Pages

Wednesday 5 June 2024

Meri Raahein Tere Tak Hai By Madiha Shah Episode 56 Part 4 Online

Meri Raahein Tere Tak Hai By Madiha Shah Episode 56 Part 4 Online 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories


Novel Name : Meri Raahein Tere Tak Hai
Novel Genre: Second Marriage Based Novel Enjoy Reading…..

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episodic Novel

Episode No: 56 Part 4


“ میری راہیں تیرے تک ہے “ 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ

قسط نمبر ؛۔ 56 لاسٹ پارٹ فور ( ماضی اسیپشل ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

🅜🅐🅓🅘🅗🅐🅢🅗🅐🅗🅦🅡🅘🅣🅔🅢

ابہام جو عبادت سے ملنے چھت پر آیا تھا ۔، اُسکو موم بتی سے کھیلتے دیکھ اپنے دل کا حال بیاں کر گیا ۔ 

وہ نیچے سب سے مل آیا تھا یہاں اُسکو زاہیان نے بھیجا تھا چونکہ ان سب نے یہاں خوبصورت لائٹوں کے ساتھ پھولوں سے چھت کوسجایا تھا ۔۔

تین دن بعد مہندی کا فنکشن ہونے والا تھا اور پھر شادی لیکن یہ زندگی جینا اتنا آسان نا تھا ۔۔۔۔۔۔؛

وہ اُسکی کھلی رلفیں دیکھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے بالکل سامنے جاتے رکا تھا ۔ عبادت جو چاندنی سے سجی چھت پر موم بتوںکے درمیان کھڑی تھی

مقابل کو خود کے قریب دیکھ بے یقینی سے نگاہیں اٹھاتے اپنے دل کی دھڑکنیں تیز کر گئی ۔ 

ابہام نے اوپر سے نیچے تک اُسکو دیکھتے چہرے پر نظریں جمائی ۔ جبکے بنا دیر کیے اُسکے ہاتھ کو پکڑتے خود کے بے حد قریب کیا ۔ 

یوں کہ عبادت اُسکی اچانک سے جلد بازی پر سینے سے آ لگی تھی ۔ خوبصورت چاندنی رات کا وہ دونوں اُس پر کوئی حصہ لگ رہےتھے ۔۔۔۔۔۔؛۔

“ تم نے مجھے مس کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ اُسکی آنکھوں میں خود کے لیے محبت دیکھ سکتا تھا لیکن پھر سے اُسکی زبان سے سننا چاہتاتھا ۔

اس ایک مہنیے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نا میں رات کو سو پاتی تھی اور نا ہی جاگ پاتی تھی ۔ دل ہر وقت تمہاری یاد میں اللہ سے عبادت میںمصروف رہتا تھا ۔ 

وہ اُسکی بانہوں میں قید سی تھی لیکن شاید وہ بھی اُسکے حصار سے باہر جانا نہیں چاہتی تھی ؛۔

وہ محبت سے بولتے ساتھ ہی مقابل کی گردن میں بانہوں کا حصار بناتی ایک نا ختم ہونے والی خوشی عطا کر گئی ؛۔ 

“ مجھے اندازہ نہیں تھا ۔ تمہارے ایسے مجھ سے دور جانے پر میں ایسے بےقرار رہوں گی ۔ تم نہیں جانتے ابہام ۔۔۔ میں نے تمہیںکتنا مس کیا ۔۔۔” 

وہ مقابل کے قریب ہوتے جیسے اُس پر خود کی قربت چھوڑ دینا چاہتی تھی وہ بے یقین سا بنا پلکیں جھپکائے دیکھتا ہی چلا جا رہاتھا ۔۔۔۔

جانتے ہو ۔۔۔۔۔ مجھے لگا تھا ، محبت صرف کتابوں میں یا فلموں ڈراموں میں ہوتی ہے ۔ حقیقت میں تو یہی ہوتا ہے جو میرے ساتھماضی میں ہوا ۔۔۔ 

عبادت آج اپنے دل سے سبھی گِلے شکوے نکال دینا چاہتی تھی ، چونکہ وہ اپنی اس نئی زندگی سے بہت سکون میں تھی وہ اپنی یہزندگی ایسے ہی جینا چاہتی تھی ؛۔

لیکن ۔۔۔۔ جب سے تم میری زندگی میں آئے میرے محرم بن کر ۔۔۔۔۔ خدا جانتا ہے یہ دل ہر روز تمہارے لیے دھڑکا ۔ مجھے یقین ہونے لگاکہ دنیا میں سچی محبت ہوتی ہے ۔ 

“ وہ پاک محبت ہوتی ہے جو اللہ نکاح کے بعد دو انسانوں کے دنوں میں ایک دوسرے کے لیے ڈالتا ہے ۔ وہ پاک محبت جیسے  آج میرےدل میں تمہارے لیے ہے ۔ 

وہ بھیگی پلکوں سے مقابل کی چمکتی آنکھوں میں دیکھ اپنی محبت کا اظہار کر گئی تھی 

ابہام جو خوشی اور بے یقینی کے عالم میں کھڑا تھا ، یکاٹک اُسکو دیکھتا گیا ۔جو مقابل کو دیکھتے ہوئے اُسکے سینے سے لگ چکیتھی ۔۔۔۔

“ مجھے یقین نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔ میری محبت آج پوری ہوگئی ۔ میں بتا نہیں سکتا میں کتنا خوش ہوں ۔ ابہام جو اُسکو خود سے الگ کرتےجھوم اٹھا تھا 

ساتھ ہی مسکراتے اُسکو کمر سے اٹھاتے اوپر کیا تھا یوں کہ وہ مسکراتی اُسکے کندھوں پر ہاتھ رکھے زندگی سے بھرپور یہ پل جیگئی ۔۔۔

“ آئی لو یو ،۔۔۔۔۔۔ آئی ریری لو یو ۔۔۔۔۔ عبادت ۔۔۔۔۔ وہ اُسکو نیچے کرتے ساتھ ہی محبت سے اُسکے ماتھے پر لب رکھ گیا ۔۔۔۔۔” 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 🅜🅐🅓🅘🅗🅐🅢🅗🅐🅗🅦🅡🅘🅣🅔🅢

“ عبادت۔۔۔۔ اگر اب تم نے پک سینڈ نہیں کی تو میں قسم سے تمہارے پاس چلا آؤں گا ۔۔۔۔” وہ دو سے تیسری بار میسج کر چکا تھا؛۔ 

عبادت جو مہندی لگائے بیٹھی سبھی لوگوں کو مہندی لگاتے رسم ادا کرتے دیکھ سرسری سا فون پر نظر ڈال گئی 

جہاں پر “ دل کی جان ۔۔۔۔۔۔” لکھا نام شو ہوا جس سے وہ سمجھ چکی تھی ابہام کے میسج آ رہے ہیں ؛۔ 

لیکن وہ بھی کیا کر سکتی تھی ، آج مہندی کا فنکشن لان میں کیا جا رہا تھا ۔ وہ کیسے رسموں کے درمیان سے فون اٹھا سکتی تھی۔۔۔۔۔

“ چاچی ۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنی دیر ایسے ہی بیٹھنا ہوگا ۔۔۔۔؟ عبادت جو تھک چکی تھی ، سب کو ڈانس کرتے دیکھ مشکل سے پوچھ پائی؛۔

بس تھوڑی دیر ۔۔۔۔۔ بس میں ان لوگوں کو بولتی ہوں بس کرے ۔۔۔ سونیا بیگم اُسکی حالت پر ترس کھاتی فلک لوگوں کی طرف گئی ۔ 

“ ابہام ۔۔۔۔۔ تجھے مسلۂ کیا ہے ۔۔۔۔؟ ہم گھر کی مہندی چھوڑ یہاں تیری مہندی میں شامل ہونے آئے ہیں اور توں منہ بنائے بیٹھا ہے، 

اگر توں ایسے ہی بیٹھنے والا ہے ، تو ہم لوگ جا رہے ہیں ۔ زاہیان اُسکو دیکھتے اٹھ کھڑا ہوا تھا ؛۔

یار ،۔۔۔۔، تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔۔۔؟ مجھے عبادت کو دیکھنا ہے ۔ پلیز کچھ کرو ۔ وہ فون بیڈ پر پھینکتا ان دونوں کے قریب آتےلاچارگی سے بولا ۔۔۔

یہ بات تھی جس وجہ سے توں پریشان تھا ۔۔۔؟ یہ بھی کوئی پریشان ہونے والی بات ہے ۔ زاہیان نے فورا سے فون نکالا تھا ۔۔۔۔۔؛۔۔

فون میرے پاس بھی ہے ۔۔ اب مجھے اُسکو فون پر نئیں گھر جا کر دیکھنا ہے ۔وہ اُسکا فون پکڑتے واپس سے اُسکی پاکٹ میں ڈال گیا۔،

توں پاگل ہو گیا ہے ۔۔۔؟ توں کیسے وہاں جا سکتا ہے ۔۔۔؟ ٹائم دیکھ ۔۔۔۔ ویسے بھی اس وقت تیرا ایسے گھر سے باہر جانا اچھا نہیںہے ؛،

زاہیان نے سپاٹ ہوتے اُسکو ٹوکا جبکے کامل اپنا فون نکالتے کال ملا چکا تھا ۔،

“ فلک ۔۔۔۔۔ عبادت کہاں ہے ۔۔۔۔؟ کامل فون سے نکلتے جاتے ہی فلک سے پوچھ گیا ۔

یہ رہی ۔۔۔۔۔ فلک نے فورا سے عبادت کو اُسکا فون پکڑایا ۔۔۔۔ عبادت ۔۔۔۔ ابہام سے یار بات کر وہ یہاں دماغ خراب کر رہا ہے ؛۔

کامل اتنا کہتے واپس سے روم میں داخل ہوتے سیدھے فون ابہام کے سامنے کر گیا ۔ 

“ ابہام ،۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟ عبادت اُسکے دیکھتے پوچھتے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی ،۔

زاہیان اور کامل روم سے نکلے تھے تاکہ وہ آرام سے بات کر لے ۔،

تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں ۔،یہ لوگ منع کر رہے ہیں ۔ وہ اُسکا خوبصورت میک اپ سے سجا چہرہ دیکھ بیڈ پہ گرا تھا۔۔۔۔۔۔

آج کی رات صرف ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی چار گھنٹے باقی رہ گئے ہیں ، صبح ہوتے ہی تم یہاں میرے پاس ہوگئے ، پھر ۔۔۔۔۔۔۔

پھر ۔۔۔۔۔ ہر رات تمہاری بانہوں میں ہوگی ۔۔۔ عبادت ابھی مزید بولتی کہ ابہام اُسکی بات کاٹ درمیان میں ہی بولا ۔۔۔۔؛۔ 

جبکے وہ شرم سے لال ہوتی مقابل کے چہرے سے نظریں ہٹاتی جھکا گئی ۔ ابہام کو اس ادا پر بھی جان ٹوٹ کر پیار آیا تھا ۔ 

آپی ۔۔۔۔۔ چینج پر لیں ۔ عبادت جو بلش کر رہی تھی فلک کی آواز پر فورا سے متوجہ ہوئی ،۔

“ بائے ۔۔۔۔۔۔ عبادت نے فورا سے مقابل کو دیکھتے کہا ۔۔۔۔” 

“ سنو ۔۔۔۔۔۔۔آئی لو یو ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ فون بند کرتی وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے ساتھ ہی کس کر گیا ۔ عبادت اُسکے اندازپر شرماتے فون کاٹ جھومتے بیڈ پر گری ۔۔” 

“ ابے ۔۔۔۔۔ اب کہاں چلا ،۔۔۔۔؟ زاہیان اور کامل جو اُسکا انداز کر رہے تھے کہ وہ روم سے نکل وہاں ان سبھی دوستوں کے پاس آئےگا؛۔

اُسکو گھر کے باہر والے ڈور کی طرف جاتے دیکھ راستہ روکتے پوچھا ، ایمرجنسی آ گئی ہے ۔ مجھے پولیس اسٹیشن جانا ہوگا ۔۔۔وہفون پر مسیج ٹائپ کرتے ساتھ ہی سینجدگی سے بولا ؛۔

ابہام ۔۔۔۔ توں پاگل ہوگیا ہے ۔۔۔؟ توں کیسے جا سکتا ہے ۔۔۔؟ کل تیری شادی ہے ۔ اور آنٹی نے کیا کہا تھا ۔۔۔؟ تیل لگنے کے بعد گھرسے باہر نہیں جاتے ۔ اور ویسے بھی ۔۔۔ توں نے چھیٹاں نہیں لی ۔۔۔؟ زاہیان نے غصے سے دیکھتے ساتھ ہی گھورا ۔،

چھٹیاں لی ہیں ، پھر ہی یہاں کھڑا ہوں ، لیکن ابھی جانا ضروری ہے ۔ جس کیس پر میں نے اتنا کام کیا تھا ، جس مجرم کو پکڑ یہاںلایا ہوں ۔ 

اُسکو دیکھنے تو جاؤں گا نا ۔۔۔؟ اور ویسے بھی زاہیان ۔۔۔ یار میں یوں گیا اور یوں آیا ۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا ابہام نے فون پاکٹ میںڈالتے ساتھ ہی اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھے ؛۔

مجھے مت بتا ، اور اگر وہ اتنا ہی کوئی خاص ہے تو توں ویڈیو کال پر دیکھ لے ۔ تجھے تسلی بھی ہو جائے گی اور ہمیں بھیپریشانی نہیں ہوگی ۔۔۔۔ 

زاہیان نے اُسکے ہاتھ اٹھاتے ساتھ ہی مشورہ دیا وہ مسکرایا تھا کہ پہلے اُسکے دماغ میں یہ خیال کیوں نہیں آیا ۔

“ ویسے پولیس والوں کے لیے بھی کتنا خطرا ہوتا ہے ۔ کامل اُسکو واپس کال کرتے دیکھ گویا 

جیسے سبھی پولیس والے ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ ویسے ہی سبھی کو خطرا نہیں ہوتا ۔ جو پولیس والے رشوت لیتے ہیں ، پیسے کھاتےہیں اپنی ڈیوٹی بھچتے ساتھ مجرموں کو بچاتے ہیں ،ان سب کے لیے تو یہ سب سے اچھی اور سکون سے گزرانے والی زندگی اور کامہے ۔۔۔۔۔ 

ان کو کسی سے خطرا نہیں ہوتا ۔ مگر جہاں اس جیسے وہ ابہام کی طرف اشارہ کرتے پھر سے بولا 

اس جیسے سچ کی راہ پر چلنے والے اپنے فرض کو پورا کرنے والے جان کی فکر نا کرنے والے جو کسی کا حق نہیں مارتے قانون کوماننے والوں کو جان کا خطرا ہوتا ہے ،۔

کیونکہ برے لوگ ان کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے ہمارا ساتھ نہیں ۔۔۔ زاہیان کو آج اپنے دوست پر بہت فخر محسوسہوا تھا ، کہ وہ بنا یہ سوچے سمجھے کہ کل اُسکی شادی ہے رات کو ہی اپنے کام پر جا رہا تھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 🅜🅐🅓🅘🅗🅐🅢🅗🅐🅗🅦🅡🅘🅣🅔🅢


“ ماشااللّہ ۔۔۔۔۔ اللہ میری بیٹی کو ہر بری نظر سے بچائے ، ( آمین ) عبادت کے بابا آج بہت خوش تھے ۔ وہ عبادت کے پاس آئے تھے 


کہ اُسکو دولہن کے روپ میں دیکھ آنکھوں میں آنسووں بھرے سینے سے لگا گئے ۔ عبادت کی بھی آنکھیں بھری تھی ، چونکہ اُسکیوجہ سے اُسکے باپ نے بہت کچھ برادشت کیا تھا ۔۔۔۔۔


بھائی صاحب ۔۔۔۔۔ بارات پہنچ چکی ہے ۔ حامد جو ان کے ساتھ ہی آیا تھا اپنی آنکھوں میں آیا پانی صاف کرتے ان کو بتاتے ساتھہی عبادت کا ماتھا چوم گئے ۔ 


“ عبادت ۔۔۔۔۔۔ میری دعا ہے یہ زندگی خوشیوں سے بھری ہو ۔ حامد چاچو نے دل سے دعا دی تھی ۔ ۔۔۔” 


“ ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو پتا ہے آنی بہت بیوٹی فل لگ رہی ہیں ، یارم جو عبادت کو ملتے ہی واپس ہال میں آتے اپنے باپ کے پاس چڑھتےصوفے پر بیٹھا تھا ۔ 


ابہام کو فون پر مسلسل نظریں جمائے دیکھ اپنے نازک ہاتھوں سے بازو کو کھنچتے اپنی متوجہ کیا ۔ 


“ سچی ،۔۔۔۔ اتنی پیاری لگ رہی ہیں ۔۔۔؟ ابہام نے فورا سے اپنے بیٹے کو پیار کیا تھا ۔ جبکے ساتھ ہی وہ حامد چاچو کو دیکھتےاپنے پاس بلا گیا ۔،


کہو ۔۔۔۔ دولہے میاں ۔۔۔۔۔ چاچو ۔۔۔۔۔ اور کتنی دیر ایسے ہی مجھے بیٹھنا ہے ۔۔۔؟ پلیز عبادت کو لے آئیں ۔۔۔؟ نکاح تو ہوا ہے ہمارا ۔۔۔۔کھانا کھائیں ان مہمانوں کو اور چلتا کریں ۔۔۔۔ 


مجھے میری بیوی کا ہاتھ دے اور مجھے بھی دعا دیتے رخصت کریں ۔ ابہام اُنکے کان کے قریب بولتے ساتھ ہی خاموش ہوتے تھوڑاپیچھے ہوا ۔۔


ہاہاہاہااہہ۔۔۔۔۔۔۔۔


“ کیا ہو گیا ۔۔۔۔ دولہے میاں ۔۔۔۔۔ صبر کرو ۔ ابھی تو رسمیں ادا کرنی ہیں ، پھر تمہیں دودھ پلائی کی رسم ہونی ہے ۔ پھر شوٹ بھیتو ہونا ہے ۔۔۔۔پھر کہیں جا کر تم اپنی دولہن کو لیتے یہاں سے جا پاو گئے ،حامد نے بھی جیسے اُسکے مزے لیے ۔۔۔۔۔ 


“ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ ابہام کی تو حیرت سے آنکھیں بڑی ہوئی تھی ۔ جبکے وہ فون پر عبادت کو میسج کرنا شروع ہوا ۔ 


تھوڑی دیر بعد ہی کھانا کھاتے سب نے دولہن کو لانے کا شور کہا تو حامد چاچو عبادت کا ہاتھ اپنے بازو میں ڈالے ہال میں داخل ہوئےتو سب کی نظروں نے محبت سے عبادت کو دیکھا تھا ۔ 


جو خوشی سے مسکراتی حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ، اُس پر اک الگ ہی نور چھایا ہوا تھا ۔ وہ حامد کے ہمراہ آتے سبکی نظروں کا مرکز بنی تھی 


جبکے یہ خوبصورت پل کیمرے کی آنکھ نے قید کیے تھے ۔ ابہام جو اسٹیج پر کھڑا اُسکو آتے دیکھ رہا تھا ۔ دل کو بے قابو ہوتے دیکھمسکراتے ایک ادا سے دل پر ہاتھ رکھا ،۔


“ میاں یہ رہی تمہاری امانت ۔۔۔۔۔ حامد اسیٹج کے قریب پہنچتے محبت سے عبادت کا ہاتھ ابہام کے ہاتھ میں گئے تو وہ مسکراتےاُسکو مظبوطی سے پکڑتے اسیٹج پر اپنے سنگ بٹھا گیا ۔۔۔۔


“ مجھے ۔۔۔۔۔۔ یقین نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔۔ یہ خوبصورت پل میں تمہارے ساتھ جی رہا ہوں۔۔ حامد نے مسکراتے اُسکے قریب ہوتے سرگوشیکی ؛۔


وہ کاجل سے سجی سرسری سی نگاہ مقابل پر ڈالتے یارم پر ٹکا گئی جو ان دونوں کے درمیان بیٹھا مسکراتے اپنی آنی کو تک رہا تھا۔۔۔۔۔


تبھی سب نے باری باری آتے تصویریں کھنچوائی تو تھوڑی دیر بعد ہی دودھ پلائی کی رسم ادا ہوئی ۔ ابہام نے خوشی سے دودھپلائی پر اپنی سالیوں کو ایک لاکھ روپیہ دیا تھا :۔


“ ابہام ۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے دل کا ٹکڑا تمہیں دے رہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اُسکی زندگی میں تم ہمشیہ خوشیاں بھرو گئے ۔۔۔


جیسے ہی رخصتی کا شور اٹھا ۔ موسی شاہ عبادت سے ملنے کے بعد ابہام سے ملتے بھیگی آنکھوں سے بولے ۔ 


تبھی ابہام نے ان کو یقین دلایا کہ وہ پھر کبھی عبادت کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے گئیں ،۔


ایسے عبادت کو لیتے ابہام نئی کا سوچتے خوشی سے اپنے گھر کی طرف روزانہ ہوا ۔ 


ابہام کی بہن عبادت کو لاتے ابہام کے روم میں چھوڑ گئی تھی ۔ جبکے ابہام جو اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے نکلتے پولیساسیٹشن جا چکا تھا ۔ 


ماں کے فون کال پر اُنکو جھوٹ بول گیا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ ٹائم گزر آتا ہے ۔  


“ آنی ۔۔۔۔۔۔۔ میں یہاں آپ کے پاس سوؤں گا ۔۔۔؟ یارم جو اپنے باپ کا روم کھولے اندر داخل ہوا تھا ۔ عبادت کو بیڈ پر بیٹھے دیکھبھاگتے ان کے ساتھ آتے لگا ؛۔


کیوں نہیں ۔۔۔۔ یارم وہ محبت سے اُسکو خود کی گود میں بٹھا گئی ۔ جبکے تبھی ابہام کی بہن نے آتے اُسکو پکڑا تھا اور کہا تھا کہآج رات تم اپنی آنی کے ساتھ نہیں سو سکتے ؛۔


وہ رونا شروع ہوا تو عبادت نے کہہ دیا وہ اُسکو یہی چھوڑ جائے تبھی اُسکی ماں نے بھی عبادت کے پاس یارم کو چھوڑنے کا کہہ دیا۔۔۔۔


“ مسٹر ابہام شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔” کہاں رہ گئے ۔۔۔؟ وہ جو انتظار میں سوکھ چکی تھی ، یارم کو سوئے دیکھ دھیرے سے بیڈ سے اٹھتے فونپر میسج سینڈ کر گئی ؛۔


“ عبادت ،،۔۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ کھانے کو چاہیے ۔۔۔؟ ابہام کی بہن نے آتے ہی پوچھا جبکے ساتھ ہی وہ فروٹ جو لائی تھی ٹیبل پر رکھگئی ،۔


نہیں ۔۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔ وہ ہلکی سی مسکراتے بولی ۔ میں یارم کو لے جاتی ہوں ، وہ یارم کو آرام سے اٹھا گئی ۔،


“ ویسے اب ایسے اتنظار کرنے کی تمہیں عادت ڈالنی پڑے گی کیونکہ وہ تو ہمشیہ ہی ایسے باہر رہتا ہے ۔۔


وہ اتنا کہتے مسکراتے وہاں سے گئی تو عبادت فون ملاتے کان سے لگا گئی ۔،


“ ارے ۔۔۔۔۔ فون بند جا رہا ہے ۔۔۔ یہ گیا کہا ہے ۔۔۔ وہ غصے سے اب ٹہلنا شروع ہوئی تھی ،۔۔۔۔” 


آہ ،۔۔۔۔۔


اپنی خیر چاہتے ہو تو ہمیں بتاؤ ۔۔تم وہ سارا سامان کہاں چھپایا ہے ۔۔۔؟ ابہام جو پولیس اسیٹشن موجود تھا ۔ 


سامنے چئیر پر باندھے ہوئے مجرم کو مارتے غصے سے پوچھا تھا جبکے وہ اُسکو دیکھتے مسکرایا ۔،


“ آفیسر ۔۔۔۔۔ توں نہیں بچے گا ۔۔ تیری جان جائے گی ۔ وہ خون سے لت پت ایک ہئ جملہ بولتا ۔،،


تبھی باقی کھڑے آفیسر نے اُسکو اندھا دھند مارنا شروع کیا ۔ تیرے ساتھ تیرے گھر والوں بھی ختم کر دونگا :۔


توں نے مجھ پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔ وہ مار کھاتے صرف یہی جملے ادا کر رہا تھا ۔۔” 


ابہام تم گھر جاؤ ۔۔۔۔۔ اس کی زبان ہم لوگ کھلوا لیں گئیں ۔ ایک آفیسر ٹائم دیکھتے اُسکو جانے کا کہہ گیا تو وہ فون اٹھاتے وہاںسے نکلا ۔۔۔۔


جیسے بھی کرو اُسکی زبان کھلنی چاہیے ۔ ہمیں وہ سامان کسی بھی حال میں پکڑنا ہوگا ۔ اور ایک بات یہاں زیادہ زیادہ سیکورٹیسخت کرو ۔ 


تم فکر نہیں کرو ،۔۔۔ یہاں ہم دیکھ لیں گئیں ، توں اپنا دھیان رکھ ایسے کر توں دو پولیس والے گھر لے جا ، تاکہ ،۔۔۔


یار تم اسُکی باتوں کا سوچ رہے ہو ۔۔۔؟ ابھی وہ قید میں ہے بس اسی لیے وہ ایسے بول رہا ہے ، 


ابہام اتنا بولتے کیل لیتے گاڑی کی طرف نکلا ۔ جبکے اُس آفیسر نے اپنے دوسرے آفیسر کو اشارہ کیا تھا وہ بھی ابہام کے پیچھےنکلا ۔۔۔۔


“ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ سر ۔۔۔۔۔ سر ابہام گھر پہنچ گئے ۔ جس آفیسر کو ابہام کے پیچھے بھجیا تھا وہ ابہام کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ اپنےسر کو آگاہ کر گیا ،،


ٹھیک ۔۔۔۔۔ بس تم لوگ وہی اُسکے گھر پر نظر رکھو اور دھیان کرو وہ فون پر اتنا کہتے فون رکھ گیا ؛۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


“ اب بس ۔۔۔۔۔ میں اب اُسکا مزید ویٹ نہیں کروں گی ۔ عبادت جو مقابل کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی ۔ 


بے دردی سے اپنی چند چوڑیاں اتار ڈریسنگ ٹیبل پر پھینک گئی ، جبکے ساتھ ہی دوپٹے کی پن نکالی ۔


جبکے ریشمی بال جو کندھے پر بکھرے سے پڑے تھے ان کو دیکھ وہ غصے سے تیزی سے پن نکالنا شروع ہوئی ۔۔۔ 


“ نا تو کال اٹھا رہا ہے اور نا ہی کسی مسیج کا رپلائے کر رہا ہے ، اگر دوست اتنے ہی عزیر تھے تو ان سے شادی کر لیتا ، وہ غصےسے بولتی ساتھ ہی گلے میں پہنے ہار کو دیکھ تیزی سے دوپٹے کی باقی پن نکالنا شروع ہوئی ؛۔


“ آئے ذرا یہ ۔۔۔۔۔ بالکل بھی بات نہیں کروں گی ، وہ بیٹھے سے اٹھتے ٹہلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔


ابھی وہ دوپٹے کی لاسٹ پن نکالتی دروازے کا لاک گھومتے ٹک سے دروازہ کھول وہ اندر داخل ہوا تھا ۔ 


عبادت جو ٹہل رہی تھی پن پر ہاتھ رکھے ویسے ہی مقابل کو دیکھ گئی جو اپنا ویکسٹ کوٹ ہاتھ میں پکڑے اپنی دولہن کو دیکھ گیاتھا ۔ 


“ ایم سوری ۔۔۔۔۔۔! وہ اُسکا روپ دیکھ فٹ سے کوٹ صوفے پر رکھتے اُسکی طرف آیا ۔ 


مجھے لگا تم سو گئی ہو گی ۔ وہ اُسکا غصے سے سجا چہرہ دیکھ فورا سے بولتے قریب آیا ۔ جبکے عبادت منہ پھیرتے واپس سے اپنےکام میں مصروف ہوئی ۔۔” 


“ ایم سوری عبادت ۔۔۔۔۔۔ دراصل میں کسی کام سے گیا تھا ، وہ اُسکو سر پر لگی پن نکالتے دیکھ مزید تھوڑا قریب ہوا ۔۔۔۔


میں نکال دیتا ہوں ، وہ اُسکو خاموش دیکھ ڈرتے ڈرتے اُسکے ہاتھ کو ٹچ کر گیا ۔ 


کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ مقابل کی طرف پلٹتے تیزی سے بولی ؛۔


آہ ۔۔۔۔۔عبادت جو پلٹی تھی مقابل کو اتنا قریب دیکھ ڈرتے لڑاکھڑائی تبھی وہ گرنے کو ہوئی 


مقابل نے اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اُسکو گرنے سے بچایا تھا جبکے ابھی کچھ یوں تھا کہ وہ مقابل کی بانہوں کے سہارے پر حصارمیں قید ہوئی تھی ؛۔


دونوں کی نظریں ایک دوسرے کے چہرے کا طوائف شروع کر چکی تھی جبکے عبادت کا دوپٹہ سر سے اترا کندھے پر جھول گیا ۔۔۔۔


عبادت جو مقابل کو خود کے قریب محسوس کرتے دل کی دھڑکنیں تیز کر گئی تھی ، فورا سے یاد آتے کھڑی ہوئی ابہام جو کھو چکاتھا اُس پر ویسے ہی نظریں ٹکائے اُسکو کھڑا کرتے تکنا شروع ہوا 


عبادت جو مقابل کے حصار سے نکالنا چاہتی تھی اُسکو ویسے ہی خود کی کمر پر حصار باندھے دیکھ مقابل کے ہاتھ کو ہٹانے کیکوشش کر گئی ؛۔


“ آج تو میں تمہیں خود سے دور جانے نہیں دے سکتا ۔ وہ اُسکو جھکتا دیتے مزید خود کے قریب کرتے گویا ۔۔۔۔۔


اچھا ۔۔۔۔۔۔۔ تو مسٹر ابہام کو یاد آ گیا کہ آج ان کی شادی ہوئی ہے ۔۔۔؟ وہ ویسے ہی اُسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ساتھہی ایک ادا سے اپنے ریشمی گنے بالوں کو کندھے سے پیچھے پھیلا گئی ۔۔۔۔


مجھے سب کچھ بہت اچھے سے یاد ہے ، مسز ابہام شاہ ۔۔۔۔۔ کہ آج میری مبارک شادی ہوئی ہے ۔ وہ شرارت سے اُسکو دیکھتےساتھ ہی ہلکے سے ہونٹوں کو گول کرتے سامنے کھڑی خوبصورت چہرے پر پھوک مارتے خود کی قربت کا جیسے جادو چلانے کا کامشروع کر گیا ۔۔


عبادت جو پہلے ہی مشکل سے مقابل کی طرف دیکھ رہی تھی مقابل کے اس عمل پر آنکھیں بند کرتی ساتھ ہی دل کا شور سن گئی ۔


ویسے میرے پاس تمہارا گفٹ ہے ۔ وہ اُسکو لیتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لے گیا ۔ جبکے تبھی مقابل نے محبت سے سامنے ڈرو کھولتےایک ڈبی نکالنے ڈائمنڈ کی رنگ اُسکے مہندی سے سجے ہاتھ میں پہنائی ۔۔۔۔


عبادت کا چہرہ مسکرایا تھا جبکے ساتھ ہی محبت سے اپنے شوہر کو دیکھا ۔ میں بہت خوش ہوں عبادت ۔۔۔۔۔ وہ ویسے ہی اُسکو مررکے سامنے کھڑے دیکھ محبت سے اُسکے کندھے پر چہرہ رکھتے گویا ۔۔۔۔۔”


تم نے بتایا نہیں کیسا لگا میرا گفٹ ۔۔؟ وہ اُسکے بدن سے اٹھتی خوشبو کو خود کی سانسوں میں بڑھتے ساتھ ہی اُسکے بالوں کو ہرپن جوڑے سے آزاد کرتے خود کے سلگتے ہونٹوں کو اُسکی سہرائی دار گردن پر رکھ گیا ۔


عبادت مقابل کے اتنے سے عمل پر ہی دلوں جان سے سلگی ، جبکے وہ ہاتھوں کو مٹھیوں کی مانند بند کرتے مقابل کی بڑھتی شدت کوبرادشت کرنا شروع ہوئی 


ابہام جو اُسکی گردن پر جھک چکا تھا ویسے ہی اُس پر جھکے محبت سے اُسکے کانوں میں پر لب رکھتے اپنی محبت کی تپش چھوڑکندھے پر جھکا ۔۔۔


تم نے جواب نہیں دیا ۔۔۔ وہ جیسے اُسکی حالت سے لطف اندوز ہوا تھا ؛۔ 


“ بہت خوبصورت ہے ۔۔۔ عبادت اپنے ہاتھ کو دیکھتی ساتھ ہی مقابل کو دیکھ مشکل سے کہہ پائی ۔ جبکے تبھی ابہام نے اُسکوبانہوں میں اٹھاتے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے ۔


دونوں ہی اس پل بہت خوش تھے 


عبادت نے پوری محبت سے ابہام کو خود کی بانہوں کے حصار میں بھرا ۔ جبکے خوبصورت چاندنی رات بھی جیسے ان کے ملنے سےمسکرائی تھی ۔۔۔۔۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


ایسے ہی اگلے دن ولیمے کی تقریب بھی ادا ہوئی۔ سارا دن ابہام پولیس اسیٹشن میں رہا تھا ۔ کیونکہ جس کیس پر وہ کام کر رہا تھاوہ اُسکے لیے بہت خاص تھا ۔۔۔۔


ولیمے کا پرگروام شام کا رکھا گیا تھا تو وہ ٹائم پر پہنچتے اپنے ولیمے کی تقریب ادا کر گیا ۔ جبکے وہ عبادت کو اپنی ماں کے ساتھگھر بھیجتے ایک بار پھر پولیس اسیٹشن جا چکا تھا ؛۔


ہاں ۔۔۔۔۔ بولو ۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ گھر میں آیا تھا ۔ کہ کال پر اپنے ایک آفس کا نمبر دیکھ فورا سے کال پک کرتے پوچھا ۔ 


ابہام اوپر سے آرڈر  آئیں ہیں ، اُس شطر مجرم سفیر پٹھان کو اس جیل سے اسلام آباد شفیٹ کر دیا جائے ۔ 


“ واٹ ۔۔۔۔۔” 


ہمیں کل ہی اُسکو یہاں سے وہاں لے جانے کا حکم ملا ہے ۔ اُسکا دوست اُسکو بتاتے جیسے کوئی صدمہ دے گیا ہو :۔ 


میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔۔۔ ابہام الٹے قدم ہی بھاگا ۔ ابہام کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔۔ یار ۔۔۔۔۔ سر جا چکے ہیں ۔ تجھے جو بھی بات کرنی ہےان کو کال کر لے :۔


فون کے پار سے جیسے اُسکو آرام سے ڈیل کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔ ابہام نے اگلے ہی پل کال کاٹی تھی۔۔۔۔


“ ہیلو سر ۔۔۔۔۔۔” 


ابہام ۔۔۔۔۔ کیسے ہو ۔۔۔۔؟ امید کرتا ہوں تم نے ہنی مون پر جانے کی تیاری کر لی ہوگی ۔۔۔۔؟ ابھی وہ اپنی بات کہتا فون کے پار سےجیسے اُسکو اشارے میں کوئی حکم دیا گیا ہو ۔۔۔۔۔


“ سر ۔۔۔۔۔۔آپ اتنا بڑا فاصلہ کیسے لے سکتے ہیں ۔۔۔؟ آئی می ۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں اُس سفیر پٹھان کو یہاں سے وہاں لے جانے میںکتنا خطرہ ہے پھر بھی اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں  ۔۔۔؟ 


ابھی تو اُسکی مجھے زبان کھلوانی ہے اور وہ مال ۔۔۔۔۔۔


ابہام ۔۔۔۔۔۔یہ کام باقی پولیس کے جان باز کر لیں گئیں ۔ تم اس کیس سے فلحال دور رہو ۔۔۔


فون کے پار اس بار سینجدگی سے جیسے اُسکو سمجھایا گیا ۔ کہ تمہارا ابھی دور رہنا ہی بہتر ہے ؛۔


سر میں اس کیس سے کیسے دور رہ سکتا ہوں ۔ اس سفیر پٹھان کو  پکڑنے کے لیے دن رات ایک کیا ہے ۔۔


میں جانتا ہوں ۔۔۔۔۔ تم نے بہت محنت کی ہے ۔ ابھی میں تمہارے لیے ہی کہہ رہا ہوں ۔ میری بات کو سمجھو ۔ ویسے بھی مجھے پتاہے جو میں کر رہا ہوں وہ ٹھیک ہے ۔ 


تم بس اپنی چھٹیوں کو آرام سے خوشی سے گزرو ۔ یہ کام تو چلتے ہی رہیں گئیں ۔۔۔ ابہام نے غصے سے آنکھیں بند کی تھی جبکےوہ ٹہلتے مسلسل گردن پر ہاتھ سے دباو ڈال رہا تھا :۔


سر ۔۔۔۔۔ آپ یہ سب اُس مجرم کی باتوں کی وجہ سے کر رہے ہیں نا ۔۔۔۔؟ کیا ہو گیا ہے آپ سب کو ۔۔؟ ہم ایک مجرم کی دھمکیوں سےڈر رہے ہیں ۔۔۔؟ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ابہام جانتا تھا سب اُسکی دھکمیوں کی وجہ سے یہ سب کر رہے تھے ،۔


ابہام ،۔۔۔۔۔ تمہیں جو سوچنا ہے سوچو ۔۔۔۔ کیونکہ جو فاصلہ لے لیا ہے وہ بدلنے والا نہیں ۔ امید کرتا ہوں کل تم پولیس اسیٹشن میںنظر نہیں آو گئے اتنا کہتے فون کاٹا گیا تو وہ غصے سے گھر میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔


“ جبکے غصے سے فون پاور آف کرتے روم میں انٹر کرتے ٹیبل پر جاتے پٹکا ، عبادت جو خود کی جیولری اتارنے والی تھی ، اُسکوطوفان کی طرح روم میں آتے غصے سے ٹیبل پر فون پٹکتے دیکھ گئی تھی ؛۔


خوشی دلی سے چلتے اُسکے قریب آئی یوں کہ وہ اُسکو پیچھے سے اپنے بازوں میں قید کرتے خود کی خوشبو اُسکے سنگ مہکتےغصہ غائب کر گئی ۔۔۔۔” 


“ مسٹر ابہام شاہ کو اتنا غصہ بھی آتا ہے ۔۔۔؟ مجھے اندازہ نہیں تھا وہ اُسکو چہرے پر غصے کے بھڑکتے تاثرات دیکھ بولی تو وہلمبا سانس بھرتے اُسکو بازوں میں اٹھائے بیڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔


بہت غصہ آتا ہے جب کوئی میرے کام سے مجھے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن ابھی ۔۔۔۔۔ وہ اُسکو پیار سے بیڈ پر ڈالتے جھکاتھا 


وہ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لاتے مقابل کو جیسے ہر چیز کی اجازت دے گئی ۔۔۔” 


اگلے دن ہی ابہام نے اپنے سر کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے ہنی مون پر جانے کا پلان بنایا ۔ جبکے وہ اپنا فون پاور آف کیے ہوئے تھاکہ نا وہ فون اون ہو گا اور نہ ہی کوئی پولیس اسیٹشن کی نیوز اُس تک پہنچے گی ؛۔


وہ سارا دن اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ گزرا گیا تھا ، جانے کیوں اُسکا دل بےچین سا تھا، وہ عبادت کو ڈنر کئلیے تیار ہونے کا کہتےخود عشاء کی نماز پڑھ آنے کا کہتے گھر سے نکلا ۔ 


یہ جانے بنا کہ خطرہ اُسکے گھر تک پہنچ چکا ہے ، اُسکے دشمن تک لگائے بیٹھے ہیں ، وہ اپنے گاڈرز کے ہمراہ مسجد جاتے ہی نمازادا کر گیا ۔۔


“ سر اُسکا فون صبح سے مسلسل بند جا رہا ہے ، ابھی میں راستے میں ہوں ، اُسکے گھر جاتے ہی آپ کو کال کرتا ہوں،اُسکا دوستجس کو خبر ملی تھی کہ وہ مجرم فرار ہو گیا ہے ، اور ان کا گینگ ابہام کو مارنے نکلے ہوئے ہیں وہ پولیس کو لیتے اُسکے گھر کیطرف نکلا ؛۔


ابہام جو مسجد سے نکلا ہی تھا ، اُسکے دشمن کو انتظار میں تھے ، بنا آگے پیچھے دیکھے اندھا دھند گولیاں چلا گئے ، ابہام جو بناکسی گن کے آیا تھا اُنکی گولیوں کا نشانہ بنا ۔،


اُسکا دوست جو وہاں پہنچ چکا تھا ، گاڈرز سمیت ابہام کو نیچے زمین پر خون میں لت پت دیکھ اُسکی طرف لپکا ؛


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


“ یا اللہ یہ کیسا نصیب لکھا ہے میری بیٹی کا ۔۔۔؟ عبادت کا باپ جو اپنے سینے میں درد محسوس کر رہا تھا روتے اپنے رب کے آگےہاتھ اٹھائے بے بسی کے عالم میں بولا ۔ 


ابہام مر چکا تھا ، عبادت کی خوشیاں اُس سے ایک بار پھر روٹھ چکی تھی ، وہ جہاں پہلے طلاق کا داغ لیے ہوئے تھی ، آج ایکشہید پولیس آفیسرز کی بیوہ کا خطاب لیے سب کے دلوں میں ایک بار پھر اپنے لیے ہمدردی سمٹ گئی :۔


کوئئ بھی اُسکا حال نہیں سمجھ سکتا تھا ، وہ ابہام کے جانے کا غم برادشت نہیں کر پا رہی تھی ، وہ پاگلوں کی طرح روتے صرفاُسکو پکار رہی تھی ۔۔


اُسے اپنی ہوش نہ رہی تھی ،ایک بار تو نروس بریک ڈوان بھی ہو چکا تھا ، سبھی اُسکی حالت کی وجہ سے پریشان تھے ۔ چونکہایسے لگ رہا تھا وہ پاگل ہوتی جا رہی ہے ۔


ابھی اُسکی حالت نا سنبھلی تھی کہ اُسکے بابا بھی ہارٹ اٹیک کا دوراہ پڑتے دنیا چھوڑ جا چکے تھے ، 


اُس ایک مہنیے میں اُسکی پوری دنیا جیسے ختم ہو گئی تھی ، وہ کیسے صبر کر جاتی ، کیسے سب کچھ سمجھ پاتی جب زندگی نےہی اُسکو کچھ سمجھنے نا دیا تھا ؛۔


“ یارم ۔۔۔۔۔۔ جو اپنے باپ کا غم دل سے لگا گیا تھا اپنی آنی کی حالت دیکھ روتا صرف اُنکے ساتھ پانے کی چاہت لیے اللہ سے دعاکرتا چونکہ اسُے اپنے باپ کا وعدہ یاد تھا کہ چاہے کبھی بھی کچھ بھی ہو جائے اپنی آنی کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا ۔۔۔” 


ابہام کو گزرے ہوئے ایک سال سے اوپر ہو گیا تھا ، اُسکی دوست کلثوم اُسکا علاج کر رہی تھی ، تب کہیں جا کر عبادت نارمل زندگیکی طرف تھوڑا سا واپس لوٹنا شروع ہوئی ، تبھی اُسکی دوست نے اُسکا علاج کرنا شروع کیا تھا جبکے  یہ سب بھی صرف یارم کیمحبت کی وجہ سے ہو پایا تھا ۔ 


وہ بچہ کسی بھی پل اپنی اس ماں کو نتہا نہیں چھوڑتا تھا ، وہ جانتا تھا اُسکے باپ کے بعد اگر کوئی اُسکا اپنا ہے تو وہ اُسکیآنی ۔۔۔۔ ماں عبادت ہے :۔


ابہام کی ماں عبادت اور یارم کو ایک ساتھ خوشیوں کی طرف لوٹ آتے دیکھ خوش تھی جبکے ابہام کی بہن کے من میں عبادت کیسوتیلی ماں کے الفاظ نفرت ڈال گئے تھے وہ جب دیکھو اپنی ماں کو یہئ کہتی کہ اس مانوس کی وجہ سے بھائی مر گیا ۔۔۔


وہ کوئی بھی موقعہ جانے نہ دیتی جب اپنی ماں کے کان نہ بھرتی ہو ، ابہام کی ماں جس نے اپنا جوان بیٹا کھویا تھا وہ مشکل سےاپنا گزرا کر رہی تھی چونکہ وہ جانتی تھی یہ قسمت کے کھیل اوپر والا لکھتا ہے ۔،


وہ اپنی بیٹی کی باتوں کو اگنور کر دیتی تھی ، چونکہ عبادت کی محبت اپنے بیٹے کے لیے اُنکے سامنے تھی ، اور ابھی یارم کا جیسےوہ خیال رکھتی ایسے تو کوئی سگی ماں بھی نہ رکھتی جیسے وہ رکھ رہی تھی ۔۔۔۔


جبکے دوسری طرف عبادت کے گھر والے اپنی اس بچی کی زندگی کو لے کر فکر مند تھے ۔ وہ اُسکی عمر کو دیکھ ہمشیہ ہی سوچمیں پڑتے تھے ۔ کیونکہ وہ اس زندگی کو اکیلے جی نہیں سکتی ، وہ لوگ اُسکے لیے رشتہ دیکھ گئے ، مسلۂ تب پڑا جب یہ بات ابہامکی ماں تک پہنچی ، وہ غصے سے بھڑک اٹھی چونکہ وہ اب یارم کی خوشیوں کو چھیننے نہیں دے سکتی وہ عبادت کے ساتھ خوشتھا ۔۔۔


وہ اپنے پوتے کے لیے سوچ رہی تھی کسی نے بھی عبادت سے ایک بار نہیں پوچھا وہ کیا چاہتی ہے، جیسے ہی عبادت کو پتا چلا گھروالے کیا چاہتے ہیں وہ سب سے لڑ اٹھی چونکہ وہ اب صرف ابہام کی بیوہ بن اپنی زندگی گزار دینا چاہتی تھی ، ابہام کی ماں کےمن میں جو ڈر آیا تھا وہ عبادت کا فیصلہ سن اُنکو سکون دے گیا ۔


“ امی ۔۔۔۔۔ آپ اس وقت یہاں ۔۔۔؟وہ جو یارم کو سوتے دیکھ پیار سے اُسکا ماتھا چوم ابہام کی تصویر اٹھائے باتیں کر رہی تھی کہابہام کی ماں کو اچانک سے روم میں آتے دیکھ اٹھ اُنکی طرف لپکی ؛۔


ہاں ۔۔۔۔۔۔ مجھے تم سے بات کرنی تھی وہ اُسکی آنکھوں میں آنسووں کے نشان دیکھ سمجھ چکی تھی ان سے اُسکا در چھپا ہوانہیں تھا ۔،


وہ اکثر ہی اُسے اپنے بیٹے کی یاد میں روتے دیکھتی تھی ، عبادت ۔۔۔۔بیٹا یہ زندگی اکیلے جینا بہت مشکل ہے ، پتا ہے جب تیرے گھروالوں نے تیرے لئے رشتہ ڈھونڈنا شروع کیا تو میں ڈر گئی کہ اگر توں یہاں سے چلی گئی تو میرا یارم اکیلا پڑ جائے گا ۔۔۔۔


لیکن جب توں نے اپنا سب کچھ یارم کے لئے قربان کر دینے کا فیصلہ لیا تو میں بہت خوش ہوئی ۔لیکن ابھی میں تجھے ایسے ابہام کییادوں کے سہارے زندگی کاٹتی دیکھتی ہوں تو میرا دل مجھے چین سے رہنے نہیں دیتا ۔


بہت مشکل ہے لیکن ۔۔۔۔ توں اپنے گھر چلی جا اور اپنی نئی زندگی شروع کر ۔۔۔۔۔ یارم تمہارا بیٹا رہے گا جب بھی تیرا دل کرے توںچلی آنا ۔ 


وہ دل پر مشکل سے صبر کا بن لگائے بولی تھی چونکہ وہ سمجھ چکی تھی اُسکی عمر اتنی نہیں کہ وہ پوری زندگی اکیلے بسر کرسکے ۔ اور وہ یارم کی سگی ماں بھی نہیں کہ اپنی زندگی برباد کر ڈالے ؛۔


“ امی آپ کیا بول رہی ہیں ، عبادت ان کی باتیں سن بے یقینی سے آنکھیں بھر گئی ۔ ابہام کو گزرے ہوئے ڈیرھ سال ہونے کو آیا تھا ۔


بیٹا ۔۔۔۔۔ وہی کہہ رہی ہوں جو سچ ہے ، وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے بولی تو عبادت درد سے دیکھتے انکا ہاتھ تھام گئی ۔۔۔۔


امی ۔۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ ُمیرے لیے زیادہ پریشان نہ ہوں ، میں اپنی زندگی ایسے ہی ابہام کی بیوہ  بن گزرا دینا چاہتی ہوں ، مجھ سے میرایہ حق مت چھینیں ۔۔۔۔


اس زمانے میں بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو خوشی سے اپنی زندگی ایسے گزرتی ہیں ، میں ابہام کی جگہ اپنے دل میں کسیدوسرے مرد کو نہیں دے سکتی ۔


ویسے بھی کس نے کہا میں اکیلی ہوں ۔۔۔؟ میرے پاس آپ ہو ۔۔۔۔ یارم میرا بیٹا ہے ، مجھے اور کیا چاہیے ۔۔۔؟ پلیز مجھ سے میرے یارمکو دور کرنے کی بات مت کریں ،میں مر جاؤں گی ۔۔۔


وہ بہتی آنکھوں سے اُنکے ہاتھ پکڑ بولی تو ابہام کی ماں نے روتے اُسکو خود سے لگایا ۔ 


عبادت میں کب تک تیرے ساتھ رہوں گی ،مجھے اس زندگی کا بھروسہ نہیں ، لیکن پھر بھی میں اللہ سے تیرے اچھے کی دعا کرتیہوں وہ اتنا کہتے ُاسکا ماتھا چوم وہاں گئی 


یہی پل اُنکا آخری لمحہ تھا ، اگلی صبح وہ بھی اُنکا ساتھ چھوڑ اس دنیا سے جا چکی تھی ، عبادت کا غم کم ہوتا کہ حد سے بڑھتاچلا گیا 


جیسے ہی ابہام کی ماں اس دنیا سے گئی ۔۔۔۔ ابہام کی بہن نے عبادت کو اپنے گھر سے نکال دیا ، یارم کو عبادت کے پاس جانے سےروک دیا ۔ 


اس سے پہلے عبادت کوئی کیس کرتی یارم کو لینے کی کوشش کرتی ابہام کی بہن یارم کو لیتے وہاں سے ہمشیہ کے لیے چلی گئیعبادت اور اسُکے گھر والوں نے بہت ڈھونڈا یارم کو ۔۔۔۔ لیکن شاید قسمت ئہی چاہتی تھی ۔


عبادت کی خوشیاں کبھی بھی چند پلکوں سے زیادہ اُس پر مہربان نہیں ہوئی تھی ، 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


جاری ہے۔ 


السلام علیکم 


امید کرتی ہوں آپ سب اچھے سے ہونگے ، اگلا ایپی ماضی کا نہیں بلکے حال کا آنے والا تھا 


عبادت کا ماضی پڑھ کیسا لگا کمنٹ باکس میں ضرور بتاتا چونکہ یہ کہانی صرف کہانی سوچ کر نہیں لکھا ، زندگی میں کچھ لوگوںکے سچے واقعے دیکھ ہی اپنے قلم سے لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ 



This is Official Webby MadihaShah Writes. She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers, who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Meri Raahein Tere Tak Hai Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri raahein Tere Tak Hai written by Madiha Shah.  Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about  Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

Second Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آفیشل ویب مدیحہ شاہ رائٹس کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے شروع کیا ۔مدیحہ شاہ ان چند ادیبوں میں سے ایک ہے ، جو اپنے انوکھے تحریر ✍️ اسلوب کی وجہ سے اپنے قارئین کو اپنے ساتھ جکڑے رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے شروع کیا تھا۔ انہوں نے بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں اور ان کے بارے میں لکھنے کے لئے مختلف موضوعات کا انتخاب کیا ہے

    نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا

ان کا پہلا طویل ناول ہے۔ اس کی کہانی بچپن کی  نفرت سے    شروع ہوتی ہے اور محبت کے اختتام تک پہنچ جاتی ہے۔ کہانی میں بہت سارے اسباق مل سکتے ہیں۔ یہ کہانی نہ صرف نفرت سے شروع ہوتی ہے بلکہ اس کا اختتام محبت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ناول میں بہت ساری اجتماعی باتیں سیکھی جارہی ہیں .... ، بہت ساری معاشرتی برائیاں اس ناول میں دبا دی گئیں۔ مختلف ناولوں سے جو آج کے نوجوانوں کو تباہ کرتی ہیں وہ اس ناول میں دکھائے گئے ہیں۔ اس ناول میں ہر طرح کے لوگوں کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

  میرا جو صنم ہے ذرا بے رحم  ہے

ان کا دوسرا بہترین طویل رومانٹک سب سے زیادہ مقبول ناول تھا۔ مدیحہ شاہ کے ناول کے اختتام کے ایک سال بعد بھی قارئین اس کو بے شمار بار پڑھ رہے ہیں۔

میری راہیں تیرے تک ہے مدیحہ شاہ   کا   اب تک کا ایک بہترین ناول ہے۔ ناول پڑھنے والوں کو یہ ناول دل کی انتہا سے پسند آیا۔ اس ناول میں خوبصورت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس ناول میں ان دو لوگوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جنہوں نے ایک بار شادی  کی  اور اس کا خاتمہ ہوگیا ، نہ صرف یہ ، بلکہ یہ بھی کہ تعلقات کی خاطر کس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔

انسان کس طرح اپنے رشتوں کے سامنے اپنے دل کو درد میں ڈالتا ہے اور قربانی بن جاتا ہے ، آپ اسے پڑھ کر پسند کریں گے۔

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول

 مدیحہ شاہ نے ایک نیا اردو سماجی رومانوی ناول  نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا    تحریر مدیحہ شاہ پیش کیا۔ نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  از مدیحہ شاہ ایک خاص ناول ہے ، اس ناول میں بہت سی معاشرتی برائیوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ یہ ناول ہر طرح کے تعلقات کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے آپ اسے ضرور پڑھیں۔

اتنا ہی نہیں مدیحہ شاہ نئے لکھنے والوں کو آن لائن لکھنے اور ان کی تحریری صلاحیتوں اور مہارت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم دیں۔ اگر آپ سب لکھ سکتے ہو تو اپنا لکھا ہوا کوئی بھی ناول مجھے سسینڈ کریں میں اسکو یہاں اپنی اس ویب پر شائع کروں گئی اگر آپ کو یہ اردو رومانٹک ناول کی کہانی کامنٹ بلو پسند ہے تو ہم آپ کے مہربان جواب کے منتظر ہیں۔

آپ کی مہربانی سے تعاون کرنے کا شکریہ

 /کزن فورس میرج پر مبنی ناولر ومانٹک اردو ناول

مدیحہ شاہ نے بہت سے ناول لکھے ہیں ، جن کو ان کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ پسند کیا۔ وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں نئے اور مثبت خیالات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ بہترین لکھتی ہیں۔

 

If you want to download this novel ''Meri Raahein Tere Tak Hai'' you can download it from here:

 

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

to download in pdf form and online reading.

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 01, 05

Episode 06 to 10 

Episode 11 to 15 

Episode 16 to 20

Episode 21 to 25

Meri Raahein Tera Tak Hai By Madiha Shah Episode 33 is available here

اگر آپ یہ ناول ”میری راہیں  تیرے تک ہے“ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن پر کلک کریں اور مزے سے ناول کو پڑھے

اون لائن لنک

Online link    

Meri Raahein Tere Tak Hai Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

میری راہیں تیرے تک ہے ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

اگر آپ سب کو اس ویب پر شائع ہونے والے ناول پسند آرہے ہیں تو ، براہ کرم میری ویب پر عمل کریں اور اگر آپ کو ناول کا واقعہ پسند ہے تو ، براہ کرم کمنٹ باکس میں ایک اچھی رائے دیں۔

شکریہ۔۔۔۔۔۔

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files, as we gather links from the internet, searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

حق اشاعت کا اعلان:

مدیحہ شاہ سرکاری طور پر صرف پی ڈی ایف ناولوں کے لنکس بانٹتی ہے اور کسی بھی سرور پر کسی فائل کو میزبان یا اپلوڈ نہیں کرتی ہے جس میں ٹورنٹ فائلیں شامل ہیں کیونکہ ہم گوگل ، بنگ وغیرہ جیسے دنیا کے مشہور سرچ انجنوں کے ذریعہ تلاش کردہ انٹرنیٹ سے لنک اکٹھا کرتے ہیں اگر کوئی پبلشر یا مصنف ان کے ناولوں کو یہاں پایا جاتا ہے کہ اپ لوڈ کنندہ کو ناولوں کو ہٹانے کے لئے کہیں جس کے نتیجے میں یہاں موجود روابط خود بخود حذف ہوجائیں گے۔  

 

No comments:

Post a Comment