Pages

Sunday 19 May 2024

Tu Dua Sa Lagy Novel By Hamna Tanveer New Novel

Tu Dua Sa Lagy  Novel By Hamna Tanveer  New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tu Dua Sa Lagy Complete Novel 

Novel Name: Tu Dua Sa Lagy

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"تف ہے تم پر امل حیات۔" ایک قہر آلود نگاہ اس پر ڈال کر اسی طرح قدم اٹھانے لگا۔ امل کی بازو ابھی تک اس لوہے کی گرفت میں تھی جس کے باعث اسے زوہان کے ہمراہ چلنا پڑا۔

"اب اگر دوبارہ تم نے اپنی بےگناہی کے رونے روےُ تو قسم سے میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔" اسے گاڑی سے لگاتے ہوےُ وہ حلق کے بل چلایا تھا۔ گردن اور پیشانی کی رگیں ابھر کر باہر نکلی ہوئی تھیں۔ سپید رنگت سرخ آگ کا گولہ بنی ہوئی تھی۔ اس کے چلانے پر اس نے آنکھیں زور سے بند کیں۔

"مجھے یقین آ گیا ہے تم پر۔" اس نے لہجہ نرم اپنایا اور اس کے دائیں بائیں گاڑی پر بازو رکھ دئیے۔

آنکھیں جھٹ سے کھل گئیں۔ امل حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئی۔

"تم واقعی ایک طوائف ہو۔ اور اب میری نظروں میں سچی بننے کی کاوشیں ترک کر دو۔ ساری زندگی بھی لگا دو گی نہ تب بھی میرا موقف تغیر نہیں کر سکو گی اب تم۔ تمہاری بکواس سن کر ایک موقع دیا کہ چلو دیکھ لیتے ہیں۔ شاید شاید کہ ہی تم درست ہو مگر کیا نتیجہ نکلا یہاں آنے کا؟" وہ گاڑی پر مکا مارتا پیچھے ہو گیا۔

"میری نظروں میں پہلے سے زیادہ گر گئی ہو تم۔" آنکھوں میں کرب سا اٹھا تھا، دل کے سرد خانوں میں کہیں اس نے بھی خواہش کی تھی کہ وہ اپنی بےگناہی ثابت کر لے مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

وہ چہرے پر تاسف لیے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ امل نے جامد لبوں کو کھولا تو کپکپاتے ہوےُ ایک گہرا سانس اندر کھینچا جو وہ روکے کھڑی تھی۔

آنسو کسی ریلے کی مانند اس کی آنکھوں سے ابلتے رخسار پر گرنے لگے۔ 

اور کتنی ذلت لکھی تھی قسمت میں؟ اس نے کرب سے آنکھیں میچ کر سر جھکا کر سوچا۔

بےآواز روتے ہوےُ اس کی ہچکی بندھ گئی۔

"اب یہیں بت بن کر کھڑی رہو گی کیا؟ جلدی بیٹھو مجھے گھر بھی جانا ہے۔ تمہاری مانند فارغ نہیں ہوں میں۔" وہ جو اس کا منتظر تھا دروازہ کھول کر اس پر برسنے لگا اس بات سے انجان کہ وہ کس حال میں کھڑی ہے۔

"امل اندر بیٹھو ورنہ میں تمہیں یہیں چھوڑ جاوُں گا۔" اس کا ضدی پن اس کے غصے کو ہوا دے رہا تھا۔

چونکہ وہ ذرا سائیڈ پر کھڑی تھی اس لیے زوہان کو صرف اس کا دوپٹہ لٹکتا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اپنے بہتے آنسووُں کے ساتھ ساتھ جذبات کو بھی قابو میں کرنے کی سعی کر رہی تھی۔ ادھر سے وہ آنکھیں صاف کرتی اور ادھر سے پھر بھیگ جاتیں۔

"یا اللّه یہ لڑکی کیوں میرا دماغ خراب کر رہی ہے۔" وہ کوفت زدہ سا گاڑی سے باہر نکلا۔ 

وہ چلتا ہوا اس کے مقابل آیا تو امل نے تیزی سے چہرہ صاف کیا, اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی وہ جب کہ دل کٹ کٹ کر ہزاروں حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔

"بکواس کر رہا ہوں میں؟" اس نے بازو سے پکڑ کر اسے اندر دھکیلا اور دروازہ بند کر دیا۔

آج سے ان کے بیچ غصے اور ضد کے تعلق کا آغاز ہو چکا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ آگے کی زندگی کیسی کروٹیں لینے والی تھی۔

"آپ فہد سے منگنی نہیں کریں گیں۔" اس نے عقب سے ان کا ہاتھ پکڑا تو وہ چونک گئی۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے فاز؟" پلٹ کر کڑے تیور سے اسے دیکھا گیا اور فائلز پکڑے ہاتھ سے اس کا ہاتھ ہٹانا چاہا۔

"میری بات سن رہی ہیں نہ آپ؟" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا بےلچک لہجے میں استفسار کرنے لگا۔

"لیو مائی ہینڈ مسٹر فاز۔ یہ یونیوسٹی ہے کچھ احساس ہے آپ کو؟" اس نے آس پاس سے گزرتے سٹوڈنٹس کی نگاہیں خود پر محسوس کرتے ہوےُ اسے جھڑکا۔

"آپ کو اس بات کی پرواہ ہے اور جو میں بول رہا ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟" اس کے ہاتھ کھینچنے پر وہ رنج سے اسے دیکھنے لگا۔

"کیونکہ تم احمق ہو میں نہیں۔ اپنے ذہن میں بٹھا لو اس بات کو ہم دونوں کا کوئی جوڑ نہیں میں نے تمہیں ہمیشہ چھوٹے بھائی۔۔۔۔"

"اوہ پلیز۔ بار بار بھائی بول کر میرا دماغ مت خراب کریں۔" وہ زچ ہو کر اسے ٹوک گیا۔ چہرے پر ناگواری تھی۔

"تم اپنے دماغ سے یہ فتور نکال دو اور اگر آئیندہ مجھے ایسے روکا یونی میں تو بہت برا ہوگا تمہارے ساتھ۔" وہ انگلی اٹھا کر سخت لہجے میں وارننگ دینے لگی۔

"اس فہد سے منگنی سے زیادہ کچھ برا ہو سکتا ہے؟ مجھے بتائیں کیا خرابی ہے مجھ میں؟ اس سے زیادہ اچھا ہوں اور اس سے زیادہ کامیاب بنوں گا میں۔" اسے پلٹتے دیکھ وہ پھر سے اس کی راہ میں حائل ہوا۔

"فادی بارہ سال کا فرق مذاق ہے تمہارے لیے؟ بچے ہو تم ابھی۔ یہ کوئی جوڑ نہیں بن سکتا۔" وہ جھرجھری لیتی دانت پیسنے لگی۔ اس کی عقل پر شبہ ہو رہا تھا اسے جب سے یہ بات معلوم ہوئی تھی۔

"مجھے دنیا کی پرواہ نہیں اور آپ بھی صرف میری پرواہ کریں۔ اس سوسائٹی کو مجھ پر ترجیح مت دیں۔" وہ آنکھوں میں سرخی لیے طیش میں آ گیا۔

"میں فہد سے ہی منگنی کروں گی تم نے جو کرنا ہے کر لو۔" انداز چیلنج کرنے والا تھا۔

"ہرٹ کر رہی ہیں اب آپ مجھے۔" وہ بےبس ہوا۔ چہرے پر مایوسی کے بادل چھا گئے۔ جانتا تھا اس سے مقابلہ نہیں کر سکتا؟ بھلا محبوب سے کسی نے کبھی مقابلے بازی کی ہے؟

"تم نے غلط مطلب اخذ کیا ہے ہمارے رشتے کا۔ اور اس کی تصحیح بہت ضروری ہے اس لیے اگر تم ہرٹ ہوتے ہو تو آئی کینٹ ڈو اینی تھنگ فار دس۔ دس از ناٹ مائی ہیڈ ایک۔" اس کے بیگانہ انداز نے اسے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا تھا ایک لحظے میں۔ وہ تو شاکڈ سا رہ گیا۔ آنکھیں غم کی شدت سے سرخی مائل ہو رہی تھیں۔

"دوبارہ گھر کے میٹر تم نے اس یونی کی حدود میں کھڑے ہو کر ڈسکس کیے تو لیٹریلی مجھے سخت رویہ اختیار کرنا پڑے گا تمہارے ساتھ جس کے تم بلکل عادی نہیں ہو نہ ہی تمہیں پسند آےُ گا۔"

"حرف بہ حرف ازبر کر رکھا ہے فاز کریانی کو اور پھر بھی۔۔۔۔"

"اینف فاز۔ جسٹ سٹاپ دس ناوُ۔" البتہ وہ ظاہر نہیں کر رہی تھی مگر اس کا یہ سِتا ہوا چہرہ اس سے بھی زیادہ اسے تکلیف سے دوچار کر رہا تھا۔

اس سے زیادہ اس میں سکت نہیں تھی اسے دکھ پہنچانے کی اس لیے سائیڈ سے ہوتی تیزی سے واک آوُٹ کر گئی۔ اور وہ آنکھوں میں اشک لیے اس کی پشت کو خود سے دور جاتا دیکھنے لگا کہ حقیقت میں بھی وہ ایسے ہی اس سے دور جانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔

"میں نہیں چھوڑ سکتا آپ کو۔ پھر چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔"اپنا فیصلہ وہ سنا گئی تھی جبکہ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوےُ اٹل لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔

یہ ڈمپل تم نے کہاں سے خریدا ہے؟

تم نے یہ آنکھیں کہاں سے لی ہیں؟؟

"میری نیچرل ہیں"

تو میرا کیا "Artificial" ہے۔۔۔

تمہارا کیا بھروسہ کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔

"دیکھ لیا اب بات کر کے؟ مرد چاہے جتنی بھی محبت کرے اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ بار بار موقع دے۔ اب کیا کہا ہے عمار نے؟" وہ اس بات پر آتی مدھم ہو گئیں۔

"زین کا نمبر میں نے ایک بار بلاک بھی کیا تھا مگر پھر اس نے نمبر بدل لیا اور یہی ضد تھی کہ بس ایک مل لو پھر میں ثنیہ سے شادی کر لوں گا۔" اس نے کہتے ہوےُ ندامت سے سر جھکا لیا۔

"عمار نے کیا کہا ہے تمہیں مروہ؟" وہ اسے بازو سے پکڑ کر ہلانے لگیں۔

"غصے میں تھا امی وہ۔ ہرٹ ہوا تھا نہ۔" آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔

"مروہ۔" وہ ہونق زدہ سی اس کے جھکے ہوےُ سر کو دیکھ رہی تھیں۔ دل کسی انہونی کی صدا دینے لگا۔

"اس نے کہا کہ زین کو بلاوُ اور اس کے ساتھ چلی جاوُ۔ آزاد ہو تم میری طرف سے۔" اس نے کہہ کر سختی سے لب بھینچ لیے۔ 

"تم اتنی بڑی حماقت کیسے کر سکتی ہو؟" چہرے پر دکھ اور افسوس کے ملے جلے تاثرات تھے۔ نفی میں سر ہلاتے ہوےُ سکینہ نے منہ پر ہاتھ پھیرا۔

"امی میں اسے منا لوں گی آپ فکر نہ کریں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا وہ مجھے۔" دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتی وہ بڑے وثوق سے بولی۔

"اور اگر اس نے ارادہ کر لیا پھر؟" ان کا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔ مبادہ مروہ کی بات نے انہیں کوئی دلاسہ نہیں دیا۔ 

"ایک دو دن رک جائیں۔ اس کا غصہ کم ہو جاےُ پھر میں جاوُں گی اس کے پاس۔ امی وہ مجھ سے محبت کرتا ہے بلکہ بہت بہت زیادہ محبت تو پھر چھوڑنے کا سوال کیونکر پیدا ہوگا؟ غصے میں انسان بہت کچھ بول جاتا اسے تو رنج بھی بہت پہنچا ہے۔" وہ اپنے دل کو انہی امیدوں پر باندھ رہی تھی۔

"کیا کہا تم نے؟" وہ جھٹکے سے پیچھے ہوا۔ چہرے پر جہاں بھر کی سنجیدگی تھی۔

"لو یو کہا ہے۔" مروہ کا منہ بن گیا اس رد عمل پر۔

"اچھا۔" وہ سر اثبات میں ہلاتا سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھانے لگا جبکہ وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"خوش فہمی ہے تمہاری۔ مر جاوُں گی لیکن کبھی تم سے محبت نہیں کروں گی۔" جونہی مروہ کی آواز اسپیکر پر ابھری تو اس نے دانت پیستے ہوےُ اسے گھورا جو اس کی جانب گھوم رہا تھا۔

"مطلب جس تم نے اعتراف کیا اس بات کا اس دن تمہارا دماغی توازن خراب ہو چکا ہوگا۔" عمار کی آواز پر مروہ نے آگے ہو کر فون جھپٹ لیا۔

"ہاں اسی صورت میں۔۔۔۔" 

"اب کیا ہوا؟" اس نے ہنستے ہوےُ فون واپس لیا۔

"بھئی مجھے ایسی دماغی مریض والی بیوی نہیں چائیے۔" اس نے مظلومیت سے کہتے ہوےُ سرد آہ بھری۔

"بند رکھو اسے عمار۔ اور بلکل ٹھیک ہے میرا دماغی توازن۔" وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی جل کر بولی۔

"مطلب تم اپنے کہے لفظوں سے مکر رہی ہو؟ میں کس کا اعتبار کروں؟ یہ تو سرار غلط ہے بھئی۔" وہ برہمی سے کہتا سینے پر بازو باندھنے لگا۔

"اپنا منہ بند کر لو عمار۔" وہ اپنی خجالت غصے کی شکل میں اس پر منتقل کر رہی تھی۔

"مجھ سے محبت نہیں تمہیں؟" اس نے چہرہ موڑ کر سوال کیا۔

"نہیں۔" اس نے آنکھیں سکیڑیں۔

"بس ٹھیک ہے۔ یہی تھی تمہاری محبت دیکھ لی میں نے۔" وہ خفا خفا سا کمبل پرے کرتا بیڈ سے اتر گیا۔

"ہاں تو کیوں تنگ کر رہے ہو تم مجھے؟" وہ منمناتی بیڈ سے اتری۔

"تمہاری محبت بس ہاسپٹل تک تھی۔ ٹھیک ہے مروہ۔" وہ اب ایموشنل بلیک میل کر رہا تھا۔

"جی نہیں۔ مجھے تم سے محبت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔" وہ چلتی ہوئی اس کے مقابل آ رکی۔

"تو اب تمہارا دماغی توازن بگڑ گیا ہے!" وہ اس کے شانے کے دونوں بازو رکھتا قہقہ لگانے لگا۔

"یار ایسی لڑکی کا کیا کروں گا میں؟" اس سے قبل کہ وہ بولتی عمار نے پھر سے لب کشائی کی۔

"بات نہ کرنا اب مجھ سے تم۔" اس کے سینے پر مکا مارتی وہ پلٹنے لگی مگر کلائی عمار کی گرفت میں آ گئی۔

"مروہ۔۔۔" وہ اس کا چہرہ تھپتھپا رہا تھا مگر جواب ندارد۔

"مروہ مجھے جواب تو دو۔ کیسی طبیعت ہے اب مروہ کی؟ ہوش کب آےُ گا اسے؟" اس کی جانب سے مایوس ہو کر اس نے نرس کو مخاطب کیا۔

"سوری لیکن آپ دیر سے آےُ ہیں۔" وہ تاسف سے کہتی مشین بند کر رہی تھی اب۔

"کیا مطلب ہوا اس بکواس کا؟" وہ تمس سے غرایا۔

"ان کی ہارٹ بیٹ بہت مدھم تھی۔ عمار کا نام لے رہی تھیں شاید ملنا چاہتی تھیں ان سے۔ مگر اس سے زیادہ شاید وقت نہیں تھا ان کے پاس۔" اپنا کام مکمل کر کے اس نے ایک دکھ بھری نگاہ عمار پر ڈالی۔

"نہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ معمولی سی چوٹ ہے۔ مروہ میری بات سنو تم اور آنکھیں کھولو اب بہت ہو گیا مذاق۔" وہ اسے نظر انداز کرتا پھر سے اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا۔ 

"میں باہر بیٹھی ہوں آپ آ کر بل کلئیر کر دیجیے گا۔" وہ دوسری نرس کو بھی اشارہ کرتی اسے ساتھ لے کر باہر نکل گئی مگر عمار نے تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔

"مروہ تم ایسے نہیں جا سکتی مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔مانا بہت برا ہوں میں مگر یہ تو کہیں کا انصاف نہیں۔"

 اشک ٹوٹ کر اس کی سفید چادر میں جذب ہو رہے تھے۔ 

زندگی میں پہلی بار وہ کسی کے لیے رویا تھا، پہلی بار کسی کے لیے سسکیاں لے رہا تھا صرف ایک اس انسان کے لیے جس نے اس کے دل پر قبضہ جمایا تھا۔ 

"ایک بار میری بات سن لو۔ میں کیسے رہوں گا تمہارے بغیر؟ اتنی بڑی سزا مت دو مجھے۔۔۔۔" اس نے آہیں بھرتے ہوےُ سر اس کے تکیے پر گرا لیا۔

"اچھا پھر آؤ گی نہ جب میں آؤں گا گھر...." وہ حد درجہ سنجیدہ تھا۔

"بلکل نہیں.... جب میں نے کہا تھا آپ آےُ تھے؟...." وہ تیکھے تیور لئے بولی۔ اب وہ بدلہ لے رہی تھی۔

"مجبوری تھی بتایا تو تھا آپ کو...." بیچارگی سے جواب آیا۔

"تو اب میں بھی نہیں آؤں گی میں اس دن ہی کہہ دیا تھا۔" اس نے منہ بنایا۔

"اچھا یہ بتاؤ فرائز کھاؤ گی؟" وہ اپنے سامنے پڑی چپس کو دیکھ رہا تھا۔

"ہاں مجھے بھوک بھی لگی ہے....." اس نے رونے والی شکل بنائی۔

"یار بہت مزے کی ہیں ویسے...." وہ اسے چڑانے لگا۔

"کیا بدتمیزی ہے...." وہ غصہ ہوئی۔

"جب آؤ گی تو کھلا دوں گا ایسے کیسے دوں فون پر؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔

"اپنے ہاتھ سے کھلاؤ گے؟" وہ نرم پڑی۔

"ابھی تو کہہ رہی تھی کبھی نہیں ملوں گی اور اب ایک فرائز پر مان گئی...." وہ ہنسا۔

"ہاں تو میری مرضی...." وہ گڑبڑا کر بولی۔

"بس اتنی سی ناراضگی تھی آپ کی.... چپس پر مان گئی..." وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔

"کیا ہے آپ کو...." اسے غصہ آ رہا تھا۔

"مجھے لگا تھا صدیاں بیت جائیں گیں مانو گی نہیں مگر اتنی جلدی مان گئی وہ بھی فرائز پر۔" وہ اسے ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔

"جاؤ میں نہیں کھاتی.... اور کوئی نہیں آنا میں نے.... ہونہہ۔" اس نے ہنکار بھری۔ دوسری جانب وہ ابھی بھی ہنس رہا تھا۔

وہ پاگل تھی اور یہ بات وہ بخوبی جانتا تھا۔

"تمہارا فی۔۔۔ فیصلہ اٹل ہے نہ؟" جدائی کا وقت تھا تو کیسے ممکن تھا زبان نہ لڑکھڑاتی؟

"جی ہاں۔" ایان کے چہرے پر سواےُ سنجیدگی کے اور کچھ نہیں تھا۔

"یہ ڈائیورس پیپر۔۔۔ سا۔۔۔سائن کر دو پھر۔" فائل اس کی جانب بڑھاتے ہوےُ اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔

اس نے خاموشی سے فائل لی۔ پین کی تلاش میں نگاہ دائیں بائیں دوڑائی۔

البتہ عیسی کا سر تو جھکا تھا مگر اس کی الجھن کو وہ سمجھ گیا تبھی شرٹ کی جیب سے پین نکال کر سامنے میز پر رکھ دیا۔

اس نے خاموشی سے پین اٹھایا، فائل کھولی اور اس پر اپنے سائن کر کے اس دردناک قصے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔

عیسی کی آنکھ سے دو موتی ٹوٹ کر زمین پر گرے تھے اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوےُ۔

آج اسے احساس ہوا تھا کیا کھویا ہے؟ آج اسے معلوم ہوا تھا کہ عورت اتنی کمزور نہیں ہوتی جتنا اس جیسے مرد تصور کر بیٹھتے ہیں۔ ایک بار اگر وہ فیصلہ کر لے تو پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت ٹس سے مس نہیں کر سکتی اور سامنے بیٹھی اس کی سابقہ بیوی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی، وہ کمزور اور خوفزدہ سی ایان اب غائب ہو چکی تھی اور اس کی جگہ اس مضبوط عورت نے لے لی تھی جس نے اس جیسے مضبوط اعصاب کے مالک انسان کو بھی توڑ کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا تھا، اس کی اوقات یاد دلا دی تھی کہ جاوُ اب جئیو میرے بغیر۔

"تھینک یو۔ امید کرتی ہوں آپ کو اپنی سزا بطور وعدے کی شکل میں یاد ہوگی۔" فائل بند کرتے ہوےُ اس نے دائیں آبرو اچکاتے ہوےُ عیسی پر نگاہ ڈالی۔

"میں کسی اور سے شادی نہیں کروں گا کبھی بھی اور تمہیں آزاد کر دوں گا۔" اس نے کسی روبوٹ کی مانند اس کا عہد دہرایا۔

"آپ بھی دیکھیں اب عیسی تنہائی کا ظلم کیسا ہوتا ہے؟ بھیڑ میں بھی تنہا محسوس کرنا کس قدر تکلیف دہ ہے۔ اب آپ بھی محسوس کریں کہ اپنے محرم کی موجودگی سے محروم رہنا، اس کے لیے تڑپنا کس قدر اذیتناک ثابت ہوتا ہے۔" وہ رسان سے کہتی اسے مزید اضطراب میں چھوڑ گئی۔

"اپنے محرم کے لیے ترسنا، اس کی ایک نگاہ کے منتظر رہنا، توجہ کی بھیک مانگنا۔۔۔۔سب سمجھ آےُ گا اب آپ کو۔ آپ بھی مزہ چکھیں اب کہ کیسا محسوس ہوتا ہے جب آپ کا ستمگر ہی آپ کا محرم ہو۔"

"عمار مجھے چھوڑ کر مت جاوُ ایک بار میری بات تو سن لو۔" 

"بات سن لو؟" وہ زیر لب دہراتا پلٹا اور اسے یوں دیکھنے لگا مبادہ کچھ غلط کہہ دیا ہو۔ 

"سر آپ کو کچھ چائیے؟" ویٹر انہیں یوں کھڑے دیکھ آگے آیا۔

عمار نے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ پلٹ گیا۔

"ایک بار میری بات سن لو۔ میں تمہیں سب بتاتی ہوں۔" وہ چہرے پر بےبسی لیے اس کی جانب دو قدم آگے بڑھی۔

"تم زین کے ساتھ دوپہر میں یہاں آئی تھی؟" عمار نے آنکھیں بھینچ کر سوال کیا۔

"میں تمہیں بتاتی ہوں نہ۔ میں اس لیے۔"

"ہاں یا نہ؟" اس نے تند و تیز لہجے میں اس کی بات کاٹی۔

"ہاں۔" مروہ نے نگاہیں چرائیں۔

"میں نے تم سے ہوٹل میں پوچھا تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ جلدی نہیں فارغ ہوئی یونی سے؟" کرسی پر ہاتھ رکھ کر اس نے دوسرا سوال داغا۔

"ہاں۔" نگاہیں تھیں کہ اٹھ ہی نہیں پا رہی تھیں۔

"تم نے اسے اپنا ہاتھ پکڑنے دیا۔" اس نے کہہ کر سختی سے لب بھینچ لیے۔ چہرے پر پھیلا کرب ناقابل بیاں تھا جس کے لیے الفاظ میسر نہیں تھے۔

"عمار۔"

"جو پوچھا ہے وہی بتاوُ۔" اس کے گڑگڑانے کو نظر انداز کرتا وہ سفاکی سے بولا۔

"ہاں۔" ہارے ہوےُ انداز میں کہہ کر مروہ نے سر گرا لیا۔

"تم نے اسے اپنے بہت قریب بیٹھنے دیا۔"

"عمار مجھے موقع تو دو اپنی۔"

"موقع ہی تو دیا تھا تمہیں۔ مگر تم نے پھر سے دھوکہ دے کر ثابت کر دیا کہ ایسا نہیں کرنا چائیے تھا۔" چہرے پر دکھ، افسوس، غیض اور نجانے کیا کیا نہ تھا۔ 

"جاوُ اپنے محبوب کے ساتھ اور دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔" اس نے انگلی اٹھا کر درشت لہجے میں اسے آخری تنبیہ کی۔

"میری مرضی شامل نہیں اس میں۔ اور اب مزید آپ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے مجھ پر۔" اس نے سلگتی نگاہوں سے دیکھتے ہوےُ چبا چبا کر جواب دیا۔

"تمہاری مرضی کسی نے پوچھی بھی نہیں ہے اس لیے بہتر ہوگا بھاگنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ مجھے اب سب صحیح کرنا ہے۔" وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرنے لگا۔

"یہی زور زبردستی کرنا آتا ہے نہ آپ کو بس؟ اتنا سب ہونے کے بعد بھی شرم نہیں آتی آپ کو؟ کیا انسان نہیں لگتی میں آپ کو؟ بھیڑ بکریوں کی مانند جہاں دل کیا باندھ دیا۔" آنکھوں میں سرخی لیے وہ مشتعل ہوئی۔

"کیا سزا ہے میری بتاوُ؟ وہی سب اپنے ساتھ کروں جو تمہارے ساتھ کیا؟" ندامت کے دلدل میں دھنس کر وہ چہرہ اوپر نہ اٹھا سکا۔

"اچھا۔۔۔ تو اس کے بعد آپ نے جو اتنا ظلم مجھ پر کیا وہ میں بھول جاوُں گی؟ ان زخموں کے نشان کہیں گم جائیں گے؟ میرے دل پر جو ضربیں آپ نے ہر روز لگائیں وہ ختم ہو جائیں گیں؟" وہ چیختی ہوئی اس کا گریبان پکڑ کر پے در پے سوال کرنے لگی۔ "میں معافی کے قابل تو نہیں ہوں مگر ایان میں تم سے دوری کا متحمل بھی نہیں۔ تم جو کہو گی میں کروں گا ایک بار آزما کے دیکھ لو۔" بمشکل آنکھیں اٹھا کر اس نے التجا کی۔ کہ اب التجا کے سواء کچھ تھا جو وہ کرتا؟

" ٹھیک ہے پھر وعدہ کریں مجھ سے۔ جو میں کہوں گی وہی کریں گے آپ۔" آنکھوں کی نمی بائیں ہاتھ کی پشت سے رگڑتی وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔

عیسی چند لمحے کچھ بول ہی نہ پایا۔ دل میں خدشے نے سر اٹھایا نجانے کیا وعدہ لینے والی ہے وہ؟ مگر چونکہ اب اسے ایان کو قائل کرنا تھا اس لیے حامی بھرنے لگا۔

"وعدہ کرتا ہوں تم جو کہو گی میں کروں گا۔" اس کا دائیں ہاتھ پکڑتا وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ایک لحظے میں ہی طے کر ڈالا۔

"ماموں اب یہ کیسے بولے گی چوری پکڑی گئی ہے نہ۔ میری بات پر اعتبار نہیں آپ کو بتائیں؟ میں کہہ تو رہا ہوں ایان میرے پاس آئی تھی رات میں۔"

اس کے الزام پر ایان ہق دق سی رہ گئی۔

"میں نے اسے زبردستی باہر بھیجا تھا۔ ایسی بات میں کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے خود اپنی عزت خراب کی ہے یہ تماشہ بنوا کر۔" اس نے بڑی سہولت سے اسے مجرم بنا دیا۔

"نہیں۔" ایان نے سرعت سے نفی کی۔

نثار چودھری کڑی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔

"نہیں ابو۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔" اسے مبادہ کسی نے سولی پر لا کھڑا کر دیا ہو۔ گردن مسلسل نفی میں حرکت کر رہی تھیں۔ آنکھیں جھلملانے لگی تھیں۔ 

"اچھا پھر بتاوُ کیا کِیا ہے میں نے؟ اگر تم سچی ہو تو بولتی کیوں نہیں؟" ولی کا انداز اکسانے والا تھا کہ اسے معلوم تھا وہ ایسی باتیں باپ اور بھائی کے سامنے بول ہی نہیں سکتی۔

"ابو یہ جھوٹ بول رہا ہے۔"

"تو پھر سچ تم بتا دو۔" اریبہ نے لقمہ دیا۔

"ایان بولتی کیوں نہیں ہو تم؟ کیا بات ہوئی تھی؟" نثار چودھری کا انداز کاٹ کھانے والا تھا۔

"آپ کو اپنی بیٹی پر یقین نہیں ہے ابو؟ جو بکواس اور بیہودگی اس نے کی ہے کیسے وہ بتا دے آپ کو؟" عمار ایان کو پیچھے کرتا خود ان کے مقابل آ گیا۔

"لو بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ جو سچا ہو وہ چپ نہیں رہتا جیسے کہ میرا بیٹا۔ اپنی آوارہ بیٹی کو سنبھالیں آپ لوگ میرے بیٹے کو الزام دینے سے پہلے۔ نجانے کیا کرتی تھی جو شوہر نے دوسری شادی کر لی۔" اریبہ نے جلتی آگ پر تیل چھڑکا۔ 

"آپ ان لوگوں کی بکواس سن رہے ہیں۔ اعتبار نہیں اپنی بیٹی۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔" یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا تو سر ہلاتا دو الٹے قدم اٹھانے لگا۔

"آپ کی بیٹی ہوتی تو آپ کو کوئی فرق پڑتا۔" حقارت سے کہا گیا جملہ انہیں اندر تک سلگا گیا۔

"اور بڑی بات ہے ویسے اپنے کرتوت تو چھپا گئے آپ۔ اپنی عشق معشوقی کے قصے بیٹے کو تو نہ سنائے آپ نے۔" وہ مصنوعی خفگی سے تمسخرانہ انداز میں بولا۔

"ایک ہی پیغام کئی بار آیا تھا۔ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں بس ایک بار۔"

مروہ تشویش زدہ سی لب کاٹنے لگی۔ 

"تم کیوں بضد ہو رہے ہو؟" اس نے بےچینی کے عالم میں میسج بھیجا۔

"اگر تم چاہتی ہو کہ میں ثنیہ سے شادی کر لوں تو میرے سامنے آ کر کہو یہ بات۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں راستہ بدلنے کے بعد لوگ کیسے دکھتے ہیں۔" اس کے لفظوں کا کرب محسوس کرتی وہ آنکھیں موند گئی۔ 

"زین عمار مجھے نہیں چھوڑے گا اور اس سے زیادہ لڑنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے کیونکہ اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔" اس نے بےبسی سے بھری نگاہ اسکرین پر ڈالی اور چہرہ اٹھا کر سرد آہ بھرنے لگی۔

"آخری بار ملنا ہے مجھے۔" پھر سے وہی ہٹ دھرم انداز۔

وہ دانت پیستی فون بند کرنے لگی۔ 

"کیوں مجھے مشکل میں ڈال رہے ہو؟ مجھے نہیں پتہ میرا دل کب باغی ہوا؟" وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں کہتی کب عمار کی جانب آئی اسے شاید خود بھی احساس نہیں ہوا۔

"میں شاید عمار کی موجودگی کی عادی ہو گئی ہوں۔ اس کی توجہ کی۔" اس نے اپنا دل ٹٹولتے ہوےُ مناسب جواب خود کو دینا چاہا۔

"محبت نہیں ہے یہ۔" تیزی سے اپنی سوچ کی نفی ہوئی تھی۔

"بس اس کے احسانات کے باعث ہے۔ جو مجھ پر اور میری فیملی پر اس نے کیے۔" مبہم سی آواز میں کہتے ہوےُ اس نے ہاتھ بڑھا کر عمار کے بال پیشانی سے ہٹاےُ اور بیڈ کے کنارے پر ہی بیٹھ گئی۔ 

"شاید دل مان چکا ہے کہ تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے مجھے۔" اس نے مصنوعی خفگی سے عمار کو گھورا۔

"شاید اس لیے کہ مجھے جاب دلوائی تم نے۔" اپنی بےربط باتیں اسے خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھیں بس جو منہ میں آ رہا تھا بولتی جا رہی تھی، شاید خود کو مطمئن کرنے کی سعی کر رہی تھی۔

"یہاں اکیلی اندر کیا کر رہی ہو؟" اس کی گہری نگاہیں سر تا پیر ایان کا جائزہ لے رہی تھیں۔ 

"ویسے ہی۔ آپ کو کوئی کام تھا؟" اس نے معدوم سی مزاحمت سے کلائی آزاد کروانی چاہی۔ 

"ماما مجھے ہمارے متعلق کچھ بتا رہی تھیں۔" اس نے کہہ کر ایک قدم ایان کی جانب بڑھایا تو فاصلے گھٹ گئے۔

"ہمارے متعلق؟" وہ غیر نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکتی زیر لب دہرانے لگی۔

"ہاں ہمارے متعلق۔ میرے خیال میں تو تم بھی وہیں تھیں جب ماما نے بات کی!" اس نے دھیرے سے کہتے ہوےُ ایان کے چہرے سے لٹ ہٹائی تو وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی۔

"جی میں وہیں تھی۔ پتہ ہے مجھے۔" وہ غیر آرام دہ ہوتی نگاہیں چرانے لگی۔ 

"رات میرے کمرے میں آنا۔ باتیں کریں گے۔"

"جی؟" اس کی بات پر ایان کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

"انڈرسٹینگ ہو جاےُ گی ہماری ایسے۔ روز رات دیر تک بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔" وہ مسکرایا مگر ایان مسکرا نہ سکی۔

"نہیں یہ عجیب ہے۔ ایسے رات میں آپ کے کمرے میں بیٹھنا۔" اس نے سرد مہری سے کہتے ہوےُ بلآخر اپنی بازو آزاد کروا لی۔

"اوہ کم آن۔ شادی ہونی ہے ہماری تو پھر کیا عجیب؟" اس نے ایان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی قریب کیا تو وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"شادی ہوئی نہیں ابھی۔ اور ولی میں ابھی بھی عیسی کے نکاح میں ہوں اس لیے فاصلہ رکھیں مجھ سے۔" اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنا چاہا جو چہرہ اس کے چہرے کے قریب لاےُ ہوےُ تھا۔

"تو کیا ہوا؟ اس کے ساتھ تو نہیں ہو نہ اب تم؟ تو مطلب ختم اس کا چیپٹر۔ مجھے ان روایتی باتوں سے فرق نہیں پڑتا اور تم بھی خود کو ایسی چیزوں سے نکال لو۔" ایان کو پیچھے ہوتے دیکھ اس کے چہرے پر ناگواری در آئی۔

"لیکن مجھے فرق پڑتا ہے۔ اور ابھی فلحال بھائی نے فیصلہ ملتوی کر دیا تھا تو آپ بھی انتظار کریں۔" 

"انتظار کر کے بھی ہم دونوں ساتھ ہی ہوں گے تو پھر ابھی سے کیا مسئلہ ہے؟" وہ زچ ہوا تھا اس کی تنگ نظری سے۔

"یہ لڑکی کون ہے عیسی؟" نثار صاحب کی بلند و بالا آواز پر وہ سرعت سے پلٹا۔

"تمہارے ساتھ بیٹھی کیا کر رہی ہے یہ لڑکی؟" انہیں کچھ غلط کا گمان ہوا تو تیزی سے اس کی جانب لپکے۔

"بیوی ہوں میں عیسی کی۔ کوئی مسئلہ ہے آپ کو؟" آمنہ بھی بل کھاتی کھڑی ہو گئی۔

"بیوی؟ تم نے دوسری شادی کر رکھی ہے؟ ایان کہاں ہے؟" وہ  عیسی کا گریبان پکڑتے آگ بگولہ ہو گئے اور ایک مکا اس کے منہ پر دے مارا۔ 

"مجھے وضاحت کا موقع دیں۔" عیسی حواس باختہ سا التجائیہ انداز میں بولا۔

"بلاوُ ایان کو۔ کہاں ہے ایان؟" وہ اسے شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوےُ حلق کے بل چلاےُ۔

ڈرائینگ روم کا دروازہ کھلا تھا تبھی ایان ان کی آواز سن کر باہر کو دوڑی۔

"میں بتاتا ہوں آپ کو۔۔۔۔" اس نے اپنا گریبان آزاد کروانا چاہا۔

"تم جیسے دھوکے باز لوگوں کو دیکھ لوں گا میں۔ وہ احتشام نظر تو آےُ مجھے دیکھنا کیا حشر کرتا ہوں اس کا۔" ایان پر نگاہ پڑی تو جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ دیا۔

"ابو یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟" وہ متحیر سی آگے بڑھنے لگی۔

"اس خبیث نے دوسری شادی کر رکھی ہے؟ اور تم نے کسی کو بتانا بھی گوارا سمجھا؟" وہ الٹا اس پر برس پڑے۔

"کیا بتاتی میں آپ کو؟" وہ سرد آہ بھرتی چہرہ جھکا گئی۔

"آیا تو میں تمہیں لینے ہی تھا مگر یہاں ایک اور مضبوط جواز مل گیا۔ چلو حویلی میرے ساتھ کوئی ضرورت نہیں ایسے گھٹیا انسان کے ساتھ رہنے کی۔" وہ اس کی بازو پکڑتے ایک قہر آلود نگاہ عیسی پر ڈال کر بولے۔

"انکل میری بات سنیں آپ۔ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔" اسے سب الٹ پلٹ ہوتا دکھائی دیا تو بوکھلا کر آگے بڑھا۔

"اب بتاوُ کیا چاہتی ہو تم؟ مجھے بس ایک موقع دو ایان تمہارے سارے گلے شکوے دور کر دوں گا۔ جو بھی ہوا وہ انجانے میں ہوا۔" اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا وہ التجائیہ انداز میں بولا۔

"اور اگر آپ کو علم نہ ہوتا کہ میں نثار چودھری کی بیٹی نہیں پھر؟ بات تو یہ ہے کہ آپ نے مجھے سزا دی بھلے وہ میرے باپ کا قصور تھا یا کسی اور کا۔ آپ نے مجھے سزا دینے کے لیے اپنی زندگی کا حصہ بنایا تو پھر اب میں کیوں آپ کے ساتھ رہوں؟ اتنی ارزاں ہوں میں؟" اس نے ہاتھ کھینچ کر فاصلہ بڑھایا۔ آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی جو اس کے کرب، اس کی اذیت کی داستاں سنا رہی تھی۔

عیسی کی ندامت کا گڑھا مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ کہ وہ کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی۔ وہ نگاہیں چراتا الفاظ تلاش کرنے لگا۔

"میں کیوں اس لڑکی کو طلاق دلواوُں؟ کیوں اس سے بد دعائیں لوں میں؟ بھلے آپ نے سبین کی خاطر کیا یہ سب مگر ہوا تو میرے ساتھ ہے نہ۔ ایک بھی بار آپ کو مجھ پر ترس نہیں آیا۔ رحم کا ایک قطرہ آپ کے دل پر نہیں گرا تو پھر کیسا لگاوُ مجھ سے؟ جنہیں محبت ہو انہیں ایسے تکلیف میں تو دیکھ ہی نہیں سکتا انسان۔ پھر آپ کس باعث مجھے روکنا چاہتے ہیں؟" پے در پے سوال کرتی وہ اس کے لیے مشکل کھڑی کرنے لگی۔

"میں مجبور تھا ایان۔ سبین نے وعدہ لیا تھا مجھ سے اور چاچو سے کہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک نثار چودھری کی بیٹی سے انتقام لے گا۔ وہ دوسری شادی بھی مجھے اسی لیے کرنا پڑی ورنہ میری کوئی دلچسپی نہیں تھی آمنہ میں۔" اس کی آنکھوں میں کھو دینے کا خوف تیر رہا تھا، اس کے دور ہو جانے کے خدشے ڈول رہے تھے جن کا سد باب وہ یہاں بیٹھا کر رہا تھا۔

"اب آپ کچھ بھی کہیں۔ مجھے بھی فرق نہیں پڑتا کسی بات سے بھی۔"

"ہم گھر چل کر اس موضوع پر بات کریں گے آرام سے۔ یہ بھی اگر تم میری بات مان لیتی تو یوں حادثے کی نذر نہ ہوتی تم۔" وہ مصنوعی خفگی سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔

"مجھے اپنے گھر جانا ہے اب۔ عمار بھائی کے ساتھ۔" اس نے لہجے کو مضبوط بنایا البتہ نقاہت کے باعث آواز کچھ مدھم تھی۔

"ڈاکٹر شاید کل رات تک تمہیں ڈسچارج کر دیں اور اس کے بعد تم میرے ساتھ چلو گی اپنے سسرال۔" اس نے چبا چبا کر حکم صادر کیا ایان کا باغی انداز اسے ناگوار گزر رہا تھا۔

"نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ۔ ایک بار کہا سمجھ نہیں آتا؟" آنکھوں میں شعلے لیے وہ اسے دیکھنے لگی۔

"اور مجھے تمہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا ہے۔ بھلے تمہاری مرضی شامل ہو اس میں یا نہیں۔" وہ اس پر جھکا، بازو پر گرفت لاشعوری طور پر مضبوط ہو گئی تو ایان کے چہرے پر تلخی در آئی۔

"یہی سب کرنے کے لیے واپس لے جانا ہے نہ آپ نے؟ مگر آپ بھی سن لیں اب ایان چودھری آپ کے گھر نہیں جاےُ گی کیونکہ میں ابھی بھائی کو سب بتا دوں گی۔" اس نے بائیں ہاتھ کو اٹھا کر اس کا ہاتھ پرے کیا اور دھمکی آمیز انداز میں بولی۔

"یہ سب تمہیں گھر جا کر بتاوُں گا میں۔ اور اگر تم نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو قسم سے ایسی جگہ لے جاوُں گا کہ پھر اپنے گھر والوں کی شکل نہیں دیکھ سکو گی کبھی۔" چہرے پر پتھریلے تاثرات لیے اس نے مٹھی سختی سے بھینچ لی۔ وہ اس کا صبر آزما رہی تھی۔

عیسی نے شاور بند کیا اور پاوُں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اسے کانپتے دیکھ عیسی نے دونوں بازو سے پکڑ کر اسے کھڑے کرنا چاہا مگر اس کے اعضا تو جیسے اپنی جگہ پر جم چکے تھے۔

وہ چہرے پر تکلیف کے آثار لیے ساتھ ہی واپس بیٹھ گئی۔

آنکھیں بھاری ہونے لگیں تو اس کے لیے انہیں کھلی رکھنا ناممکن ہونے لگا۔

عیسی نے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور کمرے میں لے آیا۔

بیڈ پر لٹاتے ہی ایان کی آنکھیں بن ہو گئیں۔

"ایان آنکھیں کھولو۔" اس کا چہرہ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی نے نیلی سیاہی گھول دی ہو۔ اس نے کمبل اس پر اوڑھتے ہوےُ ایان کا چہرہ تھپتھپایا تو وہ تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھولنے لگی۔

کمرے میں انورٹر اے سی نے خوب گرمائش کر رکھی تھی مگر جو رگیں اس کی اس یخ بستہ پانی نے جمائی تھیں اس کے لیے یہ گرمائش بھی ناکافی معلوم ہو رہی تھی۔

اس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ دیکھ وہ اس کے پاس بیٹھنے لگا۔

"اس وقت میں ڈاکٹر کو تو نہیں بلا سکتا۔" وہ بیڈ کراوُن سے ٹیک لگاتا اسے اپنے حصار میں لینے لگا۔

ایان کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ نجانے کیوں اس لمحے اس کے پتھر دل کی سِل ٹوٹ گئی اور اسے اس معصوم پر رحم آنے لگا۔ 

وہ اس کی پست سہلاتا اسے اپنے سینے سے لگاےُ اپنے وجود کی گرمائش دے رہا تھا۔ 

"ایان جاگ رہی ہو تم؟" اس کے ہاتھ ساکت ہو گئے تو عیسی کو خدشہ لاحق ہوا۔

"ج۔جی۔" سرگوشی بمشکل اس کی سماعت تک رسائی حاصل کر سکی۔ 

"تمہارے پاس ہی ہوں میں۔" اس کے برفیلے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا وہ اس کے سر پر بوسہ دینے لگا مگر وہ تو جیسے نیم بےہوش تھی۔

"میں حقدار نہیں تھی اس سب کی مگر پھر بھی برداشت کر گئی۔ آپ کو آپ کی زندگی مبارک اپنی اس بیوی کے ساتھ۔" آنکھوں میں اشک لیے وہ آخری نگاہ اس کے چہرے پر ڈالتی جھکی اور بیگ کی زپ بند کرنے لگی۔

وہ جیسے ابھی تک اسی بےیقینی اور کشمکش کے بھنور میں پھنسا تھا کہ آخر ہوا کیا؟

"خدا حافظ عیسی۔" بیگ پکڑتے ہوےُ اس نے کہا اور سائیڈ سے ہو کر آگے نکل گئی۔

"نہ۔۔نہیں ایان میری بات سنو۔" اس کی روانگی کا احساس ہوا تو وہ جیسے ہوش میں آیا اور تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔

"تم نہیں جاوُ گی یہاں سے۔"

"اگر آپ کے دل میں خدا کا ذرا سا بھی خوف ہے تو آپ مجھے نہیں روکیں گے اب۔" نجانے وہ اذیت کے کس دہانے پر کھڑی تھی کہ آج اس سے علیحدگی کا پروانہ جاری کر گئی۔

"مجھے اپنی بات کہنے کا ایک موقع تو دو۔" وہ جو حکم چلاتا تھا آج مِنت پر اتر آیا۔

"میں سب جان چکی ہوں عیسی۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے؟ یہ میرے ہاتھ جوڑے ہیں آپ کے سامنے۔ جانے دیں مجھے۔" وہ پہلی بار اس کے سامنے چلائی تھی۔ دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑتی وہ اسے متحیر سا کر گئی۔ 

"دیکھو جو بھی ہوا۔"

"مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔ ان چھ ماہ میں آپ نے اتنے زخم دئیے ہیں مجھے کہ انہیں مندمل ہونے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔" درشت لہجے میں اس کی بات کاٹتی وہ اس کی بازو ہٹا کر تیزی سے کمرے سے نکلی البتہ آنسو رخسار پر آ گرے تھے۔ 

ایان ہونق زدہ سی صفحے پلٹنے لگی مگر آگے کچھ بھی نہیں تھا خالی صفحوں کے علاوہ۔

"میرے بال۔" وہ متوحش سی اپنے سر پر ہاتھ رکھنے لگی۔

"آگے کیوں کچھ نہیں ہے؟ اس کے بعد کیا؟ کیا ہوا سبین کے ساتھ کے اسے کمرے میں لاک کر دیا؟ میرے ساتھ کیا ہوگا اس کے بعد؟" وہ دیوانوں کی مانند صفحے پلٹتی آخری بات بڑی آہستہ سے بولی۔ 

ڈائری ہاتھ سے چھوٹ گئی اور چہرے پر فکر ڈولنے لگی۔

"کیا عیسی مجھے بھی ایسے لاک کر دیں گے کمرے میں ہمیشہ کے لیے؟" جس طرح وہ اس کے ساتھ چل رہا تھا اس نے یہی قیاس آرائی کی۔

"سبین کو ایسا نہیں کرنا چائیے تھا۔ کوئی اپنے آپ کو کیسے اتنی۔۔۔ کیسے اتنا ظلم کر سکتا ہے کوئی خود پر؟" وہ لب کاٹتی سامنے دروازے کو دیکھنے لگی۔ 

"اسی لیے آپ کا چہرہ اتنا بےرونق تھا۔" اسے مردہ حالت میں دیکھا گیا سبین کا چہرہ یاد آ گیا۔

"وہ میں نہ۔۔۔۔" وہ جو اپنی صفائی پیش کرنے لگی تھی اس کے حملے پر چیخنے لگی۔ عیسی نے وہی گرم استری ایان کے منہ پر رکھ دی۔ بائیں ہاتھ سے اس کی بازو مضبوطی سے تھامے بےتاثر چہرہ لیے اس کا چہرہ داغدار کرنے لگا۔

"عیسی!" وہ کبھی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارتی تو کبھی اس کے چہرے پر۔

"آ۔۔۔آپ کو۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے۔" اسے اپنی دھڑکن مدھم ہوتی محسوس ہوئی، سانس کی ڈور کمزور ہونے لگی تو عیسی نے استری واپس اسٹینڈ پر رکھ دی۔

"آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔" وہ آہستہ سے سسکی۔ ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ ناک اور پیشانی پر دیکھتے ہی دیکھتے چھالے بن گئے۔

آنکھیں تکلیف کی شدت سے سرخ انگارہ ہونے لگیں۔

"عیسی!" اس نے تڑپ کر اسے دیکھا۔ سارا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا ایسا گمان ہو رہا تھا موت کا منہ دیکھ کر آئی ہو۔ چہرے کے ساتھ ساتھ دل بھی جل رہا تھا۔

"آئیندہ تمیز سے کام کرنا۔" اپنے اسی مخصوص لہجے میں کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

"امی۔ آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔" اس نے چھو کر محسوس کرنا چاہا تو آنکھوں سے اشک روانہ ہو گئے۔

"نہیں۔" ہر سو تکلیف ہی تکلیف تھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتی مرے مرے قدم اٹھانے لگی۔ ہچکیاں لیتی ایان کمرے میں آئی تو سیدھا ڈریسنگ کا رخ کیا۔

جلن کا احساس شدت سے اسے اپنی پلیٹ میں لے رہا تھا۔

"ہاےُ۔" اپنا عکس آئینے میں دیکھتے ہوےُ اس نے آہ بھری۔

"بس۔ بس ہو۔۔۔ہو گئی میری۔" وہ سسکیاں لیتی زمین پر بیٹھ گئی۔

جونہی اس نے کھولا پہلا صفحہ دکھائی دیا جس پر چند حروف لکھے تھے۔

"ثانی۔" ایان نے اس بڑے سے حرف کو زیر لب دہرایا۔

"میری زندگی کا واحد روگ۔" اس کے نیچے لکھی تحریر کو پڑھتے ہوےُ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"ثانی کون؟ یہ ڈائری سبین کی تو نہیں؟" اس نے الجھتے ہوےُ دروازے کو گھورا۔ 

"میرا انتقام۔ میری اپنی ذات سے۔" اگلہ صفحہ پلٹ کر اس نے دوسری تحریر کو پڑھا۔

ایان وہیں زمین پر بیٹھ کر الماری سے ٹیک لگانے لگی۔ دروازہ لاک تھا اس لیے وہ مطمئن سی اگلا صفحہ پلٹنے لگی۔ 

"یہ سانس زہر کی مانند لگ رہی ہے مجھے۔ بس اور میں برداشت نہیں کر سکتی۔" نگاہیں سامنے رکھے فروٹ پر تھیں۔

کچن میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر چھری اٹھا لی۔

چہرے پر بےرحم سی مسکراہٹ رینگ گئی۔

اس نے بائیں آستین اوپر کی اور بڑی سفاکی سے ایک کے بعد دوسرا وار کرنے لگی۔ سفید رنگ کی ٹائلز پر سرخ خون کے قطرے جگمگانے لگے۔

چار جگہ سے وہ اپنی بازو کو زخم تحفے کی صورت میں دے چکی تھی۔ سبین کے چہرے پر آسودہ سی مسکرایٹ تھی۔

"اب جان چھوٹ جاےُ گی میری۔" اس نے کلائی پر چھری رکھی ہی تھی کہ جیرو نے نیچے سے ہاتھ مار کر چھری کو اچھال دیا۔

"سیبن باجی کیا کر رہی ہیں آپ؟" اس نے سبین کی بائیں بازو پکڑتے ہوےُ دکھ بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔

صفحے پر لکھے لفظ ختم ہوےُ تو ایان ساکت سی ہو گئی۔

"پورے چار کٹ ہونے چائیے۔" دور کہیں عیسی کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔

"تو اس لیے انہوں نے مجھ سے یہ کام کروایا؟" وہ سوال کرتی صفحے آگے کرنے لگی جو خالی تھے۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tu Dua Sa Lagy  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tu Dua Sa Lagy written by Hamna Tanveer  .Tu Dua Sa Lagy by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment