Pages

Sunday 2 June 2024

Nadeeda Ishq By Aaira Shah Complete Short Story Novel

Nadeeda Ishq By Aaira Shah Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Nadeeda Ishq By Aaira Shah Complete Novel Pdf

Novel Name: Nadeeda Ishq 

Writer Name:  Aaira Shah 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


"خالدہ۔۔۔۔ خالدہ۔۔۔ میرا جوس کہا ہے“ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے غصے سے گھر کی ملازمہ کو آواز دی تھی۔

لائٹ گرین کلر کی شارٹ شرٹ کے ساتھ آف وائٹ جینز پہنے ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے دوسرے ہاتھ کی کہنی پر پرس لٹکائے، ہلکا پھلکا میک اوور کیے کہی جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔

"یہ لیں“ اس کی غصے بھری آواز سن کر خالدہ ٹرے میں گلاس رکھے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی۔ جوس کا ایک گھونٹ بھر کر واپس گلاس رکھا اور گلاسز نکال کر آنکھوں پر ٹکائے اور باہر کی طرف چلی گئی۔ 

اس کے جانے کے بعد ملازمہ نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے گھر میں ہوتے ہوئے سب ملازموں کے سانس ایسے ہی رُکے ہوتے تھے۔ 

اس کے بارے میں گھر میں ملازمین میں مشہور تھا کہ ارشیہ حیدر ایک برف کی خوبصورت مورت تھی۔۔۔ ایک ظالم سفاک حسینہ۔ جس کا دل شاید تھا ہی نہیں۔ دل کی جگہ کوئی پتھر تھا کیونکہ اپنی انا، غرور اور تکبر کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ 

پارٹیزز، کلب نیز کون سا ایسا کام تھا جو یہ لڑکی نہ کرتی تھی۔ گھر سے نکل کر سیدھا وہ اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنے نکل پڑی۔ اسے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ وہ اپنے بابا اور چچا دونوں کی لاڈلی تھی۔ اگر کوئی روکتا بھی تو اسے اس قابل نہ رہنے دیتی کہ اس کے آگے سے دوبارا بول سکے۔  

 ملک عطا کے دو بیٹے حیدر ملک اور اکرام ملک۔ دونوں ہی کی محنت تھی کہ ملک انڈسٹریز نے دن رات ترقی کی منزلیں طے کیں اور آسمان کی بلندیوں کو چھوا تھا۔ لیکن دونوں کے دل میں نہ خدا کا خوف تھا اور نہ ہی انسانیت کے لیے کوئی جذبہ۔

حیدر ملک اور اکرام ملک میں صرف دو سال کا فرق تھا۔ ملک عطا نے دونوں کی اکھٹی شادی کی تھی۔ حیدر صاحب کی شادی ان کی والدہ نے اپنے خاندان میں اپنی بھانجی جیا ملک سے کی جبکہ اکرام صاحب کی شادی ان کے والد کی مرضی سے  نجمہ ملک سے ہوئی۔ 

حیدر ملک کی صرف ایک بیٹی ارشیہ حیدر ملک تھی۔ جو کہ ان کے پَر تُو تھی۔ حسن کی دولت سے مالا مال... انا، تکبر، غرور کے ساتھ زندگی جینے والی۔ اسے اپنی انا، غرور اور تکبر سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔  وہ اپنے دوستوں میں ظالم حسینہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ حیدر ملک کے بے جا لاڈ پیار نے ارشیہ کو  مزید بگاڑ دیا تھا۔ 

اکرام صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زوہیب اکرام ملک۔۔ اپنے نام کا واحد شخص۔ ایک بگڑے رئیس زادے سے زیادہ کچھ نہیں۔ انا، تکبر اسے وراثت میں ملا تھا۔ جو چیز اسے پسند آ جائے وہ اس کی دسترس میں آ کر ہی رہتی تھی۔۔ چاہیے وہ چیز کوئی چیز ہو یا کوئی شخص۔۔ جائز طریقے سے آئے یا ناجائز اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

''''''''''''''''''''''

"عبیرہ۔۔۔ جلدی آؤ مجھے دیر ہوں رہی ہے “ یوسف کی نرم سی آواز اس چھوٹے سے گھر میں گونجی تھی۔  سرخ و سفید رنگت پر گھنی داڑھی، خوبصورت نین نقوش کا مالک وہ لڑکا اپنی بہن کا آوازیں دیے رہا تھا۔ 

عبیرہ نے چہرہ پر نقاب کیا ہوا تھا جس میں سے صرف دو ہلکی بھورے رنگ کی آنکھیں ہی واضح تھی۔ عبیرہ دیوار کا سہارا لیے دروازے تک آئی۔ یوسف نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا باہر نکلا۔

دروازے کو تالا لگا کر دونوں بہن بھائی ایک سمت چل پڑے۔ عبیرہ نے دونوں ہاتھوں سے یوسف کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ ان کے گھر سے تھوڑی دور ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے تو عبیرہ نے آگے بڑھ کر دروازا کھٹکھٹایا۔ 

"کون“ دروازا کھولنے کی آواز پر یوسف نظریں جھکائے ایک طرف ہو گیا۔ دروازے کو تھوڑا سا کھولا تھا اور اندر سے ایک پانچ سالہ بچی کی آواز گونجی۔

"بنتِ احمد“  عبیرہ نے ہلکی سی آواز میں کہا جس پر بچی نے ایک طرف ہو کر دروازا کھولا اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور دروازا بند کیے ان کی طرف بڑھ گئی۔ دوپٹے کو خوبصورت سا حجاب کیے وہ بچی بہت پیاری لگ رہی تھی۔

 عبیرہ کے اندر جاتے ہی ایک طرف کھڑا یوسف بھی اپنی منزل کی طرف چلا گیا۔ وہ گھر سے کچھ دور موجود ایک بوائز اکیڈمی میں پڑھاتا تھا۔

"کون آیا ہے۔۔  روشنی “  کمرے سے نکلتے حائقہ نے دھیمی آواز میں پانچ سالہ بچی سے پوچھا جس پر اس نے اونچی آواز میں "بنتِ احمد“ کہا۔

" کتنی بار کہا ہے۔۔ کہ لڑکیاں اونچی آواز میں بات نہیں کرتی روشنی... ماشاءاللہ آج تو عبیرہ آئی ہے۔۔ آؤ آ جاؤ عبیرہ“  حائقہ نے روشنی کو آہستہ لہجے میں ڈانٹا اور پھر عبیرہ کو پکڑ کر اپنے ساتھ وہاں صحن میں موجود چٹائی پر بیٹھایا۔

روشنی "اچھا باجی“ کہہ کر وہاں ایک طرف بیٹھے بچوں کے ساتھ اپنا پارہ لے کر لہک لہک کر اپنا سبق بیٹھ کر پڑھنے لگی۔

"کتنا اچھا ہوتا حائقہ آپی۔۔ اگر میری آنکھیں ہوتیں۔۔۔ میں آپ کو دیکھ سکتی“ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد عبیرہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا۔

"اللٌٰہ پاک کی چیز تھی اللٌٰہ پاک نے واپس لے لی۔۔۔ ویسے تم کب سے نا امیدی کی باتیں کرنے لگی۔۔۔ یاد رکھنا۔۔  جو لوگ قرآنِ مجید پر یقین رکھتے ہیں وہ کھبی ناامید نہیں ہوتے۔۔ وہ ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں “  حائقہ نے سمجھانے سے انداز میں عبیرہ  کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھتے ہوئے کہا جس پر وہ مسکرا دی۔

"لیکن میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔۔ اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی تھی“  عبیرہ نے اداسی سے کہا۔ کھبی کھبی وہ احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی تھی۔ اسے چاہ تھی کہ وہ اپنی اور حائقہ کی خوبصورتی دیکھے۔ اس کی دوستوں میں ان دونوں کی خوبصورتی کے ہمیشہ تذکرے رہتے تھے۔

"بس یہ سمجھ لوں اگر تم اپنے آپ کو دیکھ لوں گئی تو تمہیں تمہاری ہی نظر لگ جائے۔۔ اور اسی لیے اللّٰہ نے تمہاری خوبصورتی کو تم سے پوشیدہ رکھا۔۔۔ چلو اب اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔“ حائقہ نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا۔ کئی بار کا سنا جواب آج پھر سن کے وہ مسکرائی تھی۔ اور پھر جلدی سے ہاتھ اٹھا کر اپنے شکوے کی معافی مانگی تھی۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''

"یار نمی۔۔۔ کدھر لے کر آ گئی ہے تو صبح صبح۔۔۔۔ اس دھول مٹی میں۔۔۔ سارے کپڑے خراب ہو جائے گئے۔۔ واپس گاڑی موڑ“ ارشیہ نے اپنی دوست سے جھنجلائے لہجے میں کہا جس پر نمرا نے مدد طلب نظروں سے اپنے ساتھ بیٹھے ایاز کو دیکھا۔

"یار مجبوری ہے۔۔۔ سمجھو۔۔۔ سروے کرنا ہے۔۔ اور ہم نے ایریہ بانٹے تھے۔۔ اور مجھے اور نمرا کو یہی ایریہ ملا ہے“ نمرا کی بجائے ایاز نے وضاحت کی تھی۔ جس پر ارشیہ نے ایک نظر دونوں کو دیکھا۔

"اکیلے نہیں آ سکتے تھے۔۔ مجھے لانا لازمی تھا“ ارشیہ نے غصے سے کہا جس پر باقی دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"تم گاڑی میں ہی رہنا۔۔۔ میں اور ایاز جلدی آ جائے گئے۔۔۔ اور پھر سمیر کے گھر بھی تو جانا ہے۔۔۔ تم رکو۔۔ بس ابھی ہم یہ فارم فل کروا کر آئے“ اس دفعہ نمرا نے جلدی سے بات سنبھالی۔

"تمہیں کیا لگا تھا میں اس دھول مٹی میں جاؤں گئی۔۔۔ ایہہہہ۔۔۔ جلدی آنا ورنہ میں سمیر کے گھر اکیلی چلی جاؤں گئی“ ارشیہ نے سوالیہ آنداز میں ابرو اٹھا کر پوچھا اور آخر میں منہ کے برے برے سے زاویے بنائےکر انہیں دھمکی دی جس پر نمرا اور ایاز جلدی سے کچھ پیپرز اٹھائے گاڑی سے اتر گئے۔

ارشیہ بے زاری سے ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ اچانک اس کی نظر وہاں سے گزرتے ایک لڑکے پر پڑی۔ نمرا اس کے پاس کھڑی اسے پیپر پڑا رہی تھی جو نمرا کہ طرف دیکھنے سے اجتناب کر رہا تھا۔

"پارسا ہونے کا ڈھونگ“ ارشیہ نے نحوست سے لڑکے کو دیکھ کر سر جھٹکا۔ اور بے زاری دور کرنے کے لیے ہینڈ فری نکال کر اپنے کانوں میں لگا لی اور کوئی سونگ پلے کرکے ساتھ ساتھ زیرِ لب دہرانے لگی۔

" ہم ایک سروے کر رہے ہیں۔۔۔ پلیز آپ یہ فارم فِل کریں۔۔۔ پلیز جلدی کر دیں۔۔ ہمیں آج ہی سبمٹ کروانا ہے“ نمرا نے پاس سے گزرتے یوسف کی جانب ایک پیپر بڑھایا اور  اس کے چہرے پر نظریں جمائے کہنے لگی۔ جبکہ یوسف کی نظریں ہنوز  پیپر پر تھیں۔

پیپر پر تقریباً دس سے بیس جملے لکھے ہوئے تھے جن کا جواب ہاں یا ناں میں دینا تھا۔  یوسف نے جلدی سے نشان لگا کر پیپر نمرا کی طرف بڑھایا اور وہاں سے چلا گیا۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ سروے کر کے جب گاڑی میں بیٹھے تو  ارشیہ نے گانا بند کر کے گاڑی بھگالی۔ گاڑی میں ہنوز خاموشی کا راج تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی ایک بہت بڑے فارم ہاوس کے سامنے رکی۔ 

ایاز نے پیپرز گاڑی میں رکھے اور نمرا کے ساتھ اندر کی  طرف بڑھ گیا۔ ارشیہ گاڑی سے اتری کہ اچانک اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھایا اور گاڑی کا دروازا بند کر کے ایک طرف بنے سبزے کی طرف چلی گئی۔

"ہیلو ولی۔۔ کیا حال ہے“  ارشیہ نے وہاں پڑی ایک کرسی پر بیٹھتے مسکرا کر کہا جس پر دوسری جانب ولی نے ٹیڑھی آنکھوں سے موبائل کو دیکھا۔

"وعلیکم السلام ارشیہ حیدر! میں ٹھیک ہوں تم سناؤ “  ولی کا جواب سن کر ارشیہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ 

وہ نہیں جانتی تھی کہ ولی کے ساتھ اس کی دوستی کیسے ہوئی۔ ولی بہت اچھا لڑکا تھا۔ اور ارشیہ کی اس کے ساتھ الگ ہی اٹیچمنٹ تھی۔ اس کے سامنے ارشیہ کی ایک نہ چلتی۔ اگر کھبی وہ ارشیہ کو برا بھلا کہ بھی دیتا یا حقیقت کا آئینہ دیکھتا تو ارشیہ اسے کچھ نہ کہتی۔

"میں بھی ٹھیک بتاؤ۔۔ آج کیسے یاد کیا۔۔ امریکہ کی گوریوں نے چھوڑ دیا“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور اپنی بات پر ہی کھلکھلا دی۔

"استغفر اللّٰہ۔۔۔ ارشیہ میں ایسا ہوں۔۔  اچھا یہ بتاؤں تم اس وقت کہا ہوں“ ولی نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا اور آخر میں تیزی سے پوچھا۔ 

"کیوں کیا ہوا۔۔۔ میں اس وقت سمیر کے فارم ہاؤس آئی ہوں“ ارشیہ نے ناسمجھی سے سوال کرتے ہوئے جواب دیا۔ اور سامنے سے آتے سمیر کو دیکھ کر مسکرا دی۔

"مل سکتے ہیں ہم“ ولی نے سوال کیا جس پر ارشیہ نے موبایل کان سے ہٹا کر دیکھا تھا۔

"ہاں کیوں نہیں۔۔۔ کچھ دیر روکو میں اپنے پرائیویٹ جیٹ سے ابھی آتی ہوں امریکہ۔۔ تم سے ملنے“ ارشیہ نے طنز کیا جس پر دوسری طرف موجود ولی کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔  سمیر وہاں ارشیہ کے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"میں اپنے گھر ہوں۔۔۔ جلدی آ جاؤ۔۔ مل کر بات کرتے ہیں۔۔ اللّٰہ حافظ “ ولی نے اس کے ار پر بم پھوڑتے ہوئے خدا حافظ کہہ کر فون کاٹ دیا۔ جبکہ ارشیہ ویسے ہی ہونک بنی بیٹھی رہی۔

کچھ دیر بعد اٹھ کر اپنی گاڑی کی طرف بھگای۔ سمیر پیچھے سے ارشیہ کو آوازیں دینے لگا۔ وہ اسے نظر انداز کرتی گاڑی میں بیٹھ کر جلدی سے ریورس کرنے لگی۔ گاڑی باہر روڈ پر ڈال کر اس نے فل سپیڈ میں گاڑی بھگالی۔ 

"ڈیم اٹ۔۔۔ اتنا اچھا موقع ملا تھا آج بدلہ لینے کا۔۔۔ پھر سے بچ گئی۔۔۔ آہہہہہہ۔۔کب تک۔۔ کب تک۔۔۔ آخر کتنی دیر تک بچوں گئی مجھ سے یو (گالی)“ سمیر اپنے پلیئنگ پر پانی پھیرتے دیکھ غصے سے پاگل ہونے کو تھا۔ وہ غصے میں کرسی کو ٹھکرایں مارتا ارشیہ کو گالیوں سے نواز رہا تھا۔ 

'''''''''''''''''''''''''''''''''

ارشیہ نے گاڑی ولی کے گھر کے آگے روکی اور جلدی سے گاڑی لاک کرتی دروازے کی طرف بھاگ کر دروازا کھٹکھٹایا۔ یہ چھوٹا سا گھر باہر سے دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا تھا اندر سے بھی اسی نفاست کے ساتھ سیٹ کیا گیا ہوا تھا۔

ولی نے پوچھ کر دروازا کھولا۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ارشیہ ہی ہوں گئی۔ اسی لیے دروازے کھولتے ہی اوڑھ میں ہو گیا۔

"تو کیسا لگا سرپرائز “ ولی نے دروازے کی اوڑھ میں کھڑے رہ کر پوچھا۔ جس پر ارشیہ نے اندر داخل ہو کر مصنوعی ناراضگی کے ساتھ اس کے کندھے پر مکا جڑا۔

"بتا کر نہیں آ سکتے تھے۔۔ اتنی دیر بعد آئے ہوں۔۔ بندہ رسیو کرنے آ جاتا یے۔۔ کوئی پھول شول لے آتا ہے“ ارشیہ نے ایک قدم پیچھے کھڑے ہو کر بازو پر ہاتھ باندھے کہا۔ جس پر ولی مسکرا دیا۔

"اب لے آتی۔۔۔ کہ ارشیہ حیدر کو کسی نے پھول نہیں دیے“ولی نے اپ ا۔ ازو سہلاتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہوں سیریس لی۔

"جاؤں گاڑی میں پڑے ہیں تمہارے لیے پھول۔۔۔ جاؤں لے لو“ ارشیہ نے گاڑی ولی کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک ادا سے کہا اور چابی اسے پکڑا کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔

"اسلام و علیکم آنٹی! کیا حال ہے۔۔۔ دیکھیں آج میں آئی ہوں۔۔ جلدی سے ٹھیک ہوں جائے“ ارشیہ نے کمرے میں بیڈ پر بے سدھ لیٹی ولی کی والدہ  کے پاس بیٹھتے ہوئے عقیدت سے ان کے ہتھیلی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ 

اتنی دیر میں ولی دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں مختلف قسم کے پھولوں کے گلدستے تھے۔ ارشیہ نے یک گلدستہ پکڑ کر ولی کی والدہ کے پاس رکھ دیا اور مسکرا پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں باہر برآمدے میں کرایوں پر براجمان تھے۔

"کیا ہوا ہے۔۔ یوں اداس نہ ہوں آنٹی جلد ہی ٹھیک ہوں جائے گئی“ ارشیہ نے اس کی آنکھوں میں داسی دیکھتے ہوئے کہا جس پر ولی پھیکا سا مسکرا دیا۔

"مجھے کھبی کھبی ڈر لگتا ہے ارشیہ“ ولی نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بات کی تو ارشیہ نے حیران کن نظروں سے ولی کو دیکھا۔ 

"کس سے۔۔۔ اگر آنٹی کی۔۔  تم سے“ اس سے پہلے کہ ارشیہ اپنی بات مکمل کرتی ولی اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ جس پر ارشیہ کو سانپ سونگ گیا۔ 

"تم دنیا والوں کے لیے اتنی بری ہوں۔۔ تمہارے دوست تک تم سے اکثر چڑتے ہیں۔۔ بقول تمہارے۔۔۔ تو تم میرے ساتھ اتنی مہربان کیوں ہوں“ ولی نے غیر مرئی نقطے کو گھورتے ہوئے ارشیہ سے سوال کیا۔ جس کا جواب تو شاید اس کے پاس بھی نہیں تھا۔

"ارشیہ تم دو دلوں کے ساتھ جی رہی ہوں۔۔ ایک دل تمہارا سختی کرتا ہے۔۔ اسے اپنی انا اور غرور وتکبر بہت عزیز ہیں۔۔ جبکہ دوسرا دل۔۔۔ دوسرا دل تمہارا تمہیں اچھائی کا سبق دیتا ہے۔۔ کوئی انسان دو دلوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔۔ گر تم یونہی دہی تو تم اندر سے مر جاؤں گئی ارشیہ“ ولی جو پچھلے کچھ سالوں سے اسے آبزرور کر رہا تھا آج بول پڑا۔

"اس جھوٹ سے نجات حاصل کروں۔۔۔ جس کے ساتھ تم اپنی زندگی بسر کر رہی ہوں۔۔۔ یہ میری ایک ٹیچر ہے بہت اچھی۔۔ تم ان سے رابطہ کر کہ ایک دفعہ اپنی زندگی پر نظرِ ثانی کروں“ ولی نے اس کی طرف ایک کارڈ بڑھایا اور وہاں سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلا گیا جہاں سے ابھی اس کی والدہ کی نرس نکل کے گئی تھی۔

ارشیہ پیچھے بت بنی بیٹھی رہی۔ وقت اپنی رفتار سے سرکتا رہا۔ کچھ دیر بعد ارشیہ اٹھی اور گاڑی کی طرف چلی گئی۔ بے دھیانی میں وہ ولی کے دیے گئے کارڈ کو بھی اپنے بیگ میں ڈال چکی تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا اس نے اپنے گھر کی راہ لی۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"روشنی جاؤں۔۔ جا کر عبیرہ کو گھر چھوڑ آؤں “ عبیرہ نے دوپہر کے قریب اسی چھوٹی سی بچی سے کہا جس نے دروازا کھولا تھا۔ جس پر وہ مسکراتے ہوئے جلدی سے اٹھی۔

عبیرہ نے دوپٹے کا نقاب کیا اور روشنی کا ہاتھ پکڑ کر حائقہ کو خدا حافظ کہہ کر واپس چل دی۔

"آپی ایک بات پوچھو۔۔۔ صرف ایک۔۔“ روشنی نے بازار سے گزرتے عبیرہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس سے اجازت چاہی جس پر عبیرہ نے نفی میں سر ہلایا تو روشنی چپ ہو گئی۔

گھر کے سامنے پہنچ کر عبیرہ نے چابی روشنی کو پکڑائی جیسے اس نے جھٹ سے پکڑ کر تالا کھولا اور عبیرہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل ہوئی۔ عبیرہ نے مڑ کر دروازا بند کیا اور اسے لے کر باہر پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی جو کہ روز جاتے وقت یوسف بچھا کر جاتا تھا۔

"اب پوچھو“ عبیرہ نے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے پیار سے کہا کر روشنی کو اجازت دی جس پر روشنی خوشی سے چہکی۔

"آپی آپ اپنا نام بنتِ احمد کیوں بتاتیں ہیں“ روشنی نے پر سوچ لہجے میں پوچھا جس پر عبیرہ مسکرا دی۔

"کیوں کہ مجھے اپنا یہ نام پسند ہے“ عبیرہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جس پر روشنی نے پر سوچ انداز میں سر ہلایا اور پھر خدا حافظ بول کر وہاں سے چلی گئی اور جاتے ہوئے دروازا بند کر گئی۔

 پیچھے عبیرہ گھر میں اکیلی رہ گئی تو اٹھ کر آہستہ آہستہ محتاط قدم اٹھاتی بیسن تک گئی اور وضو بنا کر اپنے کمرے میں جا کر قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی شروع کر دی۔ گھر میں اس کی پر سوز آواز گونجنے لگی۔

"یوسف ایک کام کروں گئے“ اس وقت وہ اکیڈمی میں بیٹھا بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ اکیڈمی کے پرنسپل نعمان اس کے پاس آ کر بیٹھے اور اس سے مدد طلب کی۔

"جی سر کہے کیا کر سکتا ہوں میں آپ کے لیے“ یوسف نے خوش دلی سے پوچھا جس پر نعمان صاحب مسکرا دیے۔

"وہ میرا ایک بھانجا ہے۔۔۔ کیا تم اسے قرآن کی تعلیم دیے سکتے ہوں۔۔۔ دراصل اس کے لیے جو قاری لگوایا تھا وہ بیمار ہو گیا ہے“ نعمان صاحب نے اسے تفصیل بتائی۔

"جی جی بلکل۔۔۔ مجھے خوشی ہوں گئی“ یوسف نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر نعمان صاحب کے چہرے پر اطمینان در آیا۔

"ٹھیک ہے پھر کل سے تم صبح دس بجے اکیڈمی آنے کی بجائے میرے گھر جا کر اسے پڑھا دینا۔۔۔ اور اسے پڑھانے کے بعد اکیڈمی آ جایا کرنا“ نعمان نے مسکرا کر اسے کل کا شیڈول بتایا جس پر یوسف نے سر ہاں میں ہلا دیا۔

"مجھے خوشی ہوں گئی کہ اگر کوئی مجھ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرے گا“ یوسف نے خوش دلی سے کہا جس پر نعمان صاحب اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس چلے گئے جبکہ یوسف لڑکوں کو پڑھانے لگ پڑا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

 " ارے یہ آ گیا محفل کی جان “ کلب میں بیٹھے ایک لڑکے نے دروازے کی طرف اشارہ کیا جس پر آتے ہوئے نفوس کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔

"ارے زوہیب تو اتنا لیٹ کیوں آیا ہے“ دوسرے لڑکے نے اس سے استفادہ کیا جس پر اس مے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"کیوں کیا کلب بند ہو گیا ہے۔۔۔ کہ تو نے دس بجے گھر جانا تھا۔۔ ممی ڈیڈی بچے نے ہاں“ زوہیب نے اسے پچکارتے ہوئے پوچھا جا پر سب کے قہقہے بلند ہوئے جبکہ اس لڑکے کا چہرہ خفت کے مارے سرخ ہوا۔

" لو لیٹس سٹارٹ دا پارٹی بوائز “ زوہیب۔ے بلند آواز میں کہا جس پر سب اس کی تقلید میں کلب کے کاؤنٹر کی طرف۔ لے گئے جہاں ایک لڑکی ان کو ڈرنکس بنا کر دینے لگی۔ 

زوہیب نے لڑکی کو دیکھا تو ویٹریس کے ڈریس میں کافی پیاری لگ رہی تھی۔ زوہیب نے زراب کا گلاس پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا جبکہ باقی سب تھوڑی دیر بعد ڈانس فلور پر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ 

زوہیب نے اپنے آدمی کو اپنے پاس بلایا اور آنکھ سے لڑکی کی جانب اشارہ کیا جو سب سے بے نیاز اپنا کام کر رہی تھی۔ آدمی اس کی بات سمجھ کر سر ہاں میں ہلاتا اسے تسلی دیے کر پیچھے ہٹ گیا۔ 

زوہیب نے شراب کا گلاس کاؤنٹر پر رکھ کر مسکراتے ہوئے لڑکی کی جانب ٹپ بڑھائی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ کلب سے نکل کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اپنے فارم ہاوس کی طرف بھگالی۔

"پندرہواں شکار ہے کہ بیسواں۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکی یار“ زوہیب نے گاڑی چلاتے پر سوچ انداز میں سوچتے ہوئے کہا اور پھر ہنس پڑا اور گاڑی کو فل سپیڈ میں بھگالیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ارشیہ ساری رات ولی کی باتوں کی وجہ سے پریشان رہی۔ وہ ان ساری سوچوں کو جھٹکنا چاہتی تھی لیکن نہیں وہ ان سے چھٹکارا نہ پا سکی۔

"آہہہہہہہہ“ ارشیہ نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے اور پھر اٹھ کر سامنے ڈریسنگ پر پڑا سارا سامان نیچے گرا دیا۔ دبیز قالین پر گر کر کچھ سامان بچ گیا تھا۔ اس نے جھک کر ایک پرفیوم کی بوتل اٹھا کر پورے زور سے سامنے دیوار پر ماری جس سے وہ بقتل ٹوٹ گئی اور اس کی ساری خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ سارا کمرہ معطر ہو گیا۔ 

نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح نو بجے اس کی آنکھ غیر معمولی شور کی وجہ سے کھولی تو اس نے اٹھ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کمرے کی حالت دیکھ کر اسے الجھن ہونے لگی۔ 

جس کی وجہ سے وہ اٹھ کر نیچے چلی گئی۔ اس کو نیچے اترتے دیکھ جیا بیگم نے ارشیہ کے بکھرے بکھرے حلیے کو دیکھا۔ ارشیہ نے اتر کر وہاں کھڑی صفائی کرتیں ایک ملازمہ کو اشارہ کیا جس پر وہ منٹ سے پہلے کچن میں غائب ہوئی تھی۔

"یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے ارشیہ“ جیا بیگم نے اسے صوفے پر بیٹھتے دیکھ کہا جس پر اس نے صوفے پر نیم دراز ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

"ویسے ہی ماما۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے“ ارشیہ نے سہولت سے بہانہ بنایا۔ ملازمہ اس کے لیے جوس لیے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تو ارشیہ نے سیدھے ہو کر جوس پکڑ لیا اور اسے اشارے سے جانے کا کہا جس پر وہ دوبارا صفائی کرنے میں مصروف ہو گئی۔

"کیا ہوا ہے میری بیٹی کو“ کمرے سے نکلتے حیدر ملک نے اپنی ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا اور چلتے ہوئے اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔

"کچھ نہیں بابا“ ارشیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے جواب دیا جس پر حیدر صاحب نے اس کا ماتھا چوما۔

"آج اکرام اور نجمہ آئے گئے شام میں۔۔۔ تو اہتمام کر لیجے گا۔۔۔ ارشیہ تم بھی گھر پر رہنا بیٹا“ حیدر صاحب جیا بیگم کو اطلاع دیتے ہوئے آخر میں ارشیہ سے مخاطب تھے۔

"سوری پاپا۔۔ لیکن آج میرا فرینڈز کے ساتھ گھومنے کا پلین ہے“ارشیہ نے وہاں بیٹھے سہولت سے انکار کیا جس پر حیدر کچھ کہے بغیر آفس چلے گئے۔ اور ارشیہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جیا بیگم دوبارا سے ملازموں کو صفائی کرنے کی ہدایات دینے لگیں۔

کمرے میں داخل ہونے پر کمرے میں پھیلی خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ ارشیہ کمرے کی حالت نظر انداز کرتی ڈریس لے کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی اور  اپنی حالت درست کرنے کے بعد اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے واپس نیچے چلی گئی اور باہر جانے سے پہلے ملازمہ کو کمرا صاف کرنے کا حکم سنا گئی۔

اس نے گاڑی کا رخ نمرا کے گھر کی جانب کیا۔ نمرا کے گھر کے پورچ میں گاڑی روک کر وہ ڈرائنگ روم کے پاس سے گزرنے لگی تو جو الفاظ اس کے کانوں نے سنے اس سے ارشیہ کے قدم زنجیر ہوئے۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

عبیرہ آج معمول کے مطابق حائقہ کے گھر آئی ہوئی تھی جبکہ یوسف اپنے نئے شیڈول کے مطابق نعمان صاحب کے گھر گیا تھا۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑے ڈور بیل بجائی تو ایک ملازم نے دروازا کھولا۔

یوسف اس کی تقلید میں چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ ملازم اسے وہاں بیٹھنے کا کہہ کر اندر کی طرف نعمان صاحب کے بھانجے کو بلانے چلا گیا۔ 

تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم میں ایک دس سالہ بچہ داخل ہوا۔ وضو کا پانی اس کے چہرے پر ابھی بھی موجود تھا۔ جینز شرٹ میں موجود پارے کو اپنے سینے سے لگائے بچہ یوسف کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔

"اسلام و علیکم! کیا نام ہے آپ کا“ یوسف نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔ اسے وہ بہت بچہ پیارا لگا تھا۔

"دحیہ علی۔۔۔ آپ کا کیا نام ہے“ نعمان صاحب کے بھانجے نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے یوسف کے سوال کا جواب دیے کر سوال کیا تھا۔

"میرا نام یوسف احمد ہے۔۔۔ ماشاءاللہ بہت خوبصورت نام ہے آپ کا۔۔۔ آپ کون سے پارے پر ہوں دحیہ علی“ یوسف نے دل سے اس کے نام کی تعریف کی۔

"اکیسویں پارے۔۔ سورۃ الانبیاء شروع کرنی ہے “ دحیہ کی نرم سی آواز کمرے میں گونجی جس پر یوسف نے مسکرا کر اسے پارہ کھولنے کا کہا اور اس کے ساتھ مل کر تلاوت کرنے کے ساتھ ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔

Surat No 21  

"بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ"

(ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے.)

Surat No 21 : Ayat No 1 

"اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ  مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾"

(ترجمہ: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں.)

Surat No 21 : Ayat No 2 

"مَا  یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ  وَ ہُمۡ  یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾"

(ترجمہ: ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں.)

Surat No 21 : Ayat No 3 

"لَاہِیَۃً  قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ  اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ  وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾"

(ترجمہ: ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے  ، پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو۔)

Surat No 21 : Ayat No 4 

"قٰلَ رَبِّیۡ یَعۡلَمُ الۡقَوۡلَ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۫ وَ ہُوَ  السَّمِیۡعُ  الۡعَلِیۡمُ ﴿۴﴾"

(ترجمہ: پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے ،  وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔)

دحیہ اس کی نرم سی آواز سن کر ٹھہر گیا۔ اس کی آواز میں اس قدر جادو تھا دحیہ اپنی زبان کو بھی حرکت نہ دیے سکا۔ اس کی آواز سن کر دروازے کے پار کسی اور کے بھی قدم زنجیر ہوئے تھے۔ 

آیات پڑھ کر یوسف جب خاموش ہوا تو ارشیہ کے قدم بے ساختہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے تھے۔ 

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

زوہیب اس وقت پرسکون نیند لے رہا تھا کہ جب اس کے موبائل کی ٹیون بجی۔ اس نے ناگواری سے آنکھیں کھولنے کی زحمت کیے بغیر نیند میں ہی ٹٹولتے ہوئے موبائل ڈھونڈ کر یس کر کے موبائل کان سے لگایا۔

"کہا ہوں زوہیب ملک“ دوسری طرف سے اکرام صاحب کی آواز سپیکر سے گونجی۔زوہیب نے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا تو اس پر پاپا لکھا دیکھ اس نے آنکھیں بند کرے موبائل دوبارا کان سے لگایا۔

"فارم ہاؤس پر ہوں پاپا۔۔۔ آپ بتائیں کوئی کام تھا؟“ نیند کے خمار میں ڈوبی زوہیب کی آواز گونجی۔

"ہاں۔۔ وہ میں اور تمہاری ماں شام میں تمہارے لیے ارشیہ کا رشتہ مانگنے جا رہے ہیں “ اکرام صاحب نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا جس پر اس نے ہممم کہنے پر اکتفا کیا۔

"ٹھیک ہے۔۔ پھر فائنل ہو جائے تو مجھے بتا دیجیے گا۔۔ بائے“ زوہیب نے کہہ کر فون بند کر دیا۔ 

"یہ لڑکا ہاتھ سے نکل رہا ہے۔۔ کچھ زیادہ ہی بدتمیز ہو گیا ہے“ دوسری طرف اکرام صاحب موبائل دیکھتے رہے اور پھر غصے سے بولے اور پھر اٹھ کر ملازمہ کو سارا سامان گاڑی میں رکھوانے کا کہہ کر کمرے کی طرف چل پڑے۔

زوہیب نے فون بند کرکے اپنے سامنے بیڈ پر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے اپنی رات کی کارستانی یاد کیے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی۔نجانے اس کا خاص ملازم اس لڑکی کو کیسے یہاں لے کر آیا تھا لیکن اس سے اسے کیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور پھر سے سو گیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ارے سمیر۔۔۔ اب کیا ارادہ ہے تمہارا“ سمیر کے ایک دوست نے اس سے پوچھا جس پر اس نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ سمیر اس کے دوست اور اس کے کزن، تقریباً پانچ چھے لوگ سمیر کے فارم ہاوس می بیٹھے ہوئے تھے۔ 

"چھوڑوں گا نہیں۔۔ بدلا تو لے کر رہوں گا اس ارشیہ کی بچی سے“ ناگواری کی۔جگہ اب غصے نے لے لی تھی۔ سمیر ابھی تک غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ 

"چل مل کر بدلہ لیتے ان دونوں سو کالڈ انا کے پجاریوں سے“ سمیر کے کزن ارسل نے آرام سے کہتے ہوئے سمیر کے کندھے پر بازو رکھا۔

"کون دو؟۔۔۔۔ ارشیہ کے علاوہ دوسرا کون“ سمیر کے دوسرے دوست نے ارسل سے پوچھا۔

"انا کا پجاری۔۔ دا وان اینڈ اونلی بگڑا رئیس زادہ۔۔۔ زوہیب اکرام ملک“ ارسل نے نحوست سے زوہیب کا تعارف کروایا جس پر سمیر نے بھی اس کی جانب دیکھا۔

"کیوں۔۔ وہ تو تمہارا دوست ہے نہ“ سمیر نے ناسمجھی سے ارسل سے پوچھا جس پر اس نے ناگواری سے سر جھٹکا اور اپنے ساتھ کلب میں ہوئی بے عزتی کی ساری داستان ان کے گوش گزرا دی۔جس پر سمیر نے اس کا کندھا تھپتھپا۔

"اب ملک خاندان اپنی بربادی دیکھے گا“ سمیر نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے خباثت سے کہا۔ جس پر ارسل اور باقی سب ہنس دیے۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''"""""""""""

ارشیہ کے قدم ڈرائنگ روم کی طرف بے ساختہ تھے۔ یوسف کا چہرہ آدھا واضح ہو رہا تھا۔ ارشیہ نے آگے جا کر دیکھا یوسف کا چہرا دیکھا۔ یوسف تلاوت کرنے کے بعد دحیہ کو سبق پڑھنے کی تاکید کر رہا تھا۔ 

ارشیہ نے اس کا چہرہ دیکھا تو کچھ پل اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ ایک خوبصورت اور شاندار مرد تھا۔ یوسف نے بے ساختہ سر اٹھایا تو سامنے کسی لڑکی کو دیکھ فوراً سے نظریں جھکائیں تھیں۔ جس پر ارشیہ کا ارتقاء ٹوٹا۔ 

اس کی یہ حرکت ارشیہ کو ناگوار گزری۔ جبکہ دوسری طرف یوسف کے ماتھے پر بل آئے۔ یوں کوئی عزت دار گھرانے کی لڑکی دیدے پھاڑ کر کیسے کسی غیر کو دیکھ سکتی تھی۔

خفت کے مارے ارشیہ کا چہرا سرخ ہوا تھا۔دحیہ بھی وہاں بیٹھا اپنا سبق دہرا رہا تھا۔ ارشیہ سرخ چہرا لیے وہاں سے نکلی اور نمرا کے کمرے کی طرف چلی گئی۔

"واؤ۔۔۔ کیا حال ہے... کیا ہوا ہے ارشی“ جب ارشیہ کمرے

 داخل ہوئی نمرا کمرے میں موبائل میں مصروف تھی ارشیہ کو دیکھ اسے خوشگوار احساس ہوا لیکن اس کا خراب موڈ دیکھ اس نے پوچھا۔

سمجھتا کیا ہے۔۔۔ خود کو۔۔ مجھے مجھے اگنور کرے گا۔۔ یہ جو پارسائی کا ڈھکوسلہ اور نشہ ہے نہ۔۔۔ یوں یوں۔۔ چٹکیوں میں نہ اتار دیا تو میرا نام بھی ارشیہ حیدر نہیں“ ارشیہ نے نمرا کی بات کو نظر انداز کیے غصے کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے کہا۔ 

ارشیہ کو یوسف کا اسے دیکھ کر جلدی سے اپنا سر جھکا لینا اپنی توحین لگی تھی۔ اسی لیے وہ اس وقت غصے میں تھی۔ جبکہ نمرا دوبارا پاس بیڈ پر بیٹھی کر موبائل میں مگن ہو گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ارشیہ کا غصہ صرف وہ خود ہی ٹھنڈا کر سکتی تھی۔

"کیا ہوا ہے۔۔ بتاؤں مجھے“تھوڑی دیر بعد جب اس کا غصہ قدرے کم ہوا تو نمرا نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"دحیہ کے ٹیچر کا کیا نام ہے“ ارشیہ نے نمرا سے پوچھا۔ جس پر نمرا نے بغیر سر تا پیر بات کے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا لیکن کچھ بولی نہیں کیونکہ وہ بول کر خود کی شامت بلوانا نہیں چاہتی تھی۔

"پہلے تو قاری سبحان پڑھاتے تھے لیکن اب پاپا کا کوئی دوست ہے شاید۔۔۔۔ لیکن ہوا کیا ہے“ نمرا نے اسے تفصیل بتائی اور آخر میں اپنی عادت سے مجبور پوچھ بات کا پوچھ ہی لیا۔

"وہ وہی شخص ہے۔۔۔ وہی جس کی خوبصورتی کے تم سروے کے بعد قصیدے پڑھ رہی تھی۔۔۔ اس نے مجھے اگنور کیا۔۔۔ اتنا گھمنڈ ہے اسے اپنی خوبصورتی کے“ ارشیہ نے غصے سے بتا کر آخر میں وجہ بتائی۔ 

"ارے وہ مسٹر ہینڈسم “ نمرا نے جوش سے کیا جس پر ارشیہ نے اسے گھوری سے نوازا۔

"بتاتی ہوں میں ایاز کو تمہارا اور انکل کو ایاز کا۔۔ صبر کرو“  ارشیہ نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا جس پر نمرا کا چہرا اتر گیا۔ 

"یار وہ شاید واقعی کوئی شریف بندا ہوں“ تھوڑی دیر بعد نمرا نے اسے سمجھانا چاہا۔ جس پر ارشیہ نے اسے پھر سے گھوری سے نوازا تھا۔

"یہ سب پارسا بننے کے ڈھونگ ہوتے ہیں۔۔ کوئی بھی اتنا شریف نہیں ہوتا۔۔۔ ایک بات بتاؤں تمہیں نمرا“ ارشیہ نے نحوست سے کہا۔ آخر میں اس کا لہجہ پر اسرار ہوا تھا۔ جس پر نمرا نے ہمم کہا۔

"تمہیں پتہ ہے۔۔۔ ویسے پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ یہ ہر چیز خرید لیتا ہے۔۔۔ کسی کا سکون چھینتا یے تو کسی کا اعتبار۔۔۔ کسی کی عزت چھینتا ہے تو کسی کی پارسائی“ ارشیہ نے پر اسرار لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔ نمرا نے ایک نظر اسے دیکھا جس کے چہرے پر اب اطمینان ہی اطمینان تھا جبکہ دماغ مختلف تانے بانے جوڑنے لگا۔

کچھ دیر وہاں بیٹھی دونوں باتیں کرتیں رہی کہ اچانک نمرا کے موبائل پر میسج کی ٹیون بجی۔ جب میسج کھول کر دیکھا تو ایاز کا تھا

"چلو۔۔۔ایاز کا میسج آیا ہے۔۔ سمیر نے فوراً بلوایا ہے۔۔۔ چلو جلدی چلو۔۔۔۔ میں مما اور پھوپھو کو بتا کر ابھی آتی ہوں“ نمرا نے اسے اطلاع دی تو وہ دونوں ایک ساتھ نیچے اتری۔ 

ڈرائنگ روم کے پاس سے گزرتے اس نے ایک نظر اندر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ یوسف اب تک جا چکا تھا۔ پھر نمرا اپنی ماما ڈے اجازت کے کر ارشیہ کے ہمراہ سمیر کی بتائی گئی لوکیشن کی طرف چل پڑی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"حائقہ باجی مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں بازار سے۔۔۔ آپ میرے ساتھ چلے گئی۔۔ بھائی کو تو فرصت نہیں ہے۔۔ کیونکہ اکیڈمی میں آج کل  ٹیسٹ چل رہے ہیں“ عبیرہ نے وہاں بیٹھی بچی کا سبق سن کر یاد آنے پر حائقہ سے کہا۔

"ٹھیک ہے۔۔ شام میں چلتے ہیں“ حائقہ نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر عبیرہ نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔

شام میں دونوں بازار میں شوپنگ کر رہی تھیں۔ عبیرہ اور حائقہ دونوں عبایہ ڈالے نقاب کیے ہوئے تھیں۔ عبیرہ حائقہ کے بازو کو ایک ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا۔

تھوڑی دیر شوپنگ کرنے کے بعد وہ دونوں ایک شوز شاپ میں داخل ہوئی۔ ابھی وہ مختلف قسم کی جوتیاں خیکھ رہیں تھیں کہ اچانک کچھ لوگ شاپ میں داخل ہوئے اور طوفانِ بدتمیزی مچا دیا۔

تھوڑی ہی دیر میں زوہیب اور اس کے کچھ دوست شاپ میں داخل ہوئے۔ زوہیب اور اس کے دوست بار بار شوز دیکھتے اور ریجکٹ کر دیتے۔ زوہیب اور اس کے دوستوں گویا ان لوگوں کا مذاق اڑانے کے لیے آئے تھے۔ 

زوہیب نے شاپ میں ایک طوفانِ بدتمیزی مچا رکھا تھا۔ حائقہ لوگ جو وہاں بیٹھی جوتی لے رہی تھیں شوز لیے بغیر اٹھ کر باہر جانے لگی اب ان کا ارادہ کسی اور دکان سے جا کر لینے کا تھا۔ عبیرہ نے ایک ہاتھ سے حائقہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ 

دونوں وہاں سے باہر جانے لگی تو زوہیب نے ایک نظر پاس سے گزرتی عبیرہ کی آنکھیں میں دیکھا اور بے اختیار آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ عبیرہ نے اپنا ہاتھ چھڑوا کر زوہیب کے عمل کے ردِ عمل میں اچانک حائقہ کا ہاتھ چھوڑ کر ایک کھینچ کر تھپڑ اسے مارا جو کہ شاید خوش قسمتی یا بدقسمتی سے زوہیب کے منہ پر پڑا۔ 

تھپڑ کا شور اتنا تھا کہ سب نے مڑ کر زوہیب کی طرف دیکھا جو کہ بے یقینی کی کیفیت میں اپنے گال پر ہاتھ رکھے عبیرہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ہتک کے احساس سے زوہیب کا چہرا لال بھبوکا ہو گیا۔ 

زوہیب کے ساتھ ارسل میں آیا تھا جس نے اس سارے واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔ ااس نے وہ ویڈیو جلدی سے سمیر کو بھیج کر ایک طنزیہ نظر زوہیب پر ڈالی۔

حائقہ نے زوہیب کا لال بھبھوکا چہرا دیکھا تو اس سے پہلے وہ کچھ کرتا حائقہ نے عبیرہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے تقریباً کھینچتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتی باہر کی طرف بھاگی۔

زوہیب کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ لیکن جب ذہین بیدار ہوا تو وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن اسے وہ دونوں شاپ سے باہر کہی نہ ملی۔ زوہیب کا غصہ سوا ہو رہا تھا۔ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی سب کے سامنے اس کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کی تضحیک کر گئی۔  

حائقہ دکان سے نکل کر جلدی سے حائقہ کا ہاتھ پکڑے بازار کے ایک طرف چلی گئی۔ وہ جلد از جلد کسی محفوظ مقام پر پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ جلد ہی دکان سے دور۔ہو۔گئی تو حائقہ نے جلدی سے رکشہ لیا اور گھر واپس چلی آئی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

حیدر ملک کے گھر حیدر صاحب جیا ملک کے ساتھ ساتھ اکرام ملک اور نجمہ ملک بھی موجود تھے۔ حیدر کو وہ پہلے ہی اپنے آنے کی وجہ بتا چکے تھے۔

"بھابھی میں اور اکرام آپ سے آپ کی بیٹی مانگنے آئے ہیں۔۔۔ بس آپ اپنی بیٹی کو میری بیٹی بنا دیں“ نجمہ ملک نے بڑے مان کے ساتھ جیا ملک سے کہا جس پر انہوں نے ایک نظر پاس بیٹھے حیدر کو دیکھا جنہوں نے انہیں آنکھیں بند کر کے ہاں کرنے کا اشارہ کیا جس پر جیا ملک نے جلدی سے نجمہ کے ہاتھ تھام لے۔

"ارے ارشیہ تو ہے ہی تمہاری بیٹی۔۔۔۔ جب چاہیے آ کر لے جاؤں۔۔۔ ویسے بھی بیٹیوں کو ایک نہ ایک دن ماں باپ کا گھر چھوڑنا ہی ہوتا ہے” آخر میں ان کا دل اداس ہوا تھا۔

"ارے بھابھی آپ فکر کیوں کرتیں ہیں۔۔۔ وہ کون سا غیروں میں جا رہی ہے۔۔ اس کا جب دل چاہے وہ آ جا سکتی ہے۔۔۔ یہ گھر بھی اس کا ہے اور وہ گھر بھی اسی کا ہے“ نجمہ ملک نے جلدی سے انہیں تسلی دی۔ حیدر اور اکرام دونوں اپنی باتوں میں مگن تھے۔

"ٹھیک ہے پھر اس ہفتے کو ارشیہ اور زوہیب کی منگنی رکھ لیتے ہیں“ اکرام صاحب نے مشورہ دیا جس پر سب متفق ہو گئے۔ پھر جیا بیگم اٹھ کر اندر کھانے وغیرہ کا انتظامات دیکھنے چلی گئی۔

''''''''''''''''''''''""""""''"""""""""""

جس دن سے ولی نے ارشیہ کو وہ سب کہا تھا اس دن سے ارشیہ نے ولی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ ولی اس دن سے کچھ سکون میں تھا کیونکہ اس نے ایک اچھے دوست ہونے کا فرض نبھایا تھا۔ اسے اپنی زندگی تباہ کرنے سے بچانے کے لیے ایک کوشش کی تھی۔

اس وقت وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھا ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی گہری سوچ کے زیرِ اثر تھا۔

ولی کی ماں قومہ میں تھی۔ سات سال ہو گئے تھے انہیں قومہ میں گئے۔ بازار سے گزرتے ہوئے وہ اچانک کای ٹرک اے ٹکر گئی جس کی وجہ سے ان کا سر سڑک کے کنارے پر لگا اور وہ قومہ میں چلی گئی۔

ان کا سب سے بڑا خواب ولی کو باہر پڑھانے کا تھا جس کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی۔ ولی کے بابا کی ڈیتھ اس کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ہو گئی تھی۔ 

ان کا خواب پورا کرنے کے لیے ولی باہر پڑھنے چلا گیا۔ اس کی ملاقات وہاں ایک سیمینار میں ارشیہ سے ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی ان میں دوستی ہو گئی جو کہ آہستہ آہستہ گہری ہوتی گئی۔ 

ارشیہ اپنے بارے میں اور اپنے دوستوں کے بارے میں اسے بتاتی تھی۔ یہ سب بھی کہ وہ اس سے چڑتے ہیں۔۔ ولی نے ہمیشہ اچھے دوست ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے ہمیشہ اس کی رہنمائی کرتا تھا۔

اب بھی وہ اس کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن وہ سمجھنے کی بجائے اس بات کا غلظ مطلب نکال بیٹھی تھی۔ یہ ان کی دوستی میں پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس سے ناراض تھی۔ ورنہ کھبی بھی ولی نے کچھ کہا ہوں۔ ارشیہ اس سے پہلے کھبی ناراض نہیں ہوئی تھی۔

اچانک اس اسے اپنے ہاتھ میں ہل چل محسوس ہوئی تو وہ۔سوچوں کے بھنور سے نکل کر اپنے ہاتھ کو دیکھا تو اس کی ماما کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کی ماما کے ہاتھ میں ہل چل ہو رہی تھی۔ وہ اپنی ہاتھ ہلانے کی کوشش کر رہیں تھیں۔ولی نے ان کے ہاتھ کو دیکھا اور جلدی سے ڈاکٹر کو فون ملانے لگا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر ان کا چیک اپ کیا تو ڈاکٹر نے ولی کی زندگی کی نوید اسے سنائی تھی۔ اس کی ماں سات سال بعد قومہ سے واپس آ گئی۔ ولی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ڈاکٹر اسے چند ضروری ہدایات دیے کر واپس چلا گیا۔

ولی نے اپنی ماں کا ہاتھ دوبارا سے اپنے ہاتھوں میں لیا تو آنکھوں سے پانی بہہ نکلا۔ اچھی وہ مکمل۔طور پر ہوش میں نہیں آئیں تھیں۔ ابھی انہیں کمزوری تھی اسی لیے وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئیں تھیں۔ لیکن زیادہ کیئر سے وہ جلد ہی ہوش میں آ جائیں گئیں۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ارشیہ اور نمرا سمیر کی بتائیں گئیں لوکیشن پر پہنچی تو وہاں خواب ناک سا منظر تھا۔ یہ ساحلِ سمندر کا کنارا تھا جہاں ہر طرف سجاوٹ کی گئی تھیں۔ ہر چیز سفید اور سرخ رنگ سے سجائی گئی تھی۔ 

سفید پردوں کے ساتھ وہاں گلاب کے پھول سے سجائی ہر چیز بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ایاز پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔ سمیر اسے کہی نظر نہ آیا۔ زیاد اسے اور نمرا کو لے کر ایک کمرے کی طرف گیا۔

وہاں ڈمی پر ایک بہت ہی خوبصورت ریڈ اور وائٹ باربی فراکس تھیں۔ اسے دیکھ ارشیہ خوبصورتی سے مسکرائی۔ ایک بیوٹیشن نے آ کر اسے اور نمرا دونوں کو تیار کیا۔ ارشیہ اس سب کو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

جلد ہی بیوٹیشن نے دونوں کو تیار کیا تو ان کے گروپ کی ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ ارشیہ وائٹ فراک میں جبکہ نمرا رید فراک میں تھی  دونوں پیاری لگ رہیں تھیں لیکن ارشیہ کوئی باربی ڈول لگ رہی تھی۔

ان سے ملنے کے بعد وہ دونوں کو لے کر باہر کی طرف چلی گئی۔ جہاں سمیر اور زیاد دونوں آف وائٹ تھری پیس سوٹ میں ملبوس نک سک سے تیار کھڑے۔

وہاں ان کے گروپ اور کلاس کے بہت سے لوگ موجود تھے۔ اب دونوں کو سمجھ آیا تھا۔ نمرا کا چہرا خوشی سے دمک پڑا۔ جب کہ ارشیہ نے تاثر نہ دیا۔

دونوں وہاں سب کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو زیاد اور سمیر گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ زیاد نمرا کے سامنے جبکہ سمیر ارشیہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔

"ویل یو میری می؟(?Will you Marry me)“ زیاد اور سمیر نے بیک وقت دونوں کو پرپوز کیا تو وہاں کھڑے سب لوگوں نے ہوٹنگ کی۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

دونوں وہاں سب کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو زیاد اور سمیر گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ زیاد نمرا کے سامنے جبکہ سمیر ارشیہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔

"ویل یو میری می؟(?Will you Marry me)“ زیاد اور سمیر نے بیک وقت دونوں کو پرپوز کیا تو وہاں کھڑے سب لوگوں نے ہوٹنگ کی۔

نمرا نے بے یقینی سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکے اور آنسوں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ 

زیاد نے بھی مسکراتے ہوئے اس کی انگلی میں انگوٹھی ڈالی۔ جب کہ ارشیہ خاموشی سے کھڑی سمیر کو دیکھ رہی تھی جبکہ سمیر ہنوز گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا رہا۔

"ویل یو (?Will you)“ سمیر نے دوبارا سے اپنی بات دوہرائی۔ نمرا اور زیاد نے بھی مڑ کر ارشیہ اور سمیر کو دیکھا۔

"کیا ہوا ہے.... سے سم تھینگ ارشیہ“ نمرا نے اسے خاموش کھڑے دیکھ کہا۔زیاد نے بھی نمرا کی بات پر سر ہلایا۔ جس پر ارشیہ مسکرا دی اور اثبات میں سر ہلایا۔

وہاں کھڑے تمام لوگوں نے ہوٹنگ کی اور پھر سمیر نے ارشیہ کو انگوٹھی پہنائی۔ ارشیہ انگوٹھی کو دیکھ کر مسکرا دی۔ تھوڑی دیر بعد کیک کٹینگ کیا گیا تو سب لوگ سمندر کے کنارے لہروں سے کھیلنے لگے۔ ارشیہ اور سمیر سب سے تھوڑی دور کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ اچانک سے  تھوڑی دیر بعد سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔

ارشیہ اور نمرا بھی گھر کی طرف چل دی۔ ارشیہ نمرا کو چھوڑ کر گھر گئی تو سامنے حیدر صاحب، اکرام صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔ 

"ارے دیکھو کتنی لمبی عمر ہے میری بچی کی۔۔۔ آوں۔۔ ادھر میرے پاس بیٹھو “ نجمہ بیگم نے پیار سے ارشیہ کو اپنے پاس بیٹھایا تھا۔پھر کچھ دیر بعد اکرام صاحب اور نجمہ بیگم واپس چلے گئے۔ 

"ارشیہ بیٹا ادھر بیٹھو میرے پاس بات کرنی ہے تم سے“ جیا بیگم نے ارشیہ سے کہا۔ اس وقت جیا بیگم اور حیدر صاحب لاؤنچ میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔

"ماما ایک منٹ۔۔ میں بابا سے کچھ بات کر لوں“ارشیہ نے جیا بیگم سے کہا اور حیدر صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔

"بابا ایک بات کرنی تھی“ ارشیہ نے اجازت طلب لہجے میں کہا۔ دماغ میں وہ اپنے لفظوں کو ترتیب دیے رہی تھی۔

"کہوں میری جان۔۔۔ تمہیں کب سے اجازت کی ضرورت پڑ گئی“ حیدر صاحب نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ کچھ توقف کے بعد بولی۔

"بابا وہ میری فرینڈ کا بھائی ہے۔۔۔ اسے جاب چاہیے۔۔ بہت ہی ایماندار اور اچھا ہے۔۔۔ اگر ہماری کمپنی میں اسے کوئی اچھی جاب مل جاتی تو۔۔۔“ ارشیہ نے جھوٹ گھڑتے ہوئے بات آدھی ادھوری چھوڑ کر حیدر صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ پھر پرسوں اسے بلوا لینا“ حیدر صاحب نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ مسکرائی تھی۔

"پر ایک بات بابا۔۔۔ اس کا انٹرویو پہلے میں خود لوں گئی“ ارشیہ نے شرط رکھی جس کی حیدر صاحب نے ہاں میں سر ہلا کر تاکید کی۔ ارشیہ وہاں سے اٹھ کر جلدی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ اچھی اسے آگے کا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔

"بعد میں بتا دینا جیا بیگم“ جیا بیگم نے اسے آواز دینی چاہی لیکن حیدر صاحب نے انہیں ٹال دیا۔ جس پر جیا بیگم ہلکا سا مسکرا کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

"ہیلو عزیز۔۔۔ ایک کام ہے۔۔۔ ایک لڑکے کی فل ڈیٹیلز چاہیے مجھے۔۔۔ دو گھنٹوں کے اندر اندر۔۔۔ اور خبردار آگر پاپا کو بھنک بھی پڑی اس بات کی“ ارشیہ نے فون کان سے لگائے حیدر صاحب کے خاص ملازم کو کہا اور آخر میں اسے دھمکی سے بھی نوازا۔

"نمرا کے گھر اس کا آنا جانا ہے۔۔۔ دحیہ کو آج کل وہ قاری سبحان کی جگہ پڑھا رہا ہے۔۔۔ اور یاد رکھا کہ اگر پاپا کو پتہ چلا تو۔۔۔ دو گھنٹے ہیں تمہارے پاس۔۔۔ صرف دو گھنٹے“ ارشیہ نے اسے حکم دیتے ہوئے دھمکیوں سے بھی نوازا اور پھر فون کان سے ہٹا کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔

عزیز کو اس نے حیدر صاحب کو نہ بتانے کا اس لیے کہا تھا کہ اگر انہیں پتہ چل جاتا تو وہاں سے کھبی نوکری نہ دیتے اور اگر وہ انٹرویو کے لیے بھی نہ بلاتے تو اس کا جو مقصد تھا وہ کیسے پورا ہوتا۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر میسج کھولا تو اس میں یوسف کی ساری ڈیٹیلز موجود تھی۔ جنہیں وہ زیرِ لب دہرانے لگی۔

"نام: یوسف احمد۔۔۔ عمر: چھبیس سال... تعلیم: ایم اے ایڈ

نعمان انکل کی اکیڈمی میں جاب کرتا ہے.... امپریسو۔۔۔ گھر میں ایک اندھی بہن ہے جس کا نام عبیرہ ہے۔۔۔۔ گھرانہ کافی مذہبی ہے۔۔۔ ماں کی وفات بہن کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ہو گئی تھی جبکہ باپ کی وفات کچھ سال پہلے ہی ہوئی ہے“ 

ارشیہ نے میسج پڑھ کر موبائل ایک طرف رکھ دیا اور گہری سوچ میں مبتلا ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نمرا کو فون کیا۔ جو کہ شام کے اس پہر اپنے کمرے میں بے زاری سے کتابوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔

"ہیلو نمرا۔۔۔ مبارک ہوں“ ارشیہ نے نمرا کے فون اٹھاتے ہی اسے دوپہر والے واقعے کی مبارک باد دی۔ جس پر نمرا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔ تھوڑی دیر پہلے جو کتابوں کی وجہ سے چہرے پر بیزاری تھی وہ اب مفقود تھی۔

"تمہیں بھی“ نمرا نے بھی اسے کہا جس پر ارشیہ نے ہممم کہہ کر بے اختیار اپنی انگلی میں موجود انگوٹھی کو دیکھا۔ نجانے ایسا کیا تھا کہ اسے خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ جب سے وہ اور سمیر ملے تھے تب سے شاید ارشیہ اسے پسند کرنے لگی تھی لیکن کھبی اظہار نہ کیا۔

اظہار کرتے ہوئے اس کی انا اڑے آتی تھی۔ لیکن اب جب بن کہے سب مل رہا تھا تو اسے خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے ساری سوچوں کو پسِ پشت ڈالا۔

"اچھا ایک کام کرو گئی“ ارشیہ نے بات کا آغاز کیا جس پر نمرا نے محض ہنکار بھرا تو ارشیہ نے اسے اپنا تیار کیا لائحہ عمل بتایا۔ جس پر نمرا نے ہامی بھری تو ارشیہ نے اسے پلین پر عمل کرنے کا طریقہ بتایا اور پھر تھوڑی دیر بعد موبائل سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوئے فون اٹھا کر زوہیب کو کال کی۔

'''''''''''''''''''''"''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

حائقہ اور عبیرہ ابھی گھر واپس آئی تھی۔ احتیاط کے طور پر حائقہ عبیرہ کو مختلف راستوں سے لے کر گھر پہنچی تھی کہ مبادا اس کے آدمی ان کے پیچھے نہ آ رہے ہوں۔ گھر پہنچ کر اس نے دروازے کی چٹخنی چڑھائی اور نقاب پکڑ کر ٹھوڑی تک کیا اور عبیرہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔

"عبیرہ تم نے اسے تھپڑ کیوں مارا؟“ حائقہ نے عبیرہ سے سوال کیا۔

"آپی اس نے میرا ہاتھ پکڑا تھا اور آپ پوچھ رہیں ہیں کہ میں نے اسے تھپڑ کیوں مارا“ عبیرہ نے حیرانی سے الٹا سوال دغا جس کے جواب میں حائقہ کچھ بول نہ سکی۔

وہ جانتی تھی کہ کیسے اِس لڑکی نے خود کو سینچ سینچ کر رکھا ہوا تھا۔  کیسے کوئی غیر محرم بھرے مجمع میں اس کا ہاتھ پکڑ سکتا تھا۔ حائقہ نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔ وہ اس معاشرے کے قانون سے بھی واقف تھی۔ غلطی چاہیے امیر کی ہوں لیکن خمیازہ بھگتنا غریب کو ہی پڑتا تھا۔

اب وہ شخص کیا کرے گا یہ سوچ حائقہ کو پریشان کیے ہوئے تھی۔ عبیرہ نے ہاتھ بڑھایا تو حائقہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ اللّٰہ کی مدد یقینی ہے۔۔ میں نے اسے اس کی غلطی پر تھپڑ مارا تھا“ عبیرہ نے مطمئن لہجے میں کہا جس پر حائقہ بھی مسکرا دی۔ دفعتاً دروازا بجنے کی آواز آئی تو حائقہ نے عبیرہ کی طرف دیکھا اور پھر نقاب ٹھوڑی سے اوپر کرتی دروازے کی طرف چل پڑی۔

"کون“ حائقہ نے ڈرتے ڈرتے مدھم سی آواز میں پکارا۔ اس وقت اسے عبیرہ کی فکر ہو رہی تھی۔ 

"معزرت خواہ ہوں کہ آپ کو اس وقت پریشان کیا۔۔ لیکن عبیرہ گھر نہیں تھی۔۔ کیا وہ آپ کے گھر ہے“ باہر سے یوسف کی آواز گونجی۔ جب وہ گھر آیا تھا تو عبیرہ گھر نہیں تھی۔ سب سے پہلے اس کا دھیان حائقہ کے گھر کی طرف گیا کیونکہ عبیرہ زیادہ تر یہاں ہی آتی تھی۔ 

حائقہ اس کی تصدیق کر کے اندر کی طرف بڑھ گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد عبیرہ نقاب کیے ہاتھ میں شاپر پڑے باہر آئی تو یوسف نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے لے کر گھر کی طرف چل پڑا 

"آج اتنی دیر کیوں ہو گئی“ گھر پہنچ کر یوسف نے عبیرہ سے پوچھا تو عبیرہ نے اسے صرف شوپنگ کے بابت بتایا۔ کھانا کھا کر یوسف اپنے  کمروں کی طرف چلے گیا۔ عبیرہ نے وضو کرکے عشاء کی نماز ادا کی اور پھر سکون سے سو گئی۔

یوسف نے کمرے میں آکر اکیڈمی کے بچوں کے پیپرز نکالے اور چیک کرنے لگ پڑا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل پر نعمان صاحب کی کال آئی۔ 

'''''''''''''''''''''"''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"زوہیب۔۔۔ زوہیب بیٹا بات تو سنو۔۔۔ زوہیب“ نجمہ بیگم نے لاؤنچ سے گزرتے وہیب کو آوازیں دی۔ زوہیب ان کی آواز کو نظر انداز کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جس پر نجمہ بیگم اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

زوہیب نے کمرے میں آ کر دروازا بند کیا اور شیشے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ اپنے گال پر رکھا۔ اب وہاں تھپڑ کا نشان نہیں تھا لیکن گال تھپڑ کی وجہ سے سرخ تھا۔

ایک دم غصے میں زوہیب نے وہاں پڑی تمام چیزوں کو ہاتھ مار کر زمین بوس کر دیا۔ شیشے کی بوتلیں زمین پر گر کر چکنا چور ہوگئی۔ زوہیب نے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے اور اچانک سے بیڈ شیٹ کو پکڑ کر زمین پر گرا دیا۔ 

تھوڑی ہی دیر میں نفاست سے سجے کمرے کا حال برا ہو گیا تھا۔ جبکہ غصہ کسی صورت کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ کمرے سے نکل کر وہ گاڑی لیے باہر چلا گی۔

کافی دیر یونہی بے مقصد گاڑی سڑک پر بھگانے کے بعد اس کے موبائل پر ٹیون بھجی تو اس نے موبائل نکال کر دیکھا تو کسی ان نون نمبر سے اسے یڈیو بھیجی گئی تھی۔ زوہیب نے ویڈیو چلا کر دیکھی تو وہ صبح زوہیب کے تھپڑ والی ویڈیو تھی۔ جس سے س کے غصے کا گراف مزید بڑھا تھا۔ 

"ہیلو عدیل۔۔۔ مجھے ایک لڑکی کی فل ڈیٹیلز چاہیے۔۔۔ پندرہ منٹ کے اندر اندر پک سینڈ کی“ زوہیب نے اپنے خاص ملازم کو کال ملا کر حکم سناتے ہوئے کال کاٹ دی۔ ویڈیو میں سے عبیرہ کی تصویر لے کر عدیل کو بھیجی اور فون ڈیش بورڈ پر ڈال کر گاڑی تیزی سے آگے بڑھا دی۔

تقریباً پندرہ منٹ کے بعد اس کے فون پر دوبارا ٹیون بجی تو اس نے اٹھا کر۔دیکھا تو وہاں عدیل کا میسج آیا ہوا تھا۔ اس نے گاڑی ایک طرف روک کر میسج کھول کر پڑھنا شروع کیا۔

" عبیرہ احمد۔۔۔ عمر بائیس سال۔۔۔ اندھی۔۔ ہاہاہاہا اندھی ہے۔۔۔ چلو ہائڈ اینڈ سیک میں مزا بھی آئے گا۔ چل بھئی عدیل ایک اور چڑیا کو جال میں پھنسانے کے لیے تیار ہو جا “ زوہیب نے عدیل کی سینڈ کی ہوئی ڈیٹیلز کو پڑھتے ہوئے قہقہ لگتے ہوئے کہا۔ 

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"اسلام و علیکم! کیا آپ مجھے میٹنگ روم کے بارے میں بتا سکتے ہیں“ یوسف نے آفس میں آتے ایک لڑکے سے پوچھا جس پر اس نے اسے کاونٹر کی طرف جانے کا کہا۔ اس آفس کے بارے میں تو یوسف کچھ بھی نہ جانتا تھا۔

رات کو نعمان صاحب کی کال آئی تھی اور انہوں نے آفس کا بتایا اور کہا کہ کل یہاں جا کر انٹرویو دیے آنا۔ نعمان صاحب کو بھی نمرہ نے ارشیہ کے کہنے پر انہیں بتائے بغیر رضا مند کیا تھا۔

نعمان صاحب کو نمرہ نے صرف یہ کہا تھا کہ ارشیہ نے اسے بتایا ہے کہ حیدر صاحب کو ایک قابلِ بھروسہ اور نیک آدمی ملازمت کے لیے چاہیے اور اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسا شخص ہو تو بتائیں گا۔ اسی لیے نعمان صاحب نے یوسف کو کال کرکے ان کے آفس جا کر انٹرویو دینے کا کہا۔

یہاں تو زیادہ تر لڑکیاں ہی تھی۔ یوسف کو اس ماحول سے الجھن ہونے لگی۔ کچھ لڑکیاں شورٹ ڈریس ڈالے بے باکی سے لڑکوں سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہیں تھیں۔ اس نے کھبی ایسا ماحول نہ دیکھا تھا۔

شروع سے ہی وہ ایک بوائز سکول و کالج میں پڑھا اور پھر ایم اے ایڈ بھی اس نے اوپن کی طرف سے کیا۔ وہ زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا آگئے بڑھ رہا تھا۔ 

کاؤنٹر سے جلدی سے پوچھنے کے بعد وہ میٹنگ روم کی طرف چلا گیا۔ کاونٹر پر پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ میٹنگ روم میں اسی کا ویٹ کیا جا رہا ہے۔ میٹنگ روم کے اندر جاتے اس کے قدم کسی لڑکی کی آواز پر ٹھٹک کر رکے۔

"دیکھو یہ وہی پارسا ہے نہ جس کا ارشیہ میڈیم نے بتایا تھا“ ایک لڑکی نے اپنی ساتھی سے یوسف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں چھوڑوں اسے۔۔۔ ابھی زیادہ پیسے والی جاب آفر کی جائے گئی تو دیکھنا کیسے روبوٹ کی طرح ہاں میں سر ہلاتا“ دوسری لڑکی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

"ہاں اور پھر ایسے لوگوں کی ہی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔۔ دیکھنا جب یہ پوسٹ مل جائے گئی تو کیسے نیک بننے کا ڈھونگ بھی اترتا۔۔ ویسے ایسے نیک بن رہا ہے۔۔ جیسے واقعی کوئی نیک پارسا ہوں“ پاس کھڑی لڑکی نے نحوست سے یوسف کی ذات پر طنز کے تیر برسائے جو کہ اسے اپنی روح کو چھلنی کرتے محسوس ہوئے۔

"اللّٰہ کی پناہ“ یوسف نے نم آنکھوں سے الفاظ دہرائے اور بوجھل قدموں سے میٹنگ روم کے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں سامنے ارشیہ خوبصورتی سے اسے حسن کو دو آتشہ کیے سربراہی کرسی پر براجمان تھی۔

"ہیلو۔۔۔ آئی ایم ارشیہ حیدر ملک“ ارشیہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنا تعارف کروایا۔

"اسلام و علیکم میم“ یوسف نے اس کے ہاتھ اور ہیلو دونوں کو یک سر نظر انداز کرتے ہوئے سلام کیا۔ ارشیہ اپنی کھلی تضحیک پر دل مسوس کے رہ گئی۔ اس وقت میٹنگ روم میں ارشیہ اور یوسف کے علاوہ ارشیہ کے پیچھے عزیز کھڑا تھا۔

"آئیے مسٹر یوسف.... ہیو آ سیٹ( Have a set )“ ارشیہ نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے اسے بیٹھنے کا کہا اور اشارے سے عزیز کو وہاں سے جانے کا کہا جس پر وہ فوراً سے پیش تر وہاں سے نکلا تھا۔ یوسف اپنی آنکھوں کی نمی کو اپنے اندر دھکیلتا زمین پر نظریں جھکائے کرسی پر بیٹھ گیا۔

"سو مسٹر یوسف۔۔ آپ کی سی وی“ ارشیہ نے سی وی کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جس پر یوسف نے اپنی سی وی اس کی طرف بڑھا دی۔ ارشیہ کے مسکراتے ہوئے لب سمٹے۔

"تو مسٹر یوسف احمد۔۔۔ آپ کی سی وی دیکھی میں نے۔۔ آپ کو ہم یہ جاب دیے سکتے ہیں اگر۔۔۔ اگر آپ نارمل ایکٹ کرے“ ارشیہ نے اس کی سی وی پڑھتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔ جس پر یوسف پھیکا سا مسکرایا۔

"سوری میم! لیکن میں نارمل ایکٹ کر رہا ہوں۔۔۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ میرا کونسا ایکٹ ابنارمل ہے“ یوسف نے تحمل سے اسے جواب دیا تھا۔ ارشیہ ایک دفعہ تو اسے دیکھتی رہ گئی۔ 

"آپ کو کیا لگتا ہے کہ صرف آپ ہی نیک مسلمان ہیں... باقی سب گنہگار ہیں“ ارشیہ نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"معزرت چاہتا ہوں اگر آپ کو ایسا لگا۔۔ لیکن میں صرف خود کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ادنیٰ سی کوشش کر رہا ہوں“ یوسف نے تحمل سے اس کے سوال کا جواب دیا لیکن ان لڑکیوں کی باتوں کی وجہ سے  دل میں ابھی بھی چھبن سی ہو رہی تھی۔

"اگر آپ خود کو یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں تو میں آپ کو جاب پر رکھ سکتی ہوں۔۔۔ ہم آپ کو بہت اچھا سیلری پیکج بھی دیں گئے “ ارشیہ نے اسے آزمانے کے لیے سیلری کا کہا۔ جس پر یوسف کے لب مسکرائے۔

میٹنگ روم کے باہر بھی جو لڑکیوں نے کہا وہ سب بھی ارشیہ نے انہیں کہنے کا کہا تھا۔ انہوں نے ارشیہ کے حکم کی پیروی کی تھی۔ اکرام صاحب اور حیدر صاحب اس شہر میں نہیں تھے۔اکرام صاحب میٹنگ کے سلسلے میں رات کو ہی کسی ملک گئے تھے جبکہ حیدر صاحب کو بھی ہنگامی میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا تھا۔ جس پر وہ صبح ہی نکل گئے۔

" سوری میم! لیکن میں خود کو آپ کی جاب کے لیے یا آپ کی سیلری کے لیے بدل نہیں سکتا۔۔۔ شکریہ آپ کے وقت کا۔۔۔ ہیو آ نائس ڈے ( Have a  nice day)“ یوسف نے کہتے ہوئے اپنی سی وی پکڑی اور میٹنگ روم سے باہر آ گیا۔یوسف نے آفس سے باہر آ کر رکشہ لیا اور گھر کی راہ لی۔

اسے جاتا دیکھ ارشیہ کو کچھ ہوا۔ اس کے دل میں یوسف کے لیے نرم جزبہ پیدا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کی نمی بھی ارشیہ سے چھپی نہیں تھی۔ انٹرویو کے دوران ارشیہ کی نظریں اس کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔ یوسف کے جانے کے تھوڑی دیر بعد میٹنگ روم میں زوہیب داخل ہوا۔ جس پر ارشیہ کے چہرے پر جو نرمی کے تاثرات تھے وہ فوراً سمٹے۔

"مبارک ہوں“ زوہیب نے میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہا تھا جس پر ارشیہ کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے ابرو اچکا کر زوہیب سے مبارک باد کی وجہ دریافت کی۔

"ارے بھئی ارشیہ حیدر۔۔ سمیر حسن کے پرپوزل کو بھی قبول کر چکی ہے۔۔ جبکہ اگلے ہفتے ارشیہ حیدر کی منگنی زوہیب اکرام ملک سے بھی ہے۔۔۔ واہ بھئی واہ“ زوہیب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے داد دینے کے سے انداز میں ارشیہ کے سر پر بم پھوڑا۔ ارشیہ نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے سر خم کر کے داد وصول کی۔ اس کی یہ حرکت زوہیب کو سلگا گئی۔

"ہممم۔۔۔ سنا ہے دائیں گال پر تھپڑ بڑی زور سے لگتا ہے۔۔ کھبی ایکسپرینس ( Experience ) ہوا ہے۔۔۔ کہ نہی؟ “ ارشیہ نے اپنی کرسی سے اٹھ کر زوہیب کے کان کے قریب جا کر راز داری سے پوچھا۔ جس پر اپنی تذلیل یاد کرکے زوہیب کی آنکھوں میں خون اترا۔

"کام کی بات کرو۔۔۔ کیوں بلوایا ہے؟“ زوہیب نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔ جس پر ارشیہ کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ ارشیہ نے ایک طنز بھری مسکراہٹ زوہیب کی طرف اچھالی۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

گھر پہنچ کر یوسف سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ عبیرہ حائقہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ آج حائقہ کے گھر میلاد تھا اسی لیے وہ آج دیر سے انے والی تھی۔ یوسف نے چارپائی پر لیٹ کر اپنا بازو آنکھوں پر رکھا۔ ماضی کی یادیں چھن سے یاد کے پردے پر لہرائی تھیں۔

"بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ بابا“ یوسف نے گھر میں داخل ہوتے ہی احمد صاحب کو اونچی اونچی آواز دینا شروع کر دی۔ سارے گھر میں چھ سالہ یوسف کی آواز گونج رہی تھی۔ یونیفارم میں ملبوس یوسف بہت پیارا لگ رہا تھا۔ لیکن یونیفارم جگہ جگہ سے مٹی سے گندی ہوئی تھی۔

"آہستہ یوسف۔۔۔بہنا سو رہی ہے۔۔۔کیا ہوا ہے یوسف“ احمد صاحب نے ایک کمرے سے باہر نکلتے ہوئے یوسف کو آواز آہستہ کرنے کا کہا اور پھر اس کی گندی یونیفارم دیکھ اس سے پوچھا۔

"بابا۔۔۔ مجھے ماما کے پاس جانا ہے۔۔ یہاں سب لوگ گندے ہیں۔۔۔ بابا مجھے آج عمر اور عثمان نے مارا“ یوسف نے احمد صاحب کے ساتھ لپٹتے ہوئے نم آواز میں کہا۔

"ایسے نہیں کہتے یوسف... بابا کو بھی چھوڑ جاؤں گئے“ احمد صاحب نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ احمد صاحب کی بیوی کی وفات کو سال ہو چکا تھا۔ اب عبیرہ بھی دو سال کی ہو چکی تھی۔

"نہیں بابا مجھے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے۔۔ ماما سے آپ کہوں نہ مجھے بھی اپنے پاس بلا لے۔۔۔ یہ دنیا والے بہت گندے ہیں۔۔۔ میں نے نہیں رہنا یہاں“ یوسف نے احمد صاحب کی آغوش سے نکل کر ان سے کہا جس پر احمد صاحب نے نفی میں سر ہلایا۔

"بیٹا یہ دنیا ایک کوئلے کی کان ہے۔۔۔ اور تم اس میں ہیرے ہوں۔۔ میرے ہیرے“ یوسف صاحب نے یوسف کو اپنی گود میں بیٹھاتے ہوئے اس کے سر پر بوسہ دہے کر کہا۔ 

"لیکن بابا میں ہیرا کیسے بنوں گا“ یوسف نے ناسمجھی سے پوچھا۔ اب وہ پہلی بات کو بھول چکا تھا۔

"بیٹا یہ دنیا ایک کوئلے کی کَان ہے۔۔ اس میں ہیرا تمہیں خود بننا پڑے گا۔۔۔ ایک کوئلے کی کان میں ہیرا خود بنتا ہے۔۔ وہاں کی سختی برداشت کر کے۔۔ کوئلے کی کالک سے زرا زرا جمع ہوتا ہے۔۔ پھر وہ زرے مل کر ایک ہیرے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔۔۔ دیکھو کوئلے کی اتنی وقعت کی نہیں ہوتی لیکن اس کوئلے کی کان سے نکلے ہیرے کی کتنی وقعت ہوتی ہے۔ بس خود کی ذات پر اور اللّٰہ کی مدد پر کامل یقین رکھنا “ احمد صاحب نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں یوسف کو سمجھایا جس پر اس نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ 

"چلو شاباش اب اٹھو اور منہ ہاتھ دھو کے آؤں۔۔ میں اپنے بیٹے کو کھانا کھلاؤ“ احمد صاحب نے پیار سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے کہا جس پر یوسف مسکرا کر ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔

"اب بابا کو چھوڑنے کی بات نہ کرنا“ کھانا کھلاتے ہوئے احمد صاحب نے یوسف سے کہا جس پر اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر آگے بڑھ کر احمد صاحب کے گال پر بوسہ دیا تو احمد صاحب مسکرا دیے جبکہ یوسف کھلکھلا دیا۔

ماضی کی باتیں یاد کرتے یوسف کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ یوسف نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور اٹھ کر وضو بنانے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وضو کرکے کمرے میں آ کر سورۃ الانعام کی تلاوت کرنی شروع کر دی۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

ترجمہ:

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے

#1

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ  ۬ ؕ ثُمَّ  الَّذِیۡنَ  کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ  یَعۡدِلُوۡنَ  ﴿۱﴾

ترجمہ:

"تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور اندھیریاں اور روشنی بنائی ۔ پھر بھی جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو ( خدائی میں ) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں ۔"

#2

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ  قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ  ثُمَّ  اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۲﴾

ترجمہ:

وہی ذات ہے جس نے تم کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ، پھر ( تمہاری زندگی کی ) ایک میعاد مقرر کردی ۔ اور ( دوبارہ زندہ ہونے کی ) ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے ۔ ( ١ ) پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو ۔

#3

وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَعۡلَمُ سِرَّکُمۡ وَ جَہۡرَکُمۡ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡسِبُوۡنَ ﴿۳﴾

ترجمہ:

اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے ، اور زمین میں بھی ۔ وہ تمہارے چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے ، اور کھلے ہوئے حالات بھی ، اور جو کچھ کمائی تم کر رہے ہو ، اس سے بھی واقف ہے ۔

#4

وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ  اِلَّا  کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴﴾

ترجمہ:

اور ( ان کافروں کا حال یہ ہے کہ ) ان کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جب بھی کوئی نشانی آتی ہے ، تو یہ لوگ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

#5

فَقَدۡ  کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ  لَمَّا جَآءَہُمۡ ؕ فَسَوۡفَ یَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۵﴾

ترجمہ:

چنانچہ جب حق ان کے پاس آگیا تو ان لوگوں نے اسے جھٹلا دیا ۔ نتیجہ یہ کہ جس بات کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ، جلد ہی ان کو اس کی خبریں پہنچ جائیں گی ۔ ( ٢ )

تلاوت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ اللّٰہ کی محبت میں اس کی آنکھوں بھر آئی تھیں۔ اس مشکل وقت میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی مدد ایک یقینی امر تھی۔ اسے اپنے رب سے عشق تھا۔ اس کی آنکھیں اپنے نادیدہِ عشق کی وجہ سے بھیگ رہیں تھیں۔ ہاں لیکن اس کے آنسوں اللّٰہ کے سامنے بے مول نہیں تھے۔ وہ آنسوں انمول تھے۔ شاید یوسف اس کوئلے کی کان میں پڑا ہیرا تھا۔ لیکن کون جانے سوائے خدا تعالیٰ کے۔۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ارشیہ کیا تم آج میرے فارم ہاؤس پر آ سکتی ہوں“ سمیر نے ارشیہ کو کال کر کےفارم ہاؤس پر بلایا تھا۔ اس وقت وہ کسی کھنڈر نما گھر میں موجود تھا جو کہ شاید پچھلے کچھ سالوں سے بند تھا۔

"کیوں کیا ہوا سمیر“ آفس سے نکلتے ارشیہ نے  پریشانی سے پوچھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ زوہیب سے بات کرکے باہر واپس گھر جا رہی تھی کہ اچانک سمیر کی کال آئی۔ 

"کچھ نہیں۔۔ وہ تھوڑا سا کام تھا۔۔ آگر تم آ جاتی تو“ سمیر نے اس کے لہجے کی پریشانی بھانپ کر جلدی سے کہا۔ جس پر ارشیہ نے ہاں میں جواب دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سمیر کے فارم ہاوس کی طرف بھگا لی۔

"ہیلو ہاں وہ آ رہی ہے۔۔ تیار رہنا“ ارشیہ کی طرف سے کال کاٹ کر سمیر نے اپنے آدمیوں کو کال ملا کر اطلاع دی تھی۔ جس پر دوسری طرف کا جواب سن کر سمیر کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔

فون بند کر کے سمیر نے بازو اپنے سر کے پیچھے ٹکائے اور آرام دہ انداز میں کرسی پر دراز ہو گیا۔کچھ دیر بعد سمیر کے موبائل پر کال آئی تو اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ 

کچھ ہی پل گزرتے تھے کہ سمیر کے آدمی ارشیہ کو لیے اس کھنڈر  میں داخل ہوئے اور وہاں دوسرے کمرے میں لے جا کر انہوں نے ارشیہ کو کرسی پر رسیوں کی مدد سے باندھ دیا۔

"سر دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا“ ان میں سے ایک آدمی نے آ کر سمیر کو اطلاع دی۔ جس پر سمیر نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور اسے جانے کا کہا اور خود اٹھ کر باہر چلا گیا اور گاڑی میں بیٹھ کے گاڑی فارم ہاؤس کی جانب بھگالی۔

ارشیہ کے جانے کے بعد زوہیب کافی دیر تک اس کی باتوں پر غور کرتا رہا اور پھر کچھ یاد آنے پر موبائل نکال کر آفس سے باہر نکالا اور چلتے چلتے اپنے خاص ملازم عدیل کو کال کی۔

"ہاں عدیل کہاں ہوں؟“ زوہیب نے آفس سے نکلتے ہوئے دوسری طرف سے فون اٹھانے پر پوچھا جس پر فوراً سے عدیل نے جواب دیا تھا۔

"ہاں وہ ایک کام تھا۔۔ کل رات جس کی ڈیٹیلز تم نے نکلوائی تھی۔۔ زرا اسے اپنے فارم ہاوس کی سیر تو کرواؤ یار“ زوہیب نے گاڑی میں بیٹھتے ہنستے ہوئے عدیل سے کہا۔ جس پر دوسری طرف سے عدیل نے کچھ کہا تو زوہیب کی مسکراہٹ سمٹی اور ماتھے پر بل واضح ہوئے تھے۔

"جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔۔ کل شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس جو کرنا ہے کرو۔۔ لیکن وہ لڑکی مجھے میرے فارم ہاوس پر چاہیے سمجھے تم “ زوہیب نے غصے سے کہہ کر فون کھٹاک سے بند کیا اور گاڑی بھگالی۔ 

"اب اس لڑکی کو پتہ چلے گا کہ زوہیب اکرام ملک کے تھپڑ مارنے کا کیا انجام ہوتا ہے “ زوہیب نے غصے سے سٹرینگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ابے اسے تو ہوش نہیں آ رہا۔۔۔اب کیا کریے۔۔۔ سر نے تو ہمیں نہیں چھوڑنا“ اس کھنڈر نما گھر میں موجود سمیر کے آدمیوں میں سے ایک آدمی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

"بیٹھ جا چپ کر کے آ جائے گا ہوش بھی“ دوسرے آدمی نے بے زاری سے اسے ٹوکا۔ 

"کافی دیر ہو گئی ہے۔۔۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو سمیر صاحب نے ہمیں چھوڑنا نہیں ہے“ پہلے آدمی نے ڈرتے ہوئے اسے کہا جس پر دوسرا اسے غصے بھری نظر سے نوازتا کرسی سے اٹھا اور اس کے ساتھ کمرے کی طرف چلا گیا۔

ارشیہ کو کچھ دیر پہلے ہی ہوش آیا تھا۔ خود کو انجان جگہ پا کر اس نے ادھر ادھر دیکھا تو باہر سے آتی آوازوں اور اپنے بندھے بازوں کو دیکھ اسے کچھ کچھ سمجھ آیا تھا۔ اچانک اسے قدموں کی آواز سنائی دی جو کہ آہستہ آہستہ نزدیک آ رہی تھی۔ ارشیہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کی۔

"ابے یہ کیا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا” دوسرے آدمی نے ارشیہ کی ایک طرف ڈھلکی گردن دیکھ کہا تھا۔

"تب سے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔ سمیر صاحب کو فون کر کے بتا“ پہلا آدمی اس پر چڑھ دوڑا۔ سمیر کے کہے کے مطابق اگر اسے کچھ ہو جاتا تو وہ ان کو زندہ گاڑھ دیتا۔ 

"ہیلو سمیر صاحب۔۔۔ وہ ارشیہ بی بی کو ہوش نہیں آیا ابھی تک“ دوسرے آدمی نے ڈرتے ڈرتے فون کرکے سمیر کو اطلاع دی۔ 

"کیا مطلب ہوش نہیں آ رہا“ سمیر نے غصے سے پوچھا۔ جس پر اس آدمی نے بمشکل تھوک نگلا۔

"پتہ نہیں۔۔۔ سمیر صاحب۔۔۔۔ بی بی کو ہوش نہیں آ رہا“ آدمی نے اٹکتے ہوئے کہا۔ جس پر سمیر نے دوسری جانب دو انگلیوں سے اپنی کنپٹی سہلائی۔

"اچھا میں دیکھتا ہوں۔۔۔ کرم دین....کرم دین۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ جاؤ” سمیر نے فون بند کرکے کرم دین کو آواز دینا شروع کی۔ وہ آیا تو اسے ڈرائیور کے ساتھ جانے کا کہہ کر زیاد اور نمرا کو فون کرنے لگا۔

"ہیلو زیاد۔۔۔ ہاں وہ ارشیہ کا کچھ پتہ ہے۔۔۔ کافی دیر ہو گئی ہے۔۔ میں نے اسے فارم ہاوس بلوایا تھا مجھے کام تھا لیکن ابھی تک وہ آئی ہی نہیں۔۔ پلیز پتہ کرنا اس کا نمبر بھی بند جا رہا ہے“ سمیر نے مصنوعی فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے زیاد کو کہا۔

"کتنی دیر ہو گئی۔۔ اور تم نے پتہ کروایا کہ وہ کہا ہے“ زیاد نے ٹیبل سے اپنی والٹ اور کیز اٹھاتے ہوئے کہا اور ساتھ نمرا کو آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اور نمرا اس وقت ریسٹورنٹ آئے ہوئے تھے۔

نمرا پریشان سی اس کے پیچھے پیچھے گاڑی کی طرف چل دی۔ زیاد نے کچھ ضروری باتیں اور کی ور پھر فون کاٹ کر گاڑی بھگا لی۔ دوسری طرف سمیر نے فون کاٹ کر کیز اور والٹ اٹھایا اور جہاں ارشیہ کو رکھا تھا گاڑی کو اس طرف موڑ لیا۔

"کیا ہوا ہے زیاد“ پریشانی میں زیاد بار بار کسی کو کال ملا رہا تھا لیکن وہ اٹھا نہیں رہا تھا۔ اسے پریشان دیکھ نمرا نے پوچھا۔ جس پر زیاد نے اسے سمیر کی بات من و عن بتائی۔

"اب کیا ہو گا زیاد“ نمرا نے پریشانی سے زیاد سے پوچھا۔ زیاد نے گاڑی نمرا کے گھر سے تھوڑی دور کھڑی کی۔

"کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ میں ہوں نہ۔۔۔ اور ٹیشن نہ لوں بس ایک بار ارشیہ مل جائے میں جلد ہی ماما اور بابا کو تمہارے گھر بھیجتا ہوں۔۔ ٹھیک ہے“ زیاد نے پیار سے اسے سمجھایا تھا۔ جس پر نمرا نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف چلی گئی۔ اس کے جتے ہی زیاد نے گاڑی کا رخ پولیس سٹیشن کی جانب کیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ہاں ہیلو عدیل میرا کام ہوا کہ نہیں“ زوہیب نے عدیل کو کال ملا کر پوچھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ زوہیب نے کوئی کا کہا اور عدیل نے وہ نہ مانا ہوں۔ عدیل کی بات سن اس کے ماتھے کے بل واضح ہوئے۔

"تم میرے لیے کام کرتے ہوں کہ دوسروں کے لیے۔۔۔ اگر میرا کام نہیں کر سکتے تو مجھے بتا دوں۔۔۔ آج شام۔۔۔ آج شام تک وہ میرے فارم ہاوس نہ پہنچی تو میں تمہیں کہا پہنچاؤں گا یہ تو تمہیں پتہ ہے“ زوہیب نے غصے سے کہا اور فون بند کر کے بیڈ پر پھینکا۔

"سمجھتا کیا ہے خود کو“ زوہیب نے غصے سے کمرے میں چکر لگاتے ہوئے کہا اور پھر کچھ یاد آنے پر موبائل اٹھا کر کسی کو کال کرنے لگا۔

"ہیلو۔۔۔ ہاں ایک لڑکی کی تصویر اور اس کی ڈیٹیلز بھیج رہا ہوں۔۔ شام تک مجھے وہ۔میرے فارم ہاوس میں چاہیے“ دوسری۔طرف سے فون اٹھاتے ہی۔زوہیب نے بات کا آغاز کیا۔ 

"ٹھیک۔ہے سیٹھ تمہارا کام ہو جائے گا۔۔۔ لیکن روکڑا اپنی مرضی کا ہو گا سیٹھ“ بھاری مردانہ آواز سپیکر سے گونجی تھی۔ دوسری طرف سے تسلی بخش جواب دیے جانے پر زوہیبکے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔ کام ہونے کے بعد مل جائے گئے پیسے۔۔۔  یاد رکھا اسے ایک خراش تک نہیں آنی چاہیے۔۔۔جیسے ہو ویسے ہی میرے فارم ہاوس پر آئے۔۔۔ چہرے سے پردہ ہٹانے کی کوشش نہ کرنا“ زوہیب شاید اس شخص کی خصلت سے واقف تھا اسی لیے روبدار لہجے میں کہتے ہوئے آخر میں وارن کیا۔ 

"ارے سیٹھ تیرے مال کو آگے کچھ ہوا ہے۔۔ جو اب میں کروں گا۔۔ تو بے فکر رہ۔۔ لیکن یہ تصویر تو کسی حاجن کی ہے سیٹھ۔۔ آپن کیسے اسے پہچانے گا“ دوسری طرف آدمی نے ہنستے ہوئے اسے تسلی دی اور پھر فکر مندی سے پوچھا۔ کیونکہ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایسا کون سا ہیرا اس پردے کے پیچھے چھپا ہے جو زوہیب ملک کو پسند آیا ہے۔ 

"وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔۔ ایڈریس دیا ہے نا۔۔۔ بس جتنا کہ ہے اتنا کرو“ زوہیب نے وارن کیا اور کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ فون بند کرنے کے بعد آنکھیں بند کیے زوہیب آنے والے وقت کا سوچ مسکرانے لگا۔ یہ جانے بغیر کہ یہ مسکراہٹ شاید اس کے چہرے کی آخری مسکراہٹ ہو۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"سمیر صاب نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔۔۔ تم لوگ جاؤں۔۔ میں دیکھتا ہوں“ ادھیڑ عمر کرم دین نے دونوں آدمیوں کو اس کمرے سے جانے کا کہا جس پر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کرم دین میڈیکل کے بارے میں جانتا تھا اسی لیے سمیر نے اسے بھیجا تھا 

"ہم کہی نہیں جائے گئے۔۔۔ تم دیکھو اسے کیا ہوا ہے“ ان دونوں میں سے ایک آدمی تن کر بولا۔ 

"ٹھیک ہے۔۔ میں سمیر صاحب سے کہہ دوں گا کہ انہوں نے مجھے اس کا علاج نہیں کرنے دیا“ کرم دین ان کو وہاں سے بھیجنے کے چکروں میں تھا۔ وہ آتے ہی دیکھ چکا تھا کہ ارشیہ ہوش میں ہے اسی لیے انہیں وہاں سے جانے کا کہا۔

وہ دونوں منہ بسورتے اسے گھوریوں سے نوازتے دوسرے کمرے میں آ گئے۔

"مجھے پتہ ہے بی بی آپ بے ہوش نہیں ہیں۔۔۔ اٹھ جائے جلدی۔۔ میں آپ کو کھولتا ہوں آپ یہاں سے بھگا جائے“ کرم دین نے ان کے جاتے ہی ارشیہ کی رسیاں کھولنی شروع کردی اور آہستہ آواز میں اسے پکارا جس پر آنکھیں بند کیے ارشیہ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔

"آپ مجھے کیوں بچا رہے ہیں۔۔ اور سمیر۔۔ سمیر نے مجھے کیوں کڈنیپ کیا ہے“ کب سے کرسی پر بندھے ہونے کی وجہ سے اب اس کی ٹانگیں درد کرنا شروع ہوگئی تھی۔ حلق میں تو جیسے کانٹے اگ آئے تھے۔

"کیوں کہ ایک وقت میں میں نے آپ کے گھر کا نمک کھایا تھا۔۔ اور سمیر صاحب کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔۔ ان کو لگتا ہے کہ آپ کی وجہ سے ان کے بھائی کی موت ہوئی ہے“ کرم دین نے جلدی جلدی اسے مختصر سا بتایا۔ سی دوران وہ۔اس کی رسیاں کھول چکا تھا۔

"سمیر کا بھائی۔۔ میری وجہ سے اس کی موت۔۔۔ سمیر کا کوئی بھائی بھی تھا“ ارشیہ نے حیرت سے اٹکتے ہوئے کرم دین سے پوچھا۔ آواز حلق سے نکلنے سے انکاری تھی۔ ٹانگیں الگ درد کر رہیں تھیں۔

"رحمان احمد“کرم دین نے اتنا کہتے ہوئے باہر ان دونوں کو ایک نظر دیکھا تھا۔ لیکن ارشیہ وہ اس نام پر ہی اٹک گئی تھی۔ ماضی کی یادیں اس کے ذہین میں ابھر رہی تھی لیکن اس نے سر جھٹکا۔ اسے فلحال یہاں سے نکلنا تھا۔

"بی بی۔۔۔ آپ ادھر سے چلے جائے۔۔ وہ آپ کو نہیں دیکھ پائے گئے۔۔ جلدی جائے۔۔۔“ کرم دین نے اسے پیچھے کے راستے سے جانے کا کہ اور پھر اسے وہاں سے نکال کر جلدی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

"تھوڑی دیر تک انہیں ہوش آجائے گا“ یہ کہتے ہی کرم دین نے بھی باہر کی راہ لی اور گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"عبیرہ۔۔۔ عبیرہ آج تم یہاں ہی رک جاؤں“ حائقہ نے عبیرہ کو نقاب کرتے دیکھ کہا جس پر عبیرہ کے نقاب کرتے ہاتھ رکے تھے۔

"کیا ہوا حائقہ آپی۔۔۔ کوئی بات ہے“ عبیرہ نے فکر مندی سے پوچھا تھا۔

"نہیں بات تو کوئی نہیں ہے۔۔ بس آج تم ادھر رک جاتی تو۔۔۔ ویسے ہی میرا دل گھبرا رہا تھا“ حائقہ نے جلدی سے وضاحت دی تھی۔

"آپی کیا ہوا ہے۔۔ کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہیں ہیں“ عبیرہ نے آواز میں خفگی سمائے حائقہ سے پوچھا۔

"نہیں کوئی بات تو نہیں ہے۔۔  بس آج کل میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی“ حائقہ نے واضح کیا جس پر عبیرہ نے جلدی سے حائقہ کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کی تھی۔

"کیا ہوا ہے آپ کو۔۔ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا آپ نے“ عبیرہ نے فکر مند لہجے میں پوچھا۔ ایک یہی تو تھی اس کی دوست، اس کی ساتھی، اس کی بہن.

" نہیں اتنی زیادہ خراب نہیں ہے۔۔ بس ہلکا سا بخار اور کھانسی ہے“ حائقہ نے اس کی فکر دیکھ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"چلیں ابھی ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔۔۔ چلیں اٹھیں “ عبیرہ نے اٹھتے ہوئے اس کو بھی اٹھانا چاہا۔ جس پر حائقہ مسکرا دی۔ جبکہ آنکھوں میں نمی واضح ہونے لگی۔

"چلیں جلدی سے عبایہ کرے“ عبیرہ نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا اور پھر اپنا نقاب درست کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گھر سے نکلی۔ 

"عبیرہ تمہاری میڈیسن بھی ہم ساتھ ہی لے آتے ہیں“ حائقہ نے مشورہ دیا جس پر وہ ڈاکٹر کی طرف جانے سے پہلے عبیرہ کے گھر کی طرف چلے گئے۔ 

عبیرہ تم جاؤں وہ سلیپ لے آوں میں ابھی آتی ہوں“ حائقہ نے اسے دروازے کے پاس چھوڑا اور سامنے والے گھر میں چلی گئی جہاں ایک عورت دروازے میں کھڑی اسے بلا رہی تھی۔

حائقہ اس طرف گئی تو وہ عورت اس سے باتوں میں مگن ہو گئی۔ عبیرہ آہستہ آہستہ محتاط قدم اٹھاتی اندر گئی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ تبھی زوہیب کے آدمی اندر داخل ہوئے اور جلدی سے اس کے چہرے پر کلورو فوم کا سپرے کیا۔ 

سپرے کی وجہ سے عبیرہ بے ہوش ہو گئی تو انہوں نے اسے اٹھایا اور باہر موجود اپنی وین میں ڈال کر جلدی سے زوہیب کے فارم ہاوس کی طرف وین بھگالی۔حائقہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گھر کے سامنے سے کوئی وین گزری تھی۔ وہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور عبیرہ کو تلاشنا شروع کیا لیکن وہ کہی بھی نہیں تھی۔ 

عبیرہ کو وہاں نہ پا کر حائقہ کو آسمان اپنے سر پر گھومتا ہوا محسوس ہوا اور وہ چکرا کر وہی زمین پر گر گئی۔یوسف آج حسبِ معمول اکیڈمی میں تھ جب ہہ قیامت آ کر گزر بھی گئی۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

اس کھنڈر نما گھر سے نکلنے کے بعد وہ تیز تیز قدموں سے اپنی جان بچانے کے لیے بھگا رہی تھی۔ راستے میں بھاگتے ہوئے وہ کچھ دیر بعد پیچھے مڑ کر دیکھ لیتی۔ کچھ دیر بھاگنے کے بعد ایک طرف سے اسے ایک گاڑی اپنی طرف آتی دیکھائی دی۔ 

دوپٹے سے بے نیاز بکھرا بکھرا سا حلیہ۔۔۔ درد کی شدت سے شل بازو اور ٹانگیں۔۔۔ اس کی حالت غیر ہونے لگی۔۔ وہاں ایک طرف کھڑی ہو کر اس نے بگڑا تنفس بحال کیا اور سامنے سے آتی کے سامنے ہاتھ ہلا کر لفٹ کا اشارہ کیا۔ گاڑی پاس آ کر روکی تو ارشیہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھی۔

"آر یو آل رائٹ (?Are you alright) ۔۔۔ کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔ پانی“ گاڑی میں ایک کپل بیٹھا تھا۔ لڑکی نے پیچھے مڑتے ہوئے ارشیہ سے اس کے بابت پوچھا لیکن ارشیہ کوئی۔جواب دینے کی بجائے بے آواز پانی مانگ رہی تھی۔ جس پر سامنے بیٹھی لڑکی نے جلدی سے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی جیسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئی۔

"آپ بتائیں ہمیں آپ کو کیا ہوا ہے۔۔۔ آپ یوں بھاگ کیوں رہیں تھیں“ آدمی نے ڈرائیو کرتے ہوئے مرمرر سے پیچھے ایک نظر دیکھ کر سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"مجھے میرے فیانسی نے کڈنیپ کر لیا تھا“ ارشیہ کے منہ سے ادا ہونے والے پہلے الفاظ تھے۔ جس پر فرنٹ سیٹ پر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"یہ لیں۔۔ آپ اپنے گھر والوں کو انفارم کر دیے“ آدمی نے اپنا موبائل ارشیہ کی طرف بڑھایا جیسے ارشیہ نے آگے بڑھ کر پکڑا اور کچھ سوچتے ہوئے ولی کو فون ملانے لگی۔

"ہیلو۔۔۔۔ میں ارشیہ بات کر رہی ہوں“ ارشیہ نے ولی کے فون اٹھانے ہی جلد اپنا تعارف کروایا۔ جس پر ولی جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔

"تم۔۔۔ تم کہا ہوں ارشیہ“ ولی نے فکر مندی سے پوچھا۔ ارشیہ اس دن سے ولی سے ناراض تھی اور پھر ابھی تھوڑی دیر پہلے زیاد نے اس سے ارشیہ کے بارے میں پوچھا ولی کی لاعلمی کے اظہار پر زیاد نے اسے سر سری سا بتا کر رابطہ منقطع کر دیا تھا۔

ارشیہ نے تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد حیدر صاحب کو کال کر کے بتایا پھر ان میاں بیوی کے پوچھنے پر انہیں ولی کے گھر کا ایڈریس دیا تھا۔ جس پر آدمی نے گاڑی ارشیہ کے بتائے گئے ایڈریس کی طرف بڑھا دی۔

"ویسے میرا نام ماہم آفتاب ہے اور یہ میرے ہسبنڈ آفتاب“  لڑکی نے اپنا تعارف کروایا۔ دیکھنے میں وہ تھوڑی باتونی لگ رہی تھی جبکہ اس کا شوہر خاموش ڈرائیونگ کر رہا تھا۔

"میرا نام ارشیہ حیدر ہے “ ارشیہ نے مسکرا کر اپنا تعارف کرویا۔ اب وہ تھوڑا ریلکس ہو گئی تھی۔ اس نے غور کیا تو لڑکی نے اس وقت شاید کوئی بلیک فراک یا عبایہ ڈالا ہوا تھا اور چہرے یر حجاب کیا ہوا تھا جبکہ لڑکے نے بلیک کرتا شلوار ڈالی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی دیکھ ارشیہ کے دماغ میں یوسف کا تصور ابھرا جس پر وہ مسکرا دی۔

ماہم سارے راستے ارشیہ کے ساتھ باتیں کرتی آئی۔ وہ دونوں کسی دوسرے شہر سے آئے تھے۔ یونہی لونگ ڈرائیور کرنے کی وجہ سے دونوں نے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ارشیہ کو وہ لوگ ولی کے گھر اتار کر چلے گئے۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

تھوڑی دیر بعد سمیر کی گاڑی اس کھنڈر نما گھر کے باہر روکی۔ کرم دین کے جانے کے بعد سمیر کے آدمی ایک بار بھی اسے دیکھنے نہ گئے۔ وہ اس وقت سو رہے تھے۔ سمیر نے انہیں نحوست سے دیکھا اور ارشیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا لیکن وہا ارشیہ کو نہ دیکھ غصے سے باہر آیا اور ان دونوں کے منہ پر پورے زور سے تھپڑ مارے جس پر وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔

"کہاں ہے وہ“ سمیر حلق کے بل چیخا جس پر ان دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"ارشیہ کہاں ہیں۔۔۔ تم لوگوں کو میں سونے کے پیسے دیتا ہوں۔۔۔ دفعہ ہو جاؤں اسے ڈھونڈوں۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ“ سمیر نے چیختے ہوئے اسے ارشیہ کو ڈھونڈنے کا کہا جس پر وہ جلدی سے باہر کی طرف بھاگے۔ لیکن انہیں کہی بھی ارشیہ نہیں ملی۔ 

"ہیلو۔۔۔ زیاد۔۔۔ کچھ پتہ چلا ارشیہ کے بارے میں۔۔۔ میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا“ سمیر نے تھوڑی دیر بعد خود کو نارمل کرتے ہوئے زیاد کو کال ملا کر اس سے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ وہ مل گئی ہے حیدر انکل کو کال کر کے اس نے بتایا ہے کہ وہ اپنی کسی فرینڈ کے پاس چلی گئی تھی۔۔ اس کا موبائل کی چارج ختم ہو گئی تھی۔۔ اسی لیے فکر کی ضرورت نہیں ہے “ زیاد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جس پر سمیر نے سکون کی سانس لی۔ 

"ٹھیک ہے۔۔ میں تو پریشان ہی ہو گیا تھا... میں بعد میں کال کرتا ہوں“ سمیر نے جلدی سے کال اینڈ کی۔ تبھی اس کے آدمی اندر آئے۔

"کہی نہیں ہے بی بی۔۔۔ ہم نے چاروں طرف دیکھا ہے صاحب“ دونوں آدمیوں نے سر جھکائے بتایا جس پر سمیر نے انہیں غصے سے دیکھا اور انہیں جانے کا اشارہ کر کے گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا کہ اسے سمیر نے کیڈنیپ کروایا یے اس بارے میں پتہ بھی چلا ہو گا کہ نہیں۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

آج اکیڈمی میں کام جل ختم ہو گیا تھا اسی لیے یوسف جلد گھر آیا تو سامنے عبیرہ کے کمرے کے دروازے پر لڑکی نقاب کیے بے ہوش پڑی تھی۔

"عبیرہ“ یوسف جلدی سے آگے بڑھا لیکن اس کے قدم وہی روکے تھے۔ وہ عبیرہ نہیں تھی وہ حائقہ تھی۔

یوسف جلدی سے ساتھ والے گھر سے جاننے والی ایک ادھیڑ عمر عورت کو بلوا لایا۔ اس عورت کے ساتھ اس کی ایک پوتی بھی تھی۔ دونوں  نے حائقہ کو عبیرہ کے کمرے میں لیٹایا۔ یوسف جلدی سے جا کر وہاں پاس ہی موجود کلینک سے ڈاکٹر بلوا لایا۔ ڈاکٹر نے حائقہ کو چیک کیا تب تک وہ عورت اور اس کی پوتی حائقہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔

"زیادہ سٹریس کی وجہ سے بے ہوش ہوں گئیں ہیں جلد ہی انہیں ہوش آ جائے گا“ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا اور چلی گئی۔ یوسف اپنے کمرے میں چلا گیا تو ادھیڑ عمر عورت نے اپنی پوتی زینت کو کہہ کر حائقہ کا نقاب کھول دیا۔

"ع۔۔۔عب۔۔ عبیی۔۔ عبیرہ۔۔۔ عبیرہ “ حائقہ نے ہوش میں آتے ہی عبیرہ کا نام لینا شروع کر دیا۔

"آپی آپی کیا ہوا ہے۔۔ عبیرہ آپی یہاں نہیں ہے“ زینت نے حائقہ کو آہستہ سے ہلاتے ہوئے بتایا۔ 

"وہ۔۔ وہ لوگ عبیرہ کو لے گئے۔۔۔ عبیرہ مجھے عبیرہ کے پاس جانا ہے“ حائقہ نے ہوش میں آتے انہیں بتایا تھا۔ دوسری طرف یوسف اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا۔ وہ بھی گھر میں دیکھ چکا تھا اسے کہی بھی عبیرہ نظر نہ آئی۔

"یوسف بھائی۔۔۔ یوسف بھائی۔۔ وہ عبیرہ آپی“ زینت جلدی سے یوسف کے کمرے کی طرف بھگای۔ دروازے می  ہی کھڑے اس نے یوسف کو آواز دی۔

"یوسف وہ کچھ لوگ عبیرہ کو لے گئے۔۔۔ میں۔۔  میں نہیں بچا سکی عبیرہ کو“ حائقہ نے روتے ہوئے بتایا۔ یوسف وہاں خاموش کھڑا نظریں زمین پر گاڑھے کھڑا تھا۔ حائقہ نے یوسف کو زوہیب کے تھپڑ مارنے والی بات بھی بتا دی۔ جس پر یوسف بے یقین سا جہاں کھڑا تھا وہاں کھڑا رہا۔  

"اور آپ مجھے یہ بات اب بتا رہیں ہیں۔۔۔ اگر ان لوگوں نے عبیرہ کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو“ یوسف نے روبدار لہجے میں دبے دبے غصے میں کہا۔ یوسف کو اپنے سر پر آسمان گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ خیال ہی اس کی جان نکال رہا تھا کہ وہ پتہ نہیں کیا کرے گئے اس کے ساتھ۔

اچانک کسی نے دروازا کھٹکھٹایا۔ یوسف باہر دیکھنے گیا تو سامنے عدیل کھڑا تھا۔

"آپ یوسف ہیں نہ۔۔۔ عبیرہ احمد آپ کی بہن ہے؟“ عدیل نے جلدی سے یوسف سے پوچھا جس پر یوسف نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

"مجھے پتہ ہے کہ آپ کی بہن کہا ہے۔۔۔ یقین کرے مجھے پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔۔۔  آپ جلدی میرے ساتھ چلے میرے پاس وقت نہیں ہے“ عدیل نے اسے یقین دلانے والے انداز میں جلد بازی میں یوسف سے کہا۔ جس پر یوسف جلدی سے اندر کی طرف بڑھا۔

"آنٹی میں عبیرہ کو لینے جا رہا ہوں“ یوسف نے ادھیڑ عمر عورت کو اطلاع دی اور جس پر یوسف کے منع کرنے کے باوجود حائقہ بھی اس کے ساتھ چل دی۔ عدیل انہیں زوہیب کے فارم ہاؤس پر لے آیا. راستے میں ہی اسے اکرام صاحب کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی جس پر انہوں نے اپنا پلین بدل دیا۔

فارم ہاوس میں صرف ایک ملازمہ کھانا پکانے اور صفائی وغیرہ کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ گیٹ پر گارڈز کو بھی عدیل نے زوہیب کا نام لے کر کہی بھیج دیا اور انہیں لے کر اندر ایک کمرے کی طرف  آیا اور پھر انہیں تھوڑی دیر بعد باہر آنے کا کہہ کر زوہیب کی طرف چلا گیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ابے کیا کر رہا ہے۔۔۔ سیٹھ جان سے مار دیے گا“ وین میں عبیرہ کو بے ہوش دیکھ ایک آدمی نے اس کا چہرہ دیکھنا چاہا تو دوسرا آدمی بول اٹھا جس پر پہلے کا بڑھتا ہاتھ رک گیا۔ عبیرہ کو انہوں نے وین کے ایک طرف دروازے کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ 

"یار بس چہرہ ہی دیکھنا تھا۔۔۔۔ تصویر میں تو کیا خوبصورت آنکھیں ہیں۔۔۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ چہرہ بھی خوبصورت ہے کہ نہیں“ آدمی نے کہتے ہوئے دوبارا سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ڈرائیور نے ایک نظر اس شخص کے چہرے کو دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا۔

"ابے کیوں ہمیں بھی مروائے گا۔۔۔ پتہ ہے نہ استاد نے دس لاکھ مانگا ہے۔۔ ملک صاحب نے شرط ہی یہی رکھی تھی کہ دام منہ مانگے دوں گا لیکن وہ جیسے ہوں ویسے ہی آئے۔۔۔ استاد کو پتہ چل گیا نہ تو جان سے مار دیے گا“ دوسرے آدمی نے اس کا بڑھا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے حقیقت سے آگاہ کیا۔

"چل نہیں کر رہا کچھ ڈرا تو نہ“ پہلے آدمی نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑاتے ہوئے منہ بسورتے ہوئے کر کہا۔ تھوڑی دیر بعد ان کی وین فارم ہاؤس کے باہر روکی تو وہاں ایک ملازمہ کھڑی تھی۔ 

"تم لوگ رہنے دوں میں لے جاؤں گئی“ ملازمہ نے ان آدمیوں کو عبیرہ باہر نکالنے سے پہلے ہی روک دیا اور آگے بڑھ کر عبیرہ کو سہارا دیتے ہوئے اندر لے جا کر ایک کمرے میں لے جا کر اسے وہاں ایک طرف بیٹھا دیا۔ 

جب عبیرہ کو ہوش آیا اس نے ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے پہلے اپنا نقاب دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کر محتاط قدم اٹھاتے دروازے تک گئی اور دروازا کھولنے کی کوشش کرنے لگی لیکن دروازے باہر سے لوک تھا۔ تھوڑی دیر کوشش مرنے کے بعد وہ تھک کر واپس آ کر زمین پر ہی بیٹھ گئی۔

" اللّٰہ “کمرے میں گھٹی گھٹی سی آواز گونجی۔ اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔ وہ اس وقت بے آواز رو رہی تھی۔ کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

 کمرے میں اس قدر گھٹن تھی اسے اپنا سانس بند ہوتا معلوم ہوا۔  اس نے اپنا نقاب پکڑ کر ٹھوڑی تک کیا اور چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو دینے کو تھی.

"میں نے کھبی شکوہ نہیں کیا تھا۔۔۔ اگر کھبی غلطی سے کیا بھی تو تب ہی اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتی۔۔۔ اے میرے پروردگار۔۔ مجھے یہاں سے نکال دیے۔۔ تُو تو دلوں کے حال جانتا ہے میرے مولا۔۔۔ مجھے سیدھا راستہ دیکھا میرے مولا“ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے اس اندھیرے کمرے میں عبیرہ مسلسل اپنے پروردگار سے ہم کلام تھی۔

وہ یہ بات جانتی تھی کہ اگر کوئی اس اندھیرے میں اسے روشنی دیکھائے گا۔۔ اس زندان سے نکلنے کے لیے وسیلہ پیدا کرے گا اور اس کی مشکل آسان کرے گا تو وہ وہی مالکِ کُل جہان ہے۔

"یا اللّٰہ میری عزت کی حفاظت کرنا“ پھر سے عبیرہ کی آواز اندھیرے میں گونجی۔ کافی دیر وہ دعا کرتی اپنے خدا سے ہم کلام تھی۔ 

اچانک کوئی دروازہ کھول کر بنا چاپ پیدا کیے اندر داخل ہوا۔ عبیرہ کا رخ دروازے کے مخالف سمت تھا۔جلدی ہی عبیرہ کو کسی کے اندر داخل ہونے کا احساس ہوا تو اس نے چہرہ جھکائے اپنا حجاب جلدی ٹھوڑی سے اوپر کر کے نقاب کیا۔ 

"ک۔۔۔ کو۔۔ کون ہو۔۔۔۔ تت۔۔ تم“ اس نے چہرہ اٹھائے سامنے نظریں جمائے لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا جس پر مقابل کا قہقہہ برآمد ہوا۔

"دیکھ لوں کون ہوں میں۔۔۔ ارے یار۔۔۔ چچچچچ۔۔۔  تم تو اندھی ہوں۔۔ تم کیسے دیکھو گئی“  زوہیب نے خوشگوار حیرت سے عبیرہ کو دیکھ کر کہا جس پر عبیرہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔

"چلو اب یہ پردہ کس سے کر رہی ہوں۔۔۔ دیکھو کمرے میں صرف میں اکیلا ہوں۔۔ مجھے اپنا حسین چہرہ نہیں دیکھاؤ گئی“ زوہیب نے رازداری سے کہا جس پر عبیرہ کا شدت سے دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اپنے دوپٹے کو مضبوطی سے پکڑا تھا۔

"اَللّٰھُمَّ لَا سَھْلَ اِلَّا مَا جَعَلْتَہٗ سَھْلًا وَّاَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزَنَ اِذَا شِئْتَ سَھْلًا“

(اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں ہے مگر وہی جسے تو آسان کردے اور تو مشکل کام جب چاہے، آسان کردیتا ہے۔)

Reference:

[موارد الظمآن :72/8، حدیث:2427، وصحیح ابن حبان :161,160/2، حدیث:970، وعمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، حدیث:351]

عبیرہ نے  آنکھیں بند کیے زیرِ لب دعا پڑھنی شروع کر دی۔ یہ دعا اس کے بابا نے اسے سیکھائی تھی کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو یہ دعا پڑھنا۔

عبیرہ نے شدت سے دعا کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ زوہیب نے اس کہ بڑبڑاہٹ سن کر آگے بڑھ کر اس کا نقاب نوچنا چاہا۔ اپنے ارادے پر عمل کرتے اس نے اپنے قدم عبیرہ کی جانب بڑھائے۔

اچانک سے کسی نے ہڑبڑاتے ہوئے دروازا کھولا۔ آنے والے کو دیکھ زوہیب کے ماتھے پر بل پڑے جبکہ اس کا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا۔

"دفعہ ہو جاؤ ابھی کے ابھی عدیل یہاں سے“ زوہیب نے سیدھے ہوتے ہوئے عدیل کو غصے سے کہا۔عبیرہ نے مضبوطی سے اپنے نقاب کو پکڑا ہوا تھا۔

"سوری سر لیکن۔۔۔ سر وہ اکرام صاحب کی کار کا ائیرپورٹ سے واپسی پر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے“ عدیل نے پریشانی سے زوہیب کو بتایا۔ ابھی تھوڑی پہلے اسے پتہ چلا تھا۔ زوہیب عبیرہ کو چھوڑ باہر کی طرف بھاگا جس پر عدیل بھی اس کے پیچھے بھگا۔ان کے جانے کے کچھ دیر بعد کمرے میں حائقہ اور یوسف داخل ہوئے۔

"عبیرہ“ حائقہ نے تڑپ کر عبیرہ کو آگے بڑھ کر گلے لگایا تھا۔ یوسف وہاں دروازے کے پاس کھڑا رہا۔

"جلدی چلو عبیرہ۔۔۔ چلو اٹھو“ حائقہ نے جلد ہی اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسے اٹھایا اور پھر وہ تینوں جلدی سے باہر نکلے اور اپنی منزل کی طرف چلے گئے۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''’'''''''''''

"ارشیہ تم ٹھیک ہوں نہ“ ولی نے کہی بار پوچھا سوال ایک بار پھر پوچھا۔ ارشیہ کو یہاں آئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ وہ جب سے آئی تھی یونہی گم سم سی بیٹھی تھی۔

"ولی مجھے سمیر نے کیڈنیپ کیا تھا “ ارشیہ نے اس کے سوال کا جواب دیے بنا کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔

"اس نے ایسا کیوں کیا“ ولی نے ارشیہ کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"اسے لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس کا بھائی مرا ہے۔۔  تمہیں یاد ہے رحمان احمد۔۔۔ جس کا میں نے تمہیں بتایا تھا“ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے جواب دیا۔

"ہاں جس نے تمہیں پرپوز کیا تھا تو تم نے تھپڑ مارا تھا اسے“ ولی کہہ کر ہلکا سا مسکرایا لیکن ارشیہ نے بغیر مسکرائے ہاں میں سر ہلایا۔

"اس نے اگلے دن ہی خودکشی کر لی تھی۔۔ سمیر کو لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس نے خودکشی کی۔۔ لیکن وہ تو زیاد نے اسے مارا تھا۔۔۔ اور کور اپ کے لیے اس کو پنکھے سے لٹکا دیا تھا “ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے کہا تھا جبکہ ولی کا چہرا سفید ہوا تھا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''’''

ارشیہ تم ٹھیک ہوں نہ“ ولی نے کہی بار پوچھا سوال ایک بار پھر پوچھا۔ ارشیہ کو یہاں آئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ وہ جب سے آئی تھی یونہی گم سم سی بیٹھی تھی۔

"ولی مجھے سمیر نے کیڈنیپ کیا تھا “ ارشیہ نے اس کے سوال کا جواب دیے بنا کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔

"اس نے ایسا کیوں کیا“ ولی نے ارشیہ کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"اسے لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس کا بھائی مرا ہے۔۔  تمہیں یاد ہے رحمان احمد۔۔۔ جس کا میں نے تمہیں بتایا تھا“ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے جواب دیا۔

"ہاں جس نے تمہیں پرپوز کیا تھا تو تم نے تھپڑ مارا تھا اسے“ ولی کہہ کر ہلکا سا مسکرایا لیکن ارشیہ نے بغیر مسکرائے ہاں میں سر ہلایا۔

"اس نے اگلے دن ہی خودکشی کر لی تھی۔۔ سمیر کو لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس نے خودکشی کی۔۔ لیکن وہ تو زیاد نے اسے مارا تھا۔۔۔ اور کور اپ کے لیے اس کو پنکھے سے لٹکا دیا تھا “ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے کہا تھا جبکہ ولی کا چہرا سفید ہوا تھا۔

"تمہیں کیسے پتہ” ولی نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ ارشیہ سے پوچھا۔ ولی کو اس بات کی حیرانی تھی کہ وہ اس سب سے لاعلم نہیں تھیں پھر بھی وہ ایک قاتل کے ساتھ گھومتی تھی۔ اس کی دوست ایک قاتل کو پسند کرتی تھی۔

"زیاد کی اس سے کوئی دشمنی تھی۔ اس دن جب میں نے اسے تھپڑ مارا تھا تو اس دن زیاد اس کے پاس گیا تھا۔ اگلے دن مجھے اس کی موت کی خبر ملی جب میں نے زیاد سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا لیکن بعد میں جب میں نے عزیز سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ ان کی موت خود کشی قرار دی گئی ہے۔۔ لیکن وہ ایک قتل تھا“  ارشیہ نے اس کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"اور تم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔تم۔۔ تم“ ولی نے بے یقینی سے کہا۔ الفاظ اس کے منہ سے نکلنے سے انکاری تھے۔

"مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ سمیر اس کا بھائی ہے۔۔۔اور وہ مجھے اس کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا„ ارشیہ نے اپنی صفائی پیش کی تھی۔

"تم سمیر کو سب سچ بتا دوں “ ولی نے مشورہ دیا جس پر وہ سمجھتے ہوئے سر ہاں میں ہلا گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کو کال کرکے بلوایا اور واپس چلی گئی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

زوہیب جلد از جلد ہاسپٹل پہنچا تھا عدیل بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔ گاڑی وہی چھوڑ کر وہ اندر کی طرف بھگا۔  کاؤنٹر سے اکرام صاحب کے بارے میں پوچھ کر وہ اس طرف گیا۔ وہاں سامنے ہی حیدر صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ 

جیا بیگم مسلسل نجمہ کو تسلی دیے رہی تھیں۔ زوہیب کو آتا دیکھا وہ زوہیب سے لپٹی تھی۔عدیل گاڑی کو پارکنگ ایریا میں چھوڑ کر اندر کی طرف آیا اور وہاں زوہیب کے پاس قدرے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔

"چپ ہو جائے ماما۔۔ کچھ نہیں ہوا بابا کو“ زوہیب نے نجمہ کو اپنے ساتھ لگائے تسلی دی تھی۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں حیدر صاحب سے پوچھا جس پر انہوں نے اسے تسلی دی۔

"تائی امی آپ ماما کو لے کر عدیل کے ساتھ گھر چلے جائے“ حیدر نے نجمہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے جیا بیگم سے کہا تھا۔ جس پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور نجمہ بیگم کو لے کر گھر کی طرف چلی گئی۔ ارشیہ اس وقت اپنے گھر ہی تھی۔ حیدر صاحب نے اس کی خراب طبیعت کی وجہ سے نہیں بتایا۔

"میں بابا سے مل لو“ زوہیب کہتے ہوئے روم کی طرف بڑھا۔ اندر اکرام صاحب کے بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر نیم دراز تھے۔ زوہیب کی موجودگی کو محسوس کرتے انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔

"بابا۔۔۔ کیسے ہوا یہ سب“ زوہیب نے اکرام صاحب کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا تھا جس پر وہ ہلکا سا مسکرائے۔

"کچھ نہیں ہوا بیٹا“ اکرام صاحب نے تسلی دینے سے انداز میں کہا۔ تبھی حیدر صاحب اندر داخل ہوئے۔

"بیٹا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ بس وہ ڈیل ہمیں مل گئی تھی۔۔۔ اسی لیے انہوں نے یہ ایکسیڈنٹ کروایا ہے۔۔۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔۔ تم آرام کرو۔۔ میں نے ایف آئی آر درج کرو دی ہے“ حیدر صاحب نے زوہیب کو تسلی دیتے ہوئے ساری بات بتائی اور اسے گھر جانے کا کہا جس پر وہ چپ چاپ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

ڈرائیور کو فون کر کے اس نے گاڑی منگوائی اور گھر کی طرف چلا گیا۔ اس وقت عبیرہ اس کے ذہین سے بلکل نکل چکی تھی لیکن جب شام میں اسے یاد آیا تو فارم ہاوس کی طرف گیا لیکن عبیرہ کو وہاں نہ پا کر وہ پورے فارم ہاوس میں پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔

"کہاں گئی وہ۔۔۔ تن لوگ یہاں جھک مار رہے تھے“ زوہیب غصے سے اپنے گارڈز پر چلا رہا تھا جبکہ وہ سب سر جھکائے کھڑے تھے۔ عدیل بھی ان کے ساتھ ایک طرف کھڑا تھا لیکن ابھی اس کے دل و دماغ میں اطمینان تھا۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

 سمیر کے خلاف ارشیہ نے ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ لیکن سمیر نے اپنے اثرورسوخ استعمال کرکے اپنی ضمانت کروالی تھی۔ سمیر کوارشیہ نے سب حقیقت بتا دی۔ اس وقت وہ چپ کر گیا لیکن بعد میں جب وہ زیاد سے ملنے گیا تو راستے میں ہی تیز رفتار کی وجہ سے اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی جس کی وجہ سے اس کی موقع پر ہی وفات ہو گئی۔

آج اس واقعے کو دو ہفتے ہو چکے تھے۔ شام کے اندھیرے ابھی پھیل رہے تھے جب ارشیہ نے بے اختیار ہی گاڑی یوسف کے گھر کی طرف بڑھائی۔ گاڑی اس کے گھر سے تھوڑی دور کھڑی کی۔ اس علاقے کو دیکھ اس کے لبوں پر مسکراہٹ مچلی۔ 

"ہنہہہ۔۔ میں اس دھول مٹی میں جاؤں گئی بھی نہیں “ اپنی ہی بات یاد کرکے اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔

گاڑی سے نکل کر یونہی گھر کی طرف پیدل چل دی کہ راستے میں اسے یوسف گھر کی طرف جاتا دیکھائی دیا۔

"ہائے“ یوسف کو اپنے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز آئی تو اس نے قدم وہی روک لیے۔ ارشیہ بھاگ کر اس کے پاس آ کر روکی۔

"ہائے۔۔۔ کیا حال ہے“ ارشیہ نے بے تکلفی سے تیز تنفس کو نارمل کرتے ہوئے کہا جس پر ہنوز نظریں جھکائے کھڑے ہوسف کے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑے۔

"کوئی کام ہے آپ کو“ یوسف نے ناگواری سے پوچھا جس پر ارشیہ نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا کر نہیں کہا تھا۔

"آگر کوئی کام ہے آپ کو تو بتائیں ورنہ یوں بازار میں آئندہ میرا راستہ نہ روکیے گا مہربانی ہوں گئی“ نظریں اپنے پیروں پر جمائے یوسف نے دھیمے لہجے میں کہا اور جانے کے لیے اپنے قدم بڑھائے۔

"اہممم۔۔کام تو کوئی نہیں تھا۔۔۔ بس حال چال دریافت کرنا تھا آپ کا“ ارشیہ نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے قدم سے قدم ملاتے ہوئے کہا جس پر یوسف کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا۔

"آئندہ میرا راستہ نہ روکیے گا“ یوسف اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔

"جلد ہی ملے گئے۔۔۔ بائے بائے“ ارشیہ نے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا جس کو یوسف نے سنی ان سنی کر دیا۔

"تمہارے سارے راستے تو اب مجھ تک ہی آئے گئے۔۔ یوسف احمد“ ارشیہ نے دوبارا سے اونچی آواز میں کہا جس کو وہ نظر انداز کیے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ 

وہاں موجود لوگوں نے ایک بار اس پاگل لڑکی کو دیکھا جیسے نہ اپنی فکر تھی نہ اپنے خاندان کی عزت کی۔

ارشیہ مسکراتے ہوئے گاڑی کی چابی کو اپنی انگلیوں میں گھماتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف واپس چل دی۔ دو آنکھوں نے یہ منظر بڑے غور سے اور چھبتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔

ارشیہ نے گاڑی چلا کر اپنے گھر کی طرف بھگا لی۔ جس پر اس سارے منظر کو بڑے غور سے دیکھتے زوہیب ز نے گاڑی کا شیشہ چڑھایا اور غصے سے گاڑی بھگالی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ہیلو۔۔۔ ولی کیا حال یے“ ارشیہ نے فون کان سے لگائے ولی سے حال احوال دریافت کیا تھا۔ 

"اسلام وعلیکم ارشیہ! میں ٹھیک ہوں تم سناؤ “ دوسری جانب ولی نے اپنی والدہ کو دلیہ کھلاتے ہوئے کہا۔ 

"میں بھی ٹھیک تم سناؤ آنٹی کا کیا حال ہے اب“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے ولی کی امی کے بارے میں پوچھا تھا۔

"وہ کافی بہتر ہیں اب۔۔۔ بس تھوڑی سی کمزوری ہے۔۔  کچھ دنوں تک وہ بھی ٹھیک ہوں جائے گئی “ ولی نے ان کا چہرہ ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے جوبا دیا تھا۔ اور پھر انہیں آرام کرنے کا کہہ کر برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چک پڑا۔

"ایک بات کرنی تھی۔۔ محبت کیا ہوتی ہے“ ارشیہ نے آنکھیں بند کیے ولی سے پوچھا تو ولی نے ہممم کہتے ہوئے اجازت دی تو ارشیہ نے سوال کیا تھا۔

"محبت۔۔۔۔ کہتے ہیں کسی ایک کو ہی سوچتے رہے۔۔ اس کی پسند نا پسند کا خیال رکھے۔۔۔ اسے یاد کرتے وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرے۔۔ اسے دیکھ دل کو اطمینان ملے۔۔۔ شاید۔۔ شاید اسے محبت کہتے ہیں“ ولی نے سمجھانے سے انداز میں جواب دیا تھا۔

"دین ولی۔۔۔ آئی ایم ان لو وید سم ون“ ارشیہ کی بند آنکھوں کے آگے کسی کا عکس لہرایا تو اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی۔

"کس سے” ولی نے اچنبھے سے پوچھا تھا۔

"یوسف احمد“ ارشیہ نے یوسف کا چہرہ تصور میں لائے جواب دیا تھا۔

"نامحرم کی محبت عذاب سے کم نہیں ہوتی ارشیہ۔۔۔ وہ کھبی بھی نہیں مانے گا۔۔۔ اپنے اور اس کے سٹیٹس کا فرق ہی دیکھ لوں ارشیہ۔۔۔ اسے شاید فرق نہ پڑے۔۔ لیکن تمہیں۔۔ تمہارے گھر والے انکل آنٹی سب۔۔ ارشیہ واپس لوٹ آوں“ ولی نے خدشے کے پیشِ نظر اسے کہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حیدر ملک کے لیے اپنا رتبہ اور شان و شوکت کیا اہمیت رکھتا ہے۔۔۔

"وہ کھبی بھی نہیں اپنائے گا ارشیہ۔۔۔ لوٹ آوں۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔۔یہ راستہ تباہی کے دھانے کی طرف لے کہ جاتا ہے“ ولی نے سمجھانا چاہا تھا۔

"کیا پتہ بربادی کی جگہ آباد ہو جاؤں“ ارشیہ نے اس کے جواز کو رد کرتے ہوئے کہا جس پر دوسری جانب ولی خاموش ہوں گیا۔ ارشیہ نے کال ڈسکنکٹ کرکے سائیڈ پر رکھا اور ویسے ہی لیٹے لیٹے سوچنے لگی۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

عبیرہ اور حائقہ کو لے کر یوسف جب گھر آیا تو حائقہ نے جلدی سے عبیرہ کا کچھ سامان پیک کیا اور یوسف سے اجازت لے کر عبیرہ کو لے کر اپنی امی کی ایک دوست کی طرف چلی گئی۔ 

حائقہ کی امی کی دوست ایک درمیانی عمر کی خاتون تھیں۔ حائقہ کی طرح وہ بھی بچوں کو قرآن کا سبق پڑھاتی تھیں۔ وہ اکیلی ہی رہتی تھیں۔ ان کی صرف ایک بیٹی تھی جو کہ شادی کے بعد اپنے گھر چلی گئی تھی۔ 

انہوں نے خوش دلی سے دونوں کو ویلکم کیا اور جب تک وہ چاہیے تک تک انہیں وہاں رہنے کی اجازت دیے دی۔

حائقہ کی ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ ان سے بات کرکے حائقہ عبیرہ کو لے کر ان کے پاس چلی گئی جبکہ یوسف ان کو وہاں چھوڑ کر واپس گھر آ گیا۔ 

حائقہ نے انہیں ساری بات بتا دی تھی  جس پر انہوں نے اسے کچھ نہیں کہا۔ حائقہ اور عبیرہ ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا دیتی تھیں۔ عبیرہ اور حائقہ کو وہاں رہتے ہوئے دو ہفتے ہونے کے قریب تھے۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"سنیں۔۔۔۔ یہ گھر کو تالا لگا ہوا ہے۔۔۔ گھر والے کہاں ہیں“ ارشیہ نے یوسف کے گھر کے پس سے گزرتے ایک شخص کو روک کر پوچھا۔ جس پر اس شخص نے ایک نظر ارشیہ اور اس کے حلیے کو دیکھا۔

گوری رنگت پر پنک ٹی شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز ڈالے بالوں کو کندھوں پر آزاد چھوڑے آنکھوں پر گلاسز چڑھائے وہ پیاری لگ رہی تھی۔

"یوسف تو اس وقت اکیڈمی میں ہوتا ہے۔۔۔ اور اس کی بہن اپنے کسی رشتے دار کے گھر گئی ہوئی ہے“ اس آدمی نے تفصیل بتائی جس پر ارشیہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی نعمان صاحب کج اکیڈمی کی طرف بھگا لی۔

"آپ یوسف احمد کو بلوا دیے“ ارشیہ نے گاڑی میں بیٹھے ہی گاڑی سے کہا جس پر اس نے ایک حیرانی بھری نظر ارشیہ پر ڈالی اور اندر یوسف کو بلوانے چلے گیا۔

تھوڑی دیر بعد گارڈ کے ساتھ یوسف بیلک کرتے شلوار میں ملبوس باہر آیا۔ اسے دیکھ ارشیہ کے چہرے پر مسکان بکھری۔ ارشیہ گاڑی سے نکل کر اس کے سامنے آئی جس پر گارڈ تھوڑا سائیڈ پر ہو کر کھڑا ہو گیا۔

"اسلام و علیکم! جی کوئی کام تھا آپ کو“ یوسف نے آتے ہی مدعے کی بات کی۔ کچھ دنوں سے ارشیہ مسلسل اسے زچ کر رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف ارشیہ کے چہرے کی مسکان گہری ہوئی۔

"جی بات کرنی تھی۔۔۔  اگر کچھ وقت مل جاتا تو“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ گارڈ تھوڑی دور کھڑا بظاہر اپنا کام کر رہا تھا جبکہ سارا دھیان ارشیہ اور یوسف کی طرف تھا۔

"جی کہے” مختصر سا جواب آیا تھا۔ 

"یہاں ہی۔۔۔ ویسے مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔ آپ کو پرابلم ہو گئی“ ارشیہ نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا۔گزرتے لوگ انہیں مڑ کر دیکھ رہے تھے۔

"جو بھی کام ہے جلدی کہے۔۔ میرے پاس ٹائم نہیں ہے“ یوسف نے زچ ہوتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر ارشیہ نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ااس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی۔

"ویل یو میری می“ ارشیہ حیدر اس وقت یوسف کو پرپوز کر رہی تھی۔

"نہیں”یوسف نے حیرانی سے اسے دیکھا اور جلدی ہی اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہو کر سر جھکایا اور یک لفظی جواب دیے کر اندر کی طرف بڑھنے لگا کہ ارشیہ کے الفاظ اس کی سماعت میں گونجے۔

"انکار کی وجہ بھی بتا کر جائے۔۔۔ کیا کمی ہے مجھ میں۔۔۔ خوبصورت ہوں۔۔۔ پڑھی لکھی ہوں۔۔ ویل مینرڈ ہوں۔۔ اچھی فیملی سے بیلونگ کرتی ہوں“ ارشیہ نے اسے اندر جاتے دیکھ پوچھا تھا۔ 

"نیک اور پاکیزہ ہیں؟“ یوسف نے مڑے بغیر مختصر سا جواب دینے کی بجائے سوال کیا تھا۔ اور یہ سوال آج ارشیہ حیدر ملک کو لاجواب کر گیا تھا۔ 

یوسف یہ کہہ کر روکا نہیں اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ ارشیہ نے اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے اور گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لی تھی۔۔۔ 

کیا واپسی اتنی جلدی تھی۔۔۔۔

کیا اتنی غیر متوقع ۔۔۔

نَرم جھونکا سا اِک ہوا کا تھا، 

عِشق مِیرا کچھ اِس طرح کا تھا،

جانے وہ عِشق تھا کہ غلطی تھی، 

یا کوئی مرحلہ یہ سزا کا تھا، 

ھَم ہِی مجرم بِھی، مدعی ھم ہِی، 

مسئلہ تھا تو بس گواہ کا تھا،

مَیں تو پتھر تھا پِھر بِھی ٹوٹ گیا، 

معجزہ یہ کِسی ادا کا تھا، 

وقتِ رخصت جو ھم نا کہہ پاۓ، 

آخری لفظ وہ دعا کا تھا، 

ھم جدا کیوں ھوۓ؟نہیں معلوم، 

کیوں کہ سب لکھا خدا کا تھا

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

اکرام صاحب کو اگلے دن ہی ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ حیدر صاحب نے ارشیہ اور اکرام صاحب کی طبعیت کی وجہ سے منگنی کے فنکشن کی تاریخ آگے کر دی تھی۔

منگنی اب کی رسم میں اب ایک ہفتہ باقی تھا۔ ارشیہ کی طبیعت کافی بہتر تھی۔ وہ اس ٹراما سے نکل آئی تھی لیکن اب یوسف کے پیچھے تھی۔ شاید زندگی میں پہلی بار ارشیہ حیدر محبت کے معنوں سے واقف ہوئی تھی۔ اسی لیے اس کی ہر کڑوی بات۔۔۔ اس کا اسے نظر انداز کرنا۔۔ بے رخی برتنا اسے کچھ برا نہ لگتا تھا۔ 

اب بھی وہ اسے پانے کی چاہ میں تھی۔ حیدر صاحب کو اس نے کچھ نہ کہا لیکن جیا بیگم سے اس نے انکار کیا تھا لیکن جب انہوں نے اس کے انکار کا حیدر صاحب کو بتایا تو انہوں نے اسے ٹوکا۔

"شادی تمہاری زوہیب سے ہو گئی ارشیہ“ حیر صاحب نے قطعیت سے کہا تھا۔ لیکن وہ ارشیہ ہی کیا جو کسی کی بات خاطر میں لائے۔ اس سب کے باوجود بھی اس نے یوسف کو پرپوز کیا تھا۔

اکرام صاحب کی طبعیت اب بہتر تھی اسی لیے گھر میں ایک بار پھر سے منگنی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ نجمہ بیگم اور جیا بیگم تیاریوں میں مصروف تھیں جبکہ ارشیہ اور زوہیب اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ 

ارشیہ فی الوقت یوسف کے پیچھے تھی۔۔۔ وہ ہر حال میں اپنی محبت کو پانے کی متحمل تھی۔۔ یہ جانے بغیر ک یہ سب اس کی زندگی الٹ پلٹ کر دیے گا۔۔۔

جبکہ زوہیب ہر حال میں عبیرہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ کوئی چیز اس کی دسترس میں آئے بغیر اس سے چھین جائے یہ بات اسے چین س رہنے نہیں دیے رہی تھی۔ 

زوہیب نے اس دن ارشیہ کو یوسف کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔ وہ اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن ابھی وہ عبیرہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔اسی لیے اس سے کچھ بھی نہ پوچھ سکا۔ 

سمیر کی موت کے بعد ابھی تک ارسل نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ ابھی تک راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔۔ بس یہ دیکھنا باقی کہ کب تک راوی چین لکھتا ہے۔۔۔۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

واپسی کا راستہ خاموشی سے گزرا تھا۔ گھر پہنچ کر کسی سے بات کیے بنا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور بیڈ پر ڈھیر ہونے سے انداز میں لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد موبائل اٹھا کر اس پر انگلیاں چلانے لگی۔

"ہیلو ولی۔۔ بات کرنی ہے تم سے فری ہو کر پلیز کال بیک کرنا“ ارشیہ نے وائس نوٹ سینڈ کیا اور موبائل کو ایک طرف رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ وہ اپنی پچھلی گزری زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ 

وہ اب کیا سے کیا ہو گئی تھی۔ ایک شخص کی محبت میں اس نے اپنی انا تک کو کچل دیا تھا لیکن وہ شخص پھر بھی نہ ملا۔ پہلے وہ ایک سفاک ظالم حسینہ کہلائی جاتی تھی اور اب۔۔ 

اسے اپنی حالت پر ہنسی آئی تھی۔ اب اسے محبت جیسا موذی مرض لگ چکا تھا۔ جو اس کے غرور، تکبر اور انا کو آہستہ آہستہ دمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل پر ولی کی کال آئی۔ اس نے نام دیکھا اور ہلکی سی درد بھری مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھا کر کال پک کی۔

"کیا ہوا ارشیہ“  ولی کی فکر مند سی آواز موبائل کے سپیکر سے گونجی۔ جس پر اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔

کاسۂ دستِ عشق.......خالی ھے 

ھم بھی رَد ھو گئے، دُعا کی طرح

"کیا ہو سکتا ہے ولی“ ارشیہ نے انگلیوں کے پوروں سے آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"میں نے تمہیں سمجھایا تھا ارشیہ... تم نے میری بات نہیں مانی۔۔۔ وہ کھبی بھی ایسے تمہیں نہیں اپنائے گا۔۔ اس کی دنیا میں اور تمہاری دنیا میں فرق ہے“ ولی نے سمجھانے سے آنداز میں کہا تھا۔ وہ واقعے اس کے لیے پریشان تھا جو اپنی دنیا چھوڑ کسی اور دنیا کے باسی سے دل لگا بیٹھی تھی۔

"میں اس فرق کو مٹا دوں گئی ولی۔۔۔ بس ایک بار وہ تو کہے“ ارشیہ نے بکھرے بکھرے سے لہجے میں کہا تھا۔ جس پر دوسری جانب ولی نے اپنا ماتھا مسلا۔

"ارشیہ وہ کھبی نہیں کہے گا۔۔۔ اور وہ ایک نیک روح ہے، وہ تم اپنے آپ کو دیکھ لوں۔۔۔ میں تمہیں جج نہیں کر رہا لیکن پھر بھی۔۔۔“ ولی نے اسے آئینہ دیکھایا تھا۔ اس وقت ولی تھا جو یہ بات بڑے سکون سے کر گیا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ ارشیہ سے بچ جائے ناممکنات میں سے تھا یہ۔

"تو کیا میں نیک روحوں میں شامل نہیں ہو سکتی۔۔ میں انسان ہو۔۔ جو کہ ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ میں بھی اس کی طرح نیک بن سکتی ہوں ولی“ ارشیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں ایک عزم سے کہا تھا۔

لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اس ایک شخص کی خاطر اس نے اپنا یہ غرور، تکبر اور سٹیٹس چھوڑا تو دنیا والے تو دور کی بات۔۔ اس کے اپنے گھر والے اسے جائےِ پناہ نہ دیے گئے۔

دوسری طرف ولی نے کچھ نہ کہا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کسی بات کی ٹھان لے تو وہ کر گزرتی ہے۔وہ اس کے لیے فکرمند تھا۔ خاموشی محسوس کرتے ہوئے ارشیہ نے کال کاٹ دی اور موبائل پاس پڑے بیڈ پر پھینک دیا اور اپنے آپ سے عہد کرتے ہوئے اٹھی۔ 

"میں اس کو ہر حال میں حاصل کروں گئی۔۔ اگر ایک بار کوئی چیز ارشیہ کو پسند آ جائے وہ اس کی ہو جاتی ہے“ اس نے اٹل لہجے ایک عزم سے کہا تھا۔ اس وقت اس کے لہجے میں غرور تھا تکبر تھا۔ جو کہ آنے والے وقت میں اس کے لیے بہت برا ثابت ہونے والا تھا یا شاید اچھا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

عبیرہ اپنے اور حائقہ کے کمرے میں بیٹھی تلاوت کر رہی تھی۔ قرآنِ مجید اس نے چھوٹی عمر میں ہی حفظ کر لیا تھا۔ اب بھی وہ حائقہ کو سنا دیتی یا خود اکیلے میں بیٹھی کھبی کھبی اللّٰہ تعالیٰ کس سناتی تھی۔ 

جو بندے اپنے خدا سے محبت کرتے ہیں وہ اپنی ہر بات سب سے پہلے مالکِ کل جہان سے شیئر کرتے ہیں۔۔ اسی سے رہنمائی طلب کرتے ہیں۔۔ اسے کے حک۔ کے تابع رہتے ہیں۔۔ 

حائقہ باہر زینب (حائقہ کی والدہ کی دوست)  کے ساتھ بیٹھی بچوں کو پڑھا رہی تھی جب ہی اچانک اس کے سینے میں درد اٹھا۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا کہ اچانک وہ کھانسنے لگی۔ زینب نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔ اسے سینہ مسلتا  اور کھانستا دیکھ وہ پوری اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

"کیا ہوا ہے حائقہ“نرم سی آواز صحن میں گونجی جس پر تلاوت کرتے بچوں نے بھی حائقہ کی طرف دیکھا۔

"کچھ نہیں بس سینے میں سر درد ہو رہی تھی اور شاید کھانسی ہو گئی ہے“ حائقہ نے کھانستے ہوئے درد کو برداشت کرتے ہوئے کہا۔ درد اب قدرے کم تھا۔ تھوڑی دیر بعد بچوں کا سبق سن کر وہ کچن کی طرف چلی گئی۔ زینب نے اسے جاتے دیکھا تھا۔ اس کی گوری رنگت اب پیلی پڑنے لگی تھی۔ ان دو ہفتوں میں رنگت میں کافی فرق آیا تھا۔

عبیرہ کچن  میں اس کے پاس  بیٹھی آرام آرام سے اس کے کام میں اس کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔تھوڑا سا ہی کام کرنے کے بعد حائقہ کا تنفس تیز ہو گیا۔ 

"آپی کیا ہوا ہے۔۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے“ عبیرہ نے اس کی تیز سانسوں کی آواز سن کر پوچھا۔

"ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ بس آج کل طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں ہے“ حائقہ نے تسلی دینے سے انداز میں کہا۔ 

"آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آپ نے مجھے بتایا نہیں۔۔“ عبیرہ نے حیرانی سے اسے کہا۔

"چلو بیٹا ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں“ زینب اندر داخل ہوتے ہوئے حائقہ کی بات سن چکی تھی اسی لیے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے کہا۔

"نہیں کوئی بات نہیں آنٹی۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ کل چلے گئے“ حائقہ نے جلدی سے کہا۔ جس پر انہوں نے خفگی سے اسے گھورا تو حائقہ نے مسکرا کر کہا تھا۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"زیاد تم نے اپنے ماما باب سے بات کی“ نمرا نے زیاد کو کال کرتے حال احوال دریافت کرنے کے بعد پوچھا تھا۔ اب گھر میں اس کے رشتے کے برے میں باتیں ہونے لگی تھی۔ نعمان صاحب کے ایک دوست کے بیٹے کا نمرا کے لیے رشتہ آیا تھا جس پر ابھی غور وفکر جاری تھا۔ اسی لیے جب اسے پتہ چلا تو اس نے زیاد۔سے بات کرنے کے بارے میں سوچا۔

"ہمم میری جان میں نے ماما بابا سے بات کی ہے۔۔۔۔ لیکن بھی بابا آوٹ آف کنٹری ہیں۔۔۔ جیسے ہی آتے ہیں میں انہیں تمہارے گھر بھیجتا ہوں“ زیاد نے تسلی دی جس پر دوسری طرف نمرا کو اطمینان ہوا تھا۔

"نمرا ایک بات پوچھو“  زیاد نے تھوڑی دیر بعد پوچھا جس پر نمرا نے ہممم کہہ کر اجازت دی تھی۔ 

"کیا ارشیہ۔سے تمہاری بات ہوئی۔۔۔ اسے سمیر نے کیڈنیپ کیا ہوا تھا“ زیاد نے محتاط لفظوں کا چناؤ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔

"ہمم ہوئی تھی۔۔۔ بتایا تھا اس نے“ نمرا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

"تو پھر تمہیں یہ بھی بتایا ہوں گا کہ کیوں سمیر نے اسے کیڈنیپ کیا تھا“ زیاد نے نمرا کو کریدتے ہوئے پوچھا تھا۔ 

"نہیں یہ نہیں بتایا“ نمرا نے نفی میں جواب دیا تھا جس پر دوسری جانب زیاد نے سکون کی سانس خارج کی تھی۔۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد کال کاٹ دی۔

"اب تو ارشیہ پر بھی نظر رکھنی ہوں گئی۔۔ شاید اسے کچھ پتہ لگ گیا ہو۔۔۔ اگر اسے کچھ پتہ ہوا تو وہ تب ہی بول دیتی۔۔۔ لیکن اب اس پر نظر رکھنی ہوں گئی۔۔ کہی یہ میرے لیے خطرہ ثابت نہ ہوں“ زیاد نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔ اور پھر کچھ سوچتے ہوئے فون ہاتھوں میں گھمانے لگا۔۔ 

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ارشیہ نے ایک دفعہ پھر سے یوسف سے ملاقات کا سوچا۔ اپنے ارادے پر عمل کرتی وہ یوسف کے گھر پہنچی۔ آج سنڈے ہونے کی وجہ سے یوسف گھر میں ہی موجود تھا۔

گھر کے باہر کھڑے ہو کر ارشیہ نے دروازا کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد اسے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اور کچھ ہی پلوں بعد دروازے کھولا تھا۔

یوسف ارشیہ کو دروازے پر دیکھ جی بھر کے بے زار ہوا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ارشیہ کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔

تُو مُحب٘ ہویں تے قدر جانے نہ۔۔۔

تُو مُحبوب اے تیری بلا جانے۔۔۔

"اسلام و علیکم! کیوں آپ مجھے تنگ کر رہی ہیں۔۔۔ آپ کو کیا چاہیے۔۔۔ “ یوسف نے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ارشیہ سے پوچھا۔

"بتایا تو تھا کہ آپ زے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ کیا میں اندر آ سکتی ہوں“ ارشیہ نے اس کی بات کا جواب دیے کر چند لمحوں بعد اندر آنے کا پوچھا کیونکہ وہ دونوں اس وقت دروازے پر کھڑے تھے۔

"نہیں۔۔ کیونکہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔۔ آپ کو کوئئ اور کام ہے تو بتائے“ یوسف نے اسے سہولت سے انکار کرتے ہوئے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔

"میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں“ ارشیہ نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے چند لمحوں کا وقف دیے کر کہا تھا۔

"کیونکہ آپ میری شریکِ حیات کے معیار پر نہیں اترتی“ یوسف نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا آرام سے کہا۔

"کیا معیار ہے آپ کی شریکِ حیات کا“ ارشیہ نے زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔ جس کے جواب میں یوسف نے سورۃ النور کی ایک آیت کا ترجمہ سنایا۔

Surat-ul-Noor 

Ayat No. 26

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ  وَّ رِزۡقٌ  کَرِیۡمٌ ﴿٪۲۶﴾                 

"خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں یہ لوگ اُن باتوں سے بری کیے ہوئے ہیں جولوگ کہتے ہیں،ان ہی کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے"

ترجمہ سن کر ارشیہ کی ایک پل کے لیے دنیا چکرائی تھی۔ اچانک ہی اس کے قدم پیچھے ہوئے تھے۔۔ ہاں وہ کیا تھی۔۔۔ ایک کے لیے اس کی زندگی کی ساری غلطیاں اس کی آنکھوں کے سامنے آئی تھی۔ یوسف نے اسے پیچھے ہٹتا دیکھ دروازا بند کیا اور اندر چلا گیا۔

جبکہ ارشیہ وہ۔۔ وہ تو کہی اور ہی گم تھی۔۔۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے یوسف کے کہے جانے والے الفاظ میں گم تھی۔۔ نہیں وہ الفاظ یوسف کے تو نہیں تھے۔۔ وہ الفاظ۔۔ وہ اس ہستی کے الفاظ تھے جو ہر بات جانتا ہے۔۔ ظاہر پوشیدہ۔۔۔۔ ہر بات۔۔۔

یہ اللّٰہ کا حکم تھا۔۔ آج اسے سمجھ آئی تھی کہ قرآن اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ کیوں پھٹ جاتا۔۔۔ انسان۔۔۔ انسان پر اتارا گیا تو وہ تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا گیا تھا۔۔۔

ورنہ۔انسان بھی اسے ایک ساتھ نہیں اٹھا پاتا۔۔۔  

آج وہی۔۔۔۔ وہی تھوڑا سا ارشیہ کو بہت بھاری لگا تھا۔۔  وہ قدم کسی اور طرف اٹھاتی۔۔ لیکن جاتی کہی اور۔۔۔۔۔ اور پھر وہ اچانک تیورا کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔ 

آج ایک آیت۔۔ اسے وہ اٹھا نہیں سکی تھی۔۔۔ جبکہ یوسف نے تو اپنی شریکِ حیات کا میعار بتایا تھا جو اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔ اس نے نیک عورت کی خواہش نہیں کی تھی۔۔ اس نے خود کو نیک بنایا تھا۔۔ کیونکہ یہ وعدہ قرآن مجید میں اللّٰہ اپنے بندوں سے بہت پہلے ہی کر چکا تھا کہ۔۔۔

نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں۔۔۔ اور بد عورتوں کے لیے بد مرد۔۔۔۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

بیڈ پر وہ خاموش لیٹی بس چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کون یوسف کے گھر سے لایا تھا۔۔۔ کیسے لایا تھا۔۔ جب اس کی آنکھ کھولی تو وہ اپنے کمرے میں اپنے نرم و گرم بستر پر موجود تھی۔

ارشیہ دو دن سے اپنے کمرے میں بند تھی۔ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔ اس نے کتنی نافرمانی کی طرف اپنے پروردگار کی۔ کتنے گناہ کیے تھے۔۔۔

آج سب گناہ ایک ایک کر کے اس کے ذہین کے پردے پر پورے آب و تاب سے دیکھائی دیے رہے تھے۔۔ آج شاید وہ اپنا احتساب کر رہی تھی۔۔۔

"ارشیہ بیٹے کہا ہوا ہے“ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب جیا بیگم سوپ کا باؤل لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے چت لیٹے دیکھ انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔

"کچھ نہیں “ چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجائے بیڈ پر اٹھتے ہوئے کہا۔ اور پھر بیڈ کرؤان سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔

"چلو اٹھو سوپ پی لوں۔۔ کچھ دن بعد تمہاری منگنی ہے۔۔۔ اور تم بیمار ہو کر بیٹھ گئی ہوں“ جیا بیگم نے اسے پیار سے ڈانٹا تھا۔

"ماما پلیز مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے“ جیا بیگم اسے سوپ پلا کر واپس چلے جاے لگی جب ارشیہ نے انہیں کہا تھا جس پر وہ سر ہلاتی باہر چلی گئی۔ ان کے جانے کے بعد ارشیہ دوبارا سے لیٹ گئی۔

کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور سائیڈ ڈرا سے ولی کا دیا گیا کارڈ نکال کر اس پر موجود نمبر ڈائل کیا۔

"اسلام و علیکم! کون“ فون اٹھانے پر دوسری جانب سے نرم سی آواز گونجی تھی۔

"ارشیہ حیدر۔۔۔ کیا زینب سے بات ہوں سکتی ہے“ ہلکی سی آواز میں ارشیہ نے اپنا نام بتاتے ہوئے پوچھا تھا۔

"میں زینب ہی بات کر رہی ہوں۔۔۔ لیکن میں آپ کو نہیں جانتی “ دوسری جانب سے زینب نے تصدیق کرتے ہوئے سکون سے اس سے پوچھا تھا۔

"آپ مجھے نہیں جانتی۔۔ ولی نے مجھے آپ کا نمبر دیا تھا۔۔۔ کیا میں آپ سے مل سکتی ہوں“ ارشیہ نے لیٹے لیٹے بتایا اور پھر تھوڑا ہچکچاتے ہوئے ملنے کا بولا۔

"ہاں ولی۔۔۔ ولی نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا۔۔ ٹھیک ہے میں ایڈریس سینڈ کر دیتی ہوں“ دوسری طرف سے یاد آنے پر انہوں نے اسی نرمی سے کہا تھا اور پھر اللّٰہ حافظ کہہ کر کال کاٹ دی گئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد ارشیہ اٹھ کر اپنا ایک ڈریس لے کر باتھروم میں گھس گئی۔ جلد ہی تیار ہو کر وہ نیچے آئی اور کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر اپنی گاڑی لے کر منزل کی جانب بھگالی۔

ارشیہ نے گاڑی اس چھوٹے سے گھر کے باہر روکی تھی۔ دروازا کھٹکھٹا کر وہ متذبذب سی کھڑی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے انہیں کال کیوں کی اور ملنے کا کہا۔

"پتہ نہیں کیوں آئی ہوں میں یہاں۔۔ مجھے نہیں آنا چاہیے تھا“ ارشیہ نے خود سے سوچتے ہوئے کہا تھا اور جانے کے لیے مڑی تھی کہ ایک لڑکی نے دروازا کھولا۔

"اسلام و علیکم! آپ ارشیہ ہیں۔۔۔ آ جائے اندر“ دوپٹے سے چہرے کو چھپائے حائقہ نے اسے سلام کرکے کنفرم کیا جس پر ارشیہ نے سر ہلا کر اس کی تصدیق کی تو اس نے اسے اندر آنے کہا۔ 

زینب حائقہ کو ارشیہ کے آنے کے بارے میں پہلے سے بتا چکی تھی۔ ارشیہ تذبذب کا شکار اس کے پیچھے چل دی۔ وہ اندر آئی تو حائقہ نے دروازا بند کرکے اپنے چہرے سے دوپٹہ ہٹا دیا۔ ارشیہ اسے دیکھی رہ گئی۔ وہ خوبصورت تھی۔ ارشیہ نے بے اختیار سوچا۔ حائقہ اسے لے کر اندر زینب کی طرف بڑھ گئی۔

"اسلام و علیکم! کیا حال ہے بیٹا“ زینب نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ ولی نے ان سے ارشیہ کے بارے میں بات کی تھی۔ ولی زینب کا ہی سٹوڈنٹ تھا۔ ولی زینب سے ہی قرآن پڑھا تھا۔ زینب کی ولی کی وادہ کے ساتھ سلام دعا تھی۔ 

"وعلیکم اسلام“ ارشیہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا تھا۔ ایک تو یہ گھر اور زینب اس کے لیے نئے تھے۔ نہ ہی وہ ان کو جانتی تھی اور نہ ہی پہچانتی تھی۔ اسے بار بار اپنی یوں جلد بازی پر غصہ آ رہا تھا۔

"کیا پوچھنا چاہ رہی ہوں بیٹا“ زینب نے اس سے سوال پوچھ کر اس کی مشکل آسان کی تھی۔ 

"میں۔۔ آپ کو کیا کہہ کر بولوں۔۔ میرا مطلب ہے۔۔ کہ“ ارشیہ حیدر کی پہلی دفعہ زبان لڑکھڑائی تھی۔

"تم مجھے زینب ہی کہہ لوں یا آنٹی کہ لو“ زینب اس کے یوں پوچھنے پر مسکرا دی۔ تھوڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ تب حائقہ ٹرے میں لوازمات رکھے اندر داخل ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ان سے بے تکلف ہو گئی تھی۔

" مجھے ایک بات پوچھنی تھی آپ سے ۔۔۔ ولی کہتا ہے کہ میں دو دلوں کے ساتھ جی رہی ہوں۔۔۔ کیا واقعی میرے دو دل ہیں“ ارشیہ نے حیرانی کے ملے جلے تاثرات سجائے انگلیاں چٹخاتے ہوئے پوچھا۔ جس کے جواب میں زینب نے نرم سی آواز میں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 4 کا کچھ حصہ سنایا تھا۔

Surat-ul-Ahzaab (33) 

Ayat no. (4)

"مَا جَعَلَ اللّٰہُ  لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ“

اللہ نے کسی بھی شخص کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کیے,

"تم بس کشمکش کا شکار تھی۔۔۔ کہ ایک طرف تم اپنا روبہ دبدبہ سب پر ڈالنا چاہتی تھی۔۔ جو تم شروع سے دیکھتے آئی ہوں۔۔۔ ایک طرف تمہارا دل۔۔۔ تمہارا دل تمہیں نرم رہنے کا کہتا تھا۔۔۔۔ ایک طرف تمہارا دل تھا تو دوسری طرف تمہارا دماغ۔۔۔ اور کھبی کھبی دماغ جو دلیلیں پیش کرتا ہے نہ بیٹا اس کے نتیجے میں دل کو ہار تسلیم کرنی پڑتی ہے۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دل کمزور ہے۔۔ بس اس دل کے پاس کھبی اتنی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔۔۔ پھر اس لمحے ہمارا دماغ ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔۔۔ اور دل۔۔ یہ دل کوئی بھی دلیل پیش کر لے۔۔ دماغ نہیں مانتا“ زینب نے نرمی سے اسے سمجھایا تھا جس پر ارشیہ نے ان کے چہرے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔

"میں کسی سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔ لیکن وہ مجھے اپنانے پر نہیں راضی“ ارشیہ نے نم لہجے میں کہا تھا۔ یہ سن کر اس پر کپکپی طاری ہونے لگی تھی۔ مشکلوں سے اس نے خود پر بندھ باندھے تھے۔۔ لیکن لہجے میں نرمی گھل گئی تھی۔۔ اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔

"وجہ بتائی اس نے نہ اپنانے کی“ زینب اس کے لہجے کی نمی کو اچھی طرح بھانپ گئی تھی۔ اسی لیے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔

"میں اس کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔۔ وہ نیک ہے۔۔۔ لیکن میں۔۔ میں تو نیک نہیں ہوں۔۔ لیکن پھر بھی اس سے محبت ہو گئی“ ارشیہ نے انہیں اپنا حالِ دل سنایا تھا۔ شاید وہ ولی کے بعد دوسری شخصیت تھی جس کے سامنے یوں ارشیہ نے اپنے دل کا حال بیان کیا تھا۔

"میں کیا کروں آنٹی۔۔ میں اسے پانا چاہتی ہوں۔۔ اس سے نکاح کرنا چاہتی ہوں“ ارشیہ نے ان کی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔

"تو تم نیک بنو۔۔۔ اگر بن نہیں سکتی تو کوشش تو کر کے دیکھو“ زینب نے اسے امید کی ایک ڈور تھمائی تھی۔ جس پر ارشیہ کی آنکھوں کی چمک واپس آئی تھی۔ جو شاید پچھلے دو دنوں سے گم تھی۔

"میں نیک کیسے بنو گئی“ ارشیہ نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا جس کے جواب میں زینب نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 205 کا ترجمہ سنایا۔

Surat-ul-Aeyraaf

Ayat no. 205

وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ  خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ  وَ لَا  تَکُنۡ  مِّنَ  الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾

"اور اپنے رب کا صبح و شام ذکر کیا کرو ، اپنے دل میں بھی ، عاجزی اور خوف کے ( جذبات کے ) ساتھ ، اور زبان سے بھی ، آواز بہت بلند کیے بغیر ! اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوجانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔"

جس کے جواب میں ارشیہ بس مسکرائی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"زینب آنٹی میں اور عبیرہ چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں“ حائقہ نے چہرے پر نقاب کیے عبیرہ کا ہاتھ پکڑے کمرے کے دروازے پر ارشیہ کے ساتھ کھڑی زینب کو اطلاع دیے کر جانے لگی۔

"روکو میں بھی ساتھ چلتی ہوں“ زینب نے حائقہ نے جاتے دیکھ روکا۔

"نہیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ میں اور عبیرہ چلے جائے گئے۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جئے گئے“ حائقہ نے انہیں پیار سے منع کیا تھا۔ کل زینب کو ہلکا سا بخار ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے حائقہ کو ٹال دیا۔

"اگر آپ کو مناسب لگے تو میں ساتھ لے جاؤں۔۔۔ میری گاڑی باہر ہی کھڑی ہے“  ارشیہ نے حائقہ کو پیشکش کی۔

"نہیں شکریہ۔۔ کوئی بات نہیں ہم چلے جائے گئے“ حائقہ نے انکار کیا۔

"چلے جاؤں۔۔۔  کچھ بات چیت ہی ہو جائے گئی“ زینب نے حائقہ کو کہا جس پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ارشیہ کے ساتھ چلی گئی۔ ارشیہ دوبارا آنے کا وعدہ کر کے چلی گئی۔

گاڑی میں خاموشی کا راج تھا۔ ارشیہ بار بار بیک مرر سے حائقہ اور عبیرہ کو دیکھ رہی تھی۔ 

" میرا نام ارشیہ ہے۔۔۔ آپ دونوں کا کیا نام ہے“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا نام بتا کر ان دونوں کا نام پوچھا۔ اسے عجیب بھی لگ رہا تھا لیکن بول کر چپ ہو گئی۔

"حائقہ۔۔۔۔ میرا نام حائقہ ہے۔۔ اور یہ میری دوست عبیرہ احمد“ حائقہ نے تھوڑی دیر بعد نام بتائے۔ عبیرہ کا نام سن کر اس نے ایک نظر عبیرہ کو دیکھا۔

"رکیں میرے ساتھ میری ایک دوست نے بھی جانا ہے۔۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو ہم انہیں بھی ساتھ لے لیں“ حائقہ نے ارشیہ سے پوچھا جس پر اس نے مسکراتے ہوئے گاڑی ایک طرف روک دی۔ 

حائقہ، عبیرہ، حائقہ کی دوست جب اندر جانے لگی تو ارشیہ بھی ان کے ساتھ اندر آ گئی۔

حائقہ نے کو گمان گزرا کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔۔اس نے ارشیہ کو بتایا تو اس نے نظریں گھما کر دیکھا تو وہاں اسے بھی لگا۔ جس پر انہوں نے پلین بنایا اور حائقہ عبیرہ کو لے کر وہاں سے بچتی باہر چلی گئی۔ جبکہ ارشیہ اور حائقہ کی دوست اندر ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ 

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"سر۔۔۔ سر وہ اس لڑکی کا پتہ چل گیا ہے“ زوہیب کے ایک آدمی نے آ کر اسے اطلاع دی تھی۔

"کس کا“ زوہیب نے ہنوز لیٹے لیٹے پوچھا تھا۔ اس وقت اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ 

"سر وہ حجاب والی لڑکی“ زوہیب کے آدمی نے عبیرہ کا نام نہیں لیا تھا۔

"کہاں ہے وہ؟“ زوہیب نے جلدی سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔ جس پر آدمی نے جلدی سے کسی کلینک کا ایڈریس بتایا تھا۔ جس پر زوہیب جلدی سے گاڑی لے کر نکلا تھا۔ 

گاڑی ہواؤں سے باتیں کرتی تھوڑی دیر میں کلینک کے باہر روکی۔ زوہیب جلدی سے اندر کی جانب بھاگا۔ اطلاع دینے والا آدمی بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔ اس نے ڈاکٹر کے روم کی طرف اشارہ کیا تو وہاں ڈاکٹر کے سامنے ایک نقاب کیے لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہی تھی۔ جب ہی دروازا کھولا۔ سب نے مڑ کر دروازے کی جانب دیکھا تو وہاں زوہیب اس لڑکی کے نقاب زدہ چہرے پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔

زوہیب نے ایک طرف دیکھا تو وہاں ارشیہ بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر زوہیب نے  نظر انداز کیا اور آگے بڑھ کر لڑکی کو بازو سے پکڑا۔ اس سے پہلے وہ اسے پکڑتا ارشیہ اس کے درمیاں میں آئی تھی۔

"پیچھے ہٹو“ زوہیب نے غصے سے ارشیہ کو کہا۔ جس پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے بازو سینے پر لپیٹ کر کھڑی ہو گئی۔

"جاؤں یہاں سے“ ارشیہ نے بازو سینے پر لیپٹتے یوئے سکون سے زوہیب سے کہا تھا۔

"ارشیہ ہٹو میرے راستے سے“ زوہیب نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے تھے۔ وہاں موجود ڈاکٹر اور وہ چہرے پر نقاب چڑھائے لڑکی خاموش بس دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

"چلو“ ارشیہ نے زوہیب کی بات کو نظر انداز کیے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور باہر جانے لگی تو زوہیب نے ارشیہ کا وہ ہاتھ جس سے اس نے لڑکی کی کلائی پکڑی تھی پکڑ لیا۔

"آئندہ اگر تم میرے راستے میں آئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوں گا زوہیب“ ارشیہ نے اپنے ہاتھ سے زوہیب کا ہاتھ ہٹایا اور وہاں لڑکی کو ساتھ لیتے ہوئے وہاں سے باہر آ گئی۔

حائقہ کی دوست کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد وہ واپس گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

جبکہ دوسری طرف عبیرہ اور حائقہ کسی کلینک میں بیٹھی اپنا چیک اپ کروا رہی تھیں۔ 

"یہ میں کچھ ٹیسٹ لکھ کہ دے رہی ہوں۔۔۔ آپ یہ کروا لیں۔۔۔ باقی اگر اللّٰہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہوں گا“ ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہہ کر ایک پیپر پر کچھ لکھا اور حائقہ کی طرف بڑھایا۔ جیسے لے کر وہ دونوں وہاں سے آ گئی۔

"چلو عبیرہ تمہارا چیک اپ بھی کروا لیں“ حائقہ نے عبیرہ سے کہا اور اسے لے کر آئی سپیشلسٹ کے پاس چلی گئی۔

"ان کی آئی سائیڈ کیسے گئی۔۔ آئی مین حادثاتی طور پر یا پیدائشی“ ڈاکٹر نے عبیرہ کی آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے حائقہ سے پوچھا۔

"حادثاتی طور پر۔۔۔ بچپن میں یہ گر گئی تھیں۔۔۔ تب سے آئی سائیڈ ویک ہونا شروع ہوئی اور پھر نظر آنا ہی بند ہوگیا“ حائقہ نے تفصیل بتائی تھی جس پر ڈاکٹر نے سمجھنے سے انداز میں سر ہلایا تھا۔

"ہممم۔۔۔  اسے معجزہ ہی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ ان کی آنکھوں کی پوری بینائی نہیں گئی تھی۔۔۔  اوپریٹ کے ذریعے ان کی آئی سائیڈ شاید ٹھیک ہوں جائے۔۔ ٪30 چانسز ہیں ان کی آئی سائیڈ واپس آنے کے“ ڈاکٹر نے وہاں بیٹھی دونوں کو خوشی کی نوید سنائی تھی۔ 

"اگر آپ آپریٹ کروانا چاہتی ہیں۔۔ تو آپ وہاں ڈیٹ اور ٹائم لے لیجیے باقی اللّٰہ بہتر کرے گا“ ڈاکٹر نے انہیں مشورے دیا جس پر دونوں اٹھ کر باہر کی طرف چلی گئی۔

"حائقہ آپی اب میں بھی دیکھ سکوں گئی۔۔۔ میں آج ہی بھائی کو کال کر کے بتاتی ہوں“  عبیرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔

"نہیں انہیں نہ بتانا۔۔۔۔ ہم سرپرائز دیے گئے۔۔۔ ویسے بھی کچھ دنوں بعد ہم واپس جا رہے ہیں“ حائقہ نے اسے ٹوکا اور اسے یوسف کو سرپرائز دینے کا کہا جس پر وہ اور خوش ہوئی۔

کاؤنٹر سے سب کچھ دن بعد آپریشن کی ڈیٹ لے کر وہ دنوں با خوشی واپس گھر کی طرف چلی گئی۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"زینب آنٹی۔۔۔ کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں“ ارشیہ آج پھر زینب کے گھر آئی تھی۔ ارشیہ نے زینب کے ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ارشیہ کی ڈریسنگ میں فرق آیا تھا۔ اب جینز شرٹ کی جگہ وہ لمبی فراک شرٹ کے ساتھ ٹراؤزر یا قمیض شلوار پہنتی تھی۔

"کیا مدد کر سکتی ہوں میں تمہاری“ زینب نے نرم سے لہجے میں پوچھا تھا۔

"میری مدد کریں نیک بننے میں“ ارشیہ نے امید بھرے لہجے میں زینب سے پوچھا۔ ان چند دنوں میں ارشیہ زینب، حائقہ اور عبیرہ سے مانوس ہو گئی تھی۔

" میں صرف تمہیں گائیڈ کر سکتی ہوں۔۔۔ مدد تمہیں اپنی آپ ہی کرنی ہوں گئی۔۔۔ انسان اگر خود اپنی مدد نہیں کرسکتا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا“ زینب نے اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہوئے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔

"آپ مجھے نماز پڑھنا سیکھا دیں گئیں “ یہ الفاظ بامشکل ارشیہ کے حلق سے نکلے تھے۔ اسے شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔

"بلکل۔۔۔ مجھے خوشی ہوں گئی“ زینب نے مسکراتے ہوئے اسے کہا تھا جس پر ارشیہ بھی مسکرا دی۔

"جاؤں تم وضو بنا آؤں۔۔۔حائقہ سے پوچھ لینا اگر پوچھنا ہوا... پھر میں تمہیں نماز سکھاتی ہوں“ زینب نے پیار سے اسے کہا جس پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور وہاں سے باہر چلی گئی۔ حائقہ اسے بیسن کے پاس ہی کھڑی نظر آئی تھی۔ 

حائقہ کی طبیعت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ عبیرہ کے آئی آپریشن کے چکروں میں وہ اپنے ٹیسٹ کروانا بھول گئی تھی۔  ابھی بھی وہ بیسن کے پاس کھڑی تھی۔ اسے خون کی الٹیاں آ رہی تھی۔ 

عبیرہ تو زیادہ وقت کمرے میں بیٹھی رہتی تھی جبکہ زینب یا تو بچوں کو پڑھا لیتی یا پھر سارا دن قرآن مجید کی تلاوت کرتی۔

"کیا ہوا حائقہ آپی “ ارشیہ نے اسے الٹیاں کرتے دیکھ پوچھا تھا۔

"نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ تم بتاؤں تم یہاں کیسے۔۔۔ کچھ چاہیے تھا“ حائقہ نے  اسے ٹالتے ہوئے پوچھا۔

"وضو کرنا تھا۔۔۔ پلیز کروا دوں “ ارشیہ نے آہستہ سی آواز میں کہا جس پر حائقہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اسے وضو بنانے کا طریقہ سکھانے لگی۔

وضو بنا کر ارشیہ زینب کے پاس آ گئی۔ زینب نے آہستہ آہستہ اسے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ پچھلے دنوں میں زینب اسے نماز میں پڑھی جانے والی سورتیں اور دعا سیکھا چکی تھی۔ ارشیہ نے نماز پڑھی اور اپنے رب کے حضور سر جھکا کر اپنے گناہوں کی معافی کی دعا کی۔ آخر میں اس کی آنکھ سے ندامت کا ایک قطرہ بہہ کر اس کی ہتھیلی میں جذب ہوا تھا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

اس دن  زوہیب نے اپنے آدمیوں کو مارا تھا۔ اس دن کے بعد وہ واپس اپنے گھر نہیں گیا۔ وہ وہی فارم ہاوس میں اپنے کمرے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔

پچھلے کچھ دنوں یہ اس کا معمول بن چکا تھا۔ نجمہ بیگم کے بار بار فون کر کے پوچھنے پر اس نے اپنا موبائل اوف کر دیا تھا۔

ابھی وہ شراب کے نشے میں بیٹھا شراب گھونٹ گھونٹ پی رہا تھا جب ایک دم زور کی آواز سے کسی نے دروازا کھولا۔

زوہیب نے ڈرنے سے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں اکرام صاحب کو دیکھ وہ یک دم ہنس پڑا تھا۔

"ارے پاپا یہ آپ ہیں۔۔  میں ڈر گیا تھا پتہ نہیں کون ہے۔۔“ زوہیب نے نشے میں دھت ہنستے ہوئے اکرام صاحب کو دیکھ کر کہا اور پھر وائن کا گلاس اٹھا کر منہ کو لگانے لگا تھا کہ اکرام صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گلاس جھپٹا اور پھر اسے زمین پر دے مارا۔

"چلو میرے ساتھ زوہیب۔۔۔ چلو“ اکرام صاحب نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے کا کہا تو اس نے منع کیا جس پر اکرام صاحب نے غصے سے اسے کہا تھا۔

"آپ جائے ڈیڈ میں آ جاؤں گا“ زوہیب نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے اکرام صاحب سے کہا۔

"چلو میرے ساتھ زوہیب۔۔۔ کل تمہاری منگنی ہے ارشیہ کے ساتھ۔۔۔ اگر تمہاری یہی حرکتیں رہیں تو کوئی باپ اپنی بیٹی نہیں دیے گا“ اکرام صاحب نے غصے سے کہا اور اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ فارم ہاوس سے باہر لائے۔

"آئندہ دھیان رکھنا عدیل۔۔۔ یہ مجھے یہاں نظر نہ آئے “ اکرام صاحب نے عدیل کو حکم سنایا اور پھر اسے کچھ اور ہدایت کرتے زوہیب کو لے کر گھر چلے گئے۔

اسے لے کر اس کے کمرے میں چھوڑا۔ شراب کا اثر تھا کہ زوہیب غنودگی میں جانے لگا اور جلد ہی اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سو گیا۔ اکرام صاحب نے تاسف سے سر ہلا کر اسے دیکھا نجمہ بیگم ایک نظر اسے دیکھ آنکھوں میں نمی لیے واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

اگلا دن پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ یوسف کی زندگی بلکل معمول پر تھی۔ صبح دحیہ کو نعمان صاحب کے گھر پڑھانے جاتا تھا اور پھر وہاں سے اکیڈمی اور پھر شام کو گھر واپسی۔ اسے عبیرہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ یہاں سے زیادہ وہاں محفوظ تھی۔ یہی سوچ کر وہ چپ ہو جاتا۔

آج صبح سے ہی حیدر صاحب کے گھر میں گہما گہمی تھی۔ ارشیہ نے مندی مندی آنکھیں کھولی تو وہاں سامنے جیا بیگم اس کی الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔  

"ارے اٹھ گئی میری بیٹی۔۔۔ چلو اٹھو تیار ہو جاؤں۔۔۔ آج تمہاری منگنی ہے زوہیب کے ساتھ“ جیا بیگم نے مڑ کر دیکھا تو ارشیہ کو اٹھا دیکھ انہوں نے مسکرا کر کہا تھا جس پر ارشیہ نے انہیں ناسمجھی سے دیکھا تو انہوں نے اسے یاد دلوایا۔

"اور میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا کہ میں زوہیب سے منگنی نہیں کروں گئی“ ارشیہ نے غصے پر قابو کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔

"آواز آہستہ رکھو ارشیہ۔۔میں ماں ہو تمہاری۔۔۔ اور یہ تمہارے ڈیڈ کی مرضی سے ہو رہی ہے۔۔۔۔ چلو اٹھو اور تیار ہو جاؤں“ جیا بیگم نے غصے سے کہا اور پھر ایک ڈریس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے اسے تیار ہونے کا کہہ کر باہر چلی گئی

جس پر ارشیہ غصے سے اس ڈریس کو دیکھا اور پھر بے بسی سے چھت کی جانب دیکھا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ سب نمازیں پڑھ رہی تھیں۔ کل بھی اس نے نماز پڑھیں تھیں۔۔ آج صبح بھی اس نے اللّٰہ کے حضور سجدہ بجا لایا تھا۔ اس کی دعا کا مرکز یا تو یوسف ہوتا یا پھر اپنی نیک بننے کی خواہش۔

"یا اللّٰہ جیسے میں نے اپنے دل میں جگہ دی ہے۔۔ بس اسے میری زندگی میں بھی شامل کر دینا“ ارشیہ نے دعا سے انداز میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی۔ 

تھوڑی دیر بعد بیوٹیشن کمرے میں داخل ہوئی اس نے آ کر ارشیہ  کے حسن کو مزید نکھارا تھا۔ تھوڑی دیر بعد نمرا اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نمرا کے ہمراہ وہ نیچے لاؤنچ میں آئی۔ 

سامنے سٹیج پر ہی نک سک سا تیار ہو کر زوہیب سنجیدہ چہرا لیے کھڑا تھا۔ پہلے پہل تو ارشیہ سے منگنی اور شادی اس کی خواہش تھی لیکن اب۔۔۔ اب اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ دن رات عبیرہ کو تلاش کر رہا تھا۔ لیکن ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے وہ اس تک پہنچ نہیں پا رہا تھا۔ 

شاید یہ اللّٰہ کی عبیرہ کی طرف مدد تھی کہ زوہیب اسے ڈھونڈ نہیں پا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد منگنی کی رسم ہوئی۔ رسم ہونے کے بعد زوہیب تھوڑی دیر وہاں روکا اور پھر بہانا بنا کر وہاں سے نکل آیا جبکہ ارشیہ زبردستی مسکراہٹ سجائے وہاں کھڑی رہی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"آنٹی ہم چلیں جائے گئیں۔۔۔۔ آپ بس دعا کرے گا کہ کامیاب رہے“ آج عبیرہ کا آئی آپریشن تھا۔ وہ جانے لگے تھے جب اچانک سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی تو حائقہ نے انہیں منع کیا اور پھر انہیں دعا کرنے کا کہہ کر عبیرہ کو لے باہر چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد جب دونوں وہاں پہنچی تو کچھ دیر انتظار کے بعد عبیرہ کو آپریشن کے لیے لیجایا گیا۔ 

"کوئی بات نہیں۔۔ بس اللّٰہ پر بھروسہ رکھو“ جانے سے پہلے حائقہ نے عبیرہ کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دی تھی۔ اس کا دل۔خود ڈر رہا تھا۔ انہوں نے اللّٰہ پر یقین رکھتے ہوئے آپریشن کرنے کی حامی بھری تھی۔ 

زینب نے بہت بار کہا تھا کہ۔یوسف کو بتا دوں لیکن ہر بار عبیرہ نے منع کیا تھا کہ وہ انہیں سرپرائز دینا چاہتی ہے۔۔ اگر آنکھیں ٹھیک ہوں گئیں تو وہ کتنا خوش ہوں گئے۔

اندر عبیرہ کا آپریشن جاری تھا جب حائقہ کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ زینب کو آج کل بخار رہنے لگا تھا اور اوپر سے عبیرہ کا آپریشن اسی لیے ان دنوں میں حائقہ خود کو فراموش کر چکی تھی۔

وہاں بیٹھے بیٹھے وہ بے ہوش ہو گئی۔ جلدی سے وہاں سے گزرتے کسی شخص نے اسے گرتے دیکھ سنھبالنے کی کوشش کی تھی۔ اور پھر نرس کو بلوا کر اسے چیک کرنے کا کہا۔ جس پر نرس نے اسے ڈاکٹر کے کمرے میں لیجانے کا کہا اور اس کے ساتھ اس کمرے کی طرف چلی گئی۔

"کیا ہوا ہے انہیں “ ڈاکٹر نے حائقہ کا چیک اپ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔

"پتہ نہیں ڈاکٹر یہ باہر بے ہوش ہو گئی تھیں اسی لیے میں انہیں آپ کے پاس لے آیا تھا“ ولی نے ڈاکٹر کو حقیقت بتائی تھی۔ جس پر انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا۔

"یہ ٹیسٹ ان کے کروائے ابھی“ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر نرس کی جانب بڑھائے اور اسے کروانے کا کہا تھا جس پر نرس حائقہ کی طرف بڑھی اور اس کا بلڈ سیمپل لے کر ٹیسٹ کروانے چلی گئی۔

ولی اپنی والدہ کے ڈاکٹر سے ملنے آیا تھا۔ اب اسے کچھ سمجھ نہیں ایا تو اس نے ارشیہ کو کال کرکے وہاں بلوا لیا کیونکہ ڈاکٹر بار بار اس سے اس کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔ ارشیہ آتے ہی ولی سے ملنے کے بعد جب اندر گئی تو وہ حائقہ کو پہچان چکی گئی۔

"ڈاکٹر کیا ہوا ہے انہیں “ ارشیہ نے آتے ہی ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔ اس وقت وہ قمیض شلوار میں ملبوس دوپٹہ گلے میں لیے وہاں کھڑی تھی۔ 

"ابھی رپورٹس آنے سے پہلے میں کچھ کنفرم نہیں کہہ سکتی“ ڈاکٹر نے اسے کہا تبھی نرس رپورٹس لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔

"انہیں بلڈ کینسر ہے۔۔ جو کہ۔لاسٹ سٹیج پر ہے“ ڈاکٹر نے افسوس بھرے انداز میں بتایا تھا۔ ارشیہ نے حیرانی سے ڈاکٹر کو دیکھا اور ایک نظر وہاں پاس بیڈ پر لیٹی حائقہ کو دیکھا۔ ڈاکٹر انہیں بتا کر وہاں سے باہر چلی گئی۔ جلد ہی حائقہ کو ہوش آ گیا۔

"ارشیہ میں یہاں کیسے۔۔۔ میں تو وہاں تھی۔۔۔ عبیرہ کا آپریشن ہو رہا تھا“  حائقہ نے ہوش میں آتے ہی سامنے ارشیہ کو دیکھ پوچھا تھا۔ 

"حائقہ آپی آپ کو کیسنر تھا۔۔۔ آپ کو  پتہ ہے“ ارشیہ نے اس کی بات کا جوا دیے بنا اس سے پوچھا جس پر وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔

اور پھر تھوڑی دیر بعد حائقہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی تھی۔ چپ گم سم سی۔ اس نے زینب اور عبیرہ کو بتانے سے منع کر دیا تھا۔ 

"تم انہیں جانتی ہوں۔۔۔ یہ کون ہیں“ ولی نے آہستہ سے ایک طرف کھڑی ارشیہ سے پوچھا۔

"ہممم۔۔۔ زینب آنٹی کی جاننے والی ہیں“  ارشیہ نے مختصر سا جواب دیا تھا۔ 

"ڈاکٹر عبیرہ کیسی ہے“ تھوڑی دیر بعد آپریشن ختم ہوا تو ڈاکٹرز باہر آتے دیکھ حائقہ نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا۔

"انہیں دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا۔۔ تب ہم کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپریشن ٹھیک ہے یا۔۔۔ آیکس کیوز می پلیز“ یہ کہہ کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گئی۔ حائقہ واپس وہی بیٹھ گئی۔ ولی نے اسے ایک نظر دیکھا اور واپس مڑ گیا۔ ارشیہ وہی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ارشیہ میں یہاں کیسے۔۔۔ میں تو وہاں تھی۔۔۔ عبیرہ کا آپریشن ہو رہا تھا“  حائقہ نے ہوش میں آتے ہی سامنے ارشیہ کو دیکھ پوچھا تھا۔ 

"حائقہ آپی آپ کو کیسنر تھا۔۔۔ آپ کو  پتہ ہے“ ارشیہ نے اس کی بات کا جوا دیے بنا اس سے پوچھا جس پر وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔

اور پھر تھوڑی دیر بعد حائقہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی تھی۔ چپ گم سم سی۔ اس نے زینب اور عبیرہ کو بتانے سے منع کر دیا تھا۔ 

"تم انہیں جانتی ہوں۔۔۔ یہ کون ہیں“ ولی نے آہستہ سے ایک طرف کھڑی ارشیہ سے پوچھا۔

"ہممم۔۔۔ زینب آنٹی کی جاننے والی ہیں“  ارشیہ نے مختصر سا جواب دیا تھا۔ 

"ڈاکٹر عبیرہ کیسی ہے“ تھوڑی دیر بعد آپریشن ختم ہوا تو ڈاکٹرز باہر آتے دیکھ حائقہ نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا۔

"انہیں دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا۔۔ تب ہم کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپریشن کامیاب ہوا  ہے یا نہیں۔۔۔۔ آیکس کیوز می پلیز“ یہ کہہ کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گئی۔ حائقہ واپس وہی بیٹھ گئی۔ ولی نے اسے ایک نظر دیکھا اور واپس مڑ گیا۔ ارشیہ وہی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔

"آپی آپ کو آرام کی ضرورت ہے“ ارشیہ نے اسے وہاں سر ہاتھوں میں گرائے دیکھ کہا تھا۔

" تمہیں پتہ ہے ارشیہ عبیرہ محض ایک سال کی تھی جب عبیرہ کے پاپا نے اسے مجھے لا کر پکڑایا تھا۔۔۔۔ اور کہا تھا کہ آج سے یہ تمہاری بہن بھی ہے۔۔۔ اس کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھنا“ حائقہ نے ہاتھ میں سر گرائے اس کی بات نظر انداز کرے اپنی ہی دھن میں بتا رہی تھی۔

"میں نے اپنا وعدہ ہمیشہ نبھایا۔۔۔ کیا اب زندگی مجھے اتنی مہلت دیے گئی۔۔۔ مانا کہ اس کا بھائی اس کا مجھ سے زیادہ خیال رکھ سکتا ہے“ حائقہ اسی پوزیشن میں بیٹھے ارشیہ سے یا شاید خود سے باتیں کیے جا رہی تھی۔

"آپی مایوس کیوں ہو رہیں ہیں۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بہتر ہی سوچا ہو گا“ ارشیہ نے اسے حوصلہ دینا چاہا تھا۔

"ارشیہ۔۔۔ ارشیہ تم اگر فارغ ہو تو زینب آنٹی کے پاس چلی جاؤں۔۔۔ ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔ پلیز انہیں میرے بارے میں کچھ مت بتانا” زینب کا خیال آتے ہی حائقہ نے ارشیہ کو زینب کے پاس جانے کا کہا اور آخر میں اسے تاکید کی۔ 

"آپی آپ گھر چلے جائے۔۔ میں یہی رہ لوں گئی“ ارشیہ نے سمجھانے سے انداز میں کہا جس پر حائقہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے نفی میں سر ہلایا تھا۔

"نہیں تم جاؤں۔۔۔۔ ہوش میں انے کے بعد عبیرہ کو میری ضرورت پڑے گئی۔۔۔ اس کا بھائی بھی نہیں ہے یہاں“ حائقہ نے کہہ کر اسے جانے کا کہا جس پر وہ بجھے دل سے اٹھ کر زینب کے گھر کی طرف چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد عبیرہ کو روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ حائقہ اس کے پاس ہی سٹول پر بیٹھی اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے اس کی بینائی واپس آنے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ 

وہاں سٹول پر بیٹھے بیٹھے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ تو تب کھولی جب ڈاکٹر نے آ کر عبیرہ کا چیک اپ کیا تھا۔ اللّٰہ نے ان کی دعائیں سن لین تھیں۔ عبیرہ کی بینائی واپس آگئی تھی۔ ڈاکٹر نے دونوں کو خوشی کی نوید سنائی۔ عبیرہ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ 

ڈاکٹر اسے ریسٹ کرنے کا اور ضروری ہدایات کر کے واپس چلا گیا۔ عبیرہ نے ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹی عبیرہ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے۔ اس کے آنسوں اپنی بے بسی اور عبیرہ کی خوشی دونوں کے تھے۔  وہ اب کتنی بے بس ہوگئی تھی کہ اس کے پاس وقت کم تھا لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ وہ جلد اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے مالک کل جہان سے ملنے والی تھی۔ وہ عبیرہ کے لیے خوش تھی کہ اس کی بینائی واپس اسے مل گئی۔ 

ڈاکٹر کی بات سننے کے بعد اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے:

[حوالہ: سورۃ الرحمٰن (سورۃ نمبر 55) آیت نمبر 13]

فَبِاَیِّ  اٰلَآءِ  رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۳﴾

( اے انسانو اور جنات ! ) اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

یہ آیت پڑھنے کے بعد اس نے سکون سے آنکھیں بند کیں تھیں۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"کون ہے “ ارشیہ نے دروازا کھٹکھٹایا تو اندر سے زینب کی آواز گونجی تھی۔ اس وقت ان کے گھٹنوں میں درد ہو رہا تھا وہ مسلسل بیٹھی عبیرہ کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔ مشکلوں سے انہوں نے دروازا کھولا۔

"اسلام و علیکم زینب آنٹی“  ارشیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔ اسے دیکھ زینب کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ 

"آ جاؤں میری بچی“ زینب نے کھولے سے اسے اندر آنے کا کہا جس پر وہ دروازا بند کر کے انہیں سہارا دیا اور انہیں لے کر کمرے میں آئی۔

"کیا ہوا ہے کچھ پریشان لگ رہی ہوں“ زینب نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ پھیکا سا مسکرائی۔ چند ہی دنوں میں ارشیہ ان سے مانوس ہو گئی تھی۔ ایک عجیب سا سکون تھا اس گھر میں۔

"آنٹی میں نے اسے چاہا تھا۔۔۔ اس کی محبت میں میں نے خود کو اس کے رنگ میں ڈھالنا شروع کر دیا۔۔م میں اس جیسی بننے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔ پھر بھی مجھے شکست ہوئی۔۔ میں نے دن رات دعاؤں میں اسے مانگا تھا۔۔ پھر بھی نہیں ملا مجھے وہ “ ارشیہ نے مدھم آواز میں کہنا شروع کیا تھا۔ بات کرتے کرتے اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا تھا۔ حلق میں آنسوں اٹکے تھے

"اللّٰہ کی رحمت سے کھبی مایوس نہیں ہوتے۔۔۔ اللّٰہ کے گھر میں صرف دیر ہے۔۔۔ اللّٰہ سے شکوہ نہیں کرتے۔۔۔ کہتے ہیں جیسے تو راضی ویسے میں راضی“ زینب نے اس کا آنسوں صاف کرتے ہوئے نرم سے لہجے میں کہا تھا۔

" ساری دنیا کو چھوڑ میں نے صرف ایک شخص سے محبت کی۔۔۔ اس کی محبت میں پرانی ارشیہ مر گئی۔۔ اس کی جگہ ایک نئی ارشیہ نے سانس لینا شروع کی۔۔۔ میں نے اس کے پیچھے اپنا آپ بھولا دیا لیکن وہ نہیں مل رہا۔۔۔۔ میرے نصیب میں وہ کیوں نہیں ہے“ آج وہ اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی۔ زوہیب سے منگنی کا اسے دکھ تھا۔ اس نے جیسے چاہا اسے پاہ نہیں سکتی۔۔ وہ کوشش کر رہی تھی لیکن منزل پانے سے پہلے ہی وہ منزل سے کوسوں دور ہوتی جا رہی تھی۔

"تم نے ایک شخص کے پیچھے سب کچھ چھوڑ دیا۔۔۔ اس کی محبت میں اپنے آپ کو بھلا دیا۔۔۔ وہ تمہیں نہیں مل رہا تو تم رب سے شکوہ کر رہی ہوں۔۔۔ جو تمہارے پاس نعمتیں موجود ہیں اس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ دیکھو بیٹا اس میں بھی شاید کوئی بہتری ہو گئی۔۔۔ اس مالکِ کل جہان نے کھبی تم سے کہا کہ تم میری عبادت نہیں کرتی۔۔ میری نعمتوں کا شکر بجا نہیں لاتی“ زینب نے نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ آخر میں ان کی خود کی آواز بھیگی تھی۔

ارشیہ نے ایک نظر انہیں دیکھا۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھیں۔۔ اس کے پاس اتنی نعمتیں تھیں۔ اس نے کھبی ایک دفعہ بھی زبان سے شکر بجا نہیں لایا۔

" ارشیہ ایک بات پوچھو“ زینب نے ارشیہ کے ہاتھ کڑے دھیرے سے کہا تھا۔ جس پر ارشیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تم ماشاء اللّٰہ اب نمازیں بھی پڑھتی ہوں۔۔۔ تم تلاوت کیوں نہیں کرتی۔۔۔ وہ تو اللّٰہ کا کلام ہے“ زینب نے آہستہ سے پوچھا۔ وہ جانتی تھیں کہ ارشیہ اب نمازیں پڑھنا سٹارٹ ہوں گئی ہے۔اسی لیے انہوں نے آج پوچھا تھا۔

"تلاوت۔۔۔ نماز میں پڑھ لیتی ہوں۔۔۔ نماز پڑھنے میں مجھے تھوڑی ہچکچاہٹ ہوتی تھی۔۔۔۔ لیکن اب نہیں ہوتی۔۔ لیکن تلاوت۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں۔۔ میں دھتکار دی جاؤں گئی۔۔ میں نے کھبی کوئی نیکی نہیں کی۔۔ چند دن ہوئے ہیں مجھے نماز پڑھتے۔۔۔جب میں سوچتی ہوں تو میرے کیے گئے گناہ اپنے پورے قد و قامت کے ساتھ میرے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ اور پھر میں۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہتی۔۔۔ کہ اپنے مالکِ کل جہان سے ہم کلام ہوں“ ارشیہ نے وجہ بتائی۔ بات کرتے وقت اس کا گلے میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی واضح تھی۔ بات کرتے وقت اس کی گرفت زینب کے ہاتھوں پر مضبوط تر ہوتی گئی تھی۔

"تمہیں کس نے کہا کہ وہ اللّٰہ جس کی صفات میں سے ایک صفات غفور ورحیم ہے۔۔ وہ تمہیں دھتکار دیے گا۔۔ جس نے تمہیں نماز پڑھنے کی ہدایت بخشی۔۔ وہ تمہیں اپنا کلام نہیں پڑھنے دیے گا۔۔ یہ سب شیطان کا بہکاوا ہو گا“ زینب نے اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ اسے حوصلہ دیا اور سورۃ المؤمن کی آیت نمبر 3 کا ترجمہ سنایا۔ 

[حوالہ: سورۃ المؤمن (سورۃ نمبر 40)  آیت نمبر 3]

غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ  اِلٰہَ  اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ  الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾

 جو گناہ کو معاف کرنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، سخت سزا دینے والا ، بڑی طاقت کا مالک ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔

جس پر ارشیہ کی انکھ سے ایک قطرہ گرا تھا۔  یہ بات ابھی ارشیہ کی سمجھ سے باہر تھی کہ وہ آنسوں اللّٰہ کی اتنی محبت پر اس کی آنکھ سے آنسوں گرا تھا یا شاید وہ ندامت کا آنسوں تھا۔ بلاشبہ وہ آنسوں قیمتی تھا۔ زینب نے ایک اور سورۃ النمل کی آیت کا ترجمہ سنایا۔

[حوالہ: سورۃ النمل (سورۃ نمبر 27) آیت نمبر 92]

وَ اَنۡ  اَتۡلُوَا الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَقُلۡ  اِنَّمَاۤ   اَنَا مِنَ  الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿۹۲﴾

اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں ۔   اب جو شخص ہدایت کے راستے پر آئے ، وہ اپنے ہی فائدے کے لیے راستے پر آئے گا ، اور جو گمراہی اختیار کرے ، تو کہہ دینا کہ :   میں تو بس ان لوگوں میں سے ہوں جو خبردار کرتے ہیں ۔  

ارشیہ نے اپنے ہاتھوں کو زینب کے ہاتھوں سے آزاد کر کے دیکھا تھا۔ اتنے دنوں سے اس کے دل پر جو بوجھ تھا وہ سرک چکا تھا۔

ارشیہ ایک بات بولو۔۔۔ بیٹا اب تم حجاب اوڑھا کرو“ تھوڑی دیر خاموشی ان کے درمیان قائم رہی تو زینب نے اس کے گلے میں موجود دوپٹے کو دیکھ کر کہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ارشیہ آہستہ آہستہ نیکی کی طرف راغب ہو رہی ہے۔۔ وہ اسے ایک باحیا عورت بنانا چاہتی تھی۔ زینب کے کہنے پر ارشیہ نے نظریں اپنی ہتھیلی سے اٹھا کر زینب کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں واضح سوال تھا کیوں؟

[حوالہ: سورۃ الاحزاب ( سورۃ نمبر 33) آیت نمبر 59]

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ  قُلۡ  لِّاَزۡوَاجِکَ  وَ  بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا  یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾

اے نبی ! تم اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے ( منہ کے ) اوپر جھکا لیا کریں ۔ ( ٤٧ ) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی ، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا ۔ ( ٤٨ ) اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔

ارشیہ زینب کو دیکھتی رہ گئی۔۔ جس پر زینب نم آنکھوں سے مسکرا کر ہاں میں سر ہلانے لگی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"ہاں کہا ہوں۔۔ میرے پہنچنے سے پہلے فارم ہاوس پہنچو“  زوہیب کی غصے بھری آواز سپیکر میں گونجی۔ حکم صادر کر کے زوہیب نے فون بند کر دیا۔ اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔ گاڑی فل سپیڈ میں اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔

تھوڑی دیر میں وہ فارم ہاوس کے باہر گاڑی کھڑے کر کے لمبے لمبے ڈاگ ھرے اندر گیا۔ اندر داخل ہوتے سامنے اسے عدیل اور اس کے ساتھ کھڑے کچھ آدمی نظر آ گئے۔

"تم لوگوں کو میں نے کس لیے رکھا ہے۔۔ ہاں“ زوہیب نے غصے سے دھاڑا تھا۔ اس کا غصہ کسی طرح کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

"ہجڑوں کی فوج پال رکھی ہے میں نے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔ وہ چھٹانک بھر کی لڑکی تم لوگوں سے ڈھونڈی نہیں جا رہی۔۔۔ دفعہ ہو جاؤں سب کے سب دو دن دو دن ہیں تم سب کے پاس۔۔۔ اگر تم لوگ اسے ڈھونڈ نہ سکے تو اپنے کفن دفن کا انتظام کر لینا۔۔ اب دفعہ ہو جاؤں سب کے سب یہاں سے۔۔ شکل گم کروں“  زوہیب نے غصے سے انہیں وارن کرنے سے انداز میں کہا اور وہاں سے ان سب کو جانے کا کہا تھا۔ جس پر سب کے سب سر جھکائے وہاں سے چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد زوہیب وہاں ایک باہر کی طرف کھولتی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں دبائی۔ 

"اوئے یہ کیا۔۔ اس کو اس لڑکی سے کیا لینا دینا“ ایک آدمی نے باہر آتے ہی دوسرے کو کہنی مارتے ہوئے پوچھا تھا۔

"لگتا ہے زوہیب اکرام ملک کے برے دن شروع ہو چکے ہیں۔۔ ایک مہینے سے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے بدلہ لینے کے لیے۔۔۔ لیکن اب مجھے بدلے سے آگے کی بات لگتی ہے“ دوسرے مسکراتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میں پیش گوئی کی تھی۔

 زوہیب نے غور سے اس شخص کا چہرا دیکھا تھا جہاں مزاق کا کوئی شبہ نہیں تھا۔فلحال زوہیب کو ایسا ہی لگا تھا۔

"کیا مطلب ہے ابے تیرا“ پہلے آدمی نے اس کو ہلا کر ہوش کی دنیا میں لاتے ہوئے پوچھا۔ اُس کی باتیں اس کے سر کے اوپر سے گزر رہیں تھیں۔ 

"لگتا ہے سائیں کو محبت ہو گئی ہے۔۔۔ یہ تو میرا تجربہ کہتا ہے باقی اب یہ بدلہ ہے یا محبت یہ تو اس پر تو اس کے ملنے پر ہی مہر لگے گئی“ دوسرا آدمی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ 

"چل اتنا تیرا تجربہ۔۔۔ آیا تو کوئی بڈھا۔۔ اے وئے ای تجربہ“ پہلے آدمی نے اس کی پیٹھ دیکھتے ہوئے سر جھٹک کر کہا تھا جبکہ وہاں کھڑکی کے پاس کھڑا زوہیب اس کی باتوں میں گم تھا۔

"کیا واقعے ہی اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ جو وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں یہ تو میں نے اس تھپڑ کا بدلہ لینا ہے“ زوہیب نے سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے خود سے سوال کر کے جلدی سے ہی خود سے ہی اپنے سوال کی نفی کی تھی۔ 

اچانک اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا ک موبائل اون کیا تو وہاں کوئی میسیج تھا۔

"اگر اس لڑکی کی لوکیشن جاننا چاہتے ہوں تو۔۔ اس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروں۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد لوکیشن مل جائے گئی“ زوہیب نے میسج کھول کر پڑھا وہاں پر ایک خطیر رقم لکھی ہوئی تھی ساتھ ایک ویڈیو بھی تھی۔ ویڈیو دیکھ زوہیب کا گویا ایک بار سانس روکا تھا۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"کیا واقعے ہی اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ جو وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں یہ تو میں نے اس تھپڑ کا بدلہ لینا ہے“ زوہیب نے سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے خود سے سوال کر کے جلدی سے ہی خود سے ہی اپنے سوال کی نفی کی تھی۔ 

اچانک اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اون کیا تو وہاں کوئی میسیج تھا۔

"اگر اس لڑکی کی لوکیشن جاننا چاہتے ہوں تو۔۔ اس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروں۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد لوکیشن مل جائے گئی“ زوہیب نے میسج کھول کر پڑھا وہاں پر ایک خطیر رقم لکھی ہوئی تھی ساتھ ایک ویڈیو بھی تھی۔ ویڈیو دیکھ زوہیب کا گویا ایک بار سانس روکا تھا۔ 

"عدیل۔۔۔ عدیل یہ رقم اس اکاؤنٹ میں جمع کرواں۔۔۔ جلدی۔۔ اس اکاؤنٹ اور اس نمبر کا بھی پتہ لگوا۔۔ جتنا جلدی ہو سکے “ زوہیب نے تقریباً چیختے ہوئے اسے بلایا۔ عدیل کے آتے ہی اس نے اسے اکاؤنٹ نمبر، رقم اور موبائل نمبر بتاتے ہوئے حکم صادر کیا تھا۔ جس پر عدیل وہ سب چیز نوٹ کرتا ہوں وہاں سے غائب ہوا تھا۔

زوہیب نے ایک دفعہ پھر ویڈیو دیکھی تھی۔ اس ویڈیو میں ایڈیٹنگ کے ذریعے دو ویڈیوز اکھٹی تھی۔ پہلے اس ویڈیو میں دو لڑکیاں ہاسپٹل میں ارشیہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔

 یہ کئی دن پرانی ویڈیو تھی جبکہ دوسری ویڈیو میں ایک لڑکی ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹی تھی۔ کچھ منٹ بعد عدیل نے رقم منتقل ہونے کی خبر سنائی۔ اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔

پانچ منٹ سے پہلے ہی اس کے موبائل کی ٹیون بجی اس نے جلدی سے لوکیشن کھولی تو وہ کسی ہاسپٹل کی تھی۔ زوہیب نے جلدی سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔جاتے ہوئے وہ عدیل کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہہ کر گیا۔

 کمرے میں پہنچ کر اس نے سائیڈ ڈرا سے اپنی گن نکال کر اپنی پینٹ میں اڑسائی اور تقریباً بھاگتے ہوئے باہر گیا جہاں عدیل پہلے سے ہی گاڑی سٹارٹ کیے ہوئے تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے گاڑی جلدی سے لوکیشن کی جانب بڑھائی۔

اسے جاتا دیکھ اس کے آدمیوں نے نظروں کا تبادلہ کیا تھا۔ ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ در آئی تھی۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے کے بعد وہ اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ لیکن ان میں سے ایک شخص نے زوہیب کی گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھا تھا۔ 

"سائیں اللّٰہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے“ اس آدمی نے جانے کس خیال کے تحت کہا تھا۔ لیکن کہہ کر وہ وہاں روکا نہیں تھا۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

گھر آ کر ارشیہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ملازمہ سے اسے پتہ چلا کہ حیدر اور جیا بیگم کہی مدعو تھے تو وہاں گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر اس نے نماز ادا کی اور اپنے کمرے میں قرآن مجید ڈھونڈنے لگی۔ لیکن اسے وہ کہی نہ ملا۔ 

قرآن مجید آخری بار اس نے چھوٹے ہوتے پڑھا تھا۔ یاد آتے ہی اسے ڈھیروں شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔  خاموشی سے اپنے کمرے سے نکل کر وہ اپنی دادی کے کمرے میں آئی تھی۔ وہ ہمیشہ اسے اچھا بنانے اور غرور وتکبر کرنے سے منع کرتیں تھیں۔ 

لیکن دونوں گھروں میں اکلوتے ہونے کی وجہ سے حیدر صاحب، اکرام صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم  سب کا پیار اسے اور زوہیب کو ملا تھا۔جس کی وجہ سے دنوں بگڑے تھے۔ 

ارشیہ نے اپنی دادی کا کمرہ کھولا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرے میں ایک الگ قسم کا سکون تھا۔ کمرے میں بکھری خوشبو بہت پیاری تھی۔ ایک پل کو ارشیہ نے آنکھیں بند کیے خوشبو کو خود میں اتارا تھا۔

چند پل گزرنے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور پھر آگے بڑھ کر وہاں موجود الماری کھولی۔ اس میں ایک ترتیب سے قرآن مجید رکھے ہوئے تھے۔ ان پر زرا برابر بھی دھول نہ تھی۔ وہاں سے ایک قرآن مجید اٹھایا اور الماری ویسے بند کرکے اپنے کمرے کا رخ کیا۔

کمرے میں آ کر اس نے دروازا بند کیا اور قرآن مجید لے کر بیٹھ گئی۔ قرآن مجید کھولنے سے پہلے اس نے ایک بار زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور قرآن مجید اندازے سے کھولا۔ سامنے اس کے پہلی وحی کے الفاظ جگمگائے تھے۔ سورۃ العلق کی آیات اس نے پڑھنا شروع کیا۔

[حوالہ: سورۃ العلق (سورۃ نمبر 96 ) آیت نمبر 1_19 ]

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا ، ( ١ )

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾

اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ۔

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾

پڑھو ، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے ،

الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾

جس نے قلم سے تعلیم دی ،

عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ  یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا ۔ ( ٢ )

کَلَّاۤ  اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ  لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾

حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلی سرکشی کر رہا ہے ( ٣ )

ترجمہ پڑھنے پر اس پر ایک بار کپکپی طاری ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمکیں پانی کے ڈورے تیرنے لگے تھے۔ آنکھوں کے آگے دھند چھانے لگی۔ ہاں وہ سر کشی تو کر رہی تھی شروع سے۔۔ اب ہی اس نے اللّٰہ کی راہ اختیار کی تھی۔ بے شک قرآن کریم ایک زندہ و جاوید کتاب تھی۔ اس میں ہر انسان کے لیے راہنمائی موجود تھی۔ اس نے آنکھیں صاف کر کے جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے ہی دوبارا سلسلہ کلام شروع کیا۔

اَنۡ  رَّاٰہُ  اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾

کیونکہ اس نے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیا ہے ۔ ( ٤ )

اِنَّ  اِلٰی رَبِّکَ  الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾

سچ تو یہ ہے کہ تمہارے پروردگار ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾

بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ایک بندے کو منع کرتا ہے

عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾

جب وہ نماز پڑھتا ہے؟

اَرَءَیۡتَ  اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۱﴾

بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ ( نماز پڑھنے والا ) ہدایت پر ہو ،

اَوۡ  اَمَرَ  بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۲﴾

یا تقوی کا حکم دیتا ہو ، ( تو کیا اسے روکنا گمراہی نہیں؟ )

اَرَءَیۡتَ  اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾

بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ ( روکنے والا ) حق کو جھٹلاتا ہو ، اور منہ موڑتا ہو ،

اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾

کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟

اس کی آنکھوں سے ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر گرا تھا۔ اس کا گلہ سے آواز نکلنے سے انکاری تھی۔ لیکن اس نے ہمت کرکے اگلی آیات کا بھی ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔

کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ   ۬ ۙ  لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾

خبردار ! اگر وہ باز نہ آیا ، تو ہم ( اسے ) پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ،

نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾

اس پیشانی کے بال جو جھوٹی ہے ، گنہگار ہے ۔

فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۷﴾

اب وہ بلالے اپنی مجلس والوں کو !

سَنَدۡعُ  الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۸﴾

ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلا لیں گے ۔ ( ٥ )

کَلَّا  ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿۱۹﴾    

ہرگز نہیں ! اس کی بات نہ مانو ، اور سجدہ کرو ، اور قریب آجاؤ ۔ ( ٦ )

آخری آیت پڑھ کر اس پر کپکپی طاری ہوئی تھی۔ اس کے دل میں خوف پیدا ہوا تھا۔ قیامت کا خوف، دوزخ کا خوف، سب سے بڑھ کر اللّٰہ کی رحمت سے محروم ہونے کا خوف۔  اس نے جلدی سے قرآن کریم کو ایک طرف کیا اور جائے نماز بچا کر سجدہ کیا تھا۔ 

سجدے میں جاتے ہی اس نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ روتے ہوئے اس کی ہچکی بندھی تھی۔ سجدے میں پڑھی وہ زیرِ لب اللّٰہ اکبر کی گردان کیے جا رہی تھی۔ اس کا دماغ اس بات پر اٹکا تھا کہ "اللّٰہ دیکھ رہا ہے“ وہ ہر حال میں اسے دیکھ رہا ہے۔۔ 

یہ سوچ آتے ہی اس کے رونے میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ کتنے گناہ کرتی رہی تھی اپنی زندگی میں۔۔ وہ سب اللّٰہ نے دیکھے تھے۔ اب سجدے سے اٹھ کر اس نے اپنے ہاتھ دعا سے انداز میں اپنے منہ پر رکھ کر استغفار پڑھنا شروع کیا تھا۔

"اے اللّٰہ بے شک تو بے نیاز ہے۔۔ تو غفور و رحیم ہے۔۔ تو ہی قہار و جبار ہے۔۔ اے میرے مالک میرے گناہوں پر میری پکڑ نہ کرنا۔۔ مجھے معاف فرما۔۔ میرے مولا۔۔ آج میں اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگتی ہوں میرے مولا۔۔ مجھے معاف فرما“ ہچکیوں بھری آواز اس کمرے میں گونجی تھی۔ وہ مسلسل اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ولی کی زندگی اپنے معمول پر جا رہی تھی۔ ارشیہ سے اب اس کا رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بہت بار کال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا نمبر زیادہ تر بزی جاتا۔

زینب سے اسے ارشیہ کے بارے میں پتہ چلا تو وہ خود پیچھے ہٹ گیا۔ وہ جانتا تھاکہ ایک لڑکی جس کے دل میں کوئی اور ہوں۔۔ وہ اس کے لیے ہر چیز داؤ پر لگا دیے۔۔ 

اس کے لیے اپنا سٹیٹس، اپنا غرور و تکبر چھوڑ۔۔۔ عاجزی و انکساری اپنا لے۔۔۔ وہ اس کے لیے اسلام کی طرف راغب ہو جائے تو وہ ہر دوسرے شخص کا خیال تک دل سے نکال دیے گئی۔

جب زینب نے اسے اس کے بارے میں بتایا کہ وہ اب اسلام کی راستے کی طرف جا رہی ہے۔۔۔ جلد ہی وہ ایک اچھی اور نیک عورت بن جائے گئی۔۔ ان کی آواز میں ولی  کو ایک امید سنائی دی تھی۔۔۔ شاید وہ پر امید تھی کہ ارشیہ حیدر اب اسلام کے راستے پر چل پڑے گئی۔۔۔ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو مانے گئی۔۔۔

اسی لیے ولی نے اس سے رابطہ منقطع کیا تھا کہ اب وہ رشتوں کو سمجھنے لگی ہوں گئی۔۔ وہ جان گئی ہوں گئی کہ ولی اس کے لیے ایک نامحرم کی حیثیت رکھتا ہے۔۔ وہ دوست تھے لیکن۔۔۔ دوستی سے بالا تر تھا محرم اور نامحرم کا رشتہ۔۔ 

یہ وہ حدود تھیں جو اللّٰہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کے لیے بنائی تھی۔ ان رشتوں کو ولی سمجھتا تھا۔ ان رشتوں کے پیچھے چھپی حکمت بھی اس کی سمجھ میں تھی۔ اسی لیے اب اس نے ارشیہ کو کال کرنا چھوڑ دی تھی۔  اب وہ دوبارا سے اپنی پہلی زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا اور اس میں مگن ہو گیا تھا۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

نمرا نے زیاد کے کہنے پر ارشیہ سے رابطہ منقطع کر دیا۔ لیکن اس کے دل میں کچھ کھٹکا تھا۔ اس طرح اچانک اس نے ارشیہ سے رابطہ منقطع کرنے کا کہا۔ وہ ہمیشہ سے دوست تھے۔۔۔ ایک کلاس میں پڑھے۔۔

اسے حسن کے ایکسیڈنٹ کا دکھ تھا لیکن اتنا بھی کیا کہ وہہ اپنی دوست سے منہ موڑ کر بیٹھ جاتی۔ وہ یہ سوچتی تھی کہ زیاد حسن کا بیسٹ فرینڈ تھا شاید اس لیے اس نے کہا لیکن بات بتانے کی بجائے گھول کر جاتا۔

نمرا نے اس کے کہنے پر ارشیہ سے رابطہ کم کیا۔تھا البتہ منقطع نہیں کیا تھا۔ ارشیہ کی منگنی پر زیاد نے ارشیہ سے بہانے سے پوچھا چاہا تھا لیکن اس نے۔اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔۔

ارشیہ اسے واضح الفاظ میں بتا چکی تھی کہ وہ صرف نمرا کی خوشی کے لیے خاموش ہے کہ نمرا کی خوشیاں برباد ہو جائے گئی اگر اسے پتہ چلا کہ زیاد ایک قاتل ہے۔۔۔ 

نمرا الٹا اس سے لڑتی جھگڑا کرتی۔ وہ صحیح غلط کی حدود سے آگے نکل کر محبت کے در کے آخر میں کھڑی تھی۔ وہ محبوب کی ہر غلطی معاف کر جاتی۔  وہ صحیح غلط کی تمیز بھلا چکی تھی۔ 

لیکن اب۔۔۔ اب زیاد کو وہ بوجھ لگنے لگی تھی۔ وہ اس سے اکتا گیا تھا۔ اس کی آئے دن شادی کی رٹ کی وجہ سے۔۔ وہ اس سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ گھر والوں کو وہ کب تک پڑھائی کا۔جواز بنا کر ٹالتی۔ 

ہر بار مسز نعمان اور اپنی پھپھو کے پوچھنے پر وہ  "ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔۔۔ ابھی میں نے آگے پڑھنا ہے “ کہہ کر ٹال دیتی۔ 

جبکہ دوسری طرف زیاد ارشیہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کر رہا تھا۔ اس کی معلومات نکلوائی۔ ارشیہ کی منگنی کے بعد اس نے  زوہیب کے بارے میں  معلومات اکھٹی کرنا شروع کر دی جس پر اسے ارسل اور عبیرہ کے بارے میں پتہ چلا۔

اس نے توجہ ارسل پر دی۔ ارسل جو چپ چاپ حسن کی موت کو ایک حادثہ تصور کر چکا تھا۔ زیاد کے بتانے پر اس نے زیاد سے مدد مانگنے کا سوچا اور پھر زوہیب کو عبیرہ کی ویڈیوز ایڈیٹنگ کر کے سینڈ کی۔

رقم ملتے ہی انہوں نے عبیرہ کو ہاسپٹل اے غائب کروانا چاہا تھا لیکن ہارے قسمت۔۔ عین وقت پر یوسف نے آ کر عبیرہ کو بچا لے گیا۔ حائقہ کو وہ پہلے کی کمرے میں سر پر کوئی بھاری شے مر کر بے ہوش کر آئے تھے۔ لیکن چوٹ گہری تھی اور اس کی وجہ سے اس کا بلڈ کافی ضائع ہو گیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

کچھ ہی دیر بعد زوہیب کی گاڑی ہاسپٹل کے باہر روکی تھی۔ گاڑی سے اتر کر زوہیب بھاگتے ہوئے اندر کی طرف بڑھا تھا۔ مطلوبہ کمرے کا دروازا کھول کر اندر دیکھا تو اس کی روح فنا ہوئی تھی۔

وہاں ایک لڑکی اوندھے منہ نیچے زمین پر گری ہوئی تھی۔ اس کے ,شاید سر پر چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے کافی خون بہ گیا تھا۔

زوہیب نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے سے حجاب ہٹائے بغیر دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی آنکھیں کھول کر دیکھی تھی۔

آنکھوں کا رنگ شہد کلر تھا۔ بلاشبہ وہ ہلکی بھوری آنکھیں نہیں تھیں۔اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنے قدم واپس لیے تھے۔ 

"عدیل اندر کوئی لڑکی بے ہوش ہے۔۔ نرس کو بلوا کر اسے دیکھا“ باہر نکلتے عدیل سے کہہ کر اس نے اپنا موبائل نکالا اور جس نمبر سے لوکیشن آئی تھی وہی نمبر ڈائل کرنے لگ پڑا۔ 

لیکن بے سود وہ نمبر بند تھا۔ اس نے کئی بار ٹرائے کیا لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔ اس نے غصے سے موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکا اور گاڑی زن سے بھگا لی۔ گھر پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر دھم سے گرا۔

"یہ۔۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔ کیوں میں اس کے پیچھے ہوں۔۔۔ اب مجھے ہر حال میں وہ چاہیے۔۔ وہ اب میری ضد بند گئی ہے۔۔۔ میں اسے زمین کی آخری تہ سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔۔۔ اے میرے “ زوہیب نے غصے سے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے۔ اس کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔ آخر میں وہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہوئے رکا تھا۔ اس کی زبان۔۔ 

اس کی زبان ہلنے سے انکاری تھی۔ آنکھوں میں پانی آیا تھا۔ اس کا سر درد سے الگ پھٹ رہا تھا۔ ایک پل میں وہ بیڈ سے اٹھا اور سائیڈ ڈرا سے سر درد کی گولی نکالنے کی بجائے بے دھیانی میں وہ نیند کی گولی نکال کر اس نے پانی کے ساتھ نگلی۔  

واپس بیڈ پر بیٹھے وہ صبح کے بارے میں سوچنے لگا۔ کیسے وہ کسی پر بھی یقین کر کے اتنی بڑی رقم اس کے اکاونٹ میں جمع کروا کر اس انجان شخص پر یقین کر کے اس کی بتائی لوکیشن پر چلا گیا تھا۔

"وہ ویڈیو دیکھ کر" دل نے فوراً سے جواب پیش کیا تھا۔ لیکن اس ویڈیو میں آنکھیں واضح نہیں تھیں۔ تو میں نے کیسے یقین کر لیا۔ اس نے ماؤف ہوتے ذہین سے پوچھا تھا۔ لیکن اس سے پہلے دل کوئی جواب دیتا وہ غنودگی میں چلا گیا۔ وہ وہی بیڈ پر ڈھیر ہو گیا۔ 

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

صبح جب زوہیب کی آنکھ کھولی تو اسے اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہوا۔ اس نے اٹھ کر اپنے موبائل کو دیکھا تو وہاں دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو ایک دم سے اسے چکر آئے۔ کچھ نیند اب بھی اس کی آنکھوں میں باقی تھی۔ 

دیوار کا سہارا لے کر وہ کھڑا ہوا۔ آگے بڑھ کر اس نے باتھروم کا دروازا کھولا اور اندر جا کر شاور چلائے ویسے ہی کھڑا ہو گیا۔ پانی کی وجہ سے اس کی باقی بچی کھچی نیند بھی اڑ گی۔ اب وہ قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہ چینج کیے باہر کی طرف چلا گیا۔ جاتے جاتے وہ کسی کو کال کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد رابطہ ہوا۔

" اس بینک اکاؤنٹ اور نمبر کے بارے میں پتہ چلا“ زوہیب نے فون کان سے لگاتے ہوئے پوچھا۔ جس پر دوسری طرف سے تسلی بخش جواب نہیں ملا تو اس نے ٹھیک ہے کہہ کر کا کاٹ دی اور گاڑی کو منزل کی جانب موڑ لیا۔

"ہاں عدیل۔۔ اس لڑکی کا کیا بنا؟“ زوہیب نے عدیل سے حائقہ کے بارے میں دریافت کیا۔ اس وقت وہ اپنے فارم ہاوس پر موجود تھا۔

"سر ان کی حالت تشویشناک ہے۔۔ نرس کا کہنا ہے کہ بلڈ کافی بہہ گیا تھا تو ان کا بچنا مشکل ہے“ عدیل نے تفصیل بتائی تو زوہیب ہمم کہتے ہوئے آگئے بڑھ گیا۔

"عدیل۔۔ ارشیہ کے بارے میں مجھے معلومات لا کر دوں۔۔ وہ کہا جاتی ہے۔۔ کیا کرتی ہے۔۔ ایک ایک منٹ کی ڈیٹیلز۔۔۔ جتنی جلدی ہو سکے“ سیڑھیاں چڑھتے زوہیب نے ایک دفعہ مڑ کر عدیل سے کہا جس پر وہ ٹھیک ہے سر کہہ کر باہر کی طرف چلا گیا۔

عدیل ابھی باہر ہی نکلا تھا جب اسے ہاسپٹل سے کال آئی۔ اس نے کال پک کرکے فون کان سے لگایا۔ 

"ہیلو جی کہیے“ عدیل نے فون کان سے لگاتے ہی پوچھا تھا۔ اس نے ہی وہاں موجود ایک نرس کو حائقہ کی طبیعت سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔

"آپ کی پیشنٹ کی ڈیتھ ہو گئی ہے“ نرس نے عدیل کو اطلاع دی۔ جس پر اس نے ٹھیک ہے کہہ کر فون کان سے ہٹا کر کال کاٹ دی اور یوسف کے گھر کی طرف چل پڑا۔

اس دن جب عبیرہ کو زوہیب کے فارم ہاوس سے نکلوانا تھا تو زوہیب کے ساتھ حائقہ ہی تھی اسے اس بات کا شک تھا کہ یہ لڑکی وہی ہوں گئی اسی لیے اس نے اپنے شک کی تصدیق کرواتے ہوئے کسی سے حائقہ کی ڈیٹیلز نکلوائی تھیں۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

کل جب وہ آدمی عبیرہ کو لیے کر جا رہے تھے تو غالباً تبھی یوسف نے انہیں دیکھ لیا۔ وہ زینب کے گھر عبیرہ سے ملنے جا رہا تھا۔ عبیرہ اور حائقہ کو زینب کے گھر رہتے دو ماہ ہو گئے تھے۔ یوسف ان کے بارے میں لاعلم نہیں تھا۔ 

عبیرہ کی آنکھوں سے آج پٹی اتر چکی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے سارا منظر دھندلا دکھائی دیا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں پوری نہیں کھولی تھی۔  آنکھیں کھولنے کے بعد اس نے فوراً سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ 

کچھ پلوں بعد اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کے سامنے ایک لیڈی ڈاکٹر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ یوسف کی نظریں بھی عبیرہ کے چہرے پر ہی ٹکی تھیں۔ 

"آپی۔۔ بھائی“ آنکھیں کھولتے ہی اس نے حائقہ اور یوسف کو پکارا تھا۔ جس پر یوسف جلدی سے آگے بڑھا۔ 

"عبیرہ میں یہی ہوں“ یوسف نے عبیرہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا جس پر اس نے چہرا موڑ کر اپنے بھائی کو دیکھا۔ اور مسکرا دی۔

"عبیرہ کیا تمہیں نظر آ رہا ہے“ ڈاکٹر نے اس سے پوچھا تو اس نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ 

"حائقہ آپی“ عبیرہ نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ جس پر یوسف نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تبھی کسی نے آ کر دروازا کھٹکھٹایا۔ یوسف دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"اسلام و علیکم! جی کہے “  یوسف نے دروازا کھولا تو سامنے عدیل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ اسے پہچان گیا تھا۔ 

"اس دن آپ کے ساتھ جو لیڈی میرے ساتھ گئی تھی۔۔۔ ان کی ڈیٹھ ہو گئی ہے“ عدیل نے یوسف کو بتایا تو یوسف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔

تھوڑی دیر بعد ایک ایمبولینس یوسف کے گھر کے باہر آ کر روکی تھی۔ وہ لوگ حائقہ کو وہاں اندر رکھ کر واپس چلے گئے۔ انہیں یوسف کے گھر کا ایڈریس بھی عدیل نے دیا۔تھا۔ 

کمرے میں آ کر یوسف نے عبیرہ کو بتایا تو اس نے حیرانی سے یوسف کو دیکھا اور نفی میں سر ہلانے لگی۔ اس خبر کو سن عبیرہ کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔ لیکن ڈاکٹر کے کہنے پر اس نے اپنے آنسوں پر بندھ باندھا تھا۔ کیونکہ یہ اس کی آنکھوں کے لیے نقصان دہ تھا۔ عبیرہ نے باہر آ کر حائقہ کا چہرہ دیکھا تو وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ واقعے ہی کوئی اپسرا تھی۔ اتنی خوبصورت۔۔۔۔

عبیرہ نے کھبی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کی خواہش یوں پوری ہو گئی۔ ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئی تھی۔ 

"میں خود کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں“ عبیرہ کو اپنے کہے گئے الفاظ یاد آئے تھے۔ اس نے کھبی سوچا نہ۔ہو۔گا کہ۔اس کی خواہش تب پوری ہو گئی جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئی۔ 

مسجد میں اعلان کروایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے اچھے سے نہلا کر خوشبو لگا کر تیار کیا گیا۔ اس کے آخری سفر کی تمام تیاریاں کر کے اسے شان سے رخصت کیا گیا تھا۔ وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے جا رہی تھی اسی لیے اسے اچھے سے تیار کر کے رخصت کیا گیا تھا۔

جب حائقہ کا جنازہ اٹھایا گی اتو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لیکن عبیرہ۔۔۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں۔۔ اگر کھبی کوئی پانی کا قطرہ آنکھ کی حدود پار کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسے اپنی انگلی کے پوروں سے چن لیتی۔۔۔ وہ مسلسل ایک ہی ورد کیے جا رہی تھی

اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

زوہیب موبائل، کیز اور والٹ اٹھائے نیچے آیا۔ سامنے ہی نجمہ بیگم ٹی وی دیکھ رہیں تھی۔ زوہیب کو آتا دیکھ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ زوہیب قدم قدم چلتا ان کے پاس آیا تو انہوں نے ٹی وی بند کر کے زوہیب  کا سر اپنی گود میں رکھا۔

"کہاں رہتے ہوں۔۔۔ ماں کو بھی وقت دیے دیا کروں۔۔ ہر وقت تو تم گھر سے باہر رہتے ہوں یا پھر کچھ دیر کے لیے گھر کی بجائے اپنے کمرے کا چکر لگا کر چلے جاتے ہوں“ نجمہ بیگم نے پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے شکوہ کیا تھا۔ جبکہ زوہیب تو آنکھیں بند کیے ماں کی گود کا سکون محسوس کر رہا تھا۔ 

"مصروف تھا ماما“ زوہیب نے آنکھیں بند کیے جواب دیا تھا۔

" ہاں اب تو کام ماں سے بھی ضروری ہو گئے ہیں “ نجمہ بیگم نے انگلیاں اس کے بالوں میں چکاتے خفگی سے پوچھا تھا۔جس پر زوہیب نے جواب دیے بنا ان کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسہ دیا اور ہلکا سا مسکرایا تھا۔ 

"اب ناراضگی دور کرنے کے مکھن لگا رہے ہوں۔۔ چلو چلو۔۔ آج جلدی گھر آنا پھر مجھے اچھا سا ڈنر کروانا" نجمہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں اسے ڈانٹتے ہوئے ڈنر کی فرمائش کی جس پر زوہیب ہنس دیا۔

"اوکے ماما میں چلتا ہوں “ کچھ دیر بعد زوہیب کے موبائل پر عدیل کا میسج آیا تو وہ دیکھتے ہوئے زوہیب نے نجمہ بیگم کی گود سے سر اٹھایا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے باہر چلا گیا۔ اس نے گاڑی کا رخ حیدر صاحب کے گھر کی طرف کیا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ارشیہ صبح اٹھی تو رات رونے کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا لیکن اس کے دل کا بوجھ سرک چکا تھا۔ صبح نماز پڑھ کر تلاوت کی اور پھر دوپٹہ اٹھا کر اپنے چہرے کے گرد باندھا۔دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرا اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ 

 شیشے میں اپنا عکس دیکھ مسکراہٹ نے ارشیہ کے لبوں کو چھوا تھا۔ اس نے ایک بھرپور نظر خود پر ڈالی اور بار بار دوپٹے کو سیٹ کرتی باہر نکلی۔ اسے حجاب کرتے دو دن ہوں چکے تھے۔ جیا بیگم اور حیدر صاحب نے اس کا فیشن سمجھ اسے کچھ نہ کہا تھا۔

"ارے کدھر“   لاؤنچ سے گزرتی ارشیہ کے آگے لاؤنچ کے دروازے کے پاس کھڑے زوہیب نے اچانک سے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا راستہ روکا تھا۔ ارشیہ جو کہ دوپٹے کا ہالے اپنے چہرے کے گرد لپیٹے حجاب کیے باہر جا رہی تھی۔ اس کے اس طرح روکنے پر اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

زوہیب نے ایک تفصیلی نظر سے ارشیہ کو دیکھا جو کہ پہلے تو پیاری تھی لیکن اب دوپٹے کو چہرے کے گرد لپیٹے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔

"ہٹو میرے راستے سے“ ارشیہ نے اپنے دوپٹے کو سیٹ کرتے ہوئے نظریں جھکا کر کہا تھا جس پر زوہیب نے قہقہہ لگایا۔

"تمہیں ایک بات بتاؤں۔۔۔ جس کے پاس تمہارے راز ہوں نہ اسے کھبی ہلکا نہیں لیتے۔۔۔ یہ جو تایا، تائی اور موم ڈیڈ تمہارا فیشن سمجھ رہے ہیں۔۔۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ فیشن کی بجائے ان کی چہیتی کیا گل کھلا رہی ہے۔۔۔ ڈروں اس وقت سے ارشیہ بی بی جب میں سب کے سامنے تمہارا یہ راز افشاں کروں گا“ زوہیب نے راز داری سے کہتے ہوئے نحوست سے ارشیہ کے حجاب کو دیکھتے ہوئے کہا اور آخر میں اسے دھمکی دی۔جس پر ارشیہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ 

اس کا مطلب تھا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ ارشیہ کا حیرت سے کھلا منہ دیکھ زوہیب نے طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور باہر جانے کے لیے مڑا جب ارشیہ کے لفظوں نے اس کے قدم زنجیر کیے تھے۔

"یہ راز نہیں ہے۔۔۔ بتا دوں تم سب کو۔۔۔ میں ڈرتی نہیں ہوں نہ تم سے نہ ہی ڈیڈ موم یا چاچو چچی سے۔۔ سمجھے تم“ ارشیہ نے جلد ہی اپنی حیرت پر قابو پاتے ہی اسے پیچھے سے پکار کر اونچی آواز میں کہا تھا جس پر زوہیب نے واپس مڑ کر اسے دیکھا۔

"ہاں میں نے حجاب شروع کیا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ میرے اللّٰہ کا حکم ہے۔۔ سمجھے تم۔۔۔ میں تم جیسے بزدلوں سے نہیں ڈرتی“ ارشیہ نے پر اعتماد لہجے میں بغیر ڈرے کہا تھا۔ زوہیب کی نظر اس کے پیچھے بت بنے حیدر صاحب پر پڑی تو اس کے لب ایک طرف سے مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

اچانک بت بنے حیدر صاحب میں غصے کی لہر اٹھی اور وہ غصے سے بھرے ارشیہ کی جانب بڑھے اور اسے اپنی طرف موڑ کر کھینچ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔

"تم۔۔۔ تمہیں شرم نہ آئی یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔ اتارو اسے“ حیدر صاحب غصے سے دھاڑے تھے جس پر ارشیہ نے صدمے سے انہیں دیکھا۔ بے اختیار ہی اس کی پکڑ اپنے حجاب پر مضبوط ہوئی تھی.

"بابا میری بات سنیں۔۔ بابا یہ اللّٰہ کا حکم ہے۔۔ جو کہ سب سے معتبر ہے۔۔ میں۔۔۔ میں اسے نہیں اتار سکتی۔۔ بابا“ ارشیہ نے سمجھانے سے انداز میں حیدر صاحب کو سمجھانا چاہا لیکن وہ اس وقت کچھ بھی سمجھے کے موڈ میں نہیں تھے اسی لیے اس کے سر سے حجاب پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے ارشیہ کے کمرے کی طرف بڑھے۔ 

زوہیب وہاں کھڑا صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔ سمجھ آتے ہی وہ آگے بڑھا تھا۔  وہ تو صرف ارشیہ کو ڈرانا دھمکانا چاہتا تھا۔ اس دن کلینک میں جو ارشیہ نے کہا اور آفس میں اسے تھپڑ کا کہا تھا وہ صرف اس کے بدلے اس کے دل میں اپنا ڈر پیدا کرنا چاہتا تھا تاکہ آگے سے وہ اس سے بات کرتے ہوئے سو بار نہ سہی ایک بار تو سوچے۔ 

"تایا۔۔ تایا۔۔ بابا۔۔ بابا چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے“ زوہیب نے حیدر صاحب کو پکارا تھا۔ ارشیہ بھی حیدر صاحب کے ہاتھ سے خود کو چھوڑوانے کی کوشش کی۔ حجاب کے کپڑے کے ساتھ ارشیہ کے بال بھی ان کے ہاتھ میں تھے۔ درد کی شدت سے ارشیہ کی آنکھوں سےآنسوں نکل آئے۔ 

"اب یہاں ہی سڑو جب تک تمہارے دماغ کا یہ فتور نہیں نکل جاتا۔۔۔ کمرے سے باہر قدم رکھے تو جان لے لوں گا“ارشیہ کے کمرے کا دروازا کھول کر حیدر صاحب نے اسے اندر کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا اور پھر دروازا بند کرکے دروازے کو کنڈی لگا دی۔

"تایا۔۔ تایا کیا کر رہے ہیں آپ“ زوہیب نے ان کو کنڈی لگاتے دیکھ پوچھا تھا۔

"اور تم۔۔ تمہیں جب پتہ تھا تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔ ہاں۔۔ کوئی بھی۔۔۔ کوئی بھی اس کمرے کا دروازا کھولنے کی جرات نہ کرنا “ حیدر صاحب نے زوہیب کی بات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے چبا چبا کر ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔ جیا بیگم بھی شور کی آواز کی وجہ سے وہاں آگئی تھی تو حیدر صاحب نے دونوں کو تنبیہ کی اور غصے سے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔

"ک۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ اور یہ۔۔ حیدر کیا کہہ کر گئے ہیں زوہیب“ حیدر کی باتیں جیا بیگم کے سر کے اوپر سے گزر رہیں تھیں اور اندر سے مسلسل ارشیہ کے دروازا کھٹکھٹانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

"تائی امی۔۔ ارشیہ نے وہ نقاب وغیرہ شروع کر دیا ہے۔۔ اسی وجہ سے تایا کو غصہ آ گیا“ زوہیب نے ایک بے بسی نظر دروازے پر ڈالی۔ اگر اسے حیدر کے اس ردعمل کا زرا بھی پتہ ہوتا تو کھبی نہ کہتا۔ کیونکہ وہ بھی تو اب عبیرہ سے محبت کر بیٹھا تھا۔ جانے یہ بدلہ کب محبت میں بدلہ تھا لیکن اب زوہیب اسے ہر حال میں ڈھونڈنا چاہتا تھا۔

"یہ لڑکی اسے ہمارے پیار کا یہ صلہ دیا ہے ہمیں۔۔۔ کیا کمی رہ گئی تھی“ جیا بیگم زوہیب کی بات سن کر غصے میں آئی تھی اور کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

ارشیہ نے ابھی صرف حجاب کیا تھا تو حیدر کا رد عمل اتنا شدید تھا تو اگر انہیں عبیرہ کے بارے میں پتہ جاتا تو۔۔ زوہیب نے بے اختیار جھرجھری لی تھی۔ وہ بے بسی بھری نگاہ ارشیہ کے کمرے کے دروازے پر ڈال کر واپس چلا گیا۔ ابھی اسے عبیرہ کو ڈھونڈنا تھا۔جبکہ ارشیہ کی صدائیں اب بھی کمرے سے آ رہی تھیں جو کہ خالی لوٹ رہیں تھیں۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

زیاد اور ارسل اس وقت سمیر کے فارم ہاوس پر تھے۔ نمرا بار بار زیاد کو کال کر رہی تھی۔ کل اس کی منگنی تھی۔ نعمان صاحب نے اس سے پوچھا تو اس نے خاموشی سے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ اب نعمان صاحب اور نمرا کی والدہ اس کی شادی کرنے کا کہہ رہے تھے۔

اس دن کے بعد نمرا زیاد کو میسیجز اور کال پر کال کر رہی تھی۔ لیکن وہ اس کے ہر میسج ہر کال کو نظر انداز کر رہا تھا۔ زیاد نے جھنجھلاتے ہوئے فون کو دیکھا جہاں نمرا کے کافی میسیج اور کال آئی ہوئی تھیں۔ ابھی بھی وہ مسلسل کال کر رہی تھی۔ زیاد ارسل سے ایکیسوز کرتا باہر آیا اور نمرا کی کال پک کی۔

"ہیلو۔۔ ہیلو زیاد۔۔ میں کتنے دنوں سے تمہیں کال کر رہی ہوں۔۔ نہ تم میری کال پک کر رہے ہوں نہ ہی میرے میسیج کا جواب دیے رہے ہوں۔۔ مجھے کیوں اگنور کر رہے ہوں۔۔ مجھے میری غلطی تو بتا دوں۔۔۔ یوں بے رخی کی سزا تو نہ دوں“ نمرا نے زیاد کے فون اٹھاتے ہی مسلسل بولنا شروع کیا۔

"کیا ہو گیا ہے نمرا۔۔ میں بزی تھا“ زیاد نے بے زاری سے اسے کہا تھا جس پر دوسری طرف نمرا کی آنکھوں میں پانی آیا تھا۔

"کیا کام مجھ سے بھی ضروری تھا۔۔ زید میں مر رہی ہوں۔۔ میرے بابا۔۔ میرے بابا میری کسی اور سے شادی کروا رہے ہیں۔۔ پلیز کچھ کرو۔۔ پلیز میں مر جاؤں گئی“ نمرا نے دکھ سے پوچھا تھا۔ آخر میں اس کی آواز بھاری ہوئی تھی۔

"تو مر جاؤں میں کیا کروں“ زیاد کے لہجے میں بے زاری کے سوا کچھ نہیں تھا جبکہ دوسری طرف نمرا نے بے یقینی سے زیاد کی بات سنی تھی۔

"تم۔۔ تم کیا کہہ رہے ہوں۔۔ تمہیں یاد ہے۔۔ تم نے مجھے پرپوز کیا تھا۔۔ تم۔۔ تم اپنے ماما بابا کو بھی میرے گھر بھیجنے والے تھے۔۔ تم۔۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہوں۔۔ دیکھو اگر تم کوئی مزاق کر رہے ہوں تو پلیز نہ کرو۔۔ میں واقعے ہی مر جاؤں گئی زیاد“ نمرا نے اٹکتے ہوئے کہا تھا۔ اسے کہاں گمان تھا کہ وہ شخص جیسے وہ چاہے گئی وہ یوں بھی اسے ٹھکرا دیے گا۔۔

"ہاں وہ پرپوز۔۔ وہ تو میں نے اس لیے کیا تھا کہ تمہارے ذریعے ارشیہ سے کام نکلوائے جا سکے۔۔ آخر تم دونوں 

BFF (Best Friend Forever)

جو ہوں۔۔ تو بس اب میرا کام ختم۔۔ میری طرف سے جیو یا مروں۔۔ مجھے کیا۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا“ “ زیاد نے اس کے سر پر گویا بم گرا تھا۔ 

"تم۔۔ تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ تم مجھ سے محبت “ نمرا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔ آنسوں اس کی انکھوں سے بہہ رہے تھے۔ 

"او شٹ اپ... کوئی محبت وحبت نہیں ہے مجھے تم سے۔۔۔ اور ہاں۔۔ منگنی کی مبارک ہوں۔۔۔  آئندہ مجھے کال نہ کرنا۔۔۔ بائے“  اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی زیاد اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور آخر میں کہہ کر کھٹاک سے فون بند کیا اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔ ارسل کو کچھ فائلز پکڑا کر وہ واپس گھر کی طرف چلا گیا۔

جب کہ دوسری طرف نمرا بے یقینی سے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے گال پر لڑھک رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھتی گئی۔ اس نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے۔۔ زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ رو رہی تھی۔۔ چیخ رہی تھی۔ اس کی محبت اس سے دور ہو گئی۔۔۔

زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ زیاد نے اس کو کہا تھا کہ میری طرف سے مر جاؤں اسے فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔وہ اپنے غم پر قابو پانے کی کوشش میں خود بے قابو ہو رہی تھی۔ کوئی کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ شخص جیسے اس نے دل میں بسایا ہوں وہ کہہ دیے کہ تم جیوں یا مروں مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ 

آج اسے اپنی پھپھو اور ماما کی نصیحت یاد آ رہی تھیں۔ وہ ہمیشہ اسے اپنے آپ کو سنبھالنے کا کہتی۔۔ وہ ہمیشہ اسے کہتی تھیں کہ کسی نامحرم کو اپنے دل میں جگہ نہ دینا۔۔ اس دل میں صرف اللّٰہ کی محبت کو آنے دینا۔۔ کسی نامحرم کے لیے اپنے دل کے دروازے بند رکھنا۔۔ ورنہ بہت نقصان اٹھاؤں گئی۔۔۔

"وہ ٹھیک کہتی تھیں۔۔۔ سب ٹھیک کہتے تھے۔۔ میں غلط تھی۔۔ سب ٹھیک کہتے تھے “ نمرا نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے ایک ایک لفظ پر زور دیتے چیختے ہوئے کہا تھا اس وقت وہ ہزیانی کیفیت میں چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔۔ زیاد کو واپس آنے کی فریاد کر رہی تھی لیکن سب بے سود۔۔ 

اس کی چیخوں پکار سن کر سب گھر والے اس کے کمرے کی طرف بھاگے۔ نعمان صاحب نے کمرے کا دروازا کھولا تو سامنے نمرا زمین پر پاگلوں سی حالت میں بیٹھی چیختی چلا رہی تھی۔ 

نمرا کی والدہ اور پھپھو نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ روکی۔ اس وقت سامنے بیٹھی نمرا کسی پاگل سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اچانک چیختے چیختے وہ ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی پورے کمرے میں گونجنے لگی تھی۔ 

دحیہ وہاں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی آپی کو دیکھ رہا تھا۔ نمرا نے ہمیشہ اسے اپنا چھوٹا بھائی مانا تھا۔ وہ بھی اسے اپنی آپی مانتا تھا۔ اس کی ہر خواہش پوری کرنا نمرا پر فرض ہوتا تھا۔ دونوں مل کر نعمان صاحب سے چپ چپ کر کھٹی چیزیں کھاتے تھے۔ کیونکہ ڈاکٹر نے کھٹی چیزیں دحیہ اور نمرا دونوں کو منع کی ہوئی تھیں۔

ہنستے ہنستے نمرا اپنے ناخنوں سے اپنے منہ کو نوچنے لگی۔ اس نے اس شخص سے بے انتہا محبت کی تھی جو کہہ رہا تھا کہ میری طرف سے مر جاؤں مجھے فرق نہیں پڑتا۔ اپنے محبوب کے منہ سے اپنے لیے یہ الفاظ سنانا کتنا تکلیف دہ تھا یہ اس وقت کوئی نمرا سے پوچھتا۔ 

اس نے پہلے دن سے ہی صرف اسے سوچا تھا۔ نمرا نے اس کو اپنے دل میں بسایا تھا۔ اس کی وجہ سے اس نے اپنا سبجیکٹ چینج کر کے زیاد والا سبجیکٹ رکھا تھا۔ وہ آج تک سمجھتی آئی تھی اسے نمرا سے محبت تھی لیکن نہیں۔ وہ خوش تھی کہ اس کی محبت اسے مل جائے گئی لیکن دنیا میں صرف چند خوشنصیب لوگ ہوتے ہیں جنہیں ان کی محبت ملتی ہے ورنہ اس دنیا میں بہت کم لوگوں کو ان کی۔محبت قسمت سے ملتی ہے۔۔۔ اگر ہر ایک کو اس کا من چاہا شخص مل جاتا تو سب ہی الٹ ہو جاتا۔ کیونکہ انسان کی پسند ناپسند ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔۔۔

نمرا کی والدہ اور پھپھو نے آگئے بڑھ کر اسے سنبھالا۔ نعمان صاحب نے جلدی سے ڈاکٹر کو بلایا۔ ان دونوں سے نمرا کو سنبھالنا مشکل ہوا تھا۔ دحیہ وہاں دروازے میں کھڑا اپنی کزن کی حالت دیکھ رہا تھا جو کہ کھبی اونچی آواز میں ہنسنے لگتی اور کھبی چیختے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی اور کھبی اپنے ناخنوں سے اپنا منہ نوچنے لگتی۔

ڈاکٹر نے آ کر نمرا کا چیک اپ کیا تو انہوں نے جلدی سے اس کی حالت کے پیشِ نظر اسے نیند کا انجیکشن لگا دیا۔ جس کی وجہ سے وہ جلدی ہی غنودگی میں چلی گئی۔

"ان کو کافی گہرا صدمہ لگا ہے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کے دماغ پر کافی اثر ہوا ہے۔۔ ان سیمپل ورڈز یہ پاگل ہو گئیں ہیں۔۔ میرا سجیشن ہے کہ آپ انہیں کسی پاگل خانے جمع کروا دیں۔۔ ورنہ یہ خود کے ساتھ ساتھ باقی گھر والوں کے لیے بھی نقصان کا باعث بنے گئیں“ ڈاکٹر اپنے پروفشنل انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

 ڈاکٹر کے جاتے ہی نعمان صاحب اپنا سر پکڑ کر وہاں بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھوں میں پانی تھا۔ اولاد کا دکھ ماں باپ کو زندہ رہتے ہی مار دیتا ہے۔ اولاد کے دکھ کے علاوہ کوئی دکھ ماں باپ کے لیے بڑھا نہیں ہوتا۔ 

نمرا کی والدہ بھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے بے آواز رو رہی تھیں۔ دحیہ کی والدہ نے آگے بڑھ کر اپنی بھابھی کو دلاسہ دیا تھا۔ ان کی نظریں بھی نمرا کے چہرے پر تھیں جس پر خراشیں آئی ہوئی تھی۔

دحیہ دہلیز کے ساتھ سہما سا کھڑا کھبی بار بار سب کو دیکھ رہا تھا۔ ابھی کل ہی تو ان کے گھر خوشیاں آنی تھیں۔ کل اس کی آپی کی منگنی تھی۔ وہ چھوٹا بچہ تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ ڈاکٹر کی کہی بات اسے سمجھ نہ آئے۔

نعمان صاحب نے جب نمرا کو پاگل خانے بھیجوانے کا سب کو بتایا تو نمرا کی والدہ نے منع کر دیا۔ وہ کیسے اپنے ساری زندگی کی کمائی اپنی کی اولاد کو پاگل پاگل خانے بھیج سکتی تھیں۔ نعمان صاحب اپنا گھر بار سب بیچ کر دوسرے ملک شفٹ ہو گئے۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

گھر پہنچ کر ارسل نے اپنی فائلز دیکھی تو اس کے چھکے چھوٹے۔ ان سب فائلوں میں اس کی فائل نہیں تھی  اس نے جلدی سے دوبارا فائلوں کو دیکھا تو وہاں کوئی فائل نہیں تھی۔ 

اس نے جلدی سے موبائل نکال کر ارسل کو کال ملائی تو اس کا نمبر بزی جا رہا تھا۔  زیاد نے دوبارا کال کی تو اس کا فون پاور آف تھا۔ زیاد نے اپنی گاڑی کی چابی۔اٹھائی۔اور باہر کی۔طرف بڑھا لیکن سامنے دروازے میں ہی۔ارسل۔گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا مزے سے فائل پڑھ رہا تھا۔ 

"ارے۔۔ کہاں جا رہے ہوں۔۔ ادھر آؤں یہ فائل تو ریڈ کرو زرا زیاد“ ارسل نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔

جس پر زیاد قدم قدم چلتا اس طرف گیا تو ارسل نے گاڑی کے بونٹ سے چلانگ لگائی اور سیدھا کھڑے ہوتے ہی اس پر بندوق تان لی۔ 

"میرے دونوں کزنز کو تم نے مارا اور مجھے ارشیہ اور اس زوہیب کے پیچھے لگا دیا“ ارسل نے اس پر گن تانے پوچھا تھا۔

"ارسل میری بات سنو۔۔۔ پلیز اس گن کو نیچے رکھو اور میری بات“ زیاد نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ارسل نے فائر کیا جو کہ زیاد کے  سیدھے دل کے مقام پر لگی۔ 

"تم نے میرے بھائیوں کو مارا۔۔۔ میرے ماما بابا کے بعد وہ دنوں ہی میرا سہارا تھے۔۔۔ تم نے مجھ سے میرا سہارا چھینا۔۔۔ تمہیں میں زندہ نہیں چھوڑوں گا“ ارسل نے کہتے ہوئے پہ در پہ فائر کیے تھے۔ جس سے زیاد کا وجود چھلنی ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ زمین پر بیٹھتا گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ 

ارسل اسے مار کر وہاں سے نکلا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گاڑی فل سپیڈ میں بھگالی۔ وہ جلد از جلد یہاں سے دور جانا چاہتا تھا۔ راستے میں اس کی گاڑی بے قابو ہوئی تھی اور گاڑی سڑک کنارے درخت کے ساتھ جا ٹکرائی۔ ارسل کا سر بری طرح سٹرنگ پر لگا۔

 اچانک گاڑی کے انجن میں آگ بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ کی لپیٹ میں ساری گاڑی آ گئی۔ لوگ وہاں کھڑے اسے دیکھ بس کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے جلدی سے فائر بریگیڈ کو کال کی۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ارسل جل کر مر گیا تھا۔

جبکہ زیاد وہاں ہی لیٹا اپنی زندگی کے گناہوں کو یاد کیے تڑپ رہا تھا۔ اس کی۔ذندگی کے سارے گناہ آج اس کی آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ ایک آنسو اس کی انکھ سے ٹپکا تھا اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اور پھر اس کی  زندگی کا بھی اختتام ہوا تھا۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

آج حائقہ کا انتقال ہوئے ہفتہ ہونے کا آیا تھا۔ زوہیب ان دنوں میں عبیرہ کو تلاش کر چکا تھا۔ کمرے میں آ کر اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔

"میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ میں اپنی زندگی میں خوش تھا۔۔ پھر وہ کیوں آئی میری زندگی میں۔۔۔ اگر آنا بھی تھا تو میرے دل میں اس کے لیے محبت کیوں پیدا کی۔۔۔ بدلہ لینا تھا میں نے۔۔۔ مجھے اس سے ملا دیے۔۔۔۔ میں ہر وہ کام کروں گا۔۔۔۔ جو تجھے پسند ہے میں ہر برا کام چھوڑ دوں گا۔۔۔“ زوہیب نے چیختے ہوئے شکوہ کیا تھا۔ دو مہینے ہونے کو آئے تھے اس نے ہر جگہ اسے تلاشا لیکن وہ اسے کہی بھی نہیں مل رہی تھی۔ آج اس کا ضبط جواب دیے گیا تھا۔

ان دو مہینوں میں اس نے ہر برا کام چھوڑ دیا تھا۔ وہ اندر بیٹھا رو رہا تھا۔ ہاتھ اس نے دعا سے انداز میں اٹھائے ہوئے تھے۔ تبھی کوئی دروازا کھول کر اندر داخل ہوا۔

"سائیں۔۔۔ سائیں وہ لڑکی کا پتہ چل گیا ہے“ اس آدمی نے ہانپتے ہوئے آ کر اطلاع دی۔ زوہیب نے ایک نظر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر ایک نظر مڑ کر اسے دیکھا تھا۔ اور اٹھ کر جلدی سے اس شخص سے ایڈریس پوچھا تھا۔ 

گاڑی فل سپیڈ میں بھگاتے ہوئے وہ یوسف کے گھر پہنچا تھا۔ گاڑی سے اتر کر اس نے جلدی سے دروازا کھٹکھٹایا۔ جس پر یوسف باہر نکلا۔ یوسف نے ایک قہر آلودہ نظر زوہیب پر ڈلیا اور واپس اندر کی طرف بڑھنے لگا تو زوہیب نے کی آواز گونجی۔

"مجھے معاف کردوں۔۔۔ پلیز مجھے واپس نہ موڑوں۔۔۔ میں بھیک مانگتا ہوں۔۔ ایک دفعہ۔۔ بس ایک دفعہ مجھے اس سے ملنے دوں“ زوہیب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے فریاد کی تھی۔ آج محبت میں اس انا کے پجاری کا انا کا بت ٹوٹا تھا۔ یوسف کے دروازا بند کرتے ہاتھ ٹہرے تھے۔ اس نے دوبارا زوہیب کو دیکھا تو اسے وہ برسوں کا مسافر لگا تھا۔

"پلیز میں اسے کچھ نہیں کہوں گا۔۔ بس ایک دفعہ دیکھنے دوں۔۔ میں میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں“ زوہیب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو یوسف نے واپس مڑ کر عبیرہ کو نقاب کرنے کا کہا اور ایک طرف ہو کر اسے اندر داخل ہونے کا کہا تھا۔ 

زوہیب نظریں جھکائے اندر داخل ہوا تو اسے سامنے ہی وہ نظر آئی تھی۔ اس کے دل کو جیسے سکون نصیب ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس نے نظریں جھکائی تھی۔ قدم قدم چلتا وہ عبیرہ کے پاس آیا۔

"مجھے معاف کر دوں۔۔ میں آج اپنی غلطی کی معافی مانگتی ہوں۔۔۔ مجھے معاف کر دوں۔۔ خدا کے لیے“ زوہیب نے عبیرہ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ آج وہ انا کا پجاری اپنی انا کو مارے اس کے قدموں میں بیٹھا معافی مانگ رہا تھا۔ عبیرہ اس کی آواز پہچان گئی تھی۔

یہ وہی تھا جو اس دن اسے اندھی کہہ رہا تھا۔۔۔  عبیرہ نے ایک نظر اسے دیکھا۔

"اس دن تم فرعون بنے تھے۔۔ اس دن تم نے مجھے اندھی کہا تھا جبکہ۔یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔۔ اگر اس دن اللّٰہ کی مدد نہ آتی تو تم پر تو شیطان حاوی تھا۔۔۔ آج دیکھ لوں۔۔ اللّٰہ نے میری عزت بھی محفوظ رکھی اور آج مجھے میری بینائی بھی واپس کر دی“ عبیرہ نے نقاب کو دو انگلیوں میں پکڑے اسے یاد دہانی کروائی تھی جس پر زوہیب پر گھڑوں پانی پڑا تھا۔

"میں معافی مانگنے آیا ہوں۔۔۔ خدارا مجھے معاف کر دوں۔۔۔۔میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔۔۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں اب کوئی بھی برا کام نہیں کروں گا۔۔۔ خدا کے لیے۔۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دوں۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے گناہ زیادہ ہیں لیکن ان گزرتے دنوں میں میں نے ہر پل اپنے لیے معافی کے ساتھ تمہارے ملنے کی دعآ مانگی تھی“ زوہیب کی نظریں ابھی بھی زمین پر تھیں۔ عبیرہ نے ایک نظر یوسف کی طرف دیکھا۔زوہیب زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا اپنی محبت کے اقرار کے ساتھ معافی بھی مانگ رہا تھا۔

"عبیرہ اندر جاؤں“ یوسف نے عبیرہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر عبیرہ جلدی سے اندر کی جانب بڑھی۔ 

"کیا چاہتے ہوں“ یوسف نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے زوہیب سے پوچھا۔

"میں تمہاری بہن کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔میں اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ لوں گا۔۔۔ پلیز مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹانا“ زوہیب نے یوسف کے سامنے نظریں جھکائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔

"تمہارے ماں بابا اس رشتے سے راضی ہیں؟“ یوسف نے ویسے کھڑے ہی پوچھا تھا۔ جا پر زوہیب نے ایک نظر اسے دیکھا۔

"ہاں۔۔۔ میں انہیں راضی کر لوں گا۔۔۔ وہ میری بات نہیں ٹالے گئے“ زوہیب نے یوسف کے چہرے نظریں جمائے پوچھا تھا۔

"ٹھیک ہے پھر تم انہیں کہوں کہ وہ رشتہ لے کر آئے۔۔۔ میں عبیرہ سے اس کی رضامندی پوچھ کر تمہیں بتا دوں گا۔۔۔ کہ اس کا جواب کیا ہے۔۔۔ یاد رکھنا اس کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہو گا“ یوسف نے آخر میں گویا اسے باور کروایا تھا۔ جس پر زوہیب نے بے یقینی سے یوسف کو دیکھا۔اور پھر یقین دہانی کرواتا واپسی کی راہ لی تھی۔ وہ خوش تھا جو جانتا تھا کہ نجمہ بیگم اور اکرام صاحب اس کی خوشی کی خاطر مان جائے گئے۔

اس کے جانے کے بعد یوسف نے عبیرہ سے پوچھا تو اس نے اپنے فیصلے کا اختیار یوسف کو دیے دیا۔  زوہیب نے گھر پہنچ کر نجمہ بیگم اور اکرام صاحب سے بات کی۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو زوہیب ان کے قدموں میں جا بیٹھا۔ 

"بابا۔۔۔ماما۔۔ پلیز میری خوشی کی خاطر آپ لوگ ایک دفعہ۔۔ ایک دفعہ میرے کہنے پر اس کے گھر رشتہ لے کر چلے۔۔ ماما میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔ پلیز مجھے وہ نہ ملی تو آپ کا جیتے جی مر جائے گا۔۔۔ دو مہینوں سے پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔ اگر اب وہ مجھے نہ ملی تو ماما۔۔۔ شاید میں نہ بچو“ اکرام صاحب اور نجمہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نجمہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گلے لگایا تھا۔

"میں اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر ضرور جاؤں گئی۔۔ کب چلنا ہے“  نجمہ بیگم نے زوہیب کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو اکرام صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس سے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔ آج ان کو لگا تھا کہ شاید وہ اسے نہ ملی تو واقعے ہی ان کا بیٹا جیتے جی مر جائے گا اسی لیے انہوں ہامی بھرلی تھیں۔

اگلے دن اکرام صاحب اور نجمہ بیگم اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے عبیرہ کے گھر اس کا رشتہ لینے گئے تو یوسف نے عبیدہ سے پوچھتے ہوئے جواب ہاں میں جواب دیا۔ نجمہ بیگم اور اکرام صاحب نے اپنے بیٹے کی پسند کو کھولے دل سے قبول کیا تھا۔

زوہیب کی آنکھوں سے تشکر کے آنسوں بہ گئے۔ اس دن سچے دل سے دعا مانگی تھی تو وہ قبول ہو گئی۔ اب زوہیب نے ہر برا کام چھوڑ دیا۔ اور اللّٰہ کے حضور اپنے ہر گناہ کی معافی مانگی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

آج اسے کمرے میں نظر بند کیے کافی دن ہو گئے تھے۔ جیا بیگم ماں تھی۔ اس کی حالت دیکھ ان کے دل کو کچھ ہوتا تھا لیکن حیدر صاحب پتھر کی چلتی پھرتی مورت بنے آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے تھے۔ انہیں بھی درد ہوتا تھا لیکن وہ کسی پر ظاہر نہ کرتے۔ 

ارشیہ ان دو دنوں میں اللّٰہ تعالیٰ کے اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن اپنی عبادات میں مصروف تھی۔ اس نے اپنے دل کو صرف اللّٰہ کے عشق کے لیے مختص کر لیا تھا۔ اس کا سب سے تقریباً رابطہ منقطع ہوچکا تھا۔ اسے نمرا کے بارے میں پتہ چلا تھا تو اسے دکھ تھا۔ 

لیکن وہ اس کے لیے ابھی کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اسے اس کے اپنے ہی گھر والوں نے اس کے کمرے میں ہی نظر بند کر رکھا تھا۔ 

عشاء کی نماز ادا کر کے وہ معمول کے مطابق قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنی شروع کر دی۔ اس نے وہاں سے پڑھنا شروع کیا جہاں اس نے تھوڑی دیر پہلے چھوڑا تھا۔ اس نے بلند آواز آیات اور ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ 

[حوالہ: سورۃ الانبیاء (سورۃ نمبر 21) آیت نمبر 35]

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ  الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ  فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا  تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵﴾

ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں ، اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤ گے ۔

[حوالہ: سورۃ الانبیاء (سورۃ نمبر 21) آیت نمبر 36]

وَ اِذَا رَاٰکَ الَّذِیۡنَ  کَفَرُوۡۤا  اِنۡ یَّتَّخِذُوۡنَکَ  اِلَّا ہُزُوًا ؕ اَہٰذَا  الَّذِیۡ  یَذۡکُرُ   اٰلِہَتَکُمۡ ۚ وَ ہُمۡ   بِذِکۡرِ  الرَّحۡمٰنِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۳۶﴾

اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے ، وہ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو اس کے سوا ان کا کوئی کام نہیں ہوتا کہ وہ تمہارا مذاق بنانے لگتے ہیں ( اور کہتے ہیں : )   کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتے ہیں؟ ( یعنی یہ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں )   حالانکہ ان ( کافروں ) کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن ہی کا ذکر کرنے سے انکار کیے بیٹھے ہیں ! 

دو آیات پڑھ کر ہی اس کی بس ہوئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔وہ رو رہی تھی۔ ان آیات کو پڑھتے اس کی ہچکی بندھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے اپنے رب کے عشق میں آنسوں بہہ رہے تھے۔ 

"لوگ کیسے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر خود خدائی کا دعویٰ کر سکتے ہیں کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ زمین اور آسمان کا مالک اللّٰہ ہے۔۔۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔۔ اے اللّٰہ میں جتنا تیرا شکر ادا کروں اتنا کم ہے۔۔ تو نے مجھے اس دلدل سے نکالا، میری انا کے بت کو توڑا۔۔۔ اور مجھے سجدہ ادا کرنے والوں میں شامل کیا“ ارشیہ نے ہاتھ باندھ کر ہونٹوں پر لگائے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا۔

اس کی ہچکی بند گئی تھی۔ وہ رب کتنا مہربان تھا۔ کتنا اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔۔ انہیں دن میں پانچ دفعہ اپنی طرف بلاتا ہے۔ لیکن کچھ منکر اس سے انکار کر کے کان منہ لپیٹے بیٹھے رہتے ہیں۔

حیدر صاحب جو کہ ارشیہ سے بات کرنے آئے تھے دروازے پر ان کے قدم رکے تھے۔ ان کے کانوں میں ارشیہ کی آواز گونجی تھی۔ ان آیات کا ترجمہ۔۔

حیدر صاحب کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ وہ جو بات کرنے آئے تھے وہ بھول چکے تھے۔ وہ فوراً سے پہلے وہاں سے واپس گئے۔ ان کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ جبکہ ارشیہ ابھی تک دعا مانگ رہی تھی۔ 

حیدر صاحب اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئے۔ ان کا ذہین ان آیات کے ترجمے میں اٹکا تھا۔ ان کا دماغ مختلف سوچیں سوچ رہا تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے سوچتے ہوئے اچانک ان کی آنکھ لگ گئی۔

"چھوڑوں۔۔۔ چھوڑوں مجھے۔۔۔کہاں لے کر جا رہے ۔۔۔ چھوڑوں“ حیدر صاحب نے اپنے آپ کو چھڑوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن بے سود۔ انہیں کوئی ان کے بالوں سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا۔ ان کو اپنا پورا جسم آگ کی لپیٹ میں آتا ہوا محسوس ہوا۔ 

"بابا۔۔۔ بابا۔۔ چھوڑیں میرے بابا کو۔۔۔ یہ میرے بابا ہیں۔۔ رحم کرو۔۔ خدا کے لیے رحم کرو۔۔۔ یا خدایا رحم۔۔ میرے بابا کو اس جہنم کی آگ میں نہ پھینکا۔۔۔ جیسے بھی تھے میرے بابا ہیں۔۔ اے میرے مولا تجھے تیری رحمت کا واسطہ ہے۔۔ رحم کر“  ارشیہ نے حیدر صاحب کو دیکھتا تو چیختے ہوئے پکارا۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو ارشیہ نے اپنے ہاتھ دعا سے انداز میں اٹھاتے ہوئے اپنے رب سے التجاء کی تھی۔

حیدر صاحب ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہوں نے خود کو دیکھا۔ اپنے آپ کو ٹٹولتے ہوئے انہوں نے اپنے سہی سلامت ہونے کی یقین دہانی کی۔ انہوں نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ یہ تہجد کا وقت تھا۔  وہ جلدی سے اٹھے اور ارشیہ کے کمرے کی طرف تقریباً بھاگتے ہوئے گئے۔ 

وہ اپنی بیٹی سے معافی مانگنے کے لیے بھاگے۔ انہیں یہ یاد تھا کہ ان کی جان بچانے کے لیے ان کی بیٹی دعا مانگ رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنا چاہتے تھے۔ ارشیہ کے کمرے کا دروازا کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

"اے میرے مولا تجھے تیری رحمت کا واسطہ۔۔۔ مجھے معاف فرما۔۔ میں بہت گناہگار ہوں۔۔ میرے ماں باپ کو بھی اپنی رحمت سے معاف فرما۔۔ تو تو رحیم ہے۔۔۔ رحمان ہے میرے مولا۔۔۔ اے میرے اللّٰہ ! آج میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئی ہوں۔۔۔  میری توبہ قبول فرما“ ارشیہ نے تہجد پڑھ کر جائے نماز پر بیٹھے دعا مانگی۔ دعا مانگنے کے بعد جانے کس خیال کے تحت اس نے دعا مانگ کر ایک بار نم آنکھوں سے کمرے کی چھت کی طرف دیکھا اور پھر سجدے میں چلی گئی۔ 

"اے۔۔۔ میرے۔۔۔ مولا“ سجدے میں اس کے منہ سے بس یہ الفاظ نکلے تھے۔ اس کی آنکھوں سے ایک آنسوں ٹوٹ کر جائے نماز میں جذب ہوا تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں بند کیں تھیں۔ مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔

"ارشیہ۔۔۔ ارشیہ میری بچی“ حیدر صاحب نے کمرے کا دروازا کھولتے ہوئے ارشیہ کو آوازیں دیں۔ اسے سجدے میں دیکھ وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئے۔

"مجھے معاف کر دوں میں بہت برا باپ ثابت ہوا ہوں۔۔۔ میں نے تمہیں صحیح غلط سمجھانے کی بجائے خود جیسا ضدی بنایا۔۔۔ خود میں اپنی ضد پر اڑھا۔۔۔۔ ارشیہ۔۔۔ ارشیہ میری بچی۔۔۔ مجھے معاف۔۔۔۔“ حیدر صاحب اس کے پاس ہی بیٹھے مدھم آواز میں اپنی غلطی مان رہے تھے۔ ارشیہ میں کوئی ہل چل نہ ہوئی تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ارشیہ کو ہلانا چاہا لیکن ان کا ہاتھ لگتے ہی ارشیہ ک بے جان جسم ایک طرف کو گر گئی جس کی وجہ سے حیدر صاحب کے باقی الفاظ ان کے منہ میں ہی رہ گئے۔

"ارشیہ“ الفاظ بامشکل ان کے حلق سے نکلے تھے۔۔۔ انہوں نے اٹکتے ہوئے ارشیہ کو پکارا لیکن وہ شاید اب کسی کی نہیں سننے والی تھی۔ دوپٹے کے ہالے میں بہت خوبصورت سی مسکراہٹ ارشیہ کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔

"مجھے معاف کردوں۔۔  میں معافی مانگتا ہوں اپنے زیادتیوں کی۔۔ ار۔۔ ارشیہ ایک۔۔ بار کہوں۔۔۔ صرف ایک بار کہہ دوں۔۔۔ تم۔۔ تم نے اپنے بابا کو معاف کیا۔۔ ارشیہ۔۔ میری۔۔ پیاری بیٹی۔۔ تم۔۔ تم تو اپنے بابا سے پیار کرتی ہوں نہ۔۔ پلیز۔۔ بابا کی بات مان لوں۔۔ ایک بار۔۔ ایک بار کہہ دوں۔۔ اٹھو ارشیہ۔۔ میں  تمہارا بابا تمہیں کہہ رہا ہوں۔۔ جیا۔۔۔ جیا ادھر آوں۔۔ ارشیہ“  حیدر صاحب ہزیانی کیفیت میں ارشیہ کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کو اٹھانے کی کوشش میں تھے۔ اسے نہ اٹھتا دیکھ انہوں نے جیا بیگم کو آوازیں دیں۔

جس پر جیا بیگم ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔ ایک پل کو تو ان کا دماغ مؤوف ہوا۔ پھر حیدر کی آوازیں سن کر وہ اٹھ کر آواز کی سمت بھاگی۔

"ایک۔۔ ایک بار اٹھ جاؤں۔۔ دیکھو آج تمہارا بابا تم سے معافی مانگنے آیا ہے۔۔ تم جو کہو گئی۔۔ ویسے ہی ہوں گا۔۔ پلیز میرے بچے۔۔ میری ارشیہ “ حیدر صاحب مسلسل اس کا چہرہ تھپتھپا رہے تھے۔ آخر میں  انہوں نے ارشیہ کو اپنے سینے میں بھینچا تھا۔ آنسوں ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ ان کی بیٹی ان سے کوسوں دور ہو گئی تھی۔ جیا بیگم تقریباً بھاگتے ہوئے اندر آئی تھی۔

"جیا ارشی سے کہوں نہ کہ۔۔ اسے کہے میری بات مان لے۔۔ میں بات نہیں مان رہی یہ مجھے معاف نہیں کر رہی۔۔ میں معافی مانگ بھی رہا ہوں“ حیدر نے دروازے میں کھڑی جیا بیگم سے کہا جس پر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر چیخ کا گلہ گھونٹا اور مسلسل نفی میں سر ہلایا۔

"ارشیہ۔۔ ارشی میری بچی۔۔ دیکھو ماما بابا آئے ہیں۔۔ چندا اٹھو۔۔ دیکھو تمہارے بابا کتنا پریشان ہو رہے ہیں۔۔ اپنی ماما کی بات بھی نہیں مانوں گئی۔۔ ارشیہ تمہیں سنائی دیے رہا ہے میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ میں بلا رہی ہوں تمہیں ارشیہ۔۔ اپنے ماما بابا کی بات کا جواب دوں۔۔ کیوں نہیں مان رہی تم ہماری بات۔۔ ارشیہ۔۔ ارشی میری بچی۔۔ حیدر اسے کہنے نا میری بات مانے۔۔ ورنہ میں۔۔ میں۔۔ اسے معاف نہیں کروں گئی۔۔۔ ارشی“ جیا بیگم نے خود پر قابو پاتے ارشیہ کا سر حیدر صاحب کی گود سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھا اور اسے آوازیں دیں۔۔۔ وہ بہت پیار سے اسے بلا رہی تھیں۔۔ لیکن جب ارشیہ کچھ نہ بولی تو انہوں نے چیختے ہوئے اسے اٹھانا چاہا لیکن بے سود۔ آخر میں جیا بیگم حیدر کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔

اس وقت ارشیہ کا سر جیا بیگم کی گود میں تھا۔ حیدر صاحب کی نظر اس کے چہرے پر تھیں۔ اس کے چہرے کی چمک اور بڑھ گئی تھی۔ اس کے چہرے پر نور کی تازگی تھی۔ حیدر کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ جیا بیگم کے لیے بھی یہ کسی صدمے سے کم نہ تھا۔

 دوسری طرف ارشیہ کو ایک بات کی خوشی تھی کہ وہ اس نے اس قید سے چھٹکارا حاصل کرلیا تھا۔ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے جارہی تھی۔ اس دنیا کے قید خانے سے اسے رہائی نصیب ہو چکی تھی۔ وہ مرنے سے پہلے اپنے لیے آخرت کا زیادہ نہ سہی کچھ تو سامان ساتھ لے گئی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

زوہیب نے جب آ کر عبیرہ کو ارشیہ کی موت کے بارے میں بتایا تو وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔ اور اسے دیکھتے ہوئے وہ وہی زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کی ارشیہ انسیت ہو چکی تھی۔  

زینب کو جب ولی نے ارشیہ کے انتقال کی خبر سنائی تو وہ اسے دیکھنے لگی۔ انہوں نے کھبی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دنیا سے رخصت ہو۔جائے گئی۔ انہوں نے اس کے لیے دعا کی ایک طرف سے وہ اس کے لیے خوش تھیں کہ وہ مرنے سے پہلے دنیاوی رنگینیوں کی بجائے اپنے رب تعالیٰ سے عشق کر چکی تھی۔  

نمازِ فجر کے بعد یوسف مسجد میں بیٹھا نماز پڑھنے کے بعد عبادت کر رہا تھا جب زوہیب نے کال کر کے اسے ارشیہ کے انتقال کی خبر سنائی۔ چند پلوں کے لیے یوسف پر سکوت طاری ہوا۔ کال کاٹ کر اس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے  تھے:

اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ 

بے دھیانی میں ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر بہہ گیا۔ اس نے اس کی مغفرت کی دعا کی تھی۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Nadeeda Ishq Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nadeeda Ishq written by  Aaira Shah . Nadeeda Ishq by Aaira Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment