Pages

Friday 7 June 2024

An Dekha Ishq By Gul Writes Complete Short Story Novel

An Dekha Ishq By Gul Writes Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readinga...

An Dekha Ishq By Gul Writes Complete Short Novel Story


Novel Name:An Dekha Ishq  

Writer Name:  Gul Writes

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


بڑے سے اس کمرے میں جسکے چاروں طرف سفید پردے لگے سفید پردوں پر سفید پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھی۔۔۔ چار سو سفید گلاب کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی وہی وہ حسن کی ملکہ چہرے کے گرد نماز کے سٹائل میں ڈوبٹہ لپیٹے کپڑے بنانے میں مصروف تھی کہ دستک ہوئی سنہری کاجل سے بھری آنکھیں اٹھا کر اس نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں ملازمہ کسی کا حکم نامہ لیے کھڑی تھی ۔۔۔۔ اسکے ساتھ ہی اسکی شرارتی کزنیں شرارت بھری مسکراہٹ لیے کھڑی تھی

راعنہ بی بی چھوٹے خان حویلی آچکے ہیں ۔۔۔۔ ساری خواتین زنان خانے میں موجود ہیں ۔۔۔ بیگم صاحبہ کا حکم ہے کہ آپ اپنے کمرے میں ہی رہیں.۔۔۔۔ رات کا کھانا بھی یہی پہنچا دیا جائے گا ۔۔۔۔۔ ملازمہ نے کمرے میں آتے نرمین بیگم کا حکم سنایا

اماں جی کتنی بار کہا ہے آپ سے مجھے راعنہ بلایا کرے ۔۔ ہمہ وقت کہی جانے والی بات اماں جی مسکرائی انہیں یہ معصوم سی خانی بہت پسند تھی انہوں نے بہت سنا تھا کہ خان بہت ظالم ہوتے ہیں غصے کے تیز ہوتے ہیں لیکن وہ جب سے خان حویلی میں کام کرنے لگی تھی انکی معلومات میں اضافہ ہوا تھا کہ خان بہت خوبصورت نرم دل ضدی اور جنونی محبت والے ہوتے ہیں ۔۔

اگلی بار خیال رکھوں گی خانی بی بی۔۔۔۔ وہ نرمی سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئی

آپی اج ہم چھوٹے خان سے ملیں گے ۔۔۔میں بہت ایکسائٹڈ ہوں ان سے ملنے کے لئے ۔۔۔. لیکن پتہ نہیں وہ کیسے ہونگے انکا مزاج کیسا ہوگا۔۔۔۔ وانیہ نے اداس لہجے میں کہا وہ بھی سبکی طرح چھوٹے خان کو ملنا چاہتی تھی بچپن سے ہی چھوٹے خان کی تعریفیں سنتے وہ بڑی ہوئی تھی آج اسکی حویلی میں آمد پر وہ دونوں بہنیں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی

شہزادی وہ ہمارے سردار سائیں کا بیٹا ہے جیسے سردار سائیں نرم مزاج کے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہونگے نا ۔۔۔ آپ پریشان مت ہو۔۔۔۔۔

محبت سے سمجھاتے وہ انہیں بہت پیاری لگی

یو آر گریٹ ۔۔۔۔ وہ دونوں اٹھی ایک ساتھ اسکے گالوں پہ بوسہ لیتے باہر بھاگی

یہ بچے بھی نا کتنے پیارے ہوتے ہیں دل کے صاف بنا کسی کی بات کا برا منائے ہنسنے کھلکھلانے والے کوئی پیار سے سمجھائے تو سیکنڈ میں سمجھ جانے والے ۔۔۔کچھ لوگوں کو بچے بوجھ لگتے ہیں لیکن بچوں کہ قدر ان سے جاکر پوچھے جو اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں اور ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان معصوم جانو کو بوجھ سمجھ کر ان سے جاہلانہ سلوک کرتے ہیں ہمھیں چاہئے ہم ان بچوں سے محبت سے پیش آئے جیسے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں سے پیار محبت شفقت سے پیش آتے تھے ۔۔۔۔۔

چھوٹے خان آچکے ہیں ۔۔۔ اس نے اماں بی کے الفاظ دہرائے

پری جب میں بڑا ہوجاؤ گا تو آپ میری زوجہ بنے گی ہماری ایک پیاری سی بیٹی بلکل آپ جیسی حسین لہجوں والی حور ہوگی ۔۔۔۔ آپ کریں گی نا مجھ سے نکاح ۔۔۔بتائیں نا پری میری زوجیت میں آئے گی نہ ۔۔۔؟۔۔۔ پھر ہمارے درمیان حائل یہ سفید پردے سفید پھول بھی ہونا ضروری نہیں ہوگا ۔۔۔۔ پھر آپکو مجھ سے پردہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔۔۔دن رات میں آپکو دیکھ پاؤں گا۔۔۔۔ بھولے بھٹکے معصوم لہجے کے کچھ جملے اسکی سماعت ہوئے سر جھٹکتے وہ واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوئی ۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

بابا سائیں آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔سب جانتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں پھر میرے ہی سامنے میری محبت کو کسی اور کے نام کرنے کا سوچا بھی کیسے آپ دونوں نے ۔۔۔

وسیع طرز پر بنی اس حویلی جسکی خوبصورتی کی مثال پورا گاؤں دیتا تھا اس میں آج وہاں موجود ملازمین ۔۔ چرند پرند یہاں تک کہ اس حویلی کے مکین بھی سانس روکے اسے آتش فشاں بنا دیکھ رہے تھے وائٹ شلوار قمیض ۔۔۔آستین کو کہنیوں تک موڑے وہ شہزادوں سی آن بان رکھنے والا شہزادہ شیر کی طرح دھاڑتے سبکو کانپنے پر مجبور کر گیا اس سب میں صرف ایک ہی وجود نارمل کھڑا تھا اسکا باپ جابر خان اسکا بھائی پریشانی سے اسکی سفید رنگت کو سرخی میں بدلتے دیکھ رہا تھا

اپنی آواز کو دھیما رکھو خان ۔۔۔ہمھیں حق ہے سارے فیصلے کرنے کا تم سے پوچھ کر فیصلے نہیں کیے جاتے ۔۔۔۔ سنجیدگی سے کہتے انہوں نے اسے باز پرس رکھنا چاہا

آپکو اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا بابا سائیں کیونکہ میں یہ نکاح ہر گز نہیں ہونے دونگا ۔۔چاہے اسکے لیے مجھے کچھ بھی کیوں نا کرنا پڑے ۔۔۔ دھیمے مگر مضبوط لہجے میں گویا ہوا

جابر خان کا فیصلہ پتھر پر لکیر ہے جو کبھی نہیں بدلتا برخودار ۔۔۔۔ تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ ہمارے فیصلے کو مان لو۔۔۔۔

کیسے مان لو بابا سائیں روح کے بغیر جسم ناکارہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ میری رگوں میں خون کی مانند دوڑتی ہے وہ آپ مجھے بےجان کیوں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اس نے بےبسی سے اپنی کیفیت بیان کی وہ اس خوبصورت حسینہ کے عشق میں اس تک آگے جا چکا تھا جہاں کوئی حد کوئی لحاظ نہیں

کسی کے جانے سے موت واقع نہیں ہوتی خان ۔۔۔ کل سے ڈیرہ پر جاکہ لوگوں کو اپنا وقت دوگے ۔۔۔آس محبت کا بھوت بھی چند دنوں میں اتر جائے گا ۔۔. اور تمھارا دھیان بھی دوسری طرف بٹ جائے گا ۔ اسے حکم سناتے وہ مردان خانے سے جانے لگے لیکن آسکے الفاظ نے انہیں رکنے پر مجبور کیا

جب سبکو پتہ ہے وہ پاگل پن ہے میرا تو کیوں بابا کیوں آپ لوگ مجھے مزید پاگل کررہے ہو ۔۔۔. اسے پانا میرا جنون نہیں میری ضد ہے۔۔۔۔ اور اپنی ضد پوری کرنے کے لئے اگر مجھے کسی کی جان لینا پڑی تو میرے ہاتھ زرا برابر بھی نہیں کپکپائے گے۔۔۔ اگر وہ مجھے نا ملی بابا سائیں تو خدا پاک کی قسم نا تو وہ زندہ رہے گی نا میں ۔۔۔۔۔ شیر کی طرح غرارتے وہ اپنی بات کہتے وہاں سے جاچکا تھا زنان خانے میں موجود اسکی ماں نے دل پر ہاتھ رکھا دوسری خواتین منہ پر ہاتھ رکھتے رونے لگی

بابا سائیں وہ ضدی ہے آپ بات ایک بار بات پر غور تو کریں ۔۔۔۔ فواد سے اپنے بھائی کی حالت دیکھی نا گئی

اگر وہ ضدی ہے تو میں اسکا باپ ہوں ۔۔کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے فواد ۔۔۔ میرے شیر تم نکاح کے کی تیاری کرو ۔۔۔۔ اسکا کندھا تھپتپاتے وہ اپنی اجرک کندھے پر ڈالتے مردان خانے سے نکلے پیچھے فواد نے پریشانی سے اپنے چھوٹی لاڈلے بھائی کے بارے میں سوچا

پورے خاندان میں وہ دونوں باپ بیٹے اپنی ضد پوری کرنے کی خاطر کچھ بھی کر گزرتے تھے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

جہانگیر خان جنکے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جابر خان ۔دلاور خان اور دلبشین خان ۔۔۔۔ جابر خان جنکی شادی اپنی ہی تایا زاد نرمین سے ہوئی تھی جو بہت نیک خاتون تھی۔۔ انکے دو بیٹے تھے فواد خان اور پورے خاندان میں سب سے چھوٹا داور خان ۔۔فواد جتنا نرم مزاج،، ہنس مکھ ،، رحم دل تھا وہی داور بلا کا ضدی سبکا لاڈلہ اور نہایتی مغرور شخصیت کا مالک تھا اسکی بھوری آنکھیں سامنے والے پر وحشت سی طاری کردیتی تھی

دلاور خان جنکی شادی نرمین بیگم کی چھوٹی بہن مہرو سے ہوئی تھی انکی اک لوتی بیٹی تھی راعنہ خان جنکو حور کہنا مناسب ہوگا پھولوں سی نازک گلابی ہونٹوں دلاور خان جیسی سنہری آنکھیں باپردہ اور نہایتی سادہ مزاج کی مالک تھی پھول کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر ہمہ وقت رہنے والی مسکان اور چہرہ پر چھایا نور وہ حسن کا پیکر تھی خدا نے انہیں ہر فن سے نوازا تھا وہ کالج جاری تھی اپنے بابا کی ضد پر مگر سردار جابر خان کو ہرگز اسکا پڑھنا منظور نہ تھا کیونکہ انکی روایت تھی لڑکا جتنا مرضی پڑھ لے اگر لڑکی کو پڑھایا تو لڑکی بگڑ جائے گی ۔۔۔

دلنشیں بیگم جنکی شادی اپنے ماموں زات فراز شاہ سے ہوئی تھی جو بہت ہی محبت کرنے والے انسان تھے ۔۔ انکی جڑواں بیٹیاں تھی ہانیہ وانیہ ۔۔ شرارتی نٹکھٹ سی طبعیت کی انکی حویلی بھی خان پیلس کے ساتھ تھی شاہ حویلی ۔۔۔

ہمارے شہزادے داور خان کو لندن سے اپنی پڑھائی مکمل کرکے گھر تشریف لائے تھے اور بہت خوش تھے کہ اب وہ اپنی پسند اپنی محبت راعنہ کے قابل ہوچکے ہیں اپنے دم پر کچھ کرنے لگے ہیں وہ اب اس پری پیکر کو اپنے پاس لاسکتے ہیں

لیکن خان ولا میں قدم رکھتے ہی جو خبر انہیں ملی تھی وہ انکے سارے خوابوں پر پانی پھیر چکی تھی انکے بھائی فواد خان کے ساتھ اس پری کا نکاح ہورہا تھا ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی وہ غصے سے پاگل ہونے کہ در پر تھا بچپن میں ایک بار اس پری کا نورانی چہرہ دیکھا تھا تب سے وہ اسکا اثیر ہوچکا تھا نجانے کتنی بار وہ اس پری کے چہرے کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کرچکا تھا لیکن وہ کاغذ میں دم کہا جو حقیقت میں تھا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

افففف میرا سر۔۔۔۔ وہ جو چھوٹے خان کی آمد کا سن ان سے ملنے جارہی تھی کہ کسی چوڑے پتھر نما وجود سے ٹکڑا کر گرتی کہ سامنے والے نہایت نرمی سے اسکے گرد بازو حائل کرتے اسے گرنے سے بچایا ہانیہ نے گرنے کے ڈر سے اسکے بازوں پر بلیوں جیسے ناخن گاڑھے تو وہ اپنے بازو اور پھر اسکے خوبصورت چہرے پر ڈر دیکھ مسکرایا

شہزادی آنکھیں کھول لیں آپ محفوظ ہیں ۔۔۔۔ وہ اسکے قریب جھکتے نرمی سے مسکراتے لہجے میں گویا ہوا تو ہانیہ نے ایک دم آنکھیں کھولی تو سامنے کھڑے فواد کی بھوری آنکھوں سے اسکی سبز آنکھیں دوچار ہوئی ۔۔۔۔ ایک پل کو لگا کہ وقت تھم سا گیا ہو اسکی خوشبو فواد خان کو اسکا اثیر کررہی تھی اسکی گہری سبز جھیل سی آنکھیں جن میں ڈر کے مارے آنسوؤ آچکے تھے ان میں ڈوبنے کا دل چاہ رہا تھا اور اسے اپنے قریب دیکھ ہانیہ کی جان ہوا ہوئی

خخ خان سائیں ۔۔۔اسکو کھوئے دیکھ وہ لرزتی آواز میں دھیمے سے بولی سبز آنکھوں کو چھپکاتے معصومیت سے اردگرد دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا اسکی نظریں ہٹی تو وہ ہوش میں آتے اس سے دور ہوا

شہزادی اب یہ نگاہیں میرے سوا کسی اور پر نا اٹھیں ورنہ آپکی نازک جان کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔۔. اسکی جھیل سی آنکھوں کو دیکھتے وہ نہایت نرمی سے بولا مگر اسکے لہجے میں صاف وارنگ تھی ہانیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

خم خان آآ آپ کیا کہہ رہیں ہیں ۔۔۔۔ وہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولتی اسے ڈری سہمی سی گڑیا ہی لگی تھی ۔۔۔ وہ تھوڑا سا اس پر جھکا کیونکہ ہانیہ کی عمر کے ساتھ اسکا قد بھی چھوٹا تھا وہ اسکے دل تک بھی بمشکل آتی تھی

یہی کہ شہزادی آپکا شہزادہ میں ہوں ۔۔۔ اب آپ محض مجھے دیکھا کریں۔۔۔۔ زومعنیت لئے گھمبیر لہجے میں سرگوشی کی تو اسکی سفید رنگت میں سرخیاں گھلی۔۔۔گلابی گالوں پہ گھنی پلکیں سایا فگن ہوئی ۔۔۔گھبراہٹ سے اسکی پیشانی عرق آلود ہوئی۔۔۔ دانتوں تلے لب دبا کر اس نے ہانیہ کا گھبرایا روپ دیکھا

شہزادی خود کو تیار کرلیں کچھ دن بعد آپکا بھی نکاح ہے۔۔۔ آپکا شہزادہ آپکو اپنے پاس لانے کی پوری تیاری کرچکا ہے ۔۔۔۔۔ اسکی نظروں کی تاب نہ لاتے ہانیہ نے کنارہ کشی کرتے سائیڈ سے ہوکر گزری کہ فواد کے لفظوں نے اسکے قدموں میں جیسے زنجیر سی ڈال دی حیرت سے کنگ وہ منہ کھولے اپنے پیچھے اسکی قدموں کی آہٹ کو خود سے دور جاتا سن رہی تھی ایک دم اسے شرم نے آگھیرا وہاں سے بھاگتے وہ سیدھا اپنے کمرے میں بند ہوئی دانتوں تلے دبائے لبوں پہ آئی شرمگیں مسکراہٹ کو روکا دل تھا مانو پسلیوں سے سر پھٹک رہا تھا اسکا پورا بدن گھبراہٹ اور شرم کے زیر اثر ابھی تک کانپ رہا تھا جلدی سے بیڈ پر لیٹتی کمفرٹ سر سے لے کر پاؤں تک اوڑھ گئی ۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

کیا ہوا بیگم آپ پریشان معلوم ہورہی ہیں ؟۔۔۔۔ دلاور خان کو زیادہ تر ڈیرے پر رہتے تھے حویلی کے معاملوں سے یکسر انجان مہرو خان کو پریشان دیکھ پوچھے بغیر نا رہ سکے

سائیں چھوٹے خان سے تو مل چکے ہونگے آپ ۔۔۔۔ آج انہوں نے بوال مچا دیا تھا شیر کہ طرح دھاڑتے وہ بسس ایک ہی مالا جاپ رہے تھے کہ وہ اپنی بچی سے شادی کے خواہشمند ہیں لیکن سردار سائیں نے اپنا حکم سنایا ہے کہ بڑے خان اور راعنہ کا نکاح ہوگا چھوٹے خان بہت غصے میں تھے ۔۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری بچی کو نقصان نہ پہنچا دیں ۔۔۔۔ مہرو خان کو اپنے شوہر کی بہت لاڈلی تھی اپنے دل میں چھپے خدشات ان پر ظاہر کرگئی جو نہایتی سنجیدگی سے انکی باتیں سن رہے تھے

بیگم آپ جانتی ہیں کہ خان کبھی بھی ہماری گڑیا کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔ کیوہ دلاور خان کی بیٹی ہے اس لیے نہیں ۔۔۔بلکہ اس لیے کہ وہ ایک عورت ہے ۔۔۔ اور سب سے بڑی بات اسکی عزت ہے ۔۔۔خان مرتے مر جائے گا لیکن کسی بھی عورت کی توہین نہیں کرے گا ۔۔۔اور مجھے اپنی گڑیا کے لئے خان ہی پسند تھے لیکن بھائی جان کے فیصلے کے آگے بھلا کسی کی چلی ہے اج تک ۔۔۔۔ بسس اب اللہ پاک جو چاہیں گے ہوگا تو وہی تو آپکو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے عشاہ کی نماز آدا کریں ہم بھی نماز پڑھ کر آتے ہیں ۔۔۔۔ رسانیت سے انہیں سمجھاتے وہ کافی حد تک انکا دل ہلکا کرچکے تھے انکی پیشانی چومتے وہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد روانہ ہوئے ۔۔۔۔

اللہ پاک میں گناہگار انجان ہوں تیرے فیصلوں سے ۔۔۔اپ کرتے ہیں اپ ہی جانتے ہیں۔۔۔کہ کس فیصلے میں ہماری بھلائی ہے ۔۔۔ میرے مالک بسس اتنی سی گزارش ہے ۔۔! کہ میرے محرم کے سواء میرے دل و دماغ میں کسی غیر محرم کا خیال بھی نا آئے۔۔۔ مجھے یقین ہے اللہ پاک ۔۔۔! کہ آپ جو کرینگے اسی میں میری ہم سب کی بہتری ہوگی ۔۔۔ سفید ڈوبٹے کے حالے میں لپٹا پرنور چہرے پر ہاتھ پھیرتی وہ جائے نماز تہہ کرکے جگہ پر رکھتی قرآن مجید چوم کر سینے سے لگائے وہ بیڈ پر آئی سورۃُ المُلک پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے وہ سب کو اللہ کی امان میں دیتی قرآن مجید کو غلاف میں لپیٹ کر چوم کر اسکی جگہ پر رکھتی پلٹی سامنے منہ بنائے کھڑی وانیہ کو دیکھ مسکرائی

کیا ہوا میری شہزادی منہ کیوں سجائے کھڑی ہیں ۔۔۔ ؟۔۔ بیڈ پر بیٹھ کر انکو اپنے پاس بلاتی وہ جانتی تھی انہیں نیند نہیں آرہی ہوگی

آپی ہمھیں نیند نہیں آرہی .۔۔ ہانیہ اور وانیہ دونوں ہی خان حویلی موجود تھی نیند نا آنے پر اسکے روم میں آتی بیزاریت سے بولی وہ جو پہلے سے جانتی تھی مسکرا دی ۔۔۔وہ جب بھی خان حویلی آتی انہیں نیند نہیں آتی تھی اور وہ پوری رات راعنہ کے روم میں باتیں کرتے پائی جاتی تھی

اچھا آج کیا سناؤں آپ لوگوں کو ؟۔۔۔۔

آپی آپ یہ بتائیں کہ ہر رات آپ سورۃ الملک پڑھتی ہیں ایسا کیوں ۔۔۔؟۔۔۔ وہ دونوں جب بھی انہیں دیکھتی وہ قران پڑھ رہی ہوتی تھی آج انہوں نے پوچھا تو وہ کھل کر مسکائی روم سے گزرتے داور نے وانیہ کا سوال سنا تو راعنہ کا جواب سننے کے لئے وہی رک گیا

سونے سے پہلے سورۃ المُلک ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ ہمارے پیارے نبی کریم (صلی اللہ ہو علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : قرآن حکیم میں تیس آیتوں کی ایک سورت ہے ۔۔جو اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی ، حتیٰ کہ اسے بخش دیا جائے اور وہ سورت (تبٰرَکَ الّذی بِیَدِہِ المُلک) ہے ۔۔۔‛‛

مطلب یہ ہے کہ اگر سوچ سمجھ کر اور غوروفکر سے پڑھی جائے تو تیس دن تک اسکا اثر دل و دماغ پر رہتا ہے جو انسان کو راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتا رہتا ہے ۔۔ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس وقت تک نہ سوتے جب تک سورۃ السجدہ اور سورۃ الملک کی تلاوت نہ فرما لیتے۔۔ ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ سورت عذاب کو روکنے والی اور عذاب سے نجات دینے والی ہے ۔۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچا لے گی ۔۔۔

"ملک " کے معنی حکومت یا بادشاہت کے ہیں ۔۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کا بیان ہے جو اس کائنات کا بادشاہ ہے ۔۔ کفر کے ہولناک نتائج سے ڈرایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے ۔۔اللہ تعالیٰ نافرمان بندوں کو دنیا ق آخرت میں سزا دینے پر قادر ہے ۔۔۔۔۔

اسی لیے میری شہزادیوں ہمھیں بھی چاہیے کہ ہم ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش ِ قدم پر چلیں ۔۔۔۔ پیار محبت سے سمجھاتی وہ انکے دل میں اتر رہی تھی محبت بھرا لہجہ اس حسینہ کی سریلی آواز اسکے کانوں میں رس گھول رہی تھی اسکا دل کیا سب چھوڑ چھاڑ کر وہ بسس اسے سنتا جائے۔۔۔

اسے دیکھنے کو دل مچلا لیکن ابھی وہ اسکی نامحرم تھی وہ اپنے ساتھ اسکو بھی گناہگار نہیں کرنا چاہتا تھا دل کو ڈپٹتے وہ ناچاہتے ہوئے بھی جن قدموں پر آیا تھا اسی پر پلٹ گیا ۔۔۔

واؤ آپی کتنا پیارا سمجھاتی ہیں آپ ۔۔۔ پرومس ہم بھی ڈیلی تلاوت کیا کرینگے ۔۔۔ وہ دونوں پرجوش ہوئی

پیاری میں نہیں ہمارے نبی ہیں ہمارے نبی کا نام مبارک ہے انکا زکر ہی اتنا پیارا ہے کہ ہر دل میں گھر کرجاتا ہے ۔۔۔۔کافر کو بھی مسلمان بنا دیتا ہے ۔۔۔ چلو اب تم لوگ سو جاؤ شاباش ۔۔۔۔

ہم آپکے پاس سو جائیں ؟ انکا دل ہی نہیں کررہا تھا وہاں سے اٹھ کر جانے کا نجانے کیسی کشش تھی سب اسکی طرف کھچتے چلے آتے تھے ۔۔۔۔

اوکے ۔۔۔اثبات میں سر ہلاتے وہ لائٹ اوف کرتی انکے ساتھ لیٹ گئی ۔۔۔.

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خان سائیں۔۔۔ نرمین بیگم نے بیڈ کی دوسری جانب بیٹھتے اعظم خان کو مخاطب کیا

ہمممم۔۔۔۔ وہ جانتے تھے وہ اپنے لاڈلے سپوت کی فکر میں گھل رہی تھی ہنکار بھرتے انکی طرف متوجہ ہوئے

آ آپ چھوٹے خان کی بات کو ایک بار سوچ کرکے تو دیکھیں ۔۔۔۔ ڈرتے ڈرتے ہی مگر وہ بول چکی تھی

بیگم آپ کا سپوت بہت ضدی ہے وہ نازک سی معصوم بچی اس سرپھرے کو برداشت نہیں کرپائیں گی ۔۔۔ہمھیں بھی داور خان کی فکر ہے مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اپنی پھول سی بچی کو ایک جلاد ۔۔اور جنونی انسان کے حوالے کردے ۔۔۔ ناممکن ۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتے روعب دار لہجے میں گویا ہوئے تو نرمین بیگم نے جلاد کہنے پر ناراضگی سے انہیں دیکھا تو وہ ہنسے

بیگم اپ بے فکر رہیں ہم آپکے سپوت کو جھکا کر ہی دم لیں گے انہیں بھی تو پتہ چلے کہ اعظم خان کیا چیز ہے ۔۔۔۔ وہ مونچوں کو تاؤ دیتے بولے تو نرمین بیگم انہیں خفگی سے دیکھتے ہی رخ موڑ گئی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خوبصورت سے اس کمرے میں جہاں ہر طرف ٹوائز بکھرے تھے دیوار میں نصب الماری دائیں سائڈ دو دروازے تھے چینجنگ روم اور واشروم۔۔۔۔

کمرے کے بیچ و بیچ سنگل بیڈ پر موجود وہ نازک سی جان خواب میں خان کو اپنے قریب دیکھ رہی تھی عرق آلو پیشانی بکھرے بال ایک ہاتھ پیٹ پر اور دوسرا بیڈ پر رکھے وہ ایک چھوٹی سی بچی معلوم ہورہی تھی ۔۔۔۔

شہزادی خود کو تیار کر لیں۔۔۔ آپکا شہزادہ اپکو اپنے پاس لانے کی پوری تیاری کرچکا ہے ۔۔۔گھمبیر بھاری لہجے میں کی گئی سرگوشی اسے اپنے بےحد قریب شنائی دی تو ایک ہی جھٹکے میں سبز آنکھوں کو کھولتے اردگرد دیکھا وہاں کسی کو موجود نا پاکر سینے میں سر پھٹکتے دل پر ہاتھ رکھتے تیز ہوئے تنفس کو بحال کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔

کتنی پاگل ہو تم الو وہ بھلا اس وقت یہاں کیسے ۔۔۔ لیکن وہ ایسے کیوں کہہ رہے تھے کیا انہیں۔۔۔مجھ سے ۔۔۔۔محبت ہے ۔۔۔۔ خود سے ہی پوچھتے وہ کانوں تک سرخ پڑتی تکیے میں منہ دے گئی ۔۔۔

ہاں ۔۔.محبت ۔۔۔۔ ہے ۔۔۔قریب ہی گھمبیر سرگوشی ہوئی تو اس نے خوشی سے ڈولتے دل کو سنبھالتے دانتوں تلے لب کچلے اور سر اٹھا کر ایک بار پھر پورا کمرہ چھان مارا مگر وہ تو تھا نہیں پھر یہ آواز۔۔۔۔

لگتا ہے میرے دماغ پر قابض ہوگئے ہیں اسی لیے یہ سب ہورہا ۔۔۔اپنے سر پر ہاتھ ماتے اپنی عجیب سی کیفیت پر ہنس دی ۔۔ٹائم دیکھا تا فجر کا تھا جلدی سے ڈریس لیتی واشروم گھسی ۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یا یا خدا ہم تیرے گناہگار سے بندے ہیں میرے مالک میری حال پر رحم فرما ۔۔۔۔ حال دل سے آپ اچھی طرح واقف ہیں آپ سے کچھ نہیں چھپا ۔۔۔۔ اگر وہ کسی اور کی ہوگئی مولا تو میں زندہ تو رہونگا مگر میر دل وہ تو مردہ ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ مالک بچپن سے اسے چاہا ہے اسکے علاوہ کسی اور کو سوچنا بھی خود پر حرام واجب کیا ہے ۔۔۔۔ بےشک میں ان سے ملا نہیں انہیں کبھی دیکھا نہیں مگر پھر بھی وہ میری ہر آتی جاری سانس کی زمانت ہیں ۔۔میرا اندیکھا عشق ہیں وہ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔میری دل کی ہر دھڑکن میں انکا نام گونجتا ہے ۔۔۔۔۔ انکو کسی اور کے ساتھ تصور کرتے ہی میری جان جاتی ہے ۔۔۔۔ خدایا بسس اتنی سی گزارش ہے اگر وہ میری قسمت میں نہیں تو انکے کسی اور کی دسترس میں جانے سے پہلے ہی یہ سانسیں یہ دل کی دھڑکن روک دیجئے انکو کسی اور کا ہوتے دیکھنے سے موت کو گلے لگانا بہتر ہے۔۔۔اور آسان بھی ۔۔۔۔۔

فجر کا وقت تھا وہ سجدے میں سر رکھتے خدا سے ہمکلام تھا وہ خدا سے اپنی زندگی مانگ رہا تھا اپنا اندیکھا عشق مانگ رہا تھا جسکے لئے وہ ہر حد پار کردینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ وہ نماز پڑھ کر جو اسکے تڑپتے دل کو سکون ملا تھا وہ بیاں کرنے سے قاصر تھا کہ ناک کرکے کمرے میں فواد خان داخل ہوا

کیسے ہو دار۔۔۔ 

ٹھیک لالہ آپ کیسے ہیں ۔۔۔؟ وہ مسکرا کر اسکے گلے لگا 

میں تمھارے طرح ۔۔۔اسکا کندھا تھپتپایا 

داور ۔۔۔ ۔۔۔۔ اگر تم بابا جان سے پیار سے مانگو گے تو کیا پتہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کردیں ۔۔؟۔۔۔ اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے فواد نے سمجھایا

لالہ آپ کیا کہہ رہے ہو میں داور خان ان سے اپنی محبت کی بھیک مانگو ؟.۔۔میں ۔۔۔ لالہ جب محبت خود کی ہے تو اسے حاصل بھی خود کرلونگا۔۔۔ اور مانگنا خدا سے جاتا ہے مٹی کے انسانوں سے نہیں ۔۔۔وہ خود غرض بسس اپنے اپنی ضد کی فکر میں گھل رہا تھا کہنیوں تک آستین فالڈ کرتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا

دار خود غرض مت بنو میرے بھائی بے شک وہ پاک زات ہی ہمھیں ہر چیز سے نوازتی ہے ۔۔۔ مگر وہ بابا ہیں اپنے اور میں بھیک مانگنے کا نہیں کہہ رہا ۔۔۔ بسس پیار سے محبت سے ایک بار بات کرکے تو دیکھو ۔۔۔. کیا پتہ وہ مان جائیں ۔۔۔۔ فواد نے سمجھایا لیکن وہ داور خان تھا کسی کی ایک نا سننے

اگر میرا عشق آپکو خود غرضی لگتا تو وہی صیح مگر میں انکے سامنے ہرگز نہیں جھکوں گا ۔۔۔۔۔ وہ اپنی اجراک کو کندھوں پر ڈالتے ضدی لہجے میں بولا

مرضی ہے تمھاری ۔۔۔ ویسے کیا تم جانتے ہو اگر خانی کو اس سب کا پتہ چلا تو وہ تمھیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرینگی کیونکہ تم سب کے سامنے انکا کردار مشکوک کررہے ہو۔۔۔ فواد نے اسکی سنگین غلطی کا احساس دلایا

لالہ خدا گواہ ہے میں انکو نہیں دیکھا وہ بچپن کی ایک جھلک سے ہی وہ مجھے اپنے اندیکھے عشق کی آگ میں قید کرچکی ہیں ۔۔۔۔ اس الزام پر وہ تو جیسے تڑپ ہی اٹھا تھا

یہ تم جانتے ہو دار حویلی والے جانتے ہیں کہ تم نے خانی کو نہیں دیکھا لیکن ملازم لوگ وہ تو نہیں نہ جانتے کہ تم نے خانی کو نہیں دیکھا ؟۔۔۔.

تم اسکی تزلیل کررہے ۔۔۔۔ وہ سمجھدار تھا جانتا تھا کہ داور خان غصے کا بہت تیز ہے اسی لیے اسکی ہی کمزوری (خانی) کے متعلق کہا ورنہ کسی کی اتنی کہاں مجال کے اس خوبصورت شہزادے کے بارے میں اکیلے میں بھی ایک لفظ تک نکال پائیں۔۔۔

میں انہیں رسوا نہیں کرنا چاہتا لیکن میں انکے بغیر جینے کا بھی نہیں سوچ سکتا لالہ ۔۔۔۔ سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتے بیڈ پر بیٹھتا وہ بےبسی کی انتہا پر تھا

میرے بھائی تم سنو اگر انہیں اپنانا چاہتے ہو بنا کسی کو ناراض کیے تووووو میرے پاس ایک ترکیب ہے ۔۔۔۔

کیسا پلان ۔۔۔ وہ انکی طرف دیکھنے لگا جو مسکراتی نظریں سے اسے دیکھ رہے تھے پھر آہستہ آہستہ سب بتانے لگے

واہ لالہ کتنے کمال ہو آپ آئی لو یو یار ۔۔۔۔ وہ خوشی سے انکے گلے لگتے زور سے بولا تو باہر سے گزرتے جابر خان نے مسکراتے ہوئے اندر قدم رکھا انہیں دیکھ وہ دونوں سیدھے ہوئے

کیسا ہے خان۔۔۔میرے بچے ۔۔.غصیلے سہی مگر وہ اس اکڑو سرپھرے شہزادے سے محبت بھی بہت کرتے تھے ۔۔۔۔ وہ آگے بڑھ کر انکے گلے لگا

میں ہنڈسم آپ کیسے ہیں بابا سائیں ۔۔۔

ہمارا شیر اگر ہینڈسم ہے تو ہم سپر ہیندسم ہیں ۔۔۔ وہ اسکے بال بکھیرے بولے لگ ہی نہیں رہا تھا یہ دونوں دوپہر میں جنگلی شیر بنے ہوئے تھے

ہاہاہاہا بابا اپکی مزاق کرنے کی عادت نہ گئی ۔۔۔۔ داور نے مسکرا کر میٹھا طنز کیا تا وہ بھی قہقہہ لگا گئے فواد نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا وہ دونوں ساتھ تھے تا سب کرسکتے تھے مگر ہائے یہ آنکی ضد۔۔۔۔۔۔

بلکل تمھاری طرح داور خان ۔۔۔ وہ دوبدو مونچھوں کو تاؤ دیتے مسکرا کر بولے فواد نے لب دبائے ان دونوں کو دیکھا ایک سیر تھا تو دوسرا سوا سیر

خیر فواد جاکر شہر سے بہو کے لئے اپنے اور اس کے لئے بھی شاپنگ کر آنا۔۔۔۔ آخر کچھ دن بعد نکاح ہے تمھارا ۔۔۔۔

انہوں نے مسکرا کر کہا اور مونچوں کو تاؤ دیتے وہاں سے چلے گئے جبکہ انکی بات پر داور نے مٹھیاں بھینچتے خود پر قابو کیا فواد نے نفی میں سر ہلاتے انکی پشت کو دیکھا جاتے جاتے پہلے سے بھڑکتی آگ میں گھی ڈالنا ضروری تھا ۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

اسلام وعلیکم۔۔۔ اماں بی میرا ناشتہ دیں ۔۔۔ راعنہ نے کچن میں آتے کہا جہاں ساری ملازمہ کسی نہ کسی کام میں مصروف تھی اسکے آنے پہ ایک دم سیدھی ہوئی

واعلیکم اسلام ۔۔۔ ہم آپکا ناشتہ لاہی رہے تھے ۔۔۔آپ نے کیوں زحمت کی یہاں آنے کی ۔۔۔۔ اماں بی نے اسکے حجاب میں لپٹے خوبصورت معصوم چہرے کو دیکھتے دل ہی دل میں نظر اتاری ۔۔۔۔

کوئی زحمت نہیں ہے اماں بی آپ کھانا دیں دے بسس میں کالج سے لیٹ ہورہی ہوں ۔۔۔۔ گھڑی میں ٹائم دیکھتے اس نے جلدی سے کہا تو خادمہ نے ٹرے میں ایک جوس کا گلاس اور ساتھ میں پاستہ رکھتے اسے پکڑائی وہ شکریہ کہتی وہی وہی پڑے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔

اماں بی خانی کتنی پیاری اور نرم دل ہیں ۔۔۔۔ ساتھ کھڑی بانو نے حسرت سے اسے دیکھا تو اماں نے اسے جھڑکا

ماشاءاللہ کہو بانو کیوں ہماری بچی کو نظر لگانی ہے تم نے۔۔۔۔۔

میں تو بسس ۔۔۔۔ وہ منمنائی تو امان بی نے اسے کام کرنے کا اشارہ کیا کچھ ہی دیر میں حجاب سیٹ کرتے وہ وانیہ اور ہانیہ کے ساتھ کالج کے لئے دلاور خام کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتی کالج روانہ ہوئی

۔💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خان میرے بچے ۔۔۔ نرمین بیگم اسکے نفاست سے سجے روم میں آئی جہاں وہ یہاں وہاں چکر لگاتے غصے سے مٹھیاں بھینچتے کچھ سوچ رہا تھا اتنے سالوں بعد اپنی جنت کو دیکھ کسی ننھے بچے کی طرح وہ انکے انچل میں چھپ گیا

ماں سائیں کیسی ہیں آپ ؟۔۔۔۔ انکے ہاتھ چومتے وہ محبت سے پوچھنے لگا نجانے کتنے سال بعد اسے اپنی ماں کا شفقت بھرا لمس نصیب ہوا تھا

ماں صدقے ! جسکی تم جیسی نیک اولاد ہو تو اسکی ماں کو بھلا کچھ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اسکے پیشانی پہ لب رکھتے وہ اپنے خوبرو بیٹے کی دل ہی دل میں نظر اتارنے لگی سفید رنگت پر سفید شلوار قمیض آنکھوں کی چمک ۔۔۔۔مغرور کھڑی ناک ۔۔۔۔عنابی لب ۔۔.لب و لہجے سے وہ کسی ریاست کا بادشاہ معلوم ہوتا تھا

اللہ پاک آپکو ہمیشہ سلامت اور برکت والی زندگی عطا کرے آمین ۔۔۔۔ اپنی ماں کا وہ چہیتا تھا

خان آج ہی تو آپ آئے ہیں اور آج ہی آپ نے اپنے بابا سے بیر رکھ لیا ۔۔۔ نرمین بیگم اسکے گھنے بالوں میں ہاتھ چلاتے گویا ہوئی

ماں سائیں آپ جانتی ہیں اس پری کے لئے ہی میں لندن گیا تھا تاکہ اپنے بلبوتے پہ کچھ کرسکو ۔۔۔۔ جب سبکو پتہ تھا کہ وہ میری ہے تو لالہ سے انکا نکاح طے کرنے کا مقصد ۔۔۔۔؟ بابا جانتے ہیں کہ وہ لڑکی میری سانسوں کی وجہ ہے ۔۔۔۔.پھر بھی ۔۔۔۔۔ اور آپ نے بھی انہیں نا روکا ؟۔۔۔۔ بولتے وہ آخر میں شکوہ کرگیا

یہاں خواتین کی چلتی ہی کب ہے خان ؟۔۔۔ یہاں صرف مردوں کی حکومت ہے ۔۔۔۔اپنے بابا سائیں سے بدگمان مت ہو وہ جو سوچے گے تمھارے بھلے کے لئے ہی سوچیں گے ۔۔۔۔۔ نرمین بیگم نے سمجھایا

نہیں ماں سائیں وہ مجھے بےبس کرنا چاہتے ہیں وہ سوچتے ہیں میری پری کو مجھ سے چھین کر وہ مجھے کمزور کرکے اپنے سامنے جھکا لیں گے لیکن یہ انکی خوش فہمی ہے کیونکہ داور خان نہ کبھی جھکے گا اور نہ ہی اپنی پری کو کسی اور کا ہونے دیگا ۔۔۔۔۔ اس نے نفی میں سر ہلاتے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا

میری جان اپنی ضد چھوڑ دو کیا فائدہ ایسی ضد کا تمھارے بابا اپنے اصولوں کے بہت پکے ہیں ۔۔۔۔ وہ کبھی اپنا فیصلہ نہیں بدلے گے ۔۔۔۔

ماں سائیں انہیں اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا میں انہیں اتنا مجبور کردونگا کہ وہ خود میری شادی میری پری سے کروائیں گے اگر ایسا نہ کیا تو پھر مجھے انگلی ٹیڑی کرنی پڑے گی ۔۔. دماغ میں کچھ کھچڑی پکاتے وہ ہنس کر گویا ہوا تو نرمین بیگم نے اسکی نظر اتاری اسکے سنجیدہ چہرے پہ مسکراہٹ بہت جچتی تھی پورے گاؤں میں سب سے خوبرو،مغرور، ضدی اسکی شخصیت تھی

اللہ تمھیں کامیاب کرے ۔۔۔۔نرمین بیگم نے اسکی پیشانی کا بوسہ لیا اور اٹھ کر کچن کی طرف چل دی پیچھے وہ اپنے کپڑے لیتا واش روم میں گھسا ۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

اسلام علیکم کیسے ہیں آپ لالہ ۔۔۔۔۔ ہانیہ اور وانیہ نے لاؤنج میں اتے بےصبری سے کہا کالی شلوار قمیض پر کریم کلر کی اجراک کندھوں پر ڈالے آستین کو فالڈ کیے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے میں وہ مغرور شہزادہ مضبوط ہاتھ کی مٹھی بنائے ہونٹوں پر رکھتے دلاور اور اعظم خان کی گفتگو سن رہا تھا اسکے ساتھ ہی فواد بیٹھا انکی باتوں میں شریک تھا

واعلیکم اسلام شہزادی میں ٹھیک آپ کیسی ہیں ۔۔۔۔انکے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے وہ نرم لہجے میں بولا تو وہ دونوں وہی پڑے صوفوں براجمان ہوئی فواد نے مسکرا کر ہانیہ کو دیکھا جو اس سے نظر ملتے ہی نظریں پھیر چکی تھی کہ سمجھا شاید وہ اس سے گھبرا رہی ہے لیکن  وجہ کچھ اور تھی

لالہ آپ شاپنگ کر آئے ہو۔۔۔ ہانیہ نے ٹیبل پر پڑے شاپنگ بیگز پوچھا تو اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا وہ دونوں شاپنگ دیکھنے لگی 

ہماری شہزادیوں نے خریداری نہیں کی ؟ دلأور خان نے نرمی سے پوچھا تو وہ دونوں نفی میں سر ہلا گئی 

ماموں جان ہم نے خانی اپی سے اپنے ڈریس تیار کروا لیے ہیں بسس جیولری چاہیے ۔۔جو آج ہی ہم خادمہ سے کہہ کر منگوا لینگے ۔۔۔۔۔ ہانیہ پرجوش سی ہوئی 

ہاں آپ لوگ تو ایویں یوں یوں کرکے تیار ہوجاتے ہو ۔۔. ہم نے بہت کچھ کرنا ہوتا ۔۔۔.بال بناؤ کاجل لگاؤ چوڑیاں پہنو میک اپ کرو جیولری پسند کرو ۔۔۔۔۔ وانیہ جو شروع ہوئی تو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔ ہانیہ نے کہنی اسکی کمر پہ ماری تو وہ دانت لبوں تلے دبائے خاموش ہوئی اور انہیں دیکھنے لگی جو قہقہ دبائے سرخ ہورہے تھے اسکے دیکھنے پر انکا سب کا ضبط ٹوٹا اور پوری خان حویلی انکے قہقہوں سے گونج اٹھی کام کرتی ملازمہ۔۔۔ نرمین بیگم مہرو بیگم ۔۔۔ حویلی کی دیواریں ہق دق انکے قہقہ سن رہی تھی 

ہماری شہزادیوں کے تا دکھ ہی نرالے ہیں لیکن آپ بےفکر رہیں اس بار آپکے لالہ یہاں موجود ہیں آپکو زرا بھی میک اپ کرنے کی زحمت کرنی نہیں پڑے گی کیونکہ ہم نے اپنی چھوٹی شہزادیوں کے لئے بیوٹیشن بلوائی ہے 

۔۔۔۔۔۔

بمشکل ہنسی روکتے داور نے کہا تو ابکی بار ان دونوں کا قہقہ بھی گونجا نرمین بیگم نے دور سے ہی انکی نظر اتاری 

یسس۔۔۔موبائل رنگ ہوا تو یس کرتے کان سے لگایا

سر میم پر کوئی نظر رکھوا رہا ہے ۔۔۔۔ سامنے سے کلیم نے جو کہا تو داور کا دل کیا ان آدمیوں کے ساتھ کلیم کو بھی اڑا دے اسکی بھوری آنکھوں میں گلابی پن چھانے لگا

کیچ ہم۔۔۔۔ مٹھیاں بھینچے سختی سے کہا اور کال کٹ کی تو ان سبکو کو اپنی طرف متوجہ پایا

شہزادی آپ لوگ یہ بیگز انکے روم میں لے جائیں ۔۔۔بمشکل دھمیے سے لہجے میں کہتے وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتے لائونج سے ہی نکل گیا 

جبکہ ان تینوں نے اسکے سرخ چہرے اور ہاتھوں کی ابھری رگوں کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا نجانے کس کی شامت آئی تھی 

اوکے۔۔۔وہ دونوں کندھے اچکائے بیگز اٹھاتی راعنہ کے روم کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

ہییییییییں یہ کیا کہہ رہی ہو تم فواد لالہ نے تمھیں ۔۔پرپوز کردیا اور مسینی تم نے مجھے بتانا تک گوارہ نا کیا ۔۔۔۔ وہ اسکے حجاب میں سے نظر آتی آنکھوں کو دیکھتے وہ کھڑی ہوتے غصے سے مٹھیاں بھینچی بولی

میری ماں اب بتا تو رہی ہوں اس میں اتنا غصے ہونے والی کیا بات ہے ۔۔۔۔ ہانیہ نے اسے واپس بیٹھاتے کہا وہ گرلز کالج گاؤں سے تھوڑا دور تھا لیکن پھر بھی وہ تینوں وہاں حجاب میں ہی ہوتی تھی

لیکن پھر بھی ہانی انکی شادی تا خانی آپی سے ہورہی ہے تو تمھیں اس طرح کی بات کرنے کا کیا مقصد ہے انکا ۔۔. وہ مشکوک لہجے میں کہتی پیشانی مسلنے لگی

کوئی مقصد نہیں ہے انہوں نے بسس ایسے ہی کہہ دیا کہ شہزادی آپکا شہزادہ ۔۔۔ اس سے زیادہ وہ بول ہی نہ پائی راعنہ جو اسائنمنٹ سبمٹ کرواتی انکی طرف آرہی تھی انکی باتیں سن اس کے پاؤں تلے ّ زمین کھسکی ۔۔۔ لیکن پھر مسکراتی وہ انکے ساتھ جا بیٹھی ۔۔۔۔ تو وانیہ کے دماغ میں کچھ کچڑی پک کر کوئلہ ہوئی

آپی نامحرم سے محبت کرنا اسکے بارے میں سوچنا سہی ہوتا کیا؟ راعنہ جانتی تھی وہ کس کے لیے بات کررہی ہے برا منائے بغیر وہ اسکا حجاب سہی کرتے نرمی سے گویا ہوئی

نامحرم کی محبت کو ہمیشہ شیطان مزین کرکے پیش کرتا ہے ، بہت دل چاہتا ہے کہ نامحرم سے محبت والی باتیں کی جائیں ، اس کی محبت اور اس سے محبت کا اعتراف کیا جائے لیکن ۔۔۔!

یہ فتنہ ہوتا ہے ، آزمائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ میرا فرمابردار بندہ کتنی میری فرمابرداری کرتا ہے ، مجھے راضی رکھتے ہوئے نامحرم کی محبت سے دور ہو گا یا پھر مجھے ناراض کرکے نامحرم کے قریب جائے گا ،

بعض اللہ سے سچی محبت کرنے والے لوگ اللہ کے لیے نامحرم کی سچی محبت کو چھوڑ دیتے ہیں ، انہی وقتی طور پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ انہیں حلاوت ایمانی نصیب فرماتا ہے ، یہ حلاوت ایمانی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ،

اور بعض کمزور ایمان والے لوگ اللہ کی نافرمانی کرکے نامحرم کے قریب ہوجاتے ہیں ، انہیں وقتی طور پر خوشی ہوتی ہے بس ، کیونکہ گناہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی لذت رکھی ہے ، یہ اس گناہ والی لذت کو سکون اور راحت سمجھتے ہیں ، لیکن یہ اندر ہی اندر خود کو بے سکونی والی کیفیت میں پاتے ہیں ،

یہ فتنہ ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔۔۔۔ محبت کوئی گناہ نہیں ہوتی بس محبت کی شرط نکاح ہے۔۔۔۔ محبت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی آقا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تھی۔۔۔ اور انہوں نے فوراً نکاح کا پیغام بھیجا تھا ۔۔۔۔نامحرم کی محبت کتنی بھی پاک کیوں نہ ہو اگر آپ کی منزل نکاح نہیں تو وہ رشتہ حرام ہے ۔۔۔۔؛ وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔۔۔۔ محبت تو ہو جاتی ہے لیکن جب محبت ہو تو نکاح کرو ۔۔۔۔۔ اگر وہ محبت نکاح تک نہیں جا سکتی تو خاموش ہو جاؤ؛ اور معجزے کا انتظار کرو؛ اگر وہ آپ کے نصیب میں ہے تو آپ کو ضرور ملے گا سالوں بعد ہی کیوں نہ ملے وہ آپ کو مل کر رہے گا

۔۔۔۔

میں نے حقیقت آپ کے سامنے رکھ دی ہے ، اگر آپ سمجھ دار ہونگی تو کبھی بھی غلط قدم نہیں اٹھائیں گی شہزادی

۔۔۔۔۔

اسکی باتیں سن ہانیہ کا دل اداس ہوا آخر جو بھی تھا وہ اسکا نامحرم تھا۔۔۔۔ شرمندگی نے اسے آگھیرا تو اسکی آنکھیں نم ہوئی

چلیں بابا آگئے ۔۔۔۔ دلاور خان کو دیکھ وہ ان دونوں کا دھیان اپنی جانب کھینچ گئی ۔۔ وہ دونوں مسکراتی گاڑی کی طرف بڑھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

وہ جو گاؤں کی سرحد سے باہر نکل چکا تھا جو قدرے سنسان جگہ تھی کہ اتنے میں اسے ایک پراڈو اپنے پیچھے آتی نظر آئی اس نے نظر انداز کرتے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تا وہ پراڈو تیز رفتار سے سڑک کے بیچ و بیچ گول گول گھومنے لگی کہ وہ جلدی سے بریک پر پاؤں رکھتے بوکھلایا اسکا شک پختہ یقین میں بدلنے لگا تھا وہ خان تھا ۔۔۔۔۔ کار رکی اس میں سے کالی شلوار قمیض جو اسکی سرخ و سفید رنگت پر بہت جچ رہی تھی بھوری آنکھوں پر گلاسس لگائے۔۔کہنیوں تک فالڈ کیے آستین سے اسکے مضبوط مردانہ بازؤوں کی پھولتی رگیں اس آدمی پر وحشت تاری کرگئی ۔۔۔۔ اسکے حواس معطل ہونے لگے سامنے کھڑے مغرور شخصیت میں اسے اپنی موت نظر آرہی تھی

خان سائیں مجھے مجھے معاف کردیں ۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔۔۔. اس سے پہلے دیر ہوتی وہ کانپتے ہوئے اسکے قدموں میں جھکتے گڑگڑانے لگا

غلطی نہیں تم نے گناہ کیا ہے ایسا گناہ جسکی معافی تمھیں کسی صورت نہیں ملے گی ۔۔۔۔ اسکے کالر سے پکڑ کر دور پھینکتے وہ غرایا شعلے اگلتی آنکھوں سے اسے دیکھا جیسے آنکھوں سے ہی اسے بھسم کردینے کا ارادہ ہو۔۔۔۔.

سائیں م معاف۔۔۔۔ اس سے پہلے اسکا جملہ مکمل ہوتا کہ ایک ہی ساتھ دو چاقو اسکے آنکھیں میں لگے کہ اسکی دردناک چیخیں اس سنسنا سے علاقے میں دور دور تک جانے لگی جبکہ وہ مغرور شہزادہ دلچسپی سے اسکی چیخیں ملاحظہ فرما رہا تھا ۔۔۔.

اسے لے جاؤ اور قید خانے میں ڈال دو۔۔۔۔۔ سنجیدگی سے کہتے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھتے روانہ ہوا کہ دور کھڑے ایک شخص نے اسکی شخصیت کو غور سے دیکھا اور پھر گہرا مسکرایا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞اسلام وعلیکم پھپھو ۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ ۔۔۔ فواد نے شاہ حویلی میں پہلی بار قدم رکھا تھا لاؤنج میں آتے ہی سامنے دلنشیں بیگم صوفے پر بیٹھی ملازمہ کو دوپہر کے کھانے کا مینیو بتا رہی تھی

ارے وعلیکم اسلام ماشاءاللہ پھپھو قربان جائے میں ٹھیک ہوں میرا شہزادہ کیسا ہے ۔۔۔۔ اسکی پیشانی چومتے وہ اس پر صدقہ واری گئی پہلی بار اس نے شاہ حویلی میں آکر وہاں رونق بخشی تھی

میں ٹھیک پھپھو میں یہاں آیا ہوں کیونکہ مجھے آپکی مدد چاہیے ۔۔۔ صوفے پر بیٹھتے اس نے شرمندگی سے کہا کیونکہ پہلی بار بھی وہ اپنے ہی مطلب کے لئے آیا تھا

ہمممم مجھے معلوم ہوا سب ۔۔۔بتاؤ کیا مدد چاہیے میرے بیٹے ۔۔۔۔ اسکی شرمندگی مٹاتی وہ مسکرا کر گویا ہوئیں تو فواد نے فورا سے پہلے انہیں سب کچھ بتایا تو انہوں نے مصنوعی سنجیدگی سے اسے گھورا

بیٹا سائیں میرے بھائی جان کو زلیل کرنے کا یہ طریقہ کس کے دماغ میں آیا۔۔۔۔

وہ پھپھو جان میرے ۔۔۔۔ فواد نے کہہ کر دانتوں تلے لب دبائے تو وہ ہنس پڑی

بھائی جان غصہ ہونگے تم سے ۔۔۔

اسکے لیے کچھ بھی ۔۔۔۔ فواد مسکرایا

صرف اسکے لیے ۔۔۔ انہوں نے شریر نظروں سے اسے دیکھا تو وہ گڑبڑا گیا 

نہیں پھپھو جان ۔۔۔۔ آپ تو جانتی ہیں مجھے ۔۔۔. 

ہممم ۔۔۔خیر ہانیہ کا رشتہ آیا ہے گھر والے اور لڑکا بہت سلجھا ہوا ہے میں سوچ رہی ہاں کردو ۔۔۔انہوں نے چور نظروں سے اسکے تاثرات جانچتے مصنوعی سنجیدگی سے کہا 

پر وہ تو میری ہے پھپھو ۔۔۔ آپ نے وعدہ کیا تھا ۔۔۔۔ اس نے خفگی سے کہا تو دلنشیں شاہ ہنسنے لگی وہ تا اسے ہی دیکھ رہی تھی 

میں کچھ نہیں بھولی شہزادے ۔۔۔۔ بسس تم لوگ خیال سے سب کرنا کیونکہ اگر اسکی بھنک بھی بھائی جان کو پڑی تو سمجھو تم دونوں کے ساتھ میری بھی کلاس لگے گی ۔۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر اسکے بال بکھیرے تا وہ دل کشی سے مسکرایا 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

رات کا وقت تھا سب ہی اپنے اپنے کمروں میں سونے جاچکے تھے اور وہ کچن میں گھسی راعنہ اور اپنے لیے ہاٹ چاکلیٹ بنا رہی تھی کہ اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پر لب بھینچ گئی وہ جانتی تھی کہ پیچھے کھڑا شخص اور کوئی نہیں فواد خان ہے 

ہم سے ایسا کیا گناہ سرزرد ہوا جو آپ ہمھیں دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتی ۔۔۔۔ وہ کپ لیے جانے لگی تو فواد نے سنجیدگی سے پوچھا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ رکی 

ایسا تو ک کچھ نہیں ہے خان سا۔۔۔۔ 

جھوٹ ۔۔جھوٹ مت بولنا مجھ سے ہانیہ بی بی ورنہ ۔۔۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں غررایا تا ہانیہ کی جھکی پلکوں سے آنسو بہہ نکلا فواد نے لب بھینچتے اسے دیکھا جو نظریں جھکائے کانپیں جارہی تھی 

اففف۔۔ گہری سانس بھرتے خود کو ریلیکس کیا اتنے دن سے وہ اسے اگنور کررہی تھی جہاں وہ ہوتا وہاں سے گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح پھررر ہوجاتی تھی 

رونا بند کریں ۔۔۔اب بتائیں کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ اب کے قدرے نرمی سے پوچھا تو ہانیہ کے آنسوؤں میں مزید روانی آئی ۔۔۔۔ 

ہانی اگر اب رونا بند نا کیا تا انجام کئ زمیدار آپ خود ہونگی ۔۔۔۔ اس نے اسکے گلابی گالوں سے نظریں چرائی اسکی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی نازک انگلیوں سے آنسو صاف کرتے سوں سوں کرنے لگی رونے کے بعد اکثر اسکو زکام ہوجاتا تھا ۔۔۔

اچھا چھوڑیں ریلیکس ہوں اور یہاں بیٹھیں ۔۔۔ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھتے اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا جو وہ لرزتی کانپتی بیٹھ ہی گئی 

جنتا یہ وائبریٹ ہورہی ہے اسے تو میرے موبوئل میں ہونا چاہئے تھا کم از کم اسکی وائبریشن تا کام آتی ۔۔۔ دل ہی دل میں سوچتے وہ مسکرایا 

لگتا ہے جن ون ہوگئے ہیں انکو اسی لیے تو پاگلوں کی طرح خود ہی ہنسے جارہے ہیں ۔۔۔۔ اسکو مسکراتے دیکھ ہانیہ کو اسکی دماغی حالت پہ شک ہوا اسے خود کی جانب دیکھتا پاکر وہ سیدھا ہوا اور وانیہ بھی وہی ہانیہ کے ساتھ آبیٹھی 

کیا یہ شہزادیاں اپنے چھوٹے خان کی تھوڑی ہیلپ کرینگی ۔۔۔۔ اس نے انکی طرف امید سے دیکھا اگر ہانیہ منع کردیتی تا بنے بنائے پلین پر مٹی ڈل جانی تھی 

جی کیا مدد چاہئے انہیں ہماری ؟۔۔۔۔ انکے لیے تو ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ۔۔۔۔ وانیہ پرجوش ہوئی تا ہانیہ نے بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

اچھا سنو کل تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ انہیں آہستگی سے بتانے لگا جیسے جیسے وہ بتا رہا تھا ویسے ویسے وانیہ کا چہرہ ایڈوینچر اور ہانیہ کا خوف سے رنگ سفید پڑنے لگا تھا 

میں نہیں کرونگی ماموں جان مار ڈالیں گے ۔۔۔۔ ہانیہ نے صاف انکار کیا تا فواد نے گھور کر اسے دیکھا 

تمھیں کیوں مارنے لگے مجھے ماریں گے اب کوئی چوں چرا نہیں شہزادی آپ کو یہ کرنا ہے  تاکہ خانی اور خان ایک ساتھ ہوسکیں اور ہم دونوں بھی ۔۔۔۔ وہ ڈپٹ کر کہتے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا لیکن اس معصوم کہ جان مشکل میں ڈال گیا 

کم ان ہانی بی بریو کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔بس تمھیں ڈرنا ہے جسکے لئے تو تمھیں پریکٹس کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خانی آپی اس دن آپ نماز پڑھ رہی تھی تا آپکو یہ نہیں دیکھا سکیں فواد لالہ یہ ڈریس لائے ہیں آپکے لیے ۔۔۔۔ وانیہ نے داور خان کا حوالہ دیتے کپڑے نکال کر دیکھائے یلو اور گرین کلر کا شرٹ اور شرارہ تھا جسے دیکھ راعنہ کا مسکراتا چہرہ مانند پڑا ۔۔۔ کیونکہ شرٹ کی بیک پر صرف ڈوریاں تھی 

اسکے علاوہ یہ ڈرہس خان لالہ کی پسند کی ہے ۔۔.یلو پاؤں کو چھوتا فراک جسکے گلے اور بارڈر پر گولڈن نفیس سا کام کیا ہوا تھا گرین کلر کا چوڑی دار پجامہ اور گرین ہی ڈوبٹہ تھا جسکے بارڈر پر  زیادہ کام ہوا تھا ہانیہ نے دانتوں تلے لب دبائے 

یہ اچھا ہے ۔۔۔۔ ہاٹ چاکلیٹ کا مگ لبوں سے لگاتے وہ مسکرائی تا وانیہ اور ہانیہ نے ایک دوسرے کو دیکھتے آنکھ ماری 

چلیں شب خیر کل آپکی مایوں ہے سو سو جائیں۔۔۔ ڈریسسز سمیٹ کر المیرا میں رکھتی وہ باہر کو بڑھی راعنہ نے مسکرا کر انہیں دیکھا پھر سائیڈ لمپ بند کرتی خود بھی کمفرٹ میں چھپے سونے لگی 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خانی آپی کو فراک پسند آیا ہے ۔۔۔۔ ہانیہ نے داور کو شریر نظروں سے دیکھتے کہا تو اسکی بھوری آنکھوں میں چمک دیکھنے لائق تھی دانتوں تلے لب دبائے مسکراہٹ روکی جو اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگا 

ارے ہنس لے لالہ ہم نہیں لگاتے نظر ۔۔۔۔ وانیہ نے اسکی سرخ چہرے کو دیکھتے شرارت سے کہا تو داور نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا 

ہممم ہنس لو کیا پتہ کل بابا سائیں  کے ۔۔۔.سمجھ تو سب گئے ہونگے ۔۔۔۔ ہانیہ کو دیکھتے وہ ڈرانے کے لئے بولا تا ہانیہ نے مسکین سی صورت بنائے داور کو دیکھا 

لالہ آپ شرم کریں زرا ہماری گڑیا کو کیوں ڈرا رہیں چلو گڑیا آپ لوگ آرام کریں صبح ملے گے اوکے گڈ نائٹ ۔۔۔۔ انہیں کہتے وہ فواد کے کندھے کے گرد ہاتھ ڈالتے باہر کو بڑھا 

لالہ کا کام کیا کر دیا شہزادی سے گڑیا بن گئے ۔۔۔۔ وانیہ نے مسکرا کر کہا تو ہانیہ نے اسے گھورا اور گپ اندھیرا کرتے سونے کی تیاری کرنے لگی 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

 بیگم کب تک یوں روٹھے رہنے کا ارادہ ہے ۔۔۔نرمین بیگم کی ناراضگی وہ کب سے محسوس کررہے تھے مگر وہ کمرے میں آتی ہی نہیں تھی ابھی فجر کی نماز کے بعد وہ روم میں آئے تو نرمین بیگم کمرہ سمیٹتی نظر آئی 

ہمارے روٹھنے سے اپکو کیا فرق پڑتا ہے سائیں ۔۔ہماری اوقات۔۔۔۔

آپ ہماری تزلیل کررہی ہیں ۔۔۔۔ وہ سخت لہجے میں نظریں انکے چہرے پر گاڑھتے دھیمی آواز میں غررائے نرمین بیگم نے مایوسی سے انہیں دیکھا اب بھی وہ سخت لہجے میں بات کررہے تھے 

معافی چاہتے ہیں سائیں۔۔۔ وہ بھیگے لہجے میں کہتی جانے لگی انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے وہ انہیں اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھا گئے 

آپ کیوں اپنے بارے میں ایسے الفاظ کا چناؤ کرتی ہیں بیگم جو ہمھیں آپ سے سخت لہجے میں بات کرنے پر مجبور کرے۔۔۔انکے آنسو انگلی کے پور سے صاف کرتے وہ مسکرائے تھوڑا سا غصہ اور انکی بیگم کی حالت پتلی ہونے لگتی تھی 

آپ جانتے ہیں میرا بیٹا میری جان ہیں چھوٹا سا منہ بنایا ہوا ہوتا ہے اس نے ۔۔میرے دل کو دھچکہ لگا رہتا ہے اگر غصے میں اس نے کچھ کردیا تو ۔۔۔ خوف سے کہتے وہ خود ہی پریشان تھی

جتنا میں آپکے سپوتوں کو جانتا ہوں اس نے کہا ہے تو وہ کرے گا بھی آپ بسس تیاریاں کریں آج دلہنوں کی مہندی ہے ۔۔۔۔ انکی پیشانی چومتے وہ انکا سر تھپکتے باہر کو بڑھے ۔۔۔

دلہنوں کی ۔۔۔ ناسمجھی سے انکی بات دہرائی پھر سمجھ میں اتے ہی مسکرا کر باہر کو بڑھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خان حویلی کو کسی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا جہاں لاؤنج میں اس وقت سب ہی موجود تھے کہ راعنہ کو دلاور خان کے ساتھ باہر جاتے دیکھ کر مہرو بیگم کے دل کا دل بےچین ہوا

 بیٹا کہاں جارہی ہیں آپ آج مہندی ہے مہمان آنا شروع ہوجائیں گے اور آپ کالج جارہی ہیں آج بھی۔۔۔۔ مہرو بیگم نے اسکے قریب جاتے ٹوکا تا وہ مڑی داور تو اسکی طرف سے رخ ہی موڑ چکا تھا لیکن کمبخت دل اسکی جانب ہی متوجہ تھا 

مورے بسس پانچ منٹ کی بات ہے ہم اسائمنٹ سبمٹ کروا کر آجائیں گے ۔۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں گویا ہوئی 

جانے دیں بچی کو جلد ہی آجائے گی ۔۔۔اعظم خان نے کہا تو وہ مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھتی باہر کو بڑھی 

کچھ گھنٹے اسکے بعد آپ میری ۔۔۔۔ اس نے جیسے خود سے احد کرتے فواد کو اشارہ کیا جسے سمجھتے اس نے اوکے کا اشارہ کیا اور اٹھ کر باہر کو چل دیا 

کچھ دیر کی مسافت کے بعد وہ کالج کے سامنے تھے 

بیٹا آپ جائیں میں تھوڑی دیر میں آپکو لینے آتا ہوں اوکے ۔۔۔۔ اسکا سر چومتے دلاور خان نے کہا اور اسکے کالج میں انٹر ہوتے ہی گاڑی ڈیرے کی طرف موڑ لی 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

خ خان سائیں خانی بی بی کے  کالج میں ملک صفدر گھس گیا ہے ۔۔۔۔۔ مردان خانے میں وہ جو اپنے مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ کلیم ہانپتے ہوئے وہاں  آیا اور لرز کر کہا ۔۔۔۔۔ وہ سب فورا سے کھڑے ہوئے اسکی بات سن وہ طوفان بنا وہاں سے نکلا 

ریش ڈرائیونگ کرتے وہ کچھ ہہ منٹ میں کالج کے اندر تھا جہاں ہر طرف لڑکیاں ڈری سہمی کھڑی تھی خان کو دیکھتے ہی انکی امید بھری نظریں اس پر جم سی گئی جو وائٹ کف لگے سوٹ میں کالی اجراک کندھوں پر ڈالے وہ بادشاہوں سی آن بان رکھنے والا شہزادہ جسکی سفید رنگت غصے سے  سرخ ہورہی تھی ماتھے کی ابھری نسیں واضح ہوتی اسکے سخت اشتعال میں ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی شعلے اگلتی نگاہوں سے ان سبکے بیچ و بیچ بیٹھے ملک صفدر کو دیکھا جو اسکی ایک نظر سے ہی ڈر کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ 

آؤ خان صاحب تمھارا ہی انتظار تھا سنا ہے تمھاری حویلی کی را۔۔۔۔

تڑاخخخخخ۔۔۔۔ انکا نام تو آج تک میں نے نہیں لیا تو تممممم جیسے گھٹیا شخص کی اتنی اوقات کہاں کہ انکا نام بھی اپنی گندی زباں پر لاسکو۔۔۔۔ زناٹے دار تھپڑ اسکی گال پر مارتے وہ شیر کی طرح دھاڑا تو وہاں کھڑی لڑکیاں سہی ایک دوسرے کے اندر چھپنے لگی 

تھپڑ ایسا پڑا تھا کہ ملک صفدر کو اپنی چھٹی کے دانت یاد آگئے تھے ڈر اسکی آنکھوں میں واضح تھا وہ دوبارہ اس پر ہاتھ اٹھاتا کہ کلیم نے اسکے کان میں سرگوشی کی تا وہ سر جھٹک کر یہاں وہاں نظریں دوڑاتے راعنہ کو ڈھونڈنے لگا مگر وہاں نہیں تھی وہ کلاسس میں جاکر دیکھنے لگا مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی اب اسے راعنہ کی فکر ستانے لگی تھی کچھ سوچ کر ٹیرس پہ گیا تو ٹھنڈی ہوائیں اس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کے ساتھ چھیڑ کھانی کرنے لگی اردگرد دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھی وہ واپس جانے کو پلٹا 

چ چھوٹے خ خان۔۔۔۔ سہمی سی لرزتی آواز پر وہ چونکا اردگرد دیکھا وہ کہیں نہیں تھی کچھ ٹینک وہاں موجود تھے جہاں سے وہ گاؤن میں چھپی نکلی لمبی پلکوں کی چھلمن سے آنسو ٹپکتے اسکے حجاب میں جزب ہورہے تھے ایک بار نظریں اٹھا کر اسے نہیں دیکھا

اسکے آنسو اسکے دل پر گررہے تھے وہ بےچین ہوا لیکن بےبس تھا وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اسکی نہیں تھی 

آپ روئیں مت ۔۔۔ چلیں نیچے آپکے بابا آپکا ویٹ کررہیں ہیں ۔۔۔۔۔ بھٹکتی نظروں کو بمشکل نیچے جھکائے وہ سنجیدگی سے بولا تا راعنہ جلدی سے سیڑھیاں اترتے سہمے خرگوش کی طرح دلاور خان کے حصار میں جاچھپی 

کتنی لکی ہیں یہ ۔۔۔ خود تو پیاری ہیں سو ہیں لیکن شوہر بھی ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے بچائے۔۔۔ داور نے کسی لڑکی کی سرگوشی سنی تو لب دبائے مسکراہٹ روکی ۔دلاور خان اسے لے کر گاڑی میں بیٹھتے حویلی کی طرف رواں دواں ہوئے انکے پیچھے ہی داور اپنی گاڑی میں تھا

💞💞💞💞💕💕💞💕💕💕💕💕💕💞💕💞💞💞

ہر طرف گہما گہمی تھی دور دور سے لوگ خانہ کعابہ کی زیارت کو آئے تھے وہی وہ دونوں اس پاک زمین پر بیٹھے تھے انکا نکاح پڑھایا جاچکا تھا اب وہ اسکے کندھے پر سر رکھے اسکو تلاوت کرتے سن رہی تھی اسکی دلکش آواز اسکے کانوں میں رس گھول رہی تھی ایک سکون دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا اس نے تلاوت ختم کرتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور دعا مکمل کی اور سر جھکا کر اسے دیکھا جو اسکے کندھے سے لگی پرسکون تھی کچھ پڑھ کر اسکے اوپر دم کیا

میری جان ۔۔۔۔۔اسکی پیشانی پر لب رکھتے اپنا پرحدت لمس چھوڑا تو وہ مسکرا کر آنکھیں وا کرتی اسے دیکھنے لگی مگر وہ تا حویلی اپنے کمرے میں موجود تھی

یا اللہ ۔۔۔۔ دھڑ دھڑ کرتے دل پر ہاتھ دھرتے وہ مسکرائی اسکا نکاح تو اوپر پہلے سے ہوچکا تھا لیکن وہ انسان جو بھی تھا وہ فواد نہیں تھا ۔۔۔وہ آواز وہ کیسے نہ پہنچانتی کل ہی تو اس نے اسے مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔

چ چھوٹے خان۔۔۔۔ اسکی آواز کے ساتھ اسکی آنکھیں بھی حیرت بےیقینی تھی۔۔۔۔۔۔

.۔........................................................................

چ چھوٹے خان ۔۔۔ڈری سہمی سی لرزتی آواز اسکی سماعت ہوئی تو وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھا اردگرد دیکھا وہ کہیں نہیں تھی ہوتی بھی کیسے وہ ابھی نامحرم تھی اسکی

اب تو آپ نے میرے خوابوں پر. بھی قبضہ جما لیا ہے ۔۔۔ وہ خود ہی کہتے مسکرایا لبوں پت دلفریب سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی

اب گزارہ ناممکن ہے خانی ۔۔۔۔ وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے لبوں کو دانتوں تلے دباتے سوچنے لگا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

دوپہر کے دو بج رہے تھے موسم بھی کافی خوشگوار تھا اور خلآف معمول آج ہر طرف گہری خاموشی چھائی تھی حویلی میں کوئی ملازم نظر نہیں آرہا تھا اتنے میں حویلی کی در و دیوار دلخراش سے کانپ اٹھی حویلی کے مکین جس میں دلنشیں شاہ بھی تھی باہر آئے تو ان سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی

فواد صاحب گن ہانیہ کے سر پر رکھے کھڑے تھے اور ہانیہ بی بی گن اپنے سر پر محسوس کرتے ہی بےہوش ہونے کے قریب تھی دلنشیں شاہ نے لب بھینچتے مسکراہٹٹ روکی

خان میرے ی یہ کیا کررہیں ہیں آپ ۔۔۔نرمین بیگم جلدی سے اسکے پاس آئی

بسس کر مورے کیا آپکو نہیں معلوم کہ اس لڑکی کا رشتہ بچپن سے میرے ساتھ طے تھا ۔۔پھر بھی آپ لوگوں نے میری جان عزاب میں جھونک رکھی ہے ۔۔۔اسکی پیشانی پہ گن کا دباؤ بڑھاتے وہ غصے سے پاگل ہوا اعظم خان سینے پر ہاتھ باندھے انکے ڈرامے دیکھ رہے تھے

لالہ سائیں آپکی شادی شہزادی سے ہی ہوگی آپ بےفکر رہیں لیکن پلیز گن ہٹادیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داور نے مصنوعی پریشانی سے کہا تو اعظم خان نے اپنے سپوت کو گھورا یہ اولادیں کیوں بھول جاتی ہیں کہ انکے باپ نے دنیا دیکھی ہے

ارے گن رکھو ۔۔۔۔.اسکو تابعداری سے گن ہٹاتے دیکھ داور کا دل چاہا اپنا ماتھا دیوار میں دے مارے

میں تب تک یہ گن نہیں ہٹاؤ گا جب تک بابا سائیں نہ کہہ دیں کہ قہ ہمارا نکاح آج ہی کرائیں گے ۔۔۔۔ وہ زور سے بولا تو اعظم خان نے اسکی طرح قدم بڑھائے جسے دیکھتے فواد کی سانس رکی ہانیہ کا وجود لرزنے لگا تھا

ہاں خان چلاؤ گولی ہم بھی دیکھیں اعظم خان کے بیٹے میں کتنا دم ہے ۔۔۔۔مونچوں کو تاؤ دیتے وہ اطمینان سے اسکے اڑے رنگ دیکھنے لگے

بابا سائیں کیا کہہ رہے ہیں آپ مان جائیں نکاح کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ داور نے کہا

فواد خان گولی چلاؤ ۔۔۔۔ وہ روعب دار لہجے میں گویا ہوئے فواد کا سانس رکا داور کی طرف دیکھا جو دلنشیں شاہ کو دیکھ رہا تھا

دلنشیں شاہ کو پتہ چل چکا تھا کہ انکے بھائی کو سب معلوم ہوچکا ہے سانس روکے وہ اب اس تماشے کے ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی

ناٹک ہی کرنا تھا تو کم از کم گن ہی اصلی رکھ لیتے پلاسٹک کی گن اٹھا کر تم لوگ قتل کرنے چلے ہو۔۔۔. اسکے ہاتھ سے پلاسٹک کی گن لیتے وہ تمسخرانہ نظروں سے داور خان کو دیکھتے ہنسے تو تزلیل سے اسکا چہرہ سرخ ہوا

دلاور قاضی صاحب کو بلاؤ آج ہی ان چاروں کے نکاح ہونگے ہماری مرضی سے ۔۔۔۔ وہ زور دار آواز میں دھاڑے تو ہانیہ سہم کر فواد کے پیچھے چھپی وانیہ راعنہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی کہ تاکہ وہ باہر کے ناٹک کو دیکھ یا سن نا سکے داور مٹھیاں بھینچے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

بھائی جان آپ کیوں تنگ کررہیں ہیں انہیں ۔۔۔بتا دیں نا کہ آپ یہ سب صرف داور کو دیکھانے کے لئے کر رہیں ہیں ۔۔۔۔دلنشیں شاہ نے منت بھرے لہجے میں کہا

بچے آپکے بھتیجے کی ضد تڑوانی ہے ۔۔۔میں چاہتا ہوں وہ خود مجھ سے کہے کہ اسے خانی اپنے نکاح میں چاہیے ۔۔۔۔ وہ مونچوں کو تاؤ دیتے مسکرائے دلنشیں شاہ نے سر پکڑا ادھر یہ ضدی باپ وہاں انکا پاگل بیٹا دونوں ہی ضد چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے

وہ بچہ ہے لیکن آپ تو سمجھداری دیکھائیں ۔۔۔۔ آخری کوشش کی گئی مگر انہوں نے نفی میں سر ہلایا تو دلنشیں صاحبہ نے سر جھٹکا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یہ گھبراہٹ کیوں کہیں آپکو ڈر تو نہیں لگ رہا ۔۔۔ ان دونوں کو اپنی انگلیاں مروڑتے دیکھ کر وانیہ شریر ہوئی تا ہانیہ نے اسے گھورا

گھبراہٹ کیوں ہم کونسا کسی کا شوہر چوری نکاح کرنے جارہے بھئی زاتی شوہر بنے گے.۔۔۔ تم چپ کرجاؤ ورنہ منہ توڑ دونگی ۔۔ اپنی گھبراہٹ کو غصے میں بدلتی وہ اس پر چڑھ دوڑی تو وہ زبان دیکھاتی باہر کو بھاگی

بیٹا آپ تیار ہیں ؟ مہرو خان نے راعنہ کے کمرے میں آتے پوچھا جو سادہ سے سفید فراک میں ریڈ حجاب چہرے پہ بے تحاشہ. معصومیت لیے سفید پری معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔ اور ہانیہ بھی اسی طرح کے لباس میں موجود تھی

ماشاءاللہ میری بچیاں کتنی پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔اللہ پاک کالی نظر سے بچائے ۔۔۔۔ پیسے اسکے اوپر وارتے وہ اماں بی کو غریبوں کو دینا کا کہتی اسکے ماتھے پر لب رکھ گئی جو مسکرا کر انہیں ہی دیکھ رہی تھی

ماں سائیں ۔۔۔ راعنہ نے دھمیے لہجے میں کہا نجانے کیوں اسکا دل اداس تھا بظاہر تو وہ ہنس رہی تھی مگر اسکا دل کسی اپنے کے دکھ میں شریک ہوتا دکھی تھا جبکہ ہانیہ تا انکے دلنشیں شاہ کے گلے لگی رو پڑی دلنشیں شاہ کی آنکھیں نم ہوئی

آجائیں نیچے بلا رہے ہیں ۔۔خادمہ نے آکر کہا تو مہرو بیگم نے انکے گرد لال چادر اڑھائی

کہاں رہ گئی مہرو ۔۔. نرمین بیگم نے کہا کہ انہیں زنان خانے میں انکو داخل ہوتے دیکھ وہ سب اپنی جگہ سے اٹھے وہاں کئی عورتیں موجود تھی اسے لیے وہاں پڑے صوفے پر بیٹھایا گیا حجاب میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کہ اعظم خان اور دلاور خام نے زنان خانے میں قدم رکھا تو سب خواتین نے خود کو ڈھانپا

۔۔۔۔ راعنہ دلاور خان ولد دلاور خام آپکو داور خان کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا یہ نکاح آپکو قبول ہے ؟۔۔۔.

قبول ہے ۔۔۔۔ کانپتے ہونٹوں سے سرگوشی نما نکلا اور آنسوؤں کا ریلہ بہتے نکاح نامے کو بھگو گیا تین بار قبول ہے کہنے پر دلاور خان نے جھک کر اسکے سر پر لب رکھے اعظم خان نے اس پر داور کی اجراک اوڑھائی

ہانیہ فراز شاہ ولد فراز شاہ آپکا نکاح فواد خان ولد اعظم خان کے نکاح میں دیا جاتا ہے آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟۔۔۔۔ اعظم خان نے پوچھا مگر وہ کپکپاتی خاموش بیٹھی تھی انسو اسکے گلابی ہاتھوں کو بھگو رہے تھے کہ سر پر باپ کا شفقت بھرا ہاتھ محسوس کر اسکے لرزتے دل کو ڈھاک ملی

قبول ہے ۔۔۔۔ کپکپاتے لب وہ نکاح نامے پر سائن کرتے فراز شاہ کے گلے لگی رو پڑی۔۔۔فراز شاہ نے اسکے اوپر فواد کی شال لپیٹی اور سر پر بوسہ دیتے ان دونوں کے لیے دعا کی اور زنان خانے سے نکلے

۔۔۔ مہرو بیگم راعنہ کع گلے سے لگاتے رو پڑی دلنشیں بیگم بھی اسے خود میں رو رہی تھی وانیہ کا چہرہ تو خوشی سے کھل رہا تھا ۔۔۔۔۔

آج سے یہ دونوں میری بیٹیاں فکر مت کرنا آپ دونوں ایک ماں سے دوسری ماں کے پاس آئی ہیں دونوں۔۔۔نرمین بیگم نے ان دونوں کو گلے سے لگاتے محبت سے کہا اور انہیں واپس سے روم میں لیجایا گیا ۔۔۔۔۔۔

شہزادی نفوافل ادا کرلیں شکرانے کے ۔۔۔۔ راعنہ نے اپنے گرد لپٹی شال نماز سٹائل میں لپیٹی وضو وہ پہلے سے کرچکی تھی وہ دونوں نفل پڑھنے میں مصروف ہوئی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

دوسری طرف فواد اور داور سے احباب و قبول کے بعد انکے خوشحال مستقبل کے لئے دعا کی گئی ۔ اور مبارکباد کا سلسلہ جاری ہوا داور کی خوشی کی انتہا نہ تھی اسکی پری اسکی ہوچکی تھی اسکی دنیا اسے مل چکی تھی سبکی رضامندی کے ساتھ اسکے رب نے اسے خالی نہیں لوٹایا تھا ۔۔۔۔ فواد بھی خوش تھا اسکی بچپن کی محبت جو مل گئی تھی

کچھ دیر پہلے ۔۔۔۔۔

یہ کیا بک رہے ہو تم فواد۔۔۔اعظم خان دھاڑے کہ فواد نے سر جھکایا

یہ سچ ہے بابا سائیں ۔۔۔۔ اگر مجھے وہ نہ ملی تو میں اپنی جان دے دونگا ۔۔۔۔ (خان کے بچے خود بچ گئے مجھے پھنسا دیا) ۔۔۔شرمسار لہجے میں کہتے وہ دل میں داور سے گویا ہوا

تم اپنے بھائی کے لئے مجھ سے الجھو گت اگر اتنی ہی محبت ہے تمھارے بھائی کو تو آئے ہم سے کہے ؟ ۔۔۔ وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے دھیمی آواز میں غرارئے ۔۔

بابا جان وہ بچہ ہے میں کہہ رہا ہوں نا آپ پلیز ۔۔۔۔ فواد نے سر اٹھا کر کہا کہ سامنے سے پڑنے والے تھپڑ نے آسکی بولتی بند کردی ۔۔۔۔ کمرے سے باہر کھڑے داور نے دل ہی دل میں فواد سے معافی مانگی ۔۔۔

تمھاری وجہ سے میں اس بچی کی زندگی برباد نہیں کرسکتا جاؤ۔۔۔۔ اور چھوٹے خان سے کہو کہ انا کو روند کر ہم سے کہے۔۔۔۔ انہوں نے اسے سختی سے کہتے رخ پھیر لیا فواد کے دل کو کچھ ہوا

اوکے بابا مم مجھے وہ چاہیے ۔۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے بمشکل کہتے آنکھیں جھکا گیا اعظم خان کے لبوں پہ فاتحانہ مسکراہٹ چھائی

ہمممم برخودار اگر پہلے ہی کہہ دیتے تو یوں اتنی محنت تمھیں نا کرنی پڑتی جاؤ تیار ہوجاؤ ۔۔۔۔ مونچھوں کو تاؤ دیتے وہ اسکا شانہ تھپتھپاتے باہر کو بڑھے

آئی ایم سوری بھائی ۔۔۔ داور نے اسکے کندھے میں سے کندھا ملاتے اداسی سے کہا تا وہ مسکرایا

ارے خان صاحب آپ تیار ہوں جلدی سے آپکی خانی آپکا انتظار کررہی ہیں ۔۔۔۔ وہ شرارت سے کہتے اسے لئے اسکے روم میں آیا اور اسکی تیاری کروانے لگا ۔۔۔۔ اپنے بھائی کی خوشی کے لئے وہ جان تک دے سکتا تھا ۔۔۔ یہ تھپڑ تو معمولی سی چیز تھی ۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

مغرب کی نماز کے بعد وہ دونوں تیار ہوئی روم میں بیٹھی تھی یلو فراک اور گرین چوڑی دار پجامے کے ساتھ گرین حجاب اور کندھوں پر داور کی شال لپیٹے وہ حسن میں حوروں کو بھی مات دیتی تھی سنہری آنکھوں میں میک اپ کے نام پر صرف کاجل تھا جبکہ پیلا شرارہ پہنے ہانیہ نے فل میک اپ کررکھا تھا اسکے کالے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔ بھاری زیور پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی

اپی مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔ 😷😓 ہانیہ نے راعنہ کا بازو پکڑتے کہا وہ جو خود نروس سی بیٹھی ہوئی تھی اسکی معصوم شکل دیکھ گہری سانس خارج کرتی سیدھی ہوکر بیٹھی

ڈر کس چیز کا شہزادی ؟۔۔۔

پتہ نہیں عجیب سی شرم فیل ہورہی من کر رہا کہی چھپ جاؤ ہائے ابھی میری عمر ہی کیا ہے جو شادی کرنے لگی ہوں۔۔۔۔ نم ہوتی گردن پر ہاتھ پھیرتی وہ رونے جیسی ہوگئی اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اسکی حالت ہانیہ سے الگ نہیں ہے ۔۔۔

شہزادی اس سے پہلے وہ کچھ کہتی کہ وانیہ کے ساتھ کچھ گاؤں کی لڑکیاں اندر آئی اور لیے باہر چلی گئی زنان خانے میں انہیں صوفے پر بیٹھاتے وہ پیچھے ہوئی تو سب ہی خانی کے حسین پرنور چہرے کو دیکھتے کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہے وہ خوبصورت ہی اتنی تھی کہ سب اسکو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے

ماشاءاللہ دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔ نرمین بیگم نے اسکے اوپر سے پیسے وارتے صدقے میں دیے اور ان دونوں کی پیشانی چومی دلنشیں اور مہرو بھی انکی بلائی لیتی رسم کرنے لگی

چھوٹی سی پیالی میں ابٹن پڑا تھا سب باری باری اتے انکے گال ہاتھ اور پاؤں پہ ابٹن لگا رہی تھی سبکی نظریں تو بسس راعنہ پر ٹکی تھی جو بنا میک اپ کے ہی اتنے چمک رہی تھی ۔۔۔۔

مورے ۔۔۔۔ ہانیہ نے دلنشیں شاہ کو بلایا تو وہ اسکی طرف جھکی

مورے میری کمر دکھ رہی ہے ۔۔اللہ کا واسطہ ہے بسس کردے اور چھوڑ آئیں کمرے میں ۔۔۔۔ دو گھنٹے ہوچکے تھے انہیں ایک ہی جگہ پر بیٹھے تو وہ مسکین سی صورت بنا گئی

وانیہ بہنوں کو اوپر لے جائیں ہم کھانا بجھواتے ہیں ۔۔۔۔ نرمین بیگم نے راعنہ کی تھکن سے سرخ ہوتی رنگت دیکھ کر کہا تو وہ سر ہاں میں ہلاتی انہیں اپنے اپنے کمرے میں چھوڑ گئی

واپس آتے ان دونوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔۔۔۔

بچے آج بدھ ہے آپ جمعرات کو آنا ۔۔۔۔ داور نے اسکے ہاتھ کو دیکھتے نرمی سے کہا تو جہاں فواد کا قہقہہ گونجا وہی وانیہ نے خفگی سے اسے گھورا

لالہ ہم آپکو فقیرنی لگتے ہیں تو ٹھیک جائیں یہاں سے ۔۔۔۔.

ارے نہیں نہیں گڑیا یہ لو۔۔۔۔ داور نے ایک گفٹ اسکے ہاتھ میں پکڑایا اور نظر چرا کر فواد کو آنکھ مارتے اپنی بیویوں کو دیکھنے کے لئے اندر چلے گئے

آہہہہ مورے ۔۔۔۔ خوشی خوشی جیسے ہی وانیہ نے گفٹ کا ڈبہ کھولا ایک مکہ سیدھا اسکی ناک پر بجا کچھ پل تو وہ صدمے میں کھڑی رہی پھر ہوش میں آتی چیخی اور پاؤں پٹکتے دلنشیں شاہ کے پاس جانے لگی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

وہ جو اسکی, شال میں سرخ چہرہ چھپائے بیڈ پر لیٹی تھی اہٹ پر دل کی رفتار میں تیز ہوئی تا وہ شال کا گھونگھنٹ بنائے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔

اب تو میں اس پردہ کو بھی ہمارے درمیان آنے کی اجازت نہیں دونگا خانی ۔۔۔ اسکے گھونگھنٹ کو اٹھائے وہ زومعنیت سے بولا تو راعنہ کو اپنا دل کانوں میں گونجتا محسوس ہوا

ماشاءاللہ ۔۔۔۔ اسکا گھونگھنٹ ہٹائے وہ اسکی جانب دیکھتے بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا تو راعنہ خود میں سمٹی شرم سے بھاری ہوتی پلکیں لرز رہی تھی عجیب سی کیفیت تھی اسکی پُرتپش نظروں کا اثر تھا کہ وہ پہلو بدلتی جیسے کہیں چھپ جانا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔ اسکا گلال بکھیرتا چہرہ اسکی دل کی دھڑکن بڑھا گیا

میں بہت خوش نصیب ہوں جو مجھے آپ ملی اچانک ہی وہ بیڈ پر لیٹ کر اسکی گود میں سر رکھ گیا ۔۔۔ راعنہ نے گھبرا کر اسے دیکھا ایک لمحے تو جیسے دل دھڑکنا بھول گیا ہو بھوری چمکتی آنکھیں مغرور کھڑی ناک عنابی لبوں پر دل فریب سی مسکراہٹ ۔۔۔ ہلکی بیئرڈ ۔۔۔۔ نظروں سے ہی دل میں ماشاءاللہ کہتے وہ نظریں اسکی گلے میں پہنی چین کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اسکے نرم نازک سے گلابی ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا تو راعنہ خود میں سمٹی

آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتی نا ۔۔۔۔ بھوری آنکھوں میں خمار کی سرخی لیے وہ اسکی نم ہوتی گردن اور سرخ ہونٹوں کو دیکھتے نظریں چرا گیا راعنہ نے اثبات میں سر ہلایا

بولیں ۔اور میری طرف دیکھیں ۔۔۔ اسکی چن کو پکڑ کر چہرہ اپنی طرف کیا بھوری آنکھوں میں عشق کی آتش ۔۔وہ گھبرا کر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔۔اسکے نازک سے ہاتھ اپنی آنکھوں پر محسوس کر وہ دلکشی سے مسکرایا کاش یہ لمحے کبھی ختم ہی نہ ہوتے وہ اسکے ہاتھ کو لبوں سے چھوتے پھر سے اپنے سینے پر رکھ گیا

ج جی ۔۔۔۔۔

تو بتائیں میں آپکو کیسا لگتا ہوں ۔۔۔۔ بےباک سی نگاہیں اسکے حجاب میں لپٹے حسین چہرے کو دیکھنے لگا اسکے سوال پر راعنہ گڑبڑائی

بتائیں ۔۔اپنے نئے نئے شوہر کی بات نہیں مانے گی آپ؟۔۔۔۔

آپ میرے مجازی خدا ہیں۔۔۔۔۔ مجھے بہت عزیز ہیں۔۔۔۔ وہ نظریں جھکا کہ گویا ہوئی دل کے کورے کاغذ پر داور خان لکھ دیا گیا تھا اسکے ساتھ ہوتے دل بھی پرسکون تھا

کیا آپکو مجھ سے محبت نہیں ۔۔؟۔۔ دھڑکتے دل سے پوچھا کہیں وہ انکار نا کردے ۔۔۔ روم روم اسکے جواب کا منتظر تھا راعنہ کی خوشبو دار سانسیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کرتے اسکی آنکھوں میں خمار چھایا تھا۔۔۔۔۔

مجھے آپ کی سیرت پسند ہے آپکا سب سے عزت سے بات کرنا صنف نازک کو عزت احترام دینا۔۔۔میرے دل میں آپکے لئے بہت عزت ہے اور نکاح کے تین بولوں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ دو انجانوں کو بھی ایک دوسرے سے محبت کرنے پر مجبور کردیتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ بنا کچھ کہے ہی وہ اسے مزید اپنا دیوانہ کرگئی اسکا دل کر رہا تھا وہ بولتی رہے اور وہ اسے سنتا رہے عجیب سی کشش تھی کہ اسکا من کیا بھاڑ میں جائیں رسمیں انہیں ہمیشہ کے لیے خود میں چھپالے مگر پھر اعظم خان کو یاد کرتے اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا

آپکے ہاتھ بہت گرم ہیں آپ اپنے شوہر سے بہت وفادار ہونگی راعنہ ۔۔۔۔ آنکھیں بند کرتے وہ اسکے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کرتے بولا اسکے نم ہوتی پیشانی وہ خاموشی سے اسکے چہرے کو تک رہی تھی اسکی دل کی دھڑکن اسے دنیا کے ہر ساز سے دلکش لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

میں بہت خوش ہوں کہ سردار سائیں نے چھوٹے خان کی بات مان لی۔۔۔۔ مہرو بیگم نے دلاور خان کے سر پر مساج کرتے کہا تو وہ بھی مسکرائے

ہم خوش بھی ہے لیکن اپنی بیٹی کو رخصت کرنے کا دکھ بھی ۔۔۔۔ بےشک وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جائے گی مگر پرائی تو ہوجائے گی ۔۔۔۔ اللہ تعالی ہماری خانی کی جھولی خوشیوں سے بھر دے آمین۔۔۔ نم آنکھیں بند کرکے اس کو یاد کرتے مسکرائے تو مہرو بیگم نے بھی مسکرا کر ثم امین کہا اور انکے بالوں میں مساج کرنے لگی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ہانی ۔۔۔۔ فواد نے کمرے میں آتے اسکا ہاتھ پکڑا تو اجنبھے سے اسکے مردانہ سخت ہاتھ دیکھے

نرم نازک دکھنے والی ہانیہ کے مردانہ ہاتھ وہ ہنسا خیر پھر بھی قبول ہی ہو مجھے ۔۔۔۔. دل ہی دل میں خود سے کہتے.... وہ اسکی طرف جھکا ڈریسنگ روم میں کھڑی ہانیہ کا نے منہ پر ہاتھ رکھتے بمشکل اپنا قہقہ روکا

ہانی آج تم وائبریٹ نہیں ہورہی خیریت ۔۔اسکے گرد ہاتھ باندھتے اسکی کندھے پر چن رکھی

ہانی ان کچھ دن میں تم نے زیادہ کھانا کھایا ہے دیکھو کیسے موٹی ہوگئی ہو کہ میری بانہوں میں نہیں سما رہی ۔۔۔۔ ڈوبٹے میں چھپا کلیم دانتوں تلے ڈوبٹہ دئے اصل میں شرمانے لگا تھا

ہانی تم نہاتی نہیں ہو کیا ۔۔۔ اس کا رخ اپنی جانب کرتے وہ تشویش زدہ لہجے میں گویا ہوا اپنے سینے سے لگے کلیم کو دیکھتے ایک چیخ کے ساتھ وہ اسے خود سے دور پھینک گیا

میری ہانیہ کلیم بن گئی ۔۔۔وہ صدمے میں بولا تو چینجنگ روم میں کھڑی ہانیہ کا قہقہ سنا تو غصے سے روم کا دروازہ بجانے لگا کیلم تو ڈر کے مارے وہاں سے بھاگا

کھولو دروازہ ورنہ اگر میں نے کھولا تو تمھاری چھوٹی سی جان ضرور مشکل میں آجائے گی ۔۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں غررایا تو ہانیہ کے ہنستے چہرے پر سایہ لہرایا وہ غصے میں تھا ۔۔ اسکی جان اب ہوا ہونے لگی تھی

کھول رہ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ بولتا کہ دروازہ کھلا اور یلو شرارے میں وہ اپسرا باہر آئی اسکے چہرے پر ابٹن لگا دیکھ وہ اسکی جانب جھکا تو ہانیہ نے ڈر کر آنکھیں میچی

اس طرح کا مزاق کرتے شرم نہیں آتی تمھیں اگر میں اسے کس وس کردیتا تو۔۔. چھی ۔۔۔سوچ کر ہی اسے ابکائی آئی ہانیہ نے مسکراہٹ روکتے اسے دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا 

اب تم نے مزاق کیا ہے اب میں بھی کرونگا ۔۔۔۔ وہ کہتے ساتھ اسکے گال پر جھکا ۔۔۔ اسکا تپش زدہ ہونٹوں کا لمس اپنے گال پر محسوس کر وہ خود میں سمٹی حیا سے پلکیں جھک گئی ۔۔۔اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو سنبھالتے وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے رونے والی شکل بنا گئی ۔۔۔ جسے دیکھتے وہ اسکی شہ رگ پر بوسہ لیتے اسکے کان کی پر لب رکھے

نکاح مبارک ہو۔۔۔اب تو پوری طرح سے میرے نام ہوچکی ہیں ۔۔۔۔ اسکی گال سے گال مسس کرتے گھمبیر آواز میں سرگوشی کی گئی اسکی سانسوں کی تپش تھی یا اسکے الفاظ وہ شرم سے سرخ ہوتی نظریں جھکا گئی ماتھے پر ننھی ننھی پانی کی بوندے آئی تو وہ ہنستے ہوئے پیچھے ہوا ہانیہ کی سانس میں سانس آئی

ویسے تو میں جانتی تھی کہ میرے بھیجتے زرا بےشرم ہیں لیکن اتنے بےشرم ہیں یہ مجھے آج پتہ چلا ۔۔۔دلنشیں بیگم کی آواز پر وہ دونوں تیر کی طرح سیدھے ہوئے اور مڑکر بند دروازے کو کھولا

پھپھی جان ۔۔۔میں تو بسس مبارک باد دینے ایا تھا ۔۔۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنستے بولا تو دلنشیں شاہ نے اسکو اور پیچھے کھڑی ہانیہ کو گھورا جو شرم سے مرنے والی ہوگئی تھی جلدی سے ڈریسنگ روم میں گھسی وہ بھی دانت دیکھاتے وہاں سے چلتا بنا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یہ خان کہاں گیا کہیں شادی کے بود بھاگ نا گیا ہو۔۔۔ اعظم خان نے طنزیہ کہا تو نرمین بیگم نے خفگی سے انہیں دیکھا

حد کرتے ہیں آپ بھی سرکار سائیں وہ آپکی ہی اولاد ہے اپنی بیوی کے کمرے میں ہیں جناب ۔۔۔۔۔ نرمین بیگم نے جلدی میں کہا اور خود ہی شرما گئی تو اعظم خان نے قہقہہ لگایا

بیگم آپ بھولی نہیں ان دنوں کو ۔۔۔ ویسے کتنے حسین دن تھے ہم بھی حسین تھے ۔۔۔۔

جی اب تو آپ بڈھے ہوگئے ہیں ۔۔۔وہ ہنس کر بولی تو اعظم خان نے انہیں گھورا پھر معنی خیزی سے مسکرائے

اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپکو اپنے انداز میں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ابھی بھی جوان ہیں ۔۔۔۔

استغار خان سائیں آپکے دو جوان بچے ہیں جنکی آج شادی ہے اور آپ یہ ۔۔۔۔ وہ سرخ چہرے سے گویا ہوئی اعظم خان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو شرما کر پلو کو انگلیوں میں مروڑنے لگی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

جہازی سائز بیڈ پر لیٹے اس شہزادے نے جیسے ہی کروٹ لی تو ایک دلفریب سی خوشبو اپنے اردگرد پھیلتی محسوس ہوئی خمار سے سرخ ہوتی آنکھیں وا کرتے بیڈ پر دیکھا وہ وہاں موجود نہیں تھی وہ اٹھا اردگرد دیکھا تو وہ جائے نماز پر بیٹھی نماز پڑھنے میں مگن تھی سفید ڈوبٹے کے ہالے میں لپٹا اسکا روشن چہرہ وہ بنا پلک چھپکائے اسے تکے گیا

سفید ہیرے کی طرح دھمکتی رنگت جھکی ہوئی سنہری آنکھوں پر گھنی لمبی پلکیں چھوٹی سی ناک چھوٹی سی نوز پن جس پر ہیرا جڑا ہوا تھا جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا گیا تھا سرخ ہونٹ کچھ پڑھنے میں مصروف تھے اسکے ہلتے لبوں کو اس نے لمبی سانس بھری ۔۔۔

خماری بھری نگاہوں میں مدھوشی چھانے لگی تھی سادگی میں وہ اتنی حسین لگتی تھی جب ہتھیاروں سے لیس ہوکر اسکے لیے سنگھار کرے گی تو وہ اسکو دیکھتے دیکھتے ہی زندگی گزار دے گا آنکھیں بند کرتے وہ بیڈ پر لیٹا راعنہ نے نے جائے نماز لپیٹ کر رکھی اور کچھ پڑھتے اسکی طرف آئی جو سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا وہ جھکی کچھ پڑھ کر اس پر پھونکا اور لرزتے ہاتھوں سے اسکے کندھے کو ہلایا

خان سائیں ۔۔۔نماز قضا ہوجائے گی ۔۔۔ وہ اسکے چہرے کو تکتے گویا ہوئی جو عنابی لبوں کو بھینچے چوڑی پیشانی پر بے ترتیب بال وہ رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا وہ شہزادہ دل کا بھی خوبصورت تھا رات کو وہ اسے بچپن سے لے کر اب تک کی کہانی بتا چکا تھا

کیا پڑھ کر پھونک رہیں ہیں خانی ۔۔بندہ بشر پہلے ہی آپکے عشق میں سر سے لے کر پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے ۔۔۔ وہ اچانک اٹھ بیٹھا اسکے یوں اچانک اٹھنے پر اس پر جھکی راعنہ کے نازک لب اسکے گال پر مس ہوئے وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی خوف سے ایک بار تو دل نے دھڑکنا ہی چھوڑ دیا

ہیے ریلیکس ۔۔۔۔اسکے نرم لمس محسوس کرتے وہ سرشار ہوا مگر اسکے خوف سے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ وہ نرمی سے بولا تو راعنہ نے پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا

ن نماز ۔۔۔ وہ مختصر سا بولی تو اسکی پتلی حالت دیکھ وہ اسے شانوں سے پکڑتے اپنے قریب کرگیا راعنہ نے سانس روکے اسکو دیکھا

خانی ڈرنا گھبرانا چھوڑ دیں میں آپکا شوہر ہوں آپ مجھ سے ایزی ہوکر بات کیا کریں یوں ڈریں گی تو مجھے لگے گا کہ میں کوئی ظالم روڈ ہیرو ہوں جو اپنی پھولوں جسی بیوی کو ٹارچر کرتا ہے ۔۔۔اسکی پیشانی پر لب رکھتے وپ نرمی سے کہتے آخر میں شریر ہوا تو راعنہ بھی مسکرائی

خوش رہا کریں آپ کی ہنسی بہت پیاری ہے ۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر نظریں جمائے وہ گھمبیر آواز میں سرگوشی نما بولا تو راعنہ کی دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی اور ٹائم کودیکھا تا داور مسکرا کر پیچھے ہٹا اور واچ اٹھاتے باہر کو بڑھا مگر واپس آتے اسکے گال پر لب رکھتے وہ اپنے لفظوں سے اسے سرخ کرتے باہر کو بڑھا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

اور سناؤ کیسی رہی ملاقات ؟۔۔۔ صبح ہوتے ہی وہ اس کے سر پہ ہوئی تو ہانیہ نے اسے گھورا

چڑیل تم نے ہی ماما کو بھیجا تھا نہ بڑی کوئی مسینی بدتمیز ہو۔۔۔ جب تمھاری شادی ہوگی نا تو دیکھنا میں کیا کرونگی ۔۔۔ وہ جلے دل سے اسے گھورنے لگی تو وانیہ نے قہقہ لگایا

شکر مناؤں کہ میری وجہ سے بچ گئی ورنہ جو تم نے کلیم لالہ کے ساتھ فواد لالہ سے جو مزاق کیا ہے پکا تمھاری کٹ لگنی تھی ۔۔۔۔۔ وہ فخر سے کالر جھاڑتے بولی تو ابکی بار ہانیہ نے بھی اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھا وہ نہ ہوتی تو پتہ نہیں فواد اسے کیا کہتا

چلو کھانا کھاؤ پھر خانہ آپی پاس چلیں ۔۔۔مہندی کے لئے تیار بھی تو ہونا ہے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

مہندی کا دن جیسے پر لگا کر اڑا فواد اور داور نے راعنہ اور ہانیہ سے ملنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہوجاتے کیونکہ اعظم خان نے انکی نگرانی کی زمیداری وانیہ شاہ کو دی تھی جو ہر جگہ ٹپک جاری تھی اور آج وہ دن آہی گیا جب انکی شہزادیاں اپنے شہزادوں کے دلوں کو اپنے حسن سے گھائل کرینگی ۔۔۔ وہ دونوں مرادن خانے میں بیٹھے بوریت سے سبکو دیکھ رہے تھے نکاح تو پہلے ہی ہوچکا تھا اب بسس رخصتی ہونی تھی

لالہ چلو بھاگ چلتے ہیں وائٹ کف لگے سوٹ ۔۔۔بلیک ویس کورٹ پہنے سفید مردانہ پیروں میں کھسہ پشوری چپل پنے وہ اس قدر حسین لگ رہا تھا کہ اعظم خان انہیں دیکھنے سے گریز برت رہے تھے کہ کہیں انکی ہی نظر نہ لگ جائے انکے سپوتوں کو

چلو مگر اپنی بیویاں ؟ سیم ڈریسنگ کیے فواد نے پوچھا تو داور مسکرایا

یقیناً وہ اب تک اپنے روم میں پہنچا دی گئی ہونگی ۔۔۔۔ بابا جان میں زرا امپورٹینٹ کال کرکے آتا ہوں ۔۔۔فواد کو آنکھ مارتے وہ اعظم خان سے کہتے باہر کو بڑھا

بابا سائیں ۔۔۔ میں کلیم سے مل کر اتا ہوں ۔۔۔ فواد بہانہ بناتے وہاں سے نکلا پیچھے سے وہ مسکرائے

کیا ہوا بھائی جان۔۔۔ انکو مسکراتے دیکھ دلاور خان نے پوچھا

چھوٹے یہ آج کل کے بچے بھی نا خود کو بہت ہوشیار سمجھتے ہیں ۔۔۔ اپنے باپ کو پاگل بنالیں یہ اتنے سمھدار نہیں ہیں ۔۔۔ دلاور خان نے داور اور فواد کہ خالی حگہ کو دیکھتے سمجھتے مسکراہٹٹ دبا گئے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

سفید گلاب سے سجے اس روم میں ہر چیز نفاست سے سجی اسکے مالک کے اعلی زوق کا پتہ دے رہی تھی ہر طرف پھولوں اور اس نازک جاں کی مسحور کن خوشبو پھیلی تھی۔۔۔ بلڈ ریڈ لہنگآ اور گولڈن چولی جو اسکی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا رہی تھی ۔۔۔ سرخ حجاب میں برائیڈل میک اپ کے ساتھ وہ یقیناً داور خان کو مدھوش کرنے کا ہر طریقہ اپنائے ہوئے تھی اپنا ڈیزائن کیا ہوا برائیڈل لہنگا پھیلا کر بیٹھی وہ نروس ہوئی اپنے سرخ ہونٹ چباتی داور کا انتظار کررہی تھی گھبراہٹ کے مارے اسکی ہتھیلیاں بار بار نم ہورہیں تھی ۔۔دل بھی ایک عجیب لے پر دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا۔۔۔۔ پورے دن کی رسمات کے بعد اسے کچھ دیر پہلے ہی دوار کے روم میں بیٹھایا گیا تھا ۔۔۔

پورے دن کی تھکان ایک ہی جگہ بیٹھ بیٹھ کر وہ تھک چکی تھی کچھ سوچ کر وہ چینج کرنے کی غرض سے بیڈ سے اٹھنے لگی کہ دروازہ ناک ہوتے کھلا ۔۔۔ وہ گھونگھنٹ سنبھالتے مڑی ۔۔۔

دروازہ لاک کرتے وہ مڑا تو کمرے میں پھیلی اس دلفریب خوشبو کو نتھوں کے زریعے خود میں اتارا ۔۔۔۔ اسکی طرف آیا جو اسکی اجراک سے گھونگھنٹ کیے سرخ لہنگے میں پور پور اسکے لیے سجی بت بنی کھڑی تھی۔۔۔۔ گھڑی اور موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ۔۔۔ آستین کو کہنیوں تک فالڈ کرتے وہ بیڈ پہ بیٹھا ۔۔۔ اور اسے دیکھنے لگا جو َ ابھی تک ویسے ہی بت بنی کھڑی تھی

خانی کیا آپ کھڑے ملک سے آئی ہیں ۔۔۔ گھمبیر بھاری لہجے میں کہتے وہ بازو پھیلاتے بیڈ پر لیٹ گیا آنکھیں بند کرتے اپنے جزباتوں کو بندھ باندھنا چاہا مگر اب کہاں ممکن تھا وہ پری تو اب اسکی ملکیت تھی وہ حق رکھتا تھا اس پہ

اسکی گھمبیر آواز سماعت ہوئی تو وہ دھڑ دھڑ کرتے دل پر ہاتھ رکھتے کانپتے ہوئے بیڈ کے قریب آئی اور اپنی انگلیاں مروڑتے اسے دیکھنے لگی جو بیڈ کے بیچ بیچ پھیل کر سو رہا تھا کچھ سوچ کر وہ صوفے کی طرف بڑھنے لگی کہ وہ اسکی کلائی تھامتے وہ اسے اپنے اوپر کھینچ چکا تھا کھینچنے پر اسکی اجراک اسکے گالوں تک آچکی تھی اسکے سرخ ہونٹ بےپردہ ہوئے۔۔۔ راعنہ نے سانس روکی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔اسکئ سانسوں کی تپش سے اسکے ہونٹ اور گردن جھلسنے لگے تھے۔۔۔۔ اسکی نظریں اسکے کٹاؤ دار سرخ ہونٹوں پہ جمی ۔۔۔ گھونگھنٹ میں نظر آتے سرخ ہونٹ اسکے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی خشک ہونٹوں کو تر کرتے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ ایک ہاتھ سے اسکا گھونگھنٹ ہٹا گیا ۔۔۔ راعنہ نے خوف سے آنکھیں میچی تھی ۔۔۔۔ڈر کے مارے وہ پسینے میں شرابور ہوتی وہ اسکے سینے پر نازک ہاتھوں کا دباؤ بڑھا گئی ۔۔۔بنا کچھ کہے ہی وہ اسکی جان لینے کے در پر تھا

وہ تو جیسے اسکے حسین چہرے میں کھو ہی چکا تھا لمبی گھنی میچی خمدار لرزتی پلکیں گلابی گالوں پہ سایہ فگن تھی۔۔۔ ستواں کھڑی ناک میں نتھ ۔۔۔۔ جسکے موتی اسکے سرخ ہونٹوں کو چھوتے اسے اپنا رقیب معلوم ہورہے تھے ۔۔

سانس لیں۔۔۔۔ گھمبیر سرگوشی ہوئی خمار سے اسکا لہجہ بھاری ہورہا تھا مگر وہ تو سن ہی نہیں رہی تھی بسس تھر تھر کانپے جارہی تھی اسکی کمر پہ ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے اسکے چہرے پر پھونک ماری تو راعنہ کا چہرہ پل میں سرخ اناری ہوا اسکی سانس میں سانس بھرتے دلفریب سی خوشبو اپنے میں محسوس کرنے لگی

ہاتھ بڑھا کر وہ اسکی نتھ اتارنے لگا ۔۔اسکے لمس پر راعنہ نے بڑی بڑی سنہری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ سنہری کاجل سے بھری آنکھیں بھوری آنکھوں سے چار ہوئی دونوں کی دلوں کی دھڑکن ایک دم بڑھی ۔ وہ کچھ لمحے تو کچھ اور سوچنے کے قابل ہہ نا رہا۔۔۔ کتنی خوبصورت تھی وہ بے خودی میں اسکی آنکھوں پر لب رکھتے وہ کسی اور ہی جہاں میں پہنچا سکون کی ایک لہر اسے اپنی نسس نسس میں اترتی محسوس ہوئی۔۔۔۔راعنہ اسکے لمس پہ سٹل ہوئی کیا نہیں تھا اس لمس میں شدت ۔۔جنون ۔۔ضد ۔۔۔بے پناہ چاہت ۔۔۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پیدا ہوئی ۔۔۔۔کئی پرفسوں لمحے گزر گئے وہ اس سے جدا نا ہوا شاید وہ ایسے ہی اسے اپنے قریب اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتا تھا راعنہ نے مہندی سے سجے ہاتھوں سے اسکے سینے پر رکھے تو چوڑیوں کی دل نشیں آواز معنی خیز سی خاموش میں عجیب سا ارتعاش پیدا کرگئی ناچاہتے ہوئے بھی وہ نرمی سے پیچھے ہوا اسکے چہرے پر گھبراہٹ دیکھتے وہ اسے بیڈ پر بیٹھاتے اٹھ بیٹھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگا جو شرم سے سرخ پڑتے نگاہیں جھکائیں کانپے جارہی تھی

خانی ۔۔۔۔ جزباتوں کی آنچ لیے وہ اسے پکار گیا وہ خود میں سمٹی ۔۔لرزتی پلکیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا جو آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا وہ گڑبڑا کر شرم سے بھاری ہوتی پلکیں جھکا گئی اسکی آنکھوں میں دیکھنے کی اس نازک سی دوشیزہ میں اتنی سکت نہیں تھی

وہ اپنی کیفیت سے جھنجھلاتے گہری سانس بھرتی اسے بےچین کرگئی وہ پل میں اسکی کمر رب کرتے اسے گہری سانس بھرنے کا کہنے لگا ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا جسے وہ ایک ہی سانس میں غٹک گئی ۔۔۔۔

آپ ٹھیک ہیں ۔۔۔ اسکے سرخ تمتماتے چہرے اور نم ہوتی گردن کو دیکھتے وہ بے قرار ہوا

میں ٹھیک ہ ہوں مم مجھے نفل ادا کرنے ہیں ۔۔۔۔ وہ دھیمی سی آواز میں گویا ہوئی وہ اتنا آہستہ بولی کہ اگر وہ اسکے قریب نا ہوتا تو یقیناً سن ہی نا پاتا ۔۔۔

پہلے تو آپ ریلیکس ہوں اور چینج کرکے آئیں پھر ساتھ ادا کرینگے ۔۔۔ وہ محبت پاش لہجے میں اسے دیکھتے اسکی پیشانی پر پرحدت لمس چھوڑتے روم سے باہر نکل گیا جانتا تھا وہ صبح سے بھوکی ہوگی ۔۔۔ راعنہ نے نم ہوتی آنکھوں سے دل ہی دل میں خدا کا شکریہ کیا وہ بنا کہے ہی اسکی بات سمجھ گیا تھا ۔۔۔ پیشانی کو ہاتھوں کے پوروں سے چھوتی وہ مدھم سا مسکرائی اور لہنگا سنبھالتے فریش ہونے چل دی ۔۔۔۔۔

کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔

مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔

یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔

میں شمع، وہ پروانہ ہو۔

زرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔

کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا

کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔

جو کر دے بخت سکندر سا

کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔

کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔

کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔

وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔۔

کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔

مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔

کوئی پانی پھوک کے دے ایسا۔

وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔

کوئی ایسا کالا جادو کر

جو جگمگ کر دے میرے دن۔

وہ کہے مبارک جلدی آ ۔

اب جیا نہ جائے تیرے بن۔

کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔

جس رہ سے وہ دلدار ملے۔

کوئی تسبیح دم درود بتا ۔

جسے پڑھوں تو میرا یار ملے

کوئی قابو کر بے قابو جن۔

کوئی سانپ نکال پٹاری سے

کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا

کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔

کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔

وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔

کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔

وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔

کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔

اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔

جو مرضی میرے یار کی ہے۔

اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔

کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔

جو اشک بہا دے سجدوں میں۔

اور جیسے تیرا دعوی ہے

محبوب ہو میرے قدموں میں ۔

پر عامل رک، اک بات کہوں۔

یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟

محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔

مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔

اور عامل سن یہ کام بدل۔

یہ کام بہت نقصان کا ہے۔

سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔

جو مالک کل جہان کا ہے۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

پورے کمرے کو گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا وہ بیڈ پر لہنگا پھیلا کر بیٹھی ایک نازک سا پھول ہی لگ رہی تھی آنے والے لمحات کا سوچ کر ہی شرمائی گھبرائی سی وہ بہت دلنشیں لگ رہی تھی کہ روم کا دروازہ کھل کر بند ہوا ہانیہ کا دل زور و شور سے دھڑکنے لگا تھا

کیسی ہو ۔۔۔ ویس کورٹ اتار کر صوفے پر پھینکتے وہ واچ موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اسکے سامنے بیٹھا جو سر نیچے جھکائے گھبرا رہی تھی

ٹھیک ہ ہوں آ آپ کیسے ہیں ؟ کپکپاتے لبوں سے سرگوشی نما آواز نکلی

تمھارے آنے کے بعد میں ایک دم فٹ ہوگیا ہوں.... اسکے سرخ ہونٹوں کو دیکھتے اس نے بوجھل سانس خارج کی

بہت حسین لگ رہی ہو تم ۔۔۔ اسکے نازک سے ہاتھوں کو تھامتے وہ دھیمی آواز میں گویا ہوا تو ہانیہ کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا ۔۔

ہانی جب سے تمھیں دیکھا تب یہی فیصلہ کیا تھا کہ اب فواد خان کی زوجہ تو بسس ہانیہ شاہ ہی بنے گی اور دیکھو اللہ کے کرم سے آج تم میری بیوی بن کر پورے حق سے میرے بیڈ پر براجمان ہو۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو سہلاتے وہ اسے اپنے قریب کرگیا

تو کیا ہانیہ فواد خان کو زندگی بھر کے لئے میرا ساتھ قبول ہے ۔۔۔۔ اسکی پیشانی پر تپش زدہ لمس چھوڑا تو ہانیہ کی بیک بون میں سنسناہٹٹ ہوئی شرم سے سرخ پڑتے وہ اسکے سینے میں منہ چھپا گئی خودسپرگی کا عالم تھا

میں وعدہ کرتا ہوں ہانیہ ہمیشہ ہر قدم پر مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی ۔۔۔میری زات سے تمھیں کبھی کوئی تکلیف درد، نہیں ملے گا ۔۔۔۔ گھمبیر سرگوشی کرتے وہ اس پر جھکا جو صرف اسکی تھی ۔۔۔۔۔۔ کمرے کہ اندھیرے کمرے میں چوڑیوں کی چھنکار ماحول کو مزید معنی خیز بنا رہی تھی ۔۔۔۔

تلاش مجھ کو نہ کر..........دشت ویران میں 🎀🙊

نگاہ دل سے ذرا دیکھ..........پل پل تیرے پاس ہوں🍂😅😍

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

گل رائٹس 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یاللہ میں تیرا جتنا شکر کرو اتنا کم ہے میرے مالک ۔۔۔ میری زندگی مجھے مل گئی ۔۔۔۔ مجھے ہمت دینا کہ میں اس پری کو کبھی کوئی تکلیف نہ پہچنے دوں ہمیشہ اسکے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بنو ۔۔۔ ہماری انے والی زندگی میں ہمیشہ یوں ہی ہم پر اپنا کرم کرنا مولا ۔۔۔۔ تیرا شکر ۔۔۔۔ دعا مانگتے اسکی طرف دیکھا جو وائٹ سوٹ میں ریڈ ڈوبٹہ سے ویل کیے آنکھیں بند کرتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جانے کونسی دعا مانگنے میں مگن تھی ۔۔۔۔ اسکی بند آنکھوں سے تشکر کا آنسو آنکھؤں سے نکلتا گلابی گال پر بہہ نکلا تو منہ پر ہاتھ پھیرتی وہ اس پر پھونکنے لگی ۔وہ جو پہلے ہی اسکی جانب محویت سے دیکھ رہا تھا راعنہ کا چہرہ موڑنے پر اسکی گال داور کی گال سے مسس ہوئی تو وہ جھجھک کہ پیچھے ہوئی

کیا مانگا ۔۔۔۔۔ اسکی جھجھک محسوس کرتے داور نے اس سے پوچھا تو راعنہ نے جائے نماز لپیٹ کر سائیڈ پر رکھی اور صوفے پر آبیٹھی اسکے ساتھ وہ بھی جڑ کر بیٹھا تھا

سکون ۔۔۔ صبر ۔اور آپکی زندگی ۔۔۔ وہ رک رک کر بولی شگرفی لبوں پر ہلکی سی مسکان تھی وہ بے خودی میں اس پری پیکر کو تکے گیا ۔۔۔ کتنی خوبصورتی سے وہ اپنی ہر بات کو مختصر کرکے بتاتی تھی

آ آپ نے کیا مانگا ۔۔۔۔ اسکی نظروں کی تپش سے وہ پہلو بدلتی پوچھنے لگی تاکہ اسکا دھیان بھٹکے مگر وہ ڈھیٹ ہڈی پلک چھپکا کر راضی نا تھا نا دیکھنا تو دور کی بات تھی

میں نے اپنی زندگی مانگی ۔۔۔ اسکے چہرے کو ٹکر ٹکڑ دیکھتے بولا جسکے چہرہ تھوڑا اداس ہوا ۔۔میری زندگی کو آپ ہیں نا ۔۔۔ اسکے قریب ہوتے بھاری بوجھل لہجے میں سرگوشی کی تو راعنہ کا دل جیسے کانوں میں دھڑکا اسکو اپنے اتنے قریب دیکھ اس نے اپنے خشک ہوتے لب تر کیے اور سنہری کاجل سے بھری نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا بھوری مدھوش آنکھوں سے سنہری شرم سے بوجھل نگاہوں کا تصادم ہوا ۔۔۔۔ وللہ قیامت تھی قیامت اسے لگا وہ ان آنکھوں میں ڈوب جائے گا اسکے محبوب کی ہر ادا اسے اپنے دل کے قریب معلوم ہورہی تھی

اجازت ہے کہ میں آپکو اپنی دنیا میں لے چلو۔۔۔ خود کو آپ میں ۔۔ اور آپکو خود میں جذب کرلو ۔۔بےباک سے لہجے میں کی گئی سرگوشی وہ نظریں اٹھانے کے قابل ہی نہ رہی شرم سے سرخ چہرے سمیت وہ لب دبائے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ سر جھکا گئی

یقین ہے مجھ پر ۔۔۔اسکے جھکے چہرے کو تھوڑی سے پکڑ کر اپنے مقابل کرتے پوچھا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئی اور سر اسکے شانے میں چھپانے لگی داور نے مسکرا کر اسکے گرد مضبوط بانہوں کا حصار باندھا ۔۔۔۔ اسکو بازوؤں میں بھر کر بیڈ پر لیٹایا اور اس پر سایہ فگن ہوا

میں کبھی بھی آپکو تکلیف نہیں دونگا خانی ۔۔۔۔ میرے اس دل کی ملکہ ہیں آپ ۔۔۔ پیار بھری سرگوشیاں کرتے وہ اس میں گم ہونے لگا وہ سکون حاصل کرنا چاہتا تھا جو اسکا تھا ۔۔۔۔

میں نے اپنا اندیکھا عشق حاصل کرلیا ۔۔۔۔۔ گہری خاموشی میں ایک مسکراتی مدھوش سرگوشی گونجی وہ شہزادہ آج بہت مغرور ہوچکا تھا ہوتا بھی کیوں نا اسکے اندیکھے عشق نے اسکے عشق کی معراج کو چھو لیا تھا ۔۔۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


An Dekha Ishq Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic nove An Dekha  Ishq written by  Gul Writes . An Dekha Ishq by Gul Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment