Pages

Wednesday 12 June 2024

Paari Season 1 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story

Paari Season 1 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Paari Season 1 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story

Novel Name: Paari Season 1

Writer Name: Umama Nadeem 

Category: Complete Novel 


  نہیں آپ دونوں جھوٹ بول رہی ہیں۔جنت اب کی بار روتے ہوے بولی۔اور ساتھ ہی با با جانی کہتی ہوئ کمر سے باہر کو دوڈی۔ اور جا کرحاجی احمد کے سینے میں منہ چھپا کر بے حال رونے لگی۔

  دروازے کے باہر سے آتی ہوئ دبی دبی  ہسی کی آواز سے حاجی احمد سمجھ گۓ کہ  ضرور ایمان اور سارہ نے پھر سے کوئ شرارت کی ہے ۔حاجی احمد نے جنت کے ماتھے پر پیار کیا اور بولے کیاان دونوں نے پھر سے میری پری کو تنگ کیا ہے کیا ۔جنت نے روتے ہوۓ سر ہلایا۔شگفتہ جو اب سارہ اور ایمان کا کان پکڑے کمرے مہں داخل ہوئ تھی بولی چلو میری جان بتاؤ کیا کہا ان نے ۔

  ‏جنت کے بولنے سے پہلے ہی ایمان بول پڑی امی قسم  لےلو مینے کچھ نہیں کہا یہ تو سارہ اسے ڈرا رہی تھی کہ بابا تمہیں پری کہتے ہیں تو ایک دن ایک جن آۓ گا اور تمہے لے جاۓ گا۔ اور تھہیں کھا جاۓ گا۔ کیوں کہ پریوں کوتو جن لے جاتے ہیں۔سارہ ایمان کو آنکھیں نکال رہی تھی پر ایمان نے ساری بات بتا دی۔

  ‏شگفتہ نے دونوں کے کان چھوڑے اور فکر مند سی ہو کر اپنی تینوں بیٹیوں کو دیکھا اور پھر حاجی احمد کوجن کے چہرے پر فکر نمایا تھی ۔جنت نے اپنے باپ کو دیکھا اور بولی بابا جانی آپی سچ کہ رہی ہیں 

  ‏حاجی احمد جنت کے سر پر پیار کرتے ہوۓ بولے پری تم بابا کی پری ہو اور بابا کی جان بھی اور جن پریوں کے بابا ہوتے ہیں جن کبھی بھی ان کے پاس نہیں آتے۔پھرانہوں نے اشارے سے سارہ اور ایمان کو اپنے پاس بلایا دونوں کو پیار کیا اور بولے بیٹا تم تینوں بابا کی جان ہو بابا اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرتے ہیں اس لیے تم لوگ کبھی مت ڈرنا اور نہ ہی چھوٹی بہن کو ڈرانا ۔سارہ اور ایمان نے سر ہلایا اور جنت کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئ شگفتہ اور حاجی احمد ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دۓ لیکن دونوں کے ہی دل میں ایک انجانی سی بے چینی ضرور پیدا ہو گئ تھی ہلا نکہ وہ جانتے تھے کہ بچیاں ہیں۔ابھی ان کی عمر ہی کیا تھی سارہ بارہ سال کی ایمان دس سال کی اور پری آٹھ سال کی۔

  ‏💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

چوہدری زریاب نے سالار کے کندہے پر ہاتھ رکھا اور بولے سالار مجھے تم پر بھروسہ ہے-لیکن باپ ہونے کی حیثیت سے اج تمہاری اٹھارہویں سالگرہ پر ایک نصیحت ضرور کروں گا ۔کہ عورت کوئ بھی ہو چاہے تمہارے دشمن کی ہو اس کی عزت کرو ۔لیکن کبھی بھی کسی عورت کو آپنی کمزوری مت بنے دو ۔تمہیں جب کبھی زندگی میں لگا کہ کوئ عورت تمہارے دماغ پر یا دل پر سوار ہو رہی ہے تو اسے نکاح کرو عزت بناو کمزوری نہیں اسے سب دو محبت پیار سب لیکن ساتھ ساتھ اسے اس کی حد ضرور بتاؤ محبت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمہارے سرا پر چڑھ کر ناچنے لگے  ۔ عورت کو عورت ہی لگنا چاہیے۔اور اسے پتا ہونا چاہیے کے شوہر اسکا حاکم ہے ۔ تم سمجھ رہے ہو نہ چوہدری زریاب مسکراتے ہوے سالار کو دیکھ کر بولے۔ سالار جو غصے کا تیز اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والا 

اپنے باپ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ بولا

جی بابا ۔لیکن آپ فکر مت کریں میں چوہدی سالار ہوں ۔کس کی جرت نہیں کہ کوئی آپ کے بیٹے کے دل یا دماغ پر سوار ہو اور آپ کے سالار کو کمزور کرے ۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

دس سال بعد۔

پری بیٹا ضد نہیں کرتے میری جان کالج جاو شاباش تمہارے پیپر ہونے والے ہیں۔ شگفتہ نے کوئی دسوئی بار کہا تھا ۔نہیں جانا اب کی با پری نے چڑے سے انداز سے کہا ۔اف اف پری کیا کروں میں تمہارا کوئ بات تو مان جایا کرو بس اپنی ہی منواتی ہو ۔دیکھو دو تین دن بعد شاپنگ شروع کر نی ہے اور وہ بھی پہلے سارہ کی کرنی ہے دلہن کی ہو گی بعد میں باقی سب کی چلو وعدہ کرتی ہوں ساری شاپنگ میں تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گی ۔

پکا امئ پری تو خوشی سے پاگل ہو گی ٹھیک ہے امی دو تین نہیں ایک ہفتے کے لیے روک جائیں کیوں کہ ہفتے بعد کالج والے فری کر رہے ہیں۔پھر کریں گے شاپنگ کیوں آپی اس نے خوش ہوتے ہوے سارہ کو بازوں میں بھرتے ہوۓ کہا

ہاں ہاں کالج والے اسی لیے تو فری کر رہے ہیں کہ پری صاحبہ شاپنگے کریں پیپرو کا کیا ہے وہ تو ہوتے رہیں گے ایمان پری کی پونی کھینچتے ہوۓ بولی تو سارہ پری کی گال کھینچتے ہوے بولی پری کے بغیر تو شاپنگ میں کروں گی نہیں۔ اور رہی بات تیاری کی وہ میں کروا دوں گی اپنی پیاری سی بہن کی پر ابھ اٹھو اور بھاگو کالج گاڑی والا انے والا ہے ۔

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ولی نے گاڑی روکی تو سالار نے موبائل سے نظر ہٹائ اور بے زار سا ہو کر ولی کو دیکھا ۔تو وہ گھور کر دیکھتےہوے بولا۔ قربان چاچا کا گھر اندر مہلے میں ہے گاڑی وہاں نہیں جا سکتی ۔سالار کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ولی نفی میں سر ہلاتے ہوے بولا سالار قربان چاچا غریب بندہ تھا ۔اس کا گھر ایسے ہی علاقے میں ہونا تھا نا ۔تم کیا سوچ رہے تھے کہ وہ بحریہ ٹاؤن میں رہتا ہے۔چلو ٹھیک ہے تم چیک مجھے دو میں دے آتا ہوں اس کے گھر تم نہ جاؤ۔سالار سے چیک لے کر ولی مسکراتاہوا گاڑی سے یہ کہتے ہوۓ نکلا سالار صاحب ان علاقوں میں رہنے والے غریب بھی انسان ہیں۔ تھوڑی دیربعد سالار گاڑی سے باہر نکا اور گاڑی کو ٹیک لگا کر آگے پیچھے دیکنے لگا۔اچانک اسے کسی کے ہسنے کی آواز آئئ تو بے اختیار اس نے مڑ کر دیکھا بس پھر تو جیسے سالار آنکھیں جھپکنا ہی بھول گیا اس کے سامنے ایک نازک سی لڑکی کھڑی معلوم نہیں کس بات پر دو اور لڑکیوں کے ساتھ ہسے جا رہی تھی ۔ سالار نے اس سر سے پاؤں تک دیکھا اور اسے ایسا لگا جیسے اس کے دل کی دھڑکن رک کر چلی ہو ۔وہ کالج کے سفید یونیفارم میں سادہ سی لڑکی کتنی خوب صورت لگی تھی اسے ۔

 او ہیلو مسٹرسالار ولی نے سالار کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوے اسے مخاطب کیا تو سالار کو جیسے خوش سا آیا۔تو ولی نے ایک دفعہ سامنے کچھ فاصلے پر کھڑی لڑکیؤں کو دیکھا اور پھ سالار کو دیکھ کر پوچھا کیا ہوا۔سالار ولی کی طرف دیکھے بغیر بولا ۔ یہ جو سامنے لڑکیاں ہیں ان میں وہ گلابی بیگ والی مجھے اس کی ساری معلومات چاہیے۔ پھر مڑا اور مزید کچھ کہے بغیر گاڑی لے کر یہ جا وہ جا اور ولی خیرت سے ایک بار دور جاتی گاڑی کو اور ایک بار اس لڑکی کو دیکھ کر خیران کھڑا تھا۔ 💖💖💖💖💖💖💖💖

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀

کالج سے تینوں ایسے نکلی جیسے قیدےبامشعقت کاٹ کر آئی ہوں ۔اف انکل جلدی کریں ۔گاڑی چلائیں۔ بہت گرمی ہے ۔جان جا رہی ہے۔بس اتنا کہنا تھا سدرہ کا۔شاہد تو پھٹ پڑا ۔ہاں ہاں گاڑی چلائیں۔گرمی ہے ۔تم لوگوں کو گھر پہنچاؤں باقی سب کو چھوڑ جا تا ہوں ہےنا۔

جنت اور ثناء کہکہہ لگا کر ہنسنے لگی اور ایک ساتھ بولیں اووووووو بےعزتیاں آج تو بےعزتیاں ہی بےعزتیاں دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسے جا رہی تھیں اور سدرہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھی ۔۔ہاں ہاں اڑا لو مزاق مزا آرہا ہے نا۔تم جیسی دوستوں کے ہوتے ہوۓ بھلا دشمنوں کی کیا ضرورت اور ویسے بھی ٹیچر نے اکیلی میری بےعزتی نہیں کی تم لوگوں کو بھی سنائی تھیں ۔اوووووو اچھا جی اب کی بار وہ پھر سے جب ہسی تو سدرہ نے منہ پھیر لیا۔

سب لڑکیاں جب آگئی تو شاہد نے گاڑی سٹارٹ کی تو سدرہ بولی انکل راستے میں کتابوں کی دکان کے پاس روکنا میں نے کی بک لینی ہے ۔شاہد نے ناگواری سے مڑ کر سدرہ کی طرف دیکھا۔تو جنت اور ثناء تو پاگلوں کی طرح ہسنے لگی ۔تم دونوں کی اتنی ہسی کیوں نکل رہی ہے اب کی بار شاہد جنت اور ثناء سے غصے میں بولا تو سدرہ بھی ہسنے لگی۔پاگل ہو تم تینوں شاہد اتنا کہہ کر خود بھی ان کے بچپنےپر مسکرانے لگا۔ 

گاڑی بک شاپ کے سامنے رکی تو شاہد نے کہا تم لوگ ادھر ہی بیٹھومجھے دو پیسے اور کتاب کا نام بتاؤ میں لے آتا ہوں.دکان پہ رش بہت ہے۔شاہد کے جاتے ہی  تینوں کیری سے باہر نکل کر کھڑی ہو گئیں۔ابھی تک ان کی ہنسی کو بریک نہیں لگ رہی تھی ۔جنت تو ہس ہس کے پاگل ہو رہی تھی ۔اس بات سے انجان کہ کچھ فاصلے پر کھڑا سالار اسے دیکھ رہا ہے۔ہنستے ہنستے ثناء کی نظر ان کی طرف دیکھتے ہوۓسالار پر پڑی اور جنت اور سدرہ کا کندھا ہلاتے ہوۓ بولی دیکھو یار کتنا ہینڈسم بندہ ہے ۔جتنی دیر میں دونوں دیکھتی وہ مڑ رہا تھا۔ کہاں سے ہینڈسم ہے۔ یہ تو کوئی دہشتگرد لگتا ہے بڑے بڑے بال اور داڑھی مونچھیں زرہ دیکھو جنت منہ بناتے ہے بولی۔سدرہ اور ثنأء دونوں جنت کا خیرت سے منہ دیکھ کر بولی اچھا تو ذرہ بتاؤ کیسے ہوتے ہیں ہینڈسم ثناء نے حیرت سے پوچھا تو جنت مسکراتے ہوئے بولی میرے بابا جانی کی طرح کے 🤔🤔🤔🤔اب ثناء اور سدرہ ہستے ہوئے بولیں ہاں ہاں بلکل بلکل تمہارےبابا جانی کی طرح ٹھیک ۔دونوں نے ہسی دباتے ہے کہا۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀

سالار  کن چکروں میں پڑ گیے ہو اور اوپر سے بتاتے بھی نہیں کی مسلہ کیا ہے کیوں چاہیے انفارمیشن اس لڑکی کی 

جہاں تک میں تمہیں جانتا ھوں یہ تمہارا سٹائل نہیں ہے۔ کہاں لڑکیاں تمہاری ایک نظر کو ترستی ہیں۔اور تم کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتے اور کہا تم کل اس لڑکی سے نظر نہیں ہٹا رہے تھے۔ یار مجھے تو کچھ دال میں کالا لگ رہا ہے ۔دیکھو سالار حویلی چلو اس طرح بغیر سکیورٹی کے ادھر رہنا ٹھیک نہیں ۔اور ویسے بھی ہم یہاں قربان چاچا کے گھر افسوس کے لیے آئے تھے۔ وہاں تو تم گئے نہیں۔بلکہ اور ہی چکرون میں پڑ گئے ہو ۔

سالار آپنی بھنویں اٹھا کر ولی کے سینے پر اپنی انگلی لگاتے ہوۓ بولا میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا ولی جب تک اس لڑکی کی ساری انفارمیشن تم مجھے نہیں لا کر دیتے سمجھے۔ اللہ اللہ سالار وہ لڑکی تو تمہارے دماغ پر سوار ہو گئی ہے۔😠خبردار ولی آج یہ کہہ دیا تم نے دوبارہ مت کہنا۔سمجھے اور ایک بات دماغ میں بٹھا لو اس دنیا میں کوئی عورت یہ جرت نہیں رکھتی کہ سالار کے دل و دماغ پر سوار ہو  اب کی بار سالار غصے میں بھڑک کر بولا  ۔اور اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ ولی  ہکا بکا رہ گیا  

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حاجی احمد دفتر سےواپس آۓ شگفتہ جلدی سے پانی کا گلاس لے آئی۔ لیں پانی پئیے احمد وہ پانی کا گلاس دے کر پاس ہی بیٹھتے ہوۓ بولی احمد کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہیں ۔نہیں پریشان نہیں ہوں بس تھکاوٹ ہے تم بتاؤ۔ آئےتھے سارہ کے سسرال والے کیا بات ہوئی ۔شگفتہ لمبی سانس لیتے ہوئے بولی جی آئے تھے۔بتا رہے تھے ان کی تیاری تو مکمل ہو گئی ہے ۔احمد صرف ایک مہینہ ہے اور ہم نے ابھی کچھ تیاری نہیں کی ۔جو پیسے ہیں ان میں تو بس کپڑے ہی آئیں گے ۔😔گیا تھا بینک انہوں نےکہا دس بارہ دن اور انتظار کریں۔حاجی احمد نے دھیمے سے سر جھکاتے ہوۓ کہا شگفتہ جو حاجی احمد کےمایوس چہرے کو دیکھ رہی تھی دل ہی دل میں اپنے شوہر کی پریشانی پر دکھی تھی۔احمد اٹھیں فریش ہو جائیں جا کر اور آرام کریں۔ پریشان مت ہوں اللہ سب خیر کرے گا ۔بچیاں کہاں ہیں نظر نھیں آرہی حاجی احمد نے اٹھتے ہوۓ پوچھا ۔وہ ساتھ بلقیس باجی کے گھر گئیں ہیں انہوں نے قرآن کا ختم شریف کر وانا تھا ۔بس آنے والی ہوں گی 

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

لڑکی کا نام جنت پیار سے سب پری کہتے ہیں ۔عمر اٹھارہ سال ۔ایف ایس سی سٹوڈنٹ ۔باپ کا نام حاجی احمد پروفیسر ہیں ۔ماں کا نام شگفتہ۔دو بہنیں سارہ اور ایمان ۔بائیس  تئیس سال سے کریم پورہ کے علاقے میں رہ رہے ہیں ۔اور سب سے زیادہ خیرت کی بات کہ کوئی رشتے دار نہیں نہ ماں کی طرف سے نہ باپ کی طرف سے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی پوچھے بھی تو ٹال مٹول جاتے ہیں ۔دونوں میاں بیوی ۔اور ہاں بڑی بیٹی کی شادی کر رہے ہیں لندن سے آئی ہے فیملی اور شادی کے لیے بینک سے لون لے رہے ہیں بس یہ ہی انفارمیشن کافی ہے یا ان کے تین ٹائم کے کھانے کا مینیو بھی پتا کروں اب کی بار ولی مسکراتے ہوۓ بولا تو سالار نے ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ۔گھر جانا ہے ان کے ۔ وجہ وجہ بتاؤ پہلے مجھے اس سارے ڈرامے کی وجہ بتاؤ ولی سالار کا ہاتھ جھٹکتے ہوۓ غصے سے بولا۔تو سالار ولی کو گلے لگاتے ہوے بولا یار تیری بھابی اور اس کے گھر والوں سے اپنا تعارف کروانے.ولی جو پہلے سے ہی سالار کی حرکتوں سے پریشان تھا ۔ بات سنتے ہی جھٹکے سے اس سے الگ ہوا اور بولا تم پاگل تو نہیں ہو سالار اس نے اپنے لفظوں پر ذور دیتے ہے کہا وہ وہ جنت یعنی پری وہ بھابی دماغ خراب ہے تمہارا کیا وہ بچی ہے نازک سی سچ مچ کسی پری کی طرح اور خود کو دیکھو ۔سالار ولی کو گھور کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا کیا مطلب خود کو دیکھوں بولو۔ 

یار میرا وہ مطلب نہیں ہے ولی نے سر نفی میں ہلاتے ہوے جواب دیا ۔دیکھو سالار وہ نازک سی ہے تم سے نہیں سنمبھالی جائے گی۔رحم کرو یار اس پر ۔سالار صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوےمسکرا کر بولا رحم ہی کر رہا ہوں اس پر عزت دے رہا ہوں ۔اس کے گھر جاؤ گا۔ اور تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو نہیں جانا مت جاؤ میں اکیلا چلا جاؤں گا۔سالار نے ولی کو خبر درا انداز میں دیکھا اور آنکھیں بندکر لی ۔ولی کچھ دیر کھڑا سالار کو دیکھتا رہا وہ جانتا تھا کہ سالار کو اب روکنا ممکن نہیں ۔ٹھیک ہے کب جا نا ہے اور کیا کہو گے جا کر ولی نے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔ تو سالار نے آنکھیں کھولی ولی کی طرف دیکھا اور بولا صبح جائیں گے اور کیا بات کرنی ہے وہ تم ساتھ ہی ہو گے سن لینا۔اتنا کہ کر سالار نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

  ‏

جنت خدا کے لیے بس کر دو گیارہ بج رہے ہیں ۔اور اگر سونا ہی ہے تو کمرے میں جا کر سو۔لیوینگ روم کی صفائی کرنی ہے ۔ یار اتوار کا مطلب یہ تو نہیں کہ پورا دن سو کے گزارو۔ایمان جنت کو کندھے سے ہلاتے ہوے بولی مگر مجال تھی کہ جنت ٹس سے مس بھی ہوئی ہو۔ شگفتہ لیوینگ روم میں آتے ہوئے بولی ایمان چھوڑ دو بیٹا سونے دواسے تم نے جھاڑو فرش سے لگانا ہے صوفے سے نہیں۔میں چھت پرسارہ کے ساتھ  کپڑے دلوانے جا رہی ہوں۔ اور ہاں دروازے کا خیال رکھنا تمہارے ابو آتے ہوں گے ۔بیل بجے تو کھولنا اور ہاں وہ تمہارے ابو کے کوئی دوست آنے ہیں اگر وہ آئیں تو انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھانا۔ اور مجھے آواز دے دینا۔ ٹھیک ہے۔ جی امی ٹھیک ہے۔ ایمان صفائی کرتے ہوئے بولی ۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ولی یہ سکیورٹی گارڈ کس لیے ۔سالار نے بھنویں اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ولی گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ بولا سالار صاحب جس علاقے میں ہم جا رہے ہیں ہاں کسی کے گھر بن بلاۓ جاؤ اور جاکر مسلہ کرو تو محلہ اکٹھا ہو جاتا ہے۔اور جو کچھ تم کرنے جا رہے ہو وہ اپنے آپ میں سب سے بڑا مسلہ ہے۔باقی اللہ خیر ہی کرے۔ولی نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے نظر ترچھی کر کے سالار کو دیکھا۔ جو سنجیدہ انداز میں اسی کو گھور رہا تھا۔کیا مسلہ کس بات کا مسلہ ہاں بولوسالار نے اپنی دونوں بھنوں کو ملاتے ہوۓ کہا۔ 

ہاں ہاں کوئی مسلہ نہیں جاؤ جاؤمرضی کرو اپنی ۔  اب کی بار ولی نے سالار کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔ اور خاموش ہو گیا ۔کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سالار سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

جنت اٹھو دروازہ کھولو ۔کب سے بیل بج رہی ہے ۔ابو ہوں گے۔ ایمان نے واش روم سے سر نکال کر جنت کو کہا۔ جنت غصے سے آنکھیں ملتی ہوئی بڑبڑاتی اٹھی یہ بابا جانی نہیں ہو سکتے ۔بابا ایسے جاہلوں کی طرح بیل پر ہاتھ نہیں رکھ لیتے ۔

اور یہ جو بھی ہے اس کا توجوہاتھ بیل پر ہے کاٹ کر اسی کے دوسرے ہاتھ میں پکڑاؤں گی میں۔ اتنا کہتے ہوئے جنت نے غصے میں دروازہ کھولا ۔اور نا آؤ دیکھا نہ تاؤ اور سامنے کھڑے سالار اور ولی پر برس پڑی تم لوگوں کو کوئی تمیز شمیز نہیں ہے۔اور تمیز کو چھوڑو عقل بھی نہیں ہے۔

 کہ بیل ایک دفعہ دو دفعہ اور بہت ہی آگ لگی ہو تو تین دفعہ بجاتے ہیں اور پھر صبر کرتے ہیں۔صبر نہیں ہو تو وہاں سے دفعہ ہو جاتے ہیں۔ جنت نے سارا غصہ ایک ہی سانس میں نکالتے ہوئے کہا

تو ولی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہسنے لگا۔اور سالار مسکراتے ہوئے جنت کو سر سے پاؤں تک دیکھتا ایک قدم آگے کو لیتے ہوئے بولا تمہارا دوپٹہ کہاں ہے۔ سالار کو ایک قدم آگے ہوتا دیکھ کر جنت دو قدم پیچھے ہوئی ۔

اور ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگی کہ سالار ایک قدم اور بڑھا کر اندر آتے ہوئے بولا اور تمہاری تمیز کہاں گئی پوچھے بغیراس حالت میں دروازہ کیوں کھولا ۔ سالار جنت کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ سوئی اٹھ کر آئی ہے۔

جنت ایک دفعہ ولی اور دوسری دفعہ سالار کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھتے ہوئے اور شہادت کی انگلی ان دونوں کے آگے لہراتے ہوۓ بولی اوووو ہیلو کدھر گھسے آ رہے ہو اور چلو نکلو نکلو اب وہ ہاتھ کے اشارے سے انہیں باہر جانے کو کہہ رہی تھی تبھی سالار نے اس کے اسی ہاتھ کی کلائی کو پکڑ کر غصے سے آپنی طرف کھینچا

 تو جنت لڑکھڑاتی ہوئی اس کے سینے سے ٹکرائی اور سیکینڈ سے پہلے سنبھلتی ہوئی آپنے دوسرے ہاتھ سے اس کے سینے پر مرتے ہوئے غصے سے بولی چھوڑو میرا ہاتھ ورنہ منہ توڑ دوں گی تمہارا ۔سالار جس سے کبھی کسی کی جرات نہیں تھی کہ آنکھ اٹھا کر بات کرۓ اور یہاں یہ چھوٹی سی لڑکی مسلسل بدتمیزی کئے جا رہی تھی۔

ولی جلدی سے آگے بڑھا اور بولا سالار چھوڑو اسے۔ سالار نے کھا جانے والی نظروں سے ولی کو دیکھا اور کہا تم درمیان میں مت بولو ۔ولی نفی میں سر ہلاتا ہوا پیچھے ہو گیا۔ سیڑھیوں سے اتر تی ہوئی سارہ اور شگفتہ نے سامنے جو سین دیکھا تو ان کے تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ۔

شگفتہ بھاگتی ہوئی آئی اور سالار کو دھکا دیتے ہوئے جنت کا ہاتھ سالار کے ہاتھ سے چھڑواتے ہوئے بولی کون ہو تم تمہاری جرت کیسے ہوئی میری بیٹی کا ہاتھ پکڑنے کی ۔نکلو میرے گھر سے اس سے پہلے کہ میں پولیس کو فون کروں ۔اب سالار نے غصے سے اپنی ویسکوٹ کے نیچے ہولسٹر سے ریوالور نکال کر شگفتہ کے ماتھے پر ٹکاتے ہوئے کہا

میں جس کام سے آیا ہوں وہ کر کے جاؤں گا ۔ریوالور دیکھ کر سارہ اور جنت کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ولی 

سالار کو روکنے کے لیےجلدی سے آگے بڑھنے لگا تو سالار نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ جبکہ جنت اب ڈر کے شگفتہ کے پیچھےچھپ گئی اور سارہ سیڑھیوں کے پاس ہی منہ پر ہاتھ رکھ کر سکتے میں ہو گئی۔ ایمان جو ابھی ابھی کپڑے بدل کر باہر نکلی ماں کے سر پر ریوالور دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔

اور پاس ہی کھڑی سارہ کا خوف سے ہاتھ پکڑ لیا۔شگفتہ نے سالار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا چاہتے ہو تم ۔تو سالار مسکرا کر بولا بتاتا ہوں اور ولی کو اشارے سےپاس بلا کر ریوالور پکڑاتے ہوئے شگفتہ کی طرف آنکھ سے اشارہ کرتے ہوۓ

بولا سنبھالو انہیں اور آگے بڑھ کر ماں کے پیچھے چھپی جنت کو بازو سے پکڑ کر آپنی طرف کھینچا  اور غصے سے بولا ہاتھ سامنے کرو جنت جو پہلے ہی ریوالور دیکھ کر خوف سے کانپ رہی تھی اب سسکیاں لے کر رونے لگئ۔

 پلیز میری امی کو کچھ مت کہنا وہ خوف سے کانپ رہی تھی ۔سالار  دانت بیچتے ہوۓ بولا میں نے کہا ہاتھ آگے کرو ۔سالار کا غصہ دیکھ کر جنت نے کانپتا ہو ہاتھ آگے کو بڑھایا ۔ 

سالار نے جیب سے انگوٹھی نکالی اور جنت کا ہاتھ پکڑ تے ہوئے اس کی انگلی پر پہنا دی جو اس کی انگلی پر فٹ آئی۔اب سالار نے جنت کو بازو سے پکڑ کراپنے قریب کیا 

اور اس کے کان کے پاس جا کر بولا ۔نمبر ون۔مجھے بدتمیزی بلکل پسند نہیں ۔ نمبر ٹو۔ مجھے بات دھرانا پسند نہیں ۔ نمبر تھری ۔یہ انگوٹھی غلطی سے بھی تمہاری انگلی سے اترنی نہیں چاہیے اگر اتری تو یاد رکھنا میں تمہاری انگلی کاٹ دوں گا سمجھی ۔جنت نے خوف سے سر ہلایا۔ 

تو سالار بولا کیوں زبان کوئی کاٹ کر لے گیا ہے۔ابھی تو تھوڑی دیر پہلے بڑی چل رہی تھی۔تو جنت کانپتی ہوئی آواز میں بولی ج ج جی۔سالار نے ایک لمبی سانس لی

 اور اس کی خوشبو سانسوں میں اتارتے ہوئے پیچھے کو ہٹا اور شگفتہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا میں اگلی دفعہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آؤں گا۔ اتنا کہہ کر اس نے ایک آخری نظر جنت پر ڈالی اور ولی کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔ ولی نے ریوالور نیچے کیا اور سر کو جھکا کر سوری بولتا ہوا گھر سے نکل گیا ۔ شگفتہ وہی فرش پر گھٹنوں کے بل گر پڑی اور رونے لگی تینوں لڑکیاں بھاگ کر ماں کے پاس آئیں اور سسکیاں لے کر رونے لگیں ۔شگفتہ نے جنت کی طرف دیکھ کر پوچھا کون تھا یہ۔جنت نے معصومیت سے ماں کی طرف دیکھتے ہوۓ نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا مجھے نہیں پتا امی۔ شگفتہ نے بیٹی کا خوفزدہ چہرہ دیکھا اور آپنی آنکھیں زور سے بھینچ لی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی بیٹی سچ بول رہی ہے۔ابھی شگفتہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ دس بارہ سال کا بچا بھاگتا ہوا اندر آیا اور لمبی لمبی سانس لیتے ہوۓ بولا خالہ خالہ وہ وہ چاچا احمد کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے جلدی آئیں۔

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ولی گاڑی میں بیٹھتے ہی پھٹ پڑا یہ کیا طریقہ تھا سالار۔ سالار کسی گہری سوچ میں ڈوباگاڑی چلا رہا تھا اور ولی آگ بھگولہ ہورہا تھا۔ سالار نے ولی کی طرف دیکھا اور بولا یار ولی جنت کی ماں شگفتہ انٹی ان کو میں نے کہیں دیکھا ہے پہلے کہاں دیکھا ہے یاد نہیں آرہا۔ولی ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ غضب ناک انداز میں بولا ہاں ہاں ہزاروں کی تعداد میں تو گرل فرینڈز رہی ہیں جناب کی ہو سکتا ہے انہی میں سے ہو کوئی سالار نے ولی کو دیکھے بغیر سنجیدگی سے کہا بکواس بند کرو ۔ولی نے گاڑی چلاتے سالار کا کالر پکڑتے ہوۓ کہا تم نے یہ جو حرکت کی ہے انتہائی غلط تھی ۔مجھے پتہ ہوتا تو قسم لے لو میں کبھی تمہارے ساتھ نہ جاتا بلکہ بی جان کو فون کر کے پہلے ہی سب بتا دیتا۔ سالار نے بی جان کا نام سن کر ولی کی طرف دیکھا اور بولا حویلی جا رہے ہیں ہم۔ میں خود بی جان کو خوشخبری دوں گا۔ولی سالار کی بات سن کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر رہ گیا۔🌹🌹

💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ایمرجنسی روم کے باہر سعد. ایمان اور جنت کو ساتھ لگاۓ چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور تعظیم , شگفتہ اور اپنی بہو سارہ کو تسلی دے رہی تھی۔ ایمرجنسی روم کا دروازہ کھولا تو سب بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو شگفتہ جلدی سے بولی ۔ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں ۔احمد  ڈاکٹر نے شگفتہ کو دیکھتے ہوے پوچھا کیا رشتہ ہے آپ کا مریض سے تو وہ ایک دم سے بولی بیوی ہوں میں ان کی۔ سعد کی طرف دیکھ کر ڈاکٹر نے پوچھا آپ کیا لگتے ہیں مریض کے ۔توسعد بولا ۔داماد ہوں میں ۔ٹھیک ہے آپ دونوں میرے ساتھ آئیں ۔ڈاکٹر یہ کہتا ہوااپنے کیبن کی طرف چل پڑا ۔شگفتہ پر تو جیسے کوئی پہاڑ گر گیا تھا ڈاکٹر کی بات سن کر۔وہ روتے ہوۓ بولی ڈاکٹر صاحب اس کے علاوہ اور کوئی تو حل ہو گا ۔دیکھیں بی بی سرجری کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے اگر جلد از جلد مریض کے دل کی سرجری نہ ہوئی تو ان کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اب کی بار سعد بولا ڈاکٹر صاحب سرجری میں کوئی ریسک تو نہیں ہے ۔ڈاکٹر دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا دیکھیں میں اپ سے کوئی بات نہیں چھپاؤں گا ۔صاف صاف بات یہ ہے کہ سرجری میں فیفٹی فیفٹی چانس ہیں ۔مریض کے سروائیو کرنے کے۔یہ سن کر شگفتہ دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر سسک کر رونے لگی سعد شگفتہ کو بازوں میں بھر کر ساتھ لگاتے ہوۓ بولا امی مت روئیں۔ اللہ سب خیر کرے گا۔شگفتہ آنسو پونچھتے ہوۓ بولی سعد ان تینوں کو مت بتانا بیٹا۔ سعد سر ہلاتے ہوۓ بولا جی اچھا اور ڈاکٹر سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا سر ہم مشورہ کر کے بتاتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔آپ مشورہ کر لیں لیکن جلدی ۔

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حویلی کےگیٹ پر کھڑے گارڈ نے سالار گی گاڑی آتی دیکھ کر بھاگ کر گیٹ کھولا اور جھک کر اشارے سے سلام کیا۔ سالار اور ولی نے جواب میں گردن ہلائی۔ سالار نے گاڑی کار پورچ میں کھڑی کی اور ولی کی طرف مسکراتے ہوۓ دیکھ کر بولا یار ولی اب بس بھی کرو۔ اتنا غصہ تو جنت اور اس کے گھر والوں کو نہیں ہو گا۔ جتنا کل سے تم کئے جا رہے ہو۔ ولی کوئی جواب دئیے بغیر گاڑی سے نکلا تو سالار بھاگ کر اس کے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے بولا ۔کیا مسلہ ہے یار سالار نے اپنے دونوں ہاتھ ولی کے کندھوں پر رکھے اور بولا تمہیں تو خوش ہونا چاہیۓ ۔تم ہی سب لوگ پیچھے پڑے تھے کہ شادی کرو ۔اب اگر کرنے کا سوچا ہے تو شکل دیکھو کل سے ایسے بنائی ہے جیسے کوئی مر گیا ہو۔ولی نے سالار کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاۓ اور بولا سالار ایسے انسان سے بات کرنا فضول ہے جس کو اپنی غلطی کا احساس نہ ہو۔ اور تم یہ ہی کر رہے ہو تمہیں اپنی غلطی محسوس ہی نہیں ہو رہی۔ اور مجھے چھوڑو میرا کیا ہے اندر چلو ۔ولی نے سر اٹھا کر ساری حویلی کو دیکھا اور بولا اس حویلی میں تمہیں شاباشی دینے والے بہت ہیں ۔جاؤ بتاؤ ان کو کہ ان کا شیر بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے کر آیا ہے۔ لیکن ایک بات میں بتاؤ ۔بہت مشکل بنا لی ہے تم نے اپنے لیے تمہیں بہت آسان لگ رہا ہے نا کہ انگوٹھی پہنا لی  بس لڑکی تمہاری تو ایک بات دماغ میں بٹھا لو اب وہ لوگ اپنی بیٹی کی شادی ہر گز تم سے نہیں کریں گے ۔کیونکہ غنڈوں کی طرح سر پر ریوالور رکھ کر منگنی کرنے والے داماد کوئی نہیں بناتا ۔سالار نے غصے سے ولی کو کالر سے پکڑ ا اور بولا وہ کیا ان کے فرشتے بھی دیں گے اپنی بیٹی اور اگر نہیں تو اٹھا کر لے آؤ گا سمجھے اور تم اپنا منہ بند رکھو ۔ولی سالار کو غصے سے دھکا دیتے ہے بولا ہاں تو چپ ہی تھا کل سے تم نے ہی بلایا ہے۔ اور ہاں ایک بات یاد رکھنا جہاں جہاں تم غلط کرو گے میں ضرور ٹوکوں گا چاہے تمہیں اچھا لگے یا برا۔ ولی غصے میں اندر چلا گیا ۔سالار نے تیوری چڑھائی اور اس کے پیچھے ہی اندر چل پڑا.ولی اور سالار کو آتا دیکھ کر آمنہ خوشی سے پاگل ہو تی ہوئی بولی میرے شیر اور پہلے ولی کا چہرہ چوما اور پھر سالار کا۔ آمنہ نے دونوں کو غور سے دیکھا اور بولی کیا ہوا تم دونوں کو ولی نے بے زار سی نظروں سے سالار کو دیکھا اور بولا کچھ نہیں اپنے لاڈلے سے پوچھیں ۔ آمنہ نے سالار کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو سالار بولا کچھ نہیں ماں جی اس کا دماغ خراب ہے ۔آپ بتائںیں بی جان اور بابا کدھر ہیں ۔وہ لوگ مرزا صاحب کے بیٹے کی شادی پر گئے ہیں۔ وہ دو تین دن بعد آئیں گے۔اور دادا جی سالار نے اداس سے چہرہ بناتے ہوےپوچھا۔ آمنہ نے ہاتھ سے اشارہ کر تے ہوۓ کہا  اوپر اپنے کمرے میں ہیں۔

لیکن تم دونوں ادھر میرے پاس بیٹھو اور بتاؤ کیا مسلہ ہے ۔سالار ولی کو ہاتھ سے کھینچ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے بولا کچھ نہیں ماں جی بس تھوڑا سا ناراض ہے میں راضی کر لوں گا۔ سالار نے ولی کو اپنی بازوں میں لیتے ہوۓ کہا ۔آمنہ سنجیدگی سے بولی ولی اور ناراض وہ بھی تم سے یہ نہیں ہو سکتا بچپن سے آج تک میں نے تم لوگوں کو ناراض ہوتے نہیں دیکھا ۔تو اب ایسا کیا ہوا ۔آمنہ نے اب دونوں کے کان پکڑتے ہوۓپوچھا ۔نہیں ماں جی کچھ نہیں سالار نے کچھ نہیں کہا بس لگتا ہے میں اور میری سوچ اتنے سالوں میں بھی اس حویلی والوں کی طرح نہیں ہو سکے بس یہ ہی اختلاف ہوا ہے میرے اور سالار کے درمیان پر فکر مت کریں آپ سب کے اصولوں کے مطابق اس نے جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔ ولی نے افسردہ سی مسکراھٹ سے آمنہ اور سالار کو دیکھا اور اٹھا اور بولا ماں جی میں کمرے میں جا رہا ہوں ۔فریش ہو لوں۔ اور جلدی سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔سالار تم کچھ بتاؤ گے آمنہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔اوو ماں جی کچھ نہیں بس ایک سرپرائز ہے ۔بابااور بی جان کو آ لینے دیں پھر سب کو اکٹھا بتاؤں گا ۔سالار اتنا کہہ کر اٹھنے لگا تو آمنہ نے بازو سے پکڑ لیا اور بولی تمہیں لگتا ہے کہ بات جانے بغیر میں تمہیں یہاں سے ہلنے بھی دوں گی ۔سالار نے سر پر ہاتھ رکھتے ہے کہا ہاں آخر ماں کس کی ہیں آپ  چوہدری سالار  

کی اچھا چلیں بتاتا ہوں ۔اممممم وہ سالار نے گردن کے پیچھے کھجاتے ہے کہا۔وہ ماں جی امممم میں نے لڑکی پسند کی ہے ۔شادی کرنی ہے۔کیا آمنہ نے چیخنے کے انداز میں کہا اور سالار کو گلے سے لگا لیا۔ اووو میرا بچہ اللہ اللہ سالار تمہیں نہیں پتہ تم نے اپنی ماں کو کتنی بڑی خوشی دی ہے آمنہ کبھی سالار کی ایک گال چومتی تو کبھی دوسری اور کبھی ماتھاچوم رہی تھی کہ سالار کی نظر دادا جی پر پڑی جو سیڑھیوں کے پاس کھڑے مسکرا رہے تھے۔ سالار جلدی سے آمنہ کو چھوڑ کر دادا جی کے پاس آیا اور  سلام کرتے ہوۓ جھک گیا دادا جی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا کان پکڑتے ہوۓکہا اتنی بڑی خوش خبری دے رہے ہو وہ بھی دادا کو گلے لگاۓ بغیر چل میرا شیر لگ اپنے دادا کے گلے۔ سالار نے دادا کو زور سے گلے لگا لیا ۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شگفتہ احمد کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھی تھی جنت دوسرا اور سارہ اور ایمان ایک ایک پاؤں کے پاس ۔ احمد بولے شگفتہ میں سارہ کی شادی سے پہلے بلکل سرجری نہیں کرواؤں گا اور میرا یہ آخری فیصلہ ہے ۔احمد کی بات سن کر پاس ہی کرسی پر بیٹھی سعد کی امی تعظیم بولیں ٹھیک ہے بھائی صاحب ایسا ہی کر لیتے ہیں ۔سعد اور شگفتہ نے خیرت سے تعظیم کو دیکھا توہاتھ کے اشارے سے انہیں چپ رہنے کا کہہ کر تعظیم بولی نکاح تو پہلے ہی ہو چکا ہے بس رخصتی رہ گئی تھی ۔تو ٹھیک ہے ۔چپ چاپ رخصتی کر لیتے ہیں ۔کیوں سعد کیا کہتے ہو سعد ایک دم سے بولا جی جی ماما جیسا آپ کہیں۔احمد شگفتہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا پر بہن ہم نے تو ابھی کوئی تیاری ہی نہیں کی اور سعد آپ کا اکلوتا بیٹا ہے ۔آپ کے بھی کوئی ارمان ہوں گے ۔ایسے کیسے ہم۔۔ تعظیم احمد کی بات کاٹتے ہوۓ بولی ۔دیکھیں شگفتہ بہن اور بھائی صاحب اس وقت سب سے اہم بات آپ کی صحت ہے ۔اور جہاں تک رہی اپنے ارمان نکالنے کی بات تو وہ  بعد میں لندن جا کر سارے فنگشن کر لیں گے ہم ۔آپ لوگوں کے ساتھ ۔۔کیوں کہ سعد نے لندن میں اپنے ایک دوست سے بات کی ہے ۔اس کا دوست ڈاکٹر ہے۔ آپ کی سرجری ہم وہیں کروائیں گے ۔ایسا کرتے ہیں ۔کہ ھم کل ہی رخصتی کر لیتے ہیں ۔ اور سعد تم کل یا ایک دن آگے کی سیٹیں بک کروا لو ۔ہم لوگ پہلے جا کر ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ ٹائم وغیرہ سیٹ کرتے ہیں ۔اتنی دیر میں اپ لوگ سارہ اور ایمان کے پاسپورٹ بنوا لیں ۔ احمد  نفی میں سر ہلاتے ہوے بولا نہیں بہن ایک میں اپنی بیٹی کو حالی ہاتھ رخصت کرؤں اور اوپر سے داماد سے۔۔۔ ابھی احمد کی بات ابھی مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ سعد بولا آپ ہی نے مجھے کہا تھا کہ اپ کو بابا بولا کروں سارہ کی طرح۔ اور اب خود ہی داماد کہہ رہے ہیں ۔اور جہاں تک بات رہی خالی ہاتھ کی تو سارہ آپ کی بہت سی دعائیں لے کر جاۓ گی جو دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہیں ۔احمد مسکراتے ہوے بولا سعد فخر ہے مجھے تم پر اللہ تمہیں خوش رکھے بیٹا۔ تو سعد مسکراتے ہوے بولا تو ٹھیک ہے ۔کل یا ایک دن بعد کی جو بھی سیٹ بک ہوتی ہے میں کروا لیتا ہوں ہماری اور سارہ کی ۔اجازت ہے آپ کی ۔احمد نے شگفتہ کی طرف دیکھا تو اس نے سر ہلا کر اپنی رضامندی دی۔ شگفتہ نے سعد کی طرف دیکھ کر پوچھا سعد ڈاکٹر نے کیا کہا ہے کب ڈسچارج کریں گے ۔وہ انہوں نے کہا ہے کہ لے جا سکتے ہیں ہم انہیں گھر اور اگر طبیعیت خراب ہو تو جلد از جلد ہاسپٹل لے آئیں۔ دوائیاں دے دی ہیں ۔گاڑی باہر ہی ہے ۔ڈرائیور آپ کو گھر اتار دے گا میں اور ماما گھر جائیں گے پیکینگ کرنی ہے اور سیٹ بھی بک کروانی ہے ۔آئیں میں انکل کو گاڈی تک لے جاتا ہوں ۔سعد نے  اگے بڑھ کر احمد کو سہارہ دیا اور تعظیم بولی سارہ بیٹا تم بھی اج ہی پیکینگ کر لو کیوں کہ اگر کل کی سیٹ ہو جائے  تو تمہاری تیاری ہو۔ 

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سالار ڈائینگ ہال میں داخل ہو تو دادا جی اور ماں جی کو پیار کرتے ہوۓ بولا یہ ولی کہاں ہے۔کل کاجب سے آیا ہے غائب ہے ۔وہ آ رہا ہے ابھی اسی کو ناشتے کے لیے بلا کر آئی ہوں۔آمنہ نے کھانا کھاتے ہوۓ جواب دیا۔ پتہ نہیں کب تک ناراض رہے گا۔ سالار نے کافی کا گھونٹ لیتے ہے کہا تو دادا جی بول پڑے آیا تھا میرے پاس ملنے اور پوچھا تھا میں نے کہ کیوں ناراض ہے ۔دادا جی سالار کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے۔۔ڈرپوک ہے یہ رہنے دو اسے ناراض۔ بس ٹھیک ہے  پسند آئی لڑکی اور انگوٹھی پہنا آئے ۔ہم لوگ جائیں گے ۔اور ریوالور والی بات بھی کلیر کر آئیں گے کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے یہ ۔۔ہاں ہاں انہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اتنے بڑے خاندان کی بہو بنے گی ان کی بیٹی آمنہ نے مغرور انداز میں گردن اکڑاتے ہوۓ کہااب بس بی جان اور تمہارے بابا آ جائیں تو چلتے ہیں ۔ اپنی بہو کے گھر آمنہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔تو سالار مسکرانے لگا اور آنکھیں بند کر کے سر کرسی کے ساتھ ٹکا لیا تو  جنت کا چہرہ بند آنکھوں میں لہرا گیا۔ سالار نے ایک دم سے آنکھیں کھول لیں۔ اس کے چہرے پر عجیب سی خیرانی تھی کیوں کہ پہلی بار ایسا ہوا تھا جس دن سے اس نے جنت کو دیکھا تھا ۔اس کے ساتھ یہ ہی ہو رہا تھا کہ آنکھیں بند کرتا تو اس کا چہرہ سامنے آجاتا اسے دیکھنے کی خواہش ہوتی ۔سالار کے لیے یہ احساس بلکل نیا تھا ۔اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہے ۔وہ جلدی سے اٹھا اور سیدھا ولی کے کمرے کی طرف گیا ۔کمرے میں داخل ہوا تو ولی واش روم سے نکل رہا تھا۔ سالار کو دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف پیھر لیا ۔سالار آگے بڑھ کر بولا ولی یار میری کچھ عجیب سی فیلنگ ہے سمجھ نہیں آ رہی ۔ولی نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ سالار کو دیکھا اورلفظوں کو چبا چبا کر بولا اچھا ۔۔کیا ۔۔فیلینگ ہے جو سمجھ نہیں آ رہی۔اور سالار کے پاس ہی بیٹھ گیا کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ وہ سالار کے اور سالار اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔اور وہ سالار کا چہرہ دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ وہ واقعہ ہی کسی الجھن میں تھا۔سالار ولی کی طرف دیکھتے ہے بولا یار بے چینی ہے آنکھیں بند کرتا ہوں تو ۔۔تو وہ۔۔۔ سالار نے سر دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوے اٹک اٹک کر کہاوہ ۔۔۔وہ ہے نا ۔اتنا کہہ کر سالار کھڑا ہو گیا اور ہاتھ منہ پر پھیرتے ہوے بولا جنت ۔۔پری  وہ سامنے آ جاتی ہے ۔  تو ولی نے پہلے خیرت اور پھر مسکراتے ہوۓ منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔ولی میں نے کوئی لطیفہ نہیں سنایا جو تم مسکرا رہے ہو۔سالار بھنویں اٹھاتے ہے بولا ۔تو ولی نے ہستے ہوۓ سالار کو گلے سے لگا لیا اور بولا مبارک ہو سالار ۔۔سالار نے خیرت سے پوچھا کس بات کی ۔۔تو ولی نے گال پکڑتے ہوے کہا منگنی کی اور کس کی۔۔ سالار آنکھیں سکیڑتا ہوا بولا اچھا بڑی جلدی یاد آئی ہے ۔ولی کہکہہ لگا کر بولا کیوں کہ اب مجھے تسلی ہو گئی ہے۔ اتنا کہہ کر ولی نے سالار کا ہاتھ پکڑا اور بولا چلو یار ناشتہ کریں ۔مجھے بہت بھول لگی ہے ۔ولی اسے ساتھ لیے کمرے سے نکلا اب اسے تسلی تھی کہ جنت سالار کے دل اور دماغ تک پہنچ چکی ہے اب سالار ضرور بدلے گا۔ جنت اسے بدل دے گی اپنی محبت سے ۔مگر  ولی یہ نہیں جانتا تھا کہ سالار کو بدلنا شاید اتنا بھی آسان نہیں تھا۔اس سب کے لیے جنت کوکس کس عزیت سے گزرنا پڑے گا اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا ولی کو بھی نہیں۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کمرے میں آوازیں سن کر جنت کی آنکھ کھل گئی اس نے ایک نظر سارہ اور ایمان کی طرف دیکھا جو آپس میں باتیں کرتے ہوۓ سوٹ کیس بند کر رہی تھیں ۔جنت نے سر اٹھا کر پوچھا آپی کیا کر رہی ہیں آپ لوگ وہ بھی اتنی صبح صبح۔۔ جنت کی بات سن کر سارہ اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوۓ بولی ۔جنت سعد کا رات کو فون آیا تھا سیٹ بک ہو گئی ہیں ۔جنت جلدی سے اٹھ کر بیٹھتے ہوۓ رونی شکل بنا کر بولی آپی آپ سچ میں ہمیں چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ سارہ نے مسکراتے ہوۓ جنت کو گلے لگا تے ہوۓ کہا نہیں پاگل تم لوگ بھی کچھ دنوں میں میرے پاس ہو گے سعد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد تم بس کو بلائیں گے۔ 

جنت نے سارہ کے کندھے پر سر رکھا اور بولی آپی مجھے بہت ڈر لگ ہر ہے ۔تو سارہ جنت کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی میری پرئ کو کس بات سے ڈر لگ رہا ہے ۔جنت اپنی انگلی پر پڑی انگوٹھی جسے وہ پچھلے دو دن سے بھولی ہوئی تھی ۔دیکھ کر کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ شگفتہ کمرے میں آتے ہوۓ بولی ۔تم لوگ کیا کر رہی ہو جلدی کرو ۔ابھی ناستہ بھی کرنا ہے اور سعد لوگ  بھی دس بجے ادھر ہوں گے ۔چار بجے کی فلائیٹ ہے سارہ اور تم وقت ضائع کر رہی ہو اٹھو جلدی سے ۔اور تم جنت جلدی کرو ہاتھ منہ دھو کر ناشتے کی ٹیبل پہ پہنچو ۔اتنا کہہ کر شگفتہ ۔ایمان اور سارہ کو ساتھ لے کر کمرے سے چلی گئی اور جنت ایک بار پھر سے سب کچھ بھول کر واش روم چلی گئ۔

سارہ کو سعد اور اس کی امی کے ساتھ رخصت کر کے سب لیوینگ روم میں بٹھ گئے جنت اپنے باپ کے گلے لگ کر روتے ہوۓ بولی بابا جانی آپی چلی گئیں ۔تو حاجی احمد نے اس کے آنسو پونچھے اور دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولے پری بابا کی جان اپنی آپی کے لیے دعا کرو کہ وہ ہمیشہ خوش رہے وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر گئی ہے ۔اور سب بیٹیوں نے ایک نہ ایک دن جا نا ہی ہوتا ہے ۔ایک دن آۓ گا جب ایمان اور پھر تم بھی اپنے شوہروں کے ساتھ چلی جاؤ گی ۔اب کی بار حاجی احمد رنجیدہ ہوتے ہوۓ بولے۔ تو ان کی نظر جنت کی انگلی پر پڑی تو حیرت سے بولے پری یہ انگوٹھی کتنی پیاری ہے ۔کہاں سے لی۔ پری نے گھبرا کر ماں کی طرف دیکھا تو شگفتہ ایک دم سے اپنے اپ کو سنبھالتے ہوۓ بولی یہ اس کی دوست سدرہ نے دی ہے اسے  ۔ حاجی احمد نے جنت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا پری بیٹا سدرہ کو یہ واپس کر دینا کیوں کہ یہ انگوٹھی کافی مہنگی لگتی ہے ۔ جنت ترچھی نظر سے ماں کودیکھتے ہوۓ بولی جی بابا جانی۔

اچھا بابا کی جان جاؤ اپنے بابا کے لیے مزے کی چاۓ بنا کر لاؤ ۔پری باپ کا گال چومتے ہے بولی ابھی لائی بابا ۔ اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔حاجی احمد شگفتہ سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولے شگفتہ زرہ کمرے میں آؤ مجھے ضروری بات کرنی ہے ۔ شگفتہ اٹھ کر حاجی احمد کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی شوہر کو بیٹھتے دیکھ کر اسی کے پاس جا بیٹھی اور بولی جئ احمد کیا بات ہے۔ احمد نے شگفتہ کا ہاتھ پکڑا اور بولا۔ شگفتہ وہ میں نے رات کو  حیدر کو فو ن کیا۔ یہ سنتے ساتھ ہی شگفتہ احمد سے ہاتھ چھڑواتے ہے کھڑی ہو گئی اور خیرت اور پریشانی سے بولی احمد کیوں کیوں کیا آپ نے اسے فون ۔احمد نے دوبارہ سے شگفتہ کو ہاتھ سے پکر کر بٹھا تے ہوۓ کیا دیکھو شگفتہ میری بات غور اور صبر سے سنو ۔ مجھے اگر کچھ ہو جاتا ہے تو شگفتہ بات کاٹتے ہوۓ بولی اللہ نہ کرے احمد آپ کو کچھ ہو ایسی بات مت کریں ۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو میں اور ہماری بیٹیاں کیا کریں گی۔شگفتہ نے سسکتے ہو کہا تو احمد بولے ہاں یہی تو میں کہہ رہا ہوں اور اسی لیے تو حیدر کو فون کیا ہے اور میری کوئی جمع پونجھی تو ہے نہیں جو تم میرے بعد اس پر گزارہ کرو ۔ اور سعد ہمارا داماد ہے پہلے ہی اس کا ہم پر بڑا احسان ہے جو اس نے خالی ہاتھ ہی ہماری بیٹی کو اپنا لیا ہے ۔اس سے زیادہ میں اس کا احسان کیسے لے سکتا ہوں ۔دیکھو حیدر پاکستان پہنچ گیا ہے ۔ اس کا میسج آیا ہے وہ شام کےوقت آۓ گا ۔ہم لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ فل حال ہم لوگ یہئ شہر کے باہر اس کا گھر ہے وہاں جائیں گے بعد میں ایمان اور پری کا پاسپورٹ بنے کے بعد اس کے ساتھ لندن چلیں گے ۔اور وہی سارہ اور سعد کو بھی حیدر کے بارے میں بتائیں گے ۔شگفتہ سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ تے ہوۓ بولی ۔احمد کیا بتائیں گے کیسے بتائیں گے ۔ہم نے کبھی ان کو کچھ نہیں بتایا۔ احمد نے بیوی کو بازوں میں بھرتے ہوے کہا سمجھ جائیں گی سمجھ دار ہیں ہماری بیٹیاں۔تم جاؤ جا کر ان کی پیکینگ کرو  میں اپنی اور تمہاری پیکینگ کرتا ہوں۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 سالار ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے ہمیں پاکستان آۓ ہم لوگ صرف پانچ دن کے لیۓ آئے تھے ۔تم یہاں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے ہو کیا کرنا ہے وآپسی کا  ایسے لاپرواہی سے تم بزنس تباہ کر دو گے ۔سالار لمبی سانس لیتے ہوۓ بولا ہاں احساس ہے مجھے بس پرسوں بابا لوگ آ جائیں ۔تو ان سے مل کر تمہاری بھابی والا معاملہ حل کر لیں ۔پھر چلتے ہیں۔ اب کی بار سالار نے ولی کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا ۔تمہاری بھابی کو ساتھ لے کر۔ولی سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولا ۔سالار  مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تم تو میڈل کلاس لوگوں سے چڑ کھاتے ہو ۔پھر ایک ہی نظر میں کیا دیکھا تم نے پری میں کے آپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔ولی کی بات سن کر سالار  کھل کر ہستے ہوے بولا ۔ہاں یار بس اچھی لگی وہ اک نظر میں ہی اور اس کی ہسی سنی تو لگا کہ شائد وہ ہسی پوری زندگی بھی سنی جاۓ تو بھی دل نہ بھرے اور زندگی بھر اسے ساتھ رکھنے کے لیے شادی ضروری ہے ۔بس اسی لیے۔۔ ۔میں دعا کرتا ہوں کہ یہ معاملہ اتنا ہی سیدھا اور آسان ہو جتنا تم سمجھ رہے ہوولی نے ہاتھ سے اپنی آنکھیں مسلتے ہوۓ کہا۔  اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوۓ سالار بولا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ولی تم دیکھنا ۔وہ لوگ ہسی خوشی اپنی مرضی سے بیٹی دیں گے جب انہیں ہمارے خاندان اور اسٹیٹس کا پتہ چلے گا۔ اور ویسے بھی یہ مڈل کلاس لوگ آپنی بیٹیوں کے لیے اونچے گھروں کے رشتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔اور رہی بات پری کی تو اس نے خواب میں بھی ایسی عالیشان زندگی نہیں سوچی ہو گی ۔ دنیا جہاں کی ہر نعمت اس کے قدموں میں ڈال دوں گا میں۔ ولی نے سالار کی انکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے کہا سالار زندگی میں سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا۔ شادی میں لڑکی کی بھی مرضی ہونی چاہیے میرے خیال سے پری کی مرضی۔۔۔۔ابھی ولی کی بات ادھوری ہی تھی کہ سالار اپنی شہادت کی انگلی اس کے سامنے کرتے ہے بولا ولی بس اس سے آگے نہیں ۔تمہیں لگتا ہے کہ مجھے پروا ہے پری کی مرضی کی ایک بات کان کھول کر سن لو کیوں کہ میں آخری بار کہوں گا پری کی مرضی My foot سمجھے اس کی شادی ہو گی تو مجھ سے اس کی مرضی سے ہو یا مرضی کے بغیر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس بات سے سالار اپنی بات مکمل کر کے جانےکے لیے مڑا تو ولی بولا اگر وہ کسی اور کو مطلب کسی اور سے اتنی بات سن کر سالار ایک دم سے مڑا اورسنجیدگی سے بولا۔ تو اسے اور اس کے اس کسی اور کو اپنے ہاتھوں سے مار کر قبر میں اتاروں گا اور تم یہ بات لکھ کر رکھ لو ۔

 ‏💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏شگفتہ فون بند کرتے ہوۓ کچن سے ہی ایمان کو آواز دیتے ہوے بولی ایمان ۔۔۔ایمان۔۔ جی امی ۔۔ ایمان بیٹا دیکھو تمہارے بابا جاگ رہے ہیں یا سو گئے۔ اگر جاگ رہے ہیں تو بتاؤ انہیں کہ سارہ لوگ جہاز میں بیٹھ گئے ہیں۔ ابھی فون آیا ہے۔ شگفتہ کی بات سن کر ایمان باپ کے کمرے کی طرف گئی اور جنت ٹی وی کا ریمورٹ رکھ کر ماں کے پاس بھاگ کر آئی اور بولی امی میری بات کروائیں نا آپی سے پلیز۔ شگفتہ کھانا پکاتے ہوۓ بولی بیٹا اس نے بتا کر فون بند کر دیا ہے اب وہ وہاں پہنچ کر فون آن کرے گی ۔پھر کر لینا بات ۔تم یہ بتاؤ پیکینگ مکمل ہے تم دونوں کی ۔تمہارے ماموں آتے ہوں گے۔ ابھی اس نے بات مکمل ہی کی تھی کہ ایمان کے چیخنے کی آواز آئی ۔شگفتہ اور پری بھاگ کر کمرے میں پہنچی تو سامنے کا منظر دیکھ کر دونوں کی چیخیں نکل گئی ۔شگفتہ نے بھاگ کر فرش پر گرے احمد کا سر اٹھا کر روتے ہے  گود میں رکھا اور اسے جھنجوڑنے لگئ احمد احمد خدا کے لیے آنکھیں کھولیں شگفتہ نے باپ کے پاس بیٹھی روتی پری اور ایمان کی طرف دیکھا اور بولی جاؤ جاکر ہمسائے سے  بلقیس خالہ اور سہیل چاچو کو بلاؤ ۔ایمان روتی ہوئی بھاگی۔

 ‏پورے گھر میں چیخو پکار کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ایمان اور پری کا برا حال تھا رو رو رو کر ۔حیدر جب احمد کے گھر کے سامنے آیا تو اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔کانپتے کدموں سے وہ جب گھر کے اندر داخل ہو تو صفے ماتم بچھی تھی ۔اس کی نظر سیدھی شگفتہ پر جا کر روکی جو سکتے کے عالم میں سامنے پڑی چارپائی کو گھور رہی تھی۔ شگفتہ نے ایک دم سے نظر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا تو چیخ مار کر بھاگی اور آ کر حیدر کے گلے لگ گئی ۔ حیدر بھائی دیکھو نا یہ کیا ہو گیا ۔احمد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ شگفتہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ اور حیدر کی آنکھوں سے آنسو کسی خاموش ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔اس نے چارپائی پر پڑے بے جان احمد کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا احمد یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ کم از کم میرا انتظار تو کرتے ۔ بائیس سال بعد مل رہے تھے ہم تم سے تھوڑا انتظار بھی نہ ہوا

 ‏احمد کا جنازہ ہو گیا ۔پری صوفے پر نڈھال پڑی تھی۔ ایمان حیدر اور شگفتہ کے لیے چاۓ بنا کر لائی ۔ حیدر  شگفتہ کی طرف مخاطب ہوتے ہوۓبولا شگفتہ دیکھو کوئی حل نہیں تھا ہم سارہ کا انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔  وہ لوگ اتنی جلدی کیسے آ سکتے تھے اور میت کو اتنی دیر رکھنا مناسب نہیں تھا ۔ اور ویسے بھی کچھ دنوں کی بات ہے ہم لوگ اس کے پاس ہو گے۔ 

 ‏💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چوہدری ‏زریاب نے سالار کو زور سے گلے لگایا اور بولا ہممم تو میرے شیر نے فیصلہ کر لیا۔ جیتے رہو ۔ سالار نے مسکرا کر باپ کو دیکھا اور پھر سامنے بیٹھی بی جان کی طرف بڑھا۔ اور ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو چوم کر بولا بی جان کیسی ہیں بی جان نے سالار کا ماتھا چوما اور بولی میری چھوڑو یہ بتاؤ کب جانا ہے ہمیں ۔اپنی  بہو کے گھر۔ سالار نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا جب آپ حکم کریں۔ تو بس ٹھیک ہے صبح ہم لوگ جائیں گے بی جان نے سالار کو ساتھ لگاتے ہوۓ کہا۔تو آمنہ بول پڑی پر بی جان ایسے کیسے پہلے کچھ تخفے تحائف تو لے لیں ۔کیا ہم اپنی بہو کے گھر حالی ہاتھ جائیں گے۔ بی جان مسکر کر بولی ۔آمنہ اس کے دادا نے مجھے فون پر بتا دیا تھا اس لیے میں کچھ چیزیں لے آئی ہوں دیکھ لو اور اگر کچھ کم ہیں تو کل جاتے ہوے لے جائیں گے۔ بس سب تیاری کرو صبح  جانے کی۔سالار بولا بی جان میں اور ولی آج ہی نکل جائیں گے ۔اپ لوگ کل پہلے میرے اپارٹمنٹ آئیےگا وہاں سے اکٹھے جائیں گے ۔

رات کے آٹھ بج رہے تھے ۔جب ولی پریشان سا اپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو سالار کی طرف دیکھا جو کچھ سوچ کر اکیلے ہی مسکرا رہا تھا۔ کچھ دیر  وہ سالار کو دیکھتا رہا۔ پھر اسے مخاطب کرتے ہوۓ بولا سالار ایک مسلہ ہو گیا ہے سالار نے مڑکر ولی کے پریشان چہرےکی طرف دیکھا۔ تو اٹھ کھڑا ہوا کیا ہوا ولی وہ اسکی طرف دیکھتے ہوے بولا کیا ہوا۔ اپنے بالوں میں بے چینی سے ہاتھ مارتے ہوۓولی بولا سالار وہ پری کے بابا کی دو دن پہلے ڈیتھ ہو گئی ہے سالار بھویں اچکا کر بولا اووو  چلو جو اللہ کی مرضی ۔کیا کئیا جا  سکتا ہے  ۔ چلو صبح سب جا کر افسوس بھی کر لیں گے۔ ۔سالار مسلہ یہ ہے کہ ایک دن پہلے پری لوگ گھر چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں ۔ کہاں گۓ ہیں آس پڑوس والوں کو کچھ خبر نہیں ۔اور تو اور جاتے ہوۓ وہ پڑوس والی انٹی کو باقائدہ  تمہارا اور میرا حولیہ بتا کر گئے ہیں ۔ اس انٹی نے دیکھتے ہی پوچھا کہ کیا میں وہ ہی انگوٹھی والا لڑکا ہوں۔ انہوں نے یہ انگوٹھی مجھے دی ہے ۔ اس انٹی نے یہ کہا کہ شگفتہ انٹی نے وآپس کرنے کو کہا تھا۔ سالار نے ولی کی ہتھیلی پر پڑی انگوٹھی کو دیکھا ۔تو اس کا خون کھول اٹھا۔ اور غصے مےکانپتے ہوۓ بولا ۔

How۔۔۔۔ dare۔۔۔۔ you۔۔۔۔ pari

How dare you۔

غصے سے چیختے ہوۓ سالار نے پاس پڑے شیشے کے میز کو پاؤں مارا جو ٹوٹ کر سارے فرش پر بکھر گیا۔ ولی آگے بڑھنے لگا تو سالار سے چیحتے ہوۓ غصے میں کہا ہمت کیسے ہوئی اس لڑکی کی انگوٹھی اتارنے کی وارننگ دی تھی مینے اسے ڈھونڈھو اسے ولی جلد سے جلد کیوں کہہ جتنی دیر سے وہ میرے سامنے آۓ گی اس کی سزا بھی اتنی زیادہ ہو گی۔ ولی میں تمہیں بتا رہا ہوں ۔ میں چھوڑوں گا نہیں اسے ایک دفعہ بس ایک دفعہ مل جانے دو اسے ٹانگے توڑ دوں گا اس کی پھر کبھی کہی جانے کے لائق نہیں رہے گی۔ سالار عضے میں پاگل ہو رہا تھا ۔ آگے بڑھ کر اس نے ولی کو آستین سے پکڑ تے ہوۓ کہا ولی اسے پتا نہیں کہ اس نے کس کی بات ٹالی ہے ۔آگ سے کھیلی ہے یہ لڑکی اب میں اسے بتاؤں گا کہ سالار کی بات نہ مانے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

باپ کی موت نے جہاں جنت اور ایمان کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہاں پچھلے ایک ہفتے سے بستر سے لگی ماں کو دیکھ دیکھ کر دونوں نڈھال ہو رہی تھیں ۔ دونوں ماں کے ایک ایک کندھے سے لگی بیٹھی تھیں ۔ شگفتہ کا بی پی تھا کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ حیدر شگفتہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا شگفتہ خود کو سنبھالو  اگر تم ایسے حوصلہ ہار جاؤ گی تو بچیوں کا کیا بنے گا دیکھو کیا حالت ہو گئی ہے ان کی ۔اور ہاں میں شام کی فلائٹ سے جا رہا ہوں ۔کچھ ارجنٹ کام آ پڑا ہے آفس میں ۔۔اور ایک دو دن میں تم لوگوں کا ویزہ پروسیجر بھی مکمل ہو جائے گا ۔ شگفتہ نے حیدر کی بات سنی تو شگفتہ نے پری اور ایمان کو باھر جانے کا کہا کہ اسے ان کے ماموں سے ضروری بات کرنی ہے ۔جب لڑکیاں باھر چلی گئی تو شگفتہ مایوس چہرے اور ویران آنکھوں سے حیدر کو دیکھتے ہوۓ بولی ۔نہیں حیدر بھائی مجھے کہیں اور جانا ہے۔حیدر ایک دم سے پیچھے ہٹتے ہوۓ بولا تمہارا دماغ خراب ہے پاگل ہو گئی ہو تم وہاں نہیں جا سکتی تم۔۔۔بھول گئی  سب کچھ ۔تمہیں لگتا ہے کہ وہ لوگ تمہیں قبول کر لیں گے ۔سوال ہی نہیں پیدا ہوتا شگفتہ ۔کہ وہ ہمیں معاف کر دیں ۔کبھی نہیں وہاں نہ تم جاؤ گی نہ میں کبھی نہیں ۔۔حیدر نے حتمی انداز میں کہا تو شگفتہ نے سسکتے ہوۓ اپنا سر حیدر کے کندھے پر رکھ دیا اور بولی حیدر بھائی۔۔۔ نہ کریں معاف وہ مجھے میں بس ایک دفعہ بس ایک دفعہ اپنے بابا اور ماں  کو دیکھنا چاہتی ہوں شگفتہ نے منت کرتے ہوۓ حیدر کو کہا۔ ۔تو حیدر شگفتہ کے سر پر پیار کرتے ہوۓ بولا۔ وہ لوگ نہیں معاف کریں گے تکلیف ہو گی تمہیں وہاں جا کر مان جاؤ میری بات۔ شگفتہ نے حیدر کے کندھے سے سر اٹھایا اور اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی حیدر بھائی بس ماں بابا کو دیکھنا ہے اپنا دکھ سنانا ہے بتانا ہے کہ ان کی بیٹی اجڑ گئی۔ اتنا کہہ کر شگفتہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تو حیدر نے تسلی دیتے ہوۓ کہا ٹھیک ہے کل ڈرائیور لے جاۓ گا ۔تم لوگوں کو ۔ مگر وعدہ کرو ۔وہاں سے نکل کر وآپس ادھر ہی آؤ گی۔ تمہارا یہ بھائی ہمیشہ تمہارے ساتھ تھا اور رہے گا۔ اتنا کہہ کر حیدر کمرے سے باہر نکل گیا۔

 کچھ دیر بعد ایمان اور پری کمرے میں آئی تو شگفتہ نے انہیں اشارہ کرتے ہوۓ اپنے پاس بلایا۔ اور بولی آج میں تم لوگوں کو کچھ بتنا چاہتی ہوں ۔اپنے اور تمہارے ابو کے بارے میں ۔ پھر پری کی طرف دیکھ کر بولی اور جب میں بات کر رہی ہوں تو چپ کر کے سننا ہے درمیان میں بولنا بلکل نہیں ۔شگفتہ کو پتہ تھا کہ پری درمیان میں بولے بغیر نہیں رہے گی اور سوالوں کی لائین لگا دے گی ۔جی امی پری نے سر ہلاتے ہوۓ کہا۔ شگفتہ نے ایک لمبی سانس کھینچی اور بولی۔

چوہدری دلاور اور چوہدری مشتاق دونوں بہت اچھے دوست تھے ۔اتنے کہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔ دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دوستی کو رشتے داری میں بدلہ جاۓ چوہدری دلاور کےدو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جبکہ چوہدری مشتاق کا ایک بیٹا جس کے لیے اس نےچوہدری دلاور سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا چوہدری دلاور نے بیٹی سے پوچھے بغیر دوست کو ہاں کر دی ۔ پری ایک دم سے بات کاٹتے ہوے بولی امی وہ لڑکی آپ تھی ۔ شگفتہ نے پری کی طرف دیکھا اور بولی ہاں میں تھی۔ تو پھر وہ لڑکا بابا جانی تھے  پری نے سوچتے ہوۓ کہا ۔شگفتہ نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولی نہیں وہ تمہارے بابا نہیں تھے۔ اتنا کہہ کر شگفتہ نے پری کو ڈانٹتے ہوے کہا اب درمیان میں مت بولنا پہلے سن لو سب باتوں کے جواب مل جائیں گے تمہیں ۔ 

شگفتہ نے اداس ہوتے ہوے کہا ۔میرے بابا نے ہاں کر دی مگر میں تمہارے بابا کو چاہتی تھی ۔احمد میرے ماموں کے بیٹے تھے ۔ وہ بھی پسند کرتے تھے۔ گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔میں نے بابا سے کہا کہ مجھے احمد سے شادی کرنی ہے تو انہوں نے صاف منع کر دیا بڑے بھائی نے بھی ڈانٹ کر چپ کروا دیا کہ زبان دی ہے بابا نے اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔پھر میں نے تمہارے چھوٹے ماموں حیدر سے کہا ۔حیدر نے سب کو بہت منانے کی کوشیش کی پر کوئی نہ مانا تو حیدر نے چھپ کر میرا نکاح تمہارے بابا سے کروا دیا ۔ جب ہم نکاح کر کے واپس آے تو تمہارے نانا نے ہمیں گھر اور اپنی زندگی سے نکال دیا یہ کہہ کر کہ میں اور حیدر ان کے لیے اور وہ ہمارے لیے مر گئے ۔ شگفتہ بات سناتے ہوۓ اپنی سسکیاں دبا کر رو بھی رہی تھی۔ اور پھر ہم لوگ تمہارے ددیال گۓ تو انہوں نے بھی وہی سلوک کیا ۔ پھر تمہارے بابا مجھے لے کر وہاں سے دور آگۓ۔اور تمہارے حیدر ماموں واپس لندن چلے گئے کیوں کے وہ وہاں پڑھ رہے تھے ۔وہ میری شادی کے لیے پاکستان آۓ تھے ۔ اس سب کے بعد پھر کبھی ہم لوگ واپس نہیں گۓ نہ ہی پھر تمہارے حیدر ماموں کبھی پاکستان آۓ ۔ اب بھی تمہارے بابا نے کال کر کے بلوایا تھا ۔ پری اچھلتے ہوۓ بولی اللہ امی ہمارے اتنے زیادہ رشتے دار ہیں اور اپ نے کبھی بتایا ہی نہیں ۔ شگفتہ پری کی بات سنی ان سنی کرتے ہوۓ بولی ۔۔ کل ہم لوگ تمہارے نانا لوگوں سے ملنے جائیں گے ۔ پری یہ سنتے ساتھ ہی ماں کے گلے لگ گئی اور بولی امی اپ فکر مت کریں میں نانا ابو کو منا لوں گی چٹکی بجا کر ۔ شگفتہ نے پری کی کسی بات کا جواب نہیں دیا کیوں کہ وہ یقین اور بے یقینی کے درمیان تیر رہی تھی اسے خود نہیں پتہ تھا کہ کل کیا ہو گا۔    ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آمنہ کمرے میں آئی تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا آگے بڑھ کر اس نے لائیٹ آن کی تو بیڈ پر آوندھے منہ پڑے سالار کو دیکھ کر اس کے منہ سے آہ نکل گئی اگے بڑھ کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ بولی سالار میرے شیر یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ایسا مت کرو تمہاری یہ حالت دیکھ کر میرا دل گھبراتا ہے ۔چلو اٹھو جلدی کرو ۔تمہارے دادا بلا رہے ہیں تمہیں ۔وہ جس بندے کو انہوں نے تلاش کے لیے لگایا تھا وہ آیا تھا ۔مجھے لگتا ہے۔کچھ پتہ چلا ہے اس لڑکی کے بارے میں۔ ماں کی بات سن کر سالار جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا کیا واقعہ ہی۔اس نے سوالیہ نظروں سے مان کو دیکھا تو آمنہ نے سر ہلا دیا۔ کہاں ہیں دادا اس نے جلد سے اٹھتے ہوۓ پوچھا۔ تو آمنہ نے کہا اسٹڈی روم میں ۔ سالار سنتے ساتھ ہی کمرے سے ہڑبڑاہٹ میں نکلا اور سیدھا اسٹڈی روم کے باہر جا کر رکا ۔اور دروازے پر دستک دی تو اندر سے دادا نے کہا آجاؤ۔ سالار اندر گیا تو بولا دادا کیا اطلاع ہے کچھ پتا چلا۔ دادا نے اپنا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپاتے ہوۓ صرف ہممم کیا ۔تو سالار بےچینی سے دادا کے پاس بیٹھتے ہے بولا تو بتائیں نا۔ دادا نے پاس پڑی فائیل سالار کو تھماتے ہوۓ کہا اس میں ساری معلومات ہیں ان کے دادا پر دادا تک ۔تو ولی خیرانی سے بولا مگر دادا جان ان کا تو کوئی رشتے دار نہیں ہے۔ دادا افسردہ سے مسکراۓ اورآہ بھر کر بولے ۔تم دیکھ لو اور زیادہ خیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اور ہاں ابھی پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئی ہیں کل تک وہ بھی پتہ چل جاۓ گا دادا کی بات سن کر سالار  فائیل پاس پڑی میز پر رکھتے ہوۓ  بولا دادا مجھے اس کے دادا پر دادا سے کوئی مطلب نہیں ہے مجھے بس اس کا پتہ چاہیے۔دادا سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے پہلے فائیل کھولو ۔سالار نے دانت پیستے ہوے فائیل اٹھائی اور کھول کر اسے پڑھنے لگا سالار  جیسے جیسے فائیل میں موجود انفارمیشن دیکھتا تو ایک دفعہ دادا کی طرف اور ایک دفعہ فائیل کی طرف دیکھتا۔

فائیل بند کرتے ہۓ سالار بولا اسی لیے میں بھی کہوں کہیں دیکھی دیکھی لگتی ہے اس کی امی ۔۔سالار نے لمبی سانس لی اور سولیہ نظروں سے دادا کو دیکھتے ہوۓ بولا دادا جان اب ؟۔دادا مسکراۓ اور بولے مجھے اندازہ ہے کہ وہ  کس کے ساتھ ہوں گی ماں بیٹیاں۔۔۔ بس کل تک کا انتظار کرو کل اطلاع مل جاے گی ۔دادا نے سالار کا چہرہ چوما اور بولے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا پوتا کوئی خواہش کرۓ اور وہ پوری نہ ہو ہمم۔ چلو جاؤ اور جا کر اپنی حالت ٹھیک کرو۔ اور ولی کو کال کرو اسے پہلے ہی تم نے اکیلا واپس بھیج دیا ہے ۔وہ اکیلا وہاں آفس سنبھال رہا ہے ۔بات کرو اس سے کام ہے اسے ۔ جاؤ۔ اور ہاں باقی سب گھر والوں کو بھیجو مجھے ان سے بات کرنی ہے ۔

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اف امی دیکھیں نا پری کا بخار تو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایمان نےپری کے ماتھے پر ہاتھ لگاتے ہوۓ کہا۔ تو شگفتہ نے آگے بڑھ کر پری کو ہاتھ لگا کر چیک کیا اور بولی پری بیٹا جب تک تم ٹھیک نہیں ہوتی ہم تمہارے نانا کی طرف نہیں جائیں گے۔ پری نےاٹھ کر بیٹھتے ہو  ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور آہستہ سے بولی امی آپ اور ایمان آپی جائیں ۔ جا کر نانا ابو سے مل کر آئیں ۔ میں گھر پر ہی ٹھیک ہوں۔ پری کی بات سن کر شگفتہ سنجیدہ لہجے میں بولی پاگل ہو تم اتنا بخار ہے تمہیں اور ہم لوگ تمہیں اکیلا چھوڑ جائیں ۔ بلکل نہیں۔ پری ماں کے ہاتھ پر پیار کرتے ہوۓ بولی امی میں دوائی کھاؤں گی اور کچھ دیر نیند لوں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔ اور ویسے بھی اکیلی کہاں ہوں ۔کام والی رات تک رہتی ہے اور باہر گارڈ بھی ہے ۔ اور شام تک ویسے بھی آپ لوگ آ ہی جائیں گی۔ شگفتہ لمبی سانس لیتے ہوۓ بولی اچھا تو ٹھیک ہے پھر ایمان بھی نہیں جاے گی ۔ میں اکیلی جاؤں گی۔ پری جلدی سے سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولی نہیں بلکل نہیں اکیلے نہیں جائیں گی آپ پہلے ہی آپ کا بی پی ٹھیک نہیں ہوتا اکیلے تو آپ نہیں جائیں گی ۔شگفتہ پری کو پیار کرتے ہوۓ بولی اچھا ٹھیک ہے ۔پر تم وعدہ کرو بستر سے نیچے نہیں اترو گی ہمارے آنے تک اور آرام کرو گی۔ پری نے مسکراتے ہوۓ کہا پکا وعدہ۔۔۔شگفتہ اٹھتے ہوۓ بولی نو بج گئے ہیں ہم لوگ آدھے گھنٹے تک نکلے گے ۔اور میں جاتے ہوۓ کام والی کو سمجھا جاتی ہوں۔ وہ ہمارے آنے تک تمہارا خیال رکھے گی۔ ابھی میں کچھ کھانے کے لیے بھیجتی ہوں کھا لینا ۔پری نے جی کہتے ہوۓ سر ہلایا۔ تو شگفتہ ایمان سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولی بیٹا تم جلد سے تیار ہو جاؤ جلد جائیں گے تو ہی جلدی آئیں گے۔ شگفتہ یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آمنہ بی جان کے پاس بیٹھتے ہوۓمنہ بنا کر بولی دیکھیں نا بی جان ابا جی نے سالار کو بھیج دیا ۔ بی جان مسکرائی اور بولی آمنہ کیوں پریشان ہوتی ہو آ جاۓ گا رات تک کسی کام سے گیا ہے ۔ اور لندن بھی تو وہ رہتا ہے ۔ کئی کئی مہینے بعد آتا ہے ۔وہ کون سا پہلی دفعہ گھر سے باہرگیا ہے۔آمنہ چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوۓ بولی وہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں پر ابھی تو وہ پریشان تھا اس لیے میں کہہ رہی تھی ۔کہ وہ ابھی گھر پر ہی رہتا۔ دیکھو آ منہ مردو کو ہر طرح کے معاملات سے نمٹانا آنا چاہیے۔اگر مرد پریشان ہو کر منہ چھپا کر بیٹھ جائیں گے تو سارے کام ہو چکے۔ بی جان نے آمنہ کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔ تو آمنہ کچھ سوچتی ہوئی چاۓ پینے لگی۔ 

سکینہ ماسی جس کی عمر تقریباً پچاس  پچپن برس تھی بھاگتی ہوئی ہال میں بیٹھی بی جان اور آمنہ کے پاس آئی اور بولی بی بی جی بڑی بی بی جی کہتی ہوئی لمبے لمبے سانس لینےلگی۔ تو آمنہ اور بی جان اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ۔ ایک ساتھ بولی اللہ خیر ۔ آمنہ کھڑے ہوتے ہوۓ گھبرا کر بولی کیا ہوا سکینہ ماسی  خیر تو ہے۔ سکینہ بی جان کی طرف دیکھتے ہوے بولی بی جان وہ وہ آ گئی ہیں ۔ بی جان پریشان ہو کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں کون کون آگئی ہے۔ ابھی سکینہ نے جواب   نہیں دیا تھا کہ اس کے پیچھے سے آواز آئی اسلام و علیکم امی جی ۔ ۔ بی جان نے سانس روکتے ہوۓ سکینہ کے پیچھے دیکھا تو جیسے سکتے میں آگئیں۔ اب آمنہ اور بی جان اک ٹک سامنے کھڑی  شگفتہ کو دیکھے جا رہی تھیں ۔شگفتہ کی آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح برس رہے تھے وہ آگے بڑھی اور بی جان کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونے لگی ماں میں اجڑ گئی دیکھو نا ماں جی احمد مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔ 

بی جان شگفتہ کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔اور سسک کر رونے لگیں۔ماں جی احمد نہیں رہے شگفتہ نے سسکتے ہوۓکہا۔ بی جان کو اب جہاں بیٹی کے بیوہ ہونے کا دکھ ہو رہا تھا وہیں احمد کا بھی دکھ تھا اور کیوں نہ ہوتا احمد آخر ان کے بھائی کا بیٹا تھا ۔(دادا جی نے سب گھر والوں کو صرف اتنا بتایا تھا کہ پری شگفتہ کی بیٹی ہے ۔پر یہ نہیں بتایا تھا کہ احمد مر گیا ہے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیوی یعنی بی جان کو دکھ ہو گا۔ ) آمنہ نے آگے بڑھ کر ایمان کو پیار کیا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی میرا نام آمنہ ہے تمہارے ماموں چوہدری زریاب کی بیوی ہوں۔ کیا نام ہے تمہارا بیٹا ایمان نے جواب دیا  ایمان احمد۔ آمنہ نے دروازے کی طرف دیکھا اور بولی تمہارے اور کوئی بہن بھائی ۔( آمنہ جانتی تو سب کچھ تھی کیوں کہ دادا جی نے بتایا تھا کہ شگفتہ کی تین بیٹیاں ہیں اور سالار کو سب سے چھوٹی والی پسند ہے۔ آمنہ صرف اپنے بیٹے کی بےچینی کی وجہ یعنی پری کو دیکھنا چاہتی تھی۔ ) آمنہ کی بات سن کر ایمان بولی جی مامی ہم لوگ تین بہنیں ہیں بڑی سارہ آپی ان کی شادی ہو گئی ہے وہ لندن ہوتی ہیں ۔پھر میں اور مجھ سے چھوٹی جنت ۔ آمنہ بے چین سے انداز میں بولی تو جنت کہاں ہے وہ نہیں آئی تم لوگوں کے ساتھ ۔نہیں مامی اس کو بہت زیادہ بخار تھا رات سے۔۔ اسے نہیں لے کر آۓ۔آمنہ نے مڑ کر شگفتہ اور بی جان کی طرف دیکھا جو ابھی تک گلے لگ کر رو رہی تھیں ۔ آمنہ آگے بڑھی اور شگفتہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی کیوں مجھے نہیں ملو گی بھول گئی مجھے شگفتہ جلدی سے اپنی ماں سے الگ ہوئی اور آمنہ کی طرف دیکھا تو اسے زور سے گلے لگا لیا ۔ آمنہ میری بہن شگفتہ پیار بھرے لہجےمیں بولی۔تو آمنہ  مصنوعی غصے سے شگفتہ کو پیچھے کرتے ہوۓ بولی کوئی نہیں ہوں میں تمہاری بہن شہن اگر ہوتی تو اتنے سالوں میں ایک دفعہ تو رابطہ کرتی۔ میں تمہاری صرف بھابی ہی تو نہیں تھی چچا کی بیٹی بھی تھی اور اس سے بھی زیادہ ہم  دوست بھی تو تھے۔ جاؤ میں نہیں بولتی تم سے۔ آمنہ منہ بناتے ہوۓ بولی تو شگفتہ مسکرا اٹھی اور بولی آمنہ بلکل نہیں بدلی تم بلکل ویسے کی ویسی ہو اور ایک مزے کی بات بتاؤں میرے پاس ایک  سیمپل ہے بلکل تمہاری طرح کا آمنہ نے شگفتہ کی بات سنی تو آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کون تو شگفتہ آمنہ کا گال پکڑتے ہوۓ بولی میری چھوٹی بیٹی پری ۔شگفتہ ایک دم سے جیسے خوش میں آتے ہوۓ بولی اور ہاں وہ سالار کدھر ہے ۔کیسا ہے وہ اب تو وہ بہت بڑا ہو گیا ہو گا اس وقت وہ پانچ چھ سال کا تھا ۔۔اس کی شادی کر دی کیا۔ آمنہ بیٹے کا نام سن کر مسکرا اٹھی اور بولی ہاں بڑا تو ہو گیا ہے پر شادی نہیں کی ابھی۔۔۔ اب تم آگئی ہو نا تم کروانا اپنے لاڈلے کی شادی شگفتہ مسکرا کر بولی ہاں کیوں نہیں ۔ اتنا کہہ کر شگفتہ ماں سےمخاطب ہوئی جو اب ایمان سے مل رہی تھیں ۔ ماں بابا کہاں ہیں ۔ بی جان ایمان کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولیں ۔اوپر سٹیڈی روم میں۔ شگفتہ نے سر اٹھا کر اوپر والی منزل کی طرف دیکھا ۔اور بولی مجھے ملنا ہے بابا سے بی جان دوبارہ سے اٹھی اور شگفتہ کے پاس آ کر بولیں۔ دیکھو بیٹا جاؤ لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر تمہارے بابا غصہ کریں تو برا مت منانا ۔ وہ تمہیں معاف ضرور کر دیں گے مگر کچھ وقت لگے گا ۔کیوں کہ تم نے جو کیا انہیں اس کی تکلیف ہے ۔تم جانتی ہو وہ تمہیں اپنی جان سے زیارہ عزیز رکھتے تھے ۔ اور جس دن سے تم اس حویلی سے گئی ہو تمہارے بابا جان نے کبھی ڈائینگ ٹیبل پر سب کے ساتھ کھانا نہیں کھایا ۔وہ کہیں یا نہ کہیں لیکن آج بھی وہ تم سے پیار کرتے ہیں ۔اور تم جانتی ہو  تمہارے ایک فیصلے نے ان سے ان کی دو لاڈلی اولادیں دور کی تھیں ایک تم اور دوسرا حیدر۔۔۔ بی جان نے حیدر کا نام لیا تو ان کے منہ سے بے اختیار آہ نکل گئی کیوں کہ حیدر کو ملے بائیس برس بیت گۓ تھے۔ ۔بی جان آنسو پونچتے ہوۓ بولیں

 اور یہ تکلیف تمہارے بابا کو آج تک ہے۔ شگفتہ ماں کی بات سن کر سر ہلاتی ہوئی سیڑھیاں  چڑھ گئی۔ 

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سالار یار مجھے تو یقین نہیں آ رہا ۔کہ پری پھپو شگفتہ کی بیٹی ہے۔ یار دادا اور تمہارے بابا مان کیسے گئے اس سے تمہاری شادی کے لیے  اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یار مجھے نہیں لگتا پھپو مانیں انہوں نے تمہیں دیکھتے ساتھ ہی انکار کر دینا ہے ۔ فون کے دوسری طرف ولی نے بے چینی سے کہا  تو  سالار نے قہقہہ لگایا اور بولا ولی وہ مانے یا نہ مانے ان کی بیٹی خود کہے گی اس شادی کا میں کہلواؤں گا ۔تم بس دیکھتے جاؤ۔ سالار کی بات سن کر ولی جھنجھلا کر بولا سالار دیکھو کوئی غلط حرکت مت کرنا سمجھے۔میں تمہیں بتا رہا ہوں دیکھو وہ بہت چھوٹی ہے ڈر جاے گی یار ۔۔اور ویسے بھی زور زبردستی سے شادی کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ تھوڑا وقت دو اس معاملےکو اب۔۔ ویسے بھی گھر کی بات ہے ۔ کہیں نہیں جاۓ گی اب وہ ۔سالار نے ولی کی بات سن کر دانت پیستے ہوۓ کہا۔جانے تو اب میں اسے کہیں دوں گا بھی نہیں ۔اور ولی تم مجھے سبق مت سکھاؤ ۔اور تم کیاچاہتے ہو کہ میں واپس آؤ یا یہی پر ان چکروں میں پڑا رہوں ۔اف سالار میرا کام تھا تمہیں مشورہ دینا ۔چاہے تم مانو یا نہ مانو کل کو یہ تو نہیں کہو گے نا کہ میں نے سمجھایا نہیں تھا۔ باقی کرنی تو تم نے اپنی ہی مرضی ہے۔چلو ٹھیک ہے میں فون رکھتا ہوں تھوڑا کام ہے پھر بات ہوتی ہے اللہ حافظ کہہ کر ولی نے فون بند کر دیا۔ ۔تو سالار نے  صوفے کو ٹیک لگائی اور مسکراتے ہوۓ بولا ۔تیار ہو جاؤ مس پری اب میں تمہیں سبق سکھاؤں گا کہ کیسے آئندہ کے بعد میری بات ماننی ہے اور میری بات نہ ماننے کی کیا سزا ہے ۔ بہت ضروری ہے تمہارے لیے میرے ساتھ رہنے کے اصول سیکھنا ۔ اور ان پر عمل کرنا ۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 شگفتہ نے سٹڈی روم کے دروازے پر دستک دی تو  چوہدری دلاور نے آجاؤ کہا چوہدری دلاور کو اس کے جاسوس نے پہلے ہی شگفتہ کے حویلی کی طرف آنے کی اطلاع دے دی تھی ۔اس لیے وہ اسے دیکھ کر بلکل بھی حیران نہیں تھا۔ شگفتہ کو اندر آۓ دو منٹ ہو گۓ تھے اور ابھی تک چوہدری دلاور کچھ نہیں بولا تھا۔ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوۓ اس نے شگفتہ کی طرف سنجیدگی سے دیکھا  ۔جو ہونٹوں کو دبا کر اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دل ہی دل میں چوہدری دلاور خون کے آنسو رو رہا تھا اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر ۔۔۔وہ اسے  دل میں معاف تو بہت پہلے ہی کر چکا تھا مگر اناء اور ناک اسے یہ ماننے نہیں دے رہی تھیں۔۔ چوہدری دلاور نے آنسو پیتے ہوۓ کہا ۔آ گئی یاد ماں باپ کی ۔۔ جب سر پر چھت نہیں رہا۔ ابھی بھی اگر وہ احمد نہ مرتا تو کہاں آنا تھا ۔تم نے ۔ہمممم بولو ٹھیک کہہ رہاہوں میں شگفتہ خاموش کھڑی آنسو بہا رہی تھی  ۔ اسے اس بات کی بلکل بھی خیرت نہیں تھی کہ انہیں احمد کی موت کا پہلے سے پتہ ہے۔ وہ جانتی تھی کسی  کے بارے میں بھی  معلومات حاصل کرنا۔ اس کے بابا کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔  کیا جواب دیتی باپ کو کیوں کہ کہہ تو وہ ٹھیک رہے تھے۔ چوہدری دلاور کرسی سے اٹھا اور چلتا ہوا شگفتہ کے پاس آ کر رکا اور بولا ۔کہو کیا چاہتی ہو ۔شگفتہ نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا اور بولی بابا معاف کر دیں ۔معافی چاہیے ۔بس ایک دفعہ معاف کر دیں ۔  چوہدری دلاور منہ پھیر کر بولے ۔ کہاں رہ رہی ہو ۔ شگفتہ بولی بابا حیدر بھائی کے دوست کا گھر خالی پڑا ہے وہاں۔۔ چوہدری دلاور طنزیہ مسکرا کر بولے واہ کیا بات ہے یہ وقت بھی آنا تھا جس چوہدری دلاور کے گھروں اور حویلیوں کی گنتی نہیں کی جا سکتی اس کی آپنی اولادیں لوگوں کے گھروں میں رہ رہی ہیں۔۔ شگفتہ مرجھائی سی آواز میں بولی بابا میں یہاں رہ لوں کہاں جاؤں گی میں دو بیٹیاں لے کر۔۔ چوہدری دلاور جو ابھی تک اسی بات کا انتظار کر رہا تھا کہ شگفتہ خود حویلی میں رہنے کی بات کرۓ۔ مڑا اور بولا۔ ہاں رہ سکتی ہو مگر میری ایک شرط ہو گی ۔شگفتہ باپ کے مان جانے پرخوشی سے سوچے سمجھے بغیر ہی بولی جی بابا آپ کی ہر شرط منظور ہے مجھے بس آپ معاف کر دیں۔ چوہدری دلاور نے شگفتہ کی طرف دیکھا اور بولے اور اگر شرط تمہیں منظور نہ ہوئی تو ۔شگفتہ اپنا چہرہ صاف کرتے ہوۓ بولی بابا آپ شرط بتائیں ۔ اپ اگر میری جان بھی مانگیں گے  تو اللہ کی قسم ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوچون گی وہ بھی دے دوں گی۔ چوہدری دلاور نفی میں سر ہلاتے ہوے بولے ابھی نہیں سب گھر والوں کے سامنے بتاؤں گا ۔  اتنے میں سٹڈی روم کے دروازے پر دستک ہوئی اور بی جان ایمان کو لے کر اندر آئی۔ اور بولی چوہدری جی یہ ایمان ہے آپ کی نواسی ۔ایمان نے آگے بڑھ کر چوہدری دلاور کے آگے سر کیا ۔تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا بی جان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بی جان سمجھ گئیں کہ وہ پری کا پوچھنا چاہ رہے ہیں ۔بی جان جلدی سے بولیں ۔تین نواسیاں ہیں آپ کی۔۔۔ بڑی سارہ کی شادی ہو چکی ہے اس سے چھوٹی آپ کے سامنے ہے اور سب سے چھوٹی جنت جسے پیار سے پری کہتے ہیں وہ نہیں آئی۔ بیمار ہے۔چوہدری دلاور یہ سن کر شگفتہ کی طرف دیکھ کر بولے ۔پتہ دو جہاں تم لوگ رہ رہی ہو سالار شہر ہی ہے ۔آنا ہے اسے حویلی آتے ہوۓ جنت کو لے آۓ گا۔ اور اگر کوئی سامان لانا ہے تو وہ بھی منگوا لو کیوں کے عدت ختم ہونے تک  تم گھرسے باہر نہیں جاؤ گی ۔شگفتہ صرف جی بابا ہی کہہ سکی۔  

 ‏💖💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

دیکھو پری ڈرنے کی بات نہیں ہے ۔سالار  تمہارے ماموں کا بیٹا ہے بھائی ہے ۔ شگفتہ اب کی بار چڑھ کر بولی تھی ۔ کیوں کہ فون کے دوسری طرف پری بس ایک ہی بات کہے جا رہی تھی مجھے نہیں آنا کسی سالار شار کے ساتھ آپ نے کہا تھا کہ شام تک آپ لوگ آ جائیں گی ۔پری میری جان دیکھو تمہارے نانا جان مان گۓ ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم لوگ حویلی میں رہیں گے اور انہی نے تمہیں سالار کے ساتھ آنے کا کہا ہے ۔ اب اگر تم ضد کرو گی تو وہ کیا سوچیں گے کے کتنی  بدتمیزی ہیں میری بیٹیاں بڑوں کی بات نہیں مانتی۔ چلو میری پیاری بیٹی تیار ہو جاؤ۔ کام والی سے میری بات ہو گئی ہے ۔گھر کی چابی اسے دینی ہے پہلے بھی اسی کے پاس تھی۔ اور جو چیزیں بتائی ہیں۔ سب لے آنا ۔ اور ہاں ایک اور بات زرہ منہ بند رکھنا زیادہ باتیں مت کرنا یہ نہ ہو کہ سالار کے کان کھا جاؤ۔ اور ادھر آ کر بھی تھوڑی تمیز میں ہی رہنا۔ ماں کی بات سن کر پری ناراضگی کے انداز میں بولی کیا مطلب ہے آپ کا میں بد تمیز ہوں۔ اور باتونی ہوں۔ جو کان کھاؤں گئی کسی عیرے غیرے کے 😏۔۔۔اف پری اللہ کا واسطہ ہے سوچ کر بولا کرو ۔اور سالار کوئی عیرہ غیرہ نہیں ہے ماموں کا بیٹا ہے تمہارا ۔۔اللہ اللہ یہ لوگ  سن لیں  تو کتنا برا لگے  انہیں ۔ ۔ہاں ہاں تو لگتارہے برا۔۔۔ امی ایک بات بتا دوں میں مجھے نہیں رہنا حویلی میں ۔ویسے بھی سدرہ کی کال آئی تھی ڈیٹ شیٹ آ گئی ہے میری پیپر سٹارٹ ہو رہے ہیں میرے ۔صبح جا کر وہ بھی لینی تھی۔اگر میں آج آ گئی توکیسے لوں گی بعد میں کالج والے نہیں دیں گے۔ میں تو پہلے چپ تھی کہ ماموں حیدر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وہاں مجھے ایڈمیشن لے کر دیں گے۔ اور جہاں تک یہ جو آپ کے حویلی والے رشتے داروں کی بات ہیں ۔ مجھے نہیں لگتا وہ مجھے آکر پیپر بھی دینے دیں ۔ بس امی آپ لوگ وآپس آئیں جلدی۔ پری اب کی بار رونے والی آواز میں بولی آپ تو صرف ملنے گئیں تھیں۔ اب شگفتہ نے سر پکڑ لیا اور فون کو ہاتھ میں زور سے پکڑتے ہوے بولی پری میں آخری دفعہ کہہ رہی ہوں سوچ سمجھ کر بولا کرو کسی دن  آپنی زبان کی وجہ سے بڑی پچھتاوا گی۔ اب شگفتہ دو ٹوک بولی ۔جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ اب اور بحث نہیں ۔ اتنا کہہ کر شگفتہ نے لمبی سانس کھینچنے فون بند کر دیا۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سالار نےداڑھی میں ہاتھ پھیرا اور فون کو ایک کان سے دوسرے پر لگاتے ہوۓ بولا دادا جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ 

اس طرح مسلہ ہو جاۓ گا۔ چوہدری دلاور فون کے دوسری طرف قہقہہ لگا کر ہسا اور بولا اووو میرا شیر ڈر گیا کیا۔ دادا کی بات سن کر سالار ایک دم سے بولا دادا جی آپ جانتے ہیں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ 😐۔ چوہدری دلاور کچھ دیر روک کر بولا ۔ دیکھو سالار یہ معاملہ تمہیں حویلی آنے سے پہلے حل کرنا ہو گا ۔ورنہ تھوڑی مشکل ہو سکتی ہے۔ ۔آپ فکر مت کریں میں سب سنبھال لوں گا ۔ ٹھیک ہے کہہ کر دادا نے فون بند کر دیا۔ 

سالار نے کار کی چابی اٹھائی ۔اور جیب میں ہاتھ ڈال کر انگوٹھی نکالی اور اسے دیکھتے ہوۓ بولا ۔چلو پہلے تمہیں تو تمہاری نا فرمان مالکن تک پہنچاؤں۔ اور اس پری کے تھوڑے پر بھی کاٹوں تاکہ وہ دوبارہ کہیں اڑے نہ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

پری صوفے پر نیم دراز تھی۔ اور ایک ہاتھ سے اپنے ماتھے کا مساج کر رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ اکیلے ہی بڑبڑا رہی تھی ۔جب سالار اندر آیا پری کو اکیلے باتیں کرتے دیکھ کر وہ وہیں دروازے میں ہی روک گیا۔ اتنے میں کام والی چاۓ کا کپ پری کے سامنے رکھتے ہوے بولی ۔کیا بات ہے بیٹا ۔پری تو جیسے انتظار میں تھی ۔کہ کوئی پوچھے۔ اٹھ کر سیدھی ہو کر بیٹھتے ساتھ بولی دیکھیں نا آنٹی۔۔ ہے کوئی فکر امی اور ایمان کو میری وہ وہاں صرف ملنے گئیں تھیں ان لوگوں سے اور وہاں جا کر ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئیں ہیں ۔پتہ بھی تھا ان کو میری طبیعت ٹھیک نہیں پھر بھی۔۔ اور اس بات کو بھی چھوڑیں کیا ضرورت تھی وہاں رہنے کی ان لوگوں کو تو کبھی یاد نہیں آئی امی کی۔ اور امی کو دیکھو ان لوگوں نے کہا اور امی مان گئیں ۔۔اور مجھے تو بلکل نہیں رہنا وہاں حویلی میں۔ اب کی بار پری نے برا سا منہ بنا کر کہا تھا۔ جو سالار کو تپ چڑھانے کے لیے کافی تھا۔ لیکن پھر بھی وہ وہیں کھڑا رہا کیوں کہ ابھی وہ پری کےکچھ اور حیالات سننا چارہاتھا۔ اب کی بار کام والی سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی۔ بیٹا سچ کہوں تو مجھے بھی لگتا ہے کے آپ لوگوں کو نہیں رہنا چاہئے وہاں پتہ ہے یہ ان علاقوں میں حویلیوں والے لوگ بہت ظالم ہوتے ہیں کام والی نے خوفناک ساچہرہ بناتے ہوۓ کہا تو پری اور تجسس سے بولی اچھا۔۔کام والی سر ہلاتے ہوۓ بولی قسم لے لو  میں نے سنا ہے۔ ان کی جو عورتیں ان لوگوں کی بات نہیں مانتیں یہ لوگ ان عورتوں کو مار کر اپنی حویلیوں میں ہی دفن کر دیتے ہیں ۔یہ بات سن کر پری نے حوف سے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا آپ سچ کہہ رہی ہیں آنٹی۔ ۔تو کام والی نے ڈرامائی انداز میں سر ہلایا اور بولی یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ان کی حویلیوں میں باقاعدہ جیلیں بھی ہوتی ہیں۔ جس کسی کو انہوں نے مارنا نہیں ہوتا ۔ بس سزا دینی ہوتی ہے ۔

اسے ان جیلوں میں رکھتے ہیں۔ اب پری پوری طرح خوفزدہ تھی ۔اور کسی بھی سیکینڈ بس رونے ہی والی تھی۔ اور ادھر سالار کا پارہ ان کی باتوں سے ساتویں آسمان تک پہنچ چکا تھا۔ وہ اگے بڑھا اور گرجتی آواز میں بولا کیا ہو رہا ہے ۔

 بس پھر کیا تھا پری جو پہلے ہی حوفزدہ تھی😲 ایک دم سے نامعلوم آواز سن کر اچھل کر صوفے سے نیچے جاء گری اور آنکھیں بند کر لیں۔۔  سالار نے غصے سے کام والی کو دیکھا۔اور پھر پری کو😠۔۔۔۔

پری نے  اپنی کمر کو ملتے ہوۓ آنکھیں کھولیں تو سامنے کھڑے سالار کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تو جیسے 

باہر ہی آنے لگی۔ جلدی سے اٹھی اور اسے دیکھتے ہوۓ اس کے سامنے کھڑی ہوتے ہوۓ بولی ۔

اووو ہیلو مسٹر کدھر ۔۔۔۔۔تمہیں کیا لائسنس ملا ہوا ہے لوگوں کے گھروں میں منہ اٹھا کر گھسنے کا۔ کہ جدھر منہ کیا چل پڑے۔۔ نکلو یہاں سے اس سے پہلے کے گارڈ کو بلا کر بینڈ باجا بارات کے ساتھ نکلواؤں۔

ابھی پری کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ سالار نےاپنے ایک ہاتھ سے پری کی گردن کے پچھلے حصے سے پکڑا اور جھٹکے سے قریب کرتے ہوۓ غضب ناک لہجے میں بولا تم سے میں بعد میں نمٹتا ہوں ۔ اور تہیں بتاتا ہوں کےمیرے پاس کون کون سا لائسنس ہے۔اور بینڈ باجا  بارات کے ساتھ کون جاۓ گا۔۔اتنا کہہ کر سالار نے کام والی کی طرف دیکھتے ہوے کہا

 پہلے میں اس سے نمٹ لوں اتنا کہہ کر سالار نے پری کی گردن چھوڑی تو وہ صوفے پر جا گری ۔ سالار مڑ کر کام والی سے مخاطب ہو کر بولا اب تم یہاں سے جاؤ گی یا تمہیں حویلی لے جا کر وہاں دفن کروں یا اسی جیل میں ڈالوں جس کا ذکر ابھی تم کر رہی تھی۔ بس اتنا سننا تھا ۔کام والی کانپتے ہوۓ وہاں سے بھاگ نکلی ۔

کام والی کو بھاگتے دیکھ کر پری آرام سے اٹھی اور بھاگنے میں ہی اپنی بہتری جانی پر ابھی اس نے ایک قدم ہی آٹھایا  تھا کے سالار نے بازو سے پکڑ لیا ۔ تم کہاں بھاگ رہی ہو ہمممم ۔ پری اپنی بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ ۔ڈری سی آواز میں  بولی میں بتا رہی ہوں مجھے چھوڑو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔

سالار پری کے اور قریب ہوتے ہوۓ بولا کیا اچھا نہیں ہو گا بولو ۔پری اپنے دونوں ہاتھوں  اس کے سینے پر رکھ کر اسے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی دیکھو پیچھے رہو اور چھوڑو مجھے ۔

انگوٹھی کہاں ہے ۔سالار نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا تو پری نےسر اٹھا کر اس کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھا ۔ اور کوئی جواب دیۓ بغیر گھبرا کر سر نیچا کر لیا۔سالار نے دانت پیستے ہوے پری کو اب دونوں بازؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑتےہوۓ کہا میں نے کچھ پوچھا ہے۔ جواب دو۔ کہاں ہے انگوٹھی۔۔۔۔۔پری کوئی جواب دئیے بغیر اس کی گرفت میں زور زور سے کسی پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگی ۔ چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے پری نے روتے ہوۓ کہا۔

میں نے تمہیں کچھ رولز بتاۓ تھے لیکن لگتا ہے تم نے میری بات کو اہم نہیں سمجھا ہمممم ۔۔۔۔۔پری اب حوف سے ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ کہا تھا میں نے کے انگلی کاٹ دوں گا اگر انگوٹھی اتاری ہممم کہا تھا نا پھر کیا سوچ کر تم نے اتاری اب کی بار سالار چیخ کر بولا تو پری پوری کی پوری کانپ اٹھی

اور دوسرے ہی لمہے بے ہوش ہو کر سالار کے ہاتھوں میں جھول گئی سالار نے جلد سے اسے اپنی بازوں میں لے لیا۔اور پاس ہی صوفے پر لٹا تے ہے زور زور سے آوازیں دینے لگا ۔ کام والی جو باہر گاڈ کے پاس 

بھاگ کر گئی تھی

 اور اسے گارڈ نے بتایا تھا کہ سالار حیدر صاحب کا بھتیجا ہے اور پری کو لینے آیا ہے۔ ۔۔جب ان دونوں کو سالار کی بلانے کی آواز آئی تو دونوں بھاگ کر اندر آۓ۔تو پری کو صوفے پر پڑے دیکھ کر گبھرا کر بولی کیا ہوا اسے۔۔۔ سالار جو اب پری کے ماتھے پر ہاتھ لگا رہا تھا کام والی کی طرف دیکھ کر بولا

 اسے تو بخار ہے ۔جی صاحب رات سے ہے ۔ ابھی تو کچھ بہتر ہوگیا ہے ۔سالار پریشانی سے بولا کوئی دوائی لی اس نے ۔ کام والی نے سر ہلا دیا ۔ سالار نے گارڈ سے سامان کار میں رکھنے کا کہا اور پری کو آپنی بازوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چل پڑا۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

  ‏حیدر بھائی آپ فکر مت کریں ۔ سب ٹھیک ہے ۔۔ حیدر پریشانی کے عالم میں بولا شگفتہ سچ پوچھو تو مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ایسے کیسے معاف کر دیا بابا نے ۔۔حیدر نے لمبی سانس لی اور بولا چوہدی دلاور اپنی بیٹی کی اتنی بڑی نافرمانی اتنی آسانی سے معاف کر دے میں نہیں مانتا ۔ ۔۔۔۔( sunny zubairi😜)۔۔۔

  ‏اور تم زرہ مجھے یہ تو بتاؤ کہ شرط جانے بغیر تم مان کیسے گئی۔۔ شگفتہ مسکرا کر بولی بھائی زیادہ سے زیادہ کیا شرط ہو گی ۔ مجھ سے کیا کہہ سکتے ہیں بابا کچھ بھی نہیں ۔۔ بس آپ پریشان مت ہوں ۔کبھی کبھی ہمیں مسائل جتنے بڑے لگتے ہیں ۔ وہ حقیقت میں  کچھ بھی نہیں ہوتے۔ اپ ریلیکس ہو جائیں۔ حیدر ماتھے کامساج کرتے ہوۓ بولا دیکھو شگفتہ میری بات دھیان سے سنو اگر بابا کوئی بھی ایسی ویسی شرط رکھیں تو مت ماننا ۔ اور ایک منٹ سے پہلے واپس آجانا۔ یا مجھے کال کرنا سمجھی ۔۔ تم اکیلی نہیں ہو بچیاں ہیں ساتھ تمہارے ۔۔ سمجھ رہی ہونا تم میری بات۔۔ جی بھائی آپ فکر مت کریں پہلی بات تو یہ کے مجھے یقین ہے ایسی کوئی بات ہو گی نہیں لیکن پھر بھی اگر ہوئی تو میں سب سے پہلے آپ کو کال کروں گی۔۔ حیدر نے اطمینان کا سانس لیا اور فون بند کر دیا۔۔ 

  ‏شگفتہ نے حیدر کو تو تسلی دے دی تھی پر اب اسے خود انجانا سا کھٹکا لگ گیا تھا کے کیا شرط ہو سکتی ہے کیوں کے اسے اتنا تو پتہ تھا کے ابھی اگراس کے باپ نے  شرط نہیں بتائی۔ بعد میں سب کے سامنے بتانے کا کہا ہے تو کچھ تو ہے جو ٹھیک نہیں ۔۔واقعے ہی کچھ تو ہے جو ٹھیک نہیں اور زریاب بھائی نے بھی ابھی تک ٹھیک سے بات نہیں کی ا کھڑے اکھڑے سے ہیں ۔  شگفتہ سوچتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور ہال میں چلی گئی ۔ بی جان شگفتہ کو دیکھ کر بولیں ۔اچھا ہوا تم خود ہی آگئی میں بلانے ہی لگی تھی ۔شگفتہ نے ہال میں بیٹھے۔ بابا اور ماں کی طرف دیکھا اور بولی خیر تو تھی ۔۔ بابا شگفتہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ بولے وہ سالار کا فون آیا تھا ۔کے پری کو زیادہ بخار ہے اور وہ بخار کی وجہ سے بے خوش ہو گئی تھی۔ شگفتہ  گھبرا کر ہاتھ منہ پر رکھتے ہوۓ بولی اللہ خیر ۔۔۔۔۔تم پریشان مت ہوسالار اسے لے گیا ہے ۔ اور ڈاکٹر نے چیک اپ بھی کر لیا ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں ٹھیک ہے اب وہ چوہدری دلاور کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کے شگفتہ پریشان سی بولی میری بات کروا دیں پری سے ۔۔۔چوہدری دلاور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا ۔ہممم ابھی میری بات ہوئی ہے سالار سے وہ بتا رہا تھا کے دوائی کے اثر کی وجہ سے ابھی پری نیند میں ہے ۔۔ اب کی بار چوہدری دلاور شگفتہ سے نظر چرا کر بولا ۔جب اٹھے گی تو بات کروا دوں گا ۔۔ اتنا کہہ کر چوہدری دلاور اٹھا اور جانے لگا پر روک کر بولا ۔وہ لوگ آج نہیں آئیں گے پری کی طبعیت ٹھیک ہو لے پھر آئیں گے ۔۔ اتنا کہہ کر وہ تیزی سے باہر چلا گیا۔۔۔ شگفتہ نے پاس بیٹھی بی جان کی طرف دیکھا اور بولی امی پری اکیلی ہے۔۔ بی جان شگفتہ کی طرف دیکھ کر بولیں۔ دیکھو شگفتہ اتنا بخار ہے کے بچی بے خوش ہو گئی تھی ۔اب تم ہی بتاؤ کے اس حالت میں وہ چار پانچ گھنٹے کا سفر کیسے کر سکتی ہے ۔اور پریشان مت ہو سالار ہے نا۔۔۔۔۔

  ‏💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

  ‏پری نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تو اس کی انکھیں جیسے دماغ کی طرف گھوم گئیں۔ اس نے سر کو دائیں بائیں حاکت دی جیسے خود کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی ہو۔

 اتنے میں اسے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ آنکھیں بند کئے ہی بولی امی امی یار میرا سر درد سے پھٹ رہاہے ۔اتنا کہہ کر وہ رونے لگی۔۔سالار اسے روتا دیکھ کر آگے بڑھا اور اس کے سر پر ہاتھ کھا اور اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اور اس کا سر دباتے ہوۓ بولا۔۔

  اٹھو ۔۔۔ ابھی سالار کے منہ سے اتنا لفظ ہی نکلا تھا کے پری جیسے بجلی کی تیزی سے اچھلی اور اس سے دور ہوئی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھتے ہوۓ بولی تم اور اس کے بعد پری نے جب نظر گھما کر کمرے کو دیکھا تو اس کے تو حواس ہی اڑ گئے۔۔

 اور بیڈ کے دوسری طرف کھسکتے ہۓ بیڈ سے اتر کر  رونی سی آوازمیں بولی کہاں ں ہوں ں مم میں او اور کک کون ہوتت تم۔ سالار بیڈ سے اٹھا اور دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ بولا ۔

ہممم گوڈ کویسٹن پر پوچھا کافی لیٹ ہے۔۔ دوں گا جواب میں لیکن ابھی نہیں پہلے جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ میں کھانا لاتا ہوں وہ کھاؤ ۔ پھر سردرد کی گولی کھا لینا بخار تو تمہیں اب نہیں ہے۔ پری کچھ بولنے لگی تو سالار نے شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوۓ پری کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ پری حیران سی اسے جاتا دیکھتی رہی۔ 

  ‏پری نے دو تین دفعہ زور زور سے آنکھیں جھپکیں اور دروازے کی طرف دیکھتے ہوۓ ہلکی سی آواز میں بولی اس نے مجھے اغواء کر لیا ہے۔۔😲 اب پری دوڑ کر دروازے کی طرف گئی اور ہینڈل کو گھمایا تو دروازہ کھولا تھا ۔ اس نے دروازے سے سر نکال کر دیکھا تو باہر کوئی نہیں تھا۔ پری آہستہ آہستہ قدم لیتی تھوڑی آگے بڑھی تو سامنے ہال تھا ۔

 اب وہ دبے قدموں ہال تک آئی تو ایک طرف کچن میں سے سالار باہر آرہاتھا ۔اسے دیکھتے ساتھ پری نے باہر کے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی سالار نے آرام سے کھانے کی ٹرۓ کھانے کی میز  پر رکھی اور خود کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا ۔

اور اپنی بھنوں کو اوپر کی طرف اٹھا تے ہوۓ سنجیدگی سے دروازے کے ہینڈل کے ساتھ جنگ کرتی پری کی دیکھ کر بولا اب شرافت سے ادھر آ کر کھانا کھاؤ اس سے پہلے کے میری برداشت ختم ہو جاۓ۔ سالار کی بات سن کر پری ہینڈل کو چھوڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی نہیں کھا نا مجھے کھانا تم دروازہ کھولومجھے گھر  جانا ہے ۔

ورنہ اتنا شور مچاؤں گی کے۔۔۔ ابھی پری نے اتنا ہی کہا تھا کے سالار اٹھا اور تیزی سے پری کی طرف غضب ناک انداز  میں آیا اسے آتا دیکھ کر پری کے باقی لفظ اس کے گلے میں ہی روک گۓ۔ سالار نے اسے بازو سے پکڑا اور کھینچتا ہوا میز تک لے گیا ۔۔

 اب عزت سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ ورنہ اگر میں نے آپنے طریقے سے کھلایا تو یقین مانو تمہیں میرا طریقہ بلکل پسند نہیں آۓ گا۔ سالار نے پری کے لیے کرسی کھینچی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اور ساتھ ہی بولا۔۔۔

 اور چیحنے کی تکلیف مت کرنا کیوں کے میرا اپارٹمنٹ ساؤنڈ پروف ہے۔ اب پری ڈر گئی اور کرسی پر بیٹھ گئی ۔سالار سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ اور پلیٹ میں کچھ کھانا ڈالا اور پلیٹ پری کے سامنے رکھتے ہوۓ بولا میرا کھانا ختم ہونے سے پہلے تمہاری پلیٹ صاف ہونی چاہیے۔ ورنہ میرے ہاتھ سے کھانا کھانے میں تمہیں ہی پریشانی ہو گی مجھے تو کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔  سالار نے آنکھ مارتے ہوۓ کہا

پری پلیٹ سے چمچ اٹھاتے ہوۓ دانت پیستے ہوۓ سرگوشی میں بولی بے شرم۔۔۔ سالار نے کھانا چباتے ہوۓ آنکھیں سکیڑی اور بولا کیا کہا زرہ دوبارہ کہو ۔پری نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ سر نیچے جھکا دیا اور کھانا کھانا شروع کر دیا۔ پری نے پلیٹ میں موجود سارا کھانا ختم کر دیا ۔

 اور سارے کھانے کے دوران دوبارہ سالار کی طرف ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا جب کے وہ کھاتے ہوۓمسلسل اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ اب جب پری نے کھانا کھا کر سر اوپر اٹھایا تو سالار اسی کو دیکھ رہا تھا۔ پری اسے گھورتے ہوۓ بولی کون ہو تم ۔ سالار کرسی سے اٹھا اور برتن اٹھاتے ہے بولا جا کر سامنے صوفے پر بیٹھو میں برتن رکھ کر آتا ہوں۔

 اتنا کہ کر وہ کچن میں چلا گیا اور پری زخمی شیرنی کی طرح ادھر ہی بیٹھی رہی۔ سالار واپس آیا تو اسے وہی بیٹھا دیکھ کر اس کی طرف بڑھا اور اس کو بازو سے پکڑا اور بولا

 تمہیں ایک دفعہ کہی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔اور وہ اسے کھینچتا ہوا صوفے تک لے گیا پری مسلسل اپنی بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ جب سالار نے اسے صوفے پر دھکا دے کر گرایا

 اور بولا اب خاموشی سے اوردھیان سے میری بات سننی ہے ۔پری غصے سے بولی اب اگر  تم نے مجھے 

ہاتھ لگایا تو منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔سالار غصے سے صوفے پر جھکا اور پری کا منہ جبڑے سے پکڑ کر بولا آپ۔ ۔۔آآآپ۔۔۔۔۔اب اگر مجھے تم کہہ کر پکارا تو زبان حلق سے کھینچ لوں گا میں تمہاری۔۔۔۔

اور اگر میرے ساتھ بات تمیز کے دائرے میں رہ کر نہ کی تو یقیں مانو وہ حال کرو گا کے بات کرنا بھول جاؤ گی ۔۔۔پری روتے ہوۓ بولی چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔۔سالار نے جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا۔۔ اور اس کے سامنے ہی پڑے ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بولا۔۔۔

 میں سالار ہوں۔ چوہدری سالار سن آف چوہدری زریاب گرینڈ سن آف چوہدری دلاور۔۔۔  سالار نے اتنا کہا تو پری آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتے ہوۓبولی ۔ ماموں زریاب کے بیٹے ۔۔۔سالار بھائی۔۔ سالار پری کی بات سن کر ایک دم سے دانت پیستے ہوۓ بولا بکواس مت کرو۔۔

کوئی بھائی شائی نہیں ہوں میں تمہارا۔۔۔اب پری کو کچھ حوصلہ ہوا کے وہ سالار کو دھمکی لگا سکتی ہے ۔۔ اس لیے جلدی سے بولی ہممم تو کزن ہو۔۔ تو پھر تو سب کو پتہ ہے کے تم مممم مطلب آپ مجھے لینے آۓ ہیں ۔۔پری مسکرا کر بولی۔۔

 تو اب میں حویلی جا کر تممم مطلب آپ کی شکایت لگاؤں گی کے یہ سلوک کیا ہے میرے ساتھ ۔۔اور امی تو دیکھنا نا کیا حال کریں گی۔ خیر منا لو بچو۔ اب پری مسلسل مسکر ا رہی تھی۔ سالار اس کی معصومیت پر مسکراتے ہوۓ بولا   

ہمم ابھی تو جان جا رہی تھی تمہاری اور اب بڑی بہادر بن رہی ہو۔۔ پری کھلکھلا کر ہستے ہوۓ بولی جی کیوں کے صبح حویلی میں اپ کی خیر نہیں جب سب کو اپ کی حرکتیں پتا چلیں گی آخر میں پری نے لفظوں کو چبا چبا کر بولا سالار بھائی۔ 

بس پھر تو ایک سیکینڈ سے پہلے سالار خوفناک چہرے کے ساتھ آگے کو جھکا اور اٹھتے ہوۓ پری کے سر کے پیچھے کے بالوں کو ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن کے اگلے حصے کو اور اسے اپنے ساتھ لے کر کھڑا ہوگیا اب پری کے بس پاؤں کے انگوٹھے زمین  کو لگ رہے تھے۔

 سالار اس کے چہرے کے قریب ہوتے ہوۓ بولا میں نے کہا تھا  بکواس مت کرو ہممم کہا تھا نا کے  کوئی بھائی نہیں ہوں میں تمہارا پھر دوبارہ کیوں بولا سالار نے پری کے بالوں کو زور سے کھینچتے ہوۓ کہا 

تو پری کی چیخ نکل گئی۔

سالار دانت پیستے ہوۓ بولا پہلے ہی میں نے تمہاری کئی غلطیاں معاف کی ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کے بار بار کروں گا پری اب رو رہی تھی اور ایک ہاتھ سے بال اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔

تبھی سالار اس کے کان کے پاس آ کر بولا چلو آخری دفعہ رولز دوھراتے ہیں۔۔  رول نمبر ون۔۔۔۔مجھے بدتمیزی بلکل پسند نہیں ۔۔ رول نمبر ٹو۔۔۔۔مجھے بات دوھرانا پسند نہیں۔۔۔۔ رول نمبر تھری۔۔۔ جو انگوٹھی ابھی میں تمہیں پہناؤں گا وہ اترنی نہیں چاہیے تمہاری انگلی سے۔۔  اور رول نمبر فور ۔۔۔۔ میری ہر بات ماننی ہے مجھے انکار سننا پسند نہیں۔۔۔۔آخر میں سالار نے پری کےبالوں کو ہلکا ساپیچھے کی طرف کھینچتے ہوے کہا ۔۔ سمجھی ۔۔۔ تو پری روتے ہوۓ بولی جی۔۔پر میں اپ کی شکایت لگاؤں گی نانو اور نانا جی سے۔۔

 ‏سالار مسکرایا اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا تم میرا صبر آزماؤ گی ۔۔۔ اتنا کہہ کر سالار نے پری کے بال چھوڑ دئیے اور جیب سے انگوٹھی نکالی اور اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوۓ بولا لاؤ ہاتھ دو اپنا۔۔ پری نے کانپتے ہوۓ ہاتھ آگے کر دیا۔ سالار نے انگوٹھی پہنائی ۔ اور پری کا ہاتھ پکڑے ہوۓ بولا۔۔ 

 ‏کل صبح ہمارا نکاح ہے۔۔۔۔۔۔۔  ‏

 ‏💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀کل صبح ہمارا نکاح ہے۔۔ 

 ‏what کیا کیا ہے پری کنفیوز ہو کر بولی ۔۔ پری سالار کے ہاتھ سے آپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ بولی دماغ تو خراب نہیں ہے تمہاااآپ کا ۔۔۔ کیا مسلہ ہے کیا چاہتے ہو۔۔۔سالار پری کے خوفزدہ چہرے کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ تھوڑا آگے ہوا اور ( پری  کے بال جو سالار کے پکڑنے کی وجہ سے بکھر گۓ تھے۔) ان کو  چہرے سے ہٹاتے ہوۓ بولا۔

 دیکھو پری میں چاہتا ہوں کے تم چپ چاپ جا کر سو جاؤ اور صبح مولوی صاحب کے اگے شرافت سے تین دفعہ قبول ہے بول دو۔۔ 

 ‏نہیں بلکل نہیں ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مجھے امی سے بات کرنی ہے ۔ دیں میرا فون۔۔ سالار پری کو بازو سے پکڑتے ہوے بولا۔ دیکھو پری میں تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا اس لیے طریقے سے سمجھ جاؤ ورنہ ۔۔ پری سالار کی بات کاٹتے ہوۓ بولی کیا

ورنہ ہممم کیاورنہ۔۔۔۔ سالار دانت پیستے ہوۓ بولا ورنہ تمہاری امی اور بہن اس حویلی میں پوری زندگی بند رہیں گی۔ اور تم ان سے کبھی نہیں ملو گی ۔۔ پری یہ سن کر غصے سے سالار کو ٹانگیں اور مکے مارنے لگی ۔۔ جب کچھ نہ کر سکی تو  تم گھٹیا انسان ہو کہتے ہوے سالار کو تھپڑ دے مارا ۔۔

 یہ سوچے بغیر کے وہ کتنی بڑی غلطی کر بیٹھی تھی۔ سالار نے غصے سے اس کی بازو چھوڑی اور ایک زور دار تھپڑ پری کے چہرے پر دے مارا ۔ پری تھپڑ کی شدت سے چکرا کر صوفے پر جا گری سالار نے تیزی سے اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ کھڑا کیا اور اس کے منہ کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوۓ چیخ کر بولا

 ‏how dare you تمہاری ہمت کیسےہوئی مجھے تھپڑ مارنے کی ۔۔ جان لے لوں گا میں تمہاری اگر دوبارہ کبھی جرات بھی کی ایساکرنے کی۔۔سالار نے پری کا منہ اپنے ہاتھ میں بھینچتے ہوۓ کہا

 ‏پری کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے سالار کے یہ آخری لفظ تھےجو اس کے کانوں تک پہنچے تھے ۔۔ 

 ‏💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏زریاب غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوۓبولا بابا کچھ بھی ہو میں آپ سے بلکل متفق نہیں ہوں ۔۔غلط ہے یہ۔ بلکل غلط ٹھیک ہے مجھے بھی غصہ ہے شگفتہ پر لیکن اس کی بیٹی کا کوئی قصور نہیں ۔۔ اور یہ جو آپ اور سالار مل کر کر رہے ہیں ۔۔

میں اس کے حق میں بلکل نہیں ہوں ۔۔ آپ جلدی سے پہلے سالار کو اس حرکت سے روکیں ۔۔ زریاب کی بات سن کر چوہدری دلارو سر نفی میں ہلاتے ہوے بولا سالار اسے پسند کرتا ہے ۔۔اس وقت سے جب اسے پتہ بھی نہیں تھا کے وہ شگفتہ کی بیٹی ہے۔۔

 اور کیسے باپ ہو تم ۔۔تم نے اس کی بے چینی نہیں دیکھی تھی جب وہ لڑکی باپ کے مرنے کے بعد غائب ہوئی تھی۔۔ وہ لڑکی ہمارے بچے کو کمزور کر رہی ہے ۔ اور وہ پہلی لڑکی ہے جس سے سالار نے خود شادی کا کہا ہے آٹھائیس سا عمر ہو گئی ہے اس کی اس کے بعد کیا مزید اتنے سال انتظار کرو گے کہ کوئی اور لڑکی پسند آۓ اسے ہممم ۔اس لیے ان دونوں کی شادی ضروری ہے ۔۔

 کل جب نکاح ہو جاۓ گا تو شگفتہ کچھ نہیں کر سکے گی۔۔اسے ہر حال میں قبول کرنا پڑے گا۔زریاب اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوۓ بولا بابا سالار کا آپ کو پتہ ہے وہ غصے کا بہت تیز ہے ۔ اور پری بہت چھوٹی ہے ۔ وہ سالار کو بلکل ہینڈل نہیں کر پاۓ گی۔

بچی ہے وہ  بچی زریاب باپ کے آگے  بے بسی سے بولا۔۔ دیکھو زریاب ابھی صرف نکاح ہو رہا ہے بس ۔۔اور اب تم جا سکتے ہو اور جاتے ہوے دروازہ بند کر کے جانا چوہدری دلاور نے ختمی انداز میں کہا ۔۔ 

دروازے کے باہر کھڑی شگفتہ جو اپنے باپ کے پاس اس لیے آئی تھی کے پری سے بات کروا دیں ۔۔ اس کے تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی تھی ۔

شگفتہ ابھی واپسی کے لیے قدم ہی اٹھا نے لگی تھی کے زریاب کمرے سے باہر نکلا اور شگفتہ کی اڑی اڑی رنگت دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کے شگفتہ نے اس کی اور اپنے باپ کی باتیں سن لی ہیں ابھی زریاب شگفتہ سے بات کرنے کی ہمت ہی جٹا رہا تھا کے شگفتہ پھٹ پڑی ۔۔۔۔

ٹھیک کہا تھا حیدر بھائی نے اتنی آسانی سے کیسے اس حویلی والے مجھے معاف کر سکتے تھے۔۔  شگفتہ انگلی اٹھاتے ہوۓ بولی لیکن ایک بات آپ لوگ سن لیکن میری بیٹیاں میرے کئے کی سزا ہر گز نہیں بھگتیں گی کبھی نہیں۔

 اتنا کہہ کر شگفتہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی زریاب اسے آوازیں دیتا رہ گیا لیکن وہ روکی نہیں ۔ کمرے میں جا کر شگفتہ نے کمرہ لاک کر لیا اور جلدی سے فون اٹھایا اور حیدر کا نمبر ملایا۔ دو رنگ کے بعد حیدر نے فون اٹھایا تو شگفتہ روتے ہوۓ بولی بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔

  یہ لوگ اتنی آسانی سے کیسے معاف کر سکتے تھے پلیز بھائی میری پری کو بچالو ۔۔ شگفتہ روتی جارہی تھی اور حیدر تو جیسے سکتے میں آ گیا تھا ۔۔ حیدر سنبھلتے ہوۓ بولا شگفتہ مجھے کچھ بتاؤ گی تو بات سمجھ آۓ گی ۔۔ تم رونا بند کرو اور بات بتاؤ ۔۔ شگفتہ نے آنسو پونچھے اور حیدر کو احمد کے فوت ہونے سے پہلے انگوٹھی والا واقعہ سنایا۔ تو حیدر بولا اس بات کا کیا تعلق ہے ۔ان لوگوں سے ۔۔شگفتہ روتی ہوئی بولی وہ لڑکا سالار ہے زریاب بھائی کا بیٹا سالار ۔

 اور میں نے آپ کو بتایا تھا نا کے پری کو بخار تھا اس لیے اسے گھر ہی چھوڑ آئی تھی ۔ بابا نے کہا کے سالار اسے لے آۓ گا لیکن شام سے پری کا فون بند جا رہا ہے اور بابا سے پوچھا تو انہوں نے کہا کے پری ٹھیک نہیں ہے وہ صبح آۓ گی ۔اور ابھی میں بابا کے پاس جا رہی تھی کے دروازے کے باہر سے انہیں زریاب بھائی سے بات کرتے سنا کے سالار صبح پری سے نکاح کر رہا ہے ۔ 

اتنا کہہ کر شگفتہ پھر سے رونے لگی۔۔۔۔۔ حیدر کچھ سیکنڈ چپ رہنے کے بعد بولا ۔۔ شگفتہ کہاں ہو تم اور کیا اکیلی ہو۔۔۔ شگفتہ جلدی سے بولی جی اپنے کمرے میں ہوں ۔۔ حیدر آرام سے بولا دیکھو شگفتہ میں ابھی  ارجنٹ سیٹ بک کرواتا ہوں ۔ لیکن مجھے پاکستان پہنچنے تک کافی ٹائم لگے گا ۔۔

تم فکر مت کرو سالار سے میری ملاقات کافی دفعہ ہوئی ہے بزنس کے سلسے میں اور وہ میری عزت بھی کرتا ہے۔ میں اس سے کسی طرح رابطے کی کوشس کرتا ہوں ۔۔ تم  باہر جاؤ اور فون زریاب بھائی کو دو۔۔ شگفتہ اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر نکلی تو سامنے بی جان ،آمنہ اور زریاب پریشان سے اسی کی طرف آ رہے تھے۔ شگفتہ نے فون آگے بڑھ کر زریاب کی طرف کیا اور کہا بات کریں۔

زریاب نے خیرت سے فون کو کان سے لگایا۔ اور ہیلو بولا تو حیدر ایک دم سے غصے میں بولا زریاب بھائی ایک بات میری آپ لوگ کان کھول کر سن لیں اگر غلطی سے بھی آپ لوگوں نے شگفتہ یا اس کی بیٹیوں کے ساتھ کچھ بھی غلط کیا تو قسم لے لیں میں وہ کروں گا جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کے ابھی کے ابھی شگفتہ کو شہر چھوڑ کر آئیں اور پری کو بھی ۔۔۔

آپ کے پاس صرف صبح تک کا ٹائم ہے ۔ کیوں کے ابھی میں اپنے دوست کو فون کرنے لگا ہوں جو ڈی پی او ہے اس شہر کا اگر اس نے پری کو برآمد کیا تو آپ لوگوں کی جو عزت ہے ۔۔ اس کے بارے میں آپ خود ہی سؤچ لیں کیا ہو گا ۔۔ زریآب خاموشی سے حیدر کی باتیں سنتا رہا ۔

اور آخر میں اتنا کہا حیدر میں نہیں جانتا تھا یہ سب ابھی کچھ دیر پہلے پتہ چلا ہے مجھے اور میں بھی اس کے خلاف ہوں تم فکر مت کرو میں ۔ کرتا ہوں کچھ ۔۔ حیدر چلا کر بولا کچھ کرتے نہیں کریں ۔ابھی اور اسی وقت ان کو لے کر نکلیں اس حویلی سے اتنا کہتےہوۓ حیدر نے فون بند کر دیا ۔۔

 زریاب نے شگفتہ کی طرف دیکھا اور بولا شگفتہ قسم لے لو میں اس سب میں بلکل شامل نہیں ہوں ۔ شگفتہ جو بی جان کے ساتھ لگ کر رو رہی تھی ۔زریاب کی طرف دیکھ کر بولی بھائی میری پری بہت چھوٹی اور نا سمجھ ہے پلیز۔۔۔ اتنا کہہ کر شگفتہ پھر سے رونے لگی۔ آمنہ نے شگفتہ کی طرف دیکھا اور آبدید ہو کر بولی شگفتہ میرا سالار پسند کرتا ہے پری کو بہت زیادہ پلیز میں تمہاری منت کرتی ہوں ۔ پری تم میرے سالار کو دے دو۔۔

  آمنہ کی بات سن کر شگفتہ دانت پیسے ہوۓ بولی ۔بیٹی ہے وہ میری کوئی چاکلیٹ۔ کینڈی نہیں کے سالار نے ضد کی تو اس بہلانے کے لیے دے دی۔۔ زریاب نے لمبی سانس لی اور شگفتہ سے بولا ۔تم ایمان کو تیار ہونے کا کہو ہم لوگ شہر جا رہے ہیں  ابھی اور اسی وقت۔۔  تین چار بج جائیں گے ہمیں شہر پہنچنے تک اتنا کہہ کر زریاب وہاں سے چلا گیا۔ 

 ‏💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏

 ‏سالار نے فون بندکیا اور سامنے بیڈ پر پڑی پری کی طرف دیکھا اور اس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ اس کے چہرے کو پکڑا اور ایک سائیڈ پر کیا تو اس کے گال پر واضح انگلیوں کے نشان تھے۔ سالار پری کا گال اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہو بولا ۔ 

تمہیں پتا ہے پری بہت سی لڑکیاں میری زندگی میں آئی خوبصورت سے خوبصورت ماڈرن امیر ہر طرح کی لیکن تم واحد ہوجو بس ایک نظر میں۔۔۔ اتنا کہہ کر سالار نے سینے پر دل والی جگہ انگلی لگاتے ہوۓ کہا۔۔  اس پتھر پر نقش ہو گئی۔

بی جان کہانی سناتی تھیں  ۔ کے پریاں شہزاردوں کے لیے ہوتی ہیں اور شہزادوں کے دل پتھر کے نہیں ہوتے پتھر کے دل تو جنوں کے ہوتے ہیں۔اور دیکھو میں جن نکلا۔ پریاں کبھی کسی جن کی نہیں ہوتیں اڑ جاتی ہیں جن کے پاس سے۔۔۔

اور مزے کی بات جانتی ہو  کے کیاہے ۔۔ اتنا کہتے ہی سالار کی انکھ سے آنسو نکلا جسے اس نے جلدی سے بھی پہلے انگلی سے پونچھ لیا۔۔ اور آنکھیں بند کرتے ہوۓ بولا۔ 

 ‏تم واقع ہی پری نکلی ۔۔ 😢

 ‏بدمزاج بد کردار سا بندہ ہوں 

 ‏بہت کم لوگوں کو راس آتا ہوں۔۔۔۔۔

 ‏بی جان روتے ہوۓ شگفتہ کے گلے لگئیں اور بولیں شگفتہ مت جاؤ ۔میں سالار کو خود سمجھاتی ہوں وہ میری بات مان جاۓ گا ۔

 میں وعدہ کرتی ہوں کوئی زبردستی نہیں کرے گا پری کے ساتھ تم بس بچوں کو موقع دو ایک دوسرے کو سمجھنے کا شگفتہ یقین مانو دل کا برا نہیں ہے میرا سالار بس تھوڑا غصے کا تیز ہے پر ٹھیک ہو جاۓ گا پری کا ساتھ اسے ٹھیک کر دے گا . سالار بھتیجا ہے تمہارا تمہارا کتنا لاڈلا تھا وہ ۔۔۔شگفتہ ماں سے الگ ہوتےہوۓ بولی جی ماں سالار سے بہت پیار تھا وہ میرا لاڈلا بھی تھا۔۔اور آ

پ جانتی ہیں اسی لاڈلے نے یہاں یہاں شگفتہ اپنے سر پر انگلی رکھتے ہوۓ بولی ۔۔ریوالور رکھا تھا اور میری بیٹی کو زبردستی انگوٹھی پہنائی تھی۔ اور دوسری بات یہ کے پری ابھی صرف اٹھارہ سال کی ہے ۔بہت چھوٹی ہے ۔ابھی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کے اس کی شادی کی بات ہو۔۔اتنا کہہ کر شگفتہ جانے کے لیے مڑی تو آمنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

اور اپنے آنسو پونچتے ہوۓ بولی  پانچ منٹ مجھے اکیلے میں بات کرنی ہے تم سے بس میری بات سن لو  پھر تمہیں میں بلکل نہیں روکوں گی۔۔ شگفتہ نے آمنہ کی طر ف دیکھا تو وہ آمنہ کی آنکھوں میں بھرا دکھ 

دیکھ سکتی تھی۔ شگفتہ سر ہلاتے ہوے بولی ٹھیک ہے آؤ۔۔۔ اور دونوں کمرے میں چلی گئی۔۔۔

 ‏زریاب گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ایمان بیٹا جاؤ اپنی امی کو بلاؤ پانچ منٹ کا کہہ کر گئی ہیں اب تو آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے۔۔ایمان جی ماموں کہتی ہوئی اٹھی ابھی دو قدم ہی اٹھاۓ تھے ۔کے سامنے سے آمنہ اور شگفتہ آ گئیں۔

دونوں اب ریلیکس لگ رہیں تھی۔ زریاب نے دونوں کی طرف دیکھا اور بولا سب ٹھیک ہے۔۔ تو دونوں مسکرا کر بولیں جی سب ٹھیک ہے ۔۔ شگفتہ اگے بڑھتے ہوۓ بولی چلیں بھائی چلتے ہیں ۔۔ شگفتہ مڑ کر روتی ہوئی بی جان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی ماں جی فکر مت کریں ۔ملیں گے پھر۔۔۔ 

 ‏💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏سالار نے دروازہ کھولا تو وکیل نے سلام کیا تو سالار نے اسے ہاتھ سے  اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔ صوفے پر بیٹھتے ساتھ وکیل نے بیگ سے ایک فائیل نکالی اور سالار کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولا سر جس طرح کے پیپرز آپ نے کہے تھے ویسے ہی تیار کئے ہیں آپ چیک کر لیں ۔۔سالار فائیل کھولتے ہوے بولا سوری آپ کو اس ٹائم تکلیف دی۔۔

 نو سر کوئی مسلہ نہیں  کچھ اور میرے لائق خدمت ہو تو میں حاضر ہوں ۔سالار نے نفی میں سر ہلایا اور بولا نہیں یہ بہت ہے جو آپ نے کیا تھینکس۔۔ وکیل نے سالار سے ہاتھ ملایا اور جانے کی اجازت لی۔ اور چلا گیا۔۔۔ 

 ‏سالار نے پوری فائیل پڑھنے کے بعد پاس ہی صوفے پر رکھی تو فون بجنے لگا فون اٹھایا کالر آئی ڈی دیکھی اور ہلکا سا مسکرایا ۔کان کے ساتھ لگا کر صرف جی بولا اگلے چار پانچ منٹ تک وہ صرف ہممم اور ٹھیک ہے۔ ہی کہتا رہا۔۔ سالار نے فون بند کیا اور ٹائم دیکھا تو ساڑھے تین بج رہے تھے۔it's time to awake up اتنا کہتے ہوۓ سالار مسکراتا ہو اٹھا ۔

اور فائیل اٹھائی اور سیدھا پری کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔دروازہ کھول کر اندر آیا اور پری کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔ پری کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہوۓ بولا ۔اٹھو پری پھر جب دو دفعہ اس کی گال کو تھپکا تو پری نے آہستہ سے  آنکھیں  کھولیں۔ 

تو سامنے بیٹھے سالار کو دیکھ کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی۔۔ اور گبھرائی سی بولی کیا ہوا۔پھر کمرے کی طرف دیکھا تو اسے یاد آیا کے وہ تو ہال میں تھی جب سالار نے اسے تھپڑ مارا تھا۔۔ پری اس اسے پہلے کے کچھ بولتی سالار نے فائیل پری کی گود میں رکھی اور جیب سے پین نکال کر اس کے سامنے کرتے ہوۓ بولا  اگر تم اپنی امی کے پاس گھر جانا چاہتی ہو تو پہلے تمہیں ان پیپرز پر سائن کرنے ہوں گے ۔۔

پری نے ایک دفعہ گود میں پڑی فائیل اور دوسری دفعہ سالار کو دیکھا اور بولی کیسے پیپرز ہیں یہ اور کیوں سائن کرنے ہیں ۔۔سالار مسکراتے ہوۓ بولا یہ جاننے کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ پری بھنویں اچکا کر بولی اگر میں نہ کروں تو ۔۔

سالار نے قہقہہ لگایا اور بولا تو میری جان مجھے تو کوئی مسلہ نہیں لیکن پھر صبح چاہے دنیا ادھر سے اُدھر ہو جاۓ تمہارا نکاح میرے ساتھ ہو گا اور قسم لے لو تمہاری امی پوری زندگی تمہارا منہ نہیں دیکھ سکیں گی ۔ اور تم ان کا ۔اب سالار دانت پیستے ہوۓ بولا اس لیے بہتر ہو گا تم چپ چاپ سائن کر دو اور آدھے گھنٹے تک اپنی ماں کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔ اب چوائس تمہاری ہے اب پری خوشی میں  ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوۓ بولی سچی تمم نہیں آپ سچ بول رہے ہو ۔۔ سالار پری کی معصومیت پر مسکرایا

 اور بولا ہممم ۔۔۔ پری نے سالار کا جواب سن کر جلدی سے پین اور فائل اٹھائی ۔۔ اور بولی کدھر کرنے ہیں سائن۔ سالار نے پیپر پرانگلی لگا کر بتایا یہاں اور یہاں۔ پری نے جلدی سے سائن کئیے تو سالار نے سیکنڈ سے پہلے پری کی گود سے فائیل اٹھائی اور ایک نظر دیکھتے ہوۓ بند کر کے ایک طرف رکھی

 تو پری بولی بس اب تو نکاح نہیں ہوگا سالار نے صرف ہممم کی تو پری بولی اب میں امی کے پاس جاؤں گی۔۔ پری بیڈ سے نیچے اترتے ہوۓ بولی ۔۔ تو سالار بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اور پری کو دونوں بازؤں سے پکڑتے ہوے بولا ابھی کچھ دیر تک تمہاری امی اور میرے بابا آئیں گے میرا پوچھیں تو کہنا میں چلا گیا۔اور  پری میں تمہیں اڑنے کی اجازت دے رہا ہوں ۔ لیکن کب تک اور کتنا اڑنا ہے وہ میں ڈیسائیڈ کرو گا ۔ 

فرسٹ آف آل میں تمہیں وقت دے رہا ہوں تاکہ تم اپنا مائینڈ بنا لو کے تمہاری شادی جب بھی ہو گی صرف مجھ سے ہو گی اور کسی سے سوچنا بھی مت کیوں کے وہ صرف میرے مرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس لیے ایک بات یاد رکھنا تمہیں اڑنے کی اجازت ہے لیکن کسی اور کے ساتھ نہیں ۔ اب سالار نےپری کےبازو چھوڑے

اور اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی انگلی پر پڑی انگوٹھی پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوۓ بولا اسے کبھی مت اتارنا ۔اس کا مطلب ہے کے تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔۔  اور ایک بات یاد رکھنا میں تمہیں کسی کے ڈر کی وجہ سے نہیں جانے دے رہا بلکہ اپنی مرضی سے جانے دے رہا ہوں ۔

 کیونکہ میں جہاں تمہیں ٹائم دینا چاہتا ہوں وہیں میں خود کو بھی یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کے تم میرے لیے کیا ہو کیونکہ آج مجھے کسی نے کہا کے مجھے صرف وقتی ایٹریکشن ہے جو بعد میں ختم ہو جاۓ گی ۔اور جانتی ہو مجھے ڈر ہے کے اگر یہ سچ ہوا تو میں خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا اس لیے چلو دیکھتے ہیں ۔۔ اتناکہہ کر سالار نے پری کا ہاتھ چھوڑا اور اس سے دو قدم پیچھے ہوا اور بولا ۔۔

پری سوری میں تمہیں بلکل تکلیف نہیں دینا چاہتاتھا پر میں ایسا ہی ہوں مجھے جب غصہ آتا ہے تو مجھے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کے میں کیا کر رہا ہوں ۔ پری بلکل سکتے میں سالار کی باتیں سن رہی تھی۔۔ اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سالار کو دیکھ رہی تھی۔

اس کے لیے سالار کا یہ بلکل نیا روپ تھا۔ سالار نے پری کی طرف مسکرا کر دیکھا اور شرارتی انداز میں  بولا ایسے مت دیکھو یہ نہ ہو کے میرا ارادہ بدل جاۓ ۔  ویسے ایک اور وجہ بھی ہے ۔ کے تمہیں یہ جو سب بچی بچی بولتے ہیں تو میں نے سوچا چلو تمہیں تھوڑا بڑا ہو لینے دیا جاۓ اور ہاں یہ کھانا زرا زیادہ کھانا شورع کردو تاکے تھوڑی صحت شیحت ہو اور اگلی دفعہ میرا تھپڑ کھا کر بے ہوش نہ ہو ۔ اتنا کہہ کر سالار نے آنکھ ماری تو جیسے پری ہوش میں آئی۔

اور جلدی سے نظریں جھکا لئیں۔۔ سالار اگے بڑھا اور بولا کیا میں تمہیں ایک دفعہ گلے لگا سکتا ہوں ۔۔پری نے سالار کو ایک نظر دیکھا اور سر ہلکا سا ہلایا تو سالار نے آگے بڑھ کر پری کو گلے لگایا اور بولا

 ‏پھر یوں ہوا کے صبر کی انگلی پکڑکے ہم 

 ‏اتنا چلے کے راستے حیران رہ گئے۔۔۔ 

 ‏اتنا کہہ کر سالار نے پری کو گال پر پیار کیا اور ایک دم سے مڑا اور مزید کچھ کہے بغیر فائیل اٹھائی اور کمرے سے نکل گیا۔ پری بت بنی وہی کھڑی تھی ۔۔

سالار جب آنکھوں سے اوجھل ہوا تو اسے لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا ہو ۔ اس کے منہ سے آہ نکلی اور وہ رونے لگی۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کے وہ کیوں رو رہی ہے ۔ بس جیسے کوئی بے چینی سی ہوئی تھی۔

 ‏

 ‏💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏شگفتہ سالار کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی ۔اور پری کو آوازیں دینا شروع ہو گئی ۔ زریاب اور ایمان بھی پیچھے ہی اندر آۓ۔ وہ پورے اپارٹمنٹ میں پری کو ڈھونڈ نے لگے ۔ شگفتہ نےایک  کمرے کا دروآزہ کھولا تو پری سامنے بت بنی کھڑی تھی ۔شگفتہ بھاگ کر پری کے گلے لگ گئی اور رونے لگی ۔۔

پھر پری کو پیار کرتے ہوۓ بولی تم ٹھیک تو ہو نا  ااتنے میں زریاب اور ایمان بھی اند آگیۓ ۔ زریاب آگے بڑھا اور اس نے پری کو ماتھے پر پیار کیا۔ اور بولا تم ٹھیک ہو بیٹا۔۔ تو پری  ماں کی طرف دیکھتے ہوۓجواب میں صرف اتنا بولی ۔ امی وہ چلے گۓ ہیں ۔۔

شگفتہ نے پری کی طرف خیرت سے دیکھا کیوں کے اسے پری کے چہرے پرجو نظر آیا تھا شاید پری خود بھی اس سے واقف نہیں تھی۔۔ 

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شگفتہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ پری کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی دیکھیں بھائی کس طرح نشان پڑے ہیں انگلیوں کے میری بچی کے چہرے پر پہلے تو میں شاید سالار کو معاف کر ہی دیتی پر اب تو بلکل نہیں۔۔ اۓ وہ زرہ میرے سامنے اسی طرح اس کے منہ پے بھی انگلیوں کے نشان سب کو نظر نہ آئیں تو کہنا۔۔ زریاب نے شرمندگی سے سر نیچے کر لیا اور بولا شگفتہ میں سالار کی طرف سے معافی مانگتا ہوں اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور بولا اب میں چلتا ہوں ۔

شگفتہ نےزریاب کی طرف دیکھا اور بولی نہیں بھائی آپ معافی مت مانگیں ۔ زریاب اداس سا مسکرایا اور بولا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا صرف حیدر ہی نہیں میں بھی تمہارا بھائی ہوں ۔ہاں یہ الگ بات ہے کے تمہاری شادی کے معاملے میں میں نے تمہارا ساتھ نہیں دیا تھا ۔

یا یوں کہہ لو اس وقت مجھے جو ٹھیک لگا میں نے کیا۔۔ لیکن تمہارے لیے میں نے کبھی غلط نہیں چاہا۔ اور یہ صرف تمہاری بیٹیاں نہیں ہیں میری بھی ہیں ۔کاش سالار صبر سے کام لیتا ایک دفعہ بس ایک دفعہ مجھ سے مشورہ تو کرتا ۔پھر ہم لوگ خود پری کو تم سے مانگتے پر غلطی تو وہ پہلے ہی کر چکا تھا ۔

اب کیا کر سکتے ہیں۔۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کے اسے معاف کر دینا کیوں کے وہ پیچھے ہٹ گیا ہے ۔۔ یقین مانو مجھے خوداس بات پر حیرت ہے ۔خیر اپنا اور بچیوں کا خیال رکھنا میں آتا جاتا رہو گا ۔ اب تم لوگ ادھر ہی رہو ۔ یہ تمہارا ہی گھر ہے کیوں کے جائیداد میں تمہارا بھی حصہ ہے ۔

ہم تم پر احسان نہیں کر رہے جو تمہارا ہے وہی تمہیں دے رہے ہیں باقی۔گارڈ باہر ہیں ۔ایک گاڑی اور ڈرائیور شام تک میں بجھوا دوں گا اور کام والی بھی حویلی سے ہی آۓ گی یہاں شہروں سے کام والی بھروسہ مند نہیں ہوتی۔

زریاب نے جیب سے ATM نکال کر شگفتہ کے پاس رکھتےہوۓپری کے سر پر ہاتھ پھیرا جو ماں کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی۔ اور خدا خافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔۔

 ایمان کمرے میں داخل ہوئی اور ماں سے بولی امی بہت پیارا گھر ہے آپ کو پتہ ہے پیچھے بڑا پیارا گارڈن بھی ہے۔ 

 ‏وہ گھر کے بارےمیں بتاتی ہوئی ماں کے پاس بیٹھ گی ۔اور ہاں امی وہ حیدر ماموں کیا کہہ رہے تھے فون پر۔۔ایمان نے ماں کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ وہ بیٹا نہیں آ رہے ۔ اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کے ہم اب یہاں ہی رہیں گے کہیں اور نہیں جائیں گے۔

پری کے کالج فون ملا کر دو میں پرنسپل سے بات کرتی ہوں کے پری کی ڈیٹ شیٹ اور رولنمبر سلپ سدرہ کو دیے دیں ۔

 ‏

 ‏💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏اس احمد کی وجہ سے میری بیٹی مجھ سے دور ہو گئی اور اب اسکی بیٹی کی وجہ سے میرا اکلوتا وارث  میرا اکلوتا پوتا چلا گیا۔ چوہدری دلاور غصے اور غم کے ملے جلے انداز میں بولا اور دیکھو مل کر بھی نہیں گیا۔ وہ تو ولی نہ ہوتا تو کون بتاتا۔اور صوفے پر بیٹھتے ہوۓ زریاب کی طرف دیکھ کر بولا ایک بات بتا دوں میں تم لوگوں کو وہ پیار کرتا ہے اس سے ۔۔دیکھا ہے میں نے اس کی آنکھوں میں ۔۔

اور تم لوگ کیا مجھے پتھر سمجھتے ہو بولو۔ اور شگفتہ کی بھی شادی کے خلاف نہیں تھا میں ۔بس زبان دے بیٹھا تھامیں ۔۔ کیسے ہٹتا پیچھے ۔پھر بھی۔۔ اب کی بار چوہدری دلاور نے بات پر زور دیتے ہوۓ کہا پھر بھی جب وہ احمد کے ساتھ نکاح کر کے آئی تو کیا میں چاہتا تو احمد اور اسے سزا نہیں دے سکتا تھا گولی مار سکتا تھا لیکن میں نے جانے دیا کے جی لیں وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے ۔

 چوہدری دلاور نے نفی میں سر ہلایا اور بولا مگر اب نہیں بلکل نہیں سالار کے معاملے میں تو بلکل نہیں اتنا کہ کر وہ صوفے سے اٹھا اور انگلی سب کی طرف کرتے ہوۓ بولا وہ لڑکی صرف اور صرف سالار کی ہے بتا رہا ہوں میں تم لوگوں کو اور میں یہ بھی جانتا ہوں سالار کو پیچھے ہٹنے کا کس نے کہا ہے۔ 

اتنا یاد رکھنا میں کسی بات سے انجان نہیں ہوں۔اور سالار کی خوشی میرے لیے تم سب لوگوں سے کہی زیادہ ہے۔ سامنے بیٹھے زریاب ،آمنہ اور بی جان بس چوہدری دلاور کی باتیں سن رہے تھے ۔اور کسی کی جرات نہیں تھی کے بولتا۔ 

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀پری بیٹا اٹھ گئی ہو چلو جلد سے فریش ہو کر  نیچے آؤ میں ناشتہ بناتی ہو ۔ شگفتہ پری کے سر پر پیار کرتے ہوۓ بولی تو پری نے مسکراتے ہوۓ سر ہلا دیا ۔پری فریش ہو کر نیچے ہال میں آئی تو ایمان میز پر کھانا رکھ رہی تھی ۔ پری کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولی امی میری ڈیٹ شیٹ کا کیا ہو گا۔ شگفتہ اس کے پاس ہی دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولی تم فکر مت کرو پرنسپل سے میری بات ہو گئی ہے

 میں نے انہیں بتایا ہے کے میں عدت میں ہوں اورتم اکیلی  نہیں آسکتی تو وہ سدرہ کو دے دیں ۔ اب سدرہ سے منگوا لیں گے کل ڈرائیور بھیج کر ۔ ٹھیک ہے امی اتنا کہہ کر پری کھانے میں مصروف ہو گئی۔ 

 ‏💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ‏دیکھ لیا تم نے اپنی ضد کا نتیجہ روکتا رہ گیا تھا تمہیں لیکن نہیں جی سالار صاحب کب کسی کی سننے والے ہیں انہیں تو ہر چیز اپنی مرضی سے کرنی ہے ۔بگاڑ دیا نا سب کچھ ۔ ۔۔اور جنگلی انسان شرم تو نہیں آئی تمہیں اس چھوٹی سی لڑکی کو ٹھپڑ مارتے ہوۓ۔ ولی غصے میں آگ بھگولہ ہوتے ہوۓ بولا تھا۔۔ سالار ولی کی طرف بھنویں اٹھا کر دیکھتے ہوۓ بولا

اس چھوٹی سی لڑکی نے پہلے مجھے تھپڑ مارا تھا۔ اور کوئی چھوٹی شوٹی نہیں ہے وہ تم لوگوں کی وجہ سے سب بگڑ گیا۔۔ولی طنزیہ مسکراتے ہوۓ بولااوووووو واہ جی واہ  دیکھو تو ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری سب کچھ خود بگاڑ کر ہمیں کیوں الزام دے رہے ہو ۔۔ سالارابھی کچھ بولنے ہی لگا تھا

کے دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی حیدر اندر آگیا۔ حیدر کو دیکھ کر دونوں سلام کرتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوۓ۔ حیدر دونوں کو ملنے کے بعد صوفے پر بیٹھ گیا اور سالار کو مخاطب کرتے ہوۓ بولا میری بات ماننے کا شکریہ ۔ تم نے میرا مان رکھ لیا۔ سالار اداس سا مسکرایا اور بولا کوئی بات نہیں چاچو آپ نے پہلی دفعہ کچھ کہا کیسے نہیں مانتا ۔ لیکن آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا۔

 حیدر مسکراتے ہوۓ بولا ہمم یاد ہے لیکن ایک دو ماہ انتظار کرو ۔ سالار حیدر کی طرف آنکھیں سکیڑ کر دیکھتے ہوۓ بولا چاچو ایک مہینے کی بات ہوئی تھی۔ یہ دو کہاں سے ہو گۓ ۔ حیدر سالار کے انداز پر کھل کر ہستے ہوۓ بولا سالار تم پچھلے سات سال سے میرےساتھ ہو لیکن پہلے اور اب کے سالار میں بہت فرق ہے تم تو ایک مہینہ بھی نہیں رہے پاکستان اور اتنا بدلاؤ ۔۔

ولی جو ان دونوں کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوتے ہوۓ بولا اب آپ دونوں مجھے کچھ بتانے کی تکلیف کریں گے ۔سالار نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور بولا بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں 

 ‏اتنا کہتے ہوۓ سالار اٹھا اور جا کر دراز میں سےوہ فائیل نکالی جس پر اس نے پری کے سائن لیے تھے ۔اور ولی کو پکڑاتے ہوۓ بولا تمہاری سب باتوں کا جواب اس میں ہے ۔۔ولی نے فائل کھولی ۔اور جیسے ہی وہ پڑھ چکا تو اس کے منہ سے نکلا what اب ولی خیرت سے سالار اور حیدر کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا پری نے کیسے سائن کر دیئے اس پر تم نے یقیناً زبردستی کی ہو گی۔

سالار دونوں ہاتھ کھڑے کرتے ہوۓ بولا قسم لے لو بلکل زبردستی نہیں کی خود کیے ہیں اس نے ولی سر کھجاتے ہوۓ بولا اسی لیے تم مان بھی گۓ میں بھی سوچوں سالار اور پیچھے ہٹ جاۓسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ولی حیدر کی طرف دیکھ کر بولا بابا آپ سب جانتے تھے پھر بھی اپ نے اس کا ساتھ دیا حیدر پاس بیٹھے ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا

 تم دونوں جان ہو میری کچھ بھی کر سکتا ہوں تم دونوں کے لیے لیکن ۔احمد اور شگفتہ کی بیٹیاں بھی مجھے تم جتنی ہی پیاری ہیں ۔اب اس کا حل اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتا تھا ۔ اب بس ایک ماہ کی بات ہے سب ٹھیک ہو جاۓ گا میرا وعدہ ہے ۔ 

پری پڑھ لو صبح پیپر ہے تمہارا اور پچھلے ایک گھنٹے سے تم انگوٹھی سے کھیلے جا رہی ہو ۔ ایمان نظریں اٹھا کر دیکھتے ہوۓ بولی تو پری رونی سی شکل بنا کر بولی آپی مجھ سے نہیں پڑھا جاتا۔  اچھا جناب کیوں نہیں پڑھا جاتا ہماری پری سے ۔۔پری اپنی گود سے کتاب ایک طرف رکھتے ہوۓ بولی آپی ماموں کب آئیں گے ۔ایمان آنکھیں سکیڑ کر بولی کیوں تمہیں کیا کام ہے ماموں سے ہممم۔۔۔ پری نظریں چراتے ہوۓ بولی

 نہیں کچھ بھی نہیں بس ویسےہی پوچھ رہی تھی ۔ ایمان مسکراتی ہوئی پری کے پاس آکر بولی ماموں سے سالار کا تو نہیں پوچھنا ہو گا ۔۔ہے نا۔۔۔ پری اپنی انگلیوں سے کھیلتے ہوۓ بولی میں کیوں پوچھوں گی بھلا میرا کیا کام اس سے اور ویسے بھی خود ہی تو گیا ہے ا

ور تو اور بڑا ہیرو بن کر کہا تھا اس نے انگوٹھی مت اتارنا اس انگوٹھی کا مطلب ہے منگنی ہوئی ہے۔۔اور اپ دیکھیں کتنے دن ہو گۓ خود تو فون تک نہیں کیا ۔ ۔اچھا جی تو اس کا مطلب ہے کے تمہیں انتظار تھا کے وہ فون کرۓ۔۔۔ایمان شرارتی انداز میں بولی تو پری چڑ کربولی آپی مجھے کیوں ہوگا انتظار ۔۔😏

اچھا تو پھر پڑھو ایمان اس کے سر پر ہلکا سا تھپڑ مارتے ہے بولی ۔۔تو پری رونا شروع ہو گئی ۔اللہ اللہ پری خدا کے لیے زرا سا ہاتھ لگایا ہے دیکھو کیسے رو رہی ہو ایمان اب پریشان ہو کر بولی اور پری کو گلے لگاتے ہوۓ بولی پاگل لڑکی تم نہ بھی بتاؤ اپنی آپی کو پھر بھی میں سمجھ رہی ہوں کے تمہیں کیا مسلہ ہے ۔پہلے تم چپ ہو پھر ایک بات بتاتی ہوں ۔پری آنسو پونچھتی ہوئی بولی کیا بات ہے بتائیں۔۔۔

وہ ماموں حیدر کی کال آئی تھی بتا رہے تھے کے سالار بھائی وہاں لندن ہیں۔۔۔ کیا؟۔۔  پری ایک دم سے بولی وہاں کیا کر رہے ہیں ایسے کیسے ۔۔۔پری نے ایمان کی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا اور بولی ہاں ہاں تو جائیں جہاں دل کرتا ہے جائیں مجھے کیا۔

اتنا کہہ کر دوبارہ منہ بنا کر بیٹھ گئی تو ایمان بولی۔چلو پڑھو ورنہ قسم لے لو میں کرنے لگی ہوں فون ماموں کو کے بھیج دیں وہ سالار بھائی کو واپس😜۔۔

شگفتہ کمرے میں داخل ہوئی جس نے دروازے سے ایمان کا آخری جملہ سنا تھا سنجیدگی سے بولی ایمان یہ کس قسم کی باتیں کر رہی ہو تم کوئی شرم ورم  نہیں ہے ۔

عمر کیا ہے تم لوگوں کی اور کیا یہ تربیت کی ہے میں نے کے اس طرح کے فضول مزاق کرو ایک دوسرے سے ۔۔شگفتہ  دونوں کی طرف دیکھ کر بولی اب دوبارہ اس قسم کی گفتگو میں نہ سنوں سمجھی ۔

پری کی بات سن کر جیسے سدرہ اور ثناء کو سکتہ ہو گیا تھا ۔ ث

ناءپری کے چہرے پر  آنکھیں جماۓ بولی سچی پری اتنا کچھ ہو گیا ۔اللہ کتنا فلمی سا سب ہے نا ۔۔سدرہ دونوں ہاتھ اٹھا کر آنکھیں بند کر کے بولی ہاۓ اللہ جی ہمارے لیے بھی کوئی ایسا ہی زبردست سا ہیرو بھیج دیں نا پلیز پلیز تاکہ اس پڑھائی سے تو جان چھوٹے۔۔

پری دونوں کی طرف دیکھ کر معصوم سا منہ بناتے ہوۓبولی کیسا ہیرو۔ ہیرو کوئی تھپڑ تھوڑی مارتے ہیں اور غصہ بھی نہیں کرتے ۔ وہ تو بہت سویٹ ہوتے ہیں سالار تو بلکل سویٹ نہیں تھا۔ 

سدرہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی ۔اچھا جی اس کا تھپڑ یاد ہے تو تم نے کون سا اس کی چومی لی تھی جو وہ تم پے واری واری جاتا تم نے پہلے تھپڑ مارا تھا تو اس نے بھی تو مارنا تھا۔ اور ایک بات یاد رکھنا کوئی مرد تھپڑ نہیں کھاتا۔ سدرہ پھر شرماتے ہوۓ ڈرامائی انداز میں بولی اوراوپر سے ہو بھی ہیرو نہ جی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔

ثناء اپنی گال کے نیچے ہاتھ رکھ کر بولی ہاۓ پری یار نکاح ہوتا ہوتا رہ گیا اور پھر اچانک سے ثناء پری کو گھور کر دیکھتے ہوۓ بولی پری وہ پیپر کیسے  تھے جن پر تم نے سائن کئے تھے ۔ اب سدرہ اور ثناء دونوں پری کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔ تو پری نے کندھے اچکاتے ہو کہا مجھے نہیں پتہ میں نے دھیان نہیں کیا۔۔۔۔ کیا سدرہ اور ثناء ایک ساتھ بولیں۔۔۔ہ

اں اس وقت میں ڈری ہوئی تھی ۔ پر میں نے پوچھا تھا تو اس نے کہا کے مجھے جاننے کی ضرورت نہیں۔۔ اللہ پری کتنی لاپرواہ ہو تم اب کیا پتہ کے تم نے کیا سائن کیا ہے ۔سدرہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی ۔

پری ناک چڑھاتے ہوۓ بولی اب بس کرو یار چھوڑو اس موضوع کو  پہلے ہی آج کا پیپر زرہ بھی اچھا نہیں ہوا ۔ 

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا ہے یار سالار مسلہ کیا ہے کیوں اتنا غصہ نکال رہے ہو ورکرز پر اتنی بڑی غلطی تو نہیں تھی۔ لگ جاتا ہے فرق تھوڑا بہت یہ لوگ بھی انسان ہیں ۔ سالار نے پانی کا گلاس اءک ہی بار میں گلے میں اتارا اورتھوڑا پرسکون ہو کر بولا

 تم جاؤ جا کر ہینڈل کر میں کچھ دیر ریلیکس کرنا چاہتا ہوں ۔ ولی نفی میں سر ہلاتا ہوا چلا گیا ۔۔ سالار لمبی سانس لیتے ہوۓ بولا ایسے تو کام نہیں چلے گا ۔۔حیدر چاچو اس سے تو بہتر تھا کے آپ میری جان لے لیتے ۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شگفتہ آمنہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اس کے گلے لگی ۔ اور اس کے پیچھے دھیان گیا تو بی جان اور بابا کو دیکھ کر آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا سب کو ہال میں بٹھاتے ہوۓ ایمان اور پری کو آواز دی ۔ اور بولی آپ لوگ فون تو کرکے بتاتے کے آ رہے ہیں میں کچھ خاص بناتی آپ لوگوں کے لیے ۔بی جان بولی نہیں بیٹا ٹھیک ہے ۔

 ایمان اور پری ہال میں آئی تو ایمان آگے بڑھ کر سب کو ملی پری نے سب کی طرف نظر دوڑائی تو اسے اتنا اندازہ ہو گیا کے کون ہیں تھوڑا ہچکچاتے ہوے آگے بڑھی تو آمنہ جلدی سے کھڑی ہو گئی اور پری کو گلے لگا لیا اسے ماتھے پر پیار کرتے ہوۓ بولی تم واقع ہی پری ہو ۔

چوہدری دلاور مسکراتے ہوۓ بولا آؤ ادھر نانا سے نہیں ملو گی پری جو اب بی جان سے مل رہی تھی ۔ان کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوۓ بولی جی نانا ابو کیوں نہیں ۔

 ملنے کے بعد چوہدری دلاور نے پری کو پاس ہی بیٹھا لیا۔۔ اور بولے اچھا تو پیپر ختم ہوۓ ۔ پری سر ہلاتے ہوۓ بولی جی نانا جی۔۔۔۔۔۔ 

آپ لوگ رہ جاتے شگفتہ نے کہا تو بی جان بولیں نہیں پھر سہی ابھی تو ہم بس پری سے ملنے آۓ تھے ۔ سب ملنے کے بعد باہر نکل گۓ تو آمنہ شگفتہ کا تھ پکڑ کر بولی ۔ میرے سالار کے بارے میں دل نرم کرنے کی کوشش کرنا ۔

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں چاچو ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔ سالار میز پر ہاتھ مارتے ہوے بولا۔ آپ نے کہا تھا مجھے اس کے پیپرز ہو جانے دوں صبر کروں ۔ اور اس بات کو بھی چھوڑیں ۔ ایک مہینے میں صرف ایک مہینے میں بڑی ہو گئی ان کی بیٹی ایسا کیسے کر سکتی ہیں پھوپھومیں پاکستان جا رہا ہوں بس بہت ہو گیا بہت مان لی میں نے آپ سب کی اب اور نہیں ۔۔سالار غصے میں باہر جانے لگا

 تو حیدر نے اس کا بازو پکڑ لیا اور بولا سالار پلیز ۔۔سالار حیدر کی طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوۓ بولا چاچو آپ نے سن بھی کیسے لی پھپھو کی بات ۔۔حیدر شرمندہ سا بولا قسم لے لو سالار جو شگفتہ نے بتایا ہو ۔۔۔وہ تو رات کواس کی کال آئی تو اس نے بتایا ۔

دیکھو سالار میں کرتا ہو کچھ تم بس اپنے دادا کو ابھی کچھ مت بتانا اور ہاں میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا پاکستان ۔۔ نہیں چاچو میں اکیلا جاؤں گا ۔کیوں کے آپ لوگوں نے مجھے پھر سے سمجھانے لگ جانا ہے ۔ حیدر اس کا چہرہ دونوں ہاتھو میں پکڑتے ہوۓ بولا  سالار جلد بازی مت کرو ۔۔ سالار پیچھے ہٹتے ہوۓ بولا

چاچو آپ کے کہنے پر ایک مہینہ پورا ایک مہینہ میں چپ چاپ رہا ہوں اس کا نتیجہ دیکھ لیا آپ نے فرض کریں اگر وہ آپ کو نہ بتاتیں سب کچھ کرنے کے بعد بتاتیں ۔تو تو بولیں کیا کر لیتے آپ پھر مجھے کہتے چھوڑو جانے دو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ ہیں نا۔۔۔۔۔ سالار نے آنکھیں بند کی اور بولا 

ویزہ اپ نے لگوایا تھا ان لوگوں کا ۔۔حیدر نے ہمم کہتے ہوۓ سر ہلایا۔۔ تو سالار مسکراتے ہوے بولا بس تو دو دن بس دو دن میں پری یہاں ہو گی ۔۔ چاہے اپنی مرضی سے آۓ یا میری سے۔۔ اب کوئی نہیں روک سکتا اگر روکا تو یاد رکھیے گا سالار کا مرا منہ دیکھیں گے آپ سب لوگ۔۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

امی پلیز  نہیں پری رونی شکل بنا کر بولی۔۔ شگفتہ جو دو دن سے پری کو منانے کی کوشش کر رہی تھی پھٹ پڑی اور غصے میں پری کی بازو پکڑتے ہوۓ بولی ایک بات دماغ میں بٹھا لو جو فیصلہ میں نے کیا ہے وہی ہوگا سمجھی اور اب کوئی بحث نہیں سنو گی میں ۔۔

جلدی سے تیار ہو جاؤ. سب مہمان آتے ہوں گے۔  تمہاری وجہ سے ایمان کے لیے بھی مسلہ ہو گا۔  اور آپنا منہ بند رکھنا کوئی فضول بات نہیں ہونی چاہئے ۔

 شگفتہ بات مکمل کر کے جانے لگی تو ایمان بول پڑی امی آپ پری کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہی اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو کیوں زبردستی کر رہی ہیں آپ۔۔۔ شگفتہ نے ایمان کی طرف گھور کر دیکھا

 اور بولی تم اپنا منہ بند رکھو جس بات کی سمجھ نہ ہو اس میں دخل نہیں دیتے۔اور بیوٹیشن کو میں اوپر بھیجنے 

لگی ہوں ۔ خاموشی سے تیار ہونا اس کے سامنے کوئی بات نہ ہو ۔۔ اتنا کہہ کر شگفتہ کمرے سے نکل گئی۔ پری ایمان کی طرف دیکھ کر سسک کر رونے لگی۔ اور بولی دیکھیں نا آپی امی ایسا کیسے کر سکتی ہیں مجھے نہیں کرنی شادی اس علی سے اس سے تو اچھا سالار ہے اگر شادی ہی کرانی تھی تو اسی سے کروا دیتی اور ابھی جلدی کیا ہے امی کو۔۔ 

 یہ سب سارہ آپی کا کیا دھرا ہے ۔ کیا ضرورت تھی سعد بھائی کے کزنز کا رشتہ بھجوانے کی۔ اور اگر بجھوانا ہی تھا تو صرف آپ کا کرواتی میرا کیوں ۔ایمان پری کو گلے لگا کر بولی ۔ پری دیکھو پہلی بات یہ کے انہوں نے آپی کے نکاح پر ہی پسند کیا تھا ہم دونوں کو اپنے دونوں بیٹوں کے لیے ۔اور دوسری بات یہ کے  امی نے ان لوگوں کو ہاں کر دی ہے اور ویسے بھی ابھی تو صرف نکاح ہے رخصتی تو ابھی نہیں ہو گی چھ سات ماہ بعد ہو گی اور ویسے بھی  پرپیشان مت ہو دونوں بہنیں ایک ہی گھر جا رہی ہیں تو میں ہوں نا ۔پری ایمان سے پیچھے ہٹتے ہوۓ بولی

آپی مجھے علی سے نہیں کرنی شادی پلیز ۔۔۔ایمان نے پری کے آنسو پونچھے اور بولی اچھا تو کس سے کرنی ہے شادی ہممم بولو ۔۔پری اپنی انگلیوں سے کھیلتے ہوۓ بولی آپی سالار اتنا برا بھی نہیں ہے آپ امی سے کہیں نا اگر کرنی ہے تو اسی سے کر دیں میری شادی ۔

 اور سچی پوچھیں تو مجھے تو لگتا ہی نہیں کے ان لوگوں کو میں پسند ہوں ۔وہ تو صرف آپ کی باتیں کرتے ہیں ۔۔ایمان سر پکڑ کرچپکے سے مسکرا کر بولی اف پری تم سمجھتی کیوں نہیں اب کچھ نہیں ہو سکتا کچھ گھنٹوں میں نکاح ہے ۔ اور ہاں یہ لو انگوٹھی پہن لو پر کسی کو بتانا مت کے سالار نے دی تھی۔ ایمان مسکراتی ہوئی اٹھی اور واش روم چلی گئی

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کہا تھا اکیلا آنا ہے مجھے پاکستان لیکن نہیں آپ دونوں نے لازمی آنا تھا ۔ سالار کی بات سن کر حیدر کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓبولا کیسے اکیلا آنے دیتے ہمیں تمہارا پتہ ہے کتنے جذباتی اور غصے والے ہو تم ۔۔۔سالار حیدر کے پاس آکر کھڑا ہوتے ہوے بولا

چاچو رات سے آپ لوگوں نے مجھے روکا ہوا ہے۔ پلیز مجھے ان کا پتہ دیں جانا ہے مجھے ۔۔حیدر سالار کو دیکھتے ہوۓ بولا سالار صبر کرو تین بجے کا وقت ہے نکاح کا اور ویسے بھی تمہارے بغیرپری کا نکاح نہیں ہو سکتا مطمین رہو۔۔ سالار حیدر کو گھور کر دیکھتے ہوۓ بولا کیا مطلب۔۔

حیدر ماتھا کھجاتے ہوۓ بولا وہ تمہارے پاس پری کے سائن والے پیپرز ہیں نا اس لیے اور ہم لوگ وقت پر  پہنچ جائیں گے بس سب کو آ جانے دو ۔ زریاب بھائی سے ہوئی ہے میری بات ۔۔وہ سب کو لے کر آ رہے ہیں تم بس خود کو کنٹرول کرو وہاں جا کر بھی ہم لوگ کریں گے بات کیوں کے ایمان کا بھی نکاح ہے ۔

ایسا نہ ہو کے تمہارے اور پری کے معاملے کا اثر اس کے رشتے پر پڑے۔۔۔ ۔سالار بھنویں اٹھا کر بولا ہاں تو ہونے دیں مسلہ میں کیا کروں اس بات کا احساس تو پھپھو کو ہونا چاہیے تھا ۔اور ویسے بھی کوئی مسلہ نہیں ہم ایمان کا نکاح ولی سے کروا دیں گے سالار کی بات سن کر ولی جو پہلے مسکرا رہا تھا

ایک دم سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اسے گھور کر بولا سالار اپنے مسلے حل کرنے کے چکر میں مجھے قربانی کا بکرا مت بناؤ سمجھے ۔اور ویسے بھی میرا ابھی کوئی پلان نہیں شادی کا ۔یہ شادی والی مصیبت مجھے نہیں مول لینی۔ یہ عشق وشق کے چکر تمہیں مبارک۔۔سالار ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا میں خود کو بہت تیس مار حان سمجھتا تھا اب دیکھ لو مجھے ایک دن تم بھی کسی سے پیار کرو گے تب پوچھوں گا میں ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ثناء انسان بنو تنگ مت کرو ۔پری اکتاہٹ سے بولی.... ہاۓ پری قسم لے لو یار کتنی پیاری لگ رہی ہو کیوں سدرہ بولو نا بتاؤ اس کو ۔۔سدرہ منہ بنا کر بولی ہممم پر یار پری مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔ پری نے سدرہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو سدرہ بولی

دیکھو یہ جو لڑکے والے ہیں ۔ بڑے مشکوک سے ہیں ۔میں ان کے پاس ابھی کچھ دیر بیٹھی ہوں وہ تو صرف ایمان آپی کی ہی باتیں کر رہے ہیں تمہارا تو ذکر بھی نہیں کیا۔ اور جب میں تمہاری بات کرنے لگی تو انٹی شگفتہ نے مجھے غصے سے اوپر بھیج دیا ۔پری تم مانو یا نہ مانو کچھ تو گڑ بڑ ہے ۔ ہاں ہاں ہے گڑ بڑ ۔۔پتا ہے کہاں تمہارے دماغ میں ثناء سدرہ کے سر پر ہاتھ لگاتے ہوۓ بولی

تو سدرہ اس کے ہاتھ پر ٹھپڑ مار کر بولی میں سچ کہہ رہی ہوں وہ لوگ تو بار بار ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کے چھ سات ماہ بعد رخصتی لیں گے آپی ایمان کی ۔۔۔پری کی رخصتی کا تو ذکر ہی نہیں اور تو اور وہ علی تو مجھے کہیں سے بھی دولہا نہیں لگ رہا ۔۔

اور ہے بھی چھچھورا سا۔۔۔شوخہ سا ہے ۔مجھے تو زرہ پسند نہیں آیا۔ سدرہ نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ اوووو تمہیں پسند نہیں آیا تمہاری پسند پوچھی کس نے ہے۔۔ثناء مزاق اڑاتے ہوۓبولی تو سدرہ پاؤں پٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سالار تم ولی کے ساتھ ادھر اس کمرے میں بیٹھو باہر مت آنا ۔ایمان کے سسرال والے ہیں ابھی ہم لوگ مل لیں بعد میں تمہیں بلاتے ہیں ۔زریاب دونوں کو کمرے میں لے جا کر بولا۔۔سالار بالوں میں ہاتھ مارتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔

اور ولی جو مسلسل فون پر مصروف تھااس کی طرف دیکھ کر بولا ولی کیا مسلہ ہے میں کافی دنوں سے دیکھ رہاہوں تم کسی مسلے میں الجھے لگتے ہو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پریشانی ہے ۔ولی فون جلدی سے جیب میں رکھتے ہوۓ بولا نہیں یار کچھ نہیں ۔کچھ خاص نہیں ۔۔

💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سدرہ کچن کے دروازے میں کام والی ماسی کے ساتھ کھڑی سب کو ملتا دیکھ کر بولی ماسی یہ لوگ تو ایسے مل رہے ہیں جیسے بڑی خوشی چڑھی ہو ۔انہیں تو دکھی ہونا چاہیے کے پری کی ان کے بیٹےکی  بجاۓ کسی اور سے شادی ہو رہی ہے ۔

پر نہیں جی دیکھو تو کتنے بے حس لوگ ہیں اور ادھر دیکھو ہماری پری بیچاری رو رو کر پاگل ہو گئی ہے ۔کام والی جس کی عمر تقریباً پنتالیس برس کے قریب تھی سدرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی کچھ دیر انتظار کرو بیٹا تمہیں سب سوالوں کے جواب مل جائیں گے اور ہاں ایک بات بتاؤں۔

اگر وعدہ کرو کے کسی کو نہیں بتاؤ گی ۔۔سدرہ نے سر ہلایا توکام والی بولی ۔۔وہ جو باہر کی طرف کمرہ ہے نا اس کمرے میں پتہ ہے کون ہے سدرہ نے سوالیہ نظروں سے کام والی کو دیکھا تو کام والی مسکرا کر بولی سالار صاحب ہیں وہاں وہ بھی آۓ ہیں 

سدرہ کو تو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا حیرت سے اچھل کر بولی قسم سے 😲آپ سچ کہہ رہی ہیں۔۔ اللہ اللہ کیسے لوگ ہیں اللہ معاف کرے بے حس لوگ ابھی سیدھا کرتی ہوں اس سالار کے بچے کو اتنا کہہ کر سدرہ باہر کے کمرے کی طرف بڑھی تو کام والی گھبرا کر بولی نہیں بی بی خدا کے لیے ۔پر سدرہ اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی جا چکی تھی۔

کمرے کا دروازہ زور دار دھماکے سے کھلا تو  ولی نے چونک کر دیکھا تو ایک لڑکی کالے رنگ کی فراک پہنے غصے میں اندر داخل ہوئی اور ولی کے سامنے کمر کے دونوں طرف ہاتھ رکھتے ہوۓ۔سر سے لے کر پاؤں تک دیکھ کر بولی ۔۔

ہممم تو تم ہو سالار ۔۔۔۔۔ولی ایک ٹک اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جب سدرہ نے ولی سے نظر ملائی اور بھنویں اٹھا کر دوبارہ کہا تم سالار ہو۔۔۔ ولی سدرہ کی آنکھوں میں خاموشی سے کوئی جواب دئیے بغیر دیکھ رہا تھا ۔

اسی وقت واش روم سے نکلتے سالار نے جواب دیا میں ہوں سالار کیا بات ہے ۔ سدرہ سالار کی آواز سن کر جلدی سے اس کی طرف پلٹی ۔۔تو سالار چلتا ہوا ولی کے پاس آکر کھڑا ہوتے ہوۓ بولا میں سالار ہوں اور یہ میرا دوست ولی ہے۔ بولیں کیا کام ہے ۔۔ سدرہ سالار سے مخاطب ہو کر بولی ۔اچھا تو آپ جناب ہیں سالار اعظم 🤔

ولی جو سدرہ کو ہی دیکھ رہا تھا وہ سدرہ کے الفاظ پر قہقہ لگا کر ہسااور سالار کی طرف دیکھ کر ہسی دباتے ہوۓ بولا سسالااارےےے اعظمممم واااوووو کیانام دیاہے جی 👌زبردست۔۔۔سدر غصے سے ولی کی طرف دیکھ کر بولی منہ بند کرو سمجھے بڑی شوخیاں چڑھ رہی ہیں تمہیں۔۔ ولی خیرت سے سدرہ کی طرف دیکھ کر بولا تمیز سے بات کرو ۔۔

سدرہ طنزیہ ہستے ہوۓ بولی فِل حال اپنی تمیز کا بھاشن اپنے پاس ہی رکھو ۔مجھے تم سے نہیں ان حضرت سے بات کرنی ہے ۔اتنا کہہ کر سدرہ سالار کی طرف دیکھ کر بولی۔ تم ادھر کھڑے کیا کر رہے ہو ہممم باہر جب پری کا اس چھچھورے علی کے ساتھ نکاح ہو جاۓ گا تب باہر آ کر کیا وہ گانا گانے کا ارادہ ہے ( میرے یار کی شادی ہے۔)

ہمم یہاں تمہاری مسکراہٹیں ختم نہیں ہو رہیں ۔اور دوست کے ساتھ مل کر مسخرا پن کیۓ جا رہے ہو ۔کوئی ارادہ ہے پری سے شادی کا یا نہیں ۔۔سالار سدرہ کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوے بولا کون ہو تم ۔۔سدرہ اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی لو جی کتنا ٹائم ہے اس بندے کے پاس ۔۔دوست ہوں میں پری کی بس اب ان باتوں کو چھوڑو اور بتاؤ کیا کرنا ہے اس کے نکاح کا گواہ بنا ہے یا نکاح کرنا ہے اس سے۔۔ کس پروگرام میں ہو ۔سالار سدرہ کی بات سن کر ایک آبرو اٹھا کر بولا

 تمہیں کیا لگتا ہے مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔ سدرہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہوۓ بولی مطلب یہ بھی میں بتاؤں ۔سالار نے مسکرا کر سر ہالایا۔۔تو سدرہ نفی میں سر ہلاتے ہوۓ ولی کی طرف ایک نظر دیکھ کر سالار سے مخاطب ہو کر بولی کوئی عقل مند دوست بناتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ولی ایک دم سے چونک کر بولا کیا مطلب ہے ہاں مطلب کیا ہے تمہارا۔۔

سدرہ ولی کی طرف دیکھ کر بولی وہی مطلب جو تم سمجھے ہو ۔ سالار جلدی سے ان کے درمیان آتے ہوۓ بولا ۔دیکھو لڑکی تم کیا چاہتی ہو کھل کر بات کرو ۔۔سدرہ لمبی سانس لے کر بولی پہلی بات میرا نام لڑکی نہیں سدرہ ہے اور دوسری بات تم یہ نکاح کیسے ہونے دے سکتے ہو ۔۔

سالار صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا ۔دیکھو بڑے سب اندر گئے ہیں بابا اور دادا جی۔۔وہ نکاح نہیں ہونے دیں گے۔۔ وہ مجھے اندر آنے سے روک کر گۓ ہیں کے سارا معاملہ وہ سنبھال لیں گے۔۔ سدرہ آنکھیں سکیڑ کر دیکھتے ہوۓ بولی

 مجھے تو نہیں لگتا وہ لوگ تو اندر جا کر دلہے والوں سے ایسے مل رہے ہیں جیسے میلے میں بچھڑے بہن بھائی سالوں بعد ملتے ہیں۔ سالار داڑھی کھجاتے ہوۓ بولاکیا مطلب ۔۔سدرہ اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی سالار بھائی سچی پوچھیں

 تو مجھے تو کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے دال میں کچھ کالا ہے۔۔نہیں نہیں بلکے پوری دال ہی کالی ہے ۔🤔۔سدرہ پرسوچ انداز میں بولی ۔تو سالار سدرہ کی بات پر مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا ۔کوئی بات نہیں میری یہ بہن ہے نا اب ہم دونوں بہن بھائی مل کر دال صاف کرتے ہیں کیا کہتی ہو۔ سدرہ سالار کی بات سن کر کھلکھلا کر ہسی اور بولی آپ فکر مت کریں میں اندر جاتی ہوں اور کوئی حل نکالتی ہوں ۔۔ اور پری کو بتاتی ہوں کے اس کا ہیرو آگیا ہے ۔

سدرہ اتنا کہہ کر اٹھی اور جاتے ہوۓ ولی کو دیکھ کر بولی ۔دوسروں کو تو بڑی تمیز سیکھاتے ہو خود بھی تھوڑی استعمال کر لو کے اس طرح گھور کر دیکھنا کتنی بری عادت ہے اور اس عادت کی وجہ سے اکثر  دانتوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔۔

سدرہ بات مکمل ہونے تک کمرے سے باہر جا چکی تھی اور ولی ہکا بکا دروازے کی طرف دیکھ کر بولا کتنی منہ پھٹ لڑکی ہے ۔زرا ڈر نہیں اسے ۔سالار قسم سے ہر بات کا جواب ہے اس لڑکی کے پاس ۔

💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شگفتہ مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور سالار کو انگلی کے اشادے سے اپنے پاس بلایا اس کے ماتھے پر پیار کیا اور گلے سے لگا کر بولی پھپھو کی جان سالار نے خیرت سے پیچھے کھڑی بی جان کو دیکھ کر اشارہ سے پوچھنے کی کوشش کی تو بی جان نے مسکرا کر سر ہلایا۔ شگفتہ سالار کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی تم نے اتنی من مانی کی تو کیا میرا حق نہیں بنتا تھا تمہیں تھوڑا تنگ کرنے کا ۔۔اتنا کہہ کر شگفتہ نے ہاتھ میں پکڑا بیگ سالار کو پکڑایا

اور بولی لو یہ کپڑے پہن لو  تاکہ پتہ چلے کے تم دلہا ہو۔۔سالار خیرت سے بولا کیا ۔۔شگفتہ ہستے ہوۓ بولی ہاں تمہارا اور پری کا نکاح ۔۔سالار سب کی طرف دیکھ کر دوبارہ شگفتہ کی طرف دیکھ کر بولا پھپھو آپ مان گئی۔

شگفتہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے بولی ۔سالار پری اور تمہارا ہی نکاح ہونا تھا ۔بس ہم لوگوں نے تم دونوں کو تھورا تنگ کیا ہے ۔۔ اب کی بار سب کھل کر ہسے تو سالار کو اندازہ ہوا کے سب ملے ہوۓ تھے ۔سالار ولی اور حیدر چاچو کی طرف دیکھ کر بولا اپ دونوں بھی جانتے تھے ۔ حیدر اور ولی نے مسکراتے ہوۓ سر ہلایا۔ اور اگے بڑھ کر باری باری گلے لگاتے ہوے بولے ۔بتا دیتے تو اتنا مزہ کیسے آتا۔اور ویسے بھی ایک ماہ کا وعدہ تھا کیسے پورا نہ کرتا

حیدر سالار کو پیار کرتے ہوۓ بولا۔

نکاح کے بعد ایمان کے سسرال والے چلے گۓ ۔ تو زریاب بولا شگفتہ اب ہمیں بھی چلنا چاہیے ۔ نہیں بھائی ابھی رکیں چاۓ بن رہی ہے پی کر جائیں۔ اتنی دیر میں بچے بھی تھوڑی بات چیت کر لیں اتنا کہہ کر شگفتہ  سالار کی طرف دیکھ کر بولی ۔جاؤ بیٹا پری اور ایمان اوپر ہیں ۔ اتنا کہہ کر سیڑھیوں سے اترتی سدرہ کو دیکھ کر شگفتہ نے اسے آواز دے کر بلایا اور بولی سدرہ بیٹا سالار اور ولی کو اوپر لے جاؤ۔ سالار اور ولی اٹھ کھڑے ہوۓ ۔

تو سدرہ سب کی طرف دیکھ کر بولی ویسے میری بات کا برا مت منائیے گا آپ سب لوگ ۔۔ایک بات ہے بڑا ہی ڈرامے باز خاندان ہے آپ لوگوں کا قسم سے اتنا ڈرامہ تو ڈراموں میں بھی نہیں ہوتا۔۔۔سب کے سب سدرہ کو خیرت سے دیکھنے لگے ۔تو سدرہ شرمندہ سی ہو کر بولی میں نے پہلے ہی کہا تھا برا مت منانا آپ لوگ۔۔

سوری کہہ کر اس نے سیڑھیوں کا روح کیا ۔سدرہ کمرے کے باہر ہی سالار کو روک کر بولی ۔ایک بات تو بتائیں بھائی آپ نے پری سے کن پیپرز پر سائن کرواۓ تھے۔ سالار سدرہ کا تجسس دیکھ کر ہستے ہوۓ بولا تم بہت زیادہ بے صبری ہو ۔۔۔سدرہ دروازے کے آگے بازو پھیلا کر کھڑے ہوتے ہوۓ بولی بتائیں گے تو اندر جانے دوں گی ۔اچھا اندر جانے دو پھر پری کے سامنے بتاتا ہوں۔

سدرہ کچھ سوچ کر بولی ٹھیک ہے چلیں ۔۔

اللہ اللہ سالار بھائی کتنے تیز ہیں آپ اور کتنی بےوقوف ہوتم پری سوچے سمجھے بغیر ہی میرج سرٹیفکیٹ پر سائن کر دئیے۔ اس کا تو مطلب یہ ہوا کے۔۔ابھی سدرہ نے بات مکمل نہیں کی تھی کے ایمان اور ثناء اسے ایک ایک بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوۓ باہر ٹیرس پر لے گئی۔ تو ولی مسکراتا ہو ان کے پیچھے چل دیا۔سالار پری کے پاس بیٹھا

اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں لے کر بولا ۔تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔ مجھے پتہ نہیں تھا ورنہ تمہارے لیے کوئی گفٹ ضرور لاتا۔ اس لیے گفٹ ادھار رہا۔

 پری نے نظر اٹھا کر سالار کی طرف دیکھا اور بولی آپ وقت پر آگۓ تھے بس یہ ہی  بہت ہے۔ سالار نے مسکراتے ہوۓ۔ پری کو گلے سے لگایا اور بولا پاگل لڑکی آتا کیسے نہیں۔ 

اف ثناء کیا مسلہ ہے ۔سدرہ منہ بناتے ہوے بولی۔ مسلہ تمہاری زبان ہے جو بند ہونے کا نام نہیں لیتی اور میری ایک بات لکھ کر رکھ لو سدرہ تم اپنی زبان کی وجہ سے مرو گی۔ جو منہ میں آتا ہے بولتی چلی جاتی ہو ۔ سدرہ کا دھیان پاس کھڑے ولی پر پڑا جو اسے ہی دیکھ کر مسکراۓ جا رہا تھا ۔

سدرہ انگلی اس کی طرف کرتے ہوۓ بولی تھوڑی دیر اور تم نے مجھے دیکھا تو قسم لے لو تمہاری دونوں آنکھیں نکال کر ان سے بنٹے کھیلوں گی۔ولی اپنی ناک کھجاتے ہوۓ شرارتی انداز میں بولا اچھا تو میری آنکھیں اتنی پسندآگئی ہیں ۔۔سدرہ 😏منہ بگاڑ کر بولی ہا پسند۔۔۔ زرہ خوش فہمیاں تو دیکھو ۔۔۔جاؤ جا کر دس بارہ دفعہ منہ دھو کر آو اتنی خوش فہمیاں ہیں جناب کو۔ اس سے آگے وہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے اس کا فون بج پڑا تو سدرہ نے جلدی سے اٹھا کر کان کے ساتھ لگایا

 اور  اچھا کہہ کر بند کر دیا۔ اور اٹھ کر کھڑی ہوتے ہوۓ بولی میں چلتی ہوں۔ حمزہ آگیا ہے لینے۔ اور ثناء کوئی آۓ گا لینے یا چلو ہم لوگ راستے میں ڈراپ کر دیں گے ۔ ثناء بھی اتھتے ہوۓ بولی ہاں ہاں تمہارے ساتھ ہی جانا ہے ۔۔

سالار سب جانے کے لیے بلا رہے ہیں ولی دروازے سے آواز دے کر مڑ گیا ۔سالار پری کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر آتے ہوے بولا ۔ابھی میں جا رہا ہوں انشاء اللہ چھ ماہ بعد تمہیں ساتھ لے جانے کے لیے آؤں گا ۔

اور جب میں کال کروں میری کال اٹھا لینا۔ سالار مڑ کر پری کی طرف دیکھ کر بولا میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کے ایک مکمل خوشحال زندگی دینے کی پوری کوشش کروں گا ۔یہ وعدہ ہے میراتم سے۔۔۔ 

💖💖💖💖💖💖💖🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

                         ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Paari Season 1 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Paari Season 1 written by  Umama Nadeem. Paari Season 1 by Umama Nadeem is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment