Pages

Wednesday 12 June 2024

Dil Yeh Mera By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story

Dil Yeh Mera By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Dil Yeh mera By Rimsha Hussain Romantic Complete Novel 



Novel Name: Dil Yeh Mera

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


آج کی تاریخ میں کھانا ملے گا کہ نہیں؟چارپاٸی پہ بیٹھے انور نے باورچی کھانے کی طرف منہ کرکے چیخ کر بولے۔

آٸی چچا بس دو منٹ۔دعا نے ہربڑاکر اپنے چچا کو جواب دیا کیوں کی ان کو بنا بات پہ بھی غصہ آنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔

یہ لے۔دعا نے جلدی سے کھانے کی ٹرے ان کے سامنے کی جس میں دال روٹی تھی۔

لاٸی تو یہی ہںو پر دیر تو اتنی کی جیسے نجانے کونسے کورمے بنا رہی تھی۔انور نے ٹرے اپنے سامنے کرتے کہا۔

گیس ختم ہںونے کو تھی اس لیے آگ آہستہ کی تھی کہ کھانا بن جاۓ۔دعا نے جلدی سے وضاحت دی

اب یہ اور خرچہ میرے ماتھے پہ ۔انور نخوت سے بولا۔

جس پہ دعا بنا کجھ کہے سر جھکا کر اپنے کمرے کی طرف گٸ اور ليٹ کر اپنی زندگی کا سوچنے لگی جو اس لیے بے رونق سی تھی۔اس ماں باپ کا انتقال بہت سال بعد پہلے ہی ہںوچکا تھا۔اس کے بابا کے ایک ہی بھاٸی تھے انور جو جوراٸی اور شرابی کی براٸی عادتوں میں تھے پر ان کی اہلیہ زبیدہ بہت نیک خاتون تھی اپنے شوہر کی ہر براٸی کو جانتے ہںوٸے بھی اللہ کی بہتری سمجھ کر اس کے ساته گزارا کرلیتی تھی پر اللہ نے ان کو اولاد کی نعمت اور رحمت سے محروم رکھا تھا اس لیے جب قاسم اور پارس دعا کے والدین کے انتقال کے بعد اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اور پڑھاٸی کا بھی خرچہ اٹهاتی تھی کیوں کی انور تو ایسے ہی نوکری کبهی کوٸی کرتے تو کبهی کوٸی اور ایک جگہ ان کا ٹکنا ممکن نہیں ہںوتا تھا ایسے میں زبیدہ نے اپنے سلاٸی کے پٸسے دعا کی پڑھاٸي اور دوسرے اخراجات کے لیے رکھتی تھی جتنا ان سے ہںوسکتا تھا۔پر کجھ ٹائم پہلے ہی وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہںوگٸ تھی جس سے دعا اب اکیلی رہنے لگی تھی اور تنہائی اس کو کاٹ کھانے کو ڈورتی تھی اپنے چچا سے اس کو ہمیشہ ڈر لگا رہتا تھا کیوں کی ان کو رشتوں کا کوٸی پاس نہ تھا اور وہ ایسے اپنے آوارہ دوستوں کو گھر بھی لیتے آتے جس پہ دعا کا دل خوف میں ہی رہتا پر وہ مجبور تھی حالات کے ہاتهوں اس کے پاس اور کوٸی پناہ بھی نہ تھی جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی کالج کے بعد اس نے یونیورسٹی میں نہیں پڑھا تھا اس کا بہت دل تھا آگے پڑھنے کا پر اس کہ پاس ایسا کجھ تھا بھی نہیں جو وہ آگے پڑھتی نوکری کی اس نے تلاش  کی تھی جس میں ابھی تک وہ ناکام رہی تھی۔یہ باتيں وہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں اتر گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

گاٸيز یہ عمیر کب آۓ گا؟ فواد جو آدھے گھنٹے سے اپنے گروپ کے ساته اپنے اہم گرو مطلب عمیر کے انتظار میں تھے جس کے ابھی تک آنے کے آثار لگ نہیں رہںے تھے تنگ آکر اس نے سب کی طرف دیکه کر پوچها 

تمہيں تو پتا ہںے وہ جناب اتنی جلدی نہیں آنے والے کیوں کی یونی میں جلدی آنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اس کے ساٸيڈ پہ بیٹھا شاہزین بولا۔

اللہ کو مانو نو بجہ رہںے ہيں اور تم اس کو جلدی بول رہںے ہںو ہمارا پہلا لیکچر تو عمیر کے انتظار میں ہی گزر جاۓ گا۔ان میں سے اب کی عمارہ نے کہا جس کو ہر وقت پڑھنے کی فکر لگی رہتی تھی۔

تو تم جاٶ میں اپنے عمیر کا انتظار اکیلے کرسکتی ہںوں۔اس کی بات پہ کشف اپنے بال جھٹک کر ایک ادا سے بولی جس کی ہال میں ہی دونوں کی رضامندی سے منگنی ہںوٸی تھی۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا۔عمارہ اپنا چشمہ آنکهوں پہ ٹھیک کرتی منمناٸی جس پہ وہ شاہزین کو بہت کیوٹ لگی پر وہ اپنی نگاہ اس پہ سے ہٹاکر بولا۔

لو آگیا عمیر۔اس کی بات پہ سب نے سامنے کی طرف دیکها جہاں وہ اپنی پوری وجاہت کے ساته چلا آرہا تھا بلو شرٹ اور پینٹ پہنے وہ سب لڑکیوں کا دل دھڑکا گیا تھا پر وہ سب بے نیاز اپنے گروپ کی طرف آیا۔

میں لیٹ تو نہیں آیا نہ عمیر اپنے سامنے کسی کھسکا کر بیٹھتا سب کی خشمگین نگاہے محسوس کرکے آرام سے بولا۔

نہیں جناب آپ تو بہت جلدی آگٸے ہيں آپ کو چاہٸیے تھا کجھ اور آرام سے آتے۔فواد اس بات پہ بھگوکر تیر برساتا بولا پر پرواہ کسے تھی۔

اچها۔عمیر ہنس کر بولا۔

اچها اب ہمیں اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف جانا چاہٸیے۔عمارہ اپنا بیگ سنبهالتی ان سب کو کہنے لگی جس پہ عمیر نے آنکهيں گھماٸی۔

مجھے بہت ہمدردی ہںے اس سے۔عمیر بہت لاچار لہجے میں عمارہ کو دیکه کر کہا۔

کس سے؟عمارہ اپنا چشمہ آنکهوں پہ ٹھیک کرتی عمیر سے تجسس سے سوال کیا

اس سے جس سے تمہاری شادی ہںوگی اور وہ بیچارہ جب تم سے پیار کی باتيں کریگا تو تم اس سے کہوں گی اچها اب ہمیں اپنی پڑھاٸی دوبارہ شروع کرنے کا سوچنا چاہٸیے۔عمیر پہلے سنجيدگی سے پھر کجھ شرمانے کی اداکاری کرتا بولا جس پہ عمارہ نے منہ بنایا باقی فواد اور کشف نے قہقہقہقہ لگایا جب کی شاہزین کے تاثرات بلکل سپاٹ سے تھے وہ سب آپس میں بہت گہرے دوست تھے اور پیار بھی بہت تھا پر اس کو اب کبهی کبهی عمارہ کا ایسے مزاق بناتے دیکه کر اچها نہیں لگتا تھا وجہ وہ جانتا نہیں تھا یا جاننا نہیں چاہتا تھا ورنہ اگر کوٸی اس کے ساته مزاق کرے یا نہ کرے وہ ضرور اس کو تنگ کرتا تھا۔

ویسے واقعی میں  اب ہمیں چلنا چاہٸيے۔شاہزین سنجيدگی سے اٹهتا ان سے کہنے لگا وہ سب بزنس کے دوسرے سال میں تھے۔اس کی بات پہ سب اٹه کر اپنی کلاس اٹینڈ کرنے کے لیے چلے گٸے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

بیگم کیا ہںوا کجھ پریشان لگ رہی ہيں؟۔اختر شاہ نے اپنی بیوی نصرت سے پوچها ۔

کجھ خاص نہیں اختر صاحب بس وہ بھابھی اپنی بیٹی دانیہ کا رشتہ شاہزین سے کرنا چاہتی ہيں؟انہوں نے بتایا۔

اچها پر ابھی تو ان کی پڑھاٸی چل رہی ہںے۔اختر شاہ ان کی بات سمجھتے ہںوۓ بولے۔

ہاں یہ تو ہںے پر دانیہ کا مزاج اب ایسا تو ہںے نہیں جو شاہزین اس کے ساته رہ سکے آپ تو جانتے ہيں اپنے بیٹے کو۔نصرت بیگم نے بتایا۔

آپ بات کرلینا اس سے پھر دیکهتے ہيں ابھی آپ پریشان مت ہںو۔اختر شاہ نے ان کو رلیکس کرنا چاہا جس پہ وہ مسکرادی۔

اچها اب میں نکلتا ہںوں آفس جانے کے لیے۔اختر خان اپنا کوٹ اٹها کر بولے جس پہ انہوں نے خدا حافظ کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دیکهے انور تیری اتنی حيثيت ہںے نہیں جو توں مجھے میرے قرضہ دے سکے اس لیے میری بات مان اور اپنی بھتیجی کا نکاح مجھ سے کردے قرضہ بھی معاف اور جوان لڑکی کی زمیداری سے بھی آزاد ۔اس کے دوست اکبر خباثت سے بولا اور دو تین آدمیوں نے بھی اس کی بات کی تاٸید کی۔

پر توں تو بڑا ہںے اس سے۔انور خان نے اس کی شکل دیکه کر بولا۔

دیکه عمر کو تو ساٸیڈ پہ کرکے اپنا فاٸدہ دیکه اور ویسے بھی اس سے شادی اور کریگا کون۔اکبر اس کی بات پہ لالچ دے کر بولا۔

میں بات کروگا۔انور نے نیم رضامندی دے کر کہا۔جس پہ اس کے دوستوں نے معنی خيز نظروں کے تبادلہ کیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمیر کل اتوار ہںے تو کیوں نہ ہم گھومنے جاۓ۔کشف نے عمیر سے کہا جو برگر کھانے میں مصروف تھا وہ اس وقت یونی کے بعد لنچ کرنے ہںوٹل میں آۓ تھے ۔

خيال تو نیک ہںے۔کولڈ ڈرنک کا سپ لیتا فواد بولا۔

نیک کہاں پیر کو احسن سر کا ضروری ٹيسٹ ہںے اس کی تیاری نہیں کرنی کیا۔عمارہ نے فورن اس کی بات پہ  کہا جس کی بات پہ سب نے اس کو گھورا جب کی شاہزین نفعی میں سرہلاکر رہ گیا۔

 کبهی تو پڑھاٸی کے علاوہ کجھ بول لیا کرو پڑھتے تو ہم بھی ہيں پر جب تم ایسا کہتی ہںو تو لگتا ہںے ہم دنیا جہاں کے نکمے میں ہيں اور ایک تم ہی قابل تعریف ہںو جو ہر وقت ہمارے ساته بیٹھ کر تبليغ کرتی ہںے اور درس دیتی ہںے۔کشف نے اس کی بات پہ چڑ کر کہا۔

میں نے جسٹ ایک بات کی۔عمارہ اپنا چشمہ درست کرتی بولی یہ اس کی عادت تھی بات بات پہ اپنی عینک پہ ہاته رکھنا۔

اف خير تو بتاٶ عمیر کیا کہتے ہںو؟کشف سرجھٹکتی پھر سے عمیر کو مخاطب ہںوٸی جو ان کی باتوں سے لاتعلق کھانے میں مگن تھا۔

میں تو کل نانو کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا ہںوں بہت ٹائم سے ان کے گھر چکر نہیں لگایا۔عمیر نے اس کی بات پہ اپنا کل کا پروگرام بتایا۔

پھر کبهی چلے جانا۔کشف ناگواری سے بولی۔

ہاں پھر کبهی گھومنے جاۓ گے۔عمیر اس کی ناگواری محسوس کرتے ہلکی مسکراہٹ دے کر بولا۔

اچها زین تم کیا یہ ہروقت موبائل میں لگے رہتے ہںو کس لڑکی کا چکر تو نہیں۔فواد نے موبائل میں مصروف شاہزین سے کہا جو اس بات پہ چونکہ 

نہیں ایسا کجھ نہیں بس فیملی گروپ پہ کجھ مسیج دیکھ رہا تھا۔شاہزین نے جلدی سے وضاحت دی۔

سچ میں یہی بات ہںے نہ ؟عمیر اپنی آٸبرو اُپر نیچ کرتے اس سے شرارت سے دیکه کر پوچها 

جی یہی بات ہںے۔شاہزین ہنس کر بولا اور اپنا موبائل جیب میں رکھ دیا۔

اچها تم لوگوں کو پتا ہںے میری کزن کی شادی ہںے کجھ ماہ بعد۔عمارہ نے پرجوش آواز میں کہا

نہیں ہمیں نہیں پتا کیوں کی کزن تمہاری ہے ہماری نہیں۔فواد اس کی بات پہ اپنے دانتوں کی نمائش کرتا بولا۔

کبهی تو مجھے بولنے دیا کرو۔عمارہ نے ناک سکوڑ کر اس کو دیکه کر کہا۔

ہروقت تو بولتی رہتی ہںو۔عمیر نے عمارہ کے سر پہ چپت لگاکر کہا۔

اچها پر تم لوگوں کو میرے ساته پنڈی چلنا ہںے کزن کی شادی پہ ۔عمارہ نے کہا۔

ابھی تو وقت ہںے نہ پھر دیکهے گے۔کشف نے جواب ميں کہا۔

اب میں چلتا ہںوں تم لوگ نجانے کب اٹهو یہاں سے۔شاہزین کھڑا ہںوکر بولا۔

زین کیا تم مجھے گھر تک ڈراپ کرسکتے ہںو؟ ہمارا ڈراٸيور چھٹی پہ ہںے۔عمارہ نے اپنا بیگ پہن کر شاہزین کو مخاطب کرکے پوچها 

پوچهنے کی کیا بات ہںے کردے گا ڈراپ تمہيں ۔عمیر نے اس کے پوچهنے پہ کہا۔

ہاں آٶ باہر جلدی۔شاہزین کہتا بلیک گاگلز پہن کر نکل گیا۔

یہ آج کل عمارہ کو تنگ کیوں نہیں کرتا۔فواد نے کسی جاسوس کی طرح کشف اور عمیر کی جانب دیکه کر آہستہ آواز میں پوچها جس پہ دونوں کندھے اچکاکر نہیں پتا کہا۔

زین تمہيں پتا ہںے پچهلے ماہ جو ٹيسٹ ہںوا تھا نہ اس میں فیاض نے پورے نمبر حاصل کیے تھے۔عمارہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی شاہزین نے کہا جو گاڑی اسٹارٹ کررہا تھا۔

ہاں تو وہ کیا کم پڑھاکوں کیڑا ہںے جب دیکهو ہاته میں کوٸی نہ کوٸی کتاب اٹها کر گھومتا رہتا ہںے۔شاہزین نے اس کی بات پہ کہا

ہاں پر تمہيں نہیں پتا ميں نے اتنی محنت کی تھی پھر بھی ایک نمبر کم آیا۔عمارہ نے ایسے اس کو بتایا جیسے جانے کتنے کم آۓ ہںو۔

بڑا ظلم ہںوا پھر تو تمہارے ساته ۔شاہزین طنزیہ بولا۔

ہاں نہ۔وہ بنا اس کا طنزیہ سمجھے سرہلاکر بولی۔جس پہ شاہزین نے کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دعا اپنے گھر کا چھوٹا کچن صاف کررہی تھی جب اس کا چچا آکر اس کو اپنے پاس بولایا۔

جی چچا کوٸی کام تھا۔دعا نے اپنے سر پہ لیا ڈوپٹہ درست کرتے پوچها 

تمہارے لیے ایک رشتہ آیا ہںے اور مجھے کوٸی اعتراض نہیں۔چچا نے اس کے سر پہ بم گرایا۔

م م مجھے شادی نہیں کرنی۔دعا نے گھبراکر کہا۔

تو کیا ساری زندگی میرے سر پہ رہںوگی۔انور اس پہ چیخ کر بولا۔

چچا میری بات کو سمجھے آپ۔دعا نے التجا کی۔

کیا سمجھو کل اکبر آۓ گا تم سے ملنے تیار رہنا پھر دو تین بعد اس سے نکاح ہںوگا۔انور بنا اس کی بات سنے بولا۔

چچا اللہ کا خوف کرے میرے باپ کی عمر کا ہںے وہ اور وہ ہيں بھی بہت خراب بدمعاش اور نجانے کتنی براٸی ہںے اس میں۔دعا اپنے حق کے لیے بولی۔

مجھے خوف خدا بتانے کی ضرورت نہیں اور جو کہا ہںے وہ کرنا باپ جتنا ہںے باپ ہںے نہیں۔انور سفاکیت سے بولا۔

میں آپ کی بھتیجی ہںوں میرے ساته ایسا کیسے کرسکتے ہيں؟دعا بے یقين سی بولی۔

اندر جاؤ ۔انور نے اندر کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

چچا۔دعا نے کجھ کہنا چاہا۔

سنا نہیں میں نے کہا اندر جاؤ۔انور نے تیز آواز میں کہا۔

تو وہ اپنے آنسو پیتی کمرے کی طرف چلی گٸ اور وہاں آکر اپنے چھوٹے سے موبائل لے کر اپنی ایک دوست کو کال کی جو اس نے اٹهالی تھی۔

ہاں دعا کیا حال ہںے؟نرما اس کی دوست نے پوچها 

نرما۔دعا اتنا کہہ کر روپڑی۔

کیا بات ہںے تم رو کیوں رہی ہںو۔نرما نے فکرمندی سے پوچها ۔تو دعا نے سب آہستہ آواز میں بتادیا۔

تم بھاگ جانا۔نرما اس کی بات سن کر بولی۔

کیا۔دعا کو اس کی بات پہ شاک لگا۔

ہاں ورنہ وہ آدمی تمہيں بیچ دے گا اس سے اچها ہںے کہ تم بھاگ جانا۔نرما نے اس کو اپنی بات سمجھاٸی۔

اور بھاگ کر جاؤں گی کہاں؟دعا طنزیہ بولی۔

تم بس کل جلدی سے گھر سے نکل کر میرے گھر آجانا پھر سوچتے ہيں کجھ پر تمہارا اب وہاں رہنا محفوظ نہیں۔نرما نے اچهی دوست ہںونے کا ثبوت دیا کیوں کی وہ اس کے حالات سے شروع سے واقف تھی۔

کجھ غلط تو نہیں ہںوگا نہ؟دعا نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

تم زیادہ مت سوچو اور آرام سے سوجانا میں ہںوں نہ ۔نرما نے اس کو پرسکون کرنے کے لیے کہا۔

شکریہ۔دعا نے مشکور لہجے میں کہا۔

دوستی میں نو سوری نو تھینکیو۔نرما نے مسکراکر کہا تو وہ بھی مسکرادی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شکور ماما کہاں ہيں؟عمیر اپنے گھر کہ ہال میں بیٹھا تھا جب شکور ان کے گھر کا ملازم اس کے لیے کافی لایا تو اس نے ملازم سے پوچها 

بیگم صاحبہ تو پارٹی میں گٸ ہيں کسی بزنس پارٹنر کی طرف سے تھی۔شکور نے جواب دیا۔

اچها تم جاؤ ۔عمیر اس کی بات پہ جانے کا اشارہ کرتے بولا۔

مجال ہںے جو میرے والدین کو اپنا بیٹا یاد ہںو۔عمیر نے طنزیہ لہجے میں خود سے بولا۔عمیر کے والد عمر صاحب ایک بہت بڑے بزنس مین تھے جن کا اکثر کام کے سلسلے میں باہر رہنا زیادہ رہتا تھا اور وہ گھر میں ٹائم نہیں دے پاتے تھے ان کی دیکها دیکهی میں مہوش عمیر کی والدہ بھی اپنے سرکل کی دوستوں کے ساته ہر وقت کسی نہ کسی پارٹی شادی میں جایا کرتی ان سے ملنا جلنا اتنا زیادہ تھا کہ ان کو اپنا بیٹا عمیر یاد بھی نہیں تھا پھر جب کشف نے عمیر کو جب پرپوز کیا تھا اس نے اس کا بڑھایا ہںوا ہاته تھام لیا تھا کیوں کی وہ اس کی دوست بھی تھی اور اس کو کسی اور میں دلچسپی بھی نہ تھی تو اس کو کشف ٹھیک لگی کہ کیا پتا اس کے ساته زندگی میں اس کے پیار کی کمی پوری ہںوجاۓ عمیر جہاں جاتا اپنی خوبصورتی شخصيت کی وجہ سے ہر کسی کو پسند آتا تھا پر اس کو اپنی فیملی کی توجہ کی ضرورت تھی جو اس کو نہیں ملی تھی اس کو جب زیادہ اپنی تنہائی دوستوں کے ہںوتے ہںوۓ بھی محسوس ہںوتی جو اس پر اپنی جان چھڑکتے تھے تو وہ اپنی نانو کے گھر جاتا تھا ان سے ملنے ان سے بات کرکے اس کو سکون ملتا تھا پر وہ کبهی کبهی ہی ان پاس جاپاتا تھا اس بار بھی وہ بہت ٹائم بعد جارہا تھا۔عمیر اپنا ماٸينڈ ان باتوں سے بدلنے کے لیے ایل ڈي پہ فلم لگا کر دیکهنے لگا۔

ہر ایک انسان کی اپنی کہانی ہںوتی ہںے جس سے بس وہ خود واقف ہںوتا ہںے ہر ایک انسان کو کسی نہ کسی کی چاہ ہںوتی ہںے کسی بات کی حسرت ہںوتی ہںے دل میں بہت کجھ ہںو ان کے پاس تب بھی ایک بے چیني ضرور ہںوتی ہںے کیوں کی انسان کو سب کجھ مل کر بھی سب کجھ نہیں ملتا عمیر کے ساته بھی کجھ ایسا ہی تھا دیکهنے میں تو وہ ایک مکمل اور خوشحال زندگی گزار رہا تھا سب کے ساته ہنستا شرارت کرتا ہر ایک وہ چیز اس کو مل جاتی جو اس کو پسند آتی پر اس کو اگر کجھ نہ ملا تھا تو وہ تھا اپنے ماما بابا کی توجہ ان کا پیار بابا بس پٸسے کمانے میں مگن تو ماما اپنی دوستی نبھانے میں اس میں سے اگر کوٸی فراموش ہںورہا تھا تو عمیر تھا جس کی ذات وہ اس کے بچپن سے ہی نظرانداز کرتے آرہںے تھے جن کا ان کو اندازہ بھی نہیں تھا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

زین بیٹے ہمیں تم سے کجھ بات کرنی تھی۔وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بال سیٹ کررہا تھا جب نصرت بیگم اس کا کمرے کا دروازہ نوک کرکے اندر داخل ہںوتی ہںوٸی اس سے بولی۔

اگر ٹاپک میری شادی کا ہںے تو ناں کریں۔شاہزین بیزارگی دیکها کر بولا۔

زین۔نصرت بیگم نے اس کے نام پہ زور دیا۔

اچها کریں۔شاہزین ان کو بیڈ پہ بیٹھا کر بولا

بھابھی پوچه رہی تھی تم بتاٶ تو میں انہیں بتادو۔نصرت بیگم نے اس کی طرف دیکه کر کہا۔

امی آپ جانتی ہيں مجھے شادی میں فلحال کوٸی دلچسپی نہیں۔شاہزین ان کی بات پہ سنجيدگی سے بولا

لینی تو پریگی نہ اور کیا بات ہںوجو وہ دانیہ ہںو۔نصرت بیگم نے ہلکے سے مسکراکر اس سے کہا۔

آپ ان کو ابھی کوٸی جواب نہ دے نہ میں کہیں جارہا ہںوں اور نہ ہی آپ کی وہ دانیہ۔شاہزین نے ان کی بات کو ٹالنا چاہا۔

ٹھیک پر جواب ہاں میں ہی دینا جب دو تو۔نصرت بیگم نے اس کی بات پہ متفق ہںوکر بولی۔

میں ابھی ایسا نہیں کہہ سکتا کیا پتا مجھے کوٸی اور پسند آجاۓ تو۔شاہزین نے کوٸی امید نہیں دلاٸی۔جس پہ وہ بس گہری سانس بھر کر رہی گٸ کجھ بھی ہںو پر زبردستی کی قاٸل وہ خود بھی نہ تھی کیوں کی ان کو پاتا تھا زبردستی کے رشتے زیادہ تر چلتے بھی نہیں تھے

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمیر جب اپنی نانو کے گھر کے پاس آیا تو دروازے پہ تالا دیکه کر اس کو تعجب ہںوا کیوں کی وہ نہیں جانتا تھا کہ نانو گھر پہ نہیں ہںوگی عمیر کجھ دیر یہاں وہاں دیکهنے کے بعد اپنی نانو کو کال کرنے کا سوچا۔

اسلام علیکم نانو

وعلیکم اسلام کیسا ہںے میرا عمیر۔دوسری طرف سے شفقت سے بھرپور آواز آٸی جس کو سن کر اس نے سکون کی سانس خارج کی ۔

میں ٹھیک پر آپ کہاں پہ ہيں؟میں آپ سے ملنے آیا تھا تو دیکها اتنا بڑا تالا۔عمیر منہ بنا کر بولا

ہاہا۔وہ میں اپنے رشتہدار کی طرف ہںوں کراچی تمہيں بتا نہیں پاٸی کیوں کی تم مصروف ہںوتے ہںو اور اتنے ٹائم سے ملنے آۓ بھی نہیں۔نانو نے ویسے ہی شفقت سے کہا۔

سوری نانو میں آپ کو ٹائم نہیں دے پاتا۔عمیر نادم ہںوا

ارے ایسا نہ کہو میرے بچے میں بس کل تک واپس آجاٶں گی ابھی کراچی میں ہںوں۔نانو نے اس کو بتایا۔

اچها پھر میں دوسرے اتوار کو آنے کی کوشش کروگا۔عمیر نے کہا۔

انشااللہ ضرور۔نانو نے مسکراکر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دعا کو ابھی تک موقع نہیں ملا تھا کہ وہ گھر سے نکل سکے اس لیے ابھی وہ اپنے گھر کے صحن پہ رکھی چارپاٸی پہ بیٹھ کر اپنے چچا کے گھر سے نکلنا کا انتظار کررہی تھی اور ڈر بھی رہی تھی کہ اگر پکڑی گٸ تو۔اس سے آگے سوچتے اس کی روح تک کانپ اٹهتی۔

میں باہر جارہا ہںوں اکبر کو لے آٶں گا ساته میں اور خبردار جو تم نے کوٸی گستاخی کی تو۔وہ اپنی سوچو میں گم تھی جب انور اس کے پاس آتا بولا۔

نہیں کروگی کجھ۔دعا نظر جھکا کر بولی۔

بہتری بھی اسی میں ہںے۔انور کہتا نکل گیا جس پہ دعا نے شکر کا سانس لیا۔پھر وہ جلدی سے اپنے کمرے میں آکر اپنی چادر لے کر اس کو پہن کر خود کو پوری طرح ڈہانپ کر وہ دروازے کے پاس آکر گلی میں دیکها جو سنسان تھی وہ موقع غنیمت مانتی اپنا پیر گھر سے باہر نکالا اور بنا ادھر اُدھر دیکهے وہ تیز قدموں سے چلتی گٸ پر وہ جلدی میں ہںونے کی وجہ سے بری طرح ٹکرا گٸ پر سامنے اکبر کو دیکه کر اس کا سانس خشک ہںوگیا ایک تو اس کو دیکه کر پتا لگ گیا تھا کہ اسنے پہچان لیا اور دوسری بات یہ کہ وہ ابھی دوسری گلی میں ہی تھی جہاں دوپہر ہںونے کی وجہ سے سب اپنے گھروں میں تھے۔

اۓ تو کدھر بھاگ رہی تھی۔اکبر اس کو دیکه کر جاہلانہ لہجے میں بولا۔

آ آ آپ کو کیوں ب بتاٶ؟دعا نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی۔

ہاہا۔چل گھر کی طرف پھر بتاتا ہںوں تجھے۔اکبر بے ہنگم قہقہقہ لگاکر اس کا ہاته پکڑتا بولا تب ہی دعا نے اس کی کلاٸی کو زور سے کاٹ کر جیسے ہی اپنا ہاته آزاد کروایا بھاگ کر روڈ کی طرف بڑھ گٸ۔

اۓ رک سالی تجھے تو میں سبق سکھاتا ہںوں۔اکبر اپنی کلاٸی پہ اس کے دانتوں کے نشان دیکه کر ضبط سے بولا اور اس کے پیچھے بھاگ کر آنے لگا۔

دعا کو نہیں تھا پتا وہ اب کہاں جارہی ہے اس کو ابھی بس اس درندھے سے بچنا تھا جو کسی آسیب کی طرح اس کے پیچھے لگا تھا بھاگ بھاگ کر وہ تھک گٸ تھی پر رکی پھر بھی نہیں تھی ایسے ہی بھاگتے اس نے پیچھے مڑکر دیکهنا چاہا کہ وہ آرہا ہںے یا نہیں پر اس کو کجھ دیکهاٸی نہیں دیا اس نے جیسے ہی سامنے دیکها تو ایک گاڑی اس کو اپنے پاس آتی دیکهاٸی تھی اس نے گاڑی کو اپنے اتنے قریب دیکه کر خوف سے آنکهيں بند کردی اور وہی بیھوش ہںوکر گرگٸ۔

کیا ہںوا گل خان ؟بانو بیگم نے گاڑی کے رکتے ہی ڈراٸیور سے سوال کیا۔

او وہ بی بی جی کوٸی لڑکی بیھوش پڑی ہںے۔گل خان نے بتایا۔

اللہ خیر۔بانو بیگم کہتی ہی اسٹک کے سہارے گاڑی سے نکلی تو سامنے سفید چادر پہنے جوان لڑکی بیھوش ملی۔

گل خان ادھر آٶ اور اس بچی کو گاڑی میں لاٶ۔بانو بیگم نے اپنے ڈراٸيور کو حکم دیا۔

پر بی بی جی نجانے یہ لڑکی کون ہںے؟اور ہم نے تو اسلام آباد جانا ہںے واپس تو آپ ایسے کیسے کسی انجان لڑکی کو اپنے ساته لاسکتی ہيں؟گل خان نے سر جھکا کر کہا۔

گل خان جو کہا ہںے وہ کرو انسانيت بھی کسی چیز کا نام ہںے کیا ہںوا جو انجان ہے پر اس کی حالت سے اس کی مصيبت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ابھی ہم لیکر جارہںے ہيں پھر اس کو ہوش آۓ گا یہ جہاں کہے گی وہيں چھوڑدے گے۔بانو بیگم سمجھداری سے بولی۔

جی جیسا آپ کہیں۔گل خان نے سرہلایا اور بیھوش پڑی دعا کو گاڑی کی پچهلی سیٹ پہ لیٹایا بانو بیگم بھی وہاں بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔پھر گل خان نے گاڑی چلانا شروع کی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

تمہارا تو اپنی نانو کی طرف جانے کا پروگرام تھا نہ ؟کشف عمیر کو کافی کا کپ تھماکر پوچها 

ہمم تھا تو صحيح پر وہ کراچی ہيں اور مجھے پتا نہیں تھا۔عمیر کپ لیتا جواب دیا۔

اچها ۔کشف کشن گود میں کرتی بس اتنا بولی۔

تم بتاٶ گھر میں کوٸی اور نہیں کیا؟عمیر لاٸونج میں نظر گھماتا اس سے پوچهنے لگا۔

نہیں موم ڈيڈ ٹور پہ گٸے ہںوۓ ہيں اور عادی اپنے دوستوں میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہںے۔کشف نے اس کی بات کا جواب دیا اور اپنی بھاٸی کا بتایا۔

اوکے کافی ختم کرو پھر باہر چلتے ہيں۔عمیر اس کی بات پہ بولا۔

اوکے۔کشف اس کی بات پہ خوش ہںوتے ہںوۓ بولی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اس کو جب ہوش آیا تو خود کو انجان جگہ پہ دیکه کر وہ فورن سے اٹه بیٹھی اور کمرے کو چاروں طرف سے دیکهنے لگی۔وہ کسی خوبصورت کمرے میں خود کو دیکھتی خوفزدہ ہںوگٸ تھی اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اٹه کر آواز لگاتی یہ پتا کرتی کہ وہ کہاں ہںے۔

ڈرو نہیں بیٹی آپ بلکل محفوظ مقام پہ ہيں۔بانو بیگم جو کل رات سے اس کو ہوش میں آنے کے انتظار میں تھی اس کو ایسے حراساں محسوس کرتی وہ اپنے ازلی نرم اور شفقت لہجے میں بولی۔

آ آپ ک کون؟دعا نے صوفے پہ بیٹھی بزرگ خاتون کو دیکه کر پوچها جس پہ پہلے اس کی نظر نہیں پڑی تھی

میرا بانو ارباز ہںے اور اس وقت آپ میرے گھر میں ہيں جہاں میں اور بس ایک ملازمہ رہتی ہںے۔انہوں اس کے سوال پہ مسکراکر بتایا۔

میں جانا چاہتی ہںوں واپس۔دعا نے ان کے نورانی چہرے کو دیکهہ کر کہا۔

کہاں جاۓ گی آپ بتادے ہمارا ڈراٸيور آپ کو بامحفوظ آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آۓ گا۔بانو بیگم نے کہا

اس تکلف کی ضرورت نہیں میں چلی جاؤں گی خود ہی۔دعا نے انکار کرتے کہا۔

آپ کو پتا ہںے آپ کراچی نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہيں۔بانو بیگم نے اس کے انکار پہ بتایا۔

ک کیا؟دعا کی آنکهيں حيرت سے کُھل گٸ۔

جی بیٹا جی آپ کو ہمیں جانتے تھے نہیں اور ہمارا یہاں آنا ضروری تھا اس لیے آپ کو یہی لے آۓ کہ جب آپ کو ہوش آۓ تو آپ کو اپنے گھر بھیج دوگی۔بانو بیگم نے وضاحت دے کر کہا۔ ان کی بات سن کر دعا کی آنکهيں بھیگ گٸ تھی کہ اب وہ کیا کرے گی نرما کے پاس بھی نہیں جا پاۓ گی۔

کیا سوچ رہی ہيں؟بانو بیگم نے اس کو سوچو میں دیکها تو سوال کیا

نہیں کجھ نہیں۔دعا سر نفعی میں ہلاکر بولی۔

میں خود ایک بیٹی کی ماں ہںوں آپ اپنا مسلا مجھے بتاسکتی ہيں اور کیا آپ کسی سے بھاگ رہی تھی؟بانو بیگم نے شاٸستہ لہجے پوچها دعا پہلے ان کو دیکهتی گٸ پھر روتے ہںوۓ اپنا سارا حال ان کے سامنے بیان کردیا جو بانو بیگم نے بہت غور سے سنا انہيں اپنے سامنے بیٹھی معصوم لڑکی پہ ترس آیا کہ اتنی کم عمر میں وہ سب برداشت کرچکی ہںے اس کےخاموش ہںونے کے بعد وہ اس کو روتا دیکه کر صوفے سے اٹه کر اسٹک کے سہارے اس کے پاس بیڈ پہ آگٸ۔

اب رونا مت بیٹی خدا کی آزمائش سمجھ کر اب بس پرسکون ہںوجاٶ اور آپ آج سے ہماری بیٹی بن کر اس گھر میں رہے گی۔بانو بیگم نے دعا کو اپنے ساتهہ لگاکر تسلی دینے والے لہجے میں۔

نہیں آپ کا شکریہ میں اپنے گھر جاؤں گی۔دعا نے جلدی سے انکار کیا۔

شاید آپ بھول گٸ آپ کا وہاں جانا نہ آپ کے لیے محفوظ ہںے اور نہ آپ کی عزت کے لیے۔بانو بیگم نے اس کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔

می میں جانتی ہںوں پر آپ کا مجھ پہ پہلے ہی بہت احسان اور اب مذید نہیں۔دعا نے اٹک اٹک کر بولتی اپنی بات پوری کی۔

یہ احسان نہیں آپ بس یہ سمجھ لیں کہ ہم بھی اپنی تنہائی سے بیزار ہںے اور اگر آپ ہمارے ساته رہ لینگی تو آپ کو اپنا محفوظ مقام بھی ملے گا ماں بھی ملے گی اور وہ سب جو آپ چاہے گی۔بانو بیگم نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔

آپ کسی اجنبی پر ایسے یقين کیسے کرسکتی ہيں؟دعا نے خود کا مزاق اُرانے والے انداز میں کہا

زمانہ شناس عورت ہيں ہم ایک نظر میں ہی انسان کو پہچان لیتے ہيں۔بانو بیگم نے کہا

آپ کے گھر والوں کا مسلا نہیں ہںوگا؟دعا نے رضامندی دینے والے لہجے میں پوچها اب اور کوٸی چارہ بھی تو نہ تھا جہاں وہ رہتی۔

بتایا جو بس یہاں میں ہی رہتی ہںوں اور ایک ملازمہ۔بانو بیگم نے اپنی بات دوہراکر کہا۔

اور آپ کی بیٹي؟دعا نے پوچها 

وہ تو شادی کے بعد دنیا کے رنگوں میں اس قدر گم ہںے کہ اب شاید اس کو یاد بھی نہ ہںو کہ اس دنیا میں ایک عدد اس کی ماں بھی ہںے۔بانو بیگم اداس ہںوکہ بولی

سوری میں نے آپ کو افسردہ کردیا۔دعا نے ندامت سے سرجھکا کر کہا

معافی نہ مانگے آپ کا کیا قصور یہی تو زندگی ہںے اور وقت وقت کی بات ہںے ہر کوٸی بس اپنی زندگی میں اس قدر کھوجاتا ہںے کہ ان کو یہ بھی خيال نہیں آتا کہ کوٸی اپنے بھی ہيں جو ان کے پیار کے لیے ترستے ہيں ان کے وقت چاہتے ہيں۔بانو بیگم نے اس کو شرمندگی سے نکالا۔

میں کوشش کروگی کہ آپ کو کبهی مجھ سے شکایت نہ ہںو۔دعا نے آہستہ آواز میں کہا۔

آپ تو ٹھیک سے بول لیتی ہيں ہمیں تو ایسے ہی لگا کہ آپ اٹک اٹک کر بولتی ہيں۔بانو بیگم نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے شرارت سے کہا جس پہ وہ مسکرادی

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمیر تمہارے پاس کل والے نوٹس ہيں تو مجھے دینا۔شاہزین عمیر کے گھر بیٹھا موبائل پہ کجھ ٹاٸپ کرتا مصروف سا بولا۔

میرے پاس تو نہیں ٹیسٹ جو نہیں دیا تو نوٹس بھی نہیں ملے۔عمیر نے شاہزین کو آنکه مار کر کہا۔

توبہ ہںے کیا تھا اگر تم اور کشف آوارہ گردی کے بجائے کجھ پڑھ لیتے تو۔شاہزین نے تاسف سے اس کو دیکه کر بولا۔

یہ باتيں سمجھانے کے لیے عمارہ کافی ہںے تمہيں اس کی پوسٹ سنبهالنے کی ضرورت نہیں۔عمیر شرمندہ ہںونے کے بجائے اس کو شرمندہ کرڈالا۔

نہیں کہتا میں کجھ پر یہ بتاٶ شادی کا کیا سین ہںے۔شاہزین بات بدل کر اس سے پوچها 

ابھی تو ایسا کوٸی سین نہیں۔عمیر نے صاف انکار کرتے کہا۔

کیوں منگنی کی تو بہت جلدی کردی اور شادی کا کوٸی سین ہی نہیں؟شاہزین تعجب سے بولا

اتنی جلدی میں نہیں چاہتا تھا وہ تو بس کشف کو صبر نہیں تھا ورنہ میں اسٹڈی کمپلیٹ ہںونے کے بعد چاہتا تھا۔عمیر نے جواب دیا۔

تو محبت کرتے ہںونہ کشف سے؟شاہزین اس کی طرف دیکه کر بولا۔

ہاں دوست کی طرح عزیز ہںے مجھے۔عمیر نے اُلٹا جواب دیا۔

نہیں میرا مطلب تھا جیسے کشف چاہتی ہںے تمہيں ۔شاہزین نے وضاحت دی۔

وہ بھی مجھے دوستوں کی طرح چاہتی ہںے۔عمیر نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا۔

اُف عمیر تم ایک مسٹری ہںو جو میں تو نہیں سمجھ سکتا ۔شاہزین ہاته اپر کرتا ہنکارا بھر کر بولا۔

ہاہاہا۔ہر کوٸی سمجھ لیں ہمیں اتنے عام بھی نہیں۔عمیر ہنس کر ڈراماٸی انداز میں بولا۔

ہاں جناب یہ تو ہںے پر مستقبل میں کشف نے تو جان ہی جانا ہںے آخر کو زندگی کی ساتهی جو ہںوگی۔شاہزین نے اس کی بات پہ کہا۔

ہممم یہ تو مستقبل ہی بتاۓ گا زین بابو۔عمیر بھاری آواز میں بولا تو وہ ہنس دیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دعا کو بانو بیگم کے ساته رہ کر ایک مہینے سے زیادہ وقت ہںوگیا تھا اور وہ اب ان سے ہر بات بنا جھجھک کرلیتی تھی ان سے باتيں کرنا ان کو سننا دعا کو اچها لگتا تھا اور اسے اب یہ بلکل محسوس نہیں ہںوتا تھا کہ بانو بیگم سے خون کا رشتہ نہیں کیوں کی اس کو زندگی میں یہ سبق تو مل ہی گیا تھا کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہںوتے ہيں کبهی کبهی اپنے ہی انسان کو گرادیتے ہيں تو جن سے ہماری پہچان بھی نہ ہںوتو وہ ہمیں اٹهادیتے ہيں کبهی نہ گرنے کے لیے۔

میرے آنے سے پہلے آپ گھر میں کیا کرتی تھی نانو؟دعا نے ان سے پوچها جو گارڈن میں پودوں کو پانی ڈال رہی تھی۔

بس بیٹا میں تو اللہ کی عبادت کرتی تھی تب بھی اور یہاں پودوں کو پانی دیتی تھی اور اس علاقے کے بچے بھی آجاتے ہيں کبهی کبهی تو ان سے باتیں بھی۔بانو بیگم اس کے پاس آتے ہںوۓ بتایا

اور آپ کا نواسا بھی ہے نہ جس کے لیے آپ نے کہا تھا کہ ان کی طرح میں بھی آپ کو نانو کہوں۔دعا نے کجھ یاد کرکے کہا۔

ہمم بلکل آجاتا ہںے پر اب شاید پڑھاٸی میں مصروف ہںوگا اس لیے نہیں آیا۔بانو بیگم نے مسکراکر کہا

اچها۔دعا نے سرہلایا

میں بہت ٹائم سے آپ کو کہنا چاہتی تھی کہ تم آگے پڑھو یونيورسٹي میں۔بانو بیگم نے اس کو  دیکه کر کہا

نہیں میں جتنا پڑھی ہںوں اتنا کافی ہںے۔دعا نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا

میں آپ کو پوچه نہیں بلکی بتا رہی تھی۔بانو بیگم نے گھور کر کہا۔

نانو پلیز۔دعا نے التجا کی۔

کوٸی پلیز ویلیز نہیں۔بانو بیگم اس کی سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔

مجھے اب باہر جانے سے خوف آتا ہںے میں بس اب چاروں دیواروں کے بیچ رہنا چاہتی ہوں۔دعا نے اپنا ڈر بیان کیا۔

آپ کو پتا ہںے انسان کو نہ لاپرواہ ہںونا چاہٸیے اور نہ ہی خوفزدہ کیوں کی یہ دونوں ہی زندگی کے لیے ناسور ہںوتے ہيں۔بانو بیگم نے گہری سانس لے کر کہا۔

آپ اپنی بات منوانے کا ہنر رکھتی ہيں؟دعا نے تھکے لہجے میں کہا۔

ایک عمر گزاری ہيں آخر کو ہنر کو تو آنا تھا۔بانو بیگم نے مسکراکر کہا۔

یہ بات بھی آپ کی ٹھیک ہںے۔دعا نے متفق ہںوکر کہا۔

اچها میں اب دیکهتی ہںوں آپ کے لیے کوٸی اچهی سی یونی میں داخلہ۔بانو بیگم نے اس کے سر پہ ہاتهہ پھیر کر کہا۔تو اس نے بس سر اثبات میں ہلایا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہزین آج اپنے کسی جاننے والا کے ساته ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے آیا تھا اس کو آۓ بہت وقت ہںوگیا تھا جب اس کے موبائل پہ کالی آٸی

علی تم بیٹھو میں یہ کال سن کے آٶ۔شاہزین نے اپنے ساته بیٹھے لڑکے سے کہا جس نے بس سرہلایا۔

کہو کیا بات ہے۔شاہزین نے فون پہ کہا

مجھے تم سے ملنا تھا۔دوسری طرف سے لڑکی کی آواز ابھری۔

دیکهو دانیہ۔وہ ابھی کجھ کہہ ہی رہا تھا جب اس کو ریسٹورينٹ کے کورنر ساٹيڈ پہ عمارہ کے ساته کسی لڑکے کو دیکها اس کو کسی لڑکے سے ہنس کر بات کرتا دیکه کر شاہزین کی رگیں تنی اور وہ فون کاٹ کر اس کی طرف آیا جہاں وہ تھے۔

عمارہ۔شاہزین اس کے ٹيبل کے پاس آکر ضبط سے بولا

واہ زین تم واٹ آ گریٹ سرپراٸز۔عمارہ شاہزین کو دیکهتی اپنی جگہ سے اٹه کر خوشدلی سے بولی۔

تم یہاں؟شاہزین لڑکے کو گھوری سے نوازتا اس سے پوچها ۔

ایک منٹ ویٹ میٹ ماۓ کزن برہان۔عمارہ نے اپنے ساته لڑکے کا تعارف کروایا۔

اسلام علیکم۔برہان خوشدلی سے اٹه کر ہاته اس کی طرف بڑھایا۔

وسلام۔شاہزین رسمن بس اتنا بولا۔

اور برہان یہ میرا دوست ہںے شاہزین۔عمارہ نے پھر اپنے کزن کو کہا۔

پلیز سٹ۔برہان نے اس کو بیٹھنے کا کہا۔

تم نے بتایا نہیں یہاں کیوں پڑھنے سے فرصت مل گٸ کیا؟شاہزین بیٹھ دوبارہ اپنا سوال عمارہ سے کیا۔

کہاں یہ نہیں آرہی تھی وہ تو میں مارہ کو زبردستی لے آیا۔عمارہ کے بجائے جواب برہان نے دیا تھا جس پہ شاہزین صبر کے گھونٹ بھر کہ رہ گیا وہ خود نہیں جانتا تھا کہ اس کو اتنا غصہ کیوں آرہا ہںے۔

مارہ؟شاہزین آٸبرو اپر کرتا سوالیہ انداز میں بولا۔

زیادہ تر گھر والے مجھے مارہ کہتے ہيں۔عمارہ نے چشمہ ٹھیک کرکے جواب دیا۔

اچها۔شاہزین بس اتنا کہا پھر برہان کو دیکه کر کہا

اگر ”عمارہ“نہیں آرہی تھی تو آپ نے زبردستی کیوں لے آۓ۔اس نے عمارہ پہ زور دیا

کیوں کی اس کی عادت ہے راضی ہوکر بھی انکار کرنا۔برہان بنا اس کے لہجے پہ غور کیے بولا

بڑا جانتے ہو عمارہ کو۔شاہزین طنزیہ بولا۔

آخر کو بچپن سے ساته ہيں۔برہان فخریہ انداز میں بولا۔شاہزین نے اپنے ہاته کی مٹھیاں زور سے بند کی۔شاہزین کا موبائل بجا تو علی کا نام دیکه کر اس کو یاد آیا کہ وہ یہاں اکیلا نہیں تھا اور علی کو اپنے انتظار میں بیٹھا کر وہ یہاں چلا آیا تھا۔

آپ لوگ بیٹھے میں اپنے دوست کہ ساته آیا تھا۔شاہزین کہتا اٹه گیا۔

کھڑوس نہیں تھا تمہارا دوست؟۔اس کے جاتے ہی برہان نے عمارہ سے پوچها 

بلکل نہیں وہ تو بہت اچهے ہيں آج شاید ان کا موڈ خراب تھا۔عمارہ نے اس جلدی سے جواب دیا۔

امممم ”ان کا“۔برہان نے چھیڑا۔

سدھر جاٶ ہانی ایسا کجھ نہيں۔عمارہ نے سرخ چہرہ سے کہا۔

پر میں نے تو کجھ کہا ہی نہیں۔برہان معصومیت سے بولا۔

کجھ ہے بھی تو نہیں۔عمارہ نے چشمہ ٹھیک کرتے کہا

ہو بھی سکتا ہے۔برہان زیر لب بڑبڑایا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

ٹن ٹون

شکیلا نہیں کیا گھر پہ؟ دروازے پہ بیل کی آواز سن بانو بیگم نے لاٸونج میں بیٹھی دعا سے کہا جو کوٸی میگزین پڑھ رہی تھی۔

نانو وہ کچن کے لیے کجھ چیزے لینے گٸ ہيں میں دیکهتی ہںوں دروازے پہ کون ہے۔دعا ان کو بتاتے صوفے سے اٹهتی باہر چلی گٸ۔دروازہ کھولتے ہی سامنے خوبرو لڑکا دیکه کر وہ ڈر گٸ اور جلدی سے اپنے سر پہ ڈوپٹہ ٹھیک کیا۔

کون ہوتم؟عمیر اپنے نانو کے گھر کہ دروازے پہ انجان لڑکی دیکه کر تعجب سے پوچها 

وہ م وہ م۔دعا اٹک اٹک کر کجھ بولنا چاہا پر بول نہ پاٸی۔

بولنے کی صلاحيت سے محروم ہوکیا؟عمیر نے دوسرا سوال بھی کرڈالا۔

ن نہی۔دعا نے جلدی سے اپنا سر نفعی میں ہلایا۔

کون ہے دروازے پہ ۔بانو بیگم خود اسٹک کہ سہارے چلتی ان تک آٸی دعا بانو بیگم کو دیکهتی جلدی سے ڈور کر اندر کی طرف چلی گٸ۔

عمیر کیسے ہںو میرے بیٹے۔بانو بیگم خوشی سے نہال ہںوتیں اس کی جانب آٸی۔

میں ٹھیک نانو آپ سناۓ۔عمیر ان کو اپنے ساته لگاۓ پوچهنے لگا اور اندر کی طرف آیا۔

اللہ کا شکر ہے۔بانو بیگم نے جواب دیا

لڑکی کون تھی؟نانو پہلے تو کبهی میں نے آپ کے گھر شکیلا کہ علاوہ نہیں دیکها۔عمیر کجھ دیر بعد دعا بارے میں پوچهنے لگا تو بنا جھجھک کر اس کو ساری بات بتادی۔

آپ ایسے کسی کو کیسے اپنے گھر میں پناہ دے سکتی ہيں؟عمیر ناراضگی سے بولا۔

ایسے ہی نہیں رکھا اس کی بات میں سچائی محسوس ہںوٸی تو رکھا ورنہ وہ بیچاری اس ظالم دنیا میں کہاں جاتی اور ہے بھی تو جوان لڑکی نہ۔بانو بیگم آرام سے اس کو سمجھایا۔

اور خوبصورت بھی۔عمیر نے منہ سے پھسلا۔

عمیر۔بانو بیگم نے گھورا 

کیا ہے نانو میں نے ایسے ہی بات کی۔عمیر نے وضاحت دی۔تبھی دعا وہاں چاۓ کی ٹرے لے آٸی۔پہلے بانو بیگم کو دی پھر ڈر ڈر کر عمیر کی طرف بڑھاٸی پر اس کو دیکهنے کی غلطی نہیں کی عمیر بھی ناں اس پہ دھیان دیٸے چاۓ پکڑ لی ڈر تھا کہ کہیں چاۓ اس کے اُپر ہی گِرا دیتی۔

دعا تم بھی بیٹھو نہ ہمارے ساته۔اس کو اندر جاتے دیکه کر بانو بیگم نے کہا۔

جی نانو بس کچن صاف کرلو۔دعا بہانا بناتی چلی گٸ۔جب کی بانو گہری سانس لے کر رہ گٸ اس کو خوفزدہ دیکه کر

الحمداللہ میں شکل بہت خوبصورت ہے۔عمیر چاۓ پیتے بولا۔

تو؟نانو کو اس کی بات سمجھ نہ آٸی۔

تو یہ آپ کی نٸ نواسی مجھ دیکه کر اتنا خوفزدہ ہںوٸی جتنا کوٸی ہارر موویز میں بھوت کو دیکه کر نہیں ہوتا۔عمیر منہ بنا کر بولا۔

ہاہا۔ایسا نہیں ہے بس پہلی دفعہ ملی ہے نہ اس لیے۔بانو بیگم نے ہنس کر بولی۔

اچها خیر یہ بتائيں آپ کہ چاۓ کیوں نہیں پی رہی؟ عمیر اپنا چاۓکا کپ خالی کرتا بولا

بس پانچ منٹ بعد آزان ہونے والی ہے اور میرا وضو ہے اس لیے اور میں نے چاۓ پینا کم کی ہے۔بانو بیگم نے جواب دیا۔

اچها پھر اپنا کپ مجھے دے میں پی لیتا ہوں۔عمیر کہتے ہی ان کی ساٸيڈ پہ رکھا کپ اٹها لیا۔

تم کب سے چاۓ کے اتنے شوقین ہوگٸے ہو؟بانو بیگم تعجب سے بولی۔

آج سے۔عمیر چاۓ کا گھونٹ بھر مزے سے بولا۔

ہاں دعا کے ہاتهوں میں جادو ہے کجھ بنا بہت مزیدار بناتی ہے۔بانو بیگم دعا کی تعریف کرتے بولی۔ان کی بات پہ چاۓ پیتے عمیر کو زبردست کھانسی کا دورہ پڑا۔

عمیر آہستہ کیا ہوا ہے؟بانو بیگم اس کے لال ہوتے چہرے کو دیکه کر فکرمندی سے بولی۔

نہیں کجھ نہیں نانو آپ جاۓ آذان ہورہی ہے۔عمیر خود کو سنبهالتا بولا۔

ہاں جاتی ہوں تم تو یہی ہو نہ ابھی۔بانو بیگم نے اٹه کر پھر پوچها 

جی اتنے ٹائم بعد آیا ہوں ابھی تو یہی ہوں۔عمیر کپ ٹيبل پہ رکھتا بولا۔

صحيح میں نماز ادا کرلوں۔بانو بیگم کہتی لاٸونج سے نکل گٸ۔عمیر بھی اپنی موبائل ميں گم ہوگیا۔دعا بھی کچن سے نکلی تو لاٸونج میں آکر ٹيبل سے کپ اٹهانے لگی۔

چاۓ بنانے وقت آپ کا خیال کہاں تھا؟عمیر موبائل میں اپنی نظر ٹکاتا اس سے سوال کیا پر دعا ناسمجھی سے اس کی طرف دیکهنے لگی۔جواب نہ ملنے عمیر نے اس کی طرف دیکها جو اس کو دیکه رہی تھی۔

چاۓ آپ نے خود پی تھی یہاں ایسے ہی بس ہمارے لیے کی۔عمیر نے ایک اور سوال کیا۔

م م میں آ آپ ک ک کی با ب بات کا م م مطلب ن ن نہی نہیں س س م سمجھی۔دعا نے اٹک اٹک کر بامشکل اپنی بات کی۔اس کے ایسے بات کرتا دیکه کر عمیر کے چہرے پہ مسکراہٹ آٸی پھر کہا۔

اگر اور چاۓ ہو تو پی کے چیک کرٸیگا سمجھ آجاۓ گی میری بات۔اس کی بات پہ دعا دوبارہ کچن میں چلی گٸ۔عمیر اس کو جاتا دیکه کر واٹس ایپ اسٹيٹس دیکهنے لگا۔دعا کچن میں آتے ہی چاۓ کا ایک گھونٹ بھرا پر پھر جلدی سے سنک کی طرف آکر گرا بھی دی دعا کو شرمندگی کے احساس نے گھیرلیا اس کو پتا ہی چلا تھا کہ وہ چاۓ میں چینی کے بجائے نمک ڈال بیٹھی تھی۔

نجانے کیا سوچ رہے ہوگے وہ اور نانو نے کیسے پی لی اور ان کے نواسے نے بھی۔دعا خود کو پریشانی سے کہنے لگی اور دوبارہ دونوں کپس کو دیکها جو بلکل خالی تھے

وہ پھر اپنے کمرے کی طرف چلی گٸ۔

نانو میں اب چلتا ہوں۔عمیر بانو بیگم سے بولا۔

کیوں ابھی تو شام ہے۔بانو بیگم نے بتایا

وہ تو پتا ہے پر ضروری کام ہے۔عمیر نے مسکراکر کہا۔

مجھے تم سے کجھ کہنا تھا۔بانو بیگم نے کہا

کہے۔عمیر ان کی طرف متوجہ ہوا

میں چاہتی ہوں جس یونی میں تم پڑھتے ہو اس میں دعا کا بھی داخلہ کرواٶ۔بانو بیگم عمیر کو دیکه کر کہا

جہاں میں ہوتا ہوں وہاں ہی کیوں؟عمیر نے سوال کیا

وہ بہت خوفزدہ ہے اگر تمہارے ساته ہوگی تو مجھے بھی تسلی ہوگی۔بانو بیگم نے وجہ بتاٸی

میں فارم لے آٶں گا اور آپ سبجیکٹ پوچهٸیے گا اس سے پہلے دن میں لے جاؤں گا ساته پر بعد میں آپ اس کو اپنے ڈراٸيور سے کہٸیے گا کیوں کی میرا آنا ہر روز ممکن نہیں۔عمیر نے کہا

اس کی تم فکر مت کرو میں جانتی تمہارے لیے مشکل ہوگا کیوں کی بہت فاصلہ ہے بس تم وہاں دعا کا خيال رکھنا۔بانو بیگم نے اس کی بات پہ جلدی سے بولی

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دعا کا ایڈمیشن عمیر نے کر والیا تھا پر ان کا ڈپارٹمنٹ الگ الگ تھے بہت سبجیکٹ کی وجہ سے بھی اور عمیر کا اس سے سینٸر ہونے کی وجہ سے بھی اور آج دعا کا یونی میں پہلادن تھا جس کی وجہ سے وہ کجھ نہيں بلکے بہت نروس تھی۔وہ گلابی کلر کے شلوار قمیص پہنا  تھا اور نیٹ کا گلابی ڈوپٹہ اپنے سر پہ اچهے سے پہنے وہ اپنے کندھوں کے اطراف سکن کلر کی چادر ڈال رکھی تھی۔وہ اب تیار تھی بس عمیر کے انتظار میں تھی بانو بیگم نے اس کو بتایا تھا کہ پہلی بار جارہی ہو تو وہ اس کے ساته پھر ڈراٸيور سے ہی چلی جانا اس کو یہ بات ٹھیک بھی لگی پر وہ عمیرسے شرمندہ تھی کہ اس نے نمک والی چاۓ بنا کہ دے تھی۔

ارے ماشااللہ بہت پیاری لگ رہو۔وہ جسے باہر آٸی تو بانو بیگم نے اس کو دیکه کر کہا

شکریہ ۔دعا جھنپ کر بولی تب باہر گاڑی کے ہارن کی آواز آٸی تو وہ بانو بیگم کو خدا حافظ کہتی نکل گٸ۔

محترمہ آگے والی سیٹ پہ آۓ۔عمیر اس کو گاڑی کی بیک سیٹ کا دروازہ کھولتے دیکها تو کہا۔تو دعا سرجھکا کر فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گٸ عمیر ایک نظر اس کو دیکهتا گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا اور ساته ہی میوزک پلے بھی آن کردیا۔

Ye nazar bhi ajeeb thii___

Iss nay dekhay thai manzar sabhii☆~~

___Dekh kar tujhay ik dafah 

 Phir kesi ko na dekha kabhi_____

گانے کے بول پہ دعا کی کیفیت اور عجیب ہوگٸ وہ تو پہلے ہی نروس تھی اب تو بس راستہ جلدی سے گزرنے کی دعائيں کرنے لگی پہلے سوچا کہ اس سے کہے کہ گانا بند کردے پھر سوچا نجانے کیا کہے کہ میری گاڑی میری مرضی تو وہ کیا کرے گی۔اس لیے خاموش رہی۔

Mera pahla junnon _______tou merA

Pahla junnon ____ ishq aaakhri hai______tou

Meri zindagi hai_______tou 

Gum hai ya khushiii hai tou___

Meri Zindagi hai tou______merii

Zindagi hai___tou

عمیر آرام سے گاڑی ڈراٸيو کرتا گانا سننے میں مگن تھا پھر جب اس نے اپنے ساته بیٹھی دعا کو دیکها جو کجھ بے چین لگی اس کو شاید گانا اچها نہیں لگ رہا تھا پہلے خيال آیا کہ بند کردے پھر سوچا اگر اچها نہیں لگ رہا اسے تو خود ہی منع کردے وہ کیوں اپنا مزہ خراب کرے۔

ایسے سوچتے وہ دل پہ پتھر رکھ کر میوزک بند کردیا جس پہ دعا نے شکر کا سانس لیا۔

تمہيں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ایزی ہوکر بیٹھو اور وہاں بھی کانفڈنٹ کے ساته رہنا اور بات کرنا ورنہ مزاق بننے میں دیر نہیں لگتی۔عمیر نے میوزک بند کرتے اس کو نصيحت کی جو بار بار اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے میں لگی ہوٸی یا چادر ٹھیک کرنے میں۔

ج جی۔دعا نے بس اتنا کہا۔

لڑکیاں تو بہت بولتی ہيں تم کیوں اتنی کم گو ہو؟اگر تمہيں لگتا ہے کہ میں تمہارے اٹک اٹک کے بولنے پہ ہنسو گا یا مزاق اڑاٶ گا تو بلکل بھی نہیں میں ایسا نہیں کروگا۔عمیر اپنی اتنی بڑی بات کا جواب ایک لفظی سن کر پہلے منہ بناکر پھر خوشدلی سے کہا۔

م میں ک ک کم ن ن نہیں بو ب بولت بولتی۔دعا کو نجانے کیوں عمیر سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی وہ اس کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ اٹک اٹک کر نہیں بولتی پر کہہ نہیں پاٸی۔

ہاں میں ہی بہرا ہوں پھر۔عمیر طنزیہ بولا۔پھر یونی پہنچ کر گاڑی کو بریک لگاٸی اور باہر نکلا اس کو نکلتا دیکه کر دعا بھی گاڑی سے نکل آٸی۔

آٶ۔عمیر اس کو اشارہ کرتا ساته قدم ملانے لگا۔

گاٸيز وہ دیکهو عمیر کے ساته لڑکی۔ہمیشہ کی طرح انتظار کرتے اس کے دوستوں نے جب کسی لڑکی کے ساته دیکھا تو فواد نے بولنے میں پہل کی جس کی بات پہ سب نے ان دونوں کو دیکها کشف بھی عمیر کے ساته قدم ملاتی لڑکی کو عجیب نظروں سے دیکها۔

کتنے پیارے لگ رہے ہيں دونوں۔عمارہ نے دونوں کو دیکه کر اشتیاق سے کہا جس پہ تینوں نے اس کو گھورا جواب میں وہ زبان دانتوں تلے دباگٸ۔شاہزین عمیر کو دیکها جو بلیک شرٹ اور پینٹ پہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور شرٹ کے اُپر والی بلیک جیکٹ کو اپنے بازوں میں تھامے آرہا تھا اور ساته لڑکی کو دیکه کر اس کو عمارہ کی بات صحيح لگی۔

ہاۓ گاٸيز۔عمیر نے ان کے پاس آکر بولا۔

یہ کون ہے؟کشف نے سوال کیا۔

یہ دعا ہے نانو کی رشتہدار کی طرف سے ہے اور یہ اب اس یونی میں پڑھے گی۔عمیر نے مختصر تعارف کروایا جس پہ سب نے سمجھنے والے انداز میں سرہلایا اور خوشدلی سے اس کو ویلکم کیا۔

تم سے مل کر اچها لگا پیاری لڑکی۔عمارہ نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے اس سے کہا جو عمر میں اس سے چھوٹی تھی۔

شکریہ۔دعا نے ہمت کرکے بنا اٹک کر جواب دیا۔

تم لوگ چلو میں دعا کو اس کے ڈپارٹمنٹ میں چھوڑ کے آتا ہوں۔عمیر ان سے کہتا دعا کو لے کر چلاگیا شاہزین فواد کشف عمارہ بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف چلے گٸے

یہ رہی تمہاری کلاس اور اگر کسی چیز کی مدد کی ضرورت ہو تو مجھ سے مدد مانگنے میرے ڈپارٹمنٹ میں آسکتی ہو۔عمیر اس کو کلاس کے سامنے چھوڑتا بولا۔

جی شکریہ آپ کا۔دعا نے کہا جس پہ عمیر کو حيرت ہوٸی کہ پہلے تو اتنا اٹک کہ بات کررہی تھی پر وہ اپنا سرجھٹکتا نکل گیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

کیسا تھا پہلا دن؟بانو بیگم نے اپنے ساته رات کا کھانا کھاتی دعا سے سوال کیا۔

اچها تھا نانو اور ایک دوست بھی ہوٸی عالیہ اور وہ اتنا بولتی ہے کہ کیا بتاٶں۔دعا منہ میں نوالا ڈالتی ان کو بتایا۔

چلو یہ تو بہت اچها ہوا ورنہ ہمیں تو فکر تھی کہ جانے آپ بات کسی سے کریگی بھی کہ نہیں۔بانو بیگم اس کو دیکهتی محبت سے بولی۔

آپ کے نواسے نے کہا تھا کہ وہاں کانفڈنٹ سے رہنا اور بات بھی کانفڈنٹ سے کرنا وہاں لوگ مزاق بنانے میں دیر نہيں کرتے۔دعا نے ان کی بات پہ عمیر کا کہا بتایا

میرے نواسے کا نام عمیر ہے۔بانو بیگم اس کے عمیر کے ایسے لقب پہ مسکراکر بولی

ہاں وہی انہوں نے کہا تو مجھ سے جتنا ہوسکا میں نے اتنا خود کو کانفڈنٹ کرنے کی کوشش کی۔دعا نے بتایا

سہی ہے ویسے بھی انسان  کو خود مختار ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہر مشکل کا ہمت اور حوصلے سے سامنا کرے بجاۓ رونے اور پریشان ہونے سے پریشانی مسلے کا حل نہیں ہوتا اور نہ ہی رونہ بس یہ کہا کرتے ہيں کہ رونے سے دل ہلکا ہوجاتا۔بانو بیگم نے آرام سے اس کو سمجھایا

میں کوشش کروگی۔دعا نے عزم سے کہا

انشااللہ۔بانو بیگم نے مسکراکر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمیر اپنے کمرے آکر لیٹ کر سویا ہی تھا جب اس کی دعا کی بات یاد ”میں کم نہیں بولتی “اس کے بات کرنے کا انداز یاد کرکے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸ پھر وہ آنکهيں بند کرتے نیند کی وادیوں میں چلاگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

کیا اس کو گرمی نہیں لگتی اتنا خود کو چادروں میں ڈہانپ کر رکھا ہے؟وہ لوگ اس وقت کیفیٹریا میں تھے جب کشف اپنے سامنے والی ٹيبل پہ دعا کی طرف اشارہ کرتے کہا جو عالیہ کی بات سن رہی تھی۔

نہیں جن کو عادت ہو ان کو ان چادروں کے بغير گرمی لگتی ہے۔فواد نے مزاقً انداز میں کہا۔پر عمارہ اپنی کتاب میں مگن تھی اور شاہزین کال سننے کے لیے کجھ دور تھا جب کی عمیر نے اس کی بات پہ اپنی نظریں موبائل سے ہٹا کر دعا کی طرف دیکها جو بلیک شلوار قمیص پہنے ڈوپٹہ سر پہ اچهے سے پہن رکھا تھا جب کی کندھوں پہ سکن کلر کی چادر تھی وہ سب سے بہت منفرد اور خوبصورت لگی عمیر کو جو بنا آس پاس دیکهے اپنے آپ میں مگن عالیہ باتوں میں تھی پھر اس نے اپنے پاس بیٹھی کشف کو دیکها جو بلو ٹاپ اور بلو پینٹ میں تھی۔کھولے بال وہ اپنی حالت سے لاپروہ موبائل میں مگن تھی عمیر کو پہلی دفعہ کشف کی ڈریسنگ بری لگی تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمارہ تمہاری کزن کی شادی کب ہے؟شاہزین واک کرتے کرتے عمارہ سے پوچها 

وہ کینسل ہوگٸ۔عمارہ نے دکهی چہرہ بنائے بتایا

اوہ کیوں؟شاہزین نے پوچها 

بس فیملی پروپلمز کی وجہ سے۔عمارہ نے کندھے اچکا کر بتایا۔

ٹھیک۔شاہزین نے سرہلایا۔

ویسے زین تمہارا کیا ہے سین پڑھاٸی کے بعد؟عمارہ نے سرسری سا پوچها 

ڈيڈ کے ساته بزنس کروگا۔شاہزین نے بتایا

اس کے بعد؟عمارہ نے پوچها 

اس کے بعد اپنا خود کا  بزنس شروع کروگا۔شاہزین مسکراہٹ ضبط کرتا بولا۔

اور پھر؟عمارہ نے بے چینی سے پوچها 

اور جہاں امی کہے گی وہی شادی کروگا وہ تو ابھی کروانا چاہتی ہيں پر میں نے روک رکھا ہے۔شاہزین اس کو جانچنے کے لیے بولا۔

ناٸس میں آتی ہوں ذرہ۔عمارہ کہتی بھاگ کر نکل گٸ۔جب کی شاہزین کا قہقہقہقہ نکل گیا۔

پاگل۔شاہزین اس کے جانے کے بعد خود سے بولا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

عمیر آج تم دعا کو اپنے ساته باہر لے جاؤ۔عمیر آج بانو بیگم سے ملنے آیا تھا تو انہوں نے کہا۔

مجھے تو اعتراض نہیں آپ اس سے پوچه لیں۔عمیر کہتے ہی دعا کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

مجھے کجھ ضروری نوٹس بنانے تھے۔دعا نے بہانا کیا اب اس کو عمیر کے سامنے زیادہ بولنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی گھبراہٹ۔

بعد میں کرلینا۔عمیر نے اس کو مخاطب کرکے کہا۔

میں چادر لے آٶ پھر۔دعا کہتے ہی اپنے کمرے کی طرف بڑه گٸ عمیر کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸ۔

تم ہمیشہ سے ہی ایسے پردہ کرتی ہو؟گاڑی میں بیٹھتے ہی عمیر نے اس سے پوچها 

جی۔دعا نے جواب دیا۔

کیوں؟بے ساختہ پوچها گیا

تاکہ غير مردوں کی بری نظروں سے بچ سکوں۔دعا نے نظر جھکا کر بتایا۔

کیا کسی کا دیکهنا اتنا برا ہے؟عمیر نے دوبارہ پوچها 

کسی کا نہیں بس نامحرم کا دیکهنا برا ہے۔دعا نے وضاحت دی۔

تو کیا سب کی نظریں بری ہوتی ہيں ایسے بھی تو کوٸی دیکهتا ہے۔عمیر کندھے اچکاکر بولا۔

وہ تو اللہ بہتر جانتا ہے بس ہمیں نامحرم مردوں سے پردے کا حکم ہے۔دعا نے رسانیت سے اپنی بات کی۔

اچها تو تمہاری خيال  کے مطابق لڑکی کو کیسے ہونا چاہٸیے۔عمیر نے دلچسپی سے سوال کیا

لڑکی کو چاند نہیں ہونا چاہٸیے۔جس کو ہر کوٸی شوق سے چاہت سے محبت سے دیکهتا رہے۔میرے خيال میں لڑکی کو سورج ہونا چاہٸیے۔جسے کوٸی بھی عام شخص نہ دیکه سکے وہ جسے دیکهنے کے لیے خاص قوت درکار ہو وہ جس کی روشنی کی حدت سے آنکهيں چندھیاں لگے وہ جیسے دیکهنے کے لیے آنکه اٹهاٸيں تو ہزار بارجھپکے وہ بولے تو اس کے لہجے کی تپش برداشت نہ ہو وہ جو گرچے تو مضبوط عمارتيں ڈھے جاٸيں۔اسلام کی چادر سے خود کو ڈھانپ کر رکھے ایسا ہونا چاہیے لڑکی کو۔دعا نے ٹرانس کی کیفیت میں سب بتاتی گٸ۔عمیر سانس روکے اس کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا اس میں اب مزید ہمت نہ تھی کہ کجھ اور پوچهے۔

میں تو ایسے ہی سمجھا تھا کہ تم کم بولتی ہو۔عمیر نے کجھ دیر بعد کہا۔تو اس نے بس مسکرانے پہ اکتفا کیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

ہمارے یونیورسٹی میں ان تینوں کا ٹشن ہی کجھ اور ہے۔عالیہ نے سیڑھیو پہ بیٹھی دعا کہ کے پاس آکر عمیر شاہزین اور فواد کی طرف اشارہ کرتے کہا جو ریس لگا رہے تھے۔

تم امپریس ہو ان سے؟دعا نے پوچها 

میں کیا سب۔عالیہ نے آنکهيں گھماکر بتایا۔

اوہ۔دعا نے دسرہلایا

عمیر اور کشف کا تو کوٸی جوڑ ہی نہیں۔عالیہ نے افسوس سے کہا۔

جوڑ کیسا وہ تو بہت اچهے دوست ہيں۔دعا کو اس کی بات سمجھ نہ آٸی۔

کیا تمہيں نہیں پتا ایک سال پہلے ہی ان کی منگنی ہوٸی تھی۔عالیہ نے بتایا۔

ا اچ اچها مجھ مجھے س سچ م ميں ن نہیں ت تھا پ پ پت پتا۔دعا کو نجانے کیوں یہ بات جان کر عجیب محسوس ہوا۔

اچها اب تو پتا چل گیا میں تو یہ کہہ رہی تھی کشف کجھ زیادہ ہی بولڈ قسم کی ہے اور عمیر تو خوبصورتی میں اور ہر لحاظ سے اس سے بہتر ہے۔عالیہ نے کہا۔

نہیں اگر وہ ساته ہيں تو ان کو زیادہ پتا ہوگا نہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا پتا عمیر کو کشف اور اس کی بولڈنس کانفڈنس ہی پسند ہو اور اچهے دوست سے زیادہ ہمسفر کوٸی ہو بھی نہیں سکتا۔دعا نے اپنا نظریہ بتایا۔

دوست ہمیشہ دوست ہی رہتا ہے اگر اس سے شادی ہوتو وہ بس ہمسفر اور زندگی کا ساتهی بن جاتا ہے دوستی کا رشتہ تو کہیں اور جاکر سوجاتا ہے۔عالیہ نے اس کی بات پہ اختلاف کیا۔

دوستی اتنی کمزور نہیں ہوتی اگر دوست مخلص ہوتو اور ان کا گروپ تو ماشااللہ بہت پیارا ہے یونی میں اکیلے کہیں بھی نہیں جاتے اگر کوٸی نہ ہوتو باقی اس کا انتظار کرتیں ہيں۔دعا نے کجھ یاد آتے ہوۓ بتایا

ہاں یہ تو ہے پر خير ہر کسی کی اپنی زندگی ہے وہ اپنے لیے اگر فیصلا کررہا ہے تو کجھ سوچا ہی ہوگا۔عالیہ نے بھی ہاته جھاڑ کر کہا۔

اچها میں لاٸبریری سے کجھ کتاب دیکه کر آتی ہوں۔دعا کہہ کر اٹه کر چلی گٸ۔

آج کشف نہیں بتارہی تھی کہ اس کا کزن آرہا ہے آمریکا سے۔عمارہ نے گراؤنڈ پر ان تینوں کو آکر دیکها تو بتایا

ہاں میری بات ہوٸی تھی کل رات۔عمیر اپنا پسینہ صاف کرتا بولا۔

میں دعا کو دیکهتے آتا ہوں۔عمیر کہہ کر عالیہ کے پاس جانے لگا دعا کا پوچهنے

ان محترم کو تو اب بس دعا کا دیدار ہی کرنا رہ گیا۔فواد گھاس پہ بیٹھ کر بولا۔

تو تمہيں کیا مسلا ہے اس کے نانو کی قریبی رشتہداروں میں سے ہے تو عمیر کی کزن ہوٸی اور اس کا خيال رکھنا تو اس پہ فرض ہے۔عمارہ نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے گھور اس کو کہا۔

جی جی شما چاہتا ہوں آپ سے ہم سے بھول ہوگٸ۔فواد اس کے سامنے ہاته جوڑ کے بولا۔

اپنی ڈرامے بازی اب بند بھی کرو۔شاہزین چڑ کر بولا۔تو وہ خاموش ہوگٸے۔

کیا میں آپ سے کجھ بات کرسکتا ہوں؟دعا کوٸی کتاب پڑھ رہی تھی جب اس کا کلاس فیلو جمیل اس کے پاس آکر بولا۔

جی کہیں۔دعا نے اجازت تھی۔

میں آپ سے بہت ٹائم سے بات کرنا چاہتا تھا پر کبهی موقع نہیں ملا آج ملا تو سوچا آپ سے کہہ دوں۔اس نے کہتے ہی خاموش ہوا۔

آپ بات کرے میں سن رہی ہوں مجھے پھر باہر جانا ہے۔دعا نے اس کو چپ ہوتا دیکه کر اپنی بات جاری رکھنے کا کہا۔

میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔اس نے کہہ کر اس کا ہاته پکڑنا چاہا پر عمیر نے اس کا ہاته بیچ میں ہی زور سے پکڑا اور باہر آنے کا اشارہ کیا کیوں کی لاٸبریری میں وہ تماشا نہیں چاہتا تھا جب کی دعا تو اس کی اتنی سی بات پہ ہی کانپ کہ رہ گٸ تھی اس نے اس وقت پہ لعنت بھیجی جس پہ اس نے بات کرنے کا کہا

ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم؟عمیر نے باہر لاکر اس سے پوچها 

میں ان کو پسند

اس کی بات بیچ میں ہی تھی جب عمیر نے اس کو منہ پہ زور سے مکہ دے مارا جمیل کو اپنے دانت ٹوٹتے محسوس ہوۓ گراؤنڈ میں سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگٸے دعا عالیہ کے پیچھے کھڑی ہوگٸ۔

عمیر کیا پروبلم ہے؟شاہزین اس کے پاس آکر پوچهنے لگا

یہ کیا حرکت ہے عمیر میں تو عزت سے ان سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔جمیل غصے سے بولا

آج کے بعد تم مجھے دعا کے آس پاس بھی نظر مت آنا ورنہ پھر تم کسی کو نظر نہیں آٶگے۔عمیر دوبارہ اس کے چہرے پہ وار کرتا بولا۔

عمیر کنٹرول کرو تماشا لگ رہا ہے۔شاہزین اس کو اپنے ساته کھینچ کر بولا۔عمیر اس کو تھکا دے کر دعا کو ہاته پکڑتا یونی سے باہر نکلنے لگا جب کی سب سچویشن کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔

گاڑی میں بیٹھو یا میں بیٹھاٶ؟اس کو ایک جگہ اسٹل دیکه کر عمیر نے دھاڑ کر کہا۔تو جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گٸ۔

کیوں بات کررہی تھی اس سے؟عمیر نے کجھ آرام سے پوچها 

و وہ م مجھ ل لگا ک کہ ش ش شاید ک کو کوٸ کوٸی  ض ضروری ب بات ہ ہو۔دعا نے روتے ہوۓ بتایا

سن لی پھر اس کی ضروری بات۔عمیر طنزیہ بولا

مجھے سچ م میں ن نہیں تھا پتا کہ ایسی کوٸی بات بھی ہوگی۔دعا نے اپنی صفاٸی دینی چاہی

آج کے بعد تم مجھے کسی اور لڑکے  سے بات کرتے نہ دیکھو۔عمیر اپنے بالوں میں ہاته ڈال کر ضبط سے بولا۔اس کی بات پہ دعا نے بس سرہلایا کجھ پوچهنے کی ہمت نہ تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اگر کشف کو تمہارے اس حالِ دل کا پتا لگ گیا تو وہ کتنا ہرٹ ہوگی اس بات اندازہ ہے تمہيں۔شاہزین عمیر کے اپر برس کے بولا

ایسا نہیں کجھ بس مجھے غصہ آگیا تھا۔عمیر نے نظر چُڑاکر کہا

میری طرف دیکه کر بات کرو۔شاہزین اس کا چہرہ اپنی طرف کرکے بولا

کیا ہے۔عمیر اس کو دیکه کر بولا۔

وہی تو میں پوچه رہا ہوں۔شاہزین اس کے ساته بیٹھ کر بولا۔

مجھے وہ اچهی لگتی ہے۔عمیر نے آخر اعتراف کر لیا۔

بس اچهی ؟شاہزین نے کنفرم کرنا چاہا

بس میں جو اس کے بارے میں فیل کرنے لگا ہوں پہلے کسی کے لیے نہیں کیا کشف کے لیے بھی نہيں پر دعا کا اس جمیل ساته بیٹھنا ہی مجھے آگ لگا گیا تھا۔عمیر اپنا سر پکڑ کر اپنی کیفیت بتانے لگا۔

محبت کرلی وہ بھی کسی اور سے اور یہ جانتے ہوۓ بھی کہ تم کسی اور سے منگنی کرچکے ہو وہ بھی اپنی دوست سے سب سے اچهی دوست۔شاہزین اس کی بات پہ تیز آواز میں بولا۔

محبت پوچه کر تو نہیں ہوتی یہ تو دل کی بات ہے جب اس کو کوٸی پسند آجاۓ اور قبضہ کرلے۔عمیر برا مان کت بولا۔

ہاں پر عمیر تمہارے ایک فیصلے سے اگر تم نے کشف سے منگنی توڑ نے کا سوچا نہ تو ہماری بچپن کی دوستی میں ڈرارآجاۓ گی کشف کو اپنانے کا فیصلا تمہارا اپنا تھا جس پہ سب خوش تھےاور ساته بھی تھے پر چھوڑنے کا سوچو گے تو کوٸی ساته نہیں ہوگا۔شاہزین نے اس کو حقيقت میں لانا چاہا

تم لوگوں کو مجھے سمجھ نا چاہیے۔عمیر نے احتجاج کیا۔

سمجھ رہے ہيں اس لیے تو کہہ رہا ہوں اور کشف ناواقف تو اس کو ناواقف ہی رہنے دو۔شاہزین نے بات ختم کرنی چاہی۔

تم نے خود کہا کہ مجھے اس سے محبت ہے تو یہ بھی بتادو کہ کیا انسان محبت کو ایسے چھوڑ سکتا ہے۔عمیر اس کے سامنے آکر سوال کرنے لگا۔

محبت کو نہ انسان ختم کرسکتا ہے اور نہ چھوڑ سکتا ہے اس میں انسان بے بس ہوتا ہے پر اس کو اپنے دل کے کسی کونے میں دفن ضرور کرسکتا ہے محبت میں اور دوستی میں اب تمہيں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے میں تمہارے دونوں فصلوں میں تمہارا ساته دوگا کیوں کی دوستی میں مرتے دم تک کا ساته دینا چاہیے عمارہ اور فواد کا میں کجھ نہیں کہہ سکتا اور کشف تو پھر تمہارا چہرہ دیکهنا بھی پسند نہ کرے۔شاہزین اس کے کندھے پہ ہاته رکھتا بولا۔

میری قسمت میں محبت پانا کیوں نہیں؟عمیر نے دکه سے اس سے پوچها 

ایسا نہ کہو عمیر ہم سب تم سے بہت پیار کرتے ہيں اور میں بھی اس لیے میں نہیں چاہتا کہ تم بعد میں پچھتاٶ۔شاہزین اس کی بات پہ فورن سے بولا۔

میں کشف سے کہوں گا کہ ایگزیمز سے پہلے شادی کرلیتے ہيں کیا پتا تب میرے فیصلا کرنا مشکل نہ ہو۔عمیر اپنے آپ پر ضبط کرتا بولا 

ضرور۔شاہزین مسکراکر بولا۔

میں اب سونا چاہوں گا۔عمیر نے اس کو دیکه کر کہا

ہاں میں بھی بس اپنے گھر جانے والا تھا۔شاہزین بولا۔

کمرے میں آکر عمیر بیڈ پہ گرنے والے انداز لیٹ گیا۔

اور اپنے ہاتهوں کی لکیروں  کو دیکهنے لگا

اگر اپنی قسمت لکهنے کا اختیار ہو مجھے

تو میں اپنے نام  کیساته ہر بار تجھے لکهوں۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دعا آج یونی نہیں گٸ تھی کل کی بات پہ وہ اب تک پریشان تھی اس نے بانو بیگم کو کجھ نہیں بتایا تھا ان کے پوچهنے پر بس یہی کہا کہ آج طبيعت ٹھیک نہیں جس پہ انہوں نے آرام کرنے کا کہا تھا وہ باہر گارڈن میں بیٹھی عمیر کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کو اتنا غصہ کیوں آیا تھا اور اس نے اتنی سی بات پہ جمیل پہ دو بار مکہ دے مارا اگر بات ایڈمن تک پہنچ جاتی تو کتنا مسلا ہوجاتا اور اس کے کردار پہ بات بن جاتی۔

کیا سوچ رہی ہيں؟بانو بیگم اس کے ساته والی کرسی پہ بیٹھ کر پوچهنے لگی۔

کجھ خاص نہیں نانو بس اندر اچها نہیں لگ رہا تو سوچا یہاں آجاٶ۔دعا اپنے دماغ سے ساری سوچے جھٹکتی ان کی طرف متوجہ ہںوٸی۔

طبيعت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کو دیکهاتی۔بانو بیگم فکرمند ہوکر بولی۔

نہیں ایسی بھی خراب نہیں۔دعا ہنس کر بولی۔

پکی بات ہے نہ۔انہوں نے جانچ نے والے انداز میں پوچها 

بلکل پکی بات۔دعا نے سرہلا کر بتایا تو وہ مطمئن ہوٸی

نانو میں کبهی کبهی سوچتی ہوں کہ میرے ایسے گھر سے نکلنے پہ چچانے مجھے ڈوھونڈنے کی کوشش کی ہوگی ان کو احساس ہوا ہوگا کے وہ کتنا غلط کررہے تھے۔دعا نے کجھ دیر بعد کہا 

پورانی باتوں کو یاد کرنے کا فاٸدہ نہیں اس لیے ماضی سمجھ کر بھول جاؤ۔بانو بیگم نے سانس خارج کرتے کہا

نانو ماضی اچها ہو یا برا یاد ہمیشہ رہتا ہے اور میرا تو سیاح تھا۔دعا طنزیہ مسکراہٹ سے بولی۔

مایوسی والی باتيں نہیں کرتے اور تمہيں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہيں محفوظ رکھا۔بانو بیگم نے ڈپٹا 

شکر ادا تو میں بہت کرتی ہوں۔دعا نے جلدی سے بتایا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

تم نے ساته نہیں جانا کیا؟فواد نے عمیر سے پوچها 

نہیں تم لوگ شاپنگ پہ جارہے ہو نہ تو میرے لیے کجھ لے لینا مجھے کجھ کام تھا۔عمیر نے جواب دیا

کیسا کام؟شاہزین نے سوال کیا۔

ہے کوٸی۔عمیر نے ٹالا

کشف کی یاد آرہی ہوگی اتنے دنوں سے جو نہیں۔عمارہ نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے اس کو چھیڑا

اب ایسی بات بھی نہیں۔عمیر نے اس کو گھور کر دیکها۔

ویسے پیاری عمارہ تم نے کتابوں کی بات کرتے وقت بہت پیاری لگتی ہو اور باتيں تم پہ سوٹ نہیں۔فواد نے عمارہ کو چڑایا

تم تو چپ رہا کرو۔عمارہ نے منہ بنا کر کہا۔

اب انسان سچ بھی نہ بولے۔فواد نے دھاٸی دی۔

ان باتوں کو چھوڑو یہ بات کرو کہ کشف کو کیسے بھی کرکے کہیں ملنے پہ بولاٶ وہ تو اپنے کزن کو پاکستان گھمانے کے چکر میں ہمیں بھول گٸ ہے۔شاہزین ان کو لڑائی کرنے کی تیاری میں دیکهتا بات بدل کر بولا۔

کیوں خيریت تمہيں کیوں اس سے ملنے کی جلدی ہورہی ہے؟فواد نے تجسس سے پوچها 

عمیر نے اس سے کوٸی بہت ضروری بات کرنی ہے اس لیے۔شاہزین اس کی بات پہ دانت پیس کر بولا

کونسی بات؟عمارہ نے عمیر کو دیکه کر پوچها 

کروگا تو پتا لگ جاۓ گا تمہيں تم لوگوں کے سامنے ہی کروں گا۔عمیر مصنوعی مسکراہٹ سے بولا۔

اچها صحيح پھر ہم چلتے ہيں۔فواد اس کی بات پہ بولا

ہممم۔عمیر نے بس اتنا کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آپ ؟دعا دروازے پہ عمیر کو دیکهتی حيرت سے بولی

پہلی دفعہ تو نہیں آیا جو اتنا حيران ہورہی ہو۔عمیر اندر داخل ہوتے ہوۓ بولا۔

نہیں وہ ایسے ہی بس۔دعا شرمندہ ہوٸی۔

نانو کہاں ہيں؟عمیر لاٸونج میں آکر اس سے پوچها 

پڑوس میں کسی جاننے والوں کی طرف ہے۔دعا نے بتایا

صحيح ۔عمیر نے سرہلایا۔

میں آپ کے چاۓ لاتی ہوں۔دعا کہہ کر جانے لگی۔

سنو۔عمیر نے پیچھے سے آواز لگاٸی

جی۔دعا نے فورن سے جواب دیا

چاۓ میں نمک ضرور ڈالنا۔عمیر نے اس کو دیکه کر کہا

اس دن غلطی سے ہوگیا تھا ورنہ نہیں کرتی میں ایسا کجھ۔دعا نے سر جھکا کر بتایا اس کو لگا شاید وہ اس کا مزاق اڑا رہا ہے

پر میں خود کہہ رہا ہوں کہ ایسا کرو۔عمیر سنجيدگی سے بولا

جی۔دعا نے حيرت سے اس کو دیکه کر بولی

جی۔عمیر نے بھی اس کے انداز میں کہا

چاۓ میں نمک ڈال کر کون پیتا ہے؟دعا نےاس کو عقل دلانے کی کوشش کی

میں پیتا ہوں اب اور کوٸی بات نہیں۔عمیر نے کہا اور اس کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ سرہلاتی چلی گٸ نمک والی چاۓ بنانے۔

یہ ليں۔دعا نے کپ اس کی طرف بڑھایا

شکریہ۔عمیر نے کپ پکڑ کہا۔

آپ نے کبهی بتایا نہیں کہ آپ کی منگنی ہوٸی ہے کشف سے؟دعا نے اپنے لہجے کو سرسری کر پوچها 

تم نے پوچها ہی نہیں کبهی۔عمیر کڑوی چاۓ کا گھونٹ بھر کو بولا

ہاں بھی ہے اتنی بات بھی نہیں ہوتی ہماری۔دعا نے سمجھنے والے انداز میں کہا۔

ایک بات بتاٶ؟عمیر نے اس سے کہا

جی پوچهیں۔دعا نے کپ ٹيبل پر رکھتے کہا

اگر کبهی زندگی میں ایسا کوٸی مرحلہ آۓ کے آپ کو دوستی اور محبت سے کسی ایک کو چننا پڑے تو وہ کیا کرے؟عمیر نے سوال کیا۔

انسان کو چاہیے کہ وہ دونوں کو اپنے ساته رکھے۔دعا نے کندھے اچکا کر کہا

وہ بھی یہی چاہے پر اس کے بس میں نہ ہوتو۔عمیر نے بے چینی سے پوچها 

میں کیا کہوں انسان کی زندگی میں یہ دونوں چیزیں ضروری ہے محبت بھی ایک خوبصورت احساس ہے جو انسان کو اپنے پاس چاہیے ہوتا ہے اور دوستی بھی سانس کی طرح ضروری ہے زندگی میں سچا اور مخلص دوست ہر کسی کو چاہیے ہوتا ہے۔پر اگر زندگی میں اگر دونوں میں سے ایک کو چننا ہوتو آپ دوستی کو چنے اگر محبت آپ کی قسمت میں ہوٸی تو ضرور ملے گی پر اگر انسان اچها اور مخلص دوست گنوا دے گا تو وہ اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔دعا نے اس کی بات پہ کہا

شاید تم صحيح ہو۔عمیر اس کی بات پہ کہا

آپ پریشان لگ رہے ہيں۔دعا نے عمیر کے چہرے کو دیکه کر سول کیا

مجھے محبت ہوگٸ ہے کسی اور لڑکی سے اور میں اس مرحلے میں ہوں کہ نہ اس کو چھوڑ سکتا ہوں اور نہ پاسکتا ہوں۔میرے لیے وہ چاند کی طرح ہے جس کی میں بس تمنا کرسکتا ہوں پا نہیں سکتا  کیوں کی وہ سورج ہے جس کو میں دور سے بھی نہیں دے سکتا زیادہ اپنے پاس رکھ بھی نہیں سکتا۔عمیر کھوۓ لہجے میں کہا۔محبت کے نام پہ دعا کا دل زور سے دھڑکا

آپ نے اس سے اظہار کیا؟دعا نے عام لہجے میں پوچها 

نہیں کیوں کی میں نے دوستی کو چن لیا ہے۔عمیر کہتے ہی وہاں سے اٹه گیا شک تھا کہ کہیں وہ اظہار محبت ہی نہ کردیتا۔جب کی دعا یہ سوچتی رہی کہ کس سے محبت ہے عمیر کو۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

زین آج تم جواب ہی دو میں آخر کتنا وقت مانگوں بھابھی سے۔نصرت بیگم نے شاہزین سے کہا

انکار کردے امی مجھے کسی اور سے شادی کرنی ہے۔شاہزین آرام سے بولا

یہ کیا بات ہوٸی زین۔نصرت بیگم پریشانی سے بولی

میں نے آپ کو پہلے ہی بتادیا تھا۔شاہزین ان کو یاد کرواتے بولا

پر بھابھی کو کتنا برا لگے گا اگر اتنے انتظار کے بعد میں ان کو منع کروں گی تو۔نصرت بیگم خفگی سے اس کو دیکه کر بولی۔

میں کیا کہہ سکتا ہوں مجھے نیند آرہی ہے تو میں گیا اپنے کمرے میں۔شاہزین کہتے ہی سیڑھیو کی جانب ڈور لگا گیا۔

اللہ یہ اولاد کتنا شرمندہ کراتی ہے اپنے والدین کو۔نصرت بیگم بڑبڑاتی کچن میں چلی گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

تم اتنی سنجيدہ کیوں لگ رہی ہو سب خير ہے نہ ؟عمارہ نے کشف کو دیکه کر کہا جس نے آج خود ہی ان سب کو ریسٹورنٹ بولایا تھا اور جب سے آٸی تھی چپ تھی۔

ہاں بس عمیر آۓ پھر بات کرتے ہيں۔کشف نے کہا

کیا بات ہے ابھی تک کجھ آرڈر نہیں کیا؟عمیر بھی ان کے پاس آکر بیٹھتے بولا۔

یہ فراٸز کھالو۔عمارہ نے ایک باٶل اس کی طرف کیا

ویسے ہم بھی تمہيں بولانے والے تھے عمیر کو کجھ کہنا تھا تم سے۔شاہزین کشف کو دیکه کر بولا

پر پہلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔کشف نے ان چاروں کی طرف دیکه کر کہا

ہاں کرو اسٹار پلس ڈراموں کی طرح سسپینس کیوں کیا ہوا ہے۔فواد اس کو دیکه کر بولا۔

بات کجھ ایسی ہںے اس لیے میں اتنا سوچ رہی ہو۔تم لوگ کو نہیں جانتے میں تم چاروں سے بہت پیار کرتی ہوں 

نہیں ہم جانتےہے یہ بات۔فواد اتنے سنجيدہ ماحول میں چپ نہ رہ سکا

فواد فلحال خاموش رہںو۔عمیر نے اس کو دیکه کر کہا

عمیر میں بہت شرمندہ ہںوں تم سے پر میں یہ منگنی ختم کرنا چاہتی ہوں۔کشف نے سر جھکاکر کہا۔جس پہ سب کو بہت حيرت ہںوٸی عمارہ کا فراٸز والا ہاته منہ کو جاتا رک گیا شاہزین کی تو آنکهيں حيرت سے کھلی کی کھلی رہ گٸ۔

کیا مطلب ۔عمیر کو لگا اس کو سننے میں کجھ غلطی ہوٸی ہے۔

میرا تمہيں پرپوز کرنا کا فیصلا جذباتی تھا۔اس بات کا احساس مجھے اب ہوا ہے۔کشف نے اب اس کو دیکه کر کہا۔

یہ کیا مزاق ہے جب چاہا منگنی کا کہہ دیا اور جب چاہا اس کو ختم کر ڈالا۔فواد غصے سے بولا

فواد آرام سے ان کو ان کا معاملہ سلجھانے دو۔شاہزین نے اس کو ٹھنڈا کرنا چاہا

یہ بس ان دونوں کا نہیں ہم سب کا معاملہ ہے زین اور کیا یہ بات بھول گٸ ہے کے ایسے کرنے سے ہمارا بچپن کا ساته ختم ہوسکتا ہے ہم نے واعدہ کیا تھا کہ کجھ بھی ہوجاۓ ایک دوسرے کا ساته نہیں چھوڑے گے اور نہ دھوکہ دے گے پھر یہ اتنی بڑی بات کیسے کرسکتی ہںے۔فواد جذباتی ہںوکر بولا جب کی عمیر کو اپنی خوشی کو سنبهالنا مشکل لگ رہا تھا اگر وہ شاہزین اور دعا کی بات نہ مانتا تو شاید یہ سوال اس سے کیا جاتا اور شاید تب ہاتهوں کا استعمال بھی زیادہ ہوتا۔

تمہيں یہ کہتے ہںوۓ ایک دفعہ سوچنا چاہیے تھا شف ہماری دوستی نہ تو اتنی کمزور اور نہ ہی ایسی کہ ہم ایک دوسرے کو چھوڑ کر خوش رہے ۔عمارہ نے بھی کشف سے شکوہ کیا۔

ميں جانتی ہوں اس لیے تو کہنے آٸی تھی کہ تم لوگ میری بات سمجھو اور یہ دوستی ہماری پہلے جیسی ہی رہے۔کشف نے منت بھرے لہجے میں کہا

تمہيں لگتا ہے پھر سب ایسے ہوگا۔فواد طنزیہ بولا

اگر کشف کو احساس ہوگیا ہںے کہ میرے ساته زندگی گزارنے کا فیصلا جذباتی تھا تو ہمیں اس کا ساته دینا چاہیے جیسے ہمیشہ سے دیتے آۓ ہيں شادی ایک عمر بھر کا ساته ہے تو ضروری یہی ہے کہ من پسند ہو زبردستی سے جوڑا رشتہ بوجه کے سوا کجھ نہیں لگتا۔اس سے پہلے وہ سب کشف کو راضی کردیتے عمیر بول پڑا۔

عمیر امید ہںے تم دکھی نہیں ہوگے۔کشف نے مسکراکر عمیر کی طرف دیکه کر پوچها 

نہیں اور تم پریشان مت ہونا ہماری دوستی پہلے جیسی ہی ہوگی۔عمیر نے بھی جوابً مسکراکر کہا

یہ تو بتاٶ کہ اچانک تمہیں منگنی ختم کرنے کا خیال کیوں آیا۔شاہزین جو اب تک خاموش تھا پوچه بیٹھا

دانیال میرا کزن جو آمریکا سے آیا ہںے اس سے مل کر مجھےلگا کیوں کی جو میں اس کے لیے محسوس کیا کبهی عمیر کے لیے نہیں کیا کیوں کی عمیر مجھے بس دوست کی طرح ہی ہوتا تھا اور اس نے بھی دوستی سے ہٹ کر مجھے کجھ نہیں سمجھا منگنی کے بعد بھی اس کے رویے میں کوٸی بدلاٶ نہیں آیا جیسے ایک منگیتر بات کرتا ہے میں مانتی ہںوں میں عام لڑکیوں کی طرح نہیں اور نہ ان کی طرح شرمیلی قسم کی ہوں پر ان کی طرح میں بھی یہ چاہتی ہوں کے میرا پارٹنر میری تعریف کرے مجھے اپنی محبت کا احساس دلاۓ جو عمیر نے تو نہیں دانیال نے کروایا اس لیے۔کشف نے سرجھکا کسی مجرم کی طرح سب بتاتی گٸ۔

تو کیا وہ تمہاری تعریف میں غزليں لکهتا ہيں؟فواد نے بہت سنجيدگی سے غير سنجيدہ سوال کیا۔

نہیں میں نے ایسا بھی تو نہیں کہا۔کشف اس کی بات پہ ہڑبڑاکر بولی۔

ہاہاہا۔کشف زندگی میں نے تمہارا یہ روپ پہلی دفعہ دیکها ہے تم اور اتنی کنفیوز کب سے ہونے لگی۔عمارہ اس کی اڑی رنگت دیکه کر ہنس کر بولی تو وہ چاروں بھی مسکرادیٸے۔

زہن اب تم ان سے سبق لوں ایسا نہ ہو کجھ ٹائم بعد عمارہ بھی یہ کہہ کر تم سے شادی سے انکار کردے۔فواد نے شاہزین کو دیکه کر کہا جو عمارہ کو دیکه رہا تھا۔

شاہزین اور عمارہ یہ کب ہوا؟کشف حیرت سے بولی

بہت پہلے پر آپ بہت مصروف تھی۔فواد نے جواب دیا

مبارک ہںوتم دونوں کو۔کشف نے مسکراکر کہا

ابھی بس بات ہوٸی ہے فنکشن وغيرہ نہیں۔شاہزین نے بتایا

بات بھی تو ہوٸی ہے نہ ۔کشف نے گھور کر کہا تو اس نے سر کو خم دیتے مبارکباد قبول کی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اس میں بھی آپ لوگوں کی بھلاٸی ہوگی اور اچها ہے آپ دونوں کو وقت پر احساس ہںوا ۔بانو بیگم نے عمیر کے سر پہ ہاته پھیر کر کہا عمیر اس وقت ان کے کمرے  میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہںوا تھا اور ان کو ساری بات بتادی تو بانو بیگم نے تسلی دی۔

نانو اچها ہے اس نے انکار کردیا ورنہ مجھے انکار کرنے میں شرمندگی ہںورہی تھی اس لیے میں شادی کی بات کرنا چاہتا تھا۔عمیر نے آنکهيں بند کرتے بتایا

تم کیوں انکار کرتے؟بانو بیگم نے پوچها 

مجھے آپ کی نٸ نواسی سے محبت ہوگٸ ہںے۔عمیر ان کے ساڑی کا پلو منہ میں ڈالتا شرماکر بولا

اٹهو ذرا۔بانو بیگم نے سنجيدگی سے کہا تو وہ فورن سے اٹه بیٹھا۔

کیا ہوا نانو آپ کو اعتراض ہے کوٸی۔عمیر نے کجھ ڈر کر پوچها 

کب سے یہ بات ہے تمہارے دماغ میں؟بانو بیگم نے اس کا کان پکڑ کر پوچها 

دماغ میں کہا دل میں اور پتا نہیں کب سے ہے کنفرم نہیں ہںے۔عمیر نے شرارت سے کہا۔

بدمعاش ہو بہت۔بانو بیگم نے اس کا کان چھوڑ کر کہا

بس کبهی غرور نہیں کیا۔عمیر اپنے بالوں میں ہاته ڈال کر ادا سے بولا

دعا جانتی ہںے یہ بات؟بانو بیگم نے پوچها 

میں نے اس سے بات نہیں۔عمیر نے بتایا۔

کب کروگے؟بانو بیگم نے پوچها 

ابھی۔عمیر کہتے ہی بیڈ سے اٹه کھڑا ہوا۔

اتنے جلدباز ہوتم۔بانو بیگم نے سر نفعی میں ہلاکر کہا

بس کیا کروں۔عمیر کہتے ہی ان کے کمرے سے نکل گیا۔

تم یہاں ہو اور میں نے تمہيں کہاں کہاں نہیں ڈوھونڈا ۔عمیر اس کے پاس گارڈن میں آکر بولا۔

بتائيں پھر کہاں کہاں نہیں ڈوھونڈا؟دعا نے اس کی طرف دیکه کر پوچھا۔ 

یہی تو بات ہے کہاں کہاں نہیں بلکی ہر جگہ تلاش کیا تمہيں۔عمیر اس کی جانب تھوڑا جھک کر بولا تو وہ گھبڑاکر کجھ دور ہوٸی

آپ کو کوٸی کام تھا جو مجھے تلاش کررہںے تھے؟دعا نے پوچها 

کام کے علاوہ تلاش کرنے کا حق چاہتا ہںوں

میری سادگی دیکهو میں کیا چاہتا ہںوں

عمیر شعر کی بدعاٸيں لے کر اب مسکراکر دعا کو دیکھ رہا تھا جو ہونک بنی اس کو دیکھ رہی تھی اس کو آج عمیر کے انداز ہی الگ لگ رہںے تھے اپنے دل کی آواز سے گھبراکر وہ اٹھ کر پوچهنے لگی۔

یہ آپ آج کیسی باتيں کررہںے ہيں؟

میں چاہتا ہوں میں ساری زندگی تمہارے ہاته کی بنی نمک والی چاۓ پیو۔عمیر دلکش انداز میں بولا

مطلب ؟دعا سمجھ کر بھی انجان بنی

اتنی ناسمجھ تو نہیں۔عمیر آرام سے بیٹھ کر اس سے بولا

میں یہ بات سمجھنا نہیں چاہتی اور آپ کو سمجھانی چاہٸیے بھی نہیں کشف کو دھوکہ دینا ہوا یہ ۔دعا نے سنجيدگی سے کہا

ہمارا رشتہ ختم ہوچکا ہںے بس دوستی کا ہے۔عمیر بھی اب سنجيدگی سے بولا۔

میں اب کی سچ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔دعا نے ناسمجھی سے کہا

میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ کبهی دوستی اور محبت سے کسی ایک کو چننا پڑے تو کس کو چننا چاہیے تو تم نے دوستی کا کہا تھا اور میں ایسا ہی کرتا پر شاید اللہ کو میری دوستی اور محبت دونوں پسند آۓ تھے اس لیے دونوں دے دیٸے کشف کو اپنے کزن میں دلچسپی ہونے لگی تو اس نے منگنی ختم کردی اور اب میں اپنے چاند کو پانے کی کوشش کرسکتا ہوں وہ اب میرے لیے چاند ہے۔عمیر گھمبیر لہجے میں بولا

م مط مطلب؟دعا نے ناسمجھنے کی حد ہی کردی۔

مطلب میرا سر حد ہںے دعا اتنا صاف شفاف اظہار محبت کررہا ہوں اور اس کے بعد تم مطلب پوچه رہی ہو۔عمیر کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے اس لیے تپ کر بولا

اظہارِ محبت بھی کوٸی ایسے کرتا ہںے؟دعا پہلے تو عمیر کی بات پہ گلنار ہںوٸی پھر سنبهل کر بولی

جی اگر محبوبہ تمہارے جیسی کم عقل ہو نہ تو ایسے ہی کرتے ہيں۔عمیر کندھے اچکا کر بولا۔

سوچ سمجھ کر بات کریں میں انکار بھی کرسکتی ہوں۔دعا نے اپنی طرف سے دھمکی دی

میں نے تم سے جواب مانگا کیا؟عمیر ٹھوڑی پہ انگلی رکھ کر یاد کرنے کی کوشش کرتا بولا

کیا مطلب آپ مجھ سے میری مرضی نہیں پوچهیں گے۔دعا نے حيرانکن لہجے میں پوچها 

نہیں کیوں کی تم راضی ہو۔عمیر نے آرام سے بتایا

میں نے تو نہیں کہا ایسا کجھ۔دعا نے سرخ چہرہ لیے کہا

تو کیا تمہيں میں نہیں پسند ؟عمیر مصنوعی سنجيدگی سے بولا

میں نے ایسا بھی تو نہیں کہا۔دعا نے اپنے سر پہ ہاته مارکر کہا

مطلب راضی ہو۔عمیر دانتوں کی نمائش کرتا بولا

ہاں راضی ہںوں میں مجھے بھی محبت ہے آپ سے اور اس دن اور زیادہ ہوٸی جب آپ کو اپنے ہاته کی نمک والی چاۓ شوق سے پیتے دیکهی پر کبهی خود سے کہنے سے بھی ڈرتی تھی کہ کہیں آپ یا نانو غلط نہ سمجھ لیں۔دعا نے بنا سانس لیے اقرار کیا جب کی عمیر اس کے ایک ایک لفظ پہ اپنے اندر سکون اترتا محسوس کیا۔

تمہيں تو مجھ سے بھی زیادہ ہے۔عمیر ہنسی روکے بولا۔

بہت برے ہيں آپ۔دعا اس کی چلاکی سمجھ کر منہ بنا کر بولی پھر اس کو دھکا دے کر اندر کی طرف بڑھ گٸ۔

جب کی عمیر بھی مسکراتا وہی کرسی پہ بیٹھ گیا اور آسمان کی طرف مشکور نظروں سے دیکها آج زندگی میں جیسے عمیر کو وہ محبت مل گٸ تھی ماں باپ کی نہ سہی پر زندگی خوبصورت بنانے کے لیے اللہ نے اس کی زندگی میں دعا کو ضرور بھیجا تھا اب اس کے دل میں کوٸی تمنا کوٸی چاہ نہیں تھی جس دوستی کے لیے وہ اپنی محبت کو چھوڑ رہا تھا یہ جانتے ہںوۓ بھی کہ اس کے بنا بھی جینا ممکن نہیں پر اس نے اللہ پہ توکل کرکے چھوڑدینے کا سوچا پر اللہ نے اس کو دوستی بھی دی اور محبت بھی اور آج وہ مطمئن تھا۔اس کو پتا تھا اب زندگی حسین ہوگی اور وہ کبهی اپنے باپ کی طرح نہیں بنے گا اور نہ دعا کو اپنی ماں جیسا بننے دے گا وہ مستقبل میں اپنی اولاد کے لیے وہ سب کریگا جو اس نے اپنے ماں باپ سے چاہا تھا عمیر نے سب کجھ سوچتے مسکرا کر اپنی آنکهوں کو بند کیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

                         ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Yeh Mera Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Yeh Mera written by  Rimsha Hussain . Dil Yeh Mera by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment