چونکا۔

وہ سیدھی ہو گئی۔


"کہ کہاں دیکھا ہے؟ تم جانتے ہو کیا؟"

لہجے کی بےقراری نے انیب کو نگاہیں اٹھا کر منال کو دیکھنے پر مجبور کر دیا۔

"تم اتنی متجسس کیوں ہو؟"

وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔


"تم کیسے جانتے ہو بتاؤ مجھے..."

وہ اس کی بات نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔

"شاید میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں لیکن میں کیوں کروں؟"

وہ کھردرے پن سے کہتا کھڑا ہو گیا۔


"ہاں تو میں نے کب منتیں کیں تمہاری...دو ادھر۔"

وہ تصویر لے کر چل دی۔

انیب ہکا بکا سا اسے جاتا دیکھنے لگا۔

"عجیب لڑکی ہے یہ... "

وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔

~~~~~~~~~~

"تم یہاں کیسے؟"

عدن متحیر سی بولی۔

"تم ایسی زندگی کیسے گزار لیتی ہو؟"

حسنین عقب میں دیکھتا ہوا بولا جہاں کسی ایکٹر کی منگنی کی تقریب چل رہی تھی۔


موسیقی کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی۔

"تم کب سے تنہا راہوں پر چلنے لگی؟"

حسنین کا اشارہ اس سنسان راہ کی جانب تھا جہاں وہ چل رہی تھی۔

"تم کون ہو؟"

وہ آنکھیں چھوٹی کیے پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔


"تم میرے سوال کا جواب دو۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتی یہ سب؟ تمہیں خوف نہیں آتا موت سے؟"

وہ پھر سے اسے ڈرانے لگا۔

عدن نے نگاہیں نیچی کر کے حسنین کے ہاتھ کو دیکھا جو اس کی بازو پکڑے ہوۓ تھا۔


"میں کیوں چھوڑوں یہ سب بتاؤ؟ میں خوش ہوں اور کیا چائیے پھر؟"

وہ اس کی جانب دو قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

حسنین کی نظر اس کے بےباق لباس پر پڑی تو چہرہ موڑ لیا۔

"تم خوش ہو؟"

ایک پل کے لئے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔


عدن پلکیں جھپکاتی اسے دیکھنے لگی۔

"کیا میں خوش ہوں؟"

وہ جیسے خود سے مخاطب تھی۔

یہی لمحہ تھا جب حسنین وہاں سے چلا گیا۔

اس نے گردن گھما کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔


"کہاں چلا گیا وہ؟"

وہ متوحش سی اردگرد دیکھنے لگی۔

اسکرین پر جگمگاتے نمبر نے اسے پھر سے بکھیر دیا۔

"کیوں؟.... "

بولتے بولتے دو موتی اس کی گال پر لڑھک آےُ۔


"کیوں فون کرتی ہیں آپ مجھے؟"

وہ بولتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔

"کیوں؟"

وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بول رہی تھی۔

آنسوؤں کی روانی میں تیزی آ گئی تھی۔


"کیا وہ جانتا ہے؟ کیا وہ عدن کو جانتا ہے؟ نہیں... ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ وہ کچھ نہیں جانتا... "

وہ خود کو دلاسہ دینے لگی۔

"نہیں ایسا نہیں ہے... پتہ نہیں کون پاگل ہے وہ۔"

وہ چہرہ صاف کرتی کھڑی ہو گئی۔


وہ واپس آئی تو کپلز ڈانس کر رہے تھے جن میں ایک کپل ملیحہ اور شاہد کا تھا۔

ایک ٹیس سی دل میں اٹھی جسے اس نے چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا۔

"لوگوں کو لوگ مل ہی جاتے ہیں... ہمارا متبادل ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگاتے۔"

وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔


"کتنا آسان ہوتا ہے نہ اس انسان کو چھوڑنا جس کے ساتھ آپ نے محبت کی تھی اور پھر ایسے مکر جانا جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔"

وہ تلخی سے مسکرائی۔

ہاتھ میں ڈرنک پکڑے اس کی نگاہوں کا محور شاہد تھا۔

آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں چبھنے لگیں تھیں۔


"ایسے بھی لوگ ملتے ہیں جنہیں ہم نہ نکال پاتے ہیں نہ رکھ پاتے ہیں۔"

ان کی بڑھتی نزدیکیاں عدن کا غم بڑھا رہی تھیں۔

"لگتا ہے آج سارا ضبط کھو دوں گی میں۔"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


"کیا جذبات مذاق ہوتے ہیں یا پھر کھلونے؟ جن کے ساتھ کھیلا, وقت گزارا پھر دوسرا لے لیا۔ محبت انسان کو اتنا ارزاں کیوں بنا دیتی ہے کہ خود کو روندا جاتا ہے اور احساس بھی نہیں ہوتا۔"

آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی دل پر بوجھ سا آ گیا تھا۔


"پوری دنیا بھی جیت لوں میں لیکن تمہیں ہار دیا.... یہ ناکامی عدن خان کو کبھی نہیں بھولے گی۔"

وہ رخ موڑ چکی تھی۔

اگر مزید دیکھتی تو شاید کچھ غلط کر جاتی۔


"ہیلو!! جی؟"

اس نے بنا دیکھے فون کان سے لگا لیا۔

"واٹ؟ کیسے؟ کہاں ہے وہ؟ کون سے ہاسپٹل میں مجھے بتائیں... "

وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


جتنی وہ پی چکی تھی اس خبر سے ساری اتر گئی۔

"نہیں کچھ نہیں ہونا چائیے میں بس آ رہی ہوں..."

وہ فون کاٹ کر دوڑنے لگی۔

کھو دینے کا خوف اس کی آنکھوں میں دکھائی دے رہا تھا۔


شاہد کو کھویا تھا لیکن آنکھیں اسے دیکھ کر سیراب ہو جاتی تھیں لیکن اس طرح کھونا....وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

"جلدی سٹی ہاسپٹل چلو جلدی... "

وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی چلائی۔

"بہت اچھا لگا تمہارے ساتھ کام کر کے... "

نشاء گلاس اس کے گلاس سے ٹکراتی ہوئ بولی۔

"مجھے بھی.. ویسے ابھی تمہارا کیا پلان ہے؟"

وہ معنی خیزی سے بولا۔

"ابھی تو کوئی خاص پلان نہیں کچھ دن گھوم پھر کر اس کے بعد پاکستان.... "

وہ سوچتی ہوئی بول رہی تھی۔

ساحل نے اس کی جانب سیگرٹ بڑھائی۔


"اور تمہارا؟"

وہ کش لیتی ہوئی بولی۔

"میں تو چھٹی پر ہوں اب... "

وہ مسکراتا ہوا بولا۔

"گڈ۔"

وہ اس کی بات سمجھ چکی تھی۔


"آؤ کلب چلتے ہیں۔"

وہ نشاء کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا بولا۔

"واےُ ناٹ..."

وہ مسرت سے کہتی کھڑی ہو گئی۔

نشاء اس وقت منی سکرٹ پہنے ہوۓ تھی جس کا بلاؤذ اتنا مختصر تھا کہ اس کا پیٹ اور کمر واضح نظر آ رہا تھا۔

ساحل اس کی کمر پر ہاتھ رکھے چل رہا تھا اور اس لمحے وہ خود کو خوش قسمت تصور کر رہی تھی۔


"تم تو آنا کو ڈیٹ کر رہے تھے؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"وہ میرا ٹیسٹ نہیں۔"

وہ ناگواری سے کہتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"اچھا تو پھر کیسا ٹیسٹ ہے تمہارا؟"

وہ دلچسپی سے دیکھتی ہوئی بولی جیسے اس کا جواب جانتی ہو۔


"بلکل تم جیسا۔"

اس کے چہرے پر آئی لٹ کو وہ اپنی انگلی سے ہٹاتا ہوا بولا۔

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

یہی جواب وہ سننا چاہتی تھی۔

"چلیں اب؟"

وہ ساحل وہ خود سے دور کرتی ہوئی بولی۔


"آف کورس... "

کہتے ہوۓ اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

وہ مسکراتی ہوئی شیشے سے پار دیکھنے لگی جو اسے چائیے تھا مل چکا تھا۔

محدود زندگی کی لامحدود خواہشات میں سے یہ خواہش پوری ہو چکی تھی۔

~~~~~~~~

حارب گیٹ پر کھڑا تھا جب ملیحہ شاہد کی گاڑی سے اتری۔

اسے دیکھ کر وہ مسکرانے لگی۔

"تم کب آےُ؟"

وہ حارب کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

"جب تم پارٹی میں تھی؟"

اس کا موڈ آف تھا۔


"چلو اندر چلتے ہیں یا باہر ہی رہنے کا ارادہ ہے؟"

وہ پورچ کی جانب چلتی ہوئی بڑبڑائی۔

وہ سانس خارج کرتا اس کے عقب میں چل دیا۔

"ملیحہ رکو مجھے بات کرنی ہے.... "

شفق کی آواز پر ملیحہ گردن موڑ کر انہیں دیکھنے لگی۔


"کیا بات؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"حارب کا کہنا ہے کہ منگنی کی رسم کر لینی چائیے اور میری بھی یہی خواہش ہے۔"

آخر میں وہ ہلکا سا مسکرائیں۔


"کیا مطلب ہے آپ کا منگنی؟ مام ویٹ ویٹ مجھے حارب سے منگنی نہیں کرنی... "

وہ شفق کو شانوں سے تھام کر بولی۔

"بیٹا تم دونوں اتنے ٹائم سے ایک ساتھ ہو تو پھر منگنی کرنے میں کیا قباحت؟ تمہارے کیرئیر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا... "

انہوں نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔


حارب بت بنا کھڑا تھا۔

جس بات کا اسے خدشہ تھا وہی ہوا۔

"مام میں شاہد سے شادی کروں گی حارب سے نہیں..."

وہ نظریں ملاےُ بغیر بولی۔

"یہ کیا بکواس ہے؟ اور حارب جو اتنے وقت سے تمہارے ساتھ ہے؟"

وہ ملیحہ کو جھنجھوڑتی ہوئیں بولیں۔

انہیں اس کی عقل پر شبہ ہو رہا تھا۔


"رہنے دیں آنٹی یہ پاگل ہو چکی ہے۔ عدن کو شاہد سے دور رکھنے کے لئے یہ مجھے بھی چھوڑنے پر تیار ہے۔"

وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔

کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر...


"ہاں تو؟ مجھے پسند ہے وہ... پھر میں کیوں نہ کروں اس سے شادی؟"

وہ حارب کو گھورتی ہوئی بولی۔

"میں نے کوئی زبردستی نہیں کی...تمہاری خوشی زیادہ عزیز ہے مجھے.. جس کے ساتھ تمہیں خوشی ملتی ہے رہو۔"

وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔


"حارب یہ تو پاگل ہے تم تو کچھ عقل کرو۔"

شفق خفگی سے اسے روکتی ہوئی بولیں۔

"نہیں آنٹی دل کے معاملے میں جبر کا کوئی فائدہ نہیں۔ زبردستی رشتہ تو قائم کیا جا سکتا ہے لیکن محبت نہیں... "

آخری بات اس نے ملیحہ کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی جیسے اسے سمجھانا چاہتا ہو۔


"میں چلتا ہوں اب۔"

وہ نظریں چرا کر بولا۔

"حارب .... "

وہ روکنا چاہتی تھیں لیکن وہ چلا گیا۔

" ملیحہ؟"

وہ جتنا حیران ہوتیں اتنا کم تھا۔


"واٹ ایور... "

وہ لاپرواہی سے کہتی اندر چلی گئی۔

اس نے کیا کھویا تھا اس کا احساس نہیں تھا لیکن وقت ہر مرض کی دوا ہے اور ہر زیادتی کا بدلہ... جلد ہی اسے معلوم ہوجانا کہ اس نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے....

نفرت اور محبت کی جنگ میں وہ محبت ہار چکی تھی۔

شاید نفرت میں جیت جاےُ....

~~~~~~~~

"شہری تمہیں کال کیوں کرتا ہے؟"

معمول کے خلاف وہ نرمی سے بولا۔

"کیا مطلب؟"

عزہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔


"تمہارے اور شہری کے بیچ کیا چل رہا ہے؟ مجھے بیوقوف بنانے کی سعی مت کرنا... جان سے مار دوں گا۔"

وہ عزہ کا منہ دبوچتا ہوا غرایا۔

"فیضی تم کیوں ایسا کرتے ہو؟ میں وہی عزہ ہوں جس سے تم بے محبت کرتے تھے جو صرف تمہاری وفادار تھی... "

وہ سسکتی ہوئی بولی۔


"ہوں... وفادار... ہو سکتا ہے پہلے ہو لیکن اب.. "

اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے عزہ کے منہ پر ایک تھپڑ دے مارا۔

"فیضی میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں مجھے سمجھ نہیں آتا... اگر تم مجھے جانتے نہ ہو پھر تو بات بنتی ہیں لیکن تم تو مجھے اچھے سے جانتے ہو... میں نے کبھی تمہارے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچا پھر تم کیوں ہمیشہ مجھ پر شک کرتے ہو؟"

وہ فیضی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بول رہی تھی۔


"یہ ڈرامہ کر کے میرا دھیان ہٹانا چاہتی ہو؟ ویری گڈ... لیکن میں احمق نہیں ہوں جو تمہاری ان باتوں میں آ جاؤں گا۔ آج کے بعد اگر تم مجھے غلطی سے بھی شہری کے ساتھ دکھائی دی تو وہ آخری دن ہو گا تمہارا....یاد رکھنا۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔


عزہ ہکا بکا سی دروازے کو دیکھ رہی تھی۔

"ایسا تو نہیں سوچا تھا میں نے.... زندگی کیوں سہل نہیں ہو جاتی؟ کب ختم ہو گا یہ امتحان؟ تمہارے بغیر بھی رہ نہیں سکتی اور تمہارے ساتھ بھی نہیں.... "

وہ ہاتھ کی پشت سے اشک رگڑتی ہوئی بولی۔


دروازے پر ہونے والی بیل نے عزہ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

وہ اٹھنا نہیں چاہتی تھی۔

جسم تھکاوٹ سے چور تھا۔ اور دل ہمیشہ کی مانند زخمی تھا۔


خطا لوگوں کی ہوتی ہے سزا دل کو ملتی ہے


زخمی آنکھیں ہوتی ہیں اور ٹوٹنا اشکوں کو پڑتا ہے


عزہ آئینے کے سامنے آ گئی اور خود کا جائزہ لینے لگی۔

کیا تھی وہ اور کیا بن چکی تھی۔

آنسو پھر سے بہنے لگے۔

شہری دروازے کے وسط میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا عزہ اس بات سے انجان تھی۔


"عزہ کب تک؟"

اس کا آنسو صاف کرتا ہاتھ ساکت ہو گیا۔

وہ گردن موڑ کر شہری کو دیکھنے لگی۔

"شہری تم... تم کیوں آےُ ہو؟"

وہ متفکر سی بولی۔

"تمہیں دیکھنے آیا تھا۔"

وہ سینے پر بازو باندھے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔


بجھا بجھا چہرہ, کچھ الجھے الجھے بال, جینز پر ٹی شرٹ پہنے ہوۓ تھی, وہ اس ابتر حلیے میں بھی بے حد خوبصورت تھی۔

"شہری پلیز جاؤ تم اگر فیضی کو معلوم ہو گیا تو.... "

عزہ اسے باہر دھکیلنے کی سعی کرتی ہوئی بولی۔


"تمہیں معلوم ہے تم بلکل پاگل ہو۔"

وہ عزہ کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

وہ ناسمجھی سے شہری کو دیکھنے لگی۔

"تم ابھی جاؤ یہاں سے پلیز۔"

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"فیضی آیا تھا؟"

وہ عزہ کے رخسار کو انگلی کی پور سے چھوتا ہوا بولا۔

"تم جاؤ پلیز۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

"وہ حیوان میرے ہاتھ سے نہیں بچے گا میں بتا رہا ہوں... "

وہ بل کھاتا ہوا اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی کو دیکھنے لگا۔


"نہیں.. تم ایسا کچھ نہیں کرو گے شہری میں بہت برا پیش آؤں گی... "

وہ یکدم غصے میں آ گئی۔

"شام کو عدن کے گھر پر آنا بات کرنی ہے تم سے... اور اگر تم نہ آئی تو... "

وہ عزہ کی بازو پکڑ کر اپنی جانب متوجہ کرتا ہوا بولا۔


"اچھا ٹھیک ہے جاؤ تم اب۔"

اس نے ٹالنا چاہا۔

وہ ایک ملامتی نگاہ اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔

وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔


"شہری تمہاری آنکھیں میں پڑھ سکتی ہوں.. سب سمجھ رہی ہوں میں۔لیکن جیسا تم چاہتے ہو ممکن نہیں۔"

وہ چہرہ گھٹنوں پر گراتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"سب کچھ بیکار تھا اس حویلی میں سواےُ اس تصویر کے... اب کیسے پتہ چلے گا یہ بچہ اور یہ لڑکی کون ہیں۔"

وہ جھنجھلا کر باہر نکل آئی۔

"تم نے کیوں اسے حویلی جانے دیا؟"

منال کی سماعتوں سے آواز ٹکرائی۔


"یہ تو خالہ کی آواز ہے... "

وہ بولتی ہوئی دبے پیر آگے چلنے لگی۔

سعدیہ دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھے بول رہی تھیں۔ منال کی جانب ان کی پشت تھی۔

"فیصل تمہارا دماغ خراب ہو گیا تھا کیا؟ اسے روکا کیوں نہیں؟ اب بتاؤ مجھے وہ مجھ سے سوال جواب کر رہی ہے میں کیسے اسے روکوں؟"

وہ خفگی سے بول رہی تھی۔


"کوئی کام کی بات بھی کر لیں جس سے مجھے کچھ معلوم ہو جاےُ... "

وہ بول کر انہیں سننے لگی۔

"اگر اسے کچھ معلوم ہوا تو یہ تمہارے ذمے ہے یاد رکھنا۔ اور ہاں... "

وہ بولتی ہوئیں کمرے میں چلی گئیں۔


"شٹ... ایسے تو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔"

وہ تاسف سے دروازے پر مکہ رسید کرتی ہوئی بولی۔

"کیا تم کسی سیکرٹ مشن پر ہو؟"

اپنے عقب میں اسے انیب کی آواز سنائی دی۔

وہ ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہوئی۔


"تم پاگل ہو کیا؟"

پیشانی پر بل ڈالے, لہجے میں خفگی لئے وہ اسے دیکھنے لگی۔

"دیکھو مجھے اپنا پاٹنر بنا لو... تمہاری مشکل آسان ہو جاےُ گی ویسے بھی تصویر کو میں پہچان چکا ہوں۔"

وہ کالر کھڑی کرتا ہوا بولا۔

وہ گھوری سے نوازتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔


" میرے علاوہ کوئی تمہاری مدد نہیں کرنے والا... "

وہ رازداری سے کہتا اس کے ہمراہ زینے اترنے لگا۔

"تم حویلی کیوں گئے تھے؟ تمہیں راستہ کیسے معلوم تھا؟ تم میرے پیچھے کیوں آتے ہو؟ کون ہو تم؟"

اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔


"او او آرام سے سانس تو لے لو... سارا انٹرویو یہیں کھڑی کھڑی لو گی کیا؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا جیسے اجازت مانگ رہا ہو۔

"تو کہاں؟"

وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

سرمئ رنگ کے حجاب میں اس کا معصومیت بھرا چہرہ دلکش لگ رہا تھا۔


"کیا ہے اب؟"

وہ چیخ کر بولی۔

انیب کی مسلسل نظریں اسے زچ کر رہی تھیں۔

"توبہ توبہ لڑکی کیا کھاتی ہو؟ چلو آؤ تمہیں ٹریٹ دیتا ہوں۔"

وہ لب دباےُ مسکراتا ہوا آگے نکل گیا۔

وہ ہکا بکا سی اس کی پشت کو دیکھنے لگی۔


"صاف صاف کہو نہ ڈیٹ پر لے جانا چاہتے ہو ٹھرکی...."

وہ کہتی ہوئی اس کے ساتھ آ گئی۔

"صاف صاف کہتا ہوں ڈیٹ پر چلتے ہیں... "

وہ بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔


"استغفرﷲ لگتا ہے شرم تمہیں چھو کر بھی نہیں گزری... نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ۔"

منال صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

"تم پاگل ہی رہنا گھر پر پلانگ کریں گے تو نانو کو معلوم ہو جاےُ گا اسی لئے باہر کا بولا نہیں آنا تو تمہاری مرضی میں تین تک گنتی کروں گا آ جاؤ گی تو ٹھیک ورنہ.... "

وہ بولتا ہوا باہر نکل گیا۔

وہ لب کاٹتی سوچنے لگی۔

"اگر وہ سچ میں جانتا ہوا پھر؟"

وہ جیسے خود کو قائل کرنا چاہ رہی تھی۔

"رکو میں آ رہی ہوں... "

وہ سینڈل تبدیل کرتی ہوئی چلائی۔

باہر کھڑے انیب کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

"مجھے کانفرم تو نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کسی انسان سے اس کی شکل ملتی ہے... وہ انسان ہوں ہے ابھی نہیں بتا سکتا۔"

وہ تصویر ہاتھ میں لئے بول رہا تھا۔


منال جتنی توجہ سے اسے سن رہی تھی آخر میں برا سا منہ بنا کر رخ موڑ لیا۔

"اچھا یہ بتاؤ تمہاری ماما کا اس حویلی سے کیا رشتہ؟"

وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔

"میں کچھ بھی نہیں جانتی... صرف اتنا معلوم ہے کہ پاپا انہیں وہاں جانے نہیں دیتے تھے...کیوں؟ معلوم نہیں۔"

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"اوہ مطلب کوئی راز ہے۔ تمہاری ماما اور اس تصویر کا... یہ تصویر تمہیں الماری سے ملی تھی نہ؟"

وہ آبرو اچکا کر اپنے سوال کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔

"ہاں.. اب یہ بتاؤ تم کیسے وہاں آےُ اور جھوٹ بولا تو یہیں مار دوں گی۔"

وہ ہاتھ میں پکڑی چھری اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔


"رکھ دو اسے... غلطی سے بھی لگ جاتی ہے۔"

وہ اس کے ہاتھ سے چھری لیتا ہوا بولا۔

"مجھے ایسی جگہوں پر جانے کا شوق ہے جو جن بھوت کے حوالے سے مشہور ہوں... وہ حویلی بھی مشہور تھی کہ وہاں ایک لڑکی کو پیڑول ڈال کر مارا گیا تھا اور اس کے بعد شاید اس کی روح وہیں بھٹک رہی ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ملا وہاں.... "

اس کے لہجے اور چہرے پر مایوسی نمایاں تھی۔


"وہ لڑکی یہی تو نہیں؟"

منال کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"ہاں... ہو سکتا ہے.. پہلے ہمیں اس لڑکی کو ڈھونڈنا ہے اس کے بعد اس بچے کو۔"

وہ تصویر پر گول نشان بناتا ہوا بولا۔


"کیسے؟"

منال آنکھیں چھوٹے کئے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"اچھا اب ایک ہی دن میں سب معلوم ہو جاےُ تمہیں... آلہ دین کا چراغ سمجھا ہے کیا؟"

وہ برا مان گیا۔


"تم انتہائی فضول انسان ہو... "

نجانے اسے کس بات پر غصہ آیا تھا۔

"اور تم احسان فراموش...ہوں... "

وہ رخ موڑ کر بیٹھ گیا۔

"میں تو جیسی مری جا رہی ہوں نہ تم سے بات کرنے کے لیے... "

وہ اپنا بیگ اٹھاتی ہوئی بولی۔


"راستہ معلوم نہیں اور چل پڑی ہیں مس.. رکو آ رہا ہوں میں۔"

وہ ویٹر کو اشارہ کرتا ہوا چلایا۔

منال سنی ان سنی کرتی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~~

"ڈیڈ کیسے ہوا یہ ایکسیڈنٹ؟ اور ثمن کیسی ہے وہ جلدی بتائیں مجھے... "

عدن انہیں جھنجھوڑتی ہوئی چلائی۔

"بیٹا دعا کرو تم... "

وہ بس اتنا ہی بول پاےُ۔

عدن کو لگا اس کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

کسی نے اسے تپتے صحرا پر لا کھڑا کر دیا ہو۔


"ڈیڈ... یہ کیا۔ بنی تم اس کے ساتھ تھے مجھے بتاؤ وہ ٹھیک ہے نہ؟ ڈاکٹر ابھی تک باہر کیوں نہیں آےُ؟"

وہ ہذیانی انداز میں بولتی چلی جا رہی تھی۔

"عدن سنبھالیں خود کو... ڈاکٹر نے کہا ہے وہ جلد اس تکلیف سے نجات پا لے گی۔"

بنی اسے شانوں سے تھامے بول رہا تھا۔


اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔ لب کپکپا رہے تھے۔ دل مانو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔

"وہ ٹھیک ہو جاےُ گی نہ؟"

وہ جیسے تصدیق کرنا چاہتی تھی۔

بنی نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

عدن اسے کمزور کر رہی تھی۔


"ایک بار کہہ دو وہ ٹھیک ہو جاےُ گی نہ؟ اسے کچھ نہیں ہو گا... "

وہ ہچکیاں لیتی بولتی جا رہی تھی۔

"عدن پلیز چپ کر جائیں... اتنا حوصلہ نہیں ہے میرے پاس... "

وہ جیسے خود بھی بکھرا ہوا تھا۔


"مجھے دیکھنا ہے ثمن کو... "

وہ بنی سے الگ ہوتی آئی سی یو کی جانب چل دی۔

"آپ ابھی نہیں مل سکتی.. سرجری ہو رہی ہے اس کی۔"

وہ عدن کے سامنے آ گیا۔

"تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟ مجھے ملنا ہے ثمن سے... اسے پتہ نہیں کتنی تکلیف ہو رہی ہو گی پلیز بس ایک بار ملنے دو... دیکھنا مجھے دیکھتے ہی وہ ٹھیک ہو جاےُ گی۔"


وہ دیوانہ وار بولتی جا رہی تھی۔

"عدن چپ.. اب آپ ایک لفظ نہیں بولیں گیں جا کر دعا کریں ثمن کے لئے میں یہاں ہوں... "

وہ عدن کو آئی سی یو سے دور لے جاتا ہوا بولا۔

اس نے ایک نظر بنی کو دیکھا جس کا چہرہ ہاتھ اور کپڑے خون سے رنگے تھے۔


اس کی پیشانی اور بازو پر چوٹ کے نشان تھے۔

"ڈرائیو کون کر رہا تھا؟"

وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔

"ضد کر رہی تھی کہ آج میں ہی ڈرائیو کروں گی.... "

بولتے بولتے دو موتی ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے۔

"اگر اسے کچھ ہوا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی.. "

وہ بولتی ہوئی اس کی مخالف سمت میں قدم اٹھانے لگی۔

"دعا؟ کیسے دعا مانگتے ہیں؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔

"کبھی دعا نہیں مانگی تم نے؟"

اسے اپنے عقب میں مردانہ آواز سنائی دی۔

وہ گردن گھما کر اس نیم تاریکی میں اس انسان کو دیکھنے کی سعی کرنے لگی۔


"ایسے مانگو گی دعا؟"

حسنین بولتا ہوا آگے آ گیا۔

"تم؟"

وہ بس اتنا ہی بول پائی۔

سرخ سوجھی ہوئی آنکھیں, آنسوؤں سے تر چہرہ..وہ اس لمحے بلکل مختلف عدن معلوم ہو رہی تھی۔


"تم مجھے دعا مانگنا سیکھا سکتے ہو.. ثمن,, اسے دعاؤں کی ضرورت ہے۔"

وہ بولتی ہوئی اس کے عین مقابل آ گئی۔

حسنین نے ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ اس پر اوڑھ دیا۔

پہلی بار عدن خان اپنے لباس سے شرمسار ہوئی تھی۔


"میری دعا قبول ہو جاےُ گی؟"

وہ بچوں کی مانند اس کی شرٹ پکڑے استفسار کر رہی تھی۔

"پہلے اپنے کپڑے بدل لو...."

وہ اپنے عقب میں اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ جیسے ساری تیاری کرکے آیا تھا۔


"مجھے بتاؤ دعا سے وہ بچ جاےُ گی نہ؟"

وہ جیسے اپنے حواس میں نہیں تھی۔

آنسو تیزی سے بہتے جا رہے تھے۔

حسنین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


وہ سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔

اس کے آنسو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں تھمے تھے۔

زندگی میں کچھ ایسے لمحے آتے ہیں جب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا بےبس ہے۔

ساری زندگی بے لگام خواہشوں کے پیچھے بھاگتا ہے لیکن جب ﷲ راستے بند کر دیتا ہے پھر اسے یاد آتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ وہ جو سمجھ رہا تھا میں ہی سب کچھ ہوں مجھے کسی شے یا کسی انسان کی ضرورت نہیں پھر ﷲ کے سواء کوئی اس کا مددگار نہیں ہوتا.


پھر جھکتا ہے وہ۔ یہ بےبسی بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ نہ اس سے بھاگ سکتے ہیں نہ پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔

حسنین نے ہاتھ بڑھا کر اپنے دائیں رخسار کو چھوا تو نمی کا احساس ہوا۔

آج پہلی بار اسے عدن خان سے ہمدردی ہو رہی تھی۔ اس کے آنسو اسے بھی رُلا رہے تھے۔


ایک نظر اس پر ڈال کر وہ وہاں سے چلا گیا۔

نجانے کتنی لمحے کتنی ساعتیں بیت گئیں عدن کو یاد نہیں تھا۔ اس کے لبوں پر صرف ایک ہی دعا تھی..ثمن کی زندگی کی۔

اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی شاید زندگی میں وہ پہلی بار خدا کے سامنے ہاتھ پھیلاےُ بیٹھی تھی۔


"عدن آپ یہاں ہیں؟"

بنی کی آواز اس نیم تاریک کمرے کی خاموشی میں گونجی۔

وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی فوراً کھڑی ہو گئی۔

"ثمن ٹھیک ہے؟"

بےقراری سے پوچھا گیا۔


"جی وہ اب خطرے سے باہر ہے۔ لیکن ابھی انڈرآبزرویشن ہے اس لئے مل نہیں سکتے۔ آپ کچھ کھا لیں تب تک... "

وہ ہاتھ میں پکڑے سینڈوچ کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"نہیں مجھے بھوک نہیں.. مہ میں پارٹی میں کھانا کھایا تھا۔"

وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔


"بیٹھیں ادھر...اور چپ کر کے کھائیں بعد میں ثمن مجھ سے لڑائی کرے گی کہ میں نے آپ کا خیال نہیں رکھا۔"

بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔

"بنی مجھ سے نہیں کھایا جاےُ گا.. ایک بار ثمن کو دیکھ لوں پھر کھا لوں گی۔"

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"مل لینا تھوڑی دیر میں... ابھی اسے آرام کرنے دیں۔"

وہ سینڈوچ اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔

"وہ ٹھیک ہے نہ؟"

عدن اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


اس نے نا چاہتے ہوۓ بھی بنی کے ہاتھ سے سینڈوچ لے لیا۔

وہ تھکے تھکے انداز میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"تم کیوں نہیں کھا رہے؟"

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔

"میں نے انکل کے ساتھ کھا لیا ہے۔"

وہ باہر دیکھتا ہوا بولا۔


"جھوٹ.. کھاؤ میرے ساتھ تم بھی۔"

وہ جیسے اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔

"لائیں دیں... "

بنی کے لئے اس لمحے اسے مطمئن کرنا سب سے اہم تھا۔


"مطلب میری دعا قبول ہو گئی؟ وہ کہاں..."

اسے یکدم حسنین کا خیال آیا۔

وہ گردن گھماتی کمرے میں اسے تلاشنے لگی لیکن وہ دکھائی نہ دیا۔

"جی... "

وہ آہستہ سے بولا۔

~~~~~~~~

"کیسا بنا ہے کھانا؟"

لہجے میں اشتیاق اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

فیضی نے چہرہ اٹھا کر بغور عزہ کا چہرہ دیکھا۔

"خاص میرے لئے بنایا ہے؟"

وہ مشکوک نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"آف کورس تمہارے لئے... اور کس کے لئے بناؤں گی میں... "

وہ بولتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

"پھر تو ضرور کھانا چائیے۔"

وہ قورمے کا ڈونگا پکڑتا ہوا بولا۔

عزہ کا چہرہ کھل اٹھا۔

نجانے کتنے وقت بعد وہ نارمل ہوا تھا۔


"واہ تم نے تو بہت ٹیسٹی بنایا ہے... "

اس نے کھل کر تعریف کی۔

"تمہیں پسند آ گیا بس میری محنت کا پھل مل گیا مجھے....."

وہ فیضی کو مسکراتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


"لانگ ڈرائیو پے چلیں؟ آئی گیس ہم کافی ٹائم سے باہر نہیں گئے... "

وہ عزہ کا ہاتھ پکڑے بول رہا تھا۔

عورت تو موم کی گڑیا ہوتی ہے دو نرمی کے بول سن کر وہیں اپنا آپ وار دیتی ہے۔

اس کی تو یہی چاہ تھی کہ فیضی بدل جاےُ اور اب جب وہ خود نرمی برت رہا تھا محبت سے پیش آ رہا تھا کیسے وہ انکار کر دیتی؟


"میں چینج کر لوں؟"

وہ پرجوش انداز میں کھڑی ہو گئی۔

"کھانا تو کھا لو پہلے... "

اس نے عزہ کو ٹوکا۔

"مجھے بھوک نہیں میں ابھی آئی بس... "

وہ کہتی ہوئی چلی گئی۔


"پاگل ہے پوری... "

فیضی مسکراتا ہوا کھانے لگا۔

وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہوا اور کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔

عزہ بالوں میں برش چلا رہی تھی جب اسے میسج کی ٹون سنائی دی۔


"شہری کا میسج؟"

وہ زیر لب بولتی میسج پڑھنے لگی۔

"تم انتہائی درجے کی بدتمیز ہو کبھی میری بات نہ ماننا تم... "

وہ پڑھتی ہوئی مسکرانے لگی۔ اور بنا جواب دئیے فون سائیڈ پر رکھ دیا کیونکہ وہ ان لمحوں کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔

دروازے کے وسط میں کھڑا فیضی اسی کو دیکھ رہا تھا۔


"کس کے میسج پڑھ کر مسکرا رہی ہو؟"

وہی کاٹ دار لہجہ۔

عزہ نے گھبرا کر چہرہ اٹھایا۔

"کچھ خاص نہیں..."

وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتی ہوئی بولی۔


"کتنا جھوٹ بولوں گی مجھ سے؟ پاگل لکھا ہے میرے منہ پر؟ ہممم... "

وہ اس کی جانب بڑھتا ہوا بول رہا تھا۔

وہ ڈر کے دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

"فیضی ایسا کچھ بھی نہیں ٹرسٹ می... "

اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔


"کیا سزا دوں تمہیں کہ تم سدھر جاؤ بتاؤ آج خود ہی... "

فیضی اسے بالوں سے پکڑ کر چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا۔

"آہ.. فیضی مجھے درد ہو رہا ہے... پلیز چھوڑو... "

آنکھوں میں خوف کے ہمراہ نمی بھی تیرنے لگی۔


"میں چھوڑ دوں اور تم جو کرتی پھر رہی ہو اس کا کیا؟"

وہ اس کے بال کھینچتا ہوا دھاڑا۔

"میں کچھ نہیں کر رہی میرا یقین کرو.. "

آنسو موتی کی صورت میں بہہ رہے تھے لیکن وہ ظالم دیو بنا ہوا تھا۔


"چلو آج تمہیں اچھے سے سمجھاتا ہوں... "

وہ دروازے کی جانب قدم بڑھاتا ہوا بولا۔

"میرے بال تو چھوڑ دو فیضی... مجھے تکلیف ہو... "

"چپ.. بلکل چپ.. ایک لفظ نہ نکلے منہ سے.. "

وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔


عزہ سہم کر اس کے ہمراہ چلنے لگی۔

وہ باورچی خانے میں آ چکے تھے۔

عزہ کا دل مانو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔

"وہ کیا کرنے والا ہے؟"

وہ فیضی کو دیکھتی ہوئی سوچنے رہی تھی جو کچھ تلاش رہا تھا۔


"ادھر آؤ... اب آئیندہ تم سوچ سمجھ کر ایسی کوئی حرکت کروں گی..."

وہ چولہے پر گرم کی ہوئی چھری اس کی بازو پر رکھتا ہوا بولا۔

وہ چیخ رہی تھی... درد سے کراہ رہی تھی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔

تین سرخ نشان اس کی کلائی پر ثبت ہو چکے تھے۔


"دفعہ ہو جاؤ... "

وہ اسے دھکیلتا ہوا غرایا۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔

کمرے میں اب اسکی سسکیاں گونج رہی تھیں۔


کب مسکراہٹیں آنسوؤں میں تغیر ہو جائیں پتہ نہیں چلتا۔

زندگی کچھ لوگوں کے لئے بہت بےحس ثابت ہوتی ہے۔ اور عزہ ان لوگوں میں سے ایک تھی۔

~~~~~~~~

"عدن کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں اب؟"

ملیحہ شاہد کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

"نہیں.. میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"

وہ ملیحہ کو خود سے قریب کرتا ہوا بولا۔


"ایسا کیوں؟ تم تو اس سے بہت محبت کرتے تھے؟"

وہ آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی۔

"مجھے بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ اسے چھوڑ دوں وہ وفاداری نہیں جانتی... آہ.. لیکن میں ہی بیوقوف تھا مجھے لگا وہ الگ ہو گی لیکن اس نے ثابت کر دیا وہ بلکل اپنی ماں جیسی ہے۔"


وہ ملیحہ کے شانے پر سر رکھے بول رہا تھا۔

"اووہ اب میں سمجھی... اسی لئے تم نے اپنا راستہ الگ کر لیا؟"

وہ دلچسپی سے اسے سن رہی تھی۔

"ظاہر سی بات ہے مجھے ایسی لڑکی نہیں چائیے جو بیک وقت دو لوگوں کے ساتھ ہو... "

لہجے کی کڑواہٹ نمایاں تھی۔

ملیحہ کے حلق میں کچھ پھنسا۔


"ویل چھوڑو ہم اپنی بات کرتے ہیں اسے کیوں ڈسکس کریں؟"

وہ اس کے چہرے پر انگلی پھیرتی ہوئی بولی۔

"آف کورس بےبی... "

وہ مسکراتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"آئیں باہر چلتے ہیں... "

بنی اسے ساتھ لئے باہر نکل آیا۔

علی صاحب کو روتا دیکھ کر عدن کا دل بند ہونے لگا۔

"ڈیڈ کیو کیوں رو رہے ہیں؟ ثمن تو ٹھیک ہو گئی ہے نہ؟"

وہ بنی کو دیکھتی استفسار کرنے لگی۔

بنی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔


"ثمن ہماری بیچ نہیں رہی... "

وہ آنسو بہاتا ہوا بولا۔

عدن نفی میں سر ہلاتی کبھی اسے دیکھتی تو کبھی علی صاحب کو۔

"تم جھوٹ بول رہے ہو... بنی تم نے مجھ سے کہا وہ ٹھیک ہے... وہ کیسے جا سکتی ہے تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟"

وہ اسے دھکیلتی ہوئی بولتی جا رہی تھی۔


"عدن سنبھالیں خود کو... "

وہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا بولا۔

"میں سنبھالوں؟ تم جانتے بھی ہو کیا بول رہے ہو؟ کہاں ہے ثمن مجھے ملنا ہے اس سے.. "

وہ بولتی ہوئی آئی سی یو کی جانب بڑھ گئی۔

کسی نے بھی اسے اندر جانے سے نہیں روکا۔


اندر کا منظر اس کا دل دہلانے کو بہت تھا۔

نرس ثمن کے چہرے پر سفید چادر ڈال رہی تھی۔

"یہ سب کیا ہے؟ کچھ نہیں ہوا ثمن کو...ہٹاؤ اسے۔ کچھ نہیں ہوا..."

وہ ثمن کے چہرے سے چادر ہٹاتی ہوئی دیوانہ وار بولتی چلی جا رہی تھی۔


"ثمن اٹھو دیکھو میں آئی ہوں... مجھ سے بات کرو.. آنکھیں کھولو نہ...پہلے تو کبھی مجھ سے ناراض نہیں ہوئی پھر اب.. چلو اٹھو گھر چلیں...اٹھو نہ دیکھو ڈیڈ بھی رو رہے ہیں... تم ایسے کیسے کر سکتی ہو؟"

وہ اشک بہاتی ثمن کا چہرہ تھپتھپا رہی تھی۔


"پلیز اٹھ جاؤ نہ بس کرو... تم جہاں کہو گی ہم وہیں جائیں گے چھٹیوں میں...لیکن پلیز اب یہ سب ختم کرو چلو آنکھیں کھولو....ثمن..."

نرس ترحم نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"یہ اٹھ کیوں نہیں رہی؟ کیا کیا ہے تم لوگوں نے مجھے بتاؤ؟ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گی ایک ایک کو اندر ڈلوا دوں گی سمجھتے کیا ہو تم لوگ خود کو..."

وہ دیوانہ وار بولتی چلی جا رہی تھی۔

اس کی آوازیں آدھ کھلے دروازے سے باہر جا رہی تھیں۔


"عدن میری جان سنبھالو خود کو..حوصلہ کرو..."

علی صاحب اسے سینے سے لگاےُ پشت تھپتھپا رہے تھے۔

"ڈیڈ کیسے؟ میں کیسے مان لو...دیکھیں اسے۔"

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔


"ڈیڈ کہہ دیں یہ جھوٹ ہے...وہ ٹھیک ہو جاےُ گی ابھی ہیں نہ؟"

وہ چہرہ اوپر اٹھاےُ انہیں نم آنکھوں سے دیکھنے لگی۔

وہ یقین کرنے پر رضامند نہ تھی۔


عدن لبوں کو پیوست کئے بیٹھی تھی۔

نگاہیں ثمن پر تھیں۔ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی بنا پلک جھپکے جیسے پلک جھپکنے پر وہ غائب ہو جاےُ گی۔

تمام ایکٹرز,سنگرز,پروڈیوسرز اور انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے فنکار اس وقت وہاں تھے۔

سب عدن سے بات کر رہے تھے لیکن وہ کسی کو دیکھ نہیں رہی تھی۔


"ڈیڈ آپ ثمن کو کہیں نہیں لے جائیں گے.."

وہ مرد حضرات کو دیکھ کر چلانے لگی۔

علی صاحب بےبسی سے آنکھیں صاف کرتے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

"نو...خبر دار اگر کسی نے ثمن کو مجھ سے دور لے جانے کا سوچا تو..."

وہ تقریباً چلا رہی تھی۔


اس لمحے سچ میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔

ﷲ اکبر کی صدا کے ساتھ ثمن کی میت کو اٹھا لیا گیا۔

"نہیں ڈیڈ..نہیں..آپ نہیں لے جا سکتے..رکیں میری بات سنیں.."

وہ بولتی ہوئی ان کے پیچھے بھاگ رہی تھی جب عقب سے عزہ نے اسے پکڑا...


"عدن خود کو مزید اذیت مت دو..."

وہ تاسف سے بولی۔

"ڈیڈ..رکیں میری بات سنیں..ڈیڈ..."

وہ بولتی ہوئی عزہ کی بانہوں میں جھول گئی۔

"بنی, شہری یہاں آؤ..."

وہ حواس باختہ سی چلانے لگی۔

~~~~~~~~

"ہمیں پاکستان جانا ہو گا اسکے لئے... "

انیب دھپ سے بیڈ پر گرتا ہوا بولا۔

منال جو اپنی سوچ میں غرق تھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئی۔

"تمہیں تمیز نہیں یے؟ اس طرح کسی کے کمرے میں آتے ہیں؟"

وہ پیچھے ہوتی ہوئی تمس سے بولی۔


"نہیں مجھے تمیز بھی چھو کر نہیں گزری جیسے اس دن شرم چھو کر نہیں گزری تھی... "

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"پتہ نہیں دماغ خراب ہو گیا تھا جو تم سے ہیلپ لے رہی میں... "

وہ خود پر ماتم کرتی ہوئی بولی۔


"او ہیلو مس احسان فراموش آرام سے... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"جو بولنے آےُ ہو وہ بولو... ان فضولیات میں میرے وقت کا ضیاع مت کرو.. "

منال گھورتی ہوئی بولی۔

"ہاں تم تو جیسے یہاں کمپنی رن کر رہی تھی نہ... "

وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔


منال تلملا اٹھی لیکن ضبط کر گئی۔

"دیکھو یہ شاہد ہے شاید یا پھر حارب...کانفرم نہیں ہے... اس کے لئے ہمیں پاکستان جانا ہوگا۔"

وہ خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔


"اووہ.. لیکن پاپا ابھی مجھے واپس نہیں آنے دیں گے... "

وہ متفکر سی بولی۔

"اب تم دیکھ لو...ویسے مجھے کیا ملے گا بدلے میں؟"

وہ دلچسپی سے منال کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

"اممم میں کیا دوں گی تمہیں؟؟"

وہ اس اچانک سوال پر الجھ گئی۔


"کبھی تیار ہوئی ہو پوری طرح؟"

نجانے وہ کیا سوچ رہا تھا۔

"کیا مطلب ہے تمہارا؟"

وہ آنکھیں سکیڑے اسے گھورنے لگی۔

"مطلب ہمیشہ بنا میک اپ کے ہی دیکھا ہے تمہیں... تیار نہیں ہوتی کیا؟ چڑیل لگتی ہو ایسے... "

وہ ہنستا ہوا بیڈ سے اتر گیا۔


"اور تم تو جیسے پرنس ہو نہ... آےُ بڑے مجھے کہنے والے.. "

وہ جل کر بولی۔

"اس سڑی ہوئی شکل میں کیوٹ لگتی ہو تم مس احسان فراموش..."

وہ دانت نکالے کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔


"تم اپنی شکل غائب کر لو یہاں سے اس سے قبل کہ میں غائب کر دوں..."

وہ کشن اسے مارتی ہوئی بڑبڑائی۔

"کہیں کر ہی نہ دو مجھے غائب... "

وہ تمسخر اڑاتا باہر نکل گیا۔


"پاگل انسان... بلکہ جاہل انسان..."

وہ کہتی ہوئی بیڈ کی چادر درست کرنے لگی۔

"ایسا کب تک چلے گا؟"

شہری زمین پر بیٹھتا ہوا بولا۔

عدن ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔

آنکھوں میں ویرانی ڈیرے جماےُ ہوۓ تھی۔

"عدن یار مجھ سے تو بات کرو نہ... "

وہ بولتا ہوا اس کے منتشر بال سنوارنے لگا۔


عدن کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

ہنوز خاموشی برقرار تھی۔

"چلو کچھ کھانے چلتے ہیں... مجھے بھوک لگی ہے۔"

اس نے بہانہ بنایا۔

وہ اب بھی خاموش رہی۔

"یار میں تم سے بات کر رہا ہوں... "

اسے اب غصہ آنے لگا۔


"کوئی فائدہ نہیں میں بہت بار کوشش کر چکا ہوں.. "

بنی بولتا ہوا اندر آیا۔

شہری گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

"نہ کچھ کھا رہی ہیں نہ کچھ بول رہی ہیں... "

وہ تھکے تھکے انداز میں بول رہا تھا۔


"میری بات سنو کب تک ایسے ہی رہو گی؟ ہر چیز رکی ہوئی ہے... عدن کسی کے جانے سے زندگی رکتی نہیں ہے۔"

وہ اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

وہ خالی خالی نظروں سے شہری کو دیکھنے لگی۔

صاف رنگت پر ہلکی ہلکی شیو,, چہرے پر سنجیدگی چھائی تھی۔


وہ سرد آہ بھرتی رخ موڑ گئی۔

اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کر کے شہری عقب میں دیکھنے لگا۔

بنی اسے تسلی دے رہا تھا۔

"وہ ٹھیک ہو جائیں گیں انہیں کچھ وقت دیں... میں اور ماما یہاں ہی ہیں آپ فکر مت کریں... "

"تم جانتے ہو نہ اسے پھوپھو سے بلکل لگاؤ نہیں؟ پھر بھی تمہاری ماما یہاں ہیں... "

وہ برہمی سے گویا ہوا۔


"میں بھیج دوں گا ماما کو... "

وہ دروازے کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

"میں اپنی بیسٹی کو بہت مس کر رہا ہوں... "

شہری اس کی بازو سے پشت لگاتا ہوا بولا۔

لیکن جواب ندارد۔

~~~~~~~~

"پلیز آنے بتا دیں وہاں کیا ہوا تھا؟"

منال گزشتہ پندرہ منٹ سے ان کی منت کر رہی تھی۔

"بیٹا آپ کیوں ماضی میں جا رہی ہیں؟"

وہ نرمی سے گویا ہوئیں۔


"اگر آپ نے مجھے نہیں بتایا تو میں چلی جاؤں گی سب کو چھوڑ کر.... آخری بار کہہ رہی ہوں۔"

اس نے آخری حربہ استعمال کیا۔

انیب اس سب میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا۔

اس کی نظریں منال کے چہرے پر تھیں... سرخ رنگ کا حجاب لئے اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی جو مقابل کو مرعوب کر دیتی۔


"تم سچ میں اتنی اچھی ہو یا مجھے لگتی ہو؟"

وہ زیر لب کہتا مسکرانے لگا۔

"بیٹا آپ کی ممانی نے خودکشی کی تھی.. اور اس کے بعد آپ کے ماموں بھی اس دنیا سے چلے گئے... بس اسی وجہ سے آپ کی ماما کو وہاں جانے سے منع کرتے تھے... لوگ کہتے ہیں وہ حویلی ہی منحوس ہے۔ اس لئے آپ کو بھی دور رکھا وہاں سے... "

وہ منال کا رخسار تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔


"اچھا... میں چلتی ہوں... چلو بھوکڑ.."

وہ انیب کو بیگ مارتی گھورنے لگی۔

وہ خفگی سے دیکھتا کھڑا ہو گیا۔


"اچھا جو سٹوری مجھے پتہ تھی وہ تو ایسی نہیں تھی... "

وہ پرسوچ انداز میں بولتا منال کے ہمراہ قدم اٹھانے لگا۔

"ابھی بھی کچھ مسنگ ہے... آنے نے پورا سچ نہیں بتایا میں جانتی ہوں... "

وہ پر اعتماد انداز میں بولی۔

"رائٹ... "

وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔


"اب تم اس بچے کو کب تک ڈھونڈو گے؟"

منال سیٹ بیلٹ باندھتی ہوئی بولی۔

"جب میرا دل کرے گا... "

آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

"کسی دن تمہارا گلا دبا دوں گی میں.. "

وہ خطرناک تیور لئے بولی۔


"جتنی تم ہو نہ اتنی ہی بات کیا کرو... "

وہ ہنستا ہوا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔

منال نے بےرخی سے رخ موڑ لیا۔


"پاپا کہاں جانا یے جو آپ نے مجھے واپس پاکستان بلا لیا.. "

منال صوفے پر بیگ رکھتی ہوئی انہیں دیکھنے لگی۔

"بیٹا میرے کولیگ ہیں نہ علی خان.. ان کی جوان بیٹی کی موت ہو گئی پچھلے ہفتے... تو میں سوچ رہا تھا آپ بھی میرے ساتھ چلو... آپ کی ماما ہوتی تو وہیں جاتیں... "

وہ تاسف سے کہتے کوٹ پہننے لگے۔


"پاپا کل چلیں.. ابھی میں تھک گئی ہوں۔"

رمشاء کے ذکر پر وہ پھر سے کمزور پڑنے لگی تھی۔

"چلیں ٹھیک ہے.. مجھے پولیس اسٹیشن جانا یے آپ آرام کرو... "

وہ منال کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔

وہ بنا کچھ کہے کمرے کی جانب چل دی۔

~~~~~~~~~

"مجھے نہیں لگتا اب وہ عدن واپس آےُ گی.. "

ملیحہ سیگرٹ کا کش لیتی ہوئی بولی۔

"مانو مجھے جانا یے..."

حارب کوٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔


"تم مجھے جانے کا بول رہے ہو؟"

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"مجھے سیٹ پر جانا ہے... شوٹنگ ہے میری۔"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"امیزنگ! آج تمہارے پاس میرے لئے وقت نہیں ہے؟"

وہ اس کے قریب آتی ہوئی بولی۔


"میرے پاس اپنے بہت سے کام ہیں.. "

وہ نگاہیں چرا رہا تھا۔

"یہاں دیکھو... تم اتنا سنجیدہ کیوں ہو رہے ہو؟ ہم ہمیشہ ساتھ رہے گے.. "

وہ اس کے شانے پر سر رکھے بول رہی تھی۔

حارب کے لئے یہ لمحہ نہایت کٹھن تھا۔


"مانو پلیز... تم نے اپنے ہاتھوں سے سب ختم کیا ہے.. "

وہ بےبسی سے گویا ہوا۔

"ہم ساتھ رہیں گے... ساتھ کام کریں گے۔ شاہد کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔"

وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے آہستگی سے بولی۔


"تم پاگل ہو کیا؟ مانو میری بات یاد رکھنا دو کشتیوں کے سوار کبھی منزل پر نہیں پہنچتے... اور مجھے ایسا ریلیشن نہیں چائیے سو پلیز۔"

وہ اسے خود سے دور کرتا ہوا بولا۔

وہ برہم تھا۔

"تم کیسے؟"

وہ ششدر رہ گئی۔


"مجھے لیٹ ہو رہا ہے یو مے لیو ناؤ... "

نہایت بے رخی سے کہا گیا۔

وہ اثبات میں سر ہلاتی تیزی سے باہر نکل گئی۔

حارب بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود کو نارمل رکھنے کی سعی کرنے لگا۔


"اب نہیں... راستہ تم نے بدلا اور اب میں مڑ کر نہیں دیکھوں گا۔"

چہرے پر بلا کی سختی تھی۔

~~~~~~~~~

رات کی چادر اپنے پر پھیلا چکی تھی۔

ہر طرف خاموشی اور تاریکی کا راج تھا۔

سڑکیں سنسان پڑیں تھیں۔

دور دور سٹریٹ لائٹس جل رہیں تھیں جن سے کچھ ڈھارس مل رہی تھی۔

عدن رف سے حلیے میں تھی۔


وہ تن و تنہا رات کے اس پہر قبرستان کے اندر آگئی۔

اندر خوفناک خاموشی اور دل دہلا دینے والی تاریکی تھی۔

لیکن اسے خوف محسوس نہیں ہوا۔

کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔

وہ ابھی بھی بے خوف و خطر چلتی جا رہی تھی۔

وہ کچھ تلاش رہی تھی مانو کچھ کھو گیا ہو۔


اسے تاریکی میں قبروں کو دیکھ کر بھی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا ایک ٹرانس میں وہ چلتی جا رہی تھی۔

عین اسی لمحے کسی نے اسے عقب سے کھینچا۔

"اس وقت یہاں آنے کا مطلب جانتی ہو؟"

وہ تمس سے غرایا۔

وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔


"موت کی بازی! "

وہ اسے خوفزدہ کرنا چاہتا تھا۔

"مجھے خوف نہیں آتا۔"

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔

لمحہ بھر کو وہ ٹھٹھک گیا۔


"کیسے؟ میرے ساتھ چلو... "

حسنین اس کی کلائی تھامے قبرستان سے باہر نکل آیا۔

اور وہ تو جیسے اسی کے حکم کی منتظر تھی۔

"تم ٹھیک ہو؟"

نجانے کیوں اسے فکر لاحق ہوئی۔

"ٹھیک؟"

وہ تمسخرانہ انداز میں ہسنی۔


"یہاں کیوں آئی ہو تم؟ بولو! "

وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔

"تم.. کہاں غائب ہو گئے تھے بتاؤ مجھے؟ دوبارہ تم میرے سامنے کیوں نہیں آےُ بولو؟"

وہ طیش میں چلا رہی تھی۔

آنکھیں تو برسنے کو بےتاب تھیں فوراً چھلکنے لگیں۔


"کیوں؟ تمہیں مجھ سے کیا کام؟"

وہ چور نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"ت تم نے کہا تھا دعا مانگو... میری دعا قبول ہو جاےُ گی.. لیکن تم,, تم نے جھوٹ بولا.. بلکل جھوٹ میری دعا قبول نہیں ہوئی دیکھو... "

وہ قبرستان کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


عدن کے آنسو حسنین کو بھی رونے پر مجبور کر رہے تھے۔

"آؤ میں تمہیں دکھاؤں,, وہ وہاں سو رہی ہے.. دیکھو سب اسے اکیلا چھوڑ آےُ... وہ چلی گئی, چلی گئی مجھے چھوڑ کر... "

وہ بولتی ہوئی اس کے پیروں میں بیٹھ گئی۔

اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا بولنے کو...

نہ ہی دو بول تسلی کے...


"مجھے بھی ثمن کے پاس جانا ہے... مجھے ملنا ہے اس سے... پلیز لے جاؤ مجھے,, تم میرے جیسے نہیں ہو.. تم شاید اچھے ہو!! "

وہ کیا بول رہی تھی خود بھی انجان تھی۔

"عدن چپ... میری بات سنو!"

وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔


"میری دعا کیوں قبول نہیں ہوئی؟ بتاؤ؟ تم نے مجھے غلط طریقہ بتایا تھا کیا؟ سچ سچ بتانا؟"

وہ کسی معصوم بچے کی مانند استفسار کر رہی تھی۔

"دیکھو موت سے کوئی نہیں لڑ سکتا نہ ہی کوئی جیت سکتا ہے... اس کا مطلب یہ نہیں تمہارا طریقہ غلط تھا,, سمجھ رہی ہو نہ؟"

حسنین کے لئے یہ وقت نہایت کٹھن تھا۔


وہ بےبسی سے اس کی شہد رنگ کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

بعض اوقات انسان اپنوں کی بجاےُ غیروں کے سامنے اپنا دل کھولتا ہے..جب اسے لگتا ہے کہ میرے اپنے مجھے سمجھ نہیں پائیں گے تو وہ ایسے انسان کے سامنے خود کو رکھتا ہے جو اسے سمجھ سکے,, جو اس کی مدد کر سکے۔


"چلو گھر چلیں... "

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

عدن کبھی اس کی ہتھیلی کو دیکھتی تو کبھی اس کے چہرے کو۔

حسنین اثبات میں سر ہلانے لگا۔


"مہ مجھے ثمن سے... "

وہ انگلی سے اشارہ کرتی بول رہی تھی۔

"ابھی نہیں... بعد میں مل لینا۔"

وہ نرمی سے گویا ہوا۔

نجانے اس کی آواز میں ایسی کون سی تاثیر تھی جو اسے سکون دے رہی تھی۔

وہ چپ چاپ اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی کھڑی ہو گئی۔


پورا راستہ خاموشی کی نذر ہوا۔

ایسے میں عدن کی سسکیاں کبھی کبھی ارتعاش پیدا کر رہیں تھیں.. حسنین نے اسے رونے سے نہیں روکا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنا دل ہلکا کر لے۔

"بات سنو! "

وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔

آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئیں تھیں۔


چہرہ اترا ہوا تھا... اس لمحے وہ اذیت کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

وہ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"خود پر حاوی مت کرو یہ سب.. اور کم سوچا کرو۔"

وہ خود بھی الجھا ہوا تھا۔


آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی۔

"تم سب ٹھیک کر سکتے ہو؟"

وہ امید بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"عدن میں ایک انسان ہوں.. ہاں تمہاری مدد ضرور کر سکتا ہوں۔"

چہرے پر بےبسی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی۔


وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

"تم جھوٹ بولتے ہو... "

وہ کہہ کر باہر نکل گئی۔

حسنین سرد آہ بھرتا اسے جاتا دیکھنے لگا۔

~~~~~~~~~

"مس احسان فراموش مجھے بھوک لگی ہے.. "

وہ معصومیت سے منال کو دیکھ رہا تھا۔

"تمہیں گھر سے کچھ نہیں ملتا؟ ہمیشہ بھوک ہی لگی رہتی تمہیں.. "

وہ زچ ہو کر بولی۔


"ہاں تو اب سب تمہارے جیسے بن جائیں,,کھانے کی تصویر کو دیکھ لیا اور سمجھو کھا لیا... "

وہ برا مان گیا۔

"بل تم ہی دو گے... میرے باپ نے بینک نہیں کھلوا کر دیا مجھے۔"

وہ خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔


"توبہ توبہ کیسا زمانہ آ گیا... ﷲ معاف کرے..ایک کھانے کے پیچھے مرنے مارتے پر اتر آئی ہو تم؟"

وہ متحیر سا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔

"اپنا منہ بند رکھو... اور مجھے بتاؤ کچھ پیش رفت ہوئی بھی یا نہیں؟"

روشن پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"ایسے تو مجھ سے بات بھی نہیں ہو گی.. "

وہ اسے ستانے کے موڈ میں تھا۔

منال سر تھام کر بیٹھ گئی۔

"دماغ تو میرا خراب ہے جو تم جیسے بد دماغ کو اپنا پاٹنر بنا لیا۔"

وہ منہ میں بڑبڑاتی اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔


"کچھ کہا تم نے؟ ویسے میں سن چکا ہوں۔"

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔

"کام ختم ہونے کے بعد یقیناً ایک عدد کیس ضرور بنواؤں گی تم پر... "

وہ دانت پیستی ہوئی سوچنے لگی۔


ویٹر آڈر لے کر جا چکا تھا اور انیب کی جان میں جان آ چکی تھی۔

"یار دیکھو! تمہارے ماموں اور ممانی کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ تب کی باتیں ہیں جب ہم شاید اس دنیا میں تھے بھی نہیں... "

وہ خالی کاغذ پر کچھ نوٹ کرتا بول رہا تھا۔


"پھر کیسے پتہ چلے گا؟ ابھی ان کا معلوم نہیں ہو رہا تو پھر یہ کیسے معلوم ہو گا ان کی موت کیسے ہوئی؟ اور تم نے حارب اور شاہد کی فیملی ڈیٹیلز چیک کیں؟"

وہ بے چین تھی۔

جلد از جلد وہ اس گتھی کو سلجھا لینا چاہتی تھی۔


"ہاں... اور سب سے انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ دونوں کی فیملی میں کوئی بھی نہیں ہے۔"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

آج وہ براؤن کلر کا حجاب لئے ہوۓ تھی۔

شاید اس کی خوبصورتی اس حجاب سے ہی تھی۔


"اووہ نو... اب تو اور زیادہ الجھن بڑھ گئی.. تمہیں جلد ہی معلوم کرنا ہو گا ورنہ ایک ایک پائی لوں گی تم سے... "

وہ کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔

چہرے پر مایوسی کے ساےُ تھے۔


"اچھا اب کھانے تو دو...خوف میں اضافہ کر رہی ہو تم تو.. "

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

منال ہلکا سا مسکرائی۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس کی بات پر مسکراتی ہو۔


"اووہ مائی گاڈ مجھے کچھ بانٹنا چائیے... مس احسان فراموش آج مسکرائیں؟"

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگا۔

"تم پورے پاگل ہو.. "

آج وہ کھل کر مسکرا رہی تھی۔


انیب کہنی میز پر رکھے,تھوڑی ہتھیلی پر رکھے اسے دیکھ رہا تھا۔

"تمہاری مسکراہٹ بہت پیاری ہے۔"

وہ سرگوشی کی مانند بڑبڑایا۔

"کیا کہا تم نے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔


"نہیں کچھ نہیں۔"

وہ مسکراتا ہوا سیدھا ہو گیا۔

"جلدی کرو مجھے پاپا کے ساتھ جانا ہے.. "

وہ کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتی ہوئی بولی۔


"میں تو آرام سکون سے کھاؤں گا..تم نے سنا نہیں جلدی کا کام شیطان کا کام؟ اتنا بھی نہیں معلوم تمہیں.. "

وہ اس کی کم عقلی پر افسوس کرتا ہوا بولا۔

وہ کلس کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~~

"عدن میں سوچ رہی تھی کچھ دنوں کے لیے کہیں چلے جاتے ہیں؟"

عزہ کشمکش میں مبتلا تھی۔

"تم لوگ چلے جاؤ.. "

بے رخی سے جواب آیا۔

شہری تاسف سے دونوں کو دیکھنے لگا۔


"تم اب گھر سے باہر نہیں نکلو گی؟"

شہری چبا چبا کر بولا۔

"پتہ نہیں... "

وہ جیسے بات کرنے کی خواہاں نہیں تھی۔


"میم فیصل صاحب اور ان کی بیٹی آئی ہے.. سر نے آپ کو بلایا ہے.. "

رابن کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔

چہرے پر شکنیں ابھرنے لگیں۔

"فیصل صاحب؟"

اس نے سوچتے ہوۓ زیر لب دہرایا۔ جیسے یاد کرنے کی سعی کر رہی ہو۔


"میم آپ کے ڈیڈ کے دوست جو وکیل ہیں.. "

اس نے مشکل آسان کر دی۔

"اوہ اچھا..."

وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

شرٹ جینز سے باہر نکال کر آئینے کے سامنے آ گئی۔

عزہ اور شہری خاموش اسے دیکھ رہے تھے۔

عدن بالوں میں برش چلاتی خود کو دیکھ رہی تھی۔

وہ بدل گئی تھی یا اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا۔


"کیسے ہو آپ؟"

عدن منال کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

"میں ٹھیک اور آپ؟"

وہ سنبھل کر بولی۔

عدن اثبات میں سر ہلاتی اس کے ہمراہ بیٹھ گئی۔

فیصل صاحب علی صاحب سے تعزیت کر رہے تھے اور عدن کی نظریں منال پر تھی۔


اس کی نظر منال کے حجاب پر ٹھر گئی تھی۔

اس سے قبل بھی وہ کئی بار منال سے مل چکی تھی لیکن کبھی اس نے اس کے حجاب کے متعلق نہیں سوچا۔ آج دماغ دم بخود اس جانب متوجہ ہو گیا تھا۔

"آپ ہمیشہ حجاب لیتی ہو؟"

بلآخر عدن نے زبان کھولی۔

جواب وہ جانتی تھی لیکن پھر بھی جانے کیوں پوچھ بیٹھی۔

"جی ہمیشہ لیتی ہوں..."

عدن کی نگاہوں سے وہ پزل ہو رہی تھی۔


"آپ کو الجھن نہیں ہوتی؟"

وہ بنا سوچے سمجھے بولتی جا رہی تھی۔

"اس میں الجھن والی کیا بات؟"

اس نے الٹا سوال داغا۔


"میرا مطلب ہمیشہ بال کور رکھنا,, عجیب نہیں لگتا سب کے بیچ میں؟"

روشن پیشانی پر شکنیں نمایاں تھیں۔

"نہیں مجھے عجیب نہیں لگتا... عادت ہے میری تو۔"

وہ ہلکا سا مسکرائی۔


اسے عدن کی جانب سے ایسے سوالات کی توقع نہیں تھی۔

اس کے بعد عدن نے اپنے لب پیوست کر لیے۔

وہ سپاٹ انداز میں کبھی علی صاحب کو دیکھتی تو کبھی کھڑکی سے پار۔

"یہ کیا؟"

عدن ٹھٹھک گئی۔


گارڈن میں کوئی کھڑا تھا۔

وہ آنکھیں چھوٹی کیے اس نفس کو دیکھنے کی سعی کرنے لگی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔

وہاں جو بھی تھا درخت کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔

اس نے بیزاری سے نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔

اسے اب کسی بھی شے سے فرق نہیں پڑ رہا تھا۔


وہ اپنے کمرے میں جانے کی بجاےُ ڈرائینگ روم میں آ گئی۔

لیپ ٹاپ پر مارنگ شو چل رہا تھا جس میں عدن نے شرکت کی تھی۔

وہ بے دلی سے صوفے پر بیٹھ گئی۔

یہ شو اس نے رمضان میں کیا تھا۔ اور وہ شلوار قمیض پہنے سر پر دوپٹہ لئے بیٹھی تھی۔


وہ عجیب عجیب نظروں سے خود کو دیکھنے لگی۔

آنکھوں کے سامنے ہاسپٹل والا منظر گھوم گیا جب حسنین نے اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھا تھا۔

"وہ کہتا تھا نئی چیزیں ڈسکور کروں..کیا وہ سب جانتا ہے؟"

اسے فکر لاحق ہوئی۔


کسی احساس کے تحت اس نے فون اٹھایا اور نمبر ملانے لگی۔

"جی عدن بول رہی ہوں.. "

وہ لمحہ بھر سانس لینے کو رکی۔

"میرا رول آپ کسی اور کو دے دیں... میں انڈسٹری چھوڑ رہی ہوں..."

چند لمحے لگے تھے اسے یہ فیصلہ لینے میں۔


"بس میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتی۔"

اس نے کھردرے پن سے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔

وہ سرد آہ بھرتی لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھنے لگی۔

زور سے لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرتے ہوۓ وہ وہاں سے نکل آئی۔

آنسو ٹپ ٹپ اس کے رخسار کو بھگونے لگے۔

ثمن کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔

اس نے زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔

اسے نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ سوچ کر وہ سیڑھیوں میں بیٹھ گئی۔ فلحال وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔

~~~~~~~~~

"ناظرین تازہ ترین خبر سے آپ کو آگاہ کرتے چلیں معروف و مشہور اداکارہ نشاء جھنگ کی قابل اعتراض تصاویر لیک ہو گئیں۔

تصویر میں اداکارہ بالی وڈ کے معروف اداکار کے ساتھ انتہائی شرمناک حالت میں بیٹھی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اداکارہ کے ہاتھ میں سیگرٹ ہے جبکہ اداکار ساحل خان کے ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے۔ عوام کا اشتعال انگیز رد عمل... شیم آن یو نشاء ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔"

اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر بول رہی تھی۔


نشاء نے گردن گھما کر ساحل کو دیکھا جو متفکر دکھائی دے رہا تھا۔

"اب؟"

وہ نشاء کی نظروں کا مفہوم سمجھ چکا تھا۔

"اب کیا؟ مجھے فرق نہیں پڑتا... "

وہ ساحل کی بازو اپنے گرد حائل کرتی ہوئی بولی۔


"ہاں شاید اتنی کوئی فکر کرنے والی بات نہیں۔"

وہ نشاء کے بالوں پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

"مجھے اپنا ٹائم تمہارے ساتھ اچھے سے گزارنا ہے... یہ سب تو چلتا رہتا ہے.. میڈیا کو اپنی ریٹنگ چائیے میرا شکر ادا کرنا چائیے انہیں ایک ٹاپک مل گیا.. "

وہ قہقہ لگاتی ہوئی بولی۔


"مجھے بھی.. "

وہ آہستہ سے بولا۔

ساحل نے ریموٹ اٹھا کر چینل بدلنا چاہا۔

"ایک منٹ ساحل... یہ تو ثناء میر کی بات کر رہی ہے۔"

اینکر کی آواز پر وہ تعجب سے سننے لگی۔

ساحل نے واپس چینل بدل کر آواز تیز کر دی۔


"ثناء میر کا مولانا اعجاز قادری کے خلاف زیادتی کا کیس فائل... اداکارہ کا کہنا ہے کہ انہیں دھوکے سے بلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ثناء میر وہی ہیں جنہوں نے ماڈلنگ چھوڑ کر دینی تعلیم لینا شروع کر دی تھی۔ وہ اسی سلسلے میں مولانا اعجاز قادری کے پاس جاتی تھیں۔مزید بات کریں گے اس بریک کے بعد..."

نشاء کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"جانتے ہو یہ میری قریبی دوست ہے...اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی تھی۔"

وہ متحیر سی اسے بتانے لگی۔

"ابھی تم نے کہا ہم اپنا ٹرپ خراب نہیں کریں گے... "

وہ خفگی سے بولا۔


"یس جان ہمارے ٹرپ کو کچھ بھی نہیں ہوا... میں چینج کر لوں پھر چلتے ہیں۔"

وہ اپنے لب اس کے رخسار پر رکھتی اس کے حصار سے نکل گئی۔

وہ مسکراتا ہوا شرٹ پہنے لگا۔

~~~~~~~~~

"تو مجھے سکون مل جاےُ گا اس طرح؟"

عدن انہماک سے انہیں سنتی ہوئی بولی۔

"ہاں جیسے میں نے پہلے بھی بتایا تھا دل سے توبہ کرو گی تو ضرور ﷲ تمہاری مشکل آسان کرے گا۔"


"لیکن مجھ سے نہیں ہوتا.. عجیب سا لگتا ہے نماز پڑھنا اور... "

وہ جھنجھلا کر بولی۔

چہرے پر الجھن نمایاں تھی۔


"بیٹا وہ دلوں کا حال جانتا ہے.. اگر سچے دل سے اسکی جانب قدم بڑھاؤ گئی تو کامیاب بھی ہو جاؤ گی؟"

وہ نرمی سے گویا ہوےُ۔

"آپ سمجھ نہیں رہے... "

وہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکل آئی۔


"مجھے کیا ہو رہا ہے؟ میں کیسے یہ سب چھوڑ سکتی ہوں؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔

"یہ سب اتنا عجیب ہے.. میں اس میں فٹ نہیں ہوتی.. "

وہ خود سے راےُ قائم کر رہی تھی۔


جب انسان سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے تو شیطان اس کے راستے میں رکاوٹ ضرور ڈالتا ہے... اسے قطعاً یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی غلط راستہ چھوڑ کر نیکی کی جانب آےُ۔

ایسے میں ہمیں اپنا ایمان مضبوط رکھنا چائیے... ان رکاوٹوں سے گھبرانے کی بجاےُ اپنا ایمان مضبوط رکھنا چائیے۔


وہ مرے مرے قدم اٹھاتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

پچھلے ایک ہفتے سے وہ یہاں آ رہی تھی ایسے میں اس نے اپنا لباس تبدیل کر لیا تھا لیکن وہ پرسکون نہیں تھی۔


عدن آنکھیں موندے سیٹ کی پشت سے سر ٹکاےُ ہوۓ تھی۔

دور درخت کی اوٹ سے دو سیاہ آنکھیں عدن کو اپنے حصار میں لئے ہوۓ تھیں اور آج بھی وہ انجان تھی۔

~~~~~~~~~

"مس احسان فراموش سکتے میں آ گئی ہو کیا؟"

وہ کالر کھڑی کرتا ہوا بولا۔

"تمہیں کیسے معلوم ہوا؟"

وہ ابھی تک ششدر تھی۔


"اتنی جلدی؟"

وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔

"لیکن یہ کیسے پتہ چلے گا تمہاری ماما کا قتل اسی نے کیا ہے؟ اور یہ کیوں کرے گا؟"

وہ الجھا ہوا تھا۔


"تم گھر کے اندر کیسے آےُ؟"

وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

آج وہ سیاہ رنگ کا حجاب لئے ہوۓ تھی۔

جو بھی رنگ ہوتا اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا۔


"ظاہر ہے چل کر... اب تم نے کیا شٹل رکھی ہوئیں ہیں.. "

وہ منہ بنا کر کہتا ہوا صوفے پر گر گیا۔

"بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے تمہیں؟"

منال گھورتی ہوئی دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔


"نہیں ہے.. تو کیا کروں؟"

وہ آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔

"ہاں سمجھ تو ابھی بھی نہیں آ رہا... یہ اصل میں ہوا کیا تھا.. "

وہ تاسف سے کہتی تصویروں کو دیکھنے لگی۔


"ہیلو... جی,, اچھا میں آتا ہوں... "

وہ فون کان سے لگاےُ کھڑا ہو گیا۔

منال چہرہ اوپر اٹھاےُ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ضروری کام یے جانا پڑے گا.. بعد میں ملتے ہیں... "

وہ نرم مسکراہٹ اچھالتا مڑ گیا۔


منال نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ وہ چلا گیا۔

"ایک مسٹری تو یہ بھی ہے کہ تم کیوں میرے ساتھ ہو؟"

وہ سوچتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھانے لگی۔

~~~~~~~~~

عدن فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی جب اس کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں ہوا۔

آہستہ آہستہ یہ حیرت نمی میں بدلنے لگی۔

آنسو ٹپ ٹپ فون کی اسکرین پر گرنے لگے۔


"شاہد نے ملیحہ سے منگنی کرلی؟"

وہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی۔

"وہ تو حارب کے ساتھ تھی... پھر شاہد کے ساتھ؟ اووہ تو میڈی اس دن ٹھیک کہہ رہا تھا ملیحہ شاہد کو ڈیٹ کر رہی ہے... لیکن منگنی؟"

اس کے الفاظ دم توڑ گئے۔


"تم کیسے کر سکتے ہو؟"

وہ فون دیوار میں مارتی ہوئی چلائی۔

"آئی ہیٹ یو شاہد... آئی ہیٹ یو... "

وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا سر تھامتی ہوئی چلائی۔

آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو چکا تھا۔


گرم مادہ تیزی سے بہتا اسکے رخسار کو بھگو رہا تھا۔

"میں ہی کیوں؟ ہر زیادتی ہر نا انصافی میرے ساتھ ہی کیوں؟ پہلے میرا بچپن پھر ثمن اور اب شاہد بھی... مجھ سے کیوں دور ہو رہے ہیں سب؟"

وہ پاگلوں کی مانند چلا رہی تھی۔


وہ ہچکیاں لیتی کھڑی ہو گئی۔

دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی سیگرٹ سلگانے لگی۔

ایک, دو, تین,, اس نے کتنی سیگرٹ پی,, کوئی حساب نہیں رکھا..

ایش ٹرے بھر چکا تھا لیکن اس کے اندر کا اضطراب کسی قدر کم نہیں ہوا۔

وہ تنہا رہ گئی تھی۔دنیا کی اس بھیڑ میں وہ تن و تنہا کھڑی تھی۔


"اکیلی رہ گئی ہوں میں... سب نے چھوڑ دیا مجھے.. "

وہ سسکتے ہوۓ زمین پر بیٹھ گئی۔

چہرہ گھٹنوں پر گراےُ بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیے۔ بے بسی ہی بے بسی تھی۔ سواےُ آنسوؤں کے اس کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔

کھڑکی کھلنے کی آواز نے اس دبیز خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔

عدن نے تعجب سے سر اٹھا کر اس سمت میں دیکھا۔


"تم؟ تم کہاں غائب ہو جاتے ہو؟ اتنے دن ہو گئے تم کیوں نہیں آےُ؟"

وہ پے در پے سوال داغتی اس کے سامنے آ گئی۔

حسنین کی نگاہیں ایش ٹرے پر تھیں۔


"تم نے کہا تھا نہ وہ کام کروں جو نہیں کرتی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا... میں ویسی ہی بے سکون ہوں جیسے پہلے تھی۔ تم صرف جھوٹ بولتے ہو"

وہ اشک بہاتی اپنا حال دل سنا رہی تھی۔


"تم سیگرٹ پی رہی تھی؟"

حسنین کی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔

عدن نے گردن گھما کر میز پر پڑے ایش ٹرے کو دیکھا پھر اسکی شہد رنگ کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"میں تھک گئی ہوں.. اب دل چاہتا ہے موت آ جاےُ۔"

وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اس سے دور ہو گئی۔


"مایوس ہو گئی ہو؟"

اسے جیسے تکلیف ہوئی۔

وہ استہزائیہ ہنسی۔

"کچھ بچا ہے میری زندگی میں بتاؤ؟ سب تو ختم ہو گیا پھر عدن خان کو بھی ختم ہو جانا چائیے... جانتے ہو اس نے منگنی کر لی..."

وہ ماچس اٹھا کر کینڈل جلا رہی تھی۔

"لا حاصل کے پیچھے بھاگنا بے سود ہے۔"

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔


"تم اتنی الجھی ہوئی باتیں کیسے کرتے ہو؟ مجھے سمجھ نہیں آتیں... "

عدن کی نگاہیں جلتے ہوۓ شعلے پر تھیں..

سرخ انگارہ.. بلکل ایسا ہی تھا جیسے اس کی آنکھیں تھیں۔

"تم نے انڈسٹری چھوڑ دی... میرا مقصد پورا ہو چکا ہے..."

وہ عدن کو دیکھتا دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھا۔


"آخری بار آیا ہوں آج.. "

وہ اس کی پشت کو گھور رہا تھا۔

عدن نے گردن گھما کر اسے تعجب سے دیکھا۔

"تم کون ہو؟ بتاؤ مجھے... میں کیوں تم سے بات کر لیتی ہوں؟"

وہ اس کے عین مقابل آ چکی تھی۔

حسنین کا سر جھکا ہوا تھا۔


"کیا تم مجھے اس حال میں چھوڑ جاؤ گے؟ صرف تم ہی مجھے سمجھتے ہو... تم بھی دور جا رہے ہو مجھ سے؟"

وہ اشک بار نگاہوں سے دیکھتی استفسار کرنے لگیں۔

وہ مجرم بنا نظریں جھکاےُ ہوۓ تھا۔


"مجھے بتاؤ اب میں کیا کروں؟ میں ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتی میں واپس جانا چاہتی ہوں... یہ سب بہت مشکل اور عجیب ہے؟"

وہ اس کی بازو پکڑتی ہوئی بولی۔

حسنین نے فوراً اپنی بازو اس کی گرفت سے آزاد کروائی۔


"تمہیں اکیلی یہ سفر کرنا یے... میری مدد نہیں مل سکتی تمہیں۔"

وہ سفاکی سے بولا۔

"مجھے چائیے... "

وہ مظلومیت سے اسے دیکھ رہی تھی۔

ایک آخری نظر ڈال کر وہ مڑ گیا۔


"سب کی طرح تم بھی جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر... سب دور ہو گئے ہیں مجھ سے.. شاید نہیں یقیناً عدن خان تنہا جینے کے لئے ہی بنی ہے... کبھی واپس مت آنا تم...سمجھے! "

وہ اس کی پشت کو دیکھتی ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی۔

نجانے کون سا رشتہ تھا جس حوالے سے وہ اسے روک رہی تھی۔


وہ کھڑکی سے باہر جا چکا تھا۔

وہ گرنے کے سے انداز میں زمین پر بیٹھ گئی۔

"نفرت ہے مجھے تم سے,شاہد سے,, سب سے.. اپنے آپ سے نفرت ہے مجھے... "

وہ سر ہاتھوں میں تھامے چلا رہی تھی۔

اشک تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔


خالی ہاتھ رہ گئی تھی وہ... بلکل تنہا...

اس کی مثال اس سپاہی جیسی تھی جو جنگ میں سب کچھ لٹانے کے بعد باوجود ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔

~~~~~~~~~

"دیکھو میری معلومات کے مطابق اگر اس کے پاس کوئی تصویر یا کوئی نشانی ہے بھی تو وہ اسکے بیڈ روم میں ہو گی... اگر کچھ مل جاتا ہے پھر اس میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ وہی تمہارا کزن ہے... "

انیب مدھم آواز میں اسے آگاہ کر رہا تھا۔


"اووہ مطلب ہمیں اس کے گھر میں گھس کر بیڈ روم کی تلاشی لینی ہو گی؟"

منال کچھ گھبرا گئی۔

"ظاہر ہے... "

وہ لاپرواہی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔


"مجھے بھوک لگی ہے... تم اتنی کنجوس ہو کھانا تک نہیں پوچھتی.. "

وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔

"اور تم اتنے بھوکڑ ہو... کھانے کے بعد بھی ٹھونسنے بیٹھ جاؤ گے... "

وہ جل کر بولی۔


"مس احسان فراموش تمہارا بھی ٹائم آےُ گا کر لو زیادتیاں میری ساتھ... "

وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتا ہوا بولا۔

"توبہ.. تمہیں تو ایکٹر ہونا چائیے تھا...یہ بتاؤ تم جاسوس ہو؟"

اب کہ وہ رازداری سے بولی۔

انیب آنکھیں سکیڑے اسے گھورنے لگا۔


"اب تم حد میں رہو.. "

وہ بھی بدلہ لینا جانتا تھا۔

منال سٹپٹا کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔

"کھانا کام ہونے کے بعد ملے گا چلو اب.. "

وہ صوفے سے اپنا بیگ اٹھاتی تحکم سے بولی۔


"بھوکے پیٹ بھلا بندہ کام کر سکتا ہے؟"

وہ منہ بناتا باہر نکل گیا۔

"جی پاپا..میں ایک دوست کے ساتھ کام سے جا رہی ہوں.. جی ٹھیک ہیں... میں آ جاؤں گی ٹائم سے,,آپ اپنا کام اطمینان سے کریں.. "

وہ فون کان سے لگاےُ باہر کی جانب قدم اٹھا رہی تھی۔

انیب گاڑی میں بیٹھا اس کا منتظر تھا۔

~~~~~~~~~

"عدن... عدن تم نے نیوز سنی؟"

شہری ہانپتا ہوا اس کے کمرے میں آیا۔

"نہیں... "

وہ بس اتنا ہی بول پائی۔

"یار چیک کرو ذرا شاہد کی گاڑی کھائی سے نیچے گر گئی ہے... اور ابھی تک لاش نہیں ملی.. "

اس نے گویا دھماکہ کیا۔


"تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟"

وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

"اب تمہیں میری بات کا یقین نہیں رہا.. اچھا چلو نیوز پر دیکھ لو.. "

وہ بولتا ہوا ریموٹ اٹھا کر ایل ای ڈی آن کرنے لگا۔

عدن دم سادھے نظریں اسکرین پر جماےُ ہوۓ تھی۔


ایک بار پھر سے کھونے کا خوف اس کی آنکھوں میں تیرنے لگا۔

ثمن کا چہرہ اس کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔

بےشک وہ دور تھا لیکن آنکھیں اسے دیکھ کر سیراب ہو جاتی تھیں اس کے لئے یہی بہت تھا۔

اینکر کی آواز عدن کو اپنی سماعتوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔


اسکرین پر وہاں کے کچھ مناظر دکھاےُ جا رہے تھے۔

وہ بے یقینی کی کیفیت میں کبھی شہری کو دیکھتی تو کبھی اسکرین کو۔

"شہری یہ کیسے؟"

بولتے بولتے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

"تم ٹھیک ہو؟"

وہ آگے بڑھ کر اسے تھامتا ہوا بولا۔


عدن نے اثبات میں سر ہلا کر اسے مطمئن کرنا چاہا۔

اس کی زبان کنگ ہو چکی تھی۔

وہ چاہ کر بھی بول نہیں پا رہی تھی۔

"مجھے اکیلے رہنا ہے.. "

نجانے کتنے پل بیت گئے اس نے حساب نہیں رکھا۔


"ڈرگز نہیں لو گی پرامس کرو... "

وہ اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتا ہوا بولا۔

"پرامس... "

وہ شہری کے ساتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

"میں باہر ہی ہوں.. اوکے! "

وہ عدن کے بالوں پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

جواباً اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

~~~~~~~~~

"اگر شاہد آ گیا پھر؟"

منال کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔

"تم خود بھی پھنس جانا اور مجھے بھی اپنے ساتھ پھنسانا... "

انیب گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔

وہ جھنپ کر دائیں جانب دیکھنے لگی۔

بہت مشکل سے وہ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوۓ۔


"شور مت کرنا..."

وہ ہونٹوں پر انگلی رکھتا ہوا بولا۔

"میں تو جیسے ڈھول بجا رہی ہوں نہ... "

وہ برا مان گئی۔

انیب نے گھورنے پر اکتفا کیا۔

توقع کے عین مطابق گھر میں ملازمین کے سوا کوئی بھی نہیں تھا.. اور اس وقت ملازم بھی اپنے کواٹر میں جا چکے تھے سو وہ دونوں بآسانی شاہد کے کمرے تک رسائی حاصل کر گئے۔


"میں الماری میں چیک کرتا ہوں تم بیڈ کے سائیڈ ٹیبل چیک کرو.. "

وہ تحکم سے کہتا الماری کی جانب بڑھ گیا۔

منال کو اس کا حکم سنانا ایک آنکھ نہ بھایا۔

وہ تلملاتی ہوئی چپ چاپ اسکے کی ہدایات پر عمل کرنے لگی۔


"سر کے متعلق خبر سنی تم نے؟"

کمرے کے باہر سے انہیں آوازیں سنائی دینے لگیں۔

"ہاں.. بہت افسوس ہوا مجھے ان... "

آوازیں قریب تر ہوتی جا رہی تھیں۔


"منال چلو... "

وہ اس کا ہاتھ پکڑے واش روم میں گھس گیا۔

"اگر وہ یہاں بھی آ گئے پھر؟"

پہلی بار وہ خوفزدہ دکھائی دے رہی تھی۔

"پھر ہم کہیں گے کہ ڈیٹ مار رہے ہیں.. "

وہ شرارت سے بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔


"تم کبھی سنجیدہ مت ہونا.. "

اسے گھورتی ہوئی وہ ہاتھ مسلنے لگی۔

سردی میں بھی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔

"فکر مت کرو ہم مریں گے نہیں یہاں پر... "

وہ منال کی کیفیت سے محظوظ ہوتا ہوا بولا۔


"تم اپنا منہ بند رکھو... تمہاری وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے.. "

وہ متفکر سی بولی۔

"میری وجہ سے؟ کیسے میڈم؟"

وہ حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکا۔


آوازیں بند ہو چکی تھیں۔

"تم رکو میں دیکھتا ہوں.. "

وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

"اگر ہم پکڑے گئے؟ اور پاپا کو معلوم ہو گیا پھر؟"

اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی۔


"مس احسان فراموش آ جاؤ باہر.."

وہ دروازہ ناک کرتا ہوا بولا۔

منال اپنی کیفیت پر قابو پاتی باہر نکل آئی۔

"تم چور بھی ہو؟"

انیب کو الماری میں چابی گھماتے دیکھ کر وہ تعجب سے بولی۔

"تم خاموش رہ سکتی ہو؟ اس طرح مجھ سے کام نہیں ہوتا.. "

وہ زچ ہو کر بولا۔

"دیکھو تو یہ کہہ کون رہا ہے؟"

وہ منہ بنا کر کھڑکی کے پاس آ گئی۔


انیب پیشانی پر بل ڈالے چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔

ایک لحظے بعد اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"دیکھو بندہ کبھی غلط نہیں کہتا... "

وہ تصویر لہراتا ہوا اس کی جانب گھوما۔

"اووہ مطلب تم نے ٹھیک بتایا تھا... شاہد ہی ممانی کا بیٹا ہے... "

وہ تصویر پکڑتی ہوئی مدھم آواز میں بولنے لگی۔


"یس میڈم...بندہ غلط انفارمیشن نہیں دیتا.. "

وہ کالر کھڑی کرتا ہوا تفاخر سے بولا۔

"چلو اب چلتے ہیں.. تمہیں بھوک لگی ہو گی۔"

منال اسے پھر سے الماری میں سر دئیے دیکھتے ہوےُ بولی تاکہ وہ تلاشی بند کر دے۔

"اووہ ہاں مجھے تو بھوک لگی ہے آؤ چلتے ہیں... ویسے مزا آیا تمہارے ساتھ اس مشن میں.. "

وہ اس کی جانب زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اچھالتا ہوا بولا۔

منال جھرجھری لیتی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~~

"میں سوچ رہی ہوں مولانا اعجاز قادری سے رابطہ کروں..ان کے بارے میں بہت سے آرٹیکل پڑھے تھے میں نے... "

وہ پرسوچ انداز میں بولی۔

"سوچنا بھی مت اس گھٹیا انسان کے بارے میں... "

عزہ برہمی سے گویا ہوئی۔


"کیوں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"یار تم نے نیوز نہیں سنی تھی؟ ثناء میر نے اس کے خلاف ریپ کیس فائل کیا ہے.. شکل دیکھو تو مولانا اور حرکتیں دیکھو.. "

تمس اس کے چہرے پر نمایاں تھا۔

"سچ میں کیا ایسا ہے؟"

وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔


"نیوز دیکھا کرو کم از کم تاکہ تمہیں دنیا کی بھی خبر رہے... اور میں تو کہتی ہوں کسی کے پاس بھی مت جاؤ... یہاں سب ایسے ہی ہیں.. "

غصہ ہنوز برقرار تھا۔


"ٹھیک کہہ رہی ہو تم... ویسے بھی میرے لئے یہ بہت مشکل ہے, میں یہ سب نہیں کر سکتی, ایسی دنیا میں کوئی بھروسے لائق نہیں... نہ میں اس سب کے لئے بنی ہوں... مجھے سانگ کی شوٹنگ کے لئے کال آئی ہے ہالی وڈ سے... سوچ رہی ہوں چلی جاؤں.. "

وہ سیگرٹ کا کش لیتی ہوئی بولی۔


"واہ.. یہ تو بہت اچھا چانس ہے۔ تم نے شہری کو بتایا؟"

وہ پرجوش انداز میں بول رہی تھی۔

"ابھی نہیں.. لیکن اسے ساتھ لے کر جاؤں گی.. اکیلے دل نہیں کر رہا.. "

وہ پرسوچ انداز میں بول رہی تھی۔


"جانے سے پہلے ایک گرینڈ پارٹی دوں گی تم اوکے؟ کتنا ٹائم ہو گیا تم کسی پارٹی میں نہیں گئی... "

وہ تاسف سے بولی۔

عدن ہوا میں معلق ہوتے سرمئی دھواں کو دیکھ رہی تھی۔

وہ انتخاب کر چکی تھی۔ ایک بار پھر سے..چاہے غلط ہی سہی لیکن وہ منتخب کر چکی تھی۔


آج وہ پینٹ شرٹ پہنے ہوۓ تھی۔ بال جوڑے کی قید میں تھے۔ چہرہ گزشتہ دنوں کی نسبت قدرے بہتر تھا۔

"زیادہ سوچیں انسان کو پاگل کر دیتی ہیں.. "

اس نے تبصرہ کیا..


"بلکل ٹھیک کہا تم نے.. "

عزہ آہستہ سے بولی۔

"اور تم کب ڈائیورس لے رہی ہو؟"

جتنے آرام سے عدن نے کہا عزہ کا سکون غرق ہو گیا۔

"تم اتنی لائٹلی میرے ڈائیورس کی بات کر رہی ہو؟"

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"جس رشتے میں کچھ ہے نہیں اس کا ختم ہونا زیادہ بہتر ہے.. "

وہ سفاکی سے بولی۔

شاہد کی موت نے اسے حد درجہ سنگدل اور سرد مہر بنا دیا تھا۔

"میں خوش ہوں.. "

وہ آہستہ سے بولی۔


"خود کو تسلی دے رہی ہو یا مجھے؟"

وہ دوسری سیگرٹ اٹھاتی ہوئی بولی۔

"فیضی آنے والا ہو گا میں چلتی ہوں.. "

وہ اس موضوع سے بھاگنا چاہتی تھی۔

"زیادہ دیر تک نہیں بھاگ سکتی تم.. "

عدن کے الفاظ نے اس کے پیروں میں زنجیر ڈال دی۔


وہ پتھرائی نظروں سے عدن کو دیکھنے لگی جس کی توجہ سیگرٹ پر تھی۔

وہ بنا کچھ کہے اس کے کمرے سے نکل گئی۔

"شہری جلدی آنا میں انتظار کر رہی ہوں.. "

عدن نے وائس کلپ بھیج کر فون رکھ دیا۔

~~~~~~~~~

"حسنین آج کل تم زیادہ مصروف نہیں ہو گئے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھیں۔

حسنین کا ہاتھ ہوا میں ساکت رہ گیا۔

پانی گرا کر وہ تولیے سے چہرہ خشک کرنے لگا۔


"امی کام کا بوجھ ہے کیا کروں؟ باس مجھے ہی کہتے ہیں. "

وہ نظریں ملاےُ بغیر بول رہا تھا۔

"باس تنخواہ تو زیادہ نہیں دیتا.. کام زیادہ لینا آتا ہے.. "

وہ خفگی سے کہتیں کمرے میں جھانکنے لگیں۔


"نمرہ.. اٹھ کر نماز پڑھ لے وقت ختم ہو رہا ہے.. "

حسنین فون نکال کر چیک کرنے لگا۔

"جو کام میں کہتی ہوں اس کے لئے وقت مت نکالنا.. "

وہ خفا تھیں۔

"امی کوشش کرتا تو ہوں... آپ بھی اب چھوڑ دیں اتنے سال ہو گئے ہیں۔"

وہ تحمل سے سمجھانے لگا۔


"امی ابھی آنکھ لگی تھی میری.. "

نمرہ آنکھیں مسلتی کمرے سے باہر نکلی۔

"نیند کے لئے نماز چھوڑ دینی ہے کیا؟"

وہ برہمی سے گویا ہوئیں۔


"نہیں چھوڑنی کس نے ہے... تھوڑی دیر صبر کر لیتیں.. "

وہ جمائی روکتی چلنے لگی۔

"تمہارے سمیسٹر کی فیس کب دینی ہے؟"

نظریں اسکرین پر تھیں اور سوال نمرہ سے۔

"ابھی ایک مہینہ ہے... ٹینشن نہ لیں۔"

وہ کہتی ہوئی منہ پر چھینٹے مارنے لگی۔


وہ اثبات میں سر ہلاتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔

اس کے چہرے پر الجھن نمایاں تھی۔ آنکھوں میں فکر ڈیرے جماےُ ہوۓ تھی۔

"ایسے کیسے؟"

وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا سوچنے لگا۔

~~~~~~~~~

"حارب تم جانتے ہو عدن.. "

"ہاں میں اچھے سے جانتا ہوں... اور اس کی پارٹی میں بھی گیا تھا اب پلیز مجھے مزید کچھ نہیں سننا۔"

وہ ملیحہ کی بات کاٹتا بیزاری سے بولا۔


"تم کتنے بدل گئے ہو نہ؟ کیا ہوا ایک منگنی سے منع کر دیا میں نے... لیکن ہمارا رشتہ تو ویسا ہی ہے۔"

وہ بولتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔

حارب نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔

"اووہ تمہارا منگیتر ﷲ کو پیارا ہو گیا تو اب یہاں کا راستہ دکھائی دینے لگا ہے تمہیں؟"

وہ طنزیہ انداز میں بولا۔


"اس میں میرا کیا قصور کہ اس کی ڈیتھ ہو گئی۔ اور میں تو پہلے بھی آئی تھی تمہارے پاس لیکن تم نے مجھے دھتکار دیا۔"

وہ اس کی شرٹ کے بٹن کے ساتھ الجھتی ہوئی ناراضگی سے بولی۔

"تو پھر تمہیں واپس نہیں آنا چائیے تھا... میں صبا کو ڈیٹ کر رہا ہوں... "

حارب نے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے۔


وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"تم جھوٹ بول رہے ہو.. اگر ایسا کچھ ہوتا تو مجھے معلوم ہو جاتا... "

وہ بے یقینی کی کیفیت میں بولی۔

"مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ تمہارے علم میں ہے یا نہیں... "

خاصی بے رخی سے جواب آیا۔


"تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو؟"

وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے جھنجھوڑنے لگی۔

"میری مرضی...اور تم اب اپنی حد میں رہو۔"

وہ اسے خود سے دور کرتا ہوا چلایا۔

وہ نفی میں سر ہلاتی یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔


"تم اتنا بدل جاؤ گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا.. "

اس نے آخری کوشش کی۔

"اب دیکھ لیا نہ جا سکتی ہو یہاں سے... "

وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی شرٹ درست کرتا ہوا بولا۔

ملیحہ کو اسکے الفاظ تیر کی مانند اپنے دل میں چبھتے محسوس ہو رہے تھے۔


وہ خاموشی سے چلی گئی۔

"یہ سب کیا ہو گیا؟ شاہد ملا نہیں اور حارب بھی..."

وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں آ گئی۔

"حارب تو مجھ سے محبت کرتا تھا پھر وہ کیسے کسی اور کے ساتھ؟"

وہ بولتی ہوئی بیڈ کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔


گرم نمکین مادہ اس کے چہرے کو بھگو رہا تھا۔

آج اسے لگ رہا تھا وہ سب ہار چکی ہے...

"نہیں حارب مجھے تنگ کر رہا ہوگا... وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا...کسی شرط پر بھی نہیں.. "

اس نے خود کو تسلی دینا چاہی۔


شاید اس کا دل ابھی بھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

جو صورتحال اس کے سامنے تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھی یا شاید سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔

~~~~~~~~~

"تم نے تو کہا تھا کام ہو گیا ہے؟"

اس نیم تاریک کمرے میں ایک زنانہ آواز گونجی۔

"میں کام کر چکا تھا.. وہ چھوڑ چکی تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیسے وہ واپس چلی گئی۔"

وہ جھنجھلا کر بولا۔

"بات یہ نہیں ہوئی تھی۔ کام کی ہوئی تھی۔ اور تم نے کہا تھا تم اپنا کام جانتے ہو... "


وہ جیسے اسے یاد دہانی کرانے لگی۔

"میں شرمندہ ہوں... لیکن یہ کام میں دوبارہ کر دوں گا.. بنا ناکامی کی گنجائش کے... "

کہہ کر وہ رکا نہیں... اور باہر نکل گیا۔

کمرے میں پھر سے خاموش چھا گئی۔

~~~~~~~~

"تھینک یو... "

یہ الفاظ عدن کوئی بیسویں مرتبہ کہہ چکی تھی۔

آج وہ پاکستان لوٹی تھی اپنے سانگ کی کامیاب ریلیز کے بعد...

یہ پارٹی اس نے اپنی کامیابی کی خوشی میں دی تھی۔


"شہری دیکھو لو آج مجھے... "

عدن اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"دیکھ رہا ہوں تم پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی ہو یا میری نظر کا قصور ہے؟"

وہ آنکھیں سکیڑے شرارت سے بولا۔

عدن نے اس کے بازو پر مکہ جھڑ دیا۔


"کاش ثمن ہوتی یہاں... بہت خوش ہوتی,, اس کی خواہش تھی کہ میں ہالی وڈ میں کام کروں... دیکھو آج میں کام تو کر رہی لیکن وہ نہیں ہے... "

اداسی, بے بسی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔


"اس چیز پر کسی کا بھی کنٹرول نہیں... تم زیادہ سوچا مت کرو.. بس اپنا مستقبل بناؤ۔ ایک دن بہت اونچی اڑان بھرو گی تم.. "

وہ ڈانس کرتے لوگوں کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔

وہ ہلکا سا مسکرائی۔

آج بھی دو سیاہ آنکھیں عدن پر مرکوز تھیں اور وہ ہمیشہ کی مانند بے خبر تھی۔


"تم میرے ساتھ تھے تبھی یہ سب ممکن ہوا ورنہ میں تو شاید... "

وہ بولتے بولتے خاموش ہو گئی۔

سامنے قد آور آئینے میں اس کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔

بنا آستین والی میکسی پہنے, چہرے پر میک اپ کیے, بال کرل کر رکھے تھے۔

اس تراش خراش نے اسے مزید حسین بنا دیا تھا۔


اسے اپنا پرانا حلیہ یاد آ گیا۔

"کتنا فرق ہے نہ اس عدن میں اور اس چند روزہ عدن میں. "

وہ خود اپنا موازنہ کرنے لگی۔

"میں عزہ سے مل کر آیا... "

شہری اس کی بات سنے بنا وہاں سے نکل گیا۔

اب اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔


وہ جلد از جلد پارٹی ختم کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔

وہ بار سے اپنے لیے ہارڈ ڈرنک اٹھا کر ٹہلنے لگی۔

عجیب کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی وہ۔

فون کی رنگ ٹون نے اس کی سوچ کا تسلسل توڑا۔

وہ کلچ سے فون نکال کر دیکھنے لگی۔


"پتہ نہیں کس زبان میں سمجھاؤں جو سمجھ آےُ... "

وہ کوفت سے بولی۔

"میں نمبر بلاک کیوں نہیں کر دیتی؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔

فون ابھی تک رنگ کر رہا تھا۔

اس نے فون آف کر کے واپس کلچ میں ڈال لیا۔

وہ باہر کی جانب قدم اٹھانے لگی۔


اسے اس شور سے دور جانا تھا۔ سکون کی تلاش میں۔

وہ پیدل چلتی جا رہی تھی۔

راستہ اور سمت کا تعین اس نے نہیں کیا۔

اسے اس اضطراب سے چھٹکارہ چائیے تھا جو مسلسل اسے اپنے گھیرے میں لئے ہوۓ تھا۔

اندھیرے میں وہ بے خوف چلتی جا رہی تھی۔


حالات نے اسے پہلے سے زیادہ مضبوط اور بہادر بنا دیا تھا۔ وہ برف کی مانند سخت بنتی جا رہی تھی اس کا دل بھی ایسے ہی جم چکا تھا۔ احساسات سے عاری..

اپنے عقب میں اسے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی جو آہستہ آہستہ قریب محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کتنی دور آ چکی تھی اسے اندازہ نہیں تھا۔

لب دم بخود مسکرانے لگی۔ آنکھوں کے سامنے حسنین کی شہد رنگ کی آنکھیں گھوم گئیں۔


"یہ تم ہو نہ؟"

وہ رک کر عقب میں دیکھنے لگی۔

اندھیرے کے باعث وہ اس کا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھی۔

اس کے رکتے ہی مقابل بھی رک چکا تھا۔

وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی۔

اس سڑک کے دائیں بائیں گھنے جنگلات تھے۔


رات کی تاریکی نے اس منظر کو مزید دلکش بنا دیا تھا۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے سامنے آ گیا۔

اس کا اندازہ درست تھا۔

"تم ہمیشہ چور دروازوں سے آتے ہو؟"

وہ چہرے پر خفگی سجاےُ بول رہی تھی۔

"تم نے سب چھوڑ دیا تھا پھر کیوں واپس چلی گئی ؟"

وہ سپاٹ انداز میں بول رہا تھا۔


"جانتے ہو میں کس حال میں تھی؟ ہاں تم جانتے ہو... اور جانتے ہوۓ بھی تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے.. بتاؤ تب تمہیں مجھ پر رحم نہیں آیا؟ میں نے تمہیں کہا تھا اب واپس مت آنا پھر کیوں آےُ ہو تم ؟"

آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جا رہی تھی۔

وہ اس کا گریبان پکڑے بول رہی تھی۔


"کیا ملتا ہے تمہیں یہ سب کر کے؟"

وہ دکھی نظر آ رہا تھا۔

"سکون.. خوشی.. میں یہ دنیا نہیں چھوڑ سکتی.. بہت مشکل ہے خود کو بدلنا, عجیب لگتا ہے۔"

اس نے اپنی مشکل اس کے سامنے رکھی۔

"ثمن کی موت سے بھی تمہیں خوف نہیں آتا.. مجھے بتاؤ آج تمہاری موت ہو جاےُ تو اس کے بعد کیا؟"

وہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا بولا۔

گرفت اتنی مضبوط تھی کہ عدن کے چہرے پر تکلیف کے آثار ابھرنے لگے۔

"تم مجھے ہرٹ کر رہے ہو.. "

وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔

"اور جو تم کرتی ہو اس کا کیا؟"

اس کے چہرے پر بلا کی سختی تھی۔ جو اس کے الفاظ سے بھی چھلک رہی تھی۔


"آخر کیوں تم میرے پیچھے پڑے ہو.. میں خوش ہوں اپنی زندگی میں.. مجھے میرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے... کتنے عرصے بعد تم آےُ ہو پتہ ہے تمہیں؟ جب تمہارا دل کرتا ہے آ جاتے ہو اور پھر غائب ہو جاتے ہو... "

وہ شکوہ کر رہی تھی کیوں؟ وہ خود بھی سمجھ نہ سکی۔


"تم اپنی دشمن بنی ہوئی ہو... اور خوش؟ مجھے بتاؤ تم خوش ہو؟"

وہ گرفت مزید مضبوط کرتا ہوا بولا۔

"ہاں میں خوش ہوں.. "

وہ آہستہ سے بولی۔


"خود کو جھوٹی تسلی دے سکتی ہو لیکن مجھے نہیں... تمہاری آنکھیں سب بتا رہی ہیں,, مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی تم.. "

وہ چبا چبا کر بولا۔

"جو مرضی سمجھو تم.. "

وہ رخ پھیر گئی۔


"بہت اچھا لگتا ہے تمہیں یہ سب؟ روز کسی نئے لڑکے کی بانہوں میں جانا بولو؟"

آہستہ آہستہ آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔

"ہاں تو کیا کروں پھر؟ تم مجھے برا کہتے ہو نہ...میں مانتی ہوں کہ ہم جیسے اور تم جیسے لوگوں میں فرق ہے... لیکن تم جانتے ہو کیا فرق ہے؟"

وہ برہمی سے کہتی اس کے قریب آئی۔

آنکھوں میں غیض اور پیشانی پر شکنیں تھیں۔


"کیا؟"

آہستہ سے اس کے لب پھڑپھراےُ۔

"یہی کہ ہم جیسے لوگ سرے عام کرتے ہیں اور تم جیسے لوگ چھپ کر کرتے ہیں... "

وہ سرد مہری سے گویا ہوئی۔

"چھوڑ دیا تھا میں نے یہ سب.. لیکن جب مولانا اعجاز قادری کا کارنامہ سنا تو یقین اٹھ گیا... مجھے کسی پر بھروسہ نہیں.. میں بہت بری لیکن ایسی نہیں ہوں۔جیسی بھی ہوں سب کے سامنے ہوں... منافق نہیں ہوں میں...

اور اپنا راستہ بدلنے کے لیے مجھے کسی کی راہنمائی کی ضرورت تھی... اس لئے اب مجھے بلیم کرنا بند کرو... "

وہ جیسے کمزور پڑ رہی تھی۔


"پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں... "

وہ اسے خود سے دور کرتا ہوا بولا۔

لہجہ شکست خور تھا۔

"مجھے کسی پر بھروسہ نہیں... اور جو میرے دل میں آےُ گا میں کروں گی... "

وہ اکھڑپن سے بولی۔


"ایک فون کال سننے میں کوئی قباحت نہیں.. "

وہ الٹے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ اس سے کافی فاصلے پر جا چکا تھا۔

عدن کی پیشانی پر بل پڑ گئے, آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"تم.. تم جانتے ہو؟ کیسے مجھے بتاؤ؟"


وہ بولتی ہوئی اس کی جانب بڑھی لیکن عین اسی لمحے اس کی سینڈل دغا دے گئی۔

وہ اندھیرے میں اوجھل ہو چکا تھا اور عدن میکسی اوپر اٹھاےُ اپنی سینڈل دیکھ رہی تھی۔

"تم ہر بار مجھے الجھا کر چلے جاتے ہو... "

وہ بےبسی سے سامنے دیکھتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

"کوئی میرا سر پانی میں ڈوبا رہا ہے۔"

شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں اسے دکھائی دینے لگیں۔

"سچ میں کوئی مجھے پانی میں گرا رہا ہے۔"

وہ ہاتھ مارتی ہوئی بڑبڑائی۔

ناک اور آنکھوں میں پانی جانے لگا تھا۔


یہ کیا ہو رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔

جھٹکے سے کسی نے اسے اوپر کھینجا۔

وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔

"تم ٹھیک ہو عزہ؟"

شہری فکرمندی سے کہتا اس کے پاس آیا۔


وہ پھولے سانس سے کبھی شہری کو دیکھتی تو کبھی فیضی کو جو کچھ فاصلے پر نیچے گرا ہوا تھا۔

"یہ سب کیا؟"

وہ متحیر سی بمشکل بول پائی۔

"تم یہاں کیسے آےُ؟"

فیضی اسے عقب میں کالر سے پکڑتا ہوا غرایا۔


عزہ نے گردن گھما کر جگہ کا تعین کرنا چاہا۔

وہ اس وقت کشتی پر تھے۔

"میں کیسے یہاں آئی؟"

وہ دماغ پر زور ڈالتی ہوئی سوچنے لگی۔


"میں کچھ پوچھ رہا ہوں.. "

وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔

"جب تم عزہ کو لے کر گئے میں تبھی سمجھ گیا تھا.. اور اگر آج میں یہاں نہ ہوتا تو عزہ بھی نہ ہوتی... "

وہ جھٹکے سے اپنی کالر آزاد کرواتا ہوا بولا۔


"آخر تم دونوں مان کیوں نہیں لیتے کہ تم دونوں کا افئیر چل رہا ہے؟"

وہ چبا چبا کر بولا۔

"فیضی یہ سارا فتور تمہارے دماغ کا ہے.. جس کے باعث تم عزہ کو بھی اذیت دیتے ہو.. "

وہ کرب سے بولا۔


اس سارے معاملے میں عزہ خاموش تھی۔

ابھی تو وہ صورتحال سمجھنے کی سعی کر رہی تھی۔

"کہنا کیا چاہتے ہو تم؟"

وہ یکدم طیش میں آ گیا۔

فیضی کے ہاتھ شہری کی کالر پر تھے۔


"فیضی دوستی کا لحاظ کر رہا ہوں... اگلی بار زبان سے نہیں ہاتھ سے سمجھاؤں گا... "

وہ شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتا اس کے ہاتھ جھٹکتا ہوا بولا۔

فیضی تلملا کر رہ گیا۔

"تم تو چلو میرے ساتھ.."

وہ عزہ کی بازو پکڑتا ہوا چلایا۔


وہ حیرت سے شہری کو دیکھتی فیضی کو دیکھنے لگی۔

"یہ تمہارے ساتھ نہیں جاےُ گی۔"

شہری عزہ کی بائیں کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

"یہ میری بیوی ہے.. تمہاری نہیں ہاتھ چھوڑو اس کا... "

وہ تلملا اٹھا۔


"تمہارا کوئی بھروسہ نہیں... یہاں تم اسے مارنے کی کوشش کر رہے تھے تو گھر جا کر کیا کرو گے اس کے ساتھ.. "

وہ برہمی سے کہتا عزہ کو دیکھنے لگا۔

جس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔


"شہری اپنی حد میں رہو.. میں پہلے تمہاری دخل اندازی پر خاموش رہا ہوں.. اب مزید میرا دماغ خراب مت کرو.. "

وہ انگلی اٹھاےُ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

"ٹھیک یے پھر اس کا فیصلہ عزہ کرے گی.. بتاؤ تم اس کے ساتھ جانا چاہتی ہو؟"

وہ عزہ کو دیکھتا ہوا بولا۔


وہ دم سادھے فیضی کو دیکھ رہی تھی جو کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے..."

شہری بےچینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

عزہ نے شہری کا ہاتھ اپنی کلائی سے ہٹا دیا۔

وہ ششدر سا اسے دیکھنے لگا۔


"میں فیضی کے ساتھ جاؤں گی.. "

وہ مدھم آواز میں گویا ہوئی۔

"تم پاگل ہو کیا؟ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کیا کر رہا تھا تم نے دیکھا نہیں؟"

شہری کو اس کی عقل پر شبہ ہو رہا تھا۔

فیضی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔


"آئیندہ ہمارے معاملات سے دور رہنا شہری.. "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا چلنے لگا۔

کشتی ساحل کنارے آ چکی تھی۔

وہ عزہ کو لے کر کشتی سے اتر گیا۔

شہری بے یقینی سے انہیں جاتا دیکھ رہا تھا۔


"میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا.. "

وہ بولتا ہوا کشتی سے اتر آیا۔

فون نکال کر نمبر ملاتا چلنے لگا۔

"ہیلو.. ہاں میری بات سنو.. "

وہ سوچتا ہوا بول رہا تھا۔

~~~~~~~~~

وہ جب سے گھر آئی تھی بےچین تھی۔

حسنین ہمیشہ اس کی الجھنیں بڑھا کر چلا جاتا تھا۔

"کیسا رشتہ ہے میرا تم سے؟ تم ساتھ ہوتے ہو تو ایک عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے اور تمہارے جاتے ہی وہی اضطراب میرے پیچھے پڑ جاتا ہے۔"

وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتی ہوئی چلائی۔


"اب اس سے بھی کچھ افاقہ نہیں ہوتا.. "

وہ رو رہی تھی.. اور وجہ جاننے سے قاصر تھی۔

"ایسا کیوں لگتا ہے میرے پاس کچھ بھی نہیں.. میرے ہاتھ آج بھی خالی ہیں... میرا دل آج بھی ادھورا ہے۔ عدن خان آج بھی تنہا ہے۔"

وہ سسکتی ہوئی بولی۔


"کیا میرے مقدر میں یہ تنہائیاں ہی لکھی ہیں؟ کیا مجھے کبھی کوئی خوشی نہیں ملے گی؟ وہ کیسے جان لیتا ہے میں خوش نہیں ہوں؟"

پیشانی پر بل پڑتے جا رہے تھے۔

وہ ہاتھ مسلتی کھڑی ہو گئی۔ سلیپر پہنے اور کمرے سے باہر نکل آئی۔


رات کے اس پہر وہ گھر سے باہر نکل چکی تھی۔

یخ بستہ ہوا نے اس کا استقبال کیا۔

ایک سرد لہر اس کے رگ و پے پر سرایت کر گئی۔

وہ جھرجھری لیتی آگے بڑھ گئی۔

"جب بھی میں تنہا راہوں پر چلتی ہوں تم آ جاتے ہو... اب بھی آ جاؤ گے نہ؟"

وہ جیسے حسنین نے مخاطب تھی۔


کالونی میں خاموشی اور تاریکی کا راج تھا۔

وہ منتظر نگاہوں سے آس پاس دیکھتی چلتی جا رہی تھی۔

"مجھے میرے سوالوں کے جواب چائیے... تمہیں آنا ہوگا.. "

وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔

ایک وہی تھا جو اس کے اندر کا حال بھی سمجھ لیتا تھا۔


بیس منٹ بعد اسے اپنے عقب میں قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔

چہرے پر مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔

"مطلب وہ آ گیا ہے.. "

وہ مدھم آواز میں بولی۔

قدموں کی چاپ بڑھتی جا رہی تھی۔


اس سے قبل کہ وہ اس کی جانب مڑتی کسی نے عقب سے اس کے منہ پر رومال رکھ دیا جس پر کلوروفارم لگایا گیا تھا۔

خوشبو عدن کے نتھنوں سے اندر اترنے لگی۔

اس پر نشہ طاری ہونے لگا تھا۔


آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور بلآخر وہ ہوش سے بیگانہ اس انسان کی بانہوں میں جھول گئی۔

گاڑی آئی اور وہ عدن کو لے کر نکل گئے۔

"جی میڈم؟"

وہ فون کان سے لگاےُ بولا۔


"اغوا کر لینا اسے اور چاہے تو مار دینا.. میرے راستے کا سب سے بڑا کانٹا وہی ہے۔

وہ سانس لینے کو رکی۔

اسی کے باعث مجھے ریجیکٹ کر دیا ہمدم ڈرامے کے لیے۔

وہ خود کلامی کرتی باہر دیکھنے لگی۔


"میڈم ہم نے اغوا کر لیا ہے..اب آگے بتائیں مارنا ہے یا معذور کرنا یے؟"

وہ کرخت لہجے میں بولا۔

"ابھی اسے بےہوش رکھو میں صبح بتاتی ہوں.."

دروازے کے باہر آہٹ سن کر اس نے جلدی سے فون بند کر دیا۔


"گاڑی روک پہلے کچھ کھانے کو لیں... تو اُدھر سائیڈ پر لگا گاڑی کو میں آتا ہوں.. "

ان میں سے ایک تحکم سے بولا۔

دوسرے نے کچھ فاصلے پر گاڑی روک دی اور وہ چلا گیا۔

~~~~~~~~~

"فیضی آج تک تم نے جو بھی کیا میرے ساتھ میں خاموش رہی.. کبھی اف تک نہیں کی.. لیکن آج۔"

وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی۔

"تم اچھے سے جانتی ہو... میں تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا۔"

وہ مدھم آواز میں بولا۔


"اور تم بھی جانتے ہو جس فیلڈ سے میرا تعلق ہے وہاں ایسے ہی ملا جاتا ہے سب سے.. "

وہ جتانے والے انداز میں بولی۔

"لوگ تم سے گلے ملتے ہیں اتنا برداشت کر لیتا ہوں یہ بہت نہیں؟ لیکن شہری کے ساتھ تمہارا افئیر ہے تم مان کیوں نہیں لیتی؟"

وہ اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔


"جہاں وضاحتیں درکار ہوں وہاں دینی بھی نہیں چائیے۔ جب تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تو پھر میرا کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں.. "

وہ ٹوٹے لہجے میں بول رہی تھی۔

"تم... "

وہ دانت پیستا ہوا دوسری جانب دیکھنے لگا۔


"اعتبار کسی بھی رشتے کی بنیاد ہوتی ہے جس رشتے کی بنیاد ہی کمزور ہو وہ کیسے چلے گا مجھے بتاؤ؟ بس.. بہت ہو گیا فیضی مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ... تم خود طلاق دے دو ورنہ میں خلع کے لئے... "

"کیا کیا بکواس کی تم نے؟"

وہ عزہ کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔


"اگر میں ہمیشہ خاموش رہی ہوں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ میں کمزور ہوں... ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اسی باعث ذلیل و خوار ہوتی ہیں کہ وہ کمزور ہیں اپنے لیے آواز نہیں اٹھا سکتیں.. لیکن جس کلاس سے میرا تعلق ہے تم جانتے ہو.. میں ہر گز کمزور نہیں ہوں کہ تمہاری جوتیاں کھاؤں.. "

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔


"تمہیں سزا تمہارے جرم کی دی ہے... بلاوجہ نہیں... یاد ہے میں نے تمہیں کہا تھا اگر شہری کے ساتھ نظر آئی تو جان سے مار دوں گا؟"

وہ چہرے پر سختی سجاےُ اس کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔


"یاد ہے... "

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"تو یہاں شہری تمہارے آنسو کیوں پونچھ رہا ہے؟"

وہ فون کی اسکرین اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔

عزہ کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا جس میں رتی برابر بھی کمی نہ آئی۔


"تو؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"اوہ بہت ہمت آگئی ہے تمہارے اندر... "

وہ چبا چبا کر کہتا اس کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

"وہ میرا دوست ہے.. شادی سے پہلے بھی تھا اچھے سے جانتے ہو تم... جیسا تم سلوک کرتے ہو میری جگہ کوئی اور ہوتی تو لات مار کر جا چکی ہوتی.. "

اس کی زبان سچ کے انگارے اگل رہی تھی۔


"تم اپنی حد پار کر رہی ہو.. "

وہ کہتا ہوا آگے بڑھا۔

"اب سوچنا بھی بہت... "

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

"جا رہی ہوں میں,, کورٹ میں ملتے ہیں.. "

وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھاتی ایک نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گئی۔


وہ ہکا بکا رہ گیا۔

"یہ کیا ہو گیا؟"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ٹہلنے لگا۔

عزہ گاڑی لے کر جا چکی تھی اور اب اسے فکر ستانے لگی تھی۔

"میری ریپوٹیشن خراب ہو جاےُ گی اگر اس نے میڈیا کے سامنے منہ کھول دیا... "

وہ دو انگلیوں سے کنپٹی مسلتا سوچنے لگا۔

~~~~~~~~~

"کیا ہوا انکل آپ نے مجھے ایمرجنسی میں بلایا؟"

شہری اندر آتا ہوا بولا۔

"عدن اپنے کمرے میں نہیں ہے فون بھی کمرے میں پڑا ہے... مجھے فکر ہو رہی ہے اس کی۔ پہلے کبھی بنا بتاےُ نہیں گئی وہ۔"

چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔


"ایسے کہاں چلی گئی وہ؟"

وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بولا۔

"گارڈ بتا رہا تھا رات میں وہ باہر نکلی تھی لیکن واپس نہیں آئی.."

"تو انکل گارڈ سو رہا تھا اسے تبھی بتانا چائیے تھا... اور آپ اسے اکیلے نکلنے کی مت دیا کریں.. "

وہ فکرمندی سے کہتا باہر نکل گیا۔

علی صاحب تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔


"یا ﷲ میری بیٹی کی حفاظت کرنا.. ایک کو تو کھو چکا ہوں اب دوسری کو نہیں.. "

شہری چہرے پر مایوسی سجاےُ واپس آ گیا۔

"ایسے کیسے پتہ چلے گا؟"

وہ بولتا ہوا ٹہلنے لگا۔

"میں کچھ کرتا ہوں آپ فکر مت کریں... "

وہ انہیں تسلی دیتا وہاں سے نکل گیا۔


"پہلے عزہ کی ٹینشن اور اب عدن.. کہاں جاؤں سمجھ نہیں آ رہا... "

وہ پیشانی مسلتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔

~~~~~~~~~

"تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گی نہ؟"

ملیحہ کو دیوار سے لگا کر حارب نے اس کا گلا دبا دیا۔

"تم.. تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟"

وہ اسے دھکیلتی ہوئی کھانسنے لگی۔


"کیا کر دیا یے میں نے بتاؤ؟"

وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھنے لگی۔

"میرے سامنے یہ ڈرامے نہ ہی کرو تو بہتر ہو گا... کہاں ہے عدن بتاؤ؟"

وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا چلایا۔


"تمہیں کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے اس کی؟"

وہ جل کر بولی۔

"ملیحہ اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ میں بتا رہا ہوں کسی دن بہت برا ہو جاےُ گا... "

وہ گھورتا ہوا بولا۔


"تم جب میرے ساتھ نہیں تو پھر تمہیں کیا؟ میں جو مرضی کروں..."

وہ اس کے مقابل آتی ہوئی بولی۔

"مجھے لگتا ہے ایک دن اس حسد میں تم مکمل طور پر پاگل ہو جاؤ گی.. "

وہ تاسف سے بولا۔


"مجھے فرق نہیں پڑتا... "

وہ لاپرواہی سے کہتی کھڑکی کی جانب چل دی۔

"اب بتاؤ کہاں ہے وہ؟ کیا کیا تم نے اس کے ساتھ؟"

وہ نرمی سے اسے اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

"میں نہیں جانتی... "

بے رخی سے کہا گیا۔


"مانو.. مجھے بتا دو کہاں ہے عدن؟"

وہ اس کے منتشر بال درست کرتا ہوا بولا۔

ملیحہ چہرہ اوپر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

آج اس نے اسے مانو بلایا تھا۔

"مجھے نہیں پتہ وہ کہاں ہے... رات ہی کہیں غائب ہو گئی.. کہاں؟ میں نہیں جانتی... بلکہ سچ کہہ رہی ہوں میں..."

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی تھی۔

"یہ کیا لاجک ہوئی؟"

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔

"اسے گاڑی میں لے جا رہے تھے لیکن پھر راستے میں پتہ نہیں وہ کہاں چلی گئی.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

حارب کی پیشانی پر لکریں ابھرنے لگیں۔

" کچھ معلوم ہوا عدن کا؟"

حارب فون کان سے لگاےُ گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"نہیں.. ابھی تک تو نہیں... تم نے کسی سے ذکر تو نہیں کیا؟"

شہری نے خدشہ ظاہر کیا۔

"نہیں میں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔"

وہ سنبھل کر بولا۔


"گڈ.. میں رکھتا ہوں۔ ڈرائیو کر رہا ہوں... "

اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔

"اگر عدن ملیحہ کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس ہے؟"

وہ جھنجھلا کر سٹیرنگ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"تو تم جا رہی ہو؟"

ساحل نظر اٹھا کر نشاء کو دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں..مجھے ڈرامہ شوٹ کرنا ہے.. "

وہ کپڑے بیگ میں رکھتی ہوئی بولی۔

"کچھ دن مزید رک جاتی... "

وہ اداسی بولا۔


"سوری ہنی بٹ مجھے جانا پڑے گا۔"

وہ اس کے دائیں رخسار پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

"پرامس کرو جلدی آ جاؤ گی.. "

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا آرزدگی سے بولا۔

"پرامس..."


وہ اس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا لمس چھوڑتی ہوئی بولی۔

"مجھے چھوڑنے آؤ گے؟"

وہ واپس پیکنگ کرتی ہوئی بولی۔

"آف کورس.. میں چینج کر لوں پھر چلتے ہیں... "

وہ الماری کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~~

"تم پہلے کیوں نہیں آےُ؟"

عدن کا چہرہ سپاٹ تھا۔

"تم اتنی رات کو اکیلی کیوں نکلی؟"

وہ آنکھوں میں خفگی لئے بولا۔


"تم مجھے تنگ کرتے ہو اس بار میں نے تنگ کرنا مناسب سمجھا.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"یہ سب مذاق لگتا ہے تمہیں؟"

وہ یکدم غیض میں آ گیا۔


"ہاں... اب ہر شے مذاق لگتی ہے۔"

وہ بے حسی سے گویا ہوئی۔

حسنین سانس خارج کرتا ٹہلنے لگا۔

"مجھے میرے سوالوں کے جواب چائیے... "

وہ زور دے کر بولی۔


"میں کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا.. سمجھ لو اس بات کو.. "

وہ درشتی سے بولا۔

"تم اتنے عجیب کیوں ہو؟"

وہ کہے بنا رہ نہ سکی۔

"اور تم ایسی کیوں ہو؟ بہت شوق ہے خود کو برباد کرنے کا؟"

وہ برہمی سے بولا۔


"تمہیں کیوں فرق پڑتا ہے؟"

وہ بے ساختہ کہہ گئی۔

"مجبوری ہے... "

وہ کہہ کر رخ موڑ گیا۔

"کیسے مجبوری؟ اور تم اس دن فون کال کا کیوں کہہ رہے تھے؟ کیا جانتے ہو تم؟"

وہ ڈر ڈر کر بول رہی تھی جیسے سچائی سننا نہ چاہتی ہو۔


"بے فکر رہو کچھ نہیں جانتا میں.. اب چلو۔"

وہ مزید بحث سے بچنا چاہتا تھا۔

"سنو.. مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔"

عدن اس کے مقابل آتی ہوئی بولی۔

وہ آبرو اچکا کر اجازت دیتا اسے دیکھنے لگا۔


"تم کہاں رہتے ہو؟ تم مجھے صرف تب ملتے ہو جب تم چاہتے ہو... "

وہ اداسی سے گویا ہوئی۔

"تمہیں ضرورت نہیں اس چیز کی... "

وہ سرد مہری سے کہتا بائیک پر بیٹھ گیا۔


"کیوں؟ میرا جب دل کرے میں تم سے ملنا چاہتی ہو... تم اچھے ہو.. "

وہ اس کی شہد رنگ کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔

حسنین سر جھٹک کر بائیک سٹارٹ کرنے لگا۔

گویا اس کی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔


"بیٹھو.. "

وہ دیکھ سامنے رہا تھا لیکن مخاطب عدن سے تھا۔

"میں نہیں بیٹھو گی پہلے مجھے بتاؤ.. "

وہ بضد ہوئی۔

"میں چلا جاؤں گا پھر بھٹکتی رہنا اس بیاباں میں... "

وہ اثر لئے بنا بولا۔


"ٹھیک ہے پھر اپنے گھر لے چلو.. "

وہ بائیک پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

"اب مجھے پکڑنا مت... "

وہ سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا۔

"تمہیں نہ پکڑوں اور گر جاؤں میں.. "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

حسنین نے کوئی جواب نہیں دیا۔

~~~~~~~~~

"کیسے نہیں پتہ تمہیں؟ کہاں گئی وہ بتاؤ مجھے؟"

ملیحہ ان اغوا کاروں پر چلا رہی تھیں۔

"ہم راستے میں رکے تھے... "

وہ ملیحہ کو دیکھتا گزشتہ رات کی کاروائی بتانے لگا۔

"گاڑی روک پہلے کچھ کھانے کو لیں... تو اُدھر سائیڈ پر لگا گاڑی کو میں آتا ہوں۔"

ان میں سے ایک تحکم سے بولا۔


دوسرے نے کچھ فاصلے پر گاڑی روک دی اور وہ چلا گیا۔

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا آدمی گنگا رہا تھا جب اسے اپنے دائیں جانب سے آواز سنائی دی۔

وہ الرٹ ہوتا گاڑی سے باہر نکل آیا۔

عقب سے کسی نے اس کے سر پر پتھر مارا۔


وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس سرخ و سپید رنگت والے لڑکے کو دیکھنے لگا جس کی آنکھیں شہد رنگ کی تھی۔

چند لمحوں میں وہ بے ہوش ہو کر زمین بوس ہو چکا تھا۔

حسنین نے گاڑی کا دروازہ کھول کر عدن کو باہر نکالا اور بائیک سٹارٹ کر کے نکل گیا۔


"جب میں واپس آیا تو یہ زمین پر پڑا تھا اور لڑکی غائب تھی..."

وہ تفصیل سے آگاہ کرتا ہوا بولا۔

"یہ کون ہے؟ شہد رنگ کی آنکھیں؟"

وہ الجھ گئی۔


"کوئی پیسے نہیں ملنے اب تمہیں... بھاڑ میں جاؤ... "

وہ درشتی سے کہتی باہر نکل گئی۔

"پیسے تو تم سے لیں گے ہم... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


"بھائی وہ تو چلی گئی... "

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"جانے دے.. دیکھ لیں گے اسے بھی.. "

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا طمانیت سے بولا۔

~~~~~~~~~

"عدن تم بتا کیوں نہیں رہی کہاں گئی تھی؟"

علی صاحب کوفت سے بولے۔

وہ جب سے آئی تھی ٹہل رہی تھی۔ نہ ہی کچھ بول رہی تھی۔

"ڈیڈ میں بس سکون کی غرض سے نکلی تھی فون اٹھانا بھول گئی تھی آپ ٹینشن نہ لیں.. "

وہ شہری کو دیکھتے ہوۓ بولی۔


"اور اتنی دیر سے تم کیا سوچ رہی تھی؟"

شہری بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

"کچھ نہیں.. "

وہ آہستہ سے کہتی لاؤنج پار کر گئی۔


"تم عدن کے پاس ہو نہ؟ مجھے کورٹ جانا تھا۔"

علی صاحب ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھتے ہوۓ بولے۔

"جی میں یہیں ہوں... آپ جائیں فکر مت کریں.."

وہ فون پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔

وہ اثبات میں سر ہلاتے چلے گئے۔


"تم میرے بارے میں سب جانتے ہو.. "

عدن خود سے مخاطب تھی۔

"تم میرا بھلا کیوں چاہتے ہو؟ تم ہر وقت میرے ساتھ کیوں رہتے ہو؟"

وہ بےچینی سے ٹہل رہی تھی۔

کچھ سوچ کر وہ بیڈ پر آ بیٹھی۔


آج اس نے سیگرٹ نہیں پی,, اس کے دماغ میں کچھ چل رہا تھا جسے وہ پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی تھی۔

"اگر تم ٹھیک ہو تو عزہ کے پاس چلیں؟"

شہری اندر آتا ہوا بولا۔

"ہاں.. لیکن عزہ ٹھیک ہے؟"

وہ فکرمند ہو گئی۔


"نہیں... تم چلو راستے میں بتاتا ہوں.. "

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔

"شہری بتاؤ تو.. تم مجھے پریشان کر رہے ہو۔"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اس کے ساتھ چلتی جا رہی تھی۔

"سب بتاتا ہوں... "

وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہوا بولا۔


"فیضی اس حد تک جا سکتا ہے.. "

وہ ششدر تھی۔

"شکر ہے عزہ نے اب ایک اچھا فیصلہ لیا۔"

شہری مطمئن سا تھا۔

عزہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔

"تم ٹھیک ہو؟"

عدن فکرمندی سے کہتی اس کے پیچھے لپکی۔


"ہاں شاید... "

وہ تھکے تھکے انداز میں بولی۔

عزہ ٹراؤذر کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوۓ تھی, بالوں کو پونی میں قید کر رکھا تھا.. چہرہ بجھا ہوا تھا۔

وہ دونوں ٹانگیں اوپر کیے صوفے پر بیٹھ گئی۔


"اب تم نے کیا سوچا یے؟"

شہری چہرہ اوپر اٹھاتا ہوا بولا۔

"پتہ نہیں.. فلحال اسے کہہ دیا ہے کہ ڈائیورس دے دے ورنہ خلع کے لئے کورٹ جاؤں گی میں.. "

اداسی اس کے چہرے پر ڈیرے جماےُ ہوۓ تھی۔


"عزہ تم نے بلکل ٹھیک فیصلہ لیا ہے بس اس پر قائم رہنا... تم یہ مار پیٹ یہ سب.. اس کی حقدار نہیں ہو۔ تم پھر سے اپنی فیلڈ میں آ جاؤ... "

وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


"ابھی میں اس سب کے بارے میں نہیں سوچ رہی... یہ سب بعد کی باتیں ہی.. اور کام؟ وہ تو مجھے آسانی سے مل جاےُ گا۔"

وہ کھڑکی کو گھورتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"شاہد تو مر چکا ہے اب تم کیا کرو گی؟"

انیب سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو.. "

مایوسی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔

"ویسے اگر وہ زندہ ہوتا پھر تم کیا کرتی؟"

وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"اگر میری ماما کا قاتل وہ ہے تو میں اسے کبھی نہ چھوڑتی... "

آنکھوں سے چنگھاڑیاں نکل رہی تھیں۔

"بس کر دو.. چیونٹی تم سے ماری نہ جاےُ شاہد کو مارو گئ تم.. "

وہ استہزائیہ ہنسا۔


"تم یہاں اس لئے آےُ ہو؟"

منال گھورتی ہوئی بولی۔

"نہیں بھوک لگی تھی مجھے.. "

وہ معصومیت سے بولا۔

"میں نے فاؤنڈیشن نہیں کھولی جہاں تم منہ اٹھا کر آ جاتے ہو.. "

وہ تپ کر بولی۔


"اچھا تمہارا مطلب منہ اتار کر آیا کروں؟"

وہ لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا ہو گیا۔

"تم سے ایسی ہی فضول گوئی کی امید تھی... "

وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔


"تھینک گاڈ تمہاری امیدوں پر پورا اترا میں.. "

وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔

"چلو اب نکلو یہاں سے... "

منال انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن تم.. "


"اب اپنی ڈرامے بازی شروع مت کرو.. کچھ نہیں بنایا آج.. "

وہ اس کی بات کاٹتی ہوئی بولی۔

"ہاں تو اب بنا لو... جلدی کس کو ہے.. ویسے بھی سوچ رہا ہوں آج انکل سے مل کر جاؤں۔"

وہ صوفے سے پشت لگا کر ٹانگیں میز پر رکھتا ہوا بولا۔


"پاؤں نیچے کرو.. بدتمیز.. "

وہ کلس کر بولی۔

"ویسے پاپا سے تمہارا ریلیشن کیا ہے؟"

وہ سوچتی ہوئی واپس اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔

"دیکھو.. تمہارے پاپا کی خالہ میری نانو ہیں.. تو اس حوالے سے... "

وہ بولتا ہوا سوچنے لگا۔


"میں ان کی فسٹ کزن کا بیٹا ہوں.. "

وہ دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا۔

"بلکل بھی خوشی نہیں ہوئی جان کر... "

وہ جل کر بولی۔

"تم تو پتہ نہیں کیا ہو.. ہٹلر ہونا چائیے تھا تمہارا نام.. "

وہ بدمزہ ہوا۔


"یہیں بیٹھے رہنا خبردار اِدھر اُدھر گھومے تو... میں کچھ لاتی ہوں.. "

وہ تنبیہ کرتی کھڑی ہو گئی۔

"ہاں میں تو جیسے دو سال کا بچہ ہوں نہ,,منہ میں چوسنی لے کر گھومتا ہوں.. آئی بڑی مجھے سمجھانے والی.. "

وہ ہنکار بھر کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔


"فضول باتیں کروا لو بس تم سے... "

وہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔

انیب کے نچلا لب دباےُ مسکرانے لگا۔

~~~~~~~~

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔

"میں نے تم سے کہا تھا مجھے ضروری بات کرنی ہے... "

وہ طمانیت سے بولی۔


"عدن جاؤ یہاں سے... "

حسنین مدھم آواز میں بول رہا تھا۔

"کیوں تمہیں ڈر لگ رہا یے؟ کتنے کیوٹ لگ رہے ہو تم اس طرح خوفزدہ ہو کر.. "

وہ اس کی پریشانی کا مزہ لیتی ہوئی بولی۔

وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا سوچنے لگا۔


"مجھے تم سے شادی کرنی ہے... "

وہ سیدھا مدعے پر آئی۔

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔

"آر یو میڈ؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے بے یقینی سے بولا۔

"نو آئم ایم سئیرئس.."

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔


اس کے چہرے اور آنکھوں میں پریشانی تھی۔

"میری شادی کسی اور سے فکس ہو چکی ہے...مہربانی کر کے تم یہاں سے جاؤ.. "

یہ رات کا پہر تھا اور سب سو رہے تھے لیکن اسے فکر تھی کہیں امی جاگ نہ جائیں۔


"تم شادی کرو گے تو مجھ سے سمجھے.... تمہیں میری بات ماننی پڑے گی تمہاری مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔"

وہ اس کا گریبان پکڑے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔

"تم میرے گھر میں کھڑی ہو کر مجھ پر زبردستی کر رہی ہو؟"

وہ اس کے ہاتھ ہٹاتا ہوا درشتی سے بولا۔


"لوگ مجھ پر مرتے ہیں تمہیں تو خود پر رشک آنا چائیے کہ میں خود تمہیں شادی کے لیے پروپوز کر رہی ہو.. جانتے ہو نہ لوگ میری ایک نظر کے لئے ترستے ہیں؟"

وہ پھر سے اس کا گریبان پکڑے جیسے اسے یاد دہانی کروا رہی تھی۔


"اچھے سے جانتا ہوں..لیکن پھر بھی مجھے کوئی شوق نہیں۔"

اس کے لئے جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔

"شادی تو تم سے ہی کروں گی دیکھتی ہوں کیا کرو گے تم۔ "

وہ جھٹکے سے اسے دور کرتی ہوئی بولی۔


"تمہیں کیا مذاق لگتا ہے یہ سب؟"

وہ احتجاجاً بولا۔

"جو مرضی سمجھو شاید یہ پہلی شادی ہو جس میں دولہے پر زبردستی کی جاےُ۔"

وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔


"تم پاگل ہو کیا؟ میری بات سنو... جیسا تم چاہتی ہو ایسا ممکن نہیں۔ اس لئے بہتر ہو گا اپنے دماغ کا علاج کرواؤ... "

وہ کرختگی سے بولا۔

"فکر مت کرو تمہی سے کرواؤں گی.. "

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

آج نجانے کتنے وقت بعد وہ دل سے مسکرائی تھی۔


حسنین کو تنگ کرنے میں اسے لطف آ رہا تھا۔ اور یہ اس کے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔

"باےُ.. کل ہمارا نکاح ہے رات میں ملتے ہیں.. اوہ سوری میں تمہیں انوائیٹ کرنا بھول گئی۔"

وہ جاتی جاتی واپس مڑ گئی۔

حسنین کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔


"تمہارا دماغی توازن خراب ہو چکا ہے.. اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا... "

وہ جھنجھلا کر بولا۔

"اس سے زیادہ تم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے.. اچھا صبح میں میری شوٹنگ ہے تو تم رات میں ہی آنا۔"

وہ پلکوں کو جنبش دیتی ہوئی بولی۔


وہ تلملا اٹھا۔

"چلو میرے ساتھ..."

وہ اس کی بازو پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔

"آرام سے.. اتنی جلدی ہے تمہیں نکاح کی؟"

وہ لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔


"اپنی بکواس بند کرو... اور یہ ڈرامہ بھی آئی سمجھ.. "

وہ اسے گاڑی کے ساتھ لگاتا ہوا دھاڑا۔

"تم خوش نہیں ہو؟"

وہ متحیر سی بولی۔

حسنین اردگرد دیکھتا خود کو نارمل رکھنے کی سعی کرنے لگا۔


"مجھے بہت نیند آ رہی ہے صبح ملتے ہیں.. "

وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتی ہوئی فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھ گئی۔

حسنین ابھی تک ششدر تھی... عدن سے اسے ایسی توقع ہرگز نہیں تھی۔

وہ جا چکی تھی۔ اور اسے الجھا گئی تھی۔


"مجھے بہت خوشی ہے آج میں تمہیں الجھا کر گئی ہوں.. "

وہ سڑک پر نگاہیں مرکوز کرتی ہوئی مسکرانے لگی۔

~~~~~~~~~

"تم شادی کر رہی ہو؟"

شہری منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔

"ہاں اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے... "

وہ نارمل انداز میں بولی۔


"کس سے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"ہے کوئی... تم نہیں جانتے۔ میڈی لپ اسٹک ٹھیک کرو۔"

وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوئی بولی۔

"تم بولنا بند کرو تو ٹھیک کروں گا نہ.. "


میڈی اس کا چہرہ اپنی جانب کرتا خفگی سے بولا۔

عدن مسکرانے لگی۔

"تم سچ میں خوش ہو؟"

شہری خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا۔

"تو تمہیں مذاق لگ رہا ہے؟"

وہ گھورتی ہوئی بولی۔


"عدن؟"

میڈی خفگی سے بولا۔

وہ آنکھوں سے شہری کو خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگی۔

شہری مسکراتا ہوا باہر دیکھنے لگا۔

"مطلب رات تمہارا نکاح ہے اور تم اس ٹائم سیٹ پر ہو؟"

میڈی کے فارغ ہوتے ہی وہ پھر سے بولنے لگا۔


"کام بھی ضروری ہے جناب.. اور ہاں میں سچ میں خوش ہوں... وجہ جاننے سے میں خود بھی قاصر ہوں... "

مسکراہٹ اس کے چہرے سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

"تمہیں اس سے محبت ہے؟"

وہ تفتیشی انداز میں بولا۔


"اممم معلوم نہیں.. "

وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔

"اچھا اب ویٹ کرو میں آئی.. "

وہ اشارہ کرتی چل دی۔


حسنین سینے پر بازو باندھے کھڑا تھا۔ نگاہیں عدن پر تھیں۔ جو کسی ایکٹر کے گلے میں بازو ڈالے کھڑی تھی۔

اب وہ اگلا پوز دے رہی تھی۔

وہ ایکٹر اپنی پیشانی عدن کی پیشانی کے ساتھ ٹکاےُ کھڑا تھا۔

ہاتھ عدن کی کمر پر تھے۔

اسے تکلیف ہو رہی تھی۔


وہ پھر سے وہی سب کر رہی تھی جس سے وہ اسے دور رکھنا چاہتا تھا۔

شوٹ ختم ہوتے ہی عدن شہری کی جانب بڑھ گئی۔

"کون ہے وہ خوشنصیب مجھے بھی بتا دو؟"

شہری کے لہجے میں تجسس تھا۔

"مل لینا جب ٹائم آےُ گا.. "

وہ کافی کا سپ لیتی ہوئی بولی۔ اسی اثنا میں اس کی نظر دور کھڑے حسنین پر پڑی۔


اس کی شہد رنگ کی آنکھیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔

عدن کے لب دم بخود مسکرانے لگے۔

"ابھی ملوا دیتی ہوں تمہیں.. "

وہ آنکھوں پر گاگلز لگاتی اپنی سیٹ سے کھڑی ہو گئی۔

"کیا مطلب وہ یہیں ہے؟"

وہ دائیں بائیں نگاہ دوڑاتا ہوا بولا۔


"یس.. "

وہ کہتی ہوئی حسنین کی جانب قدم بڑھانے لگی۔

"ایک شرط پر میں تم سے نکاح کروں گا.. "

وہ سرد نگاہیں اس پر گاڑھتا ہوا بولا۔

"تمہاری ہر شرط منظور ہے.. "

وہ سر کو خم دے کر بولی۔

"پہلے سن تو لو.. "

اسے اس کی جلدبازی پسند نہ آئی۔

"اچھا سناؤ؟"

وہ اس کے شانے پر بازو رکھتی اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔

حسنین نے دو قدم دور ہو کر فاصلہ بڑھایا تو عدن کی بازو نیچے لڑھک گئی۔


"تمہیں انڈسٹری چھوڑنی ہو گی.. یہ سب نہیں کرو گی تم۔ "

وہ تصویریں ہوا میں اچھالتا ہوا بولا۔

وہ پیشانی پر بل ڈالے زمین سے ایک تصویر اٹھانے لگی۔

یہ اس کے سانگ سے تھی جو وہ ہالی وڈ میں بنا کر آئی تھی... لباس نہایت بےباق تھا کہ وہ کسی اینگل سے مسلمان معلوم نہیں ہو رہی تھی۔


"یہ شرط ہے تمہاری؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"بلکل... چھوڑ سکتی ہو ہمیشہ کے لیے؟"

وہ آزما رہا تھا۔

"ٹھیک ہے چھوڑ دیا.. اب بولو؟"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی اس کے قریب آئی۔


"تیار رہنا آؤں گا میں رات میں... ہمارے نکاح پر.. "

وہ طنز کر رہا تھا۔

"رکو.. تمہیں شہری سے ملوانا ہے.. "

وہ اس کی بازو پکڑتی ہوئی بولی۔

حسنین نے اس کا بازو ہٹاتے ہوۓ شہری کو دیکھا جو ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔


" کام ہے ابھی نہیں.. "

نہایت بےرخی سے جواب آیا۔

"تم اتنے بد لحاظ کیسے ہو سکتے ہو؟"

وہ احتجاجاً بولی۔

وہ گردن گھما کر عدن کو دیکھنے لگا جس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔

اس کے قدم وہیں تھم گئے۔


"صرف دو منٹ.. "

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔

وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔

"اوہ تو یہ ہیں؟"

شہری اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔

جینز کی پینٹ پر شرٹ پہنے بازو کہنیوں تک فولڈ کر رکھے تھے۔ دائیں کلائی پر گھڑی بندھی تھی۔


"یس.. "

وہ مسکرا کر بولی۔

"میں چلتا ہوں اب.. "

رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد حسنین عدن کو دیکھتا ہوا بولا۔

"ٹھیک یے جاؤ.. "

وہ خفا خفا سی بولی۔


"کون ہے یہ؟ پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ کیا کرتا ہے؟"

وہ پے در پے سوال کرنے لگا۔

"یہ سوال جواب بعد میں... ابھی میرے ساتھ چلو ساری تیاری کرنی ہے مجھے.. "

وہ اس کی بازو پکڑے چلنے لگی۔

"مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی تمہیں اتنی جلدی کیا تھی؟"


شہری اس کے ساتھ قدم ملاتا ہوا بولا۔

"تم خاموشی سے میرے ساتھ چلو بس.. "

وہ منہ بناتی ہوئی گاڑی کی جانب بڑھنے لگی۔

~~~~~~~~~

"تم جاؤ گے عدن کے نکاح کی تقریب میں؟"

ملیحہ بغور اس کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہاں بلکل... تم شکر مناؤ کہ عدن کو معلوم نہیں ہوا ورنہ تم اتنے سکون سے بیٹھی نہ ہوتی.. "

وہ اسے باور کرانے لگا۔


"کیا کر لیتی وہ؟ اور دفعہ کرو اسے.. میں سوچ رہی ہوں ہم بھی منگنی کر لیں؟"

وہ چور نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"مجھے کوئی شوق نہیں منگنی کا... ویسے بھی میں کچھ دن تک دوبئی جا رہا ہوں۔"

وہ سرد مہری سے بولا۔

ملیحہ مایوسی سے اسے دیکھنے لگی۔


"اس دن صرف اس لئے تمہارے قریب آیا کیونکہ مجھے جاننا تھا.. اس کو کوئی اور رنگ مت دو.. "

وہ جیسے اسے اس کی اوقات یاد دلا رہا تھا۔

"اچھا ٹھیک یے... میں بھی شاید بزی ہو جاؤں اب... "

وہ پرسوچ انداز میں بولی۔

حارب کی جانب سے مکمل خاموشی تھی جس کا مطلب تھا وہ اب جاےُ۔


"حارب تم کیوں اب ملیحہ سے ملتے ہو جب اس نے شاہد کے لئے تمہیں ٹھکرا دیا تھا بتاؤ؟"

ملیحہ دروازے میں ہی رک گئی۔

"آنٹی آپ فکر مت کریں..میں مر کر بھی اس سے شادی نہیں کروں گا.. "

وہ ان کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔


"لیکن پھر بھی مجھے نہیں پسند یہ لڑکی.. منع کر دو اسے یہ یہاں نہ آیا کرے.. "

وہ منہ بناتی ہوئیں بولیں۔

"اوکے آپ ٹینشن نہ لیں.. یہ بتائیں آپ نے لنچ پر جانا تھا اور ابھی تک یہیں ہیں؟"

اس نے ان کا دھیان ہٹانا چاہا۔


"ہاں وہ تمہارے انکل کی کال آ گئی تھی تو بس لیٹ ہو گئی۔ اچھا ہوا تم نے یاد کروا دیا میں چلتی ہوں.. "

وہ حارب کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔

ملیحہ تیزی سے باہر نکل گئی۔


آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہو رہا تھا۔

"کیا اتنی بری ہوں میں؟"

وہ کہتی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔

~~~~~~~~~

""بھائی رات میں عدن خان آئی تھی نہ؟"

نمرہ رازداری سے بولا۔

حسنین نے قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھا۔

"سوری بھائی میری آنکھ کھل گئی تھی شور سے.. لیکن دیکھیں میں باہر نہیں آئی بس کھڑکی سے تھوڑا سا دیکھ لیا تھا... "

وہ معصومیت سے گویا ہوئی۔


"اچھا سنو.. امی سے کوئی بات مت کرنا.. میں خود ان سے بات کروں گا.. "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"جی بھائی.. آپ سمجھیں میرے منہ پر تالا لگا ہے کچھ نہیں بولتی میں... ویسے یہ بتائیں میں بھی چلوں گی؟"

اس کے لہجے میں اشتیاق تھا۔


"نمرہ... "

وہ خفگی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"اچھا... نہ جا رہی ہوں.. کچھ نہیں سنا تھا میں نے... "

وہ جھنپ کر کہتی باہر نکل گئی۔

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچنے لگا۔


"کبھی کبھی بھائی اتنے غصے والے بن جاتے.. "

وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں آ گئی۔

"امی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے.. "

حسنین ہچکچاتا ہوا بولا۔

"ہاں بولو.. "

وہ روٹی توے پر ڈالتی ہوئیں بولیں۔


"آپ باہر آ جائیں... نمرہ روٹی تم بناؤ.. "

وہ تحکم سے کہتا باہر نکل گیا۔

"یہ لو تم بناؤ میں دیکھوں اسے... "

وہ فکرمندی سے کہتیں باہر نکل گئی۔

نمرہ منہ بسورتی روٹی بنانے لگی۔


"کیا ہوا سب خیریت ہے؟ آفس میں سب ٹھیک ہے؟"

وہ متفکر سی بولیں۔

"جی امی سب خیریت ہے.. وہ مجھے آپ کو بتانا تھا,,"

وہ مناسب الفاظ کا چناؤ کر رہا تھا۔

"کیا ہوا بولو نہ؟ میرا دل گھبرا رہا یے.. "

وہ اس کی بازو ہلاتی ہوئیں بولیں۔


"وہ امی آج میرا نکاح ہے عدن خان کے ساتھ.. "

وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگیں۔

حسنین نے گویا دھماکہ کیا تھا۔

نمرہ دروازے میں کان لگاےُ ان کی باتیں سن رہی تھی۔


"تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟"

وہ حیران پریشان سی بولیں۔

"امی سوچیں.. وہ اتنی کامیاب ہے اس نے خود مجھے کہا ہے... انکار کرنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔"

اس نے دوسرا طریقہ آزمایا۔


"حسنین یہ پرورش کی ہے میں نے تمہاری... ہاں اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرے گا تو... اس کا لباس دیکھا ہے تم نے؟ ہم اپنا دوپٹہ سر سے نہیں اتارتے اور اسے دیکھ کر تو شرم آتی ہے... ایسی لڑکی کو تم لاؤ گے؟"

وہ پھٹ پڑیں۔


"امی دیکھیں.. رات میں نکاح ہے.. میں آپ کو بتا رہا ہوں۔"

وہ مشکل میں تھا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگیں۔

"یاد رکھنا اگر تم نے اس لڑکی سے نکاح کیا تو اس گھر کے دروازے بند ہو جائیں گے تمہارے لئے... میں زمانے میں کیا منہ دکھاؤں گئ کہ پیسوں کی خاطر ایسی لڑکی کو اپنی بہو بنا لیا... "

وہ سمجھانے لگیں۔


"میں اپنا فیصلہ بتا چکا ہوں.. اگر آپ آنا چائیں تو مجھے بتا دیجئے گا ورنہ میں اکیلا چلا جاؤں گا.. "

وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

وہ نم آنکھوں سے اپنی نافرمان اولاد کو دیکھنے لگیں۔

"اس دن کے لئے تمہیں پالا تھا حسنین.. "

وہ ٹوٹے لہجے میں بولیں۔


حسنین بنا کچھ کہے دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

"امی جب آپ کو معلوم ہو گا میں نے ایسا کیوں کیا.. تب آپ کی ناراضگی دور ہو جاےُ گی.. "

وہ خود کلامی کرتا دہلیز پار کر گیا۔

وہ اشک بہاتی دروازے کو دیکھنے لگیں۔


"امی بھائی چلے گئے؟ وہ اب واپس نہیں آئیں گے؟"

نمرہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی۔

"نام مت لے اس کا... جاتا ہے تو جاےُ.. اس لڑکی کے ساتھ قطعاً میں اسے قبول نہیں کروں گی... "

وہ برہمی سے کہتی کمرے میں چلی گئیں۔

نمرہ ہکا بکا رہ گئی۔


"یہ کیا ہو گیا؟ میں کیا سوچ رہی تھی اور کیا ہو گیا؟"

وہ اشک بہاتی ہوئی باہر کا دروازہ بند کرنے لگی۔

خواب ٹوٹ چکے تھے اور اب سزا آنکھوں کو ملنے والی تھی۔


حسنین نے فون نکالا اور نمبر ملانے لگا۔

پہلی رنگ پر فون اٹھا لیا گیا۔

"کام ہو گیا ہے..... اب عدن کبھی شوبز میں نظر نہیں آےُ گی۔ "

وہ سپاٹ چہرہ لئے بول رہا تھا۔


مقابل اسے کچھ کہہ رہی تھی لیکن اس نے بنا سنے فون بند کر دیا۔

وہ تھکے تھکے انداز میں چل رہا تھا۔

"مجھے یقین ہے ایک دن سب ٹھیک ہو جاےُ گا.. "

وہ خود کو تسلی دیتا چلنے لگا۔

~~~~~~~~~

عدن سکن کلر کا لباس زیب تن کئے ہوۓ تھی جس پر ریڈ کلر کی کڑھائی کی گئی تھی۔

بیوٹیشن کا ہنر اس کے دلنشیں چہرے پر واضح دکھائی دے رہا تھا۔سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹ اس کی دودھیا رنگت کو چار چاند لگا رہے تھے...

ماتھے پر بندیا, کانوں میں جھمکے, ہاتھوں پر مہندی لگائے ,وہ قیامت لگ رہی تھی۔


چہرے پر ایک نا ختم ہونے والی مسکراہٹ تھی۔

حسنین مہرون کلر کی شیروانی پہنے ہوۓ تھا۔ صاف رنگت پر بھوری بڑھی ہوئی شیو دلکش لگ رہی تھی, اس پر اس کی شہد رنگ کی سحر انگیز آنکھیں اس کی شخصیت سے متاثر ہونے پر مجبور کر رہی تھیں۔


وہ دونوں ایک پرفیکٹ کپل کی عکاسی کر رہے تھے۔

"بہت مبارک ہو تمہیں عدن!! "

ملیحہ اس سے ملتی ہوئی بولی۔

"شکریہ.. "

عدن ہلکا سا مسکرائی۔


حسنین کو لے کر سب کے دماغ میں ہزاروں سوالات تھے۔ کہ وہ کون ہے کہاں سے تعلق رکھتا ہے.. یوں ان کا اچانک نکاح بہت سے سوالات کو جنم دے گیا تھا۔

"تم کم از کم مسکرا تو سکتے ہو.. "

عدن اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی جو چہرے پر سنجیدگی طاری کئے ہوۓ تھا۔


"تمہارے لئے شاید یہ خوشی ہو لیکن میرے لئے نہیں.. "

وہ سفاکی سے بولا۔

"تم ہمیشہ سے اتنے سرد مہر ہو یا میرے ساتھ بنتے ہو؟"

وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

"یہ سب کب ختم ہو گا؟"

وہ آنکھوں سے سامنے اشارہ کرتا ہوا بولا۔


"ابھی چند گھنٹوں تک.. تمہیں خوش ہونا چائیے میرا شوہر ہونے کا عہدہ ملا ہے تمہیں.. "

وہ جتانے والے انداز میں بولی۔

"ہوں... "

وہ سر جھٹک کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔

وہ مسکراتی ہوئی سامنے دیکھنے لگی۔


رپورٹرز, کیمرہ مین ان کی تصویریں بنانے میں مصروف تھے۔

عدن کو اس کی بے رخی بھی بھاتی تھی جانے کون سا سحر تھا اس کی شخصیت میں جس میں وہ گرفتار ہو رہی تھی۔

"کہاں جا رہے ہو؟"

عدن اس کی بازو پکڑتی ہوئی بولی۔


"گھر اور کہاں؟"

وہ آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔

"تم میرے ساتھ چلو گے.. اور کوئی بحث نہیں ہو گی.. دیکھو سب ہیں یہاں۔"

وہ لوگوں کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

حسنین کو اس پر ترس آ گیا سو خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔


"جانتے ہو ڈیڈ ناراض ہیں... "

وہ بولتی ہوئی اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگا۔

"زندگی کبھی مجھے خوشی نہیں دے گی اتنا یقین ہو چلا ہے... "

وہ مایوسی کا شکار تھی۔


"تم اتنی مایوسی والی باتیں کب سے کرنے لگی؟"

اسے جیسے اچھا نہیں لگا۔

"جب سے زندگی بےحس ثابت ہوئی ہے... ایسا لگتا ہے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ انسان زندہ رہنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟"

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


"تم ایسا کیوں سوچتی ہو؟"

وہ بےچینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

"اور کیسا سوچوں؟ زندگی نے کوئی وجہ دی ہے خوش ہونے کے لیے... تم سے نکاح کیا تو ڈیڈ ناراض ہو گئے.. مطلب میں کسی حال میں بھی خوش نہیں رہ سکتی۔ شاید خوشیوں کی مجھ سے بنتی نہیں.. "

وہ اشک بہاتی مسکرانے لگی۔


یہ درد بھری مسکراہٹ حسنین کو بلکل نہیں بھائی۔

وہ اسے دلاسہ دینا چاہتا تھا لیکن نجانے کیوں آج اس کے الفاظ دم توڑ گئے تھے۔

"کیا یہ سب ختم نہیں ہو سکتا؟"

وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

وہ ابھی تک عروسی لباس میں تھی۔


متواتر آنسو اسکے رخسار کو تر کئے ہوۓ تھے۔

"فضول مت سوچا کرو تم.. اور سنو!!"

وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔

"کیا میں سموکنگ کر لوں؟"

وہ اس کی جانب گھومی اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


وہ بےبسی سے اسے دیکھنے لگا۔

"مجھے کچھ ہو رہا یے... جب تک پی نہیں لیتی سکون نہیں ملے گا.. "

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔

وہ بیڈ سے اٹھ کر اس کی جانب چلنے لگا۔


"تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ سب چھوڑ دو گی؟"

وہ اسے شانوں سے تھام کر بولا۔

"بہت مشکل ہے... یہ سب تو تبھی چھوٹے گا جب میں یہ دنیا چھوڑ دوں گی۔"

وہ سر جھکاےُ مجرموں کی مانند بول رہی تھی۔

آنسو فرش پر گر کر بے مول ہو رہے تھے۔


"تم اس طرح کی باتیں کرنا بند کرو گی؟"

وہ برہمی سے بولا۔

وہ سوں سوں کرتی اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ سب چھوڑ دو گی.. "

وہ پھر سے اپنے الفاظ دہرانے لگا۔


"ٹھیک ہے میں سب چھوڑ دوں گی... لیکن تم بھی مجھ سے وعدہ کرو مجھے کبھی نہیں چھوڑو گے؟"

وہ ہاتھ پھیلاےُ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

وہ کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔


"بولو.. "

آہستہ سے اس کے لب حرکت کیے۔

"ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں... "

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔

اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسی تپتی دھوپ میں سایہ دار درخت مل گیا ہو... اسے سائبان مل چکا تھا۔


"ہمیشہ مطلب ہمیشہ... میں اکیلی نہیں ہوں گی نہ؟ مجھے تنہائیاں بلکل نہیں پسند.. "

وہ بچوں کی مانند بول رہی تھی۔

"ہاں ہمیشہ.. اب تم چینج کر لو.. بہت دیر ہو گئی ہے... "

اس سے زیادہ اس کے سامنے کھڑے رہنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔


"تم بہت اچھے ہو.. "

اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔

حسنین اپنے ہاتھ اس کے شانے سے ہٹا چکا تھا۔

"ایک ہگ کر سکتی ہوں تمہیں؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

وہ لمحہ بہ لمحہ اسے کمزور کر رہی تھی۔


"کیوں؟"

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔

"ایسے ہی.. "

وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔

آنسو خشک ہو رہے تھے... دل کو کچھ ڈھارس ملی تھی۔


وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال رہا تھا جب عدن اس کے سینے سے لگ گئی۔

"تھینک یو.. "

کہتے ہی وہ اس سے الگ ہو گئی۔

وہ اِدھر اُدھر دیکھتا پیچھے ہٹ گیا۔

حسنین کی ہچکچاہٹ عدن کو لطف دے رہی تھی۔


"اووہ تو اسے شرم آ رہی تھی.. انٹرسٹنگ۔"

وہ الماری سے اپنے کپڑے نکالتی ہوئی بڑبڑائی۔

حسنین اس کی یہ سرگوشی سن نہیں سکا۔

وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتی واش روم میں چلی گئی۔

~~~~~~~~

"میں نے سنا ہے عدن انڈسٹری پھر سے چھوڑ رہی ہے؟"

ملیحہ گلاس کے کنارے پر انگلی پھیرتی ہوئی بولی۔

شہری نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔

"تمہیں کس نے بتایا؟"

وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔


"ڈائریکٹر آسم بات کر رہے تھے... تو مجھے بھی بتا دیا۔"

وہ آگے کو ہوتی ہوئی بولی۔

"ہاں.. پاگل ہو گئی ہے... اب تو اس کا فیوچر سٹارٹ ہوا تھا اور اب یہ سب... "

وہ نا خوش تھا۔

ملیحہ کا دل باغ باغ ہو گیا۔

اسے تصدیق ہی کرنا تھی اور شہری نے کر دی تھی۔


"ویل یہ تو اس پر منحصر کرتا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں... "

بظاہر وہ لاپرواہی سے بولی۔

"کیا کہہ سکتے ہیں.. "

وہ بے بس دکھائی دے رہا تھا۔


"اچھا تم بتاؤ کب لاؤنچ کر رہے ہو اپنا سانگ؟"

اس نے موضوع تبدیل کیا۔

"ہاں جلد ہی... بس آج کل کچھ مصروفیت چل رہی۔"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"تم مجھ سے کترا رہی ہو؟"

شہری تفتیشی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

عزہ دروازہ کھول کر اندر کی جانب چل دی تھی۔

"نہیں میں ایسا کیوں کروں گی؟"

وہ لاپرواہی سے بولی۔


"جھوٹ مت بولو.. "

وہ عقب سے اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

"شہری میں کیوں جھوٹ بولوں گی؟"

اس کا لہجہ شکست خور تھا۔

"میں نے نوٹ کیا عدن کے نکاح میں بھی تم مجھے اگنور کر رہی تھی۔"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"ایسی کوئی بات نہیں... "

اس نے شہری کا ہاتھ ہٹاتے ہوےُ ٹالنا چاہا۔

"پھر کیسی بات ہے؟ بتاؤ مجھے.. "

وہ بضد ہوا۔

"شہری تم پاگل تو نہیں ہو گئے؟"

وہ خفگی سے دیکھنے لگی۔


"ہاں کہہ لو پاگل.. تم میری کال کیوں نہیں لے رہی؟"

وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔

"میرا دل نہیں کر رہا فلحال کسی سے بھی بات کرنے کو.. "

وہ بے رخی سے کہتی اندر چلی گئی۔

"میں کسی ہو گیا ہوں؟"

تاسف سے کہا گیا۔


"شہری پلیز.. "

وہ جیسی تھکی ہوئی تھی۔

"فیضی سے بات ہوئی تمہاری؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"ہاں فون آیا تھا اس کا... "

وہ رخ موڑ کر بیٹھی تھی۔


"پھر کیا کہا اس نے؟"

لہجے سے بےقراری نمایاں تھی۔

"کہہ رہا تھا کچھ دن تک طلاق کے پیپرز بھیجوا دوں گا... "

وہ جیسے خوش نہیں تھی۔

"تمہیں تو خوش ہونا چائیے.. پھر ایسی شکل کیوں بنائی ہے؟"

وہ سمجھ نہ پایا۔


"یہ سب مذاق نہیں ہے.. نہ ہی میں خوش ہوں اس فیصلے سے... "

وہ درد بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ایک دن تمہیں اپنے فیصلے پر خوشی ہو گی.. بروقت تم نے صحیح فیصلہ لیا ہے.. "

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔


وہ کچھ نہ بول پائی۔

شاید بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں...

وہ نظروں کا زاویہ بدل چکی تھی۔

شہری سرد آہ بھرتا خاموش ہو گیا۔

"ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں.. "


وہ مایوسی سے بولا۔

اس کی جانب سے ابھی بھی خاموشی تھی جیسے اجازت دی جا رہی ہو۔

ایک نظر اس پر ڈالتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔

~~~~~~~~~

عدن ایک نظر صوفے پر سوتے حسنین پر ڈالتی کمرے سے باہر نکل آئی۔

"ڈیڈ کیا آپ ناراض ہی رہیں گے؟"

وہ ان کی بازو پکڑتی ہوئی بولی۔

علی صاحب کچہری کے لئے نکل رہے تھے۔


"مجھے دیر ہو رہی ہے.. بعد میں بات کریں گے.. "

وہ کھردرے پن سے بولے۔

"ڈیڈ کیا آپ میری خوشی میں خوش نہیں؟"

بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔


"اگر تمہیں شادی ہی کرنی تھی تو مجھ سے ڈسکس تو کرتی... اچھے سے اچھا انسان مل جاتا.. یہ پتہ نہیں کس سڑک چھاپ کو اٹھا لائی ہو.. "

ان کی زبان زہر اگل رہی تھی۔

"ٹھیک ہے مجھے بھی ایسے لوگ بلکل نہیں پسند لیکن وہ سڑک چھاپ نہیں ہے ڈیڈ.. "

وہ زور دے کر بولی۔


"نجانے کیا سوچ کر تم نے اس سے نکاح کیا ہے.. "

وہ تلملا اٹھے۔

"آپ میری خوشی کے لئے یہ ناراضگی ختم کر دیں.. "

وہ التجائیہ انداز میں بولی۔

"کیا منہ دکھاؤں گا میں سب کو؟ ایڈووکیٹ علی خان نے کسی راہ چلتے کو اپنی بیٹی دے دی.. ہوں.. "

وہ ہنکار بھرتے چلنے لگے۔


"ڈیڈ.. ایسا مت بولیں.. "

وہ ان کی پشت کو دیکھتی ہوئی چلائی۔

اسے تکلیف ہو رہی تھی۔

آنسو پھر سے اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

ایک نا ختم ہونے والی اذیت میں وہ گرفتار ہو چکی تھی۔


حسنین آخری سیڑھی پر کھڑا سب سن رہا تھا۔

عدن کی حالت قابل رحم تھی۔ اور اسے اس پر رحم بھی آ رہا تھا لیکن اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

"ڈیڈ اب کیوں...کیا مجھے کبھی سکون نہیں ملے گا؟"

وہ سسکتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی۔


چند پل بیتنے کے بعد ہلکی ہلکی موسیقی سنائی دینے لگی۔

عدن تعجب سے سر اٹھا کر کھڑکی سے پار دیکھنے لگی۔


"جاگے جاگے رہتے تھے

کھوےُ کھوےُ رہتے تھے

کرتے تھے پیار کی باتیں

کبھی تنہائی میں کبھی پروائی میں

ہوتی تھی روز ملاقاتیں

تیری ان بانہوں میں تیری ان پناہوں میں

میں نے ہر لمحہ گزارا

تیرے اس چہرے کو چاند سنہرے کو

میں نے تو جگر میں اتارا

کتنے تیرے قریب تھا

میں تو تیرا نصیب تھا

ہونٹوں پے رہتا تھا ہر وقت بس نام تیرا

کیا تمہیں یاد ہے؟ کیا تمہیں یاد ہے؟


وہ متحیر سی کھڑی ہو گئی۔

آنکھیں پھیل گئیں۔

"یہ آواز.. "

وہ بولتی ہوئی کھڑکی کے پاس آ گئی۔

اس آواز کو وہ نہ پہچانتی ایسا ممکن نہیں تھا۔


"یہ کیسے؟"

الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

آواز بند ہو چکی تھی۔

" یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟"

وہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھی۔


"نہیں شاید میرا وہم ہو.. "

وہ خود اپنی نفی کرنے لگی۔

قدموں کی آہٹ پر اس نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا تو حسنین کھڑا تھا۔


"تم کہیں جا رہے ہو؟"

وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔

"ہاں.. جاب کے لئے جا رہا ہوں.. "


وہ بولتا ہوا دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

عدن کی سوچیں منتشر ہو چکیں تھیں۔

"سچ میں میرا وہم تھا نہ؟"

وہ تصدیق کرنا چاہ رہی تھی۔

~~~~~~~~~

"تمہیں کچھ دکھانے آیا ہوں۔"

انیب صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔

"کیا؟"

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔

"بیٹھو اور یہ دیکھو.. "

وہ پیکٹ کھولتا ہوا بولا۔


وہ اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔

"منال بیٹا.. "

فیصل صاحب کی آواز پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔

"ابھی اس کو جیب میں ڈالو... "

وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


انیب نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔

"جی پاپا... "

وہ ڈرائینگ روم سے باہر نکل آئی۔

"کوئی آیا ہے گھر میں؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔


"جی پاپا انیب آیا ہے... "

وہ اندر کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"آج یہ کیسے ہمارے گھر کا راستہ بھول گیا؟"

وہ مسکرا کر کہتے اندر داخل ہو گئے۔

"کیسے ہیں انکل؟"

انیب گرمجوشی سے ملتا ہوا بولا۔


"میں بلکل ٹھیک اور تم؟ ثانیہ کیسی ہے؟"

وہ بولتے ہوۓ اس کے ساتھ بیٹھ گئے۔

"ماما بھی ٹھیک ہیں.. اکثر پوچھتی ہیں آپ کا.. "

اسے سمجھ نہ آیا تو کچھ بھی بول دیا۔


"ہاں تو اسے بھی لے آتے منال کا بھی دل بہل جاتا.. "

وہ منال کو دیکھتے ہوۓ بولے۔

"جی ضرور.. "

وہ ہلکا سا مسکرایا۔


"ٹھیک ہے آپ دونوں باتیں کرو.. مجھے ذرا کیس کی فائل ریڈ کرنی تھی.. "

وہ کہتے ہوۓ چلے گئے۔

"تم پاپا سے ملتے رہتے ہو؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔


"ہاں... اس میں اتنا حیران پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟"

اس نے الٹا سوال داغا۔

"مجھے تو تم بھی مشکوک لگتے ہو.. "

وہ جانچتی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"مشکوک تو نہیں.. لیکن معشوق ضرور ہے میری.. "

وہ شرماتا ہوا بولا۔

"کام کی بات کرو... ذرا سی بات کر لو فری ہو جاتے ہو... "

وہ ناپسندیدگی سے بولی۔


"تم جیسی احسان فراموش لڑکی پوری دنیا میں دوسری نہیں ہو گی.. "

وہ گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔

"اپنی باتوں کا باکس بند کرو اور مجھے دکھاؤں جو کہہ رہے تھے.. "

وہ متجسس تھی۔


وہ گندی گندی شکلیں بناتا پیکٹ کھولنے لگا۔

"یہ تصویریں مجھے شاہد کی الماری سے ملی تھیں.. "

وہ بولتا ہوا ہچکچا رہا تھا۔

"تو تم نے اس دن کیوں نہیں دکھائی؟"

وہ تصویریں اٹھاتی ہوئی بولی۔


اگر اس دن دکھا دیتا تو پھر دوبارہ کیسے ملتا تم سے؟

وہ منال کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا۔

تصویریں دیکھ کر منال کی آنکھیں برسنے لگیں۔

"مہ مطلب.. ماما کو شاہد نے؟؟"

بولتے بولتے اس کے الفاظ دم توڑ گئے۔


"بلکل ٹھیک سمجھا ہے تم نے.. "

وہ نہایت سنجیدگی سے گویا ہوا۔

اس نے تصویریں الٹی کر کے میز پر رکھ دیں۔

یہ رمشاء کی لاش کی تصویریں تھیں جو مختلف اینگل سے لی گئیں تھیں۔

اب آنسوؤں پر بندھ باندھنا کٹھن ہو رہا تھا۔


"منال پلیز چپ ہو جاؤ.. "

وہ بےبسی سے بولا۔

آواز نہایت مدھم تھی۔

وہ سر جھکاےُ اشک بہا رہی تھی۔

آج وہ نارنجی رنگ کا حجاب لئے ہوۓ تھی اور ہمیشہ کی مانند پرکشش لگ رہی تھی۔


خاموشی میں اس کی سسکیاں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔

اس لمحے وہ خود کو بےبس محسوس کر رہا تھا۔

وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اس کے لیے... نا اس کے غم کا مداوا کر سکتا تھا نہ ہی اسے اس غم سے نجات دلا سکتا تھا۔


"دیکھو مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھلا ہی دو.. "

وہ رونے والی شکل بناےُ اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ چہرہ اوپر اٹھاےُ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"تم کتنے عجیب انسان ہو.. "

وہ کشن اسے مارتی ہوئی بولی۔


"شکر ہے انسانوں کی لسٹ سے نہیں نکالا.."

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

بےساختہ وہ مسکرانے لگی۔

آنسوؤں کے سنگ اس کی مسکراہٹ کتنی حسین تھی یہ اس لمحے وہی جانتا تھا۔


وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا, بنا پلک جھپکے۔

"مجھے لگتا ہے اب تمہارا علاج کروانا چائیے اور جیسے تم نے میری مدد کی... اس کام میں تمہاری مدد میں کروں گی۔"

وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔


"نا قدرے لوگ تم جیسے ہی ہوتے ہیں.. "

وہ برا مان گیا۔

"ہاں تم تو جیسے ہیرا ہو نہ جس کی میں قدر نہیں کرتی.. "

وہ منہ بناتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

انیب نے گھورنے پر اکتفا کیا۔


"اچھا بتاؤ کیا کھاؤ گے؟ آج تمہاری پسند کا کھانا کھلا دیتی ہوں... ویسے جس طرح تم روز آ جاتے ہو مجھے ایسا لگتا ہے یتیم بچوں کو کھانا کھلا رہی ہوں.. "

وہ لب دباےُ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔


"اڑا لو میرا مذاق تم... مس احسان فراموش۔ جتنے تمہارے کام میں نے کئے ہیں اب تم پر اتنا ہی قرضہ ہے میرا جتنا پاکستان پر ہے.. "

وہ اس کے پیچھے چلتا ہوا بولا۔

"آےُ بڑے تم.. "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"اب ہاتھی کا گوشت مت بنا دینا.. "

وہ منہ بناتا ہوا سلیب پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔

"تمہارا دماغ خراب ہو سکتا ہے میرا نہیں.. "

وہ تپ کر بولی۔


"کیوں تم کوئی انوکھی مخلوق ہو؟"

وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگا۔

"اپنا منہ بند رکھو ورنہ زہر ڈال دوں گی.. "

وہ کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"ویسے نہ بندے کو اپنی عمر جتنی باتیں ہی زیب دیتی ہیں.. "

وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے قہقہے لگاتا ہوا بولا۔

"اب تم بھوکے جاؤ گے.. "

وہ فرائی پین زور سے سلیب پر مارتی ہوئی بولی۔


"مہمان ﷲ کی رحمت ہوتا ہے... اور تم رحمت کو اس طرح بھیجو گی؟ چھی چھی چھی.. پتہ نہیں سکول میں کیا کرتی تھی تم.. کچھ بھی نہیں آتا تمہیں تو.. "

وہ کہاں باز آنے والا تھا۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرنے لگی۔


"اگر اب ایک لفظ نکالا تو یہ جو تمہارے چمٹے جیسا منہ ہے نہ توڑ دینا ہے میں نے.. "

وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی بولی۔

"تمہیں ذرا شرم نہ آئی میرے اتنے ہینڈسم چہرے کو چمٹے جیسا کہتے ہوۓ... "

وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔


"بلکل بھی نہیں.. "

وہ لحاظ کو بلاےُ طاق رکھتی ہوئی بولی۔

"ہاں جانتا ہوں تم ہو ہی ایسی.. سڑی ہو.. "

وہ ناک منہ چڑھاتا ہوا بولا۔

منال رک کر اسے دیکھنے لگی, چہرہ ایسے تھا مانو ابھی رو دے گی۔


"تم کھانا کھاؤ گے یا مار؟"

وہ بیلن اٹھاتی ہوئی بولی۔

"جو تمہارا فیورٹ ہو.."

وہ ڈھٹائی کا ریکارڈ قائم رکھتا ہوا بولا۔


"پاپا.. "

وہ تقریباً رو دینے کو تھی۔

"اچھا اچھا میرے منہ پر تالا لگا ہے اب.."

وہ منہ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔


"اگر اب تمہاری آواز میرے کان میں گئی تو تمہیں بھن دوں گی میں.. "

وہ برتن پٹختی ہوئی بولی۔

وہ لب دباےُ مسکرانے لگا۔

~~~~~~~~~

عدن ٹہلتی ہوئی حسنین کا انتظار کر رہی تھی۔

آج وہ خود کو زیادہ تنہا محسوس کر رہی تھی۔

"کب آؤ گے تم؟"

وہ کھڑکی سے پار دیکھتی ہوئی بولی۔

پول تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔


"رابن لائٹس کیوں نہیں آن کرتا؟"

وہ تعجب سے دیکھتی ہوئی بولی۔


دن کے اجالوں میں خوابوں خیالوں میں

میں نے تجھے پل پل دیکھا

میری زندگانی تو میری کہانی تو

تو ہے میرے ہاتھوں کی ریکھا

میں نے تجھے چاہا تو اپنا بنایا تو

تو نے مجھے دل میں بسایا

پیار کے رنگوں سے بہتی امنگوں سے

تو نے میرا سپنا سجایا

تیرے لبوں کو چوم کے

بانہوں میں تیری جھوم کے

میں نے بسایا تھا آنکھوں میں تیرا بسیرا

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟


عدن اپنی جگہ پتھر کی بن چکی تھی۔

ہاتھ شیشے پر ساکت ہو چکا تھا۔

آنکھوں میں تعجب اور حیرانی کا عنصر تھا۔

"کیا ہو رہا ہے یہ؟ یہ آواز.. "

وہ بمشکل بول پائی۔


نجانے کس کتنے پل بیت گئے وہ اسی پوزیشن میں کھڑی تھی جب حسنین اندر آیا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

حسنین کی آواز پر یہ طلسم ٹوٹا۔

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔


"تم ٹھیک ہو؟"

وہ اسے دیکھتا اس کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

"وہ.. وہ مجھے لگتا ہے وہ واپس آ گیا ہے.. "

وہ لڑکھڑا کر بول رہی تھی۔

"کون؟ کس کی بات کر رہی ہو تم؟"

حسنین کی پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔


وہ تھوک گلے سے اتارتی دائیں بائیں دیکھنے لگی۔

"میں پوچھ رہا ہوں کون؟"

وہ اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتا سختی سے بولا۔

"میں نے صبح بھی اس کی آواز سنی تھی اور ابھی تمہارے آنے سے پہلے بھی.. "

وہ گھبراتی ہوئی بول رہی تھی۔


"میں نے پوچھا کون؟"

چہرے کی سختی بڑھتی جا رہی تھی۔

"شاہد.. "

اس کی آنکھوں میں خوف تیر رہا تھا۔

"تم نے اسے دیکھا ہے؟"

وہ الجھ کر بولا۔


"نہیں.. لیکن میں نے دو بار اس کی آواز سنی ہے.. جیسے وہ مائیک میں گا رہا ہو... "

گھبراہٹ اس کے چہرے سے نمایاں تھی۔

"اچھا میں دیکھ لوں گا.. تم جا کر سو جاؤ.. "

وہ جیسے جلدی میں تھا۔


"لیکن میں اکیلی کیسے؟ ڈیڈ بھی گھر پر نہیں ہیں.. "

وہ اس کی بازو پکڑتی ہوئی بولی۔

"تمہیں کچھ نہیں ہوگا.. "

کیسا سحر تھا اس کے لہجے کا کہ عدن نے اس کی بازو چھوڑ دی۔

اسے اگر بھروسہ تھا تو اسی پر...


"تم نے سموکنگ کی؟"

وہ جاتا جاتا واپس مڑا۔

"نہیں.. میں نے تم سے وعدہ کیا ہے.. "

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی جتانے والے انداز میں بولی۔

"ٹھیک ہے... تم سو جاؤ آرام سے.. "

وہ کہہ کر باہر نکل گیا۔


وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے میں آ گئی۔

وہ آئینے کے سامنے آ کر اپنا عکس دیکھنے لگی۔

جوڑے کی قید سے نکلتی شرارتیں لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھیں۔

سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کا ٹراؤذر پہنے وہ بلکل پہلے جیسی لگ رہی تھی۔


"تم نے میرے کپڑے نہیں دیکھے؟"

وہ حسنین سے مخاطب تھی۔

"تم بہت عجیب ہو.. لیکن پھر بھی اچھے ہو.. "

وہ بولتی ہوئی مسکرانے لگی۔


وہ رخ موڑ کر اس جگہ کو دیکھنے لگی جہاں رات وہ دونوں کھڑے تھے۔

عدن نے اپنے ہاتھ شانے پر رکھ لیے۔

"تم نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے تھے؟"

وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا تھی۔


"کیا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے؟ ورنہ اتنا خیال کون رکھتا ہے کسی انجان کا.. "

وہ بولتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی۔

نگاہیں چھت پر تھیں۔

"تمہاری آنکھیں.. بہت خوبصورت ہیں.. "

اس کی سوچ کا محور حسنین کے گرد تھا۔


"بس تم جلدی سے میرے ساتھ اچھے ہو جاؤ.. ایسے روکھے سوکھے سے اچھے نہیں لگتے.. "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


وہ ایسے بول رہی تھی جیسے وہ سامنے موجود ہو..

خود سے باتیں کرتی کب وہ نیند کی وادی میں اتر گئی اسے علم ہی نہ ہوا۔

"امی میری بات تو سنیں.. "

حسنین دروازہ بجاتا ہوا بول رہا تھا۔

"چلے جاؤ یہاں سے.. کوئی بات نہیں کرنی تم سے... "

وہ رنجیدہ تھیں۔

"امی مجھے اندر تو آنے دیں.. "

وہ آہستہ سے بولا۔


"سنا نہیں تم نے چلے جاؤ جہاں سے آےُ ہو.. "

وہ بےرحمی سے کہتیں چلنے لگیں۔

قدموں کی آہٹ سن کر حسنین کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔

وہ چہرہ اٹھا کر فلک کو دیکھنے لگا۔

مہتاب بادلوں کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا۔


ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا چلنے لگا۔

ذہن یکدم عدن کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"وہ شاہد کی بات کر رہی تھی.. وہ تو مر چکا ہے.. ہاں لیکن اس کی ڈیڈ باڈی نہیں ملی تھی,, تو کیا یہ ایک مذاق تھا؟"

وہ تانے بانے جوڑتا قدم اٹھا رہا تھا۔


اسے عدن کی فکر ہونے لگی۔

"شٹ...میں نے اسے کہا تھا کچھ نہیں ہونے دوں گا.. "

وہ بولتا ہوا سڑک پر نگاہ دوڑانے لگا۔

اسے جلد از جلد عدن کے پاس پہنچنا تھا۔


گلدان زمین پر گرا تو اس دبیز خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوا۔

عدن کی آنکھ کھل گئی۔

چند لمحے وہ چھت کو گھورتی رہی۔

پھر حسنین کا خیال عود آیا تو اٹھ بیٹھی۔


وہ بال سمیٹتی بیڈ سے نیچے اتر آئی۔

صوفے سے سویٹر اٹھا کر پہننے لگی۔

قدموں کی آہٹ واضح سنائی دے رہی تھی۔

"تم ہو کیا؟"

وہ بولتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔


آہٹ تھم چکی تھی۔

وہ ششدر سی راہداری کو دیکھنے لگی جہاں کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

"شاید ڈیڈ ہوں.. "

وہ بولتی ہوئی دروازہ بند کر کے چلنے لگی۔


"رابن..."

وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے زینے اتر رہی تھی۔

ہمیشہ کی مانند وہ لوز سی ٹی شرٹ پر سویٹر کے ساتھ ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھی۔

یہ خاموشی اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔


"ایسا کیوں لگ رہا ہے میں گھر پر اکیلی ہوں.. حسنین ابھی تک نہیں آیا؟"

وہ گھڑی کی سمت میں دیکھتی ہوئی بول رہی تھی جب قدموں کی آہٹ پھر سے سنائی دینے لگی۔


وہ گردن گھما کر اپنے عقب میں دیکھنے لگی جہاں ایک سایہ دکھائی دے رہا تھا.. آہستہ آہستہ وہ سایہ عدن کی جانب بڑھ رہا تھا۔

وہ دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔

وہ وجود تاریکی سے اجالے میں آیا تو عدن کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔


وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس لمحے اسے اپنی بینائی پر شبہ ہو رہا تھا۔

"تم تو مر گئے تھے؟"

وہ مزید دو قدم پیچھے ہٹتی ہوئی بولی۔


ان تیس سیکنڈز میں وہ پسینے میں شرابور ہو چکی تھی۔

"کچھ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے۔"

وہ مسکراتا ہوا بولا۔

اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو گیا۔

وہ لمبے لمبے سانس لیتی الٹے قدم اٹھا رہی تھی۔


دل مانو ابھی اچھل کر حلق سے باہر نکل آےُ گا۔

اس لمحے وہ حسنین کو پکار رہی تھی لیکن وہ نجانے کہاں تھا۔


وہ آہستہ آہستہ اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا,,اور دھیرے دھیرے عدن کو اپنی جانب نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔

ہاتھ پاؤں ڈھنڈے پڑ گئے۔

اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جا رہے تھے۔

~~~~~~~~~

انیب پاؤں لٹکاےُ ٹیرس کی دیوار پر بیٹھا تھا۔

رات مکمل طور پر اپنے پر پھیلا چکی تھی۔

سردی کے باوجود وہ وہیں بیٹھا تھا۔

منال دو کافی کے کپ لئے وہاں آ گئی۔


"تم پاگل ہو کیا؟"

وہ حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی۔

"کیوں؟"

وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔


"نیچے اترو گر جاؤ گے.. "

وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔

" مجھے پتہ تھا تم ہو ہی ڈرپوک..."

وہ نفی میں سر ہلاتا ہنس رہا تھا۔


"آج مجھے پورا یقین ہو چلا ہے کہ تم عقل سے پیدل ہو.. "

وہ کپ دیوار پر رکھتی ہوئی بولی۔

"اچھا اس کے علاوہ عقل کی اور کون سی قسم ہے؟"

وہ منہ پر انگلی رکھے نہایت سنجیدگی سے بولا۔


"نجانے کیا سوچ کر پاپا نے تمہیں یہاں رکنے کا بول دیا... "

وہ جل کر بولی۔

"کیونکہ مجھ جیسی حفاظت کوئی اور نہیں کر سکتا تمہاری.. "

وہ کپ لبوں سے دور لے جاتا ہوا بولا۔

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورنے لگی۔


"مس احسان فراموش پلس ڈرپوک اب آ بھی جاؤ.. یہاں بیٹھ کر دکھاؤ؟"

وہ چیلنج کرنے والے انداز میں بولا۔

"اگر ایک انسان کا دماغ خراب ہو تو دوسرے کو سمجھانا چائیے ناکہ اسی کی مانند ابنارمل حرکتیں شروع کر دے... "

وہ منہ بسورتی جا کر کرسی پر بیٹھ گئی۔


ناچار انیب کو بھی جانا پڑا۔

وہ نفی میں سر ہلاتا اسے دیکھ رہا تھا۔

"اب تم مجھے بتاؤ... کیوں میری ہیلپ کی تم نے؟"

وہ دونوں ہاتھوں سے کپ تھامے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"مجھے شوق ہے.. "

اس نے مختصر سا جواب دیا۔


"مجھے سچ بتاؤ فضول مت بولو.. تم پہلے دن سے میرے ساتھ ہو۔کیوں؟"

وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"تمہیں تو پولیس میں ہونا چائیے تھا... کیسے معصوم سے انسان کو گھیرے بیٹھی ہو.. "

وہ معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتا ہوا بولا۔


وہ گھورتی ہوئی کافی پینے لگی۔

"تم جیسا انسان اور معصوم.. آہ میں صدمے سے ہی نہ مر جاؤں.. "

وہ مگ ٹیبل پر رکھتا قہقہے لگانے لگا۔

منال کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔


اس کے بال پیشانی پر منتشر ہو چکے تھے۔

گندمی رنگت پر کلین شیو جچ رہی تھی۔

"توبہ.. تم کسی دن مجھے ہنسا ہنسا کر مار دو گی.. "

وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

وہ نفی میں گردن ہلاتی مسکرانے لگی۔


یہی مسکراہٹ تو انیب کو چائیے تھی۔

وہ مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔

"تم ہمیشہ سے ہی پاگل تھے کیا؟"

وہ محظوظ ہوتی ہوئی بولی۔

"بلکل بھی نہیں... تم سے ملنے کے بعد ہوا.. "

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔


"تم ایکٹنگ میں چلے جاؤ... جتنے بڑے تم ڈرامے باز ہو آسانی سے کام مل جاےُ گا تمہیں.. "

وہ مشورہ دیتی ہوئی بولی۔

آج وہ جامنی رنگ کا حجاب لئے ہوۓ تھی۔


انیب نے اسے ہمیشہ شلوار قمیض میں دیکھا تھا۔ وہ باقی سب سے منفرد تھی اور یہی اس کی پہچان تھی۔

وہ خاموش ہو کر فون پر انگلیاں چلانے لگا۔

منال کرسی سے ٹیک لگا کر جمائی روکنے لگی۔

رات گہری ہوتی جا رہی تھی لیکن وہ دونوں ڈھیٹ بنے بیٹھے تھے۔


آدھ گھنٹے بعد انیب نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ سو چکی تھی۔

اسے حیرت ہوئی۔

"مس احسان فراموش سو گئی؟"

وہ تعجب سے کہتا کھڑا ہو گیا۔


آج پہلی بار ایسا ہوا کہ اس کے کچھ بال حجاب سے باہر نکل رہے تھے۔

یہ شرارتیں لٹیں اس کے چہرے کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔

وہ جیب میں ہاتھ ڈالے فرصت سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

بھوری آنکھیں اس وقت پردے میں تھیں۔


انیب کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال ہٹانے چاہے۔

اس کا ہاتھ منال کے چہرے کے بلکل قریب تھا۔ اس کے ضمیر نے اجازت نہ تھی یوں بلا اجازت اسے چھونے کی۔

منال نے حرکت کی اور چہرہ دائیں جانب سرک گیا۔


اس نے انگلیاں بند کر کے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔

کچھ سوچ کر وہ نیچے چلا گیا۔

واپس آیا تو ہاتھ میں چھوٹا سا کمبل تھا۔


محتاط انداز میں منال پر اوڑھ کر وہ چکر لگانے لگا۔

اب اسے انتظار کرنا تھا منال کے جاگنے کا...

~~~~~~~~~

اس سے قبل کہ شاہد اس کے بلکل قریب آتا حسنین بھآگتا ہوا ان کے بیچ آ گیا۔

اسے دیکھ کر عدن کی سانس میں سانس آئی۔

شاہد دو قدم پیچھے ہو گیا۔


"کیا لینے آےُ ہو یہاں؟"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

وہ الٹے قدم اٹھا رہا تھا عین اسی لمحے پورے گھر کی لائٹ بند ہو گئی۔

عدن نے عقب سے سختی سے حسنین کی شرٹ تھام لی۔


ایک منٹ اور لائٹ آ گئی لیکن شاہد غائب ہو چکا تھا وہاں سے۔

"تم ٹھیک ہو؟"

وہ عدن کی جانب گھومتا ہوا بولا جو پسینے میں نہا چکی تھی۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔


"میں نے تم سے کہا تھا سو جانا.. "

وہ خفگی سے دیکھ رہا تھا۔

"میں سو رہی تھی لیکن باہر سے آوازیں آ رہی تھیں مجھے لگا تم ہو.. "

وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔


حسنین نے گلاس میں پانی انڈیلا اور اسکے سامنے کیا۔

اس نے بنا کسی حیل و حجت کہ گلاس تھام لیا۔

"اب تم سکون سے سو سکتی ہو.. میں یہیں بیٹھا ہوں.. "

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔


"تو تم؟"

"میری فکر مت کرو مجھے کام کرنا ہے.. جاؤ۔"

وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔

"کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟"

نجانے کیوں وہ ہر بات کے لئے اجازت مانگنے لگی تھی۔


"بلکل نہیں.. "

بے لچک لہجے میں جواب آیا۔

وہ لب بھینچ کر کمرے کی جانب چل دی۔

~~~~~~~~

اس کی آنکھ کھلی تو اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔

"میں یہیں سو گئی؟"

وہ ششدر سی انیب کو دیکھنے لگی جو ریلنگ پر ہاتھ رکھے اس کی جانب پشت کیے کھڑا تھا۔


"تم سوےُ نہیں؟"

وہ کمبل دوسری کرسی پر رکھتی ہوئی بولی۔

"نہیں..."

مختصر سا جواب آیا۔

"کیوں؟ اور تم مجھے جگا دیتے.. "

وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔


سورج کی ہلکی ہلکی گرم کرنیں بکھر رہی تھیں۔ طلوع آفتاب کو ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔

"تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے پہلی بار سکون سے سوئی ہو.. "

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔


"تم میرا جائزہ لے رہے تھے؟"

وہ خفگی سے بولی۔

"ہاں اب بندہ ٹھکری ہو گا تو پھر کیوں نہیں لے گا.. "

وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔

"ذرا سی بھی شرم باقی نہیں تمہارے اندر.."

وہ تلملا اٹھی۔


"تمہارے پاس اتنی زیادہ ہے تو تھوڑی سی مجھے ہی دے دو.. "

اس نے ہانک لگائی۔

منال جاتی جاتی مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔


"تم جیسے کو دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں.. "

اسے اب خود پر غصہ آ رہا تھا۔

"میں اتنی پاگل کیسے ہو سکتی ہوں؟ وہیں پر سو گئی.. اف کیا سوچ رہا ہو گا وہ... "

وہ خود کو کوستی ہوئی زینے اترنے لگی۔

انیب مسکراتا ہوا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگا۔

~~~~~~~~~

"تم ایکٹنگ شروع کر دو..تم خوبصورت بھی ہو اور دنیا کو فیس بھی کر سکتی ہو.. "

وہ اس کے بال سنوارتا ہوا بولا۔

"لیکن علی... میرے بابا کبھی نہیں مانیں گے مجھے خود بھی کوئی شوق نہیں.. "

وہ الجھ کر بولی۔


"تم میری بیوی ہو.. اور شوہر کی فرمانبرداری کرنا بیوی کی اولین ترجیح ہونا چائیے۔"

وہ خفا انداز میں بولا۔

"لیکن یہ شوبز کی دنیا اچھی نہیں.. "

اس کا دل ماننے پر تیار نہیں تھا۔


"ٹھیک ہے پھر مجھے بھی تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا.. "

ایک لمحے میں وہ بیگانہ ہو گیا۔

"علی.. تم کیا بول رہے ہو جانتے بھی ہو؟"

وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔


"میں تمہیں شوبز میں دیکھنا چاہتا ہوں.. تمہارا فیوچر بنا رہا ہوں اور تم ہو کہ...."

وہ تاسف سے کہتا اس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔

"لیکن تم خود سوچو.. میں کیسے؟"

وہ اپنی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


"تم نے پہلے نہیں پہنی تو اب پہن لینا یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں.. سب لڑکیاں پہنتی ہیں جینز شرٹ وغیرہ وغیرہ.. "

وہ لاپرواہی سے بولا۔

"میں ان سب میں سے نہیں ہوں.."

وہ زور دے کر بولی۔


"محبت کی شادی تم کر سکتی ہو.. لیکن میرے لئے یہ نہیں کر سکتی؟"

وہ اس کے قریب آتا ہوا بولا۔

"وہ الگ چیز ہے اور یہ الگ.. تم دونوں کو ملا نہیں سکتے.. "

وہ جھنجھلا کر بولی۔


"ناراض تو ابھی بھی ہیں نہ تمہارے بابا؟ تو پھر کیا فرق پڑتا ہے... تمہاری زندگی میں سب سے اہم میں ہوں.. اور یاد کرو تم نے وعدہ کیا تھا میری ہر بات مانو گی؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔


"لیکن علی مجھے نہیں پسند یہ سب.. میری پرورش ایسے ماحول میں نہیں ہوئی.. "

وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔

"فیصلہ تمہارا ہے... میرا انتخاب کرتی ہو یا پھر اپنی اس پرورش کا... "

وہ ایک سلگتی نگاہ ڈالتا باہر نکل گیا۔


"علی کس کشمکش میں ڈال دیا ہے تم نے مجھے... واپسی کا کوئی راستہ نہیں اور تم نے میرے سامنے بھی خندق کھود دی ہے.. "

وہ اشک بہاتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

~~~~~~~~~

"تم بھی چلو میرے ساتھ پارٹی میں.. "

عدن اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

حسنین نے لیپ ٹاپ سے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا جو اس وقت رف سے حلیے میں تھی۔


"تم چلی جاؤ لیکن.."

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"لیکن کیا؟"

وہ منتظر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


"تم پارٹی ڈریس نہیں پہنو گی نہ ہی جینز وغیرہ.. "

وہ کہتا ہوا نظریں لیپ ٹاپ کی مرکوز کر گیا۔

"تمہارے بغیر میں کیسے جا سکتی ہوں؟"

وہ بولتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی۔


"میں تمہیں نہیں روک رہا.. لیکن مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ایسی فضول پارٹیز میں جانے کا.. "

وہ سرد مہری سے بولا۔

"تو مطلب تم مجھے اکیلی بھیج دو گے؟"

وہ جیسے حیران ہوئی۔


"میں کام کر رہا ہوں.. "

وہ اس کی بات نظر انداز کرتا اسے دیکھنے لگا۔

"بعد میں کر لینا.. ویسے بھی تم رات بھر جاگتے ہو.. "

وہ لیپ ٹاپ بند کرتی ہوئی بولی۔

"تم اپنی حد پار کر رہی ہو... "

وہ تیکھے تیور لئے بولا۔


"واٹ ایور... تم چل رہے ہو اور یہ فائنل ہے.. "

وہ بولتی ہوئی الماری کی جانب بڑھ گئی۔

"عجیب زبردستی ہے.. "

وہ منہ میں بڑبڑایا۔


"پلیز.. "

ایک لمحے میں وہ بدل گئی۔

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگا۔

"مجھے نہیں پسند یہ سب.. "

وہ نگاہیں چرا کر بولا۔


"میرے لئے... کچھ باتیں میں مان رہی ہوں کچھ تم مان لو... شہری کے پیرنٹس کی اینیورسری ہے ورنہ کبھی ضد نہ کرتی.. "

وہ پل بھر میں موم ہوئی تھی۔

وہ جانتا تھا کہ شہری سے وہ کتنی اٹیج ہے سو لیپ ٹاپ بند کرتا کھڑا ہو گیا۔


"یہ دیکھو میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے.."

وہ بلیک کلر کا فور پیس اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔

"میں اپنے کپڑے پہنوں گا.. "

وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


"کیا میرا اور تمہارا الگ ہے؟"

اس کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"بلکل..."

وہ بےرحمی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"تم مجھے ہرٹ کرتے ہو.. "

وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔


وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔

عدن نے مایوسی سے بیڈ پر رکھ دیا۔

"میں ثمن کے کمرے میں جا رہی ہوں.. میڈی آیا ہے.. "

وہ بولتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔


"رکو.. "

حسنین کی آواز نے اس کے پیروں میں زنجیر باندھ دی۔

وہ رخ موڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"تم میڈی سے تیار نہیں ہو گی.. کسی فی میل آرٹسٹ کو بلاؤ.. "

وہ حکم صادر کرتا اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔


"اچھا.. "

وہ بس اتنا بول پائی۔

حسنین نے ایک نظر اس فور پیس پر ڈالی جو عدن بیڈ پر رکھ کر گئی تھی۔

کچھ سوچ کر اس نے اسے اٹھایا اور واش روم میں چلا گیا۔


"ڈیڈ پلیز اب ختم کریں یہ ناراضگی... "

وہ ان کے گال پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

ان کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔

"آپ نہیں آ رہے؟"

وہ تعجب سے بولی۔


"نہیں.. "

وہ رخ موڑ کر بولے۔

"میں شہری سے ایکسکیوز کر لوں گی.."

وہ سرد آہ بھرتی چل دی۔

عدن دوپٹہ سنبھالتی ہوئی آ رہی تھی۔

حسنین گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاےُ کھڑا تھا۔


جونہی اس کی نظر حسنین سے ٹکرائی آنکھوں سے خوشگوار حیرت چھلکنے لگی۔

"تھینک یو.. "

وہ مسکراتی ہوئی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔

حسنین بنا کچھ کہے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

پارٹی میں حسنین اور عدن کے کپل پر خاصے تبصرے ہو رہے تھے۔

حسنین کون تھا؟ اب تک سبھی انجان تھے اور جاننے کے لیے متجسس تھے۔


وہ چہرے پر بیزاری سجاےُ عدن کے ہمراہ کھڑا تھا۔

آج عدن نے نہ کسی سے گلے ملے اور نہ ہی ہاتھ ملایا۔ کیونکہ یہ حسنین کی تاکید تھی۔


اس کا فون رنگ کر رہا تھا۔

اسکرین پر نمرہ کا نام دیکھ کر حسنین کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"میں ابھی آیا.. "

وہ عدن کے کان میں سرگوشی کرتا چل دیا۔


وہ مسکرا کر کسی ایکٹرس سے باتیں کر رہی تھی۔

یکدم گانا بند ہو گیا۔

ہلکی ہلکی موسیقی سنائی دینے لگی۔

"یہ دھن.. "

وہ حیرت سے بولی۔


"جاگے جاگے رہتے تھے

کھوےُ کھوےُ رہتے تھے

کرتے تھے پیار کی باتیں

وہ شاہد تھا جو مائیک ہاتھ میں پکڑے عدن کو دیکھتے ہوۓ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔

وہاں موجود ہر شخص حیران تھا۔

عدن پتھرائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


کبھی تنہائی میں

کبھی پروائی میں

ہوتی تھی روز ملاقاتیں

تیری ان بانہوں میں

تیری ان پناہوں میں

میں نے ہر لمحہ گزارا

وہ عدن کے گرد گھوم رہا تھا۔


تیرے اس چہرے کو

چاند سنہرے کو

میں نے تو جگر میں اتارا

وہ اس کے رخسار پر اپنی انگلی کا لمس چھوڑ چکا تھا۔


"شاہد دور رہو مجھ سے.. "

وہ لوگوں کے باعث آہستہ مگر کرخت لہجے میں بولی۔


کتنے تیرے قریب تھا

وہ عدن کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔

وہ دو قدم آگے بڑھ گئی۔

میں تو تیرا نصیب تھا

ہونٹوں پے رہتا تھا ہر وقت

بس نام تیرا

کیا تمہیں یاد ہے؟

وہ پھر سے عدن کے سامنے آ گیا۔

اس سے قبل کہ وہ پھر عدن کے چہرے کو چھوتا حسنین دونوں کے بیچ آ کر دائیں ہاتھ سے شاہد کا گریبان پکڑے کھڑا ہو گیا۔

آنکھوں سے چنگاڑیاں نکل رہی تھیں۔


کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟


وہ مسکراتا ہوا گا رہا تھا۔

عدن حسنین کے عقب میں چھپ چکی تھی۔

سب دلچسپی سے اس ڈرامے کو دیکھ رہے تھے۔


"جو بھی قسمیں کھائی تھیں ہم نے

وہ بائیں جانب جھکتا حسنین کے عقب میں عدن کو دیکھتا ہوا بولا۔

حسنین نے جھٹکے سے اسے دور کر دیا۔

وہ مسکراتا ہوا ان سے دور ہو گیا البتہ نگاہیں ابھی بھی عدن پر تھیں۔

شہری متفکر سا انہیں دیکھ رہا تھا۔


وعدہ کیا تھا جو مل کر

تو نے ہی جیون میں لایا تھا میرے سویرا

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟


میوزک پر وہ خاموش اِدھر سے اُدھر چلنے لگا۔

عدن عجیب کیفیت میں مبتلا تھی۔ نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔


"دن کے اجالوں میں

خوابوں خیالوں میں

میں نے تجھے پل پل دیکھا


آواز بدل چکی تھی۔

عدن نے تعجب سے سر اٹھا کر دیکھا تو حسنین دکھائی دیا۔

وہ گاتا ہوا اس کے پاس آ رہا تھا۔


میری زندگانی تو

میری کہانی تو

تو ہے میرے ہاتھوں کی ریکھا

میں نے تجھے چاہا تو

اپنا بنایا تو

تو نے مجھے دل میں بسایا

پیار کے رنگوں سے

بہتی امنگوں سے

تو نے میرا سپنا سجایا


وہ عدن کا ہاتھ پکڑے اسے دیکھنے لگا۔

وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔


تیرے لبوں کو چوم کے

بانہوں میں تیری جھوم کے

میں نے بسایا تھا آنکھوں میں تیرا بسیرا

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟

کیا تمہیں یاد ہے؟


وہ عدن کی نگاہوں میں دیکھ رہا تھا۔

سب محظوظ ہو رہے تھے۔

شاہد تلملاتا ہوا ایک طرف کھڑا تھا۔

"انٹرسٹنگ... "

شہری محظوظ ہوا۔

"میری پارٹی کو چار چاند لگا دئیے.. "

وہ کھل کر مسکرایا۔

حسنین عدن کے ہمراہ کھڑا ہو کر شاہد کو دیکھنے لگا۔

آنکھوں میں تنبیہ تھی۔


شہری نے ویٹر کو اشارہ کیا تو وہ حسنین سے مائیک لے کر چلا گیا۔

"ویل ہم نہیں جانتے تھے تم سنگر ہو.. "

شہری ان کے پاس آتا ہوا بولا۔

حسنین سرد نگاہوں سے شاہد کو دیکھ رہا تھا۔

غصے سے گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں۔


"مجھے بھی ابھی معلوم ہوا.. "

عدن دلچسپ نظروں سے حسنین کو دیکھ رہی تھی۔

"تم دونوں اینجواےُ کرو..میں باقی مہمانوں کو دیکھ لوں۔ "

وہ ایکسکیوز کرتا چلا گیا۔

دوبارہ شاہد نے عدن کے قریب آنے کی کوشش نہیں کی۔


"شاہد تم زندہ ہو... "

بلآخر ملیحہ کو موقع ملا اس سے بات کرنے کا۔

"اگر زندہ نہ ہوتا تو یوں تمہارے سامنے ہوتا؟"

وہ تپ کر بولا۔

"اوہ میں بہت خوش ہوں.. "

وہ اس کے سینے سے لگ گئی۔


"مجھے فلحال کوئی بات نہیں کرنی... "

وہ اسے خود سے دور کرتا ہوا بولا۔

ملیحہ نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا جو عدن پر تھیں۔

عدن مسکراتی ہوئی حسنین سے کچھ کہہ رہی تھی۔

وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔


بلاشبہ وہ ایک مضبوط شخصیت کا حامل تھا۔ مقابل کو مرعوب کر دینے کی تمام تر صلاحیت اس کے پاس تھی۔

اس پارٹی میں تقریباً سبھی کی نگاہیں حسنین پر تھیں۔

اس کی جانب کھینچے جانے کی سب سے بڑی وجہ اس کی آنکھیں تھیں۔سنہری رنگ کی آنکھیں, اس کی صاف رنگت پر جچتی تھی, پھر اس کی بھورے رنگ کی داڑھی مزید مشکل میں ڈال دیتی۔


ملیحہ حسنین سے نظروں کا زاویہ موڑتی کاٹ دار نظروں سے عدن کو دیکھنے لگی۔

"اچھا ہوا اس کا نکاح ہو گیا..."

وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔


"تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ نہ میری باتوں کا جواب دیتے ہو۔ "

وہ خفگی سے کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

"میں نہ فضول بولتا ہوں.. نہ ہی فضول باتوں کا جواب دیتا ہوں.. "

وہ سرد لہجے میں کہتا سیٹ بیلٹ باندھنے لگا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"تم تو اچھے بھلے سنگر ہو... تم نے میرے لئے گانا گایا اور وہ بھی سب کے سامنے... سچ سچ بتانا تمہارے دل میں کیا ہے؟"

وہ اشتیاق سے بولی۔

"زیادہ خوش مت ہو.. وہ تمہاعی حفاظت کا ایک طریقہ تھا... شاہد کو اسی کی زبان میں جواب دیا یے میں نے... "

وہ بے رخی سے کہتا ڈرائیو کرنے لگا۔


عدن کا سارا جوش جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔

"تم بہت بے حس ہو.. "

وہ رخ موڑ کر شیشے سے پار دیکھنے لگی۔

"لیکن مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا...وہ لمحہ جب تم سامنے آےُ... "

اس کی بے رخی کے باوجود وہ خفا نہ رہ سکی۔

حسنین کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔


"ایک بات تو بتاؤ؟"

وہ اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

"نہیں.. "

کھٹاک سے جواب آیا۔

"بہت برے ہو تم.. "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"وہاں تو ایسے ظاہر کر رہے تھے جیسے... "

"میں نے تمہیں کہا ہے کہ میں تمہاری حفاظت کر رہا تھا... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"ہوں.. حفاظت.. "

وہ ہنکار بھرتی پھر سے رخ پھیر گئی۔


"میں آج کے بعد کسی پارٹی میں نہیں جاؤں گی... "

نجانے کس سوچ کے تحت وہ بولی۔

یا شاید مقصد اس سے بات کرنا تھا۔

"تمہیں ڈر لگتا ہے یا مجھ پر بھروسہ نہیں؟"

وہ گردن گھما کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔


"نہیں مجھے ڈر نہیں لگتا,, وہ مجھ پر دھونس نہیں جما سکتا... "

وہ چبا چبا کر بولی۔

"تو پھر؟ مجھ پر بھروسہ نہیں؟ کیا میں تمہاری حفاظت نہیں کروں گا؟"

عدن نے اسے مایوس کیا۔


"نہیں ایسی بات نہیں ہے... تم پر تو بھروسہ ہے... لیکن اس انسان کو دیکھنا گوارا نہیں مجھے.. "

وہ حقارت سے بولی۔

گاڑی میں ایک بار پھر سے خاموشی چھا گئی۔

عدن اب ہلکی پھلکی ہو گئی۔چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ تھی۔


"تو اب یہ گھر جمائی بنے گا؟"

لاؤنج میں قدم رکھتے ہی علی صاحب کی آواز گونجی۔

وہ جیسے ان دونوں کے منتظر تھے۔

عدن آنکھوں میں حیرت سموےُ انہیں تکنے لگی۔

"ڈیڈ... آپ کیا بول رہے ہیں؟"

وہ آہستہ سے بولی۔


عدن کے عقب میں آتا حسنین سن چکا تھا۔

اس کے قدم وہیں جم گئے تھے۔

"کیا غلط کہا ہے میں نے بتاؤ؟ نجانے کسے سڑک سے اٹھا کر لے آئی ہو.. "

وہ درشتی سے بولے۔


"ڈیڈ پلیز.. ایسا مت بولیں.. "

وہ ان کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔

آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

اس سے زیادہ وہ نہیں سن سکتا تھا۔ خاموشی سے الٹے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔

"ڈیڈ وہ میری پسند ہے... آپ میری پسند کو ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں اور وہ آ رہا ہے میرے پیچھے.. "

عدن بولتی ہوئی گردن گھما کر دیکھنے لگی۔


وہاں کوئی نہیں تھا۔

"وہ چلا تو نہیں گیا؟"

بولتے بولتے دو موتی اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے۔

"جاتا ہے تو جاےُ.. مجھے فرق نہیں پڑتا.. "

وہ برہمی سے بولے۔


"لیکن مجھے فرق پڑتا ہے.. "

وہ بولتی ہوئی باہر نکل گئی۔

"چلا تو نہیں گیا؟"

وہ متفکر سی گیٹ کے پاس آ گئی۔


"حسنین باہر تو نہیں گیا؟"

وہ گارڈ کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"جی وہ ابھی باہر نکلے ہیں.. "

وہ اشک بہاتی بند گیٹ کو دیکھنے لگی۔

وہ جانتی تھی اب وہ نہیں آےُ گا۔


"ڈیڈ آپ نے کیوں کیا ایسا؟"

وہ اندر آتی ہوئی چلائی۔

"عدن یہ کس طرح بات کر رہی ہو تم مجھ سے؟"

وہ خفگی سے بولے۔

"سوری بٹ یہ گھر میرا بھی ہے اور آپ اس طرح نہیں کر سکتے... "

وہ باور کراتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔


اشکوں کے سنگ سب بہہ چکا تھا۔

وہ مسکراہٹ جو اس کے چہرے پر تھی۔

وہ خوشی جو اسے ملی تھی۔

"کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ایسا؟"

وہ ٹیبل پر بازو رکھے بول رہی تھی۔

دوپٹہ,شوز جیولری زمین پر گری ہوئی تھی۔ شاید وہ ہر چیز اتار کر پھینک چکی تھی۔


"مجھے خوشیاں نہیں غم راس آتے ہیں.. "

وہ سسکتے ہوۓ بولی۔

کچھ سوچ کر وہ الماری سے اپنا پسندیدہ سامان اٹھا لائی۔

سیگرٹ سلگائی اور ہونٹوں میں دبا لی۔

غم غیض میں تغیر ہو رہا تھا اور سب دھواں بن کر اڑتا جا رہا تھا۔


وہ سرمئ دھواں دیکھ رہی تھی۔

آنکھوں کے سامنے پارٹی کا منظر گھوم گیا۔

حسنین اسے دیکھتا ہوا گا رہا تھا۔

"کیسے وہ میری ڈھال بن گیا تھا؟"

آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔


"سب ایک لمحے میں ختم ہوگیا... "

وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتی ہوئی چلائی۔

"آخر کیوں؟ سب برا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟"

وہ مٹھیاں بھینچ کر بولیں۔


دکھ, غصہ,بےبسی,, وہ سمجھنے سے قاصر تھی کس کا اظہار کرے۔

اس نے دوسری سیگرٹ اٹھائی اور سلگانے لگی۔

"میں بھی ایسے ہی جلتی ہوں... "

وہ سیگرٹ کو دیکھتی ہوئی استہزائیہ ہنسی۔


حسنین سڑکوں پر گھوم رہا تھا۔

وہ جیب میں ہاتھ ڈالے پرسوچ انداز میں چل رہا تھا۔

اتنے پیسے نہیں تھے اس کے پاس کہ ہوٹل میں رات گزارتا۔

اس لئے رات اسے ایسے ہی گزارنی تھی۔

~~~~~~~~

"پھر کیا سوچا تم نے؟"

علی اندر آتا ہوا بولا۔

وہ آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

"علی تمہیں مجھ پر ترس بھی نہیں آ رہا؟"

وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔


"تم اپنی دشمن بن رہی ہو... اسی لئے مجھے ترس نہیں آ رہا.. تمہیں اندازہ نہیں ہے تم کتنی بلندی تک جا سکتی ہو.. میں تمہارے لئے اتنی کوشش کر رہا ہوں سیدھا ڈرامے میں لیڈ رول ملے گا تمہیں اور تم ہو کے... "

وہ افسوس کا اظہار کرتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔

وہ بےبسی سے علی کو دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~

"دیکھو میں معافی مانگ لوں گا لیکن تم ایک بار سوچ لو اس متعلق... "

فیضی اس کے سامنے کھڑا تھا۔

عزہ کا حلیہ بے ترتیب تھا۔

وہ خوش نہیں تھی اور اس کا چہرہ اس بات کا گواہ تھا۔


"فیضی اب کچھ نہیں بچا... "

وہ جیسے تھک چکی تھی۔

"ایک موقع تو دے دو.. تم نے تو سب ہی ختم کر دیا.. "

وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔

"میں فیصلہ لے چکی ہوں.. اور اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں.. "

وہ رخ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔


"تم شہری کی شہ پر یہ سب کر رہی ہو نہ؟"

وہ تلملا اٹھا۔

"تم اچھے سے جانتے ہو مجھے کسی کی شہ کی ضرورت نہیں.. "

وہ جتانے والے انداز میں بولی۔


"تو پھر ایک ہی دن میں کیسے اتنا بڑا فیصلہ لے لیا؟ بتاؤ؟"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"یہ تمہارے برے رویے کا نتیجہ ہے.. ایک دن کا فیصلہ نہیں.. میں تھک چکی ہوں برداشت کرتے کرتے,, تمہیں سمجھاتے سمجھاتے..."

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"پچھتاؤ گی تم... "

وہ انگلی اٹھا کر غرایا۔

"اب تک پچھتا ہی رہی تھی..."

وہ چبا چبا کر بولی۔


وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

دروازے میں فیضی شہری سے ٹکرا گیا۔

"مجھے پتہ تھا تم ہی ہو گے اس کی پشت پناہی کرنے والے. "

وہ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔

شہری فکرمند سا اندر آ گیا۔


"یہ کیا کرنے آیا تھا یہاں؟"

وہ عزہ کی پشت کو دیکھتا ہوا بولا۔

"کچھ نہیں.. "

وہ جیسے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔


"سچ بتاؤ مجھے.. "

وہ اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

"حال دیکھا ہے تم نے اپنا؟"

وہ جیسے ہرٹ ہوا تھا۔


"تمہیں کیوں اتنی فکر ہے بتاؤ؟ کیوں بار بار آ جاتے ہو؟"

وہ اسے خود سے دور کرتی ہوئی چلائی۔

وہ تاسف سے اسے دیکھنے لگا۔

"تمہیں میرا آنا برا لگتا ہے؟"

وہ آہستہ سے بولا۔


اس نے بنا کچھ کہے رخ موڑ لیا۔

"میں نے پوچھا تمہیں میرا یہاں آنا برا لگتا ہے؟"

وہ اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔

"ہاں مت آیا کرو یہاں.. تمہاری وجہ سے میرے کردار کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں.. "

وہ پھٹ پڑی۔


وہ فیضی کا غصہ اس پر اتار رہی تھی۔

اتنے دنوں سے اپنے اندر جو وہ تمس جمع کر رہی تھی آج شہری پر نکال رہی تھی۔

وہ افسوس سے دیکھتا اثبات میں گردن ہلانے لگا۔


"تم چاہتی ہو میں کبھی تمہارے سامنے نہ آؤں؟"

وہ زور دے کر بولا۔

"ہاں مت آنا.. "

وہ زچ ہو گئی۔

"ٹھیک ہے..."

وہ اس کی بازو جھٹکتا تیزی سے باہر نکل گیا۔


عزہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی ٹہلنے لگی۔

"کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی.. "

وہ جھنجھلا کر کہتی کھڑکی کے پاس آ گئی۔


غصہ شہری کے چہرے پر نمایاں تھا۔

وہ گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔

وہ بےبسی سے شیشے پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔

"آئم سوری... "

وہ سرگوشیوں میں بولی۔

اسے اب برا لگ رہا تھا۔

~~~~~~~~

"او میڈم دروازہ کھولو.. "

شہری دروازہ کھٹکھٹاتا ہوا چلایا۔

"مجھے بات نہیں کرنی جاؤ تم.. "

عدن کی مدھم سی آواز سنائی دے۔


"یار نکاح کر کے دوست کو بھول گئی ہو تم.. انتہائی بے شرم انسان ہو تم.. "

وہ جل کر بولا۔

عدن کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔


"ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ.. نہ تم میرا فون اٹھا رہی ہو... "

وہ دروازہ سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔

"رابن سے بولو تمہیں چابی لا دے... "

کافی دیر بعد وہ بولی۔

وہ خوش ہو کر زینے اترنے لگا۔


"رابن چابیاں کہاں ہیں؟ عدن کے روم کی چابی لا دو مجھے... "

وہ کچن میں آتا ہوا بولا۔

"جی سر لے کر آتا ہوں.. "

وہ سر ہلاتا چل دیا۔


"توبہ... اتنی سموکنگ.. "

وہ جونہی کمرے میں داخل ہوا سیگرٹ کی بو نے اس کا استقبال کیا۔

ایش ٹرے بھرا ہوا تھا اور وہ بے سدھ صوفے پر پڑی تھی۔


"کون سا روگ لگ گیا ہے تمہیں؟ اور وہ تمہارے میاں جی کہاں ہیں؟ مجھے لگا شاید تم دونوں اندر ہو اس لئے دروازہ نہیں کھول رہی..."

وہ بولتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔

"چلا گیا ہے وہ.. "

وہ بولتی ہوئی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔


"کیا مطلب؟"

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔

وہ پھر سے خاموش ہو گئی۔

"عدن میں کچھ پوچھ رہا ہوں.. "

وہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا بولا۔


عدن نے اس کے ہاتھ ہٹا دئیے۔

"بتاؤ تو ہوا کیا؟ تم مجھے پریشان کر رہی ہو.. "

وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

اپنی ٹینشن وہ بھول چکا تھا۔


"حسنین کو لے آؤ... "

وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔

"او میری جان.. تم کیوں ٹینشن لیتی ہو دیکھنا کان سے پکڑ کر لاؤں گا.. "

وہ اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔

وہ خاموش آنسو بہانے لگی۔


"عدن کیا کوئی بات ہوئی ہے؟"

اس کی خاموشی اسے مزید پریشان کر رہی تھی۔

"تم بس لے آؤ اسے... "

وہ اس سے الگ ہوتی ہوئی بولی۔


"کہاں ہے اس کا گھر بتاؤ؟ میں ابھی لے آتا ہوں.. "

وہ اس کے رخسار سے آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔

"میرے فون میں نمبر ہے اس کا... "

وہ بیڈ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


"اوکے تم رونا مت اب... میں بات کرتا ہوں۔"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتا چلا گیا۔

وہ یاس سے اسے دیکھنے لگی۔

شہری اس کا فون ان لاک کرتا نمبر ڈھونڈنے لگا۔


"ہیلو!"

شہری کی آواز پر وہ دم سادھے اسے سننے لگی۔

"حسنین بات کر رہے ہیں آپ؟ میں شہری بول رہا ہوں...عدن کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ خود آ کر دیکھ لیں...وہ میرے ساتھ جانے پر رضامند نہیں۔"

وہ شاید آرگیو کر رہا تھا۔


"اوکے ٹھیک ہے... "

وہ مسکرا کر عدن کے سامنے آ گیا۔

"کیا کہا اس نے؟"

بے قرار سا لہجہ تھا۔


"آ رہا ہے.. اب خوش ہو جاؤ.. "

وہ مسکراتا ہوا بولا۔

"سچ میں؟"

وہ بے یقین تھی۔


"اب سٹام پیپر پر لکھ کر دوں؟"

وہ برا مان گیا۔

"نہیں... "

وہ آہستہ سے بولی۔


"اچھا میں چلتا ہوں.. اب تو تم بھی بڑی ہو جاؤ گی.. "

معنی خیزی سے کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

"میں کال کروں گی تمہیں پھر بات کریں گے.. "

وہ بال سمیٹتی ہوئی بولی۔


"اوکے میڈم.. "

وہ سر کو خم دیتا چل دیا۔

عدن کی نگاہیں دروازے پر جمی تھیں۔

وہ منتظر تھی۔ انتظار کے لمحے بڑھتے جا رہے تھے۔


قدموں کی آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو حسنین دروازے کے وسط میں کھڑا تھا۔

وائٹ کلر کی جینز کے ساتھ وہ بلیک کلر کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔

بال نفاست سے سیٹ کر رکھے تھا.. اس کا چہرہ ہشاش بشاش تھا۔


وہ یک ٹک کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

آنکھوں میں تکلیف کے آثار ابھرنے لگے۔

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا آس کی جانب قدم اٹھانے لگا۔

"میری غیرموجودگی میں تم یہ سب کرو گی؟"

وہ تاسف سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے؟"

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

حسنین نفی میں سر ہلاتا اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔

"مجھے اکیلے نہیں رہنا... پلیز تم مت جاؤ۔"

وہ اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔


"تم یہ سب چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ میں چلا جاؤں گا تو تم پھر سے ان چیزوں پر چلی جاؤ گی؟"

وہ خفگی سے دیکھ رہا تھا۔

"تم میرے ساتھ رہو گے تو میں کبھی ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی لیکن.. "

وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔

حسنین کی سنہری آنکھوں میں کرب تھا۔

اسے تکلیف ہو رہی تھی اسے اس حال میں دیکھ کر..

"تم نے چینج نہیں کیا؟"

وہ اسے رات والے کپڑوں میں دیکھ کر بولا۔


"دل نہیں کیا.. "

وہ اس کے ہاتھ پر انگلی پھیرتی ہوئی بولی۔

"چلو اٹھو چینج کرو.. کیا بنی ہوئی ہو شیشے میں دیکھو خود کو.. "

وہ خفا خفا سا کہتا کھڑا ہو گیا۔


"پہلے بتاؤ تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے نہ؟"

وہ آس بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ لب کاٹتا اسے دیکھنے لگا۔

"یہ گھر میرا بھی ہے.. میں ڈیڈ کو سمجھا دوں گی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا.. ان کی طرف سے میں سوری کرتی ہوں.. "

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

اس کی حالت سچ میں قابل رحم تھی۔

حسنین کمزور پڑ رہا تھا۔

"پلیز.. "

وہ مدھم آواز میں بولی۔

دو موتی ضبط کے باوجود بہہ نکلے۔

"ٹھیک ہے نہیں جاتا.. اب جاؤ چینج کرو۔"

وہ بیڈ کی جانب بڑھتا کھردرے پن سے بولا۔

وہ چہرہ صاف کرتی اپنے کپڑے نکالنے لگی۔

عدن نے اسے کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا۔

"ایک طرف تم ہو اور ایک طرف میری عزت نفس.. "

وہ کھڑکی کو گھورتا ہوا بولا۔

وہ بالوں میں ہاتھ بے چینی سے پھیرتا ٹہلنے لگا۔

"رابن یہ سب اٹھا لو یہاں سے... "

حسنین کمرے سے باہر نکل آیا۔

اسے سیگرٹ کی بو سے نفرت تھی۔

لیکن عدن کی خاطر وہ برداشت کر رہا تھا۔


"ہم کہیں چلیں؟"

وہ اس کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

"کہاں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"میرا مطلب ہنی مون... "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"نہیں... میں اتنا فارغ نہیں ہوں تمہارے لئے.. "

بنا کسی لحاظ کے جواب آیا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"کیوں؟ میرے لئے کیوں ٹائم نہیں ہے تمہارے پاس؟"

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"مجھے اپنی فیملی کو بھی دیکھنا ہے.. تمہاری طرح گھومنے نہیں نکل سکتا میں..."

وہ فون پر انگلیاں چلا رہا تھا۔


وہ سانس خارج کرتی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔

"تمہارے دل میں میرے لئے کیا ہے؟"

آخر وہ پوچھ ہی بیٹھی۔

"جیسا تم سوچ رہی ایسا کچھ بھی نہیں.. "

وہ سامنے دیکھتا ہوا بولا۔


"پھر کیا ہے؟ بتاؤ میں جاننا چاہتی ہو... "

وہ پاؤں اوپر کرتی اس کی جانب رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔

"سچ کڑوا ہوتا ہے اور تم سن نہیں پاؤ گی بہتر ہے ایسے ہی چلنے دو... "

وہ پرسوچ انداز میں بولا۔


"میں سننا چاہتی ہوں... تم بولو۔"

وہ بضد ہوئی۔

"مجھے تم سے کوئی دلی لگاؤ نہیں ہے.. اب خوش... "

وہ زچ ہو کر بولا۔


"پھر؟"

وہ جیسے مزید سننا چاہتی تھی۔

آواز مدھم ہو چکی تھی۔

"پھر کچھ بھی نہیں.. "

وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


"تم جا رہے ہو؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

"بہت سے کام ہیں مجھے... "

وہ بے رخی سے کہتا باہر نکل گیا۔

وہ نم آنکھوں سے دروازے کو گھورنے لگی۔


"میم آپ کے لئے کھانا لاؤں؟"

رابن وہاں آتا ہوا بولا۔

"نہیں مجھے بھوک نہیں.. "

وہ کہتی ہوئی فون پر انگلیاں چلانے لگی۔

"ہاں...اب بولو؟"

وہ جیسے کچھ دیر کے لیے اپنے مسئلوں سے نکلنا چاہتی تھی۔


"کیا عزہ نے ایسا بولا تمہیں؟"

وہ ششدر سی اسے سننے لگی۔

"یہ یقیناً فیضی کے باعث ہوا ہے...وہ آیا تھا تبھی اس نے تم سے ایسے بات کی... ابھی تم اس کے رویے پر برا مت مناؤ۔ اسے کچھ ٹائم دو۔"


"ہاں میں بھی سمجھ گیا تھا اس لیے مزید بحث نہیں کی۔ "

وہ کافی حد تک سنبھل چکی تھا۔

"تمہارے میاں جی کہاں ہیں؟"

وہ شرارت سے بولا۔


"میاں جی نہیں ہے وہ.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

جواب میں اسے شہری کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔

"ابھی باہر گئے ہیں.. "

وہ آہستہ سے بولی۔


"اوہو اتنی عزت... "

وہ ہنستا ہوا بولا۔

"ہاں تو... کیوں نہ دوں؟"

وہ خفا ہو گئی۔

"نہیں بھئی دو.. مجھے کیا مسئلہ ہو گا... ویسے کل بہت مزہ آیا۔"

وہ گزشتہ رات کا منظر یاد کرتا ہوا بولا۔


"ہاں.. مجھے امید نہیں تھی لیکن اچھا ہو گیا۔"

وہ آہستہ سے بولی۔

"اچھا مجھے ذرا سٹوڈیو جانا یے پھر بات کرتا ہوں تم سے۔ "

وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔


عدن نے خاموشی سے فون بند کر دیا۔

یہ تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔

رات گئے حسنین گھر میں داخل ہوا۔

عدن وہیں بیٹھی تھی جہاں وہ چھوڑ کر گیا تھا۔

اسے تعجب ہوا..

روشن پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"تم بلکل بچی بنتی جا رہی ہو.. "

وہ اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔

"مطلب؟"

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔

"مطلب تم مجھے بیساکھی بنا رہی ہو... ہر چیز کے لئے مجھ پر انحصار کر رہی ہو۔ یہ غلط ہے مجھے اپنا نشہ مت بناؤ۔"

وہ فکرمند دکھائی دے رہا تھا۔


"کیسے؟"

وہ ابھی بھی سمجھ نہیں پائی۔

"جب میں گیا تھا تم یہیں بیٹھی تھی اور واپس آیا ہوں تو بھی... یقیناً تم نے کھانا بھی نہیں کھایا ہوگا... "

اس کا اندازہ درست ثابت ہوا تھا۔


"میرا دل نہیں کر رہا تھا.. اچھا یہ بتاؤ کیا میں گھر میں اپنی مرضی سے کپڑے پہن سکتی ہوں؟"

وہ لب کاٹتی اسے دیکھ رہی تھی۔

"تم پہن سکتی ہوں.. میں تم پر زبردستی نہیں کروں گا۔ ہاں کچھ چیزوں میں تمہیں میری بات ماننی پڑے گی.. "

وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔


"تم جیسے کہو گے میں کر لوں گی بس شرط یہی ہے کہ تم ساتھ ہو... "

حسنین کو دیکھتے ہی اس موڈ فریش ہو گیا تھا۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔

"لیکن تم اپنے وعدے بھول جاتی ہو... "

وہ کرب سے بولا۔


"تم مجھے کبھی نہیں چھوڑنا نہ... پھر میں کچھ نہیں بھولوں گی۔"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

"یہی میں نہیں چاہتا..."

وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔


"مجھے ابھی کچھ نہیں سمجھنا... ہم باہر چل رہے ہیں کھانے کے لیے۔"

وہ اس کی بازو پکڑتی کھڑی ہو گئی۔

وہ تیکھے تیور لئے اسے دیکھنے لگا۔


"کس نے کہا ہم باہر جا رہے ہیں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"میں نے... تمہاری وائف نے.۔"

وہ آنکھیں جھپکاتی ہوئی بولی۔

"تمہیں جانا ہے تو جاؤ... "

وہ سرد نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"تم اتنے اکھڑ کیوں ہو؟ اب کیا اتنا سا بھی حق نہیں ہے میرا تم پر؟"

وہ جذباتی ہو گئی۔

"یہ بلیک میلنگ مجھ پر نہیں چلے گی... "

وہ کمرے کی جانب قدم بڑھاتا ہوا بولا۔


"میں کچھ نہیں جانتی.. بس ہم جا رہے ہیں تو مطلب جا رہے ہیں۔"

وہ اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"تم... "

وہ انگلی اٹھا کر بول رہا تھا۔


"بس یہ فائنل ہے... "

وہ اس کی انگلی پکڑتی قریب ہو گئی۔

"دور رہا کرو مجھ سے.. "

وہ جھرجھری لیتا چند قدم کا فاصلہ بڑھاتا ہوا بولا۔

"کیوں؟"

وہ اس کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔


"اچھا ٹھیک ہے ہم باہر چل رہے ہیں.. "

وہ جان چھڑواتا ہوا بولا۔

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

"تم ویٹ کرو میں چینج کر کے آئی... "

وہ مسکراتی ہوئی چل دی۔

~~~~~~~~~

"منال مجھے ملنا ہے تم سے جلدی کیفے میں آؤ.. "

وہ فون کان سے لگاےُ بیٹھا تھا۔

"کیا ہوا؟ اس طرح کیوں بلا رہے ہو؟"

وہ بولتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔


"بہت ضروری بات ہے فون پر نہیں ہو سکتی بس تم جلدی آ جاؤ... اور ہاں کچھ کھانے کو بھی لیتی آنا... "

وہ شرارت سے بولا۔

"حد ہے تمہیں ہر وقت کھانے کی پڑی رہتی ہے؟ کیفے میں بہت کچھ ہے جو کھانا ہے آڈر کر لو... میں آتی ہوں بیس منٹ میں.. "

وہ سلیپر پہنتی ہوئی بولی۔


"دل کنجوس ہی رہے گا تمہارا.. "

وہ جل کر بولا۔

منال نے بنا کچھ کہے فون رکھا اور الماری کھول کر کھڑی ہو گئی۔

"پتہ نہیں اب کیا دورہ پڑ گیا ہے اسے... "

وہ کپڑے نکالتی ہوئی بڑبڑائی۔


اٹھارہ منٹ بعد منال کیفے میں داخل ہوئی۔

"اتنی دیر لگا دی.. ولیمے کی دعوت پر نہیں بلایا تھا.. "

وہ اپنی تضحیک بھولا نہیں تھا۔

"اووہ اچھا مجھے لگا تم اپنے نکاح پر مدعو کر رہے ہو.. "

وہ چبا چبا کر کہتی بیٹھ گئی۔


"تمہیں تو ہر گز نہیں بلاؤں گا میں.. "

وہ گھورتا ہوا بولا۔

"ہاں اور میں تو جیسی مری جا رہی ہوں نہ آنے کے لئے.. "

وہ ترکی بہ ترکی بولی۔


"یہ نخرے اپنے شوہر کو دکھانا... "

وہ انگلی اٹھا کر بولا۔

"اچھا میں نے کون سا تم سے گفٹ مانگ لیا ہے؟ کون سے نخرے تم میرے اٹھاتے ہو.. ؟"

وہ میدان میں اترتی ہوئی بولی۔


"ابھی تم نخرے نہیں دکھاتی... ﷲ معاف کرے جب نخرے دکھاؤں گی پھر پتہ نہیں کیا ہو گا.. "

وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔

"یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے... "

وہ کانٹا اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔


"پھر میرے ہمسایوں کا ہے؟"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"اس فضول بکواس کے لئے تم نے مجھے بلایا تھا؟"

وہ زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔


آس پاس بیٹھے لوگ انہیں دیکھنے لگے اور وہ خائف ہوےُ بنا انیب کو گھورنے لگی۔

"شرم کر لو... زیادہ نہیں تو بس تھوڑی سی ہی...."

وہ برہمی سے گویا ہوا۔


"ہاں تمہیں تو جیسے بہت آتی ہے نہ.. "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"تم اپنا منہ بند کرو گی؟"

وہ اسے خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا۔


"ہاں.. اگر تم اپنی بکواس بند کر لو تو... "

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

وہ رخ پھیر کر بائیں جانب دیکھنے لگا۔


یہ ایک طریقہ تھا اسے بتانے کا کہ وہ ناراض ہے۔

منال ضبط کا دامن تھامے سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔

وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی۔


"نظر لگا لی ہو تو میں کام کی بات کروں؟"

وہ اسی طرح چہرہ موڑے ہوۓ تھا۔

"ہاں تم تو کسی ریاست کے شہزادے ہو نہ جسے میں نظر لگاؤں گی.. "

وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔


"تمہاری یہی باتیں مجھے زہر لگتی ہیں.. "

وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"اور مجھے تو تمہاری ساری باتیں ہی زہر لگتی ہیں.. "

وہ بھی کہاں خاموش رہنے والی تھی۔


"بھاڑ میں جاؤ تم... "

وہ جل بھن کر کہتا چل دیا۔

منال ہکا بکا سی اسے جاتا دیکھنے لگی۔

"اس لئے مجھے بلایا تھا؟"

آہستہ سے اس کے لب حرکت کرنے لگے۔


"فضول انسان... "

وہ تمس سے کہتی کھڑی ہو گئی۔

"میم بل... "

ویٹر اس کے سامنے آ گیا۔


"لیکن میں نے تو کچھ آڈر نہیں کیا... "

اس کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔

"آپ کے ساتھ جو سر تھے انہوں نے آڈر کیا تھا.. "

وہ بل اسے تھماتا ہوا بولا۔


وہ بیگ سے پیسے نکالنے لگی۔

"اسی لئے بلایا ہو گا مجھے شودے نے... "

وہ باہر کی جانب بڑھتی ہوئی بڑبڑائی۔

~~~~~~~~~

"تم نماز پڑھ کر آےُ ہو؟"

عدن اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"ہاں کیوں؟"

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگا۔


"تمہارا چہرہ تو خشک ہے.. "

وہ غور سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"نماز پڑھتے پڑھتے خشک ہو جاتا ہے... "

وہ کہتا ہوا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔


"تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے؟"

وہ تجسس سے بولی۔

"میرے پوچھنے سے تم پڑھا کرو گی؟"

وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔


"ہاں.. "

وہ اشتیاق سے بولی۔

"دیکھو اس معاملے میں, میں تم پر کوئی جبر نہیں کروں گا... کیونکہ یہ ﷲ اور اس کے بندے کے بیچ کا معاملہ ہے.. ہاں کہوں گا ضرور.. روکوں گا بھی لیکن زبردستی نہیں کروں گا..."

وہ جیسے اس کی بات سمجھ گیا تھا۔


"تمہیں دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے میں بھی ایک اچھی مسلمان بن جاؤں... جانتے ہو اب میں شہری سے بھی فاصلہ رکھتی ہوں.. "

وہ خوش تھی۔


"پھر جیسا تمہارا دل چاہتا ہے ویسا کرو... لیکن غلط نہیں.. "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"تمہارے ہاتھ میں مجھے کبھی سیگرٹ نظر نہ آےُ, نہ ہی ڈرنک... "

وہ لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔


"ہاں مجھے یاد یے... "

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"تم اپنی ماما سے بات کیوں نہیں کرتی؟"

نگاہیں اسکرین پر لیکن سوال عدن سے تھا۔

وہ پتھر کی بنی اسے دیکھنے لگی۔


"تم کیسے جانتے ہو؟"

وہ لڑکھڑا کر بولی۔

"میرے سوال کا جواب دو.. "

وہ اس کا فرار کا ارادہ بھانپ چکا تھا سو اس کی کلائی تھام کر بولا۔


"مجھے کوئی جواب نہیں دینا.. "

وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔

"میں نے کہا جواب دو... "

چہرے کی سختی بڑھتی جا رہی تھی۔


"مجھے کوئی جواب نہیں دینا.. مجھے اس ٹاپک پر بات نہیں کرنی.. چھوڑو مجھے۔"

بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔

"لیکن مجھے کرنی ہے... "

وہ اس کا جھکا ہوا سر دیکھ رہا تھا۔


"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی... "

وہ ہاتھ چھڑواتی کر کھڑی ہو گئی۔

"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے عدن... "

پہلی بار وہ چلایا۔


وہ کمرے سے باہر بھاگ چکی تھی۔

وہ تاسف سے اپنا ہاتھ دیکھنے لگا جس کی گرفت میں چند لمحے قبل اس کی نازک کلائی تھی۔

وہ افسوس سے نفی میں سر ہلاتا پھر سے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔


عدن منہ پر ہاتھ رکھے گارڈن میں بیٹھی تھی۔ وہ اپنی آواز دبانے کی سعی کر رہی تھی۔ اس موضوع سے وہ ہمیشہ بھاگتی آ رہی تھی اور نجانے کب تک بھاگتے رہنا تھا اس نے...


"وہ کیسے جانتا ہے؟ یہ بات میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا حتیٰ کہ ڈیڈ بھی نہیں.. پھر اسے کیسے معلوم ہوا؟"

وہ اشک بہاتی خود کلامی کر رہی تھی۔

"کیا وہ سب جانتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ وہ کیسے؟"

وہ گھاس کو دیکھتی رونے لگی۔


"آئی ہیٹ یو مام.. آئی ہیٹ یو۔ میں اپنا بچپن کبھی نہیں بھول سکتی کبھی نہیں.. "

چہرے پر بلا کی سختی تھی۔

کچھ سوچ کر وہ ثمن کے کمرے کی جانب چل دی۔

ٹریک سوٹ پہن کر وہ گاڑی کے کر نکل گئی۔


اس وقت وہ جم میں اکیلی تھی۔

ٹینشن دور کرنے کی غرض سے وہ یہاں آ گئی۔

وہ رننگ مشین پر بھاگ رہی تھی جب اسے آہٹ سنائی دی۔

تولیہ سے پسینہ خشک کرتی وہ نیچے اتر آئی۔

پانی اٹھانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ کسی نے گلے سے پکڑ کر اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔


"تم سے کہا ہے نہ بات مان لو... "

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلایا۔

اس کا سانس بند ہو رہا تھا۔

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔


عدن نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور دھکیل دیا۔

وہ کھانستی ہوئی الٹے قدم اٹھانے لگی۔

"تم میری بات مانو گی یا نہیں؟"

وہ خطرناک تیور لئے آگے بڑھا۔


" شاہد تم پاگل ہو چکے ہو اور کچھ نہیں... میں کسی شرط پر بھی حسنین سے الگ نہیں ہوں گی.. "

وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی بولی۔

"اپنی زندگی سے بلکل پیار نہیں ہے نہ تمہیں؟"

وہ بولتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔


"تم اپنی حد میں رہو... ابھی ڈیڈ کو فون کرتی ہوں میں... "

وہ آگ بگولہ ہوتی ہوئی بولی۔

"نہیں ڈرتا میں... جو کرنا ہے کرو لیکن یاد رکھنا الگ تو تمہیں ہونا پڑے گا.. "

وہ آوازیں سن کر الٹے قدم اٹھانے لگا۔


"تمہاری سوچ ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا.. "

وہ پر اعتماد لہجے میں بولی۔

شاہد کو اس کا یہ انداز بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

وہ ناپسندیدگی سے اسے دیکھتا چلا گیا۔


وہ سر تھام بیٹھ کر گئی۔

عجیب بوجھل پن وہ محسوس کر رہی تھی۔

"حسنین آ سکتے ہو مجھے لینے؟"

وہ فون کان سے لگاتی ہوئی بولی۔

"پتہ نہیں شاید بخار ہے.. "

وہ پیشانی پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


"ٹھیک ہے میں انتظار کر رہی ہوں تمہارا.. "

اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔

اس نے آنکھیں بند کر کے ٹیک لگا لی۔


"ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں.."

عدن کے گاڑی میں بیٹھتے ہی حسنین بولا۔

"نہیں ضرورت نہیں.. آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی. "

وہ آنکھیں موند کر بولی۔


"تم ٹھیک نہیں لگ رہی؟"

وہ مطمئن نہیں ہوا۔

"ہاں وومٹ (قے) آئی تھی.. حالانکہ میں نے دوپہر میں کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔"

وہ آنکھیں بند کئے بول رہی تھی۔


حسنین چہرے اس کی سمت میں موڑے انہماک سے اسے سن رہا تھا۔

"کافی ٹائم ہو گیا تم نے چیک اپ نہیں کروایا.. "

فکر اس کے لہجے سے عیاں تھی۔

"میں ٹھیک ہوں.. بس مجھ سے دوبارہ وہ بات مت کرنا.. "

وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی۔


"بعد میں صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں.. "

وہ تاسف سے بولا۔

"مجھے اتنی الجھی ہوئی باتیں سمجھ نہیں آتیں.. "

آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔

سرخ آنکھیں اس کی تھکاوٹ کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔


"جانتے ہو آج شاہد آیا تھا... تم کیوں نہیں آےُ؟ وہ مجھے مارنا چاہتا تھا... تم سے دور کرنا چاہتا ہے... "

وہ اسے دیکھنے بنا بولتی جا رہی تھی۔


"تم نے مجھے کال کیوں نہیں کی؟ تمہیں نقصان تو نہیں پہنچایا اس نے؟"

وہ یکدم فکرمند ہو گیا۔

عدن ہلکا سا ہنسی۔

"نہیں فکر مت کرو...صرف گلا دبایا تھا۔"

وہ ایسے بول رہی تھی جیسے معمول کی بات کر رہی ہو..

"اور تم مجھے اب بتا رہی ہو؟"

نہایت برہمی سے جواب آیا۔


"ظاہر ہے اب فون پر کیا بتاتی.. "

وہ بلکل بھی سنجیدہ نہیں تھی۔

"تم اکیلی باہر نہیں نکلو گی اور مجھے دکھاؤ.. "

وہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

حسنین کا اپنے لیے فکرمند ہونا, اسے خوشی محسوس ہو رہی تھی۔


"تمہیں تو بخار ہے.. پہلے ڈاکٹر کے پاس پھر گھر... "

وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔

"نہیں گھر چلو.. میں میڈیسن لے لوں گی.. "

وہ کاہلی سے بولی۔

"بلکل چپ.. "

آنکھوں میں خفگی تیر رہی تھی۔


وہ لب دباےُ مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی۔

آج وہ بلکل مختلف حسنین تھا۔

"آپ کی وائف کافی ٹائم سے ڈرگز لے رہی ہیں اور پروپر چیک اپ بھی نہیں کروایا انہوں نے.. یہ ٹیسٹ کرنے ہیں.. آپ انہیں صبح لے آئیے گا.. ابھی تو میں نے میڈیسن دے دی ہے۔ ٹھیک ہو جائیں گیں فکر کی کوئی بات نہیں.. "

وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ لئے بولے۔


حسنین کی پیشانی پر شکنیں بڑھنے لگیں۔

وہ عدن کو لے کر گھر آ گیا۔

"میں نے کہا تھا نہ ضرورت نہیں جانے کی.. "

وہ بیڈ پر نیم دراز ہوتی ہوئی بولی۔


"لاسٹ ٹائم ڈرگ کب لئے تھے؟"

وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھتا ہوا بولا۔

ہاتھ میں عدن کی میڈیسن تھی۔

"مجھے یاد نہیں.. "

وہ لاپرواہی سے بولی۔


وہ بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔

"دیکھو جتنی میری زندگی ہے بس تب تک میرے ساتھ رہ لو تم... پھر آزاد ہو گے.. "

وہ بنا سوچے بولتی جا رہی تھی۔

"اپنا منہ بند رکھو.. "

وہ درشتی سے بولا۔


وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔

"پہلے یہ لو... پھر سو جاؤ آرام سے۔"

وہ گلاس اور دوائی اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔

"مجھے بلکل نہیں پسند..."

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"کسی کو بھی پسند نہیں ہوتی اب چپ کر کے کھاؤ ورنہ مار کر کھلاؤں گا... "

اس کا الگ ہی انداز تھا۔

وہ بری بری شکلیں بناتی کھانے لگی۔


"اب دودھ بھی پینا ہے.. "

وہ پانی کا گلاس اس کے ہاتھ سے لیتا ہوا بولا۔

عدن کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

"کیا ہوا؟"

وہ حیرتزدہ اسے دیکھنے لگا۔


"کچھ نہیں.. "

وہ آنکھیں رگڑتی ہوئی بولی۔

حسنین سمجھ چکا تھا۔

"میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہی ہوں.. "

وہ لیمپ کو گھورتا ہوا بولا۔


"کیسے؟"

وہ دونوں ہاتھوں سے گلاس تھامے اسے دیکھنے لگی۔

"یہی سوچ رہی ہو نہ کہ میں تمہارا خیال رکھ رہا ہوں... آج تک کسی نے ایسے تمہارا خیال نہیں رکھا... "

وہ جیسے اس کی آنکھیں پڑھ چکا تھا۔

عدن کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔


"تمہیں کیسے معلوم ہوا؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"رات بہت ہو گئی ہے جلدی کرو.. "

وہ اس کا سوال نظر انداز کرتا ہوا بولا۔


"آئی وش میں ہمیشہ بیمار رہوں اور تم ایسے ہی میرا خیال رکھو... "

وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ تڑپ کر اسے دیکھنے لگا۔

"تم پاگل ہو کیا؟"

آج اسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔


"تمہارے ناک سے خون بہہ رہا ہے؟"

وہ اس کے ناک سے نیچے انگلی لگاتا ہوا بولا۔

وہ ناک پر ہاتھ رکھتی اٹھ بیٹھی۔

جب ہاتھ ہٹایا تو وہ خون سے تر ہو چکا تھا۔


وہ کمبل پرے پھینکتی واش روم میں بھاگ گئی۔

حسنین کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

اسے عدن ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

وہ تولیے سے چہرہ خشک کرتی باہر نکلی۔


"پہلے کبھی ہوا ایسا؟"

وہ تفتیشی انداز میں بولا۔

"شاید ایک دو بار... "

وہ ہاتھ صاف کرتی ہوئی بولی۔


حسنین ہاتھ دھونے کی غرض سے واش روم میں چلا گیا۔

واپس آیا تو عدن لیٹ چکی تھی۔

"تم ٹھیک ہو؟ کہیں درد تو نہیں ہو رہا؟"

وہ اس کے پاس آتا ہوا بولا۔


"نہیں.. میں بلکل ٹھیک ہوں.. "

وہ حسنین کا ہاتھ پکڑتی ہلکا سا مسکرائی۔

وہ نگاہیں چراتا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"کیا تمہارے پاس بلکل بھی ٹائم نہیں میرے لیے؟"

وہ چھت کو گھورتی ہوئی بولی۔


حسنین کا ہاتھ ابھی تک اس کے نازک ہاتھ میں تھا۔

"کیوں؟ کیا کام ہے تمہیں؟"

وہ سیدھا انکار نہیں کر سکا۔

"زیادہ دور نہیں بس سمندر تک جانا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ.. "

وہ اپنے دل کی خواہش ظاہر کر رہی تھی۔


حسنین کی جانب سے مکمل خاموشی تھی وہ عدن کے قریب نہیں ہونا چاہتا تھا اس لیے کتراتا تھا۔

"کیا تم بھی مجھے بے مول کر دو گے؟"

وہ اتنا آہستہ بول رہی تھی کہ وہ بمشکل سن پایا۔


"سو جاؤ.. صبح بات کریں گے اس کے متعلق.. "

وہ اس کی آنکھوں پر دوسرا ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"اگر اس طرح سلاؤ گے تو ہمیشہ کے لئے سو جاؤں گی... "

وہ شرارت سے بولی۔


"اب تمہاری آواز سنائی نہ دے مجھے..."

وہ کرخت لہجے میں بولا۔

وہ مسکراتی ہوئی خاموش ہو گئی۔

اب کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔

عدن کی سانسوں کی آواز وہ بخوبی سن رہا تھا۔ وہ سو چکی تھی۔


حسنین نے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹایا اور دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالنے لگا۔

"تم معصوم ہو بہت... "

وہ اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا بڑبڑایا۔


"لیکن... "

وہ بولتا ہوا رک گیا۔

لائٹ آف کر کے وہ صوفے پر لیپ ٹاپ کے کر بیٹھ گیا۔

~~~~~~~~

"میرے کمرے میں کون آیا تھا؟ جواب دو.. "

وہ حلق کے بل چلایا۔

"سر کوئی بھی نہیں آیا یہاں تو... "

وہ گھبراتا ہوا بولا۔

"میری الماری کو کس نے کھولا تھا؟ جھوٹ بولنے کا سوچنا بھی مت.. "

وہ غراتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔


"سر آپ کا روم اسی دن لاک کر دیا تھا جس دن ایکسیڈنٹ کی خبر ملی تھی.. "

اسے گویا سولی پر لٹکا رکھا تھا۔

"پھر میرا جن ہوگا جو میرا سامان لے گیا یہاں سے... "

وہ چبا چبا کر بولتا اس کے منہ پر تھپڑ مار گیا۔


"سر قسم لے لیں مجھے کچھ نہیں معلوم..."

وہ آنسو بہاتا ہوا بولا۔

"پھر میرا سامان کہاں گیا؟ کس نے میری الماری سے چیزیں غائب کی ہیں؟"

وہ پاگلوں کی مانند آد کا گریبان پکڑے چلا رہا تھا۔

ملازم اب خاموش رہا۔


"دفع ہو جاؤ یہاں سے.. "

وہ اسے باہر دھکا دیتا ہوا دھاڑا۔

دروازہ لاک کر کے وہ ٹہلنے لگا۔

شاہد کی جان پر بن آئی تھی۔


"آخر تصویریں گئیں تو گئیں کہاں؟"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔

"ایسے کیسے کوئی بھی لے جا سکتا ہے؟ الماری لاک تھی..."

وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

"کیسے معلوم ہو گا کون منحوس لے گیا یہاں سے.. "

وہ مشتعل تھا۔


وہ کھڑکی میں کھڑا ملیحہ کو دیکھنے لگا جو اندر آ رہی تھی۔

"ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع... "

وہ جھنجھلا کر کہتا بال سیٹ کرنے لگا۔

"اب اسے نجانے کیا تکلیف آن پڑی ہے... "

وہ کوفت سے کہتا باہر نکل آیا۔


"ہاےُ ہنی! "

وہ کہتی ہوئی اس کے قریب آئی۔

"کیا کام ہے تمہیں؟"

وہ سینے پر بازو باندھے پیچھے ہٹ گیا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"کیا مطلب؟ میں بنا کام کے تم سے ملنے نہیں آ سکتی؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"فلحال میں بہت مصروف ہوں...بعد میں آنا۔"

وہ کھردرے پن سے بولا۔

"تم ایسے کیسے مجھ سے بات کر سکتے ہو؟"

وہ اپنی تذلیل پر تلملا اٹھی۔


"میرے پاس ٹائم نہیں... سمپل سی بات ہے پھر تم اتنا ری ایکٹ کیوں کر رہی ہو؟"

وہ طمانیت سے بولا۔


وہ اثبات میں سر ہلاتی واپس چل دی۔

"شکر ہے گئی... "

وہ کہتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔

~~~~~~~~

"مجھے نہیں کروانے ٹیسٹ... "

وہ نروٹھے پن سے بولی۔

"کیوں؟ وجہ؟ تم اپنی صحت کو لے کر اتنی لاپرواہ کیوں ہو گئی ہو؟"

وہ تھوڑی سے اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔


"بس ایسے ہی... دیکھو میں بلکل ٹھیک ہوں.. اب بخار بھی اتر گیا ہے۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی پیشانی پر رکھتی ہوئی بولی۔

" مجھے کچھ نہیں سننا چینج کرو ہم جا رہے ہیں.. "

وہ حکم صادر کرتا فون اٹھانے لگا۔


"مجھے نہیں جانا.. "

وہ منمنائی۔

"میں نے راےُ نہیں مانگی تمہاری.. "

خشک لہجے میں جواب آیا۔

ناچار اسے اٹھنا پڑا۔


"شام تک رپورٹس مل جائیں گے... اس کے بعد آپ ڈاکٹر کو چیک کروا سکتے ہیں۔"

وارڈ بواےُ انہیں دیکھتا ہوا بولا۔

"دیکھو میری بازو... "

عدن اسے اپنی بازو دکھانے لگی جہاں سے اس نے خون نکالا تھا۔


"سب کا ایسے ہی نکالتے ہیں.. "

اس نے ایک نظر بھی نہ ڈالی۔

"دیکھو کیسے ریڈ ہو رہی ہے... "

وہ بچوں کی مانند بول رہی تھی۔


"کچھ نہیں ہوآ تم مت دیکھو اسے... "

وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔

"میم ایک آٹوگراف پلیز... "

گندے سے کپڑے پہنے ایک بچہ عدن کے پاس آیا۔

"دور ہٹو... میرے کپڑے خراب کر دو گے تم۔"

وہ ہاتھ سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


حسنین پیشانی پر بل ڈالے اسے گھور رہا تھا۔

سامنے سے آتی گاڑی میں شاہد کو دیکھ کر وہ الجھ گیا۔

"گاڑی میں بیٹھو فوراً... "

وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا تحکم سے بولا۔

اگلے لمحے وہ گاڑی میں بیٹھی تھی۔


"سب ٹھیک ہے؟"

وہ اپنی قمیض کی آستین نیچے کرتی ہوئی بولی جو اوپر فولڈ کر رکھی تھی۔

"ہاں سب ٹھیک یے... "

وہ سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا۔


"تم اس بچے کو دیکھ کر ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہی تھی؟ کیا وہ انسان نہیں؟"

وہ سخت خفا تھا۔

"یہ بات نہیں ہے۔ تم نے دیکھا نہیں اس کے ہاتھ صاف نہیں تھے.. جراثیم وغیرہ... "

اس نے اپنا بچاؤ کرنا چاہا۔


"جس طرح تم انسان ہو باقی سب بھی انسان ہی ہیں۔شوبز نے تمہیں انسان کے درجے سے بلند نہیں کر دیا ٹی پی باقی سب کو کیڑے مکوڑے بنا دیا ہے۔ لیکن افسوس تم سب سمجھتے ایسا ہی ہو۔ خود کو کوئی دوسری مخلوق تصور کرتے ہو۔اپنی سوچ بدلو میں بھی بچپن میں ایسا ہی تھا۔ پھر مجھے بھی ایسے ہی کہا کرو... "

وہ اسے سمجھانا چاہتا تھا۔


وہ خاموش ہو گئی۔

کتنے ہی پل خاموشی سے بیت گئے جب عدن نے زبان کھولی۔

"تمہیں جاب نہیں ملی؟"

وہ جیسے اس کی پریشانی بھانپ گئی تھی۔


"مل جاےُ گی... "

جواب توقع کے برعکس تھا۔

"ایک بات پوچھوں؟"

اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔


"پوچھو.. "

نرمی سے جواب آیا۔

"تمہیں میرے ماضی سے کوئی مسئلہ تو نہیں؟"

وہ گھبراتی ہوئی بولی۔

"نہیں... "

وہ یو ٹرن لیتا ہوا بولا۔


"لیکن کیوں؟ تم اچھے سے جانتے ہو ہر چیز.. "

وہ زور دے کر بولی۔

"ہر انسان کا ماضی ہوتا ہے... اس کا مطلب یہ نہیں ہم اسے ماضی کی سزا دیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔

بہت سے لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں ان کا حال ان کے ماضی جیسا نہیں ہوتا... وہ بدل جاتے ہیں۔تو پھر ان غلطیوں کی سزا دینے کا کیا فائدہ جس سے وہ توبہ کر چکے ہیں.. "

بھاری گھمبیر لہجہ...عدن یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔


"مطلب میں اپنی غلطیاں سدھار لوں تو تم مجھے غلط نہیں کہو گے؟"

وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔

"بلکل.. اگر تم پھر سے وہی غلطیاں کرتی ہو تو پھر تم قابل اعتبار نہیں۔"

وہ صاف گوئی سے بولا۔


"اور میں کہاں کھڑی ہوں اب؟"

وہ نجانے کیا سننا چاہتی تھی۔

"پتہ نہیں.. "

پھر سے وہی سرد لہجہ۔


"تم گھر پر ہی رہنا اور دوائی ٹائم پر لینا میں کال کروں گا... اور گھر سے باہر نہیں نکلو گی اکیلی... "

وہ اس کی بازو پکڑ کر تاکید کرنے لگا۔

"ٹھیک ہے نہیں نکلوں گی اور اگر وہ گھر میں آ گیا پھر؟"

کسی خیال کے تحت اس نے پوچھا..


"اب نہیں آ سکتا..."

پر اعتماد سا انداز... اس کا دل پرسکون ہو گیا۔

"اوکے باےُ... "

وہ پورچ کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔


"ہاں آج تمہاری فیس بھر دوں گا میں... "

وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔

"امی ٹھیک ہیں؟"

وہ متفکر سا بولا۔


"جی بس.. اداس رہتی ہیں.. آپ کو یاد کرتی ہیں لیکن گھر آنے نہیں دیتیں۔"

وہ اداسی سے گویا ہوئی۔

"میں چکر لگاؤں گا دوبارہ... مان جائیں گیں۔"

وہ پر امید تھا۔


"ٹھیک یے بھائی میرا لیکچر ہے میں رکھتی ہوں.. "

"ہاں جاؤ تم.. "

اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔

"پتہ نہیں رپورٹس مثبت آتیں ہیں یا منفی...."

وہ سوچتا ہوا چلنے لگا۔

~~~~~~~~

"علی مجھے یہ سب نہیں پسند... غیر مرد مجھے چھو رہے تھے... اب کہاں ہے تمہاری غیرت؟"

وہ شوٹنگ سے آتی ہی چلانے لگی۔

"سائرہ اس فیلڈ میں ایسا ہی ہوتا ہے...تمہیں ابھی عادت نہیں اس لئے فیل ہو رہا ہے۔"

وہ نرمی سے سمجھانے لگا۔


وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"تم کیسے برداشت کر سکتے ہو یہ سب؟ مجھے کسی اور کی بانہوں میں بھیج کر تم کیسے پرسکون ہو؟"

وہ حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی۔


"اب تم واپس نہیں پلٹ سکتی..."

وہ سرد لہجے میں بولا۔

"تم کیوں مجھے آزمائش میں ڈال رہے ہو؟ میں کیا جواب دوں گی ﷲ کو؟ کیوں مجھے گنہگار بنا رہے ہو؟"

وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔

"اووہ پلیز یہ لیکچر مجھے مت دو... سب کر رہے ہیں تم اکیلی تو نہیں ہو.. "

وہ اکتا کر بولا۔


"سب مرنے جائیں تو میں بھی چلی جاؤں کیا؟"

وہ اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔

"سائرہ بس.. مزید کوئی بحث نہیں۔ تم خاموشی سے یہ کام کرو گی اور میں کچھ نہیں سنوں گا... میرے ساتھ رہنا ہے تو کرو یہ سب... "

وہ برہمی سے چلایا۔


وہ دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔

آنکھوں میں افسوس تھا۔

خود کو کھونے کا, خود کو برباد کرنے کا۔

~~~~~~~~~

"جو بات بتانی تھی وہ تو تم نے بتانے نہیں دی... "

وہ گیٹ میں کھڑا منہ بناتا ہوا بولا۔

منال نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ پھر بولنے کا ارادہ ترک کرتی اندر کی جانب قدم بڑھانے لگی۔


"آ جاؤ اندر.. "

وہ چلتی ہوےُ بولی۔

"جانتی ہو شاہد زندہ ہے... "

وہ سیدھا مدعے پر آیا۔

"کیا؟ لیکن کیسے؟"

اس نے گویا دھماکہ کیا۔


"تھوڑی سوشل رہا کرو تاکہ آس پاس کی خبر رہے یہ دیکھو.. "

وہ فون پر ویڈیو پلے کرتا ہوا بولا۔

"شہریار آفندی کا معلوم ہے نہ؟ یہ اس کے پیرنٹس کی اینیورسری کی ویڈیو ہے... جو کہ شاہد کے باعث لیک ہوئی یے۔"


وہ ایک نظر اسے دیکھتا اور ایک نظر اسکرین کو..

وہ غور سے اسکرین پر چلتے مناظر دیکھنے لگی۔

"عدن خان کا ایکس؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔


"ہاں... یہی بتانا تھا تمہیں اس دن۔"

وہ ویڈیو بند کرتا فون جیب میں ڈالنے لگا۔

"لیکن یہ تو مر گیا تھا؟"

وہ ابھی تک حیران تھی۔


"خدا جانے کوئی کہانی ڈالی ہو گی اس نے.."

وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔

"مجھے اس کے پاس لے جاؤ.. مجھے ملنا ہے اس سے,, اپنی ماما کا حساب لینا ہے۔"

وہ برستی آنکھوں سے بول رہی تھی۔


"پہلی بات...تم ایسے بدلہ لو گی؟ روتے ہوۓ واؤ زبردست.. اور دوسری بات وہ معمولی انسان نہیں ہے تم بھی جانتی ہو ان ایکٹرز کے دماغ ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں سو ملاقات بہت مشکل ہے...

تیسری بات, وہ تمہیں جانتا ہے سو کبھی نہیں ملے گا تم سے..

چوتھی اور آخری بات.. اس سے ملنا خطرناک ہے, اگر وہ تمہاری ماما کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے تو..."

وہ منال کو دیکھتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ گیا۔


"تو پھر؟ ساری زندگی میں ایسے ہی گزار دوں؟ نہ مجھے ماضی کے متعلق کچھ معلوم ہے..."

وہ جھنجھلا کر بولی۔

وہ پرسوچ دکھائی دے رہا تھا۔


"کیا سوچ رہے ہو تم.. پلیز کچھ بھی کر کے مجھے اس سے ملوا دو.. ایک بار میں پوچھنا چاہتی ہوں اس سے آخر حقیقت کیا ہے؟"

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔


"کچھ کھلا پلا بھی دیا کرو.... ایسے ہی شروع ہو جاتی ہو. "

وہ منہ بسورتا ہوا بولا۔

"میں تم سے اتنے سنجیدہ ٹاپک پر بات کر رہی ہوں اور تمہیں کھانے کی پڑی ہے... "

وہ اسے کشن مارتی ہوئی بولی جسے اس نے مہارت سے کیچ کر لیا۔


"ہاں تو خالی پیٹ تو ویسے کچھ سمجھ نہیں آتا... اور جہاں اتنا کیا تمہارے لئے تھوڑا اور سہی.. "

وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا۔

"احسان نہیں کر رہے مجھ پر.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"کبھی نہ ماننا تم.. اچھا چلو ایک گلاس پانی پلا دو بس... مجھے کام سے جانا ہے۔"

وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

"ایک بات بتاؤ تم یتیم خانے سے آےُ ہو؟"

وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔


"اب تم زیادہ پھیل رہی ہو...یہ میری ڈریسنگ تمہیں کس اینگل سے یتیم خانے کی لگتی یے؟"

وہ برا مان گیا۔

"اوہ... "

وہ اثبات میں گردن ہلاتی باہر نکل گئی۔


"اب کیسے شاہد سے ملا جاےُ؟"

وہ منہ پر انگلی رکھتا سوچنے لگا۔

"ملاقات ہو جاےُ گی تو سمجھو تمہارا مسئلہ حل اور میرا کام ختم... "

وہ فون نکال کر میل چیک کرنے لگا۔


"یہ لو.. "

وہ ٹرے میں جوس کا گلاس رکھے سامنے آئی۔

"میں نے پانی کہا تھا..."

وہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔

"تو اس کا مطلب یہ نہیں میں پانی لے آتی.. اٹھاؤ اب۔"

وہ خفگی سے بولی۔


"لیکن مجھے پھر بھی پانی چائیے۔"

وہ گلاس میز پر رکھتا ہوا بولا۔

"اوکے میں لاتی ہوں.. "

وہ کہتی ہوئی پھر سے چلی گئی۔


"پھر کب تک یہ کام کرو گے؟"

وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

آج وہ سکن کلر کی شلوار قمیص کے ساتھ سکن کلر کا حجاب لئے ہوۓ تھی۔

چہرہ ہمیشہ کی مانند فریش تھا۔

وہ آبرو اچکاتی اسے دیکھ رہی تھی۔


"کرتا ہوں کچھ... شاید کچھ دن تک بات بن جاےُ.. "

وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ رہا تھا۔

"اچھا ٹھیک ہے... "

وہ آہستہ سے بولی۔


"میں چلتا ہوں اب.. "

وہ اسے دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

منال خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔

وہ ایک نظر اسے دیکھ کر باہر نکل گیا۔

~~~~~~~~~

"عدن خان کو یہ والی رپورٹ نہیں دینی... یہ جو میں نے بنائی ہے یہ دینی ہے۔"

وہ شیطانی مسکراہٹ لئے بولی۔

"لیکن کیوں؟ یہ تو غلط رپورٹ ہے؟"

وہ حیرت سے بولا۔


"میں کہہ رہی ہوں نہ... یہ رہے پیسے۔ اب اپنا منہ بند رکھو۔ میڈم کی طرف سے آڈر آیا ہے... "

وہ چہرے پر سختی طاری کئے ہوۓ تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے پھر... "

وہ رقم دیکھتا ہوا بولا۔


"ڈاکٹر یہ رپورٹس ہیں عدن کی.. کوئی مسئلہ تو نہیں اسے؟"

حسنین لب کاٹتا انہیں دیکھنے لگا۔

"رپورٹس تو کلئیر ہیں... انہیں کہیں ڈرگز کا استعمال بند کر دیں۔ باقی پریشانی والی کوئی بات نہیں.. "

وہ رپورٹس دیکھتے ہوۓ بول رہے تھے۔


"لیکن رات کو اس کے ناک سے خون بہہ رہا تھا... مجھے وہ ٹھیک نہیں لگ رہی.. "

وہ اپنی فکر چھپا نہ سکا۔

"انہیں کہیں اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھیں.. میں آپ کو بیسٹ نیوٹریشن ریکمینڈ کر دیتا ہوں...وہ ٹھیک ہو جائیں گیں۔"

وہ ہلکا سا مسکراےُ۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔


نجانے کیوں وہ مطمئن نہیں ہوا تھا۔

"کیا کہا ڈاکٹر نے؟"

عدن اسے دیکھتی ہوئی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔

"ٹینشن والی کوئی بات نہیں... "

وہ رپورٹس الماری میں رکھتا ہوا بولا۔


"میں نے تو تمہیں کہا تھا تم ہی... "

"تم نے کھانا کھایا؟"

وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔

"ہا.. نہیں.. "

وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔


"بہت شوق ہے تمہیں بیمار پڑنے کا؟ میں دن رات تمہارے آگے پیچھے گھومتا رہوں بس.."

وہ یکدم غصے میں آ گیا۔

"میں نے ایسا کیا کر دیا جو تم اتنا غصہ ہو رہے ہو؟ مجھے بھوک نہیں تھی اس لئے نہیں کھایا... "

وہ سادگی سے بولی۔

وہ چہرہ موڑ کر ضبط کرنے لگا۔


"اور میں نے تمہیں نہیں کہا کہ میرے آگے پیچھے رہو.. تم اپنے کام کر سکتے ہو... میں خود اپنا خیال رکھ لوں گی جیسے پہلے رکھتی تھی۔"

وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولی۔

اسے برا لگا تھا۔


"عدن کیسی ہو تم؟"

علی صاحب اندر آتے ہوۓ بولے۔

حسنین خاموشی سے باہر نکل گیا۔

عدن کی نگاہیں اس کے تعاقب میں حرکت کر رہی تھیں جونہی وہ اوجھل ہوا وہ علی صاحب کو دیکھنے لگی۔


"جی ڈیڈ ٹھیک ہوں.. "

وہ سپاٹ چہرہ لئے بولی۔

"طبیعت زیادہ خراب تھی تو مجھے کیوں نہیں بتایا؟"

وہ خفگی سے بولے۔

"آپ کو کہاں فرق پڑتا ہے... "

وہ انہیں دیکھ نہیں رہی تھی۔


"میرا بچہ مجھے نہیں فرق پڑے گا تو اور کسے پڑے گا؟"

وہ اسے ساتھ لگاتے ہوۓ بولے۔

"ایک غلط فیصلہ تم نے لے لیا اب تم انڈسٹری جوائن کر لو بس... اسی وجہ سے تم بیمار ہوئی ہے۔ اپنی پہلے روٹین میں واپس آ جاؤ.. "

وہ نرمی سے بول رہے تھے۔


"ڈیڈ میں چھوڑ چکی ہوں.. "

وہ زور دے کر بولی۔

"ہمیشہ کے لیے؟"

وہ آبرو اٹھا کر بولے۔


"جی ہمیشہ کے لئے... "

وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔

"بیوقوف ہو تم... اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہی ہو... اب جب تم آسمان کو چھونے والی تھی تو چھوڑ رہی ہو۔ وہ تمہارا شوہر کیسے تمہاری ضروریات پوری کرے گا؟ بتاؤ مجھے؟"

وہ برہم ہو گئے۔


"سب ہو جاےُ گا ڈیڈ... لیکن میں خوش ہوں ایسے ہی... "

وہ منہ پھیرتی ہوئی بولی۔

"انتہائی غلط فیصلے لئے ہیں تم نے... "

وہ بلند آواز میں کہتے کھڑے ہو گئے۔

عدن بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگی۔


"مجھے لگا تھا آپ ہر قدم پر میرے ساتھ رہیں گے لیکن میں غلط تھی شاید... "

وہ کرب سے بولی۔

"تمہاری غلطیوں میں,میں شامل نہیں ہونا چاہتا.. ایک بار پھر کہہ رہا ہوں یہ غلطی مت کرو اپنا کام جاری رکھو.. "

وہ کہتے ہوۓ باہر نکل گئے۔


"سب نا خوش ہیں مجھ سے... "

وہ آہستہ سے بولی۔

اس کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔

اشک ٹوٹنے کو بےتاب تھے۔


"کیا زندگی میں سکون میسر نہیں آےُ گا؟"

وہ سامنے دیکھتی ہوئی بولی۔

"اب یہ کمر درد نجانے کیوں شروع ہو گیا ہے؟"

وہ منہ میں بڑبڑائی۔


حسنین کمرے میں آ کر اس کی دوائیاں چیک کرنے لگا۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں میرا کام کرنے کی.. "

عدن اس کے ہاتھ سے دوائی نیچے پھینکتی ہوئی چلائی۔

"تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں... "

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"ہاں خراب ہے میرا دماغ... اور تمہارا تو بہت درست ہے نہ؟"

بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔

حسنین نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو آنسوؤں پر بندھ باندھنے میں ہلکان ہو رہی تھی۔

"نماز پڑھ لینا... "

وہ دوائی سائیڈ ٹیبل پر رکھتا باہر نکل گیا۔


اس کے نکلتے ہی عدن پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کاش تم میرے ساتھ اچھے ہو جاؤ... تو شاید مجھے بھی زندگی خوبصورت لگنے لگے۔ ایسا لگتا ہے کچھ بھی اچھا نہیں ہے سب بیکار اور فضول ہے۔"

وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔


شاید وہ جانتا تھا اس سے زیادہ وہ برداشت نہیں کر سکتی اسی لئے چلا گیا تاکہ اس کے آنسو نہ دیکھ سکے۔

اس کی نظر گھڑی پر پڑی تو بیڈ سے اتر آئی۔

"وہ نماز کا بول کر گیا ہے.. "

وہ بولتی ہوئی دوپٹہ اٹھانے لگی۔


اس کے لئے جیسے اس کے حکم کی تعمیل کرنا فرض تھا۔

اس کی لاکھ بے رخی کے باوجود وہ خود کو روک نہیں پاتی تھی۔ دل دم بخود اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔

وہ سلام پھیر کر مصلے کو گھورنے لگی۔

"پتہ نہیں میں نے ٹھیک پڑھی بھی ہے یا نہیں... "

وہ لب کاٹتی سوچنے لگی۔


دعا کے لیے ہاتھ اٹھاےُ لیکن لب نہیں کھولے۔

شاید کچھ تھا ہی نہیں مانگنے کو۔

"ہاں...سب کہتے ہیں کہ دعائیں قبول ہوتیں ہیں میں نے کبھی دعا نہیں مانگی تھی اور جب ثمن کے لئے مانگی تو آپ نے قبول نہیں کی۔ لیکن آج پھر بھی میں دعا کرتی ہوں کہ حسنین مجھے کبھی نہ چھوڑے.. وہ میرے ساتھ نرمی سے بات کیا کرے.. "

بولتے بولتے دو موتی اس کے رخسار پر آ گرے۔


قدموں کی آہٹ پر وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی کھڑی ہو گئی۔

"میں اپنا والٹ بھول گیا تھا... "

وہ والٹ اٹھاتا ہوا بولا۔

"جانتے ہو تم نے ہمیشہ مجھے آنسو دئیے ہیں..کبھی خوشی نہیں دی... کیا تمہیں اچھا لگتا ہے مجھے تکلیف دینا؟"

وہ اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا۔


"یہ تمہارا فیصلہ تھا.. "

وہ اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔

"تو اس کی سزا تم ساری زندگی دو گے مجھے؟"

ضبط کے باوجود آنسو بہنے لگے۔


"یہ تمہارا انتخاب ہے اور میں ایسا ہی ہوں.."

وہ بےبسی سے بولا۔

وہ خاموش ہو گئی۔ شاید الفاظ دم توڑ گئے تھے۔

حسنین ایک نظر اس کے سراپے پر ڈالتا باہر نکل گیا۔


اس کے دور ہوتے ہی آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔

وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔

"لاحاصل کے پیچھے بھاگنا بے سود ہے... تم نے کہا تھا۔ تو کیا تم بھی لا حاصل ہو؟ میں کبھی تمہیں حاصل نہیں کر پاؤں گی؟"

وہ خالی دروازے کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔


سر بھاری ہو رہا تھا۔

اس نے میز پر سر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔

اسے سکون کی طلب تھی شاید نیند جسے لوگ آدھی موت بھی کہتے ہیں اسی کے ذریعے کچھ راحت مل جاتی۔

~~~~~~~~

"تم انڈیا میں؟ کیسے؟"

ساحل بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"خوش نہیں ہوۓ تم... "

وہ اس کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔


"خوش تو ہوں لیکن حیران بھی.."

وہ اس کے سر پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

"گیس واٹ؟"

وہ پرجوش تھی۔

"واٹ؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"میں فلم کی شوٹنگ کے لئے آئی ہوں... "

چہرے پر ایک نہ ختم ہونے والی مسکراہٹ تھی۔

"امیزنگ.. آؤ اندر چل کر بات کرتے ہیں.. "

وہ اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔

"کتنا مس کیا تم نے مجھے؟"

وہ اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔


"تم سے زیادہ... "

وہ اس کے بال بکھیرتا ہوا بولا۔

"ابھی آئی ہو؟"

وہ کچن کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

"نہیں ایک ہفتہ ہونے والا ہے... "

وہ اس کے عقب میں چلتی ہوئی بولی۔


"اور تم آج آ رہی ہو یہاں؟"

وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔

"کیا کرتی آتے ہی شوٹنگ سٹارٹ ہو گئی۔ بلکل بھی ٹائم نہیں تھا سوری... "

وہ دونوں کان پکڑتی ہوئی بولی۔

وہ آنکھوں میں خفگی لئے چلنے لگا۔


"کافی پیو گی؟"

وہ فریج کھولے کھڑا تھا۔

"تم بناؤ گے تو ضرور... "

وہ شیلف کے ساتھ ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔

وہ ہلکا سا مسکرایا۔


"یہ دیکھو.. "

وہ فون لئے اس کے پاس آ گئی۔

ساحل نے اس کے گرد بازو رکھ کر اسے مزید اپنے قریب کر لیا۔

"مانوو کے ساتھ کام کر رہی ہو تم؟"

وہ رومانٹک سین دیکھتا ہوا بولا۔


"ہاں... "

وہ اسکرین کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"اب تو تم کام شروع کر چکی ہو لیکن نیکسٹ اس کے ساتھ کام نہیں کرو گی۔"

وہ اس کے بال سنوارتا ہوا بولا۔

"کیوں؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔


"اچھا نہیں ہے یہ... نہ ہی مجھے پسند ہے۔ اس سے دور رہنا تم۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"اور یہ مووی؟ پاکستان والوں نے تمہیں واپس نہیں آنے دینا.. دیکھو تو تمہاری ساڑھی۔"

اسے جلن ہو رہی تھی۔


"جانتی ہوں... لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا۔ لوگ کچھ بھی کہہ لیں۔ ویسے بھی دو دن بعد خود ہی چپ ہو جائیں گے... جنہیں زیادہ تکلیف ہے وہ یہ سین نہ دیکھیں۔"

وہ لاپرواہی سے بولی۔

ساحل نے کوئی جواب نہیں دیا۔


"تم ناراض ہو؟"

اسے یہ خاموشی اچھی نہیں لگی۔

"نہیں بس اچھا نہیں لگا.."

وہ آہستہ سے بولا۔

"میں سب سے پہلے تمہارے پاس ہی آنا چاہتی تھی لیکن... "

"لیکن تم نہیں آئی... "

وہ اسے ٹوکتا ہوا بولا۔


آنکھیں سرد تاثر لئے ہوۓ تھیں۔

"آئم سوری.. "

وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتی ہوئی بولی۔

"اب کیا فائدہ؟"

وہ ہرٹ ہوا تھا۔


"تم کہو گے تو یہ فلم چھوڑ دوں گی.. "

اس کی جیسے جان پر بن آئی۔

"کر لو گی؟"

وہ آزمانے لگا۔

"تم کہہ کر تو دیکھو.. "

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔


"ٹھیک ہے پھر چھوڑ دو... "

ابھی امتحان ختم نہیں ہوا تھا۔

"تم نے کہا اور میں نے چھوڑ دیا.. "

وہ اس کے کان کے قریب ہونٹ لاتی سرگوشی کرنے لگی۔

ساحل کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

وہ اس کے رخسار پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتی پیچھے ہو گئی۔


"بتاؤ کیسی بنی ہے؟"

وہ مگ اس کی جانب کرتا ہوا بولا۔

"تم نے بنائی ہے سو میرے لئے تو بہت سپیشل ہے... "

وہ دونوں ہاتھوں سے مگ تھامتی ہوئی بولی۔

ساحل کے چہرے ہر دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔

"آؤ.. "

وہ باہر نکلتا ہوا بولا۔


وہ اس وقت شرٹ کے ساتھ منی جینز پہنے ہوۓ تھی۔ بال کھول کر شانوں پر ڈال رکھے تھے۔

نشاء مسکراتی ہوئی اس کے پیچھے چل دی۔

~~~~~~~~~

"میں جانتا ہوں اسے سکون کی ضرورت ہے اور وہ اپنا سکون مجھ میں تلاش کر رہی ہے... جو کہ غلط ہے۔ میں نہیں چاہتا وہ میری ایڈیکٹ ہو جاےُ... "

وہ بےبسی سے بولا۔

"لیکن تم جانتے ہو وہ اس وقت ذہنی دباؤ کا شکار ہے... "

وہی زنانہ آواز گونجی۔


"وہ کہتی میں اسے آنسو دیتا ہوں.. "

وہ تکلیف سے آنکھیں میچ کر بولا۔

اسے جیسے برا لگا تھا۔

"تو تم اسے خوشیاں دو... آخر کب تک وہ خود سے لڑتی رہے گی؟ تمہیں ترس نہیں آتا اس پر؟"

وہ کرب سے استفسار کر رہی تھی۔


"لیکن آپ سمجھ نہیں رہیں... میں وقتی خوشی کے لئے اسے برباد نہیں کر سکتا۔ وہ چاہتی ہے ہر لمحہ کوئی اس کا خیال رکھنے والا اس کی فکر کرنے والا اس کے پاس ہو.. کچھ لوگ محبت کے بھوکے ہوتے ہیں اسے بھی محبت کی طلب ہے... "

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"لیکن میرے خیال میں وہ ابھی بھی برباد ہی ہو رہی یے... "

وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔

"میں اسے اذیت سے بچانا چاہتا ہوں.. آج کی خوشی اسے میرا عادی بنا دے گی.. ابھی میں زیادہ وقت نہیں دیتا اسے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے.. سوچیں جب میں اس کے ساتھ وقت گزاروں گا پھر کیا ہو گا؟ ابھی وہ میرے بغیر رہ لے گی لیکن تب... تب اس کے لئے ناممکن ہو گا۔ اسے نشے کی لت ہے مجھے بھی وہ نشہ بنانا چاہتی ہے۔"

وہ دکھ سے بول رہا تھا۔


"تو تم بن جاؤ... محرم ہے وہ تمہاری اور تم اس کے... "

مدھم سی آواز گونجی۔

"آپ مجھے ظالم سمجھتی ہیں؟"

وہ برا مان گیا۔


"اتنا مت آزماؤ اس کا ضبط۔ تم اس کا سہارا بنو گے تو وہ سب سیکھ جاےُ گی..."

وہ بس اتنا ہی بول پائی۔

وہ سوچتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

مزید نہ حسنین نے کچھ کہا نہ مقابل نے۔

وہ گہری سوچ میں ڈوبا وہاں سے نکل آیا۔


وہ کمرے میں آیا تو نگاہ عدن پر پڑی جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاےُ بیٹھی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"تم سوئی کیوں نہیں؟"

وہ حیران ہوا۔


"تمہارا انتظار کر رہی تھی.. "

وہ مدھم سا مسکرائی۔

"کیا میں نے تمہیں کہا؟"

وہ جیب سے فون اور والٹ نکالتا ہوا بولا۔

"نہیں بس ایسے ہی... "

وہ جیسے بتانا نہیں چاہتی تھی۔


"آؤ چلیں.. "

وہ اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

"کہاں؟"

وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔


"تم ایسے ہی چل سکتی ہو نہ؟"

وہ اس کے رف سے حلیے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"ہاں لیکن جانا کہاں ہے؟ اور تم نے کہا تھا میں باہر ایسے کپڑے نہ پہنوں تو مجھے چینج کرنا پڑے گا... "

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔


"جہاں جانا یے وہاں صرف ہم دونوں ہوں گے تو تم ایسے چل سکتی ہو.. اب بتاؤ؟"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

عدن کی نازک کلائی ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔


"ٹھیک ہے پھر ایسے ہی چلو.. "

وہ سلیپر میں پاؤں ڈالتی ہوئی چہکی۔

خوشی کتنی تھی یہ تو اس کے چہرے سے عیاں تھی۔


"ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟ لانگ ڈرائیو پر؟"

وہ پرجوش تھی۔

حسنین سٹیرنگ پر ہاتھ رکھتا اسے دیکھنے لگا۔

"سرپرائز ہے.. "

وہ ہولے سے بولا۔

"اووہ آئی لو سرپرائیز... "

وہ آنکھیں جھپکاتی ہوئی بولی۔

وہ سامنے دیکھتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔


آدھ کھلی کھڑکی سے سرد ہوا کے جھونکے اندر آتے عدن کے چہرے پر بوسے دے رہے تھے۔

حسنین نے ایک نظر اس پر ڈال کر شیشہ اوپر کر دیا۔

"بند کیوں کر دیا؟"

وہ چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔


"بیمار پڑ جاؤ گی... "

لہجے میں فکر نمایاں تھی۔

چند لمحے وہ کچھ بول نہ پائی۔

"کیا یہ خواب ابھی ٹوٹ جاےُ گا؟"

اس کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔

حسنین نے تعجب سے اسے دیکھا مانو سمجھ نہ سکا ہو۔


"اب ڈر لگتا ہے خوشیوں سے.. کیونکہ چند پل کی خوشیاں گہرے دکھ دے جاتی ہیں۔"

وہ نہایت سنجیدگی سے بولی رہی تھی۔

"ایسا کچھ نہیں ہوگا.. "

وہ ہلکا سا مسکرایا۔


"اوہ مائی گاڈ... میں نے تمہیں پہلی بار سمائل کرتے دیکھا ہے۔"

وہ منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔

"اب ایسی بھی بات نہیں.. "

وہ برا مان گیا۔


"سچ کہہ رہی ہوں تم میرے سامنے پہلی بار مسکراےُ ہو.. "

وہ اس کی جانب گھوم چکی تھی۔

"اچھا ہو سکتا ہے... "

اس نے گویا بات ختم کی۔


"یہ تو شہری کا..."

وہ سامنے دیکھتی حسنین کو دیکھنے لگی۔

"ہاں یہ شہری کا فارم ہاؤس ہے... چلو اندر چلیں۔"

وہ جیب سے چابیاں نکالتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

وہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی۔


اسے سچ میں خواب کا گمان ہو رہا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔

حسنین کی پیروی کرتی وہ وہیں رک گئی۔

نگاہوں کے سامنے سمندر تھا۔

سمندر کی لہریں شور برپا کرتیں ان کے پیروں کو چھو رہی تھیں۔


ایک ایسا ہی ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کے اندر تھا۔

آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

اس نے یہی ایک خواہش کی تھی اور آج پوری ہو گئی تھی۔ کچھ دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔


"تم وہاں کیوں رک گئی؟"

وہ سمندر سے نظریں ہٹاتا ہوا بولا۔

وہ اس کے پاس آ گئی۔

"مجھے یقین نہیں آ رہا.. پلیز مجھے یقین دلاؤ یہ خواب نہیں ہے۔"

وہ سرگوشیوں میں بول رہی تھی۔


حسنین کو اس پر ترس آنے لگا۔

وہ کیا تھی یہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

"آؤ بیٹھتے ہیں.. "

وہ بینچ کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ دونوں بینچ پر بیٹھ چکے تھے۔


سمندر کی لہریں آتیں اور ان کے پاؤں سے ٹکرا کر واپس چلی جاتیں۔

فلک کی سیاہ چادر پر مہتاب پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔ وہ تنہا نہیں تھا بلکہ عدن کی مانند.. ڈھیروں ستارے اس کے پاس ٹمٹما رہے تھے۔

یہ منظر قابل دید تھا اور عدن کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔


"جانتے ہو آج میں نے نماز پڑھی.. "

اس نے گفتگو کا آغاز کیا۔

"پھر کیسا محسوس ہوا تمہیں؟"

دونوں کی نگاہیں سمندر پر تھیں۔ جو اس وقت رات کے اندھیرے میں سیاہ دکھائی دے رہا تھا۔


"اچھا لگا... "

وہ یہ نہیں بتا سکی کہ اس کی خاطر وہ بےچین تھی۔

اس لمحے وہ پرسکون تھی۔

اسے دعاؤں کی قبولیت پر یقین آ گیا تھا۔


"تم باقی سب کی طرح مجھ سے دور تو نہیں جاؤ گے؟"

نجانے کیوں وہ یہ سوال کر بیٹھتی۔

"میں نے وعدہ کیا ہے.. اور میں اپنے وعدے نبھانا جانتا ہوں۔"

وہ جتانے والے انداز میں بولا۔


عدن نے دائیں ہاتھ سے حسنین کا بائیاں ہاتھ تھام لیا۔

"عدن بھی اپنا ہر وعدہ نبھاےُ گی.. تم میرے لئے سب سے خاص ہو۔"

وہ اسے اس کی اہمیت بتانا چاہتی تھی جو وہ پہلے سے جانتا تھا۔


حسنین نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس نے خاموشی کو بولنے کا موقع دیا۔

عدن نے اس کے شانے پر سر رکھ لیا۔

وہ ایسا نہیں چاہتا تھا لیکن مجبور تھا۔

وہی ہو رہا تھا جس سے وہ بچنا چاہتا تھا۔


وہ سانس خارج کرتا اپنی سوچوں کو جھٹکنے لگا۔

چند پل بیتے ہوں گے کہ عدن کی سانسوں کی آواز سنائی دینے لگی۔

اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھنا چاہا جو نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔


حسنین کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

اب اسے صبح تک ایسے ہی بیٹھے رہنا تھا۔

"چلو کوئی نہیں.. تمہارے لئے آج اتنا کر لیتا ہوں.. "

وہ سامنے دیکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~~

وہ مرے مرے قدم اٹھاتی کمرے میں آ گئی۔

توقع کے عین مطابق علی موجود نہیں تھا۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھری تھیں۔

وہ ہچکیاں لیتی زمین پر بیٹھ گئی۔

وہ بار بار اپنے بازو رگڑ رہی تھی۔


آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے۔

وہ بازو پر ہاتھ پھیرتی اسے صاف کرنے لگی جبکہ اس کی بازو بلکل صاف تھی نجانے کون سی میل تھی جو وہ اتارنا چاہ رہی تھی۔

اسے خود سے کراہیت محسوس ہو رہی تھی۔


"میں کیسے یہ سب کر لوں؟ مجھے خود سے نفرت ہو رہی ہے جب وہ مجھے چھو رہا تھا... ایسا لگ رہا ہے ابھی بھی اس کے ہاتھ میرے بازو پر ہیں.. یہ صاف کیوں نہیں ہو رہے؟"

وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی۔


"میں اتنی بری نہیں ہوں.. پھر کیوں مجھے برا بنایا جا رہا ہے.. "

وہ کبھی دائیں بازو صاف کرتی تو کبھی بائیں بازو...

اس نے دوپٹہ گلے سے نکال کر دور پھینک دیا۔


"لعنت ہو تم پر سائزہ لعنت ہو... "

وہ خود کو لعن طعن کرنے لگی۔

"علی میں کبھی فراموش نہیں کروں گی جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو... یہ دن کبھی نہیں مٹے گیں... تم نے مجھے مار دیا۔ چند پیسوں کے عوض تم نے مجھے ختم کر دیا۔ نیلام کر دیا سب کے سامنے... "

وہ زاروقطار رو رہی تھی۔


"کیسے میں بابا کے پاس جا کر کہوں کہ تم مجھ سے یہ سب کروا رہے ہو؟ کس منہ سے وہاں جاؤں جہاں میں دعوا کر کے آئی تھی کہ تم دنیا کے سب سے اچھے انسان ہو؟ کیسے انہیں بتاؤں کہ یہی انسان مجھے سولی پر لٹکا رہا ہے... "

رات کے اس پہر وہ تنہا بلک رہی تھی۔

اس کی آہ و بکا سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔


"میرے مالک کوئی راستہ نکال دے... مجھے اس ذلت اس رسوائی سے نجات دلا دے۔ میں یہ غلط کام نہیں کرنا چاہتی مجھے نکال دے اس سب سے... "

وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

~~~~~~~~~

طلوع آفتاب کا وقت تھا۔

سورج بادلوں کی اوٹ سے نمودار ہو رہا تھا۔

سرد, تازہ ہوا کے جھونکے ان سے ٹکرا رہے تھے۔

سمندر کی لہریں اب کچھ سکوت میں دکھائی دے رہی تھی۔ رات والا منظر کچھ مختلف تھا۔

لہریں اب ان کے پیروں تک رسائی حاصل نہیں کر رہی تھیں۔ بہاؤ کم ہو گیا تھا۔


عدن جمائی لیتی آنکھیں کھولنے لگی۔

نگاہوں کے سامنے شفاف نیلگوں پانی تھا۔

اس کے لب مسکرانے لگے۔

جونہی اسے احساس ہوا کہ اس کا سر حسنین کے شانے پر ہے وہ سیدھی ہو گئی۔

حسنین چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔


"میں یہیں سو گئی؟ تم سوےُ نہیں؟ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟"

وہ آنکھیں پھیلاےُ سوال کرتی جا رہی تھی۔

"تمہیں یہ منظر پسند ہے تو میں نے سوچا تمہاری آنکھ کھلے تو سامنے یہی منظر ہو.. "

وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔


"لیکن تم پوری رات نہیں سوےُ... مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔"

وہ انگلی دانتوں تلے دباےُ اسے دیکھ رہی تھی۔

"کوئی بات نہیں.. "

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔


"تم اتنے اچھے ہو؟ یا پھر؟"

وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"تم ہمیشہ آگے کا کیوں سوچنے بیٹھ جاتی ہو؟"

وہ آبرو اٹھا کر بولا۔

"ڈر لگتا ہے خود سے... "

وہ سر جھکا کر بولی۔


"اب تم یہیں پر رکو مجھے تمہاری میڈیسن لانی ہے... "

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"تم دوبارہ یہاں آؤ گے؟ نہیں رہنے دو میں بھی ساتھ چلتی ہوں.. میرے لئے یہ پل ہی بہت ہیں۔"

وہ مسرت سے کہتی کھڑی ہو گئی۔

حسنین بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں بلا کا سکون تھا۔


"ٹھیک ہے چلو.. "

وہ جیب سے چابی نکالتا ہوا بولا۔

"آج میں ڈرائیو کروں؟"

وہ اس کے سامنے آ کر بولی۔

"کیوں؟"

اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"ایسے ہی دل کر رہا ہے... جب سے تم آےُ ہو مجھے ڈرائیو کرنے ہی نہیں دیتے۔"

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"یہ لو.. "


وہ چابی اس کے ہاتھ پر رکھتا فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

وہ مسکراتی ہوئی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔

~~~~~~~~~

"پاپا آپ آج بھی جائیں گے؟"

منال ناشتہ کرتی ہوئی انہیں دیکھنے لگی۔

"ہاں بیٹا ایک دوست کا کیس ہے اسے جلد از جلد ختم کرنا ہے... اس لئے آج بھی جانا پڑے گا۔"

وہ تاسف سے بولے۔

منال مایوسی سے اپنی پلیٹ میں چمچ ہلانے لگی۔


"آپ کو کوئی کام تھا؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔

"نہیں بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔"

وہ فیصل صاحب کی بزی روٹین سے واقف تھی۔ چھٹی کا دن بھی ان کے کولیگ اور کلائنٹس کے ساتھ گزر جاتا۔

جتنی توجہ وہ چاہتی تھی اتنی توجہ اسے ملتی نہیں تھی۔


"میں کمرے میں جا رہی ہوں... "

وہ بنا کچھ کھاےُ کھڑی ہو گئی۔

"لیکن ناشتہ تو کر لو پہلے... "

انہوں نے اسے ٹوکا۔

"بعد میں کر لوں گی ابھی دل نہیں چاہ رہا۔"

وہ بیزاری سے کہتی چل دی۔


وہ سرد آہ بھرتے اس کی پشت کو دیکھنے لگے۔

وہ کمرے میں جانے کی بجاےُ کچن میں آ گئی۔

پانی پینے کی غرض سے فریج کھول کر کھڑی ہو گئی۔

"ہاتھی کا گوشت مت بنا دینا اب۔"

انیب کی آواز باز گشت کر رہی تھی۔


"کتنا پاگل ہے وہ... "

وہ مسکرا کر تبصرہ کرنے لگی۔

"عقل تو جیسے سرے سے موجود ہی نہیں.. کام نجانے کیسے کر لیتا ہے۔"

اس کی سوچ منتشر ہو کر انیب کے گرد گردش کرنے لگی تھی۔


"پاگل ہے پورا... "

وہ اس کی حماقتیں یاد کرتی مسکرانے لگی۔

"اوہ منال تم اس پاگل کو کیوں سوچ رہی ہو؟"

اس نے خود کو سرزنش کی۔


"میرا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے جو اس کے متعلق سوچ رہی ہوں... ویسے دوبارہ آیا نہیں وہ۔"

وہ عقبی لان کی جانب چلتی ہوئی بولی۔

"پتہ نہیں کیا کر رہا ہو گا... کچھ کیا بھی ہو گا یا نہیں.. "

وہ لب کاٹتی سوچنے لگی۔


"کال کر کے پوچھوں؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔

"اگر کچھ معلوم ہوتا تو وہ خود پہنچ جاتا۔ رہنے دیتی ہوں.. پھر فری ہونے لگے گا۔"

وہ منہ بسورتی سلیپر اتار کر نرم گھاس پر چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"کیا میں باہر جا سکتی ہوں؟"

وہ حسنین کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"کیا ضرورت ہے باہر جانے کی؟ آرام کرو تم۔"

وہ خشک لہجے میں بولا۔

"اچھا مجھے بات کرنی ہے تم سے.. "

وہ اس کے عقب میں آ کر کھڑی ہو گئی۔


"ابھی نہیں بعد میں کرنا۔"

وہی سرد لہجہ۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"ہر بات میں تمہاری مرضی چلے گی کیا؟"

وہ آئینے میں اسے دیکھ رہی تھی۔

"اور تمہاری چلے گی... "

وہ ہنکار بھرتا سٹڈ لگانے لگا۔


"تم نہ انتہائی کھڑوس اور..."

"اور کیا؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتا ہوا اس کی جانب گھوما۔

"اور بدتمیز ہو... "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"میں بدتمیز ہوں؟"

وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔


"ہاں.. اب تم مجھے ڈرانے بیٹھ گئے ہو.. "

وہ کہہ کر بیڈ کی جانب چل دی۔

"تم اپنی حد میں رہا کرو.. تھوڑی سی بات کر لوں تو پھیل جاتی ہو۔"

وہ اسے اس کی جگہ پر رکھ رہا تھا۔


"کبھی ڈیول تو کبھی اینجل... کوئی دین ایمان ہی نہیں تمہارا۔اب تم سے بات ہی نہیں کروں گی۔"

وہ سخت خفا دکھائی دے رہی تھی۔

"مہربانی.. "

وہ جل کر بولا۔

وہ تلملا کر رہ گئی۔


حسنین فون اٹھاتا باہر نکل گیا۔

"ہاں نمرہ.. کیا چائیے بتاؤ؟ راشن تو میں نے سارا بھیج دیا تھا؟ کس چیز کی ضرورت سے بتاؤ میں ابھی لا دیتا ہوں.. "

وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔


"اچھا ٹھیک یے میں بھیج دیتا ہوں امی کی دوائی.. تم فکر مت کرو۔"

وہ فون بند کر کے جیب میں ڈالنے لگا۔

~~~~~~~~~

"تم شوٹ پر کیوں نہیں جا رہی؟"

وہ دھاڑتا ہوا اندر آیا۔

"میں اس حالت میں کیسے جا سکتی ہوں؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔


"ابھی سے تم نے چھوڑ دی ہے... جب آخری مہینے ہوں گے تب چھوڑ دینا.. چلو تیار ہو جاؤ... جعفر صاحب کا فون آیا تھا کمرشل کے لئے... تم ہو کہ نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔"

وہ تمس سے چلا رہا تھا۔


"افسوس ہے تم پر علی... میرا نہیں تو ہمارے بچے کا خیال کر لو.. آخر تم اتنے سنگدل کیسے ہو سکتے ہو؟ تم بدل جاؤ گے وہ بھی اس حد تک میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔"

آنسو ٹپ ٹپ اس کے رخسار کو تر کرنے لگے۔


"یہ مگرمچھ کے آنسو جا کر کسی اور کو دکھانا.. یہاں سب لڑکیاں اپنے شوہر کی مدد کر رہی ہیں اور تم تو پتہ نہیں خود کو مہارانی سمجھتی ہو.. "

وہ اپنے اصلی رنگ دکھا رہا تھا۔


"کاش.. کاش میں بابا کی بات مان لیتی۔کاش کہ مجھے پہلے علم ہو جاتا تو آج یہ سب دیکھنا نہ پڑتا۔ تمہارے باعث سب نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا ہے.. میری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے وہ۔"

وہ اس کا گریبان پکڑے چلانے لگی۔


"اپنی حد پار کر رہی ہو تم.. چپ کر کے سیٹ پر جاؤ۔ ورنہ اس گھر سے دفع ہو جاؤ... "

وہ اپنا گریبان آزاد کرواتا چبا چبا کر بولا۔

"کیا حاصل ہوا تمہیں سائرہ خان.. اپنے بھی دور ہو گئے اور شوہر..."

اس کے الفاظ دم توڑ گئے۔


"ماں باپ کو دکھ دے کر ان کی نافرمانی کا یہی انجام ہوتا ہے... یہی سزا ملنی چائیے تھی تمہیں سائرہ۔"

وہ سسکتی ہوئی خود کو کوس رہی تھی۔


وقت گزرنے کے بعد صرف پچھتاوے ہی ہاتھ آتے ہیں۔

ماں باپ ہمیشہ بچوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔

ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے جو اولاد کے پاس نہیں ہوتا۔ انہوں نے دنیا دیکھی ہوتی ہے۔ لوگوں کو پرکھا ہوتا ہے۔

اور ہم دو بول سن کر وہیں سب ہار دیتے ہیں۔

ماں باپ سے زیادہ اس انسان پر اعتبار کرتے ہیں جس سے تعلق مختصر ہوتا ہے۔

ہم نہیں جانتے جس چیز یا انسان کے لئے ہم اپنے پیاروں کو دکھ دے رہے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر ہے یا نہیں لیکن اس کے بعد صرف افسوس رہ جاتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

~~~~~~~~~

"یار میں کیا کروں؟ شہری اس دن کے بعد سے میرے سامنے نہیں آیا نہ ہی کوئی کال کی اس نے.. "

عزہ پیشمان تھی۔

عدن ہلکا سا مسکرائی۔

"اب تم نے اسے منع کر دیا تو وہ کیسے آ جاتا؟"

وہ بظاہر بیچارگی سے بولی۔

مقصد اسے احساس دلانا تھا۔


"وہ بھی تو سمجھتا نہیں ہے... میں غصہ میں تھی پھر بھی مجھے کرید رہا تھا۔"

وہ خفگی سے بولی۔

"تو تم اس سے معافی مانگ لو.. معافی مانگنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔"

وہ نرمی سے سمجھانے لگی۔


"یہ بات نہیں ہے.. "

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"کس منہ سے معافی مانگوں؟"

وہ شرمسار سی بولی۔

"خیر منہ تو بدلنے نہیں والا سو اسی سے معافی مانگنی پڑے گی.. ویسے ملے گی بھی اسی منہ کو۔"

وہ شرارت سے بولی۔


"تم نہ بس اپنے بیسٹ فرینڈ کی سائیڈ لیا کرو.. "

وہ ناراض ہو گئی۔

"میں نے کب سائیڈ لی؟"

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"تم اسے کہہ دو تمہاری تو ہر بات مانتا ہے وہ۔"

وہ لب کاٹتی ہوئی بولی۔

"اچھا چلو کیا یاد کرو گی تم۔ میں بول دوں گی اسے.. "

وہ معدوم سی مسکراہٹ لیے بولی۔

"کل ڈائیورس پیپرز بھی سائن کر دئیے میں نے.. "

وہ آہستہ سے بولی۔


"بہت اچھا کیا.. فیضی خود آیا تھا؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"ہاں.. اب میں چلتی ہوں۔"

وہ جیسے مزید بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔


عزہ کے نکلتے ہی حسنین اندر آ گیا۔

عدن کے چہرے پر بوجھل پن تھا۔

"کیا ہوا؟"

وہ چلتا ہوا بولا۔

"پتہ نہیں بیک (کمر) میں پین(درد) ہوتا ہے۔پہلے تو نہیں ہوتا تھا۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


وہ خاموش اسے دیکھنے لگا۔

"کیا؟"

وہ الجھ گئی۔

"تم ایسا کرو.."

"یہ کیا خون۔۔"

عدن ناک پر ہاتھ رکھتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


"سردی میں کیسے ناک سے خون نکل سکتا؟"

حسنین الجھ گیا۔

عدن بھاگ کر واش روم میں چلی گئی۔

"تم نے آج بھی کھانا نہیں کھایا؟"

وہ جیسے اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔


"مجھے بھوک نہیں لگتی۔"

وہ تولیہ سے منہ خشک کرتی ہوئی بولی۔

وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔

وہ کھینچ کھینچ کر سانس لے رہی تھی۔


"تمہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے؟"

وہ اس کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

"جلدی سے چینج کرو ہم ہاسپٹل جا رہے ہیں.. "

وہ الماری کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔


"لیکن اس وقت.. "

وہ گھڑی دیکھتی ہوئی بولی۔

"عدن کوئی بحث نہیں۔"

وہ جیسے واقف تھا۔

"ان کے ٹیسٹ دوبارہ کرنے ہوں گے..."

ڈاکٹر باہر نکلتا ہوا بولا۔

"اور یہ ٹیسٹ؟"

حسنین ہاتھ میں پکڑی رپورٹس کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔


"ٹیسٹ تو کلئیر ہیں لیکن پھر بھی ایک بار کر لیں تو زیادہ بہتر علاج کر سکیں گے۔"

آج وہ کسی دوسرے ہاسپٹل آیا تھا۔

"ٹھیک ہے آپ اپنی تسلی کر لیں۔"

حسنین کمرے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔


"کیا مجھے مریض بنا دیا ہے؟"

اسے دیکھتی وہ اٹھ بیٹھی۔

"مجھے بتاؤ کیا تمہیں کوئی بیماری ہے؟ تم چھپا رہی ہو کیا؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں.. میں بلکل فٹ ہوں۔"

وہ زور دے کر بولی۔


"پھر تم اتنی لاپرواہی کیوں برت رہی ہو؟"

اسے جیسے حیرت ہو رہی تھی۔

وہ سرد آہ بھرتی دوسری جانب دیکھنے لگی۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں.. "

وہ برہم ہوا۔


"اچھی بات ہے نہ جلدی جان چھوٹ جاےُ گی تمہاری۔"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو.. "

وہ اثبات میں گردن ہلاتا ہوا بولا۔

عدن کی آنکھوں میں تکلیف ابھرنے لگی۔

وہ کچھ اور سننا چاہتی تھی۔


"پھر تم کیوں فکر کر رہے ہو؟"

وہ تفتیشی انداز میں بولی۔

"جو فرض ہے وہ پورا کر رہا بس... "

نہایت بے رخی سے جواب آیا۔

"ہوں.. "

وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے ہاتھوں کو گھورنے لگی۔


"انہیں ٹیسٹ کے لیے لے کر جانا ہے... "

نرس اندر آتی حسنین سے مخاطب ہوئی۔

اس کے عقب میں وارڈ بواےُ تھا۔

"لے جائیں..."

وہ سائیڈ پر ہو گیا۔


"پھر سے ٹیسٹ؟"

وہ رو دینے کو تھی۔

"خاموش رہو.. "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

وہ منہ بسورتی اسے دیکھنے لگی۔

حسنین ڈاکٹر کے کیبن میں بیٹھا تھا۔


"کوئی ٹینشن والی بات تو نہیں؟"

حسنین کی چھٹی حس بیدار ہوئی۔

"آپ کی وائف کا کیڈنی اینڈ سٹیج پر ہے... مجھے حیرت ہے یہ رپورٹس کلئیر کیسے آئیں؟"

وہ چشمہ لگاتے ہوۓ رپورٹس کو دیکھنے لگے۔


"تو اب؟"

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔

"آپ پر منحصر کرتا ہے.. اگر آپ ڈائلائسز کروانا چاہیں تو ٹھیک... لیکن آپ کی وائف کی جو حالت ہے ایسے میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنا زیادہ بہتر ہے۔کیونکہ اس سٹیج پر ڈائلائسز سے وہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ زندہ رہیں گیں... "

حسنین کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔


اس سردی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔

"اب فیصلہ کر لیں... "

وہ فائل بند کرتے ہوۓ بولے۔


"اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنے کے بعد وہ ٹھیک رہیں گیں؟ ٹرانسپلانٹ کامیاب ہو گا؟"

وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

"چانسز تو ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔"

وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ لئے بولے۔


وہ بنا کچھ بولے باہر نکل آیا۔

وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا چلنے لگا۔

"یہ کیا ہو گیا؟"

وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

وہ عدن کے کمرے میں آ گیا۔


وہ آنکھیں موندے لیٹی تھی۔

قدموں کی آہٹ پر اس نے آنکھیں کھول دیں۔

"گھر چلیں؟"

وہ کہنیوں کے بل اٹھنے لگی۔

"تمہیں یہیں رہنا ہے لیٹی رہو... "

وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔


"کیا مطلب؟"

وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔

"تمہاری کڈنی اینڈ سٹیج پر ہے... ڈاکٹر نے ٹرانسپلانٹ کا بولا ہے.. تم بتاؤ؟ ڈائلائسز یا ٹرانسپلانٹ؟ ڈائلائسز سے تم علیل ہو جاؤ گی اور... "

وہ بولتا بولتا خاموش ہوگیا۔


"اور؟"

وہ سننا چاہتی تھی۔

حسنین نگاہیں چرا رہا تھا۔

"بتاؤ نہ چپ کیوں ہو گئے؟"

وہ اس کا ہاتھ ہلاتی ہوئی بولی۔


"تین ماہ تک ڈائلائسز کروا سکتی ہو تم۔"

وہ آہستہ سے بولا۔

"اووہ مطلب زندگی کو مجھ پر رحم آ ہی گیا۔"

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

حسنین ششدر سا اسے دیکھنے لگا۔


"یقیناً تم اپنے حواس میں نہیں ہو۔"

وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔

"سچ میں... میں تنگ آ گئی ہوں..خود سے, اپنی اس بے مقصد زندگی سے۔آخر کب تک تمہیں اپنے ساتھ باندھ کر رکھوں گی؟"

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔


وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔

"میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں ٹرانسپلانٹ کی۔ لیکن تب تک ڈائلائسز کروانا پڑے گا تمہیں۔"

وہ بیٹھتا ہوا بولا۔


"تم کیوں گھبرا رہے ہو؟"

وہ لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"کیونکہ مجھے ہنسی مذاق کی عادت نہیں۔"

اسے اب غصہ آ رہا تھا۔

"اب تم میرا خیال رکھو گے؟ ویسے مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب تم میری فکر کرتے ہو.. خود سے زیادہ میرا خیال رکھتے..."


"تمہاری مام غلط نہیں تھیں۔"

حسنین کے الفاظ پر وہ خاموش ہو گئی۔

"یہاں اس ٹاپک کا کیا مطلب؟"

اسے اچھا نہیں لگا۔

"آخر تم کیوں بات نہیں کرتی اس متعلق؟"

وہ اس کی بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔


آنکھوں میں خفگی نمایاں تھی۔

"کیونکہ مجھے بات نہیں کرنی اور بہتر ہوگا تم بھی اس سے دور رہو.. "

وہ چبا چبا کر بولی۔

"تاکہ تم اپنی من مانی کرتی پھرو.. بہت خوب۔"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


"میرے سر میں درد ہو رہا ہے پلیز چپ ہو جاؤ۔"

وہ رخ پھیرتی ہوئی بولی۔

"کب تک بھاگو گی تم عدن خان؟"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔


وہ آنکھیں زور سے بند کئے ہوۓ تھی۔

وہ تاسف سے اسے دیکھتا باہر نکل گیا۔

~~~~~~~~~

"اگر تم اس گھر میں واپس آنا چاہتے ہو تو باجی کو ڈھونڈ کر لاؤ... ورنہ نہیں۔"

وہ منہ موڑتی ہوئیں بولیں۔

"امی یہ کیسی شرط ہے؟ اور جس کے باعث آپ مجھ سے خفا ہیں وہ موت کے دہانے پر کھڑی ہے خدا جانے کب چلی جاےُ... "

وہ بے حسی سے بولا۔


"کیا مطلب؟"

وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔

"اس کا گردہ فیل ہو گیا ہے زیادہ وقت نہیں ہے اس کے پاس... "

وہ کہتا ہوا چارپائی پر بیٹھ گیا۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔


"ﷲ اس بچی کو صحت دے... "

وہ نمرہ کو اشارہ کرتی ہوئیں اس کے سامنے بیٹھ گئیں۔

"ابھی تو آپ اسے برا بھلا کہہ رہی تھیں؟"

وہ آبرو اچکا کر انہیں دیکھنے لگا۔


"بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں.. ہاں مجھے وہ پسند نہیں یہ الگ بات ہے۔لیکن کسی بیمار کو برا بھلا نہیں کہہ سکتی میں۔"

وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولیں۔

"بھائی آپ گھر کب آئیں گے؟"

نمرہ پانی کا گلاس پکڑتی ہوئی بولی۔


"جب امی کہیں گیں.. "

وہ خفا خفا سا بولا۔

"تم نے حرکت ہی ایسی کی ہے کہ.. "

حسنین نے ان کی گود میں سر رکھا تو وہ خاموش ہو گئیں۔


"کیا ہوا حسنین... اسے لے کر پریشان ہو؟"

وہ ماں تھیں بھانپ گئیں۔

"بس تھوڑا عجیب ہے یوں اپنے سامنے کسی کو مرتے دیکھنا۔"

وہ آنکھیں بند کئے بول رہا تھا۔


"بھائی مجھے ایک بار تو ملوا دیں..اب تو وہ میری بھابھی ہیں۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"نظر نہیں آ رہا بھائی پریشان ہے اور تو اپنی ہی فرمائش ڈال رہی.. "

وہ اس کے سر پر چت لگاتی ہوئیں بولیں۔


"کیا ہے امی.."

وہ سر کھجاتی ہوئی بولی۔

"جا کر تیل لے کر آ.. مالش کروں میں اس کے سر میں۔"

وہ حسنین کو دیکھتی ہوئی بولیں جو آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔


وہ ضبط کر رہا تھا۔

اچانک ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

~~~~~~~~

سائرہ کپڑے اٹھا کر بیڈ پر آ گئی۔

"میرا بےبی.. "

وہ عدن کے گال پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

سرخ و سپید رنگت والی عدن ناک چڑھانے لگی۔


"ابھی آپ کے پاپا آ جائیں گے پھر وہ آپ کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کریں گے... "

وہ اسے کپڑے پہناتی ہوئی بولنے لگی۔

"آج بہت برا دن تھا.."

علی صوفے پر گرتا ہوا بولا۔


"کیوں؟ کیا ہوا؟"

اس کی پیشانی پر لکریں ابھرنے لگیں۔

"یہ بھی کیس ہار گیا میں.."

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔

وہ تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔


"کل سے تم شوٹ پر جاؤ گی۔"

وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا بولا۔

"لیکن علی کیسے؟ عدن اتنی چھوٹی ہے میں کیسے اسے چھوڑ کر چلی جاؤں؟ اور ابھی دن ہی کتنے ہوےُ ہیں؟"

وہ پریشان سی اسے دیکھنے لگی۔


"عدن کے لئے کئیر ٹیکر رکھ لیں گے.. تم تیاری کرو کل کی.. "

وہ سرد لہجے میں بولا۔

"عدن کو اس کی نہیں ماں کی ضرورت ہے تم کیوں نہیں سمجھ رہے؟"

وہ جھنجھلا کر بولی۔


"میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا اور تم میرا دماغ خراب مت کرو.. جو کہا ہے چپ کر کے کرو۔"

وہ تقریباً چلا رہا تھا۔

سائرہ بےبسی سے عدن کو دیکھنے لگی جو منہ میں انگلی ڈال رہی تھی۔


دو ماہ کی چھوٹی سی عدن... بھلا کیسے کوئی ماں اتنی چھوٹی بچی کو کسی کے حوالے کر جاتی۔

آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار کو بھگونے لگی۔

"ابھی ٹھیک طرح سے خوش بھی نہیں ہو پاتی کہ پھر سے غم آ ٹپکتے ہیں... "

وہ عدن کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔


"میں نے اپنی ذات پر برداشت کر لیا۔ لیکن اپنی ننھی سی جان پر کیسے ظلم ہونے دوں؟"

وہ اسے سینے سے لگاےُ بلک رہی تھی۔


"یا ﷲ کیا یہ آزمائش کبھی ختم نہیں ہو گی؟ کیا کبھی حالات نہیں بدلیں گے؟ علی ابھی بھی نہیں بدلا... عدن کے بعد بھی وہ ویسا ہی ہے۔"

ایک ماں کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔


"کتنی بےبس تھی وہ... نہ بھاگ سکتی تھی نہ اپنی مرضی چلا سکتی تھی۔

پوری رات یونہی روتے سسکتے بسر ہوئی۔

وہ عدن کو سینے سے لگاےُ پیار کر رہی تھی۔

"پورا دن کیسے میرے بغیر رہے گی یہ؟"

آنسو عدن پر گرنے لگے۔


اس کا دل آمادہ نہیں تھا لیکن وہ جانتی تھی وہ کچھ نہیں کر سکتی۔

ہاتھ کی پشت سے گال رگڑتی وہ کھڑی ہو گئی۔

وقفے وقفے سے وہ گردن گھما کر عدن کو دیکھ رہی تھی۔

اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن یہاں احساس کرنے والا موجود نہیں تھا۔


"مجھے معاف کر دینا میری جان.. "

وہ اسے چومتی ہوئی بولی۔

شاید وہ بھی ماں کی جدائی بھانپ گئی۔

جونہی سائرہ نے اسے بیڈ پر لٹایا وہ رونا شروع ہو گئی۔


"سائرہ جلدی کرو.. دو بار فون آ چکا یے۔"

علی کمرے کے باہر کھڑا بول رہا تھا۔

وہ عدن کو گود میں لئے اسے خاموش کروانے لگی۔

"مجھے کیا معلوم میرے پیچھے تم روتی رہو اور وہ تمہیں خاموش بھی نہ کرواےُ؟ کیا معلوم وہ تمہارا خیال رکھے گی یا نہیں.. "

سائرہ کا اشارہ کئیر ٹیکر کی جانب تھا۔


"اب کیا مسئلہ ہے تمہیں؟"

وہ دروازہ کھول کر دھاڑا۔

"عدن رو رہی تھی.. "

وہ سہم کر بولی۔

"باہر وہ کھڑی ہے اسے پکڑاؤ اور چلو میرے ساتھ... اسے بچے سنبھالنے کا بہت تجربہ ہے۔عدن کو بھی سنبھال لے گی سمجھی تم۔"

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔


وہ سر جھکا کر باہر نکل گئی۔

عدن کو اس کی گود میں دینا مانو اسے خود سے دور کرنے کے مترادف تھا۔

"یہ ڈرامہ بند کرو اب... "

وہ اس کی بازو پکڑ کر درشتی سے کہتا باہر کی جانب قدم اٹھانے لگی۔


وہ گردن موڑ کر عدن کو دیکھنے لگی۔

آنکھیں برس رہی تھیں۔ دل غم سے پھٹ رہا تھا۔

"اس ننھی جان پر اتنا ظلم... "

وہ منمنائی۔

علی نے اس کی بات کا نوٹس نہیں لیا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔

~~~~~~~~

"سمجھ نہیں آ رہی یہ سب کیسے ہو گیا؟"

وہ متفکر سا بولا۔

"میرے تو الفاظ ہی دم توڑ گئے ہیں۔"

وہ بےبسی سے بولیں۔


"کوشش کرتا ہوا ٹرانسپلانٹ کی... وہ تو بہت عجیب حرکتیں کر رہی ہے۔جیسے بہت خوش ہو۔"

وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

"تمہاری جاب نہیں لگی؟ ٹرانسپلانٹ پر پیسے بھی کافی لگے گیں... "

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔


"جی پیسے تو کافی لگے گیں اور میرے پاس تو کچھ بھی نہیں...جو تھے وہ امی اور نمرہ پر خرچ کر دئیے۔"

وہ ہاتھ مسلتا ہوا بولا۔

"پتہ نہیں کیا لکھا ہے اس کے نصیب میں؟ آج تک بس دکھ ہی دیکھے ہیں اس نے اور اب یہ بیماری... "

وہ کرب سے بولیں۔

وہ خاموش رہا۔ شاید کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

~~~~~~~~

"ہیلو مس احسان فراموش!"

عقب سے انیب کی آواز سنائی دی۔

وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

وہ دونوں آبرو اچکا کر بولا۔


"کیوں میرا داخلہ ممنوع ہے؟ یا یہ بھی تمہارے باپ کی ملکیت ہے؟"

وہ آنکھیں چھوٹی کرتی ہوئی بولی۔

"کھانا ہضم ہو رہا تھا اتنے دن سے تمہارا؟"

وہ گھورتا ہوا بولا۔

"کیا مطلب؟"

وہ الجھ کر بولی۔


"اتنے دن سے لڑائی نہیں کی نہ تم..تو کھانا ہضم نہیں ہو رہا ہو گا یقیناً..."

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"میرا تو پتہ نہیں لیکن تمہارا ہاضمہ ضرور خراب ہو گا... "

وہ تپ کر بولی۔


"کاپی کیٹ.. "

وہ جلانے والی مسکراہٹ لئے بولا۔

"اس دن بل کیوں نہیں دے کر گئے تھے؟ اب تم سے میں دو دو ہاتھ کروں.."

وہ آستین اوپر فولڈ کرتی ہوئی بولی۔


"آدھا ہاتھ ہو نہ تم سے دو دو کرو گی... "

وہ اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

انیب کے قہقہے اسے تپا رہے تھے۔

"چپ کر جاؤ ورنہ میں تمہارا منہ توڑ دوں گی... "

وہ کھا جانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔


"اچھا پھر اس ہینڈسم چہرے کے بنا تم شاہد تک کیسے پہنچو گی؟"

وہ سینے پر بازو باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

"جس دن تم سے جان چھوٹے گی کالے بکرے کا صدقہ دوں گی میں.. "

وہ کلس کر کہتی اس کی مخالف سمت میں چل دی۔


"توبہ توبہ... کیسا زمانہ آ گیا ہے.. لوگوں کے کام کرو وہ بھی فری میں اور بدلے میں ایسی باتیں سننے کو ملتی۔ ﷲ ہی معاف کرے۔"

وہ اس کے ہمراہ چلتا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔

"اب تم میری جان نہیں چھوڑو گے؟"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔


"ایک شرط پر... "

وہ پرسوچ انداز میں بولا۔

"میں کچھ نہیں کھلانے والی تمہیں... "

وہ بھانپ گئی۔


"ایڈووکیٹ کی بیٹی ہو کر جان جاتی ہے تمہاری.. "

وہ ناراض ہو کر دوسری جانب چل دیا۔

"شکر ہے.. "

وہ سانس خارج کرتی چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"عدن کا معلوم ہوا تمہیں؟"

ملیحہ اس کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

"کیا؟"

وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔


"اس کی کڈنی فیل ہو گئی ہے۔ آج ڈائلائسز تھا اس کا... "

وہ حاصل کردہ معلومات فراہم کرنے لگی۔

"آر یو شیور؟"

وہ بے یقین تھا۔

"آف کورس.. شہری اور عزہ دونوں ہاسپٹل میں ہیں.. میں جھوٹ کیوں بولوں گی؟"

وہ برا مان گئی۔


"ٹھیک... "

وہ کہہ کر جیب سے فون نکالنے لگا۔

دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہو گئی۔

"تم ناراض ہو مجھ سے؟"

اسے یہ خاموشی اچھی نہیں لگی۔


"دیکھو ملیحہ میں نے منگنی تمہارے کہنے پر کی تھی بٹ مجھے تمہارے ساتھ مزید ریلیشن نہیں رکھنا سو پلیز تم بھی سمجھ جاؤ... "

وہ فون پر انگلیاں چلاتا بول رہا تھا۔

ملیحہ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔


"ت تم ایسے کیسے کر سکتے ہو مہ میرے ساتھ؟"

وہ اٹک اٹک کر بولی۔

"مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں تم میں... ہاں اگر عدن ہوتی تمہاری جگہ تو شاید میں انکار نہ کرتا۔"

وہ دونوں کا موازنہ کر رہا تھا۔

عدن کے نام پر وہ تلملا اٹھی۔


"ایسا کیا ہے اس عدن میں جو مجھ میں نہیں بتاؤ؟"

وہ اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتی ہوئی بولی۔

"وہ عدن ہے اور تم ملیحہ... یہی سب سے بڑا فرق ہے۔"

وہ چبا چبا کر بولا۔


"میں کچھ نہیں جانتی.. تم یہ منگنی ختم نہیں کر سکتے۔"

وہ اس کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔

"دور رہو مجھ سے... مزید کوئی بحث نہیں کرنی مجھے۔ یہ رہی تمہاری رنگ.. "

وہ انگلی سے انگوٹھی نکال کر ٹیبل پر رکھتا کھڑا ہو گیا۔

وہ ششدر رہ گئی۔

وہ جا چکا تھا۔

آج پھر سے وہ خالی ہاتھ کھڑی تھی۔

حسد کی اس آگ میں وہ تنہا جھلستی جا رہی تھی۔

~~~~~~~~~

"تم نے ایسا منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟"

شہری بولتا ہوا سٹول پر بیٹھ گیا۔

وہ اب بھی خاموش رہی۔

چہرہ دوسری جانب موڑ رکھا تھا۔


"حسنین کیوں نہیں آیا؟"

وہ برہمی سے بولی۔

"اب ہماری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے..."

وہ عزہ کو دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں اب ہمیں کون پوچھے گا؟"

عزہ شرارت سے بولی۔


"پلیز...میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔"

وہ سرد مہری سے بولی۔

"یار آ جاےُ گا وہ بھی..."

شہری نے اسے دلاسہ دینا چاہا۔


دو سیاہ آنکھیں مسلسل عدن کو اپنے حصار میں لئے ہوۓ تھیں۔

"میں نے رابن کو بلایا تھا آیا نہیں وہ؟"

وہ سوالیہ نظروں سے شہری کو دیکھنے لگی۔

"ہاں آیا تھا۔ میں نے تمہاری میڈیسن لینے بھیجا ہے... بس آتا ہی ہو گا۔"

وہ دروازے کی سمت دیکھتا ہوا بولا۔


"مجھے رابن سے کچھ بات کرنی ہے سو تم دونوں... "

وہ دونوں کو دیکھتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔

"ٹھیک ہے... "

شہری عزہ کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ دونوں آگے پیچھے باہر نکل گئے۔


"میم یہ رہا آپ کا کریڈٹ کارڈ.. "

وہ اندر آتا ہوا بولا۔

"رابن ایسا کرو ہاسپٹل کے جتنے ڈیوز ہیں سب کلئیر کر دو اور خیال رہے کسی کو علم نہ ہو... "

وہ باور کرانا نہیں بھولی۔


"جی میم...اس کے علاوہ؟"

وہ سر جھکا کر کھڑا تھا۔

"حسنین گھر آیا تھا؟"

بے قرار سا لہجہ...

"نو میم.. "

وہ مایوسی ہو گئی۔


"ٹھیک ہے تم جاؤ.. "

وہ دوسری جانب چہرہ موڑتی ہوئی بولی۔

آنکھیں برسنے کو بے تاب تھیں۔

گرم مادہ اس کے رخسار سے نیچے آتا تکیے میں جذب ہونے لگا۔


آہستہ سے دروازہ کھلا اور قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔

وہ اس کے قدموں کی آہٹ بھی پہچاننے لگی۔

وہ جان چکی تھی کہ حسنین آیا ہے لیکن پھر بھی آنکھیں بند کئے لیٹی رہی۔ شاید یہ ایک طریقہ تھا ناراضگی جتانے کا۔

وہ بھی کشمکش میں مبتلا اس کے سامنے بیٹھ گیا۔


وہ مناسب الفاظ تلاش رہا تھا جس میں اسے مخاطب کرتا۔

کئی پل خاموشی کی نذر ہو گئے۔

"کیوں آےُ ہو تم؟"

بلآخر وہ خود ہی بول پڑی۔


"کیا مطلب؟"

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا جس کے چہرے کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔

"کہاں تھے تم؟"

وہ چہرہ موڑ کر اسے گھورتی ہوئی بولی۔


"کام تھا... "

مختصر سا جواب آیا۔

"تمہارے لئے ہر کام مجھ سے زیادہ اہم ہے... ابھی بھی نہ آتے پھر.. "

وہ خفا ہو رہی تھی۔


"اب بندے کو کام بھی نہیں پڑ سکتا... "

وہ برہم ہوا۔

"یہ دیکھو میری بازو... یہاں سے اندر ڈالی تھیں انہوں نے۔۔"

وہ اب باقاعدہ رونے لگی۔

"یہ تو تمہیں برداشت کرنا ہی پڑے گا۔"

وہ اس کی بازو پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔


"تم بچوں کی طرح بی ہیو کرنے لگی ہو.. "

وہ خفگی سے بولا۔

"میں بچوں کی طرح بی ہیو؟ کیسے بتاؤ مجھے... "

وہ اٹھنے کی سعی کرنے لگی۔

"رکو.. "

وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


وہ تکیہ درست کرتا اس کا ہاتھ پکڑ کر مدد کرنے لگا۔

"کل سے غائب ہو تم... کوئی احساس ہے تمہیں؟"

وہ شکوہ کر گئی۔

وہ خاموش اسے دیکھنے لگا۔


"تمہیں کیا ملتا ہے میرا دل دکھا کر؟"

وہ اس کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی۔

فاصلے سمٹ آےُ تھے۔ حسنین اس کے قریب تھا۔

"میں نے کیا برا کیا تمہارے ساتھ؟"

وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔


"مجھ سے دور مت جایا کرو۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

آنسو دونوں کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔

وہ پل پل اسے حیران کر رہی تھی۔

کبھی ناراضگی, کبھی غصہ تو کبھی محبت۔


"میں نے تمہیں کہا تھا زیادہ سوچا مت کرو... "

وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالنا چاہتا تھا۔

"تم کیوں مجھ چھوڑ کر جاتے ہو؟ کل سے نہیں دیکھا تمہیں.. لیکن تمہیں تو فرق ہی نہیں پڑتا۔"

اسے خود بھی علم نہیں تھا وہ کیا بول رہی تھی۔


حسنین کھڑا اس کا جھکا ہوا سر دیکھ رہا تھا۔

"بیٹھو یہاں.. "

وہ بیڈ پر جگہ بناتی ہوئی بولی۔

وہ بنا کسی حیل و حجت کہ بیٹھ گیا۔


"تم جیسے بھی ہو لیکن پتہ نہیں کیوں میں تم سے خفا نہیں رہ سکتی.. تم سے دور نہیں رہ سکتی۔"

وہ اپنے دل کی کیفیت بیان کر رہی تھی۔

"مجھے نہیں پتہ میرے پاس کتنی زندگی ہے... لیکن میں آج ایک بات تمہیں بتانا چاہتی ہو۔"


وہ آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں جو اس کے غم کی روداد سنا رہی تھیں۔

حسنین کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔

"کیوں خود کو ہلکان کرتی ہو تم؟ ایک تھپڑ لگاؤں گا تمہارے... "

وہ اس کے آنسو پونچھتا برہمی سے بولا۔


آہ فکر بھی کر رہے ہو تو غصے کا لبادہ اوڑھ کر۔

وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔

"میں نہیں جانتی یہ محبت ہے یا کچھ اور.. لیکن میں ہر لمحہ تمہیں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی ہو...تمہارا ساتھ میرے لئے ناگزیر ہے۔میں نہیں رہ سکتی,ایک پل بھی نہیں... "

وہ اس کے شانے پر سر رکھے بول رہی تھی۔


آنسو حسنین کی شرٹ میں جذب ہو رہے تھے۔

عدن کی گرم سانسیں اسے اپنے سینے پر محسوس ہو رہی تھیں۔

وہ اسے کمزور کر رہی تھی۔


"جب تک میں ہوں پلیز مجھ سے دور مت جانا۔ ہر رشتہ مجھ سے روٹھ گیا لیکن تم مت روٹھنا... میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ خود کو مضبوط کرتے کرتے بہت کمزور ہو گئی ہوں۔"

اس کے لہجے میں صدیوں کی تھکاوٹ تھی اور وہ تو اس کی ہر تھکن سے واقف تھا۔


"تم کیوں خود کو الجھا کر رکھتی ہو؟ یہ سوچیں انسان کو پاگل کر دیتی ہیں... اور جب میں نے وعدہ کیا ہے تو پھر کیوں ٹینشن لیتی ہو؟"

وہ اسے شانے سے تھامتا سیدھا کرتا ہوا بولا۔

وہ سوں سوں کرتی اسے دیکھنے لگا۔


"اپنا حال دیکھو ذرا... "

وہ ٹیشو سے اس کا چہرہ صاف کرنے لگا۔

"جب تم ایسے کرتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اس لئے خود کو پاگل مت کیا کرو.. میں تمہارے پاس ہی ہوں۔"

وہ نرمی سے اس کے دل کے تار چھیڑ رہا تھا۔


"ابھی کچھ دیر میں گھر چلنا ہے ہمیں تم آرام کرو... "

وہ اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

اس کے ایک ایک لفظ پر اسے یقین تھا۔


"پانی؟"

وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولی۔

"ڈاکٹر نے کہا ہے زیادہ نہیں پینا... "

وہ گلاس اس کے ہونٹوں کے قریب لاتا ہوا بولا۔


"میں تمہاری میڈیسن دیکھ لوں... "

وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

شاید حسنین کی آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا جو وہ اس سے چھپ کر اپنی آنکھیں رگڑنے لگا۔

وہ پرسکون سی ہو کر لیٹ چکی تھی۔


آنکھوں کے پپوٹے سوجھ چکے تھے۔

چہرے کی رونق مانند پڑ گئی تھی۔ وہ شکل سے ہی بیمار دکھائی دے رہی تھی۔

~~~~~~~~

"منال یہاں بیٹھو مجھے ضروری بات کرنی ہے آپ سے.. "

فیصل صاحب فائل بند کرتے ہوۓ بولے۔

"جی پاپا... "

وہ کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔


"بیٹا انیب کی ماما نے مجھ سے آپ کا رشتہ مانگا ہے۔ مجھے تو پسند ہے انیب.. آپ بتا دو آپ کو کوئی اعتراض؟"

وہ بات مکمل کر کے اسے دیکھنے لگے جس کے چہرے کا رنگ فق ہو رہا تھا۔

"پاپا انیب سے؟"

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


"ہاں بیٹا.. کیا کوئی خرابی ہے اس میں؟"

وہ شفقت سے بولے۔

"نہیں.. لیکن مجھے اس سے شادی نہیں کرنی۔"

وہ قطعیت سے بولی۔

"کیا آپ کو کوئی اور پسند ہے؟"

وہ تفتیشی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔


"نہیں پاپا ایسی کوئی بات نہیں ہے... وہ عجیب سا ہے۔"

وہ پاگل کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔

"یہ تو کوئی وجہ نہیں ہوئی انکار کی... مجھے تو لگا تھا آپ خوش ہو جاؤں گی۔ آپ دونوں کی انڈرسٹینڈنگ بھی ہے کچھ ٹائم سے... "

انہوں نے قائل کرنا چاہا۔


"مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں آپ کو کیسے سمجھاؤں..."

وہ جھنجھلا کر گویا ہوئی۔

"بیٹا اگر اس میں کوئی برائی ہے پھر تو انکار بنتا ہے۔ اپنی فیملی ہے پھر اس کا بزنس بھی سیٹ ہے..اور کیا چائیے؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔


"اس کا اپنا بزنس یے؟"

وہ حیران رہ گئی۔

"ہاں.. اب تو ماشاءاللہ سیٹ کر چکا ہے وہ۔"

وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔

"انیب کے بچے تمہیں چھوڑوں گی نہیں میں.. "

وہ دانت پیستی ہوئی بڑبڑائی۔


"کیا کہا؟"

وہ آبرو اچکا کر بولے۔

"جیسے آپ کو مناسب لگتا ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں.. "

وہ کوشش کے باوجود مسکرا نہ سکی۔

"چلو ٹھیک ہے... میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ شادی سادگی سے کریں گے۔ بس میں چاہتا ہوں اپنی زندگی میں آپ کی خوشیاں دیکھ لوں... "

وہ منال کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔


"میں کچن میں یخنی رکھ کر آئی تھی.. "

وہ بہانہ بناتی اٹھ گئی۔

"تمہی سے ہونی تھی میری شادی۔"

وہ برتن زور سے سلیب پر رکھتی ہوئی بڑبڑائی۔


"پاپا کو بھی ساری دنیا چھوڑ کر ایک وہی ملا تھا.. اور کام تو دیکھو بزنس مین ہو کر مجھ سے بل لیتا تھا... سامنے آؤ تم انیب پھر بتاؤں گی تمہیں۔"

وہ بل کھاتی ہوئی چولہا بند کرنے لگی۔

~~~~~~~~

"یہ میڈیسن کھانے سے پہلے لینی ہے اور یہ دونوں کھانے کے بعد... "

حسنین دوائیاں ہاتھ میں پکڑے بول رہا تھا۔

عدن کی نگاہیں اور توجہ کا مرکز فون تھا۔

"عدن؟"

وہ زور سے بولا۔


"ہاں میں نے سن لیا ہے... انہیں چھوڑو یہ ڈریس دیکھو..."

وہ اس کی بازو پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتی ہوئی بولی۔

"تم سنجیدہ کیوں نہیں ہو؟"

وہ اس کا فون کھینچتا ہوا بولا۔

غیض چہرے پر نمایاں تھا۔


"جو زندگی ہے مجھے جینے دو... "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"کھانے سے پہلے کون سی میڈیسن لینی ہے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"اممم.... "

وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔


"میں بہت برا پیش آؤں گا... سدھر جاؤ تم۔"

وہ خطرناک تیور لئے بولا۔

"اچھا نہ تم تو ہر وقت ہٹلر بنے رہتے ہو... یہ بتاؤ انٹرویو کے لیے کب جانا ہے؟"

وہ لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔


"میں لیٹ نہیں ہوا ابھی... "

وہ خشک لہجے میں بولا۔

"اور ہاں میری بات یاد رکھنا.. پانی زیادہ نہیں پینا.. "

وہ اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا۔

"اوکے اوکے.. اب تم جاؤ اور میری طرف سے بیسٹ وشز۔"

وہ نرم مسکراہٹ لئے بولی۔


لیکن وہ مسکرا نہ سکا۔

ٹائی لگاتا وہ باہر نکل گیا۔

"باےُ تک نہیں بولا۔"

وہ خفگی سے کہتی پھر سے فون کو دیکھنے لگی۔


وہ بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔

گھنٹے بعد حسنین کی باری آئی۔

سانس خارج کرتا وہ اندر چلا گیا۔

وہ پیشانی پر بل ڈالے حسنین کی فائل دیکھ رہا تھا۔


"سوری آپ کو یہ جاب نہیں مل سکتی.. "

وہ فائل میز پر رکھتا ہوا بولا۔

"لیکن سر کیوں؟ آپ ایک بار پھر چیک کر لیں میرے پاس تجربہ بھی ہے... "

وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔


"انٹرویو ختم ہوۓ آپ جا سکتے ہیں.. ہم ہائر کر چکے ہیں.. "

وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔

"پلیز سر مجھے اس جاب کی بہت ضرورت ہے.. میری وائف ہاسپٹل میں ہے... "

وہ منت پر اتر آیا۔


"دیکھیں یہ سب جا کر کسی اور کے سامنے کریں.. آپ سے ایک بار کہہ دیا کہ انٹرویو ختم تو مطلب ختم.. "

وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔

حسنین ایک نظر اس پر ڈالتا اپنی فائل اٹھا کر باہر نکل آیا۔


"مجھے جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا۔"

وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔

وہ کوکا کولا کی فیکٹری کے سامنے کھڑا سوچنے لگا۔

"پیسے چائیں تو کام تو کرنا پڑے گا چاہے جیسا بھی ہو... "

وہ خود کلامی کرتا اندر چلا گیا۔

~~~~~~~~

"آئم سوری... "

عزہ سر جھکاےُ ہوۓ تھی۔

"کس لیے؟"

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔


"وہ.. اس دن مجھے۔"

"ہاں.. ہاں بولو میں سن رہا ہوں۔"

وہ لطف لے رہا تھا۔

"تم جانتے تو ہو کیوں مجھ سے سننا چاہتے ہو... "

وہ بےبسی سے بولی۔


"تمہیں معافی صرف ایک شرط پر ملے گی۔"

ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔

شہری کو اس کے چہرے پر تذبذب نظر آیا۔

"تم میرے نام ہو۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑے انگوٹھی پہنانے لگا۔


عزہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"تمہیں برا نہیں لگا تھا؟"

وہ ہچکچا کر بولی۔

"نہیں.. کیونکہ تم نے کہا تھا لیکن اس کا مطلب اب یہ بھی نہیں کہ تم ہمیشہ ہی ایسے کرو.. "

وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔


"نہیں.. بس اس دن میں غصے میں تھی اور سارا غصہ تم پر اتر گیا... "

وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

شہری خاموشی سے مسکرانے لگا۔

~~~~~~~~

"حسنین مجھے نہیں جانا ہاسپٹل۔"

وہ اسے دیکھتے ہوےُ شروع ہو گئی۔

"اس بحث کا کیا مقصد ؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"تاکہ تم مجھے نہ لے کر جاؤ... "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"یہ تم بھی اچھے سے جانتی ہو کہ تمہیں جانا ہی پڑے گا...اب یہ نخرے ختم کرو پھر مجھے جاب پر بھی جانا ہے,, جلدی کرو اب.. "

وہ خفگی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"تم نہ... "


"عدن دو منٹ میں اٹھ جاؤ ورنہ بہت برا پیش آؤں گا... "

وہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

"ایک تو اتنی گندی میڈیسن اور پھر یہ ڈائلائسز...."

وہ ہنکار بھرتی اٹھ گئی۔


"میں نے شہری کو کال کر دی ہے وہ ابھی آ جاےُ گا... "

وہ ہاسپٹل کی حدود میں داخل ہوتے ہوۓ بولا۔

"اور تم؟"

وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگا۔


"مجھے جانا ہے... آج پہلا دن ہے میرا لیٹ نہیں ہو سکتا۔"

وہ بےبسی سے بولا۔

عدن اس وقت کاٹن کی پرنٹ قمیض کے ساتھ پلین ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھی۔ سر دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔

حسنین اس تبدیلی پر خوش تھا لیکن یہ وقت خوش ہونے کا نہیں تھا۔


"پھر ہم بعد میں آ جائیں گے... "

وہ رک کر بولی۔

وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

"پاگل مت بنو... "

وہ برہم ہوا۔


"جب تم شام میں آؤ گے میں تب کروا لوں گی تمہارے ساتھ... "

وہ رو دینے کو تھی۔

"ضد مت کرو.. مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

وہ خفا خفا انداز میں بولا۔

وہ نا چاہتے ہوۓ بھی چلنے لگی۔


"میں نہیں بولتی تم سے... "

وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا جب عدن کی آواز گونجی۔

"تھینک یو.. "

وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔


"بہت برے ہو تم... "

وہ آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئی بولی۔

دو سیاہ آنکھیں عدن پر مرکوز تھیں۔

"ہاں.. میں آج بڑی ہوں ہاسپٹل آیا ہوں‍کہ میں آؤں گا پھر دیکھیں گے... "

شہری فون کان سے لگاےُ چل رہا تھا جب وہ حارب سے ٹکرا گیا۔

"تم! یہاں؟"

شہری کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"ہاں... وہ مجھے آنٹی کی میڈیسن لینی تھی۔"

وہ ہڑبڑا کر عقب میں دیکھتا چلنے لگا۔

شہری تعجب سے اس کی پشت دیکھتا قدم اٹھانے لگا۔

~~~~~~~~

"ملیحہ آج کل کہاں ہوتی ہو تم؟"

شفق پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ماما کیا مطلب ہے اس بات کا؟"

وہ بیزاری سے گویا ہوئی۔


"شاہد کا فون آیا تھا کہ وہ منگنی ختم کر رہا ہے.. تم شوٹ پر بھی نہیں جا رہی پھر کہاں رہتی ہو؟"

انداز تفتیشی تھا۔

"کہیں نہیں... "

وہ کہتی ہوئی باہر کی جانب قدم اٹھانے لگی۔


"تم حد سے زیادہ خود سر ہوتی جا رہی ہو.. "

وہ بولتی ہوئی باہر نکل آئیں۔

"ماما مجھے کوئی بات نہیں کرنی.. "

وہ بلند آواز میں بولی۔

"ہمیشہ تمہاری مرضی نہیں چلے گی ملیحہ.. "

وہ جیسے تھک گئیں تھیں۔


"تمہیں خود پر ترس نہیں آتا؟ کیا سے کیا بنتی جا رہی ہو تم؟"

وہ جیسے سمجھنے سے قاصر تھیں۔

"فائن آپ مجھے سکون سے رہنے نہیں دیں گیں یہاں.. "

وہ تلملاتی ہوئی باہر نکل گئی۔

وہ تاسف سے اس سمت میں دیکھنے لگیں۔


ملیحہ اس وقت گرے شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھی.. بال پونی کی زد میں تھے۔

وہ دانت پیستی چلتی جا رہی تھی۔

سب ہارنے کے بعد بھی وہ رکی نہیں تھی۔

"میں بھی دیکھتی ہوں عدن تم کیسے زندہ رہتی ہو... "

وہ حقارت سے بولی۔

اسی اثنا میں ایک تیز رفتار گاڑی اس کے پاس آئی اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اندر کھینچ لیا۔

اس سے قبل کہ وہ چیخ و پکار کرتی وہ سپیڈ بڑھاتے وہاں سے اوجھل ہو گئے۔

~~~~~~~~

"یہاں بیٹھنے کی تنخواہ نہیں ملتی۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے منہ اٹھا کر آ جاتے ہیں۔ تمہاری باپ کی فیکٹری نہیں ہے یہ جا کر کام کرو... "

سپروائزر حسنین پر دھاڑا۔

"میں بس سانس لینے کو بیٹھا تھا۔"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔


"وہ سارے کریٹ گاڑی میں رکھو,,مال بھیجنا ہے... "

وہ بوتلوں کے کریٹ کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

کڑی دھوپ میں یہ راستہ طے کر کے اسے وہ کریٹ گاڑی تک پہنچانے تھے۔

وہ پسینے میں شرابور تھا باقی ملازموں کی طرح۔

اپنی تعلیم کے لحاظ سے وہ اس جاب کا مستحق تو نہیں تھا لیکن کرنے پر مجبور تھا۔


حسنین منہ پر چھینٹے مارتا باہر نکل آیا۔

اب اس کا رخ ہاسپٹل کی جانب تھا۔

چہرے سے غصہ چھلک رہا تھا۔

وہ بائیک پر بیٹھا, فون چیک کیا اور سٹارٹ کر کے نکل گیا۔

اس کے چہرے پر بلا کی سختی تھی لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔


"جی سر.. "

واڑ بواےُ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"آپ سے ایک مشورہ چائیے تھا.. "

وہ بغور اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"جی سر بتائیں؟"

وہ مسکراتا ہوا بولا۔


"باہر چل کر بات کرتے ہیں... "

وہ الٹے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ خاموشی سے اس کے ساتھ باہر نکل گیا۔

"شرم نہیں آتی تمہیں؟"

حسنین اس کے منہ پر مکہ مارتا ہوا بولا۔


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"

وہ ہکا بکا اسے دیکھنے لگا۔

"کس کے کہنے پر غلط رپورٹس بنائیں؟"

وہ اس کا گریبان پکڑے اس کے منہ پر وار کرتا ہوا بولا۔


اس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا جس سے اب خون بہنے لگا تھا۔

اسے اب یاد آیا۔

وہ گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"میں نے پوچھا کس کے کہنے پر رپورٹس بدلی؟"

حسنین اسے دیوار پر مارتا ہوا بولا۔

اب اس کے ناک سے خون بہنے لگا تھا۔


"بچاؤ.. "

اس نے ابھی لب کھولے ہی تھے کہ حسنین نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

"اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو مجھے خاموشی سے اس کا نام بتا دو... ورنہ جیسے تمہیں رپورٹس بدلتے ہوۓ کوئی فرق نہیں پڑا تھا مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


وہ اس کا بیک گراؤنڈ سوچنے لگا۔

عدن خان.. وہ اسے دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

حسنین نے اس کی گردن پر چاقو رکھا...


"اب بولو... "

وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

"وہ.. ملیحہ ریاض نے فون کیا تھا... "

وہ گھبراتے ہوۓ بولا۔

"اب پلیز اسے دور کرو..غلطی سے بھی لگ سکتا ہے... "

اس کی جان پر بن آئی تھی۔

حسنین اثبات میں سر ہلاتا پیچھے ہو گیا۔


"شرم آنی چائیے تمہیں چند پیسوں کے عوض تم کسی کی زندگی کا سودا کر دیتے ہو... لعنت ہو تم.. یاد رکھنا کیس بنواؤں گا تم سے,, ایسے بخشنے والا نہیں... اگلی بار کسی کی زندگی سے کھیلنے سے پہلے سو مرتبہ سوچو گے۔"

وہ اس کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔


"دل تو کر رہا ہے تمہیں جان سے مار دوں.. نجانے کتنے لوگوں کی زندگی تباہ کی ہو گی تم نے... "

اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

"نہیں سر پلیز.. میرے چھوٹے چھوٹے سے بچے ہیں یہ ظلم نہ کریں.. "

وہ اس کے پاؤں پڑ گیا۔


"جن کی زندگیوں سے تم کھیلتے ہو ان کے بھی گھر والے ہوتے ہیں... "

وہ تمس سے کہتا چلنے لگا۔

فون مسلسل رنگ کر رہا تھا اور وہ جانتا تھا کس کا فون ہو سکتا ہے...

وہ چپ چاپ بائیک پر بیٹھا اور عدن کے گھر کے راستے پر ڈال دی۔


آدھ گھنٹے بعد وہ گھر پہنچا تو ڈرائینگ روم کے واش روم میں چلا گیا۔

"اس نے خون دیکھ لیا تو سو سوال کرے گی... "

وہ ہاتھ صاف کرتا ہوا بڑبڑایا۔

تولیے سے چہرہ خشک کر کے وہ کمرے کی جانب چل دیا۔

خلاف معمول کمرہ خالی تھی۔


"عدن کہاں گئی؟"

اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

وہ باہر نکل کر ٹیرس پر آ گیا۔

وہاں بھی عدن موجود نہ تھی۔

"مجھے بنا بتاےُ کہاں گئی؟"

وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا زینے اترنے لگا۔

اب اس کا رخ کچن کی سمت میں تھا۔


"رابن!! عدن کہاں ہے؟"

"سوری سر مجھے نہیں معلوم.. میں کافی دیر سے کچن میں ہوں.. "

وہ سر اٹھاتا ہوا بولا۔

"باہر تو نہیں گئی؟"

اس نے خدشہ ظاہر کیا۔


"نہیں سر.. وہ گھر پر ہی ہیں.. "

وہ سلاد کاٹتا ہوا بولا۔

"اور ان کے فادر... "

وہ ہچکچا کر بولا۔

"وہ ابھی نہیں آےُ... "

وہ مسکرا کر بولا۔


حسنین خاموشی سے باہر نکل گیا۔

"پھر کہاں چھپی بیٹھی ہے... "

وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے چیک کرنے لگا۔

یہ سٹور روم سے ملحق کمرہ تھا۔

حسنین نے دروازہ کھولا تو سامنے وہ دکھائی دی۔

دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ جاےُ نماز پر بیٹھی تھی۔


وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔

بلآخر وہ اپنی رضامندی سے بدل رہی تھی۔

"تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟"

وہ اکھڑ گئی۔

"یہاں کھڑا ہونا ممنوع ہے؟"

وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔


"کسی کی عبادت میں خلل ڈالنا ممنوع ہے۔"

وہ خفا تھی۔

"میں نے کوئی آواز نہیں کی... پھر کیسے خلل؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"تم نے سب سن لیا ہو گا.. میں نے کیا مانگا دعا میں۔"

وہ جاےُ نماز تہ لگاتی ہوئی بولی۔


"تم نے میڈیسن لی؟ اور کھانا؟"

وہ اس کا سوال نظر انداز کرتا ہوا بولا۔

"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے؟"

وہ بے رخی سے کہتی باہر نکل گئی۔

"اووہ تو صبح والی بات پر... "

وہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا۔


"کل ہمیں فنکشن پر جانا ہے..."

وہ کارڈ اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی البتہ چہرہ دوسری سمت میں تھا۔

"ٹھیک ہے... میں لے جاؤں گا۔"

وہ کارڈ دیکھتا ہوا بولا۔


"میں تم سے کوئی بات نہیں کر رہی... "

وہ منہ بسورتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔

وہ لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔

"ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں آج میں سکون سے سو پاؤں گا۔"

وہ صوفے پر نیم دراز ہوتا ہوا بولا۔

وہ کلس کر اسے دیکھنے لگی۔


"تم ہو ہی بے حس... "

وہ جل کر بولی۔

"شکریہ... "

وہ اسے مزید تپا رہی تھا۔

"تم بہت برے ہو... "

وہ بس رو دینے کو تھی۔


"یہ میرا اعزاز ہے... "

وہ محظوظ ہوا۔

"تم انتہائی درجے کے بے مروت اور... "

"اور؟"

وہ کہنیوں کے بل اٹھتا ہوا اسے دیکھنے لگا۔


"اور میں کیوں بتاؤں؟ میں ویسے بھی تم سے بات نہیں کر رہی..."

اسے اپنی بات یاد آئی تو جھٹ بولی۔

"انٹرسٹنگ... "

وہ زیر لب بڑبڑاتا مسکرانے لگا۔

وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھنے لگی۔


"تم آج پھر مسکرا رہے تھے؟"

وہ خواب کی کسی کیفیت میں بولی۔

"نہیں.. میں چینج کرنے جا رہا ہوں... "

وہ خود کو سرزنش کرتا کپڑے نکالنے لگا۔

"میں نے دیکھ لیا تھا تم مسکرا رہے تھے... "

وہ کھل کر مسکراتی ہوئی بولی۔


"تو؟"

انتہائی بد تمیزی سے جواب آیا۔

"میرا سر... "

وہ منہ میں بڑبڑائی۔

وہ ناک چڑھاتی لیٹ گئی۔ اور وہ واش روم میں چلا گیا۔

~~~~~~~~~

"یہ کیا تماشہ تم نے لگا رکھا ہے؟"

علی اس پر دھاڑا۔

"کیا؟"

وہ عدن سے نگاہیں ہٹاتی ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔


"کئیر ٹیکر مجھے شکایت کر رہی تھی کہ سارا دن تم نے اس کا سر کھایا ہے.. عدن نے کھانا کھایا, وہ سوئی یا نہیں, کبھی اسے دیکھنے کی ضد... آخر مسئلہ کیا ہے؟"

وہ اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔


وہ عدن کو صوفے پر لٹاتی پرسکون انداز میں کھڑی ہو گئی۔

"اس چیز سے تم مجھے نہیں روک سکتے.. میری بیٹی ہے میرا سو دفعہ بھی اسے دیکھنا کا دل کرے گا تو میں دیکھوں گی۔ سمجھے تم... "

"وہ حلق کے بل چلائی۔


"یہ تماشے یہاں نہیں...."

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"اب تم بھی اپنی حد میں رہو...تمہاری خاطر میں اس گندگی میں ہوں... تمہاری خاطر اپنی بیٹی کو چھوڑ کر جاتی ہوں.. لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں میں گونگی بہری ہوں۔ میرا جب دل کرے گا میں فون کروں گی اور میں دیکھتی ہوں کون مجھے روکے گا۔"

آج وہ ایک بیوی نہیں ماں تھی۔


"تم انوکھی ماں ہو... سب ایسے ہی بچے پالتے ہیں... تمہیں پتہ نہیں کس زبان میں سمجھاؤں۔"

وہ سائرہ کے بدلے تیور دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔

"تمہیں اپنی بیٹی کی فکر نہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ مجھے بھی میری بیٹی کی فکر نہیں... "

وہ چبا چبا کر بولی۔


"اب یہ لیکچر شروع ہو گیا تمہارا.. "

وہ بیزاری سے کہتا آگے بڑھ گیا۔

وہ تاسف سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔

عدن کے رونے کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کروایا۔


"او میرا بچہ... ماما یہیں ہیں۔"

وہ اسے گود میں اٹھاتی ہوئی بولی۔

"ماما کو مس کیا؟"

وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

عدن منہ بناتی اسے دیکھنے لگی۔

وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ٹہلنے لگی۔

~~~~~~~~

"عدن تم ویک ہوتی جا رہی ہو.. "

وہ کسی سے مل رہی تھی۔

"ہاں بس ایسے ہی ہے... "

وہ آہستہ سے بولی۔

حسنین کی نگاہیں عدن پر تھیں۔


عدن کو موت کا خوف نہیں تھا لیکن وہ اسے بچانا چاہتا تھا۔

"تمہیں اتنی آسانی سے جانے نہیں دوں گا میں.. "

وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"میں آتی ہوں.. "

وہ ایکسکیوز کرتی سائیڈ پر ہو گئی۔


"عدن پلیز مجھے بات کرنی ہے تم سے... "

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا سائیڈ پر آ گیا۔

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے شاہد کو دیکھنے لگی۔

"تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟"

وہ اپنی بازو اس کی فولادی گرفت سے آزاد کرواتی ہوئی بولی۔


آنکھوں میں شعلے اٹھ رہے تھے۔

"پلیز ایک موقع دے دو.. میں اپنی غلطیاں سدھار لوں گا... تم اس کے ساتھ نہیں میرے ساتھ سوٹ کرتی ہو.. "

وہ جیلیس ہو رہا تھا۔


"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی اور ہاں مجھ سے دور رہا کرو.. ورنہ جو میرا شوہر ہے نہ... تمہیں چھوڑے گا نہیں۔"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

حسنین لمبے لمبے ڈگ بھرتا ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔


غصے سے گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں, آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئیں تھیں۔

"پلیز صرف ایک موقع... "

وہ پھر سے اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی عدن کو چھونے کی؟"

حسنین اس کا ہاتھ جھٹک کر اسے کالر سے پکڑتا آس کی جانب بڑھنے لگا۔ شاہد الٹے قدم اٹھا رہا تھا۔

"ہمت تم نے ابھی دیکھی نہیں ہے۔"

وہ اسے دھکا دیتا ہوا بولا۔

"پھر آج دیکھ ہی لیتے ہیں کتنی ہمت ہے تمہارے اندر... "

وہ کوٹ اتارتا ہوا بولا۔


"حسنین پلیز نہیں مہندی کا فنکشن ہے یہ اور تم.. "

عدن اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"اسے سبق سکھانا ضروری ہے۔"

وہ پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا۔

شاہد اپنی کالر درست کرتا حسنین کو گھور رہا تھا۔


"پلیز.. ایسا مت کرو انکل کیا سوچیں گے؟ ان کی بیٹی کی مہندی خراب کر دی ہم نے۔"

وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی۔

وہ نگاہیں جھکا کر عدن کے ہاتھ دیکھنے لگا۔

"ٹھیک ہے۔"

وہ سمجھ گیا۔


"اور اب تم میرے ساتھ ہی رہو گی..."

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔

وہ گردن گھما کر شاہد کو دیکھنے لگا, آنکھوں میں غیض تھا, تنبیہ تھی۔


منال سپاٹ انداز میں بیٹھی سب کو دیکھ رہی تھی۔

وہ اپنی کیفیات سمجھنے سے قاصر تھی۔

وہ خوش تھی یا اداس اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

"اس دن سے سامنے نہیں آےُ تم میرے... عجیب پاگل انسان ہو... "

اسے انیب پر غصہ آ رہا تھا۔


انیب کی بہن مہندی کی رسم کرنے آئی تو وہ مسکرانے لگی۔

ہمیشہ کی مانند آج بھی وہ حجاب میں تھی۔

سنہری رنگ کا حجاب میک اپ سے عاری چہرے پر چار چاند لگا رہا تھا۔

اس کی خوبصورتی ہی اس حجاب سے تھی۔


"پاپا میں تھک گئی ہوں.. "

مہمان جا رہے تھے جب اس نے فیصل صاحب کو مخاطب کیا۔

"ہاں.. ٹائم بھی کافی ہو گیا ہے... فضا(منال کی پھوپھی زاد) منال کو کمرے میں لے جاؤ.. "

وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔

"جی ماموں... "

وہ سر ہلاتی منال کے پاس آ گئی۔


منال چینج کر کے ٹہلنے لگی۔

"ایک بار تو تم سے بات کرتی... ایسے کیسے تم سے شادی کر لوں؟"

وہ لب کاٹتی سوچ رہی تھی۔

ابھی وہ انہیں سوچوں میں غرق تھی کہ اس کا فون رنگ کرنے لگا۔

اسکرین پر پاگل انسان کا نام جگمگا رہا تھا۔


"تو تم دنیا میں واپس آ ہی گئے.. "

چھوٹے ہی وہ بول پڑی۔

"توبہ توبہ نہ سلام نہ دعا... سیدھا لڑنے بیٹھ گئی تم تو.. "

وہ شرارت سے بولا۔

"یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔


"کون سی حرکت؟"

وہ معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتا ہوا بولا۔

"کس خوشی میں رشتہ بھیجا تھا تم نے؟"

وہ تپ کر بولی۔

"تم انکار کر دیتی... میں نے رشتے کے ساتھ گن تو نہیں بھیجی تھی جو تم انکار نہ کر سکی گن کے آگے... "

وہ حساب برابر کرنے لگا۔


"تم نہ... "

وہ تلملا کر رہ گئی۔

"میں کیا؟ اچھا میں نے سنا ہے تم میری یاد میں ڈھانچہ بن گئی ہو؟"

وہ بیڈ پر گرتا ہوا بولا۔


"انتہائی فضول انسان ہو تم... ایسی ہی فضول باتوں کی توقع تھی تم سے.. "

وہ بدمزہ ہوئی۔

"اچھا پھر کیسی باتیں کروں تم ہی بتا دو.. ابھی میں نے کوئی پیار محبت کی بات کر لی تو تم کہنا ہے ٹھرکی بن رہے ہو۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"تم نہ کوئی بھی بات مت کرو.. بھاڑ میں جاؤ.. "

اس نے کلس کر فون بند کر دیا۔

انیب ہنستا ہوا فون کو دیکھنے لگا۔


"کل جب تم میرے پاس ہو گی پھر میں دیکھوں گا کیسے نخرے دکھاتی ہو.. "

وہ فون بیڈ پر رکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~~

"مجھے نہیں کھانا یہ... "

وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔

وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھے اسے گھورنے لگا۔

"مجھ سے ہرگز یہ توقع مت رکھنا کہ میں تمہیں کہوں گا یہ رہنے دو اور تمہاری فیورٹ ڈش آڈر کروا دیتا ہوں جو تمہارے لیے ڈاکٹر نے کہا ہے وہی کھانا پڑے گا... "

وہ سلگ کر بولا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"جانتی ہوں تم ہو ہی بے مروت انسان... "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"چپ کر کے کھاؤ اسے.. "

وہ گھورتا ہوا بولا۔

"مجھے نہیں پسند یہ۔"

وہ منمنائی۔


"ڈاکٹر نے یہی بولا ہے اور تمہیں کھانا پڑے گا.. اب خاموشی سے کھاؤ اور مجھے تنگ نہ کرو۔"

وہ بولتا ہوا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔


"تم سے کوئی امید رکھتی بھی نہیں ہوں میں.. "

وہ خفا خفا سی بولی۔

"میں بھی یہی چاہتا ہوں تم مجھ سے توقعات وابستہ نہ کرو۔"

وہ چاےُ کا کپ اٹھاتا ہوا بولا۔


"اور ایسا کیوں؟"

وہ نوالہ توڑتی ہوئی بولی۔

"توقعات ہمیشہ تکلیف دیتی ہیں اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔"

وہ سامنے دیکھتا ہوا بولا۔


"شاہد کے سامنے ایسا لگتا ہے نجانے تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے اور گھر میں تو بس... "

وہ نفی میں سر ہلاتی کھانے لگی۔

"کل ڈائلائسز کے لئے جانا ہے ابھی سے تیار کر لو خود کو.... یہ نخرے نہیں دیکھنے میں نے۔"

وہ برہمی سے بولا۔


"تم کبھی نرمی سے بات نہیں کر سکتے؟ ہمیشہ جلی کٹی سناتے رہتے ہو,, غصہ کرتے رہتے ہو۔فکر بھی کرتے ہو تو ڈانٹ کر... "

وہ آنکھوں میں نمی لئے شکایتوں کے انبار لگا رہی تھی۔

"اسی لئے کہتا ہوں امیدیں مت باندھو مجھ سے... صرف تکلیف ملے گی۔"

وہ جھک کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔


"کیا تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گے؟ میرے پاس تو اب تھوڑا سا ہی ٹائم ہے۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

وہ جو جانے کے لیے مڑا تھا رک گیا۔

وہ جیسے اس کے سوالوں سے بھاگنا چاہتا تھا۔


"بتاؤ.. تم ہمیشہ ہر چیز میں اپنی مرضی چلاتے ہو.. کبھی میری بات نہیں مانتے,, کبھی میرے سوالوں کا جواب نہیں دیتے... "

وہ تھکتی جا رہی تھی اس کے متعلق سوچ سوچ کر۔

"اور میں نے تمہیں ہزار بار کہا ہے خود کو ہلکان مت کیا کرو.. "

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔

"میں چلی جاؤں گی... کیا تم چند دن بھی مجھے نہیں دے سکتے؟"

وہ اس کی سنہری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔

وہ اپنے ساتھ ساتھ حسنین کو بھی تکلیف دیتی تھی۔


وہ خاموش تھا۔ جیسے مناسب الفاظ تلاش رہا ہو۔ اور وہ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو.. اس سے زیادہ میں نہیں کر سکتا۔"

وہی روکھا لہجہ۔

عدن نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔


"اب میں بھی تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی.. نہ میڈیسن لوں گی نہ ڈائلائسز کرواؤں گئ کچھ بھی نہیں... "

وہ چلاتی ہوئی زینے چڑھنے لگی۔

حسنین تاسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"یہ نہیں ہونا چائیے تھا.. "

وہ بولتا ہوا باہر نکل گیا۔


"تم دن بہ دن مجھے مشکل میں ڈال رہی ہو.. کیسے سمجھاؤں تمہیں؟"

وہ بولتا ہوا چلنے لگا۔

~~~~~~~~

شفق پریشانی کے عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔

"کچھ معلوم ہوا ملیحہ کا؟"

وہ فون کان سے لگاےُ بہت چینی سے گویا ہوئی۔

"ایسے اچانک کہاں جا سکتی ہے وہ.. اور بنا بتاےُ؟"

وہ جھنجھلا کر بولیں۔

مقابل نجانے کیا کہہ رہا تھا کہ وہ مدھم پڑ گئیں۔


"اچھا... "

بس اتنا کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

"کہاں چلی گئی ہو تم؟ خدا کرے جہاں بھی تم ہو بس ٹھیک ہو... "

وہ دعائیں مانگتی منتظر نگاہوں سے دروازے کو دیکھنے لگیں۔

"حارب اچھا ہوا تم آ گئے... ملیحہ نجانے کہاں غائب ہو گئی ہے مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا... "

وہ اسے دیکھتیں اشک بہاتی ہوئی بولیں۔


"آپ فکر مت کریں میں دیکھتا ہوں... بیٹھ جائیں یہاں.. "

وہ انہیں صوفے پر بٹھاتا ہوا بولا۔

"مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے... مجھ سے بحث کر کے نکلی تھی اور واپس نہیں آئی۔"

وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولیں۔


"آپ پانی پئیں میں دیکھتا ہوں... "

وہ گلاس انہیں پکڑتا کھڑا ہو گیا۔

اسے ملیحہ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن شفق کے ساتھ اس کا رشتہ مختلف نوعیت کا تھا جس کے باعث وہ انہیں انکار نہیں کر سکتا تھا۔

~~~~~~~~

"شکر ہے آپ کو بھی گھر کی یاد آئی۔"

وہ خفا تھی۔

"مجھے جیسے علم ہوا میں فوراً آ گیا۔ اور اپنی بیٹی کے لئے انتظام کر کے آیا ہوں۔"

وہ ہلکا سا مسکراےُ۔


"تھینک یو ڈیڈ... "

عدن ان کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

"وہاں جا کر فوراً اپنا علاج شروع کروا دینا.. اور مجھے کال کرتی رہنا۔"

وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔

وہ چاہ کر بھی مسکرا نہ پائی۔


دل اسے روک رہا تھا۔ لیکن دماغ رکنے پر آمادہ نہیں تھا۔

"کچھ چیزیں ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں.. میں چاہتی ہوں حسنین تمہاری زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں۔ تمہیں میری ناراضگی سے فرق پڑے...اور اب میں تبھی واپس آؤں گی جب تمہیں فرق پڑے گا ورنہ علاج تو مجھے وہاں بھی نہیں کروانا۔"

وہ گردن گھما کر علی صاحب کو دیکھتی بول رہی تھی۔


"کاش ایک بار تمہیں دیکھ لیتی.. "

وہ حسرت بھری نگاہوں سے سامنے دیکھتی ہوئی بولی۔

لیکن جانتی تھی حسرتیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔

"گڈ باےُ..حسنین۔"

کہہ کر وہ ائیر پورٹ کے اندر داخل ہو گئی۔


وہ کہاں جا رہی تھی اس متعلق صرف علی صاحب جانتے تھے۔

حسنین دو دن بعد گھر آ رہا تھا۔

ہاتھوں پر چھالے بن رہے تھے۔

وہ اپنے ہاتھ دیکھتا واش روم میں آ گیا۔

پورچ میں گاڑی نہ دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی لیکن خاموشی سے زینے چڑھنے لگا۔


جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

کمرہ خالی تھا۔

"عدن کہاں گئی؟"

وہ زیر لب کہتا ہوا دیکھنے لگا۔


"اس وقت وہ کہاں جا سکتی ہے؟"

وہ تعجب سے خالی کمرے کو دیکھ رہا تھا۔

سائیڈ ٹیبل پر اسے ایک صفحہ نظر آیا جو لیمپ کے نیچے تھا۔

وہ الجھتا ہوا آگے آیا اور اسے دیکھنے لگا۔


"میں نے تمہیں کہا تھا میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی... "

جیسے جیسے وہ پڑھتا جا رہا تھا پیشانی پر شکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

"اور اب میں اپنی بات کا عملی ثبوت دینے والی ہوں.. جا رہی ہوں میں تم سے دور۔"

گویا اس کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"موت تو آنی ہی ہے پھر ایسے ہی سہی.. میں ٹریٹمینٹ نہیں کرواؤں گی۔ کوئی ڈائلائسز نہیں ہوں گے...لیکن ایک اچھی بات ہے وہ یہ کہ تمہیں میرے آگے پیچھے نہیں گھومنا پڑے گا نہ ہی میرے لئے فکرمند ہونا پڑے گا۔

اور مزے کی بات پتہ کیا ہے تمہیں مجھے مرتے ہوۓ بھی نہیں دیکھنا پڑے گا۔کیونکہ میں اب واپس نہیں آؤں گی.. تم آزاد ہو اپنی زندگی میں, اپنے گھر واپس جا سکتے ہو..."

وہ بےیقینی سے لکھی عبارتیں پڑھ رہا تھا۔


سر دم بخود نفی میں حرکت کرنے لگا۔

"ہاں وہ پاگل ہو گئی ہے.. یہ کیا فضول حرکت یے؟"

وہ تمس سے مٹھی بند کرتا ہوا بولا۔

غیض پریشانی میں تغیر ہونے لگا۔


"یہ کیا ہو گیا؟ تم کہاں چلی گئی ہو؟"

وہ دو انگلیوں سے کنپٹی سہلاتا ہوا بولا۔

کچھ سوچ کر وہ باہر نکل آیا اور گھر کی جانب چلنے لگا۔

~~~~~~~~

"تم انتہائی دو نمبر انسان ہو... "

منال اسے اندر آتے دیکھ کر پھٹ پڑی۔

وہ سینے پر ہاتھ رکھے پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا۔


"کون سا فراڈ کیا میں نے تمہارے ساتھ؟"

وہ ایک ہی جست میں اس کے سامنے آ بیٹھا۔

"میرے پیسے واپس کرو....بزنس مین ہو کر مجھ سے جھوٹ بولتے تھے تم؟"

وہ کھا جانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔

وہ قہقہے لگاتا لیٹ گیا۔

وہ جھنپ کر پیچھے ہو گئی۔


"ایسی دلہن پہلی بار دیکھ رہا ہوں... "

وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

سرخ رنگ کا جوڑا پہنے, چہرے پر میک اپ کیے, بھورے بال آگے ڈال رکھے تھے, تراشیدہ ہونٹ سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ تھے۔ منال کا ایسا روپ وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔

وہ پلکوں کو جنبش دیتی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی جو مہندی سے سجے ہوۓ تھی۔


"مجھے یقین نہیں آ رہا... "

وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولا۔

"کس بات پر؟"

وہ نگاہیں اٹھا اسے دیکھنے لگی۔

وہ مبہوت زدہ اس اسے دیکھنے لگا۔

منال کا مکمل حسن آج اس کے سامنے تھا۔


"بولو گے بھی اب؟"

وہ خفگی سے بولی۔

"ہا.. میں کہہ رہا تھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تم میرے کمرے میں بیٹھی ہو۔"

وہ اپنی کیفیت پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا۔

وہ لب کاٹتی نگاہوں کا زاویہ موڑ گئی۔


"اچھا یہ بتاؤ مجھے شاہد سے کیا بات ہوئی تھی؟ اور وہ شادی میں کیوں آیا تھا؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

اس نے فوراً اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔


"کچ کچھ نہیں.. "

وہ ہکلا کر بولی۔

"کیا مطلب کچھ نہیں؟"

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔

"کوئی بات نہیں ہوئی۔"

وہ بتانے کی خواہاں نہیں تھی۔


"یہ کیا بات ہوئی؟ میں تمہیں لے کر گیا اور اب تم مجھے بتانے سے انکار کر رہی ہو؟"

وہ خفگی سے بولا۔

"میں چینج کر کے آئی... "

وہ اس موضوع سے بھاگ رہی تھی۔

انیب خاموش اسے دیکھنے لگا۔


وہ اپنا لہنگا سنبھالتی اٹھ گئی۔

"ایسی کیا بات ہوئی ہے شاہد سے؟"

وہ الجھ کر سوچنے لگا۔

~~~~~~~~

"تم لوگ؟"

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان دو افراد کو دیکھنے لگی جو اس کے سامنے کھڑے تھے۔

"بلکل ہم... تمہیں کیا لگا تھا تم پیسے نہیں دو گی اور ہم خاموش رہے گے؟"

وہ ملیحہ کے چہرے کو چھوتا ہوا بولا۔


"کیا بکواس ہے یہ؟ میں تم دونوں کو بخشوں گی نہیں... کھولو مجھے.. "

وہ حلق کے بل چلائی۔

دل خوف سے لرز رہا تھا۔


"کھول دیں گے اتنی جلدی بھی کیا ہے؟"

وہ کمینگی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"دیکھو تمہارا جو حساب ہے میں کر دوں گی لیکن مجھے کھولو پہلے... "

اس کی آواز کپکپانے لگی تھی۔

خوف آنکھوں میں تیرتا دکھائی دے رہا تھا۔


"چل تو باہر جا میں ذرا پیسے وصول کروں..."

وہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا ہوا دوسرے اغواکار سے مخاطب تھا۔

ملیحہ کا وجود کانپنے لگا۔


"نہیں... دیکھو تمہیں جتنے پیسے چائیں میں دوں گی؟لیکن اگر تم نے... "

وہ ملیحہ کے منہ پر ہاتھ رکھتا دوسرے کو اشارہ کرنے لگا۔

وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔


وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس بھیڑیے کو دیکھ رہی تھی جو اسے چیر پھاڑ کرنے کے لیے تیار تھا۔

~~~~~~~~~

حسنین جب سے گھر آیا تھا خاموش بیٹھا تھا۔

وہ فون کو دیکھنے لگا۔

"کیسے رابطہ کروں تم سے؟"

وہ بےبسی سے بولا۔

"حسنین تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟"

وہ اندر آتی ہوئی بولیں۔


"جی امی میں ٹھیک ہوں.. "

وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔

"پھر ایسے گم سم کیوں بیٹھے ہو؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

"نہیں بس ایسے ہی... "

وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔


"وہ ٹھیک ہے اب؟"

وہ چور نظروں سے دیکھتی ہوئی بولیں۔

"ویسے ہی ہے... ڈائلائسز کروا رہی ہے۔"

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔

"نمرہ بتا رہی یے تم صبح سے ایسے ہی بیٹھے ہو.. آفس نہیں جانا کیا؟"

وہ گھڑی دیکھتی ہوئی بولیں۔


"نہیں مجھے کام سے جانا ہے... آ کر بات کرتا ہوں۔"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"اچھا واپسی پر چاول لیتے آنا... کل ختم ہو گئے تھے؟"

وہ یاد کرتی ہوئی بولیں۔

"جی اچھا... "

وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا۔


جیب میں پڑا فون رنگ کر رہا تھا۔

حسنین بائیک پر بیٹھ کر فون کو دیکھنے لگا۔

"ہیلو ہاں بولو... "

حسنین لب کاٹتا ہوا بولا۔

"عدن کہاں گئی؟"

خفگی بھرا لہجہ۔


"میں نہیں جانتا... "

حسنین بےچارگی سے بولا۔

"وہ تمہارے ساتھ تھی... "

درشتی سے جواب آیا۔


"لیکن میرے علم میں نہیں وہ کہاں گئی ہے۔"

وہ جھنجھلا کر بولا۔

"آئی ڈونٹ نو تم دونوں کے بیچ کیا ہوا ہے لیکن وہ تمہارے باعث گئی ہے اور تم ہی اسے واپس لاؤ گے... یاد رکھنا۔"

کہتے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔

حسنین لب بھینچے فون کو گھورنے لگا۔

"نجانے کہاں چلی گئی ہو تم۔"

وہ کوفت سے کہتا بائیک سٹارٹ کرنے لگا۔


"کیا ہوا؟"

کمرے میں وہی زنانہ آواز گونجی۔

"وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی ہے۔"

افسوس لہجے سے عیاں تھا۔

"کہاں؟"

بےچینی سے پوچھا گیا۔


"میں نہیں جانتا.. بس ایک خط چھوڑ گئی۔بہت ضدی ہے وہ... علاج نہ کروانا پڑے اسی لئے چلی گئی۔"

وہ آہ بھرتا ہوا بولا۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟"

مقابل بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔


"مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیسے بات کروں اس سے... شہری, عزہ کوئی بھی نہیں جانتا وہ کہاں ہے۔"

وہ آرزدگی سے بولا۔

"شاید وہ نہیں چاہتی تم اس تک رسائی حاصل کرو.. کیا اس حد تک تم نے اسے ہرٹ کیا ہے؟"

وہ تاسف سے بولی۔


حسنین پھر سے خاموش ہو گیا۔

اب صرف افسوس ہی رہ گیا تھا اسکے پاس۔

"اسے کچھ نہیں ہونا چائیے۔"

تحکم سے کہا گیا۔


"جی..."

وہ سر ہلاتا باہر نکل آیا۔

"تمہارا اکاؤنٹ فریز ہے... ٹرانسپلانٹ کیسے ہو گا؟"

وہ متفکر سا کہتا بائیک پر بیٹھ گیا۔

کچھ سوچ کر اس نے گاڑی علی ہاؤس کی جانب ڈال دی۔


"رابن عدن کہاں ہے؟"

لاؤنج میں رابن پر نظر پڑتے ہی وہ بول پڑا۔

"سر وہ تو جرمنی چلی گئیں ہیں۔علی سر کے ساتھ گئیں تھیں۔ آپ کو نہیں معلوم؟"

وہ ششدر سا بولا۔


"وہ بھی ساتھ گئے ہیں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"نہیں وہ تو ائیر پورٹ گئے تھے چھوڑنے پھر واپس آ گئے۔

وہ ایل ای ڈی بند کرتا ہوا بولا۔


"ٹھیک ہے۔"

وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

~~~~~~~~~

وہ بازوؤں پر ہاتھ رکھے بےدلی سے چل رہی تھی۔

سمندر کا یخ بستہ پانی اس کے پیروں کو تر کر رہا تھا۔

ہوائیں زوروں سے چل رہی تھیں۔

وہ سیاہ رنگ کی شلوار قمیص زیب تن کئے ہوۓ تھی۔ سر دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔

ہوا کے باعث کچھ شرارتیں لٹیں اس کے چہرے پر بوسے دے رہی تھیں۔


شام کے ساےُ گہرے ہو رہے تھے۔

سورج اپنی مسافت طے کرتا زوال کی جانب تھا۔

ہر رشتہ ہر انسان عروج سے زوال کا سفر طے کرتا ہے۔ بلکل آفتاب کی مانند۔جس طرح عروج نہیں رہا اسی طرح زوال بھی صدا رہنے والا نہیں۔اگر وہ بھی آفتاب کی مانند صبر سے کام لیں زوال کا وقت بھی گزر جاےُ گی اور اس کے بعد پھر سے عروج آےُ گا ہر صبح کا آفتاب عروج پر ہوتا ہے۔


آسمان پر سرخ اور سنہری رنگ گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ غروب آفتاب کا وقت دل کو بھا رہا تھا۔

ایک وہی تھی جسے یہ منظر بھی قابل دید معلوم نہیں ہو رہا تھا۔

وہ گم سم سی اپنی سوچ میں غرق تھی۔


"کیا تم مجھے مس کرو گے؟ جیسے میں تمہیں مس کر رہی ہوں... ہر پل پر لمحہ... کیا تمہیں بھی میری یاد ستاتی گی؟"

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی۔

وہ دن بہ دن علیل ہوتی جا رہی تھی۔


"کیا تمہیں میری فکر ہے؟"

بولتے بولتے اس کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر نیچے گر گئے جنہیں لہر اپنے سنگ لے گئی۔

"تمہارے آنے کے بعد صرف ایک ہی دعا مانگتی ہوں میں... زیادہ نہیں بس ایک انسان میرا ہو جاےُ۔ کوئی تو ہو جسے میری ذات سے فرق پڑے.. تب شاید اپنا آپ اتنا ارزاں معلوم نہ ہو۔"


آنسوؤں کی روانی بڑھتی جا رہی تھی جو اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

"پلیز ﷲ پاک صرف ایک وہی انسان.. زیادہ نہیں مانگتی میں آپ سے مجھے بس حسنین دے دیں۔ نجانے کیوں اس کی اتنی بےرخی کے باوجود دل اسی کا نام لیتا ہے۔ اسی کو پکارتا ہے,اسی کو دیکھنا چاہتا ہے..."

وہ تھک چکی تھی۔

وہ کافی مسافت طے کر چکی تھی۔ بیچ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آ چکی تھی۔ لیکن دل کے زخم ابھی ختم نہیں ہوےُ تھے, اس کا بوجھل پن ابھی بھی باقی تھا۔


"یہاں بھی سکون نہیں ہے... نہ تم سے دور رہ سکتی ہوں نہ تمہارے ساتھ۔ تمہیں دیکھ کر دل میں جینے کی تمنا جاگتی ہے لیکن افسوس اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے... "

وہ سرد آہ بھرتی لہروں کو دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~~

"شہری بتا دو عدن کا فون نمبر؟ کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو لیکن تمہیں ضرور علم ہو گا۔"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں اس نے مجھے بھی نہیں بتایا... اگر مجھے معلوم ہوتا تو کیوں چھپاتا؟"

وہ نگاہیں چراتا ہوا بولا۔


حسنین اثبات میں گردن ہلاتا اسے دیکھنے لگا۔

اب وہ آخری حربہ استعمال کرنے جا رہا تھا۔

"اگر عدن کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار تم ہو گے..."

وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھتا قدم اٹھانے لگا۔


"کیا مطلب میں کیسے؟"

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔

"وہ لیٹر چھوڑ کر گئی ہے کہ علاج نہیں کرواےُ گی جتنا وقت ضائع ہو رہا ہے اس میں عدن کا خسارہ ہے۔ اور تم اس کے ذمے دار ہو گے... "

وہ جتانے والے انداز میں بولا۔


"ویٹ ویٹ.. میں نمبر ٹیکسٹ کرتا ہوں تمہیں۔"

وہ فون جیب سے نکالتا ہوا بولا۔

حسنین کے چہرے پر معدوم سی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"تھینک یو.. "

وہ نمبر دیکھتا باہر نکل گیا۔

کئی پل وہ نمبر کو گھورتا رہا۔


"کتنا عجیب ہے تمہیں منانا.. یہ سب مجھے نہیں آتا۔"

وہ اسکرین کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔

"ہاں لیکن تمہاری زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا.. "

وہ بولتا ہوا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

عدن کافی کا مگ اٹھاےُ زینے چڑھ رہی تھے جب اسے فون کی بیل سنائی دی۔

"شہری کا ہوگا... "

وہ بولتی ہوئی نیچے آ گئی۔


حسنین کا نمبر دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔

مزید کسی لمحے کا ضیاع کئے بغیر اس نے کال اٹینڈ کر لی۔

"ہیلو! "

حسنین کی بھاری آواز اسپیکر پر ابھری۔


"کیوں فون کیا ہے؟ اور نمبر کہاں سے لیا تم نے؟"

ناراضگی یاد آنے پر وہ خفگی سے گویا ہوئی۔

"مجھ سے مل کر بھی نہیں گئی تم... "

وہ شکوہ کر رہا تھا۔


"تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ میں تم سے مل کر نہیں گئی؟"

اس کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔

"بلکل... ایسے کون جاتا ہے؟"

وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔


"تم ہمیشہ بد لحاظ ہی رہو گے... مجھے بات ہی نہیں کرنی تم سے۔"

"اچھا واپس کب آؤ گی؟ دیکھو تمہارا شوہر غریب سا بندہ ہے آ نہیں سکتا تمہیں لینے.. "

اس سے قبل کہ وہ فون رکھتی حسنین بول پڑا۔


"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میں واپس آؤں یا نہیں.. "

وہ سلیپر اتار کر زینے چڑھنے لگی۔

"بیوی میری ہو تو فرق بھی تو مجھے ہی پڑے گا یا کسی اور کو... "

وہ خفگی سے بولا۔

اس کا الگ ہی انداز تھا۔


"تم مجھ پر حق جتا رہے ہو؟"

وہ محظوظ ہوئی۔

"ایسا ہی سمجھ لو... "

وہ آہستہ سے بولا۔


"میں سمجھو یا ایسا ہے؟"

وہ دم سادھے اس کے بولنے کی منتظر تھی۔

"اگر میں کہوں ایسا ہے پھر؟"

وہ سوچ کر بولا۔

"پھر مجھے یقین نہیں آےُ گا۔"

وہ مایوس ہو گئی۔


"واپس آ جاؤ... پھر یقین بھی دلا دوں گا؟"

"پکا؟"

نجانے ایسا کون سا سحر تھا اس کی باتوں میں جو وہ پل بھر میں پگھل جاتی۔

"ہاں پکا.. اور ہاں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا.. تمہارے پوچھنے سے پہلے بتا رہا ہوں.. "

وہ جیسے اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔


عدن ہلکا سا مسکرائی۔

"مجھے مس کر رہے ہو؟"

وہ کھلی فضا میں سانس اندر اتارتی ہوئی بولی۔

"سب فون پر ہی پوچھ لو گی کیا؟ یہ بتاؤ کب آ رہی ہو؟"

بےتاب سا لہجہ۔


عدن کے دل کو کچھ ڈھارس ملی۔

"میری باتیں مانو گے؟"

اسے پرانی ناراضگی یاد آ گئی۔

"جی میڈم بندہ آپ کے حکم کا غلام ہے۔"

وہ شرارت سے بولا۔


"اب تو بلکل جھوٹ بول رہے ہو.. میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں۔"

دوسری جانب اسے حسنین کا قہقہ سنائی دیا۔

اس کی مزید دلچسپی بڑھ گئی۔

"بس تم آ جاؤ پھر آرام سے باتیں کریں گے؟"

وہ بائیک سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔


"تم باہر ہو؟"

وہ آواز سن چکی تھی۔

"ہاں..بس گھر جا رہا تھا.. سوچا پہلے تمہیں منا لوں۔ اب میں وہاں تو آنے سے رہا۔"

وہ بے چارگی سے بولا۔

"ایسا کرو تم بھی آ جاؤ میں تمہارے ساتھ گھومنا چاہتی ہوں۔"

پھر سے خواہش کا اظہار ہوا۔


"ہم چلیں گے لیکن ایک ساتھ, جب میں اس قابل ہو جاؤں گا تب۔"

اسے اپنی عزت نفس زیادہ عزیز تھی۔

"اووہ اچھا۔ میں پہلی فلائٹ لے کر آ جاتی ہوں۔ تم... "


"ہاں میں ائیر پورٹ آ جاؤں گا۔"

وہ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑا۔

"ٹھیک ہے... "

وہ کھل کر مسکرا دی۔

"اچھا میں اب گھر جا رہا ہوں...ٹھیک ہے؟"

وہ جیسے اجازت طلب کر رہا تھا۔


"ہممم ٹھیک ہے جاؤ.. "

وہ بے دلی سے بولی۔

ابھی مزید وہ ان لمحوں کو جینا چاہتی تھی۔

حسنین نے فون بند کر دیا۔


لیکن جو کشیدگی کم ہوئی تھی وہ اسی پر خوش تھی۔

"تم بہت اچھے ہو... "

وہ فون سینے سے لگاتی ہوئی گھڑی دیکھنے لگی۔

"نماز کا ٹائم ہو گیا۔"

وہ فکر سے کہتی زینے اترنے لگی۔

~~~~~~~~~

"خالہ میری بات ہو گئی ہے عدن سے.. آپ فکر مت کریں وہ آ جاےُ گی ایک دو دن تک۔"

وہ اسی نیم تاریک کمرے میں آتا ہوا بولا۔

"میں جانتی تھی تم اسے منا لو گے لیکن اب میری ایک بات یاد رکھنا اسے مزید کوئی دکھ نہ ملے۔"

سائرہ اس کا کان کھینچتی ہوئی بولی۔


"اب آپ تو مجھے ظالم مت بنائیں... وہ بھی یہی روتی رہتی ہے۔ اتنا بھی برا نہیں ہوں میں۔"

وہ برا مان گیا۔

وہ ہلکا سا مسکرائی۔


"اچھے سے جانتی ہوں تم بہت اچھے ہو لیکن حسنین یہ جو رشتہ بن چکا ہے نہ اسے توڑنا مت ورنہ وہ بھی ٹوٹ جاےُ گی۔ بس ﷲ کی رضا سمجھ کر قبول کر لو اسے... "

وہ آہستہ سے بولی۔

"مجھے اس کی توقعات سے ڈر لگتا ہے۔ کل کو میں اس کی امیدوں پر پورا نہ اترا تب بھی اسے ہی تکلیف ہو گی۔"

وہ الجھا ہوا تھا۔


"تم کل کی فکر مت کرو.. حال اچھا ہو تو مستقبل بھی اچھا ہی ہو گا۔ اور ٹرانسپلانٹ کا کچھ بنا؟"

وہ فکرمندی سے بولی۔

"جی بس وہ آ جاےُ.. ڈونر مل گیا ہے ایک بار ٹیسٹ ہوں گے دعا کیجئے گا سب اچھا ہو جاےُ۔"

وہ پریشانی چھپانے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہا تھا۔


"فکر مت کرو.. وہ جو اوپر بیٹھا ہے نہ! سب ٹھیک کر دے گا۔ بس ایک بار مجھے عدن سے ملوا دو... اپنی سانسوں پر بھروسہ نہیں رہا۔"

ان کے لہجے میں صدیوں کی تھکن نہیں۔


"نہیں.. آپ کو کچھ نہیں ہوگا.. ابھی آپ کو ﷲ کا انصاف دیکھنا ہے۔"

وہ کرخت لہجے میں بولا۔

"تم بس عدن پر توجہ دو...میں نے اپنا معاملہ ﷲ پر چھوڑا ہے اور خبردار اگر اِدھر اُدھر ہاتھ مارا تو.. "

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔


"میں چلتا ہوں.. امی انتظار کر رہی ہوں گیں۔"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

وہ جواباً اثبات میں گردن ہلانے لگی۔

~~~~~~~~

"جی آنٹی خیریت آپ نے مجھے بلایا؟"

حارب اندر آتا ہوا بولا۔

"بیٹا ملیحہ کو دیکھو ذرا... جب سے آئی ہے چپ بیٹھی ہے,,نہ ہی کچھ بول رہی ہے۔۔"

شفق متفکر سی اس کے کمرےمیں جانب چلتی ہوئی بولی۔


وہ سرد آہ بھرتا ان کے عقب میں چلنے لگا۔

ملیحہ ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

"کیا میں دو منٹ اکیلا بات کر سکتا ہوں؟"

حارب ان کی جانب گھومتا ہوا بولا۔


"ہاں بیٹا کر لو... میں باہر ہوں۔"

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔

حارب رک کر اس کا جائزہ لینے لگا۔

"کیا ہوا ہے تمہیں؟ اور کہاں سے آئی ہے؟"

خشک لہجہ۔

وہ سانس خارج کرتی بیڈ کو گھورنے لگی۔


"میں کچھ پوچھ رہا ہوں... "

وہ اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔

"سی... "

درد کی ایک سرد لہر اس پر سرایت کر گئی۔

حارب کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

وہ ملیحہ کی شرٹ کی آستین اوپر کرنے لگا۔


"یہ کیا؟"

وہ تعجب سے دیکھ رہا تھا۔

"ہوا کیا ہے بتاؤ گی؟"

اب کہ وہ نرم پڑا۔

"حارب.. وہ مجھے لے گئے۔"

وہ روتی ہوئی اس کے سینے سے لگ گئی۔


"کون؟ کس کی بات کر رہی ہو؟ کہاں لے گئے؟"

الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

آس نے روتے ہوۓ ہر چیز اس کے گوش گزار کر دی۔

"میں کہتا تھا نہ حسد میں مت جلو.. دیکھ لو ملیحہ جو گڑھا تم نے عدن کے لئے کھودا تھا وہ تو صحیح سلامت نکل آئی لیکن تم خود ہی اس میں گر گئی۔"

اسے ہمدردی نہیں افسوس ہو رہا تھا۔


" اس میں بھی میرا قصور ہے؟"

وہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

"جب تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں تھا تو بتاؤ کیسے محفوظ رہتی تم؟ شوبز ایسی جگہ ہے جہاں لڑکیوں کو عزت دار نہیں سمجھا جاتا۔اور میرا خیال ہے کچھ غلط بھی نہیں اس میں۔"

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا پیچھے ہو گیا۔


وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"تم مجھے ایسا سمجھتے ہو؟"

وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولی۔

"یہاں سب ہی ایسے ہیں.. یہ تم ہی ہو نہ؟ شاہد کی گود میں؟"

وہ فون اس کے سامنے لہراتا ہوا بولا۔


"میری منگنی... "

"او شٹ اپ... منگنی مائی فٹ۔ میں جانتا ہوں کیسے منگنی ہوئی تھی, اور اب مہربانی کر کے اپنی ماما کو تنگ کرنا بند کرو۔تاکہ وہ مجھے کال نہ کریں۔"

وہ حقارت سے بولا۔


"تمہیں مجھ پر ترس بھی نہیں آ رہا؟"

وہ مدھم آواز میں بولا۔

حارب ناب پر ہاتھ رکھے چہرہ گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

"نہیں مجھ تم پر بلکل رحم نہیں آ رہا کیونکہ تم اسی قابل ہو۔"

وہ چبا چبا کر کہتا باہر نکل گیا۔


حارب کے نکلتے ہی اس کی سسکیوں میں اضافہ ہو گیا۔

"اب کبھی وہ واپس نہیں آےُ گا کیا؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


"نہیں مجھے تم واپس چائیے۔ حارب میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی.. تم کیوں نہیں سمجھتے۔"

وہ مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"سنو.. تم آج سے فارغ ہو اس لئے جا سکتے ہو اب۔"

سپروائزر حسنین کے پاس آتا ہوا بولا۔

"لیکن سر کیوں؟"

حسنین پسینہ صاف کرتا ہوا بولا۔


"تمہارے سوالوں کے جواب دینے کا روادار نہیں میں.. اب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"

وہ حسنین کو دھکا دیتا ہوا بولا۔

وہ کچھ فاصلے پر گر گیا۔


"پلیز سر مجھے جاب سے مت نکالیں مجھے اشد ضرورت ہے اس کی پلیز... "

وہ سپروائزر کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا۔


مجبوری بھی کیا چیز ہے نہ؟ انسان سے وہ سب کروا لیتی ہے جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

آج اس نے اپنی عزت نفس کو روند ڈالا تھا عدن کی خاطر۔

"سنا نہیں تم نے.. میں نے کہا دفع ہو جاؤ.. "

وہ اسے پاؤں مارتا ہوا بولا۔


"مجھے سر سے بات کرنی ہے جن سے میں ملا تھا۔"

وہ اٹھتا ہوا بولا۔

"یہ تمہارے باپ کی فیکٹری ہے نہ جس سے دل کیا مل لیا... اتنے فارغ نہیں وہ تمہارے لیے۔ سیکورٹی کو بلاؤ اور اس بھکاری کو باہر پھینکو... "

وہ غضب ناک آواز میں بولتا چلنے لگا۔


حسنین کپڑے جھاڑتا عقب میں دیکھنے لگا۔

"سر؟"

سیکورٹی اس کے پاس آیا۔

حسنین کی وہ عزت کرتا تھا تبھی اس کے پاس کھڑا تھا۔

"میں چلا جاتا ہوں... "

حسنین ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔


"ٹھیک ہے سر.. اپنا خیال رکھیے گا۔"

وہ کہتا ہوا چلا گیا۔

وہ فیکٹری پر درد بھری نگاہ ڈالتا باہر نکل آیا۔

"نجانے خدا کو کیا منظور ہے... "

وہ بائیک سٹارٹ کرنے لگا۔


"ابھی عدن کی فلائٹ میں ٹائم ہے... "

وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

انیب تھوڑی ہتھیلی پر رکھے بے خبر سوتی منال کو دیکھ رہا تھا۔جو گزشتہ رات ہی اپنے گھر سے آئی تھی۔

اس کے بھورے بال پیشانی پر منتشر تھی۔

وہ ہلکا سا مسکرایا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے بال ہٹانے لگا۔

یکدم منال نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

وہ آنکھیں پوری کھولے انیب کو دیکھنے لگی۔


"تم تو ایسے دیکھ رہی ہو جیسے چوری کر رہا تھا میں... "

وہ اپنا ہاتھ آزاد کرواتا منہ بسورتا ہوا بولا۔

"کسی کی نیند کا فائدہ اٹھانا بھی چوری ہوتا ہے۔"

وہ دانت پیستی ہوئی کہتی اٹھ بیٹھی۔


"ہمیشہ سڑی رہتی ہو تم... "

وہ جل کر بولا۔

"اور تم جھوٹے, مکار,ٹھرکی,فراڈ اور پتہ نہیں کیا کیا ہو۔"

وہ گھورتی ہوئی بولی۔

"کون سا جھوٹ, کون سی مکاری کون سا فراڈ کیا ہے میں نے تمہارے ساتھ؟"

وہ اس کی بازو پکڑتا اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔


کھینچنے کے باعث اس کے بال چہرے پر آ گئے۔

"کتنے دن ہو گئے ہماری شادی کو؟ ہاتھ لگانا تو دور تمہاری مرضی کے بغیر بات بھی نہیں کی تم سے..."

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

وہ اس کی جانب جھکی یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔


"ہاں تو احسان نہیں کیا تم نے... ابھی تم نے میرے شک و شبہات دور نہیں کیے۔ تم ابھی تک ایک مسٹری ہی ہو۔"

وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتی پیچھے ہٹی۔

"میری بازو.. "

جب وہ کچھ نہ بولا تو وہ دھیرے سے منمنائی۔


"اب بتاؤ کیا بات ہوئی تھی شاہد سے... "

وہ خفا انداز میں بولا۔

چہرے پر خفگی, پیشانی پر بل ڈالے رکھے تھے۔

منال آنکھوں میں نمی لئے اس دن کے متعلق سوچنے لگی۔


"اوہ تو مس منال آئیں ہیں۔"

شاہد ٹہلتا ہوا بولا۔

وہ ماضی میں جا چکی تھی۔

منال ہچکچاتی ہوئی آگے آئی۔

"ویل کیسے آنا ہوا آپ کا؟"

وہ کرسی کی پشت پر بازو رکھے اسے دیکھنے لگا۔


"تم نے میری ماما کے ساتھ یہ کیوں کیا؟"

ضبط کے باوجود اسکی آواز بلند تھی۔

"اوہ تو آپ کو برا لگا؟"

وہ اسے پچکارنے لگا۔

"یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے... "

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔


"ڈئیر کزن مجھے لگتا ہے آپ کو کسی نے بتایا نہیں تبھی آپ یہاں آئی ہیں ورنہ آپ کو مجھ سے سوال کرنے کی نوبت نہ آتی... "

وہ منہ بناتا ہوا بول رہا تھا۔

"کیا مطلب؟"

پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"مجھے بہت افسوس ہے کہ میں آپ کی ماما کو اتنی تکلیف نہیں پہنچا سکا جتنی انہوں نے میری ماما کو دی۔"

شاہد کے چہرے پر سختی بڑھتی جا رہی تھی۔

"جھوٹ.. وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتیں۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔


"ہاں.. بڑے بڑے گناہ کرنے کے بعد انسان سدھر جاتا ہے۔ تمہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اچھی پرورش کی ہے لیکن جو اس عورت نے کیا وہ کبھی مٹ نہیں سکتا..."

وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"کیا, کیا انہوں نے؟"

وہ رک رک کر بولی۔

جیسے گھبرا رہی تھی۔


"میری ماما نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ اس رمشاء نے ان پر پیڑول ڈال کر انہیں زندہ جلا دیا تھا۔"

اس کی آنکھوں میں شعلے اٹھ رہے تھے۔

"پانچ سال کے بچے پر بھی رحم نہ آیا کہ وہ اپنی ماں کے بغیر کیسے رہے گا۔ صدمہ اتنا تھا کہ پاپا بھی چل بسے۔ تمہاری ماں نے مجھے یتیم اور لاوارث کر دیا۔ کیا کوئی معاف کر سکتا ہے اتنا ظلم؟"

وہ اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔


وہ خوفزدہ سی اسے دیکھنے لگی۔

"بولو.. تم معاف کر دیتی؟ تم مجھ سے بدلہ لینے آئی ہو گی یقیناً... جو کرنا ہے کر لو۔ جو ثبوت تمہارے پاس ہیں نہ؟ میرے لئے ایک منٹ کا کام ہے تمہیں مجرم ثابت کرنا کیونکہ وہ تمہاری الماری سے ملیں گے ساتھ میں قتل کا ہتھیار بھی۔"

وہ ایک لمحے میں بدلا تھا۔


"نہ نہیں.. تم جھوٹ بول رہے ہو۔"

وہ آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئی بولی۔

"اپنے خاندان سے پوچھ لو...مجھے تمہیں یقین دلانے کیلئے نہیں بیٹھا۔"

وہ جھٹکے سے اس کی بازو چھوڑتا ہوا بولا۔


"ماما ایسا کیوں کریں گیں؟"

وہ اس کی پشت کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"وہی نند بھابھی کی لڑائی۔ تمہارا ٹائم پورا ہوا اب تم جا سکتی ہو..."

وہ دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ الجھ کر اسے دیکھتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔


"اور ہاں اپنی شادی میں ضرور انوائیٹ کرنا مجھے... "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

وہ بنا کچھ کہے تیزی سے باہر نکل گئی۔

"عدن سے ملنا تو بنتا ہے... "

وہ بند دروازے کو دیکھتا ہوا بولا۔

منال سرد آہ بھرتی نظریں چرانے لگی۔


انیب کی سٹی گم ہو گئی۔

ایسا انکشاف ہوگا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

"منال تم کسی سے ذکر مت کرنا.. اس کے متعلق۔"

کافی دیر بعد اس نے لب کھولے۔

وہ خاموشی سے واش روم میں چلی گئی۔


اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی انیب دیکھ چکا تھا۔

"شاید مجھے نہیں پوچھنا چائیے تھا..."

وہ افسردگی سے دروازے کو دیکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

حسنین وائٹ جینز پر بلیک شرٹ پہنے منتظر نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔

مسافر باہر آ رہے تھے لیکن ابھی تک عدن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔


وہ گھڑی کو دیکھنے لگا جونہی سر اوپر اٹھایا سامنے عدن دکھائی دی۔

بھورے رنگ کی شلوار قمیص پہنے, دوپٹہ سر پر لئے, آنکھوں پر گاگلز لگاےُ وہ چلتی آ رہی تھی۔

چہرے پر معدوم سی مسکراہٹ تھی۔

حسنین سپاٹ چہرہ لئے جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

فلحال اس کے پاس مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پریشانیوں کے انبار زیادہ تھے اس کے پاس۔


لوگ اس کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتی تیزی سے اس کے پاس آ گئی۔

وہ ویک ہو گئی تھی یا حسنین کو گمان ہو رہا تھا۔

"بہت مس کیا میں نے تمہیں.. "

وہ اس کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔


حسنین کشمش میں مبتلا تھا۔ہاتھ ابھی تک جیب میں تھے۔

"اگر میں نہ بولوں تو تم سمجھ جاؤ گی؟"

عدن پیچھے ہوتی اسے دیکھنے لگی۔

"مطلب؟"

وہ الجھ گئی۔


"مطلب بنا کہے بھی تو لوگ سمجھ جاتے ہیں نہ.. "

وہ رابن کو اشارہ کرتا گاڑی کی جانب چلنے لگا۔

"میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں.. تمہیں ہر بات خود کہنی پڑے گی۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"خود کو دیکھو کتنی ویک ہو گئی ہو۔"

وہ تاسف سے بولا۔

"تم اتنی فکر کیوں کرتے ہو.. جانتے ہو نہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔"

وہ گاگلز اتارتی اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔


"تمہاری یہی باتیں مجھے غصہ دلاتی ہیں۔"

آج وہ غصہ کرنے کی بجاےُ اسے باور کرا گیا۔

"تو کیا ہوا... "

وہ لاپرواہی سے شانے اچکاتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

رابن کو دیکھ کر وہ بھی عدن کے ساتھ بیٹھ گیا۔


"میں تم سے زیادہ کچھ نہیں مانگوں گی.. بس تم مجھ سے اچھے سے بات کیا کرو.. جب تم بے رخی دکھاتے ہو نہ بہت تکلیف ہوتی ہے۔"

وہ اس کی جانب رخ موڑتی ہوئی بولی۔

تکلیف آنکھوں سے عیاں تھی۔


وہ اثبات میں سر ہلاتا مدھم سا مسکرایا۔

"آج چھٹی کی تم نے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"رابن جلدی کرو... لوگ جمع ہو رہے ہیں۔"

وہ اس کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوا بولا۔


"رابن تم گھر کیوں نہیں جا رہے؟"

وہ راستے کا تعین کرتی ہوئی بولی۔

"پہلے ہاسپٹل جانا ہے... کچھ ٹیسٹ کروانے ہیں۔"

وہ شیشے سے پار دیکھتا ہوا بولا۔

"مجھے یہ سب نہیں کروانا موت تو آنی ہے اسے کوئی نہیں ٹال سکتا.. بس مجھے ایسے ہی جانا ہے۔"

وہ بضد ہوئی۔


"پھر تم کہتی ہو میں تم سے سختی سے پیش نہ آؤں... "

وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

"فائن.. "

وہ رخ موڑ گئی۔

وہ خاموش رہا۔


"ڈاکٹر صاحب آپ مجھے کال پر بتا دینا جب رپورٹس آئیں تو... "

حسنین ان سے مصافحہ کرتا ہوا بولا۔

"اچھا ہوا ٹائم سے ڈونر مل گیا.. کیونکہ وہ ڈائلائسز بھی نہیں کروا رہی تو خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔"

وہ فائل بند کرتے ہوۓ بولے۔


"جی میں جانتا ہوں.. "

کہہ کر وہ دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

"پیسے کہاں سے لاؤں؟"

وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔


"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے... ہاں اگر پیسے مل جائیں تو پھر مشکل بھی نہیں۔ بس ٹرانسپلانٹ کامیاب ہو جاےُ اس میں کوئی مسئلہ درپیش نہ آےُ... "

وہ سر جھکاےُ جیب میں ہاتھ ڈالتا چلنے لگا۔

اسی اثنا میں وہ سامنے سے آتے حارب سے ٹکرا گیا۔

حسنین سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔


"سوری.. "

وہ کہتا آگے بڑھ گیا۔

حسنین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا۔

"ابھی ڈائلائسز شروع ہوا ہے۔دو تین گھنٹے تو لگے گیں۔"

وہ بولتا ہوا بیٹھ گیا۔

~~~~~~~~

"عدن آپ نے ثمن کا خیال رکھنا ہے اوکے.. "

سائرہ ثمن کو کپڑے پہناتی ہوئی بولی۔

"اوکے ماما... "

تین سالہ عدن اچھلتی ہوئی بولی۔


"اور بلکل بھی تنگ نہیں کرنا آپ نے.. "

اب وہ عدن کو پکڑ کر اس کے بال بنانے لگی۔

"ماما آپ نہیں جاؤ نہ... "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"میری جان ماما کا کام ہے نہ.. اس لئے جانا تو پڑے گا۔"

وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔


سائرہ کا فون رنگ کرنے لگا۔

"ایک منٹ ماما فون دیکھ لیں.. "

وہ عدن کو اپنے سامنے بٹھاتی ہوئی بولی۔

نمبر دیکھ کر پیشانی پر بل پڑ گئے۔

آنکھوں سرخ انگارہ بن گئیں۔


اس نے فون واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔

"ماما میں آج سکول نہیں جاؤں گی.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"عدن تو گڈ گرل ہے نہ.. پھر کیوں نہیں جائیں گیں آپ سکول؟"

وہ نرمی سے اس کے بال ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔


"سب مجھے تنگ کرتے ہیں... میرا لنچ بھی لے لیتے ہیں۔"

وہ خفا خفا سی بولی۔

"ماما بات کریں گیں.. اب کوئی میری بیٹی کو تنگ نہیں کرے گا۔"

وہ بیڈ سے اترتی ہوئی بولی۔


فون پھر سے شور مچا رہا تھا۔ وہ نظر انداز کرتی اپنے کام کر رہی تھی۔

"سائرہ کیا مصیبت ہے تمہارا فون کب سے رنگ کر رہا ہے؟"

علی بولتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

"عدن کو سکول چھوڑنے جانا ہے اب تم بھی اٹھ جاؤ.. "

وہ بے نیازی سے بولی۔


"میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے... خود چھوڑ دینا۔"

وہ سائرہ کا فون دیکھتا ہوا بولا۔

"تم ڈائریکٹر فیض کا فون کیوں نہیں اٹھا رہی؟"

وہ حیرت سے اسے تکنے لگا۔


"کیونکہ مجھے اس کے ساتھ کام نہیں کرنا۔"

وہ الماری بند کرتی ہوئی بولی۔

"اور کام کیوں نہیں کرنا؟"

وہ چلتا ہوا اس کے عین مقابل آ رکا۔

"ایسے گھٹیا لوگوں کے ساتھ میں کام نہیں کر سکتی۔"

وہ رستے زخموں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


اس سے قبل کہ علی کچھ بولتا اس کا اپنا فون رنگ کرنے لگا۔

"جی سر... میں بھیجتا ہوں آپ فکر مت کریں۔"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

بات کرتا وہ سائرہ کو گھور رہا تھا۔


"کیا مسئلہ ہے تمہیں بتاؤ مجھے؟ وہ مجھے فون کر رہا ہے کہ تم سیٹ پر نہیں آ رہی.. "

وہ اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔

عدن منہ میں انگلی ڈالے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔


"عدن! ماما کی جان آپ جا کر ناشتہ کرو... "

وہ عدن کو دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ تو جیسے حکم کی منتظر تھی۔ فوراً کمرے سے نکل گئی۔

"وہ جتنا گھٹیا انسان ہے نہ اتنی تمہاری گھٹیا سوچ بھی نہیں ہے.. "

وہ اس پر وار کرتی ہوئی بولی۔


"تمہاری زبان کچھ زیادہ چلتی جا رہی ہے۔"

وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔

"مجھے کس کے ساتھ کام کرنا ہے یہ تمہارا مسئلہ نہیں اور بہتر ہو گا تم دور ہی رہو...تمہیں پیسوں سے مطلب ہے نہ وہ تمہیں مل رہے ہیں سو اپنا منہ بند رکھو... "

وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی بولی۔


"تم اس کے ساتھ کام کرو گی.. اور میں ایک لفظ نہیں سنوں گا۔"

وہ اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

گرفت اتنی فولادی تھی کہ وہ تکلیف سے اسے دیکھنے لگی۔

"مجھے نہیں کرنا اس کے ساتھ کام.. تم کیوں نہیں سمجھ رہے.."

وہ آنکھوں میں نمی لئے بولے۔


"جانتی ہو نہ کتنا مشہور ہے وہ.. سب اس کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ بہت سی کرنے کی خواہشمند ہیں, پھر تمہیں کیا تکلیف ہے؟"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

سائرہ کی نازک کلائی ابھی تک اس کی گرفت میں تھی۔


تکلیف سے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

"دیکھنا چاہتے ہو نہ تو یہ دیکھو.. کل رات اس وحشی نے کیا کیا.. "

وہ سینے سے اپنی شرٹ ہٹاتی ہوئی چلائی۔

وہاں سرخ نشان تھے۔


"میں خود چھوڑ کر آؤں گا تمہیں..."

وہ اثر لئے بنا بولا۔

"مجھے لگتا ہے ایک دن تم مجھے لوگوں کے ساتھ راتیں گزارنے بھی بھیج دو گے... "

وہ تکلیف میں تھی لیکن اسے کوئی احساس نہیں تھا۔


وہ بنا کچھ کہے واش روم میں چلا گیا۔

"کوئی پیسے کے لئے اتنا اندھا کیسے ہو سکتا ہے؟"

وہ زمین پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

متواتر آنسو سے اس کے رخسار تر ہو رہے تھے۔

~~~~~~~~

وہ حسنین کا ہاتھ پکڑے چل رہی تھی۔

"تم ٹھیک ہو؟"

وہ فکرمند تھا۔

"ہاں شاید... ویکنس ہو رہی ہے۔"

وہ بمشکل چل رہی تھی۔


"تم نے آفس؟"

وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں جاؤں گا.. "

وہ اس کے ساتھ بیٹھتا ہوا بولا۔

وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر گئی۔


"دیکھو یہ ڈائلائسز کروانے سے میں ویک ہو جاتی ہوں۔"

وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔

"لیکن یہ علاج ہے تم بھاگ نہیں سکتی۔"

"میں موت سے بھی بھاگ نہیں سکتی.. "

وہ ترکی بہ ترکی بولی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے ٹرانسپلانٹ کامیاب ہو گا؟ اگر بعد میں کڈنی نے ریسپانڈ نہ کیا پھر کیا کرو گے؟"

نجانے وہ کیا سوچ رہی تھی۔

"تم برا ہی کیوں سوچ رہی ہو؟"

وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔


"کیونکہ میں جانتی ہوں تم یا میں, موت سے نہیں لڑ سکتے۔"

وہ تھکے تھکے انداز میں بول رہی تھی۔

"رابن جلدی چلو نماز کا ٹائم ہو رہا ہے..."

وہ اسی طرح آنکھیں بند کئے ہوۓ تھی۔


"تم خود چاہتی ہو کہ میں تم سے سخت لہجے میں بات کروں... "

اسے اب غصہ آنے لگا تھا۔

"ہو سکتا ہے میں خودکشی کر لوں.. "

شاید وہ پاگل ہو گئی تھی۔

"ہو سکتا ہے میں تمہارے ایک تھپڑ لگا دو۔"

وہ برہمی سے بولا۔

وہ ہلکا سا مسکرائی۔


"اس وقت زہر لگ رہے ہو تم... "

وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ڈاکٹر نے بتایا تھا یہ چڑچڑاپن ڈائلائسز کی وجہ سے ہے۔"

وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"واٹ ایور..."

وہ کہہ کر شیشے سے پار دیکھنے لگی۔


"تم اندر نہیں آؤ گے؟"

وہ گاڑی سے اتر کر اسے دیکھنے لگی جو بائیک کی جانب قدم اٹھا رہا تھا۔

"نہیں کام سے جانا ہے مجھے... کیوں؟"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"مجھے شہری سے ملنا تھا۔"

وہ سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔


"اسے گھر بلا لو... تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں.. "

وہی خشک لہجہ۔

"اچھا... "

وہ بس اتنا کہہ کر اندر کی جانب قدم اٹھانے لگی۔


دوپہر سے شام ہونے کو تھی اور حسنین بیٹھا اپنے انٹرویو کا انتظار کر رہا تھا۔

کیبن سے لڑکا باہر نکلا تو وہ اپنی فائل سنبھالتا کھڑا ہو گیا۔

وہ منتظر نگاہوں سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں سکیڑے فائل کو دیکھ رہا تھا۔


"تم عدن خان کے شوہر ہو؟ حسنین خان؟"

وہ چشمہ اوپر کر کے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"جی... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


"یہ جاب تمہیں نہیں مل سکتی..سوری۔"

وہ فائل اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔

"لیکن کیوں؟"

وہ بےچینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

"ہم تمہیں جاب نہیں دے سکتے... کہیں اور کوشش کرو..."

وہ مسکراتا ہوا بولا۔


"اگر آپ کو میری قابلیت پر بھروسہ نہیں تو آپ مجھے چند دن کے ٹرائل پر رکھ لیں۔ میری کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد آپ فیصلہ کر لیجیے گا۔"

اس نے قائل کرنا چاہا۔

"اتنی سٹرانگ پرسنالٹی آپ کے پیچھے ہے پھر کیا ضرورت جاب کی؟"

وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔


"وہ جو کرتی ہے اس کے لئے ہے مجھے اپنی فیملی کے لئے جاب کرنی ہے۔"

وہ مدھم مگر سخت لہجے میں بولا۔

"میں جواب دے چکا ہوں..اور دروازہ سامنے ہے۔"

وہ چئیر سے پشت لگاتا ہوا بولا۔

حسنین اسے گھورتا ہوا باہر نکل آیا۔


"آخر مسئلہ کیا ہے؟ کیوں مجھے جاب نہیں دے رہے؟"

وہ غصے سے فائل بائیک پر پٹختا ہوا بولا۔

نظر گھڑی پر پڑی تو عدن کا خیال عود آیا۔


"کل دوبارہ کوشش کروں گا... "

وہ بائیک سٹارٹ کرتا خود کلامی کرنے لگا۔

~~~~~~~~

"ڈاکٹر کا فون آیا تھا مجھے کل ٹرانسپلانٹ کے لئے بلایا ہے۔"

وہ عدن کے منہ میں نوالا ڈالتا ہوا بولا۔

عدن کے دائیں بازو پر سرنج لگی تھی جس کے باعث حسنین اسے کھانا کھلا رہا تھا۔

وہ سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔


"اب کیا ہوا؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"تم اپنی مرضی ہی کرو گے.. "

"تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی خود کو ختم کرنے میں تو کیا اب میں بھی تم جیسا بن جاؤں؟"

وہ اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔

وہ خفا دکھائی دے رہا تھا۔


"کوئی فائدہ نہیں.. "

وہ ٹیشو سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔

"تمہیں فرق نہیں پڑتا میں جانتی ہوں۔"

وہ آنکھیں بند کئے ضبط کر رہی تھی لیکن ضبط کے باوجود دو موتی ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے۔


حسنین نے بائیاں ہاتھ بڑھا کر اس کے رخسار سے ان موتیوں کو چن لیا۔

"انہیں بے مول مت کیا کرو.. "

اسے جیسے تکلیف ہو رہی تھی۔

"یہ خواب بس ابھی ٹوٹ جاےُ گا۔"

وہ خوفزدہ تھی۔


"بس ہمیشہ برا ہی سوچا کرو تم.. "

وہ خشک لہجے میں بولا۔

"تم نے کہا تھا میں واپس آؤں مجھے یقین دلاؤ گے.. اب کیا ہوا اس کا؟"

وہ اس کی سنہری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔ حسنین اپنی آنکھیں اس کی بھوری آنکھوں میں گاڑھے ہوۓ تھا۔


"چلو تمہاری میڈیسن کا ٹائم ہو گیا۔"

وہ اس طلسم کو توڑتا ہوا بولا۔

وہ نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جو اس کی میڈیسن دیکھ رہا تھا۔

اسی اثنا میں اس کا فون رنگ کتنے لگا۔


"تم میڈیسن لے کر سو جانا۔ مجھے جانا ہے۔"

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔

"کہاں جانا ہے؟"

وہ افسردہ ہو گئی۔

"پرانے باس نے بلایا ہے کچھ کام ہے۔"

وہ مختصر کہتا آئینے کے سامنے آ گیا۔


عدن نے جلدی سے دوائی گلے سے نیچے اتارتی اور اس کے عین عقب میں جا کھڑی ہوئی۔

"جلدی آ جاؤ گے؟"

بےتابی سے پوچھا گیا۔

وہ برش ٹیبل پر رکھتا مڑا۔


"جلدی آ جاؤں گا۔"

وہ پراعتماد لہجے میں بولا۔

ایک دلکش مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھر گئی۔

حسنین اس کی پیشانی پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتا پیچھے ہوا۔

وہ آنکھیں بند کئے اس کے احساس کو اندر اتارنے لگی۔

وہ اپنی محبت کی مہر ثبت کر چکا تھا۔


وہ اس کے قریب تھا۔ اس کی خوشبو عدن کی نتھنوں سے اندر داخل ہو رہی تھی۔

"آئی وش یہ لمحہ کبھی ختم نہ ہو۔"

وہ آنکھیں بند کئے بول رہی تھی۔


"میں چلتا ہوں...ٹھیک ہے؟"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔

وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔

آگاہ بھی کر رہا تھا اور اجازت بھی طلب کر رہا تھا۔ اس کا الگ ہی انداز تھا۔


"ہاں.. لیکن جلدی آ جانا۔"

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

'ٹھیک... لیکن تم میرا انتظار مت کرنا؟ ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جاےُ۔"

وہ والٹ اٹھاتا ہوا بولا۔


وہ مسکرا کر سر کو خم دے کر اسے دیکھنے لگی۔

"خدا حافظ... "

وہ دروازے میں رک کر بولی۔

"خدا حافظ۔"

وہ آہستہ سے کہتا زینے اترنے لگا۔


جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا عدن اسے دیکھتی رہی۔ جونہی وہ منظر سے غائب ہوا وہ دروازہ بند کرتی بیڈ پر آ بیٹھی۔

"نماز بھی پڑھ لی...تم بھی چلے گئے اب میں کیا کروں؟"

وہ ٹیڈی گود میں رکھتی ہوئی بولی۔


"اس کا مطلب تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

وہ اپنی پیشانی کو ہاتھ سے چھوتی ہوئی بولی۔

لب مسلسل مسکرا رہے تھے۔

وہ ایک خوش کن احساس میں مبتلا ہو چکی تھی۔

"تمہارا لمس میری روح تک اترا ہے۔"

وہ کروٹ لیتی ہوئی بولی۔


وہ اپنے دائیں رخسار کو چھونے لگی جیسے ابھی تک اس کا لمس محسوس کر رہی ہو۔ چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔

"تمہارے خوشبو مانو میرے اندر سرایت کر رہی ہے۔ زندگی کی خواہش پھر سے جاگ رہی ہے۔ تمہارے ساتھ جینے کی, تمہارے ساتھ خوشیاں منانے کی۔"

اشک دم بخود بہنے لگے۔

"شاید تم ٹھیک تھے.. تمہارا ساتھ مجھے کمزور بنا دے گا۔ کاش میرے پاس زندگی ہوتی, کاش۔"

وہ سرد آہ بھرتی تکیے میں منہ چھپا گئی۔

آنسو تکیے میں جذب ہونے لگے۔

مدھم مدھم سسکیاں کمرے کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کرنے لگیں۔

~~~~~~~~

"کل عدن کا ٹرانسپلانٹ ہے دعا کیجئے گا۔"

وہ ان کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔

"تم پریشان مت ہو۔ وہ بلکل ٹھیک ہو جاےُ گی۔"

"جی.. "

وہ آہستہ سے بولا۔

"فکر مت کرو...ٹرانسپلانٹ کامیاب ہو گا اور وہ صحتیاب ہو جاےُ گی۔جانتے ہو ایک ماں کی دعا عرش تک جاتی ہے۔مجھے اپنی مانگی ہوئی دعاؤں پر پورا یقین ہے.. تم بس ہمت سے کام لو۔"

وہ اس کی ہمت بندھاتی ہوئی بولی۔


"ہمت سے تو کام لے رہا ہوں۔ لیکن دل میں خوف بھی ہے۔ جانتی ہیں کل مجھے ایک پیپر پر سائن کرنے ہوں گے جس پر لکھا ہو گا کہ ہاسپٹل ذمہ دار نہیں ہوگا سرجری کا۔"

بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔


"تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ڈھیر ساری خوشیاں دیکھو گے۔"

وہ زور سے بولیں جیسے اسے حکم دے رہی ہوں۔

وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔

چہرہ جھکا رکھا تھا۔


"کل آپ کو ہاسپٹل لے کر چلوں گا۔ مل لینا عدن سے؟"

وہ چہرہ اٹھا کر کھڑکی سے پار دیکھنے لگا۔

رات کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔

اس سیاہی میں بھی روشنی بکھر رہی تھی, مہتاب کی۔


"عدن تمہاری زندگی میں بھی ایسے ہی روشنی بکھرے گی۔"

وہ خود کلامی کر رہا تھا۔

آواز اتنی مدھم تھی کہ بمشکل وہ خود ان پایا۔

"عدن سے بات کی تم نے؟"

بےقراری سے پوچھا گیا۔


"نہیں.... "

وہ مایوسی سے بولا۔

"پھر کوئی فائدہ نہیں.. وہ ضدی ہے بلکل میری طرح۔"

وہ ہلکا سا مسکرائی۔

"نہیں مجھے لگتا ہے وہ بہت معصوم ہے۔"

وہ گزشتہ پل یاد کرتا ہوا بولا۔


وہ آنکھیں بند کئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

حسنین نے سر جھٹک کر خود کو ان سوچوں سے آزاد کیا۔

"ہاں میری جان بہت معصوم ہے۔ تم تو جلدی میں تھے نہ؟"

وہ اسے بھیجنا چاہ رہی تھی۔

"جی.. مجھے کام سے جانا تھا۔"

وہ گھڑی دیکھتا کھڑا ہو گیا۔


"کل میں آؤں گا۔"

وہ کہہ کر باہر نکل گیا۔

وہ تاسف سے بند دروازے کو دیکھنے لگی۔

ساری زندگی اس نے سسکتے ہوۓ اس بند دروازے کو دیکھتے گزاری تھی۔


آنسو جن پر وہ بندھ باندھے ہوےُ تھی اب بہنے دیا۔

چہرہ آنسوؤں سے تر ہو رہا تھا۔

"میرے مالک بس ایک بار مجھے میری بیٹی سے ملوا دینا۔ تاکہ سکون سے آنکھیں بند کر سکوں میں۔"

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


کمرے میں اب اس کی سسکیاں گونج رہی تھی۔ یہ کمرہ نجانے کتنے وقت سے اس کی سسکیوں کو سن رہا تھا اور نجانے کب تک سنتے رہنا تھا۔

~~~~~~~~~

"جی سر ٹھیک ہے۔"

وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

"جاب تمہیں پھر دو تین ماہ تک دوں گا۔"

وہ پین رکھتے ہوۓ بولے۔

"جی سر۔"

وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔


"تھینک یو۔"

وہ مصافحہ کرتا باہر نکل آیا۔

"شکر ہے پیسوں کا انتظام تو ہو گیا اب فون کروں.. "

وہ جیب سے فون نکالتا ہوا بولا۔


"کل عدن کا ٹرانسپلانٹ ہے آؤ گے تم؟"

وہ بائیک پر بیٹھتا ہوا بولا۔

"ایسا ہو سکتا ہے کہ میں نہ آؤں.. "

تڑاخ کر جواب آیا۔

"ہممم ٹھیک ہے۔"

حسنین نے کہہ کر فون بند کر دیا۔


گھڑی پر نظر ڈالی تو ایک بج رہا تھا۔

"عدن سو گئی ہو گی۔"

وہ ہیلمٹ پہنتا ہوا بولا۔

"کہاں سے آ رہے ہو؟"

علی صاحب جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔


"میں آپ کو جواب دینے کا پابند نہیں..."

بنا کسی لحاظ کے جواب آیا۔

"تم میرے گھر میں کھڑے ہو.. "

وہ تلملا اٹھے۔


"میں اپنی بیوی کے گھر میں کھڑا ہوں۔"

وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔

"تم دو ٹکے کے انسان... "

وہ اپنی تذلیل برداشت نہ کر پاےُ۔


"جو بولنا ہے شوق سے بولیں.. مجھے فرق نہیں پڑتا آپ جیسے انسان سے۔"

وہ حقارت سے کہتا زینے چڑھنے لگا۔

"تم عدن کو مجھ سے دور نہیں لے جا سکتے یاد رکھنا۔"

وہ کلس کر بولے۔


"یہ تو وقت بتاےُ گا۔"

وہ انہیں مزید تپاتا اوپر چلا گیا۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔


دروازہ کھول کر وہ اندر آ گیا۔

عدن اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔

سیاہ بال خفا خفا سے یہاں سے وہاں منتشر تھے۔

وہ ہلکا سا مسکرایا۔

"بلکل پاگل ہو تم۔"

وہ کہتا ہوا بیڈ کی جانب بڑھنے لگا۔


پہلے اس کا فون اٹھایا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

پھر اس کے ہاتھ سے ٹیڈی لے کر صوفے پر رکھ دیا۔

وہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

نگاہیں عدن پر تھیں۔

دماغ میں سرجری کو لے کر ہزاروں شبہات تھے۔

آج اسے بےبسی کا مطلب معلوم ہوا تھا۔


"میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ دیکھنا تم سانسیں لو گی۔ تم جیو گی.. "

وہ اسے دیکھتا سرگوشیاں کر رہا تھا۔

وہ اے سی کو دیکھتا اس پر کمبل اوڑھنے لگا۔


آج وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو رہا تھا۔

اس نے ہاتھ بڑھایا اور عدن کے چہرے سے بال ہٹانے لگا۔

وہ جیسے اس کا لمس پہچان گئی۔

"تم آ گئے؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔


"ہا... ہاں۔ بس ابھی آیا۔"

وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔

وہ مسکرانے لگی۔

"کس بات پر مسکرا رہی ہو؟"

وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔


"جانتے ہو مجھے تمہاری داڑھی بہت پسند ہے؟ ہلکے بھورے زنگ کی.. تم پر بہت سوٹ کرتی ہے۔ تم سب میں منفرد نظر آتے ہو۔"

وہ غنودگی میں بول رہی تھی۔

آنکھیں بار بار بند ہو رہی تھی جنہیں وہ جبراً کھولے ہوۓ تھی۔


"سو جاؤ.. تمہیں نیند آئی ہے۔"

وہ مدھم آواز میں بولا۔

"تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔"

وہ جمائی لیتی ہوئی بولی۔

حسنین کا ہاتھ ابھی تک اس کے مومل جیسے ہاتھ کی نازک گرفت میں تھا۔


"تم سچ میں پاگل ہو گئی ہو۔"

اسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔

"ہاں.. شاید,,لیکن صرف تمہارے لیے۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"چلو اب خاموشی سے سو جاؤ.. ورنہ سختی سے پیش آؤں گا۔"

وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔


"اور تمہیں آتا ہی کیا ہے! "

وہ منہ بسورتی دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھامتی آنکھیں بند کرنے لگی۔

"یہ کیا؟"

اس کا اشارہ اپنے ہاتھ کی جانب تھا۔

"میری مرضی.. "

وہ خفا تھی۔


وہ معدوم سا مسکرایا۔

چند لمحے سرکنے کے بعد عدن ہوش سے بیگانہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔

حسنین کے لئے وہاں سے اٹھنا محال ہو گیا تھا کیونکہ اس کا ہاتھ ابھی تک اس کی گرفت میں تھا۔


کم از کم آج وہ اسے دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔

"پتہ نہیں خدا کو کیا منظور ہو... "

وہ افسردگی سے مسکراتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"اب تم مجھ سے کبھی بات نہیں کرو گی؟"

وہ منال کے سامنے آتا ہوا بولا۔

"تم نے ابھی تک میرے سوالوں کے جواب نہیں دئیے۔"

وہ خونخوار نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"کون سے سوال؟"

وہ معصومیت کی انتہا کرتا ہوا بولا۔


منال نے گھوری سے نوازا۔

"تمہارا میرے پیچھے آنا.. میرے ساتھ رہنا, میری ہیلپ کرنا... یہ سب پلان تھا نہ؟"

وہ سینے پر بازو باندھتی ہوئی بولی۔

"تمہیں تو سی آئی ڈی میں ہونا چائیے تھا.. "

وہ قہقہ لگاتا بیڈ پر گر گیا۔


"کہو تو میں بات کروں؟پولیس میں کہیں تمہاری جگہ بنوا دوں؟"

وہ شرارت سے بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔

"ہمیشہ فضول ہی بولنا تم... کام کی بات کبھی مت کرنا۔"

وہ کلس کر بولی۔

"کام کی بات یہ ہے کہ ہم ہنی مون پر جا رہے ہیں.. "

وہ اس کے عین عقب میں آ کھڑا ہوا۔


منال پوری آنکھیں کھولے شیشے میں اس کا عکس دیکھنے لگی۔

"تمہارے ساتھ؟"

وہ آنکھیں سکیڑتی ہوئی بولی۔

"نہیں روز جو مالی آتا ہے نہ اس کے ساتھ. "

وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا۔


منال مسکراتی ہوئی چہرہ جھکا گئی۔

وہ دلچسپ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

"اور تم کس کے ساتھ جاؤ گے؟ ماسی کے ساتھ؟"

وہ میدان میں اترتی ہوئی بولی۔

"ہاےُ شرم کرو.. نئی نئی شادی کروانے کے بعد تم مجھے ماسی کے ساتھ بھیج رہی ہو... چھی چھی چھی۔ کیسے بیوی ہو تم؟"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"جیسے تم شوہر ہو؟"

وہ تپ کر بولی۔

"تم دیا لے کر بھی ڈھونڈوں گی نہ تب بھی مجھ جیسا شوہر نہیں ملنے والا۔لوگ ہمیشہ ناشکرے ہی رہیں گے۔"

وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔


"تم تو جیسے بہت شکر کرنے والے ہو نہ؟ آےُ بڑے مجھے کہنے والے.. خود اتنے پیسے ہونے کے باوجود مجھ سے مانگتے تھے شرم تو نہیں آتی نہ تمہیں... "

وہ کمر پر ہاتھ رکھے کاٹ کھانے والے انداز میں بولی۔

وہ قہقہے لگاتا اسے دیکھنے لگا۔


"وہ تو میرا سٹائل تھا۔'

وہ کالر کھڑی کرتا ہوا بولا۔

"نہایت ہی احمقانہ سٹائل تھا۔"

وہ الماری کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔

وہ لب دباےُ مسکرانے لگا۔


"رہو گی تم ہمیشہ احسان فراموش ہی.. میں چاہے اپنی جان بھی دے دوں۔"

وہ منہ بسورتا ہوا بولا۔

"پیسے دینے پر تمہاری جان جاتی ہے اور میرے لئے اپنی جان دو گے.. ابھی اٹیک ہوتے ہوتے بچا ہے۔"

وہ تمسخرانہ انداز میں بولی۔


"قدر کیا کرو میری... لوگ ترستے ہیں اور ایک تم ہو کہ بس... "

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔

وہ گھوری سے نوازتی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~

"عدن اٹھ جاؤ..."

وہ اس کے سرہانے بیٹھتا ہوا بولا۔

"سونے دو.. اتنے دنوں بعد سکون کی نیند آئی ہے۔"

وہ دوسری جانب چہرہ موڑتی ہوئی بولی۔

"ایک منٹ دے رہا ہوں تمہیں اٹھ جاؤ.. ہمیں لیٹ نہیں ہونا۔"

وہ الماری کے سامنے کھڑا اس کے کپڑے آگے پیچھے کر رہا تھا۔


"ایک منٹ.. بہت زیادہ ٹائم نہیں دے دیا تم نے۔"

وہ پیشانی پر بل ڈالے کہنیوں کے بل اٹھتی ہوئی بولی۔

"ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔"

وہ ایک سوٹ باہر نکالتا ہوا بولا۔


"کیا کر رہے ہو تم؟"

وہ بکھرے بال سمیٹتی بیڈ سے اتر آئی۔

"تمہارے لئے کپڑے نکال رہا ہوں.. "

وہ محو سا بولا۔

عدن کے بڑھتے قدم تھم گئے۔


"تم کیوں ایسا کر رہے ہو؟"

وہ بولی تو آواز کانپ رہی تھی۔

وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

"کیسا؟"

وہ ناسمجھی کی کیفیت میں تھا۔


"اب میں جانے والی ہوں تو تم اتنے اچھے بن رہے ہو... مت کرو۔ مجھے تکلیف ہو رہی ہے.. "

وہ زمین پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی۔

"تم ٹھیک ہو؟"

وہ سرعت سے اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔


وہ گھٹنے زمین پر رکھے اسے دیکھ رہا تھا جو چہرہ جھکاےُ ہوۓ تھی۔

آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوۓ فرش پر گر رہے تھے۔

وہ افسردگی سے اسے تکنے لگا۔

وہ دونوں بےبس تھے۔


"کیوں خود کو تکلیف دے رہی ہو؟"

وہ تھکے تھکے انداز میں بولا۔

"مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیسا رد عمل ظاہر کروں.. "

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔

عدن کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔


"مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔"

وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا بولا۔

وہ چہرہ اوپر کرتی اثبات میں گردن ہلانے لگی۔


"میں ٹھیک نہیں ہوں...اور تم نے مجھے نماز کے لیے کیوں نہیں اٹھایا؟"

یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"میں خود بھی لیٹ اٹھا بمشکل پڑھ پایا۔"

وہ نظریں چراتا ہوا بولا۔


"چلو ہاسپٹل چلتے ہیں۔"

عدن کی آواز میں کرب تھا۔

"تم چینج کر لو میں... "

حسنین کے فون کی رنگ ٹون نے اسے خاموش کروا دیا۔

"دیکھو کس کا فون ہے.. "

وہ اپنے کپڑے نکالتا ہوا بولا۔


"کسی فلیش بیک کا فون ہے... "

وہ تعجب سے بولی۔

"اچھا.. "

وہ بے خیالی میں کہہ گیا۔

مگر پھر ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے اس کے دماغ میں کوندا۔


وہ سرعت سے اس کے پاس آیا اور فون پکڑ لیا۔

"تم چینج کر لو میں بات کر لوں تب تک... "

وہ سنبھل کر بولا۔

"کس کا فون ہے؟ میرے سامنے بات نہیں کر سکتے کیا؟"

وہ طنزیہ انداز میں بولی۔

"کسی کا نہیں ہے... تم چینج کرو۔"

وہ باہر نکلتا ہوا بولا۔


"میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں.. ابھی ہاسپٹل کے لیے نکل رہا ہوں عدن میرے ساتھ ہے کال مت کرنا۔"

وہ خفگی سے بول رہا تھا۔

مقابل نے خاموشی سے فون رکھ دیا۔


"چلیں؟"

وہ باہر نکلتی ہوئی بولی۔

چہرہ غم کی داستاں بنا ہوا تھا۔

"تم بلکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔"

وہ اسے دیکھ کر بولتا چلنے لگا۔


وہ خاموش رہی۔ شاید یہاں آ کر سارے الفاظ دم توڑ گئے تھے۔ یہاں کوئی امید کوئی حوصلہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا۔

زندگی ریت کی مانند ہاتھ سے پھسلتی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ علی صاحب سے مل رہی تھی حسنین لاؤنج پار کرتا باہر نکل گیا۔


"آپ نہیں آئیں گے؟"

وہ رک کر انہیں دیکھنے لگی۔

"آج کیس کا فیصلہ ہے... جانا بہت ضروری ہے؟"

وہ بےچارگی سے بولے۔

وہ تاسف سے دیکھتی چلنے لگی۔


"یہی امید تھی آپ سے.. "

وہ آہ بھرتی ہوئی بولی۔

وہ ہاسپٹل کی راہداری میں چل رہی تھی ہر قدم حسنین کے قدم سے مل رہا تھا۔

اس کے چہرے پر فکر, پریشانی نمایاں تھی۔

وہ چھپانے کی لاکھ سعی کر رہا تھا لیکن مکمل طور پر ناکام ہو رہا تھا۔


وہ اردگرد ہر شے کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔

آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔

"تم یہاں رکو میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں.. "

وہ کمرے میں آتا ہوا بولا۔


وہ سختی سے لب آپس میں پیوست کئے اثبات میں سر ہلانے لگی۔

وہ عدن کو دیکھے بنا باہر نکل گیا۔

جانتا تھا اگر اسے دیکھے گا تو کمزور پڑ جاےُ گا۔

وہ ہمت مجتمع کرتا ڈاکٹر کے کیبن میں آ گیا۔


"آئیں مسٹر حسنین... "

وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ لئے بولے۔

"یہاں سائن کر دیں آپ... "

وہ پیپر اس کے سامنے کرتے ہوۓ بولے۔

یہ وہی پیپر تھے جن پر لکھا تھا کہ سرجری کی تمام تر ذمہ داری حسنین کی ہے. ہاسپٹل یا ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہوں گے کسی بھی کنڈیشن کے۔


وہ پین اٹھا کر اسے گھورنے لگا۔

"عدن خان کا بی پی چیک کریں اور پلس بھی..."

وہ نرس سے مخاطب تھے۔

حسنین کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

وہ لب بھینچے ہوۓ تھا۔


سائن تو کرنے ہی تھے۔

کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے سائن کر دئیے۔

"ٹھیک ہے کچھ ہی دیر میں آپریشن شروع کرتے ہیں... "

وہ پیپر سائیڈ پر رکھتے ہوۓ بولے۔

وہ مرے مرے قدم اٹھاتا چل رہا تھا۔


"جی خالہ میں بس جا رہا ہوں اس کے پاس..آپ دعا کرتے رہنا؟"

وہ آہستہ سے بولا۔

حسنین کو دیکھتے ہی وہ بےچین ہو گئی۔


"حسنین.. "

اس نے دھیرے سے پکارا۔

نرس چیک کر کے باہر نکل گئی۔

"بولو.. "

وہ اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا۔


"مجھے نہیں جانا.. پلیز میں نہیں مرنا چاہتی۔"

وہ اس کے ہاتھ پکڑے بولنے لگی۔

"میں جینا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ... پلیز زندگی سے کہو اتنی زیادتی نہ کرے میرے ساتھ... ابھی بہت کچھ باقی ہے۔"

وہ یاس سے اسے دیکھ رہی تھی۔


عدن کے اشک اسے تکلیف دے رہے تھے۔

وہ چہرہ موڑ کر آنسوؤں پر بندھ باندھنے لگا۔

"مجھے نہیں مرنا... پلیز مجھے بچا لو۔"

وہ سسکتی ہوئی بولی۔


"میری بات سنو... اِدھر دیکھو مجھے!"

وہ اس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا۔

وہ اشکوں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

"مجھ پر نہیں ﷲ پر بھروسہ رکھو... اپنی دعا پر یقین ہے نہ تمہیں؟"

وہ آبرو اچکا کر استفسار کرنے لگا۔


وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

"تو بس اب پرسکون ہو جاؤ... تمہیں کیا لگتا ہے خدا تمہارے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ وہ ایک ماں سے زیادہ ہم سے محبت کرتا ہے.. "

وہ مدھم آواز میں اسے سمجھا رہا تھا۔


حسنین کے ہاتھوں پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑی۔

"تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔"

وہ مسکرانے لگی تھی۔

"مجھے اپنے خدا پر بھروسہ رکھنا چائیے۔ تھینک یو۔"

وہ تکیے سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔


وہ سر کو خم دیتا مسکرانے لگا۔

وہ شہری کو کال کرتا باہر نکل آیا۔

"ہاں بس کچھ ہی دیر میں شروع ہو جاےُ گا آپریشن۔ تم کہاں ہو؟"

وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بولا۔


"میں بس راستے میں ہوں.. ابھی آتا ہوں۔"

اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

"تم آگئے ہو؟"

حسنین نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔

نگاہیں دائیں بائیں گردش کر رہی تھیں۔


"ٹھیک ہے... نظر رکھنا تم.. میں جا رہا ہوں۔"

وہ تنک کر کہتا فون جیب میں ڈالنے لگا۔

عدن کو سٹریچر پر لٹاےُ آپریشن تھیڑ کی سمت میں لے جایا جا رہا تھا۔

حسنین نے ایک آخری نظر اس پر ڈالی۔


وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا وہ مسکرا رہی تھی۔

وہ جواباً مسکراہٹ اچھالتا آگے بڑھ گیا۔

شہری متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھ رہا تھا۔


"حسنین کہاں گیا؟"

وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔

"ڈاکٹر سرجری کامیاب ہو گی نہ؟"

شہری بےچینی سے استفسار کرنے لگا۔

"ویل یہ تو بعد میں معلوم ہو گا کہ کڈنی ریسپانڈ ٹھیک سے کرتی ہے یا نہیں۔"

وہ شانے اچکاتے منہ پر ماسک لگاتے آپریشن تھیڑ میں داخل ہو گئے۔

سرخ بتی جل چکی تھی آپریشن شروع ہو چکا تھا۔

وہ دعا مانگتا انتظار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہاتھ مسلتا فرش کو گھور رہا تھا جب آپریشن تھیڑ کا دروازہ کھلا اور سٹریچر کو باہر نکالنے لگے۔

عدن آنکھیں موندے ہوش سے بیگانہ تھی۔

"ڈاکٹر عدن..."

وہ بولتا ہوا ڈاکٹر کی جانب لپکا۔


"آپریشن تو کامیاب ہوا ہے لیکن ان کے ہوش میں آنے پر معلوم ہوگا کہ سب نارمل ہے یا نہیں..."

وہ شہری کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔

"مطلب جان ابھی بھی سولی پر لٹکی ہے۔"

وہ افسردگی سے کہتا اس کے کمرے کی جانب چلنے لگا۔


اندر ایک نرس اور وارڈ بواےُ تھا جو عدن کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔

"ان کی پلس چیک کی ہے؟"

شہری کے عقب سے ڈاکٹر نمودار ہوتا ہوا بولا۔


"جی ڈاکٹر.. فلحال تو نارمل ہے.. بی پی بھی کنٹرول ہے۔"

وہ سامنے مشین کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

"ڈاکٹر کیا میں ان کے پاس بیٹھ سکتا ہوں؟"

نگاہیں عدن پر تھیں۔


"شیور.. لیکن خیال رہے وہ ڈسٹرب نہ ہوں۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔

"جیسے کوئی موومنٹ ہو مجھے بلا لینا... "

وہ نرس کو کہتے ہوۓ باہر نکل گئے۔

وہ عدن کے سامنے سٹول پر بیٹھ گیا۔


"بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ... پھر دیکھنا اچھے سے کلاس لوں گا۔"

وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتا ہوا بولا۔

دو سیاہ آنکھیں آج بھی عدن پر مرکوز تھیں۔ نجانے کون تھا وہ کو ہر لمحے اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیے ہوےُ تھا۔


"ہاں... کہاں ہو تم؟"

وہ فون کان سے لگاےُ مدھم آواز میں بولا۔

"میں عدن کے کمرے میں ہوں..ہاں آپریشن ہو گیا ہے...ٹھیک ہے تم آ جاؤ ادھر ہی۔"

وہ فون بند کر کے جیب میں ڈالتا عدن کو دیکھنے لگا۔


"ہوش نہیں آیا ابھی تک؟"

عزہ اندر آتی ہوئی بولی۔

"نہیں ابھی تک تو نہیں۔"

وہ یاسیت سے بولا۔

"فکر مت کرو..بہت سی دعائیں ہیں اس کے ساتھ..کچھ نہیں ہو گا اسے۔"

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔

عدن کی پلکوں میں جبنش آئی تو شہری سیدھا ہو گیا۔

نظر اس کے ہاتھ پر پڑی تو اس کی انگلیاں حرکت کرتی دکھائی دیں۔

"اسے ہوش آ رہا ہے۔ ڈاکٹر کو بلاؤ.."

وہ عزہ کو دیکھتا ہوا بولا۔


وہ دونوں ایک طرف کھڑے تھے۔

ڈاکٹر عدن کا معائنہ کر رہا تھا۔

وہ حیرت انگیز آنکھوں سے ڈاکٹر اور نرس کو دیکھ رہی تھی۔

آنکھیں کسی اور کو تلاش رہی تھیں۔

وہ گردن گھما کر شہری اور عزہ کو دیکھنے لگی۔


نظریں کسی اور کو دیکھنا چاہ رہی تھیں۔

جس کی بناء پر وہ یہاں تک آئی تھی۔

علالت کے باعث بولنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

وہ ہاتھ بلند کرتی انہیں مخاطب کرنے لگی۔


"کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟"

ڈاکٹر مسکراتا ہوا بولا۔

وہ شہری کو دیکھتی دروازے کی سمت دیکھنے لگی جیسے نظروں سے ہی استفسار کر رہی ہو۔

"کیا ہوا عدن؟"

وہ بولتا ہوا اس کے پاس آیا۔


"و.. وہ.. "

وہ بولنے کی سعی کر رہی تھی۔

آنکھیں کھولنے پر سب سے پہلے جسے وہ دیکھنا چاہتی تھی وہ حسنین ہی تھا۔

"وہ... کہاں ہے؟"

وہ رک رک کر بول رہی تھی۔


"ابھی آ جاےُ گا حسنین.. تمہاری میڈیسن لینے گیا ہے۔"

شہری نے بہانہ بنایا۔

وہ غیر مطمئن نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"آپ آرام کریں.. ٹینشن مت لیں... سسٹر خیال رکھنا ان کا بی پی نارمل رہے۔"

وہ جیسے مطمئن نہیں ہوۓ تھے۔


"جی ڈاکٹر... "

وہ انجیکشن تیار کرتی ہوئی بولی۔

عدن شہری کا بازو ہلا کر اسے اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔

"بیسٹی تم آرام کرو... سنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے... جلدی ٹھیک ہو جاؤ.. مجھے بہت سے حساب برابر کرنے ہیں.. "

وہ ماحول کو خوشگوار بنانے کو بولتا ہوا بیٹھ گیا۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔


"حسنین کہاں ہے؟"

وہ بے چین تھی۔

"بتایا تو ہے.. "

وہ نظریں چراتا ہوا بولا۔

عزہ آنکھیں سکیڑے شہری کو دیکھ رہی تھی۔


"نہیں.. تم جھوٹ بول رہے ہو نہ؟"

وہ خدشہ ظاہر کرتی ہوئی بولی۔

"میں کیوں جھوٹ بولوں گا؟"

وہ خفگی سے بولا۔


"شہری کیا تم کچھ چھپا رہے ہو؟ حسنین کہاں ہے؟ مجھے تو وہ دکھائی نہیں دیا۔"

عزہ آگے بڑھتی ہوئی بولی۔

عدن پھٹی پھٹی نگاہوں سے شہری کو دیکھنے لگی۔


"کہا...کہاں ہے وہ۔ بتاؤ؟"

وہ بمشکل آنسوؤں کو روکے ہوۓ تھی۔

وہ عزہ کو نظر انداز کرتا عدن کو دیکھنے لگا۔

"عدن میری بات سنو.. "

وہ تحمل سے اسے سمجھانا چاہتا تھا۔


"وہ چلا گیا؟"

اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔

"نہیں.. میری بات سنو۔"

اشک اس کے رخسار کو تر کرنے لگے۔

"وہ کیسے جا سکتا ہے؟ مجھے چھوڑ کر چلا گیا وہ؟"

وہ شہری کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔


"میں نہیں جانتا وہ کہاں گیا لیکن تم ٹینشن مت لو.. کسی کام سے گیا ہو گا میں فون کرتا ہوں اسے... "

اس نے عدن کو مطمئن کرنا چاہا۔

"وہ چلا گیا.. "

وہ کھوےُ کھوےُ انداز مں بولی۔


"آپ ان سے بات مت کریں.. ان کا بی پی ڈاؤن ہو رہا ہے.. "

نرس متفکر سی کہتی اس کی پلس چیک کرنے لگی۔

"آپ لوگ پلیز باہر جائیں.. "

وہ انجیکشن اٹھاتی ہوئی بولی۔

"مجھے چھوڑ دیا تم نے... "

وہ بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔


دھڑکن مدھم ہوتی جا رہی تھی۔

سانس بند ہو رہا تھا۔

نرس نے اس کی بازو میں انجیکشن لگا دیا۔

اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔

وہ آنسو بہاتی دھندلاتے منظر کو دیکھ رہی تھی۔

آوازیں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔


وہ ہوش سے بیگانہ ہو چکی تھی۔

شہری دم سادھے اسے دیکھ رہا تھا۔

ڈاکٹر بھی آ چکا تھا۔

وہ عدن کا معائنہ کر رہے تھے۔

"ڈاکٹر ٹینشن والی کوئی بات تو نہیں؟"

شہری گھبراتا ہوا بولا۔


"کوشش کریں انہیں ذہنی دباؤ سے دور رکھیں.. اگر یہی کنڈیشن رہی تو۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔"

ان کی پیشانی پر شکنیں نمایاں تھیں۔

"شہری یہ سب کیا ہے؟ اور حسنین کہاں ہے؟"

عزہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئی۔


"اگر مجھے معلوم ہوتا تو اس طرح بیٹھا نہ ہوتا... "

وہ بےبسی سے بولا۔

"مطلب؟"

وہ الجھ گئی۔

"اس نے مجھے کال کی تھی لیکن جب میں آیا تو وہ خود غائب تھا۔ مجھے لگا ابھی آ جاےُ گا.. لیکن آپریشن ہو گیا۔عدن کو ہوش آ گیا مگر وہ نہیں آیا..نجانے کہاں چلا گیا ہے۔"

وہ جھنجھلا کر بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔


"اوہ.. تو اب؟ عدن کو کیسے سنبھالیں گے؟"

وہ فکرمندی سے بولی۔

"یہی تو سمجھ نہیں آ رہا۔"

وہ دو انگلیوں سے کنپٹی سہلاتا ہوا بولا۔

وہ خاموش ہو گئی۔

~~~~~~~~

"چلو آؤ یہ مسٹری حل کرتا ہوں۔"

جونہی منال کمرے میں آئی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر صوفے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

"جلدی سے بتاؤ اب؟"

بےصبری سے جواب آیا۔


"مجھے تمہارے پاپا نے کہا تھا کہ میں تمہاری حفاظت کروں... "

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا جس کے چہرے پر معدوم سی الجھن تھی۔

"وہ تمہیں لے کر پریشان تھے اسی لئے مجھے ہر لمحہ تمہارے ساتھ رہنے کی تاکید کی۔لیکن..."

وہ بولتا ہوا رک گیا۔


"لیکن کیا؟"

وہ بےچینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔

"لیکن انکل نے مجھے تمہاری ہیلپ کرنے کا نہیں بلکہ تمہیں الجھانے کا بولا تھا۔"

وہ چہرہ جھکاےُ ہوۓ تھا۔


"پھر تم نے کیوں میری مدد کی؟"

وہ مزید الجھن کا شکار ہو گئی۔

"تم ہمیشہ بدھو ہی رہنا۔"

وہ اس کے سر پر چت لگاتا ہوا بولا۔

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورنے لگی۔


"تم مجھے اچھی لگنے لگی جو کہ تم ہو نہیں.. خیر اسی لئے میں تمہاری مدد کرتا رہا تاکہ تمہیں لوٹ سکوں۔"

وہ بات کو مزاح کا رنگ دیتا ہنس رہا تھا۔

"بہت فنی تھا نہ... "

وہ تپ کر بولی۔


"تم سے سیدھی بات کی امید انسان رکھ ہی نہیں سکتا۔"

وہ خفا ہو گئی۔

"حد ہے... سب تو بتا دیا تمہیں اب کیا باقی ہے؟"

وہ اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔

وہ جو جانے کے لیے کھڑی ہوئی تھی گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔


"کچھ ہے جو تم گول مول کر گئے ہو۔"

وہ مطمئن نہیں ہوئی۔

"ایک ایک لفظ سچ تھا... اب کیسے یقین دلاؤں تمہیں؟"

وہ اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔


"ویسے تم حجاب میں بہت اچھی لگتی ہو...یہی وجہ ہے تمہاری مدد کرنے کی اور تم جیسی احسان فراموش لڑکی سے شادی کرنے کی بھی۔"

شاید وہ کبھی سنجیدہ نہیں ہو سکتا۔


"بھاڑ میں جاؤ تم... "

وہ اسے دھکیلتی ہوئی بولی۔

"اچھا اب چھوڑو یہ بتاؤ پیکنگ کر لی تم نے؟"

وہ پھر سے اس کے مقابل آ گیا۔

"نہیں.. تم کرو گے۔ مجھے بخار ہے.. "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


انیب کا ہاتھ فوراً اس کی پیشانی پر گیا۔

"تمہیں تو سچ میں بخار ہے... اچھا ایسا کرو تم آرام کرو میں دیکھتا ہوں پیکنگ کیسے کرتے ہیں؟"

وہ بولتا ہوا الماری کی جانب بڑھ گیا۔


ایک معدوم سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی, وہ بیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔

جو پیکنگ کرنے کے ساتھ ساتھ کمنٹ بھی کر رہا تھا۔

~~~~~~~~

وہ پھر سے ہوش میں آ چکی تھی لیکن پہلے کے برعکس اب وہ خاموش تھی۔

آنکھیں ویران تھیں جہاں اداسی ڈیرے جماےُ ہوۓ تھی۔

شہری کے لئے یہ حیران کن تھا۔

"تم ٹھیک ہو؟"

وہ اس کے پاس آتا ہوا بولا۔


وہ گردن موڑ کر خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں... "

مدھم سی سرگوشی سنائی دی۔

"تو پھر اس طرح سے کیوں.. میرا مطلب..."

وہ جھنجھلا کر بولا۔

وہ تلخی سے مسکرائی۔


"جانتے ہو شہری ہمارے پاس دو چوائس ہوتیں ہیں۔ یقین کی اور بے یقینی کی...

میں نے ﷲ پر یقین کیا ہے اور اگر میں رونے بیٹھ جاؤں تو مطلب میرا یقین ڈگمگا گیا۔ مطلب جانتے ہو تم اس کا؟"

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


آواز اتنی آہستہ تھی کہ وہ بمشکل سمجھ پا رہا تھا۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔

"اگر میں نے اپنے خدا پر یقین کیا ہے تو اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.. اب کچھ بھی ہو جاےُ میں اس سے گلا نہیں کر سکتی کیونکہ یہ زیب نہیں دیتا۔

وہ میرا خدا ہے مجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے حسنین کا ساتھ مجھے اس سے زیادہ اذیت دیتا۔ ہو سکتا ہے اسے مجھ سے ہمدردی ہو, ترس کھا رہا ہو مجھ پر.. "

وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔


"ہو سکتا ہے اس کا میرے ساتھ رہنا میرے حق میں بہتر نہ ہو.. مجھے اس سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑے۔ اس لئے ﷲ نے مجھے کم تکلیف دے کر زیادہ سے بچا لیا۔"

وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔

ایسی باتیں وہ پہلی بار کر رہی تھی۔


"تم بلکل بدل گئی ہو سچ میں.. "

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"دیکھو شہری میں پرسکون ہوں... ساری زندگی سکون تلاشتی رہی اور دیکھو کہاں آ کر ملا مجھے سکون.. "

وہ معدوم سا مسکرائی۔


"کیسے ملا تمہیں سکون؟"

وہ اس کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر وہ پوچھے بنا رہ نہ سکا۔

"اپنے خدا سے ملنے کے بعد... یہ جاننے کے بعد کہ وہی سب کچھ ہے۔ جانتے ہو میں نے ہر چیز اس پر چھوڑ دی ہے حتیٰ کہ اپنا آپ بھی۔ اور اب میں بے نیاز ہوں ہر شے سے... پتہ ہے کیوں؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔


"کیوں؟"

آہستہ سے لب پھڑپھراےُ۔

"کیونکہ مجھے یقین ہے ﷲ میرے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا۔ وہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے وہ سب جانتا ہے ایک ایک بات سے ایک ایک تکلیف سے واقف ہے وہ پھر وہ کیسے دکھ دے سکتا ہمیں؟"

وہ اپنی ہی رو میں بولتی چلی جا رہی تھی۔

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب عدن کی آنکھ کھل گئی۔

وہ لمبے لمبے سانس لیتی چھت کو گھورنے لگی۔

چند پل لگے اس کو نارمل ہونے میں۔

آنکھوں سے نیند خفا ہو چکی تھی۔

آپریشن کے باعث اسے محتاط انداز میں اٹھنا پڑتا تھا۔

وہ تھوڑا سا اونچا ہوئی یوں کہ تکیے سے ٹیک لگا لی۔


"مجھے تم پر بھروسہ ہے.. تم واپس آؤ گے۔"

وہ تاریکی میں دیکھتی ہوئی بولی۔

"تم میرا مان,میرا بھروسہ نہیں توڑو گے۔"

وہ جیسے خود اپنی ہمت بندھا رہی تھی۔


"آج دو دن ہو گئے ہیں۔ دیکھو اب کب تم راستہ بھولتے ہو.. "

وہ سانس اندر کھینچتی ہوئی بولی۔

شہری سو رہا تھا۔

"تمہارا گزشتہ حال دیکھ کر قیاس لگانا مشکل نہیں کہ تمہیں میری فکر ہے۔ اور اگر ﷲ نے چاہا تو تم میرے پاس واپس آ جاؤ گے۔"

بولتے بولتے اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔


"شہری.. "

وہ آہستہ سے بولی۔

"ہا.. ہاں.. "

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

"مجھے قرآن لا دو کہیں سے.. اور ہاں نرس کو بھی بلا لاؤ مجھے وضو کرنا ہے۔"

وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی۔


"اچھا میں جاتا ہوں.. "

وہ آنکھیں مسلتا لائٹ آن کر کے باہر نکل گیا۔

جونہی اس نے قرآن کھولا سامنے سورۃ آل عمران کی آیتیں نظر آئیں۔

وہ پڑھنے کی سعی کرنے لگی۔

عربی پڑھنا اس کے لئے کٹھن تھا۔

عہ شرمسار سی قرآن کو دیکھنے لگی نجانے اس نے کبھی پڑھا بھی تھا یا نہیں۔ اگر پڑھا بھی تھا تو یاد نہیں.. انگلش بول بول کر اس میں مہارت حاصل کر رکھی تھی۔

وہ ترجمہ پڑھنے لگی۔


"کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو غلط فہمی میں نہ ڈال دے۔"

"یہ چند روزہ بہار ہے۔ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔"


"بہار سے مراد دنیا کی رنگینیاں, یہ دنیا کی بہاریں.. کافر کیا کرتے تھے؟ اللہ کی نافرمانی.. تو ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں وہ سب کام کر رہے جس سے منع کیا گیا۔

جس بہار کے پیچھے ہم بھاگ رہے ہیں جس دنیا کے بدلے اپنا آپ گنوا رہے ہیں اس کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں.. پل میں یہاں تو پل میں وہاں.. تو کیا ہم بھی کافروں جیسے ہیں؟

اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا لیکن ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی خود کو تباہ کرنے میں۔"

وہ کرب سے بولی۔


"البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈریں, ان کے لئے باغات ہیں, جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں, وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے, یہ اللہ کی طرف سے مہمانی ہو گی اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہتر ہے‍۔"

"بےشک آسمان و زمین کی بناوٹ اور رات دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔"


"یہاں عقل مند سے مراد کون سے لوگ ہیں؟"

وہ دروازے کو گھورتی سوچنے لگی۔

عقلمند وہ نہیں جو دنیا کے مال و اسباب زیادہ سے زیادہ جمع کر لے, سونے چاندی کے ڈھیر لگا لے۔

بڑے بڑے بزنس مین جنہیں ہم عقلمند تصور کرتے ہیں انہیں سر پر بٹھاتے ہیں وہ عقل والے نہیں ہیں بلکہ عقلمند تو وہ ہیں جو ﷲ کا ذکر کرتے ہیں, دن رات اسے یاد کرتے ہیں جو اس سے غافل نہیں ہیں, جو اپنے آپ سے, اپنے ضمیر سے غافل نہیں ہیں۔

جن کا دل اٹھتے بیٹھتے ﷲ کا نام لیتا ہے.. یہ ہیں عقلمند کیونکہ یہ دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے, عقل سے کام لے کر اپنی آخرت تباہ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ ایکٹر بننا سنگر بننا یا ڈانسر بننا کوئی مہارت کا کام نہیں۔ یہ سب دنیاوی اشیاء ہیں جو یہیں رہ جائیں گیں‍


واؤ.. یہ باتیں پہلے کبھی نہیں سوچیں.. کبھی سمجھ نہیں آئیں... حسنین تم انہی چیزوں کی بات کرتے تھے.. جنہیں میں نے کبھی ڈسکور نہیں کیا۔"

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔


رات کے اس پہر وہ قرآن کی آیتیں پڑھتی اپنے قلب کو سکون کی نعمت سے مالا مال کر رہی تھی۔

~~~~~~~~

"امی بھائی نہیں آےُ؟"

نمرہ بیگ رکھتی ہوئی بولی۔

"نہیں... ﷲ خیر ہی کرے.. دو دن سے کوئی خبر ہی نہیں اس کی.. نہ ہی فون کیا۔"

وہ متفکر سی بولیں۔


"میں فون کر رہی تھی لیکن میری کال ہی نہیں اٹھائی انہوں نے... شاید ہاسپٹل میں ٹائم نہ ملا ہو.."

وہ منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہوئی بولی۔

"لیکن پھر بھی ایک فون تو کر سکتا تھا نہ..یوں پریشانی کا سامنا تو نہ کرنا پڑتا۔"

وہ خفگی سے گویا ہوئیں۔


"اچھا چلیں آپ پریشان نہ ہوں.. مجھے کھانا دے دیں۔ بہت بھوک لگی ہے!"

وہ تولیے سے منہ خشک کرتی ہوئی بولی۔

"کچھ گھر داری تم بھی سیکھ لو... شادی کی عمر ہونے کو ہے۔"

وہ حسنین کا غصہ اس پر اتار رہی تھیں۔


"اچھا نہ امی... "

وہ منمنائی۔

"شام میں کریلے بنانا تم... "

وہ چولہا جلاتی ہوئی بولیں۔

وہ منہ بسورتی اندر چل دی۔

~~~~~~~~

وہ عزہ کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔

"ڈیڈ آپ صرف ایک بار آےُ مجھے دیکھنے.. "

وہ لاؤنج میں قدم رکھتی قنوطیت سے بولی۔

آنکھوں میں کرب تیرتا نمایاں تھا۔


"ایسی بات نہیں ہے بیٹا.. میں آیا تھا تم دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی۔"

وہ اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولے۔

"عزہ مجھے میرے کمرے میں لے جاؤ.. "

وہ خشک لہجے میں کہتی ان سے دور ہو گئی۔


"تم مجھ سے ناراض ہو رہی ہو؟"

وہ صدمے کی سی کیفیت میں بولے۔

"میں بات نہیں کرنا چاہتی.. شہری؟"

وہ عقب میں دیکھتی ہوئی بولی۔


"ہاں بولو.. "

وہ آگے آتا ہوا بولا۔

"رابن سے میرا کریڈٹ کارڈ لیتے آنا میرے کمرے میں.. "

کہہ کر وہ رکی نہیں اور عزہ کے ہمراہ چلنے لگی۔


وہ کمرے میں اکیلی تھی۔

وہ خود کو کسی بھی نوعیت کی سوچوں سے دور رکھنے کی سعی کر رہی تھی۔

کھڑکی پر گرے پردے ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔

بے اختیار اس کی نگاہیں اوپر اٹھیں۔


"اس رات... تم میرے پاس تھے,, بہت پاس۔"

وہ آنکھیں بند کرتی اس تخیل میں گم ہو گئی۔

لب مسکرا رہے تھے۔

"نجانے خدا کو کیا منظور ہے... "

وہ آنکھیں کھولتی ہوئی بولی۔


"میم آپ نے مجھے بلایا؟"

رابن ناک کرتا اندر آیا۔

"ہاں.. اس دن میں نے تمہیں ہاسپٹل کے ڈیوز کلئیر کرنے کا بولا تھا تو؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"میم آپ کا اکاؤنٹ فریز تھا اس لئے میں کلئیر نہیں کر سکا... مجھے لگا ٹھیک ہو جاےُ گا تو بعد میں کر دوں گا لیکن ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا.. "

وہ مایوسی سے بولا۔

عدن کی پیشانی پر شکنیں بڑھنے لگیں۔


"اگر اکاؤنٹ فریز ہے تو میرا علاج کیسے ہوا؟ حسنین کے پاس جاب نہیں تھی.. "

وہ الجھتی ہوئی سوچنے لگی۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ.. "

وہ ہاتھ سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


"آخر اس نے کیا کیا ہے؟ جو وہ سامنے نہیں آ رہا؟"

وہ پیشانی مسلتی ہوئی بولی۔

"تمہیں آنا پڑے گا حسنین...اور میں جانتی ہوں تم کیسے آؤ گے۔"

وہ لائحہ عمل طے کرتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

"تم شام کو چھ بجے آؤ گی میرے آفس.. "

وہ تحکم سے بولا۔

"کیوں؟ میں کیوں آؤں؟ ہو کون تم؟"

نمرہ بگڑ کر بولی۔

"کیونکہ میں کہہ رہا ہوں۔"

وہ خفگی سے بولا۔


"اور میں تمہاری بات کیوں مانوں؟"

وہ اکھڑ گئی۔

"کیونکہ یہ میرا حکم ہے۔"

وہ گھورتا ہوا چلنے لگا۔

"عجیب پاگل انسان ہے.. "

وہ بڑبڑاتی ہوئی چلنے لگی۔


"ایسے کیسے میں چلی جاؤں؟"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"کوئی بھی مجھے کہے گا اور میں منہ اٹھا کر چل دوں؟"

وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔


"جی سر میں نے بول دیا ہے اسے... امید ہے وہ آ جاےُ گی۔"

وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔

مقابل نے بنا کچھ کہے فون بند کر دیا۔

"تمہیں ایسے ہی باہر نکالنا پڑے گا حسنین.."

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

~~~~~~~~~

وہ عشاء کی نماز پڑھ کر بیڈ سے اتر آئی۔

وہ سہارا لے کر چل رہی تھی۔

"میرا خیال صرف تم ہی رکھ سکتے ہو.. "

وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔

چلتی ہوئی وہ ٹیرس پر آ گئی۔

رات کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔


مہتاب بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔

فلک کی چادر پر کوئی بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

وہ پھیکا سا مسکراتی اس منظر کو دیکھنے لگی۔

دو سیاہ آنکھیں عدن کو دیکھ رہی تھیں۔

وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے نیچے جھک گئی۔


ٹانکوں میں ٹیس سی اٹھی جو اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

نجانے وہ کیا کرنا چاہ رہی تھی۔

دور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ وہ چھلانگ لگانا چاہ رہی ہے۔


وہ اسی طرح جھکی ہوئی تھی۔

شاید وہ اس کی منتظر تھی۔

جب تکلیف بڑھنے لگی تو وہ سیدھی ہو گئی۔

بائیاں ہاتھ زخم پر رکھے وہ سامنے دیکھنے لگی۔


"تمہیں آنا ہی پڑے گا حسنین.. مجھے میرے سوالوں کے جواب چائیے جن سے تم ہمیشہ بھاگتے ہو... "

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

"امی مجھے دیر ہو رہی ہے رہنے دیں... "

وہ بیگ میں کتابیں رکھتی ہوئی چلائی۔

"خبردار اگر ناشتہ کئے بغیر گئی تو... "

وہ اسے گھورتی ہوئی بولیں۔


"ٹائم دیکھیں میری کلاس شروع ہو جاےُ گی.. "

وہ دوپٹہ سر پر لیتی آرزدگی سے بولی۔

"بیٹھ کر ناشتہ کرو پھر جانا.. اور میں کچھ نہیں سنوں گی۔"

غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

نمرہ نے بیٹھ کر دو نوالے لئے اور کھڑی ہو گئی۔


"حسنین کو فون ملا کر دیکھنا... "

وہ اس کے پیچھے آتی ہوئی بولیں۔

"اچھا ٹھیک ہے... "

وہ دوپٹہ سنبھالتی باہر نکل گئی۔


"بس آج تو میں پکا لیٹ ہو گئی.... اف امی بھی نہ۔"

وہ اپنی ہی رو میں بولتی چلی جا رہی تھی۔

وہ گھڑی کو دیکھتی بس کی منتظر تھی جب ایک سیاہ رنگ کی گاڑی اس کے سامنے آ رکی۔

وہ تعجب سے دیکھ رہی تھی۔اسی لمحے وہی انسان باہر نکلا جو کل اسے دعوت دے رہا تھا۔


نمرہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

اس سے قبل کہ وہ منہ کھولتی اس نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا۔

چند سیکنڈز کا کھیل تھا۔

اگلے لمحے گاڑی وہاں سے غائب تھی۔


"کون ہو تم لوگ؟ اور مجھے کیوں باندھ رکھا ہے؟"

نمرہ خود کو آزاد کروانے کی سعی کر رہی تھی۔

"خاموش بیٹھی رہو.. اگر صحیح سلامت واپس جانا چاہتی ہو تو.. "

وہ کرسی کی بازوؤں پر دونوں ہاتھ رکھتا اس پر جھکتا ہوا بولا۔

وہ سہم کر پیچھے ہو گئی۔


"ٹھیک ہے میں چپ ہوں.. "

وہ ہتھیار ڈالتی ہوئی بولی۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا چلنے لگا۔


"جی سر.. کام ہو گیا ہے۔ لڑکی ہمارے پاس ہے۔"

وہ شخص فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔

"کس نے مجھے اغوا کروایا ہے... ہاےُ امی کتنا پریشان ہو جائیں گیں۔"

وہ اسے دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔

~~~~~~~~

"جانتی ہو عدن خان کا ٹرانسپلانٹ ہوا ہے۔"

انیب کوٹ اتارتا ہوا بولا۔

"تمہیں کس نے بتایا؟"

باہر سے کسی نے دروازہ بجایا۔

"ایک منٹ..."

وہ کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔


"منال بیٹا یہ کھا لو ... میں نے تمہارے لئے بنوایا ہے۔"

وہ انیب کی ماما تھیں۔

"آنٹی آپ نے کیوں زحمت کی.. "

وہ بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی۔


"اس میں زحمت والی کیا بات... تم میری بیٹی جیسی نہیں بلکہ بیٹی ہو۔"

وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔

منال کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

"تھینک یو.. "

وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔


"ماؤں کو تھینکس نہیں بولتے... "

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔

"آپ دونوں میں اتنی محبت! میں تو سمجھ رہا تھا یہاں ساس بہو کے جھگڑے ہوں گے۔"

وہ منہ بسورتا ہوا بولا۔


"شرم کر لو... "

وہ انیب کا کان کھینچتی ہوئی بولیں۔

"توبہ توبہ!مجھ پر کیوں ظلم کر رہی ہیں آپ.. میں تو معصوم سی جان ہوں۔"

وہ معصومیت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

وہ مسکراتی ہوئی اس کے چت لگاتی باہر نکل گئیں۔


"بہت ہنسی آ رہی ہے تمہیں؟"

وہ گھورتا ہوا بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"ہاں تو مجھے منع ہے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔


"کیا تمہاری ماما کی کمی پوری ہوئی؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"بلکل.. آنٹی بہت اچھی ہیں؟"

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔


"چلو پھر اسی خوشی میں باہر چلتے ہیں.. تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھڑا ہو گیا۔

"ہاں اب بہتر ہوں..."

وہ باؤل اٹھاتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~~

آج پھر سے وہ ٹیرس پر آ گئی۔

"چلو حسنین آج ایک گیم کھیلتے ہیں... آر یا پار۔"

وہ بولتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔

"تم آ گئے تو ٹھیک نہیں تو... نتیجے کے ذمہ دار تم ہو گے۔"

وہ وائس کلپ بھیج کر دیوار کی جانب بڑھنے لگی۔


وہ زخم پر ہاتھ رکھے چل رہی تھی۔

کرسی رکھنے کے بعد وہ دیوار پر کھڑی ہو گئی۔

اونچائی اتنی تھی کہ نیچے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔


اس کی آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک تھا۔

فون ہاتھ میں پکڑے وہ بے نیاز سی کھڑی تھی۔

اپنے اندر تازہ ہوا اتارتی وہ پرسکون تھی۔

ایک لحظے بعد اس کا فون رنگ کرنے لگا۔

اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھ کر اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی۔

"نیچے اترو... "

جونہی اس نے فون اٹھایا غیض سے بھرپور آواز سنائی دی۔


"تم کہاں ہو؟"

وہ اسے نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔

"میں آ رہا ہوں... تم نیچے اترو ابھی سنا نہیں۔"

وہ برہم ہوا۔

وہ لب دباتی نیچے اتر آئی۔


"تمہارا دماغ گھاس چرنے گیا ہے.. مجھے آنے دو ذرا... "

غصہ ہنوز برقرار تھا۔

عدن نے بنا کچھ کہے فون رکھ دیا۔

"تم اب کچھ بھی کہہ لو.. میں اپنے پلان میں کامیاب ہو گئی یہی بہت ہے؟"


وہ بائیاں ہاتھ دکھتے زخم پر رکھتی کرسی پر بیٹھ گئی۔

دو سیاہ آنکھیں آج بھی اس پر تھیں اور وہ ہمیشہ کی مانند انجان تھی۔

دس منٹ بعد قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔

وہ اس کا انداز پہچانتی تھی, لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔


"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟"

وہ اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرتا ہوا دھاڑا۔

وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔

آنکھیں جسے دیکھنے کے لیے ترس رہی تھیں بلآخر وہ سامنے آ چکا تھا۔


"یہ کیا پاگل پن کر رہی تھی تم؟"

پہلی بار عدن نے اسے چلاتے ہوۓ دیکھا تھا۔

"تم بھی تو چھپ کر بیٹھے تھے.. مجھے بتاؤ یہ کیا طریقہ ہے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔


"یہ تمہارا مسئلہ نہیں... بات آپریشن کی ہوئی تھی اور تم ٹھیک ہو اب۔"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"بات بچھڑنے کی بھی نہیں ہوئی تھی۔"

وہ ترکی بہ ترکی بولی۔

وہ خفا نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


وہ جانے کے لیے چلنے لگا۔

عدن نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ناچار اسے رکنا پڑا۔

"اب کیا ہے؟"

وہ کوفت سے بولا۔

عدن کی جانب اس کی پشت تھی۔


"کیا تم مجھے نہیں بتا سکتے تھے؟"

وہ کرب سے بولی۔

"کیا؟"

وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔


"ابھی تمہیں مجھ سے محبت نہیں تو تم نے میری زندگی کی خاطر اپنی کڈنی دے دی.. ظالم انسان اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی تو پھر کیا کرتے؟"

وہ اس کے سینے پر مکا رسید کرتی ہوئی بولی۔

وہ غم و غصے کی کیفیت میں ہانپنے لگی تھی۔


وہ نگاہیں چراتا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"جو مجھے مناسب لگا میں نے کیا زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"

وہ سرد مہری سے بولا۔

"تم میری آنکھوں میں دیکھ سکتے ہو... مجھے آنکھیں پڑھنے کا ہنر نہیں آتا۔"

وہ اس کا چہرہ اپنی جانب کرتی ہوئی بولی۔


"میں تمہارے کسی فضول سوال کا جواب نہیں دوں گا۔"

وہ قطعیت سے بولا۔

"تمہارے جو دل میں آےُ تم کرو گے اور میرے سوالوں کے جواب بھی نہیں دے سکتے؟ آخر سمجھتے کیا ہو تم خود کو ہاں؟ دل کیا تو کڈنی دے دی,, مذاق لگتا ہے تمہیں یہ؟"

وہ اس کے سینے پر وار کرتی ہوئی بولی۔


وہ الٹے قدم اٹھا رہا تھا اور عدن اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔

"بس.. بہت ہو گیا۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا درشتی سے بولا۔

"کیوں مجھ پر احسان کیا تم نے؟ بولو.. کہاں سے پیسے لئے تم نے؟ کون سا غلط کام کیا ہے؟"

ضبط کے باوجود اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔


حسنین کے فون کی رنگ ٹون نے اسے اپنی جانب متوجہ کروایا۔

فلیش بیک کا نام دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"میں جلدی میں ہوں... بعد میں ملتا ہوں اور خبردار اگر تم نے کوئی فضول حرکت کی تو بہت برا پیش آؤں گا میں یاد رکھنا۔"

وہ جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔


وہ توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث اس کی کالر کو تھامے ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔

"تم انتہائی... "

"بولتی رہو.. "

وہ اس کا ہاتھ چھوڑتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔


عدن کا منہ کھل گیا۔

"تم تو مجھے کچھ سمجھتے ہی نہیں ہو.. "

وہ منہ بسورتی زینے اترنے لگی۔

~~~~~~~~~

"تم تو.. "

نمرہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھنے لگی۔

"بلکل میں ہی ہوں.. "

حارب مسکراتا ہوا بولا۔


"لیکن مجھے کیوں یہاں رکھا ہوا ہے؟ ہماری کیا دشمنی تم سے؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"وہ کیا ہے نہ تمہارے بھائی سے کچھ حساب برابر کرنے تھے.. اور جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑی ہے۔"

وہ اس پر جھک کر انگلی سے اس کے چہرے پر آئی لٹ پیچھے کرتا ہوا بولا۔


اس نے کراہیت سے رخ پھیر لیا۔

"حساب میرے بھائی سے ہے تو مجھے کیوں اٹھا لیا تم نے؟ بزدلوں والے کام.. "

وہ معدوم سا ہنسی۔


"ہمت کی بات مت کرو تم... ویسے بھی تمہارے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں پھر کیوں اپنا دشمن بنانا چاہتی ہو؟"

وہ سادگی سے بولا۔

"مجھے گھر جانے دو پلیز.. میری امی پریشان ہوں گیں.. "

وہ رو دینے کو تھی۔


"ٹھیک ہے... تم نے کہا اور میں نے مان لیا.. حارث اس کو گھر کے دروازے کے سامنے اتارنا... رات کا وقت ہے میں نہیں چاہتا اکیلی جاےُ یہ۔"

کھردرے پن سے کہتا وہ باہر نکل گیا۔

وہ بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔


نجانے کیوں اسے فکر دکھائی دی اپنے لیے۔

حارث آکر اسے کھولنے لگا۔

وہ کلائیاں مسلتی کھڑی ہو گئی۔

~~~~~~~~

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی نمرہ کو اغوا کرنے کی؟"

حسنین تلملاتا ہوا بولا۔

"کامن ڈاؤن ڈئیر... اگر تم اپنی من مرضی کرو گے تو پھر میری جانب سے بھی یہی توقع رکھو..."

حسنین فون کان سے ہٹاتا فون کو گھورنے لگا۔


"کہاں ہے نمرہ بتاؤ؟"

وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔

"تم کہاں تھے یہ بتاؤ؟"

وہ مدعے پر آیا۔

"ڈونر میں تھا.. مل گیا سکون اب بتاؤ مجھے.. "

وہ بےصبری سے بولا۔


"ہاں.. اب تک گھر پہنچ گئی ہو گی.. فکر مت کرو۔ تمہاری بہن بلکل صحیح سلامت ہے۔"

وہ اس کے خدشات دور کرتا ہوا بولا۔

"مہربانی... "

حسنین کلس کر کہتا فون بند کر گیا۔

مقابل تعجب سے فون کو دیکھنے لگا۔


وہ گھڑی دیکھتا چلنے لگا۔

"امی اب آپ تحمل سے میری بات سنیں گیں۔"

وہ انہیں دیکھتا ہوا بولا۔

"بھائی آپ کی کیا دشمنی تھی اس سے؟"

نمرہ روتی ہوئی بولی۔


"نمرہ ابھی خاموش رہو. "

وہ خفگی سے بولا۔

"اچھا بتاؤ کیا کہنا ہے تم نے؟"

وہ نمرہ کو اپنے ساتھ لگاتی ہوئی بولیں۔

"عدن سائرہ خالہ کی بیٹی ہے... "

اس نے گویا دھماکہ کیا۔


وہ دونوں پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگیں۔

"عدن... "

وہ زیر لب دہراتی ہوئیں حسنین کو دیکھنے لگیں۔

"بھائی خالہ کی بیٹی؟"

نمرہ اپنی جگہ ششدر تھی۔


"بڑوں کے معاملے میں خاموش رہا کرو... "

وہ خفا ہوا۔

"اچھا تو وہ عدن ہماری عدن ہے۔ سائرہ کی بیٹی؟"

وہ جیسے یقین کرنے پر راضی نہیں تھیں۔

"جی امی.."

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔


"ہاں... کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اس کے بچوں کو تو کیسے پہچان لیتی میں اسے... اس کا آپریشن ٹھیک ہو گیا؟"

یکدم انہیں خیال آیا۔

"جی ٹھیک ہے اب وہ۔اور..."

وہ رک کر انہیں دیکھنے لگا۔


"اور کیا؟"

وہ الجھ کر بولیں۔

"عدن کو میں نے کڈنی دی ہے... پلیز امی آپ کچھ نہیں بولیں گیں۔"

وہ جیسے واقف تھا۔

اصل حیرت تو اب آنکھوں میں سموئی۔


"لیکن تم... "

"امی پلیز.. وہ سائرہ خالہ کی بیٹی ہے کیا یہ حوالہ بہت نہیں؟"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"لیکن پھر بھی.. تم نے مشورہ تک نہیں کیا۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔


"اتنا وقت نہیں تھا میرے پاس... "

وہ الٹے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

"اب کہاں جا رہے ہو اس حال میں... مجھے دکھاؤ درد تو نہیں ہو رہا؟"

وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی بولیں۔

نمرہ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔


"میں ٹھیک ہوں.. فکر مت کریں۔ کچھ ادھورے کام ہیں وہ پورے کرنے ہیں۔"

وہ بولتا ہوا باہر نکل گیا۔

"لیکن میری بات تو سنو.. "

وہ بول رہی تھیں اور وہ دور ہوتا گیا۔


"عجیب ہوتے جا رہے ہو تم حسنین... نجانے کیا کیا چھپا رکھا ہے تم نے۔"

وہ تاسف سے اندھیرے میں اس کے ساےُ کو گم ہوتا دیکھنے لگیں۔

~~~~~~~~

"تم نے تو خاموشی سے نکاح کر لیا نہ کسی کو بتایا نہ ہی مدعو کیا۔"

وہ گھورتا ہوا شکوہ کر گیا۔

"مل تو لو... دیکھتے ہی ناراضگی لے کر بیٹھ گئے ہو.. "

وہ اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔


"اب بتاؤ یہ اچانک کہاں سے تمہارے دماغ میں آیا؟"

شاہد جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"اچانک تو نہیں...تمہیں اگر عدن سے فرصت مل جاتی تو معلوم ہوتا۔"

وہ طنز کر گئی۔


"کہہ تو ایسے رہی ہو میں جیسے اس کے ساتھ چپکا ہوا ہوں... "

وہ قہقہے لگاتا ہوا بولا۔

نشاء ناگواری سے اسے دیکھنے لگی۔

"ساحل نہیں آیا؟"

وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔


"نہیں اسے کچھ کام تھا اس لئے وہ انڈیا ہی رک گیا۔ تم بتاؤ ملیحہ کے ساتھ سین ختم؟"

وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ہاں وہ تو بس ٹائم پاس تھی۔ دو دن منہ کیا لگا لیا سر پر چڑھ رہی تھی... "

وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔


"ہاں تمہیں جانتی ہوں... زیادہ دیر ایک کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ سنا ہے عدن تو بہت خوش ہے اپنی زندگی میں؟"

وہ جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی۔

"کہاں خوش ہے اس دو ٹکے کے انسان کے ساتھ جس کے پاس نہ جاب ہے نہ بینک بیلنس..."

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"اووہ آئی سی... ہاں میں نے بھی سنا ہی ہے ابھی تک ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔"

وہ سوٹ ڈرنک کا گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔

"تمہیں بہت شوق ہے اس سڑک چھاپ سے ملاقات کا؟"

وہ جل کر بولا۔


"ویل جس نے عدن خان کو سر تا پیر بدل دیا اس سے ملنا تو بنتا ہے۔"

وہ اسے مزید تپا رہی تھی۔

"چھوڑو تم...یہ بتاؤ رات کا کیا پلان ہے؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔

"کچھ خاص نہیں... "

وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔


"ریڈی رہنا پھر, میں آؤں گا۔"

وہ جیب سے فون نکالتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں... پھر اب میں چلتی ہوں۔"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔


"اوکے.. "

وہ گلے ملتا ہوا بولا۔

"رات میں ملتے ہیں؟"

وہ باےُ کرتی نکل گئی۔


"حسنین تمہارا کچھ کرنا پڑے گا... "

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"سر آپ اندر نہیں جا سکتے... "

چوکیدار اس کی راہ میں حائل ہوتا ہوا بولا۔

"جانتے ہو نہ میں کون ہوں؟"

وہ گلاسز اتارتا ہوا بولا۔


"سر جانتا ہوں... لیکن مجھے سختی سے آڈر ملا ہے کہ آپ کو اندر نہ جانے دیا جاےُ۔"

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"کوئی نہیں تم کہہ دینا میری غیرموجودگی میں آیا تھا میں... ہٹو اب۔"

شاہد اسے پرے دھکیلتا اندر داخل ہو گیا۔


"یقیناً تم اپنے کمرے میں ہو گی... "

وہ بولتا ہوا چلنے لگا۔

عدن منہ پر ہاتھ پھیرتی سامنے دیکھنے لگی۔

آپریشن کے باعث وہ اشاروں سے نماز پڑھ رہی تھی۔

وہ جاےُ نماز اٹھا کر بیڈ سے اتر آئی۔


جونہی وہ مڑی نظریں شاہد سے چار ہوئیں۔

آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"تم یہاں کیسے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔

"ایسے کیوں دیکھ رہی ہوں؟ تمہیں دیکھنے آیا ہوں آفٹر آل تم میری ایکس گرل فرینڈ ہو۔"

وہ اس کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔


"شٹ اپ... اپنی بکواس بند رکھو... اور دوبارہ کبھی اس گھر میں آنے کا سوچنا بھی مت۔"

وہ تلملا اٹھی۔

آج اسے یہ الفاظ گالی محسوس ہو رہے تھے جن پر کبھی وہ فخر کرتی تھی۔


"جانتا ہوں تمہیں اپنی زندگی سے بلکل پیار نہیں لیکن لگتا ہے اپنے شوہر کی زندگی سے بھی پیار نہیں تمہیں... "

وہ بےچارگی سے کہتا عین مقابل آ گیا۔

"اپنی اوقات میں رہو... "

وہ نڈر سی بولی۔


"کہیں ایسا نہ ہو تمہیں اپنی اوقات یاد آ جاےُ... "

وہ لب دباےُ مسکراتا ہوا بولا۔

"نکلو یہاں سے دوبارہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔"

وہ حلق کے بل چلائی۔


"کامن ڈاؤن ڈئیر... ابھی تو ہمیں بہت سا وقت ایک ساتھ گزارنا ہے۔ اور تم ہو کہ سمجھتی ہی نہیں۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"اپنے گندے دماغ کا علاج کرواؤ میں وہ عدن نہیں ہوں۔"

وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔


"لیکن مجھے تو وہی عدن چائیے۔ پھر چاہے کسی کو راستے سے ہٹانا پڑے یا مارنا پڑے.. دیکھنا تم خود چل کر میرے پاس آؤ گی۔"

وہ الٹے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

یکدم اسے خوف محسوس ہونے لگا لیکن وہ اپنے تاثرات کو نارمل رکھنے کی سعی کر رہی تھی۔


"نہیں ڈرتی میں تمہاری ان دھمکیوں سے۔"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"ہاں یہ تو وقت بتاےُ گا... ویسے گنتی شروع کر لو.. کبھی بھی بری خبر آ سکتی ہے۔ پھر تمہیں سنبھالنے والا میں ہی ہوں گا۔"

وہ بےچارگی سے کہتا دروازے کے وسط میں کھڑا ہو گیا‍۔


"میں تمہیں بخشوں گی نہیں اگر تم نے کوئی الٹا کام کیا تو..."

وہ آگ بگولہ ہو گئی۔

"سی یو سون ڈئیر..."

وہ اسے تپاتا ہوا نکل گیا۔

وہ فون اٹھا کر حسنین کو کال کرنے لگی۔

نمبر بزی جا رہا تھا, پیشانی پر شکنیں بڑھنے لگیں۔

"حسنین فون کیوں نہیں اٹھا رہے؟"

وہ فون کان سے لگاےُ بولی۔


"خالہ چلیں میرے ساتھ.. "

حسنین سائرہ کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

"لیکن تم نے اس سے بات نہیں کی ایسے کیسے؟ اور علی وہ بھی وہیں ہو گا۔"

وہ فکرمند ہو گئیں۔

"وہ کام سے باہر گیا ہوا ہے آپ اس کی ٹینشن مت لیں.. اور عدن کو میں سنبھال لوں گا۔"

پراعتماد لہجہ.. وہ جب بھی بات کرتا اسی اعتماد سے کرتا کہ مقابل مجبور ہو جاتا۔


"اور تم نے کڈنی دی ہے عدن کو؟ مجھے بتایا بھی نہیں؟"

وہ خفا انداز میں بولیں۔

"سوری.. کسی کو بھی نہیں بتا سکا میں,وقت نہیں تھا اب آپ چلیں پھر امی سے بھی ملوانا ہے آپ کو. .."

وہ ان کا ہاتھ پکڑے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔


"نہیں... میں نہیں جا سکتی عائلہ(حسنین کی والدہ)سے ملنے..."

وہ وہیں رک گئیں۔

"پلیز خالہ اب یہ ضد ختم کریں.. ماضی کو بیتے بیس سال ہو گئے ہیں.. آخر کب تک خود کو سزا دیں گیں؟"

وہ آنکھوں میں اشک لئے انہیں دیکھنے لگا۔


"بات سزا کی نہیں ہے... میں کیسے نظریں ملاؤں گی۔جب وہ پوچھے گی کیسے خود پر بیتی بتاؤں گی اسے؟"

ان کی آواز کپکپا رہی تھی۔

اشک ٹوٹ کر بہہ رہے تھے۔


"بلکل ویسے ہی جیسے آپ نے اپنے اس بیٹے کو بتایا تھا... بلکہ آپ کو ضرورت پیش نہیں آےُ گی میں امی کو سمجھا لوں گا.. "

وہ آنکھیں رگڑتا ہوا بولا۔

"تم ایسے بات کرتے ہو جیسے ہر کام ہی بہت آسان ہے یوں چٹکیوں میں کر لو گے۔"

وہ اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولیں۔


"آپ کو شک ہے؟"

وہ خفا ہو گیا۔

"نہیں مجھے تم پر ہی تو بھروسہ ہے۔چلو اب یا باتیں ہی کرتے رہو گے؟"

دل بیٹی سے ملنے کو بےتاب تھا۔


"جی جی آئیں۔"

وہ بولتا ہوا باہر نکل آیا۔

"رابن پانی لے کر آؤ... "

حسنین لاؤنج میں قدم رکھتا ہوا بولا۔

"آپ بیٹھیں میں عدن کو دیکھ کر آیا؟"

حسنین کے چہرے پر خوشی کی لہر تھی۔


جو سائرہ سے چھپی نہیں تھی۔

اس کا فون پھر سے رنگ کرنے لگا۔

"ہاں بولو... "

وہ فون کان سے لگاےُ چلنے لگا۔

"تم کہاں ہو؟ میں کب سے تمہیں فون کر رہی ہوں.. "

وہ بےچینی سے ٹہلتی ہوئی بولی۔


"ہاں میں بس... "

بات ادھوری چھوڑ کر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔

عدن گردن گھما کر دروازے کی سمت دیکھنے لگی۔

"تم گھر پر تھے؟"

وہ متحیر رہ گئی۔


"بلکل بھی نہیں ابھی آیا ہوں.. "

وہ اس کی جانب چلتا ہوا بولا۔

"تمہیں پتہ ہے آج شاہد آیا تھا.. مجھے دھمکی دے رہا تھا۔میں ڈر گئی کہ... "

وہ اسے دیکھ کر کمزور پڑ گئی۔

حسنین کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

آنکھوں سے غصہ چھلکنے لگا۔


"کیسی دھمکی؟"

وہ اسے شانوں سے تھامتا ہوا بولا۔

"کہہ رہا تھا مجھے تمہاری زندگی سے پیار نہیں.. تمہیں مارنے کی بات کر رہا تھا۔"

وہ سر جھکاےُ بول رہی تھی تاکہ وہ اس کے آنسو نہ دیکھ سکے۔


"میرے سامنے رویا مت کرو.. مجھے غصہ آتا ہے۔ اور بھول جاؤ جو بکواس اس نے کی میں دیکھ لوں گا... ابھی تمہیں کسی سے ملوانا ہے مجھے.. "

وہ اس پریشانی کو بلاےُ طاق رکھتا ہوا بولا۔

"کس سے؟"

وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

حسنین ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔


"ابھی آتا ہوں.. "

وہ مسکرا کر کہتا باہر نکل گیا۔

وہ رخسار پر ہاتھ رکھتی اس کے لمس کو محسوس کرنے لگی۔

"بہت ہی بدتمیز ہو تم..."

وہ خفگی سے بولی۔


"یہ کون ہیں؟"

وہ سائرہ کے دیکھتی ہوئی بولی۔

کافی حد تک وہ پہچان چکی تھی لیکن وہ چاہتی تھی کہ حسنین اس کی نفی کر دے۔

"عدن تم نے پہچانا نہیں؟"

حسنین کی بجاےُ سائرہ آگے بڑھتی ہوئی بولی۔

وہ آنکھوں میں نمی لئے عدن کو دیکھ رہی تھیں۔


"کیوں آئی ہیں آپ؟"

وہ برہمی سے بولی۔

"کیا میں ایک بار تم سے مل بھی نہیں سکتی؟"

وہ آرزدگی سے بولیں۔

حسنین پیشانی پر بل ڈالے عدن کو دیکھ رہا تھا۔


"تم کیوں لے کر آےُ ہو انہیں؟ بتاؤ؟ میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ پھر؟"

وہ ہذیانی انداز میں اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔

"عدن پاگل ہو گئی ہو کیا؟"

حسنین اس کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔


"کیوں کھڑی ہیں آپ یہاں؟ چلی جائیں مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے... "

وہ حلق کے بل چلائی۔

سائرہ آنکھوں میں نمی لئے باہر نکل گئی۔

حسنین کی آنکھوں میں شعلے اٹھ رہے تھے۔


جھٹکے سے اس کے ہاتھ چھوڑتا وہ باہر نکل گیا۔

وہ اشک بہاتی دروازے کو گھورنے لگی۔

"خالہ رکیں! میری بات سنیں؟"

وہ تیزی سے زینے اترتی جا رہی تھی۔

حسنین بھاگ نہیں سکتا تھا اس لئے آوازیں دیتا ان کے عقب میں چل رہا تھا۔


"حسنین میری بات سنو.. تم نے کوشش کی میرے لئے بہت ہے اتنا ہی۔ اسے تکلیف مت دو بس تم اسے خوش رکھو۔"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔

"لیکن خالہ؟"

وہ احتجاجاً بولا۔


"بس.. میں نے کہہ دیا تو بات ختم جاؤ عدن کے پاس میں ٹیکسی پر چلی جاؤں گی۔"

وہ چادر سے منہ چھپاتی ہوئی بولی۔

"رکیں میں ٹیکسی بلاتا ہوں... "

وہ ان کی ضد سے واقف تھا اس لئے مزید بحث نہ کی۔


"تم کیوں لے کر آےُ تھے مام کو؟"

حسنین کے آتے ہی وہ شروع ہو گئی۔

"کیونکہ تم غلطی پر ہوں.. میری بات یاد رکھنا عدن بعد میں صرف پچھتاوے ہاتھ آتے ہیں۔ ساری زندگی تم نے انہیں سزا دی ہے."

وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔


ضبط سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

چند لمحے وہ اسے دیکھنے لگی۔

وہ بھورے رنگ کی شرٹ کے ساتھ سفید رنگ کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔ بال ہمیشہ کی مانند نفاست سے سیٹ کر رکھے تھے۔

صاف رنگت پر بھورے رنگ کی بڑھی ہوئی شیو غضب ڈھا رہی تھی۔

سنہری آنکھیں غم و غصے کی کیفیت میں تھیں۔


"تم کچھ نہیں جانتے.. ان کے باعث مجھے ساری زندگی طعنے ملے۔ میرا بچپن انہوں نے تباہ کیا,, پیسوں کی لالچ میں وہ مجھے,ثمن کو, ڈیڈ کو سب کو چھوڑ کر چلی گئیں.. ایسی عورت کو...."

حسنین نے ایک زوردار تمانچہ اس کے دائیں رخسار پر مارا۔


وہ منہ پر ہاتھ رکھے دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔

"پہلی بات وہ تمہیں چھوڑ کر نہیں گئیں, دوسری بات وہ لالچی نہیں ہیں۔ تیسری اور آخری بات تمہاری زندگی انہوں نے برباد نہیں کی۔ اپنے باپ سے جا کر پوچھو کیا کیا تھا اس نے ماضی میں... "

وہ دھاڑا۔


وہ ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔

اشکوں کی رفتار بڑھ گئی۔

"یہ سب مجھے ڈیڈ نے بتایا ہے وہ پیسوں کے لئے کسی اور کے ساتھ بھاگ گئیں تھیں۔"

وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔


"اپنا منہ بند کر لو.. اس سے زیادہ بکواس میں نہیں سن سکتا۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنی ماں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہوۓ ؟"

وہ اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔

"جو سچ ہے وہی بتا رہی ہوں۔"

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔


"کس انسان کا بھروسہ کر رہی ہو تم؟ جو تمہاری بیماری میں تمہارے پاس نہیں آیا؟ تم ابھی تک صحتیاب نہیں ہوئی اور وہ باہر گھومنے نکلا ہوا ہے۔ جس انسان کو تمہاری ذرہ برابر پرواہ نہیں تم اس پر اعتبار کر رہی ہو؟"

وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا۔


"ڈیڈ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں.. "

اس نے کمزور سی دلیل دی۔

"جتنی محبت وہ تم سے کرتا ہے تم بھی جانتی ہوں.. مجھے جھوٹے دلاسے مت دو۔"

وہ کرخت لہجے میں بولا۔

"اچھا کیا حقیقت ہے تم بتا دو؟ اور تم کیسے لے کر آےُ ان کو؟"

وہ اپنی بازو آزاد کروانے کی سعی کرتی ہوئی بولی۔


"کسی سے پوچھ لینا تم سائرہ خان انڈسٹری میں شادی سے پہلے تھے یا بعد میں آئی۔"

وہ چبا چبا کر بولا۔

"تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟"

وہ جھٹکے سے اپنی بازو آزاد کرواتی ہوئی بولی۔


"مجھ پر اعتبار ہے یا نہیں؟"

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔

"تم پر اندھا اعتبار ہے؟"

وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔

"پھر ڈوب مرنے کا مقام ہے تمہارے لیے۔"

وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"تم ایسا کیوں بول رہے ہو؟"

اسے برا لگا۔

"بیٹھو بتاتا ہوں.."

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا بیڈ کے پاس آگیا۔


"پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ مام کیوں چلی گئیں؟"

حسنین نے اسے ماضی کے متعلق سن بتا دیا۔

وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی۔

"تب ثمن بہت چھوٹی تھی جب ایک رات وہ تم دونوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔"


"سائرہ میری بات سنو! مجھے تمہاری مدد درکار ہے۔"

علی کمرے میں آتا ہوا بولا۔

"کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟"

وہ پریشانی سے کہتی کھڑی ہو گئی۔


"میں نے پیسے ادھار لئے تھے لیکن وہ سارے بزنس میں ضائع ہو گئے.. اب رانا مجھ سے پیسے مانگ رہا ہے۔"

وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔

"تو میں کیا کروں؟ جتنے پیسے لاتی ہوں سب تمہیں تو دیتی ہوں میں.. "

وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔


"اس نے ایک ہی شرط رکھی ہے.. "

وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔

"کیا؟"

وہ خطرہ بھانپ گئی۔

"تم بس آج کے لئے چلی جاؤ.. وہ سارے پیسے معاف کر دے گا۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔


وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"علی تم میں کچھ غیرت باقی بھی ہے یا سب بیچ کر کھا گئے ہو؟"

وہ حلق کے بل چلائی۔


"اس مشکل سے صرف تم ہی بچا سکتی ہوں مجھے اور یاد رکھنا اگر تم نے انکار کیا میں تمہیں اس گھر سے نکال دوں گا۔"

اب کہ اس نے پینترا بدلا۔


"ٹھیک یے مجھے نکال دو اس گھر سے لیکن مجھ سے ایسی بے غیرتی کی توقع ہرگز مت رکھنا.. جا رہی ہوں میں اپنے بچوں کو لے کر۔اگر حرام کام کر کے ہی کھانا ہے تو تمہارے ساتھ کی ضرورت نہیں.. "

وہ بولتی ہوئی مڑ گئی۔

"اتنی جلدی کیا ہے.. بچوں کا تم سوچنا بھی مت جانا ہے تو ایسے ہی جاؤ۔"


وہ جانتا تھا سائرہ بچوں کے بغیر نہیں جاےُ گی اور ناچار اسے ہتھیار ڈالنے پڑے گیں۔

وہ لمحہ بھر کو رک کر اسے دیکھنے لگی۔

"میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تم ہو علی... لعنت ہو تم پر۔"

وہ کہتی ہوئی تیری سے باہر نکل گئی۔


"ٹھیک ہے میں جانتا ہوں دو دن بعد تم یہیں واپس آؤ گی.. آخر ٹھکانہ تو کوئی ہے نہیں تمہارے پاس.. انڈسٹری میں سارے بھیڑیے بیٹھے ہیں کس کے پاس جاؤ گی تم آنا تو یہیں ہے تمہیں.. "

وہ بےحسی سے بولا۔


عدن بےیقینی سے اسے دیکھتی نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

"ڈیڈ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟"

وہ صدمے کی سی کیفیت میں تھی۔

"تمہیں انڈسٹری میں کس نے بھیجا تھا؟"

وہ جانتا تھا لیکن اسے سمجھانے کو استفسار کیا۔


"ڈیڈ نے... "

اس نے مدھم سی سرگوشی کی۔

"اب فیصلہ کر لو تم۔"

وہ بولتا ہوا الٹے قدم اٹھانے لگا۔


"تم کہاں جا رہے ہو؟"

وہ بےچینی سے کہتی کھڑی ہو گئی۔

وہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"جو تم نے خراب کیا ہے اسے صحیح کرنے۔"

وہ تاسف سے بولا۔


وہ شش و پنج میں مبتلا اسے دیکھنے لگی۔

"پلیز میری مدد کرو.. مجھے اکیلا مت چھوڑو۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

"تم نے بہت دکھ دیا ہے مجھے... "

وہ کرب سے بولا۔


"لیکن تم کیوں؟"

وہ ناسمجھی کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی۔

وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا پیچھے ہونے لگا۔

"میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی ایک بار ان سے بات کرنا چاہتی ہوں پھر ہی فیصلہ کر پاؤں گی۔"

وہ سوچتی ہوئی بولی۔


"ایک بار ان کا دل دکھا کر سکون نہیں ملا تمہیں؟"

پیچ و تاب کھا کر بولا۔

"نہیں... میں خاموش رہوں گی۔"

وہ سرعت سے بولی۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا چلنے لگا۔


یہ گھر ایک کمرے پر مشتمل تھا۔

عدن سر اٹھا کر دیکھنے لگی۔

ہلکی ہلکی مصنوعی روشنی جل رہی تھی۔

وہ حسنین کی راہنمائی میں قدم اٹھانے لگی۔


دروازہ کھلنے کی آواز سے کمرے میں گونجتی سسکیاں دم توڑ گئیں۔

سائرہ سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔

آنکھیں شمع کی مانند جل رہی تھیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

وہ غم و الم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔


عدن لب کاٹتی اس کی جانب بڑھنے لگی۔

سائرہ زمین پر پاؤں سمیٹے بیٹھی تھی۔

عدن کو اس کی حالت پر ترس آ رہا تھا۔

آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

"آئم سوری... "

وہ گھٹنے زمین پر رکھے ان کے سامنے بیٹھ گئی۔


"کس لیے؟"

مدھم سی سرگوشی گونجی۔

عدن کو اپنا آپ مجرم معلوم ہو رہا تھا۔

"آ... آپ کو وہ سب۔"


وہ ہچکچاتی ہوئی بولی۔

"کیا میں تمہیں..."

وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~

"منال بل تم دے دو آج... "

وہ معصومیت سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

اس کا منہ میں جاتا ہاتھ رک گیا۔

نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔


"تم غریب ہو کیا؟ نہیں تم تو انتہائی کنجوس ہو... تمہارے پاس تو اتنے سارے پیسے ہیں پھر بھی جان نکلتی ہے تمہاری۔"

وہ جل کر بولی۔


"جان تو تمہاری بھی جا رہی ہے دیکھو.. "

وہ محظوظ ہوتا ہوا بولا۔

"ڈنر پر تم لے کر آےُ ہو میں نہیں... مینرز نہیں پتہ تمہیں؟"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔


"اسی لئے تو لایا تھا تاکہ تم بل دے سکو۔"

وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"انیب تم انتہائی... پتہ ہے میرے پاس الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تم ایسے انسان ہو۔"

وہ تپ کر بولی۔


"لڑکیاں مرتی ہیں میری پرسنالٹی پر اور تم ہو کہ... "

وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔

"بلکل آندھی, عقل سے پیدل ہوں گیں وہ لڑکیاں یا دماغی توازن خراب ہو چکا ہو گا ان کا۔"

وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی بولی۔


"ناشکری کہتے ہیں اسے.."

وہ منہ بسورتا ہوا بولا۔

"بل تم ہی دو گے آئی سمجھ... "

وہ کاٹ دار لہجہ میں بولی۔

"جی نہیں.. بل تو تم ہی دو گی بس فائنل ہوا...مزید بحث نہیں۔"

وہ قطعیت سے بولا۔


"تم انتہائی فضول انسان ہو... بے تکی باتیں کروا لو... اگر تم آج مجھے لے ہی آےُ ہو باہر تو بل دینے پر موت کیوں پڑ رہی ہے.. پہلے بھی کہا تھا تب تو لے کر ہی نہیں آےُ تھے۔"

وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔


"دیکھو آج کل میرے حالات بہت خراب ہیں.. "

وہ رازداری سے بولا۔

"چندہ مانگ کر گھر چلا رہے ہو نہ.. ہنی مون کے لئے بھی لوگوں سے مدد لی ہو گی ہیں نہ... "

وہ چبا چبا کر کہتی کھڑی ہو گئی۔


"تم کچھ زیادہ ہی بولتی ہو... "

وہ مٹھیاں بھینچ کر بولا۔

"اور تم کچھ فضول بولتے ہو... "

وہ ترکی بہ ترکی بولی۔


"تم اپنی حد پار کر رہی ہو... "

وہ برہم ہوا۔

"اور تم اپنی حد پار کر چکے ہو... "

وہ پرسکون تھی۔


"دوبارہ تمہارے ساتھ کہیں جانا ہی نہیں ہے میں نے۔"

وہ تلملا کر کہتا کھڑا ہو گیا۔

"ہاں میں تو جیسے تمہارے پاؤں پڑی تھی نہ کہ مجھے باہر لے جاؤ... "

اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔


"زہر لگ رہی ہو اس وقت تم... "

وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

آس پاس کے ٹیبل والے ان دونوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔

"تم تو جیسے مجھے شہزادے لگ رہے ہو نہ..."

وہ جل کر بولی۔


"تم نہ... "

وہ انگلی اٹھا کر کہتا خاموش ہو گیا۔

"مذاق کر رہا تھا میں اور تم محلے والی عورتوں کی طرح لڑنا شروع ہو گئی۔"

وہ منہ بناتا ہوا بیٹھ گیا۔

"تم کبھی سنجیدہ مت ہونا... "

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"سنجیدہ ہونے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے۔ جلدی کرو گھر جا کر تم میرے لئے کھانا بناؤ گی۔"

وہ والٹ نکالتا ہوا بولا۔


"کیوں؟"

اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

"تمہاری وجہ سے کم کھایا ہے میں نے.. اب تمہاری سزا ہے بل نہ دینے کی۔"

وہ خفا تھا۔

"انسان کے روپ میں پتہ نہیں کیا ہو.."

وہ ہنکار بھرتی ہوئی بولی۔


"کیا ہوں؟"

وہ آگے جھکتا ہوا بولا۔

"ابھی تک مجھے بھی معلوم نہیں ہوا جیسے علم ہوا تمہیں بھی مطلع کر دوں گی۔"

وہ خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی بولی۔

"ویری گڈ... "

وہ مسکرا کر کہتا ویٹر کو اشارہ کرنے لگا۔

~~~~~~~~

حارب بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر نکل رہا تھا جب وہ سامنے سے آتی ملیحہ سے ٹکرا گیا۔

جونہی نظر ملیحہ سے ملی چہرے پر ناگواری در آئی۔

وہ بنا کچھ کہے آگے چل دیا۔


"حارب پلیز مجھ سے شادی کر لو... "

وہ اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"شادی اور تم سے؟"

اس نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔

وہ بلیک جینز کے ساتھ سلیو لیس شرٹ پہنے ہوۓ تھی۔ سیاہ بال کھول کر شانوں پر ڈال رکھے تھے۔


"پلیز ایسا مت کرو... میں کہاں جاؤں مجھے بتاؤ۔ کتنے سالوں سے ہم ساتھ ہیں اور تم مجھے چھوڑ رہے ہو..."

وہ گڑگڑا رہی تھی۔

"آئی ڈونٹ کئیر... جہاں مرضی جاؤ۔ کتنے آدمی تھے وہ؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔


"دو... "

وہ سر جھکا کر بولی۔

"کسی بیوقوف سے شادی کر لو جو تم جیسی لڑکی کو قبول کر لے... مجھ سے ایسی حماقت کی توقع ہر گز مت رکھو؟"

وہ اسے پرے کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

وہ دیوار سے ٹیک لگاتی سرد آہ بھرنے لگی۔


جونہی حارب گاڑی میں بیٹھا فون رنگ کرنے لگا۔

اس نے بنا دیکھے ریسیو کر لیا۔

"سنو! یہ شاہد کا کچھ کرنا پڑے گا۔"

حسنین کی آواز اسپیکر پر ابھری۔

"کیوں؟ کیا ہوا؟"

اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"عدن کو آج دھمکی دے کر گیا ہے۔ اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ وہ گھر آیا ہے.. "

وہ برہم ہوا۔

"میں ڈائریکٹر سے ملنے آیا ہوا تھا اور اب ہر لمحہ تو میں نظر نہیں رکھ سکتا نہ... "

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"اچھا اب اس شاہد کا کچھ کرو... عدن کو دھمکی دے کر گیا کہ مجھے مار دے گا۔"

"ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں اسے پھر بتاؤں گا تمہیں۔ اور ہاں میں ڈرامہ شوٹ کرنے والا ہوں تو اب عدن پر نظر رکھنا مشکل ہو گا... یہ کام تم خود کرو اب۔"


وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔

"اوکے... "

حسنین نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

~~~~~~~~

عدن نے بازو پھیلا کر انہیں سینے سے لگا لیا۔

ضبط کے باوجود سائرہ آنسوؤں کو روک نہ پائی۔

اسی دن کو وہ ترستی تھی۔

"میری جان.. عدن! "

وہ اس کی پیشانی چومتی ہوئی بولی۔


عدن کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں, وجہ جاننے سے وہ خود بھی قاصر تھی۔

"آپ نے کیوں مجھے چھوڑ دیا مام.. جانتی ہے سکول میں سب مجھے تنگ کرتے تھے کہ میری ماما نہیں آتیں,, میرا مذاق بناتے تھے۔"

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔


"میں سب جانتی ہوں... "

وہ اثبات میں سر ہلاتی اس کا چہرہ صاف کرنے لگی۔

"پھر کیوں گئیں آپ... "

وہ اپنے سوالوں کے جواب سائرہ کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔


"اگر میں نہ جاتی تو کبھی ﷲ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی... مجھے اپنی عصمت کے لئے وہاں سے نکلنا پڑا۔جانتی ہو تم تو میری جان ہو."

وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔

عدن خاموش انہیں سن رہی تھی۔


"علی نے پہلے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن اس رات تو حد کر دی تھی میں کیا کرتی بتاؤ؟ دنیا کی کوئی عدالت مجھے میرے بچے نہ دیتی کیونکہ وہ خود وکیل تھا اور جتنے اس کے تعلقات لوگوں سے تھے میں جانتی تھی سواےُ رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آنا میرے۔"

وہ دھیرے دھیرے دل کے زخم کرید رہی تھی۔


"آپ کسی سے مدد مانگ لیتی یا کچھ بھی.."

وہ جھنجھلا کر بولی۔

"بیٹا میں نے خود اپنے اوپر ہر دروازہ بند کیا تھا جس جہنم میں علی نے مجھے پھینکا تھا اس کے بعد ہر سمت میں صرف اندھیرا تھا اور کچھ بھی نہیں... میں نے اپنا معاملہ ﷲ پر چھوڑ دیا۔ صبر کرتی رہی لیکن ایک افسوس ہے مجھے... "

وہ سر جھکا کر بول رہی تھی۔


"کیا؟"

عدن کے لب آہستہ سے حرکت کیے۔

"میں ثمن سے نہیں مل سکی.. آخری بار مل نہیں سکی اپنی بچی سے؟"

آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔

ثمن کے نام پر عدن کا غم بھی تازہ ہو گیا۔


"کیا تمہیں ان کے آنسو, ان کا کرب جھوٹا لگتا ہے؟"

حسنین اندر آتا ہوا بولا۔

عدن گردن گھما کر شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"تم مجھے ایسا سمجھتے ہو؟مجھے جو بتایا گیا تھا میں نے اسی پر یقین کیا ساری دنیا یہی بولتی تھی۔"

اسے برا لگا تھا۔


"حسنین..."

سائرہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"واٹ ایور... "

وہ خشمگیں نگاہوں سے عدن کو دیکھ رہا تھا۔


"مام یہ ہمیشہ مجھ پر غصہ کرتا ہے... "

اسے موقع مل گیا حسنین کی شکایت لگانے کا۔

"بہت بری بات ہے تم میری بیٹی کو تنگ کرتے ہو؟"

سائرہ اسے اپنے ساتھ لگاتی ہوئی بولی۔


"واہ جی.. بیٹی آ گئی تو میری کوئی ویلیو ہی نہیں؟"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"اب میں تمہاری ہر شکایت لگایا کروں گی۔"

وہ گھورتی ہوئی بولی۔

"لگا لینا۔"

وہ تپ کر بولا۔


"مام آپ اب ہمارے ساتھ چلیں.. یہاں نہیں رہیں گیں آپ۔"

وہ انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

"نہیں.. تم جاؤ میں یہاں پرسکون ہوں۔ علی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں۔"

وہ حقارت سے بولی۔


"چلو عدن لیٹ ہو رہا ہے... "

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔

وہ جانتا تھا سائرہ کسی شرط پر یہ جگہ نہیں چھوڑے گی۔

"آپ بھی... "

"تم جاؤ.. "

وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔


وہ شش و پنج میں مبتلا کبھی حسنین کو دیکھتی تو کبھی سائرہ کو۔

"اب میں غصے سے بولوں گا پھر چلو گی تم؟"

اس کی آواز بلند ہو گئی۔

"اتنا غصہ مت کیا کرو تم... "

سائرہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔


عدن خفا خفا نظروں سے دیکھتی چلنے لگی۔

سارا راستہ خاموشی کی نذر ہوا۔

عدن تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے میں چلی گئی۔

"لگتا ہے میڈم ناراض ہو گئی۔"

وہ بولتا ہوا چلنے لگا۔


"چینج کر لو ہاسپٹل جا رہے ہیں ہم... "

وہ کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔

"مجھے نہیں جانا... اور زبردستی لے جانے کی کوشش بھی مت کرنا۔"

وہ انگلی اٹھا کر وارن کرنے لگی۔


"اور کیوں نہیں جانا تم نے؟"

وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔

"میں خود چلی جاؤں گی.. تم میرے لئے اتنی رات کو کیوں خوار ہو گے؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


"اپنا فرض پورا کر رہا ہوں بس... "

وہ بے نیازی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔

"آخر تم مان کیوں نہیں لیتے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے؟"

وہ دائیں ہاتھ سے اس کا کالر پکڑتی ہوئی بولی۔


حسنین نے نگاہیں جھکا کر اس کے ہاتھ کو دیکھا۔

"تم کچھ زیادہ ہی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں۔"

وہی سرد لہجہ۔

"اچھا پھر میرے لئے اتنا سب کیوں کیا؟ مجھے کیوں انڈسٹری سے نکالا؟ کیوں اپنی کڈنی دی مجھے؟"

وہ برہمی سے بولی۔


"میں نے جو بھی کیا تمہاری ماما کے کہنے پر کیا... ورنہ میری بلا سے بھاڑ میں جاتی تم۔"

وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔

"بہت اچھا... ویسے یہ بھاڑ ہے کہاں؟"

وہ سینے پر بازو باندھتی ہوئی بولی۔


"مجھے کیا پتہ؟"

وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔

"تمہیں وہاں پھینک کر آنا ہے مجھے..."

وہ خفگی سے کہتی مڑ گئی۔


حسنین لب دباےُ مسکرانے لگا۔

"ویسے تم کیوں چاہتی ہو کہ میں اعتراف محبت کروں؟"

وہ اس کے عین عقب میں آ کھڑا ہوا۔

"کیونکہ تم ہمیشہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہو....مجھ سے باتیں چھپاتے ہو۔"

آواز بھیگی ہوئی تھی۔


"مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے ایسے تعلقات کا... "

وہ اس کے شانے پر تھوڑی رکھتا ہوا بولا۔

وہ متحیر رہ گئی۔

"تو اس میں میرا قصور ہے؟ اور کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میں روز شادی کرتی ہوں۔"

وہ چاہ کر بھی ناراض نہ رہ سکی۔


"نہیں لیکن تم مجھے سیکھا سکتی ہوں۔"

وہ نرم پڑا۔

"تم سیکھو گے مجھ سے؟ تم بچے نہیں ہو..."

اس کو اب غصہ آنے لگا۔


"اس معاملے میں بچہ ہی سمجھ لو... میں تو ایسا ہی ہوں اب تم سوچ لو۔"

وہ مدھم آواز میں سرگوشی کر رہا تھا۔

وہ مسکراتی ہوئی اس کی جانب گھومی۔

"تم بہت ڈرامے باز ہو... منہ سے نہیں بولتے لیکن تمہارے فعل سب بتا دیتے ہیں۔"

وہ اس کے سینے پر پنچ مارتی ہوئی بولی۔


"تو پھر تم کیوں چاہتی ہو کہ میں منہ سے اعتراف کروں؟ میرے خیال میں اتنا ہی بہت ہے۔"

وہ اس کی بکھرے بال سمیٹتا ہوا بولا۔

"میرے پاس ہی رہو گے اب تم.. خبردار اگر تم مجھے چھوڑ کر گئے۔"

وہ اس کی شرٹ پکڑ کر اپنی جانب کھینچتی ہوئی بولی۔


"ٹائم دیکھو.. صبح ہمیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے۔"

وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

"تم تھک گئے ہو؟"

وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔


"ہاں.. "

وہ آہستہ سے بولا۔

"ٹھیک ہے... "

وہ مسکرا کر کہتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔

~~~~~~~~

"امی آج بھائی آئیں گے نہ؟"

نمرہ گزشتہ دس منٹ سے یہی سوال پوچھ رہی تھی۔

"کہہ تو رہا تھا آؤں گا عدن کو لے کر دیکھو اب... ہاسپٹل بھی جانا تھا اس نے آج۔"

وہ متفکر سی بولیں۔


"ہاےُ مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا عدن خان میری کزن ہے... وہ بھی فسٹ کزن۔"

وہ چارپائی پر گرتی ہوئی بولی۔

وہ آہستہ سے مسکرانے لگیں۔

"دیکھنا میں یونی میں سب کو بتاؤ گی... بھابھی کے ساتھ تصویریں لوں گی پھر سب کو جیلیس کرواؤں گی۔"

وہ مزے لیتی ہوئی بولی۔


"کوئی حال نہیں تمہارا... "

وہ اس کی بےتکی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔

"میری بھابھی کتنی پیاری ہیں نہ؟ امی مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔ میرے سر میں کچھ ماریں تاکہ مجھے یقین آےُ۔"

وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی۔


"چل اٹھ کر برتن دھو... دیکھنا کیسے یقین آتا۔"

وہ اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولیں۔

"کیا ہے امی سارا مزہ خراب کر دیا آپ نے.. "

وہ منہ بسورتی کمرے میں چلی گئی۔

~~~~~~~~

"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ میں اچھی نہیں لگ رہی؟"

وہ خود کو دیکھتی ہوئی بولی۔

عدن اس وقت لیمن کلر کی قمیض کے ساتھ وائٹ کلر کا ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھی۔ چہرہ میک اپ سے عاری اور بال حجاب سے ڈھانپ رکھے تھے۔


وہ اس تبدیلی پر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔

"نہیں ایسی بات نہیں ہے تم اچھی لگ رہی ہو۔"

وہ ہچکچا کر بولا۔

تعریف کرنا اس کے لئے کٹھن تھا۔


"اور ہاں اب میرا ڈاکٹر چینج کروا دو... میں میل ڈاکٹر کو چیک نہیں کرواؤں گی۔ جب فی میل سے ٹریٹمینٹ کروا سکتے پھر میل سے کیوں کروائیں؟"

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہممم ٹھیک کہہ رہی ہو...ٹینشن مت لو۔"

وہ باہر کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا۔


"سنا ہے ڈاکٹر کیا کہہ رہی تھی؟"

حسنین خفگی سے دیکھ رہا تھا۔

"کیا؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔


"تمہارے دو ٹانکے خراب ہو گئے ہیں...نجانے کون سی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی رہتی ہو تم۔"

وہ خفا تھا۔

"میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا۔"

وہ آہستہ سے منمنائی۔

"امی کے سامنے زیادہ مت بولنا۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔


حسنین ترچھی نگاہوں عدن کو دیکھ رہا تھا جو عائلہ اور نمرہ کے بیچ میں بیٹھی تھی۔

فون وائبریٹ ہوا تو اس کی توجہ فون کی جانب مبذول ہوئی۔

"ہاں بولو.. "

وہ فون کان سے لگاتا کمرے سے باہر نکل آیا۔


"میں تمہیں ایک ویڈیو بھیج رہا ہوں... وہ شاہد کے منہ پر مار دینا اس کے بعد وہ خاموش رہے گا۔ کسی لڑکی کا ریپ کیا ہے اس نے... اپنے کیرئیر کی خاطر رہ خاموش رہے گا۔"

اسپیکر پر حارب کی آواز گونج رہی تھی۔

"ٹھیک ہے بھیج دو میں دیکھ لیتا ہوں.. "

وہ کمرے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔


"امی ہم چلتے ہیں پھر... "

وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

عدن نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا جو دروازے کے وسط میں کھڑا تھا۔


"ابھی تو آےُ ہو تم دونوں آرام سے بیٹھو کھانا کھا کر جانا۔"

وہ خفگی سے دیکھ رہی تھیں۔

"کام ہے جانا پڑے گا... ویسے بھی عدن کے لئے ابھی ڈاکٹر نے الگ سے کھانا بتایا ہے آپ کو زحمت ہو گی.. "

وہ عدن کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔


"ہم پھر آ جائیں گیں۔"

عدن مداخلت کرتی ہوئی بولی۔

"لیکن پھر بھی... "

وہ کبھی عدن کو دیکھتی تو کبھی حسنین کو۔


"امی بات کو سمجھیں جانا ضروری ہے, کہہ رہا ہوں نہ آ جاؤں گا۔"

وہ ان کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

عدن مسکراتی ہوئی اس کے ہمراہ باہر نکل آئی۔


"کون سا ضروری کام ہے؟"

وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔

"بس ہے ایک کام... "

مختصر سا جواب آیا۔


"ہاں میری کوئی اہمیت نہیں پھر کیوں بتاؤ گے... "

وہ طنزیہ انداز میں بولی۔

"شاہد کا منہ بند کروانا ہے۔ تمہیں گھر چھوڑ کر وہیں جانا ہے۔"

وہ یو ٹرن لیتا ہوا بولا۔


"تم مت جاؤ اس کے پاس... "

وہ گھبرا گئی۔

"تم پاگل ہو کیا؟"

اسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔


"نہیں لیکن... اچھا یہ بتاؤ تم نے پیسے کہاں سے لیے؟"

یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"پرانے باس سے... اگلے مہینے سے واپس جاب پر جاؤں گا ان کے پاس۔"


چہرے کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔

"اوہ اچھا... "

وہ کہہ کر شیشے سے پار دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~

"مجھے یہ نہیں کھانا.. "

انیب منہ بسورتا ہوا بولا۔

وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


"تم نے ہی فرمائش کی تھی۔"

اسے لگا وہ بھول گیا ہے۔

"پہلے دل کر رہا تھا لیکن اب نہیں... "

وہ طمانیت سے بولا۔


"میں کیا پاگل ہوں؟"

اسے غصہ آ گیا۔

"اور کیا ہو؟"

وہ لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔


"تم جان بوجھ کر مجھ سے لڑائی کرتے ہو.."

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"تو تم نہ لڑا کرو میرے ساتھ... بندہ کبھی پیار سے بھی بات کر لیتا ہے۔"

وہ خفگی سے بولا۔


"تم تو جیسے پھول برساتے ہو نہ... "

وہ جل کر بولی۔

"تمہاری طرح کانٹے تو نہیں برساتا۔"

وہ گھورتا ہوا بولا۔


"آنٹی ہوتی تو میں بتاتی ان کو تم بلا وجہ مجھے تنگ کرتے ہو... "

وہ رونے والی شکل بناےُ بولی۔

"آنٹی کی چمچی... میں مذاق کرتا ہوں تم کیوں سنجیدہ ہو جاتی ہو۔"

وہ اس کی ناک دباتا ہوا بولا۔


وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔

"سدھر جاؤ تم... "

وہ فریج سے پانی نکالتی ہوئی بولی۔


"اب تو تم ٹھیک ہو پھر ٹکٹس کانفرم کروا لوں؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔

وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"اگر وہاں بھی تم مجھ سے ایسے ہی الٹی سیدھی باتیں کرو گے تو میں نہیں جانا... "

وہ نظریں جھکاےُ ہوۓ تھی۔


"اگر ابھی میں تم سے کہوں کہ ہمارے پیارے پیارے سے بھولے بھالے چنوں,منوں ہوں گے تو بھی تم نے شروع ہو جانا۔"

وہ شرارت سے بولا۔

منال کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر گئے۔

وہ شرم سے لال ہو رہی تھی۔


"اچھا اب مجھے سالن بنانے دو... دیر ہو جاےُ گی ہٹو۔"

وہ اپنا ہاتھ آزاد کرواتی اسے پیچھے کرنے لگی۔

"مطلب اب کروا ہی لوں ٹکٹس مسز راضی ہو گئی ہیں۔"

وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔


"اب اگر ایک بار اور کہا نہ تو میری جانب سے انکار سمجھ لینا۔"

وہ اس کی ہچکچاہٹ کا مزہ لے رہا تھا۔

"اچھا اچھا... جا رہا ہوں۔"

وہ بولتا ہوا باہر نکل گیا۔


منال آہستہ سے مسکرانے لگی۔

"بلکل پاگل ہو تم... "

وہ دروازے کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

"ڈیڈ ان پیپرز پر سائن کر دیں..."

عدن ان کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

"میں جلدی میں ہوں... کس چیز کے پیپرز ہیں یہ؟"

وہ چاےُ کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ بولے۔


"گھر میں اپنے نام کر رہی ہوں آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کر دئیے ہیں.. مینیجر نے بتایا نہیں؟"

وہ تعجب سے بولی۔

"ہاں ہاں... رات مجھے فون آیا تھا۔ تو کیا تم یہاں اس کی فیملی کو رکھو گی ساتھ؟"

وہ چشمہ لگاتے ہوۓ بولے۔


"نہیں یہاں صرف حسنین رہے گا میرے ساتھ... "

وہ پین ان کی جانب بڑھاتا ہوئی بولی۔

"چلو جیسے تمہاری خوشی... میں تو تمہاری خوشی میں خوش ہوں۔"

وہ سائن کرتے ہوۓ بولے۔

"جتنا آپ کو میری خوشی کا خیال ہے جانتی ہوں میں ڈیڈ۔"

وہ انہیں دیکھتی سوچنے لگی۔


"تھینک یو۔"

وہ سرعت سے پیپرز اٹھاتی ہوئی بولی۔

"ویلکم... آج میں ہوٹل میں ہی رہوں گا... کیس پر کچھ کام کرنا ہے۔"

وہ کوٹ اٹھاتے ہوۓ بولے۔


"نو پرابلم... "

وہ اپنے کمرے کی جانب چلتی ہوئی بولی۔

"جی خالہ میں عدن سے بات کر لوں گا۔"

وہ کمرے میں آئی تو حسنین فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔

لفظ خالہ پر وہ ٹھٹھک گئی۔


"کیا کہا تم نے؟ خالہ؟"

وہ اس کے پاس آتی ہوئی بولی۔

"چلیں میں بعد میں بات کرتا ہوں.. "

وہ عدن کو گھورتا ہوا بولا۔


"تم نے مام کو خالہ کیوں بولا؟"

وہ الجھ کر بولی۔

"کیونکہ وہ میری خالہ ہیں۔"

وہ خفگی سے کہتا گھڑی اٹھانے لگا۔


"تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"تم نے پہلے کبھی پوچھا؟"

وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتا ہوا بولا۔


"یعنی اگر میں کچھ پوچھوں گی تو ہی تم بتاؤ گے؟"

وہ اس کے عقب میں آ کھڑی ہوئی۔

"ظاہر ہے... "

وہ شیشے میں اس کے عکس کو دیکھتا ہوا بولا۔


"تم بہت برے ہو... "

وہ اس کی پشت سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔

"برا ہوں لیکن پھر بھی اچھا لگتا ہوں.. عجیب لاجک ہے نہ؟"

وہ سٹڈ لگاتا ہوا بولا۔

"ہاں.. کیونکہ میں پاگل ہوں۔"

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"یہ پاگل پن میرے لئے ہی اچھا ہے بس۔"

وہ آہستہ سے بولا۔

"اوہ تمہیں بھی فرق پڑتا ہے؟"

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

"کیوں نہیں پڑنا چائیے؟"

وہ بالوں میں برش چلا رہا تھا۔


وہ مسکراتی ہوئی خاموش ہو گئی۔

"تم گھر پر ہی رہنا.. اوکے؟"

وہ رخ موڑتا ہوا بولا۔

"تم جلدی آجانا پھر... "

وہ اداسی سے بولی۔


"ٹھیک ہے۔"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتا باہر نکل گیا۔

وہ بیڈ پر نیم دراز ہوتی اسے سوچنے لگی۔

~~~~~~~~

"عدن جلدی کرو ہم لیٹ ہو جائیں گیں۔"

حسنین گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں.. بس دو منٹ۔"

وہ چہرے کے گرد حجاب اوڑھ رہی تھی۔


"مجھے تو شہری کچھ نہیں کہے گا لیکن تم سے ضرور ناراض ہو گا۔"

وہ چابیاں اٹھاتا ہوا بولا۔

"اب تم بلیک میل مت کرو... "

وہ سرعت سے ہاتھ چلانے لگی۔


وہ مسکراتا ہوا باہر نکل آیا۔

عزہ سٹیج پر بیٹھی تھی۔

سکن کلر کا عروسی لباس زیب تن کیے۔

میک اپ آرٹسٹ کی مہارت نے اس کو بلکل مختلف بنا دیا تھا۔


"کنگراچولیشنز شہری... "

عدن اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"ناراض ہوں میں تم سے۔"

وہ دوسری جانب رخ موڑتا ہوا بولا۔

حسنین لب دباےُ مسکرانے لگا۔


"اتنی لیٹ بھی نہیں آئی.. اچھا تم بھی لیٹ آ جانا جب میرے گھر کوئی فنکشن ہو۔"

وہ مظلومیت سے بولی۔

"تم میری بیسٹ فرینڈ ہو اور دیکھو کب آ رہی ہو؟"

وہ گھورتا ہوا بولا۔


"عدن تو ریڈی تھی گاڑی خراب ہو گئی اس لئے لیٹ ہو گئے۔"

حسنین نے سہولت سے بہانہ بنایا۔

وہ چہرہ موڑ کر حسنین کو دیکھنے لگی جو شہری کو دیکھ رہا تھا۔


"چلو کیا یاد کرو گی... حسنین کے کہنے پر چھوڑ رہا ہوں۔"

وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا۔

"میں عزہ سے مل لوں... "

وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

عدن کا یہ نیا روپ سب کے لئے حیران کن تھا۔ وہاں زیادہ تعداد انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تھی۔


"ہاےُ عدن... "

وہ سٹیج سے اتر رہی تھی جب نشاء اس کے سامنے آئی۔

سلیو لیس میکسی پہنے جو کمر اور پیٹ کو چھپانے میں ناکام ہو رہا تھا۔

اس کے برعکس عدن شارٹ قمیض کے ساتھ کیپری پہنے ہوۓ تھی۔


"کیسی ہو؟"

عدن اس سے گلے ملتی ہوئی بولی۔

"میں بلکل فٹ تم سناؤ... سنا تھا تمہارا ٹرانسپلانٹ ہوا ہے۔"

وہ تشویش سے بولی۔

"ہاں اب تو ٹھیک ہوں۔"

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔


"تمہارا ہزبینڈ کہاں ہے؟ بہت تعریف سنی ہے اس کی؟"

وہ دلچسپ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"آؤ ملواتی ہوں.. "

عدن حسنین کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔


وہ بلیو کلر کا پینٹ کوٹ پہنے ہوۓ تھا۔

ہمیشہ کی مانند وہ پرکشش معلوم ہو رہا تھا۔

وہ دلچسپی سے اسے دیکھتی آگے بڑھی۔

"حسنین یہ نشاء ہے... "

عدن اس کے پاس آتی ہوئی بولی جو شہری کے ساتھ محو گفتگو تھا۔


نشاء گلے ملنے کی غرض سے آگے بڑھی لیکن وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

"ہیلو!"

وہ مسکراتا ہوا بولا۔

"ہیلو!"

وہ جھنپ کر بولی۔


"میں آتی ہوں ابھی... "

وہ اپنی ہتک محسوس کرتی بہانہ بنا کر نکل گئی۔

~~~~~~~~~

ہر سمت آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔

لوگ چلاتے ہوۓ بھاگ رہے تھے۔

"فائر بریگیڈ کو بلاؤ جلدی..."

ہوٹل کا مینجر چلایا۔

"جی سر فون کیا ہے بس آنے والی ہو گی۔"

ویٹر اس کے پاس آتا ہوا بولا۔


ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آگ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

متاثرہ افراد کو ہاسپٹل پہنچایا جانے لگا۔

ان میں سے ایک علی خان بھی تھا۔

سٹریچر پر پڑا۔ درد اور تکلیف کی شدت سے کراہتا ہوا۔ اس کا پورا بدن جل چکا تھا۔


"ڈاکٹر آپ پہلے ان کا علاج کریں۔"

وہ علی کا دوست کولیگ تھا۔

"دیکھیں پہلے آپ ان کے کسی فیملی ممبر کو بلائیں۔ ہم ایسے علاج شروع نہیں کر سکتے ان کا کیس بہت پیچیدہ ہے۔"

وہ علی کو دیکھتے ہوۓ بولے۔


وہ عدن کا فون ملانے لگا لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔

نجانے کتنی بار اس نے نمبر ملایا ہر بار ناکامی ہوئی۔

"حیدر پلیز کچھ کر مجھے اس درد سے نجات دلا... ڈاکٹر کو کہہ علاج شروع کرے۔"

وہ اشک بہاتا ہوا بول رہا تھا۔


"یار میں کہہ رہا ہوں لیکن وہ ایسے ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہیں۔"

وہ بےچارگی سے بولا۔

"تو کیا میں ایسے ہی مر جاؤں گا۔ مجھے جلن ہو رہی ہے۔ پلیز کچھ کر.. دل چاہ رہا ہے خود کو کھروچ لوں۔"

وہ ہذیانی انداز میں بولتا جا رہا تھا۔

صرف منہ تھا جو آگ سے محفوظ رہ سکا۔


"تو کمرے سے باہر کیوں نہیں نکلا؟"

وہ ابھی تک حیران تھا۔

"میں سو رہا تھا مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب آگ لگی اور کب میرا جسم جھلس گیا۔

جب احساس ہوا تو آگ میری گردن تک آ پہنچی تھی تب میں باہر نکلا۔"

وہ کراہتا ہوا بولا۔


شاید یہ ﷲ کی جانب سے انتقام تھا۔

"پلیز ڈاکٹر کو بلا.. میں مر جاؤں گا کچھ کر۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔"

چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔

"میں دوبارہ فون کرتا ہوں عدن کو.. "

حیدر بولتا ہوا ایک طرف کو آ گیا۔

اس بار بھی ریسیو نہیں ہوا۔ شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔


"حسنین جانتے ہو میں نے ڈیڈ کے ساتھ کیا کیا؟"

وہ سیٹ بیلٹ باندھتی ہوئی بولی۔

"کیا؟"

وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔


"میں نے دھوکے سے ڈیڈ کے سارے اثاثے, ان کی جائیداد سب کچھ یتیم بچوں کو ڈونیٹ کر دیا ہے..وہ سمجھ رہے ہیں میں نے گھر کے پیپرز سائن کرواےُ ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔"

وہ پھیکا سا مسکرائی۔

"اچھا کیا تم نے؟"

وہ معدوم سا مسکرایا۔


"جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟"

وہ سامنے سڑک کو دیکھ رہی تھی۔

"کیوں؟"

وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔


"تاکہ انہیں احساس ہو سکے جب آپ کی پسندیدہ چیز آپ سے دور کر دی جاےُ تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ تاکہ وہ بھی اس تکلیف وہ محسوس کریں۔"

وہ کرب سے بولی۔

"تم وقت پر میڈیسن لے رہی ہو نہ؟"

اس نے اسے موضوع سے ہٹانا چاہا۔


"جی ہاں.. اور کھانا بھی ٹائم پر کھاتی ہوں۔"

وہ اس کی جانب رخ موڑتی ہوئی بولی۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"

وہ اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔


"سب تمہیں دیکھ سکتے ہیں تو میں نہیں دیکھ سکتی؟"

وہ برا مان گئی۔

"دیکھو پر ایسے نہیں.. "

وہ جھنجھلا کر بولا۔

"پھر کیسے؟"

وہ محظوظ ہوئی۔


"چلو گھر آ گیا۔"

وہ باہر نکلتا ہوا بولا۔

حسنین اپنا فون گاڑی میں چھوڑ گیا جو کہ رنگ کر رہا تھا۔

"فلیش بیک؟"

اس نے زیر لب دہرایا۔

جونہی اس نے نمبر پر غور کیا آنکھیں پھیل گئیں۔


حسنین جیب پر ہاتھ مارتا فون چیک کر رہا تھا۔

"فون کہاں گیا؟"

وہ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔

عدن اس کا فون پکڑے چلتی آ رہی تھی۔


"تم نے حارب کا نمبر کیوں سیو کیا ہے؟ وہ بھی فلیش بیک کے نام سے... ایک دن پہلے بھی اس کا فون آیا تھا رائٹ؟"

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"لاؤ اِدھر دو مجھے.. "

وہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا بولا۔


"پہلے میری بات کا جواب دو... "

وہ فون والا ہاتھ پیچھے لے گئی۔

"عدن ضد نہیں کرتے۔"

وہ بچوں کی مانند اسے بہلانے لگا۔


"ابھی بھی بہت کچھ چھپایا ہے تم نے...ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ میں؟"

وہ تاسف سے بولی۔

"ہاں چھپایا ہے لاؤ دو میرا فون... جو بات بتانے والی ہوتی ہے بتا دیتا ہوں۔"

یکدم وہ برہم ہوا۔


وہ آنکھوں میں نمی لئے فون اس کے ہاتھ پر رکھتی اندر چلی گئی۔

وہ آہ بھرتا گیٹ کو دیکھنے لگا۔

"تمہاری وجہ سے عدن ناراض ہو گئی ہے۔"

وہ فون کان سے لگاےُ گارڈن میں چلنے لگا۔


"تم نے اسے بتایا تو نہیں؟"

حارب نے خدشہ ظاہر کیا۔

"نہیں... "

وہ لب بھینچ کر بولا۔


"اچھا میں آتا ہوں پھر.. ابھی ٹھیک ہو جاےُ گی۔"

اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔

حسنین فون جیب میں ڈالے ٹہلنے لگا۔

اسے اب حارب کا انتظار کرنا تھا۔


"تم بہت برے ہو.. "

اسے اپنے عقب سے عدن کی آواز سنائی دی۔

وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

سیاہ ٹی شرٹ اور ٹراؤذر پہنے پیشانی پر بل ڈالے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔

پاؤں سلیپر سے بے نیاز تھے۔


"کیوں اب میں نے کیا کر دیا؟"

وہ بولتا ہوا اس کے سامنے آیا۔

"یہ بھی تم مجھ سے پوچھ رہے ہو؟"

وہ ششدر رہ گئی۔

"ظاہر ہے.. "

وہ لاپرواہی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔


"تمہیں بلکل بھی فرق نہیں پڑتا... بہت بےحس ہو تم۔"

وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔

"ہو سکتا ہے۔"

وہ لاپرواہی سے بولا۔

عدن کا منہ کھل گیا۔


"تم نہ... "

گیٹ کھلنے کی آواز پر وہ خاموش ہو گئی۔

"حارب؟"

اس کی پیشانی پر شکنیں بڑھنے لگیں۔


"مام... "

اصل جھٹکا تو اسے اب لگا۔

حسنین لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔

"یہ سب... کیا ہے؟"

وہ اٹک اٹک کر بولی۔


حارب چلتا ہوا عدن کے پاس آیا اور اسے سینے سے لگا لیا۔

اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

سائرہ مسکراتی ہوئی حسنین سے مل رہی تھی۔


"حارب دور رہو؟"

عدن پیچھے ہوتی ہوئی بولی۔

"یہ تمہاری فیملی ہے۔"

حسنین آہستہ سے بولا۔

وہ بےیقینی سے حارب کو دیکھنے لگی۔


"حارب خان! ڈئیر سسٹر۔"

وہ عدن کے بال بکھیرتا ہوا بولا۔

"آئی کانٹ بلیو دس... لیکن مجھے کسی نے نہیں بتایا میرا بھائی بھی تھا۔"

وہ سائرہ اور حسنین کو دیکھ رہی تھی۔


"ہاں یہ تمہارے بھائی کا فیصلہ تھا کہ تمہیں سرپرائز دیا جاےُ کیونکہ تمہیں سرپرائز بہت پسند ہیں۔"

سائرہ اس کے بالوں پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

"مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا... "

وہ منہ پر ہاتھ رکھے حارب کو دیکھ رہی تھی۔

حارب مسکراتا ہوا حسنین کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔


"ہم دونوں شامل تھے اس پلان میں.. ہاں پلان ماما کا تھا لیکن کام ہم دونوں کا۔"

وہ حسنین کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"ہاں.. لیکن نمرہ کو اغوا کرنے والا کام انتہائی گھٹیا تھا۔"

حسنین بھولا نہیں تھا۔


"اسی لئے میں نے حسنین کو ذمہداری دی تھی۔"

سائرہ حارب کے چت لگاتی ہوئی بولی۔

عدن نم آنکھوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔


"لیکن یہ آیا کہاں سے؟"

وہ حارب کا کان کھینچتی ہوئی بولی۔

"جب میں گھر چھوڑ کر گئی تھی تو میں پریگنیٹ تھی لیکن ابھی کسی کو علم نہیں تھا۔"

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"تمہیں کیا لینا دینا اس بات سے.. بس یہ دیکھ لو میں تمہارا بھائی ہوں۔"

وہ عدن کو دیکھتا ہوا بولا۔

"مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا۔"

وہ ہنس رہی تھی۔


"ماما مجھے لگتا ہے ہماری باقی کی زندگی اسے یقین دلانے میں گزرے گی کہ میں بھی اس فیملی کا حصہ ہوں؟"

وہ بےچارگی سے بولا۔

"نہیں اب ایسی بھی بات نہیں..."

عدن جھنپ گئی۔


"اندر چلتے ہیں آپ سب یہیں کھڑے ہو گئے۔"

یکدم اسے خیال آیا۔

"نہیں یہاں کھلی فضا میں ٹھیک ہے؟"

حارب کرسیوں کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"تم بھی میرے ساتھ گیم کھیل رہے تھے؟"

عدن حارب کا کان کھینچتی ہوئی بولی۔


"مجھے لگتا ہے آج میرا کان ﷲ کو پیارا ہو جاےُ گا یا پھر میرے سننے کی صلاحیت صلب کر لی جاےُ گی۔"

وہ معصومیت سے سائرہ کو دیکھتا ہوا بولا۔

"ایسے نہیں بولتے؟"

سائرہ خفگی سے بولی۔


"بڑی ہوں تم سے,,مار بھی سکتی ہوں ہیں نہ مام؟"

عدن انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

"بلکل سائرہ تائیدی انداز میں بولی۔

"اچھا یہ لاجک بڑا عجیب ہے بڑے بہن بھائی جان سے بھی مار دیں تو ماں باپ کہیں گے بیٹا کوئی بات نہیں بڑا ہے تم سے.."

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"بس اب یہ بیٹھ گیا ہے تم اس کی باتیں سنتی جاؤ... "

حسنین شرارت سے بولا۔

"تم جیلیس ہوتے ہو مجھ سے.... "

حارب گھورتا ہوا بولا۔

"خالہ بتائیں ذرا کون جیلیس ہوتا ہے؟"

حسنین قہقہ لگاتا ہوا بولا۔

سائرہ بھی مسکرا رہی تھی۔


"خاموشی کا جواب منفی ہوتا ہے۔"

حارب سائرہ کو دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں یہاں خاموشی کا جواب ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔"

وہ اسے چڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔

"میں آپ کا بیٹا ہوں یا یہ؟"

وہ سائرہ کو متوجہ کرتا ہوا بولا۔


"تم دونوں میرے بیٹے ہو۔"

وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔

عدن دلچسپی سے ان کی نوک جھوک دیکھ رہی تھی۔ حسنین کا یہ روپ وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔


"اس کا مطلب ہے مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں خالہ... "

وہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا تھا۔

"ماما دیکھ لیں اسے... "

حارب کو اب غصہ آنے لگا۔

حسنین اور سائرہ مسکرا رہے تھے۔


"وہ تمہارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔"

سائرہ نے سمجھانا چاہا۔

"آپ ویسے بھی اسے زیادہ پیار کرتی ہیں مجھے پتہ ہے۔"

وہ خفگی سے بولا۔

"تھینک گاڈ فائنلی آج تم نے مان ہی لیا۔"

حسنین شرارت سے بولا۔

سائرہ نے اسے گھورا۔


"میں آپ دونوں سے بات ہی نہیں کر رہا... آؤ عدن ہم دونوں باتیں کرتے ہیں۔"

وہ رخ موڑ کر بیٹھ گیا۔

حسنین کا جاندار قہقہ فضا میں گونجا۔


"عدن فون نہیں اٹھا رہی۔"

حیدر متفکر سا بولا۔

"حیدر میں مر جاؤں گا تو ڈاکٹر سے بات کیوں نہیں کرتا... مجھے تکلیف ہو رہی ہے جلن کا احساس بڑھتا جا رہا ہے پلیز کچھ کر... "

وہ پھر سے بولنے لگا۔


"میں ایسا کرتا ہوں تیرے گھر جاتا ہوں اور عدن کو لے آتا ہوں یہاں..."

وہ آخری حل پیش کرتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے..لیکن جلدی آنا۔"

وہ آہ بھرتا ہوا بولا۔


"جلدی کیسے آ سکتا ہوں؟ دو گھنٹے گھر جانے میں لگے گیں اور دو گھنٹے واپس آنے میں.. "

وہ تاسف سے کہتا چلنے لگا۔

علی تکلیف کی انتہا پر تھا لیکن مجبور تھا سہنے پر۔

"مام آپ وہاں اس ایک کمرے والے گھر میں کیوں رہتی تھیں؟"

عدن الجھ کر بولی۔

"بیٹا میں غربت میں نہیں رہتی تھی میں عاجزی کے ساتھ رہتی تھی جب انسان کا تعلق صرف ﷲ سے ہو تو یہ دنیا کی آسائشیں کوئی معنی نہیں رکھتی...."

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔


عدن سمجھتی ہوئی اثبات میں گردن ہلانے لگی۔

عائلہ اور نمرہ بھی آ چکی تھیں۔

"مام ہم سب مل کر رہیں گے نہ؟"

وہ سائرہ کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہاں بلکل۔"

وہ عدن کے رخسار پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


"نہیں خالہ عدن کو میرے ساتھ میرے گھر میں رہنا ہوگا۔"

حسنین سنجیدگی سے گویا ہوا۔

"لیکن حسنین ہم سب مل کر یہاں بھی تو رہ سکتے ہیں۔"

عدن زور دے کر بولی۔

"نہیں.. میں تمہارے گھر نہیں رہ سکتا۔"

وہ قطعیت سے بولا۔


"اچھا ٹھیک ہے پھر تم ایسا کرنا ہر ماہ مجھے کرایہ دے دینا.. بات ختم میں مزید بحث نہیں کرنا چاہتی۔ ویسے بھی میرا تمہارا الگ تو نہیں ہے یہ گھر صرف میرا ہے ڈیڈ کا نہیں۔"

وہ تاسف سے بولی۔

"میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی... "

وہ سائرہ کو دیکھتا ہوا بولا۔


"دیکھا جاےُ تو عدن کی بات کچھ غلط بھی نہیں... یہ اچھا خیال ہے کہ اب اتنے وقت بعد سب مل کر رہیں نجانے زندگی کب تک کی مہلت دیتی ہے۔"

وہ آہستہ سے بولیں۔

"خالہ آپ بھی... "

وہ ششدر سا بولا۔


"یہ ایک بات تم مان لو اس کے بعد عدن تمہاری بات مان لے گی... ایسے ہی رشتے چلتے ہیں۔ کہیں پر ایک جھک جاتا ہے تو کہیں پر دوسرا۔"

وہ نرمی سے بول رہی تھیں۔

حسنین سائرہ سے بحث نہیں کر سکتا تھا اس لئے خاموش ہو گیا۔

"حسنین؟"

وہ پھر سے بولیں۔


"ٹھیک ہے خالہ۔"

وہ معدوم سا مسکرایا۔

"لیکن عدن خیال رہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم ہر بات منوانے کے لیے میرے پاس آؤ... میں دوبارہ مداخلت نہیں کروں گی اور تمہیں بھی اپنی ضد کم کرنی ہوگی۔"

وہ عدن کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔


"جی مام ٹھیک ہے؟"

وہ کھل کر مسکرا دی۔

"امی ہم لوگوں آتے ہیں ابھی.. "

حسنین عدن کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ ناسمجھی سے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔


"ہاں جاؤ اور کوئی جلدی نہیں۔"

سائرہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"کہاں جا رہے ہیں ہم؟"

وہ اس کے ہمراہ چلتی ہوئی بولی۔


"کچھ کام ہے تم جا کر شوز پہن لو... جلدی کرو۔"

وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

وہ سر ہلاتی اندر چلی گئی۔

"تم مجھے اس ٹائم پارلر کیوں لے آےُ؟"

گاڑی رکتے ہی وہ تعجب سے بولی۔


"کچھ کام ہے؟"

وہ بولتا ہوا باہر نکل آیا۔

"عجیب انسان ہو تم... بتا نہیں سکتے نہ۔"

وہ خفگی سے کہتی اس کے عقب میں چلنے لگی۔

"کتنا ٹائم لگے گا؟"

حسنین بیوٹیشن سے بات کر رہا تھا۔


"اس ٹائم مجھے تیار کروانے کی کیا وجہ؟"

وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"تم خاموش رہو۔"

وہ گھورتا ہوا بولا۔

"اوکے ٹھیک یے جلدی کر دیں میں بس آتا ہوں۔"

وہ بولتا ہوا عدن کے پاس آگیا۔


"تم خاموش بیٹھی رہو گی انہیں اپنا کام کرنے دو میں آتا ہوں۔"

وہ اس کا جواب سنے بغیر باہر نکل گیا۔

"عجیب انسان ہے, نہ کچھ بتاتا ہے نہ سنتا ہے۔"

وہ منہ میں بڑبڑائی۔


"میم آ جائیں اِدھر... "

وہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لئے بولی۔

وہ جبراً مسکراتی چلنے لگی۔

"تمہیں ایک ویڈیو بھیجی ہے دیکھ لو۔"

حسنین فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔

"کون سی ویڈیو؟"

شاہد بولتا ہوا فون چیک کرنے لگا۔


"واٹ دا ہیل از دس؟ تمہیں کہاں سے ملی یہ؟"

وہ غضب ناک آواز میں غرایا۔

"کامن ڈاؤن ڈئیر۔ ابھی میں نے لیک نہیں کی۔ کیا دھمکی دی تھی تم نے عدن کو؟ مجھے مارنے کی چلو کوشش کر لو لیکن یہ ویڈیو ایک ایسے انسان کے پاس ہے جو میرے مرنے کے فوراً بعد اسے لیک کر دے گا۔ کافی فرق پڑے گا تمہیں۔"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔


"کہاں سے ملی تمہیں یہ بتاؤ؟"

وہ طیش میں چلا رہا تھا۔

"سمپل سی لاجک ہے تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے۔ عدن سے دور رہو میں تم سے دور رہوں گا۔ اور تمہاری ریپوٹیشن محفوظ رہے گی۔"

وہ بولتا ہوا چلنے لگا۔


"ہوں.. دیکھ لوں گا میں بھی۔"

وہ خالی دھمکی دیتا فون بند کر گیا۔

"ویری گڈ حارب۔"

حسنین فون کو دیکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"عدن کہاں ہے؟"

حیدر گیٹ عبور کرتا ہوا بولا۔

سب خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگے۔

"کیوں کیا کام ہے آپ کو؟"

حارب بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


"علی ہاسپٹل میں ہے مجھے اسے ساتھ لے جانا ہے ابھی۔"

وہ قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

"تو عدن کیا کرے گی وہاں جا کر؟"

وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔

"ڈاکٹر نے کہا ہے کیس بہت پیچیدہ ہے کسی فیملی ممبر کے سائن چائیے۔"


"کیا ہوا ہے اسے؟"

سائرہ اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔

"آپ کون؟ اور عدن کہاں ہے؟ میں نے پہلے کبھی آپ لوگوں کو یہاں نہیں دیکھا۔"

وہ بغور سب کے چہرے دیکھ رہا تھا۔

"میں عدن کی ماں ہوں۔ عدن یہاں موجود نہیں آپ بتائیں کیا ہوا ہے اسے؟"

وہ سپاٹ انداز میں بول رہی تھی۔


حیدر کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

"وہ ہوٹل میں آگ لگی تھی اور اس کا پورا جسم جل چکا ہے پلیز میرے ساتھ چلیں آپ۔"

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔


"ماما آپ کہیں نہیں جا رہی... وہ مرتا ہے تو مر جاےُ۔ حیرت ہے ویسے پورا جسم جل گیا لیکن جان ابھی بھی باقی یے۔ ڈھیٹ ہے نہ بہت۔"

حارب دانت پیستا ہوا بولا۔

"حارب تم مجھے لے کر چل رہے ہو یا نہیں؟ میں عدن کی خوشیاں خراب نہیں کرنا چاہتی۔"

وہ تحکم سے بولیں۔


"لیکن آپ کیوں؟"

وہ احتجاج کرنا چاہتا تھا۔

"میرا معاملہ ہے باقی سب خاموش رہیں گے اس میں۔"

وہ سختی سے بولی۔

"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔"

وہ نا چاہتے ہوۓ بھی مان گیا۔


"باجی دیکھا جاےُ تو حارب ٹھیک کہہ رہا ہے۔"

عائلہ نے مداخلت کی۔

"میں اس انسان کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں کیا اس حال میں بھی اس کے چہرے پر کوئی پچھتاوا دکھائی دیتا ہے یا نہیں۔"

وہ آہستہ سے بولی۔


عائلہ سر ہلاتی خاموش ہو گئی۔

"چلیں.. "

وہ گاڑی کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

"آپ لوگ آرام کریں اب ہمیں شاید دیر ہو جاےُ۔"

سائرہ ان دونوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔


"رابن آپ کو کمرہ دکھا دے گا۔"

حارب نے گاڑی سے ہانک لگائی۔

یہ دو گھنٹے کا سفر مانو دو صدیوں پر محیط ہو گیا۔

اس نے تہیہ کیا تھا کبھی علی کی شکل نہیں دیکھے گی لیکن نجانے کیوں آج وہ خود چل پڑی۔


آنکھوں کے سامنے ماضی کسی فلم کی مانند چلنے لگا۔

وہ ذلت, وہ دکھ, ہر شے جیسے پھر سے تازہ ہو گئی۔ وہ چادر سے آنکھیں صاف کرنے لگی۔

"ماما آپ ٹھیک ہیں؟"

حارب گاڑی سے باہر نکلتا ہوا بولا۔


"فکر مت کرو... تمہاری ماما بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہیں۔"

وہ پھیکا سا مسکرائی۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا سائرہ کا ہاتھ پکڑے ہاسپٹل کی حدود میں داخل ہو گیا۔


علی لاوارثوں کی مانند سٹریچر پر پڑا تھا۔

کیا یہ تھا اس کا انجام۔ وہ جو لوگوں میں گزرتا تو لوگ آگے ہو کر ملتے اور آج اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

وہ آنکھیں بند کئے ہوۓ تھا۔

"علی؟"

حیدر کی آواز پر وہ پلکوں کو جنبش دیتا آنکھیں کھولنے لگا۔


اس حادثے کے باعث جسم میں جیسے جان باقی نہیں تھی لیکن سانس کی ڈور تھی جو ابھی تک بندھی تھی۔

سائرہ کا چہرہ دیکھ کر اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

وہ کبھی حیدر کو دیکھتا تو کبھی سائرہ کو۔


"کیسا محسوس کر رہے ہو تم یہاں؟"

وہ اپنی کپکپاہٹ پر قابو پاتی ہوئی بولی۔

"تم کیسے؟"

وہ بس اتنا ہی بول پایا۔


"دیکھ لو آج قسمت تمہیں پھر سے میرے سامنے لے آئی۔ آج بھی تمہیں مدد درکار ہے۔ میں اگر چلی جاؤں تو تمہارا علاج کیسے ہو گا؟"

وہ غم و غصے کی حالت میں ہانپنے لگی۔


"ماما دفع کریں.. آپ کیوں منہ لگا رہی ہیں ایسے انسان کو۔"

حارب ان دونوں کے بیچ حائل ہو گیا۔

اشک بہنے لگے۔ پرانا غم حاوی ہونے لگا تھا۔

"ڈاکٹر کو بلاؤ میں سائن کر کے جاؤں یہاں سے۔"

مزید رکنا اس کے لئے محال تھا۔


"میں نے آپ کو منع کیا تھا پھر بھی آپ آ گئیں۔"

سائرہ اس نے شانے پر سر رکھے رو رہی تھی۔

"پلیز ماما چپ ہو جائیں ورنہ اس انسان کو اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا۔"

سائرہ کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔


اس نے اپنی ماں کو صرف روتے ہی تو دیکھا تھا پوری زندگی۔

"نہیں.. تم ایسا کچھ نہیں کرو گے.. دیکھو یہ میرے ﷲ کا انصاف ہے آج وہ مرنا بھی چاہے تو مر نہیں سکتا کیونکہ اس کا حکم نہیں۔ ایسی اذیت سے ﷲ سب کو بچاےُ۔مجھ سے زیادہ زخم میرے رب نے اسے دئیے ہیں۔ کیا تمہیں اس کا حال نظر نہیں آ رہا؟"

چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔


"آپ ان کی وائف ہیں؟"

ڈاکٹر ان کے پاس آتا ہوا بولا۔

"جی... "

وہ خود پر پاتی ہوئی بولی۔


"یہاں سائن کر دیں.. کیونکہ زخموں کو کریدنے کا مرحلہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ ان کی حالت مزید خراب بھی ہو سکتی ہے؟"

وہ حارب کو دیکھتے ہوۓ بول رہے تھے۔


" جو بھی علاج ہے آپ کریں۔"

وہ بولتی ہوئی دروازے کی جانب قدم اٹھانے لگی۔

حارب ایک سلگتی نگاہ علی پر ڈالتا باہر نکل آیا۔

~~~~~~~~

"مجھے پرنسس بنا کر تم کہاں لے جا رہے ہو؟ کہیں فیری لینڈ جانے کا ارادہ تو نہیں؟"

وہ حسنین کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔

آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی تھی۔


وہ اس وقت وائٹ کلر کی باربی میکسی پہنے ہوۓ تھی۔ سیاہ بال جوڑے میں قید تھے, چہرے پر لائٹ سا میک اپ تھا۔

پنک کلر کی لپ اسٹک سے ہونٹ پوشیدہ کر رکھے تھے۔

حسنین وائٹ کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ کوٹ پہنے ہوۓ تھا۔ صاف رنگت پر ہلکی بھوری شیو مقابل کو مرعوب کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔


"کیا ہماری شادی ہے؟"

وہ سوچتی ہوئی بولی۔

حسنین اس کی بے تکی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔

"تم خاموش نہیں رہ سکتی کیا؟"

وہ خفگی سے بولا۔


"تمہارا بس چلے تو میرے منہ پر ایلفی ہی لگا دو۔"

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"بس پہنچ گئے۔"

وہ رک کر بولا۔


"جنگل میں لاےُ ہو کیا؟"

وہ پتوں کے چر مر ہونے کی آواز سن رہی تھی۔

"ہاں ایسا ہی سمجھ لو... "

وہ اس کے عقب میں آ کر پٹی کھولنے لگا۔

وہ بےصبری سے دیکھنے کی منتظر تھی۔


"ہیپی برتھ ڈے مائی پرنسس... "

اس کی جانب سے ایسے الفاظ عدن کو ہارٹ اٹیک کروانے کو بہت تھے۔

وہ منہ کھولے سامنے دیکھنے لگی۔

"کیا تم مجھے مارنا چاہتے ہو؟"

وہ چہرہ موڑ کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


"ہرگز نہیں... تم بھی عجیب ہو اب تمہیں یہ بھی ہضم نہیں ہو رہا۔"

وہ گھورتا ہوا بولا۔


سامنے سفید رنگ کا سات لیئر والا کیک تھا۔

بائیں جانب ایک درخت تھا جس پر سفید رنگ کی چھوٹی چھوٹی لائٹس لگی تھیں۔

عدن چہرہ اوپر کر کے اس بڑے سے کیک کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے لئے یہ منظر خوابناک تھا۔


"مجھے یقین نہیں آ رہا۔"

وہ آنکھوں میں نمی لئے منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔

"یقین کر لو... لیکن ہمیشہ ایسی توقعات مت رکھنا۔ میں سرد مہر سا انسان ہوں۔موڈ پر منحصر کرتا۔"

وہ صاف گوئی سے بولا۔


"تم نے آج کیا یہی بہت ہے چاہے ساری زندگی تم مجھے کوئی سرپرائز نہ دینا۔ میں اسی میں خوش ہوں۔"

وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔

"تھوڑا لیٹ ہو گیا ہوں میں لیکن... "

وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔


"لیٹ ہو بٹ گریٹ ہو۔"

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

"تم میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہو... اسی لئے کبھی میرے رویے سے بدگمان مت ہونا۔"

وہ اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکاتا ہوا بولا۔


"بس تم ہمیشہ میرے ساتھ رہنا مجھے اور کچھ نہیں چائیے۔"

وہ آنکھیں بند کئے اس کی خوشبو اپنے اندر اتار رہی تھی۔

"چلو کیک کاٹیں۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑے آگے آ گیا۔


"ہم دونوں کیسے اتنا بڑا کیک کھائیں گے؟"

وہ ہنستی ہوئی بولی۔

"تمہیں ختم کرنا پڑے گا یہ سارا۔"

وہ عدن کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹتا ہوا بولا۔


"یہ میری زندگی کی بہترین رات ہے۔"

وہ حسنین کو کیک کھلاتی ہوئی بولی۔

وہ مسکراتا ہوا ٹیشو سے منہ صاف کرنے لگا۔

~~~~~~~~~

"پاپا آج آپ کو میرے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔"

منال ان کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"کون سے سوال؟"

وہ الجھ کر بولے۔


"ماما نے کیوں قتل کیا ممانی کو؟"

آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔

"بیٹا یہ کیا کہہ رہی ہو آپ؟"

وہ ششدر رہ گئے۔


"پلیز پاپا اب تو جھوٹ مت بولیں.. میں سب جان چکی ہوں۔"

بولتے بولتے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

اتنے وقت سے جو غبار وہ اپنے اندر جمع کر رہی تھی آج نکالنے لگی۔


"یہی تمہاری ماما نہیں چاہتی تھیں کہ تمہیں علم ہو۔"

وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔

"کیوں؟"

وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔


"کیونکہ وہ شرمندہ تھیں شاید گناہ کرنے کے بعد ہر گنہگار ہی شرمسار ہوتا ہے۔"

وہ سانس لینے کو رکے۔

وہ انہماک سے انہیں سن رہی تھی۔


"تمہاری ممانی کے آنے کے بعد رمشاء کی اہمیت کم ہو گئی۔ تمہارے ماموں نے پسند کی شادی کی تھی جوکہ ان وقتوں میں بہت بڑی بات تھی۔وہ حسد کرنے لگی ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا حویلی میں۔

وہ چاہتی تھی پہلے کی طرح اب بھی اس کی مرضی چلے کیونکہ بڑی تھی نہ وہ... "

وہ بولتے بولتے کھڑکی کے سامنے جا کھڑے ہوۓ۔


"پھر؟"

وہ بے چینی سے بولی۔

"پھر کیا ایک دن جھگڑا ہوا اور اس نوعیت کا کہ رمشاء نے نازیہ پر پیڑول ڈال کر اسے زندہ جلا دیا۔ اس کا بیٹا تب دو یا تین سال کا تھا۔

تمہارے ماموں اسی رات اس صدمے سے چل بسے۔ اس کے بعد ان کے بیٹے کو اس کے ننھیال والے لے گئے۔ تب سے حویلی کے دروازے بند کر دئیے گئے۔

اس حویلی کو منحوس کہا جانے لگا تھا۔ رمشاء کو بعد میں احساس جرم ہوا لیکن اب پچھتاےُ کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔

ایک معصوم کو اس نے قتل کر دیا, ایک بچے کو اس نے یتیم کر دیا تھا یہی غم اسے دن رات ستاتا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کبھی تم پر یہ حقیقت آشکار ہو...کہ کہیں تم اس سے نفرت نہ کرنے لگ جاؤ۔"


ان کی آواز مدھم پڑتی جا رہی تھی۔

منال خاموش آنسو بہا رہی تھی۔

انیب باہر اس کا منتظر تھا۔

وہ بنا کچھ بولے باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی۔

فیصل صاحب چشمہ اتار کر آنکھیں صاف کرنے لگے۔


"منال تم ٹھیک ہو؟"

وہ گھبرا کر آگے آیا۔

"میں ایسی عورت کی بیٹی ہوں انیب دیکھو... "

وہ اس کے شانے پر سر رکھے بول رہی تھی۔


متواتر آنسو اس کے رخسار کو بھگوتے انیب کی شرٹ میں جذب ہو رہے تھے۔

"منال تم یہ سب مت سوچو...دیکھو مرنے والے کو ایسے نہیں بولتے۔"

وہ اس کی پشت تھپتھپاتا بول رہا تھا۔


"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا... کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔

"اگر تم چپ نہ ہوئی تو ہر بار کا بل تم دو گی۔"

وہ اسے شانے سے پکڑ کر سیدھا کرتا ہوا بولا۔

وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔


"تم پاگل ہو اس میں کوئی شک نہیں... اب یہاں یہ بل دینے کی بات کہاں سے آ گئی؟"

وہ خفگی سے بولی۔

"بل دینے کی بات کہیں بھی آ سکتی ہے۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"انتہائی کنجوس دل ہے تمہارا ہٹو اب... "

وہ اسے پیچھے کرتی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔

وہ اپنے پلان میں کامیاب ہو چکا تھا۔

انیب مسکراتا ہوا گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔


"اپنے کپڑے خود پریس کرنا؟"

وہ دوپٹے سے چہرہ خشک کرتی ہوئی بولی۔

"کیسی بیوی ہو تم؟ شوہر سے کام کرواؤ گی؟ چھی چھی چھی.. پتہ نہیں تم سکول میں کیا کرتی تھی شوہر کے حقوق نہیں پڑھے تم نے یا چھوڑ دیا تھا پیپر میں؟"

وہ آگے کو ہوتا گھورنے لگا۔


"میرا تو پتہ نہیں لیکن تم یقیناً فیل آتے ہو گی۔ تبھی اتنے غلط حساب ہیں تمہارے۔"

وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

اسے موضوع سے ہٹانے میں انیب مہارت رکھتا تھا۔


"تمہارے حساب اتنے درست ہیں تو پھر کم از کم ہمارے بچوں کو صحیح حساب سکھا دینا۔"

اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔

وہ گھوری سے نوازتی باہر دیکھنے لگی۔


منال کے کان کی لو سرخ ہو رہی تھی۔

"مس احسان فراموش بھی بلش کرتی ہے..انٹرسٹنگ۔"

وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔


وہ مسکراتی ہوئی لب کاٹنے لگی۔

اسے پرسکون دیکھ کر وہ بھی خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔

~~~~~~~~

"مام اس شہزادے کو کب باندھیں گیں آپ؟مجھے یہ بتاؤ تم ان بھی ملیحہ کے ساتھ ہو؟"

یکدم اسے خیال آیا۔

"توبہ کرو.. میں شریف سا انسان ہوں یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟"

وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا عدن کو گھور رہا تھا۔


"اتنے شریف کہ گزشتہ...."

وہ منہ پر انگلی رکھتی سوچنے لگی۔

"خدا کا خوف کرو.. ماما کے سامنے کیا اول فول بول رہی ہو۔"

وہ عدن کے منہ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔


"دیکھیں مام اپنے شریف سے بیٹے کو ابھی تو میں نے منہ نہیں کھولا بچو.. "

عدن اس کے پیٹ میں کہنی مارتی ہوئی بولی۔

سائرہ دونوں کو دیکھتی مسکرا رہی تھی۔

نمرہ چاےُ کا کپ لئے سائرہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔


"اب تم میرے ساتھ ایسے کرو گی؟ میں وہی بھائی ہوں جو اپنا کام چھوڑ کر دن رات تم پر پہرہ دیتا تھا۔"

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔

"او میرا بےبی.. "

عدن ہنستی ہوئی بولی۔


"حارب کیا کہہ رہی ہے عدن؟"

سائرہ لہجے کو سخت بناتی ہوئی بولی۔

"ماما یہ ایسے ہی تنگ کر رہی ہے.. ایسا کچھ بھی نہیں۔بتاؤ نہ.."

وہ عدن کو گھورتا ہوا بولا۔

عدن مسلسل ہنس رہی تھی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے میں اس پاگل کے ساتھ رہوں گا.. فار گاڈ سیک۔"

وہ عدن کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔

"اب کون سی کھسل پھسل ہو رہی ہے دونوں بہن بھائیوں میں؟"

سائرہ آنکھیں سکیڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔


"کچھ بھی نہیں... "

حارب مسکراتا ہوا بولا۔

"عائلہ آؤ بیٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"

سائرہ مسکراتی ہوئی بولی۔


"خالہ آپ کیوں کچن دیکھ رہی ہیں رابن ہے نہ وہ کر لے گا۔"

عدن انہیں دیکھتی ہوئی خفگی سے بولی۔

"بیٹا جو ذائقہ اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ کہیں نہیں ملتا کیوں باجی؟"

وہ سائرہ کو دیکھتی ہوئی بولیں۔


"بلکل.. لیکن اب ایسا بھی نہیں کر سکتے کہ سب کا بوجھ آپ پر ڈال دیں۔عدن تم ٹھیک ہو جاؤ پھر ساتھ مدد کروایا کرنا۔"

لہجہ ہمیشہ کی مانند نرم تھا۔


وہ زیادہ تر سفید رنگ پہنتی تھی۔ سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ ان کا چہرہ بھی ایسا ہی تھا پر نور سا۔

"میں سوچ رہی تھی نمرہ اور حارب کی منگنی کر دیں۔"

انہوں نے بات کا آغاز کیا۔


"تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ چلو بھاگو شرم نہیں آتی اپنے رشتے کی باتیں سنتے ہوۓ؟"

حارب اسے آڑے ہاتھوں لیتا ہوا بولا۔

وہ جو حارب سے کترا رہی تھی ایک لمحے میں وہاں سے غائب ہو گئی۔


"ڈرا ہی دیا بیچاری کو.. تم خود بھی تو بیٹھے ہو۔"

عدن اس کے شانے پر تھپڑ مارتی ہوئی بولی۔

"حارب باز آ جاؤ..."

سائرہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"یہ چھوٹا ہے نہ اسی لئے شرارتی ہے تھوڑا۔ آپ بتائیں کوئی اعتراض ہے تو؟ حسنین سے بات کر چکی ہوں میں۔"

وہ انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

"کوئی نہیں بچوں کی شرارتوں سے تو گھر میں رونق ہوتی ہے۔ اور رہی بات رشتے کی تو آپ بڑی ہیں جیسے کہیں گیں ویسے ہی کریں گیں۔"

وہ سائرہ کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولیں۔


"سن لو.. میری وجہ سے رونق ہے۔"

وہ عدن کو شانہ مارتا ہوا بولا۔

"حسنین کو آنے دو.. وہ پوچھے گا تمہیں۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"حسنین کی چمچی۔"

وہ چڑاتا ہوا سائرہ کے ساتھ جا بیٹھا۔

عدن نے گھورنے پر اکتفا کیا۔

~~~~~~~~

حارب چابیاں گھماتا چل رہا تھا۔

"حارب پلیز میری بات سنو۔"

اسے اپنے عقب میں ملیحہ کی آواز سنائی دی۔

وہ اس وقت اپنے گھر کے باہر تھا جو ملیحہ کے گھر سے چند قدم کی مسافت پر تھا۔


ملیحہ کو دیکھ کر اس کی پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔

وہ عروسی لباس پہنے ہوۓ تھی۔

آنکھوں سے کاجل بہ کر رخسار تک آیا ہوا تھا۔ لپ اسٹک بھی خراب ہو چکی تھی۔

"کیا ہوا تمہیں؟"

وہ اسے شانوں سے تھام کر بولا۔


آخر کو محبت تھی اس کی... ترس آ گیا اس پر۔

"تم نے مجھے ٹھکرا دیا تو دیکھو ساری دنیا نے مجھے ٹھکرا دیا۔"

وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔

"کیا مطلب؟"

وہ الجھ گیا۔

"حارب کل میری بارات تھی.. اور دیکھو مجھے رات ہی طلاق دے دی اس نے۔"

وہ چہرہ جھکا کر بول رہی تھی۔

وہ بےیقینی سے اس کے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔


"کون تھا وہ؟"

کافی دیر بعد اس نے لب کھولے۔

"ماما کی فرینڈ کا بیٹا تھا لیکن اس نے مجھے بدکردار کہہ کر طلاق دے دی.. میں کیسے واپس گھر جاؤں؟"

وہ بولتی ہوئی اس کے سینے سے لگ گئی۔


"ملیحہ کوئی دیکھ لے گا۔"

وہ اسے خود سے الگ کرتا ہوا بولا۔

"کیا تمہیں مجھ پر ترس بھی نہیں آتا؟"

وہ سسکتی ہوئی بولی۔

"ترس آ جاتا اگر تم عدن کو اغوا نہ کرواتی, اس کی رپورٹس چینج نہ کرواتی تو شاید میں تم پر ترس کھا لیتا؟"

وہ اسے بازوؤں سے پکڑے بول رہا تھا۔


اس فولادی گرفت پر وہ کراہ کر اسے دیکھنے لگی۔

"محبت مجھ سے اور فکر اس عدن کی آخر کیوں؟ ہر انسان اس کے لئے پاگل ہے۔"

وہ جھنجھلا کر بولی۔


"کیونکہ وہ میری بہن ہے۔ میرا خیال ہے یہ جاننے کے بعد تم مزید بحث نہیں کرو گی۔ اور پلیز میری بات پکی ہو چکی ہے تو مجھ سے دور رہا کرو مجھے اپنے رشتے خراب نہیں کرنے۔"

وہ سرد مہری سے کہتا چلنے لگا۔

وہ شکست خود سی اس کی پشت کو دیکھنے لگی۔


وہ جا چکا تھا ہمیشہ کی مانند۔اور وہ خالی ہاتھ کھڑی تھی۔

حسد کی آگ میں جلتے ہوۓ اس نے صرف اپنا دامن جلایا تھا۔ کسی کا کچھ نہیں گیا تھا لیکن اس کا سب کچھ چلا گیا تھا۔

~~~~~~~~

"کہاں جا رہے ہو تم؟"

عدن کمرے میں آتی ہوئی بولی۔

"تم بھی چینج کر لو... تمہیں لے کر جانا ہے؟"

وہ مختصر کہہ کر واش روم کی جانب چلنے لگا۔


"ہاسپٹل تو دو دن بعد جانا ہے پھر کہاں؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔

وہ اندر جا چکا تھا۔

"بتاؤ نہ؟"

اسے باہر آتے دیکھ کر وہ بولی۔


"پتہ چل جاےُ گا؟"

وہ خفگی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"یہ والی شرٹ اچھی نہیں لگ رہی.. رکو میں دوسری دیتی ہوں۔"

وہ بولتی ہوئی الماری کی جانب بڑھ گئی۔


"اس میں کیا خرابی ہے؟"

وہ شرٹ پکڑتا ہوا بولا۔

"بس مجھے اچھی نہیں لگ رہی۔ یہ والی پہنو۔"

اس کے ہاتھ میں بلیک اور ریڈ چیک والی شرٹ تھی۔

وہ گھورتا ہوا شرٹ اتار کر دوسری پہننے لگا۔


"مجھے نمرہ کے لئے گفٹ لینا ہے..."

وہ آگے بڑھ کر اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔

"آج ہی؟ خالہ نے بات کر لی امی سے؟"

وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔


"جی ہاں.. بات کر لی ہے اور جمعے کو نکاح رکھا ہے۔"

وہ اسے تفصیل سے آگاہ کرنے لگی۔

"ٹھیک ہے لیکن زیادہ دیر مت لگانا۔ لڑکیوں کی شاپنگ شروع ہو جاےُ تو پھر ختم ہی نہیں ہوتی۔"

وہ اس کے بال سنوارتا ہوا بولا۔


"کتنی لڑکیوں کو شاپنگ کروا چکے ہو اب تک؟"

وہ خفا انداز میں بولی۔

"تمہارا شوہر نہایت معصوم اور شریف ہے۔"

وہ اس کی ناک دباتا ہوا بولا۔

"اچھا جی اتنے شریف نہ!"

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔


"چلو اب تم دیر کر رہی ہو؟"

وہ بازو پر بندھی گھڑی اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔

"بس دو منٹ دیں مجھے۔"

وہ کہتی ہوئی اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔


"ہاسپٹل میں کون ہے؟"

وہ اس کے ہمراہ چلتی تعجب سے بولی۔

ان کے عقب میں سائرہ تھی۔

وہ خاموش چلتا جا رہا تھا۔

اور عدن کی پیشانی پر شکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔


حسنین نے کمرے کا دروازہ کھولا اور عدن کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔

"ڈیڈ؟"

وہ متحیر سی آگے بڑھی۔

عدن کی آواز پر علی نے آنکھیں کھول دیں۔


"اب خیال آیا ہے تمہیں میرا؟"

وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"یہ کیا ہوا آپ کو؟"

وہ لاکھ برا سہی لیکن تھا تو اس کا باپ۔


"مت پوچھو... بس میرے مرنے کی دعا کرو۔"

آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ بمشکل سمجھ پا رہی تھی۔

"نرس انہیں کیا ہوا ہے؟"

وہ ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتی ہوئی بولی۔


"ان کی کنڈیشن بہت خراب ہے۔ہوٹل گرینڈ میں آگ لگی تھی۔ یہ بھی متاثرہ افراد میں سے ایک ہیں۔کھانے کے لیے یہ ٹیوب لگائی ہے۔ نہ ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں موت کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن موت بھی مہربان نہیں ہو رہی.."

وہ تاسف سے بول رہی تھی۔


عدن کے الفاظ دم توڑ گئے۔

علی کی حالت قابل رحم تھی لیکن اسے سائرہ کے آنسو یاد آ گئے۔

"ڈیڈ یہ عبرت ناک انجام ہے آپ کا۔"

وہ الٹے قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

دروازہ کھلا اور سائرہ اندر داخل ہوئی۔


"کیوں بلایا ہے تم نے مجھے؟"

وہ سپاٹ انداز میں بولی۔

"پلیز مجھے معاف کر دو... پلیز مجھے بدعا دے دو کہ میں مر جاؤں۔ میں بہت تکلیف میں ہوں میری مدد کر دو۔"

وہ سسک رہا تھا۔


"ﷲ کرے تمہیں موت نہ آےُ۔"

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔

عدن افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالتی باہر نکل گئی۔

"خالہ آپ دوبارہ نہیں آئیں گیں اور نہ ہی کوئی بحث ہو گی اب؟"

حسنین چہرے پر سختی طاری کئے بول رہا تھا۔


"چلو... "

وہ عدن کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

"حسنین میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گئی ہوں... ڈیڈ کو دیکھ کر سمجھ نہیں آ رہا انہیں ان کے کئے کی سزا دوں یا اس حال میں سب بھول جاؤں۔"

وہ وہیں رک گئی۔


"تم بس اس انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔"

وہ بے لچک لہجے میں بولا۔

"لیکن... "

وہ کہنا چاہتی تھی پر خاموش ہو گئی۔


"گھر چل کر بات کرتے ہیں۔"

وہ قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ خاموشی سے اس کے ہمراہ چلنے لگی۔

~~~~~~~~

تین سال بعد:

"انیب اٹھ بھی جاؤ اب آفس سے لیٹ ہو جاؤ گے۔"

منال اسے جگانے میں ہلکان ہو رہی تھی۔

"کوئی بات نہیں مسز میرے باپ کا آفس ہے۔"

وہ منہ موڑتا ہوا بڑبڑایا۔


"تم نہ سیدھی طرح اٹھ جاؤ.. ریحان کو بھی یہی سیکھاؤ گے۔"

وہ خفگی سے کہتی کمرہ سمیٹنے لگی۔

"تم اتنا گند ڈالتے ہو نہ... دیکھو ذرا کیا حشر کیا ہے تم نے کمرے کا۔"

وہ صوفے سے اس شرٹس اٹھاتی ہوئی بولی۔


"تمہیں تھانے میں ہونا چائے تھا۔ ہر وقت بندے کو سولی پر لٹکاےُ رکھتی ہو۔"

وہ منہ بناتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

"بندہ بھی ذرا سکون سے رہ لے نہ۔ بچے ہو گئے لیکن تم بڑے مت ہونا۔"

وہ ٹیڈی اسے مارتی ہوئی بولی۔


"بچے تو نہیں ایک ہی بچہ ہے ابھی تو ہمارا.. میں نے تو فوج تیار کرنی ہے۔"

وہ ریحان کے گال پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

"بس یہی فضول باتیں کروا لو تم سے.... جانتے ہو تمہیں میڈل مل سکتا ہے۔"

وہ کمر پر ہاتھ رکھے کاٹ دار لہجے میں بولی۔


"تم پیار سے کچھ بھی دے دو مجھے قبول ہے۔"

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"کھانا تم بناؤ گے پورا ہفتہ... "

وہ شرارت سے بولی۔

"مہربانی.. تم تو پھیل ہی جاتی ہو.. میرے شیر اٹھ بھی جاؤ پھر پاپا آفس چلے جائیں گے۔"

انیب اس کے گال سے اپنا گال رگڑتا ہوا بولا۔


"سونے دو اسے رات دیر تک تمہارے ساتھ جاگتا رہا تھا... بیمار پڑ جاےُ گا۔"

وہ متفکر سی بولی۔

"مجھ پے تو ذرا پیار نہیں آتا تمہیں... تم تو اچھے رہ گئے اتنی جلدی منال کو اپنے پیچھے لگا لیا مجھے دیکھو تین سالوں سے ذلیل ہو رہا ہوں۔"

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔


"ناشکرے ہی رہنا تم... میں ناشتہ بنانے جا رہی ہو اور پلیز ریحان کو مت اٹھانا۔"

وہ بولتی ہوئی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~

"شہری چار دن بعد گھر میں قدم رکھ رہے ہو تم۔"

شہری دبے قدموں اندر داخل ہو رہا تھا جب عقب سے عزہ کی آواز سنائی دی۔

"آج تم جلدی اٹھ گئی؟"

وہ دانت نکالتا ہوا بولا۔

عزہ آنکھیں سکیڑے گھورنے لگی۔


"تم دو دن کا کہہ گئے تھے اور آج پانچواں دن ہے۔"

وہ سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔

"میری جان آئم سوری.. شوٹنگ لیٹ ہو گئی تمہیں پتہ تو ہے جو مرکزی کردار ہوتا سو نخرے ہوتے ان کے۔"

وہ اس کے شانوں پر بازو رکھتا ہوا بولا۔


"اور فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟"

ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔

"مجھے پتہ تھا تم ناراض ہو جاؤ گی اس لیے۔"

وہ جیب سے چین نکالتا ہوا بولا۔


"بہت چالاک ہو تم.. ساتھ میں گفٹ لے کر آتے ہو۔"

وہ اس کی ناک دباتی ہوئی بولی۔

وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتا اس کی گردن میں چین پہنانے لگا۔

"تم سجی سنوری رہا کرو... میں چاہتا ہوں جب تمہیں دیکھوں تمہارا یہ چہرہ سامنے آےُ۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا چلنے لگا۔


"میں پرسوں تیار ہی تھی لیکن تم آےُ نہیں.. اچھا تم بیٹھو تھک گئے ہو گے میں سٹرونگ سی کافی لے کر آتی ہوں۔"

وہ پرجوش انداز میں بولی۔


"میڈ کو کہہ دو... "

وہ کوٹ اتارتا ہوا بولا۔

"نہیں تمہارا ہر کام مجھے کرنا پسند ہے۔"

وہ مسکرا کر کہتی کچن کی جانب چل دی۔

"بابا کی جان اٹھ جاؤ نہ... "

وہ آبش کے چہرے سے بال ہٹاتا ہوا بولا۔

"ابھی نہیں بابا۔"

وہ منمنائی۔

وہ اس کے چہرے پر بوسہ دیتا عدن کی جانب آ گیا۔


"تم بھی اٹھ جاؤ..."

وہ عدن کے بالوں میں انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔

اس نے حرکت تک نہ کی۔

"عدن اٹھ بھی جاؤ ... آج ہمیں مدرسے بھی جانا ہے۔"

وہ اس کے کان میں مدھم سرگوشی کرنے لگا۔


عدن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کروٹ لی اور اس کا ہاتھ چہرے کے نیچے رکھ لیا۔

"یہ کیا؟"

وہ اس پر جھک گیا۔

"آپ بھی سو جائیں۔"

نیند میں ڈوبی آواز گونجی۔


"جی نہیں مجھے ٹائم پر جانا ہے اٹھ جاؤ اب۔ خالہ دو بار پوچھ چکی ہیں تمہارا۔"

وہ اس کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔


"آبی بھی سو رہی ہے آپ بھی آ جائیں۔"

وہ اٹھنے پر راضی نہیں تھی۔

"تنگ نہ کرو... ورنہ میں سختی سے پیش آؤں گا؟"

اب کہ وہ برہم ہوا۔

"آپ بھی نہ پل میں تولہ پل میں ماشہ... "

وہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔


"تم ایسے ہی سیدھی رہتی ہو۔"

وہ بولتا ہوا الماری کی جانب بڑھ گیا۔

"میری جان اٹھنا نہیں ہے؟"

وہ آبی کے چہرے پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

"ماما... "

وہ اسے پرے کرتی ہوئی منمنائی۔


"آپ نے اپنی طرف کر لیا ہے آبی کو۔"

وہ بیڈ سے اترتی ہوئی بولی۔

"میں نے کیسے؟"

وہ کپڑے ہاتھ میں پکڑے اس کی جانب گھوما۔


"بس کر لیا ہے نہ..."

وہ گھورتی ہوئی شیشے کے سامنے آ گئی۔

"اب جلدی کر لو مجھے آفس بھی جانا ہے۔"

وہ کہتا ہوا واش روم میں چلا گیا۔


"نمرہ کیوں سیڑھیاں چڑھ رہی ہو؟"

حارب خفگی سے کہتا اس کے پاس آیا۔

"وہ مجھے آبی سے... "

"دوبارہ تم اوپر نہیں آؤ گی۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑے زینے اترنے لگا۔


"تم تو مجھے کچھ بھی نہیں کرنے دیتے۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"اس حالت میں آرام ہی کرتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کل کو کوئی مسئلہ ہو جاےُ, ہمارا بےبی صحت مند ہونا چائیے۔ عدن کو دیکھا تھا بیڈ سے پاؤں نیچے نہیں رکھنے دیا تھا حسنین نے۔"

وہ اسے ساتھ لئے کمرے میں آ گیا۔


"اچھا آپ واپس کب آئیں گے؟"

وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

"میری ابھی بات ہوئی ہے ڈرائیکٹر سے... کہہ رہا تھا جلدی فارغ ہو جائیں گے۔ تم ٹینشن مت لو گھر میں سب ہیں تمہارا خیال رکھیں گے۔"

وہ اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔


"ٹھیک ہے پھر آپ مجھے فون کرتے رہنا جب جب فری ہوں۔"

ہجر کا سوچ کر دل ابھی سے اداس ہونے لگا تھا۔

"یہ کہنے کی بات ہے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا۔

وہ مسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔


"میں میڈ کو کہتا ہوں ناشتہ لے آےُ۔"

وہ دروازے کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ پرسکون سی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔


"مام ہم جا رہے ہیں.. "

عدن زینے اترتی ہوئی بولی۔

چہرے کو حجاب سے ڈھانپے مسکراتی ہوئی وہ آ رہی تھی۔

"ﷲ تمہیں کامیاب کرے۔"

وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔


"خالہ کہاں ہیں؟"

وہ لاؤنج میں نظر دوڑاتی ہوئی بولی۔

آبی حسنین کی انگلی تھامے زینے اتر رہی تھی۔

عائلہ شور سن کر کچن سے نکل آئی۔

"جا رہے ہو تم لوگ؟"

وہ انہیں ریڈی دیکھ کر بولی۔


"جی خالہ.. "

عدن ان سے ملتی ہوئی بولی۔

"ہماری ڈول بھی جا رہی ہے؟"

سائرہ اسے گود میں اٹھاتی ہوئی بولی۔


"میں بابا جانی کے ساتھ..."

وہ انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"بابا کی چمچی.. آپ کو معلوم نہیں مام۔"

عدن گھورتی ہوئی بولی۔

حسنین لب دباےُ مسکراہٹ دبا رہا تھا۔


آبی ناک چڑھاتی سائرہ کی گود سے اترتی حسنین کے پاس بھاگ گئی۔

"یہ تو بابا کی جان ہے۔"

وہ اسے اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ عدن کو دیکھتی زبان چڑانے لگی۔


"مام دیکھ لیں آپ اسے... دن بہ دن بدتمیز ہوتی جا رہی ہے۔"

عدن تپ کر بولی۔

"بری بات آبی... ایسے نہیں کرتے۔"

سائری سے قبل حسنین بول پڑا۔

"چلیں اب؟ جناب دیر نہیں ہو رہی ہے۔"

وہ ان دونوں کو دیکھتی طنزیہ بولی۔


"جی جی چلیں۔ ٹھیک ہے پھر ﷲ حافظ۔"

وہ اونچی آواز میں کہتا آگے نکل گیا۔

"ﷲ حافج..."

آبی ہاتھ ہلاتی توتلا کر بولی۔


حسنین آبی کو گود میں بٹھاےُ چہرہ اٹھاےُ ہوۓ تھا۔

عدن سٹیج پر مائیک کے سامنے کھڑی بول رہی تھی۔

"سب لوگ جانتے ہیں میں ایسی نہیں تھی میرے ﷲ نے مجھے ہدایت دی اور میری سیدھی راہ پر آ گئی آج حجاب کرتی ہوں ان شاءاللہ توفیق دی تو پردہ بھی کر لوں گی۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں حجاب کرنے سے خوبصورتی میں کمی آ جاتی ہے.. کیا میں خوبصورت نہیں لگ رہی؟"

وہ معدوم سا مسکرائی۔


"اور میرے نزدیک خوبصورتی سے بڑھ کر کچھ اور ہے۔ وہ ہے میرا دین, میرا خدا, میری آخرت۔

میں کوشش کروں گی اسی طرح مختلف شہروں میں مدارس بناےُ جائیں جہاں لڑکیوں کو دین کی تعلیم دی جاےُ۔ آج کا مسلمان دین سے بہت دور ہے۔

یقین مانیں ہم لوگ دولت اور اس دنیا کی آسائشوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں رہنا۔"

لمحہ بھر کو علی کا مردہ وجود سامنے آ گیا۔

کس تکلیف دہ حال میں وہ اس دنیا سے گیا۔


"یاد رکھیں مرنا ہم سب نے ہے۔ کیا میرے ایوارڈذ مجھے آخرت میں بچا لیں گے؟ کیا میری دولت رشوت کا کام کر پاےُ گی؟ یا یہ دنیا کا ساز و سامان میں آخرت میں استعمال کر پاؤں گی؟ بلکل بھی نہیں۔ آپ میری بہن کی مثال لے لیں۔ بائیس سال کی تھی وہ..."

وہ لمحہ بھر سانس لینے کو رکی۔


"کیا لے گئی وہ یہاں سے؟ اس کی ڈگریاں, اس کی اشیاء, اس کی جائیداد سب یہیں رہ گیا ایک چھوٹی سی چیز بھی وہ لے جا نہیں سکی۔

اور سوچیں وہ لے کر کیا گئی؟ ہم جیسے لوگ براڈ مائنڈ کا نعرہ لگاتے ہر گناہ کو عام کر رہے ہیں۔ آج کی عورت خود اپنی ذات کو بے مول کر رہی ہے۔ ہم تو خوشنصیب ہیں کہ باپ بھائی کے روپ میں ہمارے محافظ ہیں۔

یورپ کی عورت کو دیکھیں جو ایسے خوبصورت رشتوں کی محبت سے محروم ہیں۔ ان سے پوچھیں کیا کبھی ان کے ناز اٹھاےُ گئے؟ وہ دنیا کے دھکے کھاتی پھرتی ہیں ان کے مردوں کے پاس وقت نہیں ہر انسان اپنی زندگی میں مصروف ہے۔

اور یہاں عورت گھر میں رہتی ہے, باہر کی غلیظ دنیا سے محفوظ.. اور ہم اسی چیز کو تنگ نظری کہتے ہیں۔"

حسنین فخر سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"آج کی دنیا میں نیکی کرنا کیوں مشکل لگتا ہے؟ کیونکہ ہم نے گناہوں کو اتنا عام کر دیا ہے کہ اب نیک کام کرنا خود کو دنیا سے کاٹنے کے مترادف ہے۔

ہمارا دن گناہوں سے شروع ہو کر گناہوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور ہم پھر بھی بےفکر گھوم رہے ہیں۔ کوئی پرواہ ہی نہیں۔ دراصل ہم خود کو سوچنے کی زحمت نہیں دیتے۔"

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔


"وقت کم ہے بات مختصر کروں گی۔مزید ایک چیز میں کہنا چاہوں گی کہ ہم نے حجاب کا مذاق بنانا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں اپنے دین کی اقدار کا خیال نہیں رہا۔

آج کل بہت دیکھنے میں آیا ہے لڑکیاں حجاب کرتی ہیں پینٹ شرٹ کے ساتھ۔ میری سمجھ سے باہر ہے اگر آپ دین کو فالو کر رہی ہیں تو پھر حجاب کا مذاق کیوں بنا رہی ہیں؟

اسلام میں چست لباس پہننا ممنوع ہے۔ ایسا لباس جس میں جسم نمایاں ہو پہننے کی اجازت نہیں۔ میں کسی پر تنقید نہیں کر رہی ایک غلط فہمی ہے جو میں دور کرنا چاہ رہی ہوں۔

اسلام اس طرح کے لباس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ کو لگتا ہے میں غلط کہہ رہی ہوں تو یہ بتا دیں یہ رواج آیا کہاں سے ہے؟

کیا حضور کے زمانے میں عورتیں اپنے جسم کی نمائش کیا کرتی تھیں؟ کیا ازواج مطہرات ایسا لباس؟ یہ پینٹ شرٹس اور پارٹی ڈریسز کی وبا مغرب سے آئی ہے۔ غیرمسلموں کی جانب سے۔ اور افسوس کہ ہم ایک تو گناہ کر رہے ہیں پھر ساتھ میں حجاب کر کے اس کی بھی حرمت کو پامال کر رہے ہیں۔"

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


ایک کثیر تعداد تھی عورتوں اور لڑکیوں کی جو اسے سن رہی تھیں۔

"ایک سب سے اہم چیز.. حجاب کیا جاتا ہے تو ہم جوڑا بنانے ہیں تاکہ فیس لک اچھا آےُ جبکہ اسلام میں اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔

جوڑا بنانے کی اجازت نہیں۔ یہ بھی گناہ ہے۔

ویگ نقلی بال جو ہم لگاتے ہیں اس کی بھی اجازت نہیں.. تو آپ دیکھ لیں ہم ایک کام سیدھا کرتے کرتے بھی ساتھ میں غلط کرتے جاتے ہیں۔

آپ حجاب لینا چاہتی ہیں تو لیں لیکن سر پر جوڑا مت بنائیں.. یقین مانیں آپ ایسے بھی اچھی ہی لگیں گیں۔ الحمدللہ میں بھی جوڑا نہیں بناتی اور کبھی میرے شوہر نے نہیں کہا کہ عدن تم اچھی نہیں لگ رہی۔"

پہلی بار اس نے حسنین پر نظر ڈالی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔

وہ سر جھکاےُ مسکرانے لگا۔


"اچھا کام کر رہے ہیں تو گناہ کی گنجائش مت چھوڑیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی اصلاح کرنی چائیے بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں ہیں کہ یہ گناہ ہے اور وہ انجانے میں اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ وقت تک میں بھی نہیں جانتی تھی لیکن جب سے میرے علم میں آیا میں نے اس چیز کا خیال رکھنے کی سعی کی۔

باقی انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر گناہ سرزد کریں,کوشش کرنے سے ہی ملتا ہے ہو سکتا ہے ﷲ کو ہماری کوشش ہی پسند آ جاےُ۔ اب اجازت چاہوں گی آپ سب سے... میری دعا ہے ﷲ اس مدرسے کو کامیاب کرے۔"

وہ مسکراتی ہوئی چلنے لگی۔


وہ سٹیج سے اتر کر حسنین کی جانب بڑھنے لگی۔

"بابا جانی ماما آ گئیں۔"

وہ حسنین کے منہ پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔

"جی جی بابا نے دیکھ لیا ہے۔"

وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟"

وہ آبی کو پکڑتی ہوئی بولی۔

"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتیں جھٹلاؤ گے۔"

بے ساختہ اس کے لبوں سے آزاد ہوا۔

"میں آپ کے لئے نعمت ہوں؟"

اسے بار بار سننے کا اشتیاق تھا۔


"کسی نعمت سے کم نہیں۔"

وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

"بلکل.. اور یہ جو چھوٹی سی رحمت ﷲ نے ہمارے گھر بھیجی ہے۔"

وہ آبی کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔


"ماما اب آئسکریم کھانے چلیں؟"

وہ آنکھیں ٹپٹپاتی ہوئی بولی۔

"میری جان ابھی صبح صبح کون سا پارلر کھولا ہو گا؟"

وہ بولتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔


"بابا جانی آپ نے کہا تھا.. میں نہیں۔"

وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔

"بابا کو آفس بھی تو جانا ہے نہ... رات میں چلیں گیں ماموں کے ساتھ۔"


وہ اسے بہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔

"نو جی... "

وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"بابا کو تنگ نہیں کرتے بری بات۔"

عدن نے مداخلت کی۔


"آپ بھی کرتی ہو۔"

وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔

حسنین کا جاندار قہقہ گونجا۔

عدن منہ کھولے آبی کو دیکھ رہی تھی۔

"ایسے بولتے ہیں؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔


"ہاں جی ایسے بولتے ہیں۔"

وہ بھی اپنے باپ کی بیٹی تھی۔

"آبی..."

حسنین خفگی سے بولا۔

"بابا جانی آئسکریم..."

وہ اس کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔


"یہیں بیٹھی رہو مل جاےُ گی آئسکریم ابھی۔ حسنین کسی شاپ سے لے دیں اسے ورنہ یہ آپ کی جان نہیں چھوڑے گی؟"

وہ گھوری سے نوازتی ہوئی بولی۔

حسنین نے سڑک کے کنارے پر گاڑی روکی۔


"میں آتا ہوں۔"

وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

"آپ نے دادو کو تنگ نہیں کرنا اوکے؟"

عدن اس کی پونی درست کرتی ہوئی بولی۔

"کیوں؟"

وہ آنکھیں سکیڑتی ہوئی بولی۔


"کیوں کا کیا مطلب ہے؟ سارا دن دادو کو بھگاتی رہتی ہو تھک جاتی ہیں وہ۔"

وہ خفگی سے بولا۔

"تو کیا ہوا؟"

وہ عدن انگوٹھی کو چھیڑتی ہوئی بولی۔


"بابا جانی ہی سمجھا سکتے آپ کو۔"

وہ کلس کر بولی۔

"میلی آئسکریم!"

وہ حسنین کے ہاتھ سے لیتی ہوئی چہکی۔


"تم اسٹیج پر کھڑی بہت اچھی لگ رہی تھی۔"

وہ سٹیرنگ پر ہاتھ رکھتا عدن کو دیکھ رہا تھا۔

"ویسے اچھی نہیں لگتی؟"

وہ آبرو اچکا کر بولی۔

"جب تنگ کرتی ہو پھر بلکل بھی اچھی نہیں لگتی۔"

وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔


"لیکن آپ تو مجھے ہمیشہ ہی اچھے لگتے ہو؟ پتہ ہے جل بھن کر بھی مجھ سے بات کرو نہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔"

وہ اپنی حماقت پر ہنس دی۔

"تمہارا یہی پاگل پن مجھے پسند ہے جس کا حقدار صرف میں ہوں۔"

وہ آہستہ سے بولا۔


آبی شیشے سے پار دیکھتی آئسکریم کھانے میں محو تھی۔

"آپ کی یہ داڑھی بہت ظالم ہے۔"

وہ ہاتھ بڑھا کر اس کی داڑھی کو چھوتی ہوئی بولی۔

حسنین کی سنہری آنکھیں مزید چمکنے لگیں۔


آج بھی اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ ہلکے بھورے رنگ کی داڑھی اس پر خوب جچتی تھی۔

"بابا جانی وہ دیکھیں؟"

آبی تقریباً چلاتی ہوئی مڑی۔

عدن نے فوراً ہاتھ نیچے کر لیا۔


"کیا بابا کی جان؟"

وہ آگے ہوتا ہوا بولا۔

عدن کی خفت سے وہ محظوظ ہو رہا تھا۔

"کیمل (اونٹ).. "

وہ پوری آنکھیں کھولے مسکراتی ہوئی بولی۔


"آبی کو پسند ہیں نہ؟"

وہ باہر دیکھتا ہوا بولا۔

"ہم گھر لے کے جائیں گے اسے؟"

وہ مزے لیتی ہوئی بولی۔

حسنین نے آگے بڑھ کر اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔ تو عدن نے اس کے بالوں پر اپنے لب رکھ دئیے۔

وہ دھیرے سے مسکرانے لگا۔

ختم شد....

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sulaghti Rahen Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulaghti rahen  written by Hamna Tanveer  . Sulaghti Rahen by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment