Pages

Friday 24 May 2024

Tujse Laage Jo Man Piya By Mahwish Ch Complete Urdu Novel Story

Tujse Laage Jo Man Piya By Mahwish Ch Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Tujse Laagy Man Piya By Mahwish Ch Complete Novel Story


Novel Name :Tujse Laagy Man Piya By
 Writer Name : Mahwish Ch

New Upcoming :  Complete 

وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔جب

چڑ۔۔۔ڑ۔۔۔۔ڑ۔۔۔۔ڑ کی آواز کیساتھ بیسمنٹ

(  تہہ خانے ) کا دروازہ کھلا

اس نے قدموں کی ابھرتی چاپ سن کر بھی سر نہ اٹھایا۔۔۔۔۔

تمہیں۔۔۔۔۔چھوٹے خان جی بلا رہے ہیں اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔آنے والی نے پیغام دیا

اس پیغام پر ہیر نے جھٹکے سے  سر اٹھایا

کہہ دو اپنے خان جی سے۔۔۔۔۔میں نہیں آؤں گی جو بھی کہنا ہے یہاں آ کر کہہ سن لیں

دیکھو تم چھوٹے خان جی کا غصہ دیکھ چکی ہو اس لیے ضد مت کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔

میں کہیں نہیں جا رہی میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی کیا

تم اپنی زبان کو ہتھیار بنا کر اپنے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہو...

تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔دو ٹوک جواب آیا

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی میں چھوٹے خان جی کو جا کر تمہارا انکار۔۔۔۔۔۔

سکینہ تم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔یشب آفریدی کی آواز نے ناصرف سکینہ پر کپکی طاری کی بلکہ ہیر بھی اس آواز پر خوفزدہ ہو گئی۔۔۔

جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔چھوٹے خان جی۔۔۔۔۔سکینہ گھبراتی ہوئی جلدی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی

ہیر ہلکا ہلکا لزرتی ہوئی جھکے سر سے یشب آفریدی کی خون چھلکاتی نظریں خود پر گڑے محسوس کر رہی تھی

……………………………………………………………….

دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پنچائیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ۔۔۔۔

ہمیں خون بہا چاہیے۔۔۔۔نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف۔۔۔۔۔۔یشب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سربراہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا

خاقان آفریدی نے پرشکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا

پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیا

جاؤ ہیر کو لے آؤ۔۔۔۔۔وہ مدھم شکستہ آواز میں بولے

شمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا

دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی۔۔۔۔۔۔

مگر وہ نظریں چرا گئے۔۔۔۔

یہ فیصلہ صرف اور صرف یشب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے

……………….…..…………………...……….….……

میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا بابا جان۔۔۔۔یشب  ،خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوا

میں نے تمہیں لندن اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آ کر قتل و غارت شروع کر دو۔۔۔۔

قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا

ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا۔۔۔۔وہ بضد تھا

یشب بچے تیرے باباجان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے۔۔۔۔

بی بی جان پلیز۔۔۔۔۔آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا۔۔۔۔۔مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا۔۔۔۔اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔دیٹس اٹ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیا

باباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی یشب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی

یشب چیزوں کی اٹھا ٹھپک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہرو کمرے میں داخل ہوئی

یشب۔۔۔۔۔۔وہ اس پکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیزیں الٹنے لگا

یشب۔۔۔۔۔پھر سے پکارا گیا

بھابھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا۔۔۔میں لالہ کا خون کبھی معاف نہیں کرنے والا۔۔۔۔۔

ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔؟؟؟

زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی

تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔۔۔۔۔

تو ۔۔۔۔۔۔۔تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھا

بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔

کیا میں۔۔۔۔بولو یشب کیا میں۔۔۔۔تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لو گے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔۔۔

بھابھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں۔۔۔۔وہ ڈٹا رہا

ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی  لڑکی سے  تمہیں کسی قسم کی   کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے۔۔۔۔۔مہرو غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی

بھابھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔میں صرف اور صرف شمس خان  کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی۔۔۔

اسے بھی تو  پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری۔

………………………………………….……….………

اسے چادر اوڑھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا

مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ۔۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔بابا۔۔۔۔بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔ہیر پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی۔۔۔۔

ہیر۔۔۔ر۔۔۔

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں لالہ آپ۔۔۔۔آپ اپنی ہیر اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کر دیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں کہیں ۔۔۔۔۔۔میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپا لیں مجھے۔۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی

شمس نے بہت ضبط سے ہیر کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادر پکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجانب بڑھا

لالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بھوج کر یشار خان کا خون نہیں کیا یہ۔۔۔۔یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔۔۔۔۔۔پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔ہیر روتی ہوئی گھسیٹتی جا رہی تھی

وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی  لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے  جاتے دیکھا مگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی  نہ تھی

……………………………………………………………….

پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائی

ہیر نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازو پکڑا

لالہ مجھے بچا لیں۔۔۔۔۔میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے ملتجی ہوئی

شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر  گاڑی سے نکل گیا

دوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔۔۔۔۔

اگر تمہارا لالہ تمہیں بچا سکتا تو کبھی بھی اپنی لاڈلی کو اپنی  عزت کو اس پنچائیت کی زینت نہ بننے دیتا۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا

……………………………….…...….…………………..……

خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں۔۔۔پہلی شادی بی بی جان 

(صوریہ خانم) سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی چچا زاد گل بانو سے کروا دی ۔۔۔۔۔۔گل بانو نے خاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سال بعد حویلی کے پہلے وارث یشار خان آفریدی  کو جنم دیا۔۔۔جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔۔۔۔مگر بدقسمتی سے گل بانو یشار کی پیدائش  کے چھ  سال بعد یشب خان آفریدی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔

یوں یشار اور یشب کی ذمہ داری  بی بی جان پر آ پڑی انہوں نے  پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوں بھائیوں کو ماں کی کمی محسوس  نہیں ہونے دی

چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہرو کو یشار آفریدی کی دلہن بنا لائیں تھیں۔۔۔۔مہرو اور یشار کا چار سالہ بیٹا حدید آفریدی  بھی تھا

یشب چند ماہ پہلے ہی لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا

یشار آفریدی کو ان سب  سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے۔۔۔۔۔

…………………………………………………………………

میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں۔۔۔۔دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا

مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں۔۔۔۔یشب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا۔۔۔۔۔۔خاقان آفریدی نے ٹہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی

بابا جان یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔یشب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولا

میں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا۔۔۔۔ 

ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہو گا۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے  باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھے

یشب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی۔۔۔۔اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہن  کو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دے 

سکے ۔۔وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں۔۔۔۔۔

نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔مگر بابا جان نے بیچ میں آ کر سارا  قصہ ہی پلٹ دیا تھا

….……………………………………………………………

وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو  خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آ کر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا 

ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے ناکہ بیوی اور بہو۔۔۔۔۔۔وہ غرایا

تو تمہیں کیا لگتا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ۔۔۔۔۔بابا جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں  طنز کیا

نکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتے

ہوش کرو کچھ یشب۔۔۔۔۔۔

ہوش میں ہی تو آ چکا ہوں۔۔۔۔۔اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا۔۔۔۔۔وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر کیطرف بڑھا

چھو۔۔۔۔چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی

یشب چھوڑو بچی کو۔۔۔ہوش کرو یشب کیا پاگل پن ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔بابا جان یشب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ ہیر کی گردن دبوچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔

بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم۔۔۔۔۔

یشب۔۔۔۔۔۔بابا جان  کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ ہیر کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کی

ہیر اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی اس لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گری

گرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا

یشب سر جھٹکتا ہال سے نکل گیا 

مہرو بیٹا دیکھو بچی کو۔۔۔۔۔بابا جان  مہرو کو کہتے مردانے کیطرف چلے گئے

مہرو نے ہیر کو صوفے پر بیٹھایا اور جلدی سے فسٹ ایڈ باکس لے آئی۔۔۔۔زخم صاف کر کے بینڈیج کی اور ہال سے نکل گئی

اب ہال میں ہیر اور تخت پر بی بی جان موجود تھیں

یہاں آؤ۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہیر کو اپنے پاس بلایا

وہ آہستگی سے چلتی ہوئی پاس آ کر کھڑی ہو گئی

بیٹھو۔۔۔۔

ہیر زمین پر بیٹھنے لگی تھی جب بی بی جان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہا

وہ انکے سامنے صوفے پر ٹک گئی

کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔؟؟؟

ہیر۔۔۔۔۔۔

دلاور خان کی بیٹی ہو یا بھتیجی۔۔۔۔۔؟؟؟

بیٹی۔۔۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔۔اکلوتی ہو۔۔۔۔؟؟

جج۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔شم۔۔۔۔۔شمس لالہ بھی ہیں

ہوں۔۔۔۔۔بی بی جان نے لمبی سی سانس خارج  کی

یشب کا غصہ یہاں کے روایتی مردوں کے جیسا ہی ہے مگر دل کا برا نہیں وہ۔۔۔۔

اصل میں یشار نہ صرف اسکا بڑا بھائی تھا بلکہ بہت اچھا دوست بھی تھا۔۔۔اور وہ اسی صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔۔۔۔بی بی جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا

بیگ۔۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔شمس لالہ نے یشار آفریدی کو جان بھوج کر نہیں مارا وہ اچانک۔۔۔۔

اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بچے۔۔۔۔جانے والا تو چلا گیا۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیں

مم۔۔۔۔میں معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔ہیر نے ہاتھ جوڑے

تم کیوں معافی مانگ رہی ہو  بچے۔۔۔۔اس سب میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔۔

اتنے میں مہرو دودھ کا گلاس لے کر وہاں آئی

یہ لو یہ پین کلر لے کر یہ ہلدی ملا دودھ  پی لو۔۔۔۔۔سکون ملے گا

ہیر نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔حویلی کا ایک فرد  زخم دے رہا ہے تو دوسرا مرہم رکھ رہا ہے

مہرو نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے آہستگی سے گلاس اسکے ہاتھ میں دے کر ہاتھ تھپتھپایا

پی لو۔۔۔۔۔۔

ہاں بچے لے لو آرام ملے گا۔۔۔۔۔۔اچھا مہر میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔تم کھانا کھلا دینا۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔۔۔

جی بی بی جان۔۔۔۔۔۔مہرو نے ہاں میں سر ہلا  دیا 

……………………………………………………………

یشب آ گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟بی بی جان نے مہرو سے پوچھا جو انہیں گرم دودھ کا گلاس دینے آئی تھی

نہیں ابھی تک تو نہیں آیا۔۔۔۔۔

ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟

گیسٹ روم میں۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانا کھلا دیا تھا۔۔۔۔؟؟

جی۔۔۔۔تھوڑا سا ہی کھلایا ہے وہ بھی زبردستی

ہوں۔۔۔۔۔ایسا کرو اسے یشب کے کمرے میں چھوڑ آؤ

بی بی جان یشب کا غصہ۔۔۔۔۔

غصہ ٹھنڈا کر کے ہی واپس آئے گا۔۔۔۔پھر آ کر نیا ہنگامہ مچا دے گا اس لیے بہتر ہے ہیر کو چھوڑ آؤ۔۔۔۔وہی لانے والا ہے اسے۔۔۔۔۔اب رکھے بھی۔۔۔۔وہ دو ٹوک بولیں

جی۔۔۔۔۔ آپ یہ دودھ پی کر لیٹ جائیں۔۔۔۔میں چھوڑ آتی ہوں

ہوں۔۔۔۔سلامت رہو۔۔۔۔۔بی بی جان نے افسردہ سی نگاہ مہرو پر ڈالتے ہوئے دعا دی

پہلے وہ اسے سدا سہاگن رہو کی دعا دیتی تھیں مگر اب  حالات کے پیش نظر۔۔۔۔۔۔۔

وہ بھی اپنی دعا بدل چکیں تھیں

………………………………………………………………

رات ڈھائی ، تین کے قریب یشب اپنے کمرے میں داخل ہوا

مگر بیڈ پر سوئے وجود کو دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑا

وہ غصے سے کھولتا بیڈ کے پاس آیا اور جھٹکے سے رضائی کھینچی

ہیر کی آنکھ بمشکل اتنی دیر رونے کے بعد ابھی لگی  تھی کہ  یہ طوفان آ گیا

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔مگر جیسے ہی نظر سامنے کھڑے یشب آفریدی کی لال انگارہ آنکھوں پر پڑی

تو وہ جلدی سے لرزتی ،کانپتی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئی

کیا کر ہی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل غصہ ضبط کرتا ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا

وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ

کیا وہ۔۔۔۔وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔صاف اور سیدھی بات کرو۔۔۔۔۔۔وہ غراتا ہوا پاس آیا

ہیر دو قدم پیچھے ہٹی

وہ مزید پاس آیا

وہ پھر سے پیچھے ہٹتی دیوار سے جا لگی

تمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی۔۔۔۔ہیر دلاور خان۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔وہ اتنا پاس آ کر  بولا کہ ہیر کو اس کے سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی

نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں نہیں آئی۔۔۔۔۔ مجھے مہرو۔۔۔۔۔مہرو بھابھی چھوڑ کر گئیں ہیں

وہ جلدی سے بولی

مہرو بھابھی۔۔۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا

کس رشتے سے وہ تمہاری بھابھی ہیں۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔یشب نے سختی سے  اسکا منہ جکڑا

تمہارے بھائی نے ان کے شوہر کو قبر میں اتار کر انہیں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور تم یہاں رشتے داریاں بناتی پھر رہی ہو

ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ پوری طاقت سے چلایا

مم۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں

چپ۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔۔بلکل چپ۔۔۔۔۔

آج کے بعد اگر  یہ زبان  بلاضرورت ہلی تو کاٹ دوں گا سمجھی۔۔۔۔

اب چلو میں تمہیں تمہاری اصلی آرام گاہ دکھا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہیر کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹا باہر لایا

ہیر اسکی ٹانگوں کیساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی

یشب اسے لے کر تہہ خانے میں آیا

یہ۔۔۔یہ ہے تمہارا اصل ٹھکانہ۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔وہ گھور کر کہتا وہاں سے چلا گیا

پیچھے ہیر اس تہہ خانے میں سسکتی اکیلی رہ گئی

………………………………………………………………

ہیر کو تہہ خانے میں بند ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔نہ کوئی وہاں آیا اور نہ ہی اسے باہر بلایا گیا۔۔۔۔۔سکینہ نامی ملازمہ اسے کھانا پانی سب دے جاتی تھی۔۔۔۔۔

اور آج وہ بارہ دن کے بعد ہیر کے پاس  یشب آفریدی کا بلاوا لے کر آئی تھی کہ چھوٹے خان تمہیں اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں

ہیر کو رات کے اس پہر یشب آفریدی کا اپنے کمرے میں بلانا نامناسب لگا اسی لیے وہ سکینہ کو منع کر چکی تھی جب یشب آفریدی خود وہاں آیا۔۔۔۔

سکینہ کے جانے کے بعد وہ مضبوط قدم اٹھاتا ہیر کے بلکل سامنے آ کھڑا ہوا

کیا سنانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔؟؟

کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔ہیر نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا

ابھی کہہ رہی تھی ناں سکینہ سے خان سے کہو جو کہنا سننا ہے یہاں آ کر سن لیں۔۔۔۔

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔۔بات۔۔۔۔۔۔نہیں

میری بات یاد ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

جج۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔

کونسی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

اگر۔۔۔اگر بلاضرورت زبان ہلائی تو کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے اسکی بات دہرا گئی

گڈ۔۔۔۔۔تم تو بہت ذہین ہو۔۔۔۔۔تو بتاؤ جب میری بات یاد تھی تو پھر آنے سے منع کیوں کیا۔۔۔۔۔اب کے وہ اپنی مخصوص دھاڑ نما آواز سے غرایا

غلطی ہو گئی ۔۔۔۔معاف۔۔۔۔معاف۔۔۔۔کر دیں۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں بولی

معاف کیا۔۔۔۔اب چلو گی ساتھ یا پھر۔۔۔

چلوں گی۔۔۔۔وہ فٹافٹ بولی

گڈ۔۔۔۔۔چلو

وہ یشب آفریدی کے پیچھے پیچھے ناک  کی سیدھ میں چلتی ہوئی اسکے کمرے تک آئی

یہ دیکھ رہی ہو میرا کمرہ۔۔۔۔یشب نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا

جی۔۔۔۔۔۔

آج سے تم اس کمرے میں رہو گی

یشب کی بات پر ہیر نے حیرانگی سے اسے دیکھا

زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تم اس کمرے کی مالکن نہیں بلکہ ملازمہ بن کر رہو گی۔۔۔۔۔انڈر اسٹینڈ

تمہیں اس کمرے میں رہنے کے عوض جو جو کرنا ہو گا وہ میں تمہیں ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔۔۔۔۔خود سے مجھے مخاطب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔رائٹ

جی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ٹرانس میں سر ہلایا

اب فلحال تو تم ایسا کرو کبڈ سے اگر کوئی بستر ملتا ہے تو نکال کر یہاں زمین پر بچھا لو۔۔۔۔کیونکہ اب یہیں سویا کرو گی تم

اسکی بات پر ہیر کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔۔۔۔اتنی ٹھنڈ میں زمین پر۔۔۔۔۔وہ بمشکل اپنی ٹانگیں گھسیٹتی کبڈ تک گئی

یشب اپنی بات مکمل کرنے کے بعد واش روم میں گھس چکا تھا

وہ کبڈ میں اتنی کوشش کے بعد بھی صرف ایک شال نما موٹی چادر ہی تلاش کر پائی

اب وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چادر کو نیچے بچھائے یا پھر سردی سے بچنے کو  اوپر اوڑھے۔۔۔۔وہ اسی  کشمکش میں تھی جب یشب ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا

ایک سرسری نظر ہیر کے ساکت وجود پر  ڈال کر بالوں کو برش کیا اور پلٹ کر بیڈ پر موجود خوبصورت سی شہنیل کی نرم وملائم رضائی میں گھسا ( یہ شہنیل کی رضائیاں بی بی جان کی نگرانی میں بنائی جانے والی اسپیشل سوغات تھی جنکو سردی کے موسم میں ہر کمرے میں موجود کمبل کو ہٹا کر  پہنچا دیا جاتا تھا )

ہیر نے ایک للچاتی نظر رضائی پر ڈالی اور آگے بڑھ کر چادر کو بیڈ کے بائیں جانب ذرا فاصلے پر بچھایا 

اور بڑے حوصلے سے اس چادر پر لیٹ کر اپنی سر پر اوڑھی شال کو سارے جسم کے اردگرد لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں

اسکی بند آنکھوں کے سامنے اپنا کمرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔جہاں آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی اور اب وہ ہیر دلاور خان زمین پر پڑی تھی بنا کسی بستر اور لحاف کے

ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کے بند پپوٹے سے نکل کر زمین پر گرا مگر وہاں ان آنسوؤں کو دیکھنے اور پونچھنے والا کوئی نہ تھا

ہائے یہ قسمت۔۔۔۔

جو لمحوں میں بادشاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔۔۔۔۔جس سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔وہ صرف اپنی دعاؤں سے ہی قسمت کو بدلنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور ہیر بھی دعا گو تھی کہ اسکی قسمت ،، اسکی زندگی بھی پھر سے پہلے جیسی ہو جائے۔۔۔۔جہاں نہ تو کوئی دکھ تھا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔۔۔۔۔مگر اب دیکھنا یہ تھا کہ ہیر کی یہ خواہش پوری ہوتی بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

………………………………………………………………

ہیر تہہ خانے سے نکل کر اب اس کمرے میں قید ہو چکی تھی 

وہ یشب آفریدی کے حکم کے مطابق خود کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھی

تین دن سے وہ اس کمرے میں تھی جہاں کی ایک ایک چیز اسے ازبر ہو چکی تھی  اب تو وہ آنکھیں بند کر کے بھی بتا سکتی تھی کہ کونسی چیز  کہاں پڑی ہے

اس رات وہ زمین پر لیٹ تو گئی تھی مگر سو نہیں  پائی تھی۔۔۔۔

ٹھنڈ  تلوار کی مانند ہڈیوں میں گھسے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔دو گھنٹے کے کھٹن صبر کے بعد وہ  بلآخر اٹھ بیٹھی

کمرے میں مدھم روشنی کیساتھ یشب آفریدی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے

خود تو مزے سے سو رہا ہے جنگلی اور مجھے یہاں مرنے کو لٹا دیا۔۔۔۔

میرے مالک مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے آخر۔۔۔کونسا گناہ ہو گیا مجھ سے کہ اتنی بھیانک سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے  سوچتی کھڑی ہوئی

ہیر مدھم روشنی میں صوفہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس پر لیٹ سکے

آنکھوں کو اچھی طرح کھول کر دیکھنے پر وہ صوفہ تلاشتی آگے بڑھی ہی تھی کہ یشب آفریدی  کے پشاوری چپل میں اڑ کر زمین بوس ہوئی

کھٹکے کی آواز پر یشب بھی آنکھیں مسلتا لیمپ آن کر چکا تھا

ہیر کو زمین پر اوندھے منہ گرے دیکھ کر وہ مسکراہٹ روکتا اٹھ بیٹھا

یہ آدھی رات کو کس فلم کی ریہرسل ہو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟

ہیر اسکی آواز پر شرمندگی کے مارے اٹھ ہی نہ پائی

اٹھ جاؤ اب یا پھر کرین منگواؤں۔۔۔۔؟؟

یشب نے ہیر کی بھری بھری جسامت پر چوٹ کی

وہ شرمندہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی

کیا کر رہی تھی تم آدھی رات کو۔۔۔۔۔۔؟؟

مم۔۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے

اوہ تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔؟؟؟یشب نے سیگرٹ سلگاتے پوچھا

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔صوفے پر

میں نے تمہاری جگہ تمہیں  بتا دی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں بولا

سر۔۔۔سردی بہت۔۔۔ہے۔۔۔۔میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی۔۔۔۔وہ سر جھکائے جلدی سے بولی

کافی سے زیادہ چالاک ہو اپنے بھائی کیطرح۔۔۔۔طنز کیا گیا

میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔ہیر یشب کی بات پر  چلا کر بولی

یشب اسکے چلانے پر رضائی ہٹاتا اس تک آیا

تمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے یشار خان کو ہوں۔۔۔۔

لالہ نے جان بھوج کر نہیں۔۔۔۔غلطی سے۔۔۔۔

ہیر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی یشب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑ اسکی بولتی بند کروا گیا

میرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ۔۔۔۔۔

ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ ہیر کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی  بولی

ورنہ کیا کریں گے۔۔۔۔مجھے ماریں گے۔۔۔۔ پیٹیں گے۔۔۔۔۔۔یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔۔۔۔مار دیں مجھے۔۔۔۔۔میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔۔

یشب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا۔۔۔

مجھے روتی  ،بلکتی  عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شو کرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا

ہیر اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی اور روتے روتے ناجانے کب نیند کی پری اس پر مہربان ہوئی کہ  وہ وہیں  زمین پر ہی  سو گئی۔۔۔۔۔

   …………………….…………….…...………………

ہیر مسلسل تین دن سے بنا کسی لحاف کے زمین پر  سو رہی تھی جسکا نتیجہ بخار کی صورت میں سامنے آیا۔۔۔۔

یشب کے اٹھنے سے پہلے یشب کے حکم کے مطابق ہیر نے اسکے سوٹ پریس کرنے ہوتے۔۔۔۔یہ اسکی ڈیوٹی تھی جو یشب  خان نے کمرے میں لانے کے بعد بتائی تھی۔۔۔

یشب روزانہ صبح پانچ بجے تک اٹھ جاتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے کپڑے تیار کرنے پڑتے۔۔۔۔

مگر آج یشب اٹھ چکا تھا پر ہیر گٹھڑی بنی اپنی جگہ پر لیٹی تھی

یشب خاموشی سے اٹھ کر غسل کرنے چلا گیا۔۔غسل کر کے جب وہ کمرے میں آیا تو ہیر ویسے ہی لیٹی تھی۔۔۔

ہیر۔۔۔رر۔۔رر۔۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارا

مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی

یشب نے جھک کر اٹھانا چاہا۔۔۔تو پتہ چلا کہ وہ بخار میں پھنک رہی تھی

لو جی نئی مصیبت۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے ہیر کے وجود کو اٹھا کر بیڈ پر ٹپخا

ٹپخنے پر ہیر نے غنودگی میں ہی آنکھیں کھولیں مگر سمجھ نہ پائی کہ کیا ہوا ہے اس لیے پھر سے آنکھیں موند لیں۔

یشب نے سیل اٹھا کر حشمت کو کال ملائی

ڈاکٹر شاکر کو لے کر فورا میرے کمرے میں پہنچو۔۔۔اگر سویا ہوا بھی ہوا تو اٹھا دینا۔۔

کال بند کر کے رضائی سیدھی کر کے ہیر کے وجود پر انڈیلی اور خود باہر نکل گیا

کچھ دیر بعد حشمت ڈاکٹر شاکر کو لیے حاضر تھا۔۔۔۔۔

سردی لگ جانے کی وجہ سے فیور ہو گیا ہے خان صاحب میں یہ میڈیسن دے رہا ہوں کچھ کھلانے کے بعد دے دیں۔۔۔ان شا اللہ آرام آ جائے گا۔۔۔۔ڈاکٹر شاکر نے بخار کی وجہ بتائی اور میڈیسن دینے کے بعد چلا گیا

ڈاکٹر کے جانے کے بعد یشب نے گھڑی دیکھی چھ بجے تھے۔۔۔وہ نیچے آیا تاکہ کسی ملازمہ سے ہیر کے لیے کھانے کو کچھ بنوائے مگر نیچے کوئی ذی روح موجود ہوتا تو وہ کہتا۔۔۔۔

دن چڑھ آیا مگر نواب زادیوں کو آرام سے فرصت نہیں۔۔۔۔بھابھی نے کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے سب کو۔۔۔وہ غصے سے کھولتا کیچن میں آیا

چند منٹ غائب دماغی سے ادھر أدھر دیکھنے کے بعد اس نے دودھ گرم کیا۔۔۔۔ بریڈ اور دودھ کا گلاس ٹرے میں رکھ کر کمرے کی  طرف چلا آیا

اونہہ۔۔۔۔یہ سب بھی کرنا پڑنا تھا تجھے یشب خان وہ بھی دشمنوں کے لیے۔۔۔وہ بڑبڑاتا ہوا دروازے کو لات مار کر کھولتا اندر داخل ہوا

ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر رضائی ہٹائی اور ہیر کو بازو سے پکڑ کر بیٹھایا

وہ بیچاری بخار سے تپتی دائیں جانب لڑھکی

کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔تمہارے باپ یا بھائی کا نوکر نہیں ہوں میں جو تمہاری تیمارداری کرتا پھروں سمجھی۔۔۔سیدھی ہو کر بیٹھو اور کھاؤ اسے۔۔۔۔یشب نے دھاڑ سے کہہ کر اسے پھر سے سیدھا کر کے ٹرے سامنے رکھی

ہیر اسکی دھاڑ پر مشکل سے ہی سہی پر آنکھیں  کھول چکی تھی

کھاؤ اسے۔۔۔۔وہ کھڑے کھڑے عجلت میں بولا

ہیر نے ٹرے میں دودھ کا گلاس اور دو سوکھے سلائس پڑے دیکھے

دودھ تو میں پیتی نہیں ہوں۔۔۔پر ان کو کیسے بتاؤں۔۔۔۔

بیٹھی بیٹھی فوت ہو گئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔اس نے ناں میں سر ہلا کر جلدی سے سلائس اٹھا کر منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی دودھ کا گھونٹ بھرا 

کھا کر یہ میڈیسن لے لینا۔۔۔وہ حکم جاری کر کے اپنی چیزیں اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔۔

ہیر نے بمشکل سوکھے سلائس اور دودھ زہرمار کیا اور دوا لے کر پھر سے بستر پر ڈھیر ہو گئی

……………………………………………………………….

رات دس بجے کے قریب یشب واپس کمرے میں آیا تھا اور ہیر کو ابھی تک رضائی میں گھسا دیکھ کر سر جھٹکتا چینج کرنے چل دیا۔۔۔۔واپس آ کر انٹرکام پر گل کو چائے لانے کا کہا۔۔۔۔

چند منٹ بعد گل چائے لیے حاضر تھی۔۔۔۔

دوپہر کا کھانا کھایا۔۔۔۔؟؟؟یشب نے گل سے ہیر کے کھانے کا پوچھا 

نہیں۔۔۔۔میں آئی تھی لے کر مگر ہیر بی بی سو رہی تھیں۔۔۔

ہوں ایسا کرو اب لے آؤ جا کر۔۔ 

جی ۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلی گئی

یشب چائے ختم کر کے بیڈ کے پاس آیا اور ایک جھٹکے سے ہیر کے اوپر سے رضائی کھینچی

ملکہ ہیر صاحبہ آپ کے غلام سارا دن آوارہ گردی کر کے لوٹ آئے ہیں کچھ خدمت کا موقع تو دیں۔۔۔

یشب کی طنزیہ بات سنتے ہی ہیر ناچاہتے ہوئے بھی اٹھ بیٹھی

یشب کچھ اور بھی کہتا کہ اسکی لال قندھاری انار سی صورت دیکھ کر خاموش ہو گیا

کھانا آ رہا ہے کھا کر یہ میڈیسن لو۔۔۔۔ہمارے ہاں دشمنوں کی بس اتنی تیمارداری کی جاتی ہے۔۔۔۔یہ تمہارے باپ کی حویلی نہیں ہے کہ دس ،دس دن یونہی بستر توڑتی رہو گی ۔۔۔۔میں جب کل واپس آؤں تو تم مجھے بیڈ پر نہیں بلکہ بیڈ کے آس پاس چلتی پھرتی نظر آؤ۔۔۔۔انڈراسٹینڈ۔۔۔۔

جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہیر نے فٹ ہاں میں سر ہلایا

یشب نے اسکے ماتھے اور گال پر ہاتھ رکھ کر بخار کی نوعیت چیک کی جو اب صبح کے مقابلے میں بہت کم تھی 

اور اپنی چیزیں اٹھا کر پھر سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔

ہیر چاہنے کے باوجود بھی پوچھ نہ پائی کہ  اب اس وقت کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔

وہ ابھی بیٹھی ہی تھی جب گل کھانے کی ٹرے لیے آ گئی۔۔۔

کچھ اور چاہیے ہیر بی بی۔۔۔۔اسنے ٹرے ہیر کے سامنے رکھ کر پوچھا

نہیں۔۔۔۔

میں جاؤں۔۔۔۔۔؟؟

ہاں جاؤ۔۔۔۔۔ہیر کے کہنے پر گل پلٹ گئی

ہیر نے کھانے کی ٹرے دیکھی۔۔۔۔۔اس معاملے میں  اس پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا گیا تھا دشمن سمجھ کر۔۔۔کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی تھی کھانا ہمیشہ اچھا ہی ملا تھا اسے۔۔۔۔اور اس معاملے میں یشب نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں لگائی تھی۔۔۔۔

ہیر نے دو چار نوالے لے کر دوا لی اور لیٹ گئی کیونکہ کل اسے بیڈ سے نیچے ہونا تھا حکم آ چکا تھا۔۔۔۔۔اور حکم کی تعمیل کرنا ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا

……………………………………………………………

اگلے دن ہیر کمرے کی صفائی کر رہی تھی جب یشب کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔

پورے کمرے کی صفائی بھی ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔۔۔۔جب سے وہ کمرے میں آئی تھی کسی بھی ملازمہ کو بلاضرورت کمرے میں آنے کی اجازت نہ تھی۔۔۔اسلئیے ہیر کو صفائی کیساتھ ڈسٹنگ بھی خود کرنا پڑتی اور یشب صفائی کے معاملے میں کافی سخت ثابت ہوا تھا ذرا جو گرد کسی جگہ نظر آ جاتی تو پھر  ہیر کو اچھی خاصی بےعزتی سہنا پڑتی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ ڈسٹنگ کر رہی تھی جب یشب کمرے میں اینٹر ہوا۔۔۔

ہیر نے جھاڑن رکھ کر ہاتھ دھوئے اور روم فریج سے پانی کا گلاس لے کر یشب کی طرف گئی جو ٹانگیں پھیلائے ریلیکس سا صوفے کی پشت پر سر رکھے ترچھا سا لیٹا تھا

خان۔۔۔۔پانی۔۔۔۔

ہیر کی آواز پر وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا اور گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑا

کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔۔۔؟؟

جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ ہلکا سا منمنائی

ہوں۔۔۔۔۔یشب نے خالی گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور پھر سے ایزی ہو گیا۔۔۔

ہیر ٹرے لیے پلٹی ہی تھی جب یشب نے اسے پکارا

جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔وہ واپس مڑی

میرا جوتا اتارو۔۔۔۔حکم آیا

میں۔۔۔۔؟؟

تمہارے علاوہ کوئی اور ہے یہاں۔۔۔۔۔

یشب کی تیوری چڑھی دیکھ کر ہیر جلدی سے پاس آ کر زمین پر بیٹھی اور یشب کا جوتا اتارا اور پھر جرابیں بھی اتار دیں۔۔۔

ہیر کے نرم وملائم ہاتھوں کی نرمائش سے یشب کو سکون کا احساس ہوا۔۔۔

پاؤں بھی دبا دو۔۔۔۔وہ ہلکا سا سر اٹھا کر اگلا حکم جاری کرتا آنکھیں موند گیا۔۔۔۔

ہیر نے خاموشی سے یشب کا پاؤں گود میں رکھا اور دبانے لگی۔۔۔۔

یشب نے کچھ دیر ہیر کے ہاتھوں سے ملنے والے سکون کو وجود  میں اتارا اور سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔  

ہیر جھکے سر سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔

یشب نے آہستگی سے ہیر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر پھیلایا اور بہت غور سے اسکی ہتھیلی دیکھنے لگا یوں جیسے  ابھی قسمت کا حال بتائے گا

چند منٹ بہت غور سے دیکھنے کے بعد اس نے جھک کر لب ہیر کی پیھیلی ہتھیلی پر رکھے اور اٹھ کر واش روم چلا گیا 

 ہیر نے پلٹ کر اس ظالم شخص کی پشت کو دیکھا اور اپنی ہتھیلی پر اس کا پہلا نرم لمس پوری شدت سے محسوس کیا۔۔۔ورنہ  اس سے پہلے  تو یشب آفریدی نے اسے صرف دبوچا ،، گھسیٹا اور جکڑا ہی تھا

اس نے سر جھکا کر چند منٹ اپنی ہتھیلی کو بہت غور سے دیکھا اور پھر جھک کر  اپنے لب بھی اسی جگہ رکھے جہاں کچھ دیر پہلے یشب آفریدی اپنا لمس چھوڑ کر گیا تھا۔۔

""کہاں تلاش کرو گے تم مجھ جیسا شخص  

جو تمہارے ستم بھی سہے اور تم سے محبت بھی کرے""

………………………………………………………………

شام میں گل کمرے میں ہیر کو  گرم لحاف دینے آئی تھی

یہ کس لیے۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ہیر حیران ہوئی

پتہ نہیں بی بی خان سائیں نے کہا تھا

ٹھیک ہے رکھ دو وہاں۔۔۔۔ہیر کے کہنے پر گل بستر رکھتی چلی گئی۔۔۔

رات کو  یشب کے بتانے پر ہیر کو پتہ چلا کہ یہ بستر اسکے اپنے لیے تھا۔۔۔اس کے بخار کیوجہ سے شاید یشب کو اس پر ترس آ گیا تھا اسلیے گرم بستر منگوایا تھا مگر جگہ ابھی بھی نہیں بدلی تھی۔۔۔۔ہیر نے اس گرم بستر کو زمین پر ہی بچھا کر سونا تھا

چلو شکر ہے کچھ تو بچت ہو گی۔۔۔۔وہ اتنی سی عنایت پر ہی خوش ہوتی بستر بچھا کر  شہنیل کی نرم گرم رضائی میں باخوشی گھس گئی تھی۔۔۔۔

……………………………………………………………

یشب صبح پانچ بجے اٹھتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے دو کلف لگے سوٹ روزانہ پریس کرنے ہوتے تھے

ہیر نے آج تک کبھی اپنے کپڑے پریس نہیں کیے تھے اور اب دو مردانہ سوٹ وہ بھی کلف لگے پریس کرنا اسکے لیے بہت ہی بھیانک تجربہ تھا۔۔۔۔مگر اب دن گزرنے کیساتھ اسکے ہاتھوں میں تیزی آ ہی گئی تھی۔۔۔۔وہ کپڑوں پر استری پھیر رہی تھی جب یشب ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر ایک نظر اس پر پھینکتا واش روم چلا گیا۔۔۔

ہیر نے جلدی سے کپڑے پریس کر کے ہینگ کیے اور  یشب کا ناشتہ بنانے چلی گئی

یشب صرف ناشتہ ہی کمرے میں کرتا تھا دوپہر کے وقت وہ باہر ہوتا اور رات  کا کھانا وہ ڈائنگ ٹیبل پر ہی کھاتا۔۔۔۔۔پہلے یشب کے ناشتے کی ڈیوٹی گل کی تھی مگر اب ہیر کے آنے سے یہ ڈیوٹی بھی ہیر کو ہی سونپ دی  گئی تھی۔۔۔

ہیر کو پہلے دن یشب کے لیے ناشتہ بنانے کا تجربہ یاد تھا اس لیے اب وہ بہت محتاط ہو کر اسکا ناشتہ تیار کرتی تھی تاکہ یشب کو پھر سے کوئی شکایت کا موقع نہ ملے

پہلے دن جب یشب نے صبح سویرے اٹھا کر اسے ناشتہ لینے بھیجا تھا تو اس نے  سوئی جاگی کیفیت میں ناشتہ بنایا اور ٹرے میں چائے اور ٹوس لیے واپس  کمرے میں آئی 

 یشب نے چائے کا پہلا گھونٹ بھرنے کے بعد ہی کپ زمین پر الٹ دیا

یہ چائے ہے۔۔۔۔۔اسے چائے کہتے ہیں تمہارے خیال میں۔۔۔۔وہ دھاڑا

کک۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔خان۔۔۔۔وہ ڈرتی ڈرتی بولی 

تمہارے ہاں ایسا جوشاندہ صبح ناشتے میں پیتے تھے سب۔۔۔۔۔؟؟

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔مم۔۔۔۔میں نہیں۔۔۔بناتی تھی چائے تب۔۔۔۔۔

تو یہاں تمہیں ہی بنانی ہے سمجھی اس لیے بہتر ہے کہ جلدی سیکھ جاؤ۔۔۔

اب جاؤ اور جا کر ہلکی چینی والی چائے بنا کر لاؤ میرے لیے۔۔۔۔

جی۔۔۔۔ہیر فٹ کمرے سے نکل گئی

اب کہ ہیر نے بہت احتیاط ںسے ہلکی چینی والی چائے بنائی اور کپ ٹرے میں رکھے واپس کمرے میں آئی۔۔۔۔

خان چائے۔۔۔۔۔اس نے یشب کو متوجہ کیا جو سیل پر بزی تھا۔۔

ہوں۔۔۔۔یشب نے کپ تھاما اور منہ سے لگایا

ہیر کھڑی اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی کہ آیا اب چائے ٹھیک ہے کہ نہیں۔۔۔

یشب نے کوئی بھی تاثر دیے بنا دوسرا اور پھر تیسرا گھونٹ بھر کر سیل سائیڈ پر رکھا اور ہیر کو اپنے سامنے موجود ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

وہ جھجھکتی ہوئی سمٹ کر سامنے ٹیبل پر بیٹھی۔۔۔دل میں وہ آیتہ الکرسی کا ورد کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد جان خلاصی ہو۔۔۔

یہ کپ پکڑو اور ایک ہی گھونٹ میں یہ ساری چائے ختم کرو۔۔۔

جج۔۔۔جی۔۔۔۔وہ اس حکم پر ششدر تھی

بھاپ اڑاتی چائے اور وہ بھی ایک گھونٹ میں۔۔ہیر کو سوچ کر ہی وحشت ہوئی

کچھ کہا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔اسے سٹل دیکھ کر یشب کی تیوری چڑھی

جی۔۔۔۔ہیر نے ڈر کے مارے جلدی سے گرم کپ منہ کو لگایا۔۔۔تین گھونٹ پینے کے بعد اس  نے کپ ہٹایا کیونکہ اس سے زیادہ گھونٹ وہ بھی اتنی گرم چائے کے وہ پی نہیں سکتی تھی

بب۔۔۔۔بہت گرم ہے۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔وہ منمنائی

یشب نے غصے سے ہاتھ کپ پر مارا جس سے چائے ہیر کی ٹانگوں پر گری اور وہ سی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔کی  آواز نکالتی کھڑی ہوئی

آج کے بعد اگر ذرا سا بھی حکم عدولی کا سوچا تو اس سے بھی بھیانک سزا ملے گی سمجھی۔۔۔وہ ہیر کی گال تھپتھپا کر کہتا ڈراڑ سے برنال نکال لایا

یہ لو لگا لینا۔۔۔۔برنال اسکے ہاتھ میں تھما کر اپنا سیل اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔۔

اونہہ۔۔۔ظالم انسان زخم دے کر مرہم بھی خود ہی رکھتا ہے۔۔۔ہیر نے جھٹکے سے ٹیوب دیوار پر دے ماری

نہیں چاہیے مجھے ترس اور ہمدردی کی یہ بھیک۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔

اب تو وہ روتی بھی یشب کی غیر موجودگی میں ہی تھی چونکہ یشب کا حکم تھا کہ اسے روتی ، بلکتی عورتوں سے نفرت ہے اس لیے ہیر اسکے سامنے رو کر خود کو قابل نفرت نہیں بنانا چاہتی تھی یشب خان آفریدی کی نظروں میں۔۔۔۔

""بکھرے گا جب تیرے رخسار پر تیری آنکھ کا پانی

تجھے احساس تب ہو گا محبت کس کو کہتے ہیں""

………………………………………………………………

خان  خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔مجھے میری  بچی سے ملوا دیں۔۔۔۔۔وہ تو بے قصور ماری گئی۔۔۔ناجانے وہ لوگ کیا حال کر چکے ہوں گے۔۔۔پتہ نہیں میری  بچی وہاں ٹھیک سے کچھ کھاتی بھی ہو گی کے نہیں۔۔۔۔۔خدیجہ روتی ہوئیں دلاور خان کو ہیر سے ملوانے کا کہہ رہی  تھیں

تم جانتی ہو حالات  خدیجہ پھر اس واویلے کا مقصد۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ  دکھ بھری آواز میں بولے

اندر سے وہ بھی ڈھے  چکے تھے جب سے لاڈلی بیٹی اسطرح سے ر خصت ہوئی تھی جسکا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔

میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے ہیر سے ملوا دیں۔۔۔میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنی بچی کو۔۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں سکون میں ہوں۔۔۔۔نہیں خدیجہ۔۔۔۔۔نہیں میں تو خود اسکی ایک جھلک  دیکھنے کو بے چین ہوں مگر۔۔۔۔

مگر کیا خان۔۔۔۔بولیں ناں کیا۔۔۔۔؟؟

میں کیا کروں۔۔۔۔کیا کروں اب۔۔۔۔وہ بے بس تھے

شمس جو کر چکا ہے اسکا نتیجہ ایسا ہی ہونا تھا۔۔مجھے خاقان آفریدی سے امید نہیں تھی کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ  کرے گا۔۔۔۔یہ اسکے بیٹے یشب آفریدی کا ہی فیصلہ تھا جو۔۔۔۔

خان آپ اپنا بندہ بھجوائیں ناں خاقان آفریدی کی حویلی میں کہ وہ ہمیں ہیر سے کبھی کبھی ملنے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔خدیجہ جلدی سے آس بھری آواز میں بولیں

ہوں۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔کرتا ہوں کچھ۔۔۔۔۔دلاور خان نے پرسوچ انداز میں سر ہلا  کر بیوی کو مطمعین کیا

……………………………………………………………… 

یشب چائے پی رہا تھا جب ملازمہ بابا جان کا پیغام لے کر آئی

میں مردانے میں باباجان کی بات سننے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔میرے آنے تک سب صاف ستھرا ہونا چاہیے۔۔۔رائٹ۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔۔۔

وہ دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب ہیر کی آواز آئی

خان۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔

کیا وہ۔۔۔۔وہ کرتی رہتی ہو۔۔۔۔بچپن سے مبتلا ہو اٹکنے کی بیماری میں یا پھر میرے سامنے ہی یہ دورا پڑتا ہے

ہیر اسے مخاطب کر کے سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا اور کیسے کہے۔۔۔

بولو اب۔۔۔۔۔منہ سئیے کیوں کھڑی ہو۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا چڑ کر بولا

میں۔۔۔۔میں کمرے سے باہر نکل سکتی ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتی بمشکل  بات مکمل کر پائی

کیوں پہلے نہیں نکلتی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟یشب نے تیوری چڑھائی

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔وہ۔۔۔صبح آپ۔۔۔آپ کا ناشتہ بنانے جاتی ہوں۔۔۔۔۔وہ ڈرتے ہوئے  بولی

ہوں۔۔۔چلی جاؤ مگر اورسمارٹ بننے کی کوشش  مت کرنا سمجھی

جی اچھا۔۔۔۔۔۔۔ہیر نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا

یشب رضامندی دے کر کمرے سے نکل گیا

ہیر نے تشکرانہ سانس خارج کی 

چلو قید خانے سے تو رہائی ملی۔۔۔۔۔وہ  جب یشب کا ناشتہ بنانے جاتی تھی تو نیچے کوئی بھی نہ ہوتا اور اسکی ملاقات کسی  سے بھی نہ ہو پاتی اس لیے وہ آج  مکمل رہائی ملنے پر خوش تھی اتنے دن کے بعد ہیر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی

…………………….…………………..….…….………

بیٹھو۔۔۔۔۔بابا جان نے یشب کو اپنے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کو کہا

جی بابا جان آپ نے بلوایا تھا۔۔۔۔۔؟؟

ہاں۔۔۔۔۔یشب آج دلاور خان نے اپنا بندہ بھجوایا تھا

کس سلسلے میں۔۔۔۔؟؟حسب معمول یشب کی تیوری چڑھی

وہ لوگ ہیر سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔دوٹوک جواب آیا

یشب وہ بیٹی ہے انکی۔۔۔۔۔۔

مگر اب میرے نکاح میں ہے۔۔میں اجازت دوں ملنے کی یا نہ دوں یہ میری مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچی کو ماں ، باپ سے الگ کر کے کیا مل رہا ہے تمہیں۔۔۔۔۔اس اذیت سے گزر چکے ہو تم بھی کہ جب جان سے عزیز چیز دور ہو جاتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔بابا جان نے قائل کرنا چاہا

اسی تکلیف کا مزا چکھانا چاہتا ہوں ان کو بھی تو پتہ چلنا چاہیے اس تکلیف کا۔۔۔۔۔

ایک ، آدھ بار ملوا دو۔۔۔۔کوئی حرج نہیں یشب۔۔۔۔

نہیں بابا جان ہر گز نہیں۔۔۔۔اگر انہیں بیٹی سے ملنے کی اتنی خواہش ہے تو پھر تیار رہیں میں ڈیڈ باڈی پہنچا دوں گا وہاں مگر زندہ سلامت بلکل نہیں۔۔۔۔۔

یشب کچھ خوف خدا کرو۔۔۔۔کیوں دشمنی کو ہوا دے رہے ہو

دشمنی کی ابتداء انکی طرف سے ہوئی تھی اور اختتام میں کروں گا۔۔۔۔وہ بھی یشب تھا اپنی بات پر ڈٹا رہا

اگر میں تمہاری مرضی کے بغیر ملنے کی اجازت دے دوں تو۔۔۔۔۔۔۔؟؟بابا جان نے سوالیہ نظریں اٹھائیں

تو میں دو کام کروں گا۔۔۔۔۔پہلا ہیر کو طلاق دوں گا اور دوسرا شمس خان کا قتل کروں گا اور میں ایسا کر بھی سکتا ہوں بابا جان آپ سے بہتر مجھے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔یہ خون خرابے سے میں صرف آپکی وجہ سے رکا ہوا ہوں ورنہ بندہ مارنا یا مروانا  کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولا

تم ایسا کچھ نہیں کرو گے یشب کیونکہ تم  خاقان آفریدی کے بیٹے ہو۔۔۔۔وہ خاقان آفریدی جس نے  بہت مشکلوں سے برسوں پرانی خونی دشمنیوں کو دوستی میں بدلا تھا۔۔۔۔۔۔

بلکل بابا جان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔پر اگر مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تو شاید کچھ کر بیٹھوں۔۔۔۔۔۔وہ آگاہ کرتا کمرے سے چلا گیا

باباجان نے ایک ملامتی نظر اسکی  پشت پر ڈالی نہ جانے کس پر چلا گیا ہے یہ۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ سر جھٹکتے بڑبڑائے

………………………………………………………………

ہیر یشب کے جانے کے بعد فورا اپنی شال درست کرتی کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔

وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب مہرو کی نظر اس پر پڑی

ارے ہیر۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔وہ حیران ہوئی

جی۔۔۔۔اسلام وعلیکم۔۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔یشب نے باہر آنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔؟؟

جی۔۔۔۔۔ہیر نے  ہاں میں سر ہلایا

یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔آؤ۔۔۔۔وہاں کیوں رک گئی

بھابھی اگر کوئی کام ہو تو بتا دیں میں کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔وہ سادگی سے بولی

ارے نہیں۔۔۔۔کام کو ہزاروں ملازم ہیں یہاں۔۔۔۔تم آ کر بیٹھو۔۔۔۔کچھ باتیں ہی کر لیتے ہیں۔۔۔۔مہرو نے خوشدلی سے کہا

ہیر اسکی بڑائی کی دل سے مشکور تھی کہ اس نے اپنے شوہر کے قاتل کی بہن کو قصور وار ٹہرا کر ذرا بھی برا سلوک نہیں کیا تھا

ہیر آ کر مہرو کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھی

بتاؤ۔۔۔۔کیا کھاؤ گی۔۔۔۔۔

ارے نہیں بھابھی کچھ بھی نہیں۔۔۔۔

شرماؤ مت۔۔۔۔۔میں یشب نہیں ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسے شرماتے دیکھ کر چھیڑا

یشب کے ذکر پر ہیر کی کھلتی  مسکراہٹ فورا سمٹ گئی۔۔۔۔جسے مہرو نے نوٹ کیا

وقت بہت بڑا مرہم ثابت ہوتا ہے ہیر۔۔۔۔وقت کیساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔مجھے دیکھو یشار کے ساکت وجود کو دیکھ کر  لگا تھا کہ اب جی نہیں پاؤں گی۔۔۔۔مر جاؤں گی۔۔۔مگر زندہ ہوں۔۔۔۔۔اور زندہ رہنا بھی چاہتی ہوں یشار کی نشانی کی خاطر۔۔۔اپنے حدید کی خاطر۔۔۔۔۔یہاں کے مکینوں کی خاطر جو مجھ پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔۔وقت کے ساتھ اوپر والا صبر بھی دے ہی دیتا ہے۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولی

اسی طرح یشب کو بھی صبر آ جائے گا وقت کیساتھ اسکا غصہ بھی  ٹھنڈا پڑ جائے گا مگر تب تک تمہیں بہت ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔

وہ شروع سے ہی غصے کا تیز ہے۔۔۔۔۔یشار اور باباجان کے بلکل برعکس۔۔۔۔باباجان اور یشار بہت کم غصہ کرتے تھے اگر کبھی  آ بھی جاتا تو کنٹرول کر لیتے مگر یشب۔۔۔۔۔۔وہ جب تک اپنا غصہ نکال نہیں لیتا تب تک چین سے نہیں بیٹھتا۔۔۔۔

پر دل کا ہر گز برا نہیں ہے۔۔۔۔جب محبت کرنے پر آتا ہے تو جان چھڑکتا ہے۔۔۔۔۔۔پھر تم ہی تنگ پڑ جایا کرو گی اسکی محبتوں سے۔۔۔۔۔۔۔مہرو نے آخر میں بات کو مزاق کا رنگ دیا

ہیر  سر جھکائے خاموشی سے مہرو کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔وہ جس روپ میں یشب آفریدی کو دیکھ چکی تھی  اس کے بعد ایسا  کوئی روپ یقینا عجیب و  غریب ہی ہوتا۔۔۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟یشب کی آواز پر وہ اچھل کر کھڑی ہوئی

یشب کتنی دفعہ کہا ہے کم از کم گھر والوں سے تو آہستہ آواز میں بات کیا کرو۔۔۔۔مہرو نے ڈپٹے ہوئے کہا

گھر والے۔۔۔۔۔اونہہ

تم چلو کمرے میں۔۔۔۔وہ ہیر سے  مخاطب تھا

ابھی تو نکلی ہے تمہاری قید سے کچھ دیر تو آزادی فیل کرنے دو۔۔۔۔۔

یشب نے شکایتی نظروں سے مہرو کو دیکھا

سنا نہیں تمہیں۔۔۔۔۔وہ ہیر کو ہنوز کھڑے دیکھ کر چیخا

ہیر اسکی گرج پر الٹے قدموں پلٹی اور تخت پر بچھے کور کی نوک میں اڑ کر گرتی کہ یشب نے ہاتھ بڑھا کر بازو سے  تھاما

یہ گول گول بنٹے کس لیے ہیں۔۔۔۔؟؟اس نے ہیر کی آنکھوں کے گرد انگلی گھما کر پوچھا

مہرو ہیر کی بیچاری سی شکل دیکھ کر مسکراہٹ روکتی ہال سے نکل گئی

وہ۔۔۔وہ پاؤں۔۔۔۔اڑ گیا۔۔۔۔۔

تو دیکھ کر چلا کرو ناں۔۔۔۔اوپر والے نے یہ بڑے بڑے ڈیلے دیکھنے کے لیے دیے ہیں۔۔۔۔اب جاؤ کمرے  میں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔

چاچو۔۔۔۔۔وہ حدید کی آواز پر پلٹا

ارے چاچو کی جان۔۔۔کہاں تھے صبح سے۔۔۔یشب نے اسے بازؤں میں بھر کر چٹاچٹ پیار کر ڈالا

سکول۔۔۔۔۔

اوہ ۔۔۔۔میں تو بھول ہی گیا کہ میرا شیر  اب سکول جانے لگا

چاچو۔۔۔۔۔یہ کون ہیں۔۔۔۔؟؟؟حدید نے وہاں کھڑی ہیر کی طرف اشارہ کیا

یہ۔۔۔۔یشب نے اسکے شال میں لپٹے وجود پر ترچھی نظر ڈالی اور آرام سے بولا۔۔۔۔

یہ۔۔۔۔۔یہ چڑیل ہے۔۔۔۔

"اے خوبصورت چڑیل" ہیر کے آس  پاس  ماضی کی سرگوشی ابھری

چڑیل۔۔۔۔۔۔؟؟؟حدید نے تصدیق چاہی

یس۔۔۔۔۔چڑیل

پر یہ تو بہت کیوٹ ہیں۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولا

کہاں سے۔۔۔۔یشب اسکی بات پر محظوظ ہوتا مسکرایا

ہیر نے اس سڑیل کو اتنے دن میں پہلی دفعہ ہنستے دیکھا تھا۔۔۔۔اونہہ۔۔۔۔خود کیا ہے جن ، بھوت۔۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی وہاں سے چلی آئی

حدید بیٹا مولوی صاحب آ گئے ہیں چلو سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔۔مہرو کی آواز پر وہ یشب کی گود سے اترا

اوکے چاچو۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔سی یو اگین۔۔۔۔۔ہاتھ کا مکا بنا کر پنچ مارنے کو آگے کیا

یشب نے آنکھوں میں آئے پانی کو اندر دھکیلا اور بمشکل مسکرا کر پنچ مارا

سی یو اگین مائی چائلڈ۔۔۔۔۔۔

حدید مسکراتا ، اچھلتا ہال سے نکل گیا

یشب نے خود کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے ایک افسردہ سی سانس لی اور  بی بی جان کے روم کیطرف بڑھ گیا

………………………………………………………………

میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔

ہیر پیچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے میں  چکر کاٹتی یشب آفریدی کی بات دہرائے جا رہی تھی

اب کیا ہو گیا ہے مجھ سے جو یشب خان نے ایسا کہا۔۔۔؟؟

اوف۔۔۔۔۔یا میرے مالک۔۔۔۔۔۔مجھے اس ظالم انسان کی قید سے ہمیشہ کے لیے نجات عطا فرما۔۔۔۔آمین

وہ با آواز بلند دعا کے کر جیسے ہی پلٹی پیچھے یشب آفریدی کو گھورتے پا کر جلدی سے نظریں جھکا گئی

دل ہی دل میں وہ آیت الکرسی کا ورد کرتی یشب آفریدی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کی دعا کر رہی تھی

مجھ جیسے ظالم انسان کی قید سے رہائی چاہتی ہو۔۔۔۔۔وہ بولتا ہوا پاس آیا

ہیر نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہونٹ تر کیے اور آہستگی سے نفی میں سر ہلا دیا

ابھی دعا مانگ رہی تھی تم۔۔۔۔۔؟؟

نن۔۔۔۔۔نہیں وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔

کتنی دفعہ کہا ہے میرے سامنے بات صاف اور سیدھی کیا کرو۔۔۔۔ ہر بات اٹک کر کرنا ضروری ہے کیا۔۔۔؟؟

سس۔۔۔سوری۔۔۔۔۔۔ہیر سر جھکا کر منمنائی

ہوں۔۔۔۔۔۔تمہارے والد محترم کا پیغام آیا تھا آج۔۔۔تم سے ملنا چاہتے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔۔ یشب نے جیکٹ اتارتے ہوئے اطلاع دی

بابا ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ہیر درمیانی فاصلہ عبور کرتی یشب کے بلکل قریب آئی

یشب نے ایک ناگوار نگاہ ڈالتے ہوئے گھڑی سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واش روم کیطرف بڑھ گیا

ہیر بے چینی سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی

بات تو پوری بتا دیتے۔۔۔۔کیا جواب دیا پھر۔۔؟؟

بابا۔۔۔۔اماں کاش کے میں  آپ لوگوں سے مل پاؤں۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی  یشب کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی

پندرہ ، بیس منٹ بعد یشب نہا کر بال رگڑتا باہر نکلا

ہیر نے اسے دیکھ کر جھرجھری  لی اتنی سردی میں بھی نہانا نہیں چھوڑتا۔۔۔

کیا ہے ایسے کیوں گھور رہی  ہو۔۔۔یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر پوچھا

وہ۔۔۔وہ خان آپ۔۔۔۔آپ نے بابا کو کیا جواب دیا پھر۔۔۔۔وہ ہچکچاتی ہوئی بولی

تمہارے خیال میں مجھے کیا کہنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔یشب نے ابرو اٹھائے

جو۔۔۔جو بھی آپکی مرضی ہو۔۔۔۔۔

میری مرضی تمہیں قبول ہو گی۔۔۔؟؟

جج۔۔۔۔۔جی۔۔۔

تو پھر ٹینشن کس بات کی ہے۔۔۔۔جب میری ہی مرضی پر چلنا ہے تو۔۔۔۔

آپ۔۔۔۔آپ نے منع کر دیا۔۔۔؟؟

ایگزیٹلی۔۔۔۔۔۔۔اب جاؤ اور میرے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔وہ حکم دیتا سیل پر بزی ہو گیا

جی۔۔۔۔۔ہیر مایوس سی سر ہلاتی چائے لانے  چلی  گئی

………………………………………………………………

دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔۔۔۔کتنے ڈھیر سارے دن بیت گئے تھے ہیر کو وہاں آئے۔۔۔۔اب تو اس نے حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔زندگی یشب خان کے بتائے اصولوں کے مطابق  اچھی یا بری بسر ہو  ہی رہی تھی۔۔۔۔۔۔

یشب نے ہیر کو اسکی فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی دوبارہ اس ٹاپک پر یشب سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔

ہیر بھی وقت کیساتھ کافی سے زیادہ ایڈجسٹ ہو گئی تھی۔۔۔ اور اسکی ایڈجسمنٹ میں زیادہ ہاتھ مہرو کا تھا۔۔۔۔ہیر کی مہرو سے کافی دوستی ہو گئی تھی

مہرو بھی اکیلی تھی اسے بھی کسی  دوست کی ضرورت تھی اس لیے وہ بھی دل میں بغز رکھے بغیر ہیر سے مل جل گئی تھی۔۔

یشب کو یہ دوستی کافی کھلتی تھی۔۔۔اور اسکا غصہ وہ بند کمرے میں ہیر کو اپنی طنزیہ باتوں سے ٹارچڑ کر کے نکال لیتا تھا۔۔۔

ہیر بھی اب پہلے کی طرح یشب کے غصے سے نہ تو ڈرتی تھی اور نہ ہی روتی تھی۔۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی عادی ہو چکی تھی یشب کے اس رویے کی اس لیے  چپ چاپ سر جھکا کر اسکی کڑوی کسیلی باتوں کو صبر سے اندر اتار لیتی۔۔۔۔۔

مہرو کی عدت کب کی ختم ہو چکی تھی مگر وہ حدید کے سکول کیوجہ سے رکی  ہوئی تھی۔۔۔۔۔جیسے ہی حدید کے ایگزیمز ختم ہوئے تو وہ حدید کو لیے اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی۔۔۔۔

بی بی جان زیادہ وقت اپنے کمرے میں  عبادت میں مصروف رہتیں۔۔۔۔۔۔بابا جان مردان خانے میں۔۔۔۔اور یشب ڈیرے اور زمینوں پر کبھی دو ، چار دن کے لیے پشاور چلا جاتا۔۔

مہرو کو بھی گئے کئی دن  ہو گئے تھے مگر ابھی تک واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔۔۔ہیر سارا وقت بولائی بولائی سی رہتی پہلے مہرو کیساتھ اچھا خاصہ وقت گزر جاتا تھا اور اب وہ فارغ رہ رہ کر اکتا چکی تھی ۔۔۔۔اوپر سے گھر والے بھی بہت  یاد آ رہے تھے  آجکل۔۔۔۔عجیب سی کسلمندی  چھائی ہوئی تھی طبیعت پر۔۔۔۔۔

اب بھی وہ ٹیرس پر بیٹھی۔۔۔۔۔اپنے بابا۔۔۔اماں اور لالہ کو ہی یاد کر رہی تھی جب یشب کی پراڈو کا ہارن بجا۔۔۔

وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔

یشب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کو کبڈ میں گھسے پایا

کیا کر رہی ہو۔۔۔۔کتنی دفعہ کہا ہے میری چیزوں میں مت گھسا کرو مگر تم  وقت کیساتھ ساتھ ڈھیٹ ہوتی جا رہی ہو  جس پر میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔وہ دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر غصے سے بولا

آپ بھی ہر وقت مجھ پر غصہ کر کر کے تھکتے نہیں ہیں کیا۔۔۔؟؟

یشب کا گھڑی اتارتا ہاتھ اسکی دلیری پر ایک  لمحے کو ساکت ہوا اور پھر وہ درمیانی فاصلہ مٹاتا  اس تک آیا

کیا بکواس کی ہے ابھی۔۔۔۔۔

کچھ نہیں۔۔۔۔۔ہیر لاپرواہی سے بولی

کچھ نہیں۔۔۔۔وہ اسکا بازو جکڑتا خود کے قریب لایا

خود کو اس قابل سمجھتی ہو کے  یشب آفریدی تم سے۔۔۔۔ایک خونی کی بہن سے نرمی برتے۔۔۔۔وہ استہزایا ہنسا

جب یشب آفریدی رات کے اندھیرے میں ایک خونی کی بہن کو نرمی برتتے ہوئے سینے سے لگا سکتا ہے تو پھر دن کے اجالے میں کیوں نہیں۔۔۔۔ہیر بازو چھڑواتے طنزیہ  بولی

یشب نے اسکی بات پر غصے سے سرخ پڑتے ایک زوردار ٹھپڑ اسکی گال پر جڑا

کیا سمجھتی ہو خود کو۔۔۔۔۔۔بولو۔۔۔کیا سمجھتی ہو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟

پہلے تو کچھ نہیں سمجھتی تھی یشب خان مگر اب بہت کچھ سمجھنے لگی ہوں۔۔۔وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔۔جب سے آپ نے مجھے چھوا۔۔۔

بسسس۔۔۔۔۔اس سے آگے ایک لفظ نہیں۔۔۔یشب ہاتھ اٹھاتے دھاڑا

کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟ہیر دو قدم پیچھے ہٹی

 اب اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنئیے۔۔۔۔۔خود کو بہت مہان سمجھتے تھے ناں آپ۔۔۔

کیا ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟وہ استہزائیہ کہتی مزید پیچھے  ہوئی۔۔۔ 

ذرا سے لمحے میں  کمزور پڑ جانے والے مرد۔۔۔۔۔۔میرا وجود اچھوت تھا ناں آپ کے لیے   اسی لیے تو اتنی سردی میں مجھے زمین پر سلاتے تھے اور خود اس نرم گرم بستر پر مزے لے کر سوتے تھے۔۔۔۔مجھے خونی کی بہن۔۔۔۔کتے کی بہن اور ناجانے کن کن القابات سے مخاطب کرتے تھے۔۔۔اور اب۔۔۔۔وہ رکی

اب۔۔۔۔۔جیسے بھی سہی آپ مجھے اپنی بیوی کا درجہ دے چکے ہیں 

یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی۔۔۔۔۔اور نا صرف بیوی کا بلکہ اپنے بچے کی ماں کا بھی۔۔۔۔۔۔یہ ہے آپکی اصلیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے یشب کی آنکھوں میں دیکھتی  چلائی

یشب اپنی سرخ انگارہ آنکھیں ہیر کے بےخوف چہرے پر گاڑے ساکت سا کھڑا تھا

…………………………………………………………

چھ سال قبل 👉👉👉

آج صبح سے ہی موسم کافی ابرآلود تھا۔۔۔۔سردیاں جا رہیں تھیں اور  گرمیوں کی آمد تھی۔۔۔۔پہاڑی علاقوں میں ان دنوں محسوس کرنے والوں کو  ایک  عجیب سا پرسوز  لطف  محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔یہی پرسوز لطف ہیر کو  بہت اٹریکٹ کرتا تھا

آج بھی وہ اماں سے اجازت لے کر اسی لطف کا مزا لینے حویلی کے  پیچھلے باغ میں آئی تھی۔۔۔۔

پورے باغ میں اچھی طرح گھوم پھر کر وہ چپکے سے  پگڈنڈی  پر چلتی ٹھنڈے پانی کی جھیل کیطرف بڑھی جو حویلی کی پچھواڑ میں بیس منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود تھی

وہ منہ ڈھانپے ادھر أدھر دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔دل میں ایک  خوف بھی تھا کہ کہیں  کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔۔ گھر سے تو باغ تک جانے کی اجازت لے کر نکلی تھی مگر اب وہ کافی آگے جھیل تک جا رہی تھی۔۔۔۔جہاں اکیلے جانے سے اماں اور  شمس لالہ نے سختی سے منع کیا ہوا تھا

ہیر نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر چاروں  طرف ایک چور نگاہ گھمائی اور کسی کی بھی موجودگی نہ پا کر چادر کے پلو کو پیچھے  کھسکا کر  منہ باہر نکالا 

آرام دہ حالت میں پتھر پر بیٹھ کر پاؤں جوتے سے آزاد کیے اور ٹھنڈے ٹھار پانی میں ڈبو دیے۔۔۔۔

اوئی ماں۔۔۔۔۔اسکے منہ سے چیخ  بلند ہوئی

اپنی چیخ پر وہ خود ہی ڈرتی کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔تو پھر ہنستی ہی چلی گئی

کچھ فاصلے پر لیٹے یشب آفریدی نے سر اونچا کر کے دائیں جانب دیکھا جہاں کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس خوبصورت سی چڑیل قہقہے لگانے میں مصروف تھی

از شی میڈ۔۔۔۔؟؟وہ پتھر سے ٹیک لگاتا اٹھ بیٹھا

کہیں واقعی چڑیل تو نہیں۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ پر مسکراتا وہ اٹھ کھڑا ہوا

چلو یشب آفریدی آج تمہیں لائیو ایک  چڑیل سے ملنے کا موقع ملا ہے۔۔۔۔گو اینڈ انجوائے۔۔۔۔وہ ہاتھ جھاڑتا اسطرف چل پڑا

ہیر اردگرد کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہنسی روک کر اب مختلف آوازیں نکالنے میں بزی تھی۔۔۔۔یہ بچپن سے  اسکا محبوب مشغلہ تھا جب  پہاڑوں میں اسکی آواز گونج کر واپس پلٹتی تو وہ اپنی ہی آواز کو سن کر انجوائے کرتی۔۔۔۔۔اب بھی وہ ایسا ہی کر رہی تھی جب

آآآہہہہہہہمممم۔۔۔۔۔کی آواز پر اسکی توجہ ہٹی

ہیر نے پلٹنے سے پہلے چادر کھینچ کر منہ چھپایا اور پیچھے کو مڑی

اپنے سامنے ہیرو نما ینگ سے  لڑکے کو دیکھ کر وہ پلکیں جھپکائے بغیر یک ٹک اسے دیکھنے لگی

جو بلیو جینز پر بلیک ہائی نیک پہنے،، ہلکے بھورے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے۔۔۔ببل چباتا ہوا۔۔۔۔آنکھوں کو بھینچے اسے مشکوک انداز میں گھورتا۔۔۔۔کسی انگریزی فلم کا ہیرو ہی لگ رہا تھا

یشب اسکے مسلسل تکنے سے ہلکا سا کنفیوز ہوتا۔۔۔کھنکارا۔۔۔۔۔

کون ہو تم۔۔۔۔؟؟؟

وہ صرف ہیر کی کاجل لگی بڑی بڑی آنکھوں کو ہی دیکھ سکتا تھا باقی چہرہ وہ پیچھے مڑنے سے پہلے چھپا چکی تھی۔۔

تم۔۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔تم کون ہو۔۔۔۔؟؟ہیر پلکیں جھپکاتی  اپنا حوصلہ بحال کر کے  بولی

میں۔۔۔۔یشب نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا

ہاں۔۔۔۔تم۔۔۔۔

میں۔۔۔۔۔۔۔

یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔آفریدی۔۔۔۔یشب ٹہر ٹہر کر بولا

اور میں۔۔۔۔

ہیر۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔خان۔۔۔۔ہیر بھی اسی کے انداز میں بولی

ہیر۔۔۔۔۔یہ کیسا نام ہے

یشب۔۔۔۔۔کتنا عجیب  سا نام ہے۔۔۔ہیر نے چادر کے اندر ہی منہ بگاڑا

یشب اسکے کانفیڈینس کی داد دیتا مسکرا اٹھا

میں نے جوک نہیں سنایا تمہیں۔۔۔ہیر نے اسکی خوبصورت مسکراہٹ پر چوٹ کی

تو سنا دو۔۔۔۔وہ ببل کا پٹاخا پھوڑتے بولا

مجھے شوق نہیں اجنبی غنڈوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔

پر مجھے شوق ہے اجنبی چڑیلوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔

تم۔۔۔۔تم نے مجھے چڑیل کہا

تم نے بھی مجھے غنڈا کہا

وہ تو تم ہو۔۔۔۔۔

تم بھی تو ہو۔۔۔۔مگر خوبصورت چڑیل۔۔۔یشب نے مسکراہٹ دبا کر کہا

ارے کسقدر بے شرم ہو تم۔۔۔۔مجھے اکیلی سمجھ کر لائن مار رہے ہو

کیوں تم پر لائن مارنا ممنوع ہے کیا۔۔۔؟؟وہ دوبدو بولا

یشب خان آفریدی۔۔۔۔اپنی حد میں رہو۔۔۔ہیر نے دانت کچکچائے

ہیر دلاور خان۔۔۔۔۔کیا آپ میری حدود بتا سکتی ہیں

ہٹو میرے راستے سے۔۔۔۔وہ جوتا پہنتی جانے کو تیار ہوئی

کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟

تم سے مطلب۔۔۔۔

مطلب ہے تو پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔

مجھے تمہارے مطلب سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔۔میرا راستہ چھوڑو

میں نے کب روکا ہے۔۔۔۔یشب نے کندھے اچکائے

سامنے سے ہٹو گے تو میں گزر پاؤں گی۔۔۔وہ غصے میں چڑ کر بولی

لی جئیے جناب۔۔۔۔یشب مسکراہٹ روکتا سر خم کرتا پیچھے ہٹا

ہیر نے اس پر غصیلی گھوری ڈالی اور سائیڈ سے ہو کر گزر گئی

پھر کب ملو گی۔۔۔۔"اے خوبصورت چڑیل"۔۔۔۔ہیر کے تھوڑا آگے گزر جانے پر یشب نے پلٹ کر بلند آواز میں پوچھا

جہنم میں۔۔۔۔

تم وہاں بھی جاتی ہو۔۔۔۔۔وہ محظوظ ہوتا فورا بولا

نہیں۔۔۔۔۔تمہیں بائے بائے کرنے ضرور آؤں گی۔۔۔۔

یشب کا چھت پھاڑ قہقہ بلند  ہوا

اونہہ۔۔۔۔بدتمیز انسان۔۔۔۔ہنستے ہوئے بھی قیامت لگتا ہے۔۔۔۔

لاحول ولا۔۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر توبہ کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی

یشب ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ سجائے تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی

یہ تھی۔۔۔۔۔۔۔

ہیر دلاور خان اور یشب خان آفریدی  کی پہلی unexpected ملاقات۔۔۔

…………………………………………………………

یشب اس روز تو خود کو ڈپٹ کر  واپس لے آیا تھا مگر دل پھر سے وہاں جانے کو بے چین تھا 

ہو سکتا ہے وہ دوبارہ وہاں آئے۔۔۔۔یا پھر آئی ہو۔۔۔۔مجھے وہاں جانا چاہیے تھا۔۔۔بلاوجہ دو دن صرف اس خوبصورت چڑیل کو سوچ کر ہی ضائع کیے۔۔۔وہ مسکرایا

یس مجھے وہاں جانا چاہیے  ہو سکتا ہے پھر سے دیدار  ہی ہو جائے۔۔۔۔۔وہ خیالوں میں گم تھا جب مہرو کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ  لائی

ارے یشب کن سوچوں میں مگن ہو بھئی دو دن سے نوٹ کر رہی ہوں کھوئے کھوئے سے ہو۔۔۔کہیں کسی پری کا سایہ تو نہیں ہو گیا۔۔۔۔مہرو چھیڑتی ہوئی سامنے پڑے تخت پر بیٹھی

ارے کہاں ڈئیر بھابھی۔۔۔۔۔ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ کسی پری کا سایہ ہو  ہاں البتہ چڑیل کا سایہ ضرور ہو سکتا ہے۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر بولا

کون ہے چڑیل۔۔۔۔؟؟؟

جانے دیں بھابھی مزاق کر رہا تھا

یشب مکرو مت میں جان چکی ہوں کوئی ہے اور آجکل میں ہی ملی ہے تمہیں۔۔۔تمہاری حالت سے میں پہلے ہی مشکوک ہو گئی تھی اور اب تم اپنی ہی بات میں پھنس چکے ہو اس لیے شرافت سے بتاؤ کون ہے۔۔۔۔

ارے بھابھی سچ میں کوئی  نہیں۔۔۔یشب نے زوروشور سے نفی میں سر ہلایا

مت بتاؤ۔۔۔۔میں یشار کے تھرو پتا کروا لوں گی۔۔۔۔۔مہرو نے دھمکی دی

غضب خدا کا بھابھو۔۔لالہ کو مت بتائیے گا کچھ بھی۔۔۔

تو پھر سیدھی طرح لائن پر آؤ

بتایا تو ہے چڑیل ہے۔۔۔۔وہ مہرو کی چالاکی پر چڑ کر بولا

کہاں ملی یہ چڑیل۔۔۔۔؟؟؟

جھیل والی سائیڈ پر۔۔۔۔

ہمارے گاؤں کی ہے۔۔۔؟؟

نہیں ساتھ والے۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا کہ وہ ساتھ والے گاؤں کی ہے۔۔۔۔وہ مشکوک ہوئی

ہمارے گاؤں کی لڑکیاں اتنی بہادر نہیں ہیں کہ اکیلے اتنی دور جا سکیں

مطلب کافی سے زیادہ ایمپریس ہو چکے ہو۔۔۔

نہیں مزید دو ، چار ملاقاتوں میں ہو سکتا ہے کافی سے زیادہ ایمپریس ہو جاؤں۔۔۔وہ سر کھجاتا سیدھا ہو کر بیٹھا

بہت بدتمیز ہو یشب۔۔۔۔۔کہیں پہلی ہی ملاقات میں اس سے اگلی بار ملنے کا وعدہ تو نہیں لے آئے۔۔۔

پوچھا تو تھا کے کب ملو گی دوبارہ مگر۔۔۔۔۔

مگر۔۔۔۔۔؟؟؟

مگر کافی نک چڑی سی تھی۔۔۔۔۔یشب برا سا منہ بنا کر بولا

دیکھنے میں کیسی تھی۔۔۔۔مہرو ایکسائیٹڈ ہوئی

پتہ نہیں۔۔۔۔۔

پتہ نہیں مطلب۔۔۔۔۔؟؟؟

پتہ نہیں مطلب۔۔۔۔میں اس کو دیکھ نہیں پایا

اوووففف۔۔۔۔یشب تم پاگل ہو چکے ہو یا پھر مجھے کرو گے

خود ہی تو پوچھا تھا۔۔۔۔وہ چڑا

ارے ڈفر۔۔۔۔جب دیکھا نہیں تو اچھی کیسے لگ گئی

تو یوں پوچھیں ناں۔۔۔۔۔ایکوئچلی بھابھو۔۔۔وہ۔۔۔وہ ناں۔۔۔۔یشب مہرو کے دوپٹے کو انگلی پر لپیٹتا شرمانے کی ایکٹینگ کرنے لگا

یشب۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا

یشب  ہنستا ہوا کھڑا ہوا

آج کے لیے اتنا ہی BBC News۔۔۔وہ آنکھ دبا کر چھیڑتا ہال سے نکل گیا

یشب۔۔۔۔یشب رکو۔۔۔رکو تو 

بدتمیز انسان۔۔۔سسپینس پھیلا کر کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔مہرو جلدی سے سامنے آئی

قسم سے بھابھی آپکی شکل پر۔۔۔۔

چھوڑو میری شکل میں جانتی ہوں بہت پیاری ہے۔۔۔۔اب مجھے پوری بات بتاؤ

ماشا ء اللہ کیا خوش فہمی ہے آپکی۔۔۔کب سے ہے ویسے یہ خوش فہمی۔۔۔یشب نے ہونٹوں پر انگلی رکھی

یشششببببب۔۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔اوکے ریلکیس۔۔۔۔۔۔پہلے لمبے لمبے سانس لے کر خود کی شکل پر بجے بارہ کو دس پر لائیں پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔

یشب تم۔۔۔۔۔مہرو نے پاس پڑا گلدان اٹھایا

اوہ نو ڈئیر بھابھی ریلیکس آئی ایم جسٹ جوکنگ۔۔۔۔۔وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوا

فضول میں گھماؤ مت سمجھے۔۔۔۔۔پوری بات سن کر ہی جان چھوڑوں گی تمہاری۔۔۔۔

بھابھی آئی سوئیر میں ساری بات اے ٹو زی بتاؤں گا مگر ابھی مجھے جانے دیں میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا بولا۔۔

ہو سکتا ہے وہ میرا وہاں انتظار کر رہی ہو۔۔۔۔پھر آ کر دوسری  ملاقات کی بھی ساری باتیں آپ کو سناؤں گا ڈن۔۔۔۔۔۔اب پلیز جانے دیں

اوکے جاؤ۔۔۔۔مگر چھوڑنے والی نہیں میں اگلوا کر ہی دم لوں گی۔۔۔۔۔

مجھے آپ کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر چھیڑتا باہر بھاگ  گیا

بدتمیز انسان۔۔۔۔۔مہرو اسکی بات سمجھ کر مسکرا دی 

…………………………………………….…………….

یشب خان آفریدی۔۔۔۔۔ہیر اپنے کمرے کی کھڑکی  میں کھڑی اسے ہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

یقینا ساتھ والے گاؤں کا ہی ہو گا کیونکہ آفریدی قبیلے کے لوگ ساتھ والے گاؤں میں ہی رہتے ہیں

اوف کتنا ڈیشنگ تھا کمینا اور بدتمیز بھی اتنا ہی۔۔۔۔وہ سوچ کر مسکرا دی

مجھے خوبصورت چڑیل کہہ رہا تھا۔۔۔۔ڈفر۔۔۔۔پتہ نہیں دوبارہ دیکھ پاؤں گی اسے کے نہیں۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی

پر میں اسے دوبارہ دیکھنا کیوں چاہتی ہوں۔۔۔۔وہ حیرانگی سے  خود سے پوچھ رہی تھی

کہیں میرے دل میں۔۔۔۔

ارے نہیں ہیر۔۔۔۔پہلی ہی ملاقات میں ایسا کیسے ہو سکتا بھلا۔۔۔۔نہیں میں ایسی نہیں ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتی ہوں۔۔۔۔۔اسنے خود کو مطمعین کیا

لیکن اگر واقعی ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ چند منٹ کے وقفے سے اسکے دل نے پھر سے اس سے سوال کیا

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں ہیر ایسا کچھ مت کرنا یہ دل کے معاملے بہت مشکل ہوتے ہیں۔۔۔۔تم ایک اچھی لڑکی ہو اور اچھی لڑکیاں کبھی کسی نامحرم کو دل میں جگہ نہیں دیتیں ہیں۔۔۔۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اس معاملے سے دور رہو۔۔۔۔اور یشب خان آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر بھول جاؤ اس سے پہلے کے تم اتنی آگے بڑھ جاؤ کہ  تمہارے لیے واپسی ناممکن ہو جائے۔۔۔۔اس کے ضمیر نے اسے بہترین مشورہ دیا

ہیر بی بی۔۔۔۔۔۔

ہیر رحیمہ کی آواز پر چونک کر مڑی ۔۔۔

رحیمہ کتنی دفعہ کہا ہے کہ دروازہ ناک کر کے آ یا کرو۔۔۔۔وہ ناگواری سے بولی

معاف کر دیں ہیر بی بی بھول گئی میں۔۔۔۔رحیمہ نے سر پر ہاتھ مارا

اچھا بتاؤ کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔

وہ جی۔۔۔۔۔آپ کو بڑے خان سائیں بلا رہے ہیں

میں آتی ہوں تم جاؤ۔۔۔

جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلائی گئی

ہیر نے ایک لمبی سی سانس خارج کر کے خود کو یشب آفریدی کی سوچوں سے آزاد کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر بابا کی بات سننے چل دی

……………………………………………..………

یشب تم نے بتایا ہی نہیں مجھے دوبارہ اپنی اس خوبصورت چڑیل کے بارے میں۔۔۔۔مہرو نے اس کے کپڑے پیک کرتے ہوئے پوچھا

کون سی خوبصورت چڑیل  بھرجائی۔۔۔۔؟؟؟ یشب نے چلغوزہ منہ میں رکھ کر حیرانگی سے پوچھا

زیادہ انجان بننے کی ایکٹنگ مت کرو۔۔۔۔تمہاری سبھی  چلاکیوں کو سمجھتی ہوں میں

سمجھتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں۔۔۔۔؟؟

یشب۔۔۔تنگ مت کرو بتا دو اب۔۔۔ پھر ایک سال بعد روبرو ملاقات ہو گی ہماری۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارے بتا دینے پر میں تب تک تمہاری راہیں ہموار کر سکوں۔۔۔۔۔

گریٹ۔۔۔۔بھابھی ہو تو آپ  جیسی۔۔۔۔یشب نے بیڈ پر لیٹے لیٹے مہرو کی بلائیں لیں

بہت مسخرے ہو۔۔۔۔وہ مسکرائی

تھینکس۔۔۔اب پوچھیں جو پوچھنا ہے۔۔۔۔؟؟

ملی پھر دوبارہ۔۔۔۔؟؟

نہیں۔۔۔۔۔۔

تم گئے تھے وہاں جھیل پر۔۔۔۔؟؟

کئی دفعہ۔۔۔بلکہ روز ہی جاتا ہوں مگر وہ دوبارہ وہاں نہیں آئی۔۔۔۔

اوہ سیڈ۔۔۔۔۔مہرو افسوس کرتی یشب کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھی

پھر اب کیسے پتہ چلے گا کہ اس کا نام کیا تھا اور وہ واقعی ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی یا پھر کسی کے ہاں آئی مہمان تو نہیں۔۔۔۔مہرو نے خدشہ ظاہر کیا

یہ تو کنفرم ہے کہ وہ ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی۔۔۔۔۔اور نام۔۔۔۔۔وہ رکا

مہرو نے مشکوک ہو کر  آنکھیں سکیڑیں

یشب اسکے ایکسپریشنز دیکھ کر مسکرایا

اس کا نام ہیر دلاور خان ہے۔۔۔۔

ہیر دلاور خان۔۔۔۔واہ۔۔۔۔نام تو بہت یونیق ہے

خود بھی یونیق ہی تھی۔۔۔وہ مسکرایا

پر تم نے  تو اسے دیکھا نہیں تھا ناں۔۔۔۔؟؟؟

اوہ مائی ڈئیر BBC News ۔۔۔۔ میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا پر اسکی کاجل لگی بڑی بڑی نشیلی آنکھیں ضرور دیکھیں تھیں۔۔۔وہ آنکھ دبا کر بولا

آہہہہہہممم مطلب۔۔۔۔۔مہرو مسکرائی 

ایگزیٹلی۔۔۔۔وہ بھی مسکرا کر اٹھ بیٹھا

پر مجھے تم اتنے ہلکے لگتے نہیں تھے۔۔۔۔

میں اتنا ہلکا ہوں بھی نہیں۔۔۔۔

اچھا جی۔۔۔تو پھر ایک لڑکی کی صرف آنکھیں دیکھ کر ہی اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو۔۔۔اور کہہ رہے ہو ہلکے نہیں۔۔۔مہرو نے مزاق اڑایا

عشق میں تو نہیں کہہ سکتی آپ ہاں البتہ 100 میں سے 60   پرسنٹ  کے چانسز لگ رہے ہیں وہ بھی فلحال صرف پسندیدگی کے ۔۔۔وہ آنکھ مارتا تسمے کس کر اسکی طرف آیا

اب آپ سے ایک ریکویسٹ ہے بھابھی۔۔۔۔

ہوں بولو۔۔۔۔۔

پلیز اب یہ خبر اپنے نیوز چینل پر نشر مت کیجئیے گا۔۔۔۔وہ چھیڑتا ہوا دروازے کیطرف بھاگا

بدتمیز۔۔۔۔مہرو نے دانت کچکچا کر پاس پڑا برش اسکیطرف پھینکا جسے وہ کیچ کر کے ٹیبل پر رکھتا سیٹی کی دھن پر 

جب سے تیرے نیناں۔۔۔۔۔

میرے نینوں سے لاگے رے۔۔۔۔

میں تو دیوانہ ہوا۔۔۔۔۔

خود سے بیگانہ ہوا۔۔۔۔

جگ بھی دیوانہ لاگے رے۔۔۔۔

گنگناتا ہوا باہر نکل گیا

………………………………………………………

جی بابا آپ نے بلایا۔۔۔۔ہیر مسکراتی ہوئی دلاور خان کیساتھ آ کر بیٹھی

ہاں بابا کی جان۔۔۔۔ہم نے بلایا

کیا کہنا تھا بابا۔۔۔۔؟؟

تمارے لیے ایک اچھی خبر ہے

کیسی خبر۔۔۔؟؟وہ ایکسائیٹڈ ہوئی

میری بیٹی کا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔۔۔

اوہ سچ۔۔۔۔ہیر اچھل کر کھڑی ہوئی

بلکل سچ۔۔۔۔۔دلاور خان بیٹی کی خوشی  پر مطمعین ہوئے

اوف بابا۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔اور آپ کو پتہ ہے میں آپ سے بہہہہہہہہہہہہت بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے  انکے سامنے ٹیبل پر بیٹھ کر بانہیں پھیلائیں

جانتا ہوں سب۔۔۔۔۔۔وہ اسکی ناک کھینچ  کر مسکرائے

چلو پھر تیاری پکڑو۔۔۔۔اگلے ہفتے تمہیں جانا ہے

پر بابا میں ہوسٹل میں آپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔۔وہ اداس ہوئی

اب اتنا تو کرنا ہی پڑے گا ناں۔۔۔۔یا پھر کینسل کروا دوں سب۔۔۔۔

ارے اب ایسی بھی بات نہیں۔۔۔۔۔میں ہر ویک اینڈ پر حویلی آ جایا کروں گی کیسا۔۔۔۔؟؟

بہت اچھا۔۔۔۔۔چلو اب اس خوشی کے موقعے پر اپنے بابا کی چائے سے تواضع کرو

ضرور۔۔۔۔ناصرف  چائے بلکہ آپ کا فیورٹ گاجر کا حلوہ بھی۔۔۔۔

ارے واہ۔۔۔۔۔پھر تو جلدی کرو اس پہلے کہ تمہاری اماں کو خبر ہو۔۔۔۔وہ رازداری سے بولے

ہاہاہاہا۔۔۔۔جا رہی ہوں۔۔۔۔ہیر انکی رازداری پر ہنستی ہوئی کیچن کی طرف بڑھ گئی

………………………………………………………

یشب کل اسلام آباد جا رہا تھا اور وہاں سے اسے واپس لندن کے لیے فلائی کرنا تھا۔۔۔واپس جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سے دل میں دید کی امید جگائے جھیل پر جانا چاہتا تھا۔۔۔اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں جانے کے لیے نکل پڑا۔۔

………………………….……..……………………

ہیر بی بی  پیکنگ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اب میں جاؤں۔۔۔؟؟رحمیہ نے ہیر سے پوچھا جو کبڈ میں سر دیے کھڑی تھی

ہاں جاؤ۔۔۔۔۔

جی اچھا۔۔۔۔۔رحیمہ سر ہلاتی چلی گئی

ہیر نے اسکے جانے کے بعد شال نکال کر اوڑھی اور چپکے سے باغ میں جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی

باغ میں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور کسی کو بھی نہ پا کر دل میں چور لیے وہ جھیل کیطرف  چل پڑی۔۔

………………………………………..………………

یشب نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ادھر أدھر دیکھا اور مایوس ہو کر پتھر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ پتھر پر بیٹھا جھیل کے پانی میں کنکر پھینکنے لگا۔۔۔۔

ہیر نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر درخت کی اوٹ سے یشب کی پشت کو دیکھا

ارے یہ تو پہلے سے موجود ہے۔۔۔کہیں یہ میرا انتظار تو نہیں کر رہا۔۔۔۔۔؟؟

واہ۔۔۔بھئی ہیر بی بی کیا خوش فہمی ہے تیری۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر مسکراتی آگے کو ہوئی کہ پیچھے سے پتھر لڑھک کر اسکے پاؤں پر گرا

ہیر کی گھٹی گھٹی چیخ نے یشب آفریدی کے دونوں کان کھڑے کیے

وہ پلٹا اور درخت کی اوٹ میں ہرے  آنچل کو لہراتے دیکھ کر اسکی  طرف بھاگ کھڑا ہوا

……………………………………….……….…………

ہیر نے جیسے ہی یشب کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی۔۔۔۔

ہیر لسن۔۔۔۔۔رکو بات سنو۔۔۔۔یشب چلاتا ہوا جب تک وہاں پہنچا وہ درختوں کے جھرمٹ میں گم ہو چکی تھی

"اے خوبصورت چڑیل" وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا  کر پوری قوت سے چلایا

ایک بار۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔مگر ہیر وہاں ہوتی تو سنتی

شٹ۔۔۔۔۔۔۔یشب نے درخت پر  مکا جڑا

اور چند منٹ انتظار کے بعد مایوس سا واپس لوٹ گیا

""چلو ہم مان لیتے ہیں

تمہیں ہم کھو چکے لیکن

تمہاری یاد اب تک بھی

ہمیں بے تاب رکھتی ہے

ہماری سانس اب تک بھی 

تمہاری آس رکھتی ہے""

…………………………………………………

ہیر  نے اپنی دوڑ کو بریک حویلی میں آ کر لگائی تھی

ارے لڑکی کیا ہوا۔۔۔سانس کیوں پھولا ہوا ہے۔۔۔۔کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔؟؟خدیجہ نے ایک ساتھ اتنے سوال پوچھے

پا۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل بول پائی

رحیمہ پانی دو اسے۔۔۔۔۔

رحمیہ بوتل کے جن کی طرح پانی لیے حاضر ہوئی

ہیر نے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں پانی ختم کیا

کہاں تھی۔۔۔۔۔خدیجہ نے کڑی نظروں سے ہیر کو دیکھا

باغ میں۔۔۔۔۔

وہاں ایسا کیا دیکھ لیا بی بی جی۔۔۔۔رحیمہ نے بتیسی نکال کر پوچھا

بھوت۔۔۔۔۔

ہائے سچ میں ہیر بی بی بھوت تھا وہاں۔۔۔

ہیر نے اسے ایک گھوری دی اور اٹھ کر اماں کے پاس آ  بیٹھی

کیا کرنے گئی تھی باغ میں وہ بھی بنا اجازت۔۔۔۔وہ خفا ہوئیں

اماں کل ہوسٹل چلی جاؤں گی میں خفا  مت ہوں۔۔۔۔بس دل چاہ ریا تھا اس لیے ٹہلنے کو گئی تھی۔۔۔۔اس نے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ بولا

ہیر کبھی بھی کوئی بھی کام ماں باپ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے ہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔

اچھا ناں اماں سوری آئندہ ایسا نہیں  ہو گا سچ میں۔۔۔۔۔ہیر نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈالیں

اچھا ٹھیک ہے جاؤ اپنی چچیوں سے مل آؤ۔۔۔پھر شکوہ کریں گیں کے تم مل کر نہیں گئی

اوکے مسز دلاور خان جو حکم۔۔۔۔اس نے سر خم کرتے ماں کو چھیڑا

چل جا مسخری نہ ہو تو۔۔۔۔وہ مسکرائیں

ہیر کھلکھلاتی ہوئی باہر نکلی کہ سامنے سے آتے شمس سے ٹکرا گئی

کیا ہے لالہ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔وہ ناک پکڑے چلائی

زیادہ لگ گئی کیا۔۔۔؟؟وہ فکرمند ہوا

نہیں بس تھوڑی سی وہ ناک سہلاتی بولی

کس اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی تمہیں۔۔۔۔؟؟

اسی اسٹیشن پر جس اسٹیشن پر آپ کو بھی جانے کی جلدی ہوتی ہے  

بہت  چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔شمس نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی

شکریہ نوازش۔۔۔۔اب بتائیں کوئی پیغام دینا ہے تو۔۔۔؟؟

ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی

میں کہوں گی کہ بھابھی آپ کو لالہ پیچھلے باغ میں بلا رہے ہیں کیسا۔۔۔؟؟

شمس اسکی بات پر مسکرایا

شرافت سے جاؤ اور مل کر واپس آؤ خبردار اگر کوئی ہوشیاری دیکھائی تو۔۔۔

ارے کیا ہے لالہ مل  لیں چند ماہ بعد تو وہ بذات خود یہاں موجود ہوں گی مسز شمس دلاور خان بن کر اس لیے میری مانیں تو ان دنوں میں چھپ  چھپ  کر ملنے کو انجوائے کریں۔۔۔وہ رازداری سے بولی

اپنے قیمتی مشورے خود تک محدور رکھو اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو سزا بھی برابر ملے گی سمجھی۔۔۔

اونہہ۔۔۔انتہائی بور ہیں آپ تو ناجانے پروشہ (چچا زاد) بھرجائی کا کیا ہو گا۔۔۔وہ افسوس سے سر پر ہاتھ مارتی آگے بڑھ گئی

شمس اسکی اداکاری پر مسکراتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ گیا

………………………………………………………

اگلے روز یشب اسلام آباد کے لیے  اور اسلام آباد سے لندن کے لیے فلائی کر گیا تھا

یشب نے  ہیر دلاور خان کو اسکی باتوں سمیت ایک اچھی یاد سمجھ کر  دل میں سنبھال  لیا تھا

دوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیر پشاور آ چکی تھی ہاسٹل میں۔۔۔۔دلاور خان نے اسکا ایڈمیشن پشاور یونیورسٹی میں کروایا تھا۔۔

اس نے بھی یشب آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر سائیڈ پر کر دیا تھا وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور پوری دلجمعی سے صرف پڑھنا ہی چاہتی تھی۔۔ویسے بھی اسکی تربیت جس انداز میں کی گئی تھی اس کے مطابق کسی بھی غیر مرد کو سوچنا اسکے لیے عبث تھا۔۔۔لہذا اس نے بھی یشب کو مزید یاد کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ  قسمت پر یقین رکھنے والی لڑکی تھی جو مل گیا اسی کو صبر و شکر کیساتھ قبول کر لیا۔۔۔

یوں وقت کے ساتھ ساتھ ہیر یشب کے لیے اور یشب ہیر کے لیے ماضی کا حصہ بن  کر رہ گئے تھے

""کون کہتا ہے مٹ جاتی ہے دوری سے محبت

ملنے والے تو خیالوں میں بھی ملا کرتے ہیں""

……………………………………………………………

 چھ سال بعد۔۔۔۔۔۔پورے چھ سال بعد  پھر سے ہیر دلاور خان کا نام یشب کے اردگرد گونجا تھا

جب نکاح خواہ بلند آواز میں ہیر دلاور ولد دلاور  خان کے نام پر اسکی رضامندی لے رہا تھا ۔۔۔وہ اس نام پر ساکت تھا۔۔۔۔برسوں بعد یہ نام سن کر یشب کے سوئے ہوئے  جذبات نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔۔ 

اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہیر اسی شمس خان کی بہن ہے جس نے یشار لالہ کا قتل کیا تھا۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھا۔۔۔۔۔جب بابا جان نے یشب کا کندھا ہلایا 

سائن کرو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔

یشب نے ناسمجھی سے خاقان آفریدی کیطرف دیکھا اور پین پکڑ کر دھڑا دھڑ سائن کر دیے۔۔۔۔۔

نکاح کے بعد وہ غائب دماغی سے پجارو دوڑاتا ہوا حویلی پہنچا تھا

مگر اب جھٹکا لگنے کی باری ہیر کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جب اس نے اپنی نم آنکھوں سے سامنے یشب آفریدی کو غصے سے چلاتے دیکھا تھا

جو اسے ،اسکے گھر والوں ، اسکے لالہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کف اڑا رہا تھا

نکاح کے وقت تو ہیر سن دماغ لیے بیٹھی تھی جس میں صرف ایک ہی  بات گونج  رہی تھی کہ وہ وہاں کی روایات کی  بھینٹ چڑھ گئی ہے۔۔۔۔اسے  ونی کر دیا گیا ہے۔۔۔وہ بےقصور ماری گئی ہے۔۔۔۔اور اب سامنے یشب آفریدی کو دیکھ کر اسکا دماغ پھر سے  سن  ہو چکا تھا

ہیر نے آنکھوں میں آئی نمی ہاتھ سے صاف کر کے پھر سے ایک بار دیکھا کہ شاید  اسکی نظر کا دھوکا ہو مگر نہیں سامنے وہی ینگ سا ہیرو اب ایک مکمل مرد کی صورت میں موجود تھا

تب کے یشب میں اور اب کے یشب میں بہت فرق تھا

تب وہ مسکراتے  ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور اب وہ غصے سے بھرا اس پر چلا رہا تھا

وہ مزید کچھ سوچتی کہ یشب نے پاس آ کر جھٹکے سے اسکی گردن دبوچی

میں ابھی اسکا قصہ تمام کر کے یہ  حساب برابر کر دوں گا۔۔۔وہ ہیر کی گردن دبوچ کر چیخا تھا

یشب کے اس ردعمل پر ہیر کے اندر  رہی سہی  ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔دل میں موجود  یشب آفریدی کی  دھندلائی ہوئی شبیہہ مزید دھندلا گئی تھی۔۔۔۔ یہ وہ یشب نہیں ہے۔۔۔ اسکے دل میں ابھرتی مدھم سی سرگوشی نے اسکی آنکھوں دیکھے کو جھٹلایا تھا 

اسی وقت خاقان آفریدی نے بیچ میں آ کر  یشب کے ہاتھ ہیر  کی گردن پر سے ہٹوائے تھے

وہ ایک خون آلود نظر ہیر کی کاجل پھیلی آنکھوں میں گاڑتا ہال سے نکل گیا تھا 

پیچھے ہیر قسمت کی اس ستم  ضریفی پر ساکت  تھی

…………………………………………………

یشب۔۔۔۔۔ہیر کو اپنے کمرے سے نکال کر تہہ خانے چھوڑ آیا تھا

وہ ہیر کو دیکھ کر ڈر چکا تھا۔۔۔۔وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں اسکا دل پھر سے اسکے ساتھ دغا نہ کر جائے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیر  کی صورت اسے وہ سب بھلا دینے پر مجبور کر دے جو وہ بھولنا نہیں چاہتا 

وہ خون بہا میں آئی صرف ایک خونی کی بہن تھی۔۔۔جو وہاں سزا بھگتنے آئی تھی اور بس۔۔۔۔وہ خود کو باور کروا چکا تھا

ہیر کو بیسمنٹ میں بند ایک ہفتہ ہو چکا تھا جب مہرو یشب کے کمرے میں آئی تھی

یشب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

جی بھابھی بیٹھیں۔۔۔۔۔یشب کتاب ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف آیا

مہرو اسکے سامنے صوفے پر ٹک گئی

کیا یہ ہیر وہی ہیر ہے جو تمہیں چھ سال پہلے ملی تھی جھیل پر۔۔۔۔؟؟

یشب نے حیرانگی سے مہرو کو دیکھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔جو پوچھا ہے اسکا جواب دو

جی۔۔۔۔۔یشب نے سر جھکا کر اقرار کیا

تو پھر بھی تم اسے تہہ خانے میں چھوڑ آئے ہو

اس کا اصل ٹھکانہ وہی ہے۔۔

اسکا اصل ٹھکانہ کہاں ہے اپنے دل سے پوچھو۔۔

بھابھی پلیز۔۔۔۔وہ سب میری ٹین ایج کی فیلنگز  تھیں  اب ایسا کچھ  بھی نہیں۔۔۔

کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے آنکھیں اچکائیں

آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں صاف صاف کہیں۔۔۔۔

میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہیر کا کوئی قصور نہیں اسلیے یشار کے خون کی سزا اسے مت دو۔۔۔وہ رسان سے بولی

وہ یہاں سزا بھگتنے ہی آئی ہے بھابھی۔۔۔

کس جرم کی۔۔۔۔؟؟؟

وہ لاجواب ہوا۔۔۔

دیکھو یشب تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔تمہارے منہ سے ایسی جہالت آمیز گفتگو جچتی نہیں ہے۔۔۔۔جو کچھ ہو چکا وہ سب قسمت میں تھا۔۔۔یشار اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔۔۔۔شمس خان تو صرف ان کی موت کی وجہ بنا ہے۔۔۔وہ نہ بنتا تو کوئی اور وجہ بن جاتی۔۔۔۔جانا تو تب ہی ہوتا ہے جب بلاوا 

آ جاتا ہے۔۔۔۔

موت برحق ہے یشب آج نہیں تو کل ہم  سب کو چلے جانا ہے۔۔۔پھر یہ لڑائی جھگڑے۔۔۔خون۔۔۔۔قتل۔۔۔۔۔بدلے۔۔۔۔اس  سب سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟

بھابھی آپ۔۔۔۔

یشب میں جانتی ہوں تم  میری بہت  عزت کرتے ہو۔۔۔۔میری ہر بات بلاتردود مانتے ہو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب بھی میری ایک بات مان کر میرا مان رکھ لو یشب۔۔۔۔۔

یشب نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا

ہیر کو اس قید سے نکال کر اپنے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی

جیسے بھی سہی اب وہ بیوی ہے تمہاری۔۔۔تم نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس کیساتھ نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ جوڑا ہے۔۔۔اس لیے اس رشتے کی بے حرمتی  مت کرو۔۔۔۔

کسی اور ناطے نہ سہی تو مجھے اپنے  بھائی کی بیوہ سمجھ کر ہی۔۔۔۔

بھابھی پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔

میں آپکی کوئی بات نہیں ٹالتا ہوں اس لیے یہ بھی نہیں ٹالوں گا مگر بھابھی اس سے آگے مزید کچھ اور نہیں۔۔۔۔۔

میں ماضی کو بھول چکا ہوں۔۔۔۔اس لیے دوبارہ یاد کرنے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے مجھے۔۔۔

تم نے میرا مان رکھ لیا اتنا کافی ہے میرے لیے۔۔۔۔اس سے آگے تم جو چاہو کرو۔۔۔مگر یہ بات مت بھولنا کہ ہیر بے قصور  ہے۔۔۔مہرو نے آہستگی سے باور کروایا

ہوں۔۔۔۔یشب نے پرسوچ انداز میں سانس خارج کر کے بات ختم کی۔

مہرو سے وعدے کے دو دن بعد وہ ہیر کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔۔مگر دل فلحال اسے بے قصور ماننے کو راضی نہ تھا۔۔۔اسی لیے یشب نے ہیر کیساتھ  کسی قسم کی نرمی نہیں برتی تھی۔

""جھوٹی مسکان لیے اپنے غم چھپاتے ہیں

سچی محبت کرنے کی بھی کیا خوب سزا ملی""

………………………………………………………

ہیر کا سارا کانفیڈینس تو اسی دن بھر بھری ریت ہو چکا تھا۔۔۔۔جب اسکو قربانی کے لیے  پنچائیت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔

وہ ہمیشہ سے ہی  اپنے علاقے کی ان فرسودہ اور ظالمانہ روایات سے بہت نالاں تھی۔۔۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن  وہ بھی انہیں ظالمانہ روایات کی  بھینٹ چڑھ جائے گی۔۔۔۔اور اسے بلی چڑھانے والے اسکے اپنے سگے رشتے ہوں گے۔۔۔۔

نکاح کے بعد جب وہ اپنے بھاری قدم گھسیٹتی آفریدی حویلی میں داخل ہوئی تھی تو وہ ایک نئی ہیر بن چکی تھی جو ڈرپوک بھی تھی اور بزدل بھی تھی۔۔۔۔مگر اب بہادر نہ رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ اب اسے  ساری زندگی اپنے لالہ کی غلطی کی سزا جو  بھگتنی تھی۔۔۔

………………………………………………………… 

وہ بھی ویسا ہی دن تھا۔۔۔جیسے دن کو ہیر باغ اور جھیل کنارے جا کر انجوائے کرتی تھی۔۔۔سردیاں جا رہی تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔

انہی دنوں کے پرسوز لطف کو محسوس کرنے وہ  ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔نہ تو دل میں کوئی خوشی تھی اور نہ ہی کوئی امنگ۔۔۔

اس لیے وہ انجوائے کرنے کی بجائے وہاں بیٹھ کر ماضی میں گزرے ایسے ہی  دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔اسے چھ سال پہلے کا وہ دن پوری جزئیات سے یاد تھا جب وہ ایسے ہی موسم کا لطف لینے جھیل گئی تھی جہاں اسے پہلی دفعہ  یشب خان آفریدی ملا تھا۔۔۔

ہیر کو اس دن کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی اور یشب کی کہی ہر بات کو اپنی زبان سے دہرا کر تازہ کر رہی تھی۔۔۔۔وہ ماضی میں بھٹکتی اور ناجانے کیا کچھ سوچتی کہ مؤذن کی آواز پر حال میں لوٹی۔۔۔۔

اوہ۔۔ہ۔۔مغرب بھی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی

ہیر نے مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی دعا کے بعد ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر ہٹائے اسکی نظر  بیڈ پر بیٹھے یشب پر پڑی

جسکے بازو پر بندھی پٹی دیکھ کر وہ ناجانے کس جذبے کے تحت بےچین ہوتی جلدی سے اس کے پاس پہنچی 

یہ۔۔۔یہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟؟وہ فکرمندی سے پوچھتی بیڈ پر یشب کے سامنے   بیٹھی

کچھ نہیں۔۔۔۔

یہ پٹی کیوں بندھی ہے اور یہ خون۔۔۔

کہا ہے ناں کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ چڑ کر بولا

یشب یہ۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ کو چوٹ کیسے آئی۔۔۔۔مجھے بتائیں ناں یشب۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے ہیر کی آنکھ سے نکل کر  گال پر پھسلا

وہ رو رہی تھی اس شخص کے لیے جو ماضی میں کبھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔جسے بھلا کر بھی وہ بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔

جس نے اسے صرف اور صرف ایک خونی کی بہن سمجھا تھا۔۔۔جس نے اس سے کوئی نرمی نہ برتی تھی پھر بھی وہ اس ظالم شخص کی تکلیف پر رو رہی تھی۔۔ 

یشب نے حیرت سے اس کے آنسو کو دیکھتے ہوئے ہیر کی  آنکھوں میں جھانکا

جن میں فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔۔۔۔تکلیف تھی۔۔۔۔پرواہ تھی اور شاید چاہ بھی تھی۔۔۔۔

یہ وہی آنکھیں تو تھیں جن کو بار بار دیکھنے کی خواہش کی تھی کبھی۔۔۔

اب یہ آنکھیں اسکی اپنی ملکیت تھیں۔۔۔۔وہ ان میں ڈوب جانے کا حق رکھتا تھا۔۔۔۔اور وہ ان کاجل بھرے نینوں میں ڈوب ہی گیا تھا

صرف ایک لمحہ۔۔۔۔ایک لمحہ لگا تھا  یشب آفریدی کے جزبات کو اسکی بے نیازی پر حاوی ہونے میں اور  وہ  سب کچھ بھلا کر ہیر کی ذات میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

""کیا کشش تھی اسکی آنکھوں میں

مت پوچھو

مجھ سے میرا دل لڑ پڑا

مجھے وہ شخص چاہیے""

…………………………………………………………

حال 👉👉👉

"ایک لمحے میں کمزور پڑ جانے والا مرد یہ ہے آپکی اصلیت "

یشب کے کانوں میں ہیر کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا

وہ اسوقت جھیل کنارے  بیٹھا ہیر اور اسکی باتوں کو سوچتے ہوئے خود کو ملامت کر رہا تھا

ٹھیک ہی تو کہا تھا اس نے۔۔۔یہی تو ہے میری اصلیت۔۔۔۔۔کیوں میں کمزور پڑ گیا

کیوں جھانکا میں نے ان آنکھوں میں جو مجھے لے ڈوبیں

 اپنے ہی جال میں بہت بری طرح پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔۔اسی لیے تو اسے کمرے سے نکالا تھا میں نے کہ کہیں کمزور نہ پڑ جاؤں۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔اب وہ مجھے بات بات پر یہی  طعنہ دے گی۔۔۔۔

بے شک وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔میں اس پر حق رکھتا ہوں مگر جو سلوک میں اس کے ساتھ روا رکھ چکا تھا اس کے بعد ایسا کچھ۔۔۔

یشب نے پریشانی سے سر ہاتھوں میں گرایا

دس منٹ بعد وہ مطمعین سا اپنے بکھرے بال سمیٹتا پجارو کی طرف بڑھ گیا جیسے کچھ سوچ چکا ہو۔

…………………………………………………………

اس رات ناصرف یشب کمزور پڑا تھا بلکہ ہیر نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی تھی۔۔۔

پر اس رات کے بعد وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے

 یشب نے ہیر کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا تھا نہ کوئی طنز،، نہ طعنہ۔۔۔اور  ہیر وہ تو پہلے بھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی اسے۔۔۔

یوں خاموشی سے چند دن گزرے  جب ہیر کو اپنے اندر ہونے والی تبدیلی کا پتہ چلا

وہ بلکل بھی خوش نہیں تھی اس تبدیلی سے بلکہ الٹا چڑچڑی ہوتی جا رہی  تھی۔۔۔وہ جانتی تھی یہ بات نہ تو یشب  کے لیے خوشی کا باعث ہو گی اور نہ ہی اس حویلی کہ باقی مکینوں کے لیے اس لیے وہ کسی کو بھی بتائے بغیر خاموش ہو گئی تھی۔۔۔

اس دن بھی وہ ماضی کو اور اپنے گھر والوں کو  یاد کر کے افسردہ تھی

جب یشب کی ذرا سی بات پر سیخ پا  ہوتی اتنے دنوں کی خاموشی کا لاوا اگل گئی ۔۔

یشب اسکی بات کے جواب میں کچھ بھی کہے بنا کمرے سے نکل گیا تھا

اور اب رات کے بارہ بج چکے تھے مگر یشب ابھی تک نہیں لوٹا تھا

ہیر اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔۔۔۔

ایسا کچھ غلط تو نہیں کہا جو اتنی اکڑ ہے کہ واپس ہی نہیں آئے۔۔۔مت آئیں مجھے کیا میں کونسا مری جا رہی ہوں انتظار میں۔۔۔

وہ سر جھٹکتی بیڈ پر آئی

میرا بھی اس بیڈ پر اتنا ہی حق ہے جتنا یشب آفریدی کا۔۔۔۔۔۔پہلے خاموش تھی پر اب نہیں رہوں گی خان صاحب۔۔۔۔ اپنے حق کے  لیے لڑوں گی۔۔۔۔۔وہ خود کو تسلی دیتی چادر اوڑھ کر لیٹ گئی

رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب ہیر کی آنکھ کھٹکےکی آواز  پر کھلی 

اس نے مندی مندی آنکھوں سے یشب کو صوفے پر لیٹتے دیکھا اور یہ دیکھنا ہی غضب ہو گیا

وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔

صوفے پر لیٹ کر کیا شو کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔یہی کہ میں اب بھی آپ کے لیے اچھوت ہی ہوں۔۔۔۔جس کیساتھ آپ اپنا بستر شئیر نہیں کر سکتے۔۔۔۔

یشب کچھ بھی کہے بنا کروٹ بدل گیا

اونہہ۔۔۔۔۔یوں کہیں ناں کہ اب مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔بزدل انسان۔۔۔۔۔وہ بلند آواز سے بڑبڑائی

بزدل نہیں ہوں میں سمجھی۔۔۔۔۔اور جہاں تک نظریں نہ ملانے کا مسلہ ہے تو میں نے  ایسا کچھ غلط نہیں کیا کہ تم سے نظریں چراتا پھروں۔۔۔۔اس لیے خاموشی سے سو جاؤ

 مجھے سونے کے لیے آپ کی پرمیشن  نہیں چاہیے۔۔۔۔

تو مت سوؤ مگر زبان بند رکھو اپنی مجھے سونا ہے۔۔۔

میری زبان ہے میں کھولوں یا بند رکھوں۔۔۔وہ بدتمیزی سے بولی

مسلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔۔وہ غراتا ہوا اسکی طرف آیا

 تحمل سے جواب دے رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر چڑھ جاؤ۔۔۔۔اپنی حد مت بھولو تم

بھول چکی ہوں میں سب۔۔۔۔یاد ہے تو بس اتنا کہ میں آپکی بیوی ہوں اور  آپ کے بچے۔۔۔۔۔

اسٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔یوں چلا کر کیا باور کروانا چاہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر یہ سمجھ رہی ہو کہ تمہارا یہ واویلا تمہارے کام آئے گا اور میں تمہاری طرف مائل ہو جاؤں گا۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ہیر بی بی۔۔۔۔تم میری شرعی  بیوی ہو اور میں نے تم سے جائز تعلق بنایا  ہے۔۔۔تمہیں کوئی  تکلیف ہے تو رہے آئی ڈیم کئیر۔۔۔یشب نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا

مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کو اپنی طرف مائل کرنے کا کیونکہ اگر مجھے ایسا کوئی شوق  ہوتا تو آپ تین ، چار  ماہ  بھی خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے یشب خان آفریدی 

اور اگر آپ کو کئیر نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے سمجھے آپ۔۔۔۔۔میں کل ہی اپنے گھر والوں سے ملنے جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو خود بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور نہ ہی آپکو بیٹھنے دوں گی۔۔۔ہیر نے دھمکی دی

ناجانے اتنی بہادری اس میں آئی کہاں سے تھی جو وہ  ماضی کی نڈر ہیر بن چکی تھی شاید ماں بننے کے جزبے نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی جو وہ  یشب کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔۔۔

کل کی کل دیکھی جائے گی۔۔۔فلحال بیڈ سے اٹھ کر اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔

کیوں جاؤں۔۔۔۔۔جب تعلق جائز ہے تو پھر  آپ کو تکلیف کس چیز کی ہے۔۔۔۔

یشب اسکی بدتمیزی اور بدزبانی پر ٹیمپر لوز کرتا اس پر چڑھ دوڑا

ایک۔۔۔دو۔۔۔۔وہ تیسرا ٹھپڑ مارنے  ہی والا تھا کہ بیچ میں رک گیا

آج کے بعد زبان درازی کی تو سزا اس سے بھی بدتر ہو گی سمجھی اس لیے  کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔۔

پیچھے ہیر گھٹنوں میں سر دئیے سسک اٹھی۔۔۔۔وہ تو سمجھی تھی کہ شاید  اسکی سزا ختم ہونے جا رہی ہے  مگر نہیں وہ غلط سمجھی  تھی شاید۔۔۔

"کوئی پوچھے ذرا ان سے

کہ دل جب مر گیا ہو تو،

کیا تدفین جائز ہے ؟

کوئی پوچھے ذرا ان سے

محبت چھوڑ دینے پر،

دلوں کو توڑ دینے پر،

کوئی فتوی نہیں لگتا؟

کوئی پوچھے ذرا ان سے،

محبت اس کو کہتے ہیں؟

جو سب کچھ ختم کرتی ہے،

دلوں کو بھسم کرتی ہے،

اگر یہی محبت ہے !

تو نفرت کس کو کہتے ہیں؟"

……………………………………………………………

بی بی جان مجھے آپ سے ضروری  بات  کرنی ہے۔۔۔۔ہیر  ان کے کمرے میں موجود بات کرنے کی  اجازت لے رہی تھی

بولو بچے۔۔۔۔بی بی جان قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹتیں بولیں

بی بی جان میں اپنے گھروالوں سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

بی بی جان کو وہ کچھ دن سے بدلی بدلی اور نڈر سی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ وجہ جاننے سے قاصر تھیں

بچے مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے ۔۔۔۔تم  یشب سے اجازت لے لو

وہ نہیں دیں گے اجازت۔۔۔۔اس لیے مجھے صرف آپکی اور باباجان کی اجازت چاہیے بس۔۔۔۔وہ دوٹوک بولی

بیٹھو۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکا انداز دیکھتے ہوئے کہا 

ہیر پاس پڑی چئیر پر ٹک گئی۔۔۔۔۔

اب بولو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟گھروالوں سے کیوں ملنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟

مجھے یاد آ رہی ہے سب کی۔۔۔اور بناقصور کے جتنی سزا بھگت چکی ہوں کافی  ہے۔۔۔آپ اپنے بیٹے سے کہیں یا تو مجھے مار دے یا پھر مجھے میرے گھروالوں سے ملنے دے۔۔۔۔

یشب سے جھگڑا ہوا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟بی بی جان تو اسکے دھیمے انداز کی قائل تھیں اور  اب وہ جس انداز میں بات کر رہی تھی وہ ان کے لیے  حیران کن  تھا

نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا

ہاتھ اٹھایا ہے اس نے تم پر۔۔۔۔۔؟؟؟

ہیر نے انکے صیح اندازے پر جھٹکے سے سر اٹھایا

تمہارے گال پر نشان ہیں۔۔۔انہوں نے ہیر کے بولنے سے پہلے ہی نشانی بتائی

دوبارہ وہ تم پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا تم بے فکر ہو جاؤ۔۔۔۔انہوں نے یقین دلایا

اونہہ۔۔۔یہ ہاتھ تو ناجانے کتنی دفعہ اٹھ  چکا ہے بی بی جان آپ کو اب معلوم پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ہیر دل میں ہمکلام ہوئی

بی بی جان بات ہاتھ اٹھانے کی نہیں ہے بات تو بےقصور  سزا  کاٹنے کی ہے۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی

ہیر بچے تم اسی علاقے کی پلی بڑھی ہو تم سے بہتر کون یہاں کے رسم و رواج جانتا ہو گا پھر شکوہ کس بات کا۔۔۔؟؟

بی بی جان میں تھک چکی ہوں۔۔۔۔وہ مایوس ہوئی

ہمت سے کام لو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

نہیں ہو گا کچھ بھی ٹھیک۔۔۔جب شروع سے اب تک نہیں ہو پایا تو پھر اب کیسے ہو گا۔۔۔۔؟؟

میں۔۔۔آپ۔۔۔ہم سب عورتیں اپنے ہی رشتوں کی خاطر سولی چڑھا دی جاتی ہیں  اور پھر امید کی جاتی ہے کہ بے زبان جانور بن  کر  ہر ظلم ، ہر سزا سہتے جاؤ۔۔۔نہ پہلے کچھ بدلہ ہے اور نہ ہی  اب بدلے گا

میں بات کروں گی یشب سے کہ تمہیں گھر والوں سے ملا لائے۔۔۔۔بی بی جان نے تسلی دی

نہیں۔۔۔۔مجھے یشب آفریدی کی بھیک نہیں چاہیے۔۔۔۔مجھے نہیں ملنا  ہے گھروالوں سے۔۔۔۔وہ انکار کرتی روتی ہوئی باہر نکل گئی

بی بی جان نے افسردہ ہو کر  پاس پڑا فون اٹھایا اور مہرو کا نمبر ڈائل کیا

……………………………………………………………

ہیر ایسے کیوں بیٹھی ہو طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو فکرمندی سے پوچھتی اسکے سامنے آئی

وہ دو دن پہلے ہی واپس آئی تھی۔۔۔بی بی جان نے ہی اسے واپس بلوایا تھا

میں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر ہلکا سا مسکرائی

کیا خاک ٹھیک ہو۔۔۔۔گل بتا رہی تھی تم کھانے پینے میں بھی لاپرواہی برتتی ہو

اسی لیے تو رنگت اتنی پیلی ہوتی جا رہی ہے تمہاری۔۔۔خود کو کیوں سزا دے رہی ہو۔۔۔؟؟

جب زندگی کا مقصد ہی سزا جھیلنا ہے بھابھی تو پھر پرواہ کرنے کا کیا فائدہ۔۔؟؟وہ مایوسی سے بولی 

ہیر یشب کا رویہ تو شروع دن سے ہی مناسب نہیں تھا پر تم تو صبر سے کام لے رہی تھی۔۔۔پھر اب ایسا کیا ہوا جو تم اتنی مایوس ہو چکی ہو۔۔۔؟؟

میں پہلے مایوس نہیں تھی بھابھی اسی لیے تو صبر سے برداشت کر رہی تھی  سب۔۔۔۔پر اب وقت اور حالات مجھے مایوس کر چکے ہیں اسی لیے میری برداشت بھی ختم ہوتی جا رہی۔۔۔۔۔

گھروالے بہت یاد آ رہے ہیں کیا۔۔۔۔؟؟میں  یشب سے بات  کروں گی۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔۔مجھے کسی کی  یاد نہیں آرہی اور نہ ہی میں کسی سے ملنا چاہتی ہوں۔۔

دیکھو ہیر جو بھی مسلہ ہے مجھ سے شئیر کرو پلیز۔۔۔۔مہرو فکرمند ہوئی

بھابھی مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔۔میں ٹھیک ہوں

تم بتانا نہیں چاہتی تو اور بات ہے۔۔۔۔میں تمہیں ایسی چھوڑ کر نہیں گئی تھی جیسی تم ہو چکی ہو۔۔۔

ہیر کیا کہتی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی  رہی

مہرو نے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر مزید پوچھنا مناسب نہ سمجھا

 اچھا میں تمہارے لیے دودھ بھجواتی ہوں پی لینا ورنہ میں خفا ہو جاؤں گی

جی پی لوں گی۔۔۔ہیر اسکی پیار بھری دھمکی پر مسکرا دی۔۔

…………………………………………………………

یشب۔۔۔۔۔۔

وہ سیڑھیوں کے پاس اپنے نام کی پکار پر مڑا

کہاں تھے تم اب تک۔۔۔؟؟ جانتے ہو بی بی جان کتنی دفعہ پوچھ چکی ہیں تمہارا۔۔۔مہرو نے فکرمندی سے پوچھا

مل آیا ہوں بی بی جان سے۔۔۔۔

کھانا کھایا۔۔۔۔؟؟؟

ابھی تو آیا ہوں۔۔۔آپ نے انویسٹی گیشن شروع کر  دی

اچھا فریش ہو کر آ جاؤ میں لگاتی ہوں کھانا۔۔۔

ابھی آیا۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا

کمرے میں داخل ہوتے ہی یشب کی نظر سامنے جائے نماز پر سجدے کی حالت میں جھکی ہیر پر پڑی۔۔۔

وہ سر جھٹکتا واش روم چلا گیا

پندرہ ، بیس منٹ بعد جب وہ بالوں میں ٹاول رگڑتا باہر نکلا تو ہیر ابھی بھی اسی حالت میں تھی

یشب نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنائے اور جان بھوج کر برش زور سے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔۔۔۔

مگر اس کھٹکے پر بھی ہیر ٹس سے مس نہ ہوئی

وہ مشکوک ہوتا اسکی طرف آیا

ہیر۔۔۔۔۔

ہیر۔۔۔۔پھر پکارا مگر ہیر نے کوئی جواب نہ دیا

یشب نے فکرمندی سے زمین پر بیٹھ کر ہیر کا کندھا ہلایا

اس ذرا سے جھٹکے پر وہ یشب کی طرف لڑھک گئی

ہیر۔۔رر۔۔۔ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو پلیز۔۔۔۔۔وہ ہیر پر جھکا  اسکے گال تھپتھپا رہا تھا

کیا ہوا ہیر کو۔۔۔۔۔مہرو دروازے سے بھاگتی ہوئی پاس آئی

وہ اتنی دیر انتظار کے بعد یشب کو بلانے آئی تھی جب کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے ہیر کو گرے دیکھا 

پتہ نہیں بھابھی۔۔۔میں جب آیا تو یہ سجدے کی حالت میں تھی اور اب میرے ہلانے سے۔۔۔۔

ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر۔۔رر۔۔۔مہرو اسکے ہاتھ سہلاتی ہوئی پکار رہی تھی

یشب ہمیں ہوسپٹل  لے جانا چاہیے۔۔۔۔۔جلدی کرو۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں بے ہوش ہوگئی ہے

جی۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے جھک کر ہیر کا وجود بازؤں میں بھرا اور باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔

تم گاڑی تک لے جاؤ میں چادر لے کر آتی ہوں۔۔۔۔مہرو کہتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی

چند منٹ بعد یشب اور مہرو ہیر کے بے ہوش وجود کو لیے ہوسپٹل جا رہے تھے

……………………………………………………………

مسز یشار۔۔۔۔۔۔پیشنٹ سے کیا رشتہ ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر رضیہ نے مہرو سے پوچھا وہ مہرو کو جانتی تھی کیونکہ ان کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہوسپٹل  کی یہ خوبصورت سی عمارت یشار آفریدی اور خاقان آفریدی کی ہی محنتوں  کا ثمر تھی

میری۔۔۔۔۔میری دیورانی ہے۔۔۔۔مہرو نے ایک نظر پاس کھڑے یشب پر ڈال کر اصل رشتہ بتایا

ہوں۔۔۔۔۔کب ہوئی ہے شادی۔۔۔۔؟؟؟

آپ یہ بتائیں کے پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے۔۔۔۔اس کا بائیوڈیٹا جان کر کیا کریں گی آپ۔۔۔۔یشپ ہائپر ہوا

تم چپ رہو یشب۔۔۔۔۔

اٹس اوکے مسز یشار میں ان کے مزاج کو جانتی ہوں اکثر  یہاں کا اسٹاف ان کے غصے سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان  دونوں کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں آنے کا کہا

پلیز ہیو آ سیٹ۔۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں

یشب بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتا چئیر گھسیٹ کر بیٹھا

مہرو اس کے سرخ چہرے سے اسکا غصہ بھانپ گئی تھی۔۔۔۔

پلیز ڈاکٹر رضیہ بتائیں  ہیر کیسی ہے اب۔۔۔۔۔؟؟؟

شی از فائن ناؤ۔۔۔۔۔

ہوا کیا تھا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اچانک کیسے بے ہوش ہو گئی

اس کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے مسز یشار آپ تو خود ایک ماں ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ مسکرا کر بولیں

کیسی کنڈیشن۔۔۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟؟؟

ڈاکٹر نے ایک نظر یشب کو دیکھا جو ٹکٹکی سے سامنے لگے وال کلاک کو گھور رہا تھا

شی ہیز ٹو منتھس پریگنینسی۔۔۔۔

جی۔۔۔۔؟؟؟ مہرو اس خبر پر شاکڈ ہوئی

آپ نہیں جانتی کیا۔۔۔۔؟؟؟

نن۔۔۔۔۔نہیں ایسی بات نہیں وہ ایکچولی میں اپنے پیرنٹس کی طرف تھی تبھی یہ خوشخبری ملی تھی۔۔۔۔مہرو نے بروقت بات کو سنبھال لیا

اوہ۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ ہونٹ سکیڑ کر  مسکرائیں 

بٹ ہر کنڈیشن از ٹو مچ کریٹیکل۔۔۔۔۔ان  کی ڈائیٹ کا خاص خیال رکھیں۔۔۔۔کافی ویکنیس ہے جسکی وجہ سے  وہ بے ہوش ہو گئیں تھیں

میں میڈیسن لکھ رہی ہوں۔۔۔باقاعدگی سے میڈیسن دیں کھانے پینے کا پراپر خیال کریں اور دس ، پندرہ دن کی سپیس  سے چیک اپ کرواتیں رہیں۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔ہم گھر لے جا سکتے ہیں اب۔۔؟؟ مہرو نے اجازت مانگی

بلکل۔۔۔۔۔

اوکے تھینکس۔۔۔۔۔مہرو نے ڈاکٹر رضیہ سے ہاتھ ملایا اور یشب کی طرف مڑی

یشب اسکے مڑنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل چکا تھا۔

……………………………………………………………

واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔۔۔۔

تم ہیر کو کمرے میں لے جاؤ میں کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔۔۔۔ مہرو نے سیڑھیوں کے پاس ہیر کے گرد سے بازو ہٹا کر یشب سے کہا

اسکی ٹانگیں سلامت ہیں خود چل کر جا سکتی ہے یہ۔۔۔۔وہ پھنکار کر کہتا سیڑھیاں چڑھ گیا

مہرو ایک ملامتی نظر اس پر ڈال کر ہیر کو پکڑے  آگے  بڑھی

بھابھی مجھے کوئی اور کمرہ مل سکتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ یا پھر ایسا کریں مجھے بیسمنٹ میں ہی چھوڑ آئیں میں وہاں سکون میں  رہوں گی۔۔۔۔

اس حویلی میں بہت سے کمرے ہیں ہیر تم کسی کمرے میں بھی ٹہر سکتی ہو پر  یشب کے کمرے میں۔۔۔۔۔

نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ہیر نے نفی میں سر ہلایا

اچھا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو کل اپنی مرضی سے کوئی بھی کمرہ سیٹ کروا لینا ہوں۔۔۔۔وہ ہیر کی حالت کے پیش نظر بولی

جی۔۔۔۔۔

مہرو اسے لیے اپنے کمرے میں آئی

تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں

مجھے ذرا بھی بھوک نہیں ہے بھابھی۔۔۔۔

چپ رہو تم۔۔۔۔اب میں تمہاری ایک بھی سننے والی نہیں۔۔۔۔مہرو ڈپٹتی کمرے سے نکل گئی

ہیر نے ڈھیلے سے انداز میں گردن صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔

کئی آنسو لڑیوں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر اسکی گالوں کو بھگو گئے

کب تک۔۔۔۔کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔؟؟ پہلے تو میں اکیلی تھی مگر اب۔۔۔۔۔۔۔

میرے مالک میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟میری سزا کب ختم ہو گی۔۔۔۔؟؟ کیا ساری زندگی مجھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنی ہو گی؟؟۔۔۔۔نہیں میرے مالک۔۔۔۔نہیں۔۔۔مجھ میں اب مزید  سکت باقی نہیں  رہی ہے۔۔۔۔مجھے معاف کر دے میرے مالک معاف کر دے۔۔۔۔۔۔

ہیر سو گئی کیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا

 وہ جلدی سے آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی۔۔۔نہیں جاگ رہی ہوں۔۔۔۔

چلو پھر جلدی سے یہ سب ختم کرو اور میڈیسن لے کر آرام کرو

مہرو نے پاس بیٹھ کر زبردستی اسے تھوڑا بہت کھانا کھلا کر میڈیسن دی اور بیڈ پر لیٹا کر کمبل اوڑھایا

ہیر نے تشکرانہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور  آنکھیں بند کر لیں۔

کبھی کبھی انسان واقعی ہار جاتا ہے

خاموش رہتے رہتے

صبر کرتے کرتے

امیدیں رکھتے رکھتے

رشتے نبھاتے نبھاتے

صفائیاں دیتے دیتے

اپنوں کو مناتے مناتے 

اور کبھی کبھی خود سے !!!

…………………………………………………………

بھابھی لائیں یہ میں کرتی ہوں۔۔۔ہیر نے کیچن میں چائے بناتی مہرو سے ساس پین پکڑا

ارے نہیں تم ریسٹ کرو جا کر یہ سب ہو جائے گا

میں بہت ریسٹ کر چکی ہوں اس لیے مجھے بنانے دیں چائے اور آپ لان میں چلیں میں چائے لے کر وہیں آتی ہوں

چلو ٹھیک ہے بناؤ تم میں چلی جاتی ہوں۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی

کچھ دیر بعد ہیر بھی چائے کی ٹرےلیے لان میں آئی

آجکل موسم کافی اچھا ہے ناں۔۔۔۔مہرو نے اردگرد دیکھتے ہوئے ہیر کی رائے لی

ہوں اچھا ہے۔۔۔۔وہ اپنا کپ لیے چئیر پر بیٹھی

جھیل والی سائیڈ پر گئی ہو کبھی۔۔۔۔۔چند منٹ کی  خاموشی کے بعد مہرو نے پوچھا

ہوں۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔

اب بھی جانے کو دل کرتا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔۔۔۔  ہیر نے نفی میں گردن ہلائی

کیوں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

اگر انسان اندر سے خوش اور مطمعین ہو تو سب کچھ  کرنے کو دل چاہتا ہے ورنہ نہیں۔۔۔

ہیر۔۔۔یشب۔۔۔۔

بھابھی پلیز مجھے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی

کیوں نہیں کرنی ہے ہیر۔۔۔۔یشب ناصرف تمہارا شوہر ہے بلکہ اب تو وہ تمہارے بچے کا باپ بھی بننے والا ہے

اس سے کیا ہو گا۔۔۔۔جب انہیں میرے وجود سے سروکار نہیں تو پھر اس بچے سے کیا ہو گا جو صرف ایک لمحاتی  غلطی کا نتیجہ ہے

ایسے مت کہو ہیر۔۔۔۔میں مانتی ہوں  یشب غلط کر رہا ہے تمہارے ساتھ مگر تم اسکی بیوی ہو اسکی نسل کی امین ہو۔۔۔۔پھر کیسے اسے تم سے یا اس بچے سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔اچھا ایک  بات پوچھوں  سچ سچ بتاؤ گی ناں  بڑی بہن سمجھ کر۔۔۔۔۔؟؟؟ 

جی پوچھیں۔۔۔۔۔۔

تم یشب کو پہلے سے جانتی تھی میرا مطلب ہے نکاح سے پہلے۔۔۔۔؟؟

آپ سے کس نے کہا کہ میں انکو جانتی ہوں۔۔۔ہیر نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا

یشب نے۔۔۔۔

یشب۔۔۔۔۔۔یشب خان نے۔۔۔۔۔؟؟؟؟وہ حیران ہوئی

ہوں۔۔۔۔۔اسی نے بتایا

کب۔۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟؟

جھیل کے پاس۔۔۔۔۔

ہیر منہ کھولے ساکت تھی۔۔۔۔۔تو کیا اس شخص کو وہ سرسری  سی ملاقات ابھی  تک یاد تھی

کیا ہوا۔۔۔۔کچھ غلط کہا میں نے۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی شکل دیکھ کر بولی

ہوں۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اصل میں وہ۔۔۔۔

ہیر میں تمہیں چھ سال پہلے سے جانتی ہوں جب تم پہلی بار یشب سے ملی تھی۔۔۔۔

ہیر نے حیرت سے مہرو کو دیکھا

اصل میں یشب نے تمہارے بارے میں مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔۔۔وہ اس ملاقات کے بعد کئی بار وہاں جھیل کے پاس تم سے ملنے کی امید لیے گیا تھا مگر تم اسے دوبارہ نہیں ملی۔۔۔۔۔۔یشب ان دنوں لندن میں پڑھ رہا تھا اور چھٹیوں پر آیا تھا جب تم اسے ملی پھر ہر بار وہ جب بھی چھٹیوں پر آتا تو جھیل کنارے ضرور جاتا تھا۔۔۔۔مگر تم  نے دوبارہ اسے نہیں ملنا تھا سو نہی ملی۔۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات ماضی کا حصہ بن گئی۔۔۔۔میں نے بھی پھر دوبارہ کبھی یشب سے تمہارے بارے میں نہیں پوچھا۔۔۔۔کیونکہ حدید کے آنے سے میں کافی سے زیادہ مصروف ہو چکی تھی اور سچ پوچھو تو میں اس بات کو بھول ہی چکی تھی۔۔۔۔

جس روز تم پنچائیت سے آئی تھی اس روز مجھے تمہارے پورے نام کو سن کر شاک لگا تھا۔۔۔۔کیونکہ یشب کو جو لڑکی چھ سال پہلے ملی تھی جسے وہ پسند کرنے لگا تھا اس کا نام بھی ہیر دلاور خان تھا۔۔۔۔

تب۔۔۔۔تب میں نے یشب سے ہی کنفرم کیا کہ تم وہی ہیر ہو جو اسے جھیل پر ملی تھی۔۔۔۔؟؟

اس کے اقرار کے بعد میرے دل میں تمہارے لیے جو تھوڑا بہت میل تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اور یقین مانو ہیر جہاں تک میرا خیال ہے  یشب تم پر صرف ظاہری غصہ کرتا ہے اندر سے وہ  ابھی بھی۔۔۔۔۔

بھابھی۔۔۔۔۔یشب کی بھاری آواز پر جہاں مہرو کو بریک لگا وہاں ہیر بھی کھلا منہ بند کرتی سر جھکا گئی

یش۔۔۔یشب تم۔۔۔۔؟؟

جی میں۔۔۔۔کونسی کہانیاں سنا کر دل بہلا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔وہ طنز کرتا ہیر کی طرف آیا

اور تم۔۔۔۔تم یہ معصوم سی شکل بنا کر  سب کی ہمدریاں سمیٹ کر میرے خلاف کر دو گی تو  یہ بھول ہے تمہاری۔۔۔۔۔ 

یشب چپ ہو جاؤ تم۔۔۔۔یوں چیخ چلا کر اپنا غصہ ہیر پر نکال کر کس کو دھوکا دے رہے ہو خود کو ، ہیر کو یا ہم  سب کو۔۔۔۔مان کیوں نہیں لیتے کہ ہیر آج بھی تمہارے  دل میں۔۔۔۔

بسسسس۔۔۔۔۔اس سے آگے کچھ نہیں۔۔۔۔یشب نے ہاتھ اٹھا کر مہرو کی بات کاٹی

میرے دل میں آپ کی ہیر نہ کبھی تھی اور نہ ہی کبھی ہو گی غور سے سن لیں 

اس لیے ان باتوں سے اسکا جی مت  بہلائیں کیونکہ میں اسے۔۔۔۔۔۔

خان جی وہ بڑے خان مردانے میں۔۔۔۔

یشب کی ایک خونخوار نظر نے سکینہ کی بولتی بند کی وہ جانتی تھی وہ کیا کر چکی ہے۔۔۔۔

 دوبارہ ایسی غلطی ہوئی تو۔۔۔

نن۔۔۔۔۔نہیں خان جی۔۔۔۔۔دوبارہ نہیں ہو گی

وہ ایک تیکھی نظر اس پر ڈالتا مردانے کی طرف بڑھ گیا

 کتنی دفعہ کہا ہے سکینہ کے جب وہ بات کر رہا ہو تو بیچ میں مت کاٹا کرو جانتی تو ہو اس کے مزاج کو مگر نہیں بے عزتی کروانے کی عادت جو پڑ چکی ہے تمہیں۔۔۔۔۔مہرو نے ڈپٹا

معاف کر دیں۔۔۔مہرو باجی آئندہ نہیں ہو گی

اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔۔۔سکینہ جان بخشی پر اندر کی طرف بھاگ گئی

مہرو نے ہیر کا کندھا ہلایا۔۔۔۔ہیر اسکی باتوں کو دل پر مت لو ایسے ہی جو منہ میں آتا ہے بول دیتا ہے چلو میرے ساتھ بی بی جان  کے کمرے میں ۔۔۔

آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔ہیر مدھم سا منمنائی

نہیں میرے ساتھ ہی چلو میں نے انہیں کچھ  دیر پہلے خوشخبری سنائی تھی  تمہارا پوچھ رہی تھیں چلو چل کر نصیحتیں اور دعائیں لے لو۔۔۔۔مہرو نے ٹہوکا  دیا

ہوں چلیں۔۔۔۔۔وہ کھڑی ہوئی

دونوں آگے پیچھے بی بی جان کے کمرے کیطرف چلی گئیں

…………………………………………………….….

مہرو عشاء کی نماز پڑھ کر ہٹی تھی  جب گل اجازت مانگتی اندر داخل ہوئی

مہرو باجی۔۔۔۔۔۔ہیر  بی بی کو چھوٹے خان بلا رہے ہیں۔۔۔

پیغام پر ہیر کا میگزین کا صفحہ پلٹتا ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوا

مہرو نے ایک نظر اسے دیکھ کر گل کو اچھا کہہ کر رخصت کیا اور خود ہیر کی طرف آئی

ہیر جاؤ۔۔۔۔۔یشب بلا رہا ہے

میں۔۔۔۔میں نہیں جاؤں گی بھابھی

دیکھو ہیر تم اسکی بیوی ہو حویلی میں سب کو پتہ چل چکا ہے کہ تم یشب کے بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔۔پھر یوں کمرہ الگ کر کے کیوں دوسروں کو باتوں کا موقع دے رہی ہو۔۔۔

یوں کہیں بھابھی کہ دو دن میں ہی اکتا گئیں ہیں مجھ سے۔۔۔وہ روہانسی ہوئی

تم ایسا سمجھ رہی ہو تو میں تمہاری بات کو جھٹلاؤں گی نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ میں وہ سوچ رہی ہوں جو تم دونوں ہی نہیں سوچ اور سمجھ پا رہے۔۔۔۔

ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں۔۔۔۔ہیر کمبل ہٹا  کر کھڑی ہوئی

خفا ہو کر جا رہی۔۔۔۔۔؟؟

نہیں۔۔۔۔۔۔

تو پھر رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے۔۔۔۔۔مہرو اسکے پاس آ کر مسکرائی

میری صورت ہے ہی ایسی۔۔۔

ایویں۔۔۔۔تمہاری صورت تو اتنی پیاری ہے کہ جسکی صرف آنکھوں کو دیکھ کر ہی  یشب خان آفریدی عرف کھڑوس مر مٹا تھا۔۔۔۔

ہیر لفظ کھڑوس پر کھلکھلا اٹھی

یہ ہوئی ناں بات یوں ہی ہنستی رہا کرو۔۔۔۔

عنقریب وہ پھر سے تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔۔مہرو نے اسکے سر پر ہاتھ رکھے بنگالی بابا  کی نقل اتاری

بھابھی۔۔۔۔

سوچو ذرا یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی تمہارے قدموں میں کیسا لگے گا۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے شرارت سے آنکھ دبائی

بھابھھھھھھیییییی۔۔۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔

چلو جاؤ اب رب راکھا کہیں وہ محترم بندوق لے کے ہی نہ تمہیں رخصت کروانے آ جائیں

ہیر  اسکی بات پر مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی

…………………………………………………………

ہیر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی اسکی نظر سامنے کھڑے یشب پر پڑی جو اسے  ہی دیکھ بلکہ گھور رہا تھا

وہ سر جھکائے مضبوط  قدم بڑھاتی  قریب آئی

آپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟؟

تمہارا کمرہ کونسا ہے۔۔۔۔؟؟؟تیکھے انداز میں پوچھا گیا

پتہ نہیں۔۔۔

تو پھر کسے پتہ ہے۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھی

آپ کو۔۔۔۔۔۔

مجھے۔۔۔۔۔وہ استہزایا ہنسا

آج کے بعد یہ ڈرامہ رچایا تو بلکل بھی اچھا نہیں کروں گا میں۔۔۔

پہلے کونسا اچھا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ دل میں بڑبڑائی

سن رہی ہو میری بات۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا دیا

عمل بھی ہونا چاہیے۔۔۔۔۔اور ہاں بی بی جان کو میرے ہاتھ اٹھانے کا تم نے بتایا تھا۔۔۔؟؟؟یشب نے اسے بازو سے کھینچ کر قریب کیا

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہیر نے  اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جھرجھری لی۔۔۔جو بے انتہا سرخ تھیں

وہ خوف کے باعث چند سکینڈ سے زیادہ اسکی لال انگارہ آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھی

تو پھر انہیں خواب آیا کہ میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔۔یشب بلند آواز میں بولا

مم۔۔۔۔میں نے نہیں بتایا خان۔۔۔۔وہ تو انہوں نے گال پر نشان دیکھ لیے تھے تو۔۔۔۔۔۔وہ ہلکا ہلکا لرزتی بولی

یشب نے ایک نظر اس کے گالوں پر ڈالی اور جھٹک کر اسے  پیچھے دھکیلا

ہیر اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھی اس لیے پیچھے کو الٹے منہ زمین پر  گری

اماں۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی

یشب نے ہر گز نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنے ہلکے سے جھٹکے پر اتنی بری طرح سے گرے گی

ہیر۔۔۔۔واٹ ہیپنڈ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔تم ٹھیک تو ہو ناں ہیر۔۔۔۔۔۔۔وہ اس پر جھکا پوچھ رہا تھا

ہیر تکلیف کی وجہ سے صرف نفی میں سر ہلا پائی

کیا ہوا۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔وہ ہیر کا سر گود میں رکھے مہرو کو پکار رہا تھا

خا۔۔۔۔۔خان۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔سپٹل۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں بمشکل اتنا ہی کہہ  پائی

یشب اسکے منہ سے لفظ ہوسپٹل سنتا جلدی سے اسے بازؤں میں اٹھائے  نیچے کی طرف بھاگا

………………………………………………………

سوری خان صاحب ہم کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پائے

آپکی مسز کا مس کیرج ہو گیا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے افسردہ  انداز  میں خبر سنائی

دھڑام۔۔۔۔۔

دھڑام۔۔۔۔۔

دھڑام۔۔۔۔۔

یشب خان آفریدی اپنی بنائی گئی اونچائی سے منہ کہ بل دھڑام سے گرا تھا

۔۔

ہیر کیسی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ اتنی مدھم آواز سے بولا کہ ڈاکٹر  بمشکل سن پائیں

ٹھیک ہیں مگر فلحال  غنودگی میں ہیں  آپ مل سکتے ہیں۔۔۔۔روم میں شفٹ کر دیا ہے۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔۔وہ سر ہلا کر کہتا اپنے بھاری قدم گھسیٹتا ہیر کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔

یہ کیا کر دیا یشب خان تم نے۔۔۔۔؟؟اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔۔۔۔ کیا اب اسکا انتقام خود سے لو گے جیسے شمس کا انتقام ہیر سے لیتے رہے ہو۔۔۔۔؟؟وہ تو بےقصور تھی بیچاری۔۔۔۔ مگر تم۔۔۔تم تو انجانے میں ہی سہی پر  قصوروار بن چکے ہو یشب خان۔۔۔اپنی  ہی اولاد کو کھا گئے ہو تم۔۔۔انسان ہو یا پھر درندے جو اپنی ہی اولاد کو نوچ گھوسٹ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟بولو کیا ہو تم۔۔۔۔۔۔؟؟اسکا ضمیر کھینچ کھینچ کے طمانچے مارتا اسے آئینہ دیکھا رہا تھا

اب کیا کرو گے خود کیساتھ۔۔۔۔؟؟؟کیا وہی مار پیٹ وہی لعن طعن کرو گے خود کیساتھ جو ہیر کیساتھ کر چکے ہو اسکی سزا کے طور پر۔۔۔۔؟؟

نہیں۔۔۔۔۔اسکا ضمیر استہزائیہ ہنسا۔۔۔۔تم خود کیساتھ ایسا کچھ کیوں  کرو گے بھلا مرد جو ٹہرے اور وہ ٹہری ایک عورت۔۔۔۔۔

جس کی پرواہ کیے بغیر تم نے اس سے ناروا سلوک روا رکھا۔۔۔۔جسے وہ زبان بند کیے سہتی رہی سہتی رہی۔۔۔۔تمہیں پروا ہی کب تھی اسکی یہ جو اب تمہاری شکل اتری ہے۔۔۔تمہاری آنکھوں میں نمی ہے تو یہ پچھتاوا ہے تمہارا اپنی اولاد کھونے کا نہ کے ہیر کیساتھ برے رویے کا۔۔۔

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں ہیر سے۔۔۔۔۔یشب تڑپ کے بڑبڑایا 

کیا۔۔۔۔؟؟کیا ہیر سے۔۔۔۔۔؟؟

میں محبت کرتا ہوں ہیر سے۔۔۔۔وہ وہیں پیلر سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا 

اونہہ۔۔۔۔محبت۔۔۔۔اسے محبت کہتے ہیں تو پھر نفرت کسے کہتے ہیں یشب خان۔۔۔۔۔؟؟

چند منٹ دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی

بولو اب چپ کیوں ہو گئے۔۔۔۔؟؟

اپنی بکواس بند کرو۔۔۔میں ہیر سے محبت کرتا ہوں۔۔۔کرتا تھا۔۔۔کرتا رہوں گا سمجھےتم۔۔۔۔۔یشب گھٹنوں سے سر اٹھا کر باآواز بلند چلایا

وہاں سے گزرتے سویپر نے رک کر حیرت سے یشب کو زمین پر بیٹھے اکیلے  ہی چلاتے دیکھا

یشب اسکی نظروں میں موجود حیرت اور تجسس دیکھ کر خود کو کوستا اٹھ کر ہیر کے روم کی طرف چلا گیا۔۔۔مگر قدم اب بھی کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔۔۔وہ بمشکل خود کو گھسیٹ کر کمرے میں داخل ہوا 

ہیر بیڈ پر  ہوش خرد سے بیگانہ پڑی تھی۔۔۔ایک ہاتھ میں  ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ دوسرا نیچے کو لٹک رہا تھا 

یشب آہستگی سے چلتا پاس آیا اور ہیر کے لٹکتے ہاتھ کو بیڈ پر رکھا

یہ۔۔۔یہ ہیر تو وہ ہیر نہ تھی جس نے  پہلی ملاقات میں ہی یشب آفریدی کے دل کو گدگدایا تھا۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر  یشب کو پھر سے اسے دیکھنے کی چاہ ہوئی تھی۔۔۔۔ جسکی ایک جھلک کی خاطر وہ کئی بار  جھیل پر گیا تھا۔۔۔۔۔جس کی شبیہہ یشب کے دل میں دھندلی ضرور ہو گئی تھی مگر مٹی نہیں تھی۔۔۔

یہ تو کوئی اور ہی ہیر تھی جو صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔۔۔۔۔پیلی رنگت ، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، سوکھے پھٹک ہونٹ۔۔۔کمزور و لاغر سی۔۔۔

یشب کو یاد آیا جب وہ اسے تہہ خانے سے نکال کر کمرے میں لایا تھا تو  رات کو وہ اندھیرے میں زمین پر اوندھے منہ گری تھی۔۔۔۔اور یشب نے اسکی بھری بھری ہیلتھی جسامت پر چوٹ کی تھی اور کرین منگوانے کا مشورہ دیا تھا اور اب۔۔۔۔اب تو وہ اس ہیر سے آدھی رہ چکی تھی۔۔۔۔۔

یشب کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑا۔۔۔

میں انتقام میں اتنا اندھا ہو چکا تھا کہ  بنا جرم کے تمہیں سزا دی۔۔۔۔میں اتنا گر گیا تھا کہ میں نےتم پر ہاتھ اٹھایا۔۔تمہاری ان آنکھوں میں آنسو لایا جن پر مر مٹا تھا میں۔۔۔۔۔وہ مزید آگے ہوا

تم۔۔۔۔۔تمہیں۔۔۔۔اپنی باتوں سے ٹارچر کیا۔۔۔۔بے وجہ ڈپٹا تم پر اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟کیوں میں اپنی بدلے کی آگ تمہارے وجود میں اتارتا رہا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟یشب کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ہیر کے  ڈرپ لگے ہاتھ پر گرا

مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو ہیر اس انتقام کی  آگ میں جل کر  میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھا۔۔۔اپنی ہی اولاد کو کھا گیا میں۔۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔وہ بے آواز بولتا  دل  میں ہیر سے ہمکلام تھا

میں نے بہت برا کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔بہت زیادتیاں کی ہیں۔۔۔بہت برا ہوں میں۔۔۔۔بہت برا۔۔۔اس نے جھک کر ہیر کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔۔۔

ہو سکے تو معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر ڈر چکا تھا ہیر۔۔۔۔۔کہ کہیں پھر سے تمہارا اسیر نہ ہو جاؤں مگر۔۔۔۔مگر میں یہ بھول چکا تھا کہ میں تو پہلے ہی تمہارا اسیر  ہوں اب کیا ہوں گا۔۔۔۔؟؟چند مزید آنسو گر کر ہیر کے سنہری بالوں میں جذب ہو گئے

بار بار تمہیں دیکھنے کی چاہ کی تھی  میں نے مگر جب یہ چاہ پوری ہوئی تو میرا انتقام  اس چاہ کے مقابل ڈٹ گیا۔۔۔۔

میرا انتقام مجھ سے سب کچھ چھین لے گیا ہے ہیر۔۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔دیکھو اس بدلے کے چکر میں میرے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔۔۔۔تمہارے گھر والوں کو تکلیف دینے چلا تھا میں۔۔۔۔اور آج پھر سے اپنی قیمتی چیز کھو جانے کی تکلیف سے گزر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔جو بھی ہوا سب میرا قصور ہے۔۔۔۔۔میری ہی وجہ سے ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی چلا گیا

اب کیا یہ انتقام میں خود سے لوں گا۔۔۔۔۔۔؟؟

نہیں۔۔۔۔۔اسکے اردگرد گونجا

جب نہیں۔۔۔۔۔تو پھر میں یشار لالہ کے خون کا بدلہ تم سے کیوں لے رہا تھا ہیر۔۔۔۔میں کیوں اسقدر گر گیا کہ خود کو۔۔۔۔

ایکسکیوزمی سر۔۔۔۔۔۔نرس کی آواز پر  یشب اپنے  آنسو پونچھتا پیچھے ہٹا

مجھے یہ انجیکشن دینا تھا انہیں۔۔۔

ہوں۔۔۔۔وہ سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا

نرس نے حیرت سے کھڑوس سے یشب خان کی یہ حالت دیکھی

لگتا ہے کافی محبت ہے اپنی بیوی سے۔۔۔۔حیرت ہے اسے غصے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے۔۔۔۔ویسے رومینس کرتے ہوئے کیسا لگتا ہو گا۔۔۔۔؟؟؟ ناذمہ ) نرس)   ہونٹ پر انگلی رکھے سوچنے لگی

کھڑے کھڑے فوت ہو چکی ہو کیا۔۔۔؟؟آمنہ نے روم میں اینٹر ہو کر اس پر طنز کیا

ارے نہیں میں تو بس۔۔۔۔۔

وارڈ میں راؤنڈ لو جا کر تمہاری ڈیوٹی ہے وہاں۔۔۔۔

پتہ ہے مجھے میری استانی مت بنو ڈاکٹر رضیہ نے انجیکشن لگانے بھیجا تھا مجھے یہاں۔۔۔۔

تو کیا لگا دیا۔۔۔۔۔؟؟ آمنہ نے بھنویں اچکائیں

لگا رہی ہوں۔۔۔۔

لگا کر جلدی ڈیوٹی پر آؤ میں تمہاری ملازمہ نہیں کہ تمہاری آدھی ڈیوٹی بھی میں ہی  دوں۔۔۔۔۔وہ کہہ کر واپس مڑ گئی

آ رہی ہوں ابھی۔۔۔۔ناذمہ نے منہ بگاڑتے ہوئے ہاتھ سیدھا کر کے  اسکی پشت  پر  لعنت بھیجی اور ہیر کے بازو سے وین ٹٹولنے لگی

……………………………………………………….

کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔۔۔ہیر نے آنکھیں کھولنے پر مہرو کو خود پر جھکے پایا

ہوں۔۔۔۔۔اس نے آہستہ سا سر ہلایا

چلو تھوڑی ہمت سے اٹھو۔۔۔میں تمہیں سوپ پلا دوں۔۔۔۔مہرو نے اسے سہارا دے کر ترچھا سا بیٹھایا اور سوپ پلانے لگی

تین ، چار چمچ لینے کے بعد ہیر نے مزید پینے سے منع کیا

تھوڑا سا اور پی لو۔۔۔۔

نہیں بھابھی بس۔۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔لٹا دوں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ مدھم سا بولی

بی بی جان بھی آنے کا کہہ رہی تھیں مگر میں نے منع کر دیا 

ڈاکٹر رضیہ نے شام تک ڈسچارج کرنے کا کہا ہے۔۔۔۔مہرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا  کہ کیا بات کرے۔۔۔۔تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا

ہیر خاموشی سے کچھ بھی کہے بنا سامنے دیوار کو دیکھتی رہی

ہیر۔۔رر۔۔۔چند منٹ بعد پھر سے مہرو نے پکارا

ہیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

ہیر جو ہو گیا اسے بھول جاؤ دیکھو ہماری قسمت میں جو لکھا ہو وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے اس لیے تم پریشان مت ہو اوپر والا اور دے دے گا

بھابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔مہرو کی باتوں  کے جواب میں وہ بس یہی  کہہ پائی

اچھا لیٹ جاؤ پھر۔۔۔۔مہرو نے آگے بڑھ کر اسے لیٹنے میں مدد کی اور اس پر چادر  درست کر کے پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گئی

ہیر نے لیٹ کر اپنی نم آنکھیں موند لیں۔۔

مہرو افسردگی سے ہیر کے کپکپاتے ہونٹوں اور پلکوں پر سجی نمی کو دیکھ رہی تھی

…………………………………………………………

یشب نے نرس کے آنے پر کمرے سے نکل کر مہرو کو فون کیا تھا

بیس ، پچیس منٹ بعد مہرو ڈرائیور کیساتھ ہوسپٹل آ گئی تھی

یشب کچھ کہے بنا نظریں چراتا ہوا باہر چلا گیا تھا

رات کو ہیر ایک ، دو بار ہوش  میں آئی تھی مگر غنودگی میں اور اب دوبارہ صبح ہوش آیا تھا ڈاکٹر رضیہ نے چیک اپ کے بعد شام تک ڈسچارج کرنے کا کہا تھا

شام کو مہرو ڈرائیور کیساتھ ہی ہیر کو واپس حویلی لے آئی تھی

بی بی جان نے بہت  پراثر اور ٹہرے  ہوئے لہجے میں ہیر کو سمجھایا اور  ہمت دی تھی۔۔۔۔مہرو  اسے  میڈیسن دے کر یشب کے کمرے  میں چھوڑ کر چلی گئی تھی

ہیر خاموشی سے چھت کو گھور رہی تھی جب  بالکونی کا دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا 

ہیر جانتی تھی کون ہو گا اس لیے اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں یوں جیسے  اب نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔۔

یشب شکستہ قدموں سے چلتا بیڈ کے پاس آیا

ہیر نے آنکھوں کیساتھ اپنی سانس بھی بند کر لی 

ہیر۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولا

ہیر۔۔۔رر۔۔۔پھر سے پکارا

ہیر کیطرف سے خاموشی پا کر وہ جھکا اور لب اسکے ماتھے پر رکھے

اس لمس پر ہیر نے کرب سے آنکھیں کھول کر یشب آفریدی کی آنکھوں میں دیکھا تو بنا کسی خوف کے دیکھتی چلی گئی

………………………………………………………

ہیر نے یشب آفریدی کے لمس پر کرب سے آنکھیں کھولیں

کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟وہ شرمندہ شرمندہ سا بولا

زندہ ہوں۔۔۔

ایسے مت کہو ہیر۔۔۔۔

میں ہیر نہیں ہوں۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو۔۔۔

کس بات کی معافی خان آپ تو حق پر تھے ناں۔۔۔۔وہ طنزیہ ہوئی

میں مانتا ہوں میں غلط تھا۔۔۔۔۔

اب کیا فائدہ اب تو ہو چکا جو ہونا تھا۔۔۔ویسے بھی جو ہوا بلکل ٹھیک ہوا۔۔ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔میں کونسا یہاں خوشیاں سمیٹنے آئی تھی جو خوشی راس آتی مجھے۔۔۔۔۔

ہیر میں شرمندہ ہوں تم سے میں نے ہر گز نہیں چاہا تھا کہ ہمارا بچہ۔۔  

ہمارا۔۔۔۔۔؟؟؟ہمارا نہیں یشب خان صرف میرا۔۔۔صرف میرا بچہ تھا۔۔۔۔اگر آپ کا ہوتا تو آپ وہ سب نہ کرتے جو کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ چیخنا چاہتی تھی مگر آنسوؤں کیوجہ سے اسکی آواز گھٹ  گھٹ کر نکل  رہی تھی

میں جان بھوج کر کیوں کروں گا ایسا ہیر یہ سب غلطی سے۔۔۔

میں کیوں مان لوں یہ سب غلطی سے ہوا۔۔۔۔وہ اسکی بات کاٹتی بولی

 جب میں یہاں چلاتی رہی کہ شمس لالہ نے یشار خان کا خون جان بھوج کر کسی دشمنی میں نہیں کیا بلکہ  غلطی سے ہوا تو آپ نے مانی تھی میری بات جو میں مانوں۔۔۔۔؟؟

کوئی بھی باپ اپنی اولاد کو کیسے مار سکتا ہے۔۔۔۔وہ بے بسی سے کہتا اپنی بے گناہی کا یقین دلانا چاہ رہا تھا

اس دنیا کا کوئی بھی مرد کچھ بھی کر سکتا ہے خان۔۔۔چاہے وہ باپ ہو ،شوہر ہو ،بھائی ہو یا بیٹا ہو

وہ کچھ بھی کر سکتا ہےاور میں ہر رشتے میں مرد کو جانچ چکی ہوں خان۔۔۔

مجھ سے بہتر کون جان پایا ہو  گا آپ مردوں کی اصلیت کیا ہے۔۔۔۔۔۔جس کے باپ نے اسے بیٹے کے جرم میں ونی کر دیا۔۔۔جس کے بھائی نے اسے اپنی غلطی کی سزا بھگتنے بھیج دیا۔۔۔۔۔جس کے شوہر  نے اسے خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کے سوا کچھ نہ سمجھا۔۔۔۔اور ۔۔۔اور جسکی اولاد اس دنیا میں آ کر ناجانے کیا کرتی اس کے ساتھ آپ نے اچھا کیا۔۔۔۔۔بہت اچھا کیا کہ پہلے ہی ختم کر کے مجھے مزید اذیت سہنے سے بچا لیا

ہیر۔۔۔مم۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر بولا

ہیر تکیے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رونے لگی

ہیر۔۔رر۔۔۔یشب نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیں

پلیز خان۔۔۔۔پلیز مجھے چند دن سوگ منانے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔مجھے خود کو اگلے امتحان کے لیے تیار کرنے دیں۔۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں خان۔۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔چھوڑ دیں مجھے میرے  حال  پر۔۔۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی

ابھی پہلی محبت کے،

بہت سے قرض باقی ہیں

ابھی پہلی مسافت کی،

تھکن سے چور ہیں پاؤں

ابھی یہ زخم تازہ ہیں،

یہ بھر جائیں تو سوچیں گے

دوبارہ کب اجڑنا ہے۔۔۔!

یشب کے پاس اب پیچھے ہٹنے کے سوا  کوئی چارہ نہ تھا۔۔چند منٹ اس نے وہاں بیٹھ کر ہیر کی پشت کو دیکھا اور  ایک دکھ بھری نظر اس کے ہچکیاں لیتے وجود پر ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا

کیونکہ اب وہ اسے مزید اذیت نہیں دینا چاہتا تھا

"میری محبتیں بھی عجیب تھیں٬

میرا فیض بھی کمال تھا

کبھی سب ملا بنا طلب٬

کبھی کچھ نہ ملا سوال پر!!

………………………………………………………………

ہیر کی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی۔۔۔ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اسے ہوسپٹل سے گھر آئے۔۔۔

اس رات کے بعد ہیر نے  دوبارہ یشب کو کمرے میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور نہ ہی کسی سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا تھا

اب بھی وہ آہستگی سے چلتی ہوئی ہال کمرے میں آئی جہاں بی بی جان اور مہرو موجود تھیں

ارے ہیر تم کیوں آ گئی کچھ چاہیے تھا تو انٹر کام سے بتا دیتی۔۔۔۔مہرو اسے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوئی

نہیں کچھ نہیں چاہیے تھا میں کمرے میں رہ رہ کر تھک چکی تھی اسی لیے خود ہی باہر آ گئی۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے کہتی انکی طرف آئی

اچھا آؤ بیٹھو۔۔۔۔مہرو نے اپنے ساتھ جگہ خالی کی

اسلام علیکم۔۔۔۔بی بی جان

وعلیکم سلام۔۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟

اللہ کا شکر  ہے بی بی جان ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی

ہوں۔۔۔۔ہمیں ہر حال میں شکر گزار ہی رہنا چاہیے بچے۔۔۔۔مہرو تم ہیر کو اپنے ساتھ ہی لے جانا دل بہل جائے گا اس کا اور  واپسی پر ہمارے  ساتھ  آ جائے گی

جی بی بی جان۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی اور شاپنگ وہیں سے کر لوں گی جا کر اپنی بھی اور ہیر کی بھی۔۔۔حدید کے لیے تو یشب کل بہت کچھ خرید لایا تھا

ہوں جیسے مناسب سمجھو۔۔۔۔وہ مسکرائیں

ہیر لاتعلق سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی

ہیر تم اپنی پیکنگ کر لینا بلکہ میں ہی کر دوں گی۔۔۔۔پرسوں شام نکلیں گے ہم۔۔۔۔

کہاں جانا ہے۔۔۔۔۔؟؟

لال حویلی میرے میکے۔۔۔۔۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی شادی طے ہو گئی ہے اگلے ہفتے کی  اور ہم ایک ہفتہ پہلے جائیں گے وہاں۔۔۔۔مہرو نے مسکرا کر اطلاع دی

جی۔۔۔۔۔ہیر نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا

ہیر تم چاہو تو کل جا کر اپنے گھر  والوں سے مل آنا۔۔۔۔یشب کچھ نہیں کہے گا۔۔۔بی بی جان نے اسکی مرجھائی ہوئی صورت دیکھ کر کہا

نہیں بی بی جان میرا دل نہیں جانے کو۔۔۔۔۔میں باہر لان میں جا رہی ہوں وہ آہستگی سے کہتی ہال سے نکل گئی

تم نے پوچھا مہرو کے کیسے گری تھی اس رات۔۔۔۔۔ 

نہیں بی بی جان۔۔۔۔

مت پوچھنا اب سنبھل جائے گی  وقت کیساتھ۔۔۔وہ افسردہ ہوئیں

جی نہیں پوچھتی۔۔۔۔۔۔میں چائے لاؤں آپ کے لیے۔۔۔؟؟

ہاں۔۔۔۔۔۔لے آؤ پھر جا کر نماز پڑھوں گی

ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو  مسکراتی ہوئی چائے بنانے کیچن کیطرف  چلی گئی

………………………………………………………………

انہیں لال حویلی آئے دو دن ہو گئے تھے۔۔۔مگر وہاں آ کر بھی ہیر کی حالت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔۔وہ ویسی ہی گم سم سی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ اس کمرے میں جو اسے ایز آ گیسٹ دیا گیا تھا اکیلی ہی بیٹھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ  رہی تھی جب مہرو کمرے میں آئی

ہیر یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔باہر سب لڑکیاں ڈھولک پر گیت گا رہی ہیں اور تم یہاں اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے بیٹھی ہو۔۔۔۔

مجھے گیت گانے نہیں آتے بھابھی۔۔۔۔

تو کون کہہ رہا ہے گیت گاؤ ۔۔۔سنو اور انجوائے کرو بس۔۔۔چلو اب اٹھو جلدی سے میں تمہارے کپڑے نکالتی ہوں چینج کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔

بھابھی آپ میرا اتنا خیال مت رکھا کریں میں اس قابل نہیں ہوں۔۔۔۔وہ افسردہ مسکراہٹ سے بولی

میں اچھے سے جانتی ہوں تم کس قابل ہو اور مجھے کیا کرنا ہے سمجھی۔۔۔۔اب اٹھو جلدی سے۔۔۔وہ  ڈپٹتی ہوئی کبڈ کی طرف بڑھی

یہ والا سوٹ بہت اچھا لگے گا تم پر کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے ییلو اور ریڈ کنٹراس کا  سوٹ نکالا۔۔۔۔

 وہ کل ہی اپنی اور ہیر کی ساری شاپنگ کر آئی تھی ہیر نے جانے سے منع کر دیا تھا اس لیے وہ اپنی پسند سے ہی اس کے لیے بھی ڈریسز لے آئی تھی

اچھا ہے۔۔۔۔

تو پھر اٹھو اور اٹھ کر پہنو اسے۔۔۔۔مہرو نے ہینگر اسکی طرف بڑھایا

ہیر ہینگر تھام کر چینج کرنے چلی گئی

…………………………………………………………

بڑے سے ہال کمرے میں لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں بیٹھیں تھیں درمیان میں ڈھولک رکھی تھی جسے ایک لڑکی بڑے ماہرانہ انداز  میں بجا رہی تھی باقی لڑکیاں اردگرد بیٹھیں ڈھولک کی تھاپ پر تالیاں پیٹتی ہوئیں گیت گانے میں مصروف تھیں

ہیر بھی کچھ فاصلے پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ تالی بجانے لگی

اسے شمس لالہ کی شادی یاد آئی  جب حویلی میں کتنی رونق تھی اور ہیر کو اکلوتی بہن ہونے کے ناطے کچھ ایکسٹرا پروٹوکول  دیا گیا تھا

کتنا ہلگا گلا کیا تھا سب لڑکیوں نے مل کر۔۔۔۔۔وہ بجھے دل سے ہلکی ہلکی تالی بجا رہی تھی جب حدید اسکے پاس آ کر بیٹھا

چاچی۔۔۔۔آپ کو کلیپنگ کرنی نہیں  آتی کیا۔۔۔۔۔؟؟

چاچی۔۔۔۔اس نے  ہیر کی خاموشی پر بازو ہلا کر متوجہ کیا

ہوں۔۔۔ہاں۔۔۔کیا ہوا کچھ کہا۔۔۔۔؟؟ہیر چونک کر سیدھی ہوئی

آپ کیسے کلیپنگ کر رہی ہیں میں سیکھاؤں آپ کو  کلیپنگ کرنا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا

ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے مسکرا کر سر ہلایا

یہ دیکھیں۔۔۔۔۔حدید نے دونوں ہاتھوں کو زور سے ایک دوسرے پے مار کر  پرجوش انداز میں تالی بجائی

ایسے۔۔۔اب آپ کریں۔۔۔۔

ہیر نے بھی اسی کے انداز میں دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر مارے مگر کچھ خاص جوش سے نہیں

اووہو ایسے نہیں۔۔۔۔چاچی ایسے۔۔۔۔اس نے سر پر ہاتھ  مار کر پھر سے تالی بجانے کا عمل  دوہرایا

اوکے۔۔۔اب کی بار ہیر نے اس کو مکمل فالو کیا

گڈ۔۔۔۔اب آ گئی آپ کو بھی۔۔۔۔اب ایسے ہی بجائیں آپ۔۔۔۔۔وہ خوش ہوا

اتنے زور سے بجاؤں گی تو میرے ہاتھ دکھنے لگ جائیں گے۔۔۔۔

کوئی بات نہیں میں رات میں آپ کے ساتھ سوؤں گا تو دبا دوں گا۔۔۔حدید نے فورا اسکے خدشے کاحل پیش کیا

ہیر اسکی بات پر دل سے مسکراتی اسے اپنے ساتھ لگا گئی

میرا بچہ۔۔۔۔۔اس نے جھک کر حدید کے بالوں کا بوسہ لیا

چاچی مجھ سے فرینڈ شپ کریں گی۔۔۔؟؟

ضرور کروں گی۔۔۔۔

چاچو کو مت بتائیے گا پھر۔۔۔۔۔وہ رازداری سے بولا

کیا۔۔۔۔؟؟

یہی کہ ہم فرینڈز ہیں۔۔۔۔اسنے ہیر کے کان کے پاس جا کر آہستہ سے بتایا کہ کوئی سن نہ لے۔۔۔

وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟ ہیر حیران ہوئی

انہوں نے مجھے منع کیا ہے فرینڈز بنانے سے سکول میں بھی میرا کوئی فرینڈ نہیں ہے بس کلاس فیلوز ہی  ہیں سب۔۔۔۔

آپ نے پوچھا نہیں کہ فرینڈز کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟؟

پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا ابھی میں چھوٹا ہوں جب بڑا ہو جاؤں گا تب بتائیں گے اورتب تک صرف چاچو ہی میرے فرینڈ رہیں گے۔۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے سر ہلایا

تو پھر ہماری فرینڈشپ پکی ہے ناں۔۔۔؟؟؟

بلکل۔۔۔۔۔وہ مسکرائی

چلیں پھر۔۔۔۔حدید نے ہاتھ کو پنچ مارنے کے انداز میں گول کیا

یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟

یہ ہماری فرینڈشب سائین ہے۔۔۔۔میں اور چاچو بھی ایسے کرتے ہیں

اوکے۔۔۔۔۔پر مجھے کیا کرنا ہو گا اب۔۔۔ہیر اسکی باتوں میں کافی بہل گئی تھی

آپ بھی ایسے ہی بنائیں پھر ہم ایک دوسرے کو ہلکا سا پنچ ماریں گے

اوہ اچھا۔۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کا مکا بنایا

دونوں نے اپنا اپنا پنچ مارا اور کھلکھلا کر ہنس پڑے 

……………………………………………………………

بھابھی میں اور حدید کچھ دیر کو باہر گھوم پھر آئیں۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کیچن میں مصروف مہرو سے پوچھا

چلی جاؤ مگر کسی ملاذمہ کو لے کر جانا ساتھ۔۔۔کافی پیچیدہ راستے ہیں  بھول نہ جاؤ کہیں۔۔۔

ڈونٹ وری بھابھی انہی پیچیدہ  علاقوں کی پیداوار ہوں میں۔۔۔۔۔ہیر لاپرواہی سے مسکرائی

جانتی ہوں مگر پھر بھی احتیاط ضروری ہے۔۔۔۔مجھے تسلی رہے گئی۔۔۔

ٹھیک ہے بھیج دیں۔۔۔۔۔

ہاں میں بانو کو بھیجتی ہوں تم کوئی موٹی شال اوڑھو موسم بدل رہا ہے۔۔۔

جی۔۔۔۔ہیر کو اماں یاد آئیں وہ بھی اسی طرح فکر کرتیں تھیں جسطرح مہرو بھابھی

ارے کیا ہوا ہیر۔۔۔۔مہرو اسکی گالوں پر پھسلتے آنسو دیکھ کر آنچ دھیمی کرتی اسکے پاس آئی

بھابھی آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔وہ کہتی ہوئی اسکے گلے لگ کر رو پڑی

چند منٹ بعد مہرو نے اسے خود سے الگ کیا

تم بھی بہت اچھی ہو۔۔۔اسی لیے تو میں تمہاری پرواہ کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسکے آنسو صاف کیے

چلو اب جاؤ پھر اندھیرا پھیل جائے گا

جی۔۔۔۔۔ہیر دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی باہر نکل گئی

……………………………………………………………

چاچی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔حدید نے اچھلتے ہوئے مشورہ دیا

وہ اس وقت حویلی سے کافی آگے نکل آئے تھے۔۔۔۔واقعی وہ کافی پیچیدہ ایریا تھا۔۔۔۔پتھریلا اونچا نیچا سا۔۔۔۔۔سر سبز درختوں میں گھرا۔۔۔۔بلکل جنگل جیسا۔۔۔

چھپن چھپائی تو لڑکیاں کھیلتی ہیں۔۔۔ہیر نے مسکراہٹ دباتے پوچھا

ہاں تو آپ اور بانو لڑکیاں  ہی ہیں۔۔۔۔

ہیر اور بانو اسکی بات پر مسکرا دیں

پر آپ کیا کریں گے پھر۔۔۔۔؟؟؟

میں بھی آپ لوگوں کو کمپنی  دینے کو کھیل لوں گا۔۔۔۔اسکے شرارتی انداز پر ہیر کھکھلا کر ہنس پڑی

بہت چالاک ہو تم پہلے کیوں نہیں ملے مجھے۔۔۔۔

میں تو ملنا چاہتا تھا پر آپ اپنے روم سے ہی نہیں نکلتی تھیں۔۔۔وہ فورا بولا

اوہ سیڈ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں اب تو مل چکے ہیں ناں۔۔۔۔ہیر نے اسکا ناک کھینچا

یس۔۔۔۔۔۔۔چلیں اب گیم شروع کرتے ہیں 

اوکے  پہلے آپ اور بانو چھپیں میں آپ دونوں کو ڈھنڈوں گی۔۔۔ہیر نے اپنی باری لگائی

اوکے چلو بانو ہم چھپتے ہیں۔۔۔۔وہ بانو کا ہاتھ پکڑتا آگے کی طرف بھاگا

زیادہ دور نہیں جانا ہے قریب قریب ہی چھپنا۔۔۔۔

اوکے چاچی۔۔۔۔وہ بلند آواز سے کہتا کچھ فاصلے پر موجود درخت کی اوٹ میں  چھپ کر بیٹھ گیا

چند منٹ بعد ہیر نے دونوں کو ڈھونڈ نکالا

پھر جو پہلے پکڑا جاتا وہی اگلی باری دیتا یونہی کافی وقت گزر گیا جب ہیر نے گیم ختم کرنے کا اعلان کیا

نہیں ایک لاسٹ بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔چاچی آپ فورا ہی مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں  اب میں  وہ اس طرف چھپوں گا جہاں آپ ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔۔۔۔۔حدید نے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں کیطرف اشارہ کیا

حدید بیٹا دیر ہو جائے گی دیکھو اندھیرا ہو رہا ہے۔۔۔

نہیں ہوتا اندھیرا بس ایک آخری بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ملتجی ہوا

اوکے دس از لاسٹ۔۔۔۔

اوکے ڈن۔۔۔۔۔وہ ہیر کے مان جانےخوشی سے اچھلا

چلو چھپو جلدی سے میں آنکھیں بند کر رہی ہوں۔۔۔۔

ہیر کے کہنے پر وہ اسکو بتائی گئی جگہ کی مخالف سمت بھاگا

چند سیکنڈ بعد ہیر آنکھیں کھولتی اسی طرف گئی جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا مگر حدید وہاں نہیں تھا ہیر نے قریب  قریب سب جگہوں پر دیکھا مگر وہ اس طرف ہوتا تو ملتا۔۔۔اس نے فکرمندی سے اسے آواز دی 

حدید۔۔د۔۔د۔۔د

حدید کہاں ہو بیٹا۔۔۔؟؟ میں ہار گئی ہوں تم جہاں بھی ہو آ جاؤ۔۔مگر بے سود۔۔۔۔۔

وہ پریشان سی واپس پلٹی

کیا ہوا ہیر بی بی۔۔۔؟؟بانو اپنا جوتا لینے گئی تھی جو کھیلتے ہوئے گہرائی میں گر گیا تھا 

بانو وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔حدید۔۔۔۔

کیا ہوا حدید بابا کو۔۔۔۔؟؟

پتہ نہیں کہاں چھپ گیا ہے میں اتنی آوازیں دے چکی ہوں مگر کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی 

میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔بانو کہتی ہوئی آگے کی طرف چل پڑی

ہیر نے وہیں کھڑے کھڑے پھر سے کئی آوازیں دیں مگرحدید کا کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔۔۔

چند منٹ بعد بانو بھی خالی ہاتھ لوٹ آئی ہیر بی بی اسطرف نہیں ہیں حدید بابا۔۔۔

اوہ میرے مالک یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔وہ فکرمندی سے بولی

بی بی جی حویلی چل کر بتاتے ہیں تاکہ۔۔۔۔۔

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔حدید کو لیے بغیر کیسے چلے جائیں تم۔۔۔تم رکو یہاں میں اردگرد دیکھتی ہوں۔۔۔

میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔؟؟

نہیں بانو تم یہیں رکو اگر حدید یہاں آ گیا تو ہمیں نہ پا کر پریشان ہو گا۔۔۔تم ایسا کرنا اگر وہ آ گیا تو مجھے آواز دے دینا

جی بی بی۔۔۔۔

ہیر اسے نصیحت کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی پھر اسی طرف چلی گئی جس طرف حدید نے اشارہ کیا تھا

وہ جھاڑیوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھتی بہت آگے نکل گئی تھی اوپر سے اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا تھا

مگر اسے پرواہ کب تھی اس اندھیرے کی وہ تو بس حدید کو تلاش کر لینا چاہتی تھی جسے اپنی ذمہ داری پر ہی ساتھ لائی تھی

دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتے وہ مزید آگے سے آگے بڑھتی ناجانے کتنی دور آ گئی تھی۔۔۔

مگر حدید پھر بھی نہیں ملا۔۔۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھے اپنی پھولتی سانسیں  ہموار  کرنے لگی 

بانو ٹھیک کہہ رہی تھی ہمیں واپس جا کر بتا دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ حدید کو ڈھونڈ سکیں کہیں رات۔۔۔۔۔

رات۔۔۔۔!!!! ہیر  نے لفظ رات پر جھٹکے سے سر اٹھایا

رات تو ہو چکی تھی۔۔۔۔ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ہیر کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی

اوہ میرے خدا۔۔۔میں کہاں آ گئی ہوں۔۔۔۔؟؟اس نے کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھا

مم۔۔۔۔۔میں کسطرف سے آئی تھی۔۔۔۔اسے ہر راستہ ایک جیسا ہی لگ رہا تھا

چاروں طرف  گھنے درخت ، جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے پتھر تھے

وہ دھڑکن سنبھالتی سامنے کی طرف بھاگی مگر تھوڑا آگے جا کر گہرائی تھی وہ پھر سے واپس پلٹتی اسی جگہ پر آئی جہاں سے بھاگی تھی

اسے اپنے پیروں تلے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی

اب۔۔۔اب کس طرف کو۔۔۔۔؟؟وہ گھبرا کر کہتی چاروں طرف گھوم کر سیدھی کھڑی ہوئی

چند منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ  التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتی دائیں جانب بھاگی کچھ دور جا کہ اسے لگا کہ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے وہ آئی تھی

اسی بات سے اسکی ہمت بڑھی اور وہ مزید تیز رفتاری سے بھاگنے لگی 

ہیر کے کانوں میں جانوروں کی عجیب و غریب اور خوفناک آوازیں گونج رہیں تھیں

میرے مالک رحم کر مجھ پر۔۔۔۔وہ با آواز بلند دعا مانگتی سامنے پڑے پتھر سے زور دار انداز میں ٹکرائی 

اس تصادم میں جوتا ٹوٹنے کیساتھ اسکے انگوٹھے کا ناخن بھی اکھڑ چکا تھا

وہ تکلیف کی شدت سے پاؤں پکڑ کر زمین پر بیٹھی

اوئی ماں۔۔۔۔اللہ جی۔۔۔۔۔وہ ہونٹوں پر دانت جمائے تکلیف برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگی

چند منٹ بعد ہیر نے اس اندھیرے میں  اپنی پوری آنکھوں کو کھول کر زخم دیکھنے کی کوشش کی

اسکے پاؤں کے انگوٹھے کا آدھا ناخن اکھڑ چکا تھا اور آدھا ہلکا سا ساتھ جڑا لڑھک رہا تھا

ہیر نے درد کی شدت سہتے ہوئے اس آدھے ناخن کو بھی اکھاڑنا چاہا۔۔۔اس مقصد کے لیے اس نے ہاتھ ناخن کے پاس لے جا کر آنکھیں سختی سے میچ لیں

ہونٹ بھینچے وہ ناخن اکھڑنے ہی والی تھی جب اوپر سے کوئی چیز اس پر گری۔۔۔۔۔

آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔۔۔ہیر کی فلک شگاف چیخ بے ساختہ تھی

…………………………………………………………

بانو بے چینی سے ہیر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی

مزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ گھبراہٹ سے ہاتھ مسلتی اسی طرف بڑھی جس طرف ہیر گئی تھی۔۔۔

ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی پہنچی تھی جب پیچھے سے حدید کی آواز آئی

بانو۔۔۔۔۔۔۔وہ فاصلے پر کھڑا پکار رہا تھا

بانو اسکی آواز پر خوشی سے واپس پلٹتی اس تک آئی

حدید بابا کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔؟؟میں اور ہیر بی بی کتنا پریشان تھیں آپ کے لیے۔۔۔۔ڈھونڈا بھی آپ کو پر آپ نہیں ملے ۔۔۔۔وہ پرجوش سی بولی

میں وہاں پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا مجھے چاچی کی آواز آ رہی تھی جب وہ مجھے پکار رہیں تھیں۔۔۔حدید نے فخریہ انداز میں بتایا

تو پھر آپ سامنے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔بانو حیرت سے بولی

وہ ہر بار ہی مجھے ڈھونڈ لیتی تھیں میں نے سوچا اس بار مشکل جگہ پر چھپوں گا اور دیکھا وہ خود سے مجھے نہیں ڈھونڈ سکیں۔۔۔۔میں خود ہی آ گیا واپس۔۔۔۔وہ جوش سے اپنی چالاکی بتا رہا تھا

یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب ہیر بی بی کو کون ڈھونڈے گا

چاچی بھی چھپ گئی ہیں کیا۔۔۔؟؟حدید اپنی سمجھ کے مطابق بولا

وہ آپ کو ڈھونڈنے گئی تھیں پر اب تک نہیں لوٹیں۔۔۔۔۔بانو فکر مندی سے کہتی بلند آواز میں ہیر کو پکارنے لگی

ہیر۔۔۔ررر۔۔۔ررر۔۔۔بی بی

ہیر بی بی۔۔۔۔۔وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر  پھر سے چلائی

چاچی۔۔ی۔۔ی۔۔ی

چاچی۔۔ی۔۔ی۔۔حدید بھی دیکھا دیکھی چلانے لگا

کئی بار چلانے کے بعد بھی ہیر کا کوئی جواب نہ پا کر بانو حدید کا ہاتھ تھامتی تیز تیز قدموں سے واپس لال حویلی کی طرف  چل پڑی۔

……………………………………………………………

بانو حدید کا ہاتھ پکڑے جب حویلی میں داخل ہوئی تو مؤذن عشاء کی اذان دے رہے تھے۔

وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جیسے ہی بڑے کمرے میں  آئی تو وہاں موجود افراد کی نظر فورا اس تک پہنچی

چاچو۔۔۔۔۔حدید یشب کو دیکھ کر بانو سے بازو چھڑواتا اسکی طرف بھاگا

یشب نے اسے گود میں لیتے ہوئے چٹاچٹ پیار کر ڈالا

یشب اور بی بی جان شام میں ہی لال حویلی پہنچے تھے۔۔۔

کہاں تھے تم لوگ اتنی دیر کر دی ہم سب پریشان ہو رہے تھے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ مہرو بانو کی طرف  لپکتی ایک ہی سانس میں بولی

وہ۔۔۔۔وہ مہرو باجی وہ۔۔۔۔

یشب بانو کی بوکھلاہٹ پر حدید کو گود سے اتارتا اس تک آیا

کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کی غراہٹ پر بانو بنا رکے ایک ہی سانس میں اے ٹو زی ساری بات بتا گئی

جسے سن کر سب ساکت تھے

سب سے پہلے یشب کا سکتہ ٹوٹا اور وہ آندھی طوفان بنے وہاں سے نکلا تھا

یشب۔۔۔۔یشب۔۔۔۔مہرو پکارتی اسکے پیچھے بھاگی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی  جیپ جارحانہ انداز میں ریورس کر چکا تھا

مہرو تم اندر جاؤ ہیر مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔ یہیں کہیں ہو گی وہ۔۔۔۔زبیر خان  ) مہرو کا بڑا بھائی ( نے اسکے سر پر  تسلی کے انداز میں ہاتھ رکھا

جی لالہ۔۔۔۔وہ پریشان سی سر ہلاتی اندر چلی گئی

زبیر خان نے زیاد خان  (چھوٹا بھائی)  اور کچھ  ملازموں  کو ساری  بات سمجھائی

جسے سمجھتے ہوئے سب سر ہلاتے آگے پیچھے اپنی اپنی جیپوں کی طرف بڑھ گئے ہیر کو ڈھونڈنے  کے لیے۔۔۔

…………………………………………………………….

یشب بانو کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ چکا تھا جیپ وہ کافی پیچھے چھوڑ  آیا تھا کیونکہ درختوں کے جھرمٹ میں جیپ مزید آگے لے جانا ممکن  نہ  تھا

یشب نے چاروں طرف نظر دوڑا کر پوری  طاقت لگاتے ہوئے بلند آواز میں کئی بار ہیر کو پکارا 

مگر کوئی بھی جواب نہ پاکر وہ موبائل ٹارچ کی روشنی میں  دائیں جانب بھاگا

کیونکہ بانو کے مطابق ہیر اسی طرف گئی تھی

وہ دیوانوں کی طرح  ہیر۔۔۔۔ہیر پکارتا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا

………………………………………………………

اوپر درخت سے سانپ ، چھپکلی یا جو کچھ بھی گرا تھا گرتے ساتھ ہی ادھر أدھر رینگ گیا تھا 

مگر ہیر کے وجود پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہو گئی تھی

میرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔۔۔میں اس جنگل میں موجود جانوروں کی خوراک بن کر مرنا نہیں چاہتی پلیز میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے اپنے رب سے فریاد کرتے ہوئے کھسک کر درخت سے ٹیک لگائی اور  اول آخر درود پاک اور سات بار آیت الکرسی کا ورد کر کے  پھونک سے اپنے گرد حصار باندھا

اپنے آنسوؤں کو اچھی طرح آستین سے رگڑ کر ہیر نے پھر سے پاؤں کے ناخن کو اکھیڑنے کی ہمت مجتمع کی 

آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا اور جھٹکے سے آدھا اکھڑا ناخن کھینچ لیا

تکلیف کی اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے ہیر نے ایک دردناک چیخ  ماری 

نسوانی چیخ پر یشب اپنی دوڑ کو  بریک لگاتا رک کر آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا

…………………………………………………………

مہرو بچے بیٹھ جاؤ تھک جاؤ گی۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے مہرو کو بے چینی سے ٹہلتے دیکھ کر کہا

بی بی جان ہیر ناجانے کس حال میں ہوگی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی

مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔۔۔انہوں نے تسلی دی

آپ کو پتہ ہے ہمارے علاقے میں رات کو پہاڑی گیڈر اور کتے کتنی کثرت سے نکل آتے ہیں  مجھے تو سوچ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی ہے بی بی جان۔۔۔۔۔

تم پریشان مت ہو اللہ اسے اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔۔۔۔بی بی جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں ہیر کو اللہ کے سپرد کیا

آمین۔۔۔۔۔مہرو نے دل سے آمین کہہ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا  کر آنکھیں موند لیں 

…………………………………………………………

ہیررررر۔۔۔۔۔۔۔

ہیر کو اپنے قریب ہی کہیں یشب کی پکار سنائی دی

یشب۔۔۔۔یشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔وہ درد کی پرواہ کیے بغیر درخت کے سہارے کھڑی ہوئی

ہیرررررر۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سے آواز آئی

یشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں یہاں ہوں یشب۔۔۔۔۔وہ چلائی

بلآخر یشب اس تک پہنچنے میں  کامیاب ہو ہی گیا

ہیر کو اپنے سامنے زندہ سلامت دیکھ کر یشب کو اپنے وجود میں ایک عجب سا سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا

دوسری طرف ہیر نے اس تک پہنچنے کے چکر میں  پاؤں اٹھایا مگر درد کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائی اور لڑکھڑا کر گری

یشب جلدی سے درمیانی فاصلہ عبور کرتا اس تک پہنچا

تم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔وہ اسے سیدھا کرتا بے قراری سے بولا

ہیر تو ابھی تک شاک میں تھی کہ یشب واقعی اس کے پاس آ چکا ہے۔۔۔اوپر والے نے اسکی فریاد سن لی ہے۔۔۔

وہ دونوں یک ٹک بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔مدھم روشنی ، رات کا سناٹا ، کھلا آسمان ہلکی ہلکی سرد ہوا سب مل کر ان کے  آس پاس  ایک  پرفسوں سا منظر پیش کر رہے تھے 

ہیر نے ٹرانس کی کیفیت میں  اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر یشب کے چہرے  کو چھوا 

یشب اس لمس کو پاتے ہی  بے اختیار ہو اٹھا

وہ چھو رہا تھا ہیر کے ہاتھوں کو اسکی  من موہنی صورت کے ایک ایک نقش کو  عجب دیوانوں سی حالت میں چھو رہا تھا وہ اسے۔۔۔۔۔۔جو اسکی پہلی اور آخری محبت تھی۔۔۔۔جو اسکی بیوی تھی

ہیر یقین کے  اس عملی مظاہرے پر کسمسا کر پیچھے ہٹی 

یشب نے ہوش میں آتے ہوئے اپنے عمل پر  نظریں چرا کر سر جھکا دیا

دونوں کے بیچ فسوں خیز سی خاموشی چھا گئی

چند منٹ بعد اس بولتی خاموشی کو یشب نے ہی  توڑنے میں پہل کی

تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔؟؟

گھر چلیں پلیز۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی

ہوں۔۔۔۔ہاں چلو۔۔۔۔یشب سر جھٹکتا کھڑا ہوا

ہیر کوشش کے باوجود  بھی کھڑی نہ ہو پائی

کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟یشب اسکے چہرے پر کرب کے تاثرات دیکھ کر فکرمندی سے اسکے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھا

ہیر پاؤں پکڑے درد برداشت کر رہی تھی۔۔۔

یشب نے موبائل کی روشنی ڈالتے ہوئے تکلیف کی  وجہ جاننے کی کوشش کی

یہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟وہ خون سے بھرا پاؤں دیکھ کر فکرمند ہوا

ہیر سر جھکائے خاموش رہی وہ  یشب کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بلکہ یوں خاموش تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔ 

یشب نے اسکا جواب نہ پا کر جیب سے رومال نکال کر اسکے انگوٹھے پر باندھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا

سسی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا

ہیر خون نکل رہا ہے  یہ رومال باندھنے دو مجھے۔۔۔

نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ گھبراتی ہوئی مزید پیچھے ہوئی

کم آن یار۔۔۔کچھ نہیں ہو گا

نہیں۔۔۔نہیں بہت پین ہو رہا ہے پلیز ہاتھ مت لگائیں

نہیں ہو گا پین آئی پرامس۔۔۔۔یشب نے مزید کچھ سنے بنا اسکا پاؤں سیدھا کر کے انگوٹھے پر رومال باندھ دیا

ہیر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دبائی

چلیں اب۔۔۔۔۔یشب نے رومال باندھ کر  اسکی طرف دیکھتے ہوئے رضامندی لی

ہوں۔۔۔۔۔ہیر کے ہاں میں سر ہلانے پر  یشب نے جھک کر اسے قیمتی متاع کی طرح احتیاط سے بازؤں میں سمیٹ کر سینے سے لگایا اور واپسی کے لیے چل پڑا

……………………………………………………………

وہ ہیر کو لے کر حویلی کے رہائشی حصے کیطرف آیا

ہیر۔۔۔رر۔۔۔مہرو تیزی سے انکی طرف آئی

یہ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے پاؤں پر یہ چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟وہ پریشانی سے بولی

مہرو کی آواز سنتے ہی حویلی میں موجود سب لوگ کونوں کھردروں سے  وہاں آ کر کھڑے ہو گئے شادی والا گھر تھا بہت سے مہمان تھے جو اس وقت گولائی میں ہیر اور یشب کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔۔۔عجیب سا فلمی سین کری ایٹ ہو گیا تھا جہاں ہیرو اپنی ہیروئین کو بانہوں میں لیے سب کے بیچوں بیچ کھڑا تھا

ہیر سچویشن دیکھتے ہوئے شرمندگی سے یشب کو کمرے میں لے جانے کا کہہ رہی تھی

اور یشب وہ تو جیسے کان بند کیے کھڑا مہرو اور وہاں موجود دیگر بزرگ خواتین کے سوالات کے جوب دے رہا تھا کہ ہیر کہاں سے۔۔؟؟ اور کیسے ملی؟؟۔۔۔چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟ وغیرہ

مہرو نے ہیر کی شکل پر رقم بے بسی کے تاثرات دیکھ کر یشب کو بلند آواز میں ہیر کو کمرے میں لے جانے کا کہا

یشب سر ہلاتا اسے لیے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں ہیر ٹہری ہوئی تھی

کمرے میں آ کر یشب نے احتیاط سے اسے بیڈ پر بیٹھایا

پین تو نہیں ہو رہا اب۔۔۔۔۔۔؟؟فکر مندی سے پوچھا گیا

ہیر نے بنا جواب دیے رخ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔

 مجھے تم سے محبت ہے ، 

ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!

محبت بھی ستاروں سی٬

گلوں سی آبشاروں سی٬

صبح دم نکلتے پھولوں سی٬

کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬

رم جھم برستی بارش سی،

آسمان پہ بکھرے دھنک رنگوں سی،

کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،

کسی نازک کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،

مجھے تم سے محبت ہے ،

ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!

یشب کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑا اداس نظروں سے اپنی دید کی پیاس بھجاتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا

………………………………………………………

کچھ دیر بعد زبیر خان ، یشب اور مہرو ڈاکٹر کے ساتھ ہیر کے کمرے میں داخل ہوئے

ڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد بینڈیج کی اور پین کلر دے کر چلا گیا

یشب یہ ہلدی ملا دودھ ہے اپنی نگرانی  میں ہیر کو پلا دو ورنہ دودھ پینے کے معاملے یہ بہت  چور ہے میں تب تک مہمانوں کے کھانے کا انتظام وغیرہ دیکھ لوں جا کر۔۔۔۔مہرو نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا

جی بھابھی۔۔۔۔یشب نے سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور بیڈ پر ہیر کیساتھ ہی بیٹھا۔۔۔

یشب کے اتنا پاس بیٹھنے پر ہیر کے چہرے پر ابھرتی ناگواری کو دیکھ کر مہرو مسکراہٹ دباتی باہر نکل گئی

اب کمرے میں وہ دونوں تھے اور خاموشی۔۔۔۔

پی لو یہ۔۔۔۔۔یشب نے گلاس اسکے منہ کے پاس لے جا کر کہا

پی لوں گی رکھ دیں۔۔۔۔وہ بے زاری سے بولی

بھابھی کہہ کر گئیں ہیں میں پلاؤں۔۔۔۔ 

میرے ہاتھ سلامت ہیں میں پی سکتی ہوں خود سے۔۔۔۔۔

مگر میں اپنے بڑوں کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے پیو اسے۔۔۔۔یشب نے سیریس ہوتے ہوئے گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا

ہیر نے ہاتھ کی پشت سے گلاس کو پیچھے  جھٹکا جس سے آدھا دودھ نیچے اور آدھا یشب کے کپڑوں پر گرا

واٹس رونگ۔۔۔۔۔؟؟اسکی تیوری چڑھی

رونگ میں نہیں رونگ آپ کر رہے  ہیں اپنے مزاج سے۔۔۔۔۔۔۔

پیو اسے۔۔۔۔۔وہ بھی یشب تھا اڑیل گھوڑا کیطرح بضد۔۔۔

نہیں پیؤں  گی۔۔۔۔وہ بھی ضدی ہوئی

انف از انف پیو یہ جو بچا ہے ورنہ الٹے ہاتھ کا ٹھپڑ دوں گا۔۔۔۔زیادہ دیر کول رہنا یشب کی عادت نہ تھی

دے دیں ٹھپڑ کئی دن جو ہو گئے نہ مارے ہوئے اس لیے دل چاہ رہا ہو گا۔۔۔۔ویسے بھی میرا سکون آپ سے برداشت ہی کب ہوتا ہے۔۔۔

میرا ضبط مت آزماؤ ہیر۔۔۔۔۔

مت کریں ضبط۔۔۔۔کریں جو کرنا ہے۔۔۔۔وہ گالوں پر پھسلتے آنسو پونچھتی بولی

اب کیا کر دیا میں نے جو برسات شروع کر دی۔۔۔یشب اسکے آنسو دیکھ کر چڑا

ہیر نے بنا کوئی جواب دیے برسات جاری رکھی۔۔۔۔۔

اچھا چلو بند کرو رونا۔۔۔۔۔یشب نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں  ہاتھ ہٹا کر دوسرے ہاتھ سے اسکے  آنسو  پونچھے اور آگے کو جھک کر ماتھے پر بوسہ لیا

یہ تو آدھا گر گیا ہے میں نیا لاتا ہوں۔۔۔۔یشب دودھ کے آدھے گلاس کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیا

ہیر تو اسکی ہمت پر ششدر تھی یہ۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے آج۔۔۔۔۔؟؟؟

اونہہ۔۔۔زبردستی تسلط جمانا چاہ رہے ہیں۔۔۔جب دل چاہا سینے سے لگا لیا جب چاہا پرے دھکیل دیا۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی بڑبڑائی

پانچ منٹ میں یشب دودھ کا بھرا گلاس لیے حاضر تھا

یہ پکڑو۔۔۔۔پی لو گی یا میں پلاؤں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟

ہیر نے غصے سے دیکھتے ہوئے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں خالی کر دیا

گڈ۔۔۔۔اب لیٹ کر آرام کرو 

یشب نے اسکے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا اور اسے پکڑ کر زبردستی لٹا کر کمبل اوڑھا اور خود چینج کرنے واش روم چل دیا

ہیر نے آنکھیں بند کیں اور دل کھول کر یشب کو کوسنے لگی جو زبردستی کمبل ہوا جا رہا تھا

………………………………………………………

رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب بھوک  کی وجہ سے ہیر کی آنکھ کھلی

اس نے ترچھا سا اٹھ کر سائیڈ لیمپ آن کیا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سوئے یشب پر ایک سرسری نظر ڈالی

اب کیا کروں۔۔۔۔؟؟ صبح ناشتہ کیا تھا اور دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا، رات کو بھی صرف دودھ کا گلاس پیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی

خود ہی کیچن تک جاتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھنے لگی تھی کہ رک گئی

اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا میں اتنی بھوکی ہوں کہ آدھی رات کو کیچن میں کھا پی رہی ہوں۔۔۔۔

تو پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی

جس نے جو سوچنا ہے سوچے مجھے کیا۔۔؟؟وہ پیٹ میں دوڑرتے چوہوں سے مزید نہ لڑ سکی 

اس نے پھر سے مزے سے سوئے یشب پر نظر ڈالی

ان کو کہہ دیتی ہوں۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ کو جھٹکتی وہ خود ہی کیچن تک جانے کا فیصلہ کر کے اٹھی، کمبل ہٹایا اور ٹانگ کو پکڑ کر نیچے رکھا بیڈ کورز کو جکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر پاؤں میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی

کچھ دیر بعد پھر کوشش کی مگر سی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔ی کرتی ہوئی پھر سے بیٹھی رہ گئی

کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟؟یشب نے خمار آلود آنکھوں کو رگڑتے ہوئے پوچھا 

وہ روشنی کی وجہ سے جاگا تھا۔۔۔۔اسے کمرے میں مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت تھی حتی کہ زیرو پاور بلب کی روشنی بھی نہیں۔۔۔۔

مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ہیر اسے دیکھے بنا منمنائی

تو مجھے جگا دیتی۔۔۔روکو میں بھابھی کو کہتا ہوں۔۔۔۔یشب نے سیل اٹھایا

نہیں آپ بھابھی کو کیوں تنگ کریں گے اس وقت۔۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤں گی کیچن تک۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔یشب جانتا تھا وہ پاؤں میں درد کی وجہ سے چل نہیں پائے گی مگر اسکے کہنے پر جان بھوج کر اوکے کہتا خاموش ہو گیا

ہیر نے دو چار منٹ تک ویٹ کیا کہ یشب پھر سے روک دے گا مگر وہ چپ ہی رہا۔۔۔

وہ اسے کوستی بیڈ کو مضبوطی سے تھامے بمشکل کھڑی ہوئی

پاؤں کو گھسیٹتی ایک قدم آگے بڑھی مگر پین ناقابل برداشت تھا

وہ پھر سے بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔

کیوں جانا نہیں ہے کیا کیچن تک۔۔۔۔؟؟؟استہزائیہ پوچھا گیا

آپ خاموش رہیں جب کچھ کر نہیں سکتے تو منہ بھی بند رکھیں۔۔۔۔

میں پیار میں بھی بد تمیزی کا قائل نہیں ہوں اس لیے سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔

تو کون مانگ رہا ہے آپ سے پیار۔۔۔۔۔؟؟وہ اسکی بات پر سیخ پا ہوتی پیچھے کو مڑی

ضروری نہیں کہ ہر چیز مانگی جائے بعض اوقات بنا مانگے ہی وہ سب مل جاتا ہے جو انسان چاہتا ہے۔۔۔۔وہ رسان سے بولا

مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔

میں تو چاہتا ہوں ناں پھر تمہارے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کندھے اچھکا کر کہتا اٹھ بیٹھا

ہاں۔۔۔ہاں آپ مرد جو ہیں جب جو چاہیں گے زبردستی حاصل کر لیں گے۔۔۔

بلکل۔۔۔۔۔وہ اسے چڑانے کے انداز میں مسکرایا

اونہہ مطلب پرست۔۔۔۔ہیر نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیا

اب بھوک نہیں کیا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسے لیٹتے دیکھ کر پوچھا

نہیں۔۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا

فائن۔۔۔۔لیمپ آف کرو اور دوبارہ مت چلانا سمجھی۔۔۔۔۔

ہیر نے خاموشی سے لیمپ آف کیا اور پیٹ میں اچھل کود مچاتے چوہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زبردستی آنکھیں بند کر لیں۔۔

………………………………………………………………

اٹھو۔۔وو۔۔۔یشب نے اسکا کمبل ہٹا کر کہا

مجھے نہیں کھانا ہے۔۔۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی

یشب اسکے لیٹنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا اور اب وہ کھانے کی ٹرے لیے اسکے سرہانے کھڑا تھا

تم سے پوچھا نہیں میں نے کھانا ہے یا نہیں۔۔۔۔یشب نے اسکے بازو کو پکڑ کر زبردستی اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا

ٹرے اسکے سامنے رکھی۔۔۔

 کھاؤ گی یا میں کھلاؤں۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھا کر پوچھا 

مجھے بھوک نہیں میں۔۔۔۔۔

وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے خود سامنے بیٹھا اور چمچ میں چاول بھر کر  اسکے منہ کی طرف بڑھایا

ہیر نے بھی ضدی انداز میں ہونٹوں کو آپس میں مضبوطی سے بھینچ لیا

ٹیک اٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیر آئی سیڈ ٹیک اٹ۔۔۔۔وہ پھر سے بولا

ہیر منہ بند کیے اسے دیکھتی رہی۔۔۔

اگر ان نینوں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے تو محترمہ یہ کام آپ کچھ سال پہلے کر چکی ہیں۔۔۔۔یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر چھیڑا اور جھک کر ان خفا خفا نینوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔۔۔

آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں یشب خان آفریدی۔۔۔۔آپ سے برا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ منہ ہاتوں میں دئیے رونے لگی

میں واقعی بہت برا ہوں اور مجھے مجبور مت کرو کہ میں پھر سے کچھ  برا کروں۔۔۔یشب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے

کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑچڑی ہو رہی تھی یشب کی حرکات پر۔۔۔۔

اچھا کچھ دیر کے لیے لڑائی روکتے ہیں تم کھانا کھا لو پھر یہیں سے کنٹی نیو کریں گے رائٹ۔۔۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کہتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔جانتا تھا کہ ہیر اسکی موجودگی میں نہیں کھائے گی

اس کے جانے کے بعد ہیر نے کچھ دیر مزید رو کر آنسو رگڑے اور چمچ اٹھا کر اپنا فیورٹ مٹن پلاؤ کھانے لگی

وہ چند منٹ میں ہی پوری پلیٹ چٹم کر چکی تھی۔۔۔

…………………………………………………………………

ہیر آئینے کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی جب یشب کمرے میں داخل ہوا

ہیر نے پاس پڑے کاؤچ سے دوپٹہ اٹھایا مگر اسکے دوپٹہ اوڑھنے سے پہلے ہی یشب اس تک پہنچ چکا تھا

ہٹیں سامنے سے۔۔۔۔۔

پہلے بتاؤ کہ اتنی اچھی کیوں لگنے لگی ہو مجھے۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ باندھے آنکھوں میں محبت سموئے پوچھ رہا تھا

یہ آپ کا مسلہ ہے آپ ہی کو پتہ ہو گا۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی

سامنے سے ہٹیں خان۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیر تم مجھے۔۔۔۔یشب نے اسے بازو سے کھینچ کر سینے سے لگایا اور اردگرد بازوؤں کا گھیرا ڈالا

یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں خان چھوڑیں مجھے اپنی حد میں رہیں آپ۔۔۔۔وہ بوکھلائی

تم مجھے حد میں رہنے ہی کب دیتی ہو ہیر۔۔۔۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا تم سے دور رہ کر۔۔۔۔وہ اسکے بال چھیڑتا افسردہ سا بولا

خان پلیز۔۔۔ززز۔۔۔ہیر خود کو چھڑواتی منمنائی

وہ اس کی کھلی زلفوں میں منہ چھپاتا مدہوش سا ہو رہا تھا

خان ہوش کریں اور چھوڑیں مجھے ورنہ ابھی چلا کر سب کو اکٹھا کر لوں گی میں۔۔۔

یشب اسکی دھمکی پر ہنسا

اچھااااا۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر جب سب اکھٹے ہو جائیں گے تو کیا بتاؤ گی چلانے کی وجہ۔۔۔۔؟؟وہ محظوظ سا پوچھ رہا تھا

پلیز چھوڑیں مجھے خان۔۔۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ہیر اسکے ہاتھ ہٹاتی چلائی

ہیر کی بات پر یکدم یشب کی گرفت  ڈھیلی پڑی جسکا فائدہ اٹھا کر وہ حصار سے نکلتی جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی

یشب اب بھی اپنی جگہ پر ساکت سا کھڑا تھا۔۔۔

"مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔"اس کے اردگرد ہیر کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا

……………………………………………………………

ہیر  باٹم گرین کلر کی فراک کیساتھ چوڑی دار پاجامہ اور ہم رنگ کھوسہ پہنے، ہلکے میک اپ اور لائٹ سی میچینگ جیولری کیساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی

اس نے بالوں کو کھلا چھوڑنے کی بجائے چوٹیا بنائی اور چوٹیا سے نکلی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سلیقے سے سر پر اوڑھا اور باہر لان کی  طرف آ گئی جہاں مایوں اور مہندی کا اکٹھا انتظام کیا گیا تھا

وہ آہستگی سے چلتی ہوئی بی بی جان کے پاس آ کر بیٹھ گئی

لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر پشتو گیت گا رہیں تھیں۔۔

مینہ دا خکلو سنگہ کیگی، 

مالہ چل نہ رازی،

حسینوں سے محبت کیسی کی جاتی ہے، میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔

وئی اللہ سوگ پہ چہ سہ رنگا گرانے گی، ما لہ چل نہ رازی،

او میرے رب دوسروں کے دل میں کیسے جگہ پیدا کی جاتی ہے، 

میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔

ہیر بھی ہلکی ہلکی تالی بجاتی گیت کے بول گنگنانے لگی 

جی بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر ہیر کے مسکراتے گنگناتے ہونٹ ایکدم  ساکت ہوئے

جسے یشب نے بہت چبھتے انداز میں دیکھا تھا

ہاں بچے۔۔۔۔تمہارے بابا جان کا فون آیا تھا تمہیں واپس آنے کا کہہ رہے تھے کوئی مسلہ ہو گیا ہے زمینوں کا شاید۔۔۔۔

انہوں نے مجھے کال کیوں نہیں کی۔۔۔؟؟

تمہارا فون بند تھا اس لیے...بی بی نے وجہ بتائی

جی۔۔۔۔پھر میں نکلتا ہوں ابھی۔۔۔۔یشب گھڑی دیکھتا بولا

ارے اتنی بھی جلدی نہیں ہے صبح نکل جانا ویسے بھی اندھیرا گہرا ہو گیا ہے اب تو۔۔۔وہ فکر مند ہوئیں

بی بی جان میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو اندھیرے سے ڈر جاؤں گا۔۔۔۔ابھی نکلوں گا تو دو،تین گھنٹے تک حویلی پہنچ جاؤں گا

بی بی جان نے اسکے چہرے پر اٹل انداز دیکھ کر ہاں میں سر ہلا کر جانے کی اجازت دی۔۔۔۔۔اور مختلف آیات کا ورد کر کے اس پر پھونک ماری۔۔۔۔۔فی امان اللہ۔۔۔۔

یشب نے انکی دعا لی اور اچٹتی نظر ہیر کے بےنیاز چہرے پر ڈال کر واپس اندر کی جانب بڑھ گیا

ہیر نے منہ پھیر کر ایک نظر اسکی چوڑی پشت پر ڈالی اور سر جھٹک کر پھر سے گیت کی طرف متوجہ ہو گئی

……………………………………………………………

یشب لال حویلی سے واپس تو آ گیا تھا مگر اسکا دماغ ابھی بھی ہیر کی بات میں ہی اٹکا ہوا تھا

ہیر نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟؟؟وہ پریشان سا سیگرٹ پھونکتا ٹیرس پر ٹہل رہا تھا

کیا واقعی اسے میری نزدیکی ، میری قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ خود سے پوچھ رہا تھا

اگر ہاں تو کیوں۔۔۔۔۔؟؟

اس کیوں کا جواب اسکے ضمیر نے اسے آئینہ دکھا کر دیا تھا

اسے اسکا اصلی چہرہ دکھایا تھا وہ چہرہ جس پر ہمہ وقت غصے کا ، بدلے کا ، انتقام کا نقاب چڑھا رہا تھا۔۔۔۔۔اس نقاب کو پہنے وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ ہیر بے قصور ہے۔۔۔۔وہ اسکی بیوی ہے۔۔۔۔۔ہیر ہی وہ  لڑکی ہے جس نے  اسے پہلی دفعہ  محبت کا امرت چکھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اس سب کے باوجود تم نے اس کیساتھ جو سلوک روا رکھا۔۔۔۔اس کے بدلے میں اس سے محبت کی امید کر رہے ہو۔۔۔۔وہ محبت  جو تمہارے دل میں بھی موجود تھی مگر تم نے انتقام کی آڑ میں چھپا دیا۔۔۔۔اب اگر تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ تم غلط تھے۔۔۔۔تم اپنا رویہ اسکے ساتھ بدل چکے ہو تو ضروری نہیں کہ وہ فورا تمہاری  پزیرائی کرے۔۔۔۔اس لیے وقت۔۔۔۔

وقت دو۔۔۔یشب خان۔۔۔۔۔خود کو بھی اور ہیر کو بھی۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا

اسکے ضمیر نے ایک اچھا مشورہ دیا تھا اسے۔۔۔

اور یشب نے اپنے ضمیر کی بات مان لی تھی۔۔۔

اسے واقعی ہیر کو وقت دینا چاہیے  سب کچھ ایکسیپٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔وہ ہیر کو واپس اپنے تک پلٹنے کا وقت دے گا وہ  فیصلہ کر چکا تھا۔۔

………………………………………………………….

ولیمے سے فارغ ہوتے ہی ہیر نے بی بی جان کے کہنے پر اپنی اور انکی واپسی کی پیکینگ مکمل کر لی تھی

یشب تو مہندی کی رات ہی واپس چلا گیا تھا اور مہرو نے ابھی مزید چند دن یہاں رکنا تھا۔۔۔۔ اس لیے بی بی جان اور ہیر ولیمے سے اگلے دن ہی ڈرائیور کے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑیں تھیں

تین گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد گاڑی ان کے گاؤں کے روڈ سے ذرا پیچھے  ہی  چڑ۔۔۔۔ڑ۔۔۔۔۔۔ڑ کی آواز کیساتھ جھٹکا کھا کر  بند ہو گئی

کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟

میں دیکھتا ہوں  بی بی جان۔۔۔۔۔ڈرائیور مؤدب سا کہتا گاڑی سے نکل کر چیک کرنے لگا

پندرہ بیس منٹ انتظار کے بعد وہ دروازے سے سر اندر ڈال کر بولا۔۔۔

بی بی جان میری سمجھ میں نہیں آ رہی خرابی حویلی فون کر دوں وہاں سے حشمت آ جائے گا آپ لوگوں کو لینے۔۔۔۔؟؟

ابھی بی بی جان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ ہیر چلا اٹھی۔۔۔

لالہ۔۔۔لہ۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی 

لالہ۔۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ سڑک کنارے کھڑی چلا رہی تھی

خان سائیں چھوٹی بی بی۔۔۔۔۔ڈرائیور نے بیک مرر سے ہیر کو ہاتھوں سے اشارہ کرتے دیکھ کر شمس کو بتایا جو پیچھلی سیٹ پر بیٹھا سیل پر بزی تھا

کہاں۔۔۔۔۔۔؟؟وہ چونک کر سیدھا ہوا

پیچھے۔۔۔۔۔

شمس نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور واقعی ہیر کو کافی پیچھے سڑک کنارے کھڑے دیکھ کر فورا پجارو سے باہر نکلا

اب وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسکی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔

شمس کے پاس آنے پر ہیر خود پر کنٹرول کھوتی اسکے سینے سے لگ کر وہ روئی کہ اپنے اردگر موجود سب کی آنکھوں کو نم کر دیا۔۔۔

شمس نے اسکے سر کا بوسہ لیتے ہوئے اسے خود سے الگ کر کے آنسو صاف کیے

کیسی ہے میری گڑیا۔۔۔۔۔؟؟؟

زندہ ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولی

کون ہے ساتھ۔۔۔۔؟؟ شمس نے اسکی مرجھائی سی صورت دیکھ کر بات بدلی

بی بی جان۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔شمس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پیسینجر سیٹ پر بیٹھیں بی بی جان کو سلام کیا

وعلیکم سلام۔۔۔۔۔کیسے ہو بچے۔۔۔۔؟؟بی بی جان اپنے مخصوص ٹہرے ہوئے متاثر کن لہجے میں بولیں

اللہ سائیں کا شکر ہے۔۔۔۔آپ لوگ بیچ راہ میں کیوں رک گئے۔۔۔؟؟؟

گاڑی میں کوئی مسلہ ہو گیا ہے ابھی حویلی سے ڈرائیور بلواتے ہیں تاکہ گھر جا سکیں۔۔۔۔بی بی جان نے کہا

اگر آپ مجھے اس قابل سمجھیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں آپ لوگوں کو۔۔۔۔شمس دل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکا

بی بی جان کشمکش میں تھیں کہ کیا جواب دیں۔۔۔۔

کوئی بات نہیں اگر آپ نہیں جانا چاہتیں تو مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔۔۔شمس ان کے چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھ کر بولا

ارے نہیں بچے ایسی بات نہیں ہم چلتے ہیں  تمہارے ساتھ۔۔۔۔انہوں نے ہیر کی طرف دیکھ کر شمس کیساتھ جانے کی رضامندی دی اور گاڑی سے نکل آئیں

اللہ بخش تم گاڑی ٹھیک کروا کر حویلی لے آنا۔۔۔۔ہم شمس خان کیساتھ جا رہے ہیں

جو حکم بی بی جان۔۔۔۔۔اللہ بخش  مؤدب ہوا

اتنے میں شمس کا ڈرائیور گاڑی ان تک لے آیا تھا

شمس نے بی بی جان کو بیٹھنے میں مدد کی۔۔۔۔۔۔ہیر بھی  اپنے دل میں امڈتی خوشی سنبھالتی گاڑی میں آ  بیٹھی

پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد جو روڈ آنا تھا اس روڈ پر تین سڑکیں تھیں جو تین مختلف گاؤں کو جاتی تھیں ان تین میں سے ایک ہیر کے گاؤں کو اور دوسری یشب کے گاؤں کی طرف جاتی تھی  

اس روڈ پر پہنچتے ہی بی بی جان کو نا جانے کیا سمائی کہ بول اٹھیں

دائیں جانب لے چلو۔۔۔۔۔۔

شمس اور ہیر نے بیک وقت ان کی طرف دیکھا

وہ راستہ ہیر کے گاؤں کیطرف جاتا تھا

جی۔۔۔۔۔شمس نے سر ہلاتے ہوئے ڈرائیور کو اپنی حویلی جانے کا کہا

بیس منٹ بعد وہ لوگ حویلی کے اندر تھے

ہیر ناقابل یقین خواب کی سی کیفیت میں تھی۔۔۔۔۔۔وہ پورے سات ماہ بعد اپنوں سے ملنے والی تھی۔۔۔جسکی خوشی ہی نرالی تھی۔۔۔اسکے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر رہے تھے  وہ آگے بڑھنے کی بجائے جھجھکتی ہوئی بی بی جان کی طرف مڑی

بی بی جان نے اسکے چہرے پر امڈتی  خوشی دیکھ کر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر اندر جانے کی اجازت دی

ہیر نے انہیں سہارا دیا اور اپنے بھاری قدم گھسیٹتی رہائشی حصے کی  طرف بڑھی

ہیر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ روئے یا ہنسے۔۔۔عجب سی حالت تھی دل و دماغ کی۔۔۔۔۔

ہیر۔۔۔رر۔۔۔بی بی۔۔۔۔رحیمہ کی چیخ پوری حویلی میں گونجی تھی جسے سنتے ہی سب ایک ایک کر کے وہاں آ موجود ہوئے

ہیر میری بچی۔۔۔۔۔سب سے پہلے اماں ہی ہوش میں آتی اسکی طرف بڑھیں اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگیں

کہاں تھی تو۔۔۔میری تو آنکھیں ترس گئیں تھیں اپنی بچی کو دیکھنے کے لیے۔۔۔۔کیسی ہو میری جان۔۔۔۔انہوں نے اس کے چہرے کو چومتے ہوئے پوچھا

میں ٹھیک ہوں اماں۔۔۔۔وہ خدیجہ کے آنسو صاف کرتی مدھم سا کہتی پیچھے ہوئی 

پھر باری باری سب آ کر اسے گلے لگا کر ملتے جا رہے تھے

کافی دیر ملنے ملانے کا سلسلہ چلتا رہا کوئی دس پندرہ منٹ بعد جا کر ہیر کی جان بخشی ہوئی

خدیجہ نے  اسے اپنے پہلو میں بیٹھا لیا اور بیتے سات ماہ کی کٹھا سننے لگیں

ہیر نے انہیں خود پر گزری ہر قیامت چھپا کر مہرو اور بی بی جان کی محبتوں کو بڑھا چڑھا کر بتایا تھا۔۔۔جس پر خدیجہ کافی مطمعین ہو گئی تھیں کہ جسطرح بھی سہی  انکی بیٹی اچھے لوگوں میں ہی گئی تھی

بی بی جان کو بھی خاص الخاص پروٹوکول دیا گیا تھا

حویلی میں عجب سی چہل پہل معلوم ہو رہی تھی ہر کوئی بی بی جان اور ہیر کی آؤ بھگت کرنے میں بچھا جا رہا تھا

وہ سب(ہیر کے گھر کی خواتین ، چچیاں ، کزنز )  سب دالان میں بیٹھے تھے

خدیجہ نے سب کی موجودگی میں  بی بی جان سے یشار خان کے خون کی معافی مانگی اور انہیں اس دن کا سارا قصہ سنانے لگیں۔۔۔۔۔۔  

) اس دن شمس قریبی علاقے میں ہرن کے شکار پر گیا ہوا تھا۔۔۔۔وہ اور سمندر خان (ملازم ( دو ہرنوں کا شکار کر کے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں پہاڑی گیڈر سامنے آ گیا۔۔۔۔شمس نے  اس پہاڑی گیڈر کو دیکھ کر ہی گولی چلائی تھی۔۔۔۔پر اس لمحے یشار خان کا بلاوا آ چکا تھا۔۔۔۔بدقسمتی سے شمس کی بندوق سے نکلی گولی  جھاڑیوں کے پیچھے سے آتے یشار خان کو خون  میں نہلا گئی۔۔۔۔گولی یشار کے عین سینے پر دل کی جگہ پر لگی تھی اور وہ اسی لمحے جان کی بازی ہار گیا تھا۔۔۔۔

اس بات کو مہرو اور یشار کے گھر والے مان چکے تھے سوائے یشب خان آفریدی کے۔۔۔جس نے اس بات کو جھوٹ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا تھا اور پنچائیت بیٹھائی گئی تھی )

خدیجہ نے  ہیر کی زبانی اسکے ساتھ کیے گئے اچھے سلوک پر  بی بی جان کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا

اتنی مہمان نوازی اور  پزیرائی پر بی بی جان نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے دل میں  ان سب کے لیے کوئی میل نہیں ہے۔۔۔۔۔

کیونکہ موت تو اٹل ہے جو ہر حالت میں آ کر ہی رہے گی پھر ان لڑائی جھگڑوں سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟

…………………………………………………………

بی بی جان نے تنہائی ملتے ہی ہیر کو وہاں رکنے کا کہا تھا۔۔۔۔جسے سن کر وہ ہچکچائی 

بی بی جان یشب۔۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں کہے گا میں سنبھال لوں گی اسے تم فکر مت کرو۔۔۔انہوں نے تسلی دی

مگر بی بی جان۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟

میرا یہ مطلب نہیں تھا بی بی جان آپ تو میرے لیے۔۔۔۔وہ انکے ہاتھ پکڑے رو پڑی

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا بی بی جان کہ آپ کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں۔۔۔۔

مجھے تمہارے شکریے کی ضرورت نہیں ہے بچے تم میرے لیے مہرو سے ہر گز کم نہیں ہو۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے ہاتھ تھپتھپا کر حوصلہ دیا۔۔۔۔۔

چلو شاباش اب رونا بند کرو اور  شمس سے کہو مجھے ڈرائیور کیساتھ حویلی بھجوا دے

بی بی جان کھانا کھا کر جائیے گا ناں اماں اور بھابھی خاص آپ کے لیے۔۔۔۔۔

ارے نہیں جاؤ جا کر منع کرو کھانا کھانے میں بہت دیر ہو جائے گی اتنی خاطر مدارت تو کر دی ہے باقی پھر کبھی سہی میں  اب نکلوں گی بس۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔ہیر سر ہلاتی کیچن کی طرف چلی گئی

اماں کو بی بی جان کا میسج دیا اور رحیمہ کو شمس کو لینے بھیجا جو مردانے میں تھا

………………………………………………………

شمس خود چھوڑ کر آنا چاہتا تھا مگر بی بی جان نے منع کر دیا اسلئیے وہ ڈرائیور کیساتھ ہی روانہ ہو گئیں تھیں 

یشب ٹیرس پر ٹہلتا سیل کانے سے لگائے کال میں بزی تھا جب پجارو اندر  داخل ہوئی 

انجانی گاڑی کو اندر آتے دیکھ کر وہ کال بند کرتا گرل کی طرف آیا

بی بی جان کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر وہ حیران ہوتا نیچے ہال میں چلا آیا

اسلام وعلیکم بی بی جان۔۔۔۔۔۔۔یشب نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا

وعلیکم سلام کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟

فٹ ہوں آپ سنائیں کیسی گزری شادی۔۔۔۔؟؟

شادی بھی اچھی گزر گئی خدا جوڑی سلامت رکھے دونوں کی۔۔

جی بلکل۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلایا

تمہارے بابا جان کہاں ہیں اور زمینوں کا مسلہ ہو گیا حل۔۔۔۔۔؟؟

بابا جان کمرے میں ہیں شاید اور زمینوں کا مسلہ بھی حل ہو چکا ہے۔۔۔ 

آپ کس کیساتھ آئیں ہیں بی بی جان….؟؟

گاڑی خراب ہو گئی تھی راستے میں وہیں سے کروا لی تھی۔۔۔۔ٹھیک ہے پھر میں بھی آرام کروں بہت تھکن ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔بی بی جان بات گول مول کرتیں اپنے کمرے کیطرف چلی گئیں

یشب چاہنے کے باوجود بھی ان سے وہ نہ پوچھ سکا جو پوچھنا چاہتا تھا

…………………………………………..…………..…

ہیر خوش بھی تھی اور بے چین بھی۔۔۔

خوش وہ اپنے گھر آ کر اور گھر والوں سے مل کر تھی اور بے چین وہ یشب کی وجہ سے تھی

ناجانے یشب نے کیسا ری ایکٹ کیا ہو گا جب بی بی جان نے میرے یہاں ہونے کا بتایا ہو گا۔۔۔۔۔یقینا بہت غصہ آیا ہو گا اور اس غصے کی لپیٹ میں پوری حویلی کے  ملازم آ چکے ہوں گے اب تک۔۔۔۔ وہ اپنی قیاس کے گھوڑے دوڑا  رہی تھی

پتہ نہیں یشب اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟؟کیا ہو جائے اگر ہر وقت بات بے بات غصہ نہ کریں تو۔۔۔۔ذرا ذرا سی بات پر تیوری  چڑھ جاتی محترم کی۔۔۔۔

ہیر بی بی۔۔۔۔۔ہیر بی بی 

نیچے وہ۔۔۔۔۔وہ آئے ہیں۔۔۔۔ رحیمہ گھبراتی بوکھلاتی اسکے کمرے میں آئی

کون وہ۔۔۔۔۔؟؟؟

وہ۔۔۔۔۔وہ ہیر بی بی۔۔۔۔یشب خان۔۔۔۔۔

یشب خان۔۔۔۔۔۔۔ہیر کے ہاتھ میں پکڑا  گلاس زمین سے ٹکڑا کر کرچی کرچی ہو چکا تھا

…………………………………………………………

یشب بی بی جان کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر لیب ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا

بھابھی کالنگ دیکھ کر اس نے کال اوکے کی ۔۔۔۔

ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟دوسری طرف چھوٹتے ہی پوچھا گیا

ہیررر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ہاں ہیر اسکا سیل کیوں آف جا رہا ہے۔۔۔ میری اس سے بات کروا دو۔۔۔۔گھر پہنچ کر بتایا  ہی نہیں اس نے۔۔۔میں یہاں فکر مند ہو رہی ہو ؟؟؟ مہرو ایک ساتھ ایک ہی سانس میں بولی

جسٹ آ منٹ بھابھی۔۔۔۔۔۔ہیر کے پاس سیل کہاں سے آیا۔۔۔۔۔؟؟

تم میری بات کرواؤ اس سے یہ انویسٹی گیشن پھر کر لینا۔۔۔۔۔۔

کیسے بات کرواؤں میں۔۔۔۔؟؟

کیوں ابھی تک آئے نہیں وہ لوگ کیا۔۔۔۔؟؟مہرو پریشان ہوئی

بی بی جان آ گئیں ہیں مگر ہیر۔۔رر۔۔

ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو ٹھٹھکی

مجھے کیا پتہ۔۔۔۔میں تو سمجھا کہ آپ نے اپنے ساتھ روک لیا ہو گا

نہیں۔۔۔نہیں ہیر اور بی بی جان اللہ بخش کیساتھ نکلیں تھیں صبح 10 بجے اور  اب شام ہو گئی ہے۔۔۔۔تم ایسا کرو بی بی جان سے پوچھو جا کر ہیر کدھر رہ  گئی۔۔۔؟؟

جی۔۔۔۔یشب عجلت میں فون بند کرتا بی بی جان کے کمرے میں آیا وہ مغرب کی نماز پڑھ رہیں تھیں 

یشب بے چینی سے ٹہلتے ہوئے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا

بی بی جان نے دعا مانگنے کے بعد  یشب کو ٹہلتے دیکھ کر پکارا

کیا ہوا یشب خیریت۔۔۔۔۔؟؟

بی بی جان ہیر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟ بھابھی کی کال آئی تھی تو پتہ چلا کہ وہ بھی آپ کیساتھ ہی نکلی تھی لال حویلی سے پھر راستے میں کہاں رہ گئی۔۔۔۔؟؟وہ بے چین دیکھائی دے رہا تھا

تم بیٹھو بچے میں بتاتی ہوں سب۔۔۔بیٹھو میری جان۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے تیور دیکھ کر پچکارا

یشب بادلانخواستہ بیٹھ گیا۔۔۔ 

اصل میں گاؤں سے کچھ پیچھے راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔وہیں ہمیں شمس خان مل گیا۔۔

شمسسسس۔۔۔۔۔وہ بیٹھے سے کھڑا ہوا

بات مکمل ہونے دو یشب۔۔۔

کیا بات۔۔۔؟؟ یہی کہ آپ اسے اس قاتل کیساتھ روانہ کر آئیں ہیں۔۔۔۔وہ بھڑک اٹھا

یشب بچے میں خود بھی دلاور خان کی حویلی گئی تھی۔۔۔ہیر تو واپس آنا چاہ رہی تھی میں ہی  زبردستی وہاں چھوڑ آئی اسے۔۔۔بی بی جان نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا

یشب۔۔۔۔یشب کہاں جا رہے ہو بچے۔۔۔؟؟؟ بات تو سنو۔۔۔۔بی بی جان پکارتیں رہ گئیں مگر یشب غصے سے بھرا سنی ان سنی کرتا حویلی سے نکل گیا

………………………………………………………

ہیر کہاں ہے بلائیں اسے۔۔۔۔۔وہ بھناتا ہوا بولا

یشب بیٹا بیٹھو۔۔۔۔بیٹھ کر بات ہوتی ہے۔۔۔۔دلاور خان نے اسکے تیوروں کے  برخلاف تحمل سے کہا تھا

میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا ہیر کو لینے آیا ہوں۔۔۔

ہیر کو بے شک لے جانا ساتھ وہ بیوی ہے تمہاری مگر سکون سے دو گھڑی بیٹھو تو۔۔۔۔۔

پلیز آپ وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔نہ میں یہاں بیٹھنے کو آیا ہوں اور نہ ہی بیٹھوں گا۔۔۔۔۔یشب نے ایک تلخ نظر فاصلے پر کھڑے شمس پر ڈال کر کہا

ہیر پیلر کی اوٹ میں کھڑی یشب کا چلانا سن رہی تھی مگر سامنے آنے کی ہمت نہ تھی

ہیر کو بلاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔دلاور خان نے خدیجہ بیگم کو کہا

جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتیں اٹھنے ہی والی تھیں کہ ہیر انکے جانے سے پہلے ہی پلر کی اوٹ سے نکل کر جھکے سر سے  سامنے چلی  آئی

یشب نے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھا ضرور مگر فلوقت اپنے غصے پر قابو پا کر ہی بولا

چلو لینے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ 

ہیر جانتی تھی اس بلاوے کا مقصد مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی ایک طرف باپ اور بھائی تھے تو دوسری طرف شوہر تھا شوہر بھی وہ جو کبھی دل میں رہ چکا تھا جسکی ہر بات وہ پتھر پر لکیر جان کر مانتی آئی تھی مگر اب جب سے مس کیرج ہوا تھا وہ یشب کیساتھ کافی منہ ماری کر چکی تھی مگر اس وقت وہ کچھ ایسا کر کے نیا پینڈوراباکس کھولنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے خاموشی سے سر جھکائے کسی  کی طرف  بھی دیکھے بنا  باہر کی  جانب چل پڑی

جانتی تھی کہ اگر گھر والوں پر نظر پڑ  گئی تو جانا بہت مشکل ہو جائے گا

یشب بھی سب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اسکے پیچھے ہی باہر آ گیا تھا

………………………………………………………

واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا۔۔۔

بی بی جان راہداری میں بے چینی سے ٹہلتیں ان کا انتظار کر رہیں تھیں

جب وہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے ہیر کو دیکھ کر یشب پر ایک ملامتی نظر ڈالی۔۔۔ 

جس پر وہ نظریں چراتا آگے بڑھ گیا

ہیر بی بی جان کے پاس آئی۔۔۔۔ آپ کیوں کھڑی ہیں یہاں۔۔۔۔؟؟چلیں کمرے میں

بی بی جان خاموشی سے اسکے ساتھ کمرے میں آئیں

کسی کی بھی نہیں سنتا یہ۔۔۔۔ناجانے کس پر چلا گیا۔۔۔۔اتنا غصہ تو کبھی خان ) خاقان آفریدی ( نے بھی نہیں کیا جتنا یہ کرتا ہے۔۔۔۔اللہ ہدایت دے 

بیٹھو یہاں۔۔۔۔بی بی جان نے ہیر کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھایا

میں شرمندہ ہوں تم سے ہیر۔۔۔میں کتنے  مان سے تمہیں وہاں چھوڑ کر آئی تھی اور  یشب نے تمہیں چند گھنٹے بھی رکنے نہیں دیا

بی بی جان آپ کیوں شرمندہ ہیں۔۔۔مجھے ملنا تھا سب سے۔۔۔۔مل لیا اس لیے رکنے یا نہ رکنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ بجھی بجھی سی بولی

پھر بھی اتنے مہینوں کی دوری تھی  کچھ وقت تو ۔۔۔۔۔۔

کوئی بات نہیں بی بی جان مجھے بلکل  بھی برا نہیں لگا بلکہ میں تو  خوش ہوں  کہ کم وقت کے لیے ہی سہی میں اپنے گھر والوں سے مل آئی اور ویسے بھی مجھے آج یا کل یہیں آنا تھا تو پھر آپ کیوں شرمندہ ہو رہی ہیں

بی بی جان نے بہت فخر سے اسے دیکھا تھا 

تمہارے ہر عمل میں تمہاری ماں کی اعلی  تربیت جھلکتی ہے ہیر۔۔۔۔اور مجھے فخر ہے کہ تم میرے یشب کی شریک حیات ہو۔۔۔وہ مسکرائیں

تم جس طرح کے حالات میں یہاں آئی تھی۔۔۔جس طرح سے یشب کا برا رویہ سہا اور سہہ کر برداشت کیا۔۔۔۔۔ سچ پوچھو تو میں تمہارے صبر اور دھیمے مزاج کی  قائل ہو چکی ہوں۔۔۔۔۔میں بلکل ایسی ہی لڑکی  یشب کی زندگی میں لانا چاہتی تھی۔۔۔۔ 

میری ایک بات مانو گی ہیر۔۔۔۔انہوں نے آس بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے ہاتھ تھامے

جی بی بی جان کہیں۔۔۔۔۔

ہیر بچے یشب کو بھی اپنے جیسا بنا دو۔۔۔

ہیر نے حیرانگی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔۔اپنے جیسا مطلب۔۔۔۔؟؟؟؟

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے جیسا صابر  اور دھیمے مزاج کا۔۔۔

میں ایک ماں ہونے کے ناطے  یہ نہیں کر سکی مگر تم ایک بیوی ہونے کے ناطے یہ کرنے کی کوشش کرو ہیر۔۔۔۔۔تم جس رشتے میں اسکے ساتھ بندھ چکی ہو وہ رشتہ جتنا نازک  ہے اتنا ہی مضبوط  بھی اور  اس رشتے کا تقاضہ بھی تو یہی ہے کہ  جب دونوں فریق میں سے کوئی ایک غلط ہو تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے  اپنی محبت سے اسکی غلطیوں کو درگزر کر کے اصلاح کرے۔۔۔

میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ تم اپنی  محبت سے اسے  بدل دو۔۔۔۔کیونکہ اگر تم چاہو تو یشب کی کی گئی  زیادتیوں کو بھلا کر اسے بدل سکتی ہو ہیر۔۔۔۔

جب سے مس کیرج والا واقعہ ہوا ہے میں نے دیکھا ہے وہ کافی بدل گیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔تم بھی دل بڑا کر کے سب بھلا دو میری جان۔۔۔۔دونوں خاندانوں میں  موجود رنجشوں کو مٹانے کی کوشش کرو کہ یہ سب تم ہی ممکن کر سکتی ہو  بچے۔۔۔۔۔

کرو گی ناں ایسا۔۔۔۔؟؟؟انہوں نے ہیر کے ہاتھوں پر دباؤ ڈالا

جج۔۔۔۔۔جی بی بی جان میں۔۔۔۔میں کوشش کروں گی کہ سب ٹھیک ہو جائے

ہوں۔۔۔۔مجھے تم سے ایسے ہی جواب کی امید تھی۔۔۔۔خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔بی بی جان نے مسکراتے ہوئے اسکا سر تھپتھپایا 

جاؤ جا کر کھانا کھا لو  اور آرام کرو تھک گئی ہو گی

آپ نے کھا لیا۔۔۔۔؟؟

نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔تم ایسا کرو سکینہ سے کہو مجھے یہیں دے جائے اب باہر جانے کی ہمت نہیں۔۔۔۔

جی میں بھجواتی ہوں ابھی۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی باہر چلی گئی

…………………………………………………………

ہیر کھانے سے فارغ ہو کر جب کمرے میں آئی تو یشب بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا ایک سرسری نظر اس پر ڈال کر پھر سے ٹی وی دیکھنے لگا۔۔

ہیر آہستگی سے چلتی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئی

چینج اور وضو کر کے وہ کمرے میں آئی اور خاموشی سے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا

یشب ایک لمحے کو اسکی ہمت پر عش  عش کر اٹھا مگر اسے جائے نماز اٹھاتے دیکھ کر کوئی بھی تلخ بات کہنے سے باز رہا

ہیر نے تسلی سے عشاء کی نماز ادا کی اور لائٹ آف کر کے بیڈ کے پاس آئی

مجھے کہاں سونا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟

میرے پہلو میں۔۔۔۔فٹ جواب آیا

صد شکر کہ وہ لائٹ آف کر چکی تھی ورنہ بلاوجہ یشب اسکا مزاق اڑاتا۔۔۔۔ہیر اپنے بلش کرتے گالوں پر ہاتھ پھیر کر بیڈ کی  دوسری سمت آ کر لیٹ گئی

یشب  نے بھی خاموشی سے دوسری  طرف کروٹ بدل لی۔۔۔

ہیر اسکے خاموشی سے کروٹ بدل لینے پر حیران تھی۔۔

یہ۔۔۔۔یہ خاموش کیوں ہیں۔۔۔اور غصہ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔حیرت ہے لینے تو یوں گئے تھے جیسے آج ہی قتل کر دیں گے میرا اور اب۔۔۔۔۔چلو اچھا ہے خاموش ہیں ورنہ پھر سے جواب میں  کوئی تلخ بات میرے منہ سے نکل  جاتی اور پھر نئے سرے سے جھگڑا۔۔۔۔

اتنے دن کی تھکن تھی کب سوچتے سوچتے ہیر کی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا

…………………………………………………………

ہیر گہری نیند میں تھی جب اسے گھٹن کا احساس ہوا یوں جیسے کوئی بہت بھاری چیز اس پر رکھی ہو۔۔۔۔۔

اس نے غنودگی میں ہی ایک دو بار ہاتھ کو ہلا کر اس چیز کو ہٹانے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔۔۔؟؟وہ باوجود کوشش کے ہاتھ نہ ہلا پائی 

اب کے ہیر نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ مگر کمرے میں چھایا گھپ اندھیرا اسکے دل کی دھڑکن مزید بڑھا گیا۔۔۔۔۔اسے یشب کی مکمل  اندھیرا کر کے سونے کی  عادت سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔۔

ہیر نے اسی اندھیرے میں اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔۔

چند منٹ کے غوروخوض کے بعد اسے اپنے کان کے پاس یشب کے ہلکے ہلکے خراٹوں اور سانسوں کی آواز محسوس ہوئی

اوہ۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آ گئی۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھی وہ تو بیڈ کی بلکل پائنتی سے لگ کر سوئی تھی پھر یشب کے اتنے قریب کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟

اس نے کسمسا کر اپنا ہاتھ آزاد کروایا جو یشب کی گرفت میں تھا یشب کا ایک بازو اسکے سر کے نیچے جبکہ دوسرا ہیر کے اوپر سے گزار کر دوسری سائیڈ پر رکھ کر اسے قید کیا گیا تھا 

یشب کے بازو سے ہی ہیر کو خود پر کسی  وزنی چیزکا احساس ہوا تھا۔۔۔۔

کیا مصیبت ہے۔۔۔۔۔ہیر زور لگانے کے باوجود بھی یشب کا بازو ہٹا نہ پائی

کونسی مصیبت۔۔۔۔۔یشب نے کہتے ہوئے اسے مزید قریب کیا

وہ ہیر کے جھٹکوں پر جاگ گیا تھا جو وہ اسکے بازو کو ہٹانے پر مار رہی تھی

بازو ہٹائیں خان۔۔۔۔مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔۔۔۔

خان کی جان۔۔۔۔۔۔کیسی گھٹن۔۔۔۔۔؟؟؟وہ موڈ میں بولا

ہیر اس ڈائیلاگ پر سخت بدمزا ہوئی

خان پلیز۔۔۔۔لائٹ تو آن کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔

مجھ سے یا اندھیرے سے۔۔۔؟؟؟وہ یشب ہی کیا جو بات کی کھال نہ اتارے

دونوں سے۔۔۔۔۔۔ہٹائیں بازو کس قدر بھاری ہے یوں جیسے انسان کا نہیں بلکہ لوہے کا ہو۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی

یشب نے اسکے چڑنے پر مسکراتے ہوئے سائیڈ لیمپ آن کیا

ہیر اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی پرے کھسکی۔۔۔۔۔۔

میں نے تمہاری جگہ اپنے پہلو میں بتائی تھی سنا نہیں تھا کیا تمہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ایکدم سے پنتیرا بدلتا اپنے مخصوص  کرخت لہجے میں بولا

میں اکیلی ہی سوتی ہوں اس لیے مجھے کسی کے پہلو میں سونے کی عادت نہیں۔۔۔وہ بھی بنا لحاظ رکھے بولی

میں کسی کی نہیں اپنی بات کر رہا ہوں سمجھی۔۔۔۔۔۔۔

مجھے سونے دیں خان اتنے دن کی تھکن ہے۔۔۔۔وہ جمائی روکتی اسے دیکھ کر صلح جو انداز میں  بولی

تھکن تو مجھے بھی ہے مگر۔۔۔۔۔۔وہ بات روکتا مسکرایا

ہیر اسکے تیور سمجھ چکی تھی اسی لیے ایک ہی جست میں بیڈ سے نیچے اتری

یشب اسکی پھرتی پر مسکرا اٹھا

سو جاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم سے رومینس کرنے کا۔۔۔۔وہ جل کر کہتا لائٹر اور سیگرٹ اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔

یہ یشب کی دوسری بری عادت تھی کہ  جب نیند سے ایک دفعہ جاگ جاتا تو پھر دوبارہ نہیں سوتا تھا

ہیر جانتی تھی یہ بات اسی لیے اس نے یشب کے جانے کے بعد پرسکون ہو کر کمبل لپیٹا اور نیند سے بھاری ہوتی آنکھیں سختی سے میچ  لیں

…………………………………………………………

مجھے بتا تو دیتی کہ تم اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی ہو میں ہر گز یشب کو کال نہ کرتی تو اسے پتہ بھی نہیں چلنا تھا تم ایک آدھ دن تک رہ لیتی وہاں۔۔۔۔۔مہرو کو یشب نے رات ہی بتا دیا تھا کہ بی بی جان ہیر کو اسکے گھر چھوڑ آئیں تھیں اور وہ اسی وقت جا کر واپس لے آیا تھا اس لیے  اب  وہ ہیر سے  فون  پر بات کرتی ایسا کہہ رہی تھی

آج نہیں تو کل پتہ چل ہی جاتا بھابھی پھر بلاوجہ غصہ ہوتے۔۔۔ 

اوہ تو اب نہیں ہوا کیا غصہ۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔۔۔۔

بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو حیران تھی

جی۔۔۔۔۔۔

ارے واہ۔۔۔۔یعنی کہ تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ آ چکی ہے۔۔۔۔مہرو شوخی سے بولی

اتنا سب ہو جانے کے بعد کیا فائدہ ایسی  تبدیلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر بے دل  ہوئی

دیر آید درست آید اس لیے ناشکری  مت کرو۔۔۔۔ بلکہ شکر ادا کرو کہ یشب جیسا ہٹلر بدل رہا ہے۔۔۔اور پتہ ہے اسکے بدلنے سے سب سے زیادہ فائدہ تمہیں ہی ہونے والا ہے۔۔۔مہرو مسکراہٹ دبا کر بولی

وہ کیسے۔۔۔۔۔؟؟

تمہیں ہر وقت اسکی سڑی ہوئی غصے سے لال پیلی  صورت ہی دیکھنے کو ملتی تھی ۔۔۔کم از کم اب وہ مسکرا تو دیا کرے گا  تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔مہرو نے بات کے آخر پر خود ہی قہقہہ لگا کر مزا لیا

بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔ہیر لٹ کان کے پیچھے کرتی مسکرائی

اچھا اور کوئی نئی تازی سناؤ دو پھر۔۔۔۔۔

کیسی نئی تازی۔۔۔۔۔؟؟؟

یاد ہے تمہیں پہلے بھی جب میں لال حویلی سے واپس آئی تھی تو تم نے مجھے تائی بننے کی خوشخبری سنائی  تھی اس لیے اس بار بھی میں ایسی ہی نیوز سننے کی منتظر  رہوں گی تیار رہنا۔۔۔۔۔۔مہرو نے چھیڑا

بھابھھھھی۔۔۔۔۔ہیر بلش کرتی شرما گئی

ارے یار۔۔۔۔۔تم یقینا شرما رہی ہو گی۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟ مہرو ہنسی

بھابھی میں فون رکھ رہی ہوں پھر بات ہو گی خدا حافظ۔۔۔۔ہیر نے جلدی سے کہہ کر کال بند کی

توبہ ہے بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔وہ مسکرا کر پلٹتی یشب سے ٹکرائی جو اسکے بلکل پیچھے ہی کھڑا تھا

کیا برائیاں کر رہی تھی میری۔۔۔۔؟؟ بھابھی کیساتھ۔۔۔۔

مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی برائیاں کرنے کی۔۔۔۔وہ کہتی ہوئی سائیڈ سے ہو کر بیڈ  کیطرف آئی

ہیر کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔۔۔؟؟؟

کیا سب۔۔۔۔؟؟

تمہاری بےگانگی اور کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا خفا سا بولا

اونہہ۔۔۔۔میری چند روزہ بےگانگی سہی نہیں جا رہی محترم سے اور خود جو بےگانگی دیکھائی تھی وہ بھول گئے شاید۔۔۔

کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟

مجھے وقت چاہیے۔۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی

کس لیے۔۔۔۔۔؟؟؟

آپ کے اس مزاج کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے۔۔۔۔

مگر میں مزید وقت ضائع  نہیں کرنا چاہتا ہوں ہیر۔۔۔۔جو گزر گیا وہ کافی تھا مگر اب میں اس وقت کو تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا۔۔۔وہ محبت سے کہتا قریب آیا

کس قدر مطلب پرست ہیں آپ۔۔۔۔۔۔یعنی کہ اب بھی  زبردستی  مسلط ہونا  چاہ رہے  ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پٹاخ سے بات اسکے منہ پر مار گئی

ہیر کی  بات یشب کے دل پر گھونسے کی مانند پڑی۔۔۔۔

نہیں میں اب تم سے کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا کسی بھی قسم کی۔۔۔اس بار فیصلہ کرنے کا اختیار میں تمہیں دیتا ہوں ہیر۔۔۔۔   

تمہارا فیصلہ ہی آخری ہو گا اور میں تمہارے ہر فیصلے کو قبول کروں گا۔۔۔۔

تم چاہو تو واپس اپنے گھر اور گھر والوں کے پاس جا سکتی ہو ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔اور اگر نہیں تو۔۔۔۔۔وہ رکا

تو پھر کبڈ کے 3rd  ڈراڑ  میں تمہارے لیے وہ چیز پڑی ہے جس میں میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں

میں زیادہ وقت دینے کا قائل نہیں ہوں اس لیے ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس۔۔۔۔اس ایک ہفتے میں میں تمہیں بلکل ڈسٹرب نہیں کروں گا اسلیے اچھی طرح سوچ لو اور پھر فیصلہ کرو۔۔۔

مگر خیال رہے کہ میں ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔اگر تم واپس جانا چاہو گی تو میں بلکل بھی رکاوٹ نہیں بنوں گا اور اگر تمہارا فیصلہ میرے حق میں ہوا تو۔۔۔۔۔

اس ڈراڑ میں موجود تمہارے لیے خریدی گئی چیز کو پہن کر تیار رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ہفتہ مطلب اگلے سنڈے۔۔۔۔۔یشب نے حساب لگا کر اسے فیصلہ سنانے کا دن بتایا

میں بے چینی سے اس دن کا اور تمہارے ڈسیزن کا منتظر رہوں گا

سو ٹیک یور ٹائم۔۔۔۔۔یشب سنجیدگی سے اسے اپنا فیصلہ سناتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا

پیچھے ہیر ساکت کھڑی تھی

کیا وہ واپس جانا چاہتی ہے ہمیشہ کے لیے۔۔۔؟؟؟اسکا دماغ اسکے دل سے سوال کر رہا تھا

……………………………………………………………

یشب کے دئیے گئے وقت کے مطابق چار دن گزر چکے تھے۔۔۔ان چار دن میں یشب اس سے بلکل لاتعلق ہو گیا تھا 

وہ ایک کمرے میں بلکل اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔اجنبی تو وہ پہلے بھی تھے مگر اس اجنبیت میں دشمنی تھی ، انتقام تھا  اور اب وہ یکسر بےگانہ ہو چکا تھا

ہیر باوجود کوشش کے کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔دل اور دماغ میں ایک  عجیب سی جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔

دماغ اسے واپس جانے کا مشورہ دے رہا تھا تاکہ یشب کو اسکے کیے گئے سلوک کی سزا مل سکے جبکہ دل اس کے برخلاف یشب کی حمایت کر رہا تھا۔۔۔۔

دل چیخ چیخ کر اسے یہیں رہنے کا مشورہ دے رہا تھا جہاں وہ شخص تھا جسے  اس نے اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ ایک اچھے مرد کی حثیت سے سوچا تھا ورنہ اس پہلے تو کسی  مرد نے ہیر کو اسطرح متاثر نہیں کیا تھا جیسے یشب خان آفریدی نے پہلی ملاقات کے بعد  اسے بے چین کر دیا تھا 

جو اب اسکا شوہر تھا اسکا محرم۔۔۔۔جسے کبھی اس نے اس روپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔۔۔۔۔چونکہ ایک نامحرم مرد کو سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے ہیر نے بروقت ہی اپنی تمناؤں کو لگامیں ڈال لیں تھیں

مگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جسے بھی سہی اور جن  حالات میں بھی سہی اسکی یہ تمنا پوری ہو چکی تھی۔۔۔پھر کیونکر وہ اس شخص سے الگ ہو پاتی۔۔۔۔؟؟؟

اسے بی بی جان کی چند دن پہلے کی گئی نصیحتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں انہوں نے  اسے یشب کی غلطیوں کو درگزر کر کے دونوں فیملیز میں موجود رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا تھا۔۔۔

اسے مہرو کی  وہ باتیں یاد آ رہیں  تھیں جن میں مہرو نے ہیر کے سامنے یشب کی اس سے محبت کا  اقرار کیا تھا۔۔۔۔۔وہ محبت جو آج سے کئی  سال پرانی تھی جسے وقت کی دھول مٹی میں اٹا ضرور گئی تھی مگر ختم نہیں کر پائی تھی۔۔۔

وہ محبت جو  اب پھر سے اسکی منتظر تھی۔۔۔۔۔بانہیں پھیلائے اسے سمیٹنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔۔۔۔مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔۔

اسی کشمکش  میں مزید دو دن پر لگا کر اڑ گئے۔۔۔۔

کل سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا

 دن۔۔!!!

……………………………………………………………

یشب بہت بے چینی اور بے قراری سے ایک ایک دن گن کر گزار رہا تھا

وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اگر خدانخواستہ ہیر نے واپسی کا فیصلہ سنا دیا تو وہ کیا کرے گا کیسے کرے گا قبول اس کا یہ فیصلہ اور یہیں پر آ کر اسکا سارا غصہ سارا طنطنہ جھاگ بن کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔

کیا تھا اگر میں خود کے غصے پر تھوڑا سا کنٹرول رکھنا سیکھ جاتا تو کم از کم اتنا پریشان تو نہ ہونا پڑتا مجھے۔۔۔۔

انسان ہمیشہ غصے میں ہی کچھ ایسا کر جاتا ہے جو بعد میں اسکے اپنے لیے ہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے

اسی لیے تو ہمارے مذہب میں غصہ حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔تاکہ دونوں فریقین اسکے شر سے محظوظ رہیں۔۔۔۔مگر انسان اس  وقت سمجھتا ہے  یہ سب۔۔۔۔جب اسکے اپنے ہاتھ  میں سوائے پچھتاوے کہ اور کچھ نہیں رہتا۔۔۔۔۔

یشب کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔وہ ہیر کیساتھ اپنے روا رکھے گئے سلوک،،،،اپنے عمل،،،،اپنے غصے پر پچھتا رہا تھا

کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔

غصے میں خاموشی کے چند لمحات ،

پچھتاوے کے ہزار لمحات سے بہتر ہیں !

مگر یہ سمجھ یشب کو اب آیا تھا جب وقت اسکے ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل چکا تھا۔۔۔۔

"کاش"کہ یشار لالہ کا خون شمس خان نے نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔

"کاش" کے ہیر شمس خان کی بہن نہ ہوتی۔۔۔۔

"کاش" کہ میں نے بابا جان کی  بات مان لی ہوتی۔۔۔۔۔

"کاش" میں اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر ہیر کیساتھ وہ سب نہ کرتا جو کر چکا۔۔۔۔۔

ایسے بہت سے "کاش" تھے یشب کہ پاس۔۔۔۔۔۔۔مگر وقت اب وہ نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے ان سارے "کاشں" کو پورا کر سکتا۔۔۔

گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی ہر بات،،،،ہر عمل بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے تاکہ بعد میں پچھتاوے کا کوئی "کاش" نہ رہ جائے ۔۔۔۔یشب آفریدی کی طرح۔۔۔۔۔۔۔

………………………………………………………………

آج سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا دن اور وہ فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔۔

مگر  دل  ناجانے کیوں بے چین سا تھا صبح سے۔۔۔۔اب بھی وہ حویلی کے پیچھلے احاطے میں درخت کے نیچے بنائے گئے پتھر کے بینچ پر بیٹھی  اسی اداسی اور بےچینی کے بارے میں سوچ رہی تھی جب حدید کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائی

چاچی۔۔۔۔۔۔۔اس نے چہکتے ہوئے پیچھے سے بازو ہیر کے گلے میں ڈالے

ارے چاچی کی جان۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔؟؟ہیر نے خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے اسے اپنے سامنے کیا

ابھی ابھی۔۔۔۔۔۔وہ اچھلا

بتایا بھی نہیں آنے کا۔۔۔۔؟؟

میں نے ممی سے کہا تھا کہ آپ کو سرپرائز دیں گے

ہوں۔۔۔بہت اچھا سرپرائز دیا بھئی۔۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے اسکے گال چومے

ممی کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟

ہال میں بی بی جان کے پاس۔۔۔۔

تو چلو پھر ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہ حدید کا بازو پکڑ کر کھڑی ہوئی

چلیں۔۔۔۔۔وہ اچھلتا کودتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔

کاش کہ شمس لالہ سے یشار خان کا خون نہ ہوا ہوتا تو حدید اتنی سی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ہیر حدید کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچتی اسکے پیچھے پیچھے ہی ہال میں آئی

اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی مہرو کے گلے لگی

میں صبح سے ہی اداس تھی شکر ہے آپ لوگ آ گئے۔۔۔۔

ارے بھئی اداسی کی وجہ۔۔۔۔۔مہرو نے رازداری سے پوچھا

کوئی وجہ نہیں۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی بی بی جان کے تخت پر بیٹھی

اچھا اور سنائیں وہاں سب کیسے تھے۔۔۔۔؟؟

ہیر کے پوچھنے پر مہرو انہیں وہاں کی باتیں سنانے لگی

………………………………………………………………

یشب ڈیرے پر تھا جب اسکا سیل بجا

بابا جان کا نام دیکھ کر اس نے کال اوکے کی

جی بابا جان۔۔۔۔۔۔۔

یشب کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔؟؟

میں ڈیرے پر ہوں باباجان خیریت۔۔۔۔۔

جلدی حویلی پہنچو۔۔۔۔۔وہ عجلت میں بولے

کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔یشب فکر مند ہوا

تم آو پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔۔بابا جان نے کہہ کر کال کاٹ دی

یشب پریشان ہوتا اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔

اگلے دس منٹ میں وہ ان کہ سامنے تھا

کیا بات ہے بابا جان آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟

ہوں۔۔۔۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایا

دلاور خان نے بندہ بھجوایا تھا پیغام دے کر۔۔۔۔۔۔

کیسا پیغام۔۔۔۔؟؟یشب انکی بات پر چونکا

ہیر کی بھرجائی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شمس خان کی بیوی کا۔۔۔۔

اوہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوا

یہ تو وہاں جانے پر ہی پتہ چلے گا تم ایسا کرو ہیر کو لے کر فورا نکلو کیونکہ عصر کے بعد جنازہ ہے اور دو بج چکے ہیں۔۔۔۔۔میں بھی تمہاری بی بی جان کو لے کر جنازے سے پہلے ہی آ جاؤں گا

جی۔۔۔۔۔یشب سر ہلاتا اٹھ کر ہال  کیطرف آیا جہاں ہیر مہرو کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔۔یشب نے اسکے مسکراتے چہرے کو دل میں اتارا اور آہستگی سے اندر داخل ہوا

اسلام و علیکم آپ کب آئیں۔۔۔؟؟وہ سنجیدہ سا مہرو سے پوچھ رہا تھا

ابھی کچھ دیر پہلے تم سناؤ کہاں سے آ رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو خوش مزاجی سے بولی

میں ڈیرے پر تھا۔۔۔۔۔ہیر تم جا کر چادر اوڑھ آؤ ہمیں نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔۔۔

نکلنا ہے کہاں کے لیے۔۔۔۔۔؟؟ہیر کے سوال کو مہرو نے زبان دی

ہیر کے گھر جانے کے لیے۔۔۔۔۔۔

ہیر یشب کے کہے گئے الفاظ پر دھڑام سے نیچے گری تھی۔۔۔۔

میرے گھر۔۔۔۔پر خان آپ نے تو مجھے فیصلے کا اختیار دیا تھا پھر کیوں۔۔۔۔۔؟؟وہ پریشان سی دل میں سوچ رہی تھی

ہیر تم کھڑی کیوں ہو جاؤ ہری اپ۔۔۔۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا عجلت سے بولا

خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔۔ہیر کے وہاں سے چلے جانے کے بعد مہرو نے یشب کے چہرے پر پراسرار سنجیدگی کو دیکھ کر پوچھا

شمس خان کی بیوی کی ڈیٹھ ہو گئی ہے۔۔۔۔

اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔کیسے۔۔۔۔؟؟؟

پتہ نہیں کچھ بھی۔۔۔۔۔بندہ آیا تھا پیغام لے کر عصر کے بعد جنازہ ہے۔۔۔۔یشب نے مختصر بتایا

میں بھی چلوں ساتھ۔۔۔۔۔؟؟

آپ باباجان لوگوں کیساتھ آ جائیے گا۔۔۔

ہوں۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مہرو نے سر ہلا دیا

اتنے میں ہیر چادر لپیٹے وہاں آئی۔۔۔

اوکے بھابھی۔۔۔۔آپ بی بی جان کو بتا دیجئے گا۔۔۔۔وہ مہرو سے کہتا ہیر کو چلنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔

ہیر نے  افسردہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور کچھ بھی کہے بغیر باہر کی جانب چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔

…………………………………………………………….

ہیر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔۔۔؟؟کیا کہے۔۔۔۔۔۔؟؟

آخر خان ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔جب فیصلہ میں نے سنانا تھا تو پھر مجھے میرے گھر لے جانے کا مقصد۔۔۔۔؟؟وہ بھی آج ہی۔۔۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟وہ دل میں ہمکلام تھی کیونکہ یشب کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اس میں کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔۔۔

پندرہ منٹ بعد وہ لوگ ہیر کے گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھ چکے تھے

ہیر دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتی خاموشی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔ 

مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟جیسے ہی پراڈو انکی حویلی کیطرف مڑی تھی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو حویلی تک جا رہی تھی۔۔۔ 

کافی رش تھا وہاں مردوں کا۔۔۔۔کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ہیر کو کسی انہونی کا احساس ہوا وہ فورا پلٹتی یشب کا اسٹئیرنگ پر موجود ہاتھ پکڑ چکی تھی

خا۔۔۔۔۔خان کک۔۔۔۔کیا ہوا یہاں۔۔۔۔آپ مجھے کیوں لائے ہیں  یہاں۔۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں پوچھ رہی تھی

یشب جو گاڑی پارک کرنے کی مناسب جگہ دیکھ رہا تھا ہیر کے ہاتھ پکڑنے پر متوجہ ہوا

کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔تم پریشان مت  ہو۔۔۔۔یشب نے اسکے اڑاے حواس  دیکھ کر بتانا  مناسب نہ سمجھا

خان پلیز۔۔۔بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟وہ خوفزدہ سی بولی

گاڑی آگے نہیں جائے گی اس لیے تم یہیں سے حویلی تک چلی جاؤ۔۔۔میں گاڑی پارک کر دوں۔۔۔۔۔یشب اسکی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولا

نن۔۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا آپ۔۔۔۔۔آپ مجھے واپس لے جائیں میں حویلی  نہیں جاؤں گی

کم آن ہیر۔۔۔۔چلو میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔یشب اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور

ہیر کیطرف آ کر اس کا ڈور اوپن کیا۔۔۔۔آؤ۔۔۔

میں۔۔۔نہیں۔۔۔۔اسکے مزید بولنے سے پہلے ہی یشب اسے باہر نکال چکا تھا

وہ ہیر کا ہاتھ تھام کر ساتھ چلتا ہوا حویلی کے گیٹ تک گیا

اب جاؤ تم میں بھی یہیں ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے دونوں ہاتھوں سے یشب کے  بازو کو زور سے پکڑا۔۔۔۔۔جیسے کوئی ننھا بچہ کسی اپنے کے دور جانے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔۔

یشب نے اسے دیکھ کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔مگر ہیر اسکا بازو تھامے وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔

یشب اپنے بازو سے اسکے ہاتھ ہٹا کر اندر  کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔چاروناچار ہیر بھی خوفزدہ سی پاؤں گھسیٹتی اندر داخل ہوئی اور وہاں عورتوں کا جھمگٹا دیکھ کر وہ جان چکی تھی  کہ اس کا کوئی پیارا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔۔۔۔

مگر کون۔۔۔۔؟؟فلحال وہ یہ جان نہیں پائی تھی

…………………………………………………………

ہیر جب دس دن پہلے اپنی حویلی آئی تھی تو تب اسے پھوپھی بننے کی خوشخبری ملی تھی۔۔۔ 

شمس اور پروشہ کی شادی کے چھ  سال بعد ان کو اولاد کی نوید ملی تھی۔۔۔۔حویلی میں خوب صدقے و خیرات کیے گئے تھے۔۔۔۔۔جہاں ہر کوئی اس خبر پر خوش تھا وہیں  سب ہیر  کی غیرموجودگی پر افسردہ بھی تھے۔۔۔۔۔۔

خدا خدا کر کے یہ وقت گزرا تھا اور آج وہ خوشی جسکا پیچھلے کئی ماہ سے بے چینی سے انتظار کیا گیا تھا  اپنے ساتھ غم بھی  لے آئی تھی

پروشہ ڈلیوری کے دوران ہی بیٹی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی  تھی۔۔۔ 

ہر آنکھ پرنم تھی ہر دل دکھی تھا پروشہ کی جواں موت پر۔۔۔۔۔۔۔

پر قدرت کے  لکھے کو کون ٹال سکتا ہے بھلا۔۔۔۔؟؟

……………………………………………………………

چار دن ہو گئے تھے پروشہ کو اس دنیا سے گئے۔۔۔۔

مہرو ، بی بی جان ، یشب اور خاقان آفریدی اسکے جنازے کے بعد واپس آفریدی حویلی آ گئے تھے

ہیر وہیں تھی۔۔۔۔بے چین سی افسردہ سی۔۔۔بہت بڑی قیامت ٹوٹی تھی انکی حویلی پر۔۔۔

ہیر چار دن کی بھتیجی کو چپ کرواتی خود بھی رونے لگی تھی۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا تھا ان کیساتھ۔۔۔۔۔وہ معصوم سی بچی ہمیشہ کے لیے ماں سے محروم گئی تھی یہیں سوچ ہیر کا کلیجہ کاٹ رہی تھی۔۔۔وہ ابھی شمس لالہ کے کمرے سے ہو کر آئی تھی۔۔۔۔۔۔

جو بھابھی کے جانے کے بعد سے بلکل خاموش  ہو گئے تھے۔۔۔وہی خاموشی جس خاموشی سے آٹھ ، نو سال پہلے انہوں نے بہت مشکل سے باہر نکالا تھا اسے۔۔۔۔

ہیر بہت مشکل سے انہیں چند نوالے کھلا کر آئی تھی۔۔۔۔۔

وہ بچی کو گود میں لیے بیٹھی رو رہی تھی جب رحیمہ کمرے میں آئی

ہیر بی بی اسے مجھے دیں آپ سے چپ نہیں ہو گی۔۔۔۔رحمیہ نے بچی کو اسکی گود سے لیا اور جھلاتے ہوئے لوری دینے لگی۔۔۔۔چند منٹ بعد ہی بچی سو گئی 

ہیر بی بی اسے یہیں لیٹا دوں۔۔۔۔۔؟؟

ہاں لیٹا دو۔۔۔۔۔ہیر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر وضو کرنے چل دی

………………………………………………………….

ہیر کو دیکھے آج چار دن ہو گئے تھے اور یہی بات یشب کو ڈسٹرب کر رہی تھی وہ اسے اس دن جس حالت میں چھوڑ کر آیا تھا اسے سوچ سوچ کر پیچھلے چار دن سے وہ بے چین تھا۔۔۔۔

مہرو اسے چائے دینے آئی تھی۔۔۔جب یشب کو کسی غیر مرئی نکتہ کو گھورتے پایا

کیا حالت بنا لی ہے یشب۔۔۔۔خدانخواستہ ہیر وہاں ہمیشہ کے لیے تو نہیں گئی جو تم مجنوں بنے بیٹھے ہو۔۔۔۔

بھابھی۔۔۔۔۔مجھے ہیر کی طرف سے پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔

کیسی پریشانی۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو پاس پڑے کاؤچ پر بیٹھی

وہ اسکی حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں تھی اس دن۔۔۔۔۔

صدمہ بھی تو اتنا بڑا ملا تھا ناں۔۔۔۔مہرو افسردہ ہوئی

ہوں۔۔۔۔۔پر ہم میں سے کوئی دوبارہ وہاں نہیں گیا

تو روکا کس نے ہے دیور جی جب چاہیں چلے جائیں دیدار یار کی خاطر۔۔۔۔۔۔مہرو نے اسکی بے چینی پر چھیڑا

یشب جھینپ کر مسکرا دیا۔۔۔

بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔۔

اچھا چلو جلدی سے یہ چائے ختم کرو اور جا کر ہیر سے مل آؤ تاکہ تمہاری شکل پر کچھ تو فریشنیس دیکھنے کو ملے۔۔۔مہرو اسکے بال بکھیرتی مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی

یشب نے جلدی سے چائے ختم کی اور چینج کرنے کے بعد ہیر کے گاؤں روانہ ہو گیا اس سے ملنے کے لیے۔۔۔۔۔

……………………………………………………………

یشب مردانے میں دلاور خان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔

جب وہ آیا تھا تو شمس خان بھی وہیں موجود تھا۔۔۔۔۔۔اس دوران  یشب اور شمس کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔نہ ہی شمس کچھ بولا اور نہ ہی یشب نے اس سے افسوس کیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد شمس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔اسکے جانے کے بعد یشب نے ہچکچاتے ہوئے دلاور خان کو ہیر سے ملنے کا کہا تھا۔۔۔

ہاں ضرور ملو بیٹا۔۔۔۔میں سمندر خان سے کہتا ہوں تمہیں وہاں چھوڑ آئے۔۔۔۔دلاور خان اسکا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئے

چند منٹ بعد یشب سمندر خان کیساتھ حویلی کے رہائشی حصے کی طرف آیا۔۔۔۔۔۔۔

ہیر ظہر کی نماز پڑھ کر نیچے آ گئی تھی جہاں عورتیں بیٹھیں یسین پڑھ رہیں تھیں۔۔۔۔ہیر بھی انکے درمیان آ کر بیٹھی اور یسین پڑھنے لگی۔۔۔۔

عصر کی اذان کے بعد وہ یسین رکھتی اٹھی اور نماز پڑھنے کے لیے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔وہ راہداری میں تھی  جب اسکی نظر سامنے سے آتے یشب آفریدی پر پڑی۔۔۔

ہیر جہاں تھی وہیں رک گئی۔۔۔۔یشب بھی اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے چلتا پاس آیا۔۔۔۔

کیسی ہو۔۔۔۔۔؟؟مدھم سرگوشی ہوئی

ہیر نے اسکی طرف دیکھا اور اسکی نظروں میں اپنے لیے فکر دیکھتی خود پر کنٹرول کھو کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔

سب ختم ہو گیا خان۔۔۔۔۔میرے لالہ کا گھر اجڑ گیا۔۔۔۔وہ اکیلے رہ گئے خان۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔۔وہ اسکا گریبان پکڑے روتی ہوئی بول رہی تھی

کچھ دیر اسے روتے رہن دینے کے بعد یشب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔۔۔۔۔

مت روؤ پلیززز۔۔۔۔تمہیں یاد ہے ہیر۔۔۔۔ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے عورتوں کے رونے سے نفرت ہے۔۔۔۔تب میرا مطلب صرف تمہیں رونے سے منع کرنا تھا۔۔۔۔

میں۔۔۔۔میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ہیر مگر پھر بھی بہت سا رولایا  ہے تمہیں۔۔۔۔۔

پر اب۔۔۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔میں ان آنکھوں میں مزید آنسو نہیں دیکھ سکتا ہیر۔۔۔۔۔یشب نے اسکے گال پر پھسلتے آنسو کو انگلی کے پوروں پر لیا۔۔۔۔

اب اور نہیں میری جاں۔۔۔۔۔یشب نے اسکی سرخ سوجی آنکھوں کو لبوں سے چھو کر سرگوشی کی

اسکی حرکت پر ہیر ہچکچاتی خود میں سمٹ گئی

میں تمہیں دیکھنے آیا تھا دیکھ لیا  اب چلتا ہوں۔۔۔۔وہ پیچھے ہٹتا بولا

کچھ دیر تو رک جائیں خان۔۔۔۔ہیر بھاری آواز میں بولی رو رو کر اسکا گلا بیٹھ چکا تھا

یشب نے اسے ساتھ لگا کر سر پر بوسہ دیا۔۔۔میں پھر آؤں گا۔۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟

جی۔۔۔گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟

ٹھیک ہیں مگر تمہارے بغیر اداس ہیں۔۔۔

میں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ہیر نے سوالیہ نظروں سے یشب کو دیکھا

رہ لو۔۔۔۔جب تک چاہو مگر۔۔۔۔وہ رکا

مگر۔۔۔۔۔۔؟؟؟

مگر یہ کہ تم رو کر ان نینوں پر مزید ستم نہیں کرو گی ہاں۔۔۔۔۔

"ہائے رے تیرے جھیل سے نین !

ان نینوں میں ڈوبنے کو دل کرتا ہے،"

جی۔۔۔۔۔ہیر نے آہستگی سے سر ہلایا

اپنا خیال رکھنا میرے لیے۔۔۔۔۔یشب نے محبت سے کہہ کر اسکا ہاتھ چوما اور خداحافظ کہتا پلٹ گیا

ہیر اسکے اوجھل ہونے تک اسکی پشت کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔

اس روز ہیر نے یشب کو یہی فیصلہ سنانا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے ساتھ اسکی محرم،،،اسکی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے مگر اس روز وقت نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ ہیر یشب کو اپنا فیصلہ سنا پاتی۔۔۔۔۔۔

مرد چاہے جو بھی کرے جو بھی کہے مگر ایک وفا شعار عورت ہمیشہ اپنے مرد کی محبت کی پجاری ہوتی ہے۔۔۔۔آپ اس پر جتنے بھی ظلم کرتے رہیں مگر  محبت کی ایک نگاہ پڑتے ہی وہ سارے ظلم، سارے زخم بھلا کر پلٹ آتی ہے۔۔۔یہ ہے عورت کی عظمت۔۔۔

اور ہیر ایک عظیم عورت تھی۔۔۔۔۔۔

…………………………………………………………

اماں میں دعا(شمس کی بیٹی)کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہوں۔۔۔ہیر نے کچھ فاصلے پر کاٹ میں لیٹی اس معصوم پری کو دیکھ کر کہا

) پروشہ کی موت کے دس دن بعد ہیر کو ہی بچی کا نام رکھنے کا خیال آیا تھا۔۔۔۔اس نے شمس کو کہا مگر شمس ہیر پر چھوڑتا سائیڈ پر ہو گیا۔۔تب ہیر نے بچی کا نام دعا شمس خان رکھا تھا )

کیسی باتیں کر رہی ہو ہیر۔۔۔۔دعا کو تم کیوں لے جاؤ گی بھلا۔۔۔؟؟خدیجہ حیران ہوئیں

یہاں کون کرے گا اسکی دیکھ بھال۔۔۔؟؟

تم اپنے گھر اپنے سسرال میں خوش رہو ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔۔۔دعا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے میری جان۔۔۔میں زندہ ہوں ابھی اسکی دیکھ بھال کے لیے۔۔۔۔

مگر اماں یہ اتنی چھوٹی سی ہے۔۔۔۔۔ہیر فکرمند ہوئی

تم بھی اتنی سی تھی جب تمہیں بھی میں نے ہی سنبھالا تھا۔۔۔۔وہ مسکرائیں

ہوں۔۔۔۔ہیر بھی انکی بات پر مسکرا دی

اماں۔۔۔۔مجھ سے  لالہ کی اداسی دیکھی نہیں جا رہی اب۔۔۔۔اب آگے کیا ہو گا۔۔۔۔؟؟چند منٹ بعد وہ پھر سے افسردہ ہوتی بولی

تم پریشان مت ہو۔۔۔جو زخم دیتا ہے وہ مرہم بھی رکھ دیتا ہے۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی سنبھل جائے گا۔۔۔۔تم بس اپنے گھر کی فکر کرو۔۔۔۔میں تمہارے بابا سے کہتی ہوں وہ خود جا کر چھوڑ آئیں تمہیں۔۔۔۔

نہیں اماں۔۔۔۔میری یشب سے بات ہو گئی تھی وہ کل صبح آئیں گے مجھے لینے۔۔۔۔

چلو اچھا ہے۔۔۔۔خدا میری بچی کو سدا سہاگن رکھے آباد رکھے۔۔۔۔انہوں نے ہیر کا ماتھا چوم کر ساتھ لگایا

آمین۔۔۔۔۔ہیر نے کہہ کر سر اماں کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں

……………………………………………………………

اگلی صبح وہ سب کی دعاؤں تلے پورے  ایک ماہ بعد یشب کیساتھ واپس آ گئی تھی

اس ایک ماہ میں مہرو اور یشب ایک ،دو بار اس سے آ کر مل گئے تھے۔۔

ہیر کچھ دیر بی بی جان اور مہرو کے پاس بیٹھ کر کمرے میں چلی  آئی۔۔

یشب کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔۔اس نے چادر اتاری اور بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارنے لگی جب یشب سیل کان سے لگائے بات کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔

ہیر نے اسے دیکھ کر پاس پڑی چادر پھر سے اوڑھ لی۔۔۔

یشب نے ہیر کو دیکھ کر  کال بند کی اور اسکے سامنے آ  کھڑا ہوا

ویلکم بیک ٹو مائی لائف۔۔۔۔۔۔وہ مسکرایا

ہیر نے اسکی شوخ نظروں سے بچنے کو سر جھکا کر سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر یشب نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے دونوں طرف بازو پھیلا کر راستہ بند کیا

پلیز خان۔۔۔۔۔مجھے چینج کرنے دیں نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ہیر نے ٹھوس جواز پیش کیا

اوکے پڑھ لینا نماز۔۔۔۔مل تو لو پہلے مجھے۔۔۔میں تو ترس گیا تھا تم سے ملنے  کو۔۔۔یشب نے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ کر  قریب کیا۔۔۔۔

پلیز خان تنگ مت کریں۔۔۔۔۔وہ منمنائی

ارے تنگ میں نہیں تم کر رہی ہو مجھے۔۔۔۔یشب نے محظوظ ہوتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر کان کے پاس سرگوشی کی

              ❤❤ آئی لو یو❤❤

میری نماز۔۔۔۔۔ہیر یشب کی گرفت میں کسمسائی

اوہ یس۔۔۔۔۔نماز زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا پیچھے ہٹا

یار مسکرا تو دو یوں لگ رہا ہے جیسے میں گن پوائنٹ پر رومینس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔

ہیر اسکی بات پر بے اختیار مسکرا دی

ڈیٹس گڈ۔۔۔۔۔اب جاؤ اس پہلے کہ میرا دل بے ایمانی پر اکسائے۔۔۔۔یشب نے آنکھ دبائی

ہیر نے اسکی بات سن کر بھاگنے کے انداز میں ڈریسنگ روم میں جا کر دروازہ بند کیا

یشب کا بلندوبالا قہقہہ اسے بند دروازے سے  بھی باخوبی سنائی دیا تھا

…………………………………………………………………

خان۔۔۔۔۔۔۔ہیر نے اسکے بازو پر سر رکھ کر پکارا 

 ہوں۔۔۔۔یشب نے اسکی طرف کروٹ لی

وہ آپ نے کبڈ کے تھرڈ  ڈراڑ میں میرے لیے کیا خرید کر رکھا تھا جسے پہننے کا کہہ رہے تھے اس روز۔۔۔۔

تم نے دیکھا نہیں۔۔۔۔؟؟یشب حیران ہوا

نہیں جس روز دیکھنا تھا اس روز گھر جانا پڑ گیا۔۔۔۔۔وہ اس دن کو یاد کر کےافسردہ ہوئی

تو اب دیکھ لو بلکہ پہن کر بھی دیکھا دو مجھے۔۔۔۔۔۔

اب۔۔۔۔۔؟؟؟

ہاں اب۔۔۔۔۔

مگر ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟

خود دیکھ لو جا کر۔۔۔۔یشب نے اسے اٹھایا

ہیر نے جا کر کبڈ کھولی اور وہاں موجود اتنے بڑے ڈبے میں میرون اور گولڈن برائیڈل ڈریس دیکھ کر پلٹتی واپس آئی

وہاں تو برائیڈل ڈریس ہے۔۔۔۔؟؟وہ حیرانگی سے بولی

ہاں تو۔۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے  سیگرٹ سلگائی

وہ پہنوں۔۔۔۔؟؟

ہاں جلدی سے پہن کر آؤ۔۔۔۔

میں نہیں پہنوں  گی۔۔۔۔۔وہ بلش کرتی شرمائی

یشب اسے شرماتے دیکھ کر پاس آیا 

کم آن یار۔۔۔جلدی سے پہن کر آؤ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں ہری  اپ۔۔۔۔۔۔یشب  اسے پکڑ کر ڈریسنگ روم لایا اور اسے اندر چھوڑ کر خود باہر نکل گیا

ہیر چاروناچار وہ بھاری بھرکم  ڈریس پہن کر جھجھکتی شرماتی باہر آئی

یشب نے دروازہ کھلنے پر پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔

وہ بنا کسی بناؤ سنگھار کے اتنی حسین لگ رہی تھی اگر ذرا سج سنور جاتی  تو کیا ہوتا۔۔۔۔۔؟؟

بیوٹیفل۔۔۔۔اس نے پاس آ کر سرگوشی کی

ہیر شرماتی ہوئی مزید سمٹ گئی

یشب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا

لوکنگ نائیس۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لایا

ہیر نے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر نظریں جھکا دیں

یشب اسے شرماتے دیکھ کر مسکرایا

تم رکو میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔وہ اسے وہاں چھوڑ کر خود ڈریسنگ روم چلا گیا

چند منٹ بعد وہ ایک مخملی ڈبہ لیے واپس آیا۔۔۔۔یشب نے ڈبہ کھول کر نیکلس باہر نکالا اور ہیر کے پیچھے کھڑے ہو کر بہت پیار اور احتیاط سے نیکلس اسکے گلے میں پہنا دیا

یہ تمہارے لیے میں نے تب خریدا تھا جب تم مجھے پہلی بار ملی تھی 

تم جانتی ہو ہیر تم ،، تمہاری باتیں ،، تمہاری آنکھیں ان سب نے مل کر  مجھے ایک ہی ملاقات میں لوٹ لیا تھا تب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا

مجھے سمجھ نہیں آ رہا کن الفاظ میں تمہاری تعریف کروں۔۔۔

یشب اسے ساتھ لیے کمرے کے بیچوں بیچ آیا۔۔۔ہیر تم مجھے دل سے معاف کر چکی ہو ناں۔۔۔۔؟؟؟

جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا

ہیر کو  ایک کتاب میں پڑھی ہوئی یہ بات یاد تھی کہ "زندگی میں کبھی اس انسان کو مت کھونا جو غصہ کر کے پھر خود تمہارے پاس آ جائے" اس لیے وہ سب کچھ بھلا کر یشب کو دل سے معاف کر چکی تھی

تھینکس آ لوٹ فار دس۔۔۔تم جانتی ہو ہیر تم بہت عظیم ہو۔۔۔تم نے ناحق اتنے مظالم سہے۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں بےپناہ پیار دوں گا۔۔۔اپنی ساری زیادتیوں کا ازالہ کر دوں گا٬٬

ہیر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔

میں نے تمہیں بہت رلایا ہے ہیر۔۔۔مگر  اب نہیں۔۔۔۔اب صرف محبتیں،، پیار اور مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔بس !وہ مسکرایا

ساتھ دو گی ناں میرا۔۔۔۔؟؟پریقین لہجے میں سوال ہوا

جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلا کر ساتھ دینے کا یقین دلایا

تو پھر ایک بات مانو  گی میری۔۔۔۔؟؟پیار سے پوچھا گیا

جی۔۔۔۔ہیر نے پھر سے سر ہلایا

تو پھر کہو۔۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔؟؟؟

آئی لو یو۔۔۔۔۔ یشب مسکراہٹ دبا کر بولا

بات تو ماننا ہو گی اب تم حامی بھر چکی ہو۔۔۔یشب نے اسے نفی میں سر ہلاتے دیکھ کر قریب کیا 

چلو کہو جلدی سے یار ٹائم ویسٹ ہو رہا۔۔۔۔وہ  کلاک کی طرف دیکھتا بولا

میں نہیں کہوں گی۔۔۔۔ہیر ہچکچاتی پیچھے ہوئی

کیوں نہیں کہو گی جلدی کہو ورنہ۔۔۔

اچھاااا کہتی ہوں۔۔۔۔یشب کے تیوروں پر وہ مصنوعی ڈر کر بولی

پہلے ہاتھ ہٹائیں۔۔۔یشب نے اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا

تم کہو گی تو ہاتھ ہٹاؤں گا۔۔۔

زه ستا سره مینه لرم   (آئی لو یو)۔۔۔۔وہ جلدی سے بولی

یشب نے اسکے پشتو میں کہنے پر ہنستے ہوئے اسے ساتھ لگا لیا 

 Now we celebrate our first official    golden wedding night tonight

Agree…..??????

یشب نے اسکے کانوں پر ہونٹ رکھ کر سر گوشی میں کہا

اسکی بات پر ہیر نے بلش کرتے ہوئے مطمعین ہو کر یشب کے کندھے سے سر ٹکا دیا

یشب نے ہیر کی رضامندی پر پرسکون ہوتے ہوئے اس کے گرد اپنی بانہوں کا مضبوط حصار باندھ دیا

بے شک ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار کے بعد ہیر کو اسکے صبر کا پھل مل ہی گیا تھا

……………………………………………………

 کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟؟پوری دس کالز  کی میں نے سیل کدھر تھا آپکا۔۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے یشب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر چھوٹتے ہی پوچھا

ارے یار نہ کوئی سلام نہ دعا سیدھا کلاس لینی شروع کر دی۔۔۔۔

اسلام علیکم۔۔۔ہیر نے غلطی مان کر جھٹ سلام کیا

ہوں۔۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلا کر جواب دیا 

اب بتاؤ کیوں کیں دس کالز۔۔۔۔؟؟یشب صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا

آپ کو یاد نہیں کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوئی

ارے بھئی یاد ہوتا تو پوچھتا کیوں۔۔۔۔؟؟

مطلب آپکو واقعی یاد نہیں کہ آج ہم نے۔۔۔۔

آج ہم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔یشب اسکی بات اچکتا ڈریسنگ روم میں گھسا

مطلب یاد ہے آپ کو پھر بھی اتنی دیر کر دی۔۔۔اور ہمیں جانا ہے آج اور ابھی میں چائے لاتی ہوں تب تک آپ چینج کر لیں۔۔۔۔وہ بات کرتی یشب کے پیچھے ہی ڈریسنگ روم میں آئی

مجھے تمہارا جوشاندہ نہیں پینا۔۔۔گل سے کہہ دو وہ بنا دے گی چائے۔۔۔

یشب اب بھی ہیر  کی بنی چائے کو جوشاندہ ہی کہتا تھا

اونہہ۔۔۔۔مت پئیں۔۔۔وہ سر جھٹکتی انٹرکام کی طرف بڑھی 

مگر گھر آج ہی جانا ہے مجھے کہہ دیا میں نے بس۔۔س۔۔س۔۔۔!! وہ وہیں کھڑی کھڑی چیخ کر بولی تاکہ آواز یشب تک پہنچ جائے

ٹھیک ہے چلتے ہیں پر صرف دو گھنٹے کے لیے۔۔۔۔۔وہ اسکی چیخ نما آواز سن کر باہر آیا

یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔؟؟میں رات آپ کو بتا چکی تھی کہ اس بار میں  دو دن رہ کر آؤں گی گھر۔۔۔۔

رات گئی بات گئی۔۔۔۔۔۔۔یشب کندھے اچکا کر کہتا پھر واپس مڑا اور کھٹاک سے واش روم کا دروازہ بند کر گیا۔۔۔

اونہہ۔۔۔۔بات گئی میں بھی دیکھتی ہوں کیسے جاتی ہے رات کی بات۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی چائے لینے چلی گئی

یشب شاور لے کر نکلا تو ہیر چائے لا چکی تھی۔۔۔۔

جلدی کریں اب۔۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولی یشب جان بھوج کر ادھر أدھر چیزیں الٹتا ٹائم ویسٹ کر رہا تھا

کہا تو ہے کہ کہیں نہیں جا رہے ہم۔۔۔۔۔۔وہ آرام سے کہتا چائے کا کپ تھام کر کاؤچ پر ڈھیر ہوا

آپ کو مسلہ کیا ہے آخر مجھے میرے گھر لے جانے سے۔۔۔۔۔

مسلہ لے جانے سے نہیں سویٹ ہارٹ وہاں چھوڑ کر آنے سے ہے۔۔۔۔

ہاں تو صرف دو دن ہی تو ہیں۔۔۔۔

تمہارے لیے یہ صرف دو دن ہیں پر یہ دو  دن مجھ پر بہت بھاری ہوتے ہیں۔۔۔۔اسنے کپ منہ کو لگایا

ویسے ایک بات ہے چائے بنانی آ گئی ہے تمہیں۔۔۔یشب جانتا تھا چائے اس نے نہیں بنائی اسی لیے چھیڑ کر  آنکھ ماری

میں نے نہیں بنائی چائے۔۔۔۔اس لیے فضول باتوں میں میرا وقت ضائع مت کریں مجھے آج ہی جانا ہے بس۔۔۔چاہے دو گھنٹے کے لیے ہی سہی۔۔۔۔وہ خفا خفا سی دو گھنٹے کے لیے جانے پر  مان گئی 

تو چلو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔یشب اسکی خفگی پر مسکراتا ہوا کیز اٹھا کر باہر نکل گیا

…………………………………………………………

اماں یہ تو بلکل میرے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔ہیر نے دعا کو گود میں لے کر جھنجھوڑا

خدیجہ مسکرا دیں۔۔۔۔تمہارے بابا بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہیر کی بچپن کی کاپی ہے بلکل۔۔۔۔اچھا بیٹھو تم لوگ میں ذرا کھانے کا بتا آؤں۔۔۔وہ اٹھنے لگیں

ارے  نہیں آنٹی۔۔۔۔ہم نکل رہے ہیں بس۔۔۔یشب گھڑی دیکھ کر بولا

جی اماں یشب کو کام ہے حویلی میں اسلیے میں ہی رکوں گی اور میرے لیے اہتمام کی کیا ضرورت بھلا۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی دعا کے گال پر جھک گئی

یشب نے دانت پیستے ہوئے اسے گھوری دی مگر ہیر  متوجہ ہوتی تو  دیکھتی۔۔

یشب بیٹا تم  بھی کبھی رک جایا کرو گھڑی دو گھڑی کے لیے ہی آتے ہو بس۔۔۔۔

جی ضرور رکوں گا آنٹی۔۔۔۔پر ابھی کے لیے تو اجازت دیں۔۔۔۔وہ سیل اٹھا کر خدا حافظ کہتا بنا ہیر کی طرف دیکھے باہر نکل گیا

وہ اگر تمہیں چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا تو چلی جاتی ساتھ خفا ہو کر گیا ہے شاید۔۔۔۔خدیجہ بیگم نے یشب کے سرد تاثرات نوٹ کر لیے تھے

ارے رہنے دیں اماں۔۔۔۔۔دو ماہ بعد دو دن رک جاؤں گی تو کچھ نہیں ہونے والا اور خفگی کی پرواہ کسے ہے۔۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی

کیوں پرواہ نہیں اسکی خفگی کی شوہر ہے تمہارا۔۔۔۔۔

شوہر ہے ماں تو نہیں جو خفگی کی پرواہ ہو۔۔۔۔

ہیر۔۔رر۔۔ر۔۔ خدیجہ کی گھوری پر ہیر کھکھلا اٹھی

وہاں واپس داخل ہوتے یشب نے انتہائی ناگواری سے ہیر کی کھلکھلاہٹ دیکھی۔۔۔۔

وہ میں کیز بھول گیا تھا یشب نے واپس آنے کی وجہ بتائی اور جھک کر ٹیبل سے کیز اٹھا کر تیزی سے نکل گیا

اسے پکڑیں اماں میں ابھی آئی۔۔۔۔ہیر دعا کو تھما کر جلدی سے باہر نکلی

یشب۔۔۔۔۔وہ پکارتی پیچھے آئی

یشب جو گاڑی کا لاک کھول چکا تھا ہیر کی آواز پر پلٹا

آپ خفا ہو کر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟

تمہیں کونسا پرواہ ہے میری خفگی کی۔۔۔وہ خفا ہوا 

اگر پرواہ نہ ہوتی تو پیچھے بھاگی بھاگی نہ آتی میں۔۔۔۔ ہیر منہ پھلا کر بولی

نہیں ہوں خفا۔۔۔۔

یہی بات مسکرا کر کہیں ذرا۔۔۔۔

بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچی

آپکی صحبت ہی کا اثر ہے جناب۔۔۔وہ کھلکھلائی

ابھی اور بہت سے اثرات دکھانے ہیں تمہیں۔۔۔یشب آنکھ مارتا مسکرایا

اچھا بس۔۔۔اب جائیں اور جا کر مجھے فون کر دیجئیے گا ورنہ فکر رہے گی مجھے۔۔۔۔

فکر ہوتی تو یوں اکیلے نہ جانے دیتی مجھے بلکہ خود بھی ساتھ چلتی۔۔۔

صرف دو دن ہی تو ہیں یشب اب اتنا سا تو کر سکتے ہیں ناں میرے لیے۔۔۔۔

ضرور کر سکتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ فدویانہ گویا ہوا

اچھا چلیں اب جائیں خیریت سے گاڑی دھیان سے چلائیے گا۔۔۔۔ہیر نے فکرمندی سے نصیحت کی

جو حکم۔۔۔۔یشب جھک کر کہتا گاڑی میں آ بیٹھا۔۔۔

ہیر نے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کیا 

یشب گاڑی ریورس کر کے ہاتھ ہلاتا گیٹ کیطرف لے گیا۔۔۔

یشب کے اوجھل ہونے پر ہیر پلٹی ہی تھی جب شمس مردانے سے آتا دیکھائی دیا

یشب کیوں چلا گیا کھانے کا وقت ہونے والا ہے روک لیتی اسے۔۔۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر کہا

انہیں کام تھا اس لیے نہیں روکا۔۔۔۔آپ آئیں۔۔۔۔میرے ساتھ بھی تو بیٹھ جائیں لالہ میں آپ کے لیے ہی رکی  ہوں اس بار۔۔۔۔۔وہ لاڈ سے بولی

وہ اسکی بات پر مسکرا دیا

شمس ہیر اور یشب کو ایکساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش تھا کہ یشب کا رویہ اسکے اپنے ساتھ جیسا بھی سہی پر ہیر کیساتھ وہ سیٹ ہے اسکی بہن خوش تھی شمس کو اور کیا چاہیے تھا۔۔۔اس نے مطمعین ہو کر ہیر کے کندھے پر بازو پھیلائے اور اسے لے کر اندر بڑھ گیا

……………………………………………………………

ہیر خدا کے لیے تم اپنے میکے رہنے مت جایا کرو۔۔۔۔مہرو نے میگزین پلٹتے ہوئے کہا

ہیر آج ہی دو دن رہ کر واپس آئی تھی 

وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوئی

تمہارے مجنوں کی اتنی سی شکل دیکھنے کو ملتی ہے قسم سے۔۔۔۔۔مہرو محظوظ ہوئی

اب دو دن زیادہ تو نہیں ہوتے بھابھی۔۔۔۔ 

تم ساتھ جا کر ساتھ ہی واپس آ جایا کرو کون سا زیادہ دور ہے۔۔۔۔۔مشورہ آیا

آئندہ سوچوں گی۔۔۔۔

کون کیا سوچے گا بھئی۔۔۔؟؟یشب کی فریش سی آواز آئی

دیکھو ذرا آج کیسا چہک رہا ہے دو دن تو آواز بھی نہیں آئی اسکی۔۔۔۔

چلیں آج تو آ گئی ناں۔۔۔۔یشب مہرو کی بات پر مسکرا دیا

میں کمرے میں ہوں چائے بھیجوا دو۔۔۔وہ ہیر سے کہتا سیڑھیاں پھلانگ گیا

جاؤ بلوا آ چکا ہے تمہارا۔۔۔چائے تو  صرف بہانا ہے تمہیں کمرے میں  بلانے کا۔۔۔۔مہرو نے آنکھ مارتے ہوئے ہیر کو چھیڑا

آپ کو بڑا تجربہ ہے ایسے بلاوں کا۔۔۔۔ہیر  کی بات پر مہرو کے مسکراتے لب سکڑ گئے

سوری بھابھی میرا مطلب آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔۔۔۔ہیر اپنی جلدبازی میں کہی گئی بات پر شرمندہ ہوئی

میں جانتی ہوں تم جاؤ۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی

ہوں۔۔۔۔۔۔ہیر سر ہلاتی اپنی بات پر خود کو کوستی کمرے کی طرف چلی گئی 

مہرو نے افسردگی سے نظریں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹکا دیں

کتنی جلدی ساتھ چھوڑ گئے آپ یشار۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے اسکی ہتھیلی پر گرا۔۔۔

"آنسو اٹھا لیتے ہیں میرے غموں کا بوجھ،

یہ وہ دوست ہیں جو احسان جتایا نہیں کرتے۔۔!! "

مہرو نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا اور اٹھ کر حدید کے کمرے کی طرف چلی گئی

……………………………………………………………

یشب۔۔۔۔۔۔یشب اٹھ جائیں اب۔۔۔۔ہیر زور زور سے اسکا کندھا ہلاتے چلائی

کیا مصیبت ہے یار۔۔۔۔وہ جھنجھلاتا اٹھ بیٹھا

کتنی دفعہ کہا ہے تمہیں یوں اسطرح سوتے کو مت جگایا کرو مگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی تمہارے۔۔۔۔۔۔وہ تیوری چڑھا کر چلایا

ہیر اسکے چلانے پر آنکھوں کو پانی سے بھرتی پلٹی

اب جگا کر کہاں جا رہی ہو واپس آؤ۔۔۔۔یشب اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ چکا تھا

ہیر واپس آؤ ورنہ جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔

ہاں جانتی ہوں آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔

کم آن  ڈارلنگ یہاں آؤ۔۔۔۔وہ پچکارتا ہوا سیدھا ہوا

خود کو سمجھتے کیا ہیں آپ۔۔۔۔جب اپنا جی چاہا تو جو مرضی کرتے پھریں اور اگر میں کچھ کہہ دوں تو۔۔۔۔ہیر غصے سے پلٹتی اس تک آئی

یشب نے آگے کو جھک کر اسے پکڑ کر سامنے بیٹھایا

یہ غصہ آپ پر بلکل سوٹ نہیں کرتا مسز۔۔۔۔

ہاں ہر بات پر غصہ کرنے کو آپ جو پیدا ہوئے ہیں۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی 

ایگزیٹلی۔۔۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے ہیر کے سر سے اپنا سر ٹکرایا

اب بتاؤ کیوں جگایا۔۔۔۔۔؟؟

جھیل پر جانا ہے۔۔۔۔۔ 

واٹ جھیل۔۔۔۔۔؟؟ ابھی کل ہی تو گئے تھے۔۔۔۔وہ حیران ہوا

کل نہیں تین دن پہلے۔۔۔۔۔

تو ہر تین دن بعد وہاں جانا ضروری ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟

بلکل ضروری ہے۔۔۔۔۔وہ اٹھلائی

تم کچھ زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھتی جا رہی۔۔۔۔بیوی ہو بیوی بن کر رہو محبوبہ بننے کی کوشش مت کیا کرو۔۔۔۔سمجھی

آپ بھی شوہر  ہیں شوہر ہی بن کر رہیں محبوب بننے کی کوشش مت کیا کریں سمجھے ۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولی

میں تو شوہر کیساتھ محبوب بھی ہوں۔۔۔یشب نے اپنے کالر پر موجود اسکے دونوں ہاتھ تھامے

تو میں بھی بیوی کہ ساتھ محبوبہ بھی ہوں۔۔۔۔وہ دوبدو بولی

مطلب تم ٹلنے والی نہیں۔۔۔۔

بلکل نہیں۔۔۔۔۔۔وہ مسکرائی

تو پھر چلو ظالم محبوبہ۔۔۔۔یشب نے اٹھتے ہوئے اسکے  گال پر بوسہ لیا اور چنج کرنے چلا گیا۔۔۔۔اسے اپنی محبوبہ + بیوی کو جھیل پر جو لے کر جانا تھا۔۔۔

مجھے تم سے محبت ہے ، 

ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!

محبت بھی ستاروں سی٬

گلوں سی آبشاروں سی٬

صبح دم نکلتے پھولوں سی٬

کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬

رم جھم برستی بارش سی،

آسمان پہ بکھرے دھنک رنگوں سی،

کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،

کسی نازک کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،

مجھے تم سے محبت ہے ،

ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!

………………………………………………………

ہیر۔۔۔۔۔

ہیر۔۔۔رر۔۔۔رر۔۔۔۔۔۔۔یشب تیز سی گھوری دے کر بولا

آپ یہاں میرے ساتھ آئے ہیں نہ کہ اپنی دوسری بیوی کیساتھ۔۔۔۔۔وہ نروٹھے پن سے بولی

وہ دونوں جھیل پر آمنے سامنے موجود پتھروں پر بیٹھے تھے یشب مسلسل  سیل پر بزی تھا ہیر نے اسے بزی دیکھ کر چڑتے ہوئے پانی مٹھی میں بھر کر یشب پر پھینکا تھا

یشب اسکی بات پر مسکرا دیا۔۔۔۔ہیر اکثر اسکے سیل اور لیب ٹاپ کو دوسری بیوی کہتی تھی

تم بولو میں سن رہا ہوں۔۔۔۔

آپ میری طرف دیکھیں گے تو بولوں گی میں۔۔۔

میں کانوں سے سنتا ہوں مسز۔۔۔۔۔وہ مسکرایا

پر مجھے کانوں کیساتھ آنکھیں بھی اپنی طرف متوجہ چاہیں۔۔۔۔

کچھ دیر ویٹ کرو یار ضروری میل کر رہا ہوں گھر میں تو تم ٹک کر کوئی کام کرنے نہیں دیتی مجھے۔۔۔۔

میں اب بھی ٹک کر کام کرنے نہیں دوں گی ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں نہ کہ اس موئے موبائل سے میلز کرنے۔۔۔۔ہیر نے چڑ کر کہتے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر یشب پر اچھالا

اس بار پانی کی quantity زیادہ تھی جس سے یشب کے کپڑوں سمیت سیل کی سکرین بھی اچھی خاصی بھیگ گئی

وہ جھکا سر جھٹکے سے اٹھاتا کھڑا ہوا

ہیر جانتی تھی وہ اب کیا کرے گا اس لیے جلدی سے پتھر سے اچھل کر پیچھے کو بھاگی۔۔۔۔

رک جاؤ ہیر ورنہ اچھے سے جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔یشب اسکے پیچھے آتے بلند آواز سے بولا

ہاہاہاہا۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں اسی لیے تو بھاگی ہوں ورنہ۔۔۔۔

یشب کو رفتار تیز کرتے دیکھ کر ہیر اپنی بات چھوڑتی مزید تیزی سے بھاگی

ہیر۔۔۔۔رر۔۔۔۔یشب بھی اسے پکڑنے کو بھاگا

ہیر آگے اور یشب اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا

اردگرد لمبے لمبے درختوں کے جھرمٹ تھے جن کے پیچھے اونچے نیچے پہاڑ  ان دونوں کو گھاس کے سبزہ زار پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔۔دور دور تک یشب اور ہیر کے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔جھیل کے پانی کی آواز کیساتھ ہیر کے ہسنے اور یشب کی اسے  پکارنے کی آوازیں گونج رہیں تھیں

ہیر اٹس انف رک جاؤ اب۔۔۔۔۔۔یشب نے اس سے کچھ فاصلے پر رک کر  کہا

اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔رکتی ہوں۔۔۔۔۔وہ پھولا سانس درست کرتی درخت سے پشت لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی 

یشب اسکے سامنے آیا۔۔۔۔۔اب بتاؤ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔

کچھ۔۔۔کچھ نہیں یشب رکیں۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے اپنی سانس کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی

یشب نے آنکھوں کے درمیان بل ڈالتے ہوئے اسے گھورا

میں تو انجوائے کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔ہیر اپنی سانس درست کرتی معصومیت سے بولی

تو پھر کرتے ہیں انجوائے۔۔۔۔۔وہ آگے بڑھا

یشب۔۔۔یشب پلیز۔۔۔۔ہیر اسکے تیور دیکھ کر چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی

ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔۔

نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پلیز سوری۔۔۔۔۔وہ منمنائی

یشب نے اسکی منمناہٹ پر مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے اور آگے کو جھک کر لب اسکے ماتھے پر رکھے پھر ناک  پر اور پھر تھوڑی پر۔۔۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔وہ سرخ چہرے لیے چلائی

انجوائے۔۔۔۔۔۔یشب مسکراہٹ دباتا کندھے

اچکا کر بولا

ہٹیں پیچھے یشب۔۔۔۔کوئی آ جائے گا شرم کریں کچھ۔۔۔۔۔

پہلی بات یشب آفریدی کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔دوسری بات تم میری شرعی بیوی ہو۔۔۔۔اور تیسری بات تم نے ہی مجھے  انجوائے کرنے پر اکسایا۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا 

بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔۔میں نے اس قسم کا انجوائے کرنے کو نہیں کہا تھا۔۔۔ وہ نروٹھے پن سے بولتی واپس جھیل کی طرف بڑھی یشب بھی اسکے پیچھے ہی واپس پلٹا

تو کس طرح کا انجوائے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟

ہیر نے پلٹ کر اسے گھوری دی جس پر یشب ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا مسکرا اٹھا

اونہہ۔۔۔وہ سر جھٹکتی آگے چلتی گئی

اب واپس چلتے ہیں ہیر مجھے کچھ ضروری میلز کرنی ہیں۔۔۔۔یشب جھیل کنارے واپس پتھر کے پاس پہنچ کر بولا

تو جائیں  آپ میں ابھی کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ ہیر اپنی جگہ پر بیٹھتی بولی

کم آن یار پھر سے تین دن بعد حاضری دینے آئیں گے ناں ہم اب چلو اٹھو شاباش۔۔۔۔یشب نے پچکارتے ہوئے اسکا کندھا ہلایا

نہیں۔۔۔۔۔۔

ہیر۔۔۔رر۔۔۔جان ضد مت کرو۔۔۔۔۔

کچھ دیر اور یشب۔۔۔۔

پھر آئیں گے ناں۔۔۔۔۔سینڈل پہنو شاباس۔۔۔۔وہ بمشکل ضبط سے بولا

نہیں۔۔۔۔بلکل نہیں پنہوں گی سینڈل۔۔۔۔۔ ہیر نے پھر نفی میں سر ہلایا

یشب ایک تیز نظر اس پر ڈالتا گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا اور پاؤں پکڑ کر گود میں رکھا اب وہ سر جھکائے سینڈل ہیر کے پاؤں میں پہنا کر اسکا اسٹریپ بند کر رہا تھا جو نہیں ہو پا رہا تھا

ہیر کو مہرو بھابھی کی سرگوشی یاد آئی۔۔۔۔عنقریب وہ تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔وہ یاد کر کے مسکرا دی

کیا مصیبت ہے یہ۔۔۔۔یشب نے  جھنجھلا کر سر اٹھایا اور ہیر کو مسکراتے دیکھ کر سیخ پا ہوتا کھڑا ہوا

میں اس منحوس سینڈل کے اسڑیپ  سے لڑ رہا ہوں اور محترمہ کے دانت نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔میں آپ کو دیکھ کر نہیں ہنس رہی تھی مجھے تو مہرو بھابھی کی بات یاد آ گئی تھی۔۔۔۔ہیر پھر سے مسکرائی

بند کرو سینڈل اور اٹھو ہری اپ۔۔۔۔یشب ہیر کو سختی سے کہہ کر سیل کان سے لگا کر بات کرنے لگا

جی شاہ صاحب۔۔۔۔جی جی میں کچھ بزی ہوں ایک آدھ گھنٹے تک میل کر دوں گا۔۔۔اوکے جی ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔۔۔۔یشب نے کال بند کر کے ہیر کو دیکھا جو لاپرواہی سے انگلی پر بالوں کی لٹ لپیٹتی مسکرا رہی تھی

اب کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑتا پھر سے نیچے بیٹھ کر اسکا سینڈل بند کرنے لگا

بتاؤ اسے کیسے بند کرنا ہے۔۔۔۔اس نے اسٹریپ پکڑ کر ابرو اٹھائے

اسٹریپ کو  یہ جو ہول ہے اس میں سے گزار دیں بند ہو جائے گا۔۔۔۔

انتہائی بدتمیز ہو تم۔۔۔۔یشب اسکی مسکراہٹ دیکھ کر جل کر بولا

آپ سے کم۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرا کر کہتی یشب کے بال بکھیر گئی

چلو اٹھو اب  ورنہ ایک تھپڑ کھاؤ گی مجھ سے۔۔۔۔یشب نے سینڈل بند کر کے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیا

چل رہی ہوں۔۔۔بازو تو چھوڑیں کس طرح دبوچ رکھا ہے۔۔۔۔ہیر نے جھٹکے سے بازو یشب کے ہاتھ سے چھڑوایا اور خفگی سے ناک پھلائے آگے بڑھ گئی

یشب اسکی پھولی ناک دیکھ کر مسکراتا اسکے پیچھے ہی واپسی کے لیے چل پڑا

"تمہیں دیکھوں تو مجھے پیار بہت آتا ہے،

زندگی اتنی حسین پہلے تو نہیں لگتی تھی۔۔!! "

………………………………………………………

یشب پلیز مان جائیں ناں صرف دو یا تین دن آئی سوئیر پھر اگلے چار ماہ تک میں جا کر رہنے کی بات نہیں کروں گی۔۔۔

ہیر یشب کے پاس کھڑی اسے گھر جا کر رہنے کی بات کر رہی تھی

ہیر میں تم سے ہزار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے وہاں جا کر رہنے کی  بات مت کیا کرو۔۔۔۔۔۔اتنی چھوٹی سی بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا ہوا

کل آپ نے مہرو بھابھی سے مجھے چھوڑ کر آنے کی ہامی بھری تھی۔۔۔۔

میں بھابھی کی کوئی بات نہیں ٹالتا اس لیے ہاں کہا تھا پر تم سے۔۔۔ 

مجھ پر روب ڈالنے کی پرانی عادت جو ہے آپ کو۔۔۔۔

ہیر سمجھا کرو بات کو۔۔۔۔

فائن میں نہیں جا رہی لیکن آپ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کرئیے گا۔۔۔۔وہ خفگی سے بولی

وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے ابرو اچکائے

جب آپ کو میری پرواہ نہیں تو مجھے بھی نہیں۔۔۔۔

میرے پاس ٹائم نہیں ہے حشمت کیساتھ چلی جاؤ۔۔۔وہ اسکی اتری شکل دیکھ کر دھیما پڑا

آپ کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔ہیر کو صدمہ ہوا

تمہارے لیے نہیں تمہارے ان چونچلوں کے لیے۔۔۔۔

تو اب میرے چونچلے حشمت اٹھائے گا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ناک پھلا  کر چیخی

سوچ سمجھ کر بولا کرو ہیر ۔۔۔یشب  ناگواری سے بولا

آپ بھی سوچ سمجھ کر ڈانٹا کریں۔۔۔

چلو چھوڑ آتا ہوں تمہیں اب وہاں دو  دن رہنا یا دو ہفتے مجھے کوئی پرابلم نہیں۔۔۔وہ ناراضگی سے کہتا گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا

……………………………………………………

اماں میں لالہ کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔۔۔۔کتنے کمزور ہو گئے ہیں اور  بہت کم کم بولنے لگے ہیں۔۔۔۔ہیر دعا کو گود میں بیٹھائے فکرمند سی  خدیجہ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔

یشب دو دن پہلے اسے چھوڑ گیا تھا

ہاں میں اور تمہارے بابا بھی بہت پریشان ہیں شمس کیوجہ سے۔۔۔خدیجہ بھی افسردہ ہوئیں

اماں لالہ کے بارے میں آگے کا کیا سوچا ہے آپ نے۔۔۔۔۔؟؟

اسکی شادی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔

میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔دیکھی کوئی لڑکی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟ویسے ہمارے خاندان میں تو کوئی نہیں ہے جو بڑے دل سے دعا  سمیت لالہ کو قبول کرے۔۔۔۔سب ہی نک چڑی ہیں۔۔۔ہیر نے برا سا منہ بنایا

ہوں۔۔۔۔تمہاری چچی سے بات کی تھی میں نے وہ الٹا خفا ہونے لگی کہ میری بیٹی کو مرے ابھی دس ماہ ہوئے ہیں اور آپ شمس کی دوسری شادی کا کہہ رہی ہیں

پر آج یا کل شادی تو کرنی ہی ہے ناں لالہ کی۔۔۔۔۔ویسے بھی اب ہی مناسب وقت ہے۔۔۔۔ لالہ کی اجڑی حالت دیکھ کر میرا دل بہت دکھا ہے اماں آپ جلد از جلد کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر شادی کر دیں کچھ تو سنبھلیں گے وہ۔۔۔۔

ویسے اماں کوئی بھی لڑکی دعا کو بیٹی کے روپ میں بہت  مشکل سے ہی قبول کرے گی۔۔۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی

جو لڑکی سوچی ہے ہم نے اگر وہاں سے ہاں ہو جائے تو دعا کو ماں بھی مل جائے گی اور شمس کو اچھی بیوی بھی۔۔۔۔

ایک منٹ اماں۔۔۔۔آپ نے لڑکی سوچ کر رشتہ بھی پوچھ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں میں دو دن سے یہاں ہوں۔۔۔ہیر انکی بات پکڑ کر  بولی 

میں بتانے ہی والی تھی تمہیں بس وہ۔۔۔۔

کون لڑکی ہے۔۔۔۔؟؟ہیر ماں کے انداز  سے مشکوک ہوئی

ہیر تحمل سے سننا میری بات۔۔۔۔انہوں نے تمہید باندھی

بولیں بھی۔۔۔۔وہ گڑبڑ جانچتی پریشانی سے بولی

وہ ہیر میں نے اور تمہارے بابا نے شمس کے لیے۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ہم نے۔۔۔۔۔مہرو کا سوچا ہے۔۔۔۔۔خدیجہ نے اٹک اٹک کر ہیر کے پاس دھماکا کیا

کیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو بھابھی۔۔۔۔۔وہ بیٹھے سے کھڑی ہوئی

اماں آپ لوگوں نے رشتہ پوچھ بھی لیا۔۔۔وہ صدمے سے بولی

ہیر ہم نے مہرو کی اماں اور بھائیوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔۔

اماں آپ مجھ سے تو پوچھ لیتیں پہلے۔۔۔غضب خدا کا یہ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔وہ سر پکڑ کر بولی

تمہیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔؟؟

اعتراض۔۔۔۔؟؟اماں میں اسی گھر میں رہتی ہوں جہاں مہرو بھابھی۔۔۔ہمارا سسرال ایک ہے آپ یشب کو جانتی ہیں پھر بھی آپ نے مہرو بھابھی کے گھر والوں سے رشتہ مانگ لیا وہ بھی مجھے بتائے بغیر ۔۔۔۔۔وہ انتہائی صدمے میں تھی

اگر مجھ سے پوچھ لیتیں تو میں۔۔۔۔۔۔۔

تم نہیں چاہتی کہ تمہارے لالہ کو کوئی خوشی ملے۔۔۔۔۔؟؟؟خدیجہ اسکی بات کاٹ کر سنجیدگی سے بولیں

میں ایسا کیوں چاہوں گی اماں پر۔۔۔۔ آپ نے لالہ سے پوچھا تھا کیا۔۔۔۔؟؟

اس سے بھی پوچھ لوں گی وہ انکار نہیں کرے گا ہمارے فیصلے سے۔۔۔۔

اووووف۔۔۔۔یعنی کے یہ صرف آپ دونوں میاں بیوی کی ملی بھگت ہے۔۔۔۔

تمہیں کس چیز کی فکر ہے اگر اس رشتے پر کسی کو اعتراض ہوا تو صرف ایک یشب کو ہی ہو گا اور اسے تم سنبھال لینا۔۔۔۔

اونہہ۔۔۔۔تم سنبھال لینا آپ جانتی نہیں ہیں انہیں اسی لیے اتنی بے فکری سے کہہ رہی ہیں۔۔۔آپ کو پتہ تھا لالہ کیساتھ   یشب کا رویہ۔۔۔وہ تو بات تک نہیں کرتے لالہ سے کجا کہ مہرو بھابھی کی لالہ سے شادی۔۔۔۔۔۔ہیر نے یشب کے غصے سے سرخ چہرے کو سوچ کر جھرجھری لی۔۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھیں اماں اگر  یشب نے میرے ساتھ کچھ غلط کیا تو اسکے ذمےدار آپ لوگ ہوں گے۔۔۔۔۔وہ چلا کر کہتی سیڑھیاں پھلانگ گئی

خدیجہ کو ہیر سے اس قسم کے رویے کی امید نہیں تھی۔۔۔۔وہ پریشان سی بیٹھیں تھیں جب شمس ہال میں آیا

اماں یہ ہیر کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟

کیوں کچھ کہا اس نے تم سے۔۔۔۔خدیجہ شمس کی بات سن کر کھڑی ہوئیں

نہیں کہا تو کچھ نہیں پر کافی غصے میں نکلی ہے ابھی یہاں سے۔۔۔۔۔شمس نے اسے غصے سے سرخ چہرے سمیت سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تھا

ایسے ہی ذرا سی بات پر۔۔۔۔۔

یہ ذرا سی بات نہیں ہے اماں۔۔۔۔میں سن چکا ہوں سب۔۔۔۔۔شمس نے دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہا

ہم نے تو بھلا ہی سوچا تھا پر۔۔۔۔ 

کس کا بھلا۔۔۔۔؟؟؟میرا یا پھر ہیر کا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ طنزیہ بولا

اماں آپ لوگ یشب کا رویہ جانتے تھے میرے ساتھ اس کے باوجود آپ لوگوں نے مجھ سے ہیر سے پوچھے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔۔۔۔وہ بےیقین تھا 

شمس ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔مجھے اور تمہارے بابا کو لگا کہ اسطرح کچھ تو  کفارہ ادا ہو جائے گا اس سب کا جو انجانے میں تم سے ہو چکا ہے۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا

آپ کو کیا لگتا ہے یشب اپنی بھرجائی کو اپنے بھائی کے قاتل کیساتھ  باخوشی رخصت کر دے گا

یشب وہاں کا بڑا نہیں ہے شمس اور ہم نے  مہرو کے گھر  والوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔

جو بھی ہے اماں ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔میں ہیر سے بات کرتا ہوں وہ خود ہی منع کر دے گی ان لوگوں کو یا پھر میں خود زبیر خان (مہرو کا بھائی)  سے بات  کر لوں  گا۔۔۔۔۔۔شمس سنجیدگی سے کہتا واپس مڑا

شمس۔۔۔بات سنو۔۔۔۔تم ہیر سے کچھ نہیں  کہو گے اس بارے میں اور نہ ہی زبیر خان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمس۔۔۔س۔۔س۔۔۔ بات سنو میری۔۔۔۔۔خدیجہ پکارتی رہ گئیں مگر وہ ان سنی کرتا ہیر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا

………………………………………………………

ہیر جلے پیر کی بلی بنے کمرے میں ادھر سے أدھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔۔اس نے دو دفعہ یشب کو کال کی تھی پر یشب نے کال کاٹنے کے بعد سیل آف کر دیا جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔

کہیں یشب تک بات پہنچ تو نہیں گئی۔۔۔۔اوف میرے اللہ رحم کرنا۔۔۔۔۔وہ پریشانی سے بولی

مجھے۔۔۔۔مجھے مہرو بھابھی کو کال کرنی چاہیے۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ہیر نے خودکلامی کرتے ہوئے جلدی سے مہرو کا نمبر ڈائل کر کے سیل کان سے لگایا

اسلام علیکم۔۔۔۔۔مجھے کیسے یاد کر لیا۔۔۔مہرو کی فریش سی آواز پر ہیر کو حوصلہ ہوا کہ بھابھی انجان ہیں اس بات سے۔۔۔۔۔

یاد ان کو کیا جاتا ہے جو بھول جائیں۔۔۔ہیر بھی بظاہر شوخی سے بولی

بہت پرانا ڈائیلاگ مارا ہے۔۔۔۔مہرو نے چھیڑا

اچھا بتائیں کیا کر رہی تھیں۔۔۔۔؟؟؟

کچھ نہیں کبڈ کو سیٹ کر رہی ہوں۔۔وہ مصروف سی بولی 

یشب گھر پر ہیں کیا۔۔۔۔؟؟ہیر نے  بےچینی سے پوچھا

نہیں۔۔۔۔

کہاں ہیں پھر وہ اصل میں ان کا سیل بھی بند ہے۔۔۔۔۔

تمہیں بتا کر نہیں گیا۔۔۔۔؟؟؟

کہاں بھابھی۔۔۔۔؟؟؟ہیر کے گرد خطرے کی گھنٹی بجی

لال حویلی۔۔۔۔۔۔

کیا لال حویلی۔۔۔۔پر کب۔۔۔۔کیا کرنے۔۔۔۔؟؟

وہ دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی

پتہ نہیں زبیر لالہ کا فون آیا تھا کوئی ضروری بات کرنی تھی بابا جان بھی ساتھ گئے ہیں

کونسی ضروری بات۔۔۔؟؟وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی

ابھی تو پتہ نہیں ہے بابا جان اور یشب آئیں گے تو پتہ چلے گی۔۔۔۔

کب تک آئیں گے وہ لوگ۔۔۔۔۔؟؟؟

صبح گئے تھے شام کو واپس آنے کا کہا تھا دیکھو کب تک آتے ہیں۔۔۔۔۔

اچھا بھابھی میں بعد میں بات کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ہیر نے شمس کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کیا

آئیں لالہ۔۔۔۔۔وہ خود کو کمپوز کرتی بولی

شمس آہستگی سے چلتا اسکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔۔ہیر تم پریشان مت ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔میں زبیر سے معذرت کر لوں گا۔۔۔۔اماں اور بابا کو بات کرنے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا ہم سے۔۔۔۔۔شمس نے سنجیدگی سے کہا

لالہ آپ مجھے حویلی چھوڑ آئیں گے ابھی۔۔۔۔ہیر اسکی بات مکمل ہونے پر بولی

ابھی۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوا

جی مجھے ابھی واپس جانا ہے۔۔۔۔

اس بات پر خفا ہو کر جا رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟

نہیں لالہ۔۔۔۔۔میری مہرو بھابھی سے بات ہوئی ہے مہرو بھابھی کے گھروالوں نے یشب اور بابا جان کو بلوایا تھا آج اس لیے میں واپس جانا چاہتی ہوں تاکہ مجھے ان لوگوں کے فیصلے کا علم ہو سکے۔۔۔۔۔۔

میں نے کہا ہے تم سے میں زبیر خان سے بات کر لوں گا وہ میری بات سمجھ جائے گا۔۔۔۔یشب کیطرح اس نے مجھے  اپنے بہنوئی کا قاتل سمجھ کر قطع کلامی نہیں کی۔۔۔۔

) زبیر خان اور شمس خان اچھے کلاس فیلوز اور دوست رہ چکے تھے ماضی میں  ) 

نہیں لالہ آپ کسی سے کچھ نہیں کہیں گے اور اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو بھی انکار نہیں کریں گے آپ کو میری قسم۔۔۔۔۔ہیر نے شمس کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا

یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو ہیر میں ہر گز یہ شادی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔

آپ یہ شادی کریں گے اور ضرور کریں گے لالہ۔۔۔میں آپ کو اپنی قسم دے چکی ہوں اور اگر آپ نے قسم توڑی تو پھر میں ساری زندگی آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی۔۔۔۔

اب مجھے چھوڑ آئیں  واپس۔۔۔۔وہ کہتی مڑ کر الماری سے اپنی چادر اور پرس نکال لائی

چلیں۔۔۔۔۔ہیر نے شمس کو کھڑے دیکھ کر کہا

ہیر۔۔۔۔ر۔۔۔۔تم۔۔۔۔

لالہ پلیز میں یشب کو سنبھال لوں گی انکی فکر مت کریں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی بہت اچھی ہیں اور مجھے پورا یقین ہے وہ آپ کو دعا سمیت قبول کر لیں گی  میں انکی بڑائی دیکھ چکی ہوں۔۔۔۔۔بس آپ کو خاموش رہ کر اور جو ہو چکا وہ  سب بھلا کر اپنا دل بڑا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔اب چلیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔ہیر اسکا بازو پکڑ کر کہتی باہر نکل گئی

……………………………………….………..…….

شمس اسے باہر سے ہی چھوڑ کر جا چکا تھا ہیر نے بھی اسے اندر آنے کا نہیں کہا۔۔۔۔۔

وہ بی بی جان سے مل کر کیچن میں مہرو کہ پاس چلی  آئی جو اسے دیکھ کر حیران تھی 

تم تو زیادہ دن کے لیے گئی تھی ناں پھر دو دن میں ہی پلٹ آئی خیریت۔۔۔۔اور نہ ابھی فون پر واپسی کا بتایا۔۔۔۔مہرو ہاتھ صاف کرتی اسکی طرف آئی

آپ کو برا لگا میرا آنا۔۔۔۔۔؟؟ ہیر مسکرائی

ویری فنی۔۔۔۔۔مہرو نے منہ بگاڑ کر ہیر کی بات کا مذاق اڑایا

اب بتاؤ چائے بناؤں تمہارے لیے اور کس کے ساتھ آئی ہو۔۔۔؟؟

لالہ کیساتھ۔۔۔۔۔چائے نہیں پیوں گی ابھی  حدید کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟

مولوی صاحب کے پاس سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔

اچھا میں آتی ہوں ابھی چینج کر کے۔۔۔۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں آ گئی

ہیر بظاہر تو ریلکیس تھی مگر اندر سے وہ یشب کو سوچ کر خوفزدہ تھی وہ آئی بھی اسی لیے تھی تاکہ یشب کے غصے کو ٹھنڈا کر سکے۔۔۔۔۔شمس کو تو کہہ آئی تھی کہ یشب کو سنبھال لے گی مگر اب وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو  رہی تھی کہ یشب کو لالہ کے معاملے میں کیسے ہینڈل کرے گی۔۔۔۔یشب کا رویہ ہیر کے ساتھ بلکل ٹھیک ہو چکا تھا پر وہ اب بھی ہیر کے منہ سے شمس کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں سنتا تھا

وہ کافی دیر سوچنے کے بعد یشب سے بات کرنے کے لیے مختلف الفاظ ترتیب دے کر کمرے سے نکل آئی۔۔۔۔

 اب وہ یشب کی واپسی کی منتظر تھی

…………………………………...…..………..

ہیر اور مہرو ہال میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور حدید کچھ فاصلے پر بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔۔۔۔ہیر گاہے بگاہے کلاک کیطرف بھی دیکھ لیتی۔۔۔۔۔ڈیڑھ گھنٹے کے کھٹن انتظار کے بعد یشب کی پجارو کا ہارن بجا۔۔۔

ہیر نے بےچینی سے پہلو بدلا۔۔۔۔

لگتا ہے آ گئے مہرو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔میں دیکھتی ہوں وہ پلٹی ہی تھی جب سامنے سے یشب لال بھبھوکا چہرہ لیے اندر داخل ہوا اور کسی کی طرف بھی دیکھے بنا سیڑھیاں پھلانگ گیا

اسے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر پریشان ہوئی

میں دیکھتی ہوں جا کر آپ پریشان مت ہوں۔۔۔۔۔۔ہیر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر  کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی

وہ دھڑ دھڑ کرتے دل کیساتھ آہستگی سے دروازہ کھولتی اندر اینٹر ہوئی۔۔۔۔۔

یشب سیل کان سے لگائے ونڈو پین کیطرف منہ کیے بات کرنے میں بزی تھا۔۔۔۔ہیر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی

یشب نے مزید پانچ منٹ بات کر کے سیل بند کیا اور پلٹ کر جیکٹ اتارتا واش روم چلا گیا۔۔۔پندرہ منٹ بعد شاور لے کر نکلا۔۔۔بالوں میں برش کیا۔۔۔بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آ کر لائیٹر اور سیگرٹ کی ڈبی اٹھائی اور بالکنی میں نکل گیا۔۔۔۔یشب نے اس سارے عمل میں ہیر کو مکمل طور پر اگنور کیا تھا۔۔۔وہ بھی خاموش کھڑی رہی۔۔۔یشب کے جانے کہ بعد وہ لمبی سی سانس لیتی ہمت مجتمع

کر کے بالکنی کیطرف آئی۔۔۔۔

یشب سیگرٹ سلگائے کش لے رہا تھا۔۔۔۔ہیر پاس آئی۔۔۔۔

یشب چائے لاؤں آپ کے لیے یا پھر کھانا ہی کھائیں گے اب۔۔۔۔

جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔یشب نے منہ سے دھواں نکالتے ہوئے روکھے سے انداز میں کہا۔۔۔۔

کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟

آئی سیڈ گو فرام ہئیر۔۔۔۔۔

یشب۔۔۔۔۔

تمہیں سنائی نہیں دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ اپنے پرانے انداز میں دھاڑا

ہوا کیا ہے یشب۔۔۔اسطرح سے کیوں بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی

میں فلوقت تم سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا اسلئیے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔بس دفع ہو جاؤ کہنے کی کسر رہ گئی تھی

ہیر ایک نظر اسکے سرد و سپاٹ  چہرے کو دیکھ کر پلٹ گئی

یشب نے اسکے جانے کے بعد غصے سے گرل پر مکا مارا اور سیگرٹ پیروں تلے مسل کر اسٹڈی میں چلا گیا

………………………………………………………

کیا ہوا یشب کو وہ غصے میں کیوں تھا اتنا اور کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے ہیر کو کیچن میں داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا

پتہ نہیں مجھ سے کوئی بات نہیں  کی کہہ رہے ہیں فلوقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔۔

ایسا کیا ہوا ہو گا وہاں۔۔۔۔میں ابھی لالہ سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو کیچن سے باہر نکلی

ارے نہیں بھابھی اگر وہاں کوئی ایسی ویسی بات ہوئی ہوتی تو یشب ضرور بتا دیتے ویسے بھی باباجان بھی جانتے ہوں گے ہم ان سے پوچھ لیں گے۔۔۔۔ 

ابھی تو کھانا لگوائیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔یشب ابھی نہیں کھائیں گے ہم کھا لیتے ہیں بابا جان کا بھی بھجوا دیں مردانے میں۔۔۔۔ہیر نے مسکرا کر کہتے ہوئے بات بدلی تاکہ مہرو زبیر سے کچھ نہ پوچھ سکے اور حدید کو آواز دیتی پلٹ گئی

مہرو بھی سر ہلاتی واپس کیچن میں مڑ گئی کھانا لگوانے۔۔۔

………………………………………………….

رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے اور یشب ابھی تک اسٹڈی سے نہیں نکلا تھا ہیر اسکے انتظار میں کروٹیں لے لے کر تھک چکی تھی

مزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ اٹھنے کا سوچ رہی تھی جب کلک کی آواز سے اسٹڈی کا دروازہ کھول کر یشب باہر آیا

وہ خاموشی سے آ کر بیڈ پر اپنی سائیڈ پر لیٹا اور  کروٹ بدل لی

کھانا لاؤں آپکے لیے۔۔۔۔۔۔ہیر نے اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے پوچھا

تم سوئی نہیں اب تک۔۔۔۔۔یشب اسکیطرف پلٹا 

آپ کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔

بھوک نہیں ہے مجھے دوپہر میں کھا لیا تھا۔۔۔

یشب۔۔۔۔۔۔  

ہوں۔۔۔۔۔۔۔

مہرو بھابھی کہہ رہی تھی  کہ زبیر لالہ نے کوئی ضروری بات کرنی تھی اس لیے آپ کو اور بابا جان کو بلوایا تھا کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

یشب اسکی طرف دیکھ کر استہزائیہ ہنسا

میکے سے آ رہی ہو کیا وہاں تمہیں کسی نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔۔

کس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟

اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔اسٹاپ ڈس۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا اٹھ بیٹھا

اس قدر معصوم بننے کی کوشش مت کرو ہیر دلاور خان جیسے کچھ جانتی نہ ہو۔۔۔۔۔ایک دفعہ صرف ایک دفعہ مجھ سے تو بات کر سکتی تھی بھابھی کے گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے۔۔۔۔۔پر نہیں محترمہ کو اپنا بھائی جو عزیز ہے ہر رشتے پر۔۔۔۔۔۔۔یشب غصے اور طنز سے پھنکارا

یشب مجھ سے قسم لے لیں میں کچھ نہی  جانتی تھی اس بارے میں۔۔۔۔ آج ہی اماں نے بتایا کہ وہ اور بابا زبیر خان سے رشتے کی بات کر چکے ہیں انہوں نے نہ مجھ سے پوچھا اور نہ ہی  شمس لالہ سے ۔۔۔۔یقین کریں میرا۔۔۔۔۔وہ یشب کے غصے پر  روہانسی  ہوتی بولی

کر لیا یقین۔۔۔۔سو جاؤ اب تم۔۔۔۔یشب نے گھور کر کہتے ہوئے لیٹ کر آنکھوں پر بازو رکھ لیا

آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے کیا یشب۔۔۔۔؟؟

ہیر سو جاؤ۔۔۔۔۔۔

میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔۔۔۔

ہیر میں نے کہا سو جاؤ۔۔۔۔۔

اگر ایسا ہو جائے تو کچھ برا نہیں شمس لالہ اور  مہرو بھابھی کی شادی۔۔۔۔

انفف۔۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب غراتا پھر جھٹکے سے اٹھ بیٹھا

تم سے کچھ کہہ نہیں رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو جی میں آئے بکواس کرتی رہو۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی میں ایسا کچھ ہونے دوں گا سمجھی۔۔۔۔

کیوں نہیں ہونے دیں گے ایسا۔۔۔۔جب آپ اور میں ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر مہرو بھابھی اور شمس لالہ کا بھی اس زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا میرا اور آپ کا۔۔۔۔۔ہیر بھی اونچی آواز سے چلائی

آواز نیچی رکھو۔۔۔۔ 

میں آپ کو آپ کے لہجے میں ہی  جواب دوں گی یشب خان آفریدی۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے یشب کی آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر بولی

ہوں۔۔ں۔۔۔وہ طنزیہ ہنسا

تو پھر ہیر بی بی اپنی تیاری رکھو کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوا تو تمہاری بھی اس حویلی میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔مہرو بھابھی اگر یہاں سے رخصت ہوں گی تو تم بھی انکے ساتھ ہی جاؤ گی یہاں سے اپنے لاڈلے  شمس لالہ کے پاس۔۔۔۔۔۔یشب نے اپنی لال انگارہ آنکھیں ہیر کے رنگ اڑے چہرے پر فوکس کرتے ہوئے دھمکی دی۔۔

ہیر کو یشب سے اس قسم کی دھمکی کی امید نہ تھی وہ دکھ اور حیرانگی سے یشب کو دیکھتی ششدر سی  بیٹھی تھی۔۔۔

کچھ لوگ دل توڑتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ سامنے والے پر کیا گزرے گی اور یشب۔۔۔وہ تو دل توڑنے اور توڑ کر جوڑنے  کا پرانی کھلاڑی تھا

"ثواب سمجھ کر وہ ہمارا دل توڑتے ہیں

اور ہم۔۔۔۔۔!!!

ہم گناہ سمجھ کر شکوہ بھی نہیں کر پاتے۔۔۔۔"

……………………………………………………… 

آپ کا مطلب ہے آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔؟؟ہیر  لرزتی آواز میں بولی

میں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔؟؟؟ یشب اسکے پانیوں سے بھرے نین کٹورے دیکھ کر نرم پڑا

ابھی کہا آپ نے کہ اگر ایسا ہوا تو میری بھی یہاں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔۔پانی پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر پھسلا

"جھانکیے مت  ان آنکھوں میں جناب،

ان میں خطرہ ہے ڈوب جانے کا۔۔۔۔!"

ارے کیا ہوا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسکا بازو تھام کر قریب کیا اور مسکراتے ہوئے ہیر کے آنسو پونچھ کر نم آنکھوں کو لبوں سے چھوا

غصے میں کہہ دیا یار تم تو سیریس ہی ہو گئی۔۔۔۔میں ایسا کر سکتا ہوں کبھی۔۔۔؟؟وہ پیار سے بولا

ہیر جانتی تھی یشب کو جب اس پر ٹوٹ کر پیار آتا تھا تو ہی وہ اسکی آنکھوں کو چھوتا تھا۔۔۔اسلئیے ریلیکس ہوتی سیدھی ہو بیٹھی

آج کے بعد اگر غصے سے بھی ایسا کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔

تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی

تم بیویاں بہت چالاک ہوتی ہو ذرا بھنک لگ جائے کہ شوہر کی کمزوری ) ہیر کے آنسو ( کیا ہے ہر بات پر اسی سے بلیک میل کرتی ہو۔۔۔۔

ہاں تو آپ شوہروں کو بھی چاہیے کہ ایسی بات ہی نہ کریں کہ بیویوں کو بلیک میل کرنا پڑے۔۔۔۔وہ اٹھلائی

اچھا اٹھو کھانے کو لاؤ کچھ بھوک لگ گئی ہے۔۔۔۔

پہلے میری پوری  بات بنا غصے اور ٹوکنے کے سنیں پھر جاتی ہوں کھانا لینے۔۔۔

بولو۔۔۔۔۔یشب نے ریلیکس ہو کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کیں وہ جانتا تھا ہیر ایسے نہیں ٹلے گی

یشب اگر ایسا ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی اتنی ینگ ہیں ساری زندگی بیوگی کی چادر اوڑھ کر تو نہیں گزار سکتی حدید تو بہت چھوٹا ہے ابھی۔۔۔۔۔بھابھی کے بھی کچھ ارمان ہوں گے خواہشات ہوں گی جو یشار خان کے چلے جانے سے ادھورے رہ گئے ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ انکی ادھوری خواہشات اور خوشیاں ان کو لٹا دیں۔۔۔کیونکہ اب ان کے بارے میں مجھے آپکو اور باقی گھروالوں کو ہی سوچنا ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔وہ رسان سے بولی

مجھ بھابھی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہیر۔۔۔۔۔

تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟

پھر یہ کہ مجھے انکی شمس خان سے شادی پر اعتراض ہے۔۔۔

یشب۔۔۔۔آپ نے ہی مجھ سے کہا تھا ناں کہ ہیر ماضی میں جو بھی ہو چکا اس سب کو بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو پھر اب خود کیوں ماضی میں جھانک رہے ہیں۔۔۔۔

دیکھیں میں مانتی ہوں شمس لالہ سے یشار خان کا خون ہوا مگر آپ جانتے ہیں  کہ یہ سب کسی دشمنی کے تحت نہیں بلکہ غلطی سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔آپ کا رویہ لالہ کیساتھ کیسا ہے میں جانتی ہوں مگر میں نے کبھی بھی آپ سے اس بات کی  شکایت نہیں کی۔۔۔۔پھر کیوں آپ سب بھلاتے نہیں ہیں۔۔۔۔

لالہ میں کس چیز کی کمی ہے خان۔۔۔وہ پڑھے لکھے ہیں۔۔۔اچھی شکل وصورت کے مالک ہیں۔۔۔۔اتنی بڑی جاگیر کے اکلوتے وارث ہیں۔۔۔۔کچھ دیر کو اس بات کو بھول جائیں کہ لالہ سے آپ کے بھائی کا خون ہوا تھا۔۔۔۔پھر سوچ کر بتائیں کہ کیا وہ ایک مکمل انسان نہیں جس کو ہم مہرو بھابھی کو سونپ سکیں۔۔۔۔۔۔۔

ایک منٹ۔۔۔یشب پلیز  میری بات مکمل ہونے دیں پہلے۔۔۔۔ہیر نے اسے منہ کھولتے دیکھ کر روکا

مہرو بھابھی بمشکل ہی تیس کی ہوں گی ابھی تو بہت لمبی زندگی پڑی ہے یشب جسے وہ تنہا نہیں گزار سکتی ہیں۔۔۔۔کسی سہارے کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھال سکے انکی خوشیاں لوٹا سکے انہیں مان دے سکے۔۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے شمس لالہ انکے لیے ایک اچھا سہارا ثابت ہوں گے یشب۔۔۔۔وہ دونوں ایک جیسے غم سے گزر چکے ہیں اسلئیے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ  سکیں گے۔۔۔۔۔۔وہ پراثر انداز میں اسے قائل کر رہی تھی

تمہیں کیا لگتا ہے بھابھی کے لیے سب کچھ بھلا کر اپنے شوہر کے قاتل کیساتھ زندگی گزارنا آسان ہو گا۔۔۔؟؟

آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں ہو گا میں جانتی ہوں بھابھی اپنے بڑوں کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں  کریں گے بس آپ چپ رہیں اس معاملے میں۔۔۔

ہم مہرو بھابھی کیساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کریں گے یشب۔۔۔اگر وہ مان جاتی ہیں تو پھر آپ کوئی ایشو کری ایٹ نہیں کریں گے اس معاملے کو لے کر۔۔۔۔آپ کو میری قسم۔۔۔ہیر نے یشب کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا

پوری بلیک میلر ہو۔۔۔۔

آپکے ساتھ رہ رہ کر ہو گئی ہوں۔۔۔۔وہ مسکرائی

فائن نہیں کروں گا کوئی ایشو کری ایٹ۔۔۔اب خوش۔۔۔

بہت خوش۔۔۔۔مننه او ستا سره مینه لرم ډیر خان صاحب۔۔۔۔

) تھینکس اینڈ لو یو آ  لوٹ خان صاحب)۔۔۔۔۔۔وہ شرارت سے پشتو میں کہتی بیڈ سے نیچے اتری

اب جا کہاں رہی ہو جواب تو لیتی جاؤ اپنی بات کا۔۔۔۔۔یشب نے اسے باہر  کیطرف جاتے دیکھ کر  آواز لگائی

آ کر لوں گی جناب۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتی کمرے سے نکل گئی

………………………………………………………

یشب قائل تو لال حویلی سے ہی ہو کر آیا تھا  کہ مہرو بھابھی کی شادی کر دینی چاہیے مگر دل شمس خان سے شادی پر راضی نہیں تھا

وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ  شمس نے کسی دشمنی کی بنا پر یشار کو قتل نہیں کیا تھا کیونکہ ان لوگوں کی کبھی کسی بھی قبیلے سے کوئی دشمنی نہ رہی تھی۔۔۔۔خاقان آفریدی صلح جو اور نرم طبیعت کے مالک تھے لہذا انکی نہ ماضی میں کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی حال میں۔۔۔۔۔تو پھر شمس یشار لالہ کا خون کیوں کر کرتا۔۔۔۔؟؟

زبیر خان نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔

 اگر شمس  ارادتا یشار کو قتل کرتا تو پھر اسکی ڈیڈ باڈی لے کر خود حویلی نہ آتا۔۔۔اور نہ ہی زبیر خان کو فون کر کے بتاتا کہ اس کے ہاتھوں سے یشار خان آفریدی کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔۔

یہ  سب اچانک ہوا تھا جس میں شمس کا  کوئی قصور نہیں تھا یشب۔۔۔تو پھر کیونکر اس بات کو لے کر انکار کیا جائے۔۔۔۔۔زبیر نے یشب کو سمجھاتے ہوئے کہا

وہ سب اس وقت لال حویلی کے دالان میں بیٹھے شمس کے پرپوزل پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔

اور ویسے بھی میں شمس کو ایک عرصے سے جانتا ہوں ہم کلاس فیلوز رہ چکے ہیں وہ دوست تھا میرا۔۔۔۔ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان ہے وہ۔۔۔۔۔

یونیورسٹی کے زمانے میں وہ اکثر حویلی آتا جاتا رہتا تھا اماں بھی مل چکی ہیں شمس سے۔۔۔۔زبیر خان نے اماں کی طرف اشارہ کیا

ہاں یشب بچے۔۔۔۔شمس اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے زبیر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔اماں نے بھی شمس خان کی حمایت کی

اس گھر کے بڑے  اور مہرو کے بھائی ہونے کے  ناطے مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے یشب۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اپنی بیٹی تمہیں دے رکھی ہے پھر اس رشتے کے پیچھے  ان لوگوں کی بری  نیت نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو۔۔۔۔۔زبیر نے بات مکمل کر کے یشب کا کندھا تھپکا

مجھے بھابھی کی شادی پر کوئی مسلہ نہیں ہے لالہ میں شمس خان کو انکے شوہر کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتا بس۔۔۔۔کوئی اور اچھا رشتہ بھی تو مل سکتا ہے ہمیں۔۔۔۔یشب شکستہ سا بولا

مل سکتا ہے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔

مگر کچھ نہیں زبیر۔۔۔۔یہ یہاں کا بڑا نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو ترجیع  دی جائے۔۔۔۔مجھے تمہیں اور بھرجائی (مہرو کی امی)  کو جب کوئی اعتراض نہیں تو پھر یشب کا اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔خاقان آفریدی نے بھی زبیر خان کے فیصلے کی حامی بھری

جب میرا انکار یا اقرار کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو پھر اس محفل کا حصہ کیوں بنا رکھا ہے مجھے۔۔۔۔آپ لوگوں کا جو دل کرے وہ فیصلہ کریں۔۔۔میں صرف مہرو بھابھی کے فیصلے کو ہی ترجیع دوں گا اگر انکو کوئی مسلہ ہوا تو میں ان کیساتھ کھڑا ہوں گا بابا جان۔۔۔۔

میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔وہ سپاٹ چہرے سے کہتا باہر نکل گیا

وہاں تو سب راضی تھے شمس خان کے رشتے پر سوائے یشب کے۔۔۔۔۔

جب میں مہرو بھابھی کے فیصلے کیساتھ ہوں تو پھر مزید اس معاملے پر کچھ اور سوچنے کو باقی نہیں بچتا۔۔۔یشب نے لال حویلی میں ہوئی بات چیت کو سوچ کر لمبی سی سانس خارج کی اور خود کو ریلیکس کرتا تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا

………………………………….…….…………

میں یشب کو تو ٹھنڈا کر چکی ہوں اس معاملے پر مگر مہرو بھابھی کو کیسے قائل کروں گی۔۔۔۔؟؟

یشب نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔

مہرو بھابھی کے لیے ہر گز آسان نہیں ہو گا شمس لالہ کو اپنے شوہر کے روپ میں قبول کرنا۔۔۔۔وہ سوچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب گل نے بی بی جان کا پیغام دیا وہ ہیر کو اپنے کمرے میں بلا رہیں تھیں۔۔۔

ہیر بلاوے پر انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی

بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟اس نے بی بی جان کے کمرے میں آ کر پوچھا

ہاں آؤ بیٹھو یہاں مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔

ہیر جانتی تھی کہ ضروری بات کیا ہو گی اسلیئے سر ہلاتی انکے سامنے بیٹھ گئی

خان نے مجھے بتایا کہ لال حویلی والوں نے کیوں بلوایا تھا انہیں۔۔۔۔بی بی جان نے گلا کھنکار کر بات شروع کی

جی۔۔۔۔۔

تم جانتی تھی پہلے سے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے ہیر کو دیکھا

نہیں بی بی جان اماں اور بابا نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی بھابھی کہ گھر والوں سے بات کر لی تھی مجھے بھی کل ہی بتایا اماں نے۔۔۔۔۔اگر مجھے علم ہوتا تو میں آپ لوگوں سے اجازت کے بعد ہی مہرو بھابھی کہ گھر والوں سے بات کرنے کا کہتی  انہیں۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔۔۔بی بی جان مطمعین ہوئیں

آپ کو برا لگا بی بی جان۔۔۔۔؟؟

نہیں بچے مجھے کیوں برا لگے گا مہرو میری بھتیجی بھی ہے میں بھی چاہتی ہوں کے وہ ایک خوشگوار زندگی گزارے۔۔۔اس رشتے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لال حویلی میں۔۔۔۔یہاں 

بھی صرف یشب اور مہرو کو ہی اعتراض ہے۔۔۔۔۔

بی بی جان یشب سے بات ہو گئی ہے میری انہوں نے کہا کہ اگر بھابھی راضی ہوئی تو انکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔۔بھابھی سے بات کر لی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟

ہاں ابھی تمہارے آنے سے پہلے کی تھی بھابھی ) مہرو کی امی )کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ وہ زبیر کو بھیج رہی ہیں مہرو کو لینے کے لیے اس لیے ایک دفعہ میں بات کر لوں اس سے۔۔۔۔

پھر کیا کہا بھابھی نے۔۔۔۔؟؟ہیر پرجوش ہوئی

کہہ رہی ہے اسے شادی ہی نہیں کرنی۔۔۔۔وہ حدید کیساتھ ہی زندگی گزار لے گی۔۔۔۔اسے اب کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔۔۔۔

بی بی جان کی بات پر ہیر کا منہ لٹک گیا

میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے ہیر بچے مہرو سے بات کرو جا کر کہ زندگی بغیر کسی مرد کے سہارے کے گزارنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے اس بارے میں۔۔۔۔

جی بی بی جان میں کرتی ہوں بات۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔زبیر کے آنے سے پہلے ہی بات کر لینا شاید شام تک وہ آ جائے مہرو کو لینے۔۔۔۔

جی میں جاتی ہوں ابھی۔۔۔ہیر سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی اور بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دیتی مہرو کے کمرے کیطرف چل پڑی

…………………………………………………

ہیر جب مہرو کے کمرے میں داخل  ہوئی تو مہرو صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی

بھابھی۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارا

ہوں۔۔۔۔مہرو آنسو پونچھتی سیدھی ہوئی

آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا

نہیں۔۔۔۔بس ایسے ہی تم آؤ بیٹھو۔۔۔۔وہ افسردہ سا مسکرا کر بولی

ہیر اسکے ساتھ ہی صوفے پر ٹک گئی

بھابھی وہ میں۔۔۔۔ہیر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔۔۔۔

وہ میں آپ سے ضروری بات کرنے آئی تھی۔۔۔۔وہ ہچکچا کر بولی

اگر تمہیں بی بی جان نے یہاں بھیجا ہے تو میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا  چاہتی ہیر۔۔۔۔۔۔

بھابھی پلیز ایک دفعہ میری بات سن لیں۔۔۔وہ ملتجی ہوئی

ہیر پلیز میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔۔۔

بھابھی شمس لالہ بہت اچھے ہیں۔۔۔ 

ہیر کی بات پر مہرو نے پرشکوہ نظروں سے اسے دیکھا

لالہ نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا بھابھی۔۔۔۔ہیر نے  وضاحت دی

 میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔

تو پھر اس بات کو سوچنے میں کیا برائی ہے بھابھی۔۔۔۔

کوئی برائی نہیں ہے پر میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تو پھر سوچ کر کیا کروں گی۔۔۔۔؟؟مہرو دکھی لہجے میں بولی

بھابھی آپ لالہ کیساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گی مجھے پورا یقین ہے۔۔۔۔ایک بار۔۔۔۔صرف ایک بار سب  کچھ بھلا کر  اس بارے میں سوچیں تو۔۔۔۔

سوچ لوں گی۔۔۔۔وہ کہہ کر کھڑی ہوئی

بھابھی پلیز ہم سب آپ کے اچھے کے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔

میں جانتی ہوں ہیر۔۔۔۔سب میری بھلائی چاہتے ہیں۔۔۔۔

آپ خفا ہو گئی ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟

میں کیوں خفا ہوں گی تم سے ہیر۔۔۔۔

بھابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں  جانتی تھی پہلے کل ہی اماں نے بتایا کہ بابا زبیر لالہ سے رشتے کی بات کر چکے ہیں۔  

میں تم سے خفا نہیں ہوں ہیر۔۔۔۔تم  بہت اچھی ہو اور میں تم سے خفا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔مہرو نے اسکے گال پر ہاتھ رکھے پیار سے کہا

تو پھر میری بات مان لیں ناں بھابھی۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

کہا ہے ناں  سوچوں گی۔۔۔

آپ مجھے ٹال رہی ہیں۔۔۔۔

نہیں ٹال رہی ہوں۔۔۔ابھی لال حویلی جاؤں گی تو وہاں بھی سب یہی بات کریں گے جیسے صبح بی بی جان اور بابا جان نے کی۔۔۔۔اور اب تم۔۔۔۔

سب کے بار بار کہنے سے مجھے ماننا پڑے گا ہیر۔۔۔۔کیونکہ میں ایک عورت ہوں

میری اپنی کوئی مرضی ہو نہ ہو پر مجھے اپنے گھر والوں  کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا 

یہی زندگی ہے ہم عورتوں کی ڈگڈگی بن کر زندگی گزارتے جاؤ۔۔۔۔وہ تلخی سے کہتی کبڈ کیطرف بڑھی

تم بھی تو جانتی ہو۔۔۔۔تمہارے ساتھ ایک عورت ہونے کے ناطے جو ہو چکا ہے وہ سب بھولا  تو نہیں  ہو گا تمہیں۔۔۔؟؟مہرو نے کبڈ کا ایک پٹ کھولتے ہوئے کہا

مجھے یاد ہے سب بھابھی شاید چاہ کر بھی بھول نہیں پاؤں گی مگر اسکے بدلے مجھے اتنا کچھ مل  چکا ہے کہ میں  اس سب کو خود ہی یاد نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔

آپ کو یاد ہے ایک دفعہ آپ نے ہی کہا تھا کہ ہیر صبر سے برداشت کر لو ایک نہ  ایک دن تمہیں اس صبر کا پھل ضرور ملے گا۔۔۔۔تو بھابھی مجھے وہ پھل مل چکا ہے۔۔۔اس لیے میں چاہتی ہوں آپ بھی دل میں کوئی خوف، وہم یا زبردستی رکھے بغیر سوچیں۔۔۔

ہم عورتوں کی واقعی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہم  اپنے باپ، بھائیوں اور شوہروں کی خواہشات کے آگے سر جھکاتی آئی ہیں اور آگے بھی جھکاتی رہیں گی۔۔۔

مگر اس بات پر بھی انکار نہیں کہ ایک عورت کو زندگی گزارنے کے لیے مرد کے سہارے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔چاہے وہ سہارا باپ کی صورت میں ہو بھائی یا پھر شوہر کے۔۔۔۔ان سہاروں کے بغیر ہم عورتیں کچھ بھی نہیں  ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر رسان سے کہتی مہرو کو قائل کر لینا چاہتی تھی

میں مانتی ہوں یہ بات کہ مرد کا سہارا ایک عورت کے لیے بہت ضروری ہے ہیر۔۔۔اس لیے میں سوچوں گی اس بارے میں۔۔۔

آپ یہ مت سوچئیے گا بھابھی کہ  شمس لالہ میرے بھائی ہیں میں اس لیے آپ کو فورس کر رہی ہوں۔۔۔میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ آپ بھی ایک اچھی زندگی گزاریں ہماری طرح۔۔۔۔ہیر کہتی ہوئی اسکے پیچھے ہی کبڈ تک آئی

ہوں۔۔۔۔مجھے تمہارے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے ہیر۔۔۔۔مہرو نے  اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا

بھابھی آپ شمس لالہ کیساتھ بہت خوش رہیں گی۔۔۔۔اس لیے میری ریکویسٹ ہے کہ آپ اس بارے میں ضرور سوچئیے گا کسی بھی دباؤ کے بغیر۔۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر دبائے 

میری خواہش ہے کہ آپ میری بھابھی بنیں۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی

ہوں سوچوں گی ضرور۔۔۔۔مہرو نے مدھم سا مسکرا کر ہیر کو مطمعین کیا

مگر وہ خود مطمعین نہیں تھی۔۔۔۔

………………………………………………

زبیر خان مہرو اور حدید کو آ کر لے گیا تھا۔۔۔۔

ہیر کافی بے چینی سے مہرو کے فیصلے کی منتظر تھی۔۔۔۔

مہرو کو لال حویلی گئے دو ہفتے ہونے والے تھے مگر ابھی تک وہاں سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔۔۔

ہیر کی بات مہرو سے ہر دو ، چار دن بعد ہو جاتی تھی مگر اس بارے میں دوبارہ انکے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔

ہیر کی بے چینی آوٹ آف کنٹرول  ہوئی تو وہ بی بی جان کے پاس آ بیٹھی

بی بی جان تسبیح کر رہی تھیں۔۔۔

مہرو بھابھی کب تک آ رہی ہیں بی بی جان آپ کی بات ہوئی ان سے۔۔۔۔؟؟وہ دوپٹہ انگلی پر لپٹتی بے چینی سے بولی

ہوں۔۔۔ہوئی تھی بات کہہ رہی تھی ابھی کچھ دن اور رکے گی وہاں۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا اب وہ اگلی بات پوچھنا چاہ رہی تھی مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھے۔۔۔۔۔

بی بی جان نے اسے بے چینی سے پہلو  بدلتے دیکھ کر خود ہی پوچھ لیا

ہیر بچے کوئی اور بات کرنی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟

جج۔۔۔۔جی بی بی جان۔۔۔۔

تو پھر پوچھو ہچکچا کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔وہ مسکرائیں

وہ۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان مہرو بھابھی نے کیا فیصلہ کیا پھر۔۔۔۔۔۔؟؟؟دل کی بات زبان پر آئی

تمہاری بات نہیں ہوئی مہرو سے۔۔۔۔۔؟؟؟

ہوئی تھی مگر اس بارے میں نہیں ہوئی۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔بھابھی سے بات ہوئی تھی انہوں نے ہی بتایا کہ مہرو نے وقت مانگا ہے سوچنے کے لیے۔۔۔۔۔وہ لوگ تو راضی ہیں مگر بھابھی کہہ رہی تھیں زبیر نے کہا ہے کہ مہرو  کو  فورس نہ کیا جائے اس معاملے پر وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہی جواب دلاور خان تک پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔۔اب دیکھو مہرو کب فیصلہ کرتی ہے۔۔۔۔۔بی بی جان نے تفصیلا ہیر کو آگاہ کیا

ہوں۔۔۔۔میں بھی منتظر ہوں بھابھی کے فیصلے کی۔۔۔وہ مایوسی سے بولی

یشب نہیں آیا پشاور سے ابھی۔۔۔۔؟؟؟

کل شام تک آئیں گے ابھی بات ہوئی تھی میری ان سے۔۔۔۔۔آپ کے لیے چائے لاؤں بی بی جان۔۔۔۔۔

ہوں لے آؤ۔۔۔۔۔۔سردی بڑھ رہی ہے اب تو ہر دو گھنٹے بعد چائے پینے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔۔بی بی جان مسکرا کر بولیں 

میں ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔ہیر بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی

…………………………………………………

بی بی جان سے بات کرنے کے بعد ہیر کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔۔مہرو بھابھی ناجانے کیا فیصلہ کریں گی پہلے تو امید تھی کہ انکے گھر والے راضی ہیں اس رشتے پر اب تو زبیر خان بھی فیصلہ بھابھی کو سونپ چکا ہے۔۔۔اور بھابھی۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پریشانی سے ٹہلتی سوچ رہی تھی

میں بھابھی سے بات کروں پھر سے۔۔۔؟؟

نہیں۔۔۔وہ کیا سوچیں گی میرے بارے میں کہ میں نے اسکا اتنا خیال رکھا اور یہ صرف اپنے بھائی کے بارے میں ہی سوچ رہی ہے۔۔۔۔مجھے خاموشی سے انتظار کرنا ہو گا۔۔۔زندگی تو انہوں نے  گزارنی ہے بہتر ہے کہ وہ خود ہی بنا دباؤ کے فیصلہ کریں۔۔۔۔

کیا سوچ رہی ہو اسطرح اسٹیچو بن کر۔۔۔۔۔یشب ابھی کمرے میں آیا تھا ہیر کو ایک ہی جگہ سٹل دیکھ کر اسکے پاس آ کر بولا

آپ۔۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔۔؟؟ہیر یشب کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی

ابھی آیا ہوں۔۔۔۔آپ کس مراقبے میں مصروف ہیں۔۔۔۔وہ مسکرایا

کسی مراقبے میں بھی نہیں۔۔۔اور آپ تو کل آنے والے تھے ناں۔۔۔؟؟ 

تو واپس چلا جاؤں کیا۔۔۔۔؟؟یشب جیکٹ اتارتا خفگی سے بولا

ارے نہیں میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔اچھا بتائیں میری ساری چیزیں لائے ہیں ناں۔۔۔۔۔؟؟

نہ کوئی  خیر خیریت نہ کھانا  پینا۔۔۔بس اپنی چیزوں کی پڑی ہے۔۔۔۔بہت  مطلب پرست ہو گئی ہو۔۔۔۔۔وہ خفا ہوا

ہیر اسکی بات پر کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔

اچھا بتائیں کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟پورے دو دن میرے بغیر کیسے گزرے۔۔۔۔؟؟ اور کیا کھانا پینا پسند کریں گے خان صاحب۔۔۔۔وہ شرارت سے کہتی دل پر ہاتھ رکھے جھکی

یشب اسکی حرکت پر مسکرا دیا۔۔۔۔

دو دن بہت خراب گزرے تمہارے بغیر تم جیسی چڑیل مجھے اپنا عادی ہی اس قدر بنا چکی ہے کہ اب تمہارے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔۔۔یشب بات کرتے اسکی طرف بڑھ رہا تھا

میں ہوں ہی ایسی کہ لوگ جلد ہی میرے اسیر ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ اترا کر بولی

بلکل۔۔۔۔یشب مسکراہٹ دباتا اس تک پہنچا

یشب کیا کر رہے۔۔۔۔ہیر اس کی گرفت میں مچلی

اب دو دن کا رومینس بھی تو کرنا ہے جو ڈیو ہے۔۔۔۔۔وہ آنکھ دباتا بولا

بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔پہلے شاور لے کر فریش ہوں کچھ کھا پی لیں پھر رومینس کیجئے گا۔۔۔۔لہذا اب مجھے چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ کاموں کو ترتیب دے کر بولی

تم ایسا کرو ایک رومینس چارٹ بنا کر کمرے میں دروازے کے پاس لگا دو۔۔۔ جس پر رومینس کرنے کا دن اور ٹائم لکھا ہو۔۔۔۔تاکہ مجھے آسانی ہو سکے۔۔۔۔سارے موڈ کو خراب کر دیتی ہو۔۔۔۔یشب چڑتا خفگی سے بولا

اچھا بس اتنے معصوم مت بنیں جیسے میں تو آپ کو جانتی نہیں۔۔۔ہیر مسکراتے ہوئے اسکی گرفت سے نکلی

میں آپ کے لیے چائے لینے جا رہی ہوں تب تک فریش ہو جائیں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔۔۔

چائے تمہارے ہاتھ کی نہ ہو تو چلے گی ورنہ رہنے دو چائے۔۔۔۔یشب بدمزا منہ بنا کر بولا

اب اتنی بھی بری نہیں بتاتی۔۔۔وہ خفا ہوئی

یہ تو ان سے پوچھو جو تمہارے ہاتھ کی جوشاندہ نما چائے پینے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔۔

اونہہ۔۔۔۔خود تو ہل کر ایک گلاس پانی تک نہیں پی سکتے اور دوسروں کی بنی چیزوں میں سے نقص نکالتے ہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا  کر بولی

بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔۔۔

پھر بھی آپ سے کم ہی ہوں۔۔۔۔وہ بھی بدلہ چکاتی باہر کو بھاگی کیونکہ  یشب اسے پکڑنے کو آگے بڑھا تھا پر ہیر نے بروقت باہر نکل کر  دروازہ بند کر دیا تھا

…………………….………….…..……….………

مہرو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔اسے لال حویلی آئے دو ہفتوں  سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ جب یہاں آئی تھی تو اماں نے زبیر لالہ کی موجودگی میں ہی اس سے شمس خان کے پرپوزل پر بات کی تھی۔۔۔۔اسکی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے زبیر نے یہ کہہ کر اسے مطمعین کر دیا تھا کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہو گی وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہی سب کو قبول ہو گا۔۔۔۔جسکی وجہ سے مہرو کافی  پرسکون ہو گئی تھی 

مگر اب وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے جو دوسرا  آپشن اسکے سامنے رکھا تھا اس سے وہ پھر سے اپ سیٹ ہو گئی تھی۔۔۔

اس دن تو انہوں نے صرف شمس کے پرپوزل پر اسکا ذاتی ڈسیزن مانگا تھا مگر اس سے اگلے دن وہ مہرو کے کمرے میں آ کر اسکے لیے آیا دوسرا  پرپوزل بھی بتا گئے تھے۔۔۔۔جس سے  مہرو بے چین ہو گئی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے فیصلہ کرنے کی آزادی تو اسے دے دی تھی مگر پر کاٹ کر۔۔۔۔۔۔۔

انکا کہنا تھا کہ مہرو کو ان دو پرپوزلز میں سے ہی ایک کو فائنل کرنا ہے۔۔۔۔شطرنج کا صرف ایک پتہ ہی مہرو کہ ہاتھ میں دیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔

مہرو نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم عورتیں اپنے مردوں کے لیے قربانی دیتی آئی ہیں اور دیتی رہیں گی۔۔۔۔

دوسرا پرپوزل مہرو کے تایا زاد ابرار خان کا تھا جسکے تین بچے تھے۔۔۔بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔۔۔۔بیوی چند ماہ پہلے چل بسی تھی اور اب پھر سے ابرار خان کو شادی کی سمائی تھی۔۔

مہرو ابرار خان کے رنگین مزاج کو برسوں پہلے سے جانتی تھی۔۔۔جانتے تو سب ہی تھے پھر بھی زبیر لالہ نے ناجانے کیوں ان لوگوں کو منع کیے بغیر  پرپوزل مہرو کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔

اب مہرو کے پاس صرف دو آپشن تھے شمس خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابرار خان 

اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا تھا انکار کا آپشن زبیر خان اس سے واپس لے چکا تھا

وہ  کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اسی لیے اس نے  واپس جانے کا سوچا تھا تاکہ وہاں جا کر یشب سے مشورہ کر سکے۔۔۔۔۔وہ بھابھی دیور اور کزنز کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے جو بلا جھجھک اپنے پرسنلز ایک دوسرے سے شئیر کر لیا کرتے تھے۔۔ اسی لیے مہرو نے یشب سے مشورہ کرنے کا سوچ کر خود کو مطمعین کر لیا تھا

………………………………………………

مہرو جانے سے پہلے شہربانو سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔شہربانو مہرو کی خالہ زاد اور  ابرار خان کی چھوٹی بھابھی تھی

وہ کافی دیر شہربانو سے باتیں کرنے کے بعد واپس آنے کے لیے راہداری میں سے گزر رہی تھی جب سامنے سے ابرار خان آتا دیکھائی دیا۔۔۔

مہرو نے اسے دیکھ کر سر جھکا لیا اور بڑے بڑے قدم اٹھانے لگی تاکہ جلدی سے باہر نکل جائے۔۔۔مگر ابرار خان نے اسکے برابر آتے ہی بازو پھیلا کر راستہ روکا

کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟؟وہ سر اٹھا کر ناگواری سے بولی

میں نے رشتہ بھجوایا تھا مگر زبیر نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا 

تو۔۔۔۔؟؟؟

تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔۔۔وہ  کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھا

ابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو شادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہی

اسکی بات پر وہ مونچھوں کو بل دیتا مسکرایا

میں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔مہرو بی بی۔۔۔۔

مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روک کر۔۔۔۔

مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی

اونہہ۔۔۔چیپ انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی

مہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ایک تو وہ رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے سے کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں موجود  خوف کی وجہ سے۔۔۔۔۔ 

اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے  ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے گزارا تھا

مہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے تھوڑی دیر کی ملاقات  ہی اسکے ڈسیزن لینے میں مددگار ثابت ہوئی تھی

………………………………………………

اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔ہیر خوشی سے بھرپور آواز میں چہکی

یشب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔

جب سے یہ خبر سنی تھی ہیر کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس یشب  سنجیدہ اور خاموش سا تھا۔۔۔۔

یشب نے ہیر کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر ہیر کی طرف آیا۔۔

میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔یشب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لیا

ویری فنی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا

اٹس ناٹ فنی۔۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔

میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔

بھول جاؤ ماضی کو۔۔۔۔یشب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹی

بھول چکی ہوں۔۔۔۔

پھر بھی طعنے دیتی ہو۔۔۔۔۔

کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔ہیر معصومیت سے بولی

مت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں  تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولا

میں مذاق کر رہی تھی خان۔۔۔ہیر نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر کہا

ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔یشب اسکی لٹ کھینچتا  پیچھے ہٹا

آپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں  لگا کیا۔۔۔؟؟ہیر نے پوچھتے ہوئے  یشب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھا

نہیں مجھے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔یشب نے سنجیدگی سے کہا

یہی بات مسکرا کر کہیں۔۔۔۔۔

یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔

او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی  بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔ہیر انگلی اٹھا کر بولی

سمجھ گیا۔۔۔۔یشب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوری

اوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں آپ۔۔۔  وہ  انگلی سہلاتی چیخی

جلاد صفت کے علاوہ بہت رومینٹک  بھی تو  ہوں۔۔۔۔یشب نے آنکھ ماری

اونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایا

میں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔

تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔۔۔۔یشب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہا

یہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو ہیر کے ہاتھ میں تھی

اونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں  آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی یشب کی طرف اچھالی

جسے یشب نے کیچ کر کے وکٹری کا نشان بنایا اور ہیر کی طرف ہوائی  کس اچھالی

وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی

……………………………………………..……

مہرو کے اقرار کے بعد دلاور خان اور خدیجہ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھے

چونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا 

خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ ہیر انکی حویلی سے رخصت ہو۔۔۔۔پر  یشب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔

اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔

وہ نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوز صرف خاموش تھی۔۔۔۔

کیونکہ بسا اوقات انسان  ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور  نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہتی ہے طبیعت پر ۔۔۔۔۔

ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔

ہیر یشب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گی

مگر مہرو تو یشب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔

یشب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گا

مہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی 

یشب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے یشب کا نمبر ملایا 

یشب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔

بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔

اسلام علیکم۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟

میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔

خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔

کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا 

نہیں۔۔۔۔

ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولا

وہ ٹھیک ہے  یشب۔۔۔۔مجھے حدید کے  بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی

کیسی  بات۔۔۔۔؟؟؟

اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی

یشب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟

جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔

پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟

کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یشار خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔

پھر تو یشار خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں  جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔

بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولا

ہیر نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید ہیر کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سے

نہیں وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھا

یشب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی

بھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا کروں گا۔۔۔۔یشب اسے قائل کر لینا چاہتا تھا

بلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا یشب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔

جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔یشب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کی

کس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کمرے میں داخل ہو کر یشب کا سرخ چہرہ دیکھا

کسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیا

ہیر نے افسردگی سے یشب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا  یشب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔

یشب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ہیر نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ  بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا  اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔۔۔۔۔

……………………………………………….

مہرو کو یشب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں  اسٹک کے سہارے چلی آئیں

ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیں

کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئی

پریشان ہو۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا

شمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعین ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا

مہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑی

اماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ  سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی

میں یشار کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں  ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔

ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری مجھ سے  تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے  اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔

اماں ایسا مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹی

اللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایا

میں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے  اپنے بچوں  کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارے

ماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھا

کچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا

یس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیا

اوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کیچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔

…………………………………………….……

آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ  کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا 

بابا جان ، بی بی جان اور ہیر کل ہی  لال حویلی آ چکے تھے یشب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔

ہیر اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شامل ہونا تھا

جمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے

ہیر کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر یشب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا 

ہیر نے اسے کال کی مگر یشب کا سیل آف تھا

کہاں رہ گئے ہیں یشب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر  رہی تھی

جب مہرو اسکے پاس آئی۔۔۔۔

مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ہیر ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک  لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ سوگوار سی  وہ بہت پیاری  لگ رہی تھی

وہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی

ہیر نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔

میری صبح بات ہوئی تھی بھابھی  کہہ رہے تھے کہ نکاح سے پہلے آ جائیں گے۔۔۔

نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگی

آپکی بات ہوئی تھی ان سے۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں اسے۔۔۔۔

آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دی

ہیر وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا پر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔

یشب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولی

ہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔

حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟ہیر حیران ہوئی

وہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ  اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولی

ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔ یشب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔ 

نہیں ہیر۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید یشار کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔ 

وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔ہیر نے محبت سےکہا

مہرو ہیر کی بات پر افسردگی سے مسکرا دی

تم بہت اچھی ہو ہیر۔۔۔۔

اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ تھامے

ہیر تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اپنے باپ کے گھر میں ہی پرورش پائے  گا

مگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ ہیر فکرمند ہوئی

رہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی

ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں یشب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔

تم یشب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی ہیر میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔

ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔ہیر پریشان ہوئی

کل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے بابا کے قاتل کیساتھ شادی کیوں کی تو میں کیا جواب دوں گی اسے ہیر۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلے

بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں  کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر  مت کریں۔۔۔۔ہیر سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئی

ناجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئی

پہلے وہ یشب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا

………………………………………………

نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق یشب واقعی نہیں آیا تھا

ہیر بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی  افسردہ  بیٹھی تھی

نکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی  اجازت چاہی تھی۔۔

ہیر اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں  جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیں

ہیر یشب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے ہیر کے کان کے پاس سرگوشی کی

اسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھا

نہیں۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیا

ہیر بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہا

جی بی بی جان۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑی

راہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیں

کچھ آگے جا کر مہرو نے ہیر کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھا

یشب سے کہنا میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے مت آئے اب وہ۔۔۔۔

میں آپ کے سامنے آ چکا  ہوں۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر جہاں ہیر پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے یشب کو دیکھا

آپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا

تو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور ہیر نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرے

پلیز روئیں مت آپ ) آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر  بات کر رہا تھا )۔۔۔۔۔یشب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا

بہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا

برا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔یشب نے مسکرا کر ہیر کی ناک کھینچی

جوابا ہیر نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھا

اور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے  ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا 

جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔ہیر نے مہرو کو دیکھا

مہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے یشب پر ڈالی 

ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔یشب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیا

ہیر نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل  گئی

………………………………………..……….……

مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔ہیر بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد ہیر مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔۔۔یہ کمرہ ہیر نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔

ہیر نے مہرو کو کمرے میں لا  کر بیڈ پر بیٹھایا

یہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔

میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔ہیر نے تفصیلی  بات کر کے پو چھا

نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایا

ٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ ریلیکس ہو کر بیٹھیں بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سولاؤں گی 

ہیر حدید کو بھی اپنے  ساتھ ہی لے کر آئی تھی

ہوں۔۔۔۔۔

بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئی

پیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟

مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔

شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا

مہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی 

شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیا

مہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیا

میں جانتا ہوں یہ سب  آپ کے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں یشار کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے  میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔

بے شک میں نے یشار خان کو  جان بھوج کر نہیں مارا تھا مگر اسے گولی میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے  اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہا

بابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس  بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی  کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا

مہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔

آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا  ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔

یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں

میں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگا

مجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔

آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیں

شمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا

اور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔

وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس  بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا 

اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔

…………………………………………………….

اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا

لال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے یشب کہ۔۔۔۔۔

ہیر کی یشب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔

مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ واپس چلی گئی تھی

وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو یشب گھر پر نہیں تھا

 ہیر نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا

……………………………………………………

یشب جب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر  اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی  طرف بڑھا

ہیر گہری نیند میں تھی یشب نے مسکراہٹ دبا کر  اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچا

کیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟ہیر ڈر کر اٹھ بیٹھی

سامنے یشب کو مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی 

یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟

بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنا

اتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے  ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی

چڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیا

اور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔

اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟

میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔ہیر نے کمبل میں منہ چھپایا

پابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟یشب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایا

یشب کیا مسلہ ہے۔۔۔۔۔۔؟؟

کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟ 

آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔یشب اسکے لفظ ننھے کاکے پر دل کھول کر ہنسا

ہیر غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھی

چلو ساری خفگی ختم کر کے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھا

مجھے کوئی دوستی ووستی  نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟

سوری فار ڈیٹ۔۔۔۔۔

کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھی

مسلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟

مجھ سے بات مت کریں۔۔۔۔

یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچی

میرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی  تھیں۔۔۔میں  نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولی

سوری۔۔۔۔۔

آج کے فنکشن میں  بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟

سوری۔۔۔۔۔

اور  بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں رہے گا۔۔۔۔۔ہیر بات یاد آنے پر گھور کر بولی 

میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور  اب  میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں  کی ممتا سے محروم نہیں  کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔

انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟ہیر نے ابرو اٹھائے

مسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا

اونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا

اسے یشب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا

……………………………………….………………

دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟کیوں۔۔۔۔؟؟جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا

شمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔

……………………………………………………

زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی بات پتہ چلی تھی کہ وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے  تو بابا جان نے یشب کو اچھی خاصی سنائیں تھیں

جسے یشب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ ہیر نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع یشب نے ہیر سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔ہیر نے یشب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں ہیر اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔

مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔

………………………………………………………

وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور  شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی  بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔

مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔

مہرو  آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا  کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔

خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔

اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو  مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔

اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیا

ماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔

نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائی

جسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔ 

ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولا

بابا۔۔۔۔؟؟بابا کون۔۔۔۔؟؟

شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔؟؟

یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟وہ شاکڈ تھی

وہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایا

وہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولا

مہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی 

کس نے کہا تم سے۔۔۔۔۔؟؟؟

کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔

میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولی

آپ نے ہی کہا تھا حدید دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھا

وہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔

دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایا

نو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھا

اسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام  کر روک چکا تھا

مہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا

حدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا

اوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیا

بچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑا

بچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔

بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کی

مہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیں

حدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟

آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔

میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔

دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائی

حدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔

مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی

شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا

فائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکا

مہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھی

شمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا  واپس مڑ گیا

………………………………………………………

اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے ملنے توجہ اور محبت تھی

مہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعین ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی  ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھی

ہیر اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر  یشب کے بغیر۔۔۔۔یشب مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن یشب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔

دن نارمل روٹین کیمطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔

………………………………………………………

مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر  راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔

رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے  رحمیہ کو آواز دی

جی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئی

یہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوں

بی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کی

یہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑی

اماں میں یہ چائے دے آؤں۔۔۔۔۔

ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیں

مہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھا

وہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔

مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔

یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوا

مجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑی

دیکھ لیتی ہوں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔

اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔

مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دی

یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر  ساکت تھی

وہ اور ناجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑی

آپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟

وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی

یہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیا

جی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔"میری پائل"۔۔۔۔۔

مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ  انداز میں پوچھا تھا

……………………………………………………………

جی یہ پائل آپ کی ہے۔۔۔۔شمس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا

میں جانتی ہوں یہ میری ہی ہے۔۔۔۔پر یہ آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے سوالیہ نظریں شمس کے سنجیدہ چہرے پر فوکس کرتے پوچھا

آپ کو یاد ہو گا جب زبیر نے MBA کے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں سب سے زیادہ  Gp لی تھی تو اسنے ہم سب کلاس فیلوز کو پارٹی دی تھی اپنی حویلی میں۔۔۔۔۔۔

اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔۔مہرو نے لمبی سی سانس لی اسے وہ دن یاد تھا 

جب شمس لالہ نے اپنے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں ٹاپ کیا تھا پیچھلے دو سمیسٹرز میں وہ تیسرے نمبر پر تھے پر اس بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے بیٹ لگا چکے ہیں کہ اس سمیسٹر میں وہ اگلے دونوں بوائز کو کراس کریں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔وہ واقعی انہیں کراس کر گئے تھے۔۔۔۔جس پر لالہ نے اپنی کلاس کے سولہ سترہ جتنے بھی بوائز تھے سب کو حویلی میں ٹریٹ دی تھی۔۔۔

مہرو دالان میں میگزین گود میں رکھے بےزار سی بیٹھی تھی جب شہربانو اسکے پاس آئی 

ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔؟؟؟

کچھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔۔مہرو سیدھی ہوئی

ارے بھئی اتنی اونچی میوزک کو سن کر بھی بور ہو رہی ہو۔۔۔

(یہ اونچی میوزک مردانے میں زبیر خان اور اسکے دوستوں نے اپنی پارٹی میں لگا رکھا تھا)

خالی خولی میوزک سے کیا خاک انجوائے کروں  گی میں۔۔۔انجوائے تو وہ سب لڑکے کر رہے ہوں گے ناچ کود کر۔۔۔۔مہرو چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر حسرت سے بولی

اونہہ۔۔۔۔کس قدر واہیات ناچتے ہیں یہ لڑکے۔۔۔؟؟؟بانو نے ناک چڑھایا

تمہیں یاد نہیں ابرار لالہ کی شادی میں ان کے دوستوں نے مل کر کسقدر گندا اور واہیات ڈانس کیا تھا۔۔۔۔بانو وہ ڈانس یاد کرکے سخت بدمزا ہوئی

ہاں اور ہم سب لڑکیاں اسی واہیات ڈانس کو دیکھنے رات 2 بجے تک چھت پر رہیں تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے ابرو چڑھا کر بانو کا مذاق اڑایا

وہ تو تمہیں اور زرکا کو شوق تھا دیکھنے کا اور ہم باقی سب مفت میں پس گئی تھیں۔۔۔۔۔۔بانو کو اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی

شوق تو مجھے اب بھی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے مسکراہٹ دبا کر آنکھ ماری

شہربانو اسکی بات سمجھ کر اچھلی۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کان کو لگا کر منع کیا

مان جاؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔۔پلیزززززز۔۔۔۔۔پلیز بانو۔۔۔۔۔

ہر گز نہیں۔۔۔اگر  خالو ) مہرو کے بابا) کو یا پھر زبیر لالہ کوپتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟شہربانو ابھی بھی رضامند نہ تھی

نہیں چلے گا ناں ان کو پتہ وہ ڈیرے پر ہیں میں نے گل کو بھیج کر پتہ کروا لیا تھا اور لالہ اپنے دوستوں میں بزی ہیں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے کیسا ڈانس کرتے ہیں۔۔۔

تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔بانو نے اسکے منہ پر ہاتھ سیدھا کیا

چھوڑو یہ لعن طعن آ کر کر لینا فلحال چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔چلوووووو۔۔۔۔۔۔مہرو اسکا بازو گھسیٹتی زبردستی ساتھ لے کر  مردانے کی طرف چل پڑی

وہاں پہنچ کر مہرو نے آگے جا کر ساری راہداری چیک کی اور راستہ کلئیر دیکھ کر کافی پیچھے کھڑی شہربانو کو ہاتھ ہلا کر  آنے کو کہا

شہربانو اسکے اشارے پر ادھر أدھر دیکھتی ڈرتی جھجھکتی  اس تک آئی 

شکر ہے بانو ہال کا دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔مہرو نے ایکسائیٹڈ ہو کر سرگوشی کی

جلدی دیکھو جو بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔شہربانو اکتا کر بولی

تم نیچے بیٹھ کر دیکھنا میں اوپر سے دیکھو گی اوکے

ہوں۔۔۔۔شہربانو نے  مروت میں ہلکا سا سر ہلا دیا ورنہ اسے یہ سب دیکھنے کا  کوئی شوق نہیں تھا

مہرو نے ہال کے پاس پہنچ کر دیوار سے لگ کر ہلکا سا سر آگے کو جھکایا اور اندر جھانکا

اووئے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔بانو وہ دیکھو کالی شرٹ  والا بریک ڈانس کر رہا ہے بلکل ویسا  ہی جیسا اس دن ٹی وی میں۔۔۔۔

بانو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔بانو۔۔۔۔مہرو نے آگے کو جھکے جھکے ہی نیچے اور پیچھے ہاتھ مار کر بانو کو تلاشہ مگر بانو وہاں ہوتی تو ملتی۔۔۔۔۔

کہاں گئی۔۔۔۔۔؟؟وہ مشکوک ہوتی سیدھی ہو کر پیچھے پلٹی

اور پیچھے کھڑے مسکراہٹ دباتے لڑکے کو دیکھ کر اسکا سانس رک چکا تھا

چند لمحے منہ کھول کر اسے دیکھنے کے بعد مہرو نے جلدی سے چادر کے پلو سے منہ ڈھانپا جیسے پہلے شمس وہاں آنکھیں بند کیے کھڑا ہو۔۔

شمس اسکی حرکت پر کھل کر مسکرا دیا۔۔

وہ۔۔۔وہ آپ پلیز زبیر لالہ کو مت بتائیے گا کہ آپ نے مجھے یہاں دیکھ لیا ہے۔۔۔۔مہرو زبان تر کر کے بولی

آپ زبیر لالہ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟شمس نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا

مم۔۔۔میں۔۔۔۔۔

جی آپ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا

میں انکی کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔مہرو  اسکی ابھرتی مسکراہٹ پر کنفیوز ہو کر کہتی بھاگ کھڑی ہوئی

شمس پلٹ کر اسے بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا

مہرو بھاگتی ہوئی راہداری کے اینڈ پر پڑے گملے میں اڑ کر دھڑام سے زمین بوس ہوئی 

شمس اسے گرتے دیکھ کر اسکی طرف بڑھا

مہرو نے منہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور شمس کو آتے دیکھ کر پھرتی سے اٹھی اور جلدی سے راہداری مڑ کر مردانے سے نکل کر حویلی کے رہائشی حصے میں داخل ہوئی۔۔۔

شمس جب وہاں پہنچا تو مہرو تو جا چکی تھی مگر  گملے کے پاس اسکی پائل گری تھی جسے شمس نے جھک کر اٹھایا اور ہتھیلی پر پھیلا کر مسکرا دیا۔۔۔۔

"کیا سوچ کہ تم باندھتی ہو پیروں میں پائل،

ان کی چھن چھن سے ہزاروں ہو چکے ہونگے گھائل۔۔۔"

۔۔۔۔

اوہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔یہ تو نو دس سال پہلے کی بات ہے اور آپ نے اتنی پرانی چیز سنبھال رکھی تھی۔۔۔۔۔مہرو حال میں لوٹتی حیران سی پوچھ رہی  تھی

میں آپ کو  تب ہی لوٹا دینا چاہتا تھا مگر کس کے ہاتھ لوٹاتا۔۔۔۔زبیر  کو بتانے سے آپ نے منع کیا تھا اور میں کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھجوا سکتا تھا کہ ناجانے وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔

اسی لیے آپکی پائل کو آپکی امانت کے طور پر سنبھال لیا تھا۔۔۔۔شمس ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتا بولا

مگر اب میں اس کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟یہ تو ایک ہے۔۔۔مہرو پائل کو ہاتھ میں جھلاتی بولی

دوسری کہاں گئی جو آپ کے پاس تھی۔۔۔؟؟

وہ تو میں نے شہربانو کو دے دی تھی کیونکہ وہ ایک پائل پہنتی تھی اور میں دو۔۔۔۔میری اسکے ساتھ کی گم ہو گئی  تو میں نے وہ ایک اسے دے دی۔۔۔

اسکا بھی حل ہے میرے پاس۔۔۔آپ رکیں ذرا میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔شمس اسے کہہ کر خود اسٹڈی سے نکل گیا

کیسا حل۔۔۔۔یہ کہاں گئے اب۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران سی کھڑی سوچ رہی تھی

جب شمس ویسی ہی مخملی ڈبیا لیے وہاں آیا

یہ لیں۔۔۔۔

اس میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران ہوئی

کھول کر دیکھ لیں۔۔۔۔۔

مہرو نے ہچکچاتے ہوئے ڈبیا پکڑ کر کھولی اندر بلکل مہرو کی پائل کے جیسی دو پائلز تھیں

یہ۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ابرو اٹھا کر شمس کو دیکھا

یہ بھی تب ہی بنوائیں تھیں۔۔۔۔جب آپکی پائل ملی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا تھا ہو سکتا ہے دوسری پائل بھی وہیں کہیں گر کر گم ہو گئی ہو اسلئیے یہ دو لیں تھیں۔۔۔

پر میں اب ان کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟وہ ابھی بھی کنفیوز تھی

جو پہلے کرتی تھیں۔۔۔۔

میں اب پائلیں نہیں پہنتی۔۔۔

تو اب پھر سے پہننا شروع کر دیں مجھے اچھا لگے گا۔۔۔وہ سنجیدگی سے اپنی پسند بتا رہا تھا

مہرو نے ایک نظر شمس کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے پر نظر آتے انوکھے رنگوں کو دیکھ کر جلدی سے وہاں سے نکل آئی

یہ۔۔۔۔یہ ان کو کیا ہو گیا اچانک۔۔۔۔؟؟

مجھے اچھا لگے گا۔۔اونہہ۔۔مہرو اسکی نقل اتارتی سر جھٹک کر سیڑھیاں اتر گئی

………………………………………………………

شمس کے فقرے "مجھے اچھا لگے گا" نے مہرو میں بہت کچھ بدل دیا تھا۔۔۔۔وہی مہرو جو ہر وقت سمپل اور گھریلو حلیے میں رہتی تھی اب بن سنور کر رہنے لگی تھی ناجانے کیوں۔۔۔۔؟؟

خدیجہ مہرو کی اس تبدیلی سے بہت خوش تھیں وہ تو مہرو کو کہہ کہہ کر تھک چکیں تھیں کہ بن سنور کر رہا کرے مگر مہرو جی اچھا کہہ دیتی مگر عمل نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔اور اب اسکی تبدیلی پر خدیجہ بہت خوش اور مطمعین  تھیں۔۔

خوش تو شمس بھی تھا مہرو کی اس کایا پلٹ دیکھ کر مگر فلحال خاموشی سے صرف جج کر رہا تھا۔۔

کل شمس نے مہرو سے اپنے کسی  دوست کے گھر جانے کا کہا تھا اور اب مہرو اسی کے لیے تیار ہو رہی تھی  جب شمس کمرے میں آیا 

مہرو پاؤں چئیر پر رکھے پائل کا لاک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر  لاک تھا کہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔

کیا بکواس ہے یہ کھل کیوں نہیں رہا۔۔۔۔وہ اکتا کر بڑبڑائی

لائیں میں کھول دیتا ہوں۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر فورا اپنی خدمات پیش کیں

مہرو نے خاموشی سے پائل اسے پکڑا دی۔۔اور اپنی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سیٹ کیا۔۔

یہ لیں کھل گئی ہے میں پہنا دوں۔۔۔۔؟؟؟

"چھوئے تو نہیں کسی کے پاؤں میں نے لیکن !!

وہ پائل باندھنے کا بولے تو سوچ سکتا ہوں۔۔۔!!"

نن۔۔۔۔نہیں میں پہن لوں گی۔۔۔مہرو نے بوکھلاتے ہوئے جلدی سے پائل واپس پکڑ لی

ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلاتا ڈریسنگ روم چلا گیا۔۔۔۔۔چند منٹ بعد وہ گولڈن کلر کا خوبصورت سا باکس لیے واپس آیا 

یہ سیٹ پہن لیں۔۔۔۔شمس نے باکس مہرو کی طرف بڑھایا

جو پہنا ہے وہ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔؟؟اس نے تیز نظروں سے شمس کو دیکھا

وہ بھی اچھا ہے مگر اب یہ والا پہن لیں۔۔۔۔مہرو نے مزید بحث کیے بنا سر ہلا کر باکس پکڑ کر کھولا

ہمممم۔۔۔۔چوائس تو اچھی ہے۔۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے ائیر رنگز اور چین باہر نکالی اور پہلے سے پہنا سیٹ اتارنے لگی شمس انتہائی انہماک سے آئینے میں نظر آتے اسکے سراپے کو نظروں کے حصار میں لیے کھڑا تھا

مہرو اسکے ٹکٹکی باندھنے پر تھوڑا کنفیوز ہوئی مگر جلدی جلدی کر کے اسنے شمس کا دیا سیٹ پہنا اور پیچھے پلٹی

اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔انتہائی سنجیدہ تاثرات سے تعریف کی گئی

میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو کھٹاک سے جواب مارتی اپنا پاؤچ اور چادر لیے باہر نکل گئی

اونہہ۔۔۔مسکرانا تو گناہ سمجھتا ہے یہ شخص۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی حدید اور دعا کے کمرے کیطرف بڑھ گئی

شمس اسکے جواب پر مسکرا کر سر جھٹکتا پیچھے ہی باہر آ گیا

………………………………………………………

ارے واہ بھابھی آپ تو پہچانی ہی نہیں جا رہیں۔۔۔۔۔۔ہیر نے مہرو کے سامنے آ کر اسکی بلائیں لیں 

آپ مہرو ہی ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟ یا میں کسی غلط جگہ آ گئی ہوں۔۔۔۔۔؟؟

بلاوجہ مکھن مت لگاؤ بدتمیز۔۔۔۔مہرو کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان ابھری

واہ۔۔۔واہ۔۔۔ما شا اللہ۔۔۔۔کیا شرمیلی ہنسی ہے لالہ دیکھیں گے تو فورا لٹو۔۔۔۔

کیا دیکھیں گے لالہ۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اندر داخل ہو کر ہیر کی آدھی بات پکڑی

بھابھی کو۔۔۔۔۔۔۔ہیر کی بات پر مہرو نے اسکی کمر پر مکا جڑا

شمس مسکرا کر سامنے موجود صوفے پر بیٹھا اور مہرو کو نظروں میں لیا

جو ہلکے پنک کلر کے ڈریس کیساتھ میچنگ لپ اسٹک اور چوڑیاں پہنے جھجھکتی ہوئی نکھری نکھری اور پیاری لگ رہی تھی

میں چائے لاتی ہوں۔۔۔۔مہرو کنفیوز ہوتی جلدی سے کھڑی ہوئی

کوئی چائے وائے نہیں پینی ابھی۔۔۔آرام سے بیٹھیں۔۔۔۔ہیر نے اسے پکڑ کر پھر سے بیٹھا دیا

اور تم سناؤ کب آئی۔۔۔۔؟؟گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔۔؟؟شمس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر ہیر سے پوچھا

میں کچھ دیر پہلے آئی ہوں۔۔۔۔گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل۔۔۔۔؟؟ہیر نے شرارتی انداز میں آنکھوں کو گھمایا اور ساتھ مہرو کے چٹکی لی

شمس اسکی حرکت پر مسکرا دیا جبکہ مہرو اسے گھور کر کھڑی ہوئی

میں ابھی آتی ہوں۔۔۔

ارے نہیں بھابھی بیٹھیں تو ابھی میں آئی ہوں وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے شام تک چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔وہ آنکھیں پٹ پٹا کر معصومیت سے بولی

شام تک تو ہو ناں یہاں۔۔۔۔۔مہرو دانت پیس کر کہتی ہاتھ چھڑوا کر ہال سے نکل گئی۔۔۔

وہ جانتی تھی ہیر شمس کیوجہ سے جان بھوج کر اسے تنگ کر رہی تھی۔۔

ہیر مسکراتی ہوئی اٹھ کر شمس کیساتھ آ کر بیٹھی۔۔

بڑے دانت نکل رہے ہیں لالہ خیریت۔۔۔۔۔؟؟اس نے شمس کی مسکراہٹ پر چھیڑا

بلکل۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرایا

بھابھی کو بتا دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟

اوں ہوں۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا

تو بھابھی میں یہ تبدیلی کب آئی۔۔۔۔؟؟؟

پوچھ لیتی۔۔۔تمہاری تو کافی دوستی ہے ان سے۔۔۔۔

کب بتائیں گے لالہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ سنجیدہ ہوئی

بتا دوں گا جلدی کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟

جلدی۔۔۔۔؟؟؟محترم آپ لوگوں کے نکاح کو پانچ ماہ ہونے والے ہیں۔۔۔۔ہیر ناک پھلا کر بولی

بتا دوں گا۔۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔مائی سویٹ ڈول۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے پھولے ناک کو کھینچا

لالہ مزید وقت ضائع مت کریں۔۔۔۔۔اتنے سال کافی نہیں ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟

کہا ہے ناں بتا دوں گا۔۔۔اب چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔یہ بتاؤ یشب کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟

ٹھیک ہیں آجکل الیکشن کا بھوت سوار ہے ان پر۔۔۔۔۔۔وہ برا سا منہ بنا کر بولی

الیکشن۔۔۔۔؟؟

ہوں کہہ رہے ہیں اس بار اپنے علاقے سے الیکشن لڑیں گے۔۔۔بابا جان نے بھی روکا ہے میں نے بھی مگر وہ یشب آفریدی  ہی کیا جو کسی کی بات مان جائیں۔۔۔۔وہ چڑی

شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا

چلو کرنے دو اسے شوق پورا۔۔۔ایک بار میں ہی عقل آ جائے گی تمہارے نالائق شوہر کو۔۔۔۔

اوہ۔۔۔میرا نالائق شوہر۔۔۔۔؟؟؟ہیر کو صدمہ ہوا

ہاں تمہارا نالائق شوہر۔۔۔۔شمس مسکراہٹ دباتا کھڑا ہوا

آپ کو پتہ ہے یشب لندن کے ڈگری ہولڈر ہیں۔۔۔۔

ایسی ڈگری کا کیا فائدہ جب بندہ عقل سے ہی پیدل ہو۔۔۔۔۔

لالہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔۔ہیر کے چیخنے پر وہ قہقہہ لگاتا ہال سے نکل گیا

کہہ تو ویسے ٹھیک ہی رہے ہیں۔۔۔۔۔ہیر یشب کے چہرے کو تصور میں لا کر مسکرا کر سوچتی اماں کے کمرے کی  طرف چلی گئی

………………………………………………………

مہرو عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی  جب شمس کمرے میں داخل ہوا

ایک نظر مہرو کو دیکھ کر وہ چینچ کرنے چل دیا۔۔۔۔

مہرو آخری رکعتوں میں تھی جب وہ چینج کر کے واپس آیا اور بیڈ کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ کر مہرو کی پشت کو محویت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

"حسرت سے دیکھتے رہے ماضی کو اسطرح۔۔۔

جیسے کہ لوٹ آئیں گے وہ دن جو گزر گئے۔۔۔"

مہرو نے آخری سلام پھیرا اور تسبیح پڑھنے لگی۔۔۔۔۔وہ شمس کی  طرف منہ کیے بغیر بھی اسکی نظریں خود پر ٹکی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔

اب تو ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔شمس ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا۔۔۔۔

شروع شروع میں جب کبھی ایسا ہوتا تو مہرو کو دیکھتے پا کر شمس فورا اپنی نظریں جھکا لیتا تھا مگر اب مہرو کے دیکھنے پر بھی وہ بنا شرمندہ ہوئے اسے دیکھتا رہتا۔۔۔مجبورا مہرو ہی کنفیوز ہو کر ادھر أدھر ہو جاتی تھی۔۔۔۔یہ نہیں تھا کہ مہرو کو اسکی نظروں سے الجھن ہوتی تھی مگر وہ شمس کے اسطرح تسلسل سے دیکھنے پر ٹھٹھک ضرور جاتی تھی۔۔۔۔یوں جیسے شمس کی نظروں میں ایسا کچھ خاص ہو۔۔۔کچھ بہت خاص۔۔۔۔پر مہرو ہر دفعہ اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹلا دیتی۔۔۔

تسبیح کے بعد اسنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگی۔۔۔۔شمس ابھی بھی بنا پلک جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا

مہرو نے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے ، جائے نماز تہہ کر کے رکھا

اور اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کا  فیصلہ کرتی  شمس کی طرف چلی  آئی

………………………………………………………

یشب پلیز مان جائیں ناں۔۔۔۔ہیر نے  یشب کے سامنے بکھری فائلوں کو اٹھا کر اسکی پہنچ سے دور کیا

ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔تنبیہہ ہوئی

پلیزززززز۔۔۔۔۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا میرا اتنا پیسا لگ چکا ہے اب تمہارے کہے میں آ کر سارا پیسہ ڈبو دوں۔۔۔۔؟؟؟یشب ہر روز کی اس بحث سے تنگ آ چکا تھا جس میں ہیر اسے الیکشن  سے ڈراپ آوٹ کرنے پر اکسا رہی تھی

پیسہ مجھ سے زیادہ اہم ہے۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی

میں ایموشنل بلیک میلنگ میں نہیں آنے والا۔۔۔۔۔یشب نے ہاتھ اٹھائے

خان پلیز۔۔۔۔میری خاطر۔۔۔۔

کہا ہے ناں نہیں۔۔۔۔

مطلب پیسہ زیادہ ضروری ہے مجھ سے۔۔۔۔آپ کے نزدیک میں بکواس کر رہی ہوں  اتنے دن سے۔۔۔۔۔

کم آن۔۔۔۔ہیر آخر تمہیں میرے الیکشن لڑنے سے مسلہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟

مجھے پولیٹیشنز پسند نہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی

وہ کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا

کیونکہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولی

مگر میں تو نہیں ہوں ناں کرپٹ۔۔۔۔؟؟

تو ہو جائیں گے جب سیاست میں آئیں گے۔۔۔۔مجھے پسند نہیں ہے یشب ختم کریں ناں یہ قصہ۔۔۔کیا ضروری ہے ہم روز اس بات پر بحث کریں

کر دیا ختم اور کچھ۔۔۔یشب نے سیگرٹ اور لائٹر اٹھایا

میں سیریس ہوں محترم۔۔۔۔ہیر نے دانت رگڑے

میں بھی سیریس ہوں محترمہ۔۔۔

میرے سر کی قسم کھائیں۔۔۔۔

یہ ہر چھوٹی بڑی بات پر اپنا سر کیوں بیچ میں لے آتی ہو اور پھر زبردستی اسکی قسم بھی اٹھواتی ہو۔۔۔یشب ہیر کی اس عادت سے باخوبی آگاہ تھا اسلیے چڑ کر بولا

کیونکہ آپ کا کیا بھروسہ زبانی کلامی بات پر مکر جائیں۔۔۔۔اس نے کندھے اچکائے

اور اگر قسم سے بھی مکر جاؤں تو۔۔۔۔؟؟؟

نہیں۔۔۔میں جانتی ہوں آپ میرے سر کی قسم سے کبھی نہیں مکریں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔

یشب اسکے پریقین انداز پر مسکرا دیا

تو پھر کھائیں قسم۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا

تمہاری قسم۔۔۔۔۔۔

پورا کہیں۔۔۔۔ہیر تمہاری قسم میں الیکیشنز میں حصہ نہیں لوں گا پیسے کی مجھے پرواہ نہیں۔۔۔اور اگر کسی کے کہے میں آ کر مکر جاؤں تو ہیر کا مرا ہوا منہ دیکھوں۔۔۔

یشب مسکراتے ہوئے حلف نامہ سن رہا تھا اسکی آخری بات پر مسکراہٹ روک کر سیریس ہوا

سوچ سمجھ کر بولا کرو جو منہ میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے بول دیتی ہو۔۔۔۔وہ خفگی سے بولا

جو بھی ہے آپ کو میری پوری بات کے بعد ہی رہائی ملے گی۔۔۔

یشب نے اسکا اٹل انداز دیکھ کر آخری بات چھوڑ کر باقی حلف نامہ مکمل کیا اور اسکے ہاتھ ہٹا کر اٹھ گیا جس سے ہیر نے اسکے بازو دبوچ کر قید کر رکھا تھا 

بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟وہ خفا خفا سی بولی

یشب نے مسکرا کر اسکی چوٹیا کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور اسکے پیچھے سے فائلز اٹھا کر اسٹڈی چلا گیا

اسکے جانے کے بعد ہیر بھی مطمعین ہوتی نماز پڑھنے اٹھ گئی۔۔۔۔وہ پورے ایک ماہ کی کوشش کے بعد یہ معرکہ سر کر چکی تھی یشب کو منا کر اس لیے شکرانے کے نوافل ادا کرنا تو بنتا تھا۔۔

…………………………………………………….…

چائے لاؤں۔۔۔۔مہرو نے کھڑے کھڑے شمس سے پوچھا

نہیں۔۔۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا

مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔

جی کریں۔۔۔۔شمس اسکی بات پر سیدھا ہوا

مگر مہرو سر ہلاتی اسٹڈی میں  چلی گئی

شمس اسکے مشکوک انداز پر حیران تھا

چند منٹ بعد مہرو ایک درمیانے سائز کا ڈبہ لیے وہاں آئی۔۔۔۔۔وہ ڈبہ جیولری باکس کے مشابہ تھا۔۔۔۔ڈبے کے بیرونی  ڈیزائن سے وہ کافی یونیق اور ایکسپینسیو لگ رہا تھا

مہرو نے پاس آ کر ڈبہ شمس کے سامنے موجود ٹیبل پر رکھا

شمس سانس روکے ساکت تھا۔۔۔۔

مہرو نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈبہ کھولا اور اس میں موجود چھوٹی مخملی ڈبیوں  کو باہر نکالنے لگی

اس نے ایک ایک کر کے ساری ڈبیاں باہر نکالیں اور آخر میں دل کی شیپ کا بنا کارڈ بھی باہر نکالا

ساری ڈبیاں نکال لینے کے بعد اب وہ باری باری ان ڈبیوں کو کھول کر ان میں سے پائلیں نکال کر ٹیبل پر رکھنے لگی۔۔۔وہ تقریبا پچاس سے زیادہ ڈیزائنز کی گولڈ ، ڈائمنڈ ، چاندی اور ناجانے  کس کس سٹف کی بنی پائلز تھیں۔۔۔۔۔

مہرو نے سب کو نکال دیا۔۔۔۔ٹیبل بلکل کسی جیولری شاپ کا منظر پیش کر رہا تھا

پائلوں کا ڈھیر لگانے کے بعد مہرو نے وہ ہارٹ شیپ کا کارڈ اٹھایا اور اس پر بندھا ربن کھول دیا

It's all For My L❤ve “ Meher ”

مہرو نے با آواز بلند اس میں لکھی عبارت پڑھی

شمس اب بھی سانس روکے ساکت تھا۔۔۔

کون ہے۔۔۔۔یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے شمس کو دیکھتے ہوئے بمشکل تحمل سے پوچھا

اسے جو شک تھا جو وہم تھا وہ آج اسے یقین میں بدل دینا چاہتی تھی۔۔

میں نے پوچھا کون ہے یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی خاموشی پر بلند آواز سے چلائی 

میری بات۔۔۔!!

یہ مہر کون ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے چبھتے ہوئے شمس کی بات کاٹی

آپ۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ ہیں یہ مہر۔۔۔۔۔!! شمس نے اعتراف کر کے کسی مجرم کی مانند جھکا سر مزید جھکا .

آپ۔۔۔!! شمس کے مدھم سے اقرار پر مہرو کٹے پتنگ کی مانند گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھی 

اسکا شک ٹھیک نکلا تھا۔۔

کیا۔۔۔کب۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟ایسے بہت سے سوالات مہرو کے اردگرد ہلچل مچا رہے تھے

مگر وہ اس انکشاف پر دنگ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔یہ کیا کہہ دیا تھا شمس نے۔۔۔۔؟؟؟ نو ، دس سال پہلے اسکی پائل شمس کو ملی تھی تو کیا یہ شخص  تب سے۔۔۔۔۔؟؟

اوف۔۔ف۔۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔اتنے سال۔۔۔۔۔اس سے آگے مہرو سوچ نہیں پائی تھی

وہ پوچھنا چاہ رہی تھی مگر الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے

دوسری طرف شمس سر جھکائے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کو محویت سے تکے جا رہا تھا

چند لمحے یونہی خاموشی کے نذر ہو گئے۔۔۔

کچھ دیر بعد مہرو خود کو بولنے کے قابل بناتی سر اٹھا کر شمس کیطرف متوجہ ہوئی

کب سے۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اسکے ہونٹوں سے مدھم سرگوشی نما آواز ابھری

شمس نے ایک لمبی سی سانس ہوا کے سپرد کی۔۔۔۔۔آج نہیں تو کل یہ بات ہونی تھی پھر آج ہی کیوں نہیں۔۔۔وہ خود کو ہمت دلاتا ساری بات کو تفصیلا کرنے کا فیصلہ کر کے سیدھا ہو بیٹھا

شاید تب سے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تھا یا پھر شاید دوسری بار۔۔۔۔۔۔

پہلی۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ہوں۔۔۔پہلی بار۔۔۔۔آج سے گیارہ سال پہلے ابرار خان کی مہندی کی رات۔۔۔۔۔

مہندی کی رات کہاں پر۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

ایکچوئیلی میں اس دن ہرن کے شکار پر اس ایریے میں گیا تھا۔۔۔مجھے بچپن سے ہی ہرن کے شکار کا بہت شوق تھا میرے چچا۔۔۔شمس رکا

میرے چچا سے ہی یہ شوق مجھ میں منتقل ہوا تھا وہ اکثر ہرن کے شکار پر مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔۔۔۔۔

میں اس دن اسی مقصد سے وہاں گیا تھا واپسی پر لیٹ ہو گیا تو سوچا زبیر کی طرف رات گزار کر صبح واپسی کے لیے نکل جاؤں گا۔۔۔۔وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ زبیر کے تایا زاد کی مہندی تھی۔۔۔اور زبیر مجھے زبردستی اپنے ساتھ فنکشن میں لے گیا جہاں ابرار کے دوست یار  ناچنے گانے میں مگن تھے۔۔۔

وہیں میں نے آپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔

چونکہ ہمارے ہاں مردوں کے فنکشنز علیحدہ ہوتے ہیں مردانے میں جہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لیے  آپ اور آپ کی دیگر کزنز چھت سے یہ منظر دیکھنے میں مگن تھیں۔۔۔۔سب لڑکیاں چہرے ڈھانپ کر کھڑی تھیں مگر آپ بنا چہرہ چھپائے گرل پر گرنے کے انداز میں جھک کر اس فضول سے ناچ گانے کو انجوائے کر رہی تھیں۔۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں کا چھپ کر اس واہیات سے ڈانس کو دیکھنا مناسب نہیں لگا تھا اور میں نے وہاں زبیر کو بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سب کو وہاں سے ہٹا سکے۔۔۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا

اوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔شمس کی بات پر مہرو کے ہونٹ سکڑے تو اس رات ان صاحب کے کہنے پر ہی زبیر لالہ نے وہاں چھاپہ مارا تھا۔۔۔۔اوف خدا کس قدر ڈانٹ پڑی تھی اس رات ہم سب کو۔۔۔۔مہرو نے اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ پر جھرجھری لی

اور دوسری بار جب آپ کی پائل مجھے ملی تھی۔۔۔۔۔شمس نے اسکی خاموشی پا کر اگلی بات بتائی

اتنے سال۔۔۔۔۔۔چند لمحوں بعد مہرو نے پھر مدھم سی سرگوشی کی

جی ہاں اتنے سال۔۔۔۔۔شمس صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ریلیکس ہو کر بیٹھا اسکے سر سے پہاڑ جتنا بوجھ اتر چکا تھا اسی لیے وہ مطمعین ہو گیا تھا

کیا ملا آپ کو اس سب سے۔۔۔۔۔؟؟

صبر کرنے کا درس اور پھر اس صبر کا پھل۔۔۔۔شمس پرسکون سا بولا

اونہہ۔۔۔۔صبر۔۔۔۔مہرو استہزائیہ ہوئی

آپ جانتے ہیں صبر میں کہیں کسی کو پانے کے لیے کسی کا خون کرنے کا درس نہیں ملتا شمس دلاور  خان۔۔۔۔وہ چبا چبا کر کہتی کھڑی ہوئی

آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔شمس کا اطمینان ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔وہ اسکی غلط فہمی پر تڑپ کر سیدھا ہو اٹھا

کیا غلط سمجھ رہی ہوں میں۔۔۔یہی کہ  آپ نے یشار کو۔۔۔۔مہرو کے الفاظ آنسوؤں کی وجہ سے گلے میں ہی اٹک گئے

فار گاڈ سیک۔۔۔۔۔مہرو آپ میری محبت  تھیں ضد نہیں جو میں آپ کو پانے کے لیے اتنا گھٹیا فعل انجام دیتا۔۔۔۔وہ دکھ سے بولا

پھر کیوں کیا آپ نے صبر۔۔۔۔۔جب محبت کی تھی تو کیوں خاموش رہے۔۔۔بولیں کیوں کیا صبر آپ نے۔۔۔۔۔مہرو نے سامنے آ کر شمس کا گریبان دبوچا

کیونکہ میری قسمت میں صبر کرنا لکھ دیا گیا تھا اگر میرا بس ہوتا تو میں آپ کو آج سے نو سال پہلے ہی پا چکا ہوتا جب حشمت خان (مہرو کے بابا) نے میرے منہ پر طمانچہ مارا تھا یہ  کہہ کر کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔۔۔وہ گریبان پر موجود مہرو کے ہاتھ تھامتا ضبط سے بولا

شمس کے اس انکشاف پر مہرو کے ہاتھ اسکے گریبان پر پھسلتے ہوئے پہلو میں آ گرے۔۔۔۔

یہ کیا کہا تھا شمس نے۔۔۔۔بابا نے۔۔۔۔وہ بے یقین تھی

شمس نے مہرو کی خون نچڑتی شکل دیکھی اسے  لگا کہ وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی۔۔۔۔۔اس نے مہرو کو سہارا دیا اور اسکے ساکت وجود کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک آیا

مہرو کو بیڈ پر بیٹھا کر شمس نے پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس اسکی طرف بڑھایا

مہرو نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔۔یوں جیسے پوچھ رہی ہو میں اس گلاس کا کیا کروں۔۔۔

شمس نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے خود ہی گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا

مہرو نے چند گھونٹ پینے کے بعد شمس کا ہاتھ پیچھے کیا

آپ آرام کریں پھر بات ہو گی۔۔۔۔وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا  کہ اسکا ہاتھ مہرو کی گرفت میں آ چکا تھا

شمس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔ 

ابھی۔۔۔۔ابھی بتائیں مجھے سب۔۔۔۔اسکے لب پھڑپھڑائے

آپ کی طبیعت۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مہرو نے کہہ کر شمس کا ہاتھ چھوڑ دیا

ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلا کر کچھ فاصلے پر پڑی چئیر گھسیٹ لایا۔۔۔۔

وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے تھے۔۔۔مہرو بیڈ پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی جبکہ شمس اسکے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا۔۔

یونیورسٹی مکمل ہونے کے بعد مجھے کسی جاب کی تلاش نہیں کرنی تھی چونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا لہذا بابا کا جو بھی تھا وہ میرا تھا اور مجھے انکا ایکسپورٹ کا بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔۔اسکے علاوہ زمینیں بھی تھیں جنکی دیکھ بھال کے لیے مزارعے موجود تھے مگر ان کو لوک آفٹر مجھے ہی کرنا تھا لہذا میں نے MBA مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی خود کو بزنس میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔

انہی دنوں اماں کو میرے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا اور وہ یہ سہرا میری پسند میری مرضی سے ہی سجانا چاہتی تھیں چونکہ میری پسند اور مرضی آپ تھیں تو میں نے زبیر خان سے اجازت لے کر اماں اور بابا کو لال حویلی بھیجا تھا اپنا پرپوزل دے کر۔۔۔۔۔وہ سانس لے کر پھر سے بولنا شروع ہوا

حشمت خان پر ان دنوں نئے نئے الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی خود سے اونچے لوگوں میں بیاہیں گے جو اسکے قابل ہوں گے۔۔۔

اور حشمت خان کے شایان شان بھی۔۔۔۔جس پر وہ اپنے حلقے کے چند لوگوں میں بیٹھ کر فخر کر سکے گا۔۔۔۔۔

حشمت خان کے ان الفاظ سے انکار پر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔۔اس نے میرے باپ کو اسکے منہ پر ہی چھوٹے لوگوں کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔اگر ان کے سامنے دولت کے معیار سے کوئی چھوٹا بڑا ہوتا تھا تو پھر وہ غلط تھے۔۔۔۔کیا نہیں تھا ہمارے پاس زمینیں، حویلی، گاڑیاں، فیکٹری اور ایسا کیا ہونا چاہیے تھا جو ہمیں ان سے اونچا بنا دیتا۔۔۔۔شمس استہزائیہ ہنسا

میں اس بات کا جواب لینے حشمت خان کے پاس جانا چاہتا تھا مگر بابا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انسان عزت سے مانگتا ہے اگر مل جائے تو فخر سے وصول کرتا ہے۔۔۔مگر دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز پر فخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ بھیک ملنے کے مترادف ہوتی ہے۔۔۔۔اور ہم اتنے گرے پڑے نہیں کہ کسی کی بھیک وصول کریں۔۔۔۔

بابا کی بات میرے دل کو لگی تھی۔۔۔۔میں نے آپ سے محبت کی تھی اور میں اپنی عزت اور محبت کی خاطر جھک تو سکتا تھا مگر جھک کر عزت اور محبت نہیں مانگنا چاہتا تھا۔۔۔کیونکہ میں آپ کو پورے فخر سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہشمند تھا

 اسی لیے خاموش ہو گیا۔۔

زبیر خان نے مجھ سے اس انکار پر معذرت کی تھی ہم اچھے دوست تھے اور اچھے دوست ہی رہنا چاہتے تھے مگر پھر بھی وقت کی گرد بہت سے اچھے رشتوں پر اپنی گرد ڈال جاتی ہے۔۔۔۔یوں میرا اور زبیر کا رابطہ بھی فون کالز پر مشتمل ہو گیا۔۔۔۔۔کئی مہینوں  بعد  ہم فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے۔۔۔اور انہی فون کالز میں مجھے آپ کی یشار خان آفریدی سے شادی کا پتہ چلا۔۔۔۔شمس اس وقت کی اذیت کو یاد کر کے خاموش ہوا 

چند منٹ بعد وہ خود کو کمپوز کرتا پھر سے بولنے کے قابل ہوا۔۔۔

اس کے بعد میری طرف سے ان فون کالز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔

گھر والوں نے میری چپ اور خاموشی کے پیش نظر پروشہ سے میری شادی  طے کر دی کہ شاید اس شادی سے ہی مجھ میں کچھ بہتری آئے۔۔۔۔

بہتری تو آ چکی تھی مجھ میں شاید پروشہ کی بدولت یا پھر وقت کی بدولت۔۔۔۔۔بہت کچھ نہ ٹھیک  ہو کر بھی سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔۔

اس دن بھی میں ہرن کے شکار پر ہی گیا تھا جب میری بندوق سے نکلنے والی  گولی یشار خان کی جان لے گئی۔۔۔۔شمس نے بات مکمل کر کے لمبی سی سانس لی اور سر کرسی کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں یوں جیسے اتنی لمبی مسافت طے کرنے سے تھک گیا ہو۔۔

راہ دے وچ کھلونا اوکھا

اپنا آپ لکونا اوکھا

اینی ودھ گئی دنیاداری

کلیاں بہہ کے رونا اوکھا

داغ محبت والا باہو

لگ جاوے تے دھونا اوکھا۔۔۔۔۔۔۔!!

مہرو نے سر اٹھا کر شمس کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن تھی۔۔۔۔دکھ تھا۔۔۔اذیت تھی۔۔۔۔اور۔۔۔شاید اطمینان بھی تھا۔۔۔سب کچھ کہہ دینے کا اطمینان۔۔۔۔

آپ کے بابا نے کہا تھا کہ دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز بھیک تصور کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کیوں گئے میرا ہاتھ مانگنے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو بجھی بجھی سی پوچھ رہی تھی

اسکی بات پر شمس آنکھیں کھولتا سیدھا ہوا

میں نہیں جانتا۔۔۔۔وہ مجھ سے پوچھے بنا ہی گئے تھے زبیر خان کے پاس۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر بولا

آپ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں۔۔۔۔وہ اطمینان سے بولی

شمس نے حیرانگی سے دیکھا مہرو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

دوسری بار آپ کے بابا نہیں گئے تھے بلکہ میرے لالہ آئے تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔مہرو نے آہستگی سے انکشاف کیا

آپ۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا۔۔۔۔؟؟شمس  اٹک کر بولا

میں چند دن پہلے آپ سے خفا ہو کر لال حویلی گئی تھی۔۔۔ 

شمس نے لفظ خفا پر پھر سے حیرت کا اظہار کیا۔۔

آپ نہیں جانتے تھے کہ میں آپ سے خفا ہوں پر میں  آپ سے خفا ہو کر ہی گئی تھی۔۔۔

اس روز صفائی کے دوران آپکی اسٹڈی سے مجھے یہ باکس ملا تھا۔۔۔مہرو نے ٹیبل پر پڑے باکس کیطرف اشارہ کیا

اس میں سے نکلے کارڈ پر میں نام مہر پڑھ کر ٹھٹھکی تھی اور اس میں موجود ساری مخملی ڈبیوں میں پائلیں دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ مہر میں ہوں۔۔۔میں آپ سے پوچھ کر اپنا شک دور کر سکتی تھی مگر اس وقت مجھے آپ پر بہت غصہ تھا اس لیے میں آپ سے خفا ہو کر لال  حویلی چلی  گئی تھی

وہیں میں نے زبیر لالہ اور اماں  کی باتیں سن لیں تھیں۔۔۔مہرو بات کرتے ہوئے انگلی سے اپنی ہتھیلی پر مختلف لائنیں کھینچ رہی تھی

اماں کو میرے آپ کے ساتھ خوش نہ ہونے کا خدشہ تھا۔۔۔

ان کے خدشے کہ جواب میں لالہ نے کہا کہ مجھے شمس پر پورا یقین ہے  کہ وہ مہرو کو خوش رکھے گا اسی لیے تو میں اسکے بابا دلاور خان کے پاس گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔تب نہ سہی اب تو شمس اور مہرو کی شادی  ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان کا ظرف بلند تھا جو وہ اپنی بیگم کیساتھ میرے کہنے پر شمس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔۔۔۔

یہ بات سن کر میں الٹے قدموں پلٹ آئی تھی اپنے کمرے میں نہیں بلکہ واپس یہاں آپ کی حویلی۔۔۔کیونکہ اب میں لالہ سے خفا تھی کہ انہوں مجھے بوجھ سمجھ کر پھینکنے کی بات کی۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے خود سے ایسا کیوں کیا مگر اب۔۔۔۔۔

اب۔۔۔۔۔شمس نے اسے بات جاری رکھنے پر اکسایا

کچھ نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا

آپ کو برا لگا یہ سب سن کر کہ میں آپ سے۔۔۔۔

پتہ نہیں۔۔۔۔وہ شمس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی  کاٹ کر کھڑی ہوئی

کیا ہوا۔۔۔۔؟؟

سامنے سے ہٹیں۔۔۔۔

مہرو آپ اب بھی خفا ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟

کیا نہیں  ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟الٹا سوال ہوا

پر اب کیوں۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو ساری بات بتا چکا ہوں

میں ساری بات سن کر ہی خفا ہوئی ہوں۔۔۔وہ نتھنوں کو پھلا کر خفگی سے بولی

شمس اسکے پھولے نتھنے دیکھ کر مسکرا دیا

کیا ہوا۔۔۔۔؟؟مہرو نے حیرت سے اسکی مسکراہٹ دیکھی

میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مہر۔۔۔۔شمس نے مسکراہٹ دبا کر محبت کا اظہار کیا

سامنے سے ہٹیں آپ۔۔۔وہ شمس کی نظروں سے کنفیوز ہوئی

میری محبت کا جواب اس طرح سے دیں گی کیا۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھا مہرو کے چہرے پر نو لفٹ کے تاثرات دیکھ کر۔۔

میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی

تو مجھے اجازت دیں کرنے کی۔۔۔۔میں آپ کو بھی سکھا دوں گا۔۔۔۔

مہرو نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔۔  چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے ، آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا

مہرو  نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگی

مہر کیا ہم گزری باتوں کو بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔۔۔؟؟؟وہ مہرو کو مہرو کی بجائے مہر کہہ کر بات کر رہا تھا

کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا اب تک۔۔۔۔۔؟؟؟

کر چکی ہوں۔۔۔۔۔

پھر یہ دوری کیوں۔۔۔۔؟؟

آپ کی وجہ سے۔۔۔۔

میری۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوا

ہوں۔۔۔۔مہرو نے سر ہلایا

وہ کیسے۔۔۔۔؟؟؟

اگر آپ پہلے بتا دیتے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے تھے تو۔۔۔۔مہرو نے زبان دانتوں تلے دبا کر خفگی سے شمس کو دیکھا

مجھے تم سے شکایت ہے۔۔۔۔

تم نے زندگی بھر مجھ کو۔۔۔۔

 خبر یہ بھی نہ ہونے دی۔۔۔

تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔

اسکی خفا خفا نظریں شمس سے  شکایت کر رہیں تھیں

میں آپ سے کیا کرتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اسکی بات پر محظوظ ہو کر پوچھا

پلیز مجھے جانے دیں شمس۔۔۔وہ منمنائی

پھر سے کہو۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟؟

شمس۔۔۔۔اپنا نام تمہارے منہ سے سن کر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔بہت سال پہلے یہ خواہش کی تھی کہ تم مجھے میری ہو کر اسطرح سے پکارو۔۔۔۔شمس ایک دم سے فاصلے مٹاتا آپ سے تم پر آ چکا تھا

مہرو نے شرما کر پاس سے نکلنا چاہا مگر شمس نے بازو پھیلا کر راستہ روک لیا

کیا ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟

محبت۔۔۔۔وہ محبت سے بولا

تو میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟

محبت۔۔۔۔۔۔۔!

شمس کے جواب اور نظروں پر گھبرا کر مہرو اسے پیچھے دھکیلتی دروازے کی طرف بھاگی۔۔

مہر۔۔۔۔رر۔۔۔ر

رکو  بات تو سنو میری۔۔۔شمس پکارتا اسکے پیچھے ہی باہر آیا

مہرو اسکے باہر نکلنے پر دل پر ہاتھ رکھتی قریبی پلر کی اوٹ ہو گئی 

شمس نے باہر نکل کر ادھر أدھر نگاہ دوڑائی۔۔

اتنی جلدی کہاں غائب ہو گئی۔۔۔؟؟وہ کھڑا سوچ رہا تھا جب چند گز کے فاصلے پر بنے پلر کی اوٹ سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی 

وہ مسکراہٹ دباتا اس جانب بڑھا

مجھ سے بچ کر کہاں جائیں گی اب۔۔۔

کہیں بھی نہیں۔۔۔۔مہرو کھکھلا کر کہتی اسکے ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب بھاگی

میں اب بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا۔۔۔شمس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دی۔۔۔وہ پھر سے اسکی قید سے رفو چکر ہو چکی تھی

تو کون کہہ رہا ہے چھوڑنے کو۔۔۔۔وہ کھلکھلاتی سیڑھیاں اتر گئی

مہرو کے چہرے پر ان گنت دھنک رنگ بکھرے  ہوئے تھے۔۔

خود کو چاہے جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔کوئی مہرو سے پوچھتا جو اس وقت ہنستی ،مسکراتی ،آنچل لہراتی سیڑھیاں پھلانگ رہی تھی

خود کو چاہے جانے کا احساس انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔۔

وہ بھی تھوڑی مغرور نظر آ رہی تھی۔۔۔کوئی اسے اتنے سالوں سے چاہتا رہا تھا یہ بات اسے  گزرے ماضی کو بھلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔

دوسری طرف شمس اسکی کھلکھلاہٹ پر پرسکون سا کھڑا اسے زینے اترتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

آخر اتنے لمبے اور کھٹن صبر کے بعد اسے اسکی محبت مل ہی گئی تھی۔۔۔اسے اسکے صبر کا پھل مل چکا تھا۔۔

وہ خوش تھا۔۔۔بہت زیادہ خوش۔۔۔۔۔

………………………………………………………

کتنے سال گزرے گئے ناں یشب۔۔۔۔۔!!

وہ اس وقت جھیل کنارے ایک ہی پتھر پر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ہیر نے  یشب کے بازو سے اپنا بازو گزار کر سر اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ یشب اپنی گود میں دھرا ہیر کا ہاتھ تھامے تھرڈ فنگر  میں پہنی رنگ کو آگے پیچھے کر رہا تھا

ہیر کی بات پر اس نے مسکرا کر "ہوں" کہا

آپ کو یاد ہے ہماری پہلی ملاقات۔۔۔

بھول سکتا ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟

اتنے زیادہ سال گزر چکے ہیں میں سوچتی ہوں تو مجھے حیرت سی  ہوتی ہے۔۔۔۔وہ بےیقینی سے بولی

حیرت کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے ابرو اچکائے

یہی کہ میں نے اتنے سال آپ کو کیسے برداشت کر لیا۔۔

یشب کی گھوری پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔

یہ کہو کہ میں نے کیسے تم جیسی موٹی بیوی کیساتھ گزارا کر لیا اسکے باوجود کہ مجھے موٹی لڑکیاں پسند نہیں۔۔۔۔یشب نے بھی پورا بدلہ اتارا

اب اتنی بھی موٹی نہیں ہوں۔۔۔۔ہیر برا مان کر بولی

ہو تو۔۔۔۔وہ اسے چڑا کر مسکرایا 

اچھا بس مذاق چھوڑیں یہ بتائیں ہم کب جا رہے ہیں کاغان۔۔۔۔؟؟

بچوں کے ایگزامز تو ختم ہو لینے دو بے صبری محبوبہ۔۔۔۔یشب نے شرارت سے اسکی ناک کھینچی

بچوں کے ایگزامز نیکسٹ ویک ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔کل بھابھی کا بھی فون آیا تھا کہہ رہی تھی پروگرام فائنل کر کے بتا دو تاکہ شمس اپنا شیڈول سیٹ کر کے وقت نکال سکیں

ہاں تو کہہ دو بچوں کے لاسٹ پیپر والے دن تک ریڈی رہیں پھر نکل پڑیں گے۔۔

ہوں۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا

ماما۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔

چھ سالہ حنین ہیر کو پکارتی ہوئی سامنے سے بھاگتی آ رہی تھی جبکہ حنان بیٹ پکڑے اسکے پیچھے بھاگ رہاتھا

واٹ ہیپنڈ۔۔۔؟؟

وہ بھاگ کر ہیر کی گود میں منہ چھپا گئی۔۔

ماما "باسی نان" مجھے مار رہا ہے۔۔۔

اسکی بات پر ہیر اور یشب دونوں نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔

ماما یہ مجھے پھر سے باسی نان کہہ رہی ہے۔۔۔حنان پاس آ کر خفگی سے بولا

حنین کو سب ہنی کہتے تھے جبکہ حنان کا نک نیم بھی یہی بنتا تھا مگر اسے سب حنان ہی کہتے جس پر وہ اکثر چڑتا کیونکہ اسے لگتا تھا ہنی لفظ حنین کی بجائے اس پر زیادہ جچتا ہے اور محترمہ حنین صاحبہ اسی بات پر اسے باسی نان کہہ کر مزید ٹارچڑ کرتی تھیں۔۔

ہنی بیٹا مت تنگ کیا کرو بھائی کو۔۔۔۔ہیر نے حنان کو قریب کرتے ہوئے حنین سے کہا۔۔۔

جو اب یشب کی گود میں چڑھ کر اسکا سیل پکڑے کینڈی کرش کھیلنے میں مگن تھی۔

یہ ہے ہی باسی نان جیسا۔۔۔گال دیکھیں کیسے پھولے ہوئے ہیں یوں جیسے نان پھٹنے والا ہو۔۔۔

حنین۔۔۔ن۔۔۔ن۔۔۔ہیر نے تنبیہہ کی

جب کے یشب نے سزا کے طور پر سیل لے کر اسکی پہنچ سے دور کر دیا۔۔

بابا۔۔۔بابا پلیز۔۔۔پلیز سیل دیں مجھے گیم کھلینی ہے۔۔۔وہ بےقراری سے بولی

پہلے حنان کو سوری بولو۔۔۔۔

یشب کی بات پر حنان کا بجھا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔حنین میڈم سوری کریں گی مجھ سے وہ گردن اکڑا کر کھڑا ہوا

ہیر مسکراہٹ روکے اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی۔۔

حنین نے برا سا منہ بنا کر حنان سے سوری کرنے کی بجائے سوری پھینکا  کھٹاک سے عین منہ پر۔۔۔۔۔

اٹس اوکے۔۔۔۔حنان نے بھی لٹھ مار انداز میں احسان کر کے سوری قبول کی

چلو بھئی تم دونوں کی صلح ہو چکی ہے اب اٹھو گھر چلتے ہیں بی بی جان انتظار کر رہی ہوں گی۔۔۔

یشب نے حنین کو گود سے اتار کر کھڑا کیا اور خود بھی کھڑا ہوا

بابا کچھ دیر اور رکتے ہیں ناں۔۔۔۔حنین نے للچاتی نظروں سے یشب کو سیل پاکٹ میں رکھتے دیکھ کر کہا

نہیں۔۔ابھی چلو پھر آئیں گے سویٹ ہارٹ۔۔۔وہ مسکرا کر اسکی پونی کھینچتا بازو پکڑ کر چل پڑا۔۔

ہیر نے حنان کی جیکٹ کی زپ بند کر کے کیپ اسکے سر پر دی  اور چادر درست کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

یہ محتصر سا آئیڈل قافلہ ایک دوسرے کیساتھ ہنستا ، مسکراتا، اٹھکلیاں کرتا واپس جا رہا تھا۔۔۔

………………………………………………………

یہ آفریدی حویلی کے ہال کا منظر ہے جہاں سے ابھی بابا جان اور دلاور خان نکل کر مردانے کی طرف گئے تھے جہاں قبیلے سے آئے کچھ مرد مہمان ان کا انتظار کر  رہے تھے۔۔

 اور ہال کے اندر موجود تخت پر بی بی جان اور خدیجہ بیگم بیٹھیں آہستہ آواز میں گھٹنوں اور جوڑوں کے درد پر تبادلہ خیال کر رہیں تھیں۔۔۔

جبکہ ان سے کچھ فاصلے پر کارپٹ پر چوکڑی مارے چودہ سالہ حدید، سات سالہ حمزہ اور چھ سالہ حنان بیٹھے  مسٹر بین  دیکھ رہے تھے۔۔۔۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسٹر بین کی حرکتوں پر وہ ہنستے ہوئے ایک  دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ  مار کر محظوظ بھی ہو رہے تھے۔۔۔۔

اب اگر ان سے تھوڑا آگے دائیں جانب دیکھا جائے تو وہاں چھ سالہ حنین اور نو سالہ دعا  بیٹھیں ٹیچر ٹیچر کھیل رہی تھیں۔۔۔

حنین ٹیچر بنی ہوئی تھی جبکہ دعا  اس سے بڑی ہو کر بھی ابھی اسٹوڈینٹ ہی تھی۔۔۔

حدید کا حنین کو پٹاخہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا وہ واقعی اس خاندان میں ایک پٹاخہ ہی تھی۔۔۔حالانکہ حنین اور حنان دونوں ٹوئنز تھے مگر دونوں ایک دوسرے کے الٹ تھے حنین جتنی کلیور اور منہ پھٹ تھی حنان اتنا ہی سیدھا اور شریف تھا مگر حنین سے پوری ٹکر لیتا تھا وہ شریف ہو کر بھی۔۔۔

اب یہ تو ہو گئی بچوں کی کہانی اب آگے بڑھتے ہیں بچوں کے اماؤں ، اباؤں کی طرف۔۔۔۔

بی بی جان اور خدیجہ جس تخت پر بیٹھیں تھیں اس تخت کے بلکل سامنے صوفوں پر یشب اور شمس لیب ٹاپ اور فائلز کھولے بزنس کے معاملات  ڈسکس کر رہے تھے۔۔

یشب نے ہیر کے کہنے پر الیکشن سے ڈراپ آوٹ کر دیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد بابا جان کے کہنے پر شمس کیساتھ مل کر لیدر کا بزنس شروع کر دیا تھا اور اب وہ دونوں شافے انڈسٹریز سے ہوئے کنٹریکٹ کو ہی ڈسکس کر رہے تھے شاید۔۔۔۔۔

ان کے قریبی سنگل صوفوں میں سے ایک پر مہرو بیٹھی تھی ٹانگیں اوپر کیے گود میں البم رکھے۔۔۔حالیہ کاغان ٹریپ پر لی گئی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔

ساتھ ساتھ پاس پڑے باؤل سے پاپ کارن بھی اٹھا کر منہ میں رکھ لیتی۔۔

ماما میں یہ لے جاؤں۔۔۔۔حمزہ (شمس اور مہرو کا بیٹا (  نے پاپ کارن کے باؤل کی طرف اشارہ کیا

ہاں میری جان لے جاؤ۔۔۔۔مہرو مسکرا کر بولی

حمزہ باؤل اٹھا کر واپس حدید اور حنان کیطرف بھاگ گیا

مہرو مسکرا کر ایک نظر بچوں پر ڈالتی پھر سے البم الٹ پلٹ کرتی غور سے تصویریں دیکھنے لگی۔۔۔

ہیر نے ہال کے داخلی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ منظر اپنی مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔

وقت کیساتھ کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔

ہیر اور یشب دو عدد ٹوئنز بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔۔

حدید اور دعا کے بعد شمس اور مہرو کو اللہ نے حمزہ سے نوازا تھا۔۔

بڑے بزرگ سب ان کے سروں پر سلامت تھے جو کہ اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا احسان تھا ان پر اور سب سے بڑھ کر یشب اور شمس کی صلح اور دوستی تھی۔۔

ہیر نے مسکراتے ہوئے یشب کی طرف دیکھا جو شمس کی بات سنتا کان پکڑے ہوئے تھا اور شمس شاید اسے کسی بات پر کھری کھری سنا رہا تھا۔۔

اسے بی بی جان کی کہی برسوں پرانی بات یاد آئی۔۔

"وقت کیساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ہیر"

اور ان کی بات کے جواب میں ہیر نے کہا تھا۔۔۔۔

"نہ اب تک کچھ ٹھیک ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ٹھیک ہو گا بی بی جان"

مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔ 

وقت نے واقعی  بہت کچھ ٹھیک کر دیا تھا۔۔۔

اس نے ایک لمبی سی پرسکون سانس لے کر رب کائنات کی بابرکت ذات کا ڈھیروں ڈھیر شکر ادا کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر چائے کی ٹرے لیے آگے بڑھی گئی جہاں اسکے اپنے اسکے ہاتھوں کی بنی چائے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔

ہیر کی بنی چائے کو اب چائے کہا جا سکتا تھا کیونکہ اب وہ واقعی چائے ہی بناتی تھی نہ کہ جوشاندہ۔۔۔۔۔!

وفا کہ قید خانوں میں

سزائیں کب بدلتی ہیں؟؟

بدلتا دل کا موسم ہے 

ہوائیں کب بدلتی ہیں؟؟

میری ساری دعائیں 

تم سے ہی منسوب ہیں ہمدم

محبت ہو اگر سچی 

دعائیں کب بدلتی ہیں؟؟

کوئی پا کر نبھاتا ہے

کوئی کھو کر نبھاتا ہے

نئے انداز ہوتے ہیں 

وفائیں کب بدلتی ہیں؟؟

     •••••••••   ••••       ••••••

 ضروری نہیں کہ ہر ونی ہو کر آنے والی ہیر کیساتھ ایسا ہی ہو جسے یشب آفریدی جیسا چاہنے والا شریک سفر ملا۔۔۔۔۔یا پھر ہر بیوہ ہونے والی مہرو کیساتھ کہ جسکے اپنوں نے اسے وہ خوشیاں لوٹائیں جن پر اس کا حق تھا۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں اکثر بہن بیٹیاں اپنے باپ بھائیوں کی خاطر خون بہا اور دیگر ایسے ہی افعال میں  ونی کر دی جاتیں ہیں اور پھر انہیں بے زبان جانور سمجھ کر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی گناہ سے کم نہیں۔۔۔۔

گالم گلوچ، مارپیٹ  حتی کہ اکثر  اوقات جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر اس کو سزا اور اذیت دی جاتی ہے جو اس سارے قصے میں بے قصور  ہوتی ہے۔۔

اور بیوہ عورت کو بیوگی کی چادر اوڑھا کر سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے کہ اس کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں یا پھر اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو اس پر تحقیر آمیز جمعلات پھینکے جاتے ہیں۔۔۔

کیا ایک مرد کو جنم دینے والی عورت کیساتھ یہ سلوک زیب دیتا ہے۔۔۔۔۔؟؟

کیا ایک عورت اتنی ارازاں ہے کہ اسے ان ظالمانہ اور جاہلانہ رسومات کی بلی چڑھا دیا جائے

کیا وہ انسان نہیں۔۔۔۔کیا وہ پتھر کی بنی مورت ہے جو جذبات اور احساسات سے مبرا ہو۔۔۔۔کیا وہ اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ اپنے ہی جنم دئیے مرد کی محکوم بن جائے

نہیں۔۔۔۔۔عورت محکوم نہیں۔۔۔۔نہ ہی اتنی ارازاں کے چند لوگوں کے ہجوم کی بنی پنچائیتوں اور جرگوں میں بیٹھا کر کسی کے بھی حوالے کر دی جائے۔

عورت تو۔۔۔۔۔۔۔! 

عظمت ہے۔۔۔۔۔

عزت ہے۔۔۔۔۔

ماں ہے۔۔۔۔۔ 

بہن ہے۔۔۔۔

بیٹی ہے۔۔۔۔

بیوی ہے۔۔۔۔

اتنے خوبصورت رشتے بنتے ہیں اس عورت کیساتھ جو اپنے سگوں کی عزت اور شان و شوکت  کی خاطر ایسی فرسودہ اور ظالمانہ رسومات پر قربان کر دی جاتی ہے۔۔۔

کیوں۔۔۔؟؟؟

کیوں ہوتا ہے ایسا۔۔۔؟؟؟

اور کب تک ہوتا رہے گا۔۔۔۔؟؟؟ 

سوچئیے گا ضرور۔۔۔۔۔!!!

"جب ہوس گھائل کرے مجھ کو نظر کے تیر سے۔۔۔

اس گھڑی کرتی ہوں شکوہ کاتب تقدیر سے۔۔۔۔

ہائے مجھ عورت کی قسمت کیا بتاؤں کیا کہوں۔۔۔؟

کاٹتا ہے میری شہہ رگ باپ بھی شمشیر سے۔۔۔

غیر چن دیتے ہیں مجھ کو جیتے جی دیوار میں۔۔۔

اپنے غیرت میں جکڑتے ہیں مجھے زنجیر سے۔۔۔۔

سارے رشتے مجھ کو عبرت ناک دیتے ہیں سزا۔۔۔۔

مانگتا ہے مال و زر شوہر بھی مجھ دلگیر سے۔۔۔۔

اور جب تیزاب سے جھلسا دیا جائے مجھے۔۔۔۔

ہر کسی کو خوف آتا ہے میری تصویر سے۔۔۔

عمر بھر خدمت کروں پر پھر بھی ہو جاتی ہوں میں۔۔۔۔

گھر سے باہر تین لفظوں کی فقط تحریر سے۔۔۔۔

اے رضا مردوں سے میرا ہے فقط اک یہ سوال۔۔۔!

کب میں دنیا میں جئیوں گی عزت و توقیر سے۔۔۔۔۔؟؟

 •••••••••••••• دی اینڈ •••••••••••••••

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Tujse Laage Man Piya Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tujse Laage Man Piya  written Mahwish Ch Tujse Laage Man Piya by Mahwish Ch is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment