Pages

Wednesday 29 May 2024

Sonhra Angan By Zumar Ansari Complete Urdu Novel Story

Sonhra Angan By Zumar Ansari Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Sonhra Angan By Zumar Ansari Complete Novel Story 

Novel Name :Sonhra Angan
 Writer Name : Zumar Ansari

New Upcoming :  Complete 

یہ منظر خان ولا کا ہے جہاں شاہ عالم خانزادہ اپنی بیوی آفیہ خانزادہ بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ ناشتہ کی میز پر موجود ہیں

ناشتہ کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کاموں چلے گئے اور شاہ عالم اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ زمینوں پر چلے گئے

شاہ عالم کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں

سب سے بڑے بیٹے جہانگیر خانزادہ جن کی شادی ان کی خالہ زاد فردوس بیگم سے ہوئی تھی ان کی دو بیٹیاں عائشہ اور پلوشہ خانزادہ ہیں 

ان سے چھوٹے جہانزیب خانزادہ ہیں جن کی شادی ان کی چچا زاد نازیہ خانزادہ سے ہوئی ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں پہلے دو بیٹے مراد اور قاسم پھر ایک بیٹی نورالعین پھر ایک بیٹا اسماعیل اور پھر دو بیٹیاں حورعین اور قرۃالعین ہیں

ان سے چھوٹی فرخندہ بیگم ہیں جن کی شادی ان کے پھپھو زاد زاہد صاحب سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا فراز اور دو بیٹیاں رمل اور نمل ہیں

ان کے بعد سلطان احمد خانزادہ ہیں جنہوں نے اپنی پسند سے شادی کی ہے جس کی وجہ سے ان کو خان ویلا میں داخلے کی اجازت نہیں 

ان سے چھوٹی فرحانہ بیگم ہیں جن کی شادی ان کے ماموں زاد ناصر صاحب سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا زمل اور ایک بیٹی ساریہ خانزادہ ہے 

شاہ عالم خانزادہ ایک نہایت سخت اور اصول پسند انسان ہیں وہ اپنے اصولوں پر کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی برداشت نہیں کرتے

ان کے اصول نامہ کے 14 نکات ہیں جس نے خان ولا کے ہر مکین کے 14 طبق روشن کئے ہوئے ہیں کیونکہ یہ قائد اعظم کے 14 نکات سے یکسر مختلف ہیں 

1 گھر میں انٹرنیٹ اور ٹی وی کا استعمال سختی سے منع ہے

2 رات دس بجے کے بعد کسی کو بھی جاگنے کی اجازت نہیں 

3 لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا سختی سے منع ہے 

4 گھر کے ہر فرد پر خالص مشرقی لباس لازم قرار دیا گیا ہے 

5 لڑکوں اور لڑکیوں کا آپس میں گھلنا ملنا منع ہے 

6 گھر میں کسی کو بھی اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے 

7 صبح 5:00 تک خان ولا کے ہر فرد پر جاگنا لازم قرار دیا گیا ہے

8 کچن لڑکیوں کی ذمہ داری ہے چنانچہ کسی ملازم کو کچن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں 

9 لڑکوں کو خاندانی بزنس کے علاوہ کسی بھی فیلڈ میں جانے کی اجازت نہیں 

10 بڑوں کے فیصلوں میں بچوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے 

11 گھر کی لڑکیوں کو پڑھائی کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے

12 گھر کے لڑکوں کو بیرون ملک جا کر پڑھنے کی اجازت نہیں

13 گھر کا ہر فیصلہ آغا جان کی مرضی سے ہوتا ہے کسی کو ان کے فیصلے میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے 

14 خاندان سے باہر کی اجازت نہیں ہے 

ان نکات کی روشنی میں آغا جان نے ہر مکین کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ بہت جلد اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے نکات کا قتل کرنے والے ہیں 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

پشاور کے اس وسیع گاؤں سے دور اسلام آباد کے ڈیفینس کے علاقے میں موجود خوبصورت سلطان پیلس کے کچن میں ناشتہ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی 

12 بجنے والے ہیں اور گھر میں بلکل سکون ہے جو کہ اس بات کی علامت ہیں کہ گھر کی آفتیں ابھی تک سوئیں ہوئی ہیں

کچن میں فاطمہ بیگم ملازمین کے ساتھ ناشتہ بنانے میں مصروف ہیں

جبکہ ڈائننگ حال میں بیٹھے سلطان خانزادہ سکون سے اخبار پڑھ رہے ہیں کیونکہ ناشتہ تب تک نہیں ملنا جب تک کہ سلطان پیلس کے فتنے جاگ نہیں جاتے

ان کے دائیں جانب ان کے دوسرے اور تیسرے نمبر والے بیٹے شازم خانزادہ اور شہیر بھوک سے بے حال بار بار کبھی سیڑھیوں کی جانب دیکھ رہے ہیں اور کبھی سربراہی نشست پر بیٹھے اپنے باپ کو جو اپنی آفتوں کے بغیر کھانا تو دور ایک گلاس پانی پانی بھی نہیں پیتے ہیں

ٹھیک 12:01 پر اوپری منزل سے کھٹ پٹ کی آوازیں آنا شروع ہوگئی جسے سن کر سلطان خانزادہ مسکرا دیے کیونکہ یہ اس بات کی واضع علامت ہے کہ ان کے فتنے اب جاگ گئے ہیں اور سلطان پیلس کا سکون اب غارت ہونے والا ہے

ٹھیک 12:08 پر ایک زوردار چیخ کی آواز سنائی دی جو کہ کسی اور کی نہیں بلکہ سلطان پیلس کی ایک لوتی شہزادی زرش خانزادہ کی ہے

اسی کے ساتھ سلطان پیلس کے سب سے چھوٹے نواب بازل خانزادہ کی سیڑھیاں اترنے کی آواز آئی جس کے پیچھے زرش اپنے ایک ہاتھ میں ہئیر ڈرائیر اور دوسرے میں ہیل پکڑے آ رہی تھی

دفعتاً اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہیل زور سے بازل کی جانب پھینکی جو کہ اس کے بوقت نیچے ہونے سے سامنے سے آتے ملازم کے ہاتھوں میں موجود ٹرے پر لگی اور ٹرے زمین بوس ہو گیا

شور کی آواز پر فاطمہ بیگم کچن سے باہر آئی گھر کی ایسی حالت دیکھ کر انہیں ایک لمحہ لگا سمجھنے میں اور اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنا ایک جوتا بازل کی جانب اچھالا جو کہ اس کی کمر میں جا لگا اور درد بلبلا اٹھا

فاطمہ بیگم نے دوسرے ہاتھ میں پکڑاجوتا زریش کی طرف پھینکا جو کہ اس کے بروقت نیچے ہونے سے سامنے سے آتے 28 سالہ حائم کے سر پر لگا 

جوتا کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ حائم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ وہی ریلنگ کو پکڑتے ہوئے بیٹھ گیا 

شور کی آواز سنتے ہوئے سلطان صاحب شازل اور شہیر بھی  صحن میں آگئے

صورتحال سمجھتے ہی سلطان پیلس سلطان صاحب اور ان کے چار چھوٹے شہزادوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا انہیں قہقہوں کے درمیان بازل اور زریش نے زوردار نعرہ لگایا 

                                773

جو کہ کسی بس کی سیٹ کا نمبر نہیں بلکہ ان جوتوں کی تعداد ہے جو کہ بچپن سے حائم نے اپنی والدہ کے خراب نشانے اور اپنی بہن کی اچھی قسمت کے باعث کھائے تھے

ماما! حائم کی افسوس بھری آواز سن کر فاطمہ بیگم سوچ میں پڑ گئی کہ وہ ہنسیں پریشان ہوں یا غصہ کریں

ہاہاہاہاہاہا لالہ اٹھیں زریش نے ہنس کر حائم کو اٹھایا 

ویسے بیگم حائم تو فضول میں ہی آپ کے تشدد کی زد میں آ گیا سلطان صاحب نے ہنستے ہوئے فاطمہ بیگم سے کہا جو کہ اب غصے سے بازل اور زریش کو دیکھ رہی تھیں 

ویسے ماما میں نے کیا کیا؟ حائم نے دکھ سے پوچھا یقیناً حملہ بہت تیز اور زبردست تھا 

بیٹا میں نے تمہیں نہیں مارا میں نے تو زری کو مارا تھا پر اس جوتے کو تو اس سے اللہ واسطے کا بیر ہے جو کبھی اس کو لگتا ہی نہیں فاطمہ بیگم نے دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثر سے کہا 

ہاں ماما آپ کے جوتی کو زری سے بیر ہے اور حائم لالہ سے عشق ہے جو ہر با ان کے گلے لگتی ہے شہیر نے ہنستے ہوئے کہا اور وہا موجود سبھی لوگ ہنس دئے یہی تو گھر کا معمول تھا دن کا آغاز ایسے ہی ہوتا تھا

یہ تھا سلطان احمد خانزادہ کا چھوٹا سا گھرانہ جہاں وہ اپنی بیوی فاطمہ بیگم چار بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتے تھے 

ان کا سب سے بڑا بیٹا 28 سالہ حائم خانزادہ جو کہ ایک کامیاب وکیل ہے 

اس سے ایک سال چھوٹا 27 سالہ شازل خانزادہ جو کہ  ایس پی کے عہدے پر فائز ہے

اس سے دو سال چھوٹا 25 سالہ شہیر خانزادہ جس نے  بیرون ملک سے انجینئر کی ڈگری حاصل کی ہے

اس سے دو سال چھوٹا 23 سالہ بازل خانزادہ جو کہ ایک مشہور اینکر پرسن ہے 

اس کے بعد گھر کی لاڈلی پری 21 سالہ زریش خانزادہ جو کہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے

سلطان صاحب خود ایک کامیاب بزنس مین ہیں لیکن ان کی سب اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور ماں باپ کے لیے باعث فخر ہے 

ویسے زری تم چیخی کیوں؟ شازل نے ہنس کر پوچھا 

وہ شازی لالہ اس بازی کمینے نے میری باتھ روم کی سلیپ پر چھپکلی رکھ دی تھی جیسے دیکھ کر میں ڈر گئی اور جو کچھ بھی میرے ہاتھ آیا میں نے پکڑ کر چھپکلی پر حملہ کر دیا پر میں ٹہری ماما کی بیٹی چھپکلی کا تو کچھ نہ بگڑا پر ایک پرفیوم کی بوتل نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے بالکونی میں پڑے گملے کو لگی جو سیدھا جا کر نیچے کھڑے گارڈ کے سر پر لگا جو بیچارہ تب سے بےہوش پڑا ہے بس اور تو کچھ نہیں ہوا 

نہایت معصومیت سے جواب دے کر وہ وہاں موجود حائم کو ہنسنے فاطمہ بیگم کو غصہ دلانے اور باقی سب کو حیران ہونے پر مجبور کر گئی جو اتنے سب کو صرف بس کہہ رہی تھی 

بیڑا غرق ہو تمہارا زری کب عقل آئے گی تمہیں؟ فاطمہ بیگم نے غصے سے پوچھا 

قیادت والے دن! جواب بازل نے دیا 

تم کیوں بول رہے ہو؟ فاطمہ بیگم نے غصے سے ٹوکا 

اس کا بولنا تو ضروری ہے شہیر ہے فوراً جواب دیا 

او تمہارا بولنا کیا ہے؟ فاطمہ بیگم نے طنزیہ پوچھا 

اس کا بولنا تو لازم ہے جواب شازل نے دیا

اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ فاطمہ بیگم نے دانت پیس کر کہا 

اس کا بولنا تو فرض ہے اس با جواب حائم نے دیا 

تم خاموش نہیں رہ سکتے؟ فاطمہ بیگم غصے سے تقریباً چیخی 

ارے نہیں اس کا بولنا تو............ آ نہیں میں تو چپ ہوں سلطان صاحب مزے سے کچھ کہنے والے تھے جب فاطمہ بیگم کی گھوری محسوس کر کہ ہربرا کر منہ پر انگلی رکھ کر خاموش ہو گئے

ہاہاہا اسے کہتے ہیں بیگم پاور زریش قہقہہ لگا کر کہا اور باری باری سب ہی ہنستے ہوئے ڈائننگ ہال کی جانب چل دیئے جہاں ناشتہ ان کا منتظر تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

یہ منظر خان ولا کا ہے جہاں اس وقت رات کا کھانا کھایا جا رہا تھا وسیع میز طرح طرح کے لوازمات سے سجی ہوئی تھی  سربراہی کرسی  پر شاہ عالم جنہیں گھر کے سب لوگ آغا جان کہتے ہیں پوری شان سے بیٹھے تھے ان کے دائیں جانب جہانگیر صاحب جبکہ بائیں جانب جہانزیب صاحب بیٹھے تھے جبکہ جہانزیب صاحب کے ساتھ والی کرسی خالی تھی جو کہ پیچھلے 30 سال سے خالی تھی یہ کرسی گھر کے سب سے لاڈلے فرد سلطان احمد خانزادہ کی تھی جن کو اپنی ایک من مانی کی وجہ سے خان ولا سے بےدخل کر دیا گیا تھا وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خاندان سے باہر اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا جو کہ ان کے بابا کے اصولوں کے سخت خلاف تھا

اس ایک من مانی کی وجہ سے آغا جان کے حکم پر خان ولا کے سب مکینوں نے پیچھلے 30 سال سے سلطان صاحب کے ساتھ قطع تعلقی اختیار کی ہوئی تھی سلطان صاحب اور فاطمہ بیگم کئی بار معافی مانگنے آئے پر انہیں دروازے سے ہی واپس لوٹا دیا گیا 

خان صاحب آخر اور کتنے سال ہم اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترسیں گے بی جان نے نم لہجے میں کہا جیسے سن کر وہاں موجود ہر شخص اداس ہو گیا 

ہم نے کتنی بار کہا ہے کہ اس کا ذکر ہمارے سامنے مت کیا کریں آغا جان غصے سے گرجے

آخر کب تک ذکر نہ کریں آغا جان 30 سال سے ہم نے سلطان کی کوئی خبر نہیں لی کیسا ہے کس حال میں ہے جہانگیر صاحب دکھ سے بولے 

آغا جان اب بس کرنی چاہیے یہ نہ ہو کہ جیتنے جی ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھ پائیں اور پھر ساری زندگی پچھتاوے میں گزر جائے جہانزیب صاحب نے بھی بڑے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی

آغا جان اب بس کر دیں معاف کر دیں اسے وہ تو ناداں ہے آپ تو سمجھدار ہیں اس با فرخندہ بیگم بولیں ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ خان ولا میں ہی رہتی تھیں 

اس نے ہماری نافرمانی کی ہے آغا جان پھر غصے سے بولے پر اس با ان کی آواز میں پہلے والی گرج نہیں تھی یقیناً وہ بھی بیٹے کی جدائی بامشکل سہ رہے تھے بہت  30 سال بہت لمبی سزا ہوتی ہے خان صاحب بی جان نے روتے ہوئے کہااس دوران بچے سارے خاموش تھے کیونکہ ان کو بڑوں کے معاملات میں بولنے کی اجازت نہ تھی سب کی باتیں سننے کے بعد آغا جان غصے سے اٹھ کر چلے گئے کمرے میں پہنچ کر وہ کرسی پر ڈھ گئے ان کی آنکھوں نم تھی اور ان کے سامنے وہ منظر لہرا رہا تھا جب انہوں نے اپنے سب سے لاڈلے بیٹے کو خان ولا سے باہر نکالا تھا اچانک ان کی نظر سامنے موجود تصور پر پڑی جس میں آغا جان کے ساتھ کھڑے 20 سالہ سلطان صاحب مسکرا رہے تھے صبح فجر تک آغا جان اس تصویر کو دیکھتے رہے پھر وہ ایک فیصلہ کر کے اٹھے

جہانگیر تم اور مراد آج کام پر مت جاؤ بلکہ اس احمق کا پتہ کرو کہاں ہوتا ہے آج کل آغاجان ہے ناشتہ کرتے ہوئے مصروف سے اندر میں کہا 

کون؟ کس کی با کر رہے ہیں آغا جان جہانگیر صاحب نے ناسمجھی سے پوچھا باقی سب بھی اب توجہ سے سن رہے تھے 

سلطان کی بات کر رہا ہوں اور کون پتہ کرو آج کل کہاں ہوتا ہے پھر میں اور تمہاری بی جان جا کر اسے لے آئیں

وہ تو یہاں سے جا کر بھول ہی بیٹھا ہے کہ اس کے بوڑھے ماں باپ بھی ہیں آغا جان نے عام سے انداز میں کہا 

سچ خان صاحب؟ بی جا خوشی سے چہکیں باقی سب بھی خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثر سے گفتگو سن رہے تھے 

ہون!!!! آغاجان نے ہنکارا بھرا

جی آغاجان میں آج ہی پتہ کرتا ہوں جہانگیر صاحب خوش سے کہتے ہوئے گئے ان پیچھے 

 باقی مرد بھی روانہ ہو گئے اور ساری خواتین کچن میں جمع ہو گئیں

کیا سچ میں آغاجان سلطان اور فاطمہ کو لے آئیں گے؟ فردوس بیگم نے جوش سے پوچھا 

اور نہیں تو کیا بھابھی آپ نے سنا نہیں آغاجان نے کیا کہا فرخندہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے کہا 

ویسے بڑی پھپھو چچا جان کے کتنے بچے ہیں؟ نورالعین نے تجسس سے پوچھا 

بھئی یہ تو مجھے نہیں پتہ میں نے تو ایک کی پیدائش کا سنا تھا وہ بھی خیر سے 28 سال پرانی بات ہے فرخندہ بیگم نے جواب دیا 

اب باتیں ہی کرتی رو گی یا کوئی کام بھی کرو گئی وہ لوگ آج کل میں آ جائیں گے کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے بی جان سب کو حکم کر کے چلی گئیں پیچھے سب خواتین تیزی سے کاموں میں لگ گئیں 

❤️❤️❤️❤️

حائم کمرہ عدالت میں بیٹھا مخالفت وکیل کے دلایل سن تھا دفعتاً اس کا موبائل وائبریٹ کیا جج نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا جس پر وہ شرمندہ ہوتا موبائل نکال کر دیکھنے لگا little fairy کا لنک دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی پر کمرہ عدالت کی وجہ سے اس نے کال کٹ کر دی اور کاروائی دیکھنے لگا تھوڑی دیر میں میسج کی پیپ ہوئی جج کی مسلسل گھوریوں کو دیکھتے ہوئے اس نے میسج اوپن کیا

لالہ اگر اگلے 15 منٹ تک مال نہ پہنچے تو میں بتا رہی ہوں کہ میں نے بازی اور شہری کی زبانوں کا آپریشن کر دینا ہے زریش کا میسج پڑھ کر وہ جلدی سے کاروائی کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا اگلے دس منٹ بعد وہ انگلی تاریخ لے کر باہر آیا جلدی سے پارکنگ ایریا میں آ کر اس نے اپنی گاڑی نکالی اور اگلے پانچ منٹ میں وہ مال پہنچ چکا تھا

زریش نے اسے فون پر ہی بتا دیا تھا کہ وہ دوسری منزل پر ہیں اس لیے وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرا  oh I am sorry حائم نہ معافی مانگتے ہوئے نیچے گرے شاپنگ بیگ اٹھا کر اس لڑکی کی جانب بڑھائے جو کسی ٹرانس کی کیفیت میں اپنے سامنے کھڑے اس نیلی آنکھوں والے شخص کو دیکھا جو کہ وکیلوں کے مخصوص کالے کوٹ میں بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا

Sorry میں نے آپ کو دیکھا نہیں

حائم کے دوبارہ معافی مانگنے پر جیسے وہ ہوش میں آئی

کوئی بات نہیں میرا بھی دھیان نہیں تھا اس نے حائم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا اور ہولے سے بیگ تھامے

حائم لالہ کیا آج ادھر قیام کریں گے یا اوپر آنے کی بھی ضہمت کریں گے اوپری منزل پر کھڑی زریش کی آواز سن کر حائم آگے بڑھ گیا جبکہ وہ لڑکی اب بھی دور جاتے اس شخص کی پشت کو تک رہی تھی

جاناں چلیں نازلی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ تو وہ چونکی

ہاں چلو اور وہ دونوں مال میں آگے بڑھنے لگ 

اس نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا جہاں وہ شخص اب کہیں نظر نہیں آ رہا تھا

حائم !!!!! اس نے زیر لب دہرایا اور آگے بڑھنے لگی

ہاں میرا بچہ کیا ہوا ؟ حائم نے زریش کے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا

لالہ آپ خود چل کر دیکھ لیں آپ کے وہ دو چلغوزے کیا گل کھلا رہے ہیں زریش حائم کا بازو پکڑ کر آگے لے گئی جہاں بازل اور شہیر ایک سیلز بوائے کے ساتھ بحث کر رہے تھے

دیکھیں سر آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے  سیلز بوائے نے بےبسی سے کہا 

کونسی غلط فہمی؟ کہاں کی غلط فہمی؟م میں کہہ رہا ہوں بازی میں نے خود یہ پینٹ اور شرٹ لنڈہ بازار میں لٹکے دیکھیں ہیں وہ آدمی 170 روپے میں دونوں چیزیں دے رہا تھا پر میں نے مہنگی سمجھ کر نہیں لی اور یہاں یہ لوگ یہیں چیزیں اونچی دوکان میں لٹکا کر ناجانے کتنے ہزاروں میں بیچیں گے شہیر نے بازل کو مخاطب کیا اور آخر میں سیلز بوائے کو دیکھ کر کہا

اگر وہاں سے 170میں مل رہی تھی تو لے لیتے یہاں کیا لینے آئے ہو؟ ایک اور سیلز بوائے نے تنگ آکر کہا

ارے میں اسے 150 روپے دے رہا تھا پر وہ تھا کہ 170پر آرا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی 160 روپے دے کر دونوں چیزوں لے گیا شہیر نے افسوس سے کہا جیسے ناجانے کتنا نقصان ہو گیا ہو

کیا ہو رہا ہے یہاں؟ دوکان کے اونر نے آ کر حیرت سے پوچھا

ارے تم تو وہی ہو نہ جو 160روپے کی پینٹ اور شرٹ لے کر گئے تھے شہیر نے قدرے چونک کر کہا

کیا؟؟؟؟؟کیا میں تمہیں 100 150 کی چیزیں خریدنے والا لگتا ہوں؟ اس الزام پر وہ شخص تقریباً چیخ پڑا

ارے نہیں نہیں 100 150 تو بہت بڑی رقم ہے اللہ جھوٹ نہ بلوائے آپ کی شکل تو ہماری گلی کی نکڑ پر بیٹھے فقیر سے ملتی ہے جو کہ بڑا کمال کا شاعر بھی ہے ارے بازل وہ کیا کہتا تھا شہیر نے پہلے جوش سے اونر کو دیکھ کر کہا اور آخر میں بازل کو مخاطب کیا

ارے وہ کہتا ہے

                     باجی جی  باجی جی مینوں آٹا دے                      

                             کپڑا پرانا کوئی پاٹا دے 

بازل نے باقاعدہ فقیر کی نکل اتار کر دیکھائی جس پر مال میں موجود سب لوگوں سب لوگوں کی دبی دبی ہنسی نکل گئی جبکہ اونر کو اب اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہونے لگا

بازی!!!

شہری!!!!

پیچھے سے آتی حائم کی آواز سن کر وہ پلٹے اور پیچھے زریش کے ساتھ کھڑے حائم کو دیکھ کر بھاگ کر اس کے پاس آئے اور اسے بازوں سے پکڑ کر اونر کے سامنے کیا اتنے میں شازل دو پولیس اہلکاروں کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتا دیکھائی دیا

ہاں بازی کیا ہوا اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا؟ شازل نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا

دیکھیں سر اب اعتراف جرم کر لیں کیونکہ اب ہمارے ساتھ ایس پی شازل خانزادہ اور مشہور وکیل حائم خانزادہ موجود ہیں بازل نے شازل اور حائم کا بازو پکڑ کر اونر سے کہا جس کی یہ سن کر ہلکی ہلکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں

دیکھیں س آآآ سر آپ کووو آآآ ضرور کوئی ئی غلط فہمی ہوئی ہے اونر نے اٹک کر کہا 

بازی!! شہری!! چلو یہاں سے!!!! شازل نے غصے سے کہا جس پر وہ دونوں چپ چاپ چل دیئے حائم بھی معزت کرتا ان کے ساتھ چل دیا

دفعتاً شہیر بھاگ کر واپس آیا

ویسے سر آپ کو دیکھ کر ایک شعر یاد آیا ہے شہیر نے پرجوش ہو کر اونر سے کہا

ارشاد!!!!!!!

ارشاد!!!!!!!

پیچھے کھڑے سیلز بوائے نے آواز لگائی جس پر شہیر نے گلا کھنکار

                               خوبصورت لڑکوں سے

                             لڑکیاں نمبر مانگ جاتی ہیں 

                             دو نمبری کرنے والوں کی

                               کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

شہیر نے بلاول بھٹو کی نقل اتارتے ہوئے شعر پڑھا اور سارا مال تالیوں سے گونج اٹھا وہ داد وصول کرتا واپس مڑ گیا جبکہ پیچھے کھڑے اونر کو اب اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا 

یہ کیا بچپنا ہے بازی؟ شازل نے غصے سے پوچھا وہ اپنی ضروری میٹنگ میں تھا جب بازل نے اسے ایمرجنسی میں فون کر کے بلا لیا 

بھائی وہ پینٹ واقع میں آآآآآآآ اوہ جہنم میں گئی پینٹ بازل پھر سے شروع ہونے والا تھا جب شازل نے غصے سے ٹوکا

ریلیکس ایس پی صاحب!!! حائم نے شازل سے کہا وہ ان سب میں سب سے ٹھنڈی نیچر کا مالک تھا 

ویسے زری تم کیوں چپ ہو ؟؟ شازل نے باہر دیکھتی زریش سے کہا عموماً وہ تینوں ہر کام مل کر کرتے تھے

تو اور کیا کہوں لالہ ان کمینوں سے کہا تھا کہ ساتھ والی کاسمیٹکس کی دوکان پر چلتے ہیں پر یہ دونوں اس پینٹ کے پیچھے پڑ گئے اور خود ہی ساری بکواس کرتے رہے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ زریش نے رومی شکل بنا کر جواب دیا تو حائم اور شازل کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا

ہاہاہاہاہاہا زری تم ہمیں بتا دیتی کہ تمہیں بھی بکواس کرنی ہے ہم تمہیں بھی چانس دے دیتے شہیر نے ہنس کر کہا جس پر زریش نے اپنا بیگ اس کو مارا جو سیدھا اس کی ناک پر لگا

آآآ چڑیل آآ ڈائین آآ بھوتنی

تمہاری ہونے والی بیوی ہو گی

شہیر نے درد سے چلا کر کہا جس زریش نے بھی فوراً جواب دیا

ان کی نوک جھوک دیکھ کر حائم اور شازل ہنس دیے اپنے شہزادوں میں تو ان کی جان تھی 

شازی لالہ چلیں ساتھ لنچ کرتے ہیں بازل نے مشورہ دیا جسے سن کر شہیر نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ پر روکی ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ حائم کا فون بجا جسے دیکھتے ہوئے وہ باہر چلا گیا شازل بھی واش روم کا کہہ کر اٹھ گیا پیچھے وہ تینوں آفتیں اکیلی بیٹھی رہ گئیں

بازی کیا سوچ رہے ہو؟ زریش نے آڈر دے کر بازل سے پوچھا جو کہ باہر دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں لگ رہا تھا

کچھ نہیں زری میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے اکلوتے ہونے والے جیجا جی بہت ینگ ہینڈسم گڈلکنگ ہوں گے گھر گاڑی اور پیسے والے بازل نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا جیسے سن کر شہیر حیران ہوا جبکہ زریش نے شرمانے کی ناکام کوشش کی

وہ بہت اچھی نیچر والے ہوں گے بازل مزید بولا

پھر تمہاری ان سے شادی ہو گئی پھر پتہ ہے کیا ہو گا؟ بازل نے سسپینس پھیلایا جبکہ اس دوران زریش دوپٹے کا کونہ مڑورتے ہوئے شرمانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی

کیا ؟؟؟ زریش نے دھیرے سے پوچھا

تمہاری شادی کے ایک ہفتے بعد وہ ہمیں اسی سڑک پر اسی حال میں ملیں گے وہ جو غور سے اس کی بات سن رہی تھی اس کے باہر اشارہ کرنے پر باہر دیکھنے لگی شہیر نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور آگلے ہی لمحے زوردار قہقہہ لگایا جبکہ زریش کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل گئیں باہر ایک فقیر جو کہ بالوں سے محروم تھا پھٹی ہوئی دھوتی پہن کر بھیک مانگ رہا تھا

بازی تمہاری تو!!!!! زریش نے غصے میں آ کر ٹیبل پر پڑی کیچپ کی بوتل بازل کو دے ماری

پر ہائے خاندانی خراب نشانہ

بوتل بازل کو تو نہ لگی پر پچھلی ٹیبل کے پاس کھڑے شخص کے منہ پر لگی اور منہ اور کپڑے دونوں بھر گئی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آغاجان میں نے پتہ کروا لیا ہے سلطان پاکستان میں ہی ہے بزنس کر رہا ہے زری گروپ آف انڈسٹری کا مالک ہے آسلام آباد میں رہتا ہے گھر کا ایڈریس بھی مل گیا ہے جہانگیر صاحب مارے خوشی کہ ایک ہی سانس میں بولتے گئے 

ہون آآآآ ٹھیک ہے صبح میں اور تمہاری بی جان جا کر اسے لے آئیں گے آغاجان نے پوری بات سن کر کہا اور سب ہی خوشی خوشی تیاریوں میں لگ گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

نازی اب بس بھی کرو اور کتنی دیر لگاؤ گی؟ جاناں نے جھنجھلا کر نازلی سے کہا جو کہ پیچھلے تین گھنٹوں سے اسے لے کر پھر رہی تھی

بس ہو گیا چلو چلتے ہیں نازلی نے باہر آتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے چلو آآآ جاناں نے جواباً کہا

یار مجھے تو بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے پہلے لنچ نہ کر لیں پھر گھر چلیں گے نازلی نے مسکین شکل بنا کر کہا

آف ایک تم اور تمہاری یہ بےوقت بھوک ٹھیک ہے چلو پر جلدی گھر جانا ہے جاناں کے کہنے پر وہ دونوں قریبی ریسٹورنٹ آئے ابھی وہ گاڑی سے نکل ہی رہی تھیں کہ جاناں کی نظر فون پر بات کرتے ایک شخص پر پڑی جو کہ ان کی طرف ترچھا رخ کر کے کھڑا تھا

دفعتاً وہ مڑا اور جاناں کو ایک لمحہ لگا تھا اسے پہنچانے میں یہ وہی شخص تھا جو کچھ دیر قبل اسے مال میں ملا تھا

جاناں آآآآ ابھی وہ انہیں سوچوں میں تھی کہ نازلی کی آواز پر چونکی اور اندر کی جانب بڑھنے لگی پر وہ بار بار مڑ اس شہزادے کو ضرور دیکھ رہی تھی جو کہ فون پر کسی سے ہنس کر بات کر رہا تھا

جاناں نے غور کیا کہ ہنسنے سے اس کے دائیں گال پر ڈمپل پڑا تھا جو کہ اس پر کمال ججتا تھا

وہ انہیں سوچوں میں گھڑی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی نازلی نے آڈر دے کر اسے دیکھا جو کہ ٹکٹی باندھے باہر دیکھ رہی تھی اس نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو وہ ایک لڑکے کو کھڑا دیکھ کر چونکی اور پھر شریر نظروں سے اپنے سے پانچ سال بڑی اپنی بہن کو دیکھا

آہم آآآ آہم آآآ نازلی کے بولنے پر جیسے وہ ہوش میں آئی

ہون آآ کیا ہوا؟ جاناں نے پوچھا

کچھ نہیں بس دیکھ رہی ہوں کہ کافی ہینڈسم ہے ھے نا؟ نازلی نے شوخ لہجے میں پہلے اسے اور پھر باہر کھڑے حائم کو دیکھ کر کہا

کون؟ کس کی بات کر رہی ہو؟ جاناں جان کر انجان بنی

ارے وہی جس پر میری بہن دل ہار بیٹھی ہے آآآآ نازلی نے شریر نظروں سے اسے دیکھ کر کہا

ایسا کچھ نہیں ہے آآآآ جاناں نے جواباً کہا وہ نازلی کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی

ایسا نہیں ہے تو کیا بھائی سمجھ کر اتنے پیار سے دیکھ رہی ہو؟؟؟ نازی نے زچ کرتی مسکراہٹ سے کہا جبکہ اس کے بھائی کہنے پر جاناں نے دل میں ناجانے کتنی بار استغفرُللہ پڑھا

فضول گوئی مت کرو!!!!! جاناں نے اس بار ذرا غصے سے کہا

تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟ اس سے پہلے کہ نازلی کچھ کہتی پاس کھڑے شخص کی رعب دار آواز سن کر فوراً کھڑی ہوئی

وہ آآآآ زاویار لالہ ہم مال گئے تھے تو واپسی پر لنچ کرنے ادھر آ گئے پر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ نازلی نے جلدی سے جواب دے کر پوچھا

میں یہاں کسی سے ملنے آیا تھا اور میں نے کتنی بار کہا ہے کہ اکیلے مت نکلا کرو آآآآ ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ پاس والی ٹیبل سے شور اٹھا اور اگلے ہی لمحے ایک لڑکی نے کیچپ کی بوتل اس کی طرف پھینکی جو کہ سیدھا اس کے منہ پر لگی

آآآ وٹ دا ہیل آآآ وہ اتنی زور سے چیخا کہ پاس والی ٹیبلز پر بیٹھے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ویٹرز بھی اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف لپکے

کیا ہوا سر؟؟؟ ایک ویٹر نے آگئے بڑھ کر پوچھا

انہیں گولی لگی ہےآآآ دیکھیں کتنا خون بہہ رہا ہے آآآ جلدی سے کوئی کپڑا رکھیں ورنہ یہ مر بھی سکتے ہیں آآآ اپنی متوقع بےعزتی سے بچنے کے لیے زریش کے منہ میں جو آیا بولتی چلی گئی جبکہ اس کی بات سن کر پاس کھڑے شخص نے فوراً اپنا کوٹ اتار کر زاویار کے سینے پر رکھا پر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ گولی لگی کہاں ہے

اور کپڑا لاؤآآآ اس شخص نے جھنجھلا کر پاس کھڑے ویٹر سے جو کہ بھاگ کر اندر سے تین چار کپڑے لے آیا

لوگوں نے زاویار کو زمین پر لٹکا کر اس کے جسم پر جہاں جہاں کیچپ زیادہ لگی تھی وہاں وہاں کپڑا رکھ کر دبانا شروع کردیا

آآآ وٹ دا ہیل آآآ چھوڑو مجھے آآآ زاویار پھر چیخا 

 آآآانکل ان کے منہ پر بھی کپڑا رکھیں چیخنے سے اور خون نکلے گا آآآ زریش نے اس کا منہ بند کروانے کی خاطر کہا جس پر پاس کھڑے بوڑھے شخص نے فوراً ایک رومال زاویار کے منہ میں ڈال دیا جس سے اس کی نکلتی آواز بند ہو گئی

کیا ہو رہا ہے یہاں؟ زری ؟؟؟ حائم جو کہ فون سن کر واپس آ رہا تھا اپنے سامنے ایسا منظر دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگا جبکہ حائم کی آواز سن کر جاناں سب کچھ بھلا کر اسے تکنے لگی

لالہ انہیں کیچپ آآآآ میرا مطلب ہے گولی لگی ہےآآآ چلیں ہم ایمبولینس بولاتے ہیں زریش اتنا بول کر حائم کو کھینچ کر لے گئی ان کے پیچھے بازل اور شہیر بھی چپ چاپ نکل گئے

گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے شازل کو میسیج کیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

یہ سب کیا تھا زری؟؟؟ حائم نے ڈرائیو کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی زریش سے پوچھا

کچھ نہیں لالہ آپ دھیان سے گاڑی چلائیں ہم نے گھر جانا ہے جنت میں نہیں زریش نے جواب دیا

آف کب عقل آئے گی تمہیں زری؟؟؟ حائم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا

قیامت والے دن آآآآ تینوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا اور وہ چاروں ہی ہنس دیے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حائم کے جانے کے بعد جاناں جیسے ہوش میں آئی اس نے بڑی مشکل سے نازلی کے ساتھ مل کر زاویار کو لوگوں سے چھڑایا

چھوٹتے ہی زاویار کا غصہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا اور وہ وہاں موجود سب لوگوں پر چڑھ دوڑا

جاناں اور نازلی نے بڑی مشکل سے اسے وہاں سے نکالا اور گاڑی میں بیٹھایا اور ڈرائیور کو گھر چلنے کا بولا

زاویار کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا دفعتاً اس کے سامنے اس لڑکی کا چہرہ لہرایا جو اس سب کی وجہ تھی

آآآ زری آآآ آف آفت آآآ اس نے حائم کے منہ سے سنا اس کا  نام دہرایا اور اگلے ہی لمحے سر جھٹک کر اسے نئے لقب سے نواز دیا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ہیلو ہاں بولو زری؟؟؟

یار صبا کہاں ہو تم اگر آج تم سے لفٹ مانگ ہی لی ہے تو ضروری ہے کہ تم کچھوے کی طرح ہی آؤ؟؟؟ زریش فون پر اپنی دوست سے بولی

یار آ تو رہی ہوں اب کوئی جہاز تو نہیں ہے نا میرے پاس ویسے یہ بتاؤ تمہاری گاڑی کو کیا ہوا ؟؟؟ صبا نے پوچھا

جہاز بھی ہوتا تو تم نے اسی رفتار سے آنا تھا کہ کہیں تمہارا جہاز گھس نا جائے اور یار میری گاڑی نا وینٹیلیٹر پر ہے بس دعا کرو کہ بچ جائے ورنہ امکان تو کوئی نہیں ہے!!! زریش بولی

اچھا اب کہاں ماری ہے گاڑی کسی ٹرک میں یا ڑیڑھی میں ؟؟ صبا نے پوچھا

نہیں یار گدھا گاڑی میں ماری ہے!!! زریش نے بتایا

آف اللّٰہ گدھا بچ گیا؟؟؟ صبا نے پوچھا

ہاں یار گدھا تو بچ گیا پر گدھے کا مالک بیچارہ ابھی تک منہ پر مٹکا ڈالے گھوم رہا ہے!!! زریش نے بتایا

کیوں کیا تمہاری ٹکر کے بعد وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا جو مٹکا ڈالے گھوم رہا ہے ؟؟؟ صبا نے پوچھا

نہیں یار جب ٹکر لگی تو وہ گدھا بچارا تو بیٹھ گیا پر گدھے کا مالک ہوا میں اڑتا ہی گیا اور سامنے مٹکوں کی ریڑھی سے ٹکرایا بس پھر کیا بتاؤں ایک مٹکا میں غلطی سے اس کا منہ داخل ہو گیا اب بس جب سے داخل ہوا ہے تب سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا ہم نے کہا بھی بھئی ایک ٹکر اور مارنے دو ہو سکتا ہے کہ منہ باہر نکل آئے پر وہ مانا ہی نہیں!!! زریش نے سارا واقعہ بتایا

اچھا تم روکو میں بس ا رہی ہوں!!!!

اوئے بلبل کدھر جا رہی ہو؟؟؟ آؤ ہم چھوڑ دیتے ہیں!!! ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ پاس والی گاڑی سے کچھ لڑکے آوازیں کسنے لگے

کون ہے صبا؟؟؟ زریش نے پوچھا

پتہ نہیں نہیں یار کچھ لڑکے ہیں!!! صبا نے کہا

اچھا کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

اوئے چل نمبر دے دے !!! ان میں سے ایک لڑکا بولا

یار زری نمبر مانگ رہے ہیں!!! صبا نے بتایا

اچھا دیکھنے میں کیسے ہیں؟؟؟ زریش نے پوچھا جس پر صبا نے غور سے ان تینوں کو دیکھا

یار مجھے تو کمینے سے لگ رہے ہیں!!! صبا نے بتایا

اچھا تو پھر ایک کام کرو گاڑی کی سپیڈ آہستہ کر لو میں بس ابھی آئی !!! زریش نے اتنا بول کر فون رکھ دیا جبکہ اس کی بات سن کر صبا نے بھی گاڑی کی سپیڈ کم کر جس پر وہ لڑکے بھی پہلے حیران ہوئے پھر انہوں نے بھی سپیڈ کم کر کی سڑک پر بہت سے ہارن بج رہے تھے پر اسے پرواہ نہ تھی

دوسری جانب زریش نے جلدی سے باہر نکل آئی 

باہر آ کر وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اب جائے کیسے کیونکہ گھر پر کوئی گاڑی نہ تھی دفعتاً اس کی نظر سامنے کھڑی ایک جیپ پر پڑی جس میں چابی بھی لگی ہوئی تھی پھر اس کی نظر سامنے دروازے سے نکلتے ایک شخص پر پڑی جو کہ ہاتھ میں کوئی فائل پکڑے آ رہا تھا ایسا لگتا ہے اس نے بس ابھی گاڑی کھڑی کی ہو

روک جائیں آنکل!!! زریش ایک دم اس کے سامنے دونوں ہاتھ اطراف میں کھولے کھڑی ہو گئی

کیا ہوا بیٹا؟؟؟ اس شخص نے حیرت سے اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھ کر کہا

انکل آپ کو شرم نہیں آتی یہ جیپ ایسے یہاں کھڑے کرتے؟؟؟ زریش نے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے پوچھا

کیوں بیٹا کیا ہو گیا ؟؟؟ اس شخص کو سمجھ نہ آئی

دیکھیں آنکل آپ نے یونہی یہ جیپ ایسے ہی یہاں کھڑی کر دی اگر کوئی اس میں چڑھ کر یوں بیٹھ جائے تو آپ تو کچھ نہیں نا کر سکیں گے ؟؟؟ زریش نے باقاعدہ جیپ میں بیٹھ کر دیکھایا

ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو!!! اس شخص نے کہا

اور یہ دیکھیں آپ نے چابی بھی لگی چھوڑ دی اب کوئی یوں گاڑی سٹارٹ کر لے تو بھی آپ کچھ نہیں کر سکتے نا؟؟؟ زریش نے گاڑی سٹارٹ کر کے کہا

ہاں یہ بھی تم نے ٹھیک کہا!!! اس شخص نے جواب دیا

اب اگر کوئی اس طرح یہ جیپ لے جائے تو بھی آپ کچھ نہیں کر سکتے!!! زریش نے جیپ آگے لے جاتے ہوئے کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی

کہہ تو لڑکی ٹھیک رہی ہے!!! اس شخص نے سوچا

ارے میری جیپ!!!!!!!!! اس آدمی کو جیسے اب ہوش آیا 

پر اب کیا فائدا

 جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

اور آٹے میں گر گئی ریت

ابھی زریش تھوڑا آگے ہی گئی تھی کہ جیپ ایک دم بند ہو گئی شاید انجن گرم ہونے کی وجہ سے

شٹ یہ چوری کا مال اتنا ہی چلتا ہے!!! زریش اتنا بول کر باہر نکلی اور آس پاس دیکھنے لگی

کیا ہوا باجی کوئی مسئلہ ہے ؟؟ ایک موٹر سائیکل والے نے روک کر پوچھا

بھئی وہ میری گاڑی میں نا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے آپ پلیز چیک کر دیں!!! زریش نے مسکین شکل بنا کر کہا جس پر وہ شخص گاڑی کو دیکھنے لگا

ویسے بھائی آپ کی بائیک بہت اچھی ہے!!! زریش نے کہا

ہاں باجی بس ابھی دھلوا کر لایا ہوں!!! اس آدمی نے کہا

اچھا ویسے میرا بھی بڑا دل کرتا ہے بائیک چلانا سیکھوں!!! زریش نے بائیک پر بیٹھ کر کہا

ارے باجی آپ لڑکی ہے آپ سے کہاں چلے گی!!! 

اچھا ویسے ٹرائے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے نا!!! زریش نے پوچھا

ہاں کوشش کر لیں ہوسکتا ہے چل جائے !!! 

اچھا ٹھیک ہے!!! زریش نے اتنا بول کر بائیک سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا

ویسے چلا تو لیتی ہے!!!! ارے میری بائیک!!!!!!! اسے واپس نہ آتا دیکھ وہ آدمی ہوش میں آیا پر تب تک وہ ہوا ہو چکی تھی

ابھی وہ کچھ آگے ہی گئی تھی کہ بائیک کا پٹرول ختم ہو گیا

لو جی پچاس روپے میں بائیک دھولوا لایا اتنا نہیں ہوا کہ ڈیڑھ سو کا پٹرول ڈلوا لے اب کیا کروں!!! زریش نے پریشانی سے سوچا اتنے میں اس کی نظر ایک بوڑھے شخص پر پڑی جو کہ سائیکل کے ٹائر میں ہوا بھر رہا تھا

ہیلو انکل مجھے آپ کی تھوڑی ہیلپ چاہیے!!! اس نے اس بوڑھے شخص کے پاس جا کر کہا

بولو بیٹا کیا ہوا؟؟؟

انکل وہ مجھے لگتا ہے میری بائیک کے ٹائر میں ہوا کم ہے آپ پلیز چیک کر دیں!!! اس کے بولنے پر وہ شخص ٹائر چیک کرنے لگا

بیٹا ہوا تو ہے آآآآآآ اس شخص نے مڑ کر دیکھا تو زریش اس کا سائیکل لے کر غائب ہو چکی تھی

یا اللہ معاف کرنا ایک دن میں اتنی چوریاں کرنی پڑیں!!! زریش سائیکل چلاتے ہوئے بڑبرا رہی تھی اتنے میں اس کا فون بجا اس نے دیکھا تو صبا کی کال تھی

ہاں بولو صبا کیا ہوا؟؟؟ زریش نے ایک ہاتھ سے فون کان کے ساتھ لگا کر پوچھا

یار زری کہاں ہو جلدی آؤ تمہارے چکر میں میں نے پورا روڈ جام کیا ہے!!!

یار مجھے لگتا ہے مجھ سے نہیں پہنچا جائے گا منزل مقصود پر!!! زریش نے پھولے سانس سے کہا

زری اگر تم نہ آئی تو تمہاری میری دوستی ختم!!!

شرم کرو یہاں میں تمہارے چکر میں میں 

 کچھ اور سے

سیدھا چور ہو گئی ہوں اور تم ہو کہ بکواس کر رہی ہو رکو آئی میں!!! زریش نے اتنا بول کر فون رکھا اتنے میں اس کے سائیکل کے ٹائر میں کیل چب گیا

لو جی ساری تو میرے پیچھے قدرتی آفتیں لگیں ہیں اب کیا چراؤں ؟؟؟ زریش تاسف سے بول کر آس پاس دیکھنے لگی

کیا ہوا باجی کہاں جانا ہے!!! ایک ٹانگے والے نے روک کر پوچھا

بھئی بس تھوڑا آگے جانا ہے یہ سائیکل بھی رکھ لو پلیز!!! زریش کے بولنے پر وہ شخص سائیکل ٹانگے میں چڑھانے لگا

چلو باجی آآآآآ ہائے میرا گھوڑا!!!! وہ آدمی اپنا گھوڑا نا پا کر چلایا

بس یہ میری آخری چوری ہے ویسے بھی اس کے بعد گدھے کا آپشن ہی رہتا ہے!!! زریش بولی

بامشکل زریش صبا تک پہنچی

شکر اللہ کا تم آ گئی ورنہ میں تو نااُمید ہی ہو گئی تھی!!! صبا نے کہا

اچھا یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ یہ کمینے کہاں ہیں ؟؟ زریش نے پوچھا جس پر اس نے پیچھے گاڑی کی طرف اشارہ کیا جہاں تین لڑکے بیٹھے تھے

لیں بھائی!!! اس نے دو پرچیاں ان کی طرف بڑھائیں

یہ کیا ہے؟؟؟ ان میں سے ایک نے پوچھا

یہ نمبر ہے ایک اس کا ایک میرا!! زریش نے بتایا جس پر وہ لڑکے حیرت سے اسے دیکھنے لگے

یہ کیا ہے سات نمبر اور یہ آٹھ نمبر اس کا کیا مطلب!!! ایک لڑکے نے دونوں پرچیاں پڑھ کر حیرت سے پوچھا

یہ ہماری جوتیوں کا نمبر ہے!!! زریش نے بتایا

تو ہم کیا کریں ؟؟ دوسرے لڑکے نے جھنجھلا کر پوچھا

آپ کچھ نہ کریں جو بھی کریں گے ہم کریں گے!!! زریش نے اتنا بول کر صبا کو اشارہ کیا اور دونوں نے پاؤں سے ہیل اتار کر بیچ سڑک لڑکوں کی اچھی خاصی دھلائی کر دی

بس کر جاؤ زری مر جائیں گے!!! صبا نے زریش کو دیکھ کر کہا جو کہ ابھی بھی مسلسل انہیں پیٹ رہی تھی

نہیں ان کے چکر میں میں نے جیپ سے لے کر گھوڑے تک پتا نہیں کیا کیا چرایا اب تھوڑی سزا تو دینے دو!!! زریش مارتے ہوئے بولی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آف اللّٰہ کب چلے گی یہ گاڑی آدھے گھنٹے سے کھڑی ہے!!! زاویار اپنی گاڑی میں بیٹھا سامنے روکی گاڑی کو دیکھ کر تاسف سے بولا اتنے میں اس کی نظر گھوڑے پر آتی ایک لڑکی پر پڑی جیسے دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار نکلا

آفت!!! اس نے دیکھا اس کھڑی گاڑی سے ایک اور لڑکی نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان دونوں نے مل کر پاس کھڑی گاڑی میں موجود لڑکوں کی اچھی خاصی دھلائی کر دی

آف اللّٰہ اس کے گھر والے پتہ نہیں اسے کونسی چکی کا آٹا کھلاتے ہیں!!! زاویار اسے دیکھ کر بڑبڑایا اتنے میں وہ دونوں لڑکیاں گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئ

زاویار گاڑی سے نکل کر ان لڑکوں کے پاس آیا جو کہ نیم بے ہوش تھے دفعتاً اس نے فون نکال کر ایک نمبر ملایا

ہیلو 911 ایمرجنسی آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں!!! 

ہیلو جی میں آپ کو ایک ایڈریس سینڈ کرتا ہوں جہاں بیچ سڑک کچھ لوگوں کو ایک ٹرک بری طرح کچل گیا ہے آپ پلیز جلدی آ جائیں!!! زاویار نے اتنا بول کر فون بند کردیا ایک نظر ان لڑکوں کو دیکھ کر وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نکل گیا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اگلی صبح آغا جان بی جان جہانگیر صاحب جہانزیب صاحب مراد اور فراز اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے شام کے قریب وہ لوگ اسلام آباد پہنچے سلطان پیلس کے سامنے پہنچ کر وہ سب اندر بڑھے اس سے پہلے کہ وہ دستک دیتے انہیں پیچھے سے کسی کی آواز سنائی دی انہوں نے مڑ کر دیکھا تو ایک لڑکا اور لڑکی چلے آ رہے تھے

بازی میں کہہ رہی ہوں میری گاڑی کا کچھ کرو اب بات بات پر تو لوگوں کی منتیں تو نہیں کر سکتی میں آآآآآآا زریش بولتی بولتی اپنے سامنے موجود نفوش کو دیکھ کر رکی جو کہ اسے ہی دیکھ رہے تھے کافی دیر یوں ہی دیکھنے کے بعد وہ بازل کی طرف گھومی

تمہارے ساتھ بکواس کرتے کرتے پتہ نہیں کس کے گھر گھس گئے ہم اب چلو ادھر سے!!! اس نے بازل کا ہاتھ پکڑ کر کہا

سوری انکلز اور آنٹی ہم غلطی سے آ گئے!!! بازل  بولا 

یار زری آخری اطلاعات تک تو ہمارا گھر ادھر ہی ہوتا تھا!!! بازل  بولا

ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ یہ گھر دیکھا دیکھا لگ رہا ہے!!! زریش بولی

ہاں مجھے بھی کچھ اپنا اپنا لگ رہا ہے پر یہ شکلیں تو اپنی نہیں ہیں !!! بازل نے خاموش کھڑے ان سب کو دیکھ کر کہا جو کہ سوچ رہے تھے ان کی پٹڑ پٹڑ میں حصہ کیسے لیں

بازی کہیں یہ تمہارے سسرال والے تو نہیں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

نہیں یار ابھی تھوڑی دیر تک تو میں کنوارا تھا یہ سسرال والے کدھر سے آ گئے ؟؟؟ بازل بولا

یہ بھی ہے اب کیا کریں ان کی تصویریں کھینچ کر صبح کے اخبار میں نا دے دیں شناخت کے لیے ؟؟ زریش نے مشورہ دیا

نہیں پھر کیا صبح تک یونہی ان کو کھڑا رکھیں گے!!! بازل نے جیسے اس کی عقل پر ماتم کیا

تو پھر ایک کام کرتے ہیں بابا کو کال کرتے ہیں!!! زریش نے کہا

ہاں یہ ٹھیک ہے!!! بازل نے اتنا بول کر سلطان صاحب کو فون کیا

ہاں بازی بولو کیا ہوا؟؟؟ سلطان صاحب نے پوچھا

بابا وہ نا ہمارے گھر کے باہر کچھ لوگ کھڑے ہیں جو کہ ہمیں ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے مولوی بے نمازی مسلمانوں کو دیکھتا ہے ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے پتا کریں کہ یہ کون ہیں!!! بازل نے کہا جبکہ دوسری جانب سلطان صاحب نے اس کی بات پر کنپٹی مسلی

اچھا تم ایک کام کرو ان سے پوچھو کہ وہ کون ہیں میں بھی بس میں بھی آنے والا ہوں سلطان صاحب نے کہا

اچھا ٹھیک ہے بابا !! بازل نے کہا

کیا ہوا کیا کہہ رہے تھے بابا؟؟؟ زریش نے پوچھا

وہ کہہ رہے ہیں کہ ان سے پوچھو کہ یہ کون فارغ لوگ ہیں جنہیں ان کے گھر والوں نے نہیں رکھا اور یہ ادھر آن ٹپکے ہیں!!! بازل نے کہا

اچھا بتائیں انکل آپ کون ہیں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

ہم شاہ عالم ہیں!!! آغا جان نے کہا

کون ہیں شاہ عالم ؟؟؟ بازل نے پوچھا

ہم ہیں شاہ عالم!!! آغا جان نے ذرا روعب سے کہا

ارے کون ہیں شاہ عالم ؟؟؟ زریش نے پوچھا

محترمہ کیا آپ اونچا سنتی ہیں ابھی تو انہوں نے کہا کہ یہ ہیں شاہ عالم!!! فراز نے کہا

اچھا یہ ہیں شاہ عالم اور ہم دونوں تو جہان سکندر اور تالیہ مراد ہیں نا کہ آپ کہیں گے کہ آپ شاہ عالم ہیں اور ہم آپ کی ساری تفصیلات نکال لیں گے کہ آپ شاہ عالم ہیں سرگودھا میں پیدا ہوئے بچپن میں مرزا غالب کے ساتھ کنچے کھیلتے رہے اور میرتقی میر کے ساتھ محلے کی لڑکیاں تاڑتے رہے یار کام بتائیں!!!! بازل بولا

دیکھو بیٹا ہمیں سلطان سے ملنا ہے!! جہانگیر صاحب نے کہا

کیوں ملنا ہیں آپ نے ان سے کیا کوئی قرض دینا ہے انہوں نے آپ کا؟؟ زریش نے پوچھا

یار زری واقع شکل سے تو یہ واقعی ہی کوئی گنڈے بدمعاش لگ رہے ہیں دیکھو نا کیسی بڑی بڑی موچھیں رکھیں ہیں!!! بازل بولا

دیکھو بیٹاآآآآآ

بازی کہیں یہ کوئی دہشت گرد تو نہیں!!!! بی جان کچھ کہنے والی تھیں جب ایک دم زریش بولی

ہاں یار ان کی شکلیں تو واقعی دہشت گردوں سے ملتی ہیں کہیں یہ ہمارے گھر میں بم لگانے تو نہیں آئے؟؟؟ بازل بولا

ہماری بات تو سنو!!! جہانزیب صاحب بولے

دیکھیں آنکل آپ بے شک ایک کی بجائے دو بم لگائیں پر پلیز پہلے ہمیں اپنی ماما اور فون کے چھوٹی پن والے چارجر لینے دیں کیونکہ ان دونوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں!!! زریش بولی اور وہ دونوں تیزی سے اندر بھاگ گئے

آف اللّٰہ حد ہو گئی چلو خود ہی اندر چلتے ہیں ورنہ یہ نہ ہو یہی سے واپس جانا پر جائے!!! آغا جان کے بولنے پر سب اندر چل دیے

ارے یہ آپ لوگ کدھر گھسے چلے آ رہے ہیں ؟؟؟ لاونج میں بیٹھے شہیر نے کہا

بیٹا ہم آآآآآ

دیکھیں یہ بھیک وغیرہ باہر سے مانگتے ہیں اندر نہیں آتے اور یہ اتنے سارے لوگ ایک ساتھ ایک گھر نہیں جاتے بھلا پوری کالونی میں پھیلیں آئے بھی اس گھر جہاں رہتے ہی سرے سے بھکاری ہیں!!! شہیر کی بات سن کر ان سب کو یقین ہو گیا کہ سلطان صاحب کی آل اولاد ہی پاگل ہے

ہم بھکاری نہیں ہیں!!! مراد نے دانت پیس کر کہا

دیکھیں ہمارا صدقہ ہماری ماما اکثر اپنی جوتیوں سے اتارتی رہتی ہیں!!! شہیر بولا

ارے ہم صدقہ لینے والے نہیں ہیں!!! فراز تپ کر بولا

اور یہ بھی سن لیں ہم یہ فطرانہ وغیرہ عید کے عید ہی دیتے ہیں پہلے دے کر ہم نے پینڈنگ پر نہیں لگوانا یہ نا ہو کہ پھر بعد میں اپرؤ ہی نہ ہو!!! شہیر اپنی دھن میں ہی بولے گیا

کون ہے شہری؟؟؟ فاطمہ بیگم کچن سے باہر آتیں بولیں

پتہ نہیں ماما کون لوگ ہیں کب سے میرا آئی کیو لیول چیک کر رہے ہیں؟؟؟ شہیر بولا اتنے میں باہر سے سلطان صاحب داخل ہوئے پر سامنے کھڑے نفوش کو دیکھ کر وہ تھم گئے

آغا جان آپ ؟؟؟ سلطان صاحب بولے

شکر ہے اللہ کا تم آ گئے ورنہ تمہاری اولاد تو ہمیں پاگل کرنے کے در پر تھی!!! آغا جان بولے

میرا بچہ کیسے ہو تم؟؟؟ بی جان روتے ہوئے سلطان صاحب کے گلے لگائیں

ارے آپ لوگ ابھی ایسے ہی کھڑے ہیں آپ نے بم نہیں لگایا؟؟؟ اوپری منزل سے زریش نے کہا

زری کیا بکواس کر رہی ہو نیچے آؤ اور سلام کرو !!! فاطمہ بیگم نے کہا

کیوں یہ ہمارے نانا لگتے ہیں جو سلام کروں ؟؟؟ بازل بولا

نہیں بیٹا جی ہم تمہارے دادا لگتے ہیں!!! آغا جان نے مسکرا کر کہا

دادا!!!!!!! ان دونوں نے حیرت سے دہرایا اور اگلے ہی لمحے وہ دونوں ان سے لپٹ گئے

دادا جان آپ!!! آپ کہاں چلے گئے تھے ہم نے آپ کو کتنا مس کیا!!! آپ کیسے اپنے چھوٹے چھوٹے پوتوں کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں ؟ بولیں آغا جان!! جواب دیں!!! وہ دونوں آغا جان سے لپٹے بول رہے تھے اور باقی سب ان کی اداکاری پر عش عش کر رہے تھے 

ارے آپ لوگ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں نا!!! فاطمہ بیگم کے کہنے پر سب لوگ لاونج میں بیٹھ گئے جبکہ زریش اب حائم کو کال کر رہی تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ہیلو! ہاں بولو زری کیا ہوا ؟ حائم نے فون رسیو کر کے آہستہ آواز میں پوچھا کیونکہ وہ اس وقت کورٹ روم میں تھا

لالہ جلدی سے گھر آئیں!! آپ کو پتہ ہے ہمارے گھر کون آیا ہے ؟ زریش نے جوش سے پوچھا

آتا ہوں زری ویسے کون آیا ہے ؟ حائم نے سرسری سا پوچھا وہ جلدی بات ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس کی باری آنے والی تھی

ارے لالہ آغا جان آئیں ہیں! بابا کے بابا یعنی ہمارے دادا جان، ساتھ میں مسز آغا جان آآآ مطلب بابا کی ماما یعنی ہماری دادی جان اور ان کے ساتھ آغا جان کے بڑے بیٹے مطلب بابا کے بڑے بھائی یعنی ہمارے بڑے تایا بابا اور آغا جان کے چھوٹے بیٹے مطلب بابا جان کے ان سے بڑے اور بڑے تایا بابا سے چھوٹے بھائی یعنی ہمارے چھوٹے تایا بابا اور ساتھ میں ان کے بڑے بیٹے مراد لالہ اور ان کے ساتھ بابا کی بڑی بہن یعنی ہماری بڑی پھپھو کے بڑے بیٹے فراز لالہ آئیں ہیں بس اتنے ہی لوگ ہیں لالہ آپ سن رہے ہیں ؟؟؟ زریش نے بھر پور تعارف کروا کر پوچھا جبکہ دوسری طرف حائم کو اپنے کانوں سے سائیں سائیں کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھی

میں آیایایایا !!! حائم نے اتنا بول کر فون بند کردیا اور کرسی پر بیٹھ گیا

حائم صاحب!!!! جی بابا آآآآ میرا مطلب ہے یور آنر آآآ حائم جو کہ زریش کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا جج صاحب کے اچانک مخاطب کرنے پر ہڑبڑا کر اٹھا اور جو منہ میں آیا بول دیا

پھر فوراً تصحیح کر کے دلائل دینے لگا جن میں سے آدھے وہ تقریباً بھول چکا تھا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آغا جان نے سلطان صاحب کو واپس خان ولا شفٹ ہونے کا کہا جس پر انہوں نے پیکنگ کے لیے ایک دن مانگا جس پر پہلے تو بی جان نہیں مانیں پر بعد میں انہوں نے اجازت دے دی

جبکہ اس دوران زریش بازل اور شہیر نے ضد پکڑ لی کہ انہیں ابھی خان ولا جانا ہے جس پر فاطمہ بیگم کے لاکھ منع کرنے کے باوجود جب وہ نہ مانے تو آغا جان انہیں ساتھ لے گئے پر جاتے جاتے بھی فاطمہ بیگم انہیں نصیحت کرنا نہ بھولیں پر وہ آفتیں ہی کیا جو ان کی نصیحت مان لیتیں

اگلی صبح سلطان صاحب فاطمہ بیگم حائم اور شازل خان ولا کے لیے روانہ ہو گئے راستے میں فاطمہ بیگم مسلسل دعائیں کرتی رہیں کہ اللّٰہ ان کی عزت کی حفاظت کرے کیونکہ انہیں ان تینوں سے کسی اچھے کی امید نہ تھی

قریباً بارہ بجے کے قریب وہ لوگ خان ولا پہنچے جہاں دروازے پر ہی سب ان کے استقبال کے لئے کھڑے تھے

ملنے ملانے کے بعد فاطمہ بیگم نے حائم کو زریش کو ڈھونڈنے بھیجا کیونکہ وہ اس سے زیادہ اسے کھولا نہیں چھوڑ سکتیں تھیں

دوسری جانب زریش مزے سے پورے خان ولا میں گھوم پھر رہی تھی رات کو چونکہ وہ لوگ دیر سے پہنچے تھے اس لیے اس کی ملاقات صرف بڑوں سے ہوئی تھی 

تھوڑی دیر گھومنے کے بعد اسے ایک طرف سے آوازیں آئیں تو وہ سمجھ گئی کہ کچن اس طرف ہی ہے

Hello Everyone!!! 

اس نے دروازے سے سے جھانک کر کہا تو تقریباً سب ہی کاموں میں مصروف تھیں

اسلام وعلیکم آپ کون حورعیں نے سلام کر کے پوچھا

میں زریش ہوں، زریش خانزادہ،بابا کی شہزادی ،بھائیوں کی پری اور ماما کی جان کا عذاب۔ویسے نا یہ مائیں ہوتی ہی ناشکری ہیں ایک تو اللہ انہیں اتنی پیاری بیٹیوں سے نوازتا ہے اور یہ ہیں کہ مار مار کر ان کی حالت ہی بگاڑ دیتی ہیں ویسے آپ لوگ اپنا بھی تو تعارف کروائیں

زرش نے بھرپور تعارف کروا کر ان سے پوچھا جو کہ حیرانی سے اس کی زبان کی سپیڈ چیک کر رہی تھیں

میں حورعین ہوں آپ کے چھوٹے تایا کی بیٹی کی بیٹی یہ مجھ سے چھوٹی ہے قراۃالعین اور مجھ سے بڑی نورالعین آپی اور یہ تایا کی بیٹیاں عائشہ آپی اور پلوشہ آپی اور یہ بڑی پھپھو کی بیٹیاں رمل اور نمل ہیں حورعین نے باری باری سب کا تعارف کروایا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

زری کہاں ہو؟؟؟ حائم جو کہ کافی دیر سے زریش کو ڈھونڈ رہا تھا اسے کہی نہ پا کر آواز دینے لگا

لالہ ادھر ہی ہوں!!! زریش جواباً بولی

ادھر ہو تو مجھے نظر کیوں نہیں آ رہی؟؟؟ حائم کو سمجھ نہیں آیا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اس لیے پھر بولا

لالہ آپ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے میں کرتی ہوں ماما سے بات کہ آپ کی شادی کروا دیں ورنہ زیادہ مسئلہ ہو گیا نظر کا تو کون لڑکی دے گا آپ کو؟؟؟ زریش حائم کو پکڑ کر کچن میں لائی اور نون سٹوپ بولتی چلی گئی 

محترمہ میں اگر نظر سے بلکل محروم ہو گیا تو بھی میری چار شادیاں ہو سکتیں ہیں!! حائم نے جتانے والے انداز میں کہا

چار چھوڑیں لالہ جتنی آپ کی عمر ہوتی جا رہی ہے مجھے تو لگتا ھے کہ آپ کی آدھی شادی بھی نہیں ہونی!!! باہر سے بازل کے ساتھ آتے شہیر نے کہا

ہیں!!! یہ آدھی شادی کیا ہوتا ہے؟؟؟ حائم نے حیرت سے پوچھا

اف!!! لالہ اگر تین بار قبول ہے بولا جائے تو ایک شادی ہوتی ہے اور اگر ڈھیر یعنی 1/2 بار بولا جائے تو آدھی شادی ہوتی ہے!! بازل نے سمجھانے والے انداز میں کہا

تمہیں بڑا تجربہ ہے شادیوں کا؟؟ حائم نے ائبرو آچکا کر کہا 

تجربہ نہیں ہے لالہ پر ہو جائے گا کیونکہ میں نے آپ کی طرح بوڑھا تھوڑی ہونا ہے بازل جواباً بولا

بوڑھا؟؟؟ میں تمہیں کہاں سے بوڑھا لگتا ہوں؟؟؟  ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟؟؟ حائم تو لفظ بوڑھے پر اچھل ہی پڑا 

زیادہ کچھ نہیں لالہ بس یہی کوئی 28 سال زریش ہمدردی سے بولی 

دیکھنا اگلے دو سالوں میں بالو میں چاندی آ جائے گی شہیر نے حائم کو چھیڑا

دو سالوں تک تمہاری بھابھی بھی آ جائے گی!!! حائم نے جتانے والے انداز میں کہا

دو سال!!! اتنی جلدی کیا ہے لالہ ابھی تو آپ چھوٹی سی نازک سی ڈالی ہیں ابھی أگ تو لیں زریش جل کر بولی

ارے بھائی کیا حویلی والوں نے کمرے نہیں دیے جو ادھر ہی ڈیڑا لگا لیا ہے ؟ فاطمہ بیگم کے ساتھ آتے شازل نے ہنس کر کہا

ارے نہیں شازی لالہ ہم تو حائم لالہ کی شادی کا پلاؤ پکا رہے تھے

زریش جواباً بولی

بیٹا پلاؤ نہیں آآآآ خیالی پلاؤ بولو شازل نے ہنس کر کہا

بس کرو نکلو ادھر سے ہر جگہ شروع ہو جاتے ہو فاطمہ بیگم کے بولنے پر وہ چاروں چپ چاپ نکل گئے

اسلام و علیکم چچی جان! عائشہ نے مسکرا کر کہا

وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو سب ؟ انہوں نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا؟ فاطمہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا

واہ ان ماؤں کے خدشات تو دیکھو!!! امی آپ دیکھ لیں بلکہ گنتی کر لیں ہم نے ایک لڑکی بھی نہیں کھائی! حد ہو گئی بندہ پوچھے ہم کوئی چھوتی بیماری ہیں جو گزر جائیں تو آپ سب سے پوچھتی پھریں کہ بچ گئے ہیں انفیکشن تو نہیں ہوا؟ زریش تو پھٹ ہی پڑی جبکہ اس کی بات سن کر فاطمہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا

ارے نہیں نہیں چچی اس نے ہمیں بلکل تنگ نہیں کیا نورالعین نے فوراً کہا

بس بیٹا یہ ایسی ہی ہے جھلی سی! فاطمہ بیگم نے ہنس کر زریش کو چت لگائی جس پر وہ منہ بنا کر باہر چلی گئی

چچی آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے پلوشہ نے مسکرا کر کہا جس پر فاطمہ بیگم صرف مسکرائیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی کیا چیز ہے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

یہ منظر شاہ ہاؤس کا جہاں حسین شاہ اپنے کمرے میں بیٹھے سامنے کھڑے ملازم کی بات سن رہے تھے

سائیں میں نے خود پتہ کروایا ہے شاہ عالم خود سلطان صاحب اور ان کے بیوی بچوں کو لے کر آئیں ہیں ملازم نے سر جھکا کر اطلاع دی

ہممم ! ٹھیک ہے تم جاؤ! حسین شاہ کے کہنے پر وہ ملازم چپ چاپ چلا گیا

تو یعنی شاہ عالم خانزادہ نے آخر کار اپنی ضد چھوڑ دی 

صاحب بڑے شاہ کھانے پر آپ کا انتظام کر رہے ہیں ملازمہ کے بتانے پر وہ اٹھ کر چل دیے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کچھ سنا آپ نے بابا سائیں آپ کے دوست نے آخر کار اپنی ضد چھوڑ دی حسین شاہ نے کھانا کھاتے ہوئے سربراہی کرسی پر بیٹھے اکبر شاہ سے کہا جسے سن کر سب کے چلتے ہاتھ رک گئے

کیا مطلب کہنا کیا چاہتے ہو ؟ اکبر شاہ نے بے چینی سے پوچھا

بھئیا کیا آپ کے پاس کوئی خبر ہے؟ حسن شاہ نے امید سے اپنے بڑے بھائی سے پوچھا

ہممممم میرے ملازم نے جیسے میں نے آپ کے دوست کی نگرانی پر لگایا تھا اس نے اطلاع دی ہےکہ شاہ عالم نے سلطان صاحب کو معاف کر دیا ہے اور بیوی بچوں سمیت واپس خان ولا بلا لیا ہے حسین شاہ نے عام سے انداز میں کہا

اس کا مطلب بابا سائیں ہم اب اپنی بہن سے مل سکتے ہیں حسن شاہ نے جوش پوچھا

نہیں ہممم 

دیکھیں بابا سائیں اب اور نہیں پہلے ہی آپ کی دوستی اور شاہ عالم صاحب کی تنگ نظری کی وجہ سے ہم نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی اکلوتی بہن سے قطع تعلق کیا لیکن اب اور نہیں حسین شاہ نے زرا غصے سے کہا وہ اتنا عرصہ صرف اپنے بابا کی شاہ عالم کو دی گئی زبان کی وجہ سے خاموش تھے پر اب جب انہیں کوئی اعتراض نہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں

ہممم ٹھیک ہے پر ابھی تک جاؤ انہیں کچھ وقت دو پھر دیکھتے ہیں اکبر شاہ نے کچھ سوچ کر کہا جس پر سب نے ہی ہاں میں سر ہلایا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

واپس خان ولا میں آؤ تو رات کے بارہ بج رہے تھے اور اصول کے مطابق سب سونے جا چکے تھے فاطمہ بیگم نے زبردستی ان پانچوں کو سونے بھیج دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ کسی کو ان سے کوئی شکائت ہو

12:30 منٹ پر زریش نے آہستہ سے سر دروازے کے باہر نکال کر دیکھا تو پورا خان ولا خاموش پڑا تھا وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بازل کے کمرے تک آئی اور دروازا ہلکے سے نوک کیا

زری ادھر کیا کر رہی؟ ماما نے دیکھ لیا تو شامت آ جائے گی بازل نے دروازا کھول کر زریش سے کہا

بازی مجھے بہت بھوک لگی ہے زریش نے مسکین شکل بنا کر کہا

اچھا چلو میں تمہیں ملک شیک بنا کر دیتا ہوں بازل کے کہنے پر وہ دونوں دبے پاؤں کچن کی طرف چل دیے 

کچن میں پہنچ کر بازل ملک شیک بنانے لگ گیا جبکہ زریش نے سب کو میسیج کر کے کچن میں بلا لیا

تھوڑی دیر بعد حائم، شازل اور شہیر بھی دبے پاؤں وہاں پہنچ گئے

ہاں زری بولو کیا ہوا؟ شازل نے زریش سے پوچھا

وہ شازی لالہ مجھے نا بھوک لگی ہے بازی ملک شیک بنا ریا آپ آملیٹ بنا دیں پلیز!!! زریش نے معصومیت سے کہا

آاہ میرے شہزادے کو بھوک لگی ہے لالہ قربان ابھی بنا کر دیتا ہوں شازل محبت سے اس کا ماتھا چومتا آملیٹ بنانے لگا

آہممممم! میڈم ہمیں بھی بتائیں کیا حکم ہے؟ شہیر نے آدب سے پوچھا

حائم لالہ آپ نہ روٹی بنا دیں اور شہری تم نہ مجھے فرنچ فرائز بنا کر دو زریش کے بولنے پر سب ہی کاموں میں لگ گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

یار حمید یہ کچن کی لائیٹ کیوں چل رہی ہے اس وقت تو سب سوئے ہوتے ہیں ہے نا؟؟؟ سیکیورٹی اہلکار بشیر نے اپنے ساتھی اہلکار سے کہا

ہاں یار شائد غلطی سے چلتی رہ گئی ہے حمید نے جواباً کہا اتنے میں کھڑکی پر ایک سایہ بنا

اوئے اندر کوئی ہے ضرور کوئی چور ہو گا جلدی مراد لالہ کو فون کر بشیر کے بولنے پر حمید نے فوراً مراد کو فون کیا 

بار بار بجتی فون کی گھنٹی سے عائشہ کی آنکھلی تو مراد کو گہری نیند میں سوتا پایا

 اس نے پکڑ کر کال کاٹ دی پر تھوڑی دیر بعد فون پھر بجا

مراد اٹھیں! آپ کا فون بج رہا ہے!!! عائشہ نے مراد کو اٹھایا ان کی شادی ڈھیر سال ہو چکا تھا

ہاں بولو بشیر کیا ہوا؟ مراد نے جمائی روکتے ہوئے پوچھا

صاحب جی وہ آپ کے گھر میں چور گھس گیا ہے ؟؟

کیا کہا چور کب؟؟؟  کہاں؟؟؟ کیسے؟؟؟ مراد نے ایک ساتھ ہی کتنے سوال کر دئے

صاحب جی ابھی کچن میں اور کیسے یہ تو نہیں پتا ملازم نے تابعداری سے کہا

اچھا تم رکو میں ابھی آیا مراد نے جلدی سے کہا

کیا ہوا کون گھس گیا گھر میں عائشہ نے فکرمندی سے پوچھا

پتا نہیں شائد کوئی چور ہے رکو میں بابا کو کال کرتا ہوں مراد بول کر جہانزیب صاحب کو فون کرنے لگا

ہیلو ہاں بولو مراد کیا ہوا ؟ جہانزیب صاحب نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کھول کر پوچھا

بابا آپ کہاں ہیں ؟ مراد نے پوچھا

بس سٹاپ پر ہوں!!! حد ہو گئی مراد تم نے اس وقت مجھ سے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا ہے؟ جہانزیب صاحب نے تپ کر کہا

بابا گھر میں کوئی چور گھس گیا ہے آپ جلدی سے آئیں!!! مراد نے بتایا

کیا کہا چور رکو میں آتا ہوں جہانزیب صاحب اتنا بول کر جلدی سے اپنی بندوق پکڑ کر باہر نکلے ان کے پیچھے پیچھے نازیہ بیگم بھی نکلیں

بابا ؟؟؟ بابا دروازا کھولیں!!! عائشہ نے جہانگیر صاحب کے کمرے کا دروازا کھٹکھٹایا

عائشہ اس وقت!!! کیا ہوا ؟ جہانگیر صاحب نے فکرمندی سے پوچھا

بابا گھر میں چور گھس گیا ہے! عائشہ نے آہستہ آواز میں بتایا

کیا؟؟؟؟ میری بندوق لاؤ 

آہستہ بولیں چور سن لے گا جہانگیر صاحب اونچی آواز میں بولے جس پر فردوس بیگم نے انہیں ٹوکا

عائشہ جاؤ اپنی بہنوں اور پھپھو وغیرہ کو اٹھاؤ جہانگیر صاحب کے بولنے پر وہ سر ہلاتی چلی گئی

تھوڑی دیر بعد سب لوگ آغا جان کے کمرے کے باہر کھڑے تھے

آغا جان ؟؟؟ 

آغا جان ؟؟؟

سلطان صاحب نے آہستہ سے دروازا نوک کر کے آواز دی

کیا ہوا سب اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ؟ آغا جان نے باہر آ کر پوچھا 

آغا جان گھر میں چور گھس گیا ہے ؟ سلطان صاحب نے آہستہ آواز میں بتایا

کیا؟؟؟؟

آہستہ بولیں! چلیں دیکھتے ہیں سلطان صاحب اتنا بول کر اپنی بندوق پکڑے آگے بڑھنے لگے ان کے پیچھے پیچھے سب مرد بندوقیں پکڑے اور سب خواتین آیات الکرسی پڑھتی چل پڑیں

ابھی وہ آگے بڑھئے ہی تھے کہ کچن سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی

یا اللہ خیر!!!!!

ششش!!!

بی جان نے ڈر کر کہا جس پر سب نے ٹوکا آوازیں اب بڑھتی جا رہی تھیں

خبردار جو کوئی ہلا!!!! سلطان صاحب نے اپنی بندوق تان کر کہا ان کے پیچھے پیچھے سب نے ہی اپنی بندوقیں تانے لیں

جبکہ اتنی ساری بندوقوں کو دیکھ کر حائم کے آٹا گوندھتے  شازل کے برتن دھوتے شہیر کے کانچ اٹھاتے بازل کے فرنچ فرائز کھاتے اور زریش کے بازل کے بال کھینچتے ہاتھ تھم گئے

کہا ہے چور؟ سلطان صاحب نے پوچھا

بابا یہ ہے چور!!!!! زریش نے بازل کی طرف اشارہ کیا

بابا میں اور فرنچ فرائز بنا دیتا ہوں پلیز بندوق سائڈ پر کریں یہ چل جاتی ہوتی ہے!!! بازل نے ہاتھ کھڑے کر کے کہا

تم سب ادھر کیا کر رہے ہو ؟ فاطمہ بیگم غصے سے بولیں وہ ساری بات سمجھ گئیں تھیں

ہم تو کھانا کھانے آئے تھے پر آپ سب اس وقت کون سا شکار کرنے چلے ہیں؟؟؟ شہیر بولا

بیٹا ہمارے اصول ہیں 10 بجے کے بعد کوئی نہیں جاگتا ہم سمجھے کوئی چور گھس گیا ہے آغا جان نے نرمی سے کہا

لے !!!! دادو ہینڈسم اب آج کل کے زمانے میں دس بجے کون سوتا ہے آٹھ نو بجے کھانا کھانے کے بعد بارہ بجے پھر بھوک لگ جاتی ہے اب بندہ کیسے سوئے آغا جان کی بات سن کر بازل بولا

بیٹا پر!!!!!!!

دیکھیں دادو ہینڈسم ہم دس بجے بلکل بھی نہیں سو سکتے ہم کم از بارہ بجے سوتے ہیں اس بار شہیر بولا

پر یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے آغا جان نے ذرا سختی سے کہا

ٹھیک ہے دادو ہینڈسم پھر آپ رکھیں اپنے اصول اپنے پاس لالہ ہم واپس چلتے ہیں زریش نے کہا

ارے نہیں نہیں میرا بچہ تم لوگوں نے کہی نہیں جانا خان صاحب بچے جیسے رہتے ہیں رہنے دیں نہیں عادت ان کو تو نہ تنگ کریں بی جان نے فوراً کہا جس پر زریش کی آنکھیں چمکیں

دادو ہینڈسم پلیز!!!!!!

اچھا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی میرا شیر بچہ! زریش نے مسکین شکل بنا کر کہا جس پر آغا جان نے ہنس کر اسے اپنے ساتھ لگایا ان کا انداز دیکھ کر سب ہی ہنس دے اور اس کے ساتھ ہی خان ولا کا پہلا اصول شہید ہو گیا 

انا للّٰہ وانا الیہ راجیون 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

دن بہ دن خان ولا کا ماحول بدلتا گیا ان پانچوں کے علاوہ باقی سب گھر والوں کو بھی رات دیر سے سونے کی عادت پڑ گئی تھی وجہ ان کا رات میں ہونے والا ڈرامہ تھا

کیا بات ہے بھئی آج اتنی خاموشی کیوں ہے ؟ آغا جان نے کھانا کھاتے ہوئے ان تینوں سے پوچھا جو کہ بلکل خاموش تھے

زری کیا ہوا ہے کہی کھانے میں الفی تو نہیں گر گئی جو تم تینوں اتنا چپ ہو ؟ فراز نے ہنس کر چھیڑا پچھلے چند دنوں میں ان کی سب سے کافی اچھی دوستی ہو چکی تھی جس کے باعث اب آغا جان کا نہ گھلنے ملنے والا اصول تو دم توڑ چکا تھا

ان کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر سب ہی ادھر متوجہ ہو گئے

زری پتر کیا ہوا ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ آغا جان نے نرمی سے پوچھا لیکن ان تینوں میں سے کسی نے منہ نہ کھولا

آف اللہ کچھ بولو بھی کیا زبانیں چوری ہو گئیں ہیں یا کان گم ہو گئے ہیں جو اتنے چپ ہو زمل تنگ آکر بولا

زری پتر کچھ تو بولو آغا جان اب واقع پریشان ہوئے

دادو ہینڈسم ہم نے نا چپ کا روزہ رکھ لیا ہے کیونکہ آپ کی زوجہ محترمہ نے کل ذرا سا اونچا بولنے پر مجھے ٹھیک ٹھاک سنائی تھی جس کے بعد میں نے بھی قسم کھا لی تھی کہ اب کسی کو بھی میری آواز نہیں آئےگی اور میں چپ ہوئی تو ان دونوں کو بھی ہونا پڑا ورنہ وزن کیسے پڑتا زریش بڑے تحمل سے بولی

کیوں بیگم یہ ہم کیا سن رہے ہیں آپ نے ہمارے شہزادے کو ڈانٹا وہ بھی بولنے کی وجہ سے ؟ آغا جان غصے سے بی جان سے بولے

خان صاحب بولنے کی وجہ سے نہیں چیخنے کی وجہ سے کل ہم بیٹھے چاول چن رہے تھے جب ایک دم سے آپ کی لاڈلی اتنا زور سے چیخی کی ہمارے ہاتھ میں موجود چاولوں کا تھال ہم سے اچھل گیا اور پاس کھڑے ملازم کے سر پر لگا جو بیچارہ اب پٹی باندھ کر گھوم رہا ہے اس لیے ہم نے ذرا سا ڈانٹ دیا اور یہ تو آپ کے اصول ہیں نا کہ کوئی بھی اونچا نہ بولے بی جان نے سارا واقعہ سنا کر پوچھا

باقی سب کی اور بات ہے پر خبردار جو کسی نے میرے شہزادوں کو کچھ کہا اور آپ بھی سن لیں زری چاہیے منہ سے بولے یا مسجد کے سپیکر میں کوئی کچھ نہیں بولے گا آغا جان نے سختی سے کہا جس پر بی جان نے ایک خفا نظر زریش پر ڈال کر منہ پھیر لیا

ارے دادو ہینڈسم کیوں عافی ڈارلنگ کے پیچھے پڑ گئے ہیں یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے آپ کدھر مان نہ مان میں تیرا مہمان بنے گھس رہی ہیں زریش فوراً بولی

صدقے جاؤں میں تمہاری اس معصومیت کے اچھی خاصی ڈانٹ پڑوا کر اب بول رہی ہو آپس کا معاملہ ہے بی جان نے زریش کی نکل اتاری جس پر سب ہی ہنس دیے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

شاہ سائیں بس پھر کیا بتاؤں ۔۔۔۔ سب کو لگا کہ گھر میں چور گھس گیا ہے لیکن وہ سلطان صاحب کے بچے تھے اور اب تو وہاں سب ہی رات دیر تک جاگتے ہیں سامنے کھڑے ملازم نے آدب سے ساری بات سنائی جسے سن کر ناشتے کی میز پر موجود سب لوگ ہنس دیے

بابا سائیں مجھے لگتا ہے کہ آپ کے دوست کا مکافات عمل شروع ہو گیا ہے حسن شاہ نے ہنس کر کہا

شاہ سائیں پھر کب جا رہے ہیں ہم اپنی بیٹی سے ملنے ؟ یاسمین بیگم جنہیں سب بڑی بی کہتے تھے حسرت سے بولیں

ہممممم انشاء اللہ کچھ دنوں تک چلتے ہیں اکبر شاہ نے کہا

کیا لگتا ہے گھر میں گھسنے دیں گے ہمیں ؟ حسین شاہ بولے

ارے بھیا مجھے تو لگتا ھے کہ وہ تو خود ان آفتوں کی وجہ سے خان ولا چھوڑ دیں گی حس شاہ بولے اور سب ہی ہنس کر ناشتہ کرنے لگے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

لالہ تھوڑا دائیں کرے نا ابھی بھی سگنل نہیں آ رہے ۔۔۔۔۔ زریش سیڑھی پر چڑھے شازل سے بولی آغا جان مزے سے صوفے پر بیٹھ کر انہیں دیکھ رہے تھے

دیکھو زری اب آئے ؟ شازل نے اوپر سے آواز لگائی

نہیں لالہ۔۔۔۔۔ہاں آ گئے ۔۔۔۔۔۔ نہیں پھر چلے گئے زریش بولی

کیا ہو رہا ہے یہاں باہر سے فراز کے ساتھ آتے مراد نے پوچھا

لالہ Wi fi لگا رہے ہیں زریش جواباً بولی

کیوں گھر میں کس کے پاس سمارٹ فون ہے جو تم لوگ Wi fi لگا رہے ہو ؟ فراز پوچھ ان سے رہا تھا پر دیکھ آغا جان کو رہا تھا

لو زری ہو گیا!!! حائم نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا

کیا ہو گیا؟ مراد نے پوچھا

لالہ LED لگا رہا تھا حائم نے بتایا

کیا ؟؟؟؟ آغا جان گھر میں تو ان سب چیزوں کی پابندی تھی نا اس لیے ہی تو ہم اب تک ان سستے Nokia phones سے متھا مار رہے ہیں فراز نے آغا جان کو یاد دلایا کہ شاید وہ بھول گئے ہیں

برخوردار اتنا مت اچھلو جا کر اپنے لیے بلکہ گھر کے ہر فرد کے لیے سمارٹ فون لے آؤ ہم تو اپنا لے آئے ہیں اور اب یہ منہ بند کرو ورنہ مکھی گھس جائے گی آغا جان نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھایا اور ساتھ میں فراز سے کہا جو منہ کھولے انہیں دیکھ رہا

کچھ دیر انہیں دیکھنے کے بعد وہ باہر کو چل دیا

اتنے میں بی جان تن فن کرتیں آغا جان کے سر پر پہنچ گئیں

خان صاحب ذرا یہ بتائیں یہ لیلا پری کون ہے ؟؟؟ بی جان نے کمر پر بازو ٹکا کر پوچھا

بھئی مجھے کیا پتہ کہ کون ہے؟؟؟ آغا جان نے ناسمجھی سے کہا

ارے یہی جس نے آپ کی عینک والی فوٹو پر ہاؤ ہینڈسم کا کمینٹ کیا ہے!!! بی جان نے فون سامنے کر لے کہا

ارے ہو گی کوئی میری فین وائے آر یو فیل جیلس بیگم صاحبہ ؟؟؟ آغا جان نے پوچھا 

اتنے میں جہانگیر صاحب اور فردوس بیگم بھی لڑتے ہوئے نیچے پہنچے

بیگم بات تو سنوں!!! جہانگیر صاحب بولے

نہیں آپ کی ہمت کیسے ہوئی اپنی آئی ڈی پکچر پر اپنی شادی کے دنوں کی تصویر لگانے کی سب سمجھتی ہوں میں یہ فیس بک پر چکر چلانے کے حربے ہیں آپ کے!!! فردوس بیگم بولیں

آہستہ آہستہ سب ہی موبائل پر بحث کرتے وہاں پہنچ گئے

زری مجھے لگتا ہے ہم نے خان ولا کا سکون غارت کر دیا ہے!!! حائم زریش کے پاس جھک کر بولا

لالہ جب گھر میں یہ شیطان کا ڈبہ داخل ہو گا تو لڑائی تو ہو گی نا آپ بس اینجوئے کریں کیونکہ وہ کہتے ہیں نا

سانو آفت کہندے سانو کی

سانو کہندے رہندے سانو کی زریش بولی جس پر حائم نے مسکرا کر سر جھٹکا اور سامنے لگا تماشا دیکھنے لگا 

لو جی تین گئے گیارہ باقی

انا للّٰہ وانا الیہ راجیون

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ماما؟؟ حائم نے کچن میں آ کر فاطمہ بیگم کو آواز دی جو کہ اداسی سے کھڑکی سے باہر سامنے موجود حویلی کو دیکھ رہی تھیں

ماما؟؟؟ حائم کے بلانے پر وہ چونکی 

ہاں بیٹا ؟؟؟ 

ماما آپ رو رہی ہیں ؟؟؟ حائم نے ان کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر کہا

نہیں میں کیوں رو گی بھلا ؟ فاطمہ بیگم نے آنکھیں صاف کر کے کہا اتنے میں بار صحن میں شور اٹھا

ارے دیکھو جا کر اب کیا کر دیا انہوں نے ؟ فاطمہ بیگم کے بولنے پر حائم باہر چل دیا جہاں آغا جان ایک ملازم کی خبر لے رہے تھے

نہ مجھے یہ بتا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ بچیوں کو واپس لے کر آ؟؟؟ آغا جان نے غصے سے پوچھا

صاحب جی مجھے لگا بی بی جی کو پتہ نہیں ہے کہ باہر جانا منہ ہے آپ کے ہی اصول ہے یہ ملازم سر جھکا کر بولا

کیا ہوا آغا جان ؟ حائم نے پوچھا

ہونا کیا ہے لالہ ہم سب لڑکیاں مل کر مووی دیکھنے کا رہی تھیں پورے دو گھنٹے دادو ہینڈسم کو بلیک میل کرکے اجازت ملی تھی اور ان کا یہ چمچہ ہمیں واپس لے آیا ۔۔۔ زریش نے ملازم کی طرف اشارہ کر کے کہا جو کہ اب رونے والا ہو گیا تھا

جا ادھر سے تیری تو ہم بعد میں خبر لیں گے آغا جان کے بولنے پر وہ جلدی سے باہر نکل گیا 

کوئی نہیں میرا بچہ کل چلے جانا سب آغا جان نے زریش سے کہا جس نے منہ پھولیا ہوا تھا دو گھنٹے لگے تھے آغا جان کو منانے میں اور پورے چار گھنٹے لگے تھے سب لڑکیوں کو منانے میں جن کی باہر جانے کا سن کر پہلے باچھیں کھل گئیں اور پھر ٹانگیں کانپنے لگی

ٹھیک ہے آغا جان پر کل ہم نے پھر سارا دن باہر گزارنا ہے زریش کے بولنے پر آغا جان نے ہاں میں سر ہلایا 

لو جی چار گئے دس باقی

انا للّٰہ وانا الیہ راجیون

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حسن آج تم گاؤں جاؤ اور جا کر ہماری حویلی کی مرمت وغیرہ دیکھو پھر ہم ادھر شفٹ ہو جائیں گے آغا جان نے چائے پیتے حسن شاہ سے کہا اس وقت سب لوگ لاونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے

حویلی ؟؟؟ لیکن کیوں آغا جان ؟؟ حسن شاہ نے ناسمجھی سے پوچھا

کیا مطلب کیوں!!! اب جب کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں تو کیوں ہم اپنی آبائی حویلی چھوڑیں ؟ جواب حسین شاہ نے دیا

ٹھیک کہا تم دونوں بھی اپنی اور بچوں کی پیکنگ کر لو ہم جلد روانہ ہو جائیں گے آغا جان نے حسن شاہ کی بیوی مسرت بیگم اور حسین شاہ کی بیوی فوزیہ بیگم سے کہا

جی ٹھیک ہے بابا سائیں دونوں نے جواب دیا

اور یہ ہمارے اکلوتے برخوردار کہاں ہیں اکبر شاہ نے حسین شاہ کے اکلوتے بیٹے اور شاہ ہاؤس کے اکلوتے وارث کے بارے میں پوچھا

یہی ہی بابا سائیں بس لڑکیوں کے ساتھ مال گیا ہے ان کی کسی دوست کی شادی ہے انہوں نے شاپنگ کرنی تھی آتا ہی ہو گا حسین شاہ نے بتایا جس پر اکبر شاہ نے سر کو جبنیش دی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بازی میرے پیارے بھائی گاڑی آہستہ کرو کیوں اتنی حسین لڑکیوں کی موت کے ذمے دار بننا چاہتے ہو پلوشہ نے بازل سے کہا

 جو گاڑی 80 کی سپیڈ پر بھگا رہا 

حسین لڑکیاں!!!! کہاں ہیں؟؟؟ میں تو چڑیلیں لے کر نکلا تھا!!!! بازل نے حیران ہوتے ہوئے پہلے پیچھلی سیٹ پر بیٹھی عائشہ پلوشہ اور قراۃالعین کو دیکھا پھر ساتھ بیٹھی زریش کو

کیا کہا بازی بھائی ہم اتنی پیاری لڑکیاں آپ کو چڑیلیں لگتی ہیں ؟ قراۃالعین شاک سے بولی

چڑیل ہو گی تمہاری بیوی!!! تمہاری ساس!!! تمہاری سالی !!! زریش جواباً بولی

دیکھنا میں گھر جا کر پھپھو کو بتاؤں گا کہ تم نے ان کو اور ان کی دونوں بیٹیوں کو چڑیل کہا ہے بازل نے دھمکی دی

اوئے عقل کے اندھے ،دماغ سے پیدل ، کانوں سے محروم ، آلو کی آنکھوں والے ،مونگ پھلی کی شکل والے انسان کان صاف کرو میں نے پھپھو کو نہیں کہا زریش بنا اس کی بات کا مطلب سمجھے اسے اچھا خاصا بے عزت کر گئی

کیا کہا ؟؟؟ تمہاری تو!!!!

بازی سامنے دیکو !!!!

بازل نے عائشہ کے بولنے پر سامنے دیکھا جہاں ایک شخص کار کا دروازا کھولے کھڑا تھا اس نے گاڑی کی سپیڈ کم کرنے کی کوشش کی پر گاڑی پھر بھی اس گاڑی سے ٹکڑا گئی 

ٹکڑ لگنے سے کار کا دروازا اس بندے کہ ہاتھ میں رہ گیا جبکہ گاڑی آگے چل دی

وٹ دا ہیل آآآ کیا بد تمیزی ہے جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو چلاتے کیوں ہو؟؟ ان کے باہر نکلتے ہی زاویار ان پر چڑھ دوڑا

اوہ ہیلو مسٹر چیخ کیوں رہے ہو کوئی ٹانگ نہیں ٹوٹی تمہاری صرف گاڑی ٹوٹی ہے تو وہ تو ہماری بھی ٹوٹی ہے ہم تو نہیں چیخ رہے زریش نے اس کے بولنے سے پہلے ہی اسے  کی اچھی خاصی سنا دی 

کیا ہوا زاویار لالہ؟؟ جاناں اور نازلی نے باہر آتے ہوئے پوچھا

ہونا کیا ہے دیکھو ان جاہل لوگوں نے میرا کتنا نقصان کر دیا!!! زاویار نے ہاتھ میں پکڑے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا

اوئے جاہل کس کو بولا تم سے دو جماعتیں زیادہ ہی پڑھیں ہو گی ہم نے زریش تو لفظ جاہل پر اچھل پڑی

تم!! رکو تم تو وہی ہو نا جس نے اس دن ریسٹورنٹ میں میرے اوپر کیچب پھینکی تھی ؟ زاویار کچھ کہنے والا تھا جب ایک دم یاد آنے پر بولا

کیا ہوا بازی رک کیوں گئے ؟ حائم نے پوچھا وہ اپنی گاڑی میں باقی لڑکیوں کو لا رہا تھا جبکہ اس کے آنے پر نازلی نے جاناں کو کہنی ماری

کیا ہے؟؟؟ 

جاناں نے آہستہ آواز میں پوچھا

جیجو آ گئے!!!! نازلی نے اس کے کان کے پاس جھک کر کہا

شٹ اپ!!!! جاناں نے اس کے پاؤں پر پاؤں مار کر کہا جس پر وہ دبی دبی سسکی

لالہ وہ آکسیڈنٹ ہو گیا!!! بازل نے بتایا

کیا ؟؟؟؟ تم سب ٹھیک ہو نا؟؟؟ چوٹ تو نہیں لگی کسی کو؟؟؟ حائم نے فکرمندی سے پوچھا

نہیں لالہ ہم تو ٹھیک ہیں پر انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے زریش نے زاویار کی طرف اشارہ کر کے کہا

زری خاموش!!!!! حائم کے بولنے پر وہ منہ بنا کر چپ ہو گئی

ایم رئیلی سوری بچے ہیں غلطی ہو گئی حائم نے معزرت کی

بچے!!!! یہ بچے ہیں!!! آفتیں ہیں پوری!!! زاویار تو لفظ بچے پر اچھل پڑا

دیکھیں میں ان کی طرف سے معزرت کرتا ہوں یہ بس تھوڑے شرارتی ہیں!!!!!

تھوڑے؟؟؟؟؟ زاویار نے آئبرو آچکا کر پوچھا

مطلب تھوڑے زیادہ!!!! آپ نے کہاں جانا ہے آئیں میں ڈراپ کر دیتا ہوں حائم کے بولنے پر نازلی نے نیچلا ہونٹ دبا کر جاناں کو دیکھا جس نے جواباً اس گھورا

نہیں اس کی ضرورت نہیں ہم خود چلے جائیں گے زاویار نے گہری سانس لے کر کہا

لالہ پہلے ہی دیر ہو چکی ہے گھر میں سب پریشان ہو رہے ہوں گے ان کے ساتھ ہی چلتے ہیں نا نازلی نے بنا جاناں کی گھوریوں کا اثر لیے زاویار سے کہا جس نے اس کی بات پر محض سر ہلایا

بازی سب کو لے کر گھر جاؤ حائم نے باذل سے کہا

پر لالہ!!!!

کوئی پر ور نہیں بولا نہ گھر جاؤ!!!

حائم کے بولنے پر وہ منہ بنا کر گاڑی میں بیٹھ گئی

آئیں!!! حائم کے کہنے پر وہ تینوں خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئے

ان کی طرف سے میں پھر معافی مانگتا ہوں یہ بس ایسے ہی ہیں!!! حائم نے ساتھ بیٹھے زاویار کو دیکھ کر کہا

ہممممم کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے پر آپ کی بڑی ہمت ہے جو ان آفتوں کو جھیلتے ہیں زاویار نے کہا جس پر حائم کھل کر مسکرایا جبکہ جاناں نے مرر سے غور سے اس کی مسکراہٹ اور دائیں گال پر پڑنے والا ڈمپل دیکھا

ویسے بھائی آپ کا نام کیا ہے ؟ نازلی نے پوچھا

حائم!!! حائم خانزادہ!!! حائم نے جواب دیا

میں زاویار شاہ ہوں!!! زاویار نے تعارف کروایا

مل کر خوشی ہوئی حائم نے مسکرا کر کہا

بھائی آپ کرتے کیا ہیں ؟؟ نازلی نے پھر پوچھا جبکہ جاناں اس دوران مسلسل اسے گھور رہی تھی

میں وکیل ہوں!!! حائم نے جواب دیا

اچھا شادی شدہ ہیں! ایک اور سوال داغا گیا اور اس بار جانا نے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی

نہیں ابھی سنگل ہی ہوں!!! حائم نے ہنس کر کہا

اچھا پھر آپ کی منگنی وغیرہ تو ہوئی ہو گی ؟؟ نازلی باز نہ آئی جبکہ جاناں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا سر پھاڑ دیتی

نہیں ایسا ابھی کوئی سین نہیں اس معاملے میں میں ذرا ڈھیٹ ہوں حائم نے ہنس کر جواب دیا

اچھا!!!!یہ بتائیں!!!

بس بھی کرو کیا انٹرویو لینا شروع کر دیا ہے!!! جاناں نے پہلی بار لب کشائی کی

رہنے دیں میں ویسے بھی کافی انجوئے کر رہا ہوں!!! حائم نے مرر سے اس دیکھ کر کہا جبکہ اس کے مخاطب کرنے پر جاناں نے ایک بیٹ مس کی

پھر سارا راستہ نازلی اس سے سوال جواب کرتی رہی بیچ میں زاویار بھی اس سے کوئی کوئی نہ کوئی بات کر لیتا

بس یہی روک دیں!!! زاویار کے بولنے پر حائم نے گاڑی ایک حویلی کے آگے روک دی 

آپ کا جو بھی نقصان ہوا ہے میں پورا کر دوں گا حائم نے کہا

نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں میں مینج کر لو گا زاویار بولا

حائم بھائی اندر آئیں نا چائے پی کر جائیے گا نازلی بولی

نہیں بچے اس کی کوئی ضرورت نہیں حائم نے مسکرا کر کہا

نہیں آپ پلیز اندر چلیں ایسے اچھا نہیں لگتا زاویار کے بولنے پر وہ ان کے پیچھے چل دیا

شکر ہے تم لوگ آ گئے میں کب سے انتظار کر رہا تھا آآآ یہ کون ہے ؟ حسن شاہ نے ان کے پیچھے ایک شخص کو آتے دیکھا تو پوچھا

بابا یہ حائم بھائی ہیں ہماری گاڑی کا مسئلہ ہو گیا تھا تو یہ ہمیں چھوڑنے آ گئے نازلی نے ایکسیڈنٹ والی بات نکال کر کہا

اچھا اچھا آؤ بیٹا اندر چلو جاناں بیٹا اپنی ماما سے کہو چائے کا انتظام کریں

جی بابا!!! جاناں اتنا بول کر آگے بڑھ گئی جبکہ وہ بھی سب کے ساتھ اندر بڑھنے لگا

اسلام و علیکم اس لاونج میں بیٹھے لوگوں کو سلام کیا

وعلیکم السلام اکبر شاہ نے جواب دیا

زاویار نے اس کا تعارف کروایا جس پر سب ہی اس کا شکریہ ادا کرنے لگے ایکسیڈنٹ والی بات زاویار نے بھی نہیں بتائی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کیا ضرورت تھی اس کو چائے کے لیے روکنے کی ؟ جاناں نے چائے کپ میں ڈالتے ہوئے نازلی سے کہا جو کہ شوخ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی

کیا مطلب کیا ضرورت تھی آخر یہ ان کا ہونے والا سسرال ہے اب کیا انہیں چائے بھی نہ پوچھتی؟؟؟ نازلی نے جیسے اس کی عقل پر ماتم کیا

بکو مت!!!! جاناں نے اسے ٹوکا

دیکھو بہن ابھی بتا دو تمہارا کیا آرادہ ہے ورنہ بندہ بڑا ہینڈسم ہے نازلی نے شریر لہجے میں کہا

شرم کرو باہر تو بڑا بھائی بھائی بول رہی تھی جاناں نے اس کو شرم دلانی چاہی

ہاں تو تمہاری خاطر بول رہی تھی ورنہ کیا تمہیں میں اتنی پاگل لگتی ہوں نازلی بولی

تم بھی نہ!!! جاناں نے نفی میں سر ہلایا

ویسے کاش ان کا کوئی ان کے جیسا ہینڈسم سا بھائی بھی ہوتا تو مزہ آ جاتا نازلی حسرت سے بولی

پوچھ لینا شائد ہو جاناں نے مشورہ دیا

اچھا تم چائے لاؤ یہ کباب وغیرہ میں لے آتی ہوں نازلی نے کہا

چائے بھی تم ہی لے جاؤ میں نہیں لے جا رہی جاناں جواباً بولی

ارے میری نادان بہن جب میری باری آئے گی تب میں لے جاؤں گی ابھی تم پکڑو نازلی بولی

تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا جاناں اتنا بول کر چائے کی ٹرے پکڑے جانے لگی جب پیچھے سے اس نے پکارا

کیا ہے ؟؟؟؟

بیسٹ آف لک!!! نازلی نے کہا جس پر وہ اسے گھورتی باہر نکل گئی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

عائشہ!!!!

 پلانا ذرا!!! مراد نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا

برخوردار جا کر خود ہی پی لو ورنہ پیاس سے مر جاؤ گے! آغا جان نے کہا

کیا مطلب آغا جان اور یہ بابا وغیرہ کہاں ہیں کوئی نظر کیوں نہیں آ رہا ؟ مراد نے آس پاس دیکھتے ہوئے کہا

مراد ایک کام کرو اندر جا کر خود ہی دیکھ لو آغا جان نے مشورہ دیا جسے سن کر وہ اندر بڑھ گیا

لاؤنج میں آوازیں سن کر وہ اس طرف آ گیا ابھی وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے قدم جم گئے اور منہ اور آنکھیں حیرت کی زیادتی سے کھل گئیں

یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟؟؟؟ مراد نے منہ پر ماسک لگائے آنکھوں پر کھیرے رکھے سب خواتین کو دیکھ کر پوچھا

لالہ ڈسٹرب نہ کریں دیکھ نہیں رہے یہاں مقابلہ حسن کی تیاری ہو رہی ہے کھیرے کاٹتے فراز نے اسے ٹوکا

ان سب میں سے میری بیوی کون سی ہے؟؟؟ مراد بامشکل پوچھ پایا

مراد ادھر ہوں میں!!! عائشہ نے ہاتھ اونچا کر کے کہا

عائشہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟؟۔ مراد نے اس کی آنکھوں سے کھیرے اٹھاتے ہوئے کہا

لڈو کھیل رہی ہوں آئیں مل کر کھیلتے ہیں!!!! عائشہ نے غصے سے کہہ کر واپس آنکھوں پر کھیرے رکھ لیے ہیں

آنکھیں تمہاری بند ہیں اس لیے تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہاں لڈو نہیں بلکہ ہاکی کا میچ ہو رہا ہے مراد نے تپ کر کہا

اچھا میں تو لڈو سمجھ رہی تھی اچھا کیا آپ نے بتا دیا ورنہ میں ہار جاتی عائشہ نے تحمل سے جواب دیا

ماما دیکھ رہی ہیں آپکی بہو کیسے زبان چلا رہی ہے مراد نے نازیہ بیگم سے کہا

مراد وہ اگر زبان چلا رہی ہے تو تم کچن میں جا کر کچھ ہاتھ چلا لو فارغ نہ بیٹھو اپنے بابا سے ہی کچھ سیکھ لو نازیہ بیگم کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا

کیا مطلب ؟؟؟ مراد نے پوچھا

سرتاج اپنی ٹانگوں کو تھوڑی ضہمت دیں اور کچن میں جا کر خود دیکھ لیں عائشہ کے جواب پر وہ غصے سے اٹھ گیا

کچن میں پہنچ کر اس نے اندر جھانکا تو گرتے گرتے بچا جہاں گھر کے سب مرد ایپڑن پہنے کھانا بنانے میں مصروف تھے

اچھا ہوا مراد تم جلدی آ گئے اب ذرا یہ آلو تو چھیل دو جہانگیر صاحب نے اسے کہا جو شاک کی حالت میں سب دیکھ رہا تھا

بیٹا پتہ ہے ہمیں کہ چار سو چالیس کا کرنٹ لگا ہے تمہیں پر ہوش میں آ جاؤ کیونکہ ابھی برتن بھی دھونے ہیں جہانزیب صاحب نے کہا

بابا یہ سب کیا ہے ؟؟؟ مراد نے پوچھا

یہ سب سلطان کی آفتوں کی مہربانی ہے اب باتیں نہ کرو کام کرو جہانگیر صاحب کے بولنے پر وہ بھی کاموں میں لگ گیا

لوجی گیا ایک اور اصول

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بابا سائیں سب تیاری مکمل ہو چکی ہے میں نے پوری حویلی کو پھرسے پہلے جیسا کروا لیا ہے آپ جب چاہیں ہم شفٹ ہو جائیں گے حسن شاہ نے کہا

ہممممم ٹھیک ہے ہم دو تین دن تک شفٹ ہو جائیں گے سب تیاری مکمل کر لو

اکبر شاہ نے کہا جس پر سب ہی پیکنگ میں لگ گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بی جان لاؤنج میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں جبکہ فراز ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر سامنے میز کے پاس بیٹھی پلوشہ کو دیکھ رہا تھا

اچھی لگ رہی ہو!!! فراز نے آہستہ آواز میں کہا کہ کہیں بی جان نہ سن لیں

آآآپپ آپ چینی کتنی لیں گے پلوشہ نے اس کی نظروں سے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا

ایک چمچ فراز کے کہنے پر اس نے ایک چمچ چینی ڈال کر چائے اس کی طرف بڑھائی

ابھی فراز نے کپ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا کہ اوپری منزل سے رمل کی زوردار چیخ سنائی دی جسے سن کر پلوشہ کے ہاتھوں سے چائے کا کپ چھوٹ گیا جو کہ سیدھا فراز کے گھٹنوں پر گرا 

ہائے میں مر گئی!!!! پلوشہ گھبرا کر بولی

تم نہیں میں مر گیا بلکہ جل گیا بلکہ کام سے گیا فراز درد سے بولا اتنے میں سیڑھیوں سے بازل بھاگتا دیکھائی دیا اس کے پیچھے پیچھے رمل ہاتھ وائپر لئیے آ رہی تھی

دادی بچائیں مجھے اس چڑیل سے!!!! بازل بی جان کے پاس پہنچ کر بولا

بی جان ہٹ جائیں آج یہ نہیں بچتا میرے ہاتھ سے!!!! رمل اتنا بول کر اس کی طرف بڑھنے لگی

لڑکی رک جا پاگل ہو گئی ہے؟؟؟ بی جان نے اس روکا

بی جان آپ اسے کچھ کہتی ہی نہیں ہمیشہ اس کی سائیڈ لیتی ہیں میری تو کوئی قدر ہی نہیں رمل اتنا بول کر باقاعدہ رونے لگی

رمل کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو ؟؟؟ نورالعین نے باہر سے آتے ہوئے پوچھا اس کے پیچھے شازل بھی گھر میں داخل ہوا

بازی کیا کیا ہے تم نے کیوں رو رہی ہے یہ؟؟؟ شازل نے سختی سے پوچھا

لالہ وہ آآآآآ

ارے یہ کیوں بتائے گا کتنا نقصان کر دیا ہے میرا رمل اتنا بول کر اور رونے لگی

بازی!!!! شازل نے سختی سے پکارا

رمل تم خود ہی بتا دو کیا کیا ہے اس نے؟؟؟ نورالعین نے پوچھا

ارے تم اس سے کیا پوچھ رہی ہو ضرور اس گدھے نے ہی کچھ کیا ہو گا اس کی تو آج میرے ہاتھ سے خیر نہیں شازل نے غصے سے بازل کو گردن سے پکڑا

شازی رکیں پہلے پوچھنے تو دیں نورالعین نے شازل سے کہا

نہیں نور اس کو تو آج میں چھوڑنے والا نہیں شازل نے بازل کی گردن پر زور ڈالا

شازل تم سن  تو لو آور رمل تو بھی تو کچھ بول اس بار بی جان بولیں جبکہ اس دوران پلوشہ نے ٹھنڈے پانی کا جگ لا کر فراز پر پھینکا تھا جس سے اس کی جلن کچھ کم ہوئی تھی

ہاں بولو رمل بیٹا کیا کیا ہے اس نے؟؟؟ شازل نے پوچھا

لالہ اس نے کیبل کی تار نکال دی میرا ڈرامہ مس ہو گیا اس کی وجہ سے!!!!! رمل سوں سوں کر کے بتایا جبکہ اس کی کی بات سن کر نورالعین کا دل کیا اسے دو تھپڑ لگا دے

رمل اللہ پوچھے تمہیں تمہارے چکر میں پلوشہ نے میری ٹانگیں جلا دیں!!! فراز درد سے بولا

میں نے کون سا جان بوجھ کر جلائی ہیں!! پلوشہ نے رونی صورت بنا کر کہا

رمل اتنی سی بات کے لیے تم نے اتنا واویلا مچایا ؟؟؟ شازل نے پوچھا

اتنی سی بات!!!! لالہ یہ اتنی سی بات ہے!!! میں کل سے انتظار کر رہی تھی کہ کب میرا ڈرامہ لگے گا اور عین اسی وقت اس گدھے نے کیبل کی تار نکال دی رمل نے غصے سے بازل کو دیکھ کر کہا

بس کر جاؤ کیا تو تو میں میں لگا رکھی ہے چلو دفع ہو جاؤ سارے آ جاتے ہیں منہ اٹھا کر بی جان غصے سے بولیں

میں تو مفت میں جل گیا!! فراز پھر بولا

چل نکل ادھر سے!!! بی جان کے بولنے پر وہ ایک نظر پلوشہ کو دیکھ کر باہر نکل گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

رات کے وقت سب بچہ پارٹی بیٹھ کر ٹی وی پر پی ایس ایل میچ دیکھ رہی تھی لڑکے سارے ایک ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے جبکہ سب لڑکیاں دوسری ٹیم کو سپورٹ کر رہی تھیں

زری تیاری کر لو تم بری طرح ہارنے والی ہو شازل نے زریش سے کہا

لالہ ہار کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے زریش نے ایک ادا سے کہا

تو میڈم کوئی ڈھنگ کی ڈکشنری لینی تھی!!! زمل بولا

آپ تو چپ کر جائیں ہر وقت بکری کی طرح میں!! میں!! کرنا ضروری ہے ؟؟؟ نمل جواباً بولی

تمیز سے بات کرو مجھ سے سمجھی!!!!! زمل روعب سے بولا

کیوں تم ہمارے آبا لگتے ہو ؟؟؟ حورعین بولی

زری تم نے ان سب کی زبان کھول کر بڑا ظلم کیا ہے قاسم بولا

اوئے چپ کرو سارے تین گیندوں پر سولہ سکور چاہیے اسمائیل نے سب کو ٹوکا

لو جی ہار گئیں ساری چڑیلیں!!! شہیر بولا

تمہارے منہ میں خاک!!!!! سب لڑکیاں یک زبان ہو کر بولیں

دو گیندوں پر دس رن سکور ہوا اب ایک گیند پر چھ رن چاہیے تھے سب دم سادھے سکرین کو دیکھ رہے تھے بولر نے گیند پھینکی

بٹس مین نے بلا گھمایا گیند ہوا میں اوپر اوپر اٹھتی گئی

یاہووووو ہم جیت گئے!!!! زریش نے خوشی سے چیخ ماری اس کے ساتھ باقی لڑکیاں بھی اٹھ کر چیخنے لگیں لیکن اگلے ہی لمحے ان کی مسکراہٹ سمٹ گئی

بانڈری پر کھڑے کھلاڑی نے گیند کیچ کر لی جس سے وہ میچ جیت گئے

اوئے بلے بلے ہم جیت گئے دیکھا زری میرے اللہ کا انصاف یہ تمہاری چلتی زبان کی سزا ہے لڑکوں نے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا قاسم نے زریش کو چڑایا

منہ بند کرو ورنہ!!! زریش نے غصے سے کہا

ورنہ کیا ہاں!!!! ورنہ کیا تم نے رونا شروع کر دینا ہے ؟؟؟ اسمائیل نے اسے مزید چھیڑا جس سے اس کی حالت رونے والی ہو گئی

جب ان کو کھلنا نہیں آتا تو ٹینڈے لینے آتے ہیں میدان میں ؟؟؟؟؟ زریش نے غصے سے بول کر میز پر پڑا گلدان پکڑ کر ٹی وی پر دے مارا جس سے ٹی وی کی سکرین چکنا چور ہو گئی سب حیرت سے منہ کھولے زریش کو دیکھ رہے تھے جس کے گال غصے سے سرخ ہو رہے تھے شور کی آواز سن کر فاطمہ بیگم بھاگ کر نیچے آئیں

کیا ہوا ؟؟؟ فاطمہ بیگم نے پوچھا

زری نے ٹی وی تور دیا!!! فراز نے کہا

آف زری کب عقل آئے گی تمہیں ؟؟؟ فاطمہ بیگم غصے سے بولیں

قیامت والے دن آآآآ زریش کے فوراً جواب پر فاطمہ بیگم نے اپنا جوتا اتار کر اس کی طرف پھینکا 

لیکن ہائے رے بری قسمت

عائشہ نے زریش کو کھینچ لیا اور جوتا پیچھلے صوفے پر بیٹھے حائم کے منہ پر لگا

ہاہاہاہاہاہا کتنے ہوئے زری؟؟؟؟ مراد نے قہقہہ لگا کر پوچھا

لالہ پرانے اور نئے ملا کر 799 ہوئے زریش نے فوراً حساب کر کے بتایا 

آف امی آپ کا نشانہ سیدھا کروانا پڑے گا حائم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا

سوری بیٹا !!! فاطمہ بیگم بولی

کوئی بات نہیں ماما لالہ کو تو عادت ہے بازل ہنس کر بولا اور اس بار سوائے حائم کے سبھی ہنس دیے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آغا جان ہمیں آپ سے ایک بات کرنی ہے!!! قاسم اور اسمائیل نے آغا جان سے کہا اس وقت سب مل کر لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے

ہاں بولو کیا بات ہے ؟؟؟ آغا جان نے پوچھا

وہ آآآآ وہ آآآغا جاآآآجان قاسم اٹکا

ہاں بولو بھی کیا کہنا ہے؟؟؟؟ آغا جان نے کہا

وہ آآآآ دراصل آآآ با آآآ بات یہ آآآآآ ہے کہ آآآآ اس بار اسمائیل اٹکا

مراد جا میری بندوق لے کر آ یہ ایسے نہیں بولنے والے!!! آغا جان نے چائے پیتے مراد سے کہا

نہیں نہیں آغا جان ہم بس  یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آآآآآ قاسم پھر بولتے چپ ہو گیا

مراد لا میری بندوق!!! آغا جان نے انہیں دیکھ کر کہا

آغا جان ہم سے بزنس نہیں ہوتا اور نہ ہی زمینیں وغیرہ کا کام سنبھالا جاتا ہے اس لیے ہم کسی اور فیلڈ میں جانا چاہیے ہیں!!!! قاسم اور اسمائیل نے ایک سانس میں بات پوری کر کے آنکھیں بند کر لیں لیکن کافی دیر خاموشی پا کر آہستہ سے آنکھیں کھولی تو آغا جان کے نارمل تاثرات دیکھ کر انہیں کچھ حوصلہ ہوا

اور کچھ کہنا ہے ؟؟؟ آغا جان نے پوچھا

نہیں آغا جان!!! قاسم نے جواب دیا

یعنی تم سے بزنس نہیں ہوتا؟؟؟

جی آغا جان!!! اسمائیل فوراً بولا

اور زمینیں وغیرہ بھی نہیں سنبھالی جاتی؟؟؟ 

جی آغا جان!!! اس بار دونوں بولے جس پر آغا جان نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا

مراد !!!

جی آغا جان!!

مراد ان سے دونوں کام نہیں ہوتے تو کیوں انہیں تنگ کرنا جا میری بندوق لا ان کو تو فارغ کریں!!! آغا جان کے بولنے پر ان دونوں کا رنگ اڑ گیا

لیکن آغا جان یہ چاروں بھی تو کرتے ہیں جاب آپ نے انہیں تو کچھ نہیں کہا قاسم نے کہا

ان کی بات الگ ہے تیری ہمت کیسے ہوئی ہمارے اصولوں کے خلاف جانے کی ؟؟؟ وہ چاروں تو اتنی محنت سے اس مقام تک پہنچے ہیں تم دونوں تو سرے کے نکمے ہو جس بھی شعبے میں جاؤ گے وہ زوال کا شکار ہو جائے گا آغا جان نے کہا

ارے دادو ہینڈسم اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کرنے دے نا اچھا ہے کوئی ہنر ہی سیکھ لیں گے حائم نے کہا

ارے ان نکموں نے کیا کچھ ہنر سیکھنا ہے الٹا جس ہنر کو

 سیکھیں گے وہ ہنر ہی دنیا سے ناپید ہو جائے گا آغا جان نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا

ارے دادو ہینڈسم کرنے دیں جو کرتے ہیں اچھا ہی ہے برے وقت میں کام آئے گا شازل نے کہا

کیا مطلب ؟؟؟ آغا جان نے پوچھا

دیکھیں دادو ہینڈسم اگر کل کو آپ کا ان کو عاق کرنے کا ارادہ بن گیا تو یہ تو بیوی بچوں کے ساتھ رلل جائیں گے تو اچھا ہے نہ تب کچھ تو ان کے ہاتھ پلے ہو اور یہ بھی تو سوچیں جب کل کو ہم ان کا رشتہ وغیرہ کریں گے تو وہ ہو سکتا ہے ان کی شکلیں دیکھ کر انکار کر دیں تو ایسے میں اگر ان کے پاس کوئی ڈھنگ کی جاب ہو گی تو ہو سکتا ہے کوئی لالچ میں آکر انہیں لڑکی دے دے ورنہ تو یہ کنوارے مر جائیں گے زریش نے آغا جان کو تفصیل سے سمجھایا

ہممممم بولو پھر کیا کرنا چاہتے ہو ؟؟ آغا جان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا

وہ آآآآ آغا جان ہم نہ اکٹر بننا چاہتے ہیں ان دونوں نے شرما کر کہا جبکہ ان کی بات سن کر سب کا منہ کھول گیا

اکٹر ؟؟؟؟ بازل نے حیرت سے پوچھا

ہووووں!!!!! ان دونوں نے شرماتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا

پکی بات ہے؟؟؟؟ شہیر نے پوچھا جس پر ان دونوں نے پھر ہاں میں سر ہلایا

دادو ہینڈسم آپ نا بندوق ہی منگوا لیں!!! زریش نے آغا جان سے کہا

میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ دونوں ہے ہی نکمے لاؤ میری بندوق!!! آغا جان نے کہا

ارے نہیں نہیں آغا جان ہم بھی ان چاروں کی طرح کسی ایسی فیلڈ میں چلے جائیں گے آپ بندوق رہنے دیں فضول میں گولیاں ضائع ہو گی قاسم جلدی سے بولا

آغا جان یہ چیٹنگ ہے پھر ہمیں بھی یونی میں ایڈمیشن لینے دیں قراۃالعین نے کہا

نہیں!!!! آغا جان کے دو ٹوک جواب پر اس نے زریش کو دیکھا

دادو ہینڈسم!!!!!! زریش نے آنکھیں پٹکا کر کہا

نہیں زری!!! آغا جان نے پھر کہا

پلیزززززز!!!! اس نے معصومیت سے سے پلکیں جھپکا کر کہا

نہیں!!!!!!

جائیں میں نہیں بولتی آپ سے!! زریش نے رخ موڑ لیا 

زری پتر!!!! آغا جان نے نرمی سے پکارا جس پر اس نے اور رخ موڑ لیا

اچھا ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی آغا جان کے بولنے پر اس کی آنکھیں چمکیں

سچی ؟؟؟؟

مچی!!! آغا جان نے مسکرا کر کہا

تھینک یو دادو ہینڈسم وہ مسکرا کر ان کے گلے لگی جس پر آغا جان نے اس کا ماتھا چوما ان کا پیار دیکھ کر سب ہی ہنس دیے

لوجی دو اور گئے

چھ گئے آٹھ باقی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اکبر شاہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شاہ ہاؤس سے روانہ ہو گئے قریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ لوگ ایک عالیشان حویلی پہنچے جو کہ بلکل خان ولا کے سامنے تھی گھر کے باہر آج بھی شاہ حویلی کے نام کی تختی لگی تھی جیسے دیکھ کر اکبر شاہ کے ساتھ ساتھ باقی سب کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں یہ حویلی اکبر شاہ نے اپنے بچپن کے دوست کی وجہ سے بنوائی تھی اور اس دوستی کو نبھاتے ہوئے وہ آج تیس سال بعد اس حویلی میں قدم رکھ رہے تھے

بابا سائیں میں نے سب انتظامات دیکھ لیے ہیں آئیں تھوڑی دیر آرام کر لیں حسن شاہ نے کہا

ارے نہیں پہلے زرا اس بے وفا کی تو خبر لے لوں جو ہمیں بھول ہی گیا ہے آؤ زرا سب!!!! اکبر شاہ اتنا بول کر خان ولا کی طرف چل دیے جبکہ ان کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی چل دیے

💫💫💫💫💫💫💫

آف اللّٰہ زری یہ تم نے کیا کر دیا!!!!!! فاطمہ بیگم غصے سے زریش کی طرف بڑھی جو کہ فورا کچن سے باہر بھاگ گئی

رکو زرہ بھاگ کدھر رہی ہو ابھی بتاتی ہو تمہیں!!!! فاطمہ بیگم اتنا بول کر جوتا ہاتھ میں پکڑے اس کے پیچھے آئیں

لالہ بچائیں امی میں سلطان راہی کی روح آ گئی ہے بچا لیں ورنہ آج میرا قتل ہو جانا ہے زریش بھاگ کر لان میں کھڑے حائم کے پیچھے چھپ گئی

ماما رک جائیں کیا کر رہی ہیں ؟؟؟ حائم نے فاطمہ بیگم کو اس طرف آتا دیکھ کر کہا جب کہ اس دوران دروازے سے اندر داخل ہوتے اکبر شاہ اور باقی سب بھی یہ نظارہ دیکھنے رک گئے

حائم ہٹ جاؤ سامنے سے آج تو میں نے دھرتی کا آدھا بوجھ کم کر دینا ہے فاطمہ بیگم اتنا بول کر زریش کو پکڑنے لگیں جو کہ حائم کو چھوڑ کر شازل کے پیچھے چھپ گئی

ماما رک جائیں مجھے مارنے سے پہلے آپ کو میرے شازی لالہ کو مارنا ہو گا زریش نے اتنا بول کر شازل کو آگے کر دیا

فٹے منہ تمہارا !!! فاطمہ بیگم اتنا بول کر آگے بڑھنے لگی

ماما مجھ کو مارنے سے پہلے آپ کو حائم لالہ کا سینہ چھلنی کرنا پڑے گا!!! شازل نے اتنا بول کر زریش کو حائم کے پیچھے کرکے فاطمہ بیگم کا رخ بھی ادھر موڑ دیا

ماما مجھے مارنے سے پہلے آپ کو بابا کی لاش پر سے گزرنا پڑے گا!!! حائم نے لان میں آغا جان ، جہانگیر صاحب اور جہانزیب صاحب کے ساتھ بیٹھے سلطان صاحب کی طرف اشارہ کیا جبکہ ان کی آواز سن کر تقریباً سب ہی لان میں جمع ہو کر بڑے مزے سے ساری کارروائی دیکھ رہے تھے جبکہ شاہ حویلی والے بھی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے

اوئے خبردار جو میری طرف دھیان کروایا مرنے کے وقت غریب کا بچہ آگے کر دیتے ہو!!!! سلطان صاحب فوراً بولے

ماما میں تو آپ کی مدد کر رہی تھی!!! زریش حائم کے پیچھے سے بولی

مدد!!! اسے مدد کہتے ہیں ؟؟؟ فاطمہ بیگم غصے سے بولیں

ماما کیا کیا ہے اس نے؟؟؟؟ حائم نے پوچھا

لالہ میں تو بریانی بنانے میں مدد کر رہی تھی!!! زریش معصومیت سے بولی

اچھا!!! اس سے پوچھو زرا تین گلاس چاولوں میں پانی کتنا ڈلتا  ہے ؟؟؟ فاطمہ بیگم نے حائم کو کہا جس پر اس نے زریش کی طرف دیکھا

لو جی اب میں اتنی بھی پھوہڑ نہیں پورے دس گلاس پانی ڈالا تھا میں نے!!! زریش نے فخر سے کہا جبکہ اس کی بات سن کر فاطمہ بیگم کا پالا مزید چڑھ گیا

بریانی بنانے گئی تھی اور سوپ بنا آئی اس کی تو آج خیر نہیں!!!!

رک جائیں ماما!!! فاطمہ بیگم جوتے سے زریش کا نشانہ لے رہیں تھیں جب حائم نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا

حائم نے زریش کو کھینچ کر آگے کھڑا کیا اور خود چار قدم پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا

چلیں ماما اب لیں نشانہ!!! حائم نے فاطمہ بیگم سے کہا جس پر انہوں نے اپنا جوتا کس لیا

نہیں ماما!!!! نہیں!!!!! زریش نے دائیں بائیں چکر لگا کر کہا

آج نہیں پچتی تم!!! فاطمہ بیگم نے اتنا بول کر پوری طاقت سے جوتا زریش کی طرف پھینکا جس پر زریش نیچے جھک گئی اور جوتا چار قدم دور کھڑے حائم کی طرف چل دیا

جوتے کو اپنی طرف آتا دیکھ حائم دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر زمین پر لیٹ گیا اور جوتا اس کے پیچھے کھڑے زاویار کے منہ پر جا لگ 

آہ آآآآآآآآ زاویار درد سے چیخا جبکہ باقی سب بھی دور کھڑے ان اشخاص کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے جبکہ بچہ پارٹی کی ہنسی نکل آئی

فاطمہ بیگم اندر بڑھتے لوگوں کو دیکھ کر ششدد رہ گئیں 

بابا سائیں!!!! آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی

فاطمہ تمہارا نشانہ قیامت تک ٹھیک نہیں ہو سکتا!!! حسین شاہ نے ہنس کر فاطمہ بیگم سے کہا جن کی آنکھیں اب نم ہو چکی تھی

ہاں بھئی ہم نے تو سوچا تھا کہ تم دعوت پر بلاؤ گے پر نہیں!!!!

 تو ہم نے سوچا کہ ہم خود ہی مل آئیں!!! اکبر شاہ نے ہنس کر آغا جان سے کہا جو کہ سپاٹ تاثرات سے اپنے سامنے کھڑے اپنے جگری دوست کو دیکھ رہے تھے کافی دیر خاموش رہنے کہ بعد آغا جان نے آہستہ سے لب کھولے جبکہ اس دوران سب دم سادھے ان کی طرف دیکھ رہے تھے

ہممممم میں نے اس لیے نہیں بلایا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں بن بلائے ٹپکنے کی عادت ہے آغا جان نے اتنا بول کر اکبر شاہ کے گلے لگ گئے برسوں بعد ختم ہونے والی جدائی سے سب کی آنکھیں نم ہو گئیں

آہمم آہممم یہ روٹھنا مانانہ بعد میں کیجیے گا پہلے ہمیں تو کچھ بتائیں کہ آپ دونوں میلے میں بچھڑے بھائیوں کی طرح کیوں مل رہے ہیں؟؟؟ زریش کے پوچھنے پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے

ہم نے بہت سنا ہے تمہارے بارے میں!!! اکبر شاہ نے زریش سے کہا

اچھا میں اتنی مشہور ہوں کیا سنا آپ نے میرے بارے میں؟؟؟ زریش نے پوچھا 

ہم نے سنا ہے بلکہ دیکھا ہے کہ تم آآآآآاآآآآآآ

 پوری آفت ہو!!! اکبر شاہ کے بولنے پر اس کا منہ بن گیا جبکہ باقی سب کا قہقہہ نکل گیا

ارے کیوں تنگ کر رہے ہیں میری بچی کو زریش پتر ادھر آؤ میں نانی ہوں تمہاری!!! یاسمین بیگم نے اسے دیکھ کر کہا

ہیں نانی!!! مطلب ماما کی ماما؟؟؟ زریش نے بے تکا سوال کیا

نہیں زری ماما کی ماما نہیں نانا کی وائف!!! شازل نے اسے کہنی مار کر کہا

اچھا!!!!!!!! اس نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا

ویسے زری یہ ہمارے رشتہ دار کدھر سے نکلتے آ رہےہیں ؟؟؟؟ بازل نے پوچھا

منہ بند کرو!!!! فاطمہ بیگم نے انہیں ٹوکا 

چلو بھائی اندر چلو سارے باقی باتیں اب اندر جا کر ہوں گی!!! بی جان نے کہا اور سب اندر چل دیے

لو زری نانکا میل آ گیا ہے!!! شہیر نے اس کے کان کے پاس جھک کر کہا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ماشاءاللہ بھابھی آپ کی بیٹیاں تو جوان ہو گئیں ہیں فاطمہ بیگم نے مسکرا کر جاناں اور نازلی کو دیکھ کر کہا

تو اور آپ کا کیا خیال تھا ماما کہ ابھی آپ کی بھتیجیاں دودھ پیتی بچیاں ہوتی؟؟؟ کچن سلیپ پر بیٹھی زریش نے کہا سب خواتین اس وقت کچن میں تھیں جبکہ سب مرد لاونج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے پورا خان ولا خوش تھا

بکو مت زری !!! فاطمہ بیگم نے ٹوکا

ویسے ممانی آپ کو پتہ ہے اپنی بہنوں اور آپ کے اس ہٹلر بیٹے سے میں پہلے بھی مل چکی ہوں ؟؟؟؟ زریش نے پلیٹ میں سے کباب اٹھاتے ہوئے کہا جبکہ اس کی بات سن کر مسرت بیگم نے چونک کر اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھا جنہوں نے مسکراہٹ چھپائی 

اچھا پھر یہ بھی بتا دو کہ کتنا نقصان کیا ہے ان کا؟؟؟ فاطمہ بیگم نے پین میں تیل ڈالتے ہوئے کہا

کچھ زیادہ نہیں ماما پہلی ملاقات میں اس ہٹلر کی ناک توڑ دی تھی جبکہ دوسری میں گاڑی توڑ دی تھی!!!! زریش نے دوسرا کباب اٹھاتے ہوئے کہا

جی پھپھو اب تیسری ملاقات میں میرا سر ٹوٹتے ٹوٹتے بچا ہے زاویار نے دروازے سے جھانک کر کہا

سوری بیٹا بس غلطی سے لگ گیا!!! فاطمہ بیگم نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا

ارے کوئی بات نہیں ماما کونسا ان کا سر ٹوٹ گیا ہے !!!! زریش نے آخری کباب منہ میں رکھتے ہوئے کہا

اوہ ہیلو مس آفت آآآ پھپھو مجھ سے بات کر رہی ہیں!!! زاویار نے کہا

اوہ ہٹلر کہیں گے!! یہ نہ سمجھنا رشتہ داری کی وجہ سے میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے!!!! زریش جواباً بولی 

ہیں!!! دو بار حملہ تم نے کیا ہے مجھ پر اور معاف بھی تم ہی نہیں کرو گی وہ کس خوشی میں ؟؟؟؟ زاویار نے پوچھا

تمہاری وجہ سے اس دن ہمارا پلین کینسل ہو گیا پتہ ہے آپ کو پھپھو کتنی محنت سے منایا تھا دادو ہینڈسم کو میں نے ؟؟؟؟ زریش نے معصومیت سے فوزیہ بیگم سے کہا جنہوں نے جواباً اس کا ماتھا چوما

محترمہ اگر یاد ہو تو میں نے نہیں آپ نے گاڑی ماری تھی!!! زاویار نے یاد دلایا

تو کس نے کہا تھا کہ گاڑی ادھر کھڑی کرو !!! زریش نے ایسے کہا جیسے ساری غلطی اسی کی ہو

کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟؟؟ حائم نے دروازے سے جھانک کر کہا

کچھ نہیں لالہ بس گڑھے مردے نکال رہے ہیں!!! زریش کے بولنے پر وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ سلیپ پر بیٹھ گیا

ویسے فاطمہ ماشاءاللہ سے ہمارا حائم جوان ہو گیا ہے تو اس کی شادی وغیرہ کیوں نہیں کرتے ؟؟؟ مسرت بیگم نے مسکرا کر پوچھا جبکہ اس بات پر جاناں اور نازلی دونوں کے کان کھڑے ہو گئے

بس بھابھی اس معاملے میں میرا یہ فرمانبردار بیٹا سب سے زیادہ ڈھیٹ ہے!!!! فاطمہ بیگم تاسف سے بولیں

ارے ممانی آپ نے کیا توپوں کا رخ میری طرف کروا دیا ہے کر لیں گے شادی بھی ابھی مجھ سے پہلے فراز لالہ بھی تو ہیں نہ!!!! حائم نے کباب منہ میں رکھتے ہوئے کہا

لالہ فراز لالہ آپ کی طرح نہیں ہیں وہ پوری سیٹنگ کر کے بیٹھے ہیں!!!! زریش نے پانی پیتی پلوشہ کو دیکھ کر کہا جیسے اس کی بات پر زبردست چھوا لگا

ہیں کیا مطلب مجھے بھی تو بتاؤ زرا!!! فرخندہ بیگم کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئیں جبکہ زریش کو منہ کھولتا دیکھ پلوشہ جلدی سے باہر بھاگ گئی

ہیں آآآآآآ اسے کیا ہوا؟؟؟؟ فردوس بیگم نے حیرت سے پوچھا

کچھ نہیں تائی امی لڑکی جوان ہو گئی ہے اب ہاتھ پیلے کر دیں اس کے!!!! زریش کے بولنے پر فرخندہ بیگم اور فردوس بیگم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے بات سمجھ کر سب ہنس دیے

اچھا تبھی میں کہوں یہ فراز بدلا بدلا کیوں لگ رہا ہے کرتی ہوں میں آغا جان سے بات!!! فرخندہ بیگم بولیں

کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟؟؟ شازل نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا

رشتے پکے ہو رہے ہیں آپ نے کروانا ہے ؟؟؟؟ زریش نے پوچھا

کروا دو بھئی کہیں حائم لالہ کی طرح رہ ہی نہ جائیں!!! شازل نے کہا اتنے میں بازل بھی کچن میں داخل ہوا

بھئی میں تو سوچ رہی ہوں فراز کے ساتھ ساتھ رمل کی بھی شادی کر دوں!!!! فرخندہ بیگم کے بولنے پر رمل چپ چاپ باہر نکل گئی

اچھا خیال ہے پھپھو!!! بازل کچھ سوچ کر بولا

ہے نا؟؟؟ کرتی ہوں میں آغا جان سے بات کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈیں!!! فرخندہ بیگم نے کہا

رشتہ کس لیے پھپھو ؟؟؟ بازل نے ناسمجھی سے پوچھا

ارے بھئی رمل کی شادی کے لیے!!! فرخندہ بیگم بولیں

پھپھو اس کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟

میں مر گیا ہوں کیا ؟؟؟ بازل کے بولنے پر سب نے کام چھوڑ کر حیرت سے اسے دیکھا

کیا ؟؟ زریش بولی

کیا ؟؟؟ شازل بولا

کیا ؟؟؟؟ حائم بولا

کیا ؟؟؟؟؟؟؟ سب خواتین مل کر بولیں

نہیں آآآآ وہ آآآ

ایک کام کریں!!!

آپ سمجھیں میں مر ہی گیا!!!! بازل اتنا بول کر باہر بھاگ گیا

اسکی تو!!!!!! اس کے پیچھے وہ تینوں بھی بھاگ گئے جبکہ پیچھے کچن میں گہرا سناٹا چھا گیا

سب خواتین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آگلے ہی لمحے سارا کچن ان کے قہقہوں سے گونج اٹھا

آج کا دن واقع سب کے لیے اچھا ثابت ہوا تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

زری معاف بھی کر دو!!! بازل کانپتے ہوئے بولا وہ پیچھلے تین گھنٹوں سے سوئمنگ پول میں تھا جبکہ وہ چاروں کھڑے اس پر پہرہ دے رہے تھے اس واقع کو تین دن ہو چکے تھے پر زریش کسی صورت بازل کو معاف کرنے کو تیار نہ تھی وجہ یہ تھی کہ ان پانچوں میں کبھی کسی نے کوئی بات نہیں چھپائی تھی تو ایسے میں بازل کا اتنی بڑی بات چھپانا انہیں بلکل ہضم نہیں ہو رہا تھا

ان تین دنوں میں گھر کا ماحول مزید خوش گوار ہو گیا تھا اب ان کو دو حویلیوں کی سہولت تھی اب آدھا دن وہ شاہ حویلی میں گزارتے اور آدھا دن خان ولا میں

ان دونوں وہ دونوں حویلیوں میں تقریباً سب کے ہی لاڈلے بن چکے تھے جس میں نقصان صرف فاطمہ بیگم کا ہوا تھا کیونکہ اب ان کا جوتا ان تک پہنچ نہیں پاتا تھا وجہ ان کے حمایتیوں کی ایک بڑی جماعت تھی جو کہ اپنے شہزادوں پر حرف نہیں آنے دیتے تھے

نہ بابا ابھی نہیں ابھی اندر ہی رہو جب ہمارا دل کرے گا تب نکالیں گے زریش بولی

لالہ مدد کر دیں نا آپ کا ٹائم بھی آئے گا بازل نے ان تینوں سے کہا جس پر شازل نے نظریں چرائیں

اسلام و علیکم!!! جاناں نے ان کے پاس پہنچ کر سلام کیا

وعلیکم السلام آپی!!! کیسی ہیں ؟؟؟ زریش نے مسکرا کر پوچھا

میں ٹھیک ہوں زری تم بتاؤ کیسی ہو؟؟ آج آئی نہیں ؟؟ جاناں نے جواباً مسکرا کر پوچھا

میں بھی ٹھیک ہوں آپی بس ذرا مصروف تھی!!! زریش کے پول کی طرف اشارہ کرنے پر جاناں نے اس طرف دیکھا جہاں بازل ٹھنڈ سے کانپ رہا تھا

آف اللّٰہ آج پھر ڈال دیا ہے اس کو پول میں بس بھی کرو کیا جان لو گے میرے معصوم بھائی کی؟؟؟ جاناں نے تاسف سے پوچھا

جاناں آپ اس کی حمایت نہ کریں ابھی اس کی سزا ختم نہیں ہوئی!!! حائم نے ہنس کر پہلے اسے اور پھر بازل کو دیکھ کر کہا 

آپی یہ کیا ہے؟؟؟ شہیر نے اس کے ہاتھ میں موجود ٹرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا

بریانی بنائی تھی سوچا دے آؤ آپ لوگ تو آج آئے نہیں!!! جاناں نے مسکرا کر کہا

ارے واہ!!! آپی بلکل صحیح ٹائم پر آئیں ہیں قسم سے بڑی بھوک لگی تھی!!! شہیر نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا

اوئے خبردار جو دیکھا بھی یہ میں کھاؤ گا تم جا کر وہ کوفتے کھاؤ جو ماما نے بنائے ہیں یہ میرے لیے ہے!!! حائم نے اتنا بول کر جاناں کے ہاتھ سے ٹرے لے لی جبکہ اس کے اس طرح کہنے پر جاناں نے حیرت سے اسے دیکھا

آپی آپ کو پتہ ہے لالہ بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ لالہ کو بریانی سے عشق ہے اور جتنی لالہ کو بریانی پسند ہے اتنے ہی زہر ان کو کوفتے لگتے ہیں اچھا کیا آپ یہ لے آئیں ورنہ لالہ تو آج بھوکے سوتے!!! زریش کے بتانے پر اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو کہ زریش کی بات پر مسکرا رہا تھا

ہممم بہت مزے کی ہے کس نے بنائی ؟؟؟ حائم نے بریانی چکھ کر پوچھا

می آآآ میں نے!!! جاناں نے کنفیوز ہوتے ہوئے جواب دیا

واہ آپ تو بہت اچھی ککنگ کر لیتی ہیں واقع بہت مزے کی ہے تھینکس!!!!!!! حائم نے ستائشی انداز میں کہا جبکہ اس کی بات سن کر جاناں کے گال سرخ ہو گئے جس پر صرف زریش نے غور کیا

کوئی بات نہیں میں چلتی ہوں!!!!!  جاناں اتنا بول کر چل دی جبکہ زریش غور سے اس کا ہر انداز نوٹ کر رہی تھی

گیٹ سے باہر نکلتے وقت جاناں کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آ گئی جو کہ اس کے کمرے تک پہنچتے پہنچتے مزید گہری ہو گئی

کمرے میں پہنچ پر وہ بیڈ پر گر گئی اس کی باتیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں وہ ان سوچوں میں اتنی مگن تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں لگا کہ کب نازلی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی

ایسا کیا ہو گیا ہے جو اتنا مسکرایا جا رہا ہے؟؟؟ نازلی کے بولنے پر وہ چونکی اور اگلے ہی لمحے اس نے مسکرا کر تکیہ منہ پر رکھ لیا

آف اللّٰہ بتاؤ بھی کیا ہوا؟؟؟ نازلی نے اس کے منہ پر سے تکیہ کھینچ کر پوچھا

کچھ نہیں ہوا!!!! جاناں نے نظریں جھکا کر کہا

بتا دو ورنہ پتہ تو چل ہی رہا ہے کہ کیا ہوا ہے!!! نازلی کے کہنے اس نے اسے ساری بات بتائی

تو یعنی میرے ہونے والے جیجا جی کو بریانی پسند آ گئی ہے نا؟؟؟ نازلی کے پوچھنے پر وہ نظریں جھکا گئی

نازی کیا ایسا واقع ہی ہو سکتا ہے؟؟؟ جاناں نے بیڈ شیٹ کو گھورتے ہوئے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا

کیوں نہیں ہو سکتا ضرور ہو سکتا ہے!!! پر یہ بتاؤ تمہیں واقع ہی حائم بھائی پسند ہیں؟؟؟ نازلی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا جس پر اس نے دھیرے سے ہاں میں سر ہلایا

تو پھر بہن پیار کیا تو ڈرنا کیا!!! نازلی کے بولنے پر اس نے تکیہ اس کے منہ پر مارا اور وہ دونوں ہنس دی اس بات سے بے خبر کے باہر موجود وجود ان کی ساری باتیں سن چکا ہے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکیں تھیں فاطمہ بیگم کا ملازموں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر برا حال ہوگیا تھا لڑکیاں ساری مل کر شاپنگ لسٹ بنا رہی تھیں تا کہ کوئی کمی نہ رہ جائے پلوشہ کو بی جان نے مائیوں بٹھا دیا تھا اور وہ اس پر خاصا پہرہ بھی دے رہیں تھیں جبکہ فراز کو تو بی جان پلوشہ کے کمرے کے پاس سے بھی نہیں گزرنے دے رہی تھیں جس پر وہ زیادہ تر وقت ڈیرے پر ہی گزار رہا تھا 

فاطمہ بیگم کا اوپر نیچے چکر لگا لگا کر برا حال ہو چکا تھا جس سے ان کے غصے میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا جس کی زد میں لاونج میں بیٹھا حائم وقفے وقفے سے آ رہا تھا

کیا منہ دکھائیوں گی میں سب کو کہ بڑے بیٹے کو چھوڑ کر چھوٹے بیٹوں کی شادی کر رہی ہوں؟؟؟ فاطمہ بیگم غصے سے بول کر کچن میں چلی گئیں جبکہ پیچھے حائم نے صرف سر جھٹکا

حد ہے ویسے نہ ایسے کوئی پسند آتی ہے نہ یہ کسی کی مانتا ہے کیا کروں میں اس لڑکے کا؟؟؟ فاطمہ بیگم اتنا بول کر اوپر چلیں گئیں

مجھے تو لگتا ھے اس کے سر پر سہرا دیکھنے کا میرا ارمان پورا نہیں ہو گا!!!  فاطمہ بیگم سیڑھیاں اترتے ہوئے بولیں جبکہ حائم مسلسل نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا تھا

اس کی عمر کے لڑکے دو دو بچے لے کر گھوم رہے ہیں اور یہ ابھی تک کنوارا گھوم رہا ہے!!! فاطمہ بیگم نے لاونج میں آتے ہوئے کہا جبکہ اس بار حائم کی بس ہوئی اور وہ اٹھ کر باہر نکل گیا اس کے جاتے ہی فاطمہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں کہ اب کس پر غصہ نکالیں

باہر آ حائم سوچ میں پڑ گیا تھوڑی دیر کھڑے رہنے کے بعد اس نے شاہ ہاؤس کی طرف قدم بڑھائے

اسلام و علیکم ممانی جان!!!! اس نے حال میں بیٹھیں مسرت بیگم کو سلام کیا

وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو ؟؟؟ مسرت بیگم نے محبت سے پوچھا

بس ممانی جان ٹھیک ہی ہوں!!! حائم نے گہری سانس خارج کر کے کہا

ارے واہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئیں ہیں کہیں راستہ تو نہیں بھول گئے ؟؟؟ نازلی نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا

نہیں محترمہ ہم تو پناہ لینے آئے ہیں!!! حائم نے معصومیت سے کہا

اچھا آپ کے پیچھے کیا گیارہ ملکوں کی پولیس لگی ہے جو پناہ لینے آئے ہیں ؟؟؟ نازلی نے پوچھا

نہیں بچے تمہاری اکلوتی پھپھو لگئیں ہیں میرے پیچھے!!!! حائم نے کہا

باتیں ہی کرو گی یا کوئی چائے وائے بھی پلاؤ گی بھائی کو؟؟؟ مسرت بیگم نے کہا

ارے میں تو بھول ہی گئی چائے پیئیں گے بلکہ یاد آیا لالہ آج بریانی بنی ہے آپ کو تو پسند ہے نہ آپ بیٹھیں میں بریانی اور بریانی بنانے والی دونوں لے کر آتی ہوں!!! نازلی اتنا بول کر فوراً غائب ہو گئی جبکہ پیچھے حائم اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگا

کدھر ہو بہن؟؟؟! نازلی نے جاناں کے کمرے میں آ کر دھڑام سے دروازا کھولا وہ جو بہت دھیان سے ناول پڑھ رہی تھی اس اچانک ہوئے حملے پر بری طرح اچھلی

کیا ہوا ہے ابھی میری جان نکلنے لگی تھی!!!! جاناں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا

بہن جان سنبھال کر رکھو اور جلدی سے حلیہ درست کر کے نیچے آؤ!!! نازلی نے کہا

کیا ہوا ہے میرے حلیے کو اور کیوں آؤں میں نیچے؟؟؟ جاناں نے ایک نظر خود کو دیکھ کر کہا وہ اس وقت پنک کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی ساتھ ہم رنگ دپٹہ شانوں پر پھیلایا ہوا تھا جبکہ کالے بالوں کو اونچی پونی میں قید کیا ہوا تھا جو کہ اس پر کافی جچ رہی تھی

ارے نیچے چل کر خود دیکھ لو کہ کون آیا ہے اور ہاں آتے ہوئے کچن سے بریانی، رائتہ، سلاد اور ایک گلاس پانی ٹرے میں اچھے سے سیٹ کر کے لانا اور کچھ نہیں تو تھوڑی سی لپ اسٹک ہی لگا لینا نازلی اتنا بول کر بغیر اس کی سنے بھاگ گئی جبکہ پیچھے وہ حیرت سے اس کی ہدایات کے بارے میں سوچنے لگی

جتنی دیر میں مجھے سمجھا کر گئی ہے اتنی دیر میں خود بھی لے جا سکتی تھی میں تو نہیں جا رہی!!! جاناں خود سے بول کر پھر سے ناول پڑھنے لگی لیکن تھوڑی دیر میں کسی خیال کے تحت اٹھی ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا پھر کچن میں چل دی 

آ  کر سب چیزوں کو ٹرے میں ترتیب دیا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے لیکن باہر حال میں حائم کو بیٹھا دیکھ نا جانے کیوں اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے 

محترمہ بریانی کا لارا لگا کر خود خالی ہاتھ ہی واپس آ گئی ہو کیا بریانی خود چل کر آئے گی؟؟؟ حائم نے سامنے صوفے پر بیٹھی نازلی سے کہا

لو جی آ گئی بریانی بھی اور بریانی بنانے والی بھی!!! نازلی نے جاناں کو دیکھ کر کہا حائم کی چونکہ اس جانب پشت تھی اس لیے وہ اسے نہیں دیکھ سکا تھا نازلی کے بولنے پر اس نے گردن موڑ کر دیکھا جہاں جاناں کنفیوز سی ہاتھ میں ٹرے پکڑے کھڑی تھی

لگتا ہے تمہاری بہن کا ہمیں بریانی کھلانے کا آرادہ بدل گیا ہے!!! حائم نے اس کو ہلتا نا پا کر نازلی سے کہا جبکہ اس کی بات سن کر جاناں نے فوراً ہوش میں آتے ہوئے ٹرے لا کر اس کے سامنے رکھی

اسلام و علیکم!!! جاناں نے اسے دیکھ کر سلام کیا جو کہ فوراً بریانی کے ساتھ انصاف کرنا شروع کر چکا تھا

وعلیکم السلام کیسی ہیں آپ ؟؟ حائم نے چاولوں کا چمچ منہ میں رکھ کر پوچھا

جی آآآ میں ٹھیک ہوں آآآ جاناں نے جواب دیا

اچھا حائم بھائی آپ نے بتایا نہیں کہ کیوں پناہ ڈھونڈھتے پھر رہے تھے؟؟؟ نازلی نے پوچھا

بس کیا بتاؤں میری ماما پیچھے پڑی ہوئیں ہیں شادی کر لو!! شادی کر لو!!! بس اسی لیے بھاگتا پھر رہا ہوں!!! حائم نے بریانی کھاتے ہوئے کہا

تو بھائی کر لیں نا شادی کب تک یوں کنوارے گھومیں گے اچھا ہے نہ زری کو بھی بہنوں جیسی بھابیاں مل جائیں گی ویسے بھائی لو میرج کریں گے یا ارینج میرج ؟؟؟ نازلی نے پہلے اسے اور پھر جاناں کو دیکھ کر پوچھا 

بھئی لو میرج کا کوئی سین نہیں جو ماما اور زری کہیں گے وہی ہو گا!! بریانی بہت مزے کی ہے تھوڑی اور ملے گی؟؟؟؟ حائم نے آخری چمچ منہ میں رکھتے ہوئے کہا وہ واقع بریانی کا شوقین تھا

جی !!! میں لاتی ہوں!!! جاناں اتنا بول کر اٹھنے لگی جب نازلی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس بیٹھایا

میڈم آپ بیٹھیں ہمیں بھی تو موقع دیں اپنے بھائی کی خدمت کرنے کا!!! نازلی اتنا بول کر ٹرے لے کر چلی گئی جبکہ پیچھے جاناں کبھی اسے دیکھتی جو مطمئن سا صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا تو کبھی اس دروازے کو جہاں سے نازلی گئی تھی

سٹڈی کیسی چل رہی ہے؟؟؟ کچھ دیر بعد حائم نے پوچھا

جی ٹھیک!!! جاناں نے مختصر جواب دیا

اچھا کیا کر رہی ہیں؟؟؟ حائم نے پوچھا

میں ماسٹرز کر رہی ہوں!! جاناں نے ہولے سے جواب دیا

اچھا!!! نائس پھر تو سٹڈی کے بعد جاب بھی کریں گی؟؟ حائم نے پوچھا

نہیں!!! زاویار لالہ جاب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے!!!

لو جی آگ لگے بستی میں

حائم لالہ اپنی مستی میں!! اس سے پہلے حائم کچھ کہتا خان ولا کی سب لڑکیاں اس کے سر پر کھڑی ہو چکیں تھیں اور خطرناک تیور سے اسے دیکھ رہیں تھیں

کیا ہوا آپ سب کیا مجھے مس کر رہے تھے جو اتنی جلدی ملنے آ گئے ؟؟؟ حائم نے معصومیت سے پوچھا

واہ بھئی واہ ہمیں لارا لگا کہ خود ادھر مزے سے دعوت اڑا رہے ہیں چلیں اٹھیں شاپنگ پر جانا ہے ہم نے بھول گئے کیا؟؟؟ نمل نے کہا

اوہ سوری میں بھول گیا بس دس منٹ نازلی بس بریانی لا رہی ہے کھا کر چلتے ہیں!!! حائم نے گردن موڑ کر کچن کی طرف دیکھ کر کہا جہاں سے نازلی چلی آ رہی تھی

لیں بھائی نوش فرمائیں!!! نازلی نے ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا

کوئی نوش ووش نہیں فرمائیں اٹھیں ورنہ ہم نے ماما کو بتا دینا ہے کہ آپ کدھر چھپ کر بیٹھے ہیں!!! زریش کی دھمکی پر وہ ایک حسرت بھری نظر بریانی کی ٹرے پر ڈال کر اٹھ گیا ابھی وہ کچھ آگے ہی بڑھا کہ ایک خیال کے تحت واپس پلٹا

ویسے اگر پھر کبھی آپ بریانی بنائیں تو پلیز مجھے بھی بھیجیے گا!!! حائم نے جاناں کے پاس جھک کر کہا جس پر نازلی نے نچلا لب دبا کر اسے دیکھا

جی آآآآآ ضرور!!! جاناں بامشکل بول پائی

آہممم ہوش میں آ جاؤ وہ جا چکے ہیں!!! نازلی کے بولنے پر اس نے چونک کر اسے دیکھا پھر دروازے کو جہاں سے وہ گیا تھا پھر وہ دھیرے سے مسکرا دی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

میرا لیمن مکس لونگ بار

چلتا جائے بار بار

لیموں اس کے ہزار

کرے چکنائی پر وار

چلے پورے مہینے

اور دن دو چار

زریش کچن میں کھڑی برتن دھو کم اور ڈانس زیادہ کر رہی تھی دفعتاً وہ گاتی ہوئی گھومی اور ہاتھ میں پکڑا گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا

آف اللّٰہ یہ کیا ہو گیا!!! زریش پریشانی سے بول کر گلاس کی طرف بڑھی کہ گذرتے ہوئے اس کا ہاتھ سلیپ پر پڑے شیشے کے باؤل سے لگا جو دھڑام سے گر کر ٹوٹ گیا

یا اللہ!!! زریش ایک دم گھومی کہ اس کے گلے میں موجود مفلر پاس پڑے وائپر سے ٹکڑایا اور وہ سیدھا سیب کی ٹوکری پر لگا جس سے ایک سیب اچھل کر شلف پر پڑے جگ کو لگا جو کہ چھن سے ٹوٹ گیا

زری کیا توڑ دیا؟؟؟؟ فاطمہ بیگم کی آواز پر وہ جلدی سے باہر بھاگی کہ باہر سے چائے کی ٹرے پکڑے قراۃالعین سے ٹکرائی جس سے ٹرے کپوں سمیت گر کر ٹوٹ گئی 

ہائے اللہ زری کدھر آندھی طوفان کی طرح جا رہی ہو؟؟؟ قراۃالعین نے پوچھا

بہن ایک احسان کرنا اپنی چاچی کو کچن میں نہ جانے دینا!!! زریش اتنا بول کر لاونج میں بھاگ گئی جہاں سلطان صاحب بیٹھے تھے اس نے فوراً ان کے نرغے میں پناہ لی پیچھے قرات العین نے کچن میں جھانکا تو ایسی حالت دیکھ کر حیران ہو گئی اتنے میں فاطمہ بیگم وہاں پہنچیں

روک جائیں چچی جان!!! وہ ان کے سامنے بازو پھیلائے کھڑے ہو گئی

کیا ہو گیا ہے تمہیں ہٹو سامنے سے مجھے دیکھنے دو کیا توڑا ہے اس آفت نے!!! 

نہیں چچی جان میں آپ کو زریش کا قتل کرتے نہیں دیکھ سکتی!!!

کیا پاگل ہو گئی ہو ہٹو سامنے سے!!! فاطمہ بیگم نے اسے ہٹا کر اندر جھانکا اور اگلے ہی لمحے غصے سے لاؤنج میں داخل ہوئیں

زری یہ کیا کر دیا تم نے ؟؟؟ فاطمہ بیگم بولیں

کیا کیا آپ نے ہی کہا تھا کہ پندرہ منٹ تک کچن کے سارے گندے برتن ختم ہونے چاہیے!!! زریش معصومیت سے بولی

تو دھونے کا کہا تھا توڑنے کا نہیں!!! فاطمہ بیگم بولیں

بیگم یہ تو پھر آپ کی غلطی ہوئی نا کام بتا دیا طریقہ نہیں بتایا اب جائیں فضول میں میری بیٹی پر نہ برسیں!!! سلطان صاحب بولے

اگر یہی حرکتیں رہیں اس کی تو کون بیھا کر لے کے جائے گا اسے؟؟؟ فاطمہ بیگم بولیں

تو کوئی مسئلہ نہیں ہم گھر داماد لے آئیں گے کیوں زری!!! سلطان صاحب نے مسکرا کر کہا جس پر جہاں زریش مسکرائی وہیں اپنی دال نہ گلتی دیکھ کر فاطمہ بیگم پیر پٹخ کر واپس چلیں گئیں

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بھئی کتنی دیر مزید لگاؤ گے اب آ بھی جاؤ یہ نہ ہو ہمارے جانے سے پہلے نکاح ہو جائے!!! اکبر شاہ نے حال میں کھڑے ہو کر آواز لگائی

بس بابا سائیں آ گئے!!! حسن شاہ نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا ان کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی سیڑھیاں اترے

چلو جلدی کرو!!! اکبر شاہ اتنا بول کر آگے چل دیے ان کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی چل دیے چونکہ شادی کا فنکشن خان ولا کے لان میں کیا گیا تھا تو جیسے ہی اکبر شاہ نے خان ولا میں قدم رکھا ان کی نظریں اپنے دوست کو تالشنے لگیں تھوڑی دیر میں ہی انہیں وہ نظر آ گئے

آغا جان بھی ان کو دیکھ چکے تھے اس لیے مسکرا کر ان کی جانب بڑھے 

ہاں بھئی کیسے ہو اور اتنی دیر کون لگاتا ہے؟؟؟ آغا جان نے مسکرا کر پوچھا لیکن اکبر شاہ نے تو جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو وہ تو بس حیرت سے منہ کھولے اپنے دوست کو دیکھ رہے تھے جو کہ ہمیشہ شلوار قمیض میں ملبوس ہوتا تھا پر آج!!!!!!!

آج وہی دوست ان کے سامنے تھری پیس سوٹ میں کھڑا تھا جیسے دیکھ کر ان کی حیرانی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی

مشرقی لباس والا اصول کدھر گیا؟؟؟ اکبر شاہ بس یہ بولے

ارے بھئی چھوڑو نیا زمانہ ہے اور ویسے بھی میں اس میں واقع ہی زری کا دادو ہینڈسم لگ رہا ہوں ہے نا ؟؟؟ آغا جان نے مسکرا کر پوچھا جس پر اکبر شاہ نے محض سر ہلایا

 آج نکاح کا فنکشن تھا کل سے مہندی وغیرہ کی تقریبات شروع ہو رہی تھیں  پر سب مہمان حیرت سے خان ولا کے مکینوں کو دیکھ رہے تھے سب لڑکے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے جبکہ سب لڑکیاں باربی فراک میں ملبوس تھیں جبکہ سب خواتین نے نفیس ساڑھیاں زیب تن کی ہوئیں تھیں جیسے دیکھ کر تقریب میں شریک ہر شخص ہی حیران تھا

ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو اللہ نظر بد سے بچائے فاطمہ بیگم نے محبت سے جاناں اور نازلی کو دیکھ کر کہا جاناں اس وقت بلیک کلر کی فراک میں ملبوس تھی ہم رنگ دپٹہ کندھے پر ڈالا تھا اور لمبے کالے بال کھلے چھوڑے تھے ساتھ مناسب سا میک اپ اور جیولری اسے مزید حسین بنا رہے تھے جبکہ نازلی نے سفید رنگ کی فراک پہن رکھی تھی دوپٹہ کندھے پر ڈالے بالوں کو کھولا چھوڑے مناسب سے میک اپ کے ساتھ وہ بھی جاناں سے کم نہ لگ رہی تھی

آمین پھپھو یہ زری وغیرہ کہاں ہیں ؟؟؟ جاناں نے پوچھا

بس آتے ہی ہوں گے تیار ہو رہے ہیں!!! فاطمہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا

کچھ دیر ہی گزری تھی جب ایک دم سے لان میں شور تھما سب کی نظریں بے اختیار دروازے کی جانب اٹھیں جہاں سے وہ چاروں آ رہے تھے ان کو دیکھ فاطمہ بیگم نے نا جانے کتنی بار دل میں ماشاءاللہ پڑھا جبکہ نا جانے کتنوں کے سانس سینوں میں اٹک گئے ہر نظر ان کو ستائش سے دیکھ رہی تھیں کچھ تو اس لڑکی کی قسمت پر ناز کر رہے تھے جو کہ اپنے چار بھائیوں کے ہمراہ بڑھتے ہوئے کوئی شہزادی ہی لگ رہی تھی

شازل اور بازل نیلے رنگ کی شلوار قمیض پر نیلے رنگ کی ہی واسکٹ پہنے ہوئے تھے جبکہ حائم اور شہیر نیلے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے جبکہ زریش نیلے رنگ کی باربی فراک پہنے ہوئے تھی جس پر سلور موتیوں کا کام ہوا تھا بھورے بالوں کو کھلا چھوڑے سر پر تاج لگائے مناسب سے میک اپ اور جیولری میں وہ جنت سے اتری حور ہی لگ رہی تھی نیلے لباس پر ان سب کی نیلی آنکھیں بھورے بال اور دائیں گال پر پڑنے والے ڈمپل بجلیاں گرانے کا کام کر رہے تھے

اسلام و علیکم!!! ان پانچوں نے ایک ساتھ سلام کیا

وعلیکم السلام ماشاءاللہ ماشاءاللہ اللّٰہ میرے بچوں کو نظر بد سے بچائے!!! مسرت بیگم نے ان کی بلائیں لیتے ہوئے کہا

ارے واہ آپی کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ دونوں!!! زریش نے ستائشی نظروں سے جاناں اور نازلی کو دیکھ کر کہا

اور جناب کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ہاں؟؟؟؟ نازلی نے اسے دیکھ کر کہا

تینوں دلہے لان میں بنے سٹیج پر بیٹھے تھے ان کے بر عکس فراز نے سفید شلوار قمیض پر سیاہ واسکٹ پہن رکھی تھی تھوڑی دیر میں دلہنوں کو لایا گیا رمل اور نورالعین نے سفید فراکیں پہن رکھی تھیں جو کہ زریش کی فرمائش تھی کہ اس کی بھابیاں سب سے الگ نظر آئیں جبکہ پلوشہ نے براؤن فراک پہن رکھی تھی

بلا شبہ تینوں جوڑیاں ہی بہت پیاری لگ رہیں تھیں تھوڑی دیر نکاح کی رسم ادا ہوئی اس کے بعد کھانا سرف ہوا

فاطمہ وہ دیکھو یہ ہے وہ جس کے بارے میں تمہیں بتایا تھا!!! فردوس بیگم نے دور کھڑی ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے فاطمہ بیگم سے کہا

ان کی ساتھ ساتھ باقی سب بھی ادھر متوجہ ہوئے جہاں ایک لڑکی لال رنگ کی میکسی میں کھڑی تھی

ہممم ماشاءاللہ بھابھی لڑکی تو بہت پیاری ہے!!! فاطمہ بیگم نے اسے غور سے دیکھ کر فردوس بیگم سے کہا

یہ کون ہے بھابھی ؟؟؟ فوزیہ بیگم نے فردوس بیگم سے پوچھا

میرے بھائی کی بیٹی ہے میں نے فاطمہ سے ذکر کیا تھا مجھے حائم کے لیے پسند ہے یہ!!! فردوس بیگم کے بولنے پر جاناں کے ہاتھ سے گلاس چھوٹتے چھوٹتے بچا

بھابھی مجھے تو پسند ہے آپ بات چلائیں پھر!!! فاطمہ بیگم نے مسکرا کر کہا اور جاناں کو اپنے پیروں پر کھڑا رہنا مشکل لگ رہا تھا نازلی پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں اب سرخ ہو رہیں تھیں وہ یقیناً خود پر ضبط کر رہی تھی 

اس نے مڑ کر اس لڑکی کو دیکھا جو کہ مسکرا کر اپنی دوست سے کچھ کہہ رہی تھی جاناں نے غور کیا وہ لڑکی واقع کافی خوبصورت تھی

کیا ہو رہا ہے لیڈیز ؟؟؟ زریش نے فاطمہ بیگم کے کندھے پر کہنی رکھ کر پوچھا

تمہاری بھابھی پسند کر رہے ہیں وہ دیکھو!!! فاطمہ بیگم کے اشارہ کرنے پر اس نے اس لڑکی کو دیکھا

ہممم ہے تو پیاری لالہ کو دیکھائی؟؟؟ زریش نے فاطمہ بیگم کو دیکھ کر پوچھا جس پر انہوں نے دور کھڑے حائم کو آواز دی

جی ماما!!! حائم نے مسکرا کر پوچھا

وہ دیکھو اور مجھے بتاؤ وہ لڑکی تمہیں کیسی لگی ؟؟؟ فاطمہ بیگم کے بولنے پر جاناں نے اس کی جانب دیکھا جیسے ایک آخری امید ہو کہ وہ انکار کر دے گا

ہممممم اچھی ہے کیوں؟؟؟ حائم کے بولنے پر جہاں فاطمہ بیگم خوش ہوئیں وہیں جاناں کو لگا کہ وہ اگر کچھ دیر اور رکی تو رو دے گی

ماما میرے سر میں درد ہو رہا ہے میں گھر جا رہی ہوں!!! جاناں مسرت بیگم سے اتنا بول کر رکی نہیں تیزی سے باہر چل دی

ہیں آآآآآآ اسے کیا ہوا ابھی تو بلکل ٹھیک تھی ؟؟؟ مسرت بیگم نے حیرت سے پوچھا

ماما اس کی طبیعت ٹھیک نہیں جانے دیں اسے!!! نازلی بولی جاناں کی حالت کا اسے بخوبی اندازہ تھا جب کہ اس دوران حائم بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا

گیٹ تک پہنچتے پہنچتے اس نے ناجانے کیسے خود پر ضبط کر کے رکھا لیکن گیٹ سے باہر نکلتے ہی اس کے آنسوں روانی سے بہنے لگے

جاناں رکیں!!!!! حائم نے اسے پکارا جس پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی رک گئی لیکن مڑی نہیں وہ گھوم کر اس کے سامنے آیا اور اسے دیکھنے لگا جس کی آنکھیں اور ناک رونے سے سرخ ہو رہیں تھیں

کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟؟ وہ اس کے سامنے کھڑا فکر مندی سے پوچھ رہا تھا جس پر اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اس کے چہرے پر واقع فکر کے آثار تھے

کچھ نہیں بس میری طبیعت ٹھیک نہیں!!! جاناں نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا

کیوں؟؟؟ کیا ہوا ؟؟؟  حائم نے پوچھا اس کے لہجے میں فکر کو جاناں نے باخوبی نوٹس کیا تھا پر تھوڑی دیر پہلے والا واقعہ اسے کچھ محسوس نہیں کرنے دے رہا تھا

بس سر میں درد ہے میں ٹیبلیٹ لے لوں گی ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان مت ہوں!!! جاناں اتنا بول کر آگے بڑھنے لگی جب ایک دم سے حائم نے اس کا ہاتھ پکڑا جس پر اس نے حیرت سے اسے دیکھا جو آنکھوں میں فکرمندی لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا

اگر زیادہ طبیعت خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں یوں نظر انداز کرنا ٹھیک نہیں!!! حائم نے کہا جس پر جاناں نے پہلے اسے دیکھا پھر اپنے ہاتھ کو جو اس کے ہاتھ میں تھا

نہیں میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا آرام کروں گی!!! جاناں اتنا بول کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال کر آگے بڑھ گئی جبکہ وہ تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی

کمرے میں آ کر جاناں بیڈ پر ڈھے سی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی پہلی بار اس نے کسی کے لیے دل میں جذبات محسوس کیے تھے اور یہ پہلی بار ہی تھا جب اس کا دل ٹوٹا تھا ناجانے کتنی دیر تک وہ تکیے میں منہ دیے روتے رہی

دوسری جانب حائم پریشان سا واپس خان ولا میں داخل ہوا تو دیکھا وہی لڑکی جسے تھوڑی دیر پہلے فاطمہ بیگم اسے دیکھا رہیں تھیں وہ بہت غصے سے اپنے سامنے کھڑی ساریہ کو جھڑک رہی تھی جو کہ اس سے معزرت کر رہی تھی

کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟؟ حائم نے ان کے پاس جا کر سنجیدگی سے پوچھا

ہونا کیا ہے اندھے ہیں لوگ نظر ہی نہیں آتا میرا اتنا مہنگا ڈریس خراب کر دیا اس نے!!! اس لڑکی نے غصے سے سامنے کھڑی ساریہ کی طرف اشارہ کیا جو کہ سر جھکائے کھڑی تھی

دیکھیں اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا!!! حائم نے سنجیدگی سے کہا

جی جی ان کی تو آنکھیں نہیں ہیں اس لیے تو میں انہیں نظر نہیں آئی نا جانے کیسے جاہل لوگ ہیں ؟؟؟ وہ لڑکی نفرت سے بولی جس پر حائم کی رگیں تن گئی

محترمہ آپ ہماری مہمان ہیں اس لیے میں نہیں چاہتا کہ کچھ سخت کہوں پر میری بہن سے تمیز سے بات کریں ورنہ میں لحاظ نہیں کروں گا ہم دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت کرتے ہیں صرف اس لیے کہ بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن لحاظ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم آپ کو اپنی بہنوں سے بدتمیزی کرنے دیں گے!!! حائم نے سخت لہجے میں کہا جیسے سن کر وہ لڑکی خاموشی سے وہاں سے چل دی جبکہ اس کے پیچھے پیچھے زریش اور ساریہ  بھی چل دی چونکہ سب کی توجہ حائم کی طرف تھی اس لیے کسی نے غور نہیں کیا

حائم کیا ضرورت تھی غصہ کرنے کی؟؟؟ فاطمہ بیگم نے اسے دیکھ کر کہا جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا وہ بہت ٹھنڈی نیچر کا مالک تھا پر بعض معاملات میں وہ بہت جذباتی تھا

کیا مطلب کیا ضرورت تھی!!!! آپ نے دیکھا نہیں کیسے وہ بدتمیزی کر رہی تھی اور آپ کیوں اسے مجھے دکھا رہی تھیں ؟؟؟حائم نے پوچھا

وہ تمہاری تائی امی اور مجھے یہ لڑکی تمہارے لیے پسند آآآآآآ

ماما سوچ ہے آپ کی کہ میں کبھی ایسی لڑکی سے شادی کروں گا جیسے بات کرنے کی تمیز نہ ہو میری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے پر میں اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ جو لڑکی بھی میری زندگی میں شامل ہو وہ کم از کم میری فیملی کی عزت کرے آج وہ ساریہ سے بدتمیزی کر رہی تھی کل کو زری سے کرے گی تو اس وقت ہم کیا کریں گے ہاں؟؟؟ حائم کے بولنے پر فاطمہ بیگم لاجواب ہو گئیں

پتہ نہیں خود کو سمجھتے کیا ہیں ؟؟ دوسری جانب وہ لڑکی غصے میں پارکنگ ایریا میں آ کر اپنی کار میں بیٹھ رہی تھی جب پیچھے سے کسی کہ پکارنے پر مڑی تو اپنے سامنے کھڑی ساریہ اور اس کے ساتھ ایک اور لڑکی کو دیکھ کر اسے نئے سرے سے غصہ چڑھ گیا

جی کہیے کچھ رہ گیا تھا ؟؟؟ اس نے غصے سے پوچھا

جی ہاں رہ تو گیا تھا کیوں ساری؟؟؟ زریش نے مسکرا کر ساریہ سے کہا جو کہ مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی

کیاآآآآآآ

چٹاخ!!!!

چٹاخ!!!!

اس سے پہلے کی وہ لڑکی کچھ بولتی ان دونوں نے ایک ایک تھپڑ اس کے دونوں گالوں پر جڑھ دیا وہ لڑکی منہ پر ہاتھ رکھے حیرت سے اپنے سامنے کھڑی ان آفتوں کو دیکھ رہی تھی جن کی مسکراہٹ میں کوئی فرق نہ آیا تھا

یو !!!!!!!

وہ لڑکی غصے سے کچھ کہنے والی تھی جب زریش نے آگے بڑھ کر اس کا منہ دبوچ لیا

میری بات کان کھول کر سن لو ہم نے آج تک جو بھی کیا ہے اس پر کبھی معافی نہیں مانگی آج تم سے صرف اس لیے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تم جیسی نازک پری میرے سب سے پیارے بھائی کے پلے پڑے اس لیے آج کے بعد اپنی یہ پلاسٹک کی اکڑ لے کر میرے سامنے مت آنا سمجھی !!!!! زریش نے جھٹکے سے اسے چھوڑا اور واپس پلٹ گئی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

نکاح سے ایک ہفتہ قبل:-

یہ صبح خان ولا میں کافی مصروف سی طلوع ہوئی صبح صبح ہی سب خواتین کاموں میں مصروف تھیں بی جان ملازموں پر برس رہی تھیں پورے خان ولا میں ہلچل سی مچی ہوئی تھی

کیا بات ہے بھئی آج کوئی دعوت ہے جو اتنا اہتمام ہو رہا ہے؟؟؟؟ شازل فریش سا کچن میں داخل ہو کر بولا

یہی سمجھ لو بھئی آج بہت خاص مہمان آنے والے ہیں فردوس بیگم نے کہا

اچھا کون آ رہا ہے؟؟؟ شازل نے سرسری سا پوچھا

ارے بھئی نورالعین کو دیکھنے رشتے والے آ رہے ہیں تقریباً ساری بات پہلے ہی طے ہے بس یہ رسمی طور پر وہ لوگ آ رہےہیں نازیہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے کہا جیسے سن کر شازل زرا تھما پھر اگلے ہی لمحے ہاں میں سر ہلا کر باہر نکل گیا

زری!!!!!

زری!!!!!

صحن میں پہنچ کر اس نے زریش کو آواز دی

جی لالہ؟؟؟؟ زریش نے اوپری منزل سے آواز لگائی

چلو زرا آئسکریم کھا کر آتے ہیں حائم لالہ اور باقی سب کو بھی بلاؤ!!! شازل نے کہا

لالہ اتنی صبح صبح آئسکریم ؟؟؟ زریش نے حیرت سے کہا 

صبح نہیں میڈم دس بج رہے ہیں آغا جان نے لیٹ اٹھنے کی اجازت دے دی ہے پر صبح اپنے ٹائم پر ہی ہوتی ہے اب جاؤ بلاؤ سب کو!!! شازل کے بولنے پر وہ سب کو بلانے چل دی تھوڑی دیر میں وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے لیے روانہ ہو چکے تھے

ہاں بھئی شازل بولو کیا بات کرنی ہے تم نے ؟؟؟ حائم نے مرر سے شازل کو دیکھتے ہوئے کہا وہ ان کا ہر انداز پہچانتا تھا

لالہ آج گھر میں مہمان آ رہے ہیں کیا آپ کو اس بارے میں پتا ہے ؟؟؟؟ شازل نے لہجہ سرسری سا رکھ کر پوچھا

ہاں جی لالہ ہمیں سب پتا ہے اب آپ یہ بتائیں کہ نور آپی کی شادی میں کرسیاں لگائیں گے یا سٹیج پر بیٹھیں گے؟؟؟ بازل کے بولنے پر سب نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ سب ہی اس کی نورالعین کے لیے پسندگی دیکھ چکے تھے

میرے خیال سے سٹیج پر بیٹھنا ہی ٹھیک رہے گا شازل نے مسکرا کر کہا

ٹھیک ہے پھر شیروانی سیلوا لیں !!! زریش بولی

ویسے تم سارے بڑے ہی کوئی مطلبی ہو بڑے بھائی کو چھوڑ کر سارے اپنی ہی سیٹنگ میں لگے ہوئے ہو حائم نے افسوس سے کہا

لالہ فکر نہ کریں شازی لالہ کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی گھوڑی چڑھوا دے گئیں بازل نے اتنا بول کر زریش کو دیکھا جس نے جواباً اسے آنکھ ماری

ہیں آآآآآآ کیا مطلب؟؟؟ حائم نے ناسمجھی سے پوچھا

کچھ نہیں لالہ بس آپ بھی شیروانی سیلوا لیں باقی ہم پر چھوڑ دیں شہیر کے بولنے پر وہ ان سب کو مشکوک نظروں سے دیکھ کر خاموش ہو گیا تھوڑی دیر بعد وہ لوگ واپس خان ولا پہنچ گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

نازی آپی!!!!

نازی آپی!!!!

زریش نے شاہ حویلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں نازلی کو آواز دی جس پر لاؤنج میں بیٹھے زاویار شاہ نے خاصی ناگوار نظروں سے اسے دیکھا

کیوں چیخ رہی ہو کون سا طوفان آ گیا ہے جو تمہیں چھپنے کے لیے پناہ نہیں مل رہی ؟؟؟ زاویار نے کہا

نانو اپنے اس ہٹلر پوتے سے کہیں میرے منہ نہ لگے!!! زریش نے تسبیح پڑھتی یاسمین بیگم سے کہا

کیوں پیچھے پڑے رہتے ہو تم اس کے زاویار ؟؟؟ یاسمین بیگم نے اسے گھور کر کہا

بڑی بی ابھی میرے اتنے برے دن بھی نہیں آئے جو اس آفت کے پیچھے پڑوں !!! زاویار نے زریش کی طرف اشارہ کر کے کہا

اوہ ہیلو بولنے سے پہلے سوچ لو چار بھائی ہیں میرے ادھر پھینک کر آئیں گے جہاں سے تمہاری روح بھی واپس نہیں آ سکتی!!! زریش نے فخر سے کہا اپنے بھائیوں پر تو اسے مان تھا کہ وہ ہر حال میں اس کے ساتھ ہوں گے

تم مجھے!!! زاویار شاہ کو دھمکی دے رہی ہو؟؟؟ زاویار نے سینے پر انگلی رکھ کر پوچھا

ارے نہیں یہ دھمکی دینا میرا سٹائل نہیں ہے میں تو سیدھا کر گزرنے پر یقین رکھتی ہوں اور تم کو دیکھ کر پتا ہے میرا کیا دل کرتا ہے ؟؟؟؟ زریش نے پوچھا

کیا ؟؟؟؟ زاویار نے دلچسپی سے پوچھا

یہی کہ تم کو !!!!!

گولی مار دوں!!!! وہ جو بہت دھیان سے اس کی بات سن رہا تھا اس کی آخری بات پر خاصا بدمزہ ہوا

اوئے زاویار بس کر کیوں میری اتنی پیاری بچی کو تنگ کر رہا ہے یاسمین بیگم نے اسے ٹوکا

بڑی بی صرف شکل ہی ہے اس کے پاس عقل تو اسے چھو کر بھی نہیں گزری زاویار نے اسے مزید سلگایا

جی جی آپ تو خیر اس سے بھی محروم ہیں عقل تو ہر کسی کو مل جاتی ہے پر یہ اچھی شکل نہ کسی کسی کی قسمت میں ہوتی پر آپ کیا جانیں آپ کی تو سڑی ہوئی مونگ پھلی جیسی شکل ہے زریش نے کہا

کیا کہا؟؟؟؟ میڈم لڑکیاں مرتی ہیں میری شکل پر!!!! زاویار تو اچھل ہی پڑا کیونکہ وہ واقع ہی کافی ہینڈسم تھا سفید رنگ پر اس کی مضبوط جسامت اور سبز آنکھیں اسے مزید پرکشش بناتی تھیں

اس شکل پر لڑکیوں کا مرنا ہی بنتا ہے!!! زریش نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کر کہا 

تو کیا مزے سے تماشا دیکھ رہی نیچے مر ورنہ مجھے لگتا ہے ان دونوں کی بک بک سن کر میں نے خودکشی کر لینی ہے !!! یاسمین بیگم ان کی لڑائی سے عاجز آ چکی تھیں جب ان کی نظر اور سیڑھیوں پر کھڑی نازلی پر پڑی جو کہ مزے سے ان کو لڑتا دیکھ رہی تھی یاسمین بیگم کے بولنے پر جلدی سے نیچے آئی

ہاں بولو زری کیا ہوا ؟؟؟ نازلی نے پوچھا

آپی جلدی سے جاناں آپی کو لے کر ہماری طرف پہنچیں یہ نہ ہو سارا ایکشن مس ہو جائے زریش اتنا بول کر بغیر اس کی سنے باہر بھاگ گئی 

ہیں آآآآآآ اب یہ کیا کرنے والی ہے ؟؟؟ زاویار نے حیرت سے پوچھا

لالہ وہ آج رشتے والے آ رہے ہیں نہ!!! 

زری کے لیے ؟؟؟؟ نازلی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی زاویار نے بلند آواز میں پوچھا جبکہ اس کے انداز پر یاسمین بیگم کا ہاتھ تھما

نہیں زری کے لیے نہیں نور کے لیے!! زری تو ابھی بہت چھوٹی ہے اچھا ہم چلتے ہیں نازلی اتنا بول کر کچن سے جاناں کو لینے چلی گئی جبکہ اس کی بات سن کر زاویار نے سکون کا سانس لیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں خان ولا میں داخل ہوئیں تو وہ پانچوں کو پہلے ہی وہاں موجود پایا ان کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی دروازے میں کھڑے تھے

کیا ہوا آپ سب ادھر کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ جاناں نے ان سب کو دیکھ کر پوچھا

ابھی پتہ لگ جائے گا آپی جسٹ ویٹ اینڈ واچ زریش نے اتنا بول کر اسے آنکھ ماری جس پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اتنے میں ایک گاڑی خان ولا میں داخل ہوئی 

چلو جی سارے پوزیشن لے لو شکار آ گیا ہے!!! حائم کے بولنے پر سب ہی الرٹ سے ہو گئے

گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلے جبکہ پیچھلی سیٹ سے ایک خاتون کے ساتھ ایک کم عمر لڑکی نکلی اس کے ساتھ ہی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازا کھول کر ایک دبلا پتلا سا نوجوان نکلا جس نے سفید شلوار قمیض پر کالے رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا کو کہ اس کی پتلی جسامت کے باعث ہوا سے جھول رہا تھا وہ لڑکا معمولی شکل وصورت کا مالک تھا جبکہ چہرے پر موجود اس کی چھوٹی سی موچھیں دیکھ کر بازل کی ہنسی نکل رہی تھی

اسلام و علیکم آپ لوگ نازیہ چچی کے مہمان ہیں!!! زریش نے آدب سے سلام کر کے پوچھا 

ہاں جی میں نازیہ کی خالہ کی بیٹی ہوں شمائلہ یہ میرے میاں ہیں نواز صاحب اور یہ میری بیٹی ہے نورین اور یہ میرا شیر بچہ شارخ تم فاطمہ کی بیٹی ہو نا ماشاءاللہ کتنی پیاری ہو گئی ہو!!! شمائلہ بیگم نے تعارف کروانے کے بعد کہا جبکہ زریش نے شارخ کو دیکھ کر بامشکل اپنی ہنسی روکی

جی جی میں ان کی ہی بیٹی ہوں اور یہ میرے لالہ ہیں زریش نے پاس کھڑے حائم کا تعارف کروایا

ماشاءاللہ ماشاءاللہ بیٹا شادی شدہ ہو؟؟؟ ان خاتون نے چھوٹتے ہی پوچھا جبکہ ان کے سوال پر جہاں حائم ہربڑایا وہاں جاناں نے مشکوک نظروں سے نورین کو دیکھا جو کہ خاصی دلچسپ نظروں سے حائم کو دیکھ رہی تھی 

وہ آآآآ

جی جی بلکل ماشاءاللہ سے شادی شدہ ہیں اور ان کے ماشاءاللہ سے چار بچے بھی ہیں میری تو خیر سے بھابھی میکے گئیں ہیں ورنہ میں ملواتی آپ کو حائم کے بولنے سے پہلے ہی زریش بول اٹھی جبکہ یہ سن کر نورین نے اترے چہرے سے اسے دیکھا اور آگلے ہی لمحے اس کی نظر ساتھ کھڑے شہیر پر پڑی جیسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں

اچھا!!!! شمائلہ بیگم مایوسی سے بول کر باقی سب کا جائزہ لینے لگیں

تم!!!!!! 

یہ بھی شادی شدہ ہیں!!! شمائلہ بیگم شہیر کو دیکھ کر کچھ کہنے والی تھیں جب ایک دم سے نازلی بول اٹھی جس پر شہیر نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا جس نے اس کے دیکھنے پر آنکھ ونک کی 

آف پاگل !!!! شہیر تاسف سے بڑبڑایا

اچھا چلو اندر چلتے ہیں!! شمائلہ بیگم بولیں

اندر کس لیے ؟؟؟ بازل نے ناسمجھی سے پوچھا

بھئی کیا مہمانوں کو اندر نہیں بلائیں گے ؟؟؟ شمائلہ بیگم نے کہا

دیکھیں آنٹی ہم ضرور آپ کو اندر بلاتے پر دراصل ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے!!! زریش بولی

وہ دراصل ہمارے دادو ہینڈسم نا کھولے گھوم رہے ہیں اس لیے ہم آپ کو اندر نہیں لے جا سکتے !!! زریش افسوس سے بولی

کیا مطلب ؟؟؟ شمائلہ بیگم نے ناسمجھی سے پوچھا

وہ دراصل ہمارے دادو ہینڈسم کو نا دماغی مسئلہ ہے اگر انہیں کوئی پسند نہ آئے تو وہ اسے گولی مار دیتے ہیں آپ سے پہلے بھی دو تین رشتے والے آئے تھے پر ایک بار انہیں لڑکے کے کپڑے پسند نہیں آئے اور انہوں نے سیدھا اس کی ٹانگ میں گولی مار دی اور دوسری با انہیں لڑکے کی شکل پسند نہیں آئی اور انہوں نے سیدھا اس کے سر میں گولی مار دی جبکہ وہ لڑکا کافی ہینڈسم تھا اب آپ بتائیں آپ نے اندر جانا ہے ؟؟؟؟ زریش نے بات پوری کر کے شارخ کو دیکھ کر پوچھا جس کو ہلکے ہلکے پسینے آنا شروع ہو گئے تھے 

بیٹا پر نازیہ نے تو ہمیں ایسا کچھ نہیں بتایا!!! شمائلہ بیگم بولیں

ارے اس لیے نہیں بتایا ورنہ آپ نے آنا تھا دیکھیں آنٹی جان پر کھیل کر رشتہ کرنا ہے آپ نے ویسے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دادو ہینڈسم کو لڑکا پسند آ جاتا ہے پر باپ پسند نہیں آتا بازل نے نواز صاحب کو دیکھ کر کہا

ہمیں نہیں کرنا یہاں رشتہ چلو بیگم چلو ادھر سے!!! نواز صاحب اتنا بول کر جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے

ارے ایسے کیسے ہماری نور آپی بہت پیاری ہے!!!! روکیں تو!!! زریش نے آواز لگائی

اور جو آپی کے ساتھ دادا جہیز میں دے رہے ہو اس کا کیا شمائلہ بیگم اتنا بول کر گاڑی میں بیٹھ گئیں

ویسے ایک بات بتائیں آپ واقعی شادی شدہ ہیں؟؟؟ نورین نے حائم سے پوچھا جس پر جاناں نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا

جی !!!!!! حائم صرف اتنا بولا

جان کر افسوس ہوا!!! نورین نے گہری سانس خارج کر کے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی شارخ نے گاڑی زن سے بھگا دی ان کے جاتے ہی سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سب کی ہی ہنسی نکل گئی 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

شام میں سب لاونج میں بیٹھے تھے مہمانوں کے نہ آنے کی وجہ سے آغا جان کافی غصے میں تھے

یہ کیا طریقہ ہے اگر نہیں آنا تھا تو بتا دیتے یہ سب کیا مزاق لگتا ہے انہیں ؟؟؟ آغا جان غصے سے بولے اتنے میں نازیہ بیگم پریشان سی سیڑھیاں اتر کر آئیں

آغا جان شمائلہ کا فون آیا تھا انہوں نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے نازیہ بیگم کے بتانے پر آغا جان غصے سے اٹھ گئے ان کی دیکھا دیکھی سب ہی کھڑے ہو گئے

ان کی ہمت کیسے ہوئی یہ رشتہ ہم نے طے کیا تھا کس کی مجال جو ہمارے فیصلوں میں بولے ؟؟؟؟ آغا جان غصے سے دھارے

دادو ہینڈسم کوئی بات نہیں اگر وہ نہیں رشتہ کرنا چاہتے تو رہنے دیں ہمارے پاس کونسی رشتوں کی کمی ہے بلکہ گھر میں ہی رشتہ موجود ہے زریش بولی

زری خاموش!!!! یہ فیصلہ ہم کریں گے!!! آغا جان غصے سے بولے

دادو ہینڈسم سوری ٹو سے پر آپ نے اپنا فیصلہ کر کے دیکھ لیا کیا ہوا ہاں وہ لوگ ہماری بیٹی کو ٹھکرا کر چلے گئے اب اگر آپ زور زبردستی ان کو منا بھی لیتے ہیں تو کیا ساری زندگی نور آپی ان کے طاعنے سنے گی اگر سارے فیصلے بڑے بچوں کی رضا مندی سے کریں تو آگے چل کر پریشانی نہ ہو پر یہاں تو بڑوں کو لگتا ہے کہ بس ایک بار جو رشتہ طے ہو گیا قیامت تک اس سے ہلنا نہیں معاف کیجئے گا آغا جان پر آپ نے صرف اپنوں کی وجہ سے یہ رشتہ کیا تھا ورنہ ان لوگوں میں ایسا کیا ہے جو ہم اپنی اتنی پیاری آپی ان کے آدھ پسلی لڑکے کے متھے ماریں پھر بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں تو پھر جو دل کرے کیجیے!!!!! زریش اتنا بول کر خاموش ہو گئی جبکہ اس کی بات سن کر وہاں موجود ہر شخص حیران ہو گیا کسی کو اس سے اتنی سمجھداری کی امید نہیں تھی

پھر کیا کریں زری پتر ؟؟؟؟ آغا جان نے قدرے نرمی سے پوچھا

آپ نور آپی کی شادی شازل لالہ سے کر دیں اچھا ہے نا گھر کی بچی گھر ہی رہ جائے گی زریش نے چہک کر کہا جبکہ اس کی بات پر فاطمہ بیگم نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا

ہممممم ٹھیک ہے اگلے جمعے پلوشہ اور فراز کی شادی کے ساتھ شازل اور نور کا اور بازل اور رمل کا نکاح ہو گا آغا جان نے کچھ دیر سوچ کر کہا جیسے سن زریش کا دل کیا کہ وہ بھنگڑا ڈالے 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

لالہ یہ تو بہت اونچی ہے میں کیسے چڑھوں اوپر؟؟؟ بازل نے رمل کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے پاس کھڑے شازل سے پوچھا جو کہ خود نورالعین کے آنے کا انتظار کر رہا تھا

ارے یار اس پانی کے پائپ سے چڑھ جا جلدی کر تیری بھابھی آنے والی ہو گی!!!! شازل نے ایک نظر دائیں بائیں ڈال کر کہا

ویسے لالہ حد نہیں ہو گئی ہم دنیا کے واحد عاشق ہیں جو بیوی کےکمرے میں چھپ کر جا رہے ہیں!!! بازل بولا

اوئے چپ کر اور جا اس سے پہلے کہ اس چڑیا گھر کے مکین دیکھ لیں!!!! شازل کے بولنے پر بازل نے گہری سانس لی اور بامشکل پائپ سے چڑھ کر اوپر گیا

رمل تھکی ہاری ابھی بیڈ پر بیٹھی آنکھیں بند کیے اپنا کندھا دبا رہی تھی جب کمرے میں کسی کو محسوس کر کے گھبرا گئی اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا جہاں ایک شخص اس کے کمرے کی کھڑکی بند کر رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ مڑتا رمل نے پاؤں میں پہنی ہیل کھینچ کر اس کی طرف پھینکی جو کہ سیدھا اس کے سر پر لگی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا

رمل نے اس کے بے ہوش ہونے پر شکر کا سانس لیا اور اندر ہی اندر خود کو شاباشی بھی دی آخر کتنے لوگ ہیں جو چور کو ہیل مار کر ہلاک کر سکتے ہیں یہ ٹیلنٹ تو اللہ نے صرف چند لوگوں کو ہی عطا کیا ہے اب وہ آگے پیچھے سے اس چور دیکھ رہی تھی جس کا منہ دوسری طرف تھا اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اسے چور جانا پہچانا لگا اس نے آگے بڑھ کر اس کا منہ سیدھا کیا تو حیران ہو گئ

بازی ؟؟؟؟ اس نے اسے ہلایا پر وہ ہوش میں نہ آیا

یا اللہ مجھ سے میرا نیا نویلا شوہر قتل ہو گیا اس نے دل میں سوچ کر پھر اس کا کندھا ہلایا پر اس کے وجود میں کوئی جبنیش نہ ہوئی

آف اللّٰہ ابھی تو میری تازی تازی شادی ہوئی تھی اور میں ساتھ ہی بیوہ ہو گئی دل میں سوچ کر وہ ایک خیال کے تحت اٹھی واش روم میں جا کر اس نے پانی کی بالٹی بھری اور لا کر بازل پر الٹ دی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم!!!!! بازل ہربڑا کر اٹھا

ارے آپ زندہ ہیں ؟؟؟ رمل نے پوچھا

جی !!! بدقسمتی سے زندہ ہوں پر آپ نے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ابھی نکاح کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور تم نے بیویوں والی حرکتیں بھی شروع کر دیں ہیں!!! بازل تپ کر بولا

تو آپ کو کس حکیم نے کہا تھا کہ چوروں کی طرح آئیں ؟؟؟ رمل نے ایسے کہا جیسے ساری غلطی اسی کی ہو 

 چھوڑو یار!!! بازل تاسف سے بولا

اچھا یہ بتائیں آپ اس وقت کرنے کیا آئے تھے ؟؟؟ رمل نے پوچھا

لڈو کھیلنے آیا تھا تمہارے ساتھ!!! بازل نے دانت پیس کر کہا

شرم کریں یہ کوئی وقت ہے لڈو کھیلنے کا ؟؟؟ رمل کے بولنے پر وہ اسے دیکھتا رہ گیا

یار گفٹ لایا تھا تمہارے لیے وہی دینے آیا تھا پر تم نے تو مجھے ہی گفٹ دے دیا!!! بازل نے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا

اچھا لائیں دیں!!! رمل نے اکسایٹڈ ہوتے ہوئے اس کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلائی جس پر بازل نے اس کی وہی ہتھیلی پکڑ کر چومی جس سے اس کے گال دھک اٹھے بازل نے دلچسپی سے اس کے بدلتے رنگ دیکھے

میرا گفٹ؟؟؟ رمل نے اس کا دھیان ہٹانے کے لیے کہا جس پر بازل نے اپنی جیب سے ایک ڈبی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی

رمل نے ڈبی کھولی تو اس میں ایک خوبصورت سا بریسلٹ تھا

بہت خوبصورت ہے!!! رمل نے ستائشی انداز میں کہا

میں پہناؤں؟؟؟؟ بازل نے بریسلٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا جس پر رمل نے اپنا ہاتھ اس کے آگے کر دیا

ہاں!!! اب خوبصورت لگ رہا ہے!!! بازل نے اس کے ہاتھ میں بریسلٹ پہنا کر کہا پھر وہی ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا جبکہ اس بار رمل سر سے پیر تک سرخ ہو گئی ابھی وہ کچھ اور کہتا کہ رمل کے کمرے کا دروازا نوک ہوا جیسے دیکھ کر وہ دونوں گھبرا گئے

بازی جائیں ادھر سے!!! رمل نے اسے کھڑی کی طرف دھکیلا

اس وقت کون ہے ؟؟؟ بازل نے کھڑکی سے ٹانگ باہر نکالتے ہوئے کہا 

پتہ نہیں آپ جائیں!!!! رمل نے بازل سے کہا دروازا پھر زور سے نوک ہوا جس پر رمل نے بازل کو کھڑکی سے باہر دھکا دے دیا اور کھڑکی بند کر لی یہ دیکھے بنا کہ وہ زندہ بچا کہ مر گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کیا ہوا شازی آپ نے اس وقت یہاں کیوں بلایا؟؟؟ نورالعین نے لان میں آتے ہوئے شازل سے پوچھا جو کہ اسی کے انتظار میں کھڑا تھا وہ اس وقت نکاح کے جوڑے میں تھی جس پر شازل اسے کافی دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا

شادی مبارک بیگم صاحبہ!!!! شازل بولا

خیر مبارک!!! اب میں جاؤں؟؟؟ نورالعین نے پوچھا

ارے یار اتنی بھی کیا جلدی ہے آرام سے دیکھنے تو دو!!! شازل نے کہا

آپ کے چکر میں کسی اور نے دیکھ لیا تو مارے جائیں گے!!! نورالعین کے بولنے پر شازل نے گہری سانس لی اور جیب سے ایک ڈبی نکال کر کھولی

یہ دیکھو تمہارے لیے لایا ہوں!!! شازل نے ڈبی اس کے سامنے کی جس میں باریک اور خوبصورت سا نیکلس تھا 

منہ دکھائی شادی پر دیتے ہیں!!! نورالعین نے کہا

یہ منہ دکھائی نہیں ہے نکاح کا گفٹ ہے تمہارے لیے!!!! شازل نے اتنا بول کر نیکلس نکال کر ہاتھ میں پکڑا

میں پہناؤں؟؟؟ شازل کے پوچھنے پر نورالعین نے نظریں جھکا دیں جس پر شازل نے آگے بڑھ کر اس کے گلے میں نیکلس پہنایا

بہت پیاری لگ رہی ہو!!! شازل اتنا کہہ کر اسکا ماتھا چومتا پیچھے ہٹا کہ اتنے میں اوپر سے شور کی آواز آئی اس سے پہلے کہ وہ اوپر دیکھتا بازل دھڑام سے اس پر آن گرا نورالعین گھبرا کر وہاں سے بھاگ گئی

اوئے کمینے ہٹ جا مجھے سانس نہیں آ رہی!!! شازل نے بازل کو ہٹاتے ہوئے کہا

یار لالہ میری بیوی نے مجھے بھگا دیا!!! بازل افسوس سے بولا

اور تو نے spider man  کی طرح انٹری مار کر میری بیوی بھگا دی!!! شازل نے غصے سے کہا اور پھر وہ دونوں ہی منہ بنائے لان میں بیٹھ گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حائم فریش ہو کر نکلا تو دفعتاً اس کے سامنے جاناں کا چہرہ لہرایا

پتہ نہیں اب کیسی طبعیت ہو گی؟؟؟

کال کر کے نا پوچھ لوں ؟؟ نہیں اس طرح اچھا نہیں لگتا!!! حائم خود سے بول کر بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر بعد خود ہی نمبر ملانے لگا

ہیلو!!!! چوتھی بیل پر کال ریسیو کرتے ہوئے جاناں نے پوچھا جبکہ اس کی آواز سے ہی حائم کو لگا تھا کہ وہ رو رہی ہے

اسلام و علیکم جاناں میں آآآآآآ

حائم آپ اس وقت؟؟؟ سب ٹھیک ہے ؟؟؟ حائم کے بولنے سے پہلے ہی دوسری جانب جاناں بول پڑی جبکہ اس کے صرف آواز سے ہی پہچاننے پر حائم حیران ہوا تھا

جی سب ٹھیک ہے بس آپ کی خیریت پوچھنے کے لئے فون کیا تھا پر آپ کی آواز سے نہیں لگتا کہ آپ ٹھیک ہیں!!! حائم نے اس کی بھاری ہوتی آواز کو سنتے ہوۓ کہا جبکہ دوسری جانب جاناں کا دل اس کی اتنی فکر پر زور سے دھڑکا تھا

نہیں ایسا کچھ نہیں بس ابھی نیند سے جاگی بس اس لیے!!! جاناں نے بہانا بنایا ورنہ نیند تو اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی

اوہ میں معافی چاہتا ہوں آپ کی نیند خراب کی مجھے بس آپ کی فکر ہو رہی تھی اس لیے سوچا کال کر لوں ویسے جاناں اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو بتائیں کسی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں یوں لاپرواہی اچھی نہیں!!! حائم نے کہا

نہیں آپ پلیز معافی نہ مانگیں اور میں بلکل ٹھیک ہوں بس تھوڑی دیر سوؤں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی آپ پریشان نہ ہوں!!! جاناں بولی حائم کا اس کے لیے فکر مند ہونا اسے اچھا لگ رہا تھا پر رات والا واقعہ سوچ کر اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں

چلیں ٹھیک ہے آپ اپنا خیال رکھیے گا!!! اللہ حافظ!!!

حائم؟؟؟؟ اس سے پہلے کہ وہ فون رکھتا دوسری جانب سے جاناں پکار اٹھی

جی ؟؟؟؟ حائم نے پوچھا

تھینک یو!!! جاناں کے بولنے پر حائم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی

ٹیک کیئر!!! اللہ حافظ!!!

اللہ حافظ!!! جاناں نے فون کان سے ہٹایا

کاش آپ میرا مقدر ہوتے!!! جاناں موبائل کی سکرین کو دیکھ کر بڑبرائی اور ایک بار پھر رو دی 

دوسری جانب حائم ٹیرس میں آ کر سامنے موجود شاہ حویلی کو دیکھنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ موبائل نکال کر آج کے فنکشن کی تصویریں دیکھنے لگا جو اسے زریش نے بھیجی تھیں اب اسے ان تصویروں کو پرنٹ کروا کر البم میں لگانا تھا وہ بچپن سے ہی ہر موقع پر لی جانے والی تصاویر پرنٹ کروا کر اپنے پاس رکھتا تھا

دفعتاً وہ ایک تصویر پر رکا اور نا جانے کتنے ہی پل وہ اس تصویر کو دیکھتا رہا اس تصویر میں جاناں زریش کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی اور شائد حائم نے پہلی بار ہی اس کی مسکراہٹ دیکھی تھی کیونکہ وہ اس کے سامنے بات بہت کم کرتی تھی یا حائم نے کبھی غور نہیں کیا تھا

تمہاری مسکراہٹ بہت پیاری ہے!!! حائم تصور میں اس سے مخاطب ہوا

ابھی وہ ان ہی سوچوں میں تھا جب زریش اس کے کمرے کا دروازا نوک کر کے اندر آئی پر ایسے احساس نہ ہوا

لالہ آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں ؟؟؟ زریش کے بولنے پر اس نے چونک کر اسے دیکھا

زری تم ادھر ؟؟ حائم نے پوچھا

لالہ پانی پینے گئی تھی واپسی پر آپ کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی تو ادھر آ گئی آپ کیا دیکھ رہے ہیں ؟؟؟ زریش نے اتنا بول کر اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا لیکن سامنے جاناں کی تصویر دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت ہوئی

کچھ نہیں بس آج کے فنکشن کی تصویریں دیکھ رہا تھا!!! حائم نے بتایا جس پر زریش نے موبائل اس کے سامنے کیا

فنکشن کی یا آپی کی؟؟؟ زریش نے شریر لہجے میں پوچھا

ایسا کچھ نہیں ہے!!! حائم اتنا بول کر ٹیرس میں چلا گیا

لالہ اب آپ بھی باتیں چھپائیں گے ؟؟ زریش اس کے پیچھے آتی خفا لہجے میں بولی

میرا بچہ کچھ نہیں چھپا رہا آپ سے!!! حائم نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا

لالہ آپ جانتے ہیں نا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھیں پڑھ لیتے ہیں پھر بھی آپ یہ کہہ رہےہیں!!! زریش کے بولنے پر حائم نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما بولا کچھ نہیں

لالہ جاناں آپی آپ کو اچھی لگتی ہیں؟؟؟ کچھ دیر بعد زریش نے اس سے پوچھا 

وہ بہت اچھی ہیں!!! حائم بولا

اس کا مطلب وہ واقع آپ کو پسند ہیں تو پھر ہم ماما سے بات کرتے ہیں وہ صبح ہی جا کر ماموں سے آپکی اور آپی کی شادی کی بات کریں!!!! زریش اس کی بات پر خوشی سے اچھلتے ہوئے بولی آخر پہلی بار تھا کہ اس کے بھائی کو کوئی لڑکی پسند آئی تھی

نہیں بچے یہ نہیں ہو سکتا!!! حائم کے بولنے پر اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جو کہ سامنے دیکھ رہا تھا

کیوں ؟؟؟ کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟؟ ماموں جان کبھی آپ کے لیے منع نہیں کریں گے اور جاناں آپی کو بھی کوئی ناپسند نہیں کر سکتا پھر کیوں ؟؟؟ زریش نے اترے چہرے سے پوچھا

میرا بچہ آغا جان اس کی اجازت نہیں دیں گے!!! 

لالہ میں بات کروں گی دادو ہینڈسم سے مجھے یقین ہے وہ مان جائیں گے پھر آآآآآ

وہ کبھی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے بابا کو بھی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ نانا جان ان کے جگڑی دوست تھے پر انہوں نے اصولوں کو اہمیت دی اب بھی ایسا ہی ہو گا یوں بات کر کے ہم ایک بار پھر سب کو اسی موڑ پر کھڑا کر دیں گے بامشکل تو دو خاندان ایک ہوئے ہیں اب میں نہیں چاہتا کہ میری ایک خواہش کے پیچھے پھر سے ہمیں سالوں تک اپنوں سے دور رہنا پڑے!!!! حائم کے بولنے پر زریش نے دکھ سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جس نے کبھی اپنے لیے کچھ نہ چاہا تھا زریش کو یاد نہیں تھا کہ کب اس نے حائم کو آخری بار کوئی خواہش کرتے دیکھا تھا

لالہ ایک بار کوشش تو کرنے دیں!!! زریش نے امید سے کہا 

زری بات صرف آغا جان کی نہیں ہے مجھے نہیں لگتا جاناں کو مجھ میں کوئی دلچسپی ہے!!! 

لالہ ایسا نہیں ہے آپ کو کوئی ریجکٹ نہیں کر سکتا!!! زریش پورے اعتماد سے بولی

بات ریجکٹ کرنے کی نہیں ہے بلکہ ایز آ لائف پارٹنر اکسپٹ کرنے کی ہے اور مجھے نہیں لگتا جاناں نے کبھی میرے بارے میں ایسا سوچا ہو گا وہ میرے سامنے بہت کم آتی ہے ہر بات کا مختصر جواب دیتی ہے میرے ساتھ بہت لیا دیا سا رویہ ہے اس کا!!! حائم کے جواب پر زریش خاموش ہو گئی

پھر کیا کریں گے آپ؟؟؟ زریش نے پوچھا

کچھ نہیں جیسے رہتا ہوں ویسے ہی رہوں گا میرے لیے سب سے پہلے میری فیملی ہے میں ماما بابا کے لیے امتحان نہیں بننا چاہتا چلو شاباش رات بہت ہو گئی ہے جا کر سو جاؤ اور یہ ہمارا راز ہے کسی سے شئیر مت کرنا اوکے!!!! حائم کے بولنے پر اس نے سر ہلایا اور خاموشی سے باہر نکل گئی پیچھے وہ اب بھی شاہ حویلی کو تک رہا تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اسلام و علیکم ممانی جان!!!!

وعلیکم السلام حائم بیٹا کیسے ہو ؟؟؟ فوزیہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا

جی میں ٹھیک ہوں زری بتا رہی تھی جاناں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو سوچا حال پوچھ آؤں اب کیسی طبعیت ہے ؟؟؟ صبح اسے نازلی سے پتا چلا تھا کہ جاناں رات بھر سوئی نہیں ہے جس پر اس نے زریش کو اس کی خیریت معلوم کرنے بھیجا تھا

زریش نے اسے بتایا کہ اسے بہت تیز بخار ہے اور اس کے بولنے پر بھی اس نے ڈاکٹر کے پاس جانے سے منع کر دیا جس پر حائم خود اب ایسے دیکھنے آیا تھا

بس بیٹا شائد نظر لگ گئی ہے بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تم بیٹھو میں بلاتی ہوں اسے!!!

ارے نہیں ممانی جان اس کی ضرورت نہیں میں خود مل آتا ہوں!!! حائم اتنا بول کر اوپر چل دیا اس کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے نوک کیا

کافی بار نوک کرنے پر بھی دروازا نہیں کھولا تو اس نے ذرا زور سے نوک کیا

نازی میں نے کہا نا مجھے کھانا نہیں کھانا پھر بھی تم آآآآآآآآ

آپ!!!!! وہ جو جھنجھلاتے ہوئے دروازا کھول رہی تھی اپنے سامنے حائم کو کھڑا دیکھ کر حیران ہوئی جو کہ سنجیدگی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو کہ اسے ایک ہی دن میں کافی کمزور لگا تھا

میں باہر آپ کا انتظار کر رہا ہوں فریش ہو کر آئیں پھر ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں اور میں اس بار کوئی بہانا نہیں سنوں گا!!! سنجیدگی سے کہہ کر وہ چل دیا جبکہ پیچھے وہ حیرت سے اس کی اتنی فکر کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی

ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی جہاں وہ گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا

آگے بیٹھیں جاناں!!! وہ جو پیچھے کا دروازا کھول رہی تھی اس کی سنجیدہ آواز پر ٹھٹکی پھر بنا کچھ کہے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی 

سارے راستے ان میں کوئی بات نہیں ہوئی

کم از کم آپ مجھے بتا تو سکتیں تھیں کہ آپ کی طبیعت اتنی خراب ہے آپ کو اندازہ ہے میں کتنا پریشان تھا ؟؟؟؟ واپسی پر اس نے اسے دیکھ کر کہا جو کہ خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی

میں آپ کو ضہمت نہیں دینا چاہتی تھی!!!! تھوڑی دیر بعد جاناں بولی

کیسی ضہمت جاناں؟؟؟ اپنوں میں کیسی ضہمت؟؟ آپ کو اٹلیسٹ بتانا چاہیے تھا مجھے نہیں بتانا چاہتیں تھیں تو زاویار یا کسی اور کو بتا دیتیں!!!! حائم نے سنجیدگی سے کہا

ایسی بات نہیں ہے مجھے لگا معمولی سا بخار ہے اس لیے کسی کو نہیں بتایا میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ایم سوری کہ آپ کو برا لگا!!! جاناں نے دھیمے لہجے میں کہا جس پر حائم نے گہری سانس خارج کر کے اپنا ہاتھ اس کے گود میں پرے ہاتھ پر رکھا جس پر اس نے چونک کر اسے دیکھا

سوری کی ضرورت نہیں بس میں چاہتا ہوں آپ آئندہ ایسا نہ کریں مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں اس لیے آپ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گی!!!!! وہ گاڑی چلاتے ہوئے سنجیدگی سے کہہ رہا تھا اور وہ بس اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جسے اس نے تھامے رکھا تھا

جی !!!! اس نے بس یہ کہا جس پر حائم نے اسے ایک نظر دیکھ کر اپنا ہاتھ اٹھا لیا جبکہ وہ اب بھی بے یقین تھی

ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟ جاناں نے گاڑی حویلی کی بجائے کسی اور راستے پر دیکھی تو پوچھا

ہم ریسٹورنٹ جا رہے ہیں مجھے شک ہے آپ نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا اس لیے پہلے آپ کچھ کھا لیں پھر ہم حویلی چلیں گے اؤر میں کوئی بحث نہیں سنوں گا!!!! وہ جو کچھ کہنے والی تھی اس کے بولنے پر ایک دم چپ ہو گئی

حائم نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ میں روکی خود اتر کر اس کی سائیڈ کا دروازا کھولا وہ چپ چاپ بس اسے دیکھ رہی تھی جس کے ہر انداز میں عزت اور فکر تھی

آڈر دینے کے بعد حائم نے اسے دیکھا جو مسلسل اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی

ماسٹرز کرنے کے بعد آگے کا کیا آرادہ ہے ؟؟؟ حائم نے بات کرنے کی غرض سے پوچھا

اگر لالہ نے اجازت دی تو فیشن ڈیزائننگ کا کورس کروں گی!!! جاناں نے جواب دیا

اور اگر اجازت نہ دی تو ؟؟؟ حائم نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا

پھر پتا نہیں!!! جاناں کے جواب پر وہ سر ہلاتا باہر دیکھنے لگا

آپ کا کام کیسا چل رہا ہے؟؟؟ جاناں کو لگا کہ شاید وہ ناراض ہے اس لیے خود ہی بات شروع کی

ٹھیک!!!!!! حائم نے یک لفظی جواب دیا جس پر جاناں نے اس کی طرف دیکھا وہ واقع ناراض لگتا تھا چہرے پر وہ ہمیشہ والی نرمی نہ تھی

آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟؟؟ بہت ہمت کرکے جاناں نے اس سے پوچھا

میں آپ سے ناراض کیوں ہوں گا؟؟؟ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا جس پر وہ نظریں جھکا گئی اس کیوں کا جواب تو اس کے پاس بھی نہیں تھا

ایم سوری جاناں میں جتنا بھی کولڈ نیچر کا ہوں پر بعض معاملات میں کافی سخت ہوں پلیز مائنڈ مت کیجئے گا!!! حائم نے نرمی سے کہا

اٹس اوکے!!! جاناں کے جواب پر وہ مسکرا دیا

میں کل کے فنکشن کی تصویریں پرنٹ کروا رہا ہوں آپ جلدی چلی گئی تھیں زری سے بولا ہے میں نے کہ آپ کو پیکچرز سینڈ کر دے حائم نے مسکرا کر کہا

پرنٹ کس لیے ؟؟؟ جاناں نے پوچھا

میں ہر خاص موقعے کی تصویریں پرنٹ کروا کر اپنے پاس البم میں رکھتا ہوں اور ویسے بھی کل کا دن میرے لیے بہت خاص تھا!!! حائم نے مسکرا کر کہا جس پر جاناں کو کل والا واقعہ یاد آیا

جی کل کا دن آپ کے لیے دوہری خوشی کا باعث تھا ایک طرف بھائیوں کی خوشی دوسری طرف اپنی شادی کی خوشی!!! جاناں نے بھرپور کوشش کی لہجہ نارمل رکھنے کی پر وہ خود بہ خود تلخ ہو گیا جبکہ دوسری جانب حائم کے تاثرات یک دم سخت ہوئے آنکھوں میں برہمی در آئی

میری شادی کا کیا ذکر؟؟؟ حائم نے سختی سے پوچھا

مجھے کل پھپھو نے بتایا تھا کہ انہیں ایک لڑکی پسند ہے آپ کے لیے آآآآآآ

انہوں نے کہہ دیا اور آپ نے مان لیا ؟؟؟ حائم نے اس کی بات کاٹی اسے جاناں کے منہ سے اپنی شادی کا ذکر بہت بڑا لگ رہا تھا

کیا مطلب مجھے پھپھو نے خود بتایا تھا کہ آآآآآآ

جاناں پلیز آپ ان معاملات سے دور رہیں ان سب میں آپ کو پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں!!!!

جی ٹھیک کہا آپ نے یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مجھے بولنے کا کوئی حق نہیں پلیز مجھے گھر ڈراپ کر دیں!!!! جاناں اتنا بول کر اٹھ کھڑی ہوئی

میرا مطلب وہ نہیں تھا!!!!! حائم نے کچھ کہنا چاہا پر وہ سنے بغیر باہر چلی گئی حائم بھی چل پے کرتا باہر آیا جہاں وہ گاڑی میں منہ موڑے بیٹھی تھی وہ خاموشی سے اپنی طرف آ کر بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کی سارے راستے وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا پر اس کی ہمت نہ ہوئی

اس نے گاڑی شاہ حویلی کے سامنے روکی

جاناں آئی ایم سوووو!!!

خدا حافظ!!!! اس کی بات سنے بغیر وہ دروازا کھول کر باہر نکل گئی

شٹ!!! اس نے غصے سے سٹرنگ پر ہاتھ مارا

وہ تھکے قدموں سے خان ولا میں داخل ہوا جہاں سب لاونج میں بیٹھے ہنس رہے تھے

حائم لالہ آپ بھی آئیں دیکھیں اسمائیل کو پھر ایکٹنگ کا دورا پڑ گیا ہے!!!! حورین نے مسکرا کر اسے کہا باقی سب کی نظریں بھی اس کی جانب اٹھیں

نہیں میرا موڈ نہیں ہے میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں آپ لوگ انجوائے کریں!!! حائم اتنا بول کر لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اوپر چل دیا پیچھے سب حیران تھے اس کا یہ رویہ ان کے لیے نیا تھا وہ ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا پر آج اس کے چہرے پر دور دور تک مسکراہٹ نہ تھی

کمرے میں پہنچ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا اس کا سر درد کر رہا تھا اسے جاناں کی ناراضگی شدید ڈسٹرب کر رہی تھی وجہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا یا شاید جان کر انجان بن رہا تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آخر خود کو سمجھتے کیا ہیں ؟؟؟ جاناں نے کمرے میں پہنچ کر غصے سے دروازا بند کیا ابھی وہ پلٹی ہی تھی جب نازلی کو دیکھ کر ٹھٹکی

تم ادھر کیا کر رہی ہو؟؟؟ جاناں نے پوچھا

عید کا چاند دیکھنے آئی ہوں آؤ تم بھی دیکھو!!!! نازلی جواباً بولی

نازی پلیز میں مزاق کے موڈ میں بلکل نہیں ہوں!!! جاناں نے بیزاریت سے کہا اور بیڈ پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گئی

تمہیں شرم آنی چاہیے جاناں تم سے اتنی ضہمت نہیں ہوئی کہ اپنی اکلوتی بہن کو بتاتی جاؤ میں نے کون سا کہنا تھا کہ مجھے بھی ساتھ لے جاؤ پر بندہ بتا تو دیتا ہے نازلی نے خفا لہجے میں کہا اسے فوزیہ بیگم سے پتا چلا تھا کہ جاناں حائم کے ساتھ گئی ہے جس پر اسے خوشی اور غصہ بیک وقت محسوس ہوئے تھے کیا تھا جو وہ بتا دیتی

ہاں اب تم بھی شروع ہو جاؤ پہلے وہ غصہ کر رہے تھے کہ میں نے بتایا نہیں کہ میں بیمار ہوں اور اب تم غصہ کرنے لگ جاؤ کہ میں نے تمہیں نہیں بتایا کہ میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی!!! جاناں نے غصے سے کہا نازلی کو وہ عجیب سی لگی

اچھا یار چھوڑو یہ بتاؤ حائم بھائی خود لے کر گئے تھے تمہیں ؟؟؟ نازلی نے دلچسپی سے پوچھا

ہاں خود ہی لے کر گئے تھے انہیں ڈر تھا کہ کہیں میں مر نہ جاؤں!!! جاناں نے طنزیہ کہا

یار تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ وہ تمہاری اتنی فکر کر رہے ہیں اور تم ہو کہ غصہ کر رہی ہو!!! نازلی نے کہا

ہاں مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ ابھی کل ان کا رشتہ پکا ہوا ہے اور وہ آج میرے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں!!! جاناں نے غصے سے کہا پر اس کا لہجہ آخر میں خود ہی روہانسا ہو گیا

تم سے کس نے کہا کہ حائم بھائی کا رشتہ پکا ہو گیا ہے؟؟؟ نازلی نے اسے دیکھ کر پوچھا

کیا مطلب کس نے کہا تم نے کل پھپھو کی بات نہیں سنی؟؟

محترمہ ایسا کچھ نہیں ہوا حائم بھائی نے انکار کر دیا !!! نازلی کے بولنے پر جاناں نے چونک کر اسے دیکھا جیسے اندھیرے کنویں میں روشنی کی کرن دیکھی ہو

کیا ؟؟؟؟ کیوں؟؟؟ جاناں کے پوچھنے پر نازلی نے اسے ساری بات بتائی جیسے سن کر جہاں اس کے دل کو سکون ملا وہی آج کا اپنا رویہ یاد کر کے پریشانی ہوئی

اچھا اب تم بتاؤ اتنے غصے میں کیوں تھی تم؟؟؟ نازلی کے پوچھنے پر اس نے اسے ساری بات بتائی جیسے سن کر نازلی کا دل کیا اپنی بہن کی عقل مندی پر ڈھول پیٹے

یار کیا ضرورت تھی اتنا اوور ری ایکٹ کرنے کی ؟؟؟ وہ بیچارے تمہارے لیے فکر مند تھے اور تم نے ان کے ساتھ فضول میں ایسا رویہ رکھا !!! جاناں نے افسوس سے اسے دیکھ کر کہا

یار پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے وہ میرے بارے میں ؟؟؟ تم پہلے نہیں بتا سکتی تھی مجھے ؟؟؟ جاناں نے کہا اسے واقع اب اپنے رویے پر افسوس ہو رہا تھا

کیسے بتاتی ؟؟؟ کل سے کمرہ بند کر کے بیٹھی ہو نہ باہر نکلی نہ مجھے اندر آنے دیا میں نے رات میں تمہیں کال بھی کی تھی پر تمہارا فون بزی جا رہا تھا!!!!

رکو ذرا رات میں تم کس سے بات کر رہی تھی ؟؟؟ نازلی بات کرتے کرتے ایک دم چونکی

کسی سے نہیں!!! جاناں نے نظریں چرا کر کہا جس پر نازلی صوفے سے اٹھ کر اس کے سامنے آ بیٹھی

بتاؤ نہ!!!

کہیں حائم بھائی نے تو نہیں کال کی تھی تمہیں ؟؟؟ نازلی کے پوچھنے پر وہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر ہولے سے ہاں میں سر ہلایا

واقعی ؟؟؟ کیا کہ رہے تھے ؟؟؟ نازلی نے جوش سے پوچھا

کچھ نہیں طبیعت پوچھنے کے لئے کال کی تھی!!! جاناں نے بتایا

ارے واہ کتنی فکر ہے انہیں تمہاری!!!!

اور تم ہو کہ ان سے لڑ آئی ہو آف دل کر رہا تمہارا سر پھاڑ دوں!!! نازلی نے پہلے شوخ اور پھر غصے میں کہا

یار اب میں کیا کروں ؟؟؟ جاناں نے پریشانی سے پوچھا

کرنا کیا آج مہندی کے فنکشن میں جا رہے ہیں نہ تو وہاں جا کر ان سے سوری کر لینا ویسے بھی حائم بھائی زیادہ دیر غصہ نہیں کرتے!!!! نازلی کے بولنے پر اس نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا کل سے اسے اب سکون کا سانس آیا تھا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

دوسری جانب حائم بیڈ پر لیٹے لیٹے جانے کب سو گیا اس کی آنکھ تب کھلی جب اپنے ماتھے پر کسی کا لمس محسوس ہوا جس پر وہ بند آنکھوں سے مسکرا دیا

زریش اس کے سرھانے بیٹھی فکر مندی سے اس کا سر دبا رہی تھی

زری میرا بچہ میں بلکل ٹھیک ہوں!!! حائم نے اس کے چہرے پر فکر دیکھ کر کہا

لالہ کیا ہوا ہے آپ کیوں اتنے پریشان ہیں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ آپ کی آپی کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں!!! حائم نے باظاہر نارمل لہجے میں کہا پر زریش نے اس کی آنکھوں میں تکلیف دیکھی تھی جس پر اس کا اپنا دل بھی دکھا تھا اپنے بھائیوں میں تو اس کی قل کائنات تھی 

لالہ سب ٹھیک ہو جائے گا!!! زریش کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اور کیا بولے جبکہ اس کی بات پر حائم نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما

جی میرا بچہ اب جائیں جا کر تیار ہوں پھر مہندی میں دھمال بھی ڈالنی ہے!!! حائم نے مسکرا کر کہا جس پر وہ مسکراتی اس کا گال چومتی چلی گئی پیچھے وہ گہری سانس بھر کر فریش ہونے چل دیا

ٹھیک دس منٹ بعد وہ شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا اس نے پیلے رنگ کی شلوار قمیض پر سبز رنگ کی واسکٹ پہن رکھی تھی جو کہ مہندی کا تھیم تھا آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھ کر وہ باہر چل دیا

چونکہ مہندی کا فنکشن لان میں رکھا تھا اس لیے وہ سیدھا لان میں آیا جہاں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے وہ وقفے وقفے سے ایک نظر داخلہ دروازے کو دیکھ رہا تھا اسے لاشعوری طور پر اس کا انتظار تھا

✨✨✨✨✨✨

جاناں چلیں آآآآآآآ نازلی جاناں کے کمرے میں داخل ہوتی بولتے بولتے اسے ریکھ کر رکی جو کہ جھک کر ہیل کا سٹرپ بند کر رہی تھی نازلی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو کہ پہلے رنگ کی فراک پہنے سبز رنگ کا دوپٹہ کندھے پر ڈالے بالوں میں جھومر لگائے کانوں میں سبز موتیوں والے ٹاپس پہنے مناسب سے میک اپ ضرورت سے زیادہ حسین لگ رہی تھی

ہاں چلو!!! جاناں نے سیدھے ہو کر کہا جبکہ نازلی اب بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی

آف جاناں کتنی پیاری لگ رہی ہو!!!! 

حائم بھائی تو گئے آج!!!! نازلی کے بولنے پر اس نے اسے گھورا 

اب چلیں ؟؟؟ اس کے بولنے پر وہ باہر چل دی جاناں نے ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا وہ آج پورے دل سے تیار ہوئی تھی  ایک مسکراتی نظر اس نے خود پر ڈالی اور باہر چل دی 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

لالہ میں کیسی لگ رہی ہوں ؟؟؟ زریش نے حائم کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا وہ اس وقت سبز اور پیلے لہنگے میں ملبوس تھی ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنے مناسب سے میک اپ کے ساتھ وہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی

ماشاءاللہ بہت ہی پیاری!!! میری فیری تو ہے ہی لاکھوں میں ایک!!! حائم نے مسکرا کر کہا

لالہ آپ کے شہزادے بھی کھڑے ہیں!!! شہیر نے اس کی توجہ اپنی جانب کروائی وہ سب اس وقت سیم ڈریسنگ کیے ہوئے تھے 

ماشاءاللہ میرے شہزادے بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں!!! حائم نے شہیر اور بازل کو ساتھ لگا کر باری باری ان کے ماتھے چومے

آہممم کوئی مجھے بھول رہا ہے !!!! شازل نے ان کے پاس آ کر کہا جس پر حائم نے مسکراتے ہوئے اس کا بھی ماتھا چوما فاطمہ بیگم ان کی محبت پر دور کھڑی مسکرا دیں انہیں واقع اپنی تربیت پر فخر تھا

وہ پانچوں آپس میں کھڑے ہنس رہے تھے جب اچانک حائم کی نظر داخلی دروازے پر پڑی تو وہ سانس لینا بھول گیا یہ شاید پہلی بار تھا کہ وہ اس طرح تھما تھا

زریش نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو جاناں وہاں مسکرا کر فاطمہ بیگم سے مل رہی تھی پھر اس نے اپنے بھائی کی طرف دیکھا جو کہ ہر چیز سے بے گانہ اسے دیکھ رہا تھا

خود پر کسی کی نظریں محسوس کر کے جاناں نے آس پاس دیکھا تو اسے دیکھ کر ٹھٹکی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے دیکھنے پر اس نے نظریں پھیر لیں اس کا نظریں چرانا جاناں کو برا لگا تھا وہ اسے اس کی ناراضگی سمجھ رہی تھی جبکہ وہ تو بھول بھی چکا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناراضگی تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ہیلو مسٹر ہینڈسم کیسے ہیں آپ؟؟؟؟ شہیر فون پر بات کر رہا تھا جب اسے پاس کسی لڑکی کی آواز سنائی دی اس نے مڑ کر دیکھا تو نازلی مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہی تھی

میں ٹھیک ہوں!!! آپ سنائیں!!! شہیر نے نارمل لہجے میں کہا اسے نازلی کی نظروں سے عجیب سی الجھن ہو رہی تھی جو کہ ٹکٹی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی

میں کیا سناؤ ؟؟؟ کیا سنیں گے آپ ؟؟؟ نعت, گانا یا قوالی ؟؟؟ نازلی کے بولنے پر اسے اس کی دماغی حالت پر شک ہوا جس پر وہ ایکسکیوز کرتا چلا گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اسلام و علیکم!!! حائم نے جاناں کو اکیلے کھڑا دیکھا تو چلا آیا

وعلیکم السلام!!! جاناں نے سلام کا جواب دے کر نظریں پھیر لیں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے بات شروع کرے جبکہ حائم دلچسپ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی

ایسی بھی کیا ناراضگی کہ بندہ سلام دعا سے بھی جائے کیا میری بات اتنی بری لگی آپ کو ؟؟؟ حائم نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا اندر کہیں اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ پھر غصہ نہ کرنے لگ جائے

نہیں ایسی بات نہیں ہے!!! میں بس شرمندہ ہوں مجھے ایسے ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا میں اس کے لیے معافی چاہتی ہوں اور مجھے آپ کا شکریہ بھی ادا کرنا تھا میری وجہ سے آپ کو ضہمت ہوئی!!! جاناں نے جواباً کہا اسے یہ سوچ کر ہی سکون ملا تھا کہ وہ اس سے ناراض نہیں ہے جبکہ دوسری جانب حائم کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آئی تھی اس کی بات پر

اس کی ضرورت نہیں میرا فرض تھا اور مجھے پتہ ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ایسے میں میرا غصہ کرنا ٹھیک نہیں تھا میں معزرت خواہ ہوں!!!! حائم کے بولنے پر جاناں نے اس کی جانب دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا نظریں ملنے سے دونوں کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے پر وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے حال سے بے خبر تھے

نہیں آپ پلیز معافی نہ مانگیں میری ہی غلطی تھی!!! جاناں نے کہا

ویسے ہمارا لنچ ادھورا رہ گیا!!! حائم کی بات پر وہ مسکرا دی اس نے غور سے اس کی مسکراہٹ دیکھی وہ واقع ہی اپنے حسن سے سامنے والے کو گھائل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی

کبھی فرصت ملی تو ضرور آپ کا یہ گلہ دور کریں گے!!! جاناں نے کہا

تو پھر مجھے انتظار رہے گا!!! حائم نے مسکرا کر کہا

ویسے ایک بات کہوں گھر جا کر صدقہ ضرور کیجئے گا بہت پیاری لگ رہی ہیں کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے!!! حائم نے اسے نظروں کے حصار میں رکھ کر کہا جبکہ اس کی بات پر جاناں نے نظریں جھکا دیں گالوں میں پل بھر میں سرخی اتری جو کہ حائم کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکی اس کا اس سے یوں شرمانا اسے ایسے کام کی ہمت دلا رہا تھا جو کہ اس کی نظر میں ناممکن تھا

ماما دیکھیں آپی اور لالہ کتنے پیارے لگ رہےہیں!!!! زریش نے فاطمہ بیگم کی توجہ ان دونوں پر کروائی جو کہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے شرما رہے تھے

ہممممم ماشاءاللہ بہت پیارے لگ رہے ہیں پر زری جو یہ چاہتے ہیں وہ ہو نہیں سکتا!!!! فاطمہ بیگم کے بولنے پر اس نے چونک کر اسے دیکھا

ماما آپ کو کیسے پتا ؟؟؟ زریش نے پوچھا 

زری وہ میرا بیٹا ہے مجھے تب اس کی بات سمجھ آ جاتی تھی جب وہ بولنے کے قابل بھی نہیں تھا تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟؟؟ فاطمہ بیگم کے بولنے پر وہ لا جواب ہوئی یقیناً وہ ماں تھیں کیسے نہ پہچانتی

مجھے پتہ ہے جاناں حائم کو پسند کرتی ہے میں نے اس کی باتیں سن لیں تھیں وہ میری بھتیجی ہے اور میں جانتی ہوں حائم کو اس سے بہتر لڑکی نہیں مل سکتی پر ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے میں اداس ہوں میں نہیں چاہتی کہ بچوں کا دل ٹوٹے!!! فاطمہ بیگم اداسی سے بولیں جیسے سن کر زریش بھی اداس ہو گئی اس نے ایک نظر انہیں دیکھا جو ساتھ کھڑے بلکل مکمل لگ رہے تھے اس نے ایک اداس نظر ان پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

لالہ ایک سونگ ہو جائے!!!! زریش نے مسکرا کر حائم سے کہا

زری مہندی میں لڑکیاں گیت گاتی ہیں لڑکے نہیں!!! بازل نے جیسے اس کی عقل پر ماتم کیا

شازی لالہ پلیز نہ ایک سونگ!!! آپ سب مل کر گائیں!!! زریش نے اس کی بات نظر انداز کر کے شازل سے کہا جس پر اس نے پاس کھڑے ملازم کو بھیج کر اپنا اور ان تینوں کے گٹار منگوائے وہ چاروں پچپن سے ہی میوزک کے شوقین تھے

ان چاروں نے لان کے سنٹر میں کرسیاں رکھ کر جگہ سنبھالی ان کی تیاری دیکھ کر سب ہی ان کی طرف متوجہ ہوئے نازلی جلدی سے اپنا موبائل نکال کر وڈیو بنانے لگی

نہ پردہ کر اب تو آجا میرے سامنے

تیرا ہوں میں میری ہر سانسیں تیرا نام لیں

بہکی بہکی نگاہیں ڈھونڈیں تیرے راستے

آتی ہے تو لے جاتی ہیں میری ہر شکائتیں

وہ چاروں باری باری آیک ایک لائن گا رہے تھے جبکہ سب دم سادھے انہیں سن رہے تھے شازل اور بازل کی نظریں مسلسل رمل اور نورالعین پر ٹکیں تھی جو مسکرا کر انہیں سن رہیں تھیں جبکہ شہیر نازلی کی نظروں سے پریشان ہو رہا تھا اور حائم کا دھیان صرف جاناں میں اٹکا ہوا تھا

لہروں سی بہتی ہے وہ 

چلتی شان سے ہے ہٹکے

قاتل ہے تیرا یہ رخ

قاتل ہے ہر ادا

دیوانے ہم نہیں ہوتے

دیوانی رات آتی ہے

محبت کی نہیں جاتی

محبت آزماتی ہے

کسی کی آنکھوں سے

کسی کی باتوں سے

کسی کی چاہت سے

کسی کی عادت سے

ان چاروں نے ان چاروں لڑکیوں کو دیکھ کر باری باری کہا جس پر ان سب کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی 

ہائے رے دل کو ستاتی ہے

بہت زیادہ ترپاتی ہے

میرے دل کو ستاتی ہے

بہت زیادہ ترپاتی ہے

لہروں سی بہتی ہے

چلتی شان سے ہے ہٹکے

قاتل ہے تیرا یہ رخ

قاتل ہے ہر ادا

دیوانے ہم نہیں ہوتے

دیوانی رات آتی ہے

محبت کی نہیں جاتی

محبت آزماتی ہے

ان چاروں نے جیسے ہی گانا بند کیا پورا لان تالیوں سے گونج اٹھا جس پر وہ چاروں مسکراتے ہوئے اٹھ گئے 

کیسا لگا میڈم ؟؟؟ بازل نے رمل کے پاس جھک کر کہا

بہت اچھا آپ کے بھائی بہت اچھا گاتے ہیں!!! رمل نے اسے تنگ کرنے کی غرض سے کہا

بھائیوں کے ساتھ میں بھی تھا مسز کیا نظر نہیں آیا تمہیں ؟؟؟ بازل نے تپ کر کہا

اچھا آپ بھی تھے سوری میں نے دیکھا نہیں!!! رمل نے معصومیت سے کہا جس پر بازل نفی میں سر ہلاتا چلا گیا پیچھے اس کے جاتے ہی رمل کی ہنسی نکل گئی

آپ کی آواز بہت پیاری ہے!!! جاناں نے پاس سے گزرتے حائم کو دیکھ کر کہا جس پر اس نے مسکرا کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا

ہممم پر آپ سے زیادہ پیاری نہیں ہے!!! حائم اتنا بول کر چلا گیا جبکہ پیچھے وہ اس کے الفاظ میں کھو سی گئی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آج برات کا دن تھا پلوشہ کو فردوس بیگم نے صبح ہی عائشہ اور نمل کے ساتھ پالر بھجوا دیا تھا آج کا فنکشن میرج ہال میں تھا تقریباً سب ہی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے

ہاں بھئی زری بولو آج تمہارے دادو واقع ہینڈسم لگ رہے ہیں کہ نہیں ؟؟؟ آغا جان نے ہال میں آتے ہوئے زریش سے پوچھا وہ اس وقت سفید شلوار قمیض پر کالے رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے تھے

اوئے ہوئے دادو ہینڈسم آج تو شادی میں موجود سب آنٹیوں نے آپ کو ہی دیکھنا ہے واللہ کیا غذب لگ رہے ہیں!!! زریش نے سیٹی کی دھن نکالتے ہوئے آغا جان سے کہا جس پر بی جان نے گھور کر ایسے دیکھا

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں!!! بی جان نے منہ بنا کر کہا

ارے آپ تو بس جلتی ہیں ہمارے حسن سے کیوں زری !!! آغا جان نے زریش کو دیکھ کر کہا جس پر اس نے فوراً تابعداری سے سر ہلایا بی جان منہ بنا کر باہر چلیں گئیں ان کے پیچھے پیچھے آغا جان اور باقی سب بھی آہستہ آہستہ چلے گئے اب حال میں صرف فاطمہ بیگم ، سلطان صاحب اور زریش تھے دفعتاً انہوں نے اوپر دیکھا جہاں سے ان کے چاروں شہزادے اترتے آ رہے تھے بلیک تھری پیس سوٹ پہنے وہ مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت لگ رہے تھے

ارے بھئی شادی فراز کی ہے تم سارے کیوں دلہے بن کر چلے آ رہے ہو؟؟؟ سلطان صاحب نے مسکرا کر پوچھا

اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے بابا کیا نکاح پکا کروانے کا رہے ہیں ؟؟؟ شازل نے سلطان صاحب کی طرف جھک کر رازداری سے پوچھا جس پر فاطمہ بیگم نے اسے گھورا وہ بھی اس وقت بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے جبکہ فاطمہ بیگم نے بلیک کلر کی بنارسی ساڑھی پہن رکھی تھی جبکہ زریش نے بلیک کلر کی میکسی پہن رکھی تھی جس کے ساتھ نفاست سے کیا میک اپ اور نفیس سلور جیولری اسے مزید حسین بنا رہے تھے 

چلو بھئی اب کیا ادھر ہی کھڑے رہو گے ؟؟ فاطمہ بیگم کے بولنے پر وہ سب ہی باہر چل دیے

کیا ہوا بھابھی آپ لوگ یہاں کیوں کھڑے ہیں ؟؟؟ فاطمہ بیگم نے پریشان کھڑی مسرت بیگم سے پوچھا

بس فاطمہ ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے اور حسن صاحب بھی فون نہیں اٹھا رہے!!! مسرت بیگم نے پریشانی سے بتایا

تو ممانی جان آپ ہمارے ساتھ چلیں نا !!! شازل نے کہا

اچھا رکو ذرا میں بچیوں کو بلا لوں!!! مسرت بیگم نے اتنا بول کر ان دونوں کو آوازیں دینے لگیں جبکہ حائم کی نگاہیں تو دروازے پر ہی ٹک گئیں تھوڑی دیر بعد وہ دونوں باہر آئیں سفید میکسی پہنے جاناں حائم کو اس وقت واقع کوئی حور ہی لگی جبکہ شہیر نے بھی ایک نظر نازلی کو دیکھا جو کہ پستہ کلر کی میکسی میں کسی بھی طرح جاناں سے کم نہیں لگ رہی تھی

چلیں!!! شہیر کے کہنے پر مسرت بیگم فاطمہ بیگم کے ساتھ چلیں گئیں جبکہ دوسری گاڑی میں جاناں زریش اور نازلی پیچھے بیٹھیں تھیں جبکہ حائم ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ شہیر بیٹھا تھا

وقتاً فوقتاً وہ دونوں بھائی مرر سے ان دونوں بہنوں کو دیکھ رہے تھے جبکہ یہی حال ان دونوں کا بھی تھا

لالہ گاڑی روکیں!!!! زریش کے ایک دم بولنے پر حائم نے فوراً بریک لگائی جس پر شہیر کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا

کیا ہوا زری!!! حائم نے فکرمندی سے پوچھا

لالہ وہ مجھے گجرے لینے ہیں !!! زریش نے باہر پھولوں کی دوکان کو دیکھ کر کہا جبکہ اس کی بات پر حائم فوراً گاڑی سے باہر نکل گیا

آف زری ابھی میرا سر پھٹ جاتا!!! شہیر نے کہا

پھٹا تو نہیں نا؟؟؟ زریش نے پوچھا

نہیں!!!! شہیر نے جواب دیا

تو پھر خیر ہے!!! زریش نے کہا جبکہ شازل اس کی بے نیازی پر عش عش کر اٹھا

لو زری!!! حائم نے گجروں کا شاپر زریش کی طرف بڑھیا جس میں چار سرخ گلابوں کے گجرے تھے اور دو سفید گلابوں کے گجرے تھے

لالہ مجھے تو سرخ گلاب پسند ہے یہ سفید والے کس کے ہیں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

یہ تمہاری جاناں آپی کے لیے ہیں ان کے ڈریس کے ساتھ یہ زیادہ اچھے لگیں گے!!! حائم نے مرر سے اسے دیکھ کر کہا جس نے اس کے سب کے سامنے یوں بولنے پر نظریں جھکا لیں

اچھا!!!! لیں آپی!!! زریش نے گجرے اس کی طرف بڑھائے جسے اس نے ہچکچاتے ہوئے تھاما

وہ لوگ میرج ہال پہنچے تو سلطان صاحب پہلے ہی وہاں کھڑے تھے جاناں اور نازلی مسرت بیگم کے ساتھ اندر بڑھ گئیں جبکہ پیچھے وہ سب بھی اندر چل دیے

جب انہوں نے ہال میں قدم رکھا تو بہت سی نظریں رشک اور ستائش لیے ان کی جانب اٹھیں جو آج ایک ساتھ کھڑے بہت معتبر لگ رہے تھے بے شک اللہ انسان کو وہاں سے نوازتا ہے جہاں اس کی سوچ بھی نہیں جا سکتی آج جو نگاہوں میں رشک لیے انہیں دیکھ رہے تھے کل انہیں لوگوں کی نظروں میں طنز ، حقارت اور نا جانے کیا کیا نہیں دیکھا تھا انہوں نے

پر بے شک عزت اور ذلت رب کے ہاتھ میں ہے اگر وہ کسی کو نوازنا چاہیے تو کون ہے جو اسے روک سکے

تھوڑی دیر بعد فراز پلوشہ کا ہاتھ پکڑے سٹیج کی طرف آیا وہ آج گرے پینٹ کوٹ میں تھا جبکہ پلوشہ نے سرخ رنگ کا کامدار لہنگا پہن رکھا تھا سب نے داد دیتی نظروں سے ان کی طرف دیکھا تھا ان کی جوڑی واقع بہت پیاری تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

تھوڑی دیر بعد رسموں کا سلسلہ شروع ہوا

لیں فراز لالہ نکالیں دو لاکھ!!!! زریش ہاتھ میں ٹرے پکڑے سٹیج پر آئی 

یہ کیا ہے؟؟؟ فراز نے سامنے پڑی ٹرے کو دیکھ کر کہا جس میں ایک دودھ کا گلاس اور ایک فیڈر تھا

یہ دودھ ہے گلاس والا پلوشہ آپی کا اور یہ فیڈر والا آپ کا !!! زریش نے کہا باقی سب مزے سے اس کی کاروائی دیکھ رہے تھے

زری تم پاگل واگل تو نہیں ہو گئی ہو کیا میں اب فیڈر میں دودھ پئیوں گا؟؟؟ فراز بولا

پی لیں اور فیڈر جلدی خالی کرنا ہے کیونکہ جن سے ادھار لیا ہے ان کو واپس بھی کرنا ہے!!! زریش بولی

ہٹاؤ اسے میں اس گلاس سے ہی پی لوں گا!!! فراز نے کہہ کر گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اس سے پہلے ساریہ نے پکڑ لیا

لالہ اگر فیڈر میں پئیں گے تو دو لاکھ لگیں گے اور اگر گلاس میں پئیں گے تو جتنی لڑکیاں ہیں اتنے لاکھ لگیں گے!!!! نمل بولی

یہ کیا مذاق ہے جاؤ دونوں لے جاؤ میں نہیں پی رہا!!! فراز بولا

لالہ پھر دونوں نہیں ہم تو تینوں لے کر جائیں!!!! حورعین بولی

کیا مطلب آآآآا

اس سے پہلے کہ فراز بات پوری کرتا زریش نے پلوشہ کا ہاتھ پکڑا اور یہ جا وہ جا

اوئے زری رکو میری بیوی واپس کرو!!! فراز نے پکارا باقی لڑکیاں اس کی راہ میں روکاوٹ بنی کھڑی تھیں

لالہ بھول جائیں اب نہیں ملتی واپس!!! قراۃالعین بولی

یار واپس کر دو پھر جو بولو گی کروں گا!!! فراز بے بسی سے بولا

اچھا ایک شرط پر!!!! نورالعین بولی

مجھے منظور ہے!!!! فراز بولا

ارے جیجا جی پہلے سن تو لیں!!! عائشہ نے کہا

بولو!!! 

فی لڑکی دو لاکھ روپے دودھ پلائی اور یہاں ہال کے بیچوں بیچ کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک!!!! رمل بولی

کیا!!!!!! پاگل ہو گئی سب کی سب یار میں دولہا ہوں کچھ تو لحاظ کرو!!! فراز شاک سے بولا

بھئی منظور ہے تو بولیں ورنہ ہم نے کوئی نہیں کرنی واپس آپ کی بیوی!!! ساریہ ہاتھ جھاڑ کر بولی جس پر تھوڑی دیر بحث کے بعد فراز مان ہی گیا

پھر کیا تھا ساری لڑکیاں مزے سے سٹیج پر بیٹھیں سامنے کان پکڑے اٹھک بیٹھک کرتے فراز کو دیکھ رہیں تھیں جبکہ باقی ہال والے اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے

زری بس نا کریں!!! پلوشہ نے کہا

خبردار جو آپ نے بہنوں کی جگہ سائیاں جی کا ساتھ دیا ورنہ ان ہال میں سے ہی کوئی لڑکی پکڑ کر ابھی ان کی دوسری شادی کروا دینی ہے نمل کی دھمکی پر وہ خاموش ہو گئی

پھر کافی دیر بعد فراز کی جان خلاصی ہوئی جس پر سب نے ہی شکر کا سانس لیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آپ نے گجرے نہیں پہنے کیا پسند نہیں آئے؟؟؟؟ حائم نے جاناں سے کہا جو کہ گیٹ کے پاس کھڑی زاویار کو فون کر رہی تھی 

نہیں!!!! وہ میں بھول گئی!!! ابھی پہن لیتی ہوں!!! جاناں اتنا بول کر گجرے پہننے لگی پر خود پر اس کی نظریں محسوس کر کے اس سے گجرا پہنا نہیں جا رہا تھا حائم نے مسکراتے ہوئے اسے گجرے کے ساتھ الجھتے ہوئے دیکھا پھر اس نے اس کا وہی ہاتھ تھام کر اس میں گجرا پہنایا پھر اس کا دوسرا ہاتھ تھاما اور پہلا ہاتھ اس کے سامنے پھیلایا جاناں نے بے یقین نظروں سے اسے دیکھا پھر دوسرا گجرا اس کے ہاتھ پر رکھ دیا 

اس نے اس دوسرے ہاتھ میں گجرا پہنایا اور ہولے سے اس کے دونوں ہاتھ تھامے

ہممممم واقع اچھے لگ رہے ہیں!!!! حائم نے مسکرا کر کہا اور اس کے ہاتھ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا اس کے جاتے ہی جاناں نے بے یقینی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے اس کے ہاتھوں میں تھے پھر دفعتاً اس کے ہونٹوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ آ گئی اس نے چہرے کے پاس لے جا کر انہیں سونگا آج سے پہلے اسے کبھی گلاب کی خوشبو اتنی پیاری نہیں لگی وہ اس بات سے انجان تھی کہ دور کھڑا شخص غور سے اس کی ہر ادا دیکھ رہا ہے 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آج شادی کو پورے دس دن گزر چکے تھے اور کل سے زریش کے پیپرز شروع ہو رہے تھے وہ پڑھائی میں لائیک تھی پر اسے پڑھائی سے بھاگنا زیادہ پسند تھا اب بھی وہ صبح سے کبھی خان ولا میں بھاگ رہی تھی تو کبھی شاہ حویلی میں وجہ کوئی اور نہیں اس کے چار بھائی تھے جن کی نرمی اس کے امتحانات کے دوران پتہ نہیں کس کونے میں چھپ جاتی تھی اب بھی وہ چاروں کام سے اوف کر کے اس پر پہرہ دے رہے تھے 

بس کر جاؤ زری یہ صبح سے تمہارا آٹھواں چکر ہے اگر چھپنا ہے تو ایک ہی دفعہ کسی ڈھنگ کی جگہ چھپ جاؤ !!!! نازلی نے اسے پھر سے آتا دیکھ کر کہا

آف اللّٰہ آپی آپ ہی بتائیں کہاں چھپوں ہر جگہ سے تو لالہ نکال لیتے ہیں اب تو آپ کے گھر میں کوئی جگہ بھی نہیں بچی اور شہری اور حائم لالہ کسی بھی وقت آتے ہوں گے!!! زریش نے پریشانی سے کہا

اچھا تم نہ ایک کام کرو جاناں کے کمرے میں چھپ جاؤ وہاں سے نہیں ڈھونڈ سکتے تمہارے لالہ!!!!! نازلی نے سوچ کر بتایا جس پر زریش بھاگ کر اوپر جاناں کے کمرے میں پہنچی

زری تم ادھر ؟؟؟ سب خیریت ہے ؟؟؟ جاناں نے اسے جلدی سے دروازا لوک کرتے ہوئے دیکھ کر کہا

آپی آج بچا لیں ورنہ میں بتا رہیں ہوں میں نے آپ کی اس حویلی کی دسویں منزل سے کود جانا ہے!!! زریش نے کہا

پر زری ہماری اس حویلی میں تو دسویں منزل ہے ہی نہیں!!! جاناں نے بتایا

آف اللّٰہ ایک تو بندہ خود کشی بھی نہیں کر سکتا!!!! زریش بولی

تو کودنا کوئی لاسٹ آپشن تھوڑی ہے تم ایک کام کرو پنکھے سے لٹک جاؤ یا نیند کی گولیاں کھا لو یا پھر آآآآآ

استغفرُللہ آپی کچھ شرم کریں آپ کیوں پیور  بھابھیوں والا سلوک کر رہیں ہیں میرے ساتھ!!! زریش بولی

کیا مطلب ؟؟؟؟ جاناں نے ناسمجھی سے پوچھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی دروازا نوک ہوا

آپی بچا لیں پلیز!!! زریش اتنا بول کر دروازے کے ایک طرف ہو گئی جاناں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دروازا کھولا اس طرح کے اب زریش دروازے کے پیچھے تھی 

آپی زری ادھر ہے ؟؟؟ شہیر نے پوچھا جس پر جاناں نے ایک نظر زریش کو دیکھا جس نے فوراً نفی میں سر ہلایا

نہیں ادھر تو نہیں ہے کیوں کیا ہوا ؟؟؟ جاناں نے گہری سانس لے کر کہا

کیا ہوا شہری ملی نہیں ؟؟؟؟ حائم نے آتے ہوئے پوچھا جس پر شہیر نے نفی میں سر ہلایا 

اچھا تم اوپر چھت پر دیکھو میں ادھر دیکھتا ہوں!!! حائم کے بولنے پر شہیر سر ہلاتا اوپر چل دیا

آپ نے تو نہیں دیکھا اسے؟؟؟ حائم نے جاناں سے پوچھا جو کبھی اسے دیکھ رہی تھی تو کبھی زریش کو جو مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی

آآآآنہیں میں نے نہیں دیکھا!!! جاناں اس کی معصوم شکل دیکھ کر بولی جب کی اس بات پر حائم نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا

واقعی ؟؟؟؟ حائم نے پوچھا

تو پھر نازلی کیوں کہہ رہی تھی کہ وہ آپ کے کمرے میں ہے ؟؟؟ حائم نے آئبرو آچکا کر پوچھا جبکہ اس کی بات پر جہاں جاناں گھبرائی وہیں ذریش کا بی پی شوٹ کر گیا

وہ آآآآآآآ

یہ نازی آپی کو تو میں چھوڑنے والی نہیں ان کی ہمت کیسے ہوئی مجھ سے غداری کرنے کی ؟؟؟؟ جاناں کچھ کہنے والی تھی جب زری ایک دم سے باہر نکل کر بول اٹھی

مجھے پتہ تھا تم ادھر ہی ہو تمہاری نازی آپی کے بتانے کی ضرورت نہیں تھی اس گھر میں صرف ایک یہی کمرہ رہ گیا تھا جہاں تم چھپ سکتی تھی اور دوسری بات تمہاری اس آپی کو جھوٹ بولنا بلکل نہیں آتا ان کی شکل دیکھ کر ہی مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ ہماری آفت انہیں کے پاس ہے!!!! حائم نے پہلے اسے اور پھر جاناں کو دیکھ کر کہا

آف آپی آپ سے دو منٹ ٹھیک سے جھوٹ بھی نہیں بولا جاتا!!!! زریش نے شکوہ کرتی نظروں سے اسے دیکھ کر کہا

اب باتیں نہ بناؤ نیچے چل کر پڑھو میں نے تمہاری بکس ادھر ہی منگوا لیں ہیں خان ولا میں تم آسانی سے بھاگ جاتی ہو اس لیے اب تمہارے پیپرز کی تیاری ہم یہیں کریں گے!!!! حائم کے بولنے پر وہ منہ بنا کر نیچے چلی گئی

سوری میں نے زری کے کہنے پر جھوٹ بولا!!! جاناں نے وضاحت دی

کوئی بات نہیں آپ سے کونسا بولا گیا!!! حائم کے بولنے پر اس کا منہ بنا جس پر وہ مسکراہٹ ضبط کرتا نیچے چلا گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آہمممم کیا ہو رہا ہے ؟؟؟؟ شازل نے نورالعین کو کچن میں اکیلے پا کر پوچھا

کچھ نہیں چائے بنا رہی تھی آپ پیئیں گے؟؟؟ نورالعین نے پوچھا

نہیں چائے کا موڈ نہیں چلو کہیں باہر چلتے ہیں!!! شازل بولا

باہر کدھر ؟؟؟ 

ارے یار شاپنگ پر چلتے ہیں اس کے بعد ساتھ ڈنر کریں گے!!!!!

نہیں میرا موڈ نہیں!!! نورالعین نے انکار کیا

میں نے تمہارا موڈ نہیں پوچھا باہر ویٹ کر رہا ہوں جلدی آؤ!!!  شازل اتنا بول کر چل دیا

آف پورے تھانے دار ہیں ایسا لگ رہا ہے شاپنگ پر نہیں بلکہ اغوا کر کے لے جا رہے ہیں اب یہ چائے کون پئیے گا؟؟؟؟ نورالعین بڑبڑاتے ہوئے باہر آئی جہاں وہ گاڑی کے پاس کھڑا تھا

کیا ہوا ؟؟؟ نورالعین نے پوچھا

کچھ نہیں ٹائر پنچر ہو گیا!!! شازل نے کہا

تو اب کیا؟؟؟؟ 

کچھ نہیں تم رکو میں حائم لالہ سے ان کی گاڑی کی چابی لے کر آتا ہوں!!! شازل اتنا بول کر شاہ حویلی کی طرف چل دیا

✨✨✨✨✨✨✨

آف اللّٰہ زری تمہیں کب یاد ہو گا یہ صبح تمہارا پیپر ہے اور تم ہو کہ!!!! حائم نے تاسف سے کہا

لالہ میری حالت پر ایک گانا فٹ ہو رہا ہے سناؤں ؟؟؟ زریش نے پوچھا

نہیں!!!!! حائم نے جواب دیا

اچھا تو پھر سنیں!!! زریش نے اس کی بات ان سنی کر کے گلہ کھنکارا

ایگزیم پاس آئے

کیوں پریشان ہو جائے

کیسے کیسے میڈم نے پیپر بنائے

اب تو میرا دل

راتوں میں روتا ہے

کیا کروں ہائے

یاد نہیں ہوتا ہے

زریش کا گانا سن کر حائم کو اپنے سر میں درد محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا 

رکو ذرا میری حالت پر بھی ایک گانا فٹ ہو رہا ہے!!! حائم بولا

تو پھر سنائیں میں ہما تن گوش ہوں زریش بولی

تمہارے ایگزیم پاس آئے

ہم پریشان ہو جائیں

کیسے کیسے تم نے

یہ سال بتائے

اب تو میرا دل

تمہیں دیکھ کر روتا ہے

کیا کرو ہائے

تمہیں یاد نہیں ہوتا ہے

حائم نے گانا ختم کیا اتنے میں شازل اندر داخل ہوا

لالہ وہ آآآآآ

روکیں روکیں یہاں سنگنگ کلاس چل رہی گا کر بتائیں اپنا مسئلہ!!! شازل کچھ کہنے والا تھا جب ایک دم زریش بولی جس پر شازل نے گلہ کھنکارا

بیوی کو منائے

باہر لے کر جائے

عین وقت پر

ٹائر پنچر ہو جائے

اب تو میرا دل

رخصتی کے لیے روتا ہے

کیا کروں ہائے

صبر نہیں ہوتا ہے

شازل نے گانا ختم کر کے ان دونوں کی طرف دیکھا جو کہ منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہے تھے

بھئی انسانوں کی طرح بتاؤ!!! حائم بولا 

لالہ زرا گاڑی کی چابی دینا میں اور نور ذرا باہر جا رہے ہیں شازل نے کہا

ارے واہ مجھے ان کے ساتھ چھوڑ کر خود آپ دونوں ڈیٹ پر جا رہیں ہیں!!! زریش نے شکوہ کیا

ڈیٹ پر گرل فرینڈ کے ساتھ جاتے ہیں بیوی کے ساتھ نہیں!!!! شازل نے لفظ بیوی پر زور دیا

بڑا تجربہ ہے آپ کو مجھے بھی لے جائیں نا ساتھ!!!! زریش نے کہا 

ہاں بھئی اسے بھی لے جاؤ ڈیٹ میں برکت ڈل جائے گی!!! حائم نے طنزیہ کہہ کر شازل کو چابی دی 

لالہ اللہ پوچھے آپ کو!!!! زریش نے منہ بنا کر کہا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

زریش کے پیپرز ختم ہو چکے تھے اور اب اس کے چاروں بھائی بھی اپنے پہلے والے موڈ میں آ چکے تھے جس پر اس نے سکون کا سانس لیا تھا

ماما کیا ہوا عائشہ کو؟؟ مراد نے اندر آتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا

پتہ نہیں بیٹا صبح سے اس کی طبیعت خراب تھی میں نے کہا بھی کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں پر اس نے منع کر دیا تو میں نے ڈاکٹر کو گھر ہی بلا لیا!!! نازیہ بیگم نے بتایا اتنے میں فردوس بیگم تقریباً بھاگتی ہوئیں آئیں

مبارک ہو مراد عائشہ ماں بننے والی ہے!!!! فردوس بیگم نے خوش ہوتے ہوئے بتایا

کیا!!!!! آپ سچ کہہ رہیں ہیں تائی امی؟؟؟؟ مراد نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثر سے کہا جس پر فردوس بیگم نے ہاں میں سر ہلایا

اگر وہ ماں بننے والی ہے تو آپ کیوں اتنا خوش ہو رہیں ہیں ؟؟؟ لاونج میں بیٹھی زریش نے پوچھا

آرے میں کیوں نہ خوش ہوں آخر میں باپ بننے والا ہوں!!!! مراد نے خوش ہوتے ہوئے بتایا

پر ابھی تو تائی امی کہہ رہیں تھیں کہ عائشہ آپی ماں بننے والی ہیں تو پھر آپ کدھر سے آ گئے!!!! زریش نے کہا

آف اللّٰہ زری میں نانی بننے والی ہوں!!! فردوس بیگم نے جوش سے بتایا

لو جی اب آپ بھی آ جائیں مجھے پہلے ہی کچھ سمجھ نہیں آ رہی!!! زریش نے کہا

زری بیٹا دیکھو میں تمہیں سمجھاتی ہوں عائشہ ماں بننے والی ہے اور مراد باپ بننے والا ہے اس لیے تمہاری تائی امی نانی بننے والی ہیں اور میں دادی بننے والی ہوں نازیہ بیگم نے اسے سمجھایا

آف اللّٰہ مجھ سے تین لوگ نہیں ایڈجسٹ ہو رہے آپ نے خود کو بھی ڈال لیا!!!! زریش نے جھنجھلا کر کہا

آف زری تم پھپھو بننے والی ہو!!!! مراد نے تپ کر کہا

اب میں کدھرآآآآآآآ

کیا!!!!!!!!!!!!!

زریش کچھ کہنے والی تھی جب ایک دم سے بات سمجھ کر چیخی جب کہ اس کی چیخ سن کر سب ہی بھاگ کر باہر آئے 

کیا ہوا زری؟؟؟؟ شازل نے اسے پکڑ کر پوچھا

لالہ آپ کو پتہ ہے میں پھپھو بننے والی ہوں!!!! زریش کے بولنے پر اس نے پہلے اسے دیکھا پھر نورالعین کو جس نے فوراً نفی میں سر ہلایا 

زری بچے ایسا کچھ نہیں ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے!!! شازل نے پیار سے کہا

کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی لالہ مجھے خود تائی امی نے بتایا ہے زریش نے کہا

ارے بھئی زری ٹھیک کہ رہی ہے مبارک ہو مراد باپ بننے والا ہے!!!! نازیہ بیگم نے کہا جس پر پورے خان ولا میں ہی ہلچل مچ گئی ہر طرف میٹھائیوں کے ڈھیر لگ گئے آخر یہ گھر کا پہلا بچہ تھا 

عائشہ پر تو زریش نے کرفیو لگا دیا تھا اسے بلکل وہ ہلنے جلنے نہیں دے رہی تھی جس پر وہ ابھی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی پر وہاں پرواہ کیسے تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

جاناں بیٹا ؟؟؟؟ مسرت بیگم نے اس کے کمرے میں جھانک کر کہا

جی ماما کوئی کام تھا ؟؟؟؟ جاناں نے پوچھا

بیٹا نیچے مہمان آئے ہیں تم اچھے سے تیار ہو کر نیچے آؤ!!! مسرت بیگم مسکرا کر کہہ کر چلی گئیں

مہمان آئے ہیں تو پھر میں کیوں تیار ہوں؟؟؟ اس نے حیرت سے سوچا پھر سر جھٹک کر واش روم کی طرف چل دی 

تھوڑی دیر بعد وہ لائٹ پنک کلر کا سوٹ پہنے شیشے کے سامنے کھڑی بالوں میں کنگھی کر رہی تھی تھوڑی دیر بعد وہ بالوں کو کھلا چھوڑے ہلکی سی پنک لپ اسٹک لگائے بیڈ پر پڑا دوپٹہ نفاست سے سر پر ٹکائے باہر چل دی

اسلام و علیکم!!!! اس نے لؤنگ روم میں بیٹھیں آیک ادھیڑ عمر خاتون اور دو اور خواتین کو سلام کیا

وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو؟؟؟ ادھیڑ عمر خاتون نے مسکرا کر پوچھا

جی ٹھیک!!! اس نے کہا 

ماشاءاللہ مسرت تمہاری بیٹی تو بہت پیاری ہے!!! مسرت بیگم کے ساتھ بیٹھیں خاتون نے کہا

ادھر آؤ بیٹا!!! ادھیڑ عمر خاتون نے مسکرا کر اسے پاس بلایا جس پر وہ کنفیوز ہوتے ہوئے ان کے پاس بیٹھی اتنے میں نازلی ملازمہ کے ساتھ چائے کا سامان لے کر اندر داخل ہوئی 

ماشاءاللہ بھئی ہمیں تو بچی پسند ہے اور شاہ ویز کو تو آپ لوگ دیکھ ہی چکے ہیں تو پھر اجازت ہے ؟؟؟ ان خاتون نے بیگ سے ایک ڈبی نکال کر بڑی بی سے پوچھا جبکہ ان کی بات پر جاناں کا رنگ فق سے آڑ گیا

جی ساری بات تو پہلے ہی طے ہے آپ بسم اللّٰہ کریں!!! بڑی بی کے کہنے پر ان خاتون نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی جس پر اس نے حیرت سے نازلی کو دیکھا جو کہ پریشانی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی

میں نے تو شاہ ویز کے دادا سے کہہ دیا ہے کہ شادی کی تاریخ بھی ساتھ ہی رکھیں ہمارے مرحوم بیٹے کی آخری نشانی ہے شاہ ویز اس لیے جو کچھ وہ مانگتا ہے ہم اسے دلا دیتے ہیں اب شادی پر اسے آپ کی بیٹی پسند آ گئی تب سے با ضد تھا کہ ہم جلدی سے رشتہ لے کر جائیں!!! ان خاتون نے مسکرا کر کہا جبکہ جاناں کو اب اپنی جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی

ایکسکیوز می!!! جاناں اتنا بول کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی اس کے پیچھے پیچھے نازلی بھی نکل گئی

لگتا ہے بچی شرما گئی!!! ایک خاتون جو شاید لڑکے کی چچی تھیں نے مسکرا کر کہا

جاناں تیزی سے باہر نکل رہی تھی جب سامنے سے آتے حائم سے ٹکرائی اس پہلے کہ وہ گرتی حائم نے اسے تھام لیا

جاناں کیا ہوا ؟؟؟ آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟ حائم نے اس کی سرخ ہوتی  آنکھوں کو دیکھ کر کہا جبکہ اس کے پوچھنے پر جاناں کے کب سے روکے آنسو روانی سے بہنے لگے 

کیا ہوا ؟؟؟ آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟؟ حائم نے اسے دیکھ کر پوچھا جس پر وہ بنا کوئی جواب دئیے آگے بڑھنے لگی جب اس نے بے اختیار اس کا ہاتھ تھاما

حائم میرا ہاتھ چھوڑیں!!! جاناں نے اپنا ہاتھ چھوڑ آتے ہوئے کہا

پہلے بتائیں آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟؟ حائم نے پوچھا اس کے آنسوں اسے تکلیف دے رہے تھے

حائم میں کہہ رہی ہوں میرا ہاتھ چھوڑیں!!! جاناں نے اس بار ذرا اونچی آواز میں کہا

نہیں پہلے مجھے بتائیں آپ ٹھیک تو ہیں؟؟؟ حائم باضد ہوا

کیوں بتاؤں میں آپ کو ؟؟؟ کیا لگتے ہیں آپ میرے؟؟؟ میں مروں یا جینیوں آپ کو کیا؟؟؟ آپ جائیں یہاں سے مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کی ہمدردی کی!!!! جاناں تقریباً چیخی اور غصے سے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھوڑ آیا جب کہ اس کی بات سے حائم کا دل دکھا تھا یہ پہلی بار تھا جب جاناں نے اس سے ایسے بات کی تھی

اس کی بات پر وہ خاموش رہا جیسے جاناں کی اس بات پر اس کے لفظ ہی ختم ہو گئے وہ ٹھیک تھی اس کا تعلق ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے کچھ بتاتی جاناں کی اس بات نے اسے بہت کچھ باور کروا دیا تھا جو کہ وہ فراموش کر چکا تھا وہ بس دکھ اور افسوس سے اسے دیکھ رہا تھا جس کے آنسوں اب بھی روانی سے بہہ رہے تھے

جاناں نے کچھ پل اسے دیکھا پھر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی حائم آنکھوں میں زخمی پن لیے اسے دیکھتا رہا چونکا تو تب جب نازلی نے اسے ہلایا

بھائی آپ ادھر؟؟؟ نازلی نے پوچھا وہ فاطم بیگم کے کہنے پر زریش کو ڈھونڈنے آیا تھا پر جاناں کی حالت نے اسے سب کچھ بھلا دیا تھا

جاناں کو کیا ہوا؟؟؟ حائم نے اس کا سوال نظر انداز کر کے پوچھا

کچھ نہیں بھائی وہ بس مہمان آئے تھے توآآآآآآ

کونسے مہمان ؟؟؟ حائم نے اس کی بات کاٹی

وہ جاناں کے رشتے کے لیے آئے تھے زاویار لالہ کے جاننے والے آآآآآ

نانا جان نے کیا کہا ؟؟؟ حائم نے بے چینی سے اس کی بات کاٹی اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا

بھائی وہ لوگ منگنی کی رسم کر گئے ہیں اور بابا لوگ شادی کی تاریخ طے کر رہے ہیں!!!!! نازلی کے بولنے پر اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا وہ جانتا تھا کہ جاناں اس کی نہیں ہو سکتی پر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی تکلیف ہو گی ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ وہ اپنے دادا کے اصولوں سے بغاوت کرے سب کو بتا دے کہ وہ جاناں کے لیے جذبات رکھتا ہے پر اگلے ہی لمحے اس کی ماں کی تربیت نے اسے روک لیا یقیناً ماں کی 28 سال کی محبت اس کی چند دن کی محبت سے زیادہ اثر رکھتی تھی

وہ جانتا تھا کہ کسی کو چاہنا غلط نہیں ہے پر اپنی چاہت میں دوسروں کو سزا دینا غلط ہے کیونکہ اسے نہیں لگتا تھا کہ جاناں کے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے اور اب اس کی باتوں نے اس شک کو یقین میں بدل دیا تھا 

وہ ایک زخمی نظر اس کے کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر باہر چل دیا ابھی وہ باہر نکلا ہی تھا کہ اسے لان میں کچھ لوگ کھڑے نظر آئے جن کہ ساتھ گھر کے باقی مرد بھی کھڑے تھے

آرے حائم تم کب آئے ادھر آؤ ان سے ملو یہ فاتح صاحب ہیں ہم نے ان کے پوتے شاہ ویز کے ساتھ جاناں کی بات پکی کر دی ہے!!!! حسن صاحب کے بولنے پر اس نے ایک سپاٹ نظر ان صاحب اور ان کے ساتھ کھڑے نوجوان پر ڈالی جو کہ حلیے سے کوئی جاگیر دار لگتا تھا

اسلام و علیکم!!! اس نے مشترکہ سلام کیا نظریں شاہ ویز پر ٹکیں تھی

فاتح اس ملو یہ میرا نواسہ ہے حائم!!!! اکبر شاہ نے مسکرا کر اس کا تعارف کروایا

ماشاءاللہ بہت خوبرو نوجوان ہے اللّٰہ عمر دراز کرے!!! ان صاحب نے مسکرا کر کہا جس پر وہ آمین کیتا چل دیا

خان ولا میں پہنچ کر اس کے قدم مزید بھاری ہو گئے وہ بامشکل خود پر ضبط کر رہا تھا اس کا دھیان صرف ایک چیز میں اٹکا ہوا تھا کہ وہ اس سے دور جا رہی تھی پر وہ بار بار سر جھٹک کر اپنے جذبات کو سلانا چاہ رہا تھا جو کہ نا ممکن تھا 

شکر ہے حائم لالہ آپ آ گئے اب اپنی ماں سے مجھے بچائیں جو کہ میرے خون کی پیاسی ہو رہیں ہیں زریش نے نے اس کے پیچھے چھپ کر کہا حائم نے نظر اٹھا کر فاطمہ بیگم کو دیکھا جو کہ پہلے زریش کو دیکھ رہیں تھیں پر حائم کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر انہیں کسی انہونی کا احساس ہوا

حائم تم ٹھیک ہو؟؟؟ فاطمہ بیگم نے پوچھا جس پر وہ بنا کوئی جواب دیے اوپر چل دیا

زریش اور فاطمہ بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا ابھی وہ اس کے پیچھے جاتیں کہ باہر سے مسرت بیگم ہاتھ میں میٹھائی کا ڈبہ لیے آ رہیں تھیں جنہیں دیکھ کر انہیں ایک لمحہ لگا تھا بات سمجھنے میں فاطمہ بیگم نے مڑ کر اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر ان کا اپنا دل زخمی ہو چکا پر وہ سب کچھ جان کر بھی بے بس تھیں وہ دل میں ان دونوں کے لیے دعاگو تھیں اس کے علاؤہ ان کے بس میں کچھ نہیں تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کمرے میں پہنچ کر جاناں نے اپنی انگلی سے نوچ کر انگوٹھی اتاری اور زور سے اچھال دی زندگی میں پہلی بار اس نے دل سے کسی کو چاہا تھا پہلی بار کسی کی خواہش کی تھی اور وہ شخص اس کے لیے لا حاصل ہو چکا تھا وہ اندر ہی اندر جانتی تھی کہ اس کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی پر اس کے رویے نے اس کے اس خدشے کو سلا دیا تھا وہ دل و جان سے اس کی تمنا کر چکی تھی جو کہ اس کے حال سے بھی ناواقف تھا اس کا دل اتنے زور سے ٹوٹا تھا کہ اسے اس کی آواز کانوں میں سنائی دی تھی انسان کے دل پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا ہے یہ اپنی مرضی سے دھڑکتا ہے اور اپنی مرضی سے روکتا ہے انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کب کوئی شخص اس کی دھڑکنیں بن جاتا ہے پتہ تو تب چلتا ہے جب وہ دور چلا جاتا یہی اس کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا پر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اس کے دل میں موجود جذبات بلکل پاک تھے محبت وہ جذبہ ہے جس کے لیے خدا نے بھی خواہش کی ہے کہ یہ اس سے کی جائے تو وہ کسے اپنی محبت ایک گالی کی طرح لوگوں کی زبانوں پر آتا دیکھ سکتی تھی اس کا ضمیر اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ وہ اپنے جذبات کو لوگوں کے تبصروں کے لیے پیش کر دیتی وہ جانتی تھی کہ اگر وہ بتا دے تو اس کے گھر والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا پر اسے اس سے امید نہیں تھی جس کے لیے اس کا دل رو رہا تھا 

ابھی وہ انہیں سوچوں میں تھی جب ملازمہ نے اسے زاویار کا بلاوا دیا وہ منہ دھو کر باہر نکلی

لالہ آپ نے بلایا؟؟؟ اس نے لؤنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا جہاں زاویار صوفے پر بیٹھا اسی کا انتظار کر رہا تھا

ادھر آؤ!!! اس کے بولنے پر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے ساتھ آ بیٹھی زاویار غور سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا 

جی لالہ؟؟؟ اس نے پوچھا

تم خوش ہو؟؟؟ زاویار نے اسے دیکھ کر پوچھا

جی؟؟؟ اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جیسے بات سمجھ نہ آئی ہو

دیکھو جاناں تم مجھے لالہ کہتی ہو اور میں اس لفظ کو صرف زبانی کلامی نہیں لیتا میں واقع ہی تمہارا لالہ ہوں اور ایک بھائی ہونے کہ ناتے میرا فرض ہے کہ اپنی بہن کی زندگی کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی رضا مندی جانوں میں نے شاہ ویز کو زبان دی ہے پر مجھے تمہاری خوشی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں اگر تم اس رشتے سے راضی ہو تو ہی میں تمہاری شادی وہاں کروں گا ورنہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے  تمہاری منگنی ہوگئی ہو یا نکاح ہو گا وہی جو تم چاہو گی اس لیے بولو کیا تم راضی ہو؟؟؟؟ زاویار نے پوچھا

لالہ جیسے آپ کی مرضی میں راضی ہوں!!! جاناں نے دھیرے سے کہا جس پر زاویار نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور باہر نکل گیا

یہ تم نے کیا کیا!!!! کیوں نہیں بتایا لالہ کو کہ تم خوش نہیں ہو؟؟؟ نازلی نے اس سے پوچھا جو کہ صوفے سے ٹیک لگائے دور خلا میں دیکھ رہی تھی

آیک بھائی اپنی بہن کو مان دے کر پوچھ رہا تھا کہ اسے اس کی زبان کا کتنا پاس ہے تو بتاؤ پھر ایک بہن کیا کرتی ؟؟؟ کیسے اسے بتاتی کہ جو وہ اپنی بہن کے لیے چاہ رہا ہے اس کی بہن ویسا نہیں چاہتی؟؟؟ جب میں چھوٹی تھی تو مجھے ایک بھائی کی ہمیشہ طلب تھی جیسے زاویار لالہ نے ہمیشہ پورا کیا تو آج کیسے میں انہیں چھوڑ کر اپنی خواہشات کو چنتی ؟؟ سالوں پہلے بھی پھپھو جان نے اپنے بھائیوں کو چنا تھا بابا اور تایا ابا نے خود پھپھو اور پھوپھا کا نکاح کروایا تھا انہیں لگا تھا کہ اس کے بعد آغا جان مان جائیں گے پر ایسا نہیں ہوا دادا سائیں نے ان سے دوستی نبھاتے ہوئے پھپھو جان کو چھوڑ دیا مجھے آج بھی یاد ہے بابا پھپھو کی تصویر دیکھ کر ساری ساری رات روتے تھے نازی میں نہیں چاہتی کہ زاویار لالہ بھی ویسے ہی روئیں اسی لیے نہیں بتایا!!!! جاناں نے چھت کو دیکھ کر کہا

تو کیا تم حائم بھائی کو چھوڑ دو گی اپنی محبت سے اتنی آسانی سے دستبردار ہو جاؤ گی؟؟؟ نازلی نے پوچھا اسے جاناں کی حالت بہت تکلیف دے رہی تھی وہ اس کی محبت کی عینی شاہد تھی

چھوڑنے کے لیے اپنانا پڑتا ہے میں نے ان سے محبت کی ہے انہوں نے نہیں کی میں دل سے ان کا احترام کرتی ہوں کرتی رہوں گی اس کے علاؤہ میرے بس میں کچھ نہیں ہے!!! جاناں اتنا بول کر وہاں سے چلی گئی نازلی نے دکھ سے اسے دیکھا وہ جانتی تھی اس کی حالت پر وہ بھی بے بس تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حائم نے کمرے میں آ کر دروازا بند کر کے اس کے ساتھ پشت لگا لی وہ آنکھیں موندے ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا پچھلے چند ماہ اس کے سامنے کسی فلم کی طرح گھوم رہے تھے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ پر لیٹ گیا

موبائل نکال کر وہ مختلف موقعوں پر لی گئیں اس کی تصویریں دیکھنے لگا ہر تصویر میں وہ اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتی دفعتاً وہ ایک تصویر پر رکا وہ تصویر ان دونوں کی تھی جس میں وہ اس کے گجرے پہنے دونوں ہاتھ تھامے کھڑا مسکرا رہا تھا اور وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی یہ تصویر زریش نے اسے بھیجی تھی 

ناجانے کتنے پل وہ اس تصویر کو دیکھتا رہا ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر تکیے میں جذب ہوا پر وہ اس سے بے خبر تھا

میں کہہ نہیں سکا تو مطلب یہ نہیں کہ میں بزدل ہوں میں صرف اس لیے خاموش رہا کیونکہ میری خاموشی نے بہتوں کو ٹوٹنے سے بچا رکھا ہے ورنہ تمہیں حاصل کرنا حائم خانزادہ کے لیے بلکل مشکل نہ تھا مشکل ہے تو تمہیں پا کر کسی اور کو کھونے نہ دینا پر تم نہیں سمجھ سکتی!!! حائم اس کی تصویر سے مخاطب ہوتا جانے کب نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا

فاطمہ بیگم نے دھیرے سے اس کے کمرے کا دروازا کھولا تو وہ سامنے بیڈ پر بغیر جوتے اتارے لیٹا دیکھائی دیا

فاطمہ بیگم نے دکھ سے اپنے اس فرمانبردار بیٹے کو دیکھا جس نے کبھی ان سے کچھ نہ مانگا تھا کبھی ضد نہ کی تھی جس کے چہرے پر ہمیشہ ہی مسکراہٹ ہوتی تھی پر آج فاطمہ بیگم کو نیند میں بھی اس کے چہرے پر تکلیف نظر آ رہی تھی

انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے جوتے اتارے کمفرٹر کھول کر اس پر دیا 

انہوں نے اس کے سینے پر رکھا موبائل اٹھایا جو اب بھی آن تھا انہوں نے موبائل سامنے کیا تو ان دونوں کی تصویر دیکھ کر چونکیں وہ دونوں واقع ایک ساتھ مکمل لگتے تھے

حائم واقع جاناں کو چاہتا تھا فاطمہ بیگم کو پتہ تھا پر وہ جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا کبھی بغاوت نہیں کرے گا انہوں نے جھک اس کی پیشانی چومی آنکھوں میں آنسوں آ گئے پہلی بار تھا کہ انہیں حائم کی طرف سے کوئی پریشانی ملی ہو وہ ہمیشہ ہی ہر تکلیف اکیلا سہتا تھا اب بھی سہہ رہا تھا پر خدا اور ماں دونوں ہی واقف تھے وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر باہر چلیں گئیں

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

دن تو جیسے پر لگا کر آڑ گئے ایک مہینہ ایک دن کے برابر گزر گیا اس ایک مہینے میں حائم نے خود پر کمال ضبط کر کے رکھا وہ مسکراتا تھا سب کے ساتھ گھلتا ملتا تھا باظاہر وہ سب کو ٹھیک لگ رہا تھا پر اس کے اندر سے اس کی ماں اور بہن اچھے سے واقف تھیں اتنے دنوں سے اس نے جاناں کا سامنا نہیں کیا تھا وہ کمزور نہیں پرنا چاہتا تھا اس لیے اس سے بھاگ رہا تھا

وہ آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا پر اس کے ہاتھ بار بار کانپ رہے تھے آج اسے اپنا ضبط ٹوٹتا محسوس ہو رہا تھا کیونکہ آج وہ دشمن جاں کسی اور کی ہونے والی تھی

تیار ہو کر وہ نیچے آیا تو خالی ہال دیکھ کر باہر چل دیا باہر زریش، فاطمہ بیگم ، مسرت بیگم اور حسن صاحب کھڑے تھے

اچھا ہوا حائم تم ابھی گھر پر ہی ہو بیٹا ذرا جاناں کو تو پالر سے لے آؤ ڈرائیور کو بھائی لے گئے ہیں اور زاویار میرا فون نہیں اٹھا رہا میں خود چلا جاتا پر مجھے میرج ہال پہنچنا ہے!!! حسن صاحب نے کہا جس پر وہ جی کہتا چل دیا

پالر کے باہر پہنچ کر اس نے اندر پیغام بھجوایا اور خود گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا

تھوڑی دیر بعد اس نے قدموں کی آہٹ سنی تو مڑ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا جہاں سے وہ لائٹ پنک کلر کے لہنگے میں ملبوس اپنا لہنگا اٹھائے چلی آ رہی تھی اسے دیکھ کر حائم کے دل میں ہلچل سی مچ گئی پر وہ ضبط کر گیا

جاناں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اپنے سامنے اسے کھڑا دیکھ کر چونکی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ اس کے روبرو کھڑی ہو گئی جو کہ گرے پینٹ کوٹ پہنے اسے ہی دیکھ رہا تھا کتنی ہی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر حائم نے آگے بڑھ کر فرنٹ سیٹ کا دروازا کھولا جس پر وہ خاموشی سے بیٹھ گئی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کی سارا رستہ وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ہال پہنچ کر جاناں باہر نکلی تو مسرت بیگم اور نازلی پہلے ہی وہاں کھڑی تھیں وہ اسے لیے سٹیج کی طرف آئیں جہاں شاہ ویز پہلے ہی موجود تھا اسے دیکھ اس نے اٹھ کر ہاتھ بڑھایا جس پر اس نے ایک نظر پاس کھڑے حائم پر ڈالی جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جو کہ شاہ ویز سے پہلے زاویار نے تھام لیا جس پر اس نے خاصی ناگوار نظروں سے اسے دیکھا

پہلے نکاح ہو جائے پھر!!! زاویار نے اسے دیکھ کر کہا 

حائم کی نگاہیں مسلسل اس پر ٹکیں تھیں جو کہ اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی تھوڑی دیر میں قاضی صاحب آگئے اور نکاح شروع ہوا

جاناں حسن شاہ آپ کا نکاح میر شاہ ویز ولد میر عادل کے ساتھ با آیوز پانچ لاکھ روپے حق مہر پڑھایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟؟؟ قاضی صاحب کے بولنے پر اس نے ایک نظر حائم کو دیکھا جو سرخ آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر ایک نظر پاس کھڑے زاویار کو پھر آہستہ سے لب کھولے

قبوآآآآآآآ

رک جاؤ یہ نکاح نہیں ہو سکتا!!!! اس سے پہلے کہ وہ بولتی ایک لڑکی جس کے ساتھ چار سال کا چھوٹا سا بچہ تھا سٹیج کے سامنے آ کر بولی

کون ہو تم اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمیں روکنے کی ؟؟؟ فاتح صاحب غصے سے گرجے

میں کون ہوں یہ سوال اپنے پوتے سے پوچھیں!!! اس لڑکی نے شاہ ویز کی طرف اشارہ کر کے کہا جس پر سب کی نظریں اس کی جانب اٹھیں

شاہ ویز کون ہے یہ لڑکی ؟؟ اصغر صاحب جو کہ اس کے چچا تھے انہوں نے پوچھا

میں نہیں جانتا کہ کون ہے یہ!!! شاہ ویز نے کہا

ارے واہ تو اتنا ڈر ہے تمہیں ان کا کہ اب تم مجھے نہیں جانتے بیوی ہوں میں اس کی اور یہ بیٹا ہے اس کا نہیں یقین نہیں آتا تو یہ لیں نکاح نامہ دیکھ لیں!!!! اس لڑکی نے ایک کاغذ فاتح صاحب کی طرف بڑھایا جیسے انہوں نے جھپٹنے والے انداز میں تھاما اور دیکھنے کے بعد شاہ ویز کی طرف بڑھے

دادا جان یہ لڑکی جھوٹ!!!!!!

چٹاخ!!!!!!

شاہ ویز کچھ کہنے والا تھا جب فاتح صاحب نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا

وہ منہ پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا یہ اسے زندگی میں پڑنے والا پہلا تھپڑ تھا

بے غیرت اگر نکاح کر ہی لیا تھا تو یہاں یہ سارا تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی تو نے ہماری عزت مٹی میں ملا دی تو پہلے سے شادی شدہ تھا پھر بھی تو نے ہمیں رشتہ لینے بھیجا!!!! فاتح صاحب غصے سے گرجے

دادا جان میں آآآآآ

بے غیرت تیری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے ساتھ ایسا گھٹیا مزاق کرنے کی دفع ہو جاؤ ادھر سے ورنہ میں جان لے لوں گا تمہاری!!!!! شاہ ویز کچھ کہنے والا تھا جب ایک دم سے زاویار نے اس کا گریبان پکڑ کر اسے دھکا دیا

زاویار شاہ مت بھولو کہ تم نے مجھے زبان دی تھی!!!! شاہ ویز چلایا

مجھے میری بہن سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں اپنی زبان بھی نہیں دفع ہو جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا!!!! زاویار غصے سے بولا

شاہ ویز چلو ادھر سے ورنہ ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے!!! فاتح صاحب نے اس سے کہا جس پر وہ ایک نظر انہیں اور ایک نظر زاویار کو دیکھا

میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں میر شاہ ویز سے دشمنی بہت مہنگی پڑے گی!!!! زاویار اتنا بول کر باہر چل دیا اس کے پیچھے اس کے گھر والے بھی نکل گئے جاناں کو نازلی برائیڈل روم لے گئی اکبر شاہ کرسی پر ڈھے سے گئے

بابا سائیں ہمت کریں!!! حسن شاہ نے کہا

ہماری عزت خاک میں مل گئی!!! اکبر شاہ نے کہا

ایسا کچھ نہیں ہوا اچھا ہے پہلے ہی ان دھوکے باز لوگوں کی اصلیت سامنے آ گئی!!!! آغا جان نے کہا

پر اگر نکاح نہیں ہوا تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری لوگ سمجھیں گے کہ لڑکی میں کوئی عیب تھا ہماری بچی کے کردار پر انگلی اٹھے گی!!!! اکبر شاہ نے نم آنکھوں سے کہا

ایسا کچھ نہیں ہو گا تم نے اتنے سال مجھ سے دوستی نبھائی ہے تو تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں تمہیں رسوا ہونے دوں گا جاناں کا نکاح ہو گا وہ بھی ابھی اسی وقت!!!!! آغا جان بلند آواز بولے

پر کس سے؟؟؟ اکبر شاہ نے پوچھا

حائم سے!!!! آغا جان نے جیسے فیصلہ سنایا جسے سن کر اکبر شاہ نے سلطان صاحب کو دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا 

جبکہ حائم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

جاناں چلو بابا سائیں نکاح کے لیے بلا رہیں ہیں!!!! مسرت بیگم نے جاناں سے کہا

ماما نکاح؟؟؟ کس سے؟؟؟ جاناں نے گھبرا کر پوچھا

ابھی باہر چلو سب انتظار کر رہے ہیں!!!! مسرت بیگم کے بولنے پر وہ چپ چاپ باہر چل دی سٹیج پر بھی وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی اس میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ سامنے بیٹھے شخص کو نظر اٹھا کر دیکھ لے

جاناں حسن شاہ آپ کا نکاح حائم خانزادہ ولد سلطان خانزادہ کے ساتھ با آیوز پانچ لاکھ روپے حق مہر پڑھایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے ؟؟؟ قاضی صاحب بول رہے تھے پر وہ حائم نام پر اٹک گئی تھی اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو کہ مسکرا کر آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھ رہا تھا اس کے دیکھنے پر اس نے ہولے سے سر ہاں میں ہلایا

قبول ہے!!! جاناں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا

آپ کو قبول ہے؟؟؟

قبول ہے!!!! حائم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

آپ کو قبول ہے؟؟؟؟

قبول ہے!!! تیسری بار کہنے پر ان دونوں نے آنکھیں بند کر کے کھولیں جیسے کھوئی ہوئی سانسیں واپس مل گئی ہوں اب قاضی صاحب حائم سے پوچھ رہے تھے اور وہ مسکرا کر جواب دے رہا تھا جاناں بس مسکرا کر اس کا ڈمپل دیکھ رہی تھی جو آج اندر جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا 

نکاح کے بعد کھانا سرف ہوا اور پھر رخصتی کا شور اٹھا جاناں کو قرآن کے سایے میں رخصت کردیا گیا جبکہ وہ اب بھی اپنی قسمت پر بے یقین تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

یہ آپ سب کیوں ادھر کھڑی ہیں ؟؟؟ حائم نے ان سب لڑکیوں کو دیکھ کر کہا جو کہ اس کے کمرے کے باہر کھڑی تھیں

لالہ نکالیں ہمارا نیک!!! نمل نے کہا

کس خوشی میں ہاں میری شادی میں آپ سب کا کیا کمال ؟؟؟ حائم نے کہا

لالہ دے دیں ورنہ ہم بتا رہیں ہیں ہم سب نے آج آپ کے کمرے میں ڈیڑا لگا لینا ہے !!! پلوشہ نے دھمکی دی جس پر اس نے اپنا والٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا جس پر وہ ساری خوش ہوتیں بھاگ گئیں 

حائم!!!! ابھی وہ اندر جانے والا تھا کہ فاطمہ بیگم کی آواز سن کر رکا

جی ماما ؟؟؟

یہ لو!! فاطمہ بیگم نے ایک ڈبی اس کی طرف بڑھائی

یہ کیا ہے؟؟؟ حائم نے پوچھا

یہ آنگوٹھی ہے!!!

پر میں کیا کروں اس کا؟؟؟ 

ارے کیا مطلب کیا کروں کیا منہ دکھائی نہیں دو گے میری بہو کو؟؟؟؟ فاطمہ بیگم کے بولنے پر اس نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا

آپ تو پوری تیاری کر کے بیٹھی ہیں!!! حائم نے کہا

اب باتیں نہ بناؤ اندر جاؤ !!! فاطمہ بیگم اتنا بول کر چلیں گئیں جبکہ پیچھے وہ ڈبی جیب میں رکھ کر اندر چل دیا ابھی اس نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ حیران ہو گیا

پورا کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا بیچ میں چلتی کینڈلز نے ماحول مزید خوبصورت بنایا تھا اس نے قدم بیڈ کی جانب بڑھائے جہاں وہ بیٹھی تھی وہ اس کے پاس پہنچ کر اس کے سامنے نیم دراز ہو گیا اور مسکرا کر اسے دیکھنے لگا جو نظریں اور چہرہ جھکائے بیٹھی تھی

حائم نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا جاناں نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو کہ آنکھوں میں الگ سی چمک کے کر اسے دیکھ رہا تھا

حاآآآآآ جاناں کچھ کہنے والی تھی جب ایک دم حائم نے آگے بڑھ کر اس کے دائیں گال پر لب رکھے

آئی لو یو!!! حائم نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی

جھوٹ!!! جاناں انکاری ہوئی

سچ !!!!

آپ مزاق کر رہے ہیں!!!!!

میں سیریس ہوں!!!

میں نہیں مانتی!!!!

تو پھر بھاڑ میں جاؤ!!!

جب بول رہا آئی لو یو تو مان لو نا!!! یا سٹام پیپر پر لکھ کر دوں پھر مانو گی؟؟؟ جاناں کے بولنے پر حائم بد مزہ ہوتا بولا

آپ غصہ کیوں کر رہے ہیں ؟؟؟ جاناں نے پوچھا

جب تم میری بات مان ہی نہیں رہی تو میں کیا بھنگڑا ڈالوں؟؟؟ حائم نے طنزیہ پوچھا

یہ آپ صرف مجھ پر ہی غصہ کیوں کرتے ہیں ؟؟؟

صرف تم ہی مجھے غصہ دلاتی ہو!!!

اور آپ پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے ؟؟؟ 

ہاں کرتا ہوں تمہیں کوئی شک ہے؟؟؟ حائم اعتماد سے بولا

تو پھر کیسے میری شادی کسی اور سے ہونے دے رہے تھے جب پیار کرتے تھے تو کہا کیوں نہیں ؟؟؟ جاناں نے شکوہ کیا اگر وہ واقع جذبات رکھتا تھا تو کہا کیوں نہیں

کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں بولا تو تم میرا سر پھاڑ دو گی!!! حائم نے مسکراہٹ ضبط کر کے کہا

کتنے کوئی گھٹیا خیالات ہیں آپ کے میرے مطلق کتنوں کے سر پھاڑتے دیکھا ہے آپ نے مجھے ؟؟؟ جاناں نے منہ پھلا کر کہا

اچھا یار چھوڑو یہ دیکھو تمہاری منہ دکھائی!!! حائم نے جیب سے ڈبی نکال کر انگھوٹھی اس کی انگلی میں پہنائی جس پر جاناں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا

حائم یہ سارا کچھ جو آج ہوا آپ نے تو نہیں کیا؟؟؟ جاناں نے پوچھا

تمہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا یہ کس نے کیا؟؟؟ حائم کے بولنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا 

یہ کام تمہارے سسرال والوں اور ایک عدد بہن اور بھائی کا ہے!!!! حائم نے مسکرا کر بتایا

کیا زاویار لالہ بھی اس میں شامل ہیں ؟؟؟ جاناں نے حیرت سے پوچھا 

جی بلکل پر ایک بات بتاؤ تم بھی مجھے پسند کرتی تھی کیا؟؟؟ حائم نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا

کرتی تھی نہیں کرتی ہوں!!!! جاناں نے زور دے کر کہا

واقعی ؟؟؟ حائم نے کنفرم کرنا چاہا

جی !!! اس نے اعتماد سے کہا 

ایک بات کہوں ؟؟؟ حائم نے اس کے کان کے پاس جھک کر کہا جس پر اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں

کہیں!!! جاناں نے دھیرے سے کہا

میں نہیں مانتا!!!! حائم کے بولنے پر اس کا فسوں ٹوٹا غصے سے اسے بیڈ پر دھکا دیا

بھاڑ میں جائیں آپ!!! جاناں اتنا بول کر غصے سے اٹھ گئی

ارے مجھے بول کر خود کدھر جا رہی ہو؟؟؟ حائم نے ہنستے ہوئے پوچھا

مجھے چینج کرنا ہے!!! جاناں اتنا بول کر باتھ روم میں چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ باہر آئی تو وہ بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا

وہ خاموشی سے لائٹ آف کرتی اپنی سائڈ پر رخ موڑے لیٹ گئی

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی جب حائم نے اس کا رخ موڑ کر اس کا سر اپنے سینے سے ٹکا دیا جبکہ اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا گئی

حائم!!!! اس نے ہولے سے اسے پکارا جو آنکھیں موندے اس کے بالوں میں آنگلیاں چلا رہا تھا

شششش!!!! ایک ماہ سے ٹھیک سے نہیں سویا آج سکون سے سوؤں گا!!! حائم نے اتنا بول کر اس کے بالوں میں لب رکھ کر اس کے گرد حصار باندھا جس وہ بھی پر سکون ہوتی آنکھیں موندے گئی

بے شک رب کی رحمت سے ناامید نہ ہونے والے امید سے زیادہ پاتے ہیں

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

جی آپ نے بلایا؟؟؟ زریش نے باہر آتے ہوئے زاویار سے کہا

بندہ شکریہ ہی بول دیتا ہے!!! زاویار بولا

شکریہ کس بات کا ؟؟؟ تم نے کونسی میری نالے میں گری بھینس نکالی ہے جو میں تم کا شکریہ کروں!!! زریش نے کمر پر بازو ٹکا کر پوچھا

مس آفت بھینس نہیں تمہارا کنوارا بھائی نکالا ہے میں نے چھڑوں کی لسٹ سے!!! زاویار نے جتا کر کہا

اوہ ہیلو ساری محنت میں نے کی ہے دوست میری نے ڈرامہ کیا تم نے تو صرف وہاں کھڑے ہو کر اپنا بھائی چارہ نبھایا پچھلے ایک ماہ سے خجل خوار تو میں ہو رہی ہوں!!! زریش تو بھڑک اٹھی

ویسے تمہاری دوست کا کیا بنا کہیں شاہ ویز اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے!!! زاویار نے پوچھا

فکر مت کرو وہ اب تک اپنے میاں کے ساتھ ہنی مون پر روانہ ہو چکی ہے نہیں ہاتھ آتی تمہارے اس موچھڑ کے!!! زریش نے کہا

ویسے اچھی لگ رہی ہو!!! زاویار نے اسے دیکھ کر کہا جو اس وقت پنک کلر کی میکسی میں کھڑی تھی

ہممم آپ بھی صاف ستھرے لگ رہے ہیں نہائے تھے کیا آج؟؟؟ زریش نے اسے دیکھ کر پوچھا جو اس وقت براؤن پینٹ کوٹ پہنے کھڑا تھا 

تم پوری آفت ہو!!! زاویار تاسف سے کہتا مڑ گیا

اور آپ ایک نمبر کے ہٹلر ہیں!!!! اس نے پیچھے سے آواز لگائی پر وہ ان سنی کر کے چلا گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے میر شاہ ویز کو انکار کرنے کی میں ان کی نسلیں مٹا دوں گا!!! شاہ ویز ڈیرے پر پہنچتا ہر چیز تہس نہس کرتا چلا رہا تھا

حضور ہمیں وہ لڑکی نہیں ملی پتہ نہیں رش میں وہ کیسے فرار ہو گئی !!! ملازم نے سر جھکا کر اطلاع دی

تم سارے کے سارے نکمے ہو ایک کام نہیں کر سکتے ڈھنگ سے تم لوگ دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے ورنہ جان لے لوں گا تمہاری!!! شاہ ویز نے زور سے اسے دھکا دیا جس پر وہ لڑکھڑاتا ہوا باہر بھاگ گیا

خضور پریشان نہ ہوں آپ بس حکم کریں میں زاویار شاہ کے گھر سے اس کی بہن کو اٹھوا لوں گا!!! اس کے ذاتی خادم نے کہا

ایسا نہیں ہو سکتا اس لڑکی کا نکاح ہو چکا ہے!!! پاس کھڑے دوسرے ملازم نے اطلاع دی

کیا ؟؟؟؟ وہ لڑکی میر شاہ ویز کی منگ تھی وہ مر سکتی ہے پر کسی اور کی نہیں ہو سکتی کس کی اتنی جرت کے میرے مال پر ڈاکا ڈالے؟؟؟ شاہ ویز نے غصے سے کرسی کو ٹھوکر ماری کر کہا 

حضور وہ شاہ عالم کا پوتا جو وکیل ہے کیا نام تھا اس کا؟؟ ہاں حائم!!! ملازم نے یاد کر کے بتایا

حضور آپ حکم کریں میں ابھی اس کی سانسیں بند کر دیتا ہوں!!! اس کا ذاتی ملازم بندوق نکال کر بولا

نہیں ملک میں پہلے اس زاویار سے نپٹوں گا پھر اسے دیکھتا ہوں!!! شاہ ویز کچھ سوچ کر بولا جس پر ملک نے سر ہلایا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

لالہ آپ نے تو بھابھی کو آتے ہی کام پر لگا دیا ہے کم از کم کچھ دن تو آرام کرنے دیتے!!! شازل نے حائم سے کہا وہ سب اس وقت لاؤنج  میں بیٹھے تھے اور سب خواتین کچن میں تھیں

بھئی میں کیا کروں اسے ہی شوک چڑھا ساس کو ایمپریس کرنے کا تو میں کیا کرتا پھر میں نے بھی کہا کہ جاؤ کرلو جو دل کرتا ہے!!!! حائم نے لاپرواہی سے کہا

ویسے لالہ بات تو ٹھیک ہے آپ کی میری بیوی بھی ہر وقت اپنی ساس اور نند کے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہے حالانکہ انہیں اپنے شوہروں کے آگے پیچھے گھومنا چائیے!!!! شازل نے پوچھا

بیٹا جی بیویاں شوہروں کے پیچھے نہیں گھومتی بلکہ شوہروں کو اپنے پیچھے گھوماتی ہیں!!! سلطان صاحب نے مسکرا کر کہا

جی بلکل چچا جان بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں!!! فراز نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی

دیکھیں ذرا کیسے تجربہ بول رہا ہے شادی سے پہلے سب سے چھپ کر بیگم کو دیکھتے تھے اب سب کے سامنے چھپتے پھرتے ہیں کہ کہیں بیگم نہ دیکھ نہ دیکھ لے!!! شہیر نے ہنس کر کہا جس پر بازل نے اس کے ہاتھ پر تالی ماری اتنے میں کچن سے سب خواتین کی چیخیں سنائی دی جس پر سب مرد کچن طرف بھاگے

حائم بچائیں!!! جاناں نے حائم کے گلے لگ کر کہا

جاناں کیا ہوا ہے ؟؟؟  حائم نے فکرمندی سے پوچھا تمام بیگمات اپنے اپنے شوہروں کے پیچھے چھپیں تھیں صرف عائشہ ، رمل اور زریش نہیں تھیں عائشہ کمرے میں تھی اور رمل اسے دودھ دینے گئی تھی

نور بتاؤ تو صحیح ہوا کیا ہے کیوں گھبرا رہی ہو اتنا؟؟؟ شازل نے اپنے ساتھ لگی نورالعین سے پوچھا

شازی وہ آآآآآ وہ اندرآآآآآآ نورالعین نے اٹک کر کچن کی طرف اشارہ کیا

کون ہے اندر ؟؟؟ شہیر جلدی گارڈز کو بلاؤ اور یہ زری کدھر ہے؟؟؟ سلطان صاحب کو ایک دم زریش کا خیال آیا

وہ اندر اس سے لڑ رہی ہے!!!! نمل نے بتایا

کیا زری اندر اکیلی ہے؟؟ پہلے کیوں نہیں بتایا ؟؟ شازی میری گن لاؤ!!! حائم شازل سے کہتا بھاگ کر اندر گیا اس کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی بڑھے

زری تم ٹھ آآآآآآ حائم بولتا بولتا اسے دیکھ کر روک گیا جو ایک ہاتھ میں بیلن اور دوسرے ہاتھ میں فرائی پین پکڑے کچن کیبن میں گھسی کچھ ڈھونڈ رہی تھی

زری کیا کر رہی ہو؟؟؟ حائم نے اسے پکڑ کر کہا

لالہ کچن میں چوہا گھس گیا ہے اسی کو ڈھونڈ رہی ہوں پتہ نہیں کدھر چلا گیا ہے مل نہیں رہا!!!! زریش نے پریشانی سے بتایا جس پر وہاں موجود سب لوگوں کا بی پی شوٹ کر گیا

چلو باہر!!! حائم اس کا ہاتھ پکڑے باہر لے گیا جہاں سب خواتین سہمی کھڑی تھیں

زری میری بچی تم ٹھیک ہو نہ کچھ ہوا تو نہیں تمہیں ؟؟؟ فاطمہ بیگم نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا

ہاں اندر بھارتی فوجیں داخل ہو گئیں تھیں نہ جو اس کی جان کو خطرہ تھا!!!! سلطان صاحب نے طنزیہ کہا

حائم پلیز کچھ کریں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے!!! جاناں نے حائم کا بازو  پکڑ کر کہا

میں کیا کروں ہاں کیا کیس کر دوں اس پر تمہیں ہراساں کرنے کا ؟؟؟ حائم نے طنزیہ پوچھا

شازی آپ تو پولیس میں ہیں آپ تو ہمت کریں!!! نورالعین نے شازل کے پیچھے چھپ کر کہا

ہاں لالہ آپ پولیس میں ہیں آگے بڑھیں اور آریسٹ کریں اس چوہے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کریں!!! اسمائیل تپ کر بولا 

آپ سب لوگ مل کر ایک چوہا نہیں پکڑ سکتے؟؟؟ فردوس بیگم نے کہا

لالہ ایک کام کرتے ہیں ایک چوہیا لے آتے ہیں خود ہی دونوں سیٹ ہو کر ہنی مون پر نکل جائیں گے!!! قاسم نے مفت مشورہ دیا

ارے نہیں یار اگر انہوں نے یہی جنریشن بڑھا لی تو مسئلہ ہو جائے گا ایک کام کرتے ہیں رینٹ پر بلی لے آتے ہیں!!!! زمل بولا

پھر بلی کو نکالنے کے لیے کتا لانا پڑے گا پھر اسے نکالنے کے لیے کوئی گدھا لانا پڑے گا میری مانیں تو کچھ دنوں کے لیے حویلی کو تالا لگا کر باہر نکل جاتے ہیں چوہا سمجھے گا ہم کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں تو وہ بھی کہیں اور چلا جائے گا!!! اسمائیل نے کہا

ارے نہیں ایسے تو اسے پرائیویسی مل جائے گی ایک کام کرتے ہیں اس کو کھانے پر بلاتے ہیں اور بیٹھا کر پیار سے سمجھاتے ہیں کہ بھائی ہمارے گھر میں ایک اور جانور کی جگہ نہیں ہے تو اپنا بندوبست کہیں اور کر!!!! فراز بولا

ارے نہیں میں اسے پولیس مقابلے میں مار دوں گا!!! شازل نے کہا

ہاں اور میں اس کا مقبرہ تعمیر کر دوں گا!!! شہیر بولا

کیوں جگتیں مار رہے ہو چوہے کا کچھ کرتے کیوں نہیں!!!! نازیہ بیگم ان کا طنز سمجھ کر چیخیں

کیا ہوا آپ سب ایسے کیوں کھڑے ہیں؟؟؟ رمل نے وہاں آ کر پوچھا

کچن میں جا کر دیکھو وہاں چوہا ہے!!! بازل نے کہا

کیا کہا چوہا!!!!! ماما بچائیں!!! رمل چیخ کر فرخندہ بیگم کے گلے لگ گئی

اوہ میڈم ڈر کر ماما کے نہیں ہسبنڈ کے گلے لگتے ہیں جیسے تمہاری جیٹھانیاں لگی ہوئی ہوئی ہیں سمجھی اب ادھر آؤ!!!! بازل نے اسے سمجھایا جبکہ اس کے کہنے پر جاناں اور نورالعین خجلت کا شکار ہو گئیں

بھئی جب تک یہ چوہا اندر ہے میں تو کچن میں نہیں جا رہی!!!! پلوشہ نے کہا

تو پھر کھانا کون بنائے گا؟؟؟ جہانگیر صاحب بولے

بھئی جب تک ہمیں یقین نہیں ہو جاتا کہ چوہا جا چکا ہے تب تک ہم میں سے کوئی کچن میں نہیں جائے گا اور جیسے بھوک لگی ہے وہ خود کھانا بنائے!!! فاطمہ بیگم نے جیسے فیصلہ سنایا اور سب خواتین وہاں سے واک آؤٹ کر گئیں جبکہ پیچھے سب مرد حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے 

تھوڑی دیر بعد سب ہی کچن میں مصروف ہو گئے

یار مراد یہ دھی بھلوں میں کیا ڈلتا ہے ؟؟ فراز نے پوچھا

ارے مجھے کیا پتہ میں تو خود مرچوں والے پکڑوں میں الجھا ہوا ہوں!!!! فراز نے جھنجھلاتے کر کہا

ارے یار اسمائیل تو رو کیوں رہا ہے؟؟؟؟ زمل نے اسمائیل سے پوچھا جو کہ زارو قطار رو رہا تھا

بس یار اگلے پیچھلے غم پیاز کاٹتے ہوئے اکٹھے ہو گئے تو سوچا رو لوں!!!! اسماعیل نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

آف اللّٰہ یہ روٹی گول کیسے کرتے ہیں ؟؟؟ جہانزیب صاحب نے جھنجھلاتے ہوئے کہا

بابا یہ کونسے ملک کا نقشہ بنا دیا ہے آپ نے ؟؟؟ قاسم نے روٹی کی عجیب سی شکل دیکھ کر پوچھا

آسٹریلیا کا!!! جہانزیب صاحب تپ کر بولے

یار تو روک میں پلوشہ سے پوچھ کر آتا ہوں کہ دھی بھلوں میں کیا ڈالتے ہیں!!! فراز اتنا بول کر باہر چل دیا جہاں سب خواتین بیٹھیں آن لائن کپڑے دیکھ رہیں تھیں

پلوشہ یہ دہی بھلوں میں کیا ڈالتے ہیں؟؟؟ فراز نے پوچھا

دہی بھلوں میں دہی ڈالتے ہیں !!! پلوشہ نے سوچ کر بتایا

اور ؟؟؟ فراز نے پوچھا 

اور بھلے ڈالتے ہیں!!!! پلوشہ نے بتایا 

اور ؟؟؟؟ فراز نے مزید پوچھا 

آف اللّٰہ آپ نے کبھی کھائے نہیں کیا ؟؟؟ پلوشہ نے جھنجھلا کر کہا 

کھائے ہیں!!! فراز نے بتایا 

تو پھر جو کچھ کھایا تھا یاد کر کے ڈال لیں!!!! پلوشہ کے جواب پر وہ ایک نظر اسے دیکھ کر خود پر لعنت بھیج کر واپس چل دیا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کھانا لگ گیا ہے آ جائیں سب!!!! اسماعیل کی اطلاع پر سب خواتین اٹھ کر ڈائنگ ٹیبل پر چل دیں جہاں بہت سے لوازمات ڈھکے پڑے تھے

مراد تم نے رات کے وقت پکوڑے بنائے؟؟ نازیہ بیگم نے پوچھا

جی امی کھا کر بتائیں کیسے بنے ہیں!!! مراد کے کہنے پر نازیہ بیگم اور عائشہ نے ایک ایک پکوڑا اٹھایا پر جیسے ہی انہوں نے اسے منہ میں رکھا ان کی زوردار چیخ نکل آئی

آف اللّٰہ اتنی مرچی!!!!! نازیہ بیگم چیخیں

پانی!!!! میرا منہ جل گیا!!!! عائشہ کے بولنے پر رمل نے اس کی جانب پانی کا گلاس چڑھایا جیسے اس نے ایک سانس میں پی لیا

آف مراد یہ کیا ہے ؟؟؟ نازیہ بیگم نے پوچھا

ماما یہ مرچوں والے پکوڑے ہیں!!! مراد نے بتایا

مرچوں والے پکوڑے سبز مرچوں سے بنتے ہیں ایسے نہیں!!!! عائشہ نے غصے سے کہا

بیگم ہم زرا پرفیشنل ہیں عام لوگ بناتے ہوں گے سبز مرچوں سے ہم نے تو سبز مرچ ، لال مرچ ، کالی مرچ ،گرم مصالحہ، ٹھنڈا مصالحہ، گیلا مصالحہ، سوکھا مصالحہ، پیسی ہوئی مرچ، ثابت مرچ یہاں تک کہ شملہ مرچ بھی ڈالی ہے اب مرچوں والے پکڑوں سے مرچیں تو لگنی چاہیے نا؟؟؟ مراد نے فخر سے بتایا جبکہ اس کی بات پر عائشہ کا دل کیا کہ سارے پکوڑے اس کے منہ میں ٹھونس دے

فراز یہ کیا ہے؟؟؟ پلوشہ نے اپنے سامنے پڑے باؤل کو دیکھ کر پوچھا

جان یہ دہی بھلے ہیں میں نے بہت یاد کیا پر کچھ نہ سوجھا تو میں نے صرف دہی اور بھلے ڈال کر ہی بنا لیے!!! فراز نے بتایا

لیکن اس میں دہی کہاں ہے ؟؟؟ پلوشہ نے باؤل کو دیکھ کر پوچھا جس میں صرف بھلے ہی بھلے تھے

جان دہی نیچے ہے میں نے زیادہ سے بھلے ڈالے ہیں!!!! فراز نے مسکرا کر کہا

آف فراز دہی میں بھلے ڈالنے تھے بھلوں میں دہی نہیں ڈالنا تھا!!!!  پلوشہ نے سر پیٹ کر کہا

جہانگیر صاحب اس ڈیش کا نام کیا ہے ؟؟؟ فردوس بیگم نے اپنے سامنے پڑے ڈونگے کو دیکھ کر کہا جس میں گوشت کے ساتھ ثابت کدو پڑے تھے

یہ کدو گوشت ہے تمہیں پسند ہے اس لیے میں نے بنا لیا!!! جہانگیر صاحب نے مسکرا کر کہا

اچھا!!!! تو کیا کچن میں کوئی چھوری نہیں تھی جو آپ نے انہیں کاٹنے کی ضہمت نہیں کی؟؟؟ فردوس بیگم نے دانت پیس کر کہا

میں نے سوچا کہیں کدو کاٹتے ہوئے میرا ہاتھ نہ کٹ جائے اس لیے نہیں کاٹے!!!! جہانگیر صاحب کے بولنے پر فردوس بیگم انہیں دیکھتی رہ گئیں

ہممم بازی آپ تو بہت مزے کا کھانا بناتے ہیں!!!! رمل نے ستائشی انداز میں کہا

پتا ہے پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ساری زندگی کھانا میں ہی بناؤ گا!!! بازل بولا

پھپھو یہ نہاری کھا کر دیکھیں بہت مزے کی بنائی ہے حائم نے!!!! جاناں نے فاطمہ بیگم سے کہا

نا بابا ورنہ تمہارے پھوپھا کے بنائے کوفتے کون کھائے گا یہ تم ہی کھاؤ کیونکہ نور تو کراہی گوشت کے ساتھ انصاف کر رہی ہے!!!! فاطمہ بیگم کے بولنے پر نورالعین نے دانت نکالے

آف کیا تھا جہانزیب صاحب اگر آپ اور آپ کے بچے بھی ان پانچوں کی طرح سگھر ہوتے اب یہ بد مزہ کھانا کون کھائے گا اگر ایک طرف پھانسی کا پھندا ہو اور دوسری طرف یہ کھانا تو بندہ ہنس کر پھانسی چڑھ جائے!!!! نازیہ بیگم کے بولیں

چلو بھئی اٹھو کچھ باہر سے منگواتے ہیں ہماری قسمت ان چاروں کی طرح اچھی نہیں ہے جو شوہروں کے ہاتھ کا کھانا کھا سکیں!!!! فردوس بیگم کے بولنے پر سب اٹھ گئیں

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آج کا دن خان ولا میں کافی سنسی خیز تھا آج زری کا رزلٹ تھا جس کی وجہ سے وہ صبح سے نفل پے نفل پڑھے جا رہی تھی دوسری جانب دونوں حویلیوں کے افراد بس اس کی متوقع درگت کے منتظر تھے

زری اگر تھوڑی محنت تم نے پڑھائی پر کی ہوتی تو آج یہ حالت نہ ہوتی!!!! فاطمہ بیگم کے کہنے پر اس نے ایک نظر انہیں دیکھا جو کہ صوفے پر پوری تیاری کے ساتھ بیٹھیں تھیں

پھر ان کے سامنے پڑے میز کو جس پر نو آپشن کے ہتھیار پڑے تھے

90٪ پر گلاب جامن

80٪ پر رس گلے

70٪ پر چینی کا ڈبہ

60٪ پر ہیل

50٪ پر بیلن

40٪ پر جھاڑو

30٪ پر وائپر

20٪ پر پھانسی کا پھندا

ان آپشنز کو دیکھ کر ہی زریش کا گلہ بار بار خشک ہو رہا تھا

حائم بھائی بتائیں نا کون سا ہتھیار استعمال ہو گا!!! قاسم نے پوچھا جبکہ زریش کو تو اتنی گرمی میں بھی کپکپی طاری ہو چکی تھی

پر چچی جان اس میں تو دس فیصد کا آپشن ہی نہیں ہے!!! فراز نے پوچھا

بیٹا اگر دس فیصد آیا تو سیدھا گھر سے باہر پھینکوں گی!!! فاطمہ بیگم کے جواب پر اس کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں

حائم بتائیں نا کتنے فیصد رزلٹ آیا!!! جاناں نے پوچھا جو کہ سنجیدگی سے سکرین کو دیکھ رہا تھا

زری!!! تھوڑی دیر بعد حائم نے پکارا

جی لالہ؟؟؟ زریش با مشکل بولی

مجھے امید تھی کہ تم پاس ہو جاؤ گی پر!!!! حائم کے بولنے پر اس کا سانس روک گیا اور باقی سب فاطمہ بیگم کی پرفامنس کا انتظار کرنے لگے

پر؟؟؟ زریش نے پوچھا

پر امید نہیں تھی کہ اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤ گی!!! پورے 95 فیصد نمبر لیے ہیں زری نے!!!! حائم نے مسکرا کر بتایا

جس پر زریش کی تو حیرت سے آنکھیں ہی کھول گئیں

اللّٰہ اللّٰہ ضرور نکل ماری ہو گی اس نے!!! فاطمہ بیگم کے بولنے پر سب نے ان کی جانب دیکھا جس پر وہ سٹپٹا گئیں

لاآآآآلالہ آآآآاا واآآآاقع؟؟؟ زریش اتنا بول کر دھڑام سے نیچے گر گئی

زری !!!! زری !!! میرا بچہ ہوش کرو کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟؟؟ شازل نے اس کا چہرہ تھپتھپا کر کہا

یا اللہ کوئی ڈاکٹر کو بلائے کیا ہو گیا ہماری بچی کو!!! بی جان پریشانی سے بولیں

اتنے میں ساریہ نے پانی کا جگ لا کر اس پر پھینکا جس سے وہ ایک دم آٹھ بیٹھی

زری ٹھیک ہو ؟؟؟ بازل نے اس سے پوچھا جو شاک کی کیفیت میں سامنے دیکھ رہی تھی

لالہ 95٪؟؟؟ زریش نے حائم سے پوچھا جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا جیسے دیکھ کر زریش پھر سے بے ہوش ہو کر گر پڑی

آف اللّٰہ زری میری بہن کوئی غلطی ہو گئی ہو گی تم حوصلہ رکھو ہم درخواست دیں گے بھلا ہمارے کیسے اتنے نمبر آ سکتے ہیں ضرور یہ محکمے کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے!!! شہیر کے بولنے پر وہ ایک دم اٹھی اور عجیب نظروں سے اسے گھورنے لگی

زری آآآآآآآآ

شہیر نے کچھ کہنا چاہا جب زریش نے ساریہ کے ہاتھ سے جگ لے کر اس کی جانب پھینکا جو کہ اس کے نیچے ہونے کی وجہ سے زمین پر گر کر ٹوٹ گیا

زری پاگل ہو گئی ہو ؟؟؟ فاطمہ بیگم بولیں پر وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی

دفعتاً وہ اٹھی میز پر پڑے گلاب جامن میں سے ایک منہ میں ڈالا، ایک رس گلا پکڑ کر حائم کے منہ میں ڈالا اور باقی کا ڈبہ شازل کو تھمایا، اور چینی کا ڈبہ پکڑ کر جاناں کے ہاتھ پر رکھا سب حیرت سے اس کی کاروائی دیکھ رہے تھے

دفعتاً وہ مڑی اور میز پر پڑی ہیل پکڑ کر الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی پھر اچانک اس کی نظر پاس کھڑے زمل پر پڑی جو کہ اس کی گھوری دیکھ کر ٹھٹھک رہا تھا

زریش نے کھینچ کر ہیل اس کی طرف پھینکی جو کہ سیدھا اس کے سر پر لگی

آہ!!!!! زمل درد سے چیخا

اس نے کہا تھا تم کبھی پاس نہیں ہو سکتی!!! 

زریش نے بیلن پکڑ کر اسمائیل کی طرف پھینکا جو کہ سیدھا اس کی کمر پر لگا

یا اللہ!!!!!!!

اس نے کہا تھا اس بیلن سے تمہاری دھلائی ہو گی!!!

زریش نے جھاڑو پکڑا اور کھینچ کر قاسم کی طرف پھینکا جو کہ اس کے بھاگنے کے باوجود اس کی پیٹ پر لگا

ہائے!!!!!

اس نے کہا تھا جھاڑو بیسٹ آپشن ہے!!!

زریش نے وائپر پکڑا جس پر شہیر کی جان پر بن گئی اور اس نے باہر کو دور لگا دی

زریش نے کھینچ کر وائپر اس کی طرف پھینکا جو کہ اس کی ٹانگوں پر لگا اور وہ دھڑام سے نیچے گرا

امی!!!!!

اس نے کہا تھا جب امی تمہیں مار مار کر ہلاک کر دیں گئیں تب میں ہر جمعرات کو تمہاری قبر پر فاتحہ پڑھنے جاؤں گا

زریش نے پھندا پکڑا اور پاس کھڑے بازل کو دیکھا جس نے اس کی تیاری سمجھ کر تھوک نگلا

اس پہلے وہ بھاگتا زریش نے اسے بالوں سے پکڑا اور پھندا اس کے گلے میں ڈال کر کھینچا شروع کر دیا

اس نے کہا تھا اندھا پاس ہو سکتا ہے پر تم نہیں!!!! زریش نے اس کی گردن دباتے ہوئے کہا

آف اللّٰہ زری چھوڑ دو ورنہ مر جائے گا!!! فاطمہ بیگم کے بولنے پر اس نے بازل کو چھوڑا اور فاطمہ بیگم کے سامنے کھڑی ہو کر دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے عجیب نظروں سے انہیں گھورنے لگی

کیا؟؟؟؟ فاطمہ بیگم نے اس کی گھوری سے کنفیوز ہو کر پوچھا

95٪ کا آپشن کیوں نہیں ہے ؟؟؟ زریش نے آئبرو آچکا کر پوچھا جس پر فاطمہ بیگم نے مدد طلب نگاہوں سے سلطان صاحب کو دیکھا

زری میرا بچہ اتنے اچھے نمبروں پر تو پارٹی ہو گی نا!!! سلطان صاحب کے بولنے پر وہ ان کی طرف گھومی

بلکل کیوں نہیں!!!! زریش ایک دم چہکی جس پر سب نے سکون کا سانس لیا

زری میرے باپ دادا کی توبہ جو آج کے بعد تم سے پنگا لیا!!! قاسم نے پیٹ سہلاتے ہوئے کہا جس پر زریش نے کندھے اچکائے جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ اسی میں تمہاری بھلائی ہے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حضور آپ کے حکم کے مطابق زاویار شاہ کے پیچھے بندے لگا دیے ہیں اور اس کے کچھ خاص ملازم بھی خرید لیے ہیں اس کی حویلی میں اس پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے پر جیسے ہی وہ باہر نکلے گا میرے بندے اس کا کام تمام کر دیں گے!!!! ملک نے اطلاع دی

ہممم ٹھیک ہے اس سے نپٹ لوں پھر اس وکیل کو دیکھتا ہوں!!! شاہ ویز ساری بات سن کر بولا جس پر ملک سر ہلاتا چلا گیا

اب تمہیں پتہ چلے گا میر شاہ ویز سے دشمنی کی سزا کیا ہے!!!! شاہ ویز تصویر میں اس سے خطاب ہوا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

تو نہیں بچتا آج!!!! شازل غصے سے بول کر آگے بڑھا جس پر بازل تیزی سے باہر بھاگ گیا

اب منظر یہ تھا کہ بازل آگے آگے اور شازل پیچھے پیچھے

لالہ بچائیں!!!! شازل باہر سے آتے حائم کے پیچھے چھپ کر بولا

لالہ ہٹ جائیں آج نہیں بچتا یہ!!! شازل اتنا بول کر آگے بڑھا جس پر بازل لان میں بھاگ گیا

دادو ہینڈسم آپ کو آپ کی موچھوں کی قسم بچا لیں!!! بازل لان میں بیٹھے آغا جان کے پیچھے چھپ کر بولا

دادو ہینڈسم کلین شیو کی تیاری کر لیں کیونکہ آج یہ نہیں بچتا!!!! شازل اتنا بول کر آگے بڑھا جس پر بازل اندر بھاگ گیا

امی آپ کو آپکی جوتیوں کا واسطہ مجھے بچا لیں!!! بازل کچن میں آتا فاطمہ بیگم سے بولا

امی آج سے آپ ننگے پاؤں گھومیں گئیں کیونکہ آج یہ نہیں بچتا!!! شازل اس کی طرف بڑھا جس پر وہ باہر بھاگ گیا

بڑی بھابھی مجھے بچا لیں آپ کو آپکے سہاگ کا واسطہ !!!! بازل نے جاناں کے پیچھے چھپ کر کہا

بھابھی سفید جوڑا سلوا لیں آپ بیوہ ہونے والی ہیں یہ نہیں بچتا آج !!!! شازل اتنا بول کر پھر بازل کے پیچھے بھاگ پڑا ساری حویلی والے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے

بڑی مشکل سے شہیر اور فراز نے شازل کو پکڑا جبکہ بازل تو حائم کے پیچھے سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا

ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ تو ؟؟؟ جہانگیر صاحب نے پوچھا

ہونا کیا ہے میرے ایک کولیک کی شادی تھی اور میرا جانے کا من نہیں تھا پر وہ ڈھیٹ کال پے کال کیے جا رہا تھا تو میں نے اس ڈھیٹ کو کہہ دیا کہ کوئی بہانا لگا دے تو اس نے کہہ دیا کہ لالہ کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے وہ نہیں آ سکتے اس چول نے سارے محکمے میں یہ بات آڑا دی ہے کہ میرا ایک بچہ بھی ہے اور اب پورا محکمہ چلا آ رہا ہے مجھے مبارک باد دینے بتائیں کدھر سے پیدا کروں میں بچہ ہاں؟؟؟؟ کیا دیکھاؤں سب کو؟؟؟ شازل غصے سے ہانپتے ہوئے بولا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بازل کو شوٹ کر دے

اوہو تو یہ کونسی بڑی بات ہے آپ کسی اچھے سے ہوٹل میں شام کے ڈنر کی ارینجمنٹ کروائیں اور ہم حائم لالہ کے ساتھ جا کر صارم بھائی سے ان کا بیٹا ہادی ادھار لے آتے ہیں بس مسئلہ ختم!!! زریش نے کہا جس پر سب نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا

صارم حائم کا بچپن کا دوست تھا اور ایک قابل وکیل بھی تھا 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بیٹا آپ میری بات دھیان سے سنوں ابھی کچھ مہمان آئیں گے آپ نے ان کے سامنے مجھے پاپا کہنا ہے اوکے!!!! شازل اپنے سامنے بیٹھے اس چھوٹے سے بچے کو سمجھا رہا تھا وہ سب اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں تھے جہاں شازل نے اپنے سب کولیکز کے لیے ڈنر ارینج کیا تھا

تیوں ؟؟؟ ملے اپنے پاپا فوت ہو دئے ہیں جو آپ تو پاپا تہوں؟؟؟(کیوں میرے اپنے پاپا فوت ہو گئے ہیں جو آپ کو پاپا کہوں) ہادی نے آنکھیں پٹکا کر کہا

بیٹا اگر آپ ایسا کرو گے تو میں آپ کو ڈھیر ساری کھلونوں کی شاپنگ کرواؤں گا!!! شازل نے اسے لالچ دینا چاہا

چاچو آپ تو پولیتھ میں ہیں اول پولیتھ والے تو لیشوت لیتے ہیں آپ تو پولیتھ تے محتمے تو بدنام تر دو گے!!

(چاچو آپ تو پولیس میں ہیں اور پولیس والے تو رشوت لیتے ہیں آپ تو پولیس کے محکمے کو بدنام کر دو گے) ہادی کے کہنے پر شازل کا دل کیا کہ اپنا سر کسی دیوار میں دے مارے

اتھا تھیک نے پل آپ کو پھل میلا ہوم ولک ترنا ہو دا!!

(ٹھیک ہے پر آپ کو پھر میرا ہوم ورک کرنا ہو گا)

ہادی بولا

ٹھیک ہے میرے باپ !!! اب ڈھنگ سے ایکٹنگ کرنا!!! شازل بولا

پلے بتا دو تہ باپ چلنا ہے تہ بیتا؟

( پہلے بتا دو کہ باپ بننا ہے کہ بیٹا) ہادی کے پوچھنے پر شازل کا دل کیا اسے کہیں پھینک آئے تھوڑی دیر میں مہمان آنے شروع ہو گئے

ویسے شازل سر آپ کی شادی کو کتنی دیر ہو چکی ہے ؟؟؟ ایک لڑکے نے پوچھا

چھ ماہ!!! شازل کے منہ سے پھسلا جس پر سب نے چونک کر پہلے اسے دیکھا پھر پاس بیٹھے ہادی کو

میں تین ماہ تا ہوں!!!! ہادی بولا

شازل سر چھ ماہ کی شادی سے تین ماہ کا بچہ کیسے؟؟؟ ایک اور لڑکے نے پوچھا

آف اللّٰہ ایت سال تھ ماہ بندے میں سکتھ تھنتھ نام تی بی توئی تیز ہوتی ہے!!!

(آف اللّٰہ آیک سال چھ ماہ بندے میں سیکس سنس نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے) ہادی تاسف سے بولا جس پر سب ہی شرمندہ ہوتے موضوع بدل گئے

شازل سر آپ کا بیٹا تین ماہ کا لگتا نہیں ہے تین ماہ کے بچے اتنے نہیں ہوتے!!! ایک لڑکی نے کہا

اتنے ہی توتے ہیں دا دل اپنی ماما سے پوتھنا!!! 

(اتنے ہی ہوتے ہیں جا کر اپنی ماما سے پوچھنا) شازل کچھ کہنے والا تھا جب ایک دم ہادی بولا

ہم نے تین ماہ کے بچے دیکھے ہوئے ہیں!!! پاس کھڑے لڑکے نے کہا

تاش تبھی تیشہ بھی دیتھا ہوتا

کاش کبھی شیشہ بھی دیکھا ہوتا

ہادی کے بولنے پر اس نے اس وقت کو کوسا جب اس نے اس کو چھیڑا تھا

ویسے شازل سر آپ کا بیٹا کس پر گیا ہے ؟؟؟ ایک لڑکی نے مسکرا کر پوچھا

ساتھ والے ہماتھائیوں پے دیا ہے بئی ان تا بچہ انی پل جائے گا نا!!

( ساتھ والے ہمسائیوں پر گیا ہے بھئی ان کا بچہ انہیں پر جائے گا نا)  ہادی کے بولنے پر ان سب نے خاموشی میں ہی عافیت جانی

کھانا کھانے کے بعد شازل سب کو سی اوف کرنے باہر تک آیا

تلیں چاچو اب تھوپنگ پل آپ تو پاپا بول تر میلا منہ سوکھ دیا ہے

(چلیں چاچو اب شاپنگ پر آپ کو پاپا بول کر میرا منہ سوکھ گیا ہے) 

ہادی کی آواز پر باہر جاتے سب لوگ ایک دم مڑے اور عجیب نظروں سے شازل کو دیکھنے لگے

وہ آآآآ

شازل سر ہم محکمے سے درخواست کریں گے کہ آپ کو جلد از جلد استعفی جاری کیا جائے اور ساتھ میں فراڈ کا پرچہ بھی کاٹا جائے

شازل کچھ کہنے والا تھا جب ان میں سے ایک شخص بولا اور سب ہی ادھر سے روانہ ہو گئے پیچھے شازل نے غصے سے ہادی کو دیکھا جس نے اس کے دیکھنے پر نچلا ہونٹ باہر نکالا جس پر شازل کا دل کیا یا اسے شوٹ کر دے یا خود کو

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

خان ولا میں اس وقت سب لوگ کھڑے بڑے غور سے شازل کو دیکھ رہے تھے جو کہ لاؤنج کی حالت بگاڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا

اس نے صوفوں کے کور اتار کر نیچے پھینک دیے جگہ جگہ زمین پر کشن رکھ دیے کرسیاں الٹی کر دیں میز الٹا دیا دیوار پر لگی ایل سی ڈی اتار کر زمین پر الٹی رکھ دی کارپٹ اٹھا کر صوفے پر ڈال دیا

دفعتاً وہ کمرے میں گیا اور وہاں سے ڈھیر سارے جوتے لے کر آیا جو اس نے جگہ جگہ زمین پر بکھیر دیے 

پھر بھی دل نہ بھرا تو لان میں رکھے گملے لا کر تڑچھے رکھ دیے

پھر کچھ کمی محسوس ہوئی تو آس پاس دیکھنے لگا یک دم اس کی نظر بی جان پر پڑی تو اس نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے ان کی چھڑی لی اور لا کر درمیان میں رکھ دی پھر ایک مطمئن نظر لاونج پر ڈال کر ان سب کی طرف گھوما جو غور سے اس کی کاروائی دیکھ رہے تھے

چلیں پوچھیں بھی کہ کیا ہوا!!!! اس نے کہا جس پر سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

افوہ کم آن پوچھیں بھی!!! شازل نے پھر کہا

اچھا بھئی بتا دو کہ کیا ہوا ؟؟؟ آغا جان کے پوچھنے پر اس نے زور زور سے تالیاں بجانا شروع کر دیں

تھینک یو دادو ہینڈسم!!! تھینک یو سو مچ!!! ابھی بتاتا ہوں کہ کیا ہوا!!!! شازل اتنا بول کر حائم کی طرف بڑھا جو کہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا

لالہ مجھے تھپڑ ماریں!!! شازل نے اپنا گال حائم کے آگے کر کے کہا

کیا؟؟؟؟ حائم کو لگا کہ شاید اس کا دماغ چل گیا ہے

لالہ تھپڑ ماریں نا !!!! شازل نے پھر کہا

شازی میرا بچہ ہوش کرو!!!! فاطمہ بیگم بولیں

نہیں ماما آپ بیچ میں مت پڑئیں لالہ آپ تھپڑ ماریں!!! شازل نے انہیں ٹوکا کر حائم سے کہا

دیکھو شازی آآآآآآا

لالہ آپ کو بھابھی کی جان کی قسم مجھے تھپڑ ماریں!!!! شازل کے بولنے پر اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ایک نظر پاس کھڑی جاناں کو پھر اگلے ہی لمحے

!!!!! چٹاخ!!!!!

ہاہاہاہاہاہا لالہ مزہ نہیں آیا ایک اور ماریں!!!! شازل نے قہقہہ لگا کر اپنا گال پھر سے اس کے آگے کیا

شازی کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟؟؟ نورالعین نے پریشانی سے پوچھا

تم تو چپ ہی کر جاؤ نور یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے کیا تھا جو تم دو تین سال پہلے مل جاتی یا کیا تھا جو تمہارے ابا نکاح کے ساتھ رخصتی بھی کر دیتے ہاں!!!! 

میں پوچھتا ہوں کیا تھا!!!!!!!!!!!!!! شازل ایک دم چیخا

شازی ریلیکس!!!!! حائم نے اسے پکڑ کر کہا جو پوری آنکھیں کھولے گہرے گہرے سانس لے رہا تھا

ریلیکس ؟؟؟؟

ریلیکس ؟؟؟؟

سیریسلی !!!! میری عزت خاک میں مل گئی ایس پی شازل خانزادہ جس سے ہر گلی ہر کونے میں چھپے مجرم ڈرتے ہیں وہ آج نکلی باپ بننے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکا!!! میں ناکام ہو گیا!! سب کو پتہ چل گیا کہ میں کسی کا باپ نہیں ہوں لالہ میں کیوں نہیں ہوں کسی باپ؟؟؟ لالہ مجھے باپ بننا ہے لالہ کچھ کریں!!!!  شازل غصے سے بولتا بولتا حائم کے گلے لگ کر رو دیا جب کی اس کی باتیں سن کر وہاں موجود ہر شخص ہی حیرت اور شاک کے سمندر میں گھٹنوں تک ڈوب چکا تھا

ہادی تم بتاؤ کیا ہوا ہے ؟؟؟ شہیر نے خاموش بیٹھے ہادی سے پوچھا

ہونا تیا ہے تتنے تتمیز لود ہیں آد تل کے اتنی اہتہ اہتہ تلتے ہیں کہ تہیں پیتھے تے توئی آواد ہی دے دے کہ بئی یہ بچا ہوا تھانا لے تل جاؤ 

( ہونا کیا ہے کتنے بد تمیز لوگ ہیں آج کل کے اتنی آہستہ آہستہ چلتے ہیں کہ پیچھے سے کوئی آواز ہی دے دے کہ بھئی یہ بچا ہوا کھانا لے کر جاؤ)

ہادی منہ بنا کر بولا جبکہ اس کی بات پر شازل کا بی پی شوٹ کر گیا

اس مصیبت کو تو میں نہیں چھوڑنے ہوا!!!! شازل اتنا بول کر جارہانہ انداز میں ہادی کی طرف بڑھا جس پر حائم نے اس کو پیٹ سے تھام کر روکا باقی سب حیرت اور دلچسپی سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اب تو یہ سب معمول تھا ہر وقت کوئی نا کوئی تماشا لگا ہی رہتا تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بازی کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی ؟؟؟ زریش نے بازل سے پوچھا وہ دونوں اس وقت شہر کا رہے تھے

کچھ نہیں زری سامنے یہ دو بکریوں والے بحث کر رہے ہیں آؤ ذرا دیکھیں!!! بازل اتنا بول کر باہر نکل گیا اس کے پیچھے زریش بھی باہر نکلی

بھئی کیا مسئلہ ہے تمہاری اس بکری کو کیوں بار بار میرے ریوڑ میں آ جاتی ہے ؟؟؟ ایک آدمی نے جھنجھلا کر دوسرے آدمی سے پوچھا

کیا ہوا آپ لوگ کیوں بحث کر رہے ہیں ؟؟؟ بازل نے پوچھا

آرے ہونا کیا ہے سائیں اس کی بکری بار بار میرے ریوڑ میں آ جاتی ہے اب تو میں تنگ آ گیا ہوں جتنا مرضی بھگا لوں یہ واپس آ جاتی ہے پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟؟؟ ایک آدمی نے جھنجھلا کر کہا جس پر بازل اور زریش نے دور کھڑی اس بکری کو دیکھا جو کہ ایک بکرے کے پاس کھڑی تھی

ارے یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہم ابھی آپ کی پریشانی حل کر دیتے ہیں!!!! زریش نے کہا جس پر ان دونوں آدمیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر ان دونوں کی طرف

✨✨✨✨✨✨✨

خان صاحب آپ سے کوئی ملنے آیا ہے!!!! ملازم نے لان میں بیٹھے آغا جان کو اطلاع دی

کون آآآآآآآ

اس سے پہلے کہ آغا جان کچھ پوچھتے تین آدمی دھڑام سے ان کے قدموں میں گرے

سائیں ہمیں بچا لیں سائیں اللہ کا واسطہ ہمیں بچا لیں!!!!! ایک آدمی نے کہا

کون ہو تم لوگ اور کس سے بچاؤں تمہیں؟؟؟ آغا جان نے پوچھا

سائیں اپنے پوتوں سے بچا لیں ورنہ ہم نے ہماری بکریوں نے خودکشی کر لینی ہے!!!! ایک چڑواہا بولا 

اب کیا کر دیا انہوں نے ؟؟؟ آغا جان نے تاسف سے پوچھا اتنے میں بازل اور زریش ایک بکری اور بکرا لے کر آئے

مولوی صاحب آپ ادھر ہیں ہم سمجھے آپ بھاگ گئے چلیں بسم اللّٰہ کریں!!!! بازل نے کہا

سائیں مجھے بچا لیں سائیں یہ دونوں پہلے مجھے زبردستی اٹھا لائے اور اب یہ چاہتے ہیں کہ میں ان بکریوں کا نکاح پڑھؤاؤں!!!! مولوی صاحب بولے

زری پتر یہ سب کیا ہے ؟؟؟ آغا جان نے پوچھا

دادو ہینڈسم ان کی بکری ان کے بکرے کو پسند کرتی ہے اس لیے بھاگ بھاگ کر ان کے ریوڑ میں جاتی ہے تو ہم نے سوچا کہ ان کا نکاح کروا دیں تاکہ نہ انہیں مسئلہ ہو نہ ان کے مالکان کو چلیں مولوی صاحب بسم اللہ کیجئے!!!! زریش نے کہا

دیکھیں سائیں بکریوں کے نکاح کے لیے کوئی بکرا مولوی ڈھونڈیں مجھے کونسی ان کی زبان آتی ہے ہر بات تو ان کی مجھے "میں" میں" لگتی ایسے میں مجھے کیسے پتا چلے گا کہ انہوں نے ہاں کی یا نا اور اگر نکاح ہو بھی گیا تو سائن کیسے کرائیں گے !!!! مولوی صاحب بے بسی سے بولے

آف اللّٰہ انگوٹھا لگوا لیں گے آپ شروع تو کریں!!!! بازل بولا

پر بکریوں کے انگھوٹے تو ہوتے ہی نہیں!!! آغا جان بولے 

پھر کیا کریں دادو ہینڈسم ؟؟؟؟ زریش پریشانی سے بولی

ایک کام کرو یہ دونوں بکرا بکری ہمیں بیچ دو ہم خود کوئی بندوبست کر لیں گے!!!! آغا جان کے بولنے پر زریش کا چہرہ کھل اٹھا لیکن یہ چمک وقتی تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

شام کا وقت تھا پورے خان ولا میں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی آغا جان پریشان سے صوفے پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھے تھے باقی سب بھی پریشان سے ان کے پاس موجود تھے ہر کوئی خاموش تھا جیسے کسی میں کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی سب بس شکوہ کرتی نظروں سے آغا جان کو دیکھ رہے تھے جن کی ایک غلطی کی وجہ سے آج سب اس مشکل میں پھنس چکے تھے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی

کیا ہوا مانی نہیں وہ؟؟؟ بی جان نے اندر آتیں فاطمہ بیگم کو دیکھ کر امید سے پوچھا

نہیں بی جان!!! فاطمہ بیگم نے افسوس سے کہا

خان صاحب کیا ضرورت تھی آپ کو یہ کرنے کی ؟؟؟ بی جان نے دکھ سے آغا جان کو دیکھ کر کہا

ارے ہم نے تو سب کی بھلائی سوچی تھی ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ سب ہو جائے گا!!!! آغا جان افسوس سے بولے

ارے بس اب اور صبر نہیں ہوتا جاؤ کوئی زری سے کہو کہ کھانے کی پتیلی واپس کر دے اب کیا اس نے اس میں سے ذبح ہوا بکرا واپس نکالنا ہے!!!! فرخندہ بیگم بولیں

آغا جان آپ کو کیا ضرورت تھی بکرا ذبح کروانے کی ؟؟؟ فراز بولا

بھئی میں نے سوچا تھا کہ شام کو اس کا قورمہ بنائیں گے مجھے کیا پتہ تھا کہ زری بکرے کی موت کو اتنا سیریس لے گی اور پتیلی اٹھا کر ہی بھاگ جائے گی!!! آغا جان بولے

وہ باہر پورا صفحہ ماتم پچھا کر بیٹھی ہے!!! پلوشہ نے کہا

ہاں اور میری نئی سفید چادر لے گئی ہے اور اس بکری پر ڈالی ہے کہ یہ عدت میں ہے!!! فردوس بیگم بولیں

ہاں جی اور ہم میں سے کسی کو بھی پاس نہیں آنے دے رہی کہ بکری تازی تازی بیوہ ہوئی ہے!!! شازل بولا

بس بہت ہو گیا تم چاروں جاؤ اور جا کر اسے مناؤں ہم سے اب اور بھوک برداشت نہیں ہوتی!!! سلطان صاحب نے کہا جس پر وہ چاروں بھائی باہر چل دیے

زری!!!! حائم نے اسے پکارا جو سفید جوڑا پہنے بکری پر سفید چادر اوڑھے کھانے کی پتیلی کے پاس بیٹھ کر سوگ منا رہی تھی

لالہ آپ وہیں روک جائیں آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ یہاں ایک بیوہ بیٹھی ہے!!! زریش دکھ سے بولی

زری میرا بچہ بس کرو اندر سب بھوک سے ہلکان ہو رہے ہیں!!! حائم بولا

نہیں لالہ میں کسی کو بھی اس قورمے کے پاس بھی نہیں آنے دوں گی اس کی ہم تدفین کریں گے!!! زریش بولی

زری خبر دار جو تم نے اتنا لذیذ قورمہ ضائع کیا!!! بازل بولا

شرم کرو وہ قورمہ تمہارے ہلک سے کیسے اترے گا جس میں کسی کے جذبات کا قتل شامل ہو!!! زریش بولی

زری قتل نہیں اس میں دیسی گھی شامل ہے ساتھ میں مزے دار مصالحے ڈال کر ہلکی آنچ پر بھونا گیا ہے!!! شہیر بولا

اچھا روکیں ذرا!!! زریش نے اتنا بول کر ڈھکن ہٹا کر ایک بوٹی منہ میں رکھی

آف اللّٰہ کیا قورمہ ہے چلیں ٹھیک ہے ایک کام کرتے ہیں اس قورمے سے انصاف کرتے ہیں اور اس بکری کو کوئی اور ہینڈسم سا بکرا ڈھونڈ دیتے ہیں!!! زریش بولی

ڈن ہم صبح ہی جا کر کوئی ہینڈسم سا بکرا لا کر ان دونوں کی شادی کروا دیں گے لیکن ابھی جلدی اندر چلو یہ نہ ہو کہ بھوک سے سارے مر ہی جائیں!!! شازل کے کہنے پر وہ سب ہی اندر چل دیے 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

سائیں مجھے میرے ملازم نے اطلاع دی ہے کہ تھوڑی دیر تک زاویار شاہ ڈیرے کے لیے نکلے گا!!!!! ملک نے کہا

ٹھیک ہے تم اپنے آدمیوں کو بھیج کر اس کا کام تمام کروا دو اور ہاں یہ کام بہت احتیاط سے کرنا ہے کیونکہ بات صرف شاہوں کی نہیں ہے بلکہ خانزادوں کی بھی ہے!!!! شاہ ویز نے کہا جس پر ملک سر ہلاتا چلا گیا

آف کیا کہرام مچے گا دونوں حویلیوں میں جب زاویار شاہ کی خون میں لت پت لاش ملے گی!!!!

کاش زاویار شاہ تم اپنی زبان پر قائم رہتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا!!!

چچ!!!

چچ!!!

چچ!!!

زاویار اتنا بولتا شیطانی ہنسی ہنسا اس بات سے انجان کہ تھوڑی دیر تک اس کی یہ ہنسی غائب ہونے والی ہے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

نانا جان آپ کتنے کوئی سیلفش انسان ہیں آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کے ڈیرے پر گھوڑے بھی ہیں!!! زریش نے دونوں بازوں کمر پر ٹکا کر لڑاکا انداز میں کہا

ہاں ہیں کیوں؟؟ اکبر شاہ نے پوچھا

مجھے گھوڑ سواری کرنی ہے چلیں اٹھیں مجھے لے کر چلیں اکیلے کوئی جانے نہیں دے گا اور لالہ بھی گھر پر نہیں ہیں!!! زریش نے معصومیت سے کہا

بھئی ہمیں تو بہت زور کی بھوک لگی ہے ہم تو نہیں چل رہے تم پھر کسی دن چلی جانا!!!! اکبر شاہ مسکرا کر بولے

نہیں مجھے ابھی جانا ہے ورنہ میں یہاں سے ہلوں گی بھی نہیں!!! زریش اتنا بول کر پیچ صحن آلتی پالتی کر کے بیٹھ گئی

کیا ہوا ہے یہ ادھر دھرنا دے کر کیوں بیٹھی ہے ؟؟؟ سیڑھیاں اترتے زاویار نے پوچھا

مسٹر ہٹلر تم اپنے کام سے کام رکھو سمجھے!!! زریش بولی

دادا سائیں آپ ہی بتا دیں کونسے کیڑے نے کاٹا ہے اسے؟؟ زاویار نے اکبر شاہ سے پوچھا

بھئی زری کو ڈیرے پر جا کر گھوڑ سواری کرنی ہے پر ہمیں بھوک لگی ہے اس لیے ہم نہیں جا سکتے اس لیے منہ بنا کر بیٹھی ہے!!! اکبر شاہ نے بتایا

اچھا ویسے میں بھی ادھر ہی جا رہا ہوں چلنا ہے؟؟؟ زاویار کے بولنے پر اس کی آنکھوں چمکیں

جی بلکل چلیں!!! زریش جلدی سے اٹھ کر بولی

ایک شرط پر!!!!

کیا؟؟؟؟

پہلے بولا پلیز!!!! زاویار کے بولنے پر اس نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کا دماغ ہل گیا ہو

میں بولوں وہ بھی تمہیں؟؟؟ 

جی بلکل!!!

مر کر بھی نہیں!!!!

تو پھر ٹھیک ہے رہو ادھر ہی!!! زاویار اتنا بول کر باہر چل دیا

زاوی!!!! اس نے پیچھے سے پکارا

ہممم !!!!

پلیز!!!!

پھر بولو!!!!

پلیز!!!!

پھر بولو!!!!

نانو!!!!!

اس کے تیسری دفع بولنے پر اس نے نے بڑی بی کو آواز لگائی

اچھا اچھا چلو!!!! زاویار کے بولنے پر وہ اس کے ساتھ چل پڑی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ویسے مس آفت تم نے کبھی غور کیا ہے کہ جب تم بولتی ہو تو سامنے والے بندے کا دل کرتا ہے یا تو تمہارا گلہ دبا دے یا خود کسی دریا میں چھلانگ لگا دے!!!!! زاویار نے ساتھ بیٹھی زریش سے پوچھا

ہاں میں نے بہت بار غور کیا ہے اور یہ بھی غور کیا ہے کہ سامنے والا بے حد ڈھیٹ ہے بھئی اگر اتنا دل کر ہی رہا ہے تو روکے کیوں ہو سیدھا جا کر راوی میں کود جاؤ پر نہیں اتنا حوصلہ کہاں ہے آج کل کے لوگوں میں!!!! زریش بولی

ویسے ایک بات بتاؤ تمہارے گھر والے عاجز نہیں آ جاتے تمہاری بک بک سن کر ؟؟؟ زاویار نے پوچھا وہ بہت خاموش طبیعت کا مالک تھا پر پتہ نہیں کیوں اس آفت سے بات کرنا اسے اچھا لگ رہا تھا

نہیں میرے گھر والے بلکل عاجز نہیں آتے بلکے اگر میں چپ کر جاؤں تو سب کو فکر ہونے لگ جاتی ہے کہ کہیں میں فوت تو نہیں ہو گئی کیونکہ جیتے جی تو میں چپ کرنے والی چیز نہیں!!!! زریش کی بات پر اس نے غور سے اسے دیکھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں سامنے دیکھ کر چلائیں ورنہ اس عمر میں تمہارے امی ابو کہاں سے نیا بیٹا پیدا کریں گے ؟؟؟

استغفرُللہ!!!! ویسے میں دیکھ رہا تھا کہ تم صرف میک اپ میں ہی پیاری لگتی ہو ورنہ حقیقت میں تو عام سی ہو!!!! زاویار نے مسکراہٹ دبا کر کہا

اوہ مسٹر میں نیچرل بیوٹی ہوں مجھ جیسی حسین لڑکی پورے خاندان میں نہیں ملے گی دیکھاؤ کوئی ایک لڑکی جس کی نیلی آنکھیں ہوں اور نہ ہی کسی کے پاس مجھ جیسا ڈمپل ہے!!!! زریش اعتماد سے بولی

یہ ڈمپل پر کیسی اکڑ یہ تو اکثر لوگوں کے پاس ہوتے ہیں!!!! زاویار بولا

ہاں تم تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کے پاس بھی ہیں!!!! 

ہاں تو ہیں نا !!!

جھوٹے!!!! اگر ہیں تو دیکھاؤ!!!!

جب ہنسوں گا تب دیکھ لینا!!!!

لو جی اب میں قیامت تک انتظار کرتی رہوں ابھی ہنسیں مجھے ابھی دیکھنے ہیں تمہارے انتظار میں بیٹھی رہی تو یہ حسرت قبر میں لے کر جاؤں گی!!!! 

اچھا بابا لو دیکھ لو!!!! زاویار اتنا بول کر مسکرایا زریش نے دیکھا اس کے دونوں گالوں پر ڈمپلز تھے

یہ چیٹنگ ہے میری ماما اور تمہارے بابا سگے بھائی بہن ہیں پھر یہ ناانصافی کیوں مجھے ایک ڈمپل ملا اور تم جیسے بندر کی شکل والے کو دو دو !!!! زریش رونی صورت بنا کر بولی

بس بھئی یہ تو نصیب کی بات ہے پر تم کیا جانو تمہاری تو قسمت ہی خراب ہے!!!! زاویار نے اسے مزید چھیڑا اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر اسے مزہ آ رہا تھا

تم ہو گے پیدائشی بد نصیب میری تو قسمت پیدائشی طور پر شہزادیوں جیسی ہے اور دیکھنا کوئی شہزادہ ہی آئے گا میرے لیے!!! زریش ایک ادا سے بولی

ہاں جی شہزادہ ہی آئے گا وہ بھی کوہ قاف کا!!! زاویار اتنا بول کر ہنسنے لگا اور یہ پہلی بار تھا کہ زریش نے اسے ہنستے دیکھا تھا ورنہ وہ بہت سنجیدہ مزاج تھا

وہ بھی تم سے بہتر ہو گا!!! زریش جل کر بولی

تو پھر مجھ سے ہی کام چلا لو!!! زاویار اس کی طرف دیکھ کر معنی خیزی سے بولا پر اس کا دھیان سامنے تھا

زاوی!!! سامنے دیکھیں!!!! زریش کے بولنے پر اس نے سامنے دیکھا جہاں تین لوگ منہ پر کپڑا باندھے ہاتھوں میں پسٹل پکڑے کھڑے تھے انہیں دیکھ کر زاویار نے گاڑی روکی جس پر وہ تینوں اس کی طرف بڑھے

زری باہر مت آنا!!! زاویار اتنا بول کر باہر نکل گیا

بہت جلدی میں لگتے ہو زاویار شاہ روکو ابھی تمہیں ہمیشہ کے لیے فارغ کر دیتے ہیں!!!! ایک آدمی نے کہہ کر پسٹل اس کی جانب اٹھائی

رکو!!! رکو!!! رکو!!! ایک منٹ ڈاکو بھائی اس طرح مزہ نہیں آ رہا ایک کام کریں کوئی اور ڈائیلاگ بولیں اور اس فارغ آدمی کو بھی کچھ بولنے دیں اسی طرح تو فلموں میں ہوتا ہے ویلن اور ہیرو ڈیڑھ گھنٹہ آپس میں بک بک کرتے رہتے ہیں پھر انہیں یاد آتا ہے کہ انہوں نے لڑنا بھی تھا!!!! وہ آدمی گولی چلانے والا تھا جب ایک دم سے زریش باہر نکل کر بول اٹھی

یہ کون ہے ؟؟؟؟ دوسرے آدمی نے پوچھا

ارے پکڑو اسے بھاگنے نہ دینا اس کے ساتھ اسے بھی یہیں مار دیں گے!!!! پہلے آدمی نے کہا

ارے مجھے کیوں آپ کو تو اس کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے نا تو مجھے مار کر آپ کو کونسے زیادہ پیسے مل جانے ہیں الٹا ایک گولی ہی ضائع ہو گی!!!!! زریش تحمل سے بولی

ہاں بھئی لڑکی ٹھیک کہہ رہی ہے ہم صرف اس کو ہی مارتے ہیں!!!! تیسرے آدمی نے زاویار کو دیکھ کر کہا

ہممم ٹھیک ہے!!!! پہلے آدمی نے بول کر پسٹل زاویار پر تان لی

رکیں ایک منٹ آپ کیا انہیں ادھر ہی ماریں گے ؟؟؟؟ زریش نے پوچھا

ہاں!! کیوں ؟؟؟؟ اس آدمی نے کہا

ارے اس جگہ سے تو ایک آدھ گھنٹے میں ہی کوئی انہیں اٹھا کر لے جائے گا کیونکہ میں نے بھی ان کو مرتا دیکھ کر بے ہوش ہو جانا ہے تو ایسے میں مزہ نہیں آئے گا!!!! زریش بولی

تو پھر کیا کریں ؟؟؟ تیسرا آدمی بولا

آپ ایک کام کریں انہیں کسی خوفیا جگہ لے جائیں پھر ماریں تا کہ ان کے گھر والوں کو کچھ مشکل تو ہو انہیں ڈھونڈنے کی!!!! زریش کے بولنے پر وہ سوچ میں پڑ گیا جبکہ زاویار مسلسل اسے گھور رہا تھا جس پر وہ اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی

ہممم ٹھیک ہے اس طرح تو باس بھی خوش ہو جائیں گے چلو اسے فارم ہاؤس لے چلتے ہیں!!!! دوسرا آدمی بولا

ہاں یہ ٹھیک رہے گا چلو چلیں!!!! زریش اتنا بول کر آگے بڑھ کر گاڑی میں بیٹھ گئی

تم کدھر؟؟؟ دوسرا آدمی بولا

کیا مطلب مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں ورنہ اگر میں نے جا کر پولیس کو اطلاع دے دی تو مسئلہ ہو جائے گا نا!!! زریش نے جیسے اس کی عقل پر ماتم کیا

بلکل لڑکی ٹھیک کہہ رہی ہے اسے بھی ساتھ لے کر چلو!!! پہلا آدمی بولا

ویسے ایک بات کہوں مجھے نا یہ والے بھائی سب سے سمجھدار لگتے ہیں دیکھو نا کیسے باس والی پرسنیلٹی ہے اور شکل سے ہی خاندانی ڈاکو لگتے ہیں ہے نا زاوی؟؟؟ زریش نے بول کر زاویار سے پوچھا جس نے مجبوراً ہاں میں سر ہلایا جبکہ اس آدمی کا سینہ چوڑا ہو گیا

ہممم چلو چلیں!!!! پہلے آدمی کے بولنے پر سب گاڑی میں بیٹھ گئے

ویسے ڈاکو بھئی اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں لالہ کو فون کر کے بتا دوں ورنہ وہ پریشان ہوں گے!!!! زریش نے پوچھا

ارے نہیں نہیں ایسے تو انہیں پتہ لگ جائے گا!!!! گاڑی چلاتا دوسرا آدمی فوراً بولا جبکہ زاویار بس خاموشی سے اس آفت کی کاروائی دیکھ رہا تھا

آپ تو چپ کریں آپ باس ہیں کیا میں نے ڈاکو بھائی سے پوچھا ہے آپ سے نہیں ویسے بھی یہاں صرف ڈاکو بھائی کا آرڈر چلتا ہے کیوں ڈاکو بھائی ؟؟؟؟ زریش کے بولنے پر وہ آدمی مزید چوڑا ہو گیا

ہاں ٹھیک کہا تم کر لو فون !!!! پہلے آدمی کے بولنے پر اس نے جلدی سے شازل کا نمبر ملایا

ہاں زری بولو کیا ہوا؟؟ شازل نے کال ریسیو کر کے پوچھا

لالہ وہ ہم نا ذرا سا اغواہ ہو گئے ہیں بس یہی بتانا تھا!!! زریش نے آرام سے بتایا جبکہ دوسری جانب شازل کا سانس رک گیا 

کیا!!!!! کس نے کیا ہے ؟؟؟؟ شازل ایک دم اٹھا وہ اس وقت پولیس سٹیشن تھا

لالہ دو بے وقوفوں اور ایک نہایت ذہین ڈاکو بھائی نے!!!! زریش کے بولنے پر اس آدمی نے موچھوں کو مڑورنا شروع کر دیا

ارے مین بندہ کون ہے کس کے آرڈر پر؟؟؟ شازل نے بے چینی سے پوچھا

ایک منٹ میں پوچھتی ہوں!!! ڈاکو بھائی آپ کو کس نے آرڈر دیا ہے ہمیں اغواہ کرنے کا ؟؟؟

میر شاہ ویز نے!!!!

اچھا لالہ میر شاہ ویز کے آرڈر پر !!! اب نا یہ ہمیں ایک فارم ہاؤس لے جا رہے ہیں آپ پریشان مت ہوئیے گا!!!! زریش نے اتنا بول کر کال کاٹ دی جبکہ دوسری جانب شازل تیزی سے حائم کو کال ملانے لگا

ہاں بولو شازی کیا ہوا؟؟؟؟ حائم نے جاناں کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر پوچھا

لالہ زریش کو میر شاہ ویز نے اغواہ کر لیا ہے!!! شازل نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بتایا جبکہ کے اس کی بات سن کر حائم کے ہاتھ میں موجود پانی کا گلاس چھن سے ٹوٹ گیا

پتہ کرو وہ کہاں ہیں!!!! حائم نے اتنا بول کر فون رکھ دیا جبکہ کانچ ٹوٹنے کی آواز پر سب ہی اس کی جانب متوجہ ہوئے

حائم آپ کے ہاتھ سے خون نکل رہا ہے!!!! جاناں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا پر وہ ان سنی کر کے آٹھ کھڑا ہوا تیزی سے کمرے میں گیا اور تھوڑی دیر میں ہاتھ میں گن پکڑے باہر آیا

حائم کیا ہوا ہے کدھر جا رہے ہو ؟؟؟ سلطان صاحب نے اسے روک کر پوچھا جس کی آنکھیں خون جھلکانے کی حد تک سرخ ہو رہیں تھیں

زری کو میر شاہ ویز نے اغواہ کر لیا ہے!!!! حائم اتنا بول کر باہر نکل گیا جبکہ اس کی بات پر شہیر اور بازل بھی تیزی سے باہر کو لپکے جبکہ فاطمہ بیگم کا ہاتھ بے اختیار سینے پر گیا اس پہلے کے وہ گرتیں جاناں اور نورالعین نے آگے بڑھ کر انہیں تھاما

پورے خان ولا میں ایک دم وحشت سی پھیل گئی 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اب اسے مار دیں کیونکہ یہاں سے تو اسے اس کے گھر والے نہیں ڈھونڈ سکتے!!! دوسرے آدمی نے کہا

ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے پہلے اپنے باس کو فون کریں انہیں یہاں بلائیں اور ان کے سامنے اسے ماریں تا کہ وہ بھی خوش ہو اور آپ کو بھی انعام ملے!!!! زریش کے بولنے پر پہلا آدمی فوراً باہر فون کرنے چل پڑا

ویسے میں نے حساب لگایا ہے آپ دونوں کی بھی ہماری طرح کوئی عزت نہیں!!! زریش نے ان دونوں کو دیکھ کر افسوس سے کہا

کیا مطلب ؟؟؟ دوسرے آدمی نے پوچھا

مطلب یہی کہ کام تو آپ دونوں بھی اتنا ہی کرتے ہیں پر سارا کریڈٹ ڈاکو بھائی کو مل رہا اب بھی دیکھیں فون کرنے وہ چلے گئے ہیں فون پر کہیں گے کہ میں نے جان پر کھیل کر انہیں اغواہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ آپ دونوں کو کیا ملے گا ؟؟؟ زریش کے بولنے پر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اتنے میں پہلا آدمی واپس آیا

میں نے سائیں کو کہہ دیا ہے کہ وہ جلدی یہاں آ جائیں اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ میں انہیں فارم ہاؤس پر لے آیا ہوں!!! اس آدمی نے بتایا جس پر زریش نے آنکھیں پٹکائی جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہا تھا نا

انہیں صرف تم لائے ہو یا ہم بھی شامل تھے ؟؟؟ تیسرے آدمی نے پوچھا

کیا مطلب ؟؟؟ پہلے آدمی نے نا سمجھی سے پوچھا

مطلب یہ کہ کام ہم نے بھی برابر کا کیا ہے تو تعریفیں ساری تم کیوں سمیٹو؟؟؟ دوسرے آدمی نے کہا

ارے کیا مطلب سارا آیڈیا تو ڈاکو بھائی کا تھا نا!!! زریش بولی

سنا تم نے اب چپ کرو!!!! پہلا آدمی روعب سے بولا

پر زری پیسے تو سب کو برابر ملیں گے نا؟؟؟ زاویار بولا وہ اس کی گیم سمجھ گیا تھا

ارے کیوں ڈاکو بھائی باس ہیں ان کو زیادہ پیسے ملنے چائیے!!! زریش بولی

بلکل نہیں ہمیں بھی برابر کا حصہ ملے گا!!! دوسرا آدمی چیخا

دیکھو زاوی کیسے چیخ رہا ہے بھلا مستری اور مزدور کی تنخواہ بھلا ایک جیسی ہوتی ہے!!!! زریش نے کہا

ہاں کیسے گلے کو آ رہا ہے اگر کوئی میرے سامنے ایسے بولتا تو میں ایک تھپڑ رکھ کر مارتا اسے!!! زاویار کے بولنے پر پہلے آدمی نے غصے سے دوسرے آدمی کو دیکھا اور آگلے ہی لمحے

چٹاخ!!!!!!!

آف اللّٰہ سیدھا تھپڑ ہی مار دیا اگر کوئی مجھ پر ہاتھ اٹھاتا تو میں تو سیدھا اس کے سر میں ڈنڈا مار دیتی!!! زریش کے بولنے پر دوسرے آدمی نے پاس پڑا لکڑی کا ڈنڈا کھینچ کر پہلے آدمی کے سر پر مارا

ارے کیا کر رہے ہو ؟؟؟ تیسے آدمی نے انہیں چھوڑانا چاہا

اگر کوئی میرے معاملات کے بیچ پرتا تو میں تو اس کی ٹانگیں توڑ دیتا!!! زاویار کے بولنے پر دوسرے آدمی نے وہی ڈنڈا کھینچ کر تیسرے آدمی کی ٹانگوں پر مارا جس سے وہ چیختا ہوا نیچے گرا اتنے میں زاویار نے پیچھے سے ایک اینٹ پکڑ کر کھینچ کر دوسرے آدمی کے سر پر ماری جس سے وہ لمحوں میں بے ہوش ہو گیا زریش نے آگے بڑھ کر ان سب کی پسٹلز پکڑیں

ویسے ماننا پڑے گا تم نے تو کمال کر دیا!!! زاویار نے مسکرا کر کہا

بس کیا کریں دنیا بے وقوفوں سے بھری پڑی ہے!! زریش نے بال جھٹک کر کہا اور وہ دونوں ہنس پڑے اتنے میں انہیں باہر ٹائروں کی آواز سنائی دی

لو جی مرغا آ گیا ہے!!! زریش نے کہا

چلو مل کر اس کا قیمہ بناتے ہیں!!! زاویار کے کہنے پر وہ دونوں ہی ایک ایک پلر کے پیچھے چھپ گئے

ملک تمہارے بندوں سے ایک کام ڈھنگ سے نہیں ہوا یہاں کیوں بلایا ہے انہوں نے سیدھا سیدھا مارا کیوں نہیں ان کو؟؟؟ شاہ ویز غصے سے ساتھ چلتے ملک پر برس رہا تھا کہ اتنے میں اس کی نظر لہو لہان بے ہوش پڑے اپنے آدمیوں پر پڑی

یہ !!! یہ کیا ہوا؟؟؟ اور یہ زاویار کدھر ہے؟؟؟ شاہ ویز نے پوچھا

حضور لگتا ہے کہ وہ بھاگ گیا ہے!!! ملک ان تینوں کو دیکھتے ہوئے کہا

پیچھے جاؤ اس کے!!!!! آج وہ زندہ گھر نہیں جانا چاہیے!!!! شاہ ویز تقریباً چیخا جس پر ملک جلدی سے باہر بھاگ گیا پیچھے اس نے غصے سے کرسی کو ٹھوکر ماری

چچ چچ چچ!!! اتنا غصہ!!! ٹھنڈے ہو جاؤ اتنا غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہے!!! زاویار کی آواز پر وہ جھٹکے سے مڑا جہاں وہ سینے پر بازو لپیٹنے کھڑا تھا

تم !!!! آج تو تم زندہ نہیں بچو گے!!! شاہ ویز نے اتنا بول کر گن اس پر تانی اس پہلے کہ وہ فائر کرتا ایک ہیل ہوا میں اڑتی ہوئی آئی اور سیدھا اس کے ہاتھ پر لگی جس سے اس کے ہاتھ سے گن چھوٹ گئی

زاویار نے موقعے کا فائدا اٹھاتے ہوئے ایک مکا کھینچ کر اس کے منہ پر مارا جس سے وہ لڑکھڑایا کر پیچھے گھوما اس سے پہلے کہ وہ گرتا ایک نسوانی ہاتھ نے اسے بالوں سے پکڑ لیا شاہ ویز نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے زریش مسکرا کر اسے بالوں سے پکڑے کھڑی تھی

اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتا 

چٹاخ!!!!

یہ میری بھابھی پر نظر رکھنے کے لیے!!!! زریش نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑا جس پر وہ ایک دم گھوما زاویار نے آگے بڑھ کر اسے پکڑا

چٹاخ!!!!

یہ میری بہن پر نظر رکھنے کے لیے!!!! زاویار کے تھپڑ مارنے پر وہ واپس زریش کے ہاتھ آ گیا

چٹاخ!!!!!!

یہ مجھے اغواہ کرنے کے لیے!!!!! وہ پھر گھوم کر زاویار کے پاس آ گیا

چٹاخ!!!!!

یہ مجھے اغواہ کرنے کے لیے!!!!

چٹاخ!!!!!

یہ میرا پلان کینسل کروانے کے لیے!!!! زریش نے تھپڑ مار کر کہا

چٹاخ!!!!!

یہ زری کا پلان کینسل کروانے کے لیے!!!! زاویار نے تھپڑ مار کر کہا

چٹاخ!!!!

یہ میرے ہٹلر کزن کو مارنے کی کوشش کرنے کے لیے!!!!!

چٹاخ!!!!

یہ میری آفت پلس کزن کو مارنے کی کوشش کرنے کے لیے!!!! وہ دونوں باری باری اسے تھپڑ جڑھ رہے تھے اور شاہ ویز کا ان کے تھپڑوں سے برا حال ہو چکا تھا

زری!!!!!!! اتنے میں حائم نے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے پکارا اس کے پیچھے شازل ، شہیر اور بازل بھی تھے

لالہ میں ادھر ہوں!!! زریش کی آواز پر وہ چاروں بھاگ کر ادھر پہنچے جہاں وہ سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی

اس کو دیکھ کر اس کے چاروں بھائی نے اسے خود میں پیچ لیا ایسے کہ وہ اب اب چاروں کے بلکل درمیان میں تھی

تم ٹھیک ہو نا!!! وہ چاروں باری باری اس کا ماتھا چومتے پیچھے ہوئے!!! حائم کے بولنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا 

زاویار پاس کھڑا مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا دفعتاً اس کا دھیان پیچھے دروازے پر گیا جہاں ملک زریش کا نشانہ لیے کھڑا تھا

زری!!!!! زاویار چیخا پر اتنے میں ملک نے گولی چلا دی پر گولی زریش کی بجائے حائم کے بازو پر لگ گئی!!!! 

لالہ!!!!!!!! زریش چیخی جبکہ شہیر اور بازل نے اس کے گرد حصار بنایا تھا حائم بازو پر ہاتھ رکھے ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا

اتنے میں ملک نے پھر زریش پر گولی چلائی جو کہ شازل نے اپنے کندھے پر سہہ لی

زاویار نے شاہ ویز کے پاس پڑی گن اٹھا کر ملک پر فائر کیا جو کہ سیدھا اس کے سر پر لگا اور وہ ایک دم سے زمین بوس ہو گیا

لالہ آپ دونوں ٹھیک ہیں!!! زریش نے ان دونوں کے خون سے لت پت بازو دیکھ کر پوچھا اپنے بھائیوں کو اس حال میں دیکھ کر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل رہے تھے 

زری میری جان فکر نہیں کرو لالہ بلکل ٹھیک ہیں!!!! شہیر نے اسے تسلی دی ان دونوں کی حالت اسے بھی پریشان کر رہی تھی پر اس سے زیادہ اسے زریش کے آنسوں تکلیف دے رہے تھے

لالہ جلدی ہاسپٹل چلیں بہت خون بہہ رہا ہے!!!! بازل کے بولنے پر وہ سب ہاسپٹل روانہ ہو گئے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ڈاکٹر آرام سے کریں نا میرے لالہ کو درد ہو رہا ہے!!! زریش نے کوئی بیسویں دفع کہا جس پر ڈاکٹر کا دل کیا کہ اپنے بال نوچ لے

دیکھیں میم ہمیں اپنا کام کرنے دیں!!! پاس کھڑی نرس نے کہا

تو کریں نا پر آرام سے کریں ہمارے لالہ کو درد نہیں ہونا چاہیے!!! پاس کھڑے بازل نے سنجیدگی سے کہا جبکہ ان کے انداز پر جہاں حائم اور شازل مسکرا رہے تھے وہیں زاویار کا بی پی کبھی ہائی کبھی لؤ ہو رہا تھا

ارے اسے سائڈ پر کریں اس سے میرے لالہ کو درد ہو گی!!! شہیر نے ڈاکٹر کو شازل کے بازو پر انجیکشن رکھتے دیکھا تو بولا

دیکھیں سر یہ ضروری ہے!!! ڈاکٹر نے کہا

بلکل نہیں آپ بس میڈیسن دے دیں ہم نے کوئی نہیں لگوانا یہ انجیکشن وغیرہ!!! زریش کے بولنے پر اس ڈاکٹر نے جلدی سے میڈیسن لکھیں اور پرچی بازل کو تھامائی

لالہ آپ چلیں میں میڈیسن لے کر آتا ہوں!!!! بازل کے بولنے پر وہ سب چل دیے پیچھے ہاسپٹل کے عملے نے جان خلاصی پر شکر ادا کیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

رات کے تقریباً بارہ بجے وہ لوگ خان ولا پہنچے جہاں دونوں حویلیوں کے افراد ان کے منتظر تھے

زری!!!!

زاویار!!!!! فاطمہ بیگم اور فوزیہ بیگم نے ان کو آتا دیکھ جلدی سے سینے سے لگا کر ان کا منہ چوما

آف اللّٰہ امی بس بھی کریں کشمیر فتح کر کے نہیں آ رہا میں!!! زاویار جھنجھلا کر بولا

ہائے امی بس کریں ورنہ آپ کے اس قدر پیار پر مجھے ہاٹ اٹیک آ جانا ہے!!!! زریش بولی 

اللہ نہ کرے اللّٰہ تجھے میری بھی عمر لگا دے!!! بی جان اسے فاطمہ بیگم سے الگ کرتیں اپنے ساتھ لگاتیں بولیں

اب کیا فائدا آپ نے تو اچھی خاصی اپنی عمر گزار لی ہے اب تو صرف موت والا سیشن رہ گیا ہے وہ بھی آپ خود ہی کر لیں!!!! زریش کے بولنے پر بی جان نے اسے گھورا جبکہ باقی سب کی ہنسی نکل آئی یہ لڑکی واقع آفت تھی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ارے آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں سوئے نہیں ؟؟؟ جاناں تقریباً ایک بجے کمرے میں داخل ہوئی تو حائم کو صوفے پر لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا پا کر کہا جبکہ اس کی بات پر حائم نے جواب دینا تو دور اسے دیکھا تک نہیں

حائم!!!! جاناں نے اسے خاموش پا کر پکارا پر اس نے ان سنا کر دیا جس پر وہ پریشان سی اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی

حائم کیا ہوا ہے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں!!! جاناں نے اسے دیکھ کر پوچھا جو اسے اگنور کیے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا

حائم آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟؟؟ وہ ہنوز خاموش رہا

حائم میری طرف دیکھیں تو!!! جاناں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا پر وہ پھر بھی متوجہ نہ ہوا

حائم اب اگر آپ نہ بولے تو میں بتا رہی ہوں میں نے رونا شروع کر دینا ہے!!! جاناں کے بولنے پر اس نے اس کی طرف دیکھا کافی دیر آنکھوں میں خفگی لیے اسے دیکھنے کے بعد اس نے آہستہ سے لب کھولے

مل گئی فرصت تمہیں نند سے مجھے تو لگا تھا آج رات ادھر ہی قیام کرو گی !!! حائم کے بولنے پر اس نے سکون کا سانس لیا

آف اللّٰہ میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا!!! جاناں کے بولنے پر اس کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہو گیا

تمہارے نزدیک میری ناراضگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی جیسے میرے ناراض ہونے سے تمہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور ایک میں ہی پاگل ہوں جو اتنی رات تک بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں!!!! حائم نے غصے سے بول کر منہ موڑ لیا جس پر جاناں نے مسکرا کر اپنے اس شوہر کو دیکھا جو کہ اس وقت کوئی چھوٹا سا بچہ لگ رہا تھا پھر اس نے ہولے سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور سر اس کے کندھے سے ٹکا دیا

حائم!!!!! تھوڑی دیر بعد جاناں نے اسے پکارا پر وہ منہ موڑے بیٹھا رہا

سوری!!!!

پاس رکھو اپنی سوری!!! لہجہ خفا تھا

پلیز اس دفع معاف کر دیں!!!

نہیں!!!! حائم کے سپاٹ جواب پر جاناں نے اس کا تھاما ہاتھ لبوں سے لگایا جس پر حائم نے چونک کر اسے دیکھا ماتھے کے بل ایک دم غائب ہو گئے

سوری!!!! اس کے دیکھنے پر دھیرے سے کہا

تم مجھے بلکل وقت نہیں دیتی!!! حائم نے شکوہ کیا

آئیندہ دوں گی پکا!!!

اگر آئیندہ مجھے تم سے اس قسم کی کوئی بھی شکایت ہوئی تو میں بتا رہا ہوں میں نے دوسری شادی کر لینی ہے پھر تم بیٹھی رہنا اپنی ساس اور نند کے پاس اور تمہاری سوکن مجھے ٹائم دے گی!!! حائم نے مسکراہٹ چھپا کر کہا جس پر جاناں نے زور دار چت اس کے بازو پر ماری

آہ!!!!!!! 

حائم!!!! کیا ہوا ہے آپ کو!!! جاناں نے اس کے چہرے پر تکلیف دیکھ کر کہا

کچھ نہیں بس چھوٹی سی چوٹ لگ گئی تھی تم پریشان نہ ہو!!!! حائم نے اس کا پریشان چہرہ دیکھ کر کہا

ہٹیں مجھے دیکھنے دیں!!! جاناں نے اتنا بول کر اس کا آستین اوپر کی 

ارے بول رہا ہوں نا کہ چھوٹی سی چوٹ ہے!!! حائم نے کہہ کر  اس کے ہاتھ تھامنے چاہے پر اس نے جھٹک کر اس کی پوری آستین اوپر کی

حائم!!!! 

سچ سچ بتائیں کیا ہوا ہے آپ کو ؟؟؟؟ جاناں نے اس کے ہاتھ پر بندھی پٹی دیکھ کر نم لہجے میں کہا

کچھ نہیں بس ذرا سی چوٹ ہے!!!

سچ بتائیں!!!! جاناں نے اس کی بات کاٹی

گولی لگی ہےآآآ 

گولی!!!! جاناں نے حیرت سے اس کا لفظ دہرایا اور اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے

ارے رو کیوں رہی ہو!!! میں بلکل ٹھیک ہوں بس چھو کر گزری ڈاکٹر سے میڈیسن لے کر آیا ہوں انشاء اللہ جلد ٹھیک ہو جائے گا پلیز رونا تو بند کرو!!! حائم نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر کہا

پکا نا!!! جاناں نے روتے ہوئے پوچھا جس پر حائم نے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ لگایا

ماما یا کسی اور کو مت بتانا خامخواہ پریشان ہو گے!!! حائم کے بولنے پر اس نے سر ہلایا اتنے میں باہر ایک دم شور اٹھا

یا اللہ خیر!!!! جاناں بولی

اس گھر میں دو منٹ کی پرائیویسی نہیں مل سکتی!!! حائم تاسف سے کہتا باہر چل دیا جبکہ وہ بھی اس کے پیچھے مسکراہٹ ضبط کرتی چل دی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

چچی جان!!!!!!!

نور پلیز نہیں نا!!! نورالعین صحن میں کھڑی فاطمہ بیگم کو آوازیں دے رہی تھی اور پاس کھڑا شازل اس کی منتیں کر رہا تھا 

چچی جان!!!!

ہاں بولو نور کیا ہوا ہے؟؟؟ فاطمہ بیگم نے باہر آتے پوچھا باقی سب بھی باہر آ گئے

کچھ نہیں ہوا ماما آپ جا کر سوئیں!!! شازل نے کہا

چچی جان ان کے کندھے پر گولی لگی ہےآآآ اور یہ ہم سب سے چھپاتے پھر رہے ہیں!!!! نورالعین کے بولنے پر فاطمہ بیگم نے ایک دم آگے بڑھ کر شازل کا کوٹ اتارا

بے شرم!!! تم نے ماں کو بتانا بھی گوارا نہیں سمجھا کیا اتنے بڑے ہو گئے ہو تم لوگ!!! فاطمہ بیگم نے غصے سے اس کے کندھے پر بندھی پٹی دیکھ کر کہا

ماما میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا!!! شازل منمنایا

ہاں اور اب تو میں خوش ہو گئی ہوں نا کونسا موقع ہے ایسا جب تم سب نے مجھے پریشان نہ کیا ہو !!! فاطمہ بیگم طنزیہ بولی

حائم تم نے کیوں نہیں بتایا؟؟؟ سلطان صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا جس پر اس کی جان پر بن گئی

ارے یہ کیوں بتائیں گئے آخر خود بھی تو گولی کھا کر آئیں ہیں!!!!! بازل کے ایک دم بولنے پر حائم نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا جس پر وہ فوراً بی جان کے پیچھے چھپ گیا

جبکہ اب فاطمہ بیگم پوری طرح ان دونوں کی طرف متوجہ تھیں

صبح فجر کے وقت با مشکل ان دونوں کی جان خلاصی ہوئی وہ بھی اس شرط پر کہ اب انہیں فاطمہ بیگم کے تمام تر پرہیز فالو کرنے ہوں گے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

پھپھو جان!!! میں نا آپ سے ناراض ہوں!!!! نازلی نے لاونج میں بیٹھی فاطمہ بیگم کے پاس بیٹھ کر کہا باقی خواتین بھی ادھر ہی تھیں ساتھ میں شہیر بھی بیٹھا فردوس بیگم سے سر کی مالش کروا رہا تھا

کیوں میرا بچہ ؟؟؟ کیوں ناراض ہے میرا شونا مجھ سے؟؟ فاطمہ بیگم نے محبت سے پوچھا

پھپھو جان میرے ماں باپ نے ایک بہن دی تھی مجھے وہ بھی آپ لے آئیں ہیں بولیں میں کیا کروں اب!!! نازلی نے منہ بنا کر کہا

تو یہ کونسی بڑی بات یہ سامنے تو رہتی ہے جب دل کرے آ جایا کرو!!! نازیہ بیگم بولیں

مجھے پتہ لگ گیا ہے پھپھو جان آپ کو مجھ سے ذرا پیار نہیں ہے ساری محبتیں اسی بھتیجی سے ہے!!! نازلی نے خفا لہجے میں جاناں کو دیکھ کر کہا

میرا بچہ ایسا نہیں ہے تم دونوں برابر ہو میرے لیے!!! فاطمہ بیگم نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا

اگر ایسا ہے تو مجھے بھی اپنی بہو بنائیں پھر مانو گی!!! نازلی کے بولنے جہاں باقی سب حیران ہوئے وہاں شہیر ایک دم اچھل پڑا

نازی پاگل ہو گئی ہو کیا ؟؟ جاناں نے کہا

تم تو چپ ہی رہو اپنی سیٹنگ ہو گئی تو بہن کو بھول ہی گئی بہت بے وفا نکلی ہو تم!!! نازلی نے کہا

اوہ ہیلو میڈم کوئی سستا نشہ تو نہیں کر کے آئی ہوش میں اؤ ایسا کچھ نہیں ہونے والا!!! شہیر بولا

آپ سے نہیں کہا میں نے اپنی پھپھو سے کہا ہے!!! نازلی نے اتنا بول کر فاطمہ بیگم کی طرف دیکھا

ویسے کوئی حرج تو نہیں ہے!!! فاطمہ بیگم نے مسکرا کر کہا

نہیں ماما سوچیے گا بھی نہیں میں نہیں کرنے والا اس پاگل سے شادی!!! شہیر بولا باقی سب خاموشی سے سن رہے تھے

اوہ ہیلو کس نے کہا کہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے مجھے تو بس پھپھو کی بہو بننا ہے!!! نازلی کے بولنے پر اس نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو

تو پھر اس کے لیے کیا پھپھو تمہیں گود لیں پھر بہو بنو گی ان کی!!! شہیر بولا

ہیں!!!!! گود لینے سے بہو بن جاتے ہیں ؟؟؟ نازلی نے حیرت سے پوچھا جبکہ اس کی بات پر شہیر کا دل کیا اس کا گلہ دبا دے

ہممم ویسے شہیر آئیڈیا برا نہیں ہے میں کرتی ہوں بابا سائیں سے بات اچھا ہے دونوں بہنیں ایک ہی گھر آ جائیں گئیں!!! فاطمہ بیگم محبت سے نازلی کا ماتھا چوم کر بولیں

بلکل نہیں ماما یہ سودا بلکل ٹھیک نہیں سمجھدار ،سگھر، فرمانبردار، بھتیجی لالہ کی لیے اور یہ فالتو پیس میرے لیے!! شہیر بولا

اوہ فالتو کس کو بولا ایک تو بیٹھے بٹھائے اتنی پیاری لڑکی مل رہی ہے اوپر سے نخرے کر رہے ہو ٹھیک ہے نازیہ چچی آپ مجھے اپنی بہو بنا لیں دفع کریں اس مستری کو!!! نازلی بول کر نازیہ بیگم کے پاس جا بیٹھی جبکہ اس کی بات پر شہیر نے اسے گھورا

ایک منٹ لگا تمہیں پارٹی بدلنے میں ہاں!!! شہیر بولا

تو قسم اللّٰہ کی تیس سیکنڈ لگیں گے واپس بدلنے میں تو پھر ڈن کریں؟؟؟ نازلی نے شوخ لہجے میں کہا جس پر شہیر نے تاسف سے سر ہلایا

ہم کیا شریف ہوئے

سارا زمانہ ہی بدمعاش ہو گیا!!! شہیر بولا

تو پھر بولو ڈن کروں!!! فاطمہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا

چلیں اسی بہانے شادی تو ہو گی ڈن کریں!!! شہیر مسکرا کر بولا جس پر سب ہی ہنس دیے 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بڑی بی مجھے بھی شادی کرنی ہے سب کر رہے ہیں!!! زاویار یاسمین بیگم کے پاس بیٹھ کر بولا

ہممم سوچ لے لڑکی پوری آفت ہے بعد میں نہ کہنا!!! ان کے کہنے پر اس نے چونک کر انہیں دیکھا

اور یہ بھی دیکھ لے لڑکی کے چار بھائی ہیں وہاں پھینکیں گے جہاں سے تیری روح بھی نہیں واپس آئے گی!!!! بڑی بی کے کہنے پر وہ مسکرا دیا

اور ہاں وہ کہتی نہیں ہے سیدھا کر گزرتی ہے!!! بڑی بی نے مزید کہا

تو پھر آپ بھی کر گزریں!!! زاویار نے کہا

ٹھیک ہے آج شام میں جائیں گے ہم تیرے لیے موت کا فتویٰ لینے!!!!! 

اب ڈرائیں تو نا!!!

جو ڈر گیا وہ مر گیا اور جو رشتہ لینے گیا وہ تو کام سے گیا!!!! بڑی بی نے مسکرا کر کہا

آپ پر بھی اس آفت کا اثر ہو گیا ہے!!!! زاویار بولا

بلکل اب تجھ پر بھی ہو جائے گا!!! بڑی بی مسکرا کر کہتی چلیں گئیں جبکہ پیچھے وہ اپنی سلامتی کی دعا کرنے لگا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ارے آپ سب لوگ ادھر وہ بھی ایک ساتھ!!!! زریش نے دروازا کھولا تو اپنے سامنے اپنے تمام بھائیوں بھابھیوں (سوائے نازلی کے) اور سلطان صاحب اور فاطمہ بیگم کو دیکھ کر کہا

ہمیں تم سے بات کرنی ہے!!! سلطان صاحب نے مسکرا کر کہا

آئیں نا ویسے اتنے لوگوں نے صرف ایک بات کرنی ہے!!! زریش بولی

زری آج بابا سائیں آئے تھے!!! فاطمہ بیگم بولیں

تو اس میں کونسی بڑی بات ہے وہ تو اکثر ہی منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں!!! زریش کے بولنے پر فاطمہ بیگم نے اسے گھورا جبکہ باقی سب نے مسکراہٹ ضبط کی

وہ رشتے کے لیے آئے تھے!!! فاطمہ بیگم مزید بولیں

یا اللہ نانا جان اس عمر میں دوسری شادی کر رہے ہیں انہیں شرم نہ آئی قبر میں پاؤں لٹک رہے ہیں ان کے اور انہیں گھوڑی چڑھنے کی پڑی ہے!!! زریش بولی

آف اللّٰہ زری وہ زاویار لالہ کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے آئے تھے!!! نورالعین بولی

کیوں ان کے اپنے ہاتھ کو کیا ہوا اور میں کیوں دوں کسی کو اپنا ہاتھ؟؟؟ زریش کے بولنے پر فاطمہ بیگم کا دل کیا اپنا سر کسی دیوار میں مار دے

بیٹا وہ زاویار کے لیے تمہارا رشتہ مانگنے آئے تھے بولو اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم ہاں کر دیں؟؟؟ سلطان صاحب نے محبت سے پوچھا

میرا رشتہ؟؟؟ اس ہٹلر کے لیے ؟؟؟ اور میں نے کیا اعتراض کرنا ہے اسے پتہ چلا تو خود کسی نہر میں گود جائے گا!!!! زریش پوری آنکھیں کھول کر بولی

نا پچو یہ بات لالہ نے خود کی دادا سائیں سے !!! جاناں نے مسکرا کر کہا

آپ کے لالہ کا لالالا نا کر دیا تو زریش خانزادہ نام نہیں میرا!!! زریش ایک دم غصے سے اٹھی جس پر حائم نے اسے پکڑ کر واپس بیٹھایا

دیکھو زری ایک نا ایک دن شادی تو تم نے کرنی ہی ہے زاویار اچھا لڑکا ہے ہاں تھوڑی سخت نیچر کا ہے پر مجھے پتہ ہے وہ تم خود ہنڈل کر لو گی پر اس طرح تم ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہو گی پر اگر تمہاری مرضی ہے تو ورنہ مٹی ڈالو!!! حائم نے مسکرا کر کہا

لالہ وہ بہت کھڑوس ہے!!! زریش بولی

تو کیا ہوا تم بھی تو پوری آفت ہو!!! شہیر بولا

اور فکر کس بات کی پورے چار بھائی ہیں تمہارے وہاں پھینکیں گے جہاں سے اس کی روح بھی واپس نہیں آ سکے گی!!! شہیر نے ہنس کر کہا جس پر سب ہی ہنس دیے

اچھا ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے پر میری ایک شرط ہے!!! زریش نے کہا

کیسی شرط؟؟ شازل نے پوچھا

میرے نکاح کے ساتھ ساتھ ان تینوں کی رخصتی بھی ہو گی!! زریش نے کہا

اوئے میری بہن اللہ تجھے خوش رکھے، تیرا سہاگ سلامت رکھے، تجھے دس بارہ ہیرے جیسے بچے دے کتنا خیال ہے تجھے اپنے بھائیوں کا !!! بازل اس منہ چوم کر بولا

دیکھو کیسی بتیسی کھلی ہے رخصتی کا سن کر!!! شہیر نے کہا

اور نہیں تو کیا تجھے کیا پتہ کتنا مشکل ہے پائپ سے چڑھنا!!! بازل اپنی دھن میں بولا جبکہ اس کی بات جہاں رمل خفت کا شکار ہوئی وہیں باقی سب نے حیرت سے اسے دیکھا

کیا ؟؟ زریش بولی

کیا؟؟؟ شہیر بولا

کیا؟؟؟؟؟ حائم بولا

کیا ؟؟؟؟ سب ساتھ میں بولے

نہیں اآآآآ وہ میرا مطلب اآآآآآآ بازل کچھ کہنے والا تھا پر ان سب کی تیوڑی دیکھ کر رکا

پیار کیا تو ڈرنا کیا!!!! بازل نے اتنا بول کر دور لگا دی جبکہ اس کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی بھاگے 

پیچھے سلطان صاحب اور فاطمہ بیگم کھڑے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگے 

زندگی واقع کتنی حسین ہوتی ہے اگر رنجشیں بھلا کر آگے بڑھا جائے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آج کا دن خان ولا میں بہت خوبصورتی سے طلوع ہوا تھا آج نورالعین رمل اور نازلی کی رخصتی تھی زریش کے نکاح کے ساتھ رخصتی کا فیصلہ بھی ہوا تھا جس پر اس نے پورے پندرہ دن مانگے تھے کیونکہ وہ اپنے بھائیوں کی شادی انجوائے کرنا چاہتی تھی پہلے تو اس کی بات کسی نے نہ مانی پر جب زاویار نے اس کا ساتھ دیا تو مجبوراً سب کو خاموش ہونا پڑا

تینوں دلہنوں کو زریش اور جاناں پالر لے کر گئیں تھیں جبکہ باقی سب بھی تیار ہو کر ہال کے لیے نکل رہے تھے

حائم!!!! فاطمہ بیگم نے ہال میں کھڑے ہو کر آواز دی

ماما ذرا یہ ٹائی باندھنا!!!! شازل نے کہا جس پر فاطمہ بیگم اس کی ٹائی باندھنے لگیں

حائم!!! انہوں نے پھر آواز دی

ماما ذرا یہ کف لنک لگانا!!! شہیر نے کہا جس پر وہ اس کے کف لنکس لگانے لگیں

حائم!!!! اسے فارغ کر کے انہوں نے پھر آواز دی

ماما ذرا یہ کوٹ پہنا دیں!!! بازل کے کہنے پر انہوں نے جلدی سے اسے کوٹ پہنایا

حااآآآآا

بیگم ذرا یہ آآآآا بس بہت ہو گیا اب اگر کسی نے کچھ کہا تو میں نے اس کا سر پھاڑ دینا ہے حد ہو گئی ہے کیا چھوٹے بڑے بچے ہیں جو خود تیار نہیں ہو سکتے؟؟؟ سلطان صاحب کے بولنے پر فاطمہ بیگم برس پڑیں جس پر وہ خاموشی سے نکل گئے

جی ماما!!!! حائم نے کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا

جا کر بچیوں کو لے کر آؤ!!!

کس کی بچیوں کو!!! حائم نے ناسمجھی سے پوچھا

اپنی بچیوں کو!!!! فاطمہ بیگم نے دانت پیس کر کہا

پر میری تو کوئی بچیاں نہیں ہیں صبح تک تو صرف ایک بیوی تھی!!! حائم نے کہا

حائم!!!! لڑکیوں کو پالر سے لے کر آؤ اس سے پہلے کہ میں کسی کا قتل کر دوں!!!! فاطمہ بیگم کے بولنے پر تیزی سے باہر نکل گیا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آف اللّٰہ کیا غضب ڈھا رہی ہیں میری بھابھیاں!!! زریش نے ان چاروں کو دیکھ کر کہا رمل اس وقت لائٹ پنک کلر کے لہنگے میں تھی نازلی نے اس وقت گہرے سرخ رنگ کا کامدار لہنگا پہن رکھا تھا نورالعین نے ہلکے سرخ رنگ کا لہنگا پہن رکھا تھا ان کے برعکس جاناں سکائے بلو کلر کی میکسی میں تھی

اور ہماری نند پلس بھابھی کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟؟ نازلی نے اسے دیکھ کر شریر لہجے میں کہا جو اس وقت سی گرین کلر کی میکسی پہنے کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی

اوہ خبردار جو مجھے بھابھی کہا تو میں نے کوئی نہیں بننا بھابھی فضول میں آنٹیوں والی فیلنگ آنا شروع ہو جاتی ہیں!!!!!! زریش بولی اتنے میں انہیں باہر سے حائم کا پیغام ملا

لو جی میڈم آ گئے آپ کے سائیاں جی!!! نازلی نے جاناں کو چھیڑا جس پر اس نے اسے گھورا

اسلام و علیکم!!!!!

اسلام و علیکم لالہ!!! ان پانچوں نے سلام کیا

وعلیکم السلام ماشاءاللہ!!! ویسے ماننا پڑے گا بھلے یہ پالر والیاں پیسے زیادہ لیتی ہیں پر کام اچھا کرتی ہیں دیکھو نا کیسے چار چڑیلوں کو حور پریاں بنا دیا!!! حائم نے جاناں کو چھوڑ کر ان چاروں سے کہا

اور آپ کا اپنی بیوی کے بارے میں کیا خیال ہے وہ بھی تو پالر سے ہی حور بن کر آئی ہے!!! رمل نے کہا

ارے نہیں یار میری بیوی تو ہے ہی حور پری!!! حائم نے اتنا بول کر جاناں کے کندھے کے گرد بازو پھیلایا جبکہ اس کی بات اور حرکت پر جاناں خجلت کا شکار ہو گئی وہیں باقی لڑکیاں شریر نظروں سے انہیں دیکھنے لگیں

لالہ آپ اس وقت سڑک پر ہیں!!! نورالعین نے یاد دلایا

آہ!!! کاش ہم اس وقت روم میں ہوتے!!! حائم نے حسرت سے کہا

لالہ ہتھ ہولا رکھیں ورنہ اگر آپی بے ہوش وغیرہ ہو گئیں تو روم کی بجائے ہسپتال جانا پر سکتا ہے!!! زریش نے ہنس کر کہا جس پر سب ہی ہنستے ہوئے ہال کے لیے روانہ ہو گئے 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ہال میں پہنچ کر جاناں حائم کا بازو تھامے اندر بڑھ گئی باقی تینوں کو بھی سٹیج پر لایا گیا جہاں تینوں دلہے بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے ان کو دیکھ کر ان تینوں نے اٹھ کر ہاتھ بڑھایا جس پر وہ شرماتی ہوئیں ان کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئیں تھوڑی دیر میں قاضی صاحب آئے اور نازلی اور شہیر کا نکاح ہوا

ہیلو مس آفت!!! زریش آواز پر پلٹی تو پیچھے زاویار کو سی گرین شلوار قمیض میں کھڑا پایا جس پر اس کی سبز آنکھیں اور سفید رنگت اسے مزید پرکشش بنا رہیں تھیں

ہیلو مسٹر ہٹلر!! کیسے ہیں ؟؟ زریش نے مسکرا کر پوچھا

الحمدللہ آپ کے منتظر ہیں ویسے بہت پیاری لگ رہی ہو!!! زاویار نے مسکرا کر کہا

بتانے کی ضرورت نہیں مجھے پتا ہے کہ میں واقع بہت پیاری لگ رہی ہو!!! زریش نے ایک ادا سے کہا

ویسے میرا بھی دل چاہ رہا ہے شادی کرنے کو!!! زاویار نے مسکین شکل بنا کر کہا

تھوڑا صبر کر لیو ہو جائے گی شادی!!! زریش نے کہا

نہیں مجھے ابھی کرنی ہے دیکھو سارے کر رہے !!! زاویار نے رونی صورت بنا کر کہا 

اچھا تو پھر چلو!!! زریش نے اتنا بول کر اس کا ہاتھ پکڑا اور سٹیج پر جا بیٹھی

چلیں قاضی صاحب شروع کریں!!! زریش نے زاویار کو ساتھ بیٹھا کر کہا 

کیا شروع کرنا ہے بیٹا؟؟؟ قاضی صاحب نے ناسمجھی سے پوچھا

ڈسکو ڈانس شروع کرنا ہے!!! زاویار بولا

استغفرُللہ میں ایسے کام نہیں کرتا!!! قاضی صاحب بولے

ارے نکاح پڑھائیں!!! زریش بولی

پر نکاح تو پڑھا چکا!!! قاضی صاحب نے کہا

دوبارہ پڑھائیں ہمیں مزہ نہیں آیا!!! زاویار بولا باقی سب حیرت سے اس کا بدلا انداز دیکھ رہے تھے

بھئی نکاح تھا یا کوئی فلم تھی جو تمہیں مزہ نہیں آیا؟؟؟ قاضی صاحب نے غصے سے پوچھا

ارے ہم دونوں کا نکاح پڑھائیں!!! زریش کے بولنے پر وہ سر ہلاتے نکاح پڑھانے لگے

زریش خانزادہ ولد سلطان خانزادہ آپ کا نکاح زاویار شاہ ولد حسین شاہ کے ساتھ با آیوز دس لاکھ روپے حق مہر پڑھایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے ؟؟؟ قاضی صاحب کے پوچھنے پر وہ سوچ میں پڑ گئی

زری اب بولو بھی!!! فاطمہ بیگم نے غصے سے کہا

زری کیا سوچ رہی ہو؟؟ عائشہ نے کہا

میں سوچ رہی ہوں کہ کوئی سیکنڈ آپشن ہے؟؟؟ زریش نے پوچھا

نہیں!!!! جواب زاویار نے دیا

یعنی تم لاسٹ پیس ہو؟؟؟ زریش نے پوچھا

ہاں!!! زاویار نے جواب دیا

اچھا!!! قبول ہے!!!! زریش نے گہری سانس لے کر کہا

آپ کو قبول ہے ؟؟؟

قبول ہے!!!!

آپ کو قبول ہے ؟؟؟

ارے کیا لکھ کر دوں جب بولا نا کہ قبول ہے تو قبول ہے بس بھی کریں کیا حفظ کرا رہے ہیں؟؟؟ زریش کے بولنے پر قاضی صاحب جلدی جلدی زاویار سے پوچھ کر اٹھ کھڑے ہوئے 

تھوڑی دیر بعد کھانا سرف ہوا اور اس کے بعد رخصتی ہوئی

مسز آگلی باری آپ کی ہے!!! زاویار نے اس کے کان کے پاس جھک کر کہا

جی جی ڈئیر ہسبنڈ مجھے پتا ہے آپ بس اپنے دن گننا شروع کر دیں!!! زریش نے کہا

تم واقعی ہی آفت ہو!!! زاویار تاسف سے بولا

نوازش ہے!!! زریش نے داد وصول کی اور روانہ ہو گئی

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

آج کا دن خان ولا میں عید کے دن کے برابر تھا کیونکہ آج حویلی کی آفت کی رخصتی تھی اور ساتھ میں اس کے چار بھائیوں کا ولیمہ بھی جو کہ زریش کی فرمائش تھی

سب تیاریوں سے فارغ ہو کر وہ چاروں بھائی اپنی بیویوں اور بہن کو پک کرنے چلے گئے

ابھی وہ چاروں کھڑے انتظار کر رہے تھے جب انہیں پیچھے سے ہیل کی ٹک ٹک سنائی دی انہوں نے مڑ کر دیکھا تو مہبوت رہ گئے جہاں وہ چاروں سلور میکسی پہنے آ رہیں تھیں جبکہ زریش ان کے درمیان ریڈ میکسی پہنے چلی آ رہی تھی

ماشاءاللہ!!! اللہ تمہیں ہمیشہ خوش و خرم رکھے!!! حائم نے محبت سے کہہ کر اس کا ماتھا چوما

اللہ تمہیں سلامت رکھے ہمیشہ خوشیاں دیکھو!!! شازل نے کہہ کر اس کا ماتھا چوما

اللہ غموں کو ہمیشہ تم سے دور رکھے صدا ہنستی رہو!! شہیر نے اسے دعا دے کر اس کا ماتھا چوما

اللّٰہ تمہارے شوہر کی عمر دراز کرے جس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے!!! بازل کے کہنے پر اس نے کھینچ کر تھپڑ اس کے بازو پر مارا باقی سب ہنسنے لگے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

جیسے ہی انہوں نے ہال میں قدم رکھا پورا جہاں جیسے چمک اٹھا سٹیج پر سفید شلوار قمیض پر سرخ رنگ کی شیروانی پہنے بیٹھا زاویار اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا جو اپنے چار بھائیوں کے ہمراہ چلتی ہوئی اس وقت دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی اسے دیکھ کر اس نے ہاتھ بڑھایا جس پر ان چاروں نے اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا

ماشاءاللہ بہت حسین لگ رہی ہو!!! زاویار نے اسے دیکھ کر کہا جو منہ بنائے بیٹھی تھی

زاوی مجھے مزہ نہیں آ رہا!!! زریش نے کہا

کیوں مزہ کیوں نہیں آ رہا ؟؟؟ زاویار نے پوچھا

میرا بھاگنے کا دل کر رہا ہے!!! زریش نے کہا

بھاگنے کا؟؟؟ زاویار نے کنفرم کرنا چاہا

ہوں!!! اس نے معصومیت سے کہا

پر ہیل سے کیسے بھاگو گی؟؟ زاویار نے پوچھا اس کا ری ایکشن بلکل نارمل تھا

میں نے ہیل نہیں جوگر پہنے ہیں!!! زریش کے بولنے پر اس نے اس کے پروں کو دیکھا وہ واقع ہی جوگر پہنے پوری تیاری کر کے بیٹھی تھی

تو پھر دیر کیسی چلو!!! زاویار کے بولنے پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی

آہمممم لیڈیز اینڈ جنٹل مینز ایک ضروری اطلاع ہے 

میں اپنا دلہا لے کر بھاگ رہی ہوں!!!!!! زریش نے اتنا بول کر زاویار کا ہاتھ پکڑا اور ایک سو چالیس کی سپیڈ سے دور لگا دی

آف اللّٰہ زری کب عقل آئے گی تمہیں ؟؟؟ فاطمہ بیگم کلس کر بولیں

ارے پکڑو اسے!!! بی جان کے بولنے پر مراد وغیرہ سب اس کے پیچھے بھاگے پر اس کے اپنے بھائی کھڑے اسے دیکھ کر ہنستے رہے جو کہ زاویار کا ہاتھ پکڑے پورے ہال میں دور رہی تھی جس پر زاویار بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا

اس منظر نے سلطان صاحب کے دل کو بھی سکون پہنچا دیا ان کا انتخاب غلط نہیں تھا

♥️♥️♥️♥️♥️♥️

زاویار کمرے داخل ہوا تو وہ آرام سے بیڈ پر بیٹھی موبائل دیکھتی ہوئی امرود کھا رہی تھی پر اسے دیکھ کر اسے حیرانگی نہیں ہوئی اگر وہ عام دلہنوں کی طرح بیٹھی ہوتی تو ضرور اسے حیرانگی ہوتی

آہمممم!!!!! وہ اس کے پاس بیٹھ کر کھنکارا

کیا؟؟؟؟ زریش نے آئبرو آچکائے

مجھے بھی دو!!! زاویار نے امرود کی طرف اشارہ کر کے کہا

پہلے میری منہ دکھائی!!! زریش کے بولنے پر اس نے ایک ڈبی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی

ہممممم نائیس اب پہنا بھی دو!!!! زریش نے پائل دیکھتے ہوئے کہا جس پر زاویار نے اسے پائل پہنائے

اب ہٹو مجھے سونا ہے!!! زاویار اتنا بولتا لیٹ گیا

پر زاوی مجھے ابھی نیند نہیں آ رہی!!! زریش نے آنکھیں پٹکا کر کہا جس پر زاویار نے اس کا ماتھا چوما

اچھا ٹھیک ہے تم چینج کر کے جاگو میں سو رہا ہوں!!! زاویار اتنا بول کر لیٹ گیا جبکہ وہ چینج کر کے ناول پڑھنے لگی

ابھی زاویار کی آنکھ لگی ہی تھی کہ اسے ایک دم زریش کے رونے کی آواز آئی وہ ہڑبڑا کر اٹھ کر اس کے پاس آیا جو ہچکیوں سے رو رہی تھی

زری !!!! کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو؟؟؟ زاویار نے اس کا چہرہ تھام کر پوچھا

نازش کو مارا!!! زریش نے روتے ہوئے بتایا

کس نے؟؟؟ زاویار نے پریشانی سے پوچھا

براق نے!!!! زریش نے اور روانی سے روتے ہوئے بتایا

کون براق؟؟؟ زاویار نے پوچھا

نازش کا شوہر!!!

کون نازش؟؟؟ زاویار نے جھنجھلا کر پوچھا

ناول کی ہیروئن!!!! زریش کے بولنے پر پر اس نے گھور کر اسے دیکھا 

اللّٰہ پوچھے تمہیں زری تم نے اس کے لیے میری نیند خراب کی!!! زاویار اتنا بولتا واپس لیٹ گیا

تم میرا دکھ سمجھ ہی نہیں سکتے میں چلی اپنے لالہ کو بتانے!!!!!!! زریش اتنا بول کر تیزی سے باہر نکل گئی جبکہ پیچھے زاویار بھی فوراً سے اس کے پیچھے لپکا

خان ولا میں پہنچ کر زریش نے روتے ہوئے حائم کو آواز دی جبکہ اس کی آواز پر سب لوگ ہی وہاں جمع ہو گئے

لالہ!!!! زریش روتی ہوئی حائم کے گلے لگ گئی اتنے میں زاویار بھی وہاں پہنچ گیا

زری میری جان کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟؟؟؟ حائم نے فکرمندی سے پوچھا جبکہ شازل شہیر اور بازل غصے سے زاویار کو دیکھ رہے تھے

لاآآآآلالہ آآآآاا ما آاآآآ را!!!! زریش نے اٹکتے ہوئے بات پوری کی

کس نے ؟؟؟ حائم نے پوچھا

شوآآآآآہرآآآآآ نے!!! زریش کے بولنے کی دیر تھی شازل شہیر اور بازل کسی طوفاں کی طرح زاویار پر جھپٹ پڑے

تیری ہمت کیسے ہوئی میری بہن پر ہاتھ اٹھانے کی!!!! شہیر نے غصے سے مکا زاویار کے منہ پر مارا

ارے اسے کیوں مار رہے ہیں ؟؟؟ زریش کے بولنے پر وہ تینوں ایک دم رکے

اس نے تمہیں مارا!!!! شازل نے کہا

اس نے نہیں براق نے!!! زریش نے بتایا

کون براق؟؟؟ شہیر نے پوچھا

نازش کا شوہر!!! زریش بولی

کون نازش!!!!!!!!!!!!!!!!!!!! سب لوگ مل کر بولے

ناول کی ہیروئن اور کون ؟؟؟ زریش کے بولنے پر سب نے اپنا سر پیٹا

ارے مجھے تو کوئی اٹھاؤ!!! زاویار کے بولنے پر شازل اور شہیر نے جلدی سے اسے اٹھایا جس کا منہ بری طرح سوجھ چکا تھا

سوری جیجا جی غلطی ہو گئی!!! بازل نے دانت نکال کر کہا

تم سارے ہی آفتیں ہو!!! زاویار غصے سے بولا جبکہ اس کی بات پر سب ہنس دیے

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

پانچ سال بعد

حائم آپ تیار نہیں ہوئے آآآآآآ جاناں کمرے میں داخل ہوتی بولتے بولتے رکی جہاں حائم اپنے دائیں طرف سنان اور رائم کو بلو کلر کا تھری پیس پہنائے کھڑا تھا

ماما ایسے نا دیکھیں پیار ہو جائے گا!!!  چار سالہ رائم نے آنکھ مار کر کہا جس پر وہ ہوش میں آتی اندر آئی

ایسے نہیں کہتے!!! جاناں نے اسے ٹوکا

ہاں لالہ ایسے نہیں کہتے بلکہ ایسے کہتے ہیں پیار ہو جائے گا نہیں پیار ہو چکا ہے!!! سنان کے بولنے پر رائم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جبکہ جاناں صرف انہیں گھور رہی تھی اور حائم کھرا بس مسکرا رہا تھا اس کے دونوں بیٹے ہو با ہو حائم کی کاپی تھے

چلیں!!! جاناں کے بولنے پر وہ سب باہر چل دیے آج قاسم اور ساریہ اور زمل اور نمل کا نکاح تھا اسمائیل بیرونے ملک پڑھائی کے لیے چلا گیا تھا جس سے خان ولا کے چودہ نکات ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکے تھے

چاچی میری فیوچر وائف کہاں ہے؟؟؟ رائم نے ہال میں آتے نورالعین کی تین سالہ بیٹی رمشا کے بارے میں پوچھا جبکہ اس کی بات پر ہال میں بیٹھے آغا خان نے قہقہہ لگایا

رائمی میں ادھر ہوں بتاؤ کیسی لگ رہی ہوں میں ؟؟؟ رمشا نے باہر آتے ہوئے پوچھا

بیوٹیفل!!! میری فیری تو ہے ہی بہت پیاری!!! رائم نے کہا

لالہ پر میری فیری زیادہ پیاری ہے!!! سنان نے اپنے ساتھ کھڑی بازل کی  ڈھائی سالہ زینب کو دیکھ کر کہا

ارے شٹ اپ میری فیری سب سے پیاری ہے!!! مراد کے بیٹے اہتشام نے اپنے ساتھ کھڑی فراز کی بیٹی اقراء کی طرف اشارہ کر کے کہا

اوئے اندھے ہو کیا تم لوگوں کو میری علیزے نظر نہیں آ رہی!!! فراز کا بیٹا احد مراد کی بیٹی کے پاس جا کر بولا

اتنے میں باہر سے زاویار اور زریش داخل ہوئے

اسلام و علیکم کیا ہو رہا ہے ؟؟؟ زریش نے مسکرا کر پوچھا

کچھ نہیں پھپھو بس آپ کا ہی انتظار ہو رہا تھا!!! شہیر کا چار سالہ حمزہ اتنا بول کر زریش کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ سے اس کی تین سالہ پریشے کا ہاتھ پکڑا

اب بتاؤ کسی کی فیری میری پری سے زیادہ پیاری ہے ہاں!؟؟؟ حمزہ پورے اعتماد سے بولا جبکہ اس کی بات پر سب ہی لاجواب ہوئے کیونکہ واقع پریشے سے زیادہ خوبصورت لڑکی کسی کی نہیں تھی نیلی آنکھیں بھورے بال سفید رنگت اور دونوں گالوں پر پڑنے والے ڈمپل اسے چار چاند لگانے کا کام کرتے تھے

اچھا بھئی بس سب کی فیری بہت پیاری ہے اب باہر چلو نکاح کا وقت ہو گیا ہے!!! بی جان کے بولنے پر سب باہر چل دیے تھوڑی دیر میں قاسم اور ساریہ کا اور زمل اور نمل کا نکاح ہوا

مولوی صاحب ہمارا بھی نکاح پڑھوائیں!!!! پریشے نے حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر مولوی صاحب سے کہا جس پر سب نے مسکرا کر اسے دیکھا

بچے ابھی آپ چھوٹے ہو!!! مولوی صاحب نے پیار سے کہا

نہیں ہیں ہم چھوٹے آپ نکاح پڑھائیں بھلے زیادہ پیسے کی لیں!!! حمزہ کے جواب پر لان میں ہنسی گونجی

اچھا بھئی ٹھیک ہے بیٹھو!!! مولوی صاحب کے بولنے پر وہ دونوں جلدی سے بیٹھ گئے پریشے نے جلدی سے سرپر دپٹہ لے لیا

مولوی صاحب نے ان کا نکاح پڑھایا

کدھر!!! ابھی مولوی صاحب صاحب اٹھنے والے تھے جب رائم نے سامنے آ کر پوچھا

ہمارا بھی نکاح پڑھوائیں!!! اس نے کمر پر بازو ٹکا کر کہا مولوی صاحب نے پیچھے دیکھا تو تین جوڑیاں مزید کھڑی تھیں مولوی صاحب نے جلدی سے ان سب کا نکاح پڑھایا

حمزہ!!! پریشے نے حمزہ کو پکارا

ہاں بولو پری؟؟ حمزہ اس کے پاس جھکا

بھاگیں؟؟ پریشے نے نے پوچھا

ہیل کے ساتھ کیسے بھاگو گی؟؟؟ حمزہ نے پوچھا

میں نے جوگر پہنے ہیں!!! پریشے نے پیر اوپر کر کے دیکھائے

تو پھر چلو!!! حمزہ کے بولنے پر وہ مسکراتی اس کا ہاتھ پڑے اٹھ کھڑی ہوئی

ماما!!!! اس نے زریش کو پکارا

جی ماما کی جان؟؟؟ زریش نے محبت سے پوچھا

ماما میں اپنے شوہر کو لے کر بھاگ رہی ہوں!!!! پریشے نے اتنا بول کر حمزہ کا ہاتھ پکڑا اور پوری تیزی سے دور لگا دی جبکہ باقی بچے ان کے پیچھے بھاگے جبکہ سب بڑے کھڑے ہنستے رہے سالوں پرانا منظر تازہ ہو گیا 

یہ واقعی تم پر گئی ہے!!! زاویار نے زریش کے پاس کہا

کوئی شک؟؟ زریش نے کندھے اچکا کر پوچھا

ماں بیٹی دونوں ہی آفت ہیں!!! زاویار دانت پیس کر بولا جس پر سب پھر سے ہنس دیے

ختم شدہ

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Sonhra Angan Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sonhra Angan written  Zumar Ansari Sonhra Angan by Zumar Ansari  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment