Pages

Tuesday 28 May 2024

Sitam Jaan Tu Jhan By Rida Abid Complete Urdu Novel Story

Sitam Jaan Tu Jhan By Rida Abid Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Sitam Jaan Tu Jhan By Rida Abid Complete Novel Story

Novel Name Sitam Jaan Tu Jhan
 Writer Name : Rida Abid

New Upcoming :  Complete 

نظر نہیں آتا کیا دیکھ کر نہیں چل سکتیں یا آنکھیں نہیں ہیں پاس ۔۔۔۔

آئی ایم سوری وہ مجھے پتا نہیں چلا کیسے آپ سامنے آگئے ۔۔۔

میں سامنے نہیں آیا بی بی آپ منہ اٹھا کر چل رہی ہیں ۔۔۔۔

نرمین نے کتاب سر پر مار کر جان چھڑانے والے انداز میں ارہان کے سائڈ سے گزر گئی۔۔۔۔۔

اور ارہان جسے پوری یونی کی لڑکیاں مڑ مڑ کر دیکھتی تھیں وہ آج ایک چھوٹی سی لڑکی کو خود کا اگنور کرنا دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

نفرت سے سر مارتا وہ اپنی کلاس کا لیکچر لینے چلا گیا ۔۔۔۔۔

نرمین جو سال کے درمیان میں اسلام آباد سے مائیگریٹ ہو کر لاہور پنجاب یونیورسٹی میں آئی تھی اور پہلے دن ہی لیٹ ہونے کے ڈر سے افراتفری میں بار بار کچھ نا کچھ غلط کر رہی تھی۔۔۔۔

بس نمی اب اور کچھ غلط نہیں کرے گی تو ایسے کیسے چلے گا اب جلدی سے کلاس میں جا اس سے پہلے تیرے استاد تجھے کلاس سے بھی باہر نکال دیں ۔۔۔۔۔

نرمین بے حد خوبصورت نین نقش والی پرکشش لڑکی تھی جو دیکھتا دوسری بار ضرور دیکھتا لیکن نرمین کو بس اپنی پڑھائی کی فکر تھی اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے نرمین کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

نرمین جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئی کلاس میں موجود سٹوڈنٹس نے دروازے کی طرف دیکھا اور ایک نیا چہرا دیکھ سب ایک دوسرے سے ہلکی ہلکی گفتگو کرنے لگے ۔۔۔۔

نرمین سب کو اگنور کرتی ایک خالی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

اور کتاب نکال کر اس کا مطالعہ کرنے لگی ۔۔۔

کنزہ مرتضیٰ تم دونوں نے آج کا لیکچر تیار کیا ہے پتا ہے نا سر ارہان تو کسی کے سامنے عزت بھی نہیں رکھتے ۔۔۔۔

نرمین نے ایک سرسری سی نظر پوری کلاس کی طرف دھرائی اور پھر سے اپنی کتاب میں مگن ہو گئی ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم سر سب کہ ایک دم سلام کرنے پر نرمین نے چونک کر نظریں اٹھائیں اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر نرمین کو لگا کہ اب وہ مزید اپنے قدموں پر کھڑے نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔

اووفففف نرمین آج تیرا دن ہی برا ہے ایک کے بعد ایک کام خراب ہو رہا ہے اب اسے ہی تیرا ٹیچر بننا تھا پوری یونی میں اور ٹیچر غائب ہو گئے تھے کیا۔۔۔۔۔۔۔

سٹ ڈاؤن ارہان کے کہنے پر سب سٹوڈنٹس بیٹھ گئے جب کہ نرمین اپنے آپ سے باتیں کرنے میں اتنی مگن تھی کہ ارہان کی اونچی آواز بھی اس کی سماعت تک رسائی حاصل نا کر سکی ۔۔۔۔

ارہان نے لیکچر شروع کرنے کے لیے جیسے ہی سب سٹوڈنٹس پر نظر ڈالی تو سب بیٹھے بچوں میں ایک واحد لڑکی کھڑی تھی جسے وہ بہت اچھے سے جان گیا تھا ۔۔۔۔۔

ٹیبل سے چاک اٹھا کر نرمین پر اچھالتے اسے اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔۔۔

آپ کو الگ سے انویٹیشن کارڈ لا کر دوں کہ بیٹھ جائیں مجھے اپنا لیکچر شروع کرنا ہے ۔۔۔۔

نرمین کے ماتھے پر چاک لگنے سے وہ حیرت سے سامنے کھڑے شخص کو گھورنے لگی ایسا انداز تو کبھی کسی کا نہیں رہا تھا نرمین کے ساتھ وہ تو کر استاد کے دل میں اپنی خاص جگہ بنا لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔

نرمین کو بھی غصہ آیا اور کتابیں پٹکتی اپنی نشست پر براجمان ہو گئی ۔۔۔۔۔

کیا کروں کیا کروں اس کھڑوس ٹیچر سے کوئی مجھے بچا لے ورنہ یہ رہی سہی کسر بھی پوری کر دے گا عزت کا فالودہ بنا کر ۔۔۔۔

مس ایکس وائے زیڈ میں نے ابھی جو بتایا یہاں سٹیج پر آکے سب کو اکسپلین کریں ۔۔۔۔۔

نرمین تو منہ کھولے ارہان کی طرف دیکھ رہی تھی کہ لیکچر شروع کب ہوا ۔۔۔۔

نرمین آج تو تیرا اللّٰہ ہی مالک ہے بیٹا تو نہیں بچے گی آج بے عزتی کروانے سے ۔۔۔۔۔

نرمین ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بناتی سٹیج پر گئی جہاں پیچھے بڑے سے بلیک بورڈ پر آج کا تازہ تازہ لیکچر لکھا ہوا تھا لیکن نرمین اپنے خیالات میں اتنی گم تھی کہ دیکھ ہی نا پائی ۔۔۔

سر وہ میں ۔۔۔۔

کیا وہ میں بکری ہیں آپ ۔۔۔

ارہان کے نرمین کو بکری کہنے پر پوری کلاس کا قہقہہ گونجا جس پر ارہان نے ایک کٹیلی نظر کلاس پر ڈالی اور پھر سے نرمین کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔

بدتمیز بدتہذیب پتا نہیں کہاں سے منہ اٹھا کر آ گئی ہے یہ لڑکی ایسا ارہان کا سوچنا تھا ۔۔۔۔

سر اس کا آج پہلا دن ہے پہلے اس نے لیکچر نہیں لیے نیو ہے یونی میں ۔۔۔۔

اشرت جو نرمین کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی تھوڑی سی ہمت کرتے ارہان کے علم مانو جیسے اضافہ سا کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔۔

جی مس اشرت آپ نا بتاتیں تو مجھے تو پتا ہی نہیں چلنا تھا آپ اپنے کام سے کام رکھیں جب آپ سے سوال کروں تو ہی جواب دیجیے گا یہ کلاس روم ہے کوئی فلاحی ادارہ نہیں جہاں آپ حمایتی بند کر اس کی طرف داری کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔

اب تو جیسے نرمین کے سر پر جلی پیروں پر بجھی والا حساب تھا ۔۔۔۔

نرمین نے غصے سے لال ہوتے لکھے گئے لیکچر کی طرف کچھ دیر دیکھا پانچ منٹ بعد بولنا شروع کیا تو ساری کلاس نرمین کے انداز بیان پر حیران رہ گئی ۔۔۔۔۔

نا صرف کلاس ارہان بھی حیران نظروں سے نرمین کو گھورتا رہا اس کا انداز ایسا تھا مانو جیسے ہی ایچ ڈی کر رکھی ہو اور کئی بار کالجز یا یونیورسٹیوں میں لیکچر لیتی رہی ہو ۔۔۔۔۔۔

لیکچر ختم ہوا تو پوری کلاس جہاں پہلے قہقے لگا رہی تھی اب وہاں سب تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔۔۔

No one is considered inferior because those who thunder do not rain and those who rain do not thunder۔۔۔۔۔

 ایک نظر کلاس کی طرف دیکھ کر نرمین ارہان کی طرف مڑی اور اسے ایک ہی دن میں ناک و چنے چبوا دیئے ۔۔۔۔۔

سر انہوں نے تو آپ سے بھی اچھا سمجھایا ہے ڈیپلی بہت اچھی سمجھ آگئی ہمیں ۔۔۔۔ 

ارہان احساس توہین سے لال پیلا ہوتا کمرے سے باہر چلا گیا لیکن باہر نکلتے وہاں کے پین کو کہہ کر نرمین کو اپنے اوفس میں بلوایا تھا ۔۔۔۔

ارہان کے جاتے ہی نرمین کو پھر سے زبان لگ گئی تھی ۔۔۔۔

اب میں آپ سب کو اپنا تعارف کروا دیتی ہوں 

My name is Narmeen I am from Islamabad but my father has been transferred to Lahore due to which I have to do my migration in the middle of the year. Hope my journey goes well with you all thanks.

 وہ پورے اعتماد سے سب کو اپنا تعارف کروا رہی تھی جب پین نے کلاس میں آکر ارہان کا پیغام نرمین کو دیا ۔۔۔۔

اب اس کھڑوس نے کیا کہنا ہے ۔۔۔۔

نرمین منہ بیگاڑتی کتابیں اٹھاتی کلاس سے باہر چلی گئی پیچھے سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔۔۔۔

میں اندر آجاؤں سر ۔۔۔۔

معصوم سا چہرا بنا کر ارہان کے آفس کے تقریباً اندر کھڑے ہو کر اس سے اجازت نامہ لیتی وہ اس وقت ارہان کو زہر لگی تھی ۔۔۔۔

جی محترمہ آپ پہلے ہی اندر آ چکی ہیں اب آہی گئی ہیں تو اپنے قدم شریف کو تھوڑی اور زحمت دیں اور میرے ٹیبل کے پاس آ جائیں ۔۔۔۔

اب کی بار نرمین خاموشی سے آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔

جی آپ نے بلایا تھا ۔۔۔۔

واللہ اتنی تابعداری ارہان بس سوچ ہی سکا ۔۔۔۔

مس آپ سال کے درمیان میں آئی ہیں پہلے تو وجہ بتائیں کہ سال کے درمیان میں مائیگریشن کروایا ۔۔۔

سر میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں اور آپ تو جانتے ہیں جو ہماری سرکار کہتی ہے ہمیں ان کی بھی عزت رکھنی پڑھتی ہے ۔۔۔۔۔

میرے والد گرامی کا تبادلہ اسلام آباد سے لاہور ہو گیا ہے تو مجھے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لیے کچھ نا کچھ تو کرنا پڑھنا تھا نا اسی لیے میں نے یہاں اڈمیشن لے لیا ۔۔۔۔

ارہان تو نرمین کے انداز گفتگو پر اش اش کر اٹھا تھا ۔۔۔۔

وہ خود کو ایسے کمپوز کر رہی تھی جیسے بہت بڑا مارکہ سر کر کے آئی ہو ۔۔۔۔۔

مس ایکس وائے ۔۔۔

نرمین ۔۔۔نرمین سلطان نام ہے میرا سر ایک ایک لفظ چبا کر اپنا نام بتایا گیا ۔۔جیسے اگر پھر سے کسی نے اسے ایکس وائے زیڈ کہا تو اس کے نام کی۔توہین ہو گی ۔۔۔۔

وٹ ایور مس آپ جانتی ہیں ہم آدھے سے زیادہ سلیبس کور کر چکے ہیں اب اپکو زیادہ محنت کرنی ہو گی تاکہ ہم تک پہنچ سکیں ۔۔۔۔۔

ارہان اب جواب کے انتظار میں خاموش نظروں سے نرمین کو دیکھ رہا تھا یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ وہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے یہ جاننے کے جتن کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

سر جتنا آپ لوگوں نے سلیبس کور کر لیا ہوا ہے اس سے زیادہ کا میں دو دفع ٹیسٹ دے چکی ہوں میرے کانسیپٹ الحمدللہ کلیر ہیں میرے سلیبس کی آپ فکر نا کریں اگر کہیں گے تو میں آپکی جگہ بچوں کو لیکچر دے دیا کروں گی تاکہ ان کو ڈیپلی سمجھ آجائے۔۔۔

نرمین نے ارہان پر سیدھا سیدھا طنز مارا تھا جس پر وہ اپنے دانت پیستا رہ گیا ۔۔۔۔۔

سر اب میں جاؤں مجھے بھوک بہت لگ رہی ہے ۔۔۔۔

جی جا سکتی ہیں آپ اور کل سے آپ جلدی کلاس لینے آیا کریں گی ۔۔۔۔گوٹ اٹ۔۔۔۔۔

سر ارہان نے سوالیہ نظروں سے نرمین کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

سر آج میں کلاس شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے کلاس میں تھی جبکہ آپ پانچ منٹ بعد ۔۔۔۔

جوابی فکرے ارہان کہ منہ پر مارتی نرمین کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔

نرمین دوبارہ سے جانے کے لیے مڑی کہ ارہان نے پھر سے آواز دے دی ۔۔

مس نرمین یہ فائل پکڑا دین زرہ ۔۔۔۔

فائل جو ارہان کے ٹیبل پر پڑھی تھی جس پر وہ تنک کر ارہان کے ٹیبل کہ پاس جا کر کھڑی ہو گی ۔۔۔۔

پکڑا دو کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔

میں نرمین نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ تصدیق کرنی چاہی کیوں کہ اس وقت نرمین کو ارہان کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا ۔۔۔

نرمین آگے بڑھتی کہ ایک دم اس کا۔پاوں مڑا اور وہ کراہتی پاس پڑھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

ارہان بے ساختہ اپنی جگہ سے اٹھ کر نرمین کے پیروں میں آکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔

دیکھاؤ کہاں لگی ہے ۔۔۔۔ارہان نے نرمین کا پاؤں پکڑنا چاہا تو وہ ایک دم اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔

ارہان تو آنکھیں پھاڑے سامنے کھڑی میسنی لڑکی کو۔دیکھ کر۔حیران تھا ۔۔۔۔

اوکے سر اب میں چلتی ہوں جاتے ہوئے آپ اپنی فائل پکڑ لیجیے گا استزائیہ اندازہ میں ہنستی ارہان کو غصہ دلا گئی تھی ۔۔۔دیکھیں میں نے آپکا کام کتنا آسان کر دیا ایسے ہی پریشان ہو رہے تھے آپ تو ۔۔۔۔اپ سے جب جب پاس پڑھی چیزیں نا اٹھائی جائیں تو مجھے یاد کر لیجیے گا سب کام ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔

نرمین کہتی آفس سے بھاگ گئی تھی ورنہ کیا بھروسہ تھا ارہان اس کے سر میں کچھ مار دیتا ۔۔۔۔۔

ارہان کو تو مانو تپ ہی چڑھ گئی تھی ۔۔۔۔۔

نرمین سارے لیکچر لیتی یونیورسٹی سے باہر نکل آئی تھی اب اس کا ارادہ جلدی سے گھر واپس جانے کا تھا لیکن یہ کیا میری گاڑی کا ٹائر کس نے پنچر کر دیا او خدایا اب میں گھر کیسے جاؤں گی ۔۔۔۔

ویسے مس نرمین آپکی زبان بھی کافی لمبی کے چاہیں تو اس کو چلاتے ہوئے آپ اپنے گھر جا سکتی ہیں۔ ۔۔۔۔

نرمین نے چونک کر پیچھے دیکھا جہاں ارہان اپنے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے نرمین سے اپنی بے عزتی کا بدلہ باخوبی لے چکا تھا ۔۔۔۔

نرمین پیر پٹکتی اپنی ایک دوست کو میسج کرنے لگی جب اس نے میسج کا رپلائے نا کیا تو تن فن کرتی وہاں سے نکلنے کو تھی جب ارہان کی آواز نے ایک بار پھر سے نرمین کے قدم روک لیے تھے۔۔۔۔

کہہ رہا ہوں آؤ چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔

کیوں سر کیا آپ میرے ڈرائیور ہیں یا آپ نے پوری یونی کی پک اینڈ ڈراپ کا ذمہ لیا ہوا ہے ۔۔۔۔

نرمین بھی کون سا پیچھے ہٹنے والوں میں سے تھی ۔۔۔۔۔

اتنی بدتمیزی پر ارہان کا پارہ چڑھ گیا اس فضول لڑکی سے بحث کرنے سے بہتر ہے یہاں سے میں ہی دفع ہو جاؤں ۔۔۔

سہی فرمایا آپ نے ۔۔۔۔نرمین کے بولنے پر ارہان کو اپنی ہلکی آواز میں بڑبڑانے پر بھی غصہ آیا ۔۔۔۔

بھاڑ میں جاؤ ۔۔۔۔ارہان غصے سے تن فن کرتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا ۔۔۔۔۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ نرمین کی ایک دوست اس پک کرنے یونیورسٹی پہنچ گئی ۔۔۔۔

کیا نرمین اگر آج میں نے چھٹی کر ہی لی تھی پھر بھی یونی کی شکل دیکھا دی تم نے ۔۔۔۔

بکواس نہیں کرو نہیں لگتی تمہاری نظر یونی کو اب چلو گھر پہنچ کر کسی کو بھیجنا بھی ہے آ کر گاڑی لے جائے یہاں سے ۔۔۔۔

نرمین گھر پہنچتے ہی پیر پٹکتی اپنے کمرے میں بند ہو گئی سارہ بیگم کو نرمین کا یہ رویہ بہت ناگوار گزرا نرمین یہ کیا حرکت ہے یہ کون سا طریقہ ہے گھر آنے کا کوئی شرم حیا باقی ہے بھی یا سب بیچ کھائی ہے ۔۔

سارہ بیگم کا تو پارہ ہی ہائی ہو گیا تھا اپنی چھوٹی پر نکمی اولاد پر ۔۔۔۔

ایک وہ سپوت ہیں جب سے گئے ہیں مجال جو ماں کا حال بھی پوچھ لے اور یہ محترمہ ہیں جن کے تیور ہی مان نہیں ہے نا جانے کون سے گناہوں کی سزا مل رہی ہے مجھے تو تنویر صاحب کو تو خود خیال نہیں ہے کہ بیوی کی دھائیاں سن کر اپنی اس اولاد کو کچھ کہہ لیں سب زمہ داریاں مجھ پر ڈال کر خود ہر معاملے سے سبکدوش ہو کر بیٹھ گئے ہیں آ جائیں آج یہ بھی پوچھتی ہوں ان کو بھی میرے ساتھ رہنا تو اپنی اولاد کو خود قابو میں کریں ۔۔۔۔۔

نرمین میں کیا بکواس کر رہی ہوں نیچے آتی ہو یا میں آؤں اوپر ۔۔۔۔

نرمین جو کب سے اپنی ماں کی اونچی اونچی بڑبڑاہٹ سن رہی تھی کانوں میں انگلیاں دیے نیچے آئی جی ماما کہیں بابا تو ہیں نہیں گھر کس کو اتنا اونچی اونچی اپنی اولاد کی نیکیاں بتا رہی ہیں ۔۔۔۔

دونوں ہاتھ چھوڑے ادھر ادھر ہلتی نرمین اس وقت دانتوں کی نمائش کرتی سارہ بیگم کو بہت زہر لگی تھی ۔۔۔۔۔

یہ ایک کنال کا گھر تھا جس میں تنویر صاحب کے دو بچے اور ایک عدد بیگم رہائش پذیر تھی وہ الگ بات تھی کہ تنویر صاحب نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا تھا کہ وہ اتنے بڑھے گھر کو چار شادیاں کر کے  بیوی بچوں سے بھرنا چاہتے ہیں لیکن سارہ بیگم ایک ہی سب پر بھاری ثابت ہوئی تھیں ۔۔۔۔

سارہ بیگم اور تنویر صاحب کی دو اولادیں جو ساری بیگم کی نظر میں ان کی گندی اولادیں تھیں 

بڑا بیٹا راحم خان اور چھوٹی بیٹی نرمین خان دونوں حسن اور عقل میں سب سے آگے تھے راحم آرمی میں کیپٹن تھا اور نرمین پنجاب یونیورسٹی میں آلا تعلیم حاصل کر رہی تھی انٹیلیجنسی میں دونوں بھائی بہن کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔۔۔۔۔

سارہ بیگم نے نیچے کھڑے ہی جوتا نرمین کی طرف پھینکا تھا جس کو با آسانی نرمین نے کیچ کر لیا اور دانت دیکھاتی اپنے کمرے میں لے گئی ۔۔۔۔

سارہ بیگم پیچھے اپنا جوتا مانگتی رہ گئی تھیں لیکن مجال جو نرمین نے ایک بھی سنی ہو ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم بابا جان ۔۔۔۔

واعلیکم السلام میرا بیٹا کیسا ہے ۔۔۔

میں ٹھیک ہوں بابا آپ کیسے ہیں ارہان ابھی کالج سے آیا تھا کہ ارحم کو اپنے کھلونوں سے کھیلتے دیکھا ۔۔۔۔

میرے بیٹے نے کھانا کھایا ۔۔۔۔

نہیں بابا آپ کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔اچھا چلو آؤ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ثریا باجی ہم دونوں کے لیے کھانا لگا دیں ۔۔۔۔

اچھا بیٹا آپ دونوں منہ ہاتھ دھو لو پھر لگادیتی ہوں کھانا ۔۔۔۔۔

راحم ۔۔۔۔

راحم آرمی یونیفارم میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا کوئی فائل دیکھنے میں مصروف تھا جب پیچھے سے کسی نے اسے آواز دی یہ آواز وہ بہت اچھے سے جانتا تھا پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس سے ہی ملتا جلتا یونیفارم پہنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔۔

جی مس روکھے انداز میں پیش آتے راحم کو ایک پل بھی شانزے پر ترس نہیں آیا تھا شانزے بھی سنجیدگی سے راحم خان کو دیکھ رہی تھی آپکو سر دانش نے بلایا ہے شانزے کہتی واپس جانے لگی تھی جب پھر سے راحم کی بات پر آنکھوں میں نمکین پانی سا بھر گیا تھا ۔۔۔

کوشش کیا کرو میرے سامنے مت آیا کرو ورنہ کسی دن جان لے لوں گا تمہاری میں اور یقین کرو ایک پل کو بھی دکھ نہیں ہو گا مجھے یہ کام کرتے ۔۔۔۔۔

شانزے پیچھے مڑی کتنی قیمتی تھی وہ اپنے والدین کے لیے بابر کے لیے جو بچپن سے اسے پیار کرتا تھا لیکن راحم کی نظر میں ہمیشہ وہ کسی کوڑے سے کم نہیں رہی تھی راحم کا جب دل کرتا وہ اسے بے عزت کر دیتا ۔۔۔۔

شانزے نے اپنی آنکھوں سے پانی صاف کیا سر ایک دن اپکو اپنے ہی الفاظ پر شرمندگی ہو گی اور آپ شرمندگی سے اپنا سر جھکائے میرے سامنے کھڑے ہوں گے لیکن تب تک بہت دیر ہو گئی ہو گی میں آپکو معاف نہیں کروں گی تب یاد رکھیے گا ۔۔۔۔

او رئیلی میں تم سے معافی مانگوں گا ۔۔۔۔۔

سر آپکی کیا اوقات میرا رب آپ سے معافی منگوائے گا جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔۔

راحم خان کا غصہ سے برا حال تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ شانزے کا قتل کر دے اتنی ذلت ۔۔۔۔۔۔

شانزے جا چکی تھی لیکن اپنی باتوں کا اثر راحم خان پر چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم سر ۔۔۔واعلیکم اسلام برخودار کیسے ہو ۔۔۔۔

جی سر اللّٰہ کا کرم ہے آپ بتائیں آپ کیسے ہیں ۔۔۔۔۔

میں بھی ٹھیک ہوں کیپٹن ۔۔۔۔۔

کیپٹن پنجاب یونیورسٹی میں کچھ گڑبڑ چل رہی ہے تمہیں اس بات کا علم بھی ہے یا سوئے ہوئے ہو ۔۔۔۔

میجر دانش کی بات پر راحم کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی تھی شانزے پر آیا غصہ کہیں سو گیا تھا وہ ایسا ہی تھا کام کے معاملے میں کسی پر توجہ نہیں دیتا تھا ۔۔۔۔

سر آپ فکر نا کریں میں دو لوگوں کو بھیجا ہوا ہے وہ بہت جلد پتا کردیں گے۔۔۔۔

بھروسے مند لوگ ہیں نا کہ سر آپ پریشان نا ہوں بھروسے مند لوگ ہی ہیں اور بہت جلد مجھے بہت سی انفارمیشن مل جائے گی ۔۔۔۔۔

راحم نے میجر دانش کو تسلی بخش جواب دیا تھا ۔۔۔۔۔

اور برخودار گھر کب آ رہے ہو۔ ۔۔

سر آپکی صاحبزادی نے مجھ پر  گھر کا داخلہ بند کر رکھا ہے کیوں بار بار میری دکھتی رگ کو چھیڑتے ہیں ۔۔۔۔۔

شرم آنی چاہیے تمہیں کیسے کیپٹن ہو ایک لڑکی نہیں تم سے سنبھالی جا رہی ۔۔۔۔

میجر نے آنکھیں نکالتے راحم کو گھوری سے نوازا تھا ۔۔۔۔۔

سر آپکی بیٹی پورا بمب کا گولا ہے کب توپ سے نکل آئے پتا ہی نہیں چلتا اور یقین کریں اس بھری جوانی میں مجھے اپنی ہونے والی بیگم کو بیوہ اور اپنے ہونے والے بچوں کو یتیم نہیں کرنا ۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا یار سچ میں تم اتنا ڈرتے ہو اس سے ۔۔۔۔

جی اور آپکا میرا مذاق بنتاہے سر راحم نے سر کھجاتے سر دانش کو لتاڑا تھا ۔۔۔۔۔

چلیں سر اب مجھے اجازت دیں میں لگاؤں گا چکر پھر کبھی گھر پر اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔

اللّٰہ حافظ میں تمہارا انتظار کروں گا ۔۔۔۔

راحم سر ہاں میں ہلاتا میجر کے آفس سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔

شانزے سنجیدہ چال چلتی میجر دانش کے آفس ہی جا رہی تھی جب راحم خان راستے میں مل گیا ۔۔۔۔۔

لیکن اس بار شانزے نے راحم کے اوپر ایک بھی غلط نگاہ تک نا ڈالی تھی ۔۔۔۔

راحم کے تو جیسے تن بدن میں آگ ہی لگ گئی تھی ۔۔۔۔

شانزے یجر کے کمرے میں جا چکی تھی راحم نے بھی سر مارا اور اپنے راستے نکل گیا ۔۔۔۔

رات کے وقت نرمین کھانے کی میز پر موجود تھی لیکن کسی گہری اور سنجیدہ سوچ میں گم تھی جب سارہ بیگم اور تنویر صاحب نے بڑے غور سے نرمین کی خاموشی کو نوٹ کیا تھا ۔۔۔۔

دونوں نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر تنویر صاحب نے گلا کھنکارا ۔۔۔۔

لیکن نرمین اپنی ہی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اسے تنویر صاحب کی آواز بھی نا آئی ۔۔۔۔

نمی کیا ہوا ہے بیٹا تم ٹھیک ہو سارہ بیگم کی تو جان پر بن آئی تھی کیوں کہ نرمین بہت کم خاموش ہوتی تھی اور جب ہوتی تھی تب پیچھے بہت بڑی وجہ لازمی ہوتی تھی جو اس کو نقصان پہنچا سکتی تھی ۔۔۔۔۔

نرمین ایک دم چونکی تھی نہیں ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو بلکل ٹھیک ہوں آپ پریشان نا ہوں کھانا کھائیں پھر مل کر بھائی سے بات کریں گے ۔۔۔۔۔

سارہ بیگم بہت غور سے نرمین کی بے چینی کو نوٹ کر رہی تھیں لیکن اگر ابھی اسے نہیں بتانا تھا تو وہ نہیں بتائے گی ورنہ کب کا شور ڈال دیا ہوتا گھر پر ۔۔۔۔۔

ہیلو Tango 517۔۔۔۔

ہیلوsudo 11 کیا خبر ہے ۔۔۔۔

مجھے ہوسٹل میں رہنا پڑھے گا یونی کی کچھ لڑکیاں مشکوک لگی ہیں لیکن ان کی کنفرمیشن کرنا تب تک مشکل ہے جب تک ہوسٹل تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔

یہ کام تو مشکل ہے کوئی بھی ہوسٹل نہیں رہنے دے گا تمہیں ۔۔۔۔

مشکل تو ہے Tango 517 لیکن نا ممکن نہیں ۔۔۔۔

امممم کیا سوچا ہے پھر ۔۔۔

Tango 517میری طرف سے پوری کوشش ہو گی ۔۔۔

ٹھیک ہے جہاں ضرورت پڑھے بتا دینا میں خود سنبھال لوں گا ۔۔۔۔

آپکو میری قابلیت پر کوئی شک ہے کیا ۔۔۔۔

ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس تمہارے لیے کوئی مشکل نا آئے اسی لیے کہا ۔۔۔۔

اممم ۔۔۔۔

اگلی صبح نرمین یونیورسٹی لیٹ پہنچی تھی رات بھر پڑھائی کرنے کی وجہ سے وہ جلدی جاگ نا سکی لیکن یہ کیا کلاس میں تو سر آ چکے تھے ۔۔۔۔

نرمین پہلے کشمکش میں رہی کہ اندر جائے یا نہیں بے عزتی تو ہونی تھی اور اگر نا جاتی توں لیکچر مس ہو جانا تھا تبھی بسم اللّٰہ پڑھتی کلاس روم میں جانے کی اجازت ارہان دی ڈیول سے مانگی تھی ۔۔۔۔

مے آئی کم ان سر ۔۔۔۔

نو ۔۔۔۔

ایک لفظی جواب نے نرمین کو لاجواب کر دیا تھا ۔۔۔۔۔

لیکن سر کیوں؟؟؟

 5 منٹ لیٹ ہیں آپ بتانا پسند فرمائیں گی کہ کیا مصیبت آن پڑھی تھی آپ پر ۔۔۔۔

ارہان غصے سے ناک پھلائے نرمین کو جھڑک رہا تھا لیکن اگر وہ ارہان دی ڈیول تھا تو یہ بھی نرمین دی مونسٹر تھی ۔۔۔۔

آپ سے بڑھ کر کون سی مصیبت ہو سکتی ہے جو دو سال کے لیے میرے نصیب میں لکھی جا چکی ہے سر ۔۔۔۔

نرمین کی بڑبڑاہٹ پر ارہان نے تیکھے تیوروں سے نرمین کو گھورا تھا ۔سر کیا اب میں اندر آ جاؤں ارہان کی گھوری کا اثر لیے بغیر اجازت نامہ لیتی ارہان کے جواب کا انتظار کیے بغیر کلاس میں داخل ہو گئی تھی اجازت تو ایسے لی تھی جیسے ارہان کی بڑی کہنے میں ہو ۔۔۔۔۔

کلاس میں داخل ہوتے نرمین نے اپنی جگہ سنبھالی تھی ۔۔۔۔۔۔

ارہان نے آر جھٹکتے اپنا لیکچر دینا دوبارہ سے جاری کیا لیکچر دیتے جیسے ہی ارہان پیچھے مڑا نرمین نا جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔۔

مس ایکس وائے زیڈ آپ دھیان سے لیکچر سن سکتی ہیں پیپر ہیں اپکے اگلے منتھ ۔۔۔۔

نرمین جو نیچے جھکی نا جانے کیا اٹھا رہی تھی ارہان کی آواز پر ایک دم گھبراہٹ کے مارے بے دھیانی میں اٹھی تو نرمین کا سر زور سے ڈیسک کے ساتھ لگا ۔۔۔۔

اوئی ماں سر پر ہاتھ رکھتی نرمین اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی سر آپ آرام سے آواز نہیں دے سکتے تھے کیا اتنی زور سے لگ گئی اب مجھے آنکھوں میں آنسو بھرے نرمین ابھی بھی سر مسل رہی تھی ۔۔۔۔

اچھا ہے نا تھوڑا دماغ بھی کام کرے گا جو پتا نہیں کب کا جام ہوا پڑا ہے ۔۔۔۔۔

ارہان نے بغیر نرمین کو حوصلہ دیے طعنے مارتا پھر سے اپنے لیکچر میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔

اللّٰہ آپکو پوچھے سر اللّٰہ آپ کی بیوی کو دنیا جہان کی بدتمیزی سے نوازے ۔۔۔۔

ارہان کو بد دعائیں دیتی نرمین اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔

اشرت جس کو نرمین بہت اچھی لگی تھی اب وہ اس سے دوستی کرنا چاہتی تھی تبھی آج بھی اس کی سیٹ اپنے ساتھ رکھی تھی ۔۔۔۔

زیادہ زور سےتو نہیں لگی نرمین ۔۔۔۔۔

نہیں بس ٹھیک ہوں میں نرمین نے مسکرا کر اشرت سے کہا جس پر وہ بھی ہلکا سا مسکرا دی۔۔۔۔۔

مس نرمین کل آپ نے اپنی پورے سمیسٹر کی اسائنمنٹ بنا کر دینی ہے ۔۔۔۔۔

کیاااااااا نرمین کی چیخ پورے ہال میں گونجی تھی سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں ساری اسائنمنٹ ایک ساتھ کیسے بنا کر لاؤں ۔۔۔۔

جیسے اتنی زبان چلاتی ہیں ویسے ہی ہاتھ بھی چلائیں گی تو بن جائیں گی نرمین کا تو اتنی بے عزتی پر منہ ہی کھل گیا تھا  مرتضی اور کنزہ اور زین عریان آپ چارو نرمین کی مدد کریں گے لیکچر دینے میں اور اشرت آپ مجھے اپنی ساری بکس دیں گی اور جس جس میں آپ نے پرانے لیکچر سیو کیے ہیں وہ یو ایس بی مجھے آج کلاس ختم ہونے کے بعد چاہیے ۔۔۔۔

کیا سر آج نرمین جو اپنی کتابیں ٹھیک سے رکھ رہی تھی اشرت کے چونکنے پر ایک دم الرٹ ہو گئی ۔۔۔۔

جی آج بلکے ابھی دے دیں ۔۔۔۔۔

لیکن سر وہ تو میں گھر رکھ آئی ہوں ۔۔۔۔

ارہان نے تیکھے تیوروں سے اشرت کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔ نرمین نے ایک نظر ارہان اور دوسری نظر اشرت کی طرف دیکھا اور پھر ارہان کی طرف دیکھا جو اب اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

نرمین اپنے ہونٹ کاٹنے لگی وہ جب کچھ سوچتی تھی یہ ہونٹ کاٹنے لگتی تھی ۔۔۔۔۔

مجھے کل وہ یو ایس بی ہر حالت میں چاہیے مس اشرت ۔۔۔

جج۔۔۔۔جی سر کل لے آؤں گی ۔۔۔۔۔

لیکچر ختم ہوا تو ارہان اپنے آفس میں چلا گیا اشرت بھی جلدی سے باہر نکل گئی نرمین بھی کلاس سے باہر نکل گئی اب اس کا ارادہ لائبریری جانے کا تھا ۔۔۔۔۔

مرتضیٰ جلدی سے نرمین کے پیچھے گیا مس نرمین آپ کو کوئی ہیلپ چاہیے نرمین نے مڑ کر پیچھے دیکھا آپکی تعریف۔۔۔۔۔

جی ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہوں آئی ناؤ۔۔۔۔مرتضی اپنی تعریف خود کرتا نرمین کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا ۔۔۔۔۔

میں مرتضی بھٹو ہائے میں نرمین خان ۔۔۔۔

مس نرمین آپ کافی انٹیلیجنٹ ہیں ویسے تو آپکو ضرورت نہیں کسی کی مدد کی لیکن جب بھی آپ کو ضرورت پڑھے آپ مجھ سے یا ہمارے گروپ کے کسی بھی بندے سے ہیلپ لے سکتی ہیں ۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے بہت ۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو کہاں دفع ہو سب کے سب وہ یو ایس بھی جس میں میں نے لیکچر رکھے تھے وہ کہاں ہے اس میں سے اپنا ڈیٹا سارا کلیر کرنا ہے ۔۔۔۔کل وہ مجھے بلکل کلیر چاہیے ۔۔۔۔۔

درخت کے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز سنتے نرمین نے مسکرا کر مرتضیٰ کو شکریہ ادا کیا 

"جی ٹھیک ہے بہت شکریہ آپکا جناب میں آپ لوگوں کی۔مدد لے لوں گی اگر چاہیے ہوئی تو "

مرتضیٰ کو چھوڑتے اب نرمین درخت کی اوٹ میں کھڑی ہو کر پیچھے کھڑے وجود کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

کیا میرے بیگ میں میرے بیگ میں کس نے ڈالنے کو بولا تھا بیواقوفو ۔۔۔۔۔

میں جیسے ہی اڈے پر آؤں مجھے وہ یو ایس بی ہر حالت میں صاف چاہیے بس اس میں لیکچر ہی بچے ہوں ۔۔۔۔۔

نرمین نے تھوڑا آگے جھانک کر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں  جس کا وہ سوچ رہی تھی یہ تو وہ نہیں تھی اور کیا تھا اس یو ایس بی میں ۔۔۔۔

کسی کی جاسوسی کرنا کتنی بری بات ہے اتنی عقل مند نرمین بیگم اتنی سی بات بھی نہیں جانتی کیا ۔۔۔۔

نرمین جو اپنی سوچوں میں گم تھی کسی مرد کی آواز پر ایکدم گھبرائی لیکن جلدی سے خود کو کمپوز کرتی سیدھی ہوئی تو پیچھے ارہان ہاتھ باندھے نرمین کو ہی گھور رہا تھا ۔۔۔۔

آپ کیا چھلیڈے کی طرح میرے پیچھے پیچھے ہی رہتے ہیں سر آپکو اور کوئی کام نہیں ہے کیا ۔۔۔۔

نرمین  تڑک کر ارہان پر ہی چڑھ دوڑی تھی تم نے مجھےچھلیڈا کہا ۔۔۔۔

جی سر آپکو بھی تو کوئی اور کام نہیں ہے خیر اب میرا راستہ چھوڑیں مجھے جانا ہے 

جائیں اور اپنے کام پر دھیان دیں باقی سب پر نہیں ۔۔۔۔

ارہان کہتا وہاں سے چلا گیا تھا نرمین سر مارتی جیسے ہی مڑی تو اب درخت کے پیچھے کوئی بھی نا تھا ۔۔۔۔

شٹ یہ ہمیشہ میری زندگی پر گرہن بن کر کیوں آتے ہیں اتنا سسپینس فل کام تھا ۔۔۔۔

نرمین پیر پٹکتی واک آؤٹ کر گئی تھی ۔۔۔۔

راحم کیا کر رہے ہو تم سر مجرہ کر رہا ہوں ۔۔۔

ڈوب کے مر جاؤ بغیرت انسان ابھی تک تم نے پتا نہیں کروایا کچھ بھی ۔۔۔۔

سر میں نے اپنے دو خفیہ بندے چھوڑے ہوئے ہیں آپ فکر نہیں کریں جلد ہی کچھ پتا چل جائے گا ۔۔۔۔

دونوں کو اکٹھے کام پر لگاؤ تاکے جلدی پتا چلے ۔۔۔

نہیں سر یہ ممکن۔نہیں ہے کیوں کہ دونوں کی عادات بلکل ایک دوسرے سے مختلف ہے اسی لیے دونوں کو ایک ساتھ چھوڑ کر رہا سہا کام بھی خراب نہیں کرنا میں نے ۔۔۔۔

آپ انتظار کریں میں آپکو کچھ دن میں ہی بتاتا ہوں ۔۔۔۔

بیٹا تم۔نے جلد کچھ نا بتایا تو میں عنایہ کو تمہارے ساتھ ڈنر پر بھیج دینا ہے پھر مت کہنا کہ بتایا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

کیاااااااا راحم کا اس دھمکی پر منہ ہی کھل گیا تھا ۔۔۔۔۔

سر آپ ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ یہ زیادتی ہے آپکی آپ جانتے ہیں نا آپکی سپوتری مجھے ایک دن میں کنگلا کر دیتی ہے مجھے تو ابھی وہ لنچ نہیں بھولا جس پر مجھے گھر سے پیسے منگوانے پڑ گئے تھے ایک لاکھ کی تو میڈم نے شاپنگ ہی کر لی تھی ابھی اس کا لنچ باقی تھا تھوڑا ترس کھائیں مجھ غریب پر سر میں اس قابل نہیں ہوا یار ابھی۔۔۔۔

تم کتنے خبیث ہو تمہیں اندازہ بھی ہے میری ہی بیٹی کی برائیاں تم مجھ سے ہی کر رہے ہو ۔۔۔۔

دانش صاحب نے فون پر ہی راحم کو لتاڑا تھا ۔۔جس پر وہ سر کھجانے لگا اور کوئی سنتا بھی تو نہیں میری کیا کروں پھر یار ایک آپ ہی تو میرے ہر دکھ سکھ کہ ساتھی ہیں سر ۔۔۔۔۔راحم دانش صاحب کو مسکے لگا رہا تھا ۔۔۔

بس بس پتا ہے جتنے تمہارے دکھ سکھ ہیں نا جانتا ہوں سب مجھے جلد سے جلد رپورٹ کرو کیا غیر مناسب سرگرمیاں چل رہی ہیں ۔۔۔۔

جی سر میں جلد کچھ کرتا ہوں ۔۔۔۔

ابھی اجازت دیں۔۔۔۔

راحم کیا ہوا ایک دم سیریس کیوں ہو گئے ہو۔    

کچھ نہیں سر میں آپ سے کرتا ہوں بات دوبارہ اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔

راحم سامنے کھڑے وجود کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

بہت بے ہودہ حرکت تھی ویسے کسی کی باتیں سننا بہت غلط بات ہے مس شانزے ۔۔۔۔

راحم کے چہرے پر اس وقت بس شانزے کے لیے نفرت ہی نفرت تھی ۔۔۔۔

جو واضح بھی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

میں جانتی ہوں آپکو مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہے میں چاہ کر بھی وہ وقت نہیں بدل سکتی لیکن اللّٰہ نے مجھے جو عزت دی ہے وہ مجھ سے آپ یا آپکی یہ نفرت چھین نہیں سکتی مسٹر راحم ۔۔۔۔

وقت اچھا نہیں رہا تو رہنا برا بھی نہیں میں بھی وقت بدلنے کا انتظار کروں گی اور دیکھنا آپکی نظروں کے سامنے میرا بھی وقت بدلے گا مجھے بھی دنیا بھر کے لوگ عزت کی نظر سے دیکھیں گے اور میرا یقین ہے کہ ان نظروں میں ایک نظر آپکی بھی ہو گی مسٹر راحم ۔۔۔۔۔

آپ جانتے ہیں آپ جتنے خوبصورت ہیں آپکا دل اتنا ہی بدصورت ہے آپ کسی بے قصور کو اس کی نا کردہ گناہ کی سزا دے رہے ہیں آپکی نمازیں یا آپکا جہاد کیا کہتے ہیں اور آپکی یہ نفرت جو بے وجہ ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں آپ اپنی نفرت کا درخت جتنا بڑھا کرنا چاہتے ہیں کر لیں مسٹر راحم خان لیکن یاد رکھیے گا اپنی شاخیں اتنی پکی نا کر لیجیے گا کہ آپ کا درخت کڑوے پھل دینا شروع کر دے ۔۔۔۔

اور رہی بات آپ کی باتیں سننے کی تو مجھے حق ہے آپ پر آپکی ہر چیز پر  آپ نے پیار نا کیا ہو گا لیکن مجھے آپ سے کل بھی پیار تھا آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا یہ پیار کی جڑیں میرے ساتھ قبر تک کا سفر تہہ کریں گی ۔۔۔۔۔۔

شانزے آنسو صاف کرتی اپنے راستے چلی گئی اپنے کمرے میں آتی دروازہ زور سے مارتی وہ دروازے کے ساتھ روتی ہوئی بیٹھتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔

کیوں میرا کیا قصور تھا اللّٰہ جی کاش وہ وقت میری زندگی سے ایسے کٹ کر علیحدہ ہو جائے جیسے دیمک لکڑی کو کھا کر ختم کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔

شانزے دھیرے سے اٹھی اور اپنی میز کے پاس گئی دراز کھول کر ایک کتاب باہر نکالی اور کانپتے ہاتھوں لرزتے وجود کے ساتھ ڈائری کا پنا کھولا جہاں بہت کل رات کچھ لکھتی وہ میز پر سر رکھے سو گئی تھی ۔۔۔۔۔

دوبارہ قلم ہاتھ میں پکڑے پھر سے کچھ لکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔

دس لاکھ ۔۔۔۔۔

اور کون ہے جو دس لاکھ سے زیادہ بولی لگائے گا اتنی خوبصورت دوشیزہ دوبارہ نہیں ملے گی ۔۔۔۔

دس لاکھ ایک ۔۔۔۔

دس لاکھ دو ۔۔۔۔

پچاس لاکھ سب بولی لگانے والوں میں ایک اور کی آواز آئی ۔۔۔۔

کیا وہ اتنی کمتر تھی کیا اس کا وجود اتنا سستا تھا جس کا جتنا دل کر رہا تھا اتنا داؤ لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔

سامنے کھڑی نازک جان کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا خود کو با مشکل چھوٹے سے دوبٹے سے چھپائے اپنے اگلے گاہک کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی کہ فضا میں ایک آواز گونجی آواز گرجدار تھی لیکن یہ آواز سننے سے پہلے وہ مر کیوں نہیں گئی کیا یہ ظلم کافی نہیں تھا کہ ہر غیر مرد اس کی بولی لگا رہی تھی کہ اب اس آواز کی ستم ظریفی کہ وہ بھی اسی کی بولی لگا رہا تھا۔۔۔۔۔

دس کروڑ ۔۔۔۔۔۔ 

دس کروڑ پر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں ۔۔۔۔

اور وہ جو اب تک زلزلوں کی زد میں تھی ایک دم اس کا وجود ساکت ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

بولی لگانے والے نے اپنی بتیسی دیکھاتے بولنا شروع کیا ۔۔۔۔

دس کروڑ ایک ۔۔۔۔۔۔۔

دس کروڑ دو۔۔۔۔۔۔

اس نازک وجود کو تو حیرت کا ایسا جھٹکا لگا کہ سب ہوش ہی کھو گئے ۔۔۔۔۔

دس کروڑ تین ۔۔۔۔۔۔۔

اس کے آس پاس کیا ہو رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی اس کی تو سوچوں کی ڈور اب تک دس کروڑ پر ہی اٹکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

ایک چیک پر دس کروڑ لکھ کر بولی لگانے والے کے منہ پر مارا گیا اور اپنا فولادی ہاتھ میں اس معصوم کا ہاتھ جکڑے اپنی گاڑی میں دھکا دینے والے انداز میں پٹکا جس پر اس وجود کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی لیکن یہاں پروہ کسے تھی ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی تھی وہ یہاں سے اس گندے ماحول سے جلد سے جلد نکلنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

خان ۔۔۔۔

شٹ اپ شانی آواز نا آئے تمہاری ایک دم چپ شانی نے جو ہمت جمع کرتے کچھ بولنا چاہا تھا لیکن خان کی گرج دار آواز نے اسے اپنی جگہ سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

خان نے ایک فلیٹ کے آگے گاڑی روکی اور شانی کا ہاتھ پکڑے اسے  اندر لے گیا یہ فلیٹ چھوٹا ضرور تھا لیکن جتنی خوبصورتی سے بنایا گیا تھا وہ اپنی مثال آپ تھا تاج بی بی تاج بی بی ۔۔۔۔

جی صاحب اسلام علیکم ۔۔۔۔

واعلیکم السلام تاج بی بی یہ آج سے یہاں ہی رہے گی اسے جو بھی چاہیے ہو گا اسے یہاں ہی مہیا کیا جائے یاد رہے یہ لڑکی اس گھر کی دہلیز تب تک پار نہیں کرے گی جب تک میں نہیں چاہوں گا ۔۔۔۔۔

اور اگر کوئی غلطی ہوئی تو میں بھول جاؤں گا کہ آپ کا ساتھ میرے ساتھ بچپن سے ہے ۔۔۔۔۔

جی چھوٹے صاحب آپ پریشان نہیں ہوں میں بی بی کا خیال رکھوں گی ۔۔۔۔۔

ابھی مجھے جلدی میں جلد واپس آؤں گا تب تک یہ آپکی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔

خان نے جائیں مجھے اس سونے کے پنجرے میں بند کر کے میں گھٹن سے مر جاؤں گی ۔۔۔۔

خان کا ہاتھ پکڑے وہ بے بسی سے سسک اٹھی تھی ۔۔۔۔۔

خان نے پہلے اپنے ہاتھ کی طرف اور پھر شانی کی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں خون اترا کسی بھی انسان کو بہکا سکتا تھا ۔۔۔۔۔

شکر کرو ابھی تک بس تمہیں قید کر رہا ہوں تمہارے پر نہیں کاٹے جس دن تمہارے پر کاٹ دیے اس دن اڑان کا سوچ بھی نہیں پاؤ گی ابھی تمہیں میں نے اڑان کا سوچنے تک کی اجازت دے رکھی ہے جلد ہی تمہاری تمام سوچوں اور تمہارے اس بولی لگے وجود پر حکمرانی بھی کرنے لگوں گا تب تک خود کو اس سونے کے پنجرے میں آزاد ہی سمجھو کیوں کہ اب یہ ہی تمہاری آزادی ہے اس گھر سے باہر نکل کر تم بس خود کے لیے مشکل ہی پیدا کرو گی ۔۔۔۔

خان اپنا ہاتھ چھڑواتا شانی کا ہاتھ بے دردی سے جھٹکتا گھر کی دہلیز پار کر گیا تھا اور وہ بس خان کے کچھ الفاظوں میں کھو گئی تھی ۔۔۔۔۔

"ولی لگا وجود "

کب تاج بی بی اسے کمرے میں لے کر گئیں کب وہ کمرے میں پہنچی اس سب سے بیگانہ بس خود کی سوچیں خان کے آخری الفاظ پر ہی ٹکائے رکھیں سوچتے سوچتے ایک دم وہ زور زور سے چیخنے لگی کہ تاج بی بی کہ لیے شانی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔۔۔۔۔

میں دیواروں پر تمہارا " عکس " بنا کر 

تم سے اپنی مرضی کے جواب سنتا ہوں🔥

مت جاؤ میں مر جاؤں گی رک جاؤ نہیں جاؤ شانی سر ادھر ادھر مارتی نیند میں کچھ بڑ بڑا رہی تھی ۔۔۔۔جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا ۔۔

کیا ہوا بی بی جی آپ ٹھیک تو ہیں بی بی آنکھیں کھولیں آج اسے اس سونے کے پنجرے میں رہتے تیسرا دن تھا اور قید کرنے کے بعد خان نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔

تین دن سے شانی اندیکھی آگ میں جلتی اب نڈھال ہو گئی تھی ۔۔۔۔

شانزے نے آنکھیں کھولیں تو سامنے تاج بی بی پریشان چہرا لیے شانزے کو ہی دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔

بی بی آپ ٹھیک ہیں نا آپ اٹھیں کچھ کھا لیں ۔۔۔۔

نہیں مجھے نہیں کھانا کچھ آپ خان کو بلا دیں ۔۔۔۔

صاحب تو اپنی مرضی سے آئیں گے آپ پریشان نا ہوں آپ اٹھ کر کچھ کھا لیں اور دوائی لے لیں ۔۔۔۔۔

مجھے نہیں چاہیے کچھ بھی ۔۔۔۔۔

تاج بی بی افسوس سے سر ہلاتی کمرے سے چلی گئیں تھیں پیچھے وہ بستر میں منہ دیے پھر سے رونے میں مشغول ہو گئی تھی ۔۔۔۔

تاج نے راحم کو کئی بار فون کرنے کی کوشش کی لیکن آگے سے فون بند جا رہا تھا ۔۔۔۔

راحم خان تین دن پہلے تمہارے اکاؤنٹ سے دس کروڑ کی رقم نکالی گئی ہے بیٹا مجھے تم پر بھروسہ ہے لیکن آج کل تمہاری سر گرمیاں کچھ غیر مناسب سی ہیں جانتے ہو نا تمہاری ماں کو بھنک بھی پڑھ گئی تو وہ تمہیں معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔

راحم تو اپنے باپ کی جاسوسی پر حیرت زدہ تھا ۔۔۔۔۔

بابا اپکو نا سیکرٹ ایجنٹ ہونا چاہیے تھا پتا نہیں کس نے آپکو بزنس کی ڈگری دے دی ۔۔۔۔

راحم نے سر مارتے چائے کا گھونٹ بھرا تھا جو کچھ دیر پہلے نرمین اسے دے کر گئی تھی ۔۔۔۔

اب بتانا شروع کرو کون ہے وہ لڑکی اور تمہارے فلیٹ پر کیا کر رہی ہے اور دس کروڑ کس لیے استعمال کیے ۔۔۔۔

یار آپ ایک ایک کر کے سوال نہیں کر سکتے اتنے سارے سوالوں کا اکٹھے جواب نہیں دے سکتا میں ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں برخودار تم ایک ایک کر کے جواب دے دو میں ایک ایک کر کے سن لوں گا۔۔۔۔

راحم بیٹا آج نہیں تو بچتا ۔۔۔۔

بابا وہ وہ راحم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے کیسے ساری کہانی بتائے ۔۔

بابا میں اور شانزے کافی ٹائم سے ایک دوسرے کو پیار کرتے تھے ۔۔۔۔

وہ پیچھے سے ایک گاؤں کی رہنے والی ہے اسلام آباد پڑھنے کے لیے آئی تھی بس ایک دن اس کے بابا کی ڈیتھ ہو گئی ماں پہلے ہی نہیں تھی اکلوتی اولاد تھی نا آگے کوئی نا پیچھے میں اس کے ساتھ اس کے گاؤں گیا ۔۔۔۔۔

لیکن میں ہفتے بعد ہی واپس آگیا شانزے نہیں آئی اس کا کہنا تھا کہ وہ ابھی ادھر ہی رہنا چاہتی ہے پھر ایک دن میرا دل بہت عجیب انداز میں گھبرا رہا تھا میں نے بغیر کچھ بھی سوچے اس کے گاؤں کا رستہ پکڑا اور دو گھنٹے کی مسافت تہہ کر کے شانزے کے گاؤں پہنچ گیا لیکن وہ جاتے تو جیسے میرے سر پر آسمان گر پڑا میری آنکھوں کے سامنے شانزے کی بولی لگائی جا رہی تھی بابا راحم کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ابھی رو پڑے گا مجھے نہیں پتا میں نے کیوں کب کیسے اس پر پیسے لگائے اور یہاں لے آیا ۔۔۔۔

تم نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔۔

نہیں بابا مجھ میں ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔۔

میں اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔

سامنا تو کرنا پڑے گا بیٹا جی اور ہاں آج ہی میری بہو بنا کر تم اسے اس گھر میں لے کر آؤ گے ورنہ خود بھی مت آنا ۔۔۔۔

سارہ بیگم نا جانے کب راحم خان کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئی ہوئی تھیں 

ماما لیکن ۔۔۔۔

کچھ لیکن ویکن نہیں مجھے کل تک وہ بچی اس گھر میں چاہیے راحم خان ورنہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے بابا کو بھی جہاں مرضی کے جانا تنویر صاحب کی آنکھیں سارہ بیگم کی بات پر ابل آئی تھیں ۔۔۔۔

یہ کیا بات ہوئی بیگم غلطی تمہارا بیٹا کرے اور سزا اس کی تم مجھے بھی دو یہ کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔۔۔

جی یہ ہی انصاف ہے کیوں کہ آپ اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔۔۔۔

قسم لے لو بیگم میں نہیں ملا ہوا اس کے ساتھ یہ تو ایک نمبر کا جھوٹا انسان ہے اسی کو سزا دو میں کہیں نہیں جاؤں گا ۔۔۔

تنویر صاحب اخبار چھوڑتے کھڑے ہو گئے تھے ۔۔۔۔

جائیں گے تو اپکے اچھے بھی اسے کوئی عقل نہیں دے رہے کہ جاؤ لے کر آؤ اس بچی کو گھر ۔۔۔۔

اور خود لڑائی ڈال کر بیٹھ گئے ہیں میرے ساتھ ۔۔۔۔۔

دیکھو بیگم ۔۔۔

نہیں ہوں میں اپکی بیگم ۔۔۔۔

اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہیں بیٹا دو دو مولویوں کا انتظام کرنا ایک اپنے لیے ایک میرے لیے کب تک اب کنوارہ رہوں گا میں بھی ۔۔۔۔۔

بابا ایک ہی مولوی دونوں کا کام کر دے گا ڈونٹ وری ۔۔۔۔

راحم خان اٹھتے ہوئے سارہ بیگم اور تنویر صاحب میں آگ لگا گیا تھا ۔۔۔۔

تنویر صاحب حیرانگی سے اپنے مخبر کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

تمہیں یہ مخبری بہت مہنگی پڑھنے والی ہے ۔۔۔۔

دیکھی جائے گی ابھی جا رہا ہوں آپکی ہونے والی بہو کو لینے تب تک میری نئی ماما کا انتظام کر کے رکھیں ۔۔۔۔

اوکے بابا گڈ لک اوکے ماما چلتا ہوں ۔۔۔۔۔

تنویر صاحب کو ایک آنکھ مارتا راحم جا چکا تھا ۔۔۔۔۔

میں بتا رہی ہوں یہ جو آپکی خواہش ہے نا چار چار شادیوں کی میرے زندہ رہتے تو پوری نہیں ہو گی جی ہاں ۔۔۔۔

تو پھر وقت نکال کر مر کیوں نہیں جاتی ۔۔۔۔

کیا کہا جی ۔۔۔

ارے بڑبڑا رہا تھا کچھ نہیں کہا تمہیں کچھ کہہ سکتا ہوں بھلا ۔۔۔۔۔

ارے صاحب آپ شکر صاحب آپ آ گئے بی بی نے تو نا تو کچھ کھا رہی ہیں نا پی رہی ہیں نا دوا لے رہی ہیں ۔۔۔۔

راحم نے چونک کر تاج بی بی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

تو بی بی آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں صاحب جو نمبر میرے پاس ہے وہ بند جا رہا تھا ۔۔۔۔

راحم نے پریشانی سے اپنا ماتھا سہلایا ۔۔۔۔۔

اب کہاں ہے وہ ۔۔۔۔

بی بی تو تین دن سے اپنے کمرے سے نکلی ہی نہیں صاحب ۔۔۔۔۔

اچھا آپ کھانا لگائیں اور کمرے میں لے آئیں میں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔

راحم کمرے میں داخل ہوا تو کچھ دیر اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا بستر پر تین دن پہلے والی شانزے تو تھی ہی نہیں ۔۔۔۔

وہ تو وہ شانزے تھی جسے راحم۔جانتا ہی نہیں تھا کمزور بے جان وجود بستر پر پڑھا راحم کو پریشان کر گیا تھا ۔۔۔۔

راحم جلدی سے آگے ہوا شانزے کے ماتھے پر ہاتھ لگایا تو وہ تپ رہا تھا ۔۔۔۔

شانی آنکھیں کھولو ۔۔۔شانی اٹھو یار شانی ۔۔۔

تاج بی بی تاج بی بی جلدی آئیں ۔۔۔۔

کیا ہوا صاحب جلدی سے پانی ڈال کر دیں ایک باؤل میں اور ایک صاف کپڑا بھی دیں ۔۔۔۔

تاج بی بی نے پانی لا کر دیا جس میں تھوڑی دیر پٹیاں ڈال ڈال کر راحم نے شانزے کے ماتھے پر رکھی تاکہ اس کا بخار کچھ ہلکا ہو سکے ۔۔۔۔۔

ایک گھنٹے کی انتھک محنت کے بعد شانزے کا بخار کچھ ہلکا ہوا تو راحم کی جان میں جان آئی ۔۔۔۔

شانزے کے آنکھیں کھولنے پر راحم نے گھور کر شانزے کی طرف دیکھا جیسے ہی شانزے کی نظر راحم پر پڑھی تو شانزے کا چہرا سپاٹ ہو گیا ۔۔۔۔

کیا کرنے آئے ہو یہاں چلے جاؤ یہاں سے سمجھے جاؤ ابھی کہ ابھی ۔۔۔۔

مجھے بھی کوئی شوق نہیں یہاں تمہاری خدمتیں کرنے کا بابا نے بلایا ہے تمہیں چلو میرے ساتھ اٹھ کر بعد میں کرنا ڈرامے ۔۔۔۔

تاج بی بی اس کو لے کر نیچے آئیں میں انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔۔

راحم اٹھتا نیچے چلا گیا شانزے کمرے میں بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔۔

چلیں بی بی ۔۔۔

مجھے نہیں جانا آپ چلی جائیں ۔۔۔

آئے اللہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ چھوٹی بی بی صاحب تو میرے صاحب ہیں اب میں اس عمر میں ان کے ساتھ شادی کرتی اچھی لگتی ہوں ۔۔۔۔

شانزے نے اپنا سر پیٹ لیا تھا تاج بی بی کی باتوں پر عمر دیکھو ان کی اور شوق دیکھو زرہ ۔۔۔۔

شانزے کمزوری کی وجہ سے اٹھ نہیں پا رہی تھی اور تاج بی بی کمزور ہڈیوں سے کہاں اٹھا پاتیں ۔۔۔۔

جب دس منٹ میں شانزے نیچے نا آئی تو راحم اوپر آ گیا ۔۔۔۔

کیا ہو رہا ہے یہ کیوں تماشے لگا رہی ہو جلدی اٹھو مجھے اور بھی کام ہیں بس تمہارے پاس نہیں رہنا میں نے ۔۔۔۔

تو جاؤ کر لو دوسرے کام ہی کرنے کیا آئے ہو یہاں جب مر جاتی تو آ جاتے ۔۔۔۔۔

راحم نے تیکھی نظروں سے شانزے کی طرف دیکھا تھا ایک نظر تاج بی بی کی طرف گئی اور اشارے سے انہیں باہر جانے کو بولا ۔۔۔۔۔

تاج بی بی جلدی سے باہر چلی گئیں کیوں کہ وہ اپنے صاحب کا غصہ بہت اچھے سے جانتی تھی ۔۔۔۔۔

راحم شانزے کی طرف بڑھا اور اس کے بال نرمی سے اپنے ہاتھ میں لپیٹ کر شانزے کا چہرا تھوڑا اونچا کیا خود شانزے پر جھکے شانزے کا سانس بند کرنے کی پوری کوشش میں تھا ۔۔۔۔

کیا کہا دوبارہ کہو زرہ اب ۔۔۔۔

وہ و۔۔۔۔وہ میں تو میں کہہ رہی تھی مجھ سے چلا نہیں جا رہا ۔۔۔۔

تو میں کیا کروں اب ڈراموں کی ہیرو کی طرح تمہیں اپنی گود میں اٹھا کر لے کر جاؤں تو ایسی گھٹیا سوچ اپنے دماغ سے نکال دو اور جلدی چلو میں زیادہ دیر تمہارے نخرے برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔

شانزے اب بری طرح رو دی تھی مشکل سے کھڑی ہوتی ابھی وہ ایک قدم بھی نا چلی تھی کہ چکر کھا کر اس سے پہلے بستر پر گرتی راحم جس کا دھیان شانزے کی طرف ہی تھا ایک دم پیچھے مڑا اور شانزے کو اپنی باہوں میں قید کر لیا ۔۔۔۔۔

جلدی سے شانزے کو اٹھائے اپنی گاڑی میں بیٹھایا شانزے جو کمزوری کی وجہ سے کم کم آنکھیں کھول پا رہی تھی بہت مشکل سے راحم کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

گھر کے آگے گاڑی روکتے راحم  شانزے کو اپنی گود میں اٹھائے گھر میں داخل ہوا ۔۔۔۔

سارہ بیگم جلدی سے آگے آئیں کیا ہوا بیٹا ٹھیک تو ہے بچی ۔۔۔۔

پتا نہیں خود پوچھ لیں اپنی بچی سے اور اسے کچھ کھلا پلا دیں بہت شوق ہے اسے مرنے کا میرے سر پر چڑھ کر نا مرے جہاں مرضی جا کر مرے میری بلا سے ۔۔۔۔

میں نکاح خواں کا انتظام کر کے آتا ہوں تب تک ۔۔۔۔

ماما واؤ یہ اتنی پیاری لڑکی کون ہیں ۔۔۔۔

شانزے تو نکاح خواں اور راحم کی باتوں پر آنکھیں پھاڑے سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

راحم کی ہونے والی بیوی ہے یہ بیٹا مطلب آپ کی بھابھی ۔۔۔۔واٹ بھائی نے شادی کر لی ۔۔۔

سارہ تو نرمین کی باتوں پر اپنا سر پیٹ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔

آنٹی راحم بہت برا ہے بہت نفرت کرنے لگا ہے مجھ سے میں نے کچھ بھی کیا نہیں تو ۔۔۔۔

شانزے کی معصومیت پر سارہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی آنے دو اسے اس کے میں کان کھینچوں گی تم فکر نہیں کرو بیٹا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد ہی نکاح خواں آئے تو شانزے کے سر پر لال دوبٹا پھیلا دیا گیا ۔۔۔۔

شانزے معصود کیا یہ نکاح اپکو راحم خان کے ساتھ قبول ہے ۔۔۔۔

شانزے نے نظریں اٹھا کر راحم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا تو ایک دم نظریں جھکا گئی تھی۔۔۔۔

راحم جو شانزے کے تاثرات دیکھ رہا تھا شانزے کی ایک ایک حرکت کو دیکھتے طنزیہ مسکراتا سر مارا ۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔۔

نکاح ہوا تو سب نے راحم اور شانزے کو مبارکباد دی راحم تو سپاٹ چہرا لیے سب سے مبارکباد وصول کر رہا تھا لیکن شانزے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے سب کی مبارکباد پر سر ہلا رہی تھی جو اس وقت راحم کو سب سے زیادہ بری لگ رہی تھی ۔۔۔۔

راحم سب سے جان چھڑواتا جلدی سے اپنے کمرے میں بند ہو گیا ۔۔۔

نرمین جاؤ بھابھی کو بھی راحم کے کمرے میں چھوڑ آؤ ۔۔۔

کیون آنٹی میں آپ کے ساتھ رہوں گی اس جلاد کے کمرے میں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔

تنویر صاحب تو اپنی نئی نویلی بہو کے منہ سے اپنے بیٹے کے بارے میں ایسے الفاظ سن افسوس سے سر ہلانے لگے ۔۔۔

بیٹا راحم گیٹ ویل سون بچے میرا بدلہ پورا ہونے ہی والا ہے برخودار ۔۔۔۔

تنویر صاحب نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے راحم کے کمرے کی طرف نظر دوڑاتے سوچا تھا ۔۔۔۔۔

سارہ بیگم بہرحال شانزے کی بات پر مسکرا دی تھیں 

نرمین شانزے جو راحم کے کمرے میں چھوڑ کر نیچے آ گئی تھی شانزے کمرے میں گئی تو کمرا خالی اس کا منہ چڑھا رہا تھا لیکن واشروم سے پانی کے گرنے کی آواز سے پتا چل گیا تھا کہ راحم واشروم میں ہے شانزے اب گھبرانے لگی تھی کچھ شرم اور کچھ راحم کے ڈر سے شانزے کا چہرا سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔

راحم واشروم سے باہر نکلا اور سر کو تولیے سے رگڑنے لگا کپڑوں کے نام پر بس ٹراؤزر پہنے رکھا تھا شانزے کی جیسے ہی نظر پڑی تو اس کے منہ سے ایک زبردست چیخ نکلی راحم جو اپنے دھیان لگا ہوا تھا شانزے۔کی چیخ پر ایک دم بوکھلا گیا ۔۔۔۔

تم میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو ۔۔۔

شانزے نے جلدی سے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا مجھے یہاں آنٹی نے بھیجا ہے وہ کہہ رہی تھیں اب سے تم یہاں ہی رہو گی میں نے تو بولا تھا میں اس جلاد کے ساتھ نہیں رہوں گی ۔۔۔۔

آنکھوں۔ پر ہاتھ رکھے فراٹے بھرتی زبان اپنے جوہر ساتھ ساتھ دیکھا رہی تھی ۔۔۔۔

راحم بہت سکون سے شانزے کو دیکھ رہا تھا پھر کچھ قدم آگے بڑھا اور شانزے کے کان کے پاس جھک گیا ۔۔۔۔

راحم کے جسم۔سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو شانزے کے اوسان خطا کرنے لگی ۔۔۔۔

تم میرے کمرے میں بس میری بیوی کے نام سے رہو گی ورنہ مجھ سے کسی بھی قسم کی کوئی امید مت رکھنا کہ میں تمہیں بیوی کا درجہ دوں گا میں نا جانے کیسے اس بولی لگے وجود کو اپنے کمرے میں برداشت کروں گا لیکن وہ بھی تب تک جب تک میں دوسری شادی نہیں کر لیتا اس کے بعد میری بلا سے میری طرف سے تم بھاڑ میں جانا ۔۔۔۔

الفاظ تھے یا سیسہ جو شانزے کے کانوں میں انڈیلا گیا تھا ۔۔۔۔۔

شانزے نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے پہلے والی شرم کہیں اڑ گئی تھی ۔۔۔۔

اب راحم اور شانزے کا چہرا بہت قریب تھا ۔۔۔۔

کاش کاش تم اس روز مجھ سے نکاح نا کرتے راحم اگر تم نے مجھے ایسے ہی تڑپانا تھا تو نا کرتے نکاح اس سب سے تو بہتر تھا کہ تم مجھے انہی درندوں کے ہاتھوں چھوڑ آتے تاکہ یہ روز روز کی موت سے بہتر میں ایک بار ہی موت کو گلے لگا لیتی ۔۔۔۔۔

ڈائری پر لکھتی آنکھوں میں آنسو لیے وہ ماضی سے حال میں آئی تھی ۔۔۔۔

بس اب اور نہیں راحم خان اب مزید میں تمہارے ہاتھ کہ کٹپتلی نہیں بنو گی ۔۔۔۔

تمہیں کسی اور سے شادی کرنی ہے تو ٹھیک ہے میں بھی تم۔سے طلاق کا مطالبہ کروں گی تاکہ میں بھی سکون کہ۔زندگی گزار سکوں شانزے آنسوں کو بے دردی سے صاف کرتی ڈائری بند کر گئی تھی ۔۔۔۔

آنے والا وقت راحم کے لیے کتنی بڑی مصیبت لا رہا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔راحم خود بھی نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین کہاں جا رہی ہو ۔۔۔۔

ماما یونی جا رہی ہوں کیوں کیا ہوا کچھ چاہیے تھا کیا۔۔۔۔

نرمین پہلے ہی لیٹ ہو رہی تھی اسی لیے جلدی جلدی اپنا بیگ سمیٹ رہی تھی ۔۔۔۔

نرمین میں تمہیں دو تین دن سے دیکھ رہی ہوں کافی چپ چپ ہو اور پریشان بھی کیا بات ہے بیٹا تم۔پریشان ہو کیا نرمین کو سارہ بیگم کی بات پر ہنسی آ گئی اس ہی۔ماں واقعی بہت گہری سوچ رکھتی تھیں اس پہلے وہ کچھ بولتی سارہ بیگم کی اگلی بات نے اس کے ہاتھ پاؤں ساکت کر دیے تھے 

"بیٹا یونی میں کوئی لڑکا پسند آگیا ہے تو بتا دو راحم اس کا پتا کروائے گا اگر تو وہ اچھے لوگ ہوئے تو ہم تمہاری شادی اس سے کر دیں گے لیکن ایسے اداس نا ہو میری بچی "

  لڑکے کی بات پر ارہان کا چہرا نرمین کی نگاہوں میں گھوم گیا تھا ۔۔۔۔

ایک دم ہوش میں آتے اپنا سر جھٹکا تھا ۔۔۔۔

کیا ہو گیاہے ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں ۔۔۔۔

آپ پریشان نہ ہوں میں ٹھیک ہوں بلکل اور رہی بات لڑکے کی تو کسی بھی لڑکے میں اتنی ہے ہمت جو مجھے پسند آ جائے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو دباتے وہ سارہ بیگم کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔

تمہارا اور تمہارے بھائی کا اللّٰہ ہی وارث ہے ۔۔۔۔

Zulu 133کیا بنا کام کا ۔۔۔۔

کر رہا ہوں کوشش ہو جائے گا تمہارا کام انشاء اللّٰہ۔۔۔

کب تک ہو گا مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی پچھلے اتنے دنوں سے تم۔لوگوں سے ایک مجرم نہیں پکڑا جا رہا ۔۔۔۔

تم لوگ میرے علاؤہ بھی کسی کو یہ کام کہا ہے کیا ۔۔۔۔

ہاں ہے ایک اور بھی لیکن تم دونوں سے کچھ نہیں ہو پائے گا ۔۔۔۔رکو ایک منٹ کال ڈراپ نا کرنا ۔۔۔

اچھا ۔۔۔

ہیلو sudo 11

ہیلو Tango 

کیسی ہو ۔۔۔

یہ آواز یہ آواز تو اس نے پہلے بھی سنی تھی فون کی تیسری طرف والے کے کانوں نے جیسے اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔اس آواز کو کیسے نا پہچانتا وہ لیکن کچھ بولا نہیں تھا ۔۔۔۔

کام ہوا کہ نہیں ۔۔۔۔

tangoکیا میں آپکو کوئی ہوائی مخلوق لگتی ہوں جو گھر بیٹھے ہی سب پتا لگوا لوں ۔۔۔

ہوائی مخلوق سے کم بھی نہیں ہو فون کی دوسری جانب بیٹھے Zulu 133 نے اپنے دماغ میں سوچا تھا ۔۔۔۔

ابھی یونی جا رہی ہوں وہ جو دجال کی دو نمبر کاپی بیٹھا ہے نا اس نے میرا قتل کر دینا ۔۔۔۔

کس کی بات کر رہی ہو ۔۔۔

ارے وہی ارہان صاحب سب کہوں Tango تو کبھی کبھی مجھے وہ ہی مشقوق لگتا ہے لنگور کہیں کا الو کا پٹھا مجھ سے اتنی ضد لگاتا ہے جیسے رشتہ لینا ہو مجھ سے ۔۔۔۔

Tango کا اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا اور دوسری طرف بیٹھا Zulu چہرے پر سنجیدگی سجائے پٹر پتر باتیں سن رہا تھا اس چھوٹی سی لڑکی کی جس نے یونی میں 

ادھم مچا رکھا تھا ۔۔۔۔

اچھا ابھی چلتی ہوں تھوڑی دیر تک بات کروں گی اس قوم کو بھی جا کر جھیلنا ہے جو یاجوج ماجوج کی قوم سے لگتا ہے ۔۔۔۔

اللّٰہ حافظ ۔۔۔

sudoنے فون بند کیا تو Tangoکا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا ۔۔۔۔

اب تو پتا چل گیا ہو گا کہ کون ہے یہ ۔۔۔

جی ہاں پتا چل گیا لیکن یہ تمہاری کیا لگتی ہے ۔۔۔۔

جان ہے میری اصل میں تمہارا کام اس کا خیال ہی رکھنا ہے ۔۔۔

میں تجھے سیکیورٹی گارڈ نظر آتا ہوں کیا میں نہیں رکھ رہا اس چھپکلی کا خیال ۔۔۔

یار ویسے تو نا کہہ تو میرا جگری دوست ہے تجھ پر بھروسہ کر رہا ہوں نا پلیز مان جا میں اس کی ہر بات مانتا ہوں ماما بابا سے چھپ کر اس کو یہ کیس دیا ہے لیکن وہ ابھی چھوٹی ہے لیکن ضد کی پکی ہے ورنہ کبھی بھی تجھ پر اس کی زمہ داری نا ڈالتا ۔۔۔۔

اچھا اب ڈرامے نا کر دیکھوں گا ویسے بہت نخرے ہیں اس کے ساری یونی کو آگے لگا کر رکھا ہوا اس چھوٹی سی قوم نے ۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا ہاں لیکن میں اس کے سامنے نکھرے اٹھاتا ہوں جانتا ہے کیوں کیوں کہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اپنی بہن ۔۔۔۔۔

کیا بہن یہ تیری بہن ہے Tango

ہاں اور تجھے کیا لگ رہا تھا تب سے ۔۔۔

مجھے لگا شاید تیری جی ایف ہے ۔۔۔کیوں کہ اس محترمہ نے اپنا نام کے ساتھ  سلطان بتایا ہوا ہے یونی میں ۔۔۔۔

پاگل ہے تو ویسے ۔۔۔ہاں میں نے ہی اسے نام چینج کرنے کو بولا تھا پیپر پر کبھی دھیان دینا سلطان کی جگہ تنویر لکھتی ہے وہ ۔۔۔

وہی تو میں بھی سوچوں ایک بھابھی گھر بیٹھائی ہوئی ہے ایک بھابھی لانے کے چکر میں ہے یہ تیسری عوام کون ہے پھر مجھے کیا پتا تھا کہ تیری بہن ہے ۔۔۔۔

بھابھی کہ نام پر کسی کا معصوم چہرا Tango کی نظروں کے گرد گھوم گیا تھا ۔۔۔۔

اچھاچل اب خیال رکھنا میری بہن کا پھر بات ہوتی ہے اللّٰہ کے امان میں ۔۔۔۔اور ہاں sudo کو نہیں پتا چلنا چاہیے کہ تم اسے جان گئے ہو سمجھے ورنہ وہ میرے سر کا ایک بال نہیں چھوڑے گی ۔۔۔

اوکے چل خدا حافظ ۔۔۔۔

گڈ مارننگ سٹوڈینٹس کیسے ہیں آپ سب ۔۔۔۔

ارہان اپنے کسرتی جسم پر بلیک ہائی نیک پہنے بلیک جینز کے ساتھ بلیک ہی ہی کوٹ پہنے آنکھوں پر نظر کی عینک لگائے بڑھی ہوئی داڑھی مونچھ کے ساتھ سب لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں پر بھی بجلی گرا رہا تھا ۔۔۔۔۔

نظر گھما کر پوری کلاس میں دیکھ لیا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی تھی ماتھے پر دو تیوریوں نے اپنا دیدار کروایا تھا ۔۔۔۔

ابھی وہ زیادہ دیر نرمین  کے بارے میں سوچتا نرمین کی آواز پورے ہال میں گونجی تھی ۔۔۔۔

میں آجاؤں اندر ۔۔۔

چہرے پر بھرپور سنجیدگی سجائے ہال کے دروازے میں کھڑی سانس کے ساتھ سانس ملانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو گئی تھی ۔۔۔۔

آج پھر آپ لیٹ ہیں مس ۔۔۔

جی مجھے کچھ ضروری کام تھا سر ۔۔۔

تو پھر آپ وہ ہی کام کر لیتیں یہاں کیوں آئیں ہیں ۔۔۔۔

سر میرے خیال سے آپ نے قسم کھائی ہے ہر وقت مجھ سے لڑنے کی کہیں اپکو مجھ سے پیار تو نہیں ہو گیا ۔۔۔۔

ارہان کو اس سوال کی توقع نہیں تھی پورا ہال کانوں میں باتیں کرنے لگا تھا ارہان کے تو چھکے ہی چھوٹ گئے تھے چہرے سے ہوائیاں اڑ چکی تھیں وہ آنکھیں پھاڑے نرمین کو دیکھنے میں مصروف تھا جب وہ ایک آنکھ مارتی کمرے میں داخل ہو گئی تھی ۔۔۔۔

پورے ہال میں سوائے ایک انسان کے کسی نے نرمین کی یہ حرکت نہیں دیکھی تھی اور جس نے دیکھی تھی بہت غور سے دیکھی تھی ۔۔۔۔

ارہان تو دانت پیستا رہ گیا تھا ۔۔۔۔

سر مت زور لگائیں ٹوٹ جائیں گے عمر کے تقاضے کا بھی خیال کریں ۔۔۔۔

پوری کلاس میں اب کی بار قہقے گونجنے لگے تھے ۔۔۔۔

اور ارہان بس نرمین کا منہ دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔۔۔

یہ ایک ٹارچر روم تھا جہاں ایک انسان کو دماغی مریض بنانے کا ہر آلہ موجود تھا ۔۔۔۔

کمرے سے چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں پوچھو اس خبیث سے کس کے لیے کام کرتی ہے ۔۔۔

میڈم لیکن آپ ایک لڑکی پر اتنا ٹارچر کیسے کر سکتی ہیں ۔۔۔

جب ایک مرد قصور وار ہو تو اسے سزا دی جا سکتی ہے تو پھر ایک عورت کو کیوں نہیں جب تک منہ سے سچ نا اگل دے اس کی چیخوں کی آوازیں میرے کانوں میں آتی رہنی چاہیے ۔۔۔

چہرے کو ڈھانپے بلیک جیکٹ بلیک جینز میں وہ کوئی اور ہی جگہ سے آئی ڈون لگ رہی تھی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ پاکستان کی ڈون لگ رہی تھی ۔۔۔۔

ااااااااااااااا بند کرو اسے ااااااااااااااا گرم سلاخ جسم پر لگتے وہ پنجرے میں بند پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگی تھی ۔۔۔۔

میں میں سچ بتاتی ہوں چھوڑو مجھے پلیز چھوڑو ۔۔۔۔

پچھلے دو دن سے مسلسل ٹارچر سہتے شاید اب اس کے ہوش ٹکانے آگئے تھے پوچھو اس بدبخت سے اپنے ہی ملک کے ساتھ غداری کر رہی ہے ۔۔۔۔

کون ہے جو اس سے یہ سب کروا رہا ہے ۔۔۔۔

میں شام میں دوبارہ چکر لگاؤں گی تب تک مجھے ساری انفارمیشن چاہیے ۔۔۔۔

ہیلو Tango میرے پاس آپ کے لیے ایک خبر ہے مجھے جس انسان پر شک تھا وہی انسان اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے ۔۔۔۔

لیکن آپ کو بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ وہ ایک لڑکی ہے لیکن اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے جس کے لیے وہ کام کر رہی ہے ۔۔۔

ڈرگز مافیا کی بہت بڑی تعداد ملک کو برباد کر رہی ہے جس سے ہم سب بے خبر ہیں ۔۔۔۔

مجھے آپکی ضرورت ہے مجھے آج کل میں ہی ہوسٹل شفٹ ہونا ہے اس کا بندوبست کر دیں ۔۔۔۔

ٹھیک ہے میں کرتا ہوں کچھ لیکن پھر بتا رہا ہوں تم اکیلی کوئی قدم نہیں اٹھاؤ گی اور یہ جو ہماری ناک کے نیچے سے اس لڑکی پر ٹارچر کر رہی ہو باز آ جاؤ sudo تم جانتی ہو میں نے تمہیں اپنے بھروسے یہ کام دیا ہے اگر تمہیں ہلکی سی بھی خراش آئی تو یہ سب مل کر مجھے نظر بند کر دیں گے سو بی کیرفل ۔۔۔۔۔۔

اممممم میں آج Neoسے ملنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔

کیوں کیا کرنا ہے اس سے مل کر مقابل کے ماتھے پر بل آئے تھے Sudo کی بات سے ۔۔۔۔

بس ملنا ہے آپ مجھے روک نہیں سکتے ۔۔۔۔

ٹھیک ہے میرے پاس آ جانا میں ملوا دوں گا ۔۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے ۔۔۔۔

ہیلو Zuluتمہیں ایک ذمہ داری دی تھی میں نے تم وہ بھی نہیں کر سکے۔۔۔۔

مقابل کے سر میں پھیرتے برش پر ہاتھ تھم گئے تھے ۔۔۔

اب کیا ہوا ہے میں نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔

Sudo کیا کرتی پھر رہی ہے تمہیں اندازہ بھی ہے پچھلے دو دن سے وہ مسلسل کسی کو ٹارچر روم میں قید کر کے ٹارچر کر رہی ہے اور میڈم نے سب سچ اگلوا بھی لیا ہے اور تم بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہو نا جانے کس نکمے انسان کو میں نے اپنا دوست بنا لیا ہے ۔۔۔۔

Tango نے غصے میں فون بند کر دیا تھا اور Zuluجو ابھی کچھ کہتا حیرانگی سے اس چھوٹی سے چھپکلی کے بارے سوچنے لگا تھا ۔۔۔

ابھی اس کی کرتوت سب کو پتا چل جائے تو کوئی بھی اس کی فکر نا کرے شہزادی صاحبہ سب سے اکیلے ہی مقابلہ کر سکتی ہیں ۔۔۔

میسنی کہیں کی مل جاؤ ایک بار پنکھے سے الٹا نا لٹکا دیا تو پھر کہنا غصے میں برش پٹکتے وہ جلدی سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔

بابا اپ کہاں جا رہے ہیں۔ ۔۔۔

بیٹا میں یونی جا رہا ہوں آپ کو کچھ چاہیے اور آپ ریسٹ کریں آپکو بخار تھا ۔۔۔

بابا اب میں سکول نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔

کیوں نہیں جائے گا میرا بیٹا سکول آرہان کو یونی سے دیر ہو رہی تھی لیکن ارحم کے ایسا کہنے پر وہ اسے گود میں لیے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

بابا داؤد مجھے چڑاتا ہے کہ میری تو ماما ہی نہیں ہیں تمہیں تمہارے بابا نے ڈسٹ بن سے اٹھایا تھا ۔۔۔۔

کیا بابا آپ نے مجھے ڈسٹ بن سے اٹھایا تھا ۔۔۔۔اپنے دونوں ننھے ہاتھ ارہان کے چہرے کے گرد رکھے وہ جتنی معصومیت سے پوچھ رہا تھا ارہان کا دل کٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔

بیٹا بری بات ایسے نہیں سوچتے آپ تو میرے بیٹے ہو نا ۔۔۔۔

تو بابا وہ ایسے کیوں کہتا ہے ۔۔۔

اچھا میں آپکی ٹیچر کو کہوں گا کہ اسے منع کر دیں اپکو تنگ نا کیا کرے اب ٹھیک ہے اب میں جاؤں مجھے یونی سے دیر ہو رہی ہے ۔۔۔

جی بابا بائے ۔۔۔۔

بائے بیٹا ۔۔۔

ارہان جلدی سے اپنی گاڑی لیے یونی سے نکلا تھا ۔۔۔۔

اوئی ماں دیکھ کر نہیں چل سکتے گدھے الو کے پٹھے میرے ساری کتابیں گرا دیں بھینس کی چال والے انڈے کے منہ والے اب دیکھ کیا رہے ہو میری مدد کرو کتابیں اٹھانے میں ۔۔۔۔

بولتے ہوئے نرمین کی نظر جیسے ہی اوپر کہ۔طرف اٹھی تو وہ آنکھیں پھاڑے مقابل کو دیکھنے لگی جو کمر پر لڑاکا عورتوں کی۔طرح دونوں ہاتھ رکھے نرمین کی قینچی جیسی زبان کے جوہر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین اور ارہان دونوں ہی جلدی میں تھے جب دونوں کا زبردست تصادم ہوا اور دونوں کی چیزیں نیچے گر گئیں ۔۔۔

اب نرمین بی بی تھیں اور ان کی قینچی کی طرح چلتی زبان ۔۔۔۔

جتنی تم زبان چلاتی ہو اتنی عقل بھی چلا لیا کرو تاکہ اپنے کام پر دھیان دے سکو۔۔۔۔

ارہان نرمین پر طعنے برساتا کلاس روم میں داخل ہو گیا تھا ۔۔۔۔

نرمین منہ کھولے ارہان کو دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔۔۔

نمی تیری قسمت ہی خراب ہے اس پانڈہ کے ساتھ ٹکرانے سے بہتر تھا تو کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ۔۔۔

مس نرمین آپکی خود سے باتیں ختم ہو گئی ہوں تو تشریف لے آئیں اندر ۔۔۔

نرمین ارہان کو گھوری سے نوازتے جلدی سے ہال میں داخل ہو گئی تھی ۔۔۔۔

اپنی اپنی اسائمنٹ نکالیں ۔۔۔۔

نرمین نے جلدی سے بیگ کھولا تاکہ اسائنمنٹ نکال کر دے لیکن یہ کیا خالی بیگ نرمین کا منہ چڑھا رہا تھا ۔۔۔۔

میری اسائمنٹ کہاں گئی یار رات کو تو رکھی تھی میں نے اندر ۔۔۔

بیا آپ سب سے اسائمنٹ کالیکٹ کر لیں۔۔۔۔

سر پچھلے تین دن سے اشرت چھٹی پر ہے اس کے مارکس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔۔

بیا کی بات پر نرمین کے بیگ میں چلتے ہاتھ ایک دم رکے تھے اس نے ارہان کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ جہاں ہیں وہ ہی ان کے لیے بہتر جگہ ہے خیر آپ باقی سب کی اسائمنٹ لے لیں ۔۔۔

نرمین سے نظریں ہٹاتے ارہان بلیک بورڈ پر کچھ لکھنے لگا تھا ۔۔۔۔

نرمین اسائمنٹ دو ۔۔۔

یار بیا وہ نا رات بناتے ہوئے شاید بیڈ پر ہی بھول آئی ہوں تم ابھی سر ہو مت بتانا میں کل لے آؤں گی ۔۔۔۔

نرمین منت بھرے لہجے میں بیا سے گزارش کر رہی تھی لیکن بیا نے ارہان کو بتا دیا ۔۔۔۔

سر نرمین اپنی اسائمنٹ گھر چھوڑ آئی ہے اور مجھے کہہ رہی ہے اپکو نا بتاؤں ۔۔۔۔

پورے ہال میں دبی دبی ہنسی کی آوازیں آنے لگی تھیں سب جانتے تھے اب کبھی نا ختم ہونے والی ارہان اور نرمین کی نوک جھونک شروع ہونے والی ہے ۔۔۔۔

ڈیٹس گریٹ کوئی بات نہیں مس بیا مس نرمین پر اور پورے جہان کہ ذمہ داریاں ہیں اب چھوٹے چھوٹے کندھے اتنی زیادہ ذمہ داریاں کیسے پوری کریں گی ویسے بھی ان کے تمام کانسیپٹ کلیر ہیں آدھے سے زیادہ سلیبس کا یہ دو بار ٹیسٹ دے چکی ہیں آپ یہ سمجھیں کہ نرمین میڈم ٹاپ کریں گی اس بار ۔۔۔۔

طنز پر طنز کرتے ارہان نے نرمین کی طرف دیکھا جس کا چہرا ضبط سے سرخ ہو چکا تھا ۔۔۔۔خود پر غصہ آیا کہ کیوں بھول آئی اسائنمنٹ گھر پر ۔۔۔۔

اب تو جیسے کلاس میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔

وہ منہ بسور کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی سارا دن ایسے ہی افسردہ سا گزرا تھا چھٹی کے وقت ارہان یونی سے نکلا تو گیٹ کے باہر سرجھکائے نرمین کو بیٹھے دیکھا ارہان کو حیرت ہوئی کہ وہ ایسے کیوں بیٹھی ہوئی ہے ارہان جلدی سے آگے گیا اور نرمین کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اپنے پاس کھڑے کسی کو دیکھ نرمین نے آنکھیں اٹھائیں تو ارہان نرمین کی آنکھوں۔ میں آنسو دیکھ جیسے تڑپ اٹھا تھا ۔۔۔

جلدی سے اس کے پاس بیٹھتا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔

کیا ہوا نرمین رو کیوں رہی ہو بتاؤ مجھے کسی نے کچھ کہا ہے کیا ۔۔۔۔

نرمین نے دھیرے سے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔

کس نے کہا ہے مجھے نام بتاؤ میں اس کی جان لے لوں گا ۔۔۔۔

مر چکا ہے وہ لیکن میری زندگی کی تلخ حقیقت بن گیا ہے وہ ۔۔۔۔

نرمین کی بھیگی آواز میں کہے گئے الفاظ نے ارہان کو اپنی جگہ جامد کر دیا تھا ۔۔۔۔انکھیں ایک دم ضبط سے لال ہو گئی تھیں نرمین کے ہاتھوں پر دباؤ بڑھ گیا تھا نرمین نے چونک کر ارہان کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔

کون ہے وہ لڑکا میں جان لے لوں گا نرمین اس کی آج کے بعد وہ تمہارے آس پاس نظر نا ہے مجھے بولو کون ہے وہ ۔۔۔۔

نرمین حیرت سے ارہان کو دیکھنے لگی جو وہ سمجھ رہا تھاایسا تو کچھ تھا ہی نہیں لیکن ارہان نا جانے کیا سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔

ایک دم نرمین کو شرارت سوجھی پرانی والی نرمین کی واپسی ہو چکی تھی آنکھوں سے آنسو سوکھ گئے تھے ۔۔۔۔

کیوں بتاؤں دل و جان سے محبت کرتی ہوں اس سے اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی اور آپ ہوتے کون ہیں یہ کہنے والے کہ میں اس سے دور رہوں ۔۔۔۔۔

ارہان کا غصے سے چہرہ سرخ ہو چکا تھا نرمین میں لاسٹ ٹائم وارن کر رہا ہوں دور رہے وہ تم سے ورنہ اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔

نرمین کا دل کیا وہ زور زور سے قہقہے لگائے لیکن ہنس کر وہ اپنی موت کو دعوت نہیں دے سکتی تھی ارہان کے ہاتھوں سے ہاتھ چھڑوا کر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔

میں اس سے ملوں گی بھی اس سے پیار بھی کروں گی اور اب تو بچے بھی اسی سے پیدا کروں گی ۔۔۔۔

نرمین کہہ کر جلدی سے بھاگ گئی تھی اس سے پہلے ارہان اپنی نظروں سے ہی اس کی سانس روک لیتا جب کے ارہان تو دانت پیستا رہ گیا تھا

نرمین نے آنا ہے آج ملنے تم سے خیال رہے کسی قسم کی کوئی بات نا کرنا اس سے ۔۔۔

کیوں ڈر لگ رہا ہے بہن کہیں کچھ کہہ نا دے گھر جا کر شانزے نے تو جیسے راحم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا 

شانزے کا چہرا اب راحم خان کے شکنجے میں تھا ۔۔۔

 بہت اڑ رہی ہو نا بہت جلد تمہارے پر کاٹنے پڑھیں گے میں بتا رہا ہوں اگر اسے کوئی بھنک بھی پڑی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔

خان آپکو لگتا ہے کہ آپ سے برا کوئی اور بھی ہے ۔۔۔۔۔

نہیں تمہاری لیے اس پوری دنیا میں میرے علاؤہ کوئی اور برا انسان نا ہو گا نا ہو سکتا ہے میں ہی کافی ہوں تمہارے لیے ۔۔۔۔

خان آپ بہت پچھتائیں گے میرا کوئی قصور نہیں تھا پھر بھی آپ اتنے سالوں سے مجھے مسلسل سزا دے رہے ہیں یاد رکھیے گا بہت برا ہو گا آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔

خان نے شانزے کو بالوں سے ہلکا سا پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اس کے دونوں ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کر لیا ۔۔۔۔۔

شانزے کے نازک ہونٹوں پر زخم چھوڑتے ہوئے جیسے ہی وہ پیچھے ہٹا تو شانزے نے اپنے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا جہاں خون کی ننھی سی بوندھ نکل کر ہونٹوں کو مزید قیامت خیز بنا رہی تھی ۔۔۔۔

شانزے نے پر شکوہ نگاہوں سے خان کی طرف دیکھا تھا جو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اب بولو کیا کہہ رہی تھی اتنی سی بات ہے اور تم کیسے میرے رحم و کرم پر آ جاتی ہو اور باتیں اتنی بڑی بڑی ایسے کرتی ہو جیسے نا جانے کون سی ریاست کی شہزادی ہو ۔۔۔۔۔

شانزے کی آنکھوں سے اب آنسو بہنے لگے تھے ۔۔۔۔

راحم واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ شانزے کی اگلی بات نے راحم پر ساتوں آسمان گرا دیے تھے ۔۔۔۔۔

خان مجھے آپ سے طلاق چاہیے ۔۔۔۔

خان انہی قدموں پر واپس مڑا اور شانزے کی کلائی جکڑتے ہوئے اسکو کھینچتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا اور جا کر بیڈ پر دھکا دیا ۔۔۔۔

شانزے اوندھے منہ بیڈ پر گر گئی ۔۔۔۔

زور سے دروازہ بند کرتے راحم نے شانزے کو کندھے سے پکڑتے اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔۔

کیا بکواس کی ہے دوبارہ کرو زرہ کیا کہا تھا بولو ۔۔۔۔

شانزے کا نازک وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا جو راحم کو مزید شانزے کے قریب کرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

شانزے تو جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کے مترادف ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

چھ۔۔۔۔چھوڑیں خان مج۔۔۔

مجھے۔۔

کیوں بس اتنی سی ہمت تھی طلاق چاہیے نا ٹھیک ہے دے دوں گا لیکن پہلے میرا حق دو اس کے بعد طلاق بھی دے دوں گا۔۔۔۔۔

شانزے کے تو جیسے سر پر لگی پاؤں پر بجھی تھی ۔۔۔۔۔

ہوتے کون ہیں آپ مجھ سے اپنا حق مانگنے والے دیا کیا ہے آپ نے مجھ سے جو لینے کی خواہش کر رہے ہیں عزت تک تو دی نا گئی آپ سے نکاح میں لینے کے بعد بھی اپنا نام تک تو میرے ساتھ لگاتے ہوئے اپکو کچھ ہوتا ہے پھر کس بات کا حق ایسا رشتہ کون سا ہے ہم میں جس پر آپ اپنا حق مانگ رہے ہیں بتائی خان کس بات کا حق دوں آپکو ۔۔۔۔۔

شانزے راحم کا گریبان پکڑے چیخ پڑی تھی لیکن چہرے پر پڑھنے والا راحم کا تھپڑ جیسے اسے ہوش میں لایا تھا شانزے کی آنکھوں میں آنسو اپنی جگہ ٹھہر گئے تھے راحم کو اپنے پیچھے سایہ سا نظر آیا تو وہ ایک دم پلٹا تھا اور دروازے کی طرف دیکھتے اپنی جگہ ساکت ہو گیا تھا جہاں نرمین آنکھو۔ میں آنسو لیے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی ۔۔۔۔

نرمین ۔۔۔

راحم نے جیسے ہی اس کی طرف بڑھنا چاہا تو نرمین نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہاں ہی رکنے کو بولا ۔۔۔

رک جائیں بھائی میرے پاس نا آئیے گا آپ پر پہنی وردی آپکو یہ سیکھاتی ہے کیا ۔۔۔۔

بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر کہ ایک عورت پر آپ جیسا جوان مرد پوری دنیا گینگسٹر جس سے خوف کھاتے ہیں وہ ایک کمزور مخلوق پر کتنے دھڑلے سے ہاتھ اٹھا رہا ہے بہت خوب بھائی ۔۔۔۔۔

نرمین آنسو صاف کرتی شانزے کے گلے سے لگ گئی تھی شانزے کو بھی کسی اپنے کی ضرورت تھی تبھی وہ بھی نرمین کے گلے لگتے رونے لگی تھی شانزے کو حوصلہ دیتے ہین مین اپنے بھائی کی طرف موڑ لی تھی اور اپنے بھائی کا گریبان پکڑتے سراپا سوال بن کر کھڑی تھی کیوں بھائی کیوں کیا ایسا کیا قصور ہے بھائی کا کیا بھابھی چاہتی تھی کہ لوگ انھیں ایسے سارے جہان میں بد نام کرتے رہے یا بھابھی کی کوئی خود کی غلطی تھی نہیں نہ تو پھر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہی ہیں۔۔۔۔۔

رحم شانزے کی طرف گھور کے دیکھ رہا تھا لیکن شانزے کو اس کی گھوری کا کوئی اثر نہیں ہوا شانزے نے نرمین سے کہا  کہ وہ اس کے ساتھ گھر جانا چاہتی ہے یہاں رہ کر اس کا دم گھٹنے لگا ہے نرمین  کو اور کیا چاہیے تھا اسی لئے شانزے کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ گھر لے جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھی راحم  نے شانزے کی کلائی اپنے ہاتھ میں پکڑ لی جس کو شانزے  نے سے جھٹک دیا۔۔۔۔۔۔

میں مزید یہ گھٹن زدہ زندگی نہیں گزارنا چاہتی ۔۔۔۔۔

چلیں بھابھی اب بھائی سے بابا ہی بات کریں گے۔۔۔۔۔

شانزے نرمین کے ساتھ چلی گئی تھی راحم کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔

مس نرمین آپ نے ٹھان رکھی ہے کہ آپ جب تک میرا میٹر نہیں آؤٹ کر دیں گی تب تک آپ نے سکون سے نہیں بیٹھنا ۔۔۔۔۔

سر اب میں نے کیا کیا ہے اب تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ۔۔۔۔

یہ کرسی کی ٹانگ آپ نے ہی توڑی ہے نا ۔۔۔۔

ارہان جیسے ہی کلاس روم میں آیا تو نرمین نا جانے کتابوں میں کیا تلاش کر رہی تھی تبھی ارہان کے آنے کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا ۔۔۔۔

ارہان کو ساری رات بخار رہنے کی وجہ سے اب حالت کچھ نازک سی تھی تبھی وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھنے لگا تھا کہ ایک دم کرسی کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر کرسی سے الگ ہو گئی اور ارہان زمین پر جا گرا جس پر ساری کلاس ہنسنے لگی ۔۔۔۔

ارہان ہڑبڑا کر اٹھا تھا نرمین کا تو ہنس ہنس کر اب آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا لیکن ارہان کی گرجدار آواز نے پوری کلاس میں خاموشی پھیلا دی تھی ۔۔۔۔

نرمین کا ابھی بھی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں چہرا گلال ہو گیا تھا ۔۔۔۔دیکھیں سر مجھے کوئی شوق نہیں آپکو گرانے کا اللّٰہ جانے یہ اتنا نیکی کا کام کس نے کیا ہے اور میں ایسی بھی لڑکی نہیں ہوں کہ اب پر ایک کی نیکیوں میں دھکے سے اپنا نام بھی لکھواتی رہوں ۔۔۔۔۔۔۔

شٹ اپ نرمین ۔۔۔۔

نرمین جس کی زبان چلنا شروع ہوئی تو چپ ہی نہیں کر رہی تھی ارہان کو تو اب تپ ہی چڑھ گئیں ۔۔۔۔

سارا دن نرمین کا وقفے وقفے سے ارہان کا گرنا یاد آنے پر ہنسی نکلتی رہی کئی بار تو ارہان کو اپنے سامنے دیکھ اس کو ہنسی کا ایسا دورہ پڑھتا کہ ارہان دانت پیستا وہاں سے واک آؤٹ کر جاتا ۔۔۔۔۔۔

موسم آج ابر آلود ہو رہا تھا ہلکی ہلکی تم جھم بھی شروع ہو چکی تھی سب جلدی جلدی اپنے گھروں کو جا رہے تھے ورنہ سب ہی جانتے تھے ایک بار زور و شور سے بارش سٹارٹ ہو گئی تو پھر لاہور کی سڑکوں پر خوار ہونا یعنی اپنی موت خود بلانا ہے ۔۔۔۔

شام کے وقت جب ارہان گاڑی کے پاس آیا تو بارش بہت تیز ہو رہی تھی ارہان کا بخار بھی شدت پکڑ چکا تھا نرمین اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگی تو سامنے ارہان کو سر پکڑے دیکھا ۔۔۔۔۔

نرمین جلدی سے ارہان کے پاس گئی کیا ہوا سر آپکو آپ گاڑی میں کیوں نہیں بیٹھ رہے کیا بارش میں بھیگنے کا شوق چڑھا ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن اپنی عمر دیکھیں ایسے شوق اس عمر میں زیب نہیں دیتے ہوا ہڈیوں میں رچ بس گئی تو قیمہ کر دے گی ہڈیوں کا ۔۔۔۔

بس کر دو نرمین پلیز میرا اس وقت تم سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جاؤ گھر بارش کافی تیز ہو رہی ہے ۔۔۔۔

نرمین نے غور کیا کہ ارہان کا چہرا لال ہو رہا ہے آنکھیں بھی سرخ ہو رہی ہیں ۔۔۔۔

نرمین نے اپنے ہاتھ کی پچھلی سائیڈ نرمی سے آرہان کے ماتھے پر لگائی تو نرمین کا ہاتھ تپنے لگا ۔۔۔۔

ارہان کو تو جیسے کرنٹ لگا تھا اس نے چونک کر نرمین کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

سر آپکو تو بہت تیز بخار ہے آپ گاڑی کیسے چلائیں گے ۔۔۔۔

نرمین کے ٹھنڈے چھوٹے ہاتھوں نے جیسے ارہان کے تپتے وجود کو سکون دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

سر چلیں میں آپکو چھوڑ دیتی ہوں گھر ۔۔۔۔۔

نہیں می۔۔۔میں چلا جاؤں گا ۔۔۔۔

کیسے آپ کے پاس ہوائی چیزیں ہیں کیا جو آپ ان کے ذریعے چلے جائیں گے بیٹھیں میں ڈرائیور کو بول کر آتی ہوں کہ بارش رکتی ہے تو مجھے آپکے گھر سے لے لے ۔۔۔۔۔

ارہان سے بحث نہیں ہو رہی تھی تبھی وہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔۔

سر اب اپنے گھر کا ایڈریس بھی تو بتائیں آپ تو ایسے خاموشی سے کھڑے ہو گئے ہیں جیسے میں آپ کے گھر ہی رہتی ہوں اور مجھے ایک ایک راستہ پتا ہے ۔۔۔۔

اتنی لمبی زبان پر ارہان کے چہرے پر  آج پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان نے نرمین کو اڈریس بتایا تو وہ اپنے ڈرائیور کو بتاتی جلدی سے ارہان کی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

نرمین گاڑی میں بیٹھی بڑے دھیان سے گاڑی چلا رہی تھی ارہان گاہے بگاہے نرمین کی طرف دیکھ لیتا ۔۔۔۔۔

ویسے سر آپکو آج بخار تھا تو آنے کی ضرورت کیا تھی ٹھیک ہے آپ بہت خودمختار ہیں لیکن اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے آپکو یہ نہیں کہ بس ہر وقت فکریں پال رکھیں اپکو اپنا خیال ہی نہیں ہے ۔۔۔

پلیز نرمین چپ ہو جاؤ اتنی خالص بیویوں والے طعنے مت دو ۔۔۔۔

اللّٰہ اکبر توبہ توبہ ایسا تو نا کہیں آپکی بیوی بننے سے پہلے میں پنکھے سے لٹکنا بہتر سمجھوں گا ۔۔۔۔۔

ارہان کو تو نرمین کی بات سے جھٹکا ہی لگ گیا تھا کیا سمجھ بیٹھی تھی وہ جب کے ارہان کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا ارہان کی بات کا ۔۔۔۔۔

توبہ سر میں تو بس آپکی مدد کر رہی تھی لیکن آپ کتنا گندہ سوچتے ہیں آپ ہی کیا ہر لڑکا ہی ایسی گندی سوچ رکھتا ہے ۔۔۔

پلیز نرمین خاموشی سے گاڑی چلاؤ اور اپنے دماغ کے سوئے ہوئے گھوڑے کم چلاؤ میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا بات کا جہاں تم لے گئ ہو ۔۔۔۔۔

گھر کے آگے گاڑی روکتے ارہان اور نرمین گھر کے اندر چلے گئے تھے بارش کچھ کم ہو گئی تھی لیکن ماحول ابر آلود ہونے کی وجہ سے شام کے سائے زیادہ گہرے ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔

ارہان لوگ اندر گئے تو  سامنے ہی ارحم بیٹھا ہوا تھا 

بابا یہ پرنسز کون ہیں ۔۔۔۔

ارحم کے سوال پر ارہان سوچ میں پڑھ گیا وہ وہ بیٹا یہ ۔۔۔۔

میں آپکی نیو مما ہوں میری جان ارہان نے چونک کر نرمین کی جانب دیکھا جو شرارتی آنکھوں سے ارہان کی طرف ہی دیکھ رہی تھی اور  نرمین نے ارہان  کے چونکنے پر چہرے پر آگ لگا دینے والی مسکراہٹ سجائے ارہان کو  ایک آنکھ ماری جس پر ارہان کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔

اس لڑکی سے کوئی بعید نہیں ارہان بیٹا کچھ کر ورنہ یہ تیرا قیمہ بنا دے گی ۔۔۔۔

ارہان نے نرمین کے آنکھ مارنے پر اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا لیکن وہ نرمین ہی کیا جو ارہان کی کسی بات کا اثر لے ۔۔۔۔

بابا کیا یہ پرنسز ٹھیک کہہ رہی ہیں کیا یہ اب یہاں ہی رہیں گی واؤ اب میری ماما بھی آ گئی ہیں میں کل ہی داؤد کو بتاؤں گا کہ میری بھی ماما ہیں وہ ہمشہ مجھے چڑھاتا تھا کہ تمہاری تو ماما ہی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔

نرمین نے ارحم کی بات سن کر حیرانگی سے ارہان کی طرف دیکھا تھا جس کی آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔

نرمین کو ارہان کی آنکھوں سے پہلی بار خوف آیا  ۔۔۔۔ورنہ وہ تو ارہان کی آنکھوں کی دیوانی تھی ۔۔۔۔

ارہان نے اپنا سر جھٹکا اور ارحم کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ارحم کو کندھوں سے پکڑے اس کا۔رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔۔

بیٹا بری بات کسی کا مقابلہ نہیں کرتے اور رہی ان کی بات تو یہ آپکی نیو مما نہیں ہیں یہ بس آپکی فرینڈ ہیں ۔۔۔۔

لیکن بابا جان ابھی تو انہوں نے بولا کہ یہ میری ماما ہیں ۔۔۔

ارحم کے بھرائی آنکھوں سے اس بھری آواز سن کر نرمین کو اپنی شرارت پر جی بھر کر دکھ ہوا وہ تو بس ارہان سے  اپنا بدلہ لینا چاہتی تھی لیکن یہ کیا ہو گیا تھا وہ انجانے میں ایک معصوم بچے کا دل بری طرح سے دکھا چکی تھی ۔۔۔۔

ارحم آپ جانتے ہو نا آپکی ماما اللّٰہ جی کے پاس چلی گئی ہیں اور آسمان پر پیارا سا سٹار بن گئی ہیں اور آپکی ماما کی جگہ کبھی بھی کوئی بھی دوسری ماما نہیں آ سکتیں اوکے ۔۔۔۔

کیوں بابا مجھے بھی ماما چاہیے مجھے نہیں پتا پرنسز ہی میری نیو ماما ہیں انہوں نے ابھی کہا تھا آپ جھوٹ بول رہے ہیں بابا ۔۔۔۔

ارہان نے غصے اور دکھ کے ملے جلے تاثرات سے نرمین کی طرف دیکھا جو ارہان کے دیکھنے پر ایک دم گھبرا سی گئی تھی ۔۔۔۔

ارحم ابھی آپ روم میں جائیں اور اپنا ہوم ورک کریں میں آ کر آپکا ہومورک چیک کرتا ہوں ۔۔۔۔ارہان نے جیسے ارحم کو بہلانا چاہا لیکن اب وہ چھوٹا بچہ نہیں تھا پانچویں جماعت کا طالب علم تھا ہر بات دیکھتا اور سمجھتا تھا ۔۔۔

نو نیور مجھے آج نیو ماما سے پڑھنا ہے بابا جان ۔۔۔۔

ارحم بس بہت ہو گیا کہا نا جاؤ اپنے کمرے میں اور نہیں ہے یہ آپکی ماما ۔۔۔۔

ارہان کے غصے سے کہنے پر ارحم بری طرح سہم گیا تھا ۔۔۔۔

ارہان کا سانس غصہ ضبط کرنے کے چکر میں پھول چکا تھا ہاتھوں کی نسیں پھول کر ابھر گئی تھیں ۔۔۔۔

تھری پیس سوٹ پہنے ارہان بلا شبہ بہت حسین لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔

اوپر سے ولا اس کا غصہ تو جیسے قیامت ہی برپا کر رہا تھا ۔۔۔۔

ارحم ارہان سے ڈر کر جلدی سے اپنے کمرے میں بھاگ گیا کیوں کہ ارہان ارحم پر بہت کم غصہ کرتا تھا ۔۔۔۔۔

ارحم کے ہال سے جاتے ہی اب نرمین کا منہ ارہان کے شکنجے میں تھا ۔۔۔۔

کیا بکواس تھی یہ تم جانتی بھی ہو اس بات کا کتنا برا اثر پڑھے گا اس بچے کے ذہن پر لیکن تمہیں کیا تمہیں تو بس اپنا شوق پورا کرنا ہے اپنا بدلہ لینا ہے لے لیا بدلہ پڑھ گئی ٹھنڈ مل گئی خوشی ایک معصوم بچے کا دل توڑ کر کیا ملا نرمین تمہیں جواب دو مجھے کیا۔ملا یہ سب کر کے ۔۔۔۔

نرمین ارہان کا غصہ برداشت کرتی اب آنسوں کے ساتھ رو دی تھی ۔۔۔۔

آئی ایم ۔۔۔۔۔

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ نہیں چاہیے تمہارا سوری اپنی بکواس بند رکھنا اور نکل جاؤ میرے گھر سے ابھی کہ ابھی ۔۔۔

نرمین کو اپنی بے عزتی کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا ارحم کے دل ٹوٹ جانے کا دکھ تھا ۔۔۔۔

نرمین نے روتی آنکھوں سے ارہان کی طرف دیکھا لیکن وہ دوسری طرف چہرا کیے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا جیسے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔۔۔

جاؤ یہاں سے نرمین اس سے پہلے میرے اندر کا جانور جاگ جائے جاؤ ۔۔۔۔۔۔

نہیں میں کہیں نہیں جاؤں گی میں سوری بول رہی ہوں نا آپ نے کون سا بتایا تھا کہ یہ آپکا بیٹا ہے میں تو بس مذاق کر رہی۔۔۔۔۔

مذاق مس نرمین آپ کے لیے بس مذاق تھا لیکن وہ بچہ جس کے دل میں نا جانے ماں کے لیے کتنی تڑپ تھی اس کا کیا اس کا کیا جس نے اپنی ماں کو ایک آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھا آج تک بولو تم جانتی بھی ہو کہ میں کس طرح اس کو ہینڈل کرتا ہوں اس میں اس کا کیا قصور کہ اس کی ماں اس کو پیدا کرنے کے بعد اس دنیا سے چلی گئی بولو کیا جواب ہے تمہارے پاس میری باتوں کا۔۔۔۔۔۔

نرمین آنسو بہاتی بس چہرا جھکا گئی تھی آج جو اس سے غلطی ہوئی تھی وہ واقعی بہت شرمندہ تھی ۔۔۔۔

نرمین نے ایک نظر ارہان کی طرف دیکھا نرمین کی لال آنکھیں دیکھ ارہان کے دل کو بھی کچھ ہوا تھا لیکن اس نے چہرا موڑ لیا تھا نرمین دھیرے سے قدم اٹھاتی ارہان کے قریب ائی اور کان پکڑ کے سوری بولنے لگی ۔۔۔۔

ارہان کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہ آنکھیں پھاڑے نرمین کی اس حرکت کو دیکھنے لگا اس نے ایسا نہیں چاہا تھا ۔۔۔۔

میں میں ارحم کو بھی  سمجھا دوں گی کہ میں اس کی ماما نہیں ہوں آپ فکر نہیں کریں میں سب ٹھیک کر دوں گی ۔۔۔۔

ارہان اپنا ماتھا مسلنے لگا تھا ۔۔۔۔

نرمین وہ اپنی ماما کو بہت مس کرتا ہے اور اس پر تمہارا ایسا کہنا اس کے دل میں ماں کے پیار کی امید جگا گیا ہے ہو سکے تو اس کے دل سے اس احساس کو نکال دینا ۔۔۔۔۔

نرمین نے آنسو صاف کرتے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔

نرمین دھیرے سے قدم اٹھاتی ارحم کے کمرے میں گئی جو گھٹنوں پر سر رکھے رو رہا تھا۔۔۔۔

ارحم ۔۔۔۔

نرمین کے بلانے پر ارحم نے جلدی سے سر اوپر کیا ۔۔۔۔

ماما ارحم جلدی سے اٹھ کر نرمین کے ساتھ آ کر لپٹ گئی ۔۔۔۔

نرمین نے جھک کر ارحم کو اٹھایا  ۔۔۔۔۔۔

ارحم میں اپکو اچھی لگی ہوں کیا ۔۔۔

جی ماما بہت اچھی لگی ہیں آپ مجھے ۔۔۔

بیٹا میں آپکی ماما نہیں ہوں ارحم کا چہرا ایک دم مرجھا گیا تھا ۔۔۔۔

میں آپکی بیسٹ فرینڈ ہوں ۔۔۔۔

نرمین نے ارحم کو پیار کرتے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ارحم کا چہرا مرجھایا ہوا تھا ۔۔۔

ارحم ۔۔۔

اتاریں مجھے نیچے مجھے آپ سے اور بابا سے بات نہیں کرنی میں آپ دونوں سے ناراض ہوں ۔۔۔۔

کیوں بات نہیں کرنی آپ کو اپنے بابا سے بھائی ۔۔۔۔

کیوں کہ آپ نے مجھے نیو ماما نہیں لا کے دی ۔۔۔

یہ میری ماما ہیں مجھے بھی ماما چاہیں ۔۔۔۔

ارحم اب بری طرح رو دیا تھا نرمین کے دل کو کچھ ہوا تو وہ جلدی سے آگے بڑھی اور ارحم کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔۔

می۔۔۔میں آپکی ماما ہوں میری جان آیسے رو مت میں آپکی ماما ہوں ۔۔۔۔

آپ سچ بول رہی ہیں اللّٰہ پاک گناہ دیتے ہیں جو جھوٹ بولتا ہے ۔۔۔۔۔

ارحم کی معصومیت پر نرمین کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی ۔۔۔۔

جی میں سچ بول رہی ہوں میں آپکی ماما ہوں اب میرا بیٹا خوش ہے ۔۔۔۔

یس واؤ بابا میرے پاس بھی ماما ہیں اب میں بھی داؤد کو بتاؤں گا بس اس کے پاس نہیں اب تو میرے پاس بھی ماما ہیں ۔۔۔۔

ارہان تو اب تک شاکڈ نظروں سے نرمین کی طرف دیکھ رہا تھا جو زندگی میں پہلی بار ہاتھ مسلتی کنفیوژ ہو رہی تھی۔۔۔۔

نرمین آنکھوں میں آنسو لیے چہرا جھکائے بس ارحم کا چمکتا چہرا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ارہان غصے سے کمرے سے باہر آگیا تھا نرمین نے ارہان کی طرف دیکھا تو اس کے پیچھے ہی کمرے سے باہر آئی ۔۔۔۔

یہ کیا ٹھیک کیا ہے تم نے تم تو بول رہی تھی سب ٹھیک کر دوں گی یہ کیا ٹھیک کر کے آئی ہو ۔۔۔

ارہان ٹی وی لاونچ میں کھڑا نرمین پر دھاڑا تھا ارہان کی اونچی آواز سن کر ارحم کمرے سے نکل آیا ۔۔۔

بابا آپ ماما کو کیوں ڈانٹ رہے ہیں آپ نے کیا کیا ہے ماما بابا آپکو کیوں ڈانٹ رہے ہیں ۔۔۔اب تو ارہان کی آنکھیں ہی باہر کو آگئی تھیں اپنے بیٹے کو اتنی جلدی پارٹی بدلتے دیکھ کر ۔۔۔۔

ارحم یہ آپکی ماما۔۔۔

بیٹا آپ کے بابا کہہ رہے ہیں کہ ان کو میں اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر کھلاؤں اور اپکو بھی ۔۔۔۔

ارہان ارحم کو پھر سے کچھ بولتا اس سے پہلے ہی نرمین نے بات سنمبھال لی تھی ۔۔۔۔

ارہان کا تو سر ہی چکرا گیا تھا نرمین کی بات پر ۔۔۔۔

بابا جانی بہت بری بات ہے ماما تھک گئی ہوں گی آج ہی تو آئی ہیں آپ کو ماما کے لیے کھانا بنانا چاہیے جائیں اور کھانا بنائیں ماما کے لیے آج میں ماما کے ساتھ مل کر ڈنر کروں گا ۔۔۔۔

نرمین جو کچھ دیر پہلے آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے تھی اب اس کے چہرے پر پھر سے شیطانی مسکراہٹ تھی ارہان نے خون آلود آنکھوں سے نرمین کی طرف گھورا جس پر نرمین نے ہونٹوں کو گول کر کے فلائنگ کس ارہان کی طرف اچھالی جس پر ارہان اپنی جگہ سے ہی لڑکھڑا گیا تھا ۔۔۔۔۔

ماما میں جلدی سے ہوم ورک کر کے آتا ہوں پھر مل کر کھانا کھائیں گے بابا بہت مزے کا کھانا بناتے ہیں ۔۔۔

اوکے ماما کی جان آپ جلدی سے ہومورک کر کے آئیں ۔۔۔۔۔

ارحم واپس کمرے میں چلا گیا تو نرمین نے ارہان کی طرف دیکھا چہرے پر آئی مسکراہٹ ایک دم غائب ہو گئی ارہان نے نرمین کا بازو پکڑا اور اسے گھسٹتے ہوئے کچن میں لے گیا دیوار سے پن کرتے نرمین کے دونوں طرف ہاتھ رکھے تو نرمین کا سانس بند ہونے لگا ارہان کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر ۔۔۔۔۔

بہت شوق ہے میری بیوی بننے کا ۔۔۔۔

آنکھوں میں سمندر جیسا جنون لیے وہ آنکھوں کے ذریعے ہی نرمین کو نگل لینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

کتنی بڑی خوش فہمی ہے نا آپکو آپکی بیوی تو میں مر کے بھی نا بنوں میں نے تو بس ارحم کی ماما بننے کا بولا ہے ۔۔۔۔

کس حق سے تم اس کو اپنا بیٹا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔

نرمین نے آنکھیں اٹھا کر ارہان کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔

ارہان کی نظروں نے نرمین کے پورے چہرے کا طواف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کے پاس گہرے تل پر قیام کیا ۔۔۔۔

ارہان کو اپنے وجود میں آگ لگتی محسوس ہوئی تھی نرمین بلا شبہ بہت حسین تھی پتلی سی کمر خوبصورت نین نقش لمبے گھنے بال جو ہمیشہ ہی جوڑے میں بندھے ہوتے تھے جن کو دیکھنے کی آج ارہان کے دل نے پہلی بار خواہش کی تھی ۔۔۔۔

اتنے سیریس موڈ میں بھی ارہان کا دل کیا کہ وہ نرمین کے بال دیکھے اپنے دل کی بات پر آمین کہتے ارہان کا  ہاتھ نرمین کے سر کے پیچھے گیا تھا ۔۔۔۔

نرمین تو سانس روکے بہت مشکل سے اپنے قدموں پر کھڑی تھی اچانک اپنے بالوں میں سے کیچر کھلتے اور اپنے بالوں کو ڈھیلا پڑھتے محسوس کر نرمین نے زور سے آنکھیں بند کر لی تھیں ۔۔۔۔

بالوں کی آبشار نرمین کی پوری کمر پر پھیل گئی تھی گھٹنوں تک آتے بال ارہان کی جان بہکا گئے تھے ۔۔۔۔

ارہان نے وہ ہی ہاتھ نرمین کے بالوں میں پھنسائے اس کا چہرا اپنے چہرے کے قریب تر کر لیا تھا ۔۔۔۔

دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑھ رہی تھیں ۔۔۔۔

نرمین نے زور سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے ۔۔۔۔

ارہان نے نرمین کے چہرے پر ہلکی سی پھونک ماری جس پر اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول لیں ۔۔۔۔

سر آپ آپ دور ہو کر ۔۔۔۔۔کھڑ۔۔۔۔کھڑے ہوں پلیز مجھے سانس لینے میں پرابلم ہو رہی ہے ۔۔۔۔

ارہان ایک دم۔ہوش میں آیا تھا وہ یہ کیا۔کر رہا تھا وہ کیسے بھول گیا کہ نرمین اس کے دوست کی بہن کے ساتھ ساتھ اس کی سٹوڈنٹ بھی ہے اور اس سے کتنی چھوٹی ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔

میں میں کھانا بناتا ہوں ۔۔۔۔

نہیں بارش رک گئی ہے میں ڈرائیور کو فون کرتی ہوں وہ لے جائے گا مجھے ۔۔۔۔

اتنی رات ہو رہی ہے اب نہیں جاؤ صبح چلی جانا ۔۔۔۔

نہیں میں نہیں رہ سکتی یہاں ۔۔۔۔

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی لیکن ارحم کو کیا کہو گی ۔۔۔۔۔

اسے میں سمجھا دوں گی ۔۔۔۔

بابا آئی دن مائے ورک آپ نے کھانا بنا لیا کیا ۔۔۔۔

نہیں بیٹا کھانا نہیں بنایا وہ آپکی ماما کہہ رہی تھیں کہ آج باہر کھانا کھائیں گے ۔۔۔۔

اب حیران ہونے کی نرمین کی باری تھی ۔۔۔۔

نرمین حیرانی سے ارہان کی طرف دیکھنے لگی جس نے نرمین کے دیکھنے پر نرمین کی طرح ہی ایک آنکھ ماری تھی ۔۔۔۔

اوئی ماں نرمین کا ہاتھ اچانک اپنے منہ پر گیا جس پر ارہان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی ۔۔۔۔۔

چلو ڈنر کر کے پھر میں خود تمہیں چھوڑ دوں گا تمہارے گھر ۔۔۔۔

بابا ماما کہاں جا رہی ہیں ۔۔۔۔

بیٹا ماما نانو کے گھر جا رہی ہیں ابھی وہ وہاں ہی رہیں گی جب آپ کا دل کرے گا آپ ان سے ملنے چلے جانا کبھی کبھی وہ بھی آ جائیں گی ٹھیک ہے ۔۔۔۔

لیکن بابا داؤد کی ماما تو اس کے ساتھ رہتی ہیں اور اس نے بولا تھا کہ ماما بچوں کے ساتھ ہی رہتی ہیں ۔۔۔۔

بلکل ساتھ رہتی ہیں لیکن آپکی ماما سپیشل ہیں نا تو اسی لیے داؤد کی ماما سے تھوڑا ڈیفرنٹ ہیں اوکے ۔۔۔۔

اوکے بابا میں روز بھی ملنے جا سکتا ہوں کیا ماما سے ۔۔۔۔

جی ماما کی جان آپ کا جب دل کرے گا آپ مجھ سے ملنے آ سکتے ہو ۔۔۔۔

یاہو چلیں بابا جلدی سے ریڈی ہو جائیں پھر ہمیں باہر بھی جانا ہے اور ماما آپ آئیں میرے ساتھ میں آپکو اپنی پسند کا ڈریس دیتا ہوں ریڈی ہونے کے لیے ۔۔۔۔۔

لیکن میں تو ریڈی ہوں ۔۔۔۔

نو ماما آپ میری پسند کا ڈریس پہنیں گی ۔۔۔

اچھا چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔۔

ارہان بھی اپنے کمرے میں جا چکا تھا ارحم نرمین کو ارہان اور زمل کے مشترکہ کمرے میں جو وہ دونوں شادی کے بعد استعمال کرتے تھے اور زمل کی وفات کے بعد ارہان نے وہ کمرا چھوڑ دیا تھا اس کمرے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ تھی لیکن نا جانے کیسے نرمین کی مرتبہ ارہان خاموش ہی رہا تھا ۔۔۔

کہ کمرے میں لے گیا جہاں ہر طرف زمل اور آرہان کی تصاویر دیوار پر چسپاں تھیں۔۔۔۔

کہیں دونوں کی شادی کی تصویریں تھیں تو کہیں پر آئسکریم کھاتے ہوئے ۔۔۔۔یہ میری ماما کا روم ہے ماما کے اللّٰہ جی کے پاس جانے کے بعد بابا نے روم۔چینج کر لیاتھا ۔۔۔۔

آئیں میں آپکو ماما کے بہت سے ڈریسز دیکھاتا ہوں نرمین چاروں طرف دیکھ رہی تھی زمل بہت خوبصورت تھی نرمین تو اس کے پاس گو بھی نہیں تھی ایسا نرمین نے نا جانے کیوں سوچا پھر خود کی سوچوں پر خود ہی فاتح پڑھ کر ارحم کے پیچھے چل پڑھی ۔۔۔۔

ماما آپ یہ بلیک والا ڈریس پہنے پلیز ۔۔۔۔

نرمین نے ارحم کے کہنے پر وارڈروب سے ارحم کے بتائے گئے رنگ کا سوٹ نکالا تو وہ ساڑھی تھی ۔۔۔۔

لیکن ارحم بیٹا یہ تو ساڑھی ہے میں کیسے یہ پہن سکتی ہوں ۔۔۔۔

ماما پلیز پہن لیں ۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے اور ادھر ماما کی ساری کاسمیٹک کی چیزیں ہیں آپ جلدی سے ریڈی ہو کر آ جائیے گا اوکے میں آپکا ویٹ کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔

نرمین نے گہری سانس لی اور جلدی سے ساڑھی پہنی پھر جلدی سے ہلکا سا میکپ کر کے کالے رنگ کے جھمکے بھی پہن لیے اب مسئلہ پاؤں میں پہننے کے لیے ہیلز کا تھا دو تین دراز کھولنے کے بعد نرمین کو ہیلز بھی مل گئیں تھیں سد شکر کے وہ نرمین کے پاؤں میں پوری بھی تھیں ۔۔۔۔۔

جلدی سے ریڈی ہو کر جیسے ہی باہر آئی تو ارہان تھری پیس میں ارحم کے ساتھ کھڑا کسی چیز پر بات کر رہا تھا ساتھ ساتھ فون بھی استعمال کر رہا تھا کمرے کا دروازہ کھلنے پر سب سے پہلے ارحم کی نظر نرمین پر پڑھی تھی جو اپنی ساڑھی کو ٹھیک کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

واؤ ماما یو آر لکنگ ہاٹ ۔۔۔۔

ارہان نے جھٹکے سے پہلے ارحم کے الفاظ پر غور کرتے ارحم کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں اپنے سامنے کھڑی نرمین کو دیکھا جس نے بال کھول رکھے تھے اور کالے رنگ کی ساڑھی سراپا سوال بنی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

ارہان کا دل کیا ابھی نرمین کو سب سے چھپا لے ۔۔۔۔۔۔

چلیں میں ریڈی ہوں ۔۔۔۔

اتنا تیار ہونے کی کیا ضرورت تھی ہم ولیمے پر نہیں جا رہے ۔۔۔۔

بابا ناٹ فیر ماما اتنی پیاری لگ رہی ہیں اسی لیے آپ جیلس ہو رہے ہو ۔۔۔۔

ارحم کی بات پر نرمین نے زور سے قہقہہ لگایا تھا ۔۔۔۔۔

لیکن ایک دم جیسے ہی زمل کا چہرا نرمین کی آنکھوں۔ کے سامنے سے گزرا تو اس کی مسکراہٹ بھی تھم گئ بھلا ارہان کیوں جیلس ہونے لگا اس سے کئی زیادہ خوبصورت بیوی کے ساتھ وہ ایک خوشیوں سے بھرپور زندگی گزار چکا تھا ۔۔۔۔

نرمین کا بجھا چہرا دیکھ ارہان کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اچانک نرمین کو کیا ہو گیا ۔۔۔۔

بابا لیٹس گو دیر ہو رہی ہے نا ہاں ہاں چلو ارہان ارحم کی آواز پر ایک دم ہوش میں آیا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین بھی بجھے چہرے کے ساتھ ارہان کے ہمراہ ایک ہوٹل میں گئی تھی لیکن نرمین وہاں بھی خاموش ہی رہی ارہان سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن بولا کچھ نہیں وہ دونوں ڈنر کر کے ہوٹل سے باہر نکل آئے کہ ارہان کہ کہنے پر نرمین اور راحم دونوں ہی ہوٹل کے دروازے پر انتظار کرنے لگے میں آتا ہوں گاڑی لے کر یہاں ہی رکنا دنوں ۔۔۔۔

ٹھیک ہے جلدی آئیے گا بابا جان ۔۔۔۔

اوکے میرا بیٹا ۔۔۔۔

ارہان ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک دم سے ایک گولی کہ آواز پوری فضا میں گونجی تھی ارہان جلدی سے مڑا لیکن ارحم کے پاؤں میں ڈھیر سارا خون بہہ رہا تھا ارحمممممم خون دیکھتے ہی ارہان کی چیخ  پوری گلی میں گونج اٹھی تھی ۔۔۔۔

اٹھ جاؤ نرمین اپنے بیٹے کی خاطر اٹھ جاؤ ارحم کے لیے اٹھ جاؤ  اس سے ایک بار پھر اس کی ماں نا چھینو اور مجھ سے ایک بار پھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ارہان مزید آگے کچھ نہیں بولا تھا وہ کیا کہنے والا تھا یہ سوچ کر ہی اس کے دل میں عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی ۔۔۔۔۔

نرمین زخموں سے چور بازو پر لگی گولی کی تکلیف سہتے بستر پر آنکھیں بند کیے بہوش پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان کے چہرے اور کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا لیکن اسے اس وقت بس نرمین کی فکر تھی۔۔۔۔۔

راحم جلدی سے اندر داخل ہوا تو سامنے اپنی بہن کو ایسے خون میں لت پت دیکھا تو جیسے جسم سے ساری جان نکل گئی ہو ۔۔۔۔

نرمین نرمین یہ کیسے ارہان تم کہاں تھے بولا تھا نا میں نے کہ میری بہن کی حفاظت کرنا ۔۔۔۔

Tango میں اس کے ساتھ ساتھ ہی تھا لیکن پتا نہیں کب یہ مجھ سے دور ہو گئی اور دشمنوں نے حملہ کر دیا ۔۔۔۔۔

شٹ راحم نے زور سے پاس پڑے لکڑی کے ٹیبل پر مکا مارا تھا جس سے اس کی انگلیوں سے خون بہنے لگا تھا میں بس اتنا جانتا ہوں جو بھی ہے اب میرے چنگل سے نہیں بچ سکتا 

۔۔۔۔

راحم نے جلدی سے فون میں ایک نمبر ملایا اور کان سے فون کو لگا گیا ۔۔۔۔

شانزے مجھے تمہاری ضرورت ہے اس ملک کے لیے جلدی پہنچو ہسپتال نرمین ہسپتال میں ہے ۔۔۔۔

شانزے پہلے تو کچھ بولنے۔لگی تھی لیکن اپنے ملک کی حفاظت اور نرمین کے ہسپتال ہونے کی وجہ سے خاموش رہی اور جلدی سے ہسپتال کے لیے نکل گئی۔۔۔۔

ارہان تم جاؤ گھر ارحم اکیلا ہو گا۔۔۔۔۔

نہیں میں ابھی کہیں نہیں جاؤں گا تم لوگوں کو چھوڑ کر اور ارحم کو میں نے یہاں ہی بلا لیا ہے ۔۔۔

راحم نے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر چلا گیا نرمین کی تکلیف وہ خود میں محسوس کر رہا تھا جان تھی وہ راحم خان کی ۔۔۔۔

کچھ دیر میں شانزے بھی ہسپتال آگئی اور نرمین کو ایسی حالت میں دیکھ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے راحم شانزے کو اتنے دنوں بعد اپنے سامنے دیکھ ایک دم اندر تک سکون محسوس کر گیا تھا۔۔

آج تین ہفتے ہو چلے تھے شانزے کو راحم سے دور ہوئے اتنے دنوں سے اسے دیکھ بھی نہیں پایا تھا کیوں کہ اپنے گھر میں جہاں شانزے تھی وہاں تو راحم کی اینٹری سختی سے منع تھی لیکن اب اس کی بھی بس ہو گئی تھی تبھی شانزے کو سب سے پہلے یہاں بلایا تھا ۔۔۔۔

شانزے گھر کسی کو بھی کچھ بھی بتائے بغیر ہسپتال چلی آئی تھی ۔۔۔۔

ارحم آیا تو جلدی سے ارہان کے پاس بھاگا بستر پر اپنی ماں کو دیکھ جیسے اس کے طوطے اڑ گئے تھے بابا ماما کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔

"ماما" راحم اور شانزے حیرت سے ارحم کی طرف دیکھنے لگے تھے ارہان کو لگا جیسے وہ زمین میں دھنس گیا ہے کیا جواب دیتا اب سب کو۔۔۔۔۔

یہ میری نیو ماما ہیں انکل ۔۔۔۔

راحم نے ارحم سے کچھ کہنے کی بجائے ارہان کی طرف گھور کر دیکھا تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں۔ میں سو سوال پوچھ بیٹھا تھا شانزے جانتی تھی ارہان راحم کا بہت پرانا دوست ہے تبھی دونوں کے معاملے میں بولنے۔کی بجائے خاموشی سے نرمین کے پاس جا کر سٹریچر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

کیا معاملہ ہے یہ ۔۔۔۔

نرمین کو ٹھیک ہونے دو پھر بتاتا ہوں ۔۔۔

تم نے میری اجازت کے بغیر میری بہن سے ۔۔۔۔

بس کر دو دونوں بہن بھائیوں کو اور کوئی کام نہیں غلط سوچنے کے علاؤہ کچھ نہیں کیا تمہاری بہن کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں میرا اسکے ساتھ اٹھ جاتی ہے تو بتا دے گی وہ خود ہی ۔۔۔۔

ارہان اگر کچھ غلط ہوا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھے ۔۔۔

ہاں تم سے برا ہے بھی کون اور ارہان کی بات پر راحم کو شانزے کا پرانا جملہ یاد آگیا جھٹکے سے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا نگاہیں ملیں تو جیسے دونوں کو سکون سا محسوس ہوا تھا لیکن شانزے جلدی ہی اپنی نگاہیں پھیر گئی تھی اور یہ بات راحم کے دل کے اندر جا کر لگی تھی ہاتھوں کی نسیں پھول گئی تھی مٹھیوں کو زور سے بند کیے وہ اپنا غصہ ضبط کرنے میں ہلکان ہو رہا تھا لیکن یہاں پروا کسے تھی ۔۔۔۔۔

نرمین کوکئی گھنٹے بعد ہوش آیاتو وہ ڈر کر اٹھ بیٹھی بازو میں شدید درد کی وجہ سے وہ پھر سے لیٹ گئی اپنے ادھر ادھر دیکھا تو سب ہی اس کے سرہانے کھڑے تھے ۔۔۔۔

ارہان میرا بیٹا کہاں ہے ارحم کہاں ہے وہ۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے نا میں کسی کو نہیں چھوڑوں گی جس نے بھی میرے بچے کے اوپر گندی نظر ڈالنی چاہی ہے میں اسے جڑھ سے اکھیڑ دوں گی میں کچھ پوچھ رہی ہوں ارہان آپ سے میرا بیٹا کہاں ہے ۔۔۔۔۔

ماما آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں میں یہاں ہوں آپ کے پاس ہی۔ ۔۔۔

ارہان کی ٹانگوں کے درمیان میں سے جیسے ہی باہر نکلا نرمین اپنی تکلیف کو بھول کر راحم کو چومنے لگی ۔۔۔۔

راحم تو نرمین کا اتنا پیار دیکھ حیران تھا آنسوں سے روتی نرمین کی اب ہچکی بندھ گئی تھی۔۔۔۔

ایسے کرو گی مقابلہ دنیا کا ایسے لڑو گی اس ملک کے دشمنوں سے بولو نرمین ایسے ان آنسوں سے لڑو گی دنیا سے دو سیکنڈ میں کیڑوں کی طرح مسل کے رکھ دے گی یہ دنیا تمہیں اور کس لیے اتنا رونا آ رہا ہے تمہیں اس بچے کے لیے جو تمہارا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔

ارحم کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو نرمین کو اپنے کانوں میں ڈلتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔

یہ سب ہوا کیسے مجھے دو منٹ میں ڈیٹیلز چاہیے Sudo

Zulu اس کے بعد تم میرے ساتھ اکیلے میں ملو ۔۔۔۔

نرمین کا رنگ ایک دم اڑ گیا تھا اپنے بھائی کا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہی تھی وہ ۔۔۔

Sudoجلدی بولنا شروع کرو ۔۔۔۔

(کچھ دیر پہلے )

دو لوگ ایک موٹر بائیک پر آئے اور ارحم پر گولی چلا کر بھاگ گئے لیکن نرمین نے جلدی سے ارحم کو پیچھے کر کے وہ گولی خود پر کھا لی تھی ۔۔۔۔

ارحممممم ارہان نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جہاں خون ہی خون تھا وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر جیسے ہی ارحم کی طرف بھاگا تو دیکھا کہ نرمین ایک دم زمین بوس ہو گئی تھی اور نرمین کے بازوں سے خون بہہ رہا تھا اتنا خون دیکھ کر تو جیسے ارہان کے جسم سے جان نکلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ جلدی سے نرمین کی طرف بھاگا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا ۔۔۔

نرمین آنکھیں کھولو نہیں نرمین پلیز آنکھیں کھولو یار یہ کیا ہے سب خدا کا واسطہ ہے آنکھیں کھولو ادھر دیکھو میری طرف نرمین ادھر دیکھو نرمین جس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اس کے ہونٹوں پر بس ایک ہی نام تھا ارحم ۔۔۔۔

ارہان نے جلدی سے نرمین کو اپنی گود میں اٹھا کر گاڑی میں لیٹایا اور ارحم کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر جلدی سے گاڑی بھگا لے گیا ۔۔۔۔

ارہان کی آنکھوں میں زمل کے بعد اب آنسو تھے ارہان تو زمل کی موت پر بھی نہیں رویا تھا اس کی جاب نے اسے رونے سے روکے رکھا تھا لیکن اب کی بار تو ارہان کی جان پر بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

نرمین اٹھو یار ایسے نا کرو میں میں ایسے نہیں دیکھ سکتا تمہیں پلیز اٹھ جاؤ ۔۔۔۔۔

نرمین کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور ارہان کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔

ہسپتال پہنچتے ہی نرمین کا اوپریشن شروع کر دیا گیا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد نرمین کو ہوش آگئی تھی ۔۔۔۔۔

(حال)

Zulu میرے ساتھ آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔

Zulu کی جگہ پر ارہان کو راحم کے پیچھے جاتا دیکھ نرمین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں ۔۔۔۔۔

بھابھی یہ ارہان ۔۔۔۔۔۔

وہ سیکرٹ ایجنٹ ہے جیسے تم اور میں ہیں ۔۔۔۔

کیا آپ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی ۔۔۔۔

جی چندہ میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں ارہان 

بھائی آپ کے بھائی کہ بہترین جگری دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک کی حفاظت کے لیے سیکرٹ ایجنٹ بھی ہے جو انڈر ورلڈ  میں ایک نام رکھتا ہے اپنا ۔۔۔۔۔

نرمین تو حیران تھی سب کچھ سن کر ۔۔۔۔

 مجھے ایک ایک بات بتاؤ یہ سب کب ہوا کیسے ہوا ارحم کیوں نرمین کو ماما کہہ رہا ہے ارہان مجھ سے ایک لفظ بھی جھوٹ نا بولنا ۔۔۔۔۔

ارہان نے راحم کی طرف دیکھا ایک لمبا سانس کھینچا اور ساری داستان سنا دی ۔۔۔۔

اب وہ راحم کے جواب کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔

دیکھو راحم میری بہن معصوم ہے اس کی بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے تمہیں جو بھی پریشانی اٹھانی پڑھی اس کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں لیکن اب میری بہن سے دور رہنا میں نہیں چاہتا وہ اپنا مقصد بھول جائے ۔۔۔۔

ارہان نے زخمی نگاہوں سے راحم کی طرف دیکھا تھا شانزے کو سنبھالنے کے لیے راحم کے ساتھ جو کھڑا تھا وہ بس ارہان ہی تھا جس نے راحم کی غیر موجودگی میں بھی شانزے کا بہت خیال رکھا تھا ۔۔۔۔

راحم اپنی بات مکمل کرتا نرمین کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔

ارہان آنکھوں سے آنسو صاف کرتا خود بھی نرمین کے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

چلو ارحم گھر چلیں بیٹا ۔۔۔۔

نرمین کی نگاہوں نے ارہان کی نگاہوں میں دیکھا تھا جہاں بہت سے ٹوٹے ہوئے خواب بہت سی آس امید تھی ۔۔۔۔

لیکن بابا ماما ابھی ٹھیک نہیں ہے ان کو اکیلے کیسے چھوڑ کر جائیں گے ۔۔۔۔

بیٹا نرمین آنٹی ہیں آپکی ماما نہیں ہیں چلو میرا بیٹا شاباش بابا کے ساتھ چلیں آپ بھی ۔۔۔۔

راحم کا یہ رویہ وہاں کسی کو بھی پسند نہیں آیا تھا شانزے کا منہ گلے تک کڑوا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

شانزے نے ایک نفرت سے بھرپور نظر سے راحم کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

ارہان ارحم کا ہاتھ پکڑے وہاں سے چلا گیا تھا ارحم روتا رہا لیکن ارہان نے ایک بار بھی اس کا ہاتھ نہیں چھو

ڑا ارہان کو دکھ اس بات کا تھا کہ نرمین نے بھی کچھ نہیں کہا نا راحم کو روکا تھا ۔۔۔۔۔

ارہان بہت بدگمان ہو چکا تھا نرمین سے اسی لیے ایک پر شکوہ کناہ نگاہوں سے نرمین کی طرف دیکھ کر وہ ہسپتال سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔

نرمین آج کے بعد مجھے تم ارہان کے ساتھ نظر نا آؤ وہ ایک بچے کا باپ ہے اور تم ابھی بچی ہو اپنے کام پر فوکس کرو جو تمہاری ذمہ داری ہے نا کہ فضول کی زمہ داریاں اپنے سر پر ڈالو یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو تم اپنے سر پر لینا چاہ رہی ہو اور میں تمہیں کمزور نہیں پڑنے دے سکتا اس ملک کو اس بچے سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے سمجھیں تم اب ریسٹ کرو اور شانزے چلو میرے ساتھ کچھ بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔۔

نرمین تو اپنے بھائی کا رویہ دیکھ کر حیران تھی کہ یہ اس کا بھائی ہی ہے جو جان چھڑکتا تھا آج کیسے اس کی خوشیوں کا قاتل بنا بیٹھا ہے ۔۔۔۔

آپ اس قدر سخت دل کیسے ہو سکتے ہیں کسی پر تو رحم کریں مسٹر راحم خان یہ نا ہو کل آپ کے لیے حالات ایسے بن جائیں کہ آپ پر بھی رحم نا کیا جائے کتنے بے درد ہیں آپ اپنی سگی بہن کی خوشیاں نظر نہیں آرہیں آپکو اس معصوم بچے کے آنسو نظر نہیں آئے آپکو ارے آپ تو اتنے خود گرز ہیں کہ آپکو اپنے دوست کا وہ وقت بھی یاد نہیں آیا جس وقت آپ کے دوست نے آپکی غیر موجودگی میں بنا کہے میرا اتنا خیال رکھا لیکن آپکو نا تو مجھ سے کوئی لینا دینا ہے نا ہی کسی اور کی نیکی سے آپ نے میرے ساتھ جو کیا میں خاموشی سے سب برداشت کرتی رہی لیکن اب نرمین کے ساتھ میں آپکو ایسا ویسا کچھ نہیں کرنے دوں گی آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس کی تمام خاشیوں کا گلا آپ اپنی آنا کے ذریعہ گھونٹ دیں ۔۔۔۔۔

آپ کو تو اپنے دوست کی آنکھوں میں اپنی بہن کے لیے محبت تک نظر نہیں آئی اور اگر آپکی چھوٹی سوچ یہ سوچے بیٹھی ہے کہ وہ ایک بچے کا باپ ہے تو مسٹر راحم خان محبت میں انسان خود سے جڑے ہر رشتے کو فراخ دلی سے اپنا لیتا ہے نرمین بیشک چھوٹی ہے لیکن وہ یہ ذمہ داری سگی ماں سے بھی زیادہ اچھے سے نبھا سکتی تھی لیکن اس کی بد قسمتی کہ اس کی خوشیوں کا قاتل وہ شخص ہے جو اس کا مان اس کا غرور تھا۔۔۔۔۔

مجھے شرم آ رہی ہے آج آپکو اپنا نام نہاد شوہر کہتے ۔۔۔۔۔۔

ابھی شانزے کے الفاظ منہ میں تھے جب راحم شانزے کے ہونٹوں پر جھکا اور محبت بھری گستاخی کر دی ۔۔۔۔۔

شانزے کا سانس اکھڑنے لگا تو راحم کو بھی شاید اس پر ترس آگیا تبھی اس سے دور ہٹا اور غور سے شانزے کے چہرے کے آتے جاتے رنگوں کو دیکھنے لگا جو اپنا بگڑا تنفس سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی شانزے نے  آنکھوں میں آنسو لیے شکوہ کناہ نگاہوں سے راحم کی طرف دیکھا تھا اور پھر سٹور روم سے نکلتی چلی گئی تھی راحم کے چہرے پر کمینی مسکراہٹ آئی تھی وہ جو چاہتا تھا وہ کر چکا تھا شانزے کو بلانے کا مقصد بس اپنی پیاس بجھانا تھا اس کو محسوس کرنا تھا جو وہ کر چکا تھا اور اب کافی پرسکون تھا ۔۔۔۔۔

شانزے روتی ہوئی نرمین کے کمرے میں گئی جہاں وہ چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی شانزے کو نرمین پر بھی کافی غصہ تھا کیا وہ چھوٹی بچی تھی جو اپنے پیار کے لیے سٹینڈ نہیں لے سکی ۔۔۔۔

بہت خوب تم بھی اپنے بھائی سے کم نہیں ہو دونوں نے شاید ڈگریاں لی ہوئی ہیں دوسروں کے دل توڑنے کا شانزے کمرے میں داخل ہوتے ہی تالی بجاتی نرمین پر طنز کرنے لگی نرمین جس کی آنکھیں پہلے ہی آنسوں سے بھری ہوئی تھیں اب ایک دم چھلک پڑھی بھا۔۔۔۔

پلیز یار مجھے کوئی صفائی نا دینا میں دیکھ چکی ہوں تمہاری بہادری اور تمہاری سو کولڈ محبت اگر تمہیں اتنی شرم محسوس ہو رہی تھی اپنے بھائی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے تو کم از کم اس چھوٹے معصوم بچے کے لیے تو کھڑی ہو سکتی تھی لیکن کیوں کھڑی ہوتی اس کے لیے تم کون سا اس کی سگی ماں ہو سگی ہوتی تو دنیا سے لڑ جاتی یہاں تو ایک ڈر پوک بھائی کا مقابلہ نا ہو سکا تو دنیا سے کیا لڑتی تم خیر اب کم از کم ارہان اور ارحم سے دور ہی رہنا ورنہ وہ جو تمہارا اور تمہارے بھائی کا حال کرے گا وہ کسی کو برداشت نہیں ہو گا ۔۔۔۔

چلتی ہوں اپنا خیال رکھنا شانزے طنز کرتی ہسپتال سے نکلتی چلی گئی تھی نرمین کو امید نہیں تھی شانزے ایسے اس سے بات کرے گی لیکن اس میں  جھوٹ بھی کچھ نہیں تھا سچ ہی تو کہہ کر گئی تھی شانزے ۔۔۔

نرمین نے اپنے بھائی سے بات چیت بلکل بند کر دی تھی راحم یہ بات بہت اچھے سے سمجھ رہا تھا اب اسے شانزے پر غصہ آنے لگا تھا ضرور یہ سب پٹی شانزے کی ہی پڑھائی گئی ہے ۔۔۔۔۔

جلدی اس لڑکی کا کچھ کرنا پڑھے گا زیادہ سر پر چڑھتی جا رہی ہے پر کاٹنے پڑھیں گے ورنہ اڑ گئی تو ہاتھ ملنے پر جائیں گے ۔۔۔۔

راحم غصے سے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین سارا سارا دن کمرے میں بند رہتی شانزے اور راحم کے علاؤہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ نرمین کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔

دو ہفتوں کے بعد نرمین یونیورسٹی گئی تھی دروازے میں کھڑے پورے میدان میں نظریں گھمائیں کہیں تو ستم جان نظر آ جائے لیکن ارہان کچھ زیادہ ہی ناراض تھا جو نرمین کو بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین کلاس لینے جا رہی تھی جب اسے خود سے کچھ دور فون پر کسی سے بات کرنا ارہان نظر آیا یقیناً وہ کلاس لینے ہی آ رہا تھا نرمین خاموشی سے ارہان کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی ارہان جیسے ہی پلٹا ایک دم چونک گیا ۔۔۔۔

ہوش میں آتے ہی ارہان کو نرمین پر بے حد غصہ آیا تھا ۔۔۔۔

یہ کیا حرکت ہے کبھی تو اپنی حرکتوں سے باز آ جایا کرو تمیز تہذیب تو تمہیں پتا ہی نہیں ہیں شاید یا کسی نے سیکھائیں نہیں ہیں ہٹو اب میرے راستے سے ۔۔۔۔

ارہان کا غصے سے برا حال تھا نرمین کو امید نہیں تھی وہ ایسے بات کرے گا تبھی آنکھوں کے پیالوں میں نمی سی آ گئی تھی ۔۔۔۔۔

ہٹ جاؤ نرمین میرے راستے سے ۔۔۔۔

میں ہر گز نہیں ہٹوں گی آپ بھی تو میرے بھائی کا غصہ مجھ معصوم پر نکال رہے ہیں ۔۔۔۔

ارہان نے لال انگارہ آنکھوں سے نرمین کی طرف گھور کر دیکھا تو نرمین کی ساری شوخی پانی میں جا ملی ۔۔۔۔

میں کسی کا غصہ کسی پر نہیں نکالتا اور میرا تم سے ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے مس نرمین جس کی بنا پر  میں تم پر غصہ نکالوں ۔۔۔۔

ایسے کیسے نہیں ہے آپکا مجھ سے کوئی رشتہ میں اپکے بیٹے کی ماں ہوں ۔۔۔۔

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ بکواس بند رکھو اپنی تو ہی تمہارے حق میں بہتر ہو گا اس کی ماں اسے پیدا کرتے ہی مر گئی تھی اور اگر اتنا ہی تمہارا حق تھا اس بچے پر تو تب کہاں تھی تمہاری یہ ٹر ٹر چلتی زبان جب تمہارے بھائی نے اس معصوم کو روتے ہوئے کو ڈانٹ کر اس عورت سے دور کر دیا تھا جس کو انجانے میں ہی اپنی ماں سمجھ بیٹھا ہے 

یو نو وٹ نرمین غلطی تمہاری یا تمہارے بھائی کی نہیں ہے غلطی اس معصوم کی ہے جو اس دنیا کے رنگوں سے ناواقف ہے جو عورت اس بچے کے لیے کسی کے سامنے سٹینڈ نہیں لے سکتی جو اسے اپنی ماں سے بھی زیادہ چاہنے لگا ہو میں اس عورت پر کیسے بھروسہ کر کے اس کو اپنے چھوٹے سے بچے کی اتنی بڑھی ذمہ داری دے دوں کبھی نہیں مس نرمین آج کے بعد آپ میرے بیٹے کے آس پاس بھی نظر آئیں تو آپکی ٹانگیں توڑ کر میں آپکے بھائی کے گھر پہنچا دوں گا گوٹ اٹ ۔۔۔۔

ارہان جو دو ہفتوں سے راحم کی باتوں کو دل پر لگائے بھرا بیٹھا تھا آج نرمین کے یونیورسٹی آنے پر تو جیسے اسے موقع مل گیا تھا اپنی بھڑاس نکالنے کا تبھی نرمین کے بات کرتے ہی اس پر چڑھ دوڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

نرمین اتنے بڑے میدان میں تنہا کھڑی رہ گئی تھی اس پاس سے گزرنے والا ہر شخص اسے خود پر ہنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا نرمین کا دل۔کیا کہ زمین کھلے اور وہ اس میں سما جائے سہی تو کہہ رہا تھا ارہان اگر وہ اپنے بھائی بھابھی کے سامنے سٹینڈ نہیں کے سکتی تو کیسے اس بچے کی ذمہ داری اٹھاتی ۔۔۔۔

نرمین سارا دن خاموشی سے بیٹھی رہی اندر اندر رو لیتی جس وجہ سے اس کی آنکھوں۔ کے پپوٹے سوجھ چکے تھے۔۔۔۔۔

ارہان سب کچھ محسوس کر رہا تھا لیکن سب کچھ نظر انداز  کرتا اپنے کام میں مگن رہا ۔۔۔۔۔

ارہان رکیں میری بات سنیں ارہان جو چھٹی ہوتے ہی گھر جانے کو تیار تھا نرمین کی آواز پر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اپنے قدم روکتا وہ پلٹا تھا لیکن ارہان کے چہرے پر اتنی سختی دیکھ نرمین کے طوطے اڑ گئے تھے ۔۔۔۔۔

کیا مسئلہ پیش آ گیا ہے جو آوازیں دینے لگ گئی ہو اور ہاں میں تمہارا استاد ہوں اسی لیے بہتر ہو گا کہ میرے ساتھ تمیز سے پیش آیا کرو اور میرے نام کے ساتھ سر لگایا کرو ورنہ تمہاری ان بدتمیزیوں کی وجہ سے مجھے تمہارے پیرنٹس سے بات کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔

نرمین تو آنکھے پھاڑے ارہان کا رویہ ہی دیکھتی رہ گئی تھی آنکھوں کے کٹورے منٹوں میں بھر گئے تھے جو ارہان کی نظروں سے اوجھل نہیں تھے ارہان کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن خود کو سخت بنائے وہ خاموشی سے کھڑا رہا ۔۔۔۔۔۔۔

سوری آپکا وقت برباد کرنے کے لیے نرمین آنسو بہاتی سوری کہتے وہاں سے چلی گئی تھی ارہان کی جان لبوں پر آ گئی تھی یہ وہ نرمین تو نہیں تھی جو منہ توڑ جواب دینا جانتی تھی ۔۔۔۔۔

میں تمہیں خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر دوں گا نمی تم مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگو گی کہ کبھی میری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہو گی میں تمہارے قابل نہیں ہوں اگر میں تمہارے قریب ہو گیا تو دونوں کے لیے مشکل کھڑی کر دوں گا تم بہت چھوٹی ہوں اور میں برسوں کا پیاسا میری شدتیں برداشت کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے نمی آنکھوں میں آنسو بھرے ارہان اپنی ہی سوچوں میں گم تھا اور پھر اپنی گاڑی میں بیٹھتا لمبے سفر پر نکل گیا تھا ۔۔۔۔

نرمین گھر پہنچی تو سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی راستے میں شانزے سے ملاقات ہوئی لیکن نرمین کسی کو بھی نہیں بلا رہی تھی شانزے کو اپنے کیے گئے رویہ پر بہت افسوس ہوا لیکن ابھی شانزے بھی خاموشی رہی ابھی نرمین کو چھیڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔

سارا دن نرمین کمرے میں رہی سب حیران تھے کہ نرمین کو کیا ہوا ہے گولی لگنے کا بھی گھر پر کسی کو نہیں پتا تھا نرمین اکثر اوقات راحم کے پاس بھی رہ لیا کرتی تھی اسی لیے کسی نے پوچھا بھی نہیں۔۔۔۔۔

اگلے کئی روز نرمین یونیورسٹی نہیں گئی تھی گھر پر بیمار پڑھی تھی شانزے نے کئی بار نرمین سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نرمین تو جیسے کسی کو جواب دینا ضروری ہی نہیں سمجھتی تھی 

ادھر ارہان نے راحم سے بلکل قطع تعلق کر رکھا تھا راحم نے کئی بار چاہا کہ وہ ارہان سے ملے لیکن وہ کئی بہانے بنا کر ملنے سے انکار کر دیتا تھا ۔۔۔۔

"کیسی ہیں شانزے بھابھی ۔۔۔۔"

میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں بھائی ؟

میں بھی ٹھیک ہوں ارحم کیسا ہے اور کہاں ہے نظر نہیں آ رہا ۔۔۔۔

جی بس وہ جس دن سے ہسپتال سے آیا ہے تب سے بخار میں مبتلا ہے شاید وہاں سے جراثیم لگ گئے ہیں 

اور آپکو بھی جراثیم لگے ہیں کیا کس کو بیواقوف بنا رہے ہیں بھائی ۔۔۔۔۔

شانزے نے آنکھوں میں آنسو بھرے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جس نے شانزے کا تب خیال رکھا تھا جب اس کا اپنا شوہر اسے تنہا دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا تھا  ۔۔۔۔

ارہان نے بھی اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا ۔۔

میں نے نرمین کو بہت بڑھ سزا دے دی ہے بھائی آپ اسے معاف کر دیں نرمین کے نام پر ارہان کی آنکھیں جلنے لگی تھیں ۔۔۔۔

غلط کیا بھابھی آپ نے اس کو سزا دینے کا حق صرف میرا ہے میں اسے دوں گا سزا میرے بیٹے پر ظلم کرنے کی سزا میری زندگی میں زبردستی گھس کر مجھ سے بے وفائی کرنے کی سزا ۔۔۔۔

شانزے جانتی تھی ارہان اپنی بات اور اپنے ارادوں کا کتنا پکا ہے یہ سب سوچ کر شانزے کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہوئی تھی ۔۔۔۔

ارہان بھائی وہ معصوم ہے جھلی ہے آپ سے پیار بھی کرتی ہے ۔۔۔

ارہان نے چونک کر شانزے کی طرف دیکھا جس نے نم آنکھوں سے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔۔

تو پھر اس کو اپنے پیار کا ثبوت دینا ہو گا بھابھی۔۔۔۔۔

کوئی حل نہیں ہے کیا اسے معاف نہیں کر سکتے کیا آپ ۔۔۔

بلکل نہیں بلکل نہیں کروں گا معاف نرمین نے 

اچھا نہیں کیا اگر وہ مجھ سے پیار کرتی تھی تو ڈٹ کر سب کے سامنے کھڑی کیوں نہیں ہوئی ۔۔۔

کیونکہ اسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ آپ اس سے پیار کرتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔

شانزے نے پھر سے ارہان کے دل میں نرمین کے لیے نرمی ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔

اسے اپنے پیار پر اتنا تو بھروسہ ہونا چاہیے تھا بھابھی کے میں اس سے پیار نا بھی کرتا ہوتا پھر بھی میں اس کے پیار کو دیکھتے ہوئے دیوانہ ہو جاتا ۔۔۔۔

شانزے کج آخری امید بھی ٹوٹ گئی تھی اس نے منت بھری آنکھوں سے ارہان کی طرف دیکھا تھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ خدا کے لیے مان جاؤ اسے اپنا لو ۔۔۔۔

نرمین کی حالت بہت خراب ہے بھائی نرمین کا سن کر ارہان کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن وہ خاموش رہا ہاں بھولا بھٹکا ایک ننھا سا موتی ارہان کی آنکھوں سے بہہ نکلا تھا ۔۔۔۔

چلتی ہوں اپنا خیال رکھیے گا سوچا تھا اس کو لیے غلط فہمی جو بھی آپ کے دل میں ہے جو سب ختم ہو جائے گی ۔۔۔

لیکن میں غلط تھی آپ کے دل میں اس کے لیے غلط فہمی نہیں بلکے نفرت ہی نفرت ہے ۔۔۔۔

شانزے کہہ کر مڑنے لگی تھی کہ ارہان کی بات پر ایک دم ہونک بنی اسے دیکھنے لگی 

ایک بات یاد رکھیے گا بھابھی شانزے پر میرے علاؤہ کسی کا حق نہیں ہے اس پر کسی کی نظر بھی میں برداشت نہیں کروں گا جتنا لوگوں سے اسے چھپا کر رکھیں گی اتنا اس کے حق میں بہتر ہو گا ورنہ اس سے شادی کے بعد اس کو ہر بات کا حساب کتاب دینا ہو گا ۔۔۔۔

شانزے کے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔۔۔

_______________

نرمین صبح سویرے سب کو بتائے بغیر گھر سے چلی گئی تھی سب بہت پریشان تھے لیکن شانزے جانتی تھی کہ نرمین کہاں گئی ہو گی ۔۔۔۔۔

ارہان کو لگا جیسے کوئی دور سے ٹرین کی آواز اس کے کانوں میں پڑھ رہی ہے جیسے ہی اس نے غور کیا تو ارہان کے گھر کی بیل پر کوئی ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا تھا ارہان کو اس بات سے سخت چڑ تھی جب کوئی اس کی نیند میں خلخل پیدا کرتا تھا ارہان جلدی سے اٹھا اور غصے سے دروازے کی طرف بڑھا نرمین جو دروازے سے سر ٹکائے کھڑی تھی ارہان کے دروازہ کھولنے سے سیدھا اس کے سینے سے آ لگی ارہان تو پہلے نرمین کو وہاں دیکھ کر حیران ہوا پھر حیرانگی نے غصہ کی شکل اختیار کر لی کیوں کہ ابھی پورا دن شروع نہیں ہوا تھا اور اس وقت نرمین کا اکیلے آنا خطرے سے خالی نہیں تھا دشمن ہر وقت تاک میں رہتے تھے ۔۔۔۔

ارہان نرمین کا بازو پکڑے اپنی طرف کھینچ کر جلدی سے دروازہ بند کر چکا تھا بازوں سے پکڑے اپنے قریب کیے ارہان نرمین جو کھا جانے والے انداز میں گھور رہا تھا ۔۔۔۔

دماغ خراب ہے تمہارا کیوں اکیلی نکلی ہو گھر سے کہاں ہے تمہارا وہ سو کولڈ بھائی تمہارا محافظ اب اسے کوئی فکر نہیں ہے تمہاری تمہاری جان کی اور ۔۔۔۔۔

نرمین کو اوپر سے نیچے تک دیکھتا ارہان نرمین کو گھبرانے پر مجبور کر گیا تھا ۔۔۔۔

اور تمہاری نام نہاد عزت کی کوئی فکر نہیں ہے کیا اب تمہارے بھائی کو ۔۔۔۔

نرمین کو لگا کہ وہ پاگل ہو جائے گی ارہان کی تلخ باتیں اسے زمین میں دھنسا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

ارہان میری ایک منٹ بات سن لیں بھرائی آنکھوں سے وہ قتل ہی تو کر رہی تھی ارہان کے دل کا ۔۔۔

میں کچھ نہیں جانتا چلی جاؤ ابھی کے ابھی یہاں سے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔۔

نہیں جاؤں گی میں یہاں سے سمجھے آپ میں اپنے بیٹے سے ملے بغیر نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔

نرمین آرہان کے ظلم پر چیخ ہی تو پڑی تھی ۔۔۔۔

مجھے مجھے اپنے بچے سے ملنے دیں میں نر جاؤں گی اس کے بغیر ارہان تو جیسے ہوش میں آیا تھا نرمین کے حلیے پر غور تو اس نے اب کیا تھا جس کی حالت پھانسی پر چڑھنے والی ہو اور اس کی آخری خواہش ہو کہ اسے زندہ چھوڑ دیا جائے ۔۔۔ 

ارہان نے نرمین کی طرف دیکھا تو وہ ٹوٹی بکھری حالت میں ارہان کے آگے ہاتھ جوڑے گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی ارہان نے ایک نظر نرمین کو دیکھنے کے بعد اپنا چہرا موڑ لیا تھا وہ نرمین کی ایسی حالت برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ وہ لڑکی تو ہر گز نہیں تھی جس نے ارہان سے پہلی ملاقات میں ہی اس کے چھکے چھڑا دیے تھے یہ تو کوئی اور ہی نرمین تھی جو اپنی غلطی کا ازالہ کرتی اب تھک چکی تھی اپنے بچے کی تڑپ کو اپنے دل میں دبائے مرنے کے لیے بھی تیار تھی ۔۔۔۔

آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس بس اور کوشش کرنا اس آدھے گھنٹے میں تم میرے بیٹے کو کوئی تکلیف نا دو ۔۔۔۔

نرمین کو تو جیسے جرم کرنے کے بعد بھی جنت کی نوید سنا دی گئی تھی ۔۔۔۔

نرمین بھاگ کر راحم کے پاس گئی جو کمرے میں تنہا بیٹھا کھڑکی کو دیکھ رہا تھا ایک دم دروازہ کھلنے پر جیسے ہی ارحم کی نظر نرمین پر پڑھی تو وہ بے یقینی سے نرمین کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔

ماما آپ یہاں کیسے آئیں آپ تو مجھ سے ناراض تھیں نا آپ کو میری یاد نہیں آئی تھی کیا نرمین کو لگا جیسے اس کا دل کسی نے پیروں تلے روند دیا ہے اتنی تڑپ تھی اس معصوم بچے کی پکار میں نرمین جلدی سے آگے بڑھی اور ارحم کو سینے سے لگا لیا آدھا گھنٹا گزرا اور اس کے بعد نا جانے کتنے آدھے گھنٹے مزید ایسے ہی گزر گئے رات کے وقت جب نرمین نے وقت دیکھا تو مسکرا دی ۔۔۔۔

ارحم بیٹا اب میں آپ سے روز ملنے آیا کروں گی اب ماما جائیں گھر سب پریشان ہو رہے ہوں گے ماما کسی کو بتا کر نہیں آئیں نا۔۔

ماما بری بات ہوتی ہے آپکو اپنی ماما یا بابا کو بتا کر آنا چاہیے تھا ۔۔۔

نیکسٹ ٹائم بتا کر آؤں گی میری جان اب ماما جائیں ۔۔۔۔

نہیں ماما میرا دل نہیں کر رہا کہ آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔۔

میں پھر آؤں گی میری جان ۔۔۔۔

نرمین کا بھی دل نہیں تھا کہ وہ ارحم کو چھوڑ کر جائے لیکن ابھی اس کی مجبوری تھی اسے جانا تھا ۔۔۔۔

جانے دو بیٹا یہ وہ مسافر ہیں جن کی کوئی ایک منزل نہیں ہوتی جانے دو انہیں ۔۔۔۔

دروازے پر کھڑے ارہان نے اپنے جملے سے نرمین کا دل تک چیر دیا تھا ۔۔۔۔

نرمین نے بھرائی نگاہوں سے ارہان کی طرف دیکھا تو ارہان سر مارتا جیسے آیا تھا ویسے واپس چلا گیا ۔۔۔۔

کہاں سے آ رہی ہو نرمین شانزے جو دروازے پر کھڑی تھی نرمین سے باز پرس کرنے لگی نرمین نے ایک نظر شانزے کے چہرے پر ڈالا اور پھر خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئی ابھی تو ارہان کی باتیں اس پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں واللہ اس پر شانزے کا ٹوکنا نرمین ہی جانتی تھی کہ وہ کیسے سب برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔

نرمین میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے ۔۔۔۔

آپ نے اور بھائی نے جو کرنا تھا کر لیا مانا کہ مجھ سے غلطی ہوئی اپنے پیار کی خاطر میں بھائی کے آگے کچھ بول نا سکی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں بزدل ہوں میں اپنے بھائی کے سامنے ان کا مان اور ان کی عزت کی خاطر خاموش رہ گئی جب سہی وقت آئے گا تب بول بھی لوں گی آپ لوگ میری فکر نا کریں کچھ نہیں ہوتا مجھے ۔۔۔۔

_________________

نرمین نرمین دروازہ کھولو۔۔

نرمین کو دور کہیں سے آوازیں آتی سنائی دے رہی تھیں چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اس کے نام کی پکار آ کہاں سے رہی ہے بہت زور دینے کے بعد ایک دم نرمین کی آنکھ کھل گئی تو اسے پتا چلا کہ آواز دروازے سے آ رہی تھی ۔۔

وہ جلدی سے اٹھی اور دروازہ کھولا تو سامنے شانزے آنسو بہاتی کھڑی تھی ۔۔۔۔

کیا ہوا بھابھی سب ٹھیک ہے نا بھائی ماما بابا سب ٹھیک ہیں نا ۔۔۔۔

نرمین کچھ ٹھیک نہیں ہے ہمیں ابھی آفس کے لیے نکلنا ہو گا ۔۔۔۔

لیکن ہوا کیا ہے بھابھی بتائیں تو ۔۔۔۔۔۔

تمہارا بیٹا خطرے میں ہے نرمین جلدی چلو 

نرمین کو لگا تھا کہ وہ دوسرا سانس نہیں لے پائے گی اس کو اپنی سماعت پر یقین نہیں ہوا تھا خواہ اس نے سہی سنا ہے یا غلط نرمین جلدی سے اندر گئی ابھی اور جاتے ہیں کپڑے بدلے یونیفارم میں ملبوس نرمین کوئی اور ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

ایک بار تو شانزے نرمین کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ کر گھبرا گئی تھی ۔۔۔

نرمی تسلی رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا نرمین جس تیزی سے گاڑی چلا رہی تھی شانزے کو ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنا ہی نقصان نہ کر بیٹھے  ماما بابا کہاں ہے بھابی فکر  نہیں کرو تمہارے بھائی نے ان کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیا ہے یہ سب کیسے ہوا بھابی آرہان  کہاں پر تھے میں کچھ نہیں جانتی نرمین تمہارے بھائی کی ہی کال آئی تھی اور ہمیں جلدی سے تیار ہونے کا کہا انہوں نے کچھ بھی پوچھنے کا وقت ہی نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔

آفس پہنچتے ہی  سب سے پہلے نرمین  کی نظر آرہان پر پڑی جس کی شاید ضبط سے آنکھیں لال ہو چکی تھیں وہ  کوئی افسر نہیں لگ رہا تھا بلکہ کوئی ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا انسان تھا جس کے اندر باپ کی شفقت چیخ چیخ اپنے بچے کو پکار رہی تھی ۔۔۔۔

سامنے میجر دانش اپنی گہری سوچ میں کھڑے تھے اسلام سر ۔۔۔۔

شانزے اور نرمین  نے یک زبان ہو کر سب کو سلام کیا تھا آواز اتنی بلند تھی کہ کوئی عام۔انسان اتنی رعب دار آواز پر گھبرا جاتا ۔۔۔۔۔

نرمین ۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔

کسی بھی حال میں مجھے ارحم ارہان زندہ چاہیے اسے ہلکی سی بھی خراش آئی تو میں تمہیں زندہ دفن کر دوں گا اس بات کا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔نرمین کی بلند آواز نے جیسے ارہان کے اندر سکون کی لہر دوڑا دی تھی ۔۔۔۔

اب اسے یقین تھا کہ اس کے بیٹے کو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔

تمہارے ساتھ ارہان جائے گا شانزے اور راحم تم دونوں جتنی جلدی ہو سکے پتا لگواؤ کے اغواء کرنے والے کون تھے ۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔

راحم خان راحم۔جو مڑنے ہی والا تھا ایک دم میجر دانش کی آواز پر مڑا اور سوالیہ نظروں سے میجر دانش کو دیکھنے لگا تھا ۔۔۔

اس بار مجھے کچھ بھی غلط نہیں چاہیے راحم کوئی بھی تمہاری وجہ سے تکلیف میں آیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔۔

راحم۔نے مظلوم سی شکل بنا کر میجر دانش کی طرف دیکھا تھا وہ جانتا تھا کہ میجر دانش کا اشارہ کس طرف تھا۔۔۔۔۔نرمین اور ارہان اپنے مخصوص حلیے میں آ چکے تھے کالے رنگ کے کپڑے پہنے کالے ماسک میں وہ دونوں کسی کی بھی پہچان میں نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔

دونوں نے سر دانش کو خدا حافظ کہا اور جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ پھر سے سر دانش کی آواز پر دونوں کو رکنا پڑھا شانزے اور ارہان بھی وہاں ہی موجود تھے سب نے سوالیہ نظروں سے میجر دانش کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔

جنہوں نے کال رسیور اٹھایا اور کسی کو۔اندر بھیجنے کا کہا ۔۔

دروازے سے آنے والے لوگوں کو دیکھ سب ہی حیران تھے کیوں کہ وہاں ایک مولوی اور بہت سے آدمی تھے ۔۔۔۔

بیٹھ جائیں سب اب صوفوں پر براجمان ہو گئے تو میجر دانش نے اپنا رخ اب راحم کی طرف کیا تھا کیپٹن اگر میں تمہاری بہن کا رشتہ کرنا چاہوں تو تمہیں کوئی اعتراض ہو گا ۔۔۔۔۔۔

سب نے میجر دانش کی طرف حیرانگی سے دیکھا تھا یہ کون سا وقت تھا ایسی باتوں کا 

لیکن میجر دانش کے آگے بولنا مطلب اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے کا حساب تھا ۔۔۔۔

راحم میجر دانش کے بہت قریب تھا لیکن یہ وہ وقت تھا جہاں راحم بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔

بولو راحم خان تمہیں کوئی مسئلہ ہے اگر میں رشتہ تہہ کر دوں تمہاری بہن کا تو ۔۔۔۔

نہیں نہیں سر آپ جہاں چاہیں کر دیں رشتہ لیکن یہ وقت ۔۔۔۔

ابھی راحم کی بات اپنے منہ میں تھی جب میجر دانش کی آنکھوں نے راحم کو خاموش کروا دیا تھا ۔۔۔

مولوی صاحب اس بچی کا نام نرمین ہے اور اس بچے کا نام ارہان ہے ارہان جو ضبط سے گھٹنوں پر بازو رکھے بیٹھا ہوا تھا اپنے نام کی پکار پر اپنی آنکھیں موند گیا تھا ۔۔۔۔

لیکن اپنے منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا تھا ۔۔۔۔۔

مولوی نے جھٹ پٹ گواہوں میں نرمین اور ارہان کا نکاح پڑھوا دیا تھا ۔۔۔۔۔

سب قدرت کے اس کرم نوازی پر حیران تھے نرمین کو تو لگا تھا جیسے اس کو جنت کی بشارت مل گئی ہو ۔۔۔۔۔

نکاح ہوتے ہی سب نے نرمین کو  مبارکباد دی لیکن ارہان کے پاس کوئی نا آیا تھا سب اس کی حالت سے واقف تھے اب وقت تھا ایک لمبے سفر کا جہاں نرمین اور ارہان نے اپنے مشن پر نکلنا تھا سب کو خدا حافظ کہتے دونوں اپنے سفر پر نکلے تھے راحم نے نرمین کو گلے لگایا تھا 

"بھائی کو ہو سکے تو معاف کر دینا اتنا برا نہیں ہے تمہارا بھائی جتنا تم نے تمہارے اس نکمے شوہر نے اور تمہاری اس بھابھی نے سمجھ لیا ہے یار "

کیا کچھ نا تھا راحم کی آنکھوں میں درد دکھ فکر تڑپ پیاس راحم کی آنکھیں سب بیان کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔

نرمین کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا تبھی وہ راحم کے گلے لگتی شانزے کے گلے لگتی اپنے فرض کو پورا کرنے چلی گئی تھی ۔۔۔۔

راستے میں بھی نرمین محسوس کر رہی تھی کہ ارہان اپنی آنکھیں بار بار صاف کر رہا ہے نرمین کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے آج ارہان اسے اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین نے نرمی سے ارہان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو ارہان کے گرم جسم میں جیسے ٹھنڈک پڑی تھی

"وہ مل جائے گا میں ہوں نا آپ کے ساتھ "

میری خاطر نا سہی تو اپنے بیٹے کی خاطر اسے ڈھونڈ لو نرمین میری جمع پونجی ہے وہ اللّٰہ نا کرے اسے کچھ ہو گیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا نرمین ۔۔۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہو گا ارہان میں کہہ رہی ہوں نا میرے بچے کو میں کچھ نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔

ارہان اتنا بہادر ہو کر بھی اپنے بچے کے آگے ہار گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

رات کے نا جانے کون سے پہر نرمین اور ارہان ہیڈ کوارٹر پہنچے تھے نیند تو کسی کی آنکھوں میں نہیں تھی ہوتی بھی کیسے ان کا سکون ان کے پاس نہیں تھا تبھی نرمین ارہان کے لیے چائے بنا لائی تھی ارہان کو بھی اس وقت چائے کی طلب ہو رہی تھی سر درد سے پھٹ رہا تھا کھانا وہ لوگ راستے میں کھا چکے تھے اسی لیے نرمین نے ارہان کو سر درد کی دوائی دیتے چائے اس کے ہاتھ میں تھمائی تھی جسے لیتے وہ لیٹ گیا تھا کل انہیں ایک پارٹی میں جانا تھا جہاں سے ان کے مشن کی شروعات ہونی تھی ۔۔۔۔

اگلے روز ہی نرمین بلیک ساڑھی اور ارہان بلیک ٹو پیس میں تھے دونوں نے آج پارٹی میں جا کر ہر اس شخص پر نظر رکھنی تھی جو مشکوک لگ رہا تھا ارہان نے نرمین کو ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ نظریں ہٹانا بھول گیا تھا نرمین جلدی میں ارہان کی نظروں کا مہفوم بھی نا سمجھ سکی تھی یہ بات ارہان ہی جانتا تھا کہ وہ اپنی ملکیت کو اپنی عزت کو اس لباس میں غیر مردوں کے سامنے جاتے دیکھ کیسے برداشت کرے گا ۔۔۔۔۔

بہت بری لگ رہی ہو اس سے بہتر تھا تم۔گھر پر ہی رہتی ارہان نے پھر سے نرمین کے دل پر وار کیا تھا نرمین جو اپنا پلو سنمبھالنے میں ہلکان ہو رہی تھی ایک دم ارہان کی بات پر آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھنے لگی تھی جو اب لاپرواہ سا نظریں پھیر گیا تھا ۔۔۔۔۔

بہت تکلیف دیتا ہے نا میرا وجود آپکو میرا وعدہ ہے ارہان ارحم کے ملتے ہی میں آپ سے بہت دور چلی جاؤں گی جہاں آپ مجھے چاہ کر بھی تلاش نہیں کر پائیں گے ۔۔۔۔

نرمین آنسو بہاتی گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ارہان بھی سر مارتا گاڑی میں بیٹھ گیا تھا پارٹی میں پہنچتے ہی دونوں اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے تھے اب دونوں کے ساتھ میجر دانش اور شانزے بھی موجود تھی راحم کو چونکہ میجر دانش نے ایک اور کام دے رکھا تھا اسے ۔۔۔۔

ارہان اور نرمین کو پارٹی میں ایک شیخ سعدی نام کا آدمی مشکوک لگ رہا تھا میجر دانش کو ریپورٹ کرتے اب دونوں کو اس کا پیچھا کرنا تھا ناران کا موسم بہت ٹھنڈا تھا اس وقت ٹھنڈی ہوا کے ساتھ بارش کا موسم۔بھی ہو رہا تھا شیخ سعدی کے پیچھے تک جاتے بارش اپنے زوروں پر تھی چونکہ شیخ سعدی پیدل چل رہا تھا اسی لیے نرمین بھی اس کے پیچھے پیدل گئی تھی ارہان پارٹی میں ہی موجود تھا تاکہ باقی سب پر نظر رکھ سکے لیکن دل میں نرمین کے لیے فکر تھی کہ کہیں وہ پکڑی نا جائے نرمین شیخ کا گھر دیکھتے ہی واپسی کے لیے مڑی تو گلی کے کچھ آوارہ مرد اس کے پیچھے لگ گئے کرنے کو تو وہ منٹو میں ٹکانے لگا سکتی تھی لیکن ابھی یہاں ایسا کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی وہ تبھی پورے زور سے بھاگنے لگی ہیلز ٹوٹ چکی تھیں اور پارٹی نرمین سے کافی دور تھی نرمین کے پاؤں میں چھالے بن گئے تھے بارش کی وجہ سے پوری ساڑھی بھیگ چکی تھی جیسے ہی نرمین ارہان ہے پاس پہنچی تو ارہان نرمین کو ایسی حالت میں اب کی نظروں کا مرکز بنتے دیکھ آگ بگولہ ہو گیا تھا نرمین جو گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ارہان کے بازو پکڑ کر گھسیٹنے سے ایک دن بوکھلا گئی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان نرمین کو  جلدی سے گاڑی میں ڈالے اسے اپنے ساتھ گھر واپس لے ایا تھا

"کیا حرکت تھی یہ بتا سکتی ہو مجھے بہت شوق ہے غیر مردوں کی نظروں میں آنے کا تو نکل جاؤ میری زندگی سے نہیں چاہیے ایسی بیوی مجھے "

ارہان جو نرمین کی حالت جانے بغیر اتنا کچھ بول رہا تھا نرمین کی بھی اب بس ہو گئی تھی تبھی ارہان کا گریبان پکڑے چیخ اٹھی تھی ۔۔۔۔۔

سمجھ کیا رکھا ہے آپ نے جب دل کرے گا میری زندگی میں دھکے سے شامل ہو جائیں گے جب دل کرے گا تو چپ چاپ نکل جائیں گے مسٹر ارہان یہ میری زندگی ہے آپکے ہاتھ کی کٹ پتلی نہیں جسے جیسے مرضی اپنی انگلیوں پر نچا لیں ۔۔۔۔

ارہان ہاتھ باندھے سنجیدگی سے نرمین کو لال پیلا ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا ابھی نرمین کچھ اور بولتی اسے کاندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا تھا اتنا قریب کے دونوں کے درمیان ہوا با مشکل گزر رہی تھی نرمین کالی گیلی ساڑھی کے  ساتھ ارہان کے اتنے قریب تھی کہ اسے اپنا دل اپنے کانوں میں محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔

مسز ارہان یہ آپکی خوش فہمی ہے کہ میں اپنی مرضی سے اپکو اپنی زندگی میں شامل کیا ہے یہ بس آپ کے بھائی کی مرضی تھی اس سب میں کہیں میری مرضی شامل نہیں تھی ۔۔۔۔۔

نرمین کے اندر کچھ چھن سے ٹوٹا تھا بھرائی آنکھوں سے نرمین نے بے یقینی سے ارہان کی طرف دیکھا تھا جو بلیک ٹو پیس میں قیامت ڈھا رہا تھا اور کوئی وقت ہوتا تو نرمین ارہان پر کسی کی نظر نا پڑھنے دیتی لیکن اس وقت ارہان اس کا ہو کر بھی اس کا نہیں تھا اب نرمین کو لگ رہا تھا کہ رشتے زبردستی کے نہیں ہوتے نرمین نے خود کے ساتھ ساتھ ارہان پر بھی ظلم کیا ہے ارہان کی زندگی میں شامل تو ہو گئی تھی لیکن اس کے دل میں زبردستی اپنا گھر نہیں بنا سکی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان نرمین کو اکیلے ٹی وی لاونچ میں چھوڑے کمرے میں چلا گیا تھا پیچھے نرمین خود کو خالی ہاتھ پا کر رو دی تھی نرمین کا حال ایسا تھا جیسے پیاسا کنویں کے پاس آئے اور بغیر پانی پیے واپس چلا جائے ۔۔۔

(دو سال بعد)

نہیں شانزے یہ تم نے اچھا نہیں کیا آنکھیں کھولو شانزے ۔۔۔۔

بھابھی پلیز آنکھیں کھولیں پلیز بھابھی ارہان پاس بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا اور راحم کو لگا شانزے کو کچھ ہوا تو وہ دوسرا سانس نہیں لے پائے گا ۔۔۔۔۔

آئی ایم سوری کیپٹن ہم کیپٹن شانزے کو نہیں بچا پائے گولی بلکل دل میں لگی تھی 

ڈاکٹر ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک آدمی آیا ہے ۔۔۔

ڈاکٹر جس نے شانزے کی موت کی خبر سب کو سنا دی تھی نرس کی بات پر جیسے پھر سے ڈاکٹر میں ہمت پیدا ہو گئی تھی جوان ہم اپنی پوری کوشش کریں گے لیکن۔۔۔۔۔۔

لیکن کیا ڈاکٹر کچھ بھی کریں میری بیوی کو کچھ نہیں ہونا چاہے ۔۔۔۔

ہم۔پوری کوشش کریں گے باقی اللّٰہ پر یقین رکھو وہ سب کے حال سے واقف ہے ۔۔۔۔

بارہ گھنٹوں کے اوپریشن کے بعد ڈاکٹر اوپریشن تھیٹر سے باہر آئے تو راحم سب سے پہلے ڈاکٹر کی طرف لپکا تھا ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر اوپریشن ؟؟

جوان اوپریشن تو کامیاب رہا ہے مگر ۔۔۔۔

مگر کیا ڈاکٹر ارہان بے چینی سے آگے بڑھا تھا جس پر ڈاکٹر نے آرہان کی طرف ایک نظر دیکھا اور اپنا رخ راحم کی طرف کر لیا ۔۔۔

مسٹر آپکی وائف بچ تو گئیں ہیں مگر وہ قومہ میں جا چکی ہیں کب قومہ سے اٹھیں گی کچھ کہا نہیں جا سکتا سال دو سال دس سال یا اٹھیں گی بھی یا نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا اللّٰہ پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔

بھائی 

بھائی 

بھائی کیا سوچ رہے ہیں آپ ۔۔۔

ہاں ہاں راحم جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھا ایک دم کسی کی آواز پر چونکا نرمین جو اسے نا جانے کب سے آوازیں دے رہی تھی لیکن راحم کچھ سن ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔

بھائی کیوں پریشان ہوتے ہیں بھابھی ٹھیک ہو جائیں گی ۔۔۔

دو سال سے انتظار میں ہو نا جانے کب ٹھیک ہو گا سب کب وہ اٹھ کر مجھ سے لڑے گی کب وہ کہے گی کہ سب خان آپکی وجہ سے ہوا یقی۔۔۔یقین کرو میں اس کا ہر الزام لینے کے لیے تیار ہوں بس بس وہ ایک بار اٹھ جائے نرمین جانتی تھی دو سال سے اس کا بھائی کس کرب سے گزر رہا ہے کتنی تکلیف میں ہے اس کا بھائی لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی اس کی وجہ سے اس کی جان سے پیاری بھابھی آج اس حالت میں تھی اور اس کا بھائی بھی اس کی وجہ سے آج اپنی متاعِ جان کو اس حالت میں دیکھ دیکھ کر تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین نے راحم کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کیے تھے ایسا ہی تو ہوتا آیا تھا پچھلے دو سالوں سے اپنے بھائی کو اسی حال میں وہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان نہیں آیا کیا ۔۔۔۔

ارہان کے نام پر نرمین راحم سے آنکھیں چرانے لگی تھی جس پر راحم کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ نے اپنے قدم جما لیے تھے ۔۔۔۔

جانتا ہوں وہ بھی خفا ہے نا مجھ سے سب خفا ہیں بہت برا ہوں میں سب کا دل دکھایا ہے خود گرز بن گیا تھا ۔۔۔۔

نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے وہ تو ارہان کو کوئی ضروری کام تھا اسی لیے نہیں آئے وہ ۔۔۔۔

اور ارحم اسے کیوں نہیں ساتھ لائی ۔۔۔

آپ جانتے تو ہیں بھائی اس کا سکول کا۔کام بہت ہوتا ہے بڑی کلاس میں ہو گیا ہے نا اسی لیے کام کا بوجھ بہت ہے اور وہ اپنی پڑھائی کہ معاملے میں ۔۔۔۔

بس کر دو نمی جانتا ہوں ارہان نے ہی نہیں بھیجا ہو گا ۔۔۔۔

نرمین چہرا نیچے کیے آنسو بہانے لگی تھی ۔۔۔۔

بھائی آپ نے بھی تو اس معصوم کو زبردستی انسلٹ کر کے بھیجا تھا نا ہسپتال سے وہ باپ ہے ارحم کا اس نے دل پر لے لی ہے بات سب باتیں مانتے ہیں وہ لیکن جب جب ارحم کو ادھر لانے کا کہوں تو وہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔

میں سب سے معافی مانگ لوں گا سب ٹھیک کر دوں گا بس ایک بار صرف ایک بار شانزے ٹھیک ہو جائے ۔۔۔۔

انشاء اللّٰہ بھائی اللّٰہ پر بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔

میں شانزے بھابھی کو دیکھ کر پھر گھر جاؤں گی ارہان کا فون آیا تھا کہ ارحم اداس ہو گیا ہے تو گھر آ جاؤں ۔۔۔۔۔

امممم ٹھیک ہے سلام کہنا اسے میرا ۔۔۔

جی ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔۔۔

___________________________________

کیسی ہو شانزے بس کر دو یار اتنی بھی کیا ناراضگی آپنے شوہر نامدار سے ۔۔۔۔

اٹھ جاؤ ایک بار تمہارے پاؤں پکڑ کر تم سے ہر خطا کی معافی مانگوں گا ہر جرم کی سزا دینا تم مجھے بہت دل دکھایا ہے نا میں نے تمہارا اور میں جانتا ہوں تم نے دل کیوں ہارا ہے نہیں کر رہا یار سر دانش کی بیٹی سے شادی وہ تو بس تمہیں چڑانے کے لیے بولا تھا ۔۔۔۔

راحم آفس سے کسی کام سے نکل رہا تھا کہ اس نے شانزے کی ناراضگی ختم کرنے کے لیے میجر دانش کے ساتھ ایک پلین بنایا تھا جس پر راحم کو لگا شانزے اس سے لڑے گی لیکن وہ تو بلکل خاموش ہو گئی تھی نرمین اور ارہان کے جانے کے بعد راحم نے ساری بات میجر دانش کو بتا دی جا پر یہ پلین بھی میجر دانش کا ہی تھا راحم نے شانزے کو آتے دیکھا ہی تھا کہ اس نے میجر دانش کو اشارہ کیا اور میجر دانش اپنا کام شروع کر چکے تھے ۔۔۔۔

کیپٹن راحم خان یہ میں کیا سن رہا ہوں تم چھوٹے بچے ہو کیا جو اس طرح کی بچکانہ حرکتیں کرتے پھر رہے ہو ایسے حفاظت کرو گے اس ملک کی  جواب دو ۔۔۔۔

سر میں ۔۔۔۔۔چپ ایک دم ایسے زبان چلاؤ گے اب میرے آگے کیا ؟؟؟

راحم تو منہ کھولے اپنے سامنے کھڑے دوہری رشتہ رکھنے والے آدمی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے استاد بھی تھے اور ہونے والے سسر بھی ۔۔۔۔

سر آپ کچھ بولنے بھی نہیں دے رہے مجھے ۔۔۔۔

بیٹا تمہیں پریکٹس کروا رہا ہوں آگے بھی تمہاری ایک نہیں چلنی اور یقین مانو استاد کی سن لینا آسان ہے بیوی کی تو سنی بھی نہیں جاتی یار ۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا سر آپکا غم میرا غم اک جیسا سنم ہم دونوں کی ایک کہانی آ جا لگ جا گلے دل جانی ۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا آ جا میرے شیر لگ جا گلے ۔۔۔

کیپٹن راحم نے میجر دانش کو اپنے گلے سے لگایا باہر کھڑا وجود جو کب سے راحم کی جادوئی آواز میں کھویا ہوا تھا ایک دم جیسے ہوش میں آیا تھا ۔۔۔

آنکھوں میں نمی لیے اپنا رستہ بدلتی وہ جس کام سے آئی تھی وہ بھی بھول گئی تھی ۔۔۔جس شخص کی آواز سے اسے اتنی محبت تھی تو اس شخص کی محبت سے کیوں نا محبت ہوتی وہ جانتی تھی کہ جس سے وہ پیار کیے بیٹھی ہے وہ اس کی منزل نہیں ہے تبھی کبھی راحم سے محبت کا اظہار نہیں کر سکی تھی ۔۔۔

(حال)

سب یاد کرتے راحم کے آنسو بہنے لگے تھے کس قدر تکلیف دی تھی اس نے شانزے کے معصوم دل کو شاید اس کی کوئی ہائے ہی راحم کا سکھ چین چھین چکی تھی ۔۔۔۔

وہ ہاتھ جوڑے ان پر سر ٹکائے شانزے کے بستر پر کہنیاں رکھے شانزے کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا اب تو راحم کے دن رات ایسے ہی گزر جاتے تھے راحم کے ماں باپ کا ایک سال پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا اسی لیے راحم شانزے کے ساتھ اپنے آبائی گھر میں ہی رہتا تھا۔۔۔۔۔

_______

ارہان آج بھائی پھر شکوہ کر رہے تھے کہ آپ کیوں نہیں آئے بس کر دیں دو سال گزر گئے ہیں لیکن آپ نے اپنے دل سے بھائی کے لیے ناراضگی ختم نہیں کی ۔۔۔۔

ارہان جو اخبار پڑھنے میں مصروف تھا نرمین کی بات پر بغیر کوئی رد عمل کیے اپنے کام میں مصروف رہا ۔۔۔۔

نرمین جسے کوئی فون کال صبح سے تنگ کر رہا تھا اب ارہان کا اگنور کرنا اسے مزید تپا گیا  تھا ابھی وہ ارہان سے پھر سے بات کرتی 

 جب نرمین کو پھر سے اسی رانگ نمبر سے کال آنے لگی تھی 

بار بار اگنور کرنے کے باوجود جب نرمین کو کال آنا بند نا ہوئی تو نرمین نے فون ارہان کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔

کون ہے یہ ۔۔۔۔ارہان نے حیرانگی سے نرمین سے پوچھا تھا جس پر نرمین نے برےبرے منہ بنانا شروع کر دیے جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔

بوائے فرینڈ ہے میرا کہہ رہا ہے تمہارے شوہر سے بات کرنا چاہتا ہوں ان کو بتانا ہے کہ تم کتنی پیاری ہو جو تمہارے شوہر کو بلکل بھی نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔

ارہان تو پہلے والی نرمین کو دیکھ حیران رہ گیا تھا دو سال پہلے تو یہ نرمین کہیں کھو گئی تھی دل میں خوشیوں کے پھوار پھوٹ پڑی تھی وہ بھول گیا تھا کہ اس وقت وہ کس پریشانی میں ہے ۔۔۔

"کاش نرمین یہ وقت یہاں ہی تھم جائے میں تمہارے حسن کے ایک ایک پور کو محسوس کر کے تمہیں بتاؤں  کہ تم کتنی خوبصورت ہو تم اس دنیا کی سب سے حسین عورت ہو کیوں کہ تم ارہان کی بیوی ہو اور جب مرد کسی عورت سے پیار کرتا ہے تو دنیا کی تمام عورتیں ایک طرف ہو جاتی ہیں اور پسندیدہ عورت دنیا کی تمام عورتوں پر بھاری ثابت ہوتی ہے اور میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ ارہان کو نرمین سے محبت ہے ہاں بہت محبت ہے "

ارہان نرمین کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی سوچوں میں گم تھا ہوش تو اسے نرمین کی آواز پر آئی جو نا جانے کب سے اسے بلا رہی تھی لیکن ارہان کی نظریں نرمین کا معصوم چہرے کا طواف کررہی تھیں ۔۔۔۔

جب میں مر جاؤں گی نا آرہان۔پھر اپکو میری باتوں کی قدر ہو گئ ابھی تو آپ کو میں نظر نہیں آ رہی نا ارہان ایک دم اٹھتا نرمین کو اپنی باہوں میں لیے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا تھا بے دردی سے اس کے ہونٹوں پر اپنے جذبات کا نشان چھوڑ دیا تھا نرمین تو ارہان کی پناہوں میں مچل گئی تھی اس لمس کے لیے اس نے دو سال انتظار کیا تھا دو سال سے ارہان کی ناراضگی مٹانے کی کوشش میں تھی جو وہ خود کی حفاظت نہیں کر پائی ارہان کی امانت کو کسی غیر کی نظر سے بچا نہیں پائی لیکن تب سے نرمین ارہان کو بس منانے میں تھی ہر طریقے سے منانے کی کوشش کر چکی تھی لیکن ارہان تو جیسے پتھر کا بن چکا تھا اسے وہ دن آج بھی یاد تھا جب نرمین ارہان کے ساتھ صبح کے وقت نکلی تھی مگر راستے میں۔ ایک جگہ گاڑی روکنے پر نا جانے کہاں غائب ہو گئی تھی اپنے آفس جاتے ہی ارحم ارہان کے آفس میں بلکل سہی سلامت تھا ارہان نہیں جانتا تھا کہ ارحم کہاں سے آیا وہاں لیکن اب اس کی زندگی اس کا پیار اس کا جنون اس کی عزت اس کی متاع جان اس کے پاس نہیں تھی ۔۔۔۔

ارہان اس دن کی یاد میں کھو سا گیا تھا نرمین ابھی بھی ارہان کی پناہوں میں تڑپ رہی تھی مگر ارہان اس کو اگنور کیے بس اپنی سوچوں میں کھو سا گیا تھا ۔۔۔۔۔

(ماضی)

نرمین کا کچھ پتا نہیں چل رہا ہر جگہ تلاش کر چکا ہوں مگر وہ کہیں نہیں مل رہی ارہان کی آنکھوں میں اب آنسو تھے جن کو وہ چاہتے ہوئے بھی گرنے سے  روک نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔

فون کی دوسری طرف راحم خان کو لگا کہ اس کا سانس بند ہو جائے گا اس کی بہن لا پتا تھی اور یہاں سر دانش نے ارہان کو بہت بڑی زمہ داری دے رکھی تھی کہ وہ چاہ کر بھی اپنی بہن کو تلاش نہیں کرنے جا سکتا تھا ارہان پر بھی اسے بلا کا غصہ تھا لیکن ابھی ابھی تو اسے اتنی بڑی خوشخبری ملی تھی کہ ارحم اسے مل گیا تھا لیکن اب راحم کی بہن کھو گئی تھی ۔۔۔۔۔

تمہیں تمہاری خوشی مبارک ہو میں یہاں سے اپنی بہن کو تلاش کرنے نہیں آ سکتا ارہان ورنہ اسے تمہارے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا تم میری بہن کے قابل نہیں تھی ارہان تمہیں بس اپنی اولاد کی فکر تھی میری بہن سے نا تو تمہیں محبت تھی نا ہی اس کی تمہیں فکر تھی نا جانے سر دانش نے کیا دیکھ کر اسکی ذمہ داری تم پر ڈال دی۔ ۔۔۔۔

خیر تم واپس آنا چاہو تو آ سکتے ہو میں اپنی بہن کو ڈھونڈنے میں کسی اور کو لگاتا ہوں ۔۔۔۔

تم بھول رہے ہو کہ تمہاری بہن اب میری بیوی بھی ہے اور اپنی بیوی کو میں خود تلاش کر لوں گا تمہیں بتانے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کچھ کر کے ارحم کو اپنے پاس بلا لو تاکہ میں نرمین کو ڈھونڈ سکوں اور تم کسی غیر محرم کو میری بیوی کی تلاش میں لگانا چاہتے ہو اس پر ایک غیر نظر بھی میں مر کر بھی برداشت نا کروں اور تم۔میرے جیتے جی اس کو غیر کے ہاتھ میں تھمانا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔

ارہان جو کب سے راحم کی باتیں سن رہا تھا ایک دم جیسے اس کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی تھی تبھی وہ غصے سے ایک ایک لفظ چباتا راحم کو بہت کچھ جتا گیا تھا ۔۔۔۔

فون بند کرتے ارہان نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا ۔۔۔۔

یہ کیسا ظلم تھا یہ کیسی زندگی تھی جہاں اپنی زندگی کے مقصد کو ڈھونڈنے میں اپنا دل ہی کھو بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔

کہاں تلاش کروں نرمین کو کدھر گئی نرمین آخر کہاں جا سکتی ہے انہی سوچوں میں گم تھا کہ پھر سے ارہان کے فون پر کال آنے لگی ارہان نے فون دیکھے بغیر راحم کے خیال میں فون اٹھاتے بولنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔

کہا نا نہیں چاہیے تمہاری مدد میں اپنی بیوی کو خود تلاش کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔

واہ رے واہ ایک دن ہوا نہیں بیوی بنے اور تو تلاش بھی کرے گا کیا کہنے ہیں ارہان میاں ویسے یار آپس کی بات ہے چیز بڑی مست ہے ۔۔۔۔

نا جانے کون تھا فون کی دوسری طرف جس نے ارہان کی سانس کھینچ لی تھی اپنی غلاظت بھری زبان استعمال کرتے ہوئے ۔۔۔۔

میری بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو تمہاری دونوں آنکھیں نکال لوں گا جو بھی ہو میں تمہیں جلدی ڈھونڈ لوں گا اور پھر اپنے عبرت ناک انجام کے لیے تیار رہنا میری بیوی کو ہاتھ مت لگانا شمشیر ورنہ اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔

ارہان کے اتنا پکے تکے پر شمشیر جو جانا مانا دہشت گرد تھا ایک بار اپنی جگہ سے دہل گیا تھا ۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے تم میری ملکیت پر بری نظر رکھو گے اور مجھے پتا نہیں چلے گا ۔۔۔۔

چچ چچ چچ بہت غلط کیا تم نے فون ملا کر میرے شک کو سچ کرنے کے لیے شکریہ تمہارا میں تمہارا یہ قرض ساری زندگی نہیں بھول سکتا ۔۔۔۔

ارہان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اگر شمشیر سامنے ہوتا تو یقیناً ارہان کی مسکراہٹ سے ہی مر جاتا ۔۔۔۔۔

ارہان کی زندگی پر تم نظر رکھو اور مجھے خبر نا ہو ایسا ہو سکتا ہے بھلا بس اب تم انتظار کرو اگلے آدھے گھنٹے میں میں تمہارے پاس ہوں گا تیار رہنا ۔۔۔۔۔

بہت بڑی غلطی کی تم نے میری عزت پر ہاتھ ڈال کر شمشیر تم سے تو ابھی پرانے بہت حساب باقی ہیں ۔۔۔۔۔

ارہان کیا ہوا اپکو آپ ٹھیک توہیں ارہان کے چہرے پر پسینہ دیکھ کر اس کی لال انگارا آنکھیں دیکھ کر نرمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے دو سال سے ارہان کس بیچینی میں زندگی گزار رہا تھا نرمین نہیں جانتی تھی وہ ایک پل کے لیے بھی سکون سے نہیں سویا تھا دو سال پہلے ہوئے حادثے نے ارہان کو ذہنی طور پر اتنا ڈرا دیا تھا کہ اب تو راتوں میں بھی اسے نرمین کے کھو جانے کا ڈر لگا رہتا تھا جب جب وہ سوچتا کہ اس رات اگر شانزے نرمین کے سامنے نا آتی تو آج شانزے کی جگہ نرمین ہوتی یہ سوچ ہی ارہان کو پاگل کر۔دیتی تھی اور وہ اپنا آپا کھو دیتا تھا ۔۔۔۔

ارہان پلیز ایسے نا کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ سے ۔۔۔۔۔

چلی جاؤ یہاں سے نرمین جاؤ یہاں سے جس دن تم ثابت کر دو گی کہ تم بس میری ہو اس دن میں تمہیں ایک الگ دنیا میں لے جاؤں گا جہاں تم۔ہو گی میں ہوں گا اور ہمارا بچہ بس ۔۔۔۔

اب جاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں غصے سے پاگل ہو جاؤں ۔۔۔۔۔

ارہان اٹھ جائیں آج شانزے بھابھی کو ملنے جانا ہے اور اس بار آپ بھی ساتھ چلیں گے میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔۔ارہان جو گہری نیند میں تھا نرمین کی نرم آواز پر اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔

نرمین تم خود چلی جاؤ میں کہیں نہیں جا رہا ۔۔۔۔۔۔نرمیں جس کے فون پر ارحم کی کال آ رہی تھی ارہان کو دیکھتی ہوئی کال اٹھائی فون کان کو لگائے ابھی نرمین نے ہیلو بھی پورا نہیں بولا تھا کہ مقابل کی بات سن کر نرمین کے ہاتھ سے فون زمین بوس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ارہان جو اپنے بستر پر نرمین کو ہی خود نظروں سے دیکھ رہا تھا نرمین کے ہاتھ سے فون نیچے گرتے دیکھ ایک دم اٹھ بیٹھا تھا نرمین منہ پر ہاتھ رکھے آنسو بہاتی بس اتنا کہے جا رہی تھی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ارہان جلدی سے نرمین کے پاس آیا ۔۔۔۔۔

کیا ہوا نمی نرمین آنسو بہاتی ارہان کو دیکھ رہی تھی وہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگر اس کے گلے سے آواز نکلنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔نرمین کچھ بولو گی کس کا فون تھا نرمین کے کچھ نا بتانے پر جیسے ہی ارہان نے نیچے جھک کر فون اٹھایا اس پر راحم کی کال دیکھ ارہان کو بھی فکر ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔

ارہان نے جلدی سے نرمین کو پانی پلایا اور اس سے پھر سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔نرمین کیا کہہ رہا تھا راحم کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ بھی ۔۔۔۔۔

ارہان ۔۔۔۔ار۔۔۔۔ارہان شانزے بھابھی اس دنیا میں نہیں رہیں ۔۔۔۔۔

ارہان کو لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہے نرمین خبر سناتے ہی ارہان کے سینے میں منہ چھپائے رونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

ای۔۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے راحم۔کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہو گی ایسا نہیں ہو سکتا بھابھی کیسے جا سکتی ہیں ہمیں چھوڑ کر ۔۔۔۔۔

ارہان پلیز مجھے بھائی کے پاس لے جائیں پلیز مجھے جلدی بھائی کے پاس لے جائیں ۔۔۔۔۔

ہاں ہاں تم چلو گاڑی میں بیٹھو میں ارحم کو لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

نرمین آنسو صاف کرتی جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی سارا راستہ نرمین روتی ہوئی اپنا اور شانزے کا وقت یاد کرتی آئی تھی نرمین کے ماں باپ دو سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے تھے شانزے بیشک بستر پر تھی پھر بھی نرمین کو اپنے سر پر ماں کا سایہ محسوس ہوتا تھا آج نرمین کو سہی معنوں میں لگا تھا کہ وہ یتیم مسکین ہو گئ ہے ۔۔۔۔

اج تو سفر ہی تہہ نہیں ہو پارہا تھا

 "مشکلات کا سفر آہستہ آہستہ ہی گزرتا ہے "

اور مشکلات میں صبر کرنا اس سے بھی مشکل ہے جتنا مشکلات کو جھیلنا ۔۔۔۔۔۔

ارہان ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تہہ کر کے راحم کے گھر پہنچے تھے ۔۔۔۔۔

گھر میں ہر طرف کہرام مچا ہوا تھا دو سال کے عرصے کہ بعد بھی پیاسا سوکھے منہ واپس چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

چار پائی پر پڑھے وجود پر سفید کپڑا سب کہ جان نکالنے کے در پر تھا ارحم ایک طرف کھڑا رو رہا تھا ارہان اور نرمین آگے بڑھے ارہان کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے راحم تو جیسے سکتے میں تھا یہ سب کیسے ہو گیا تھا وہ پیاری سی لڑکی کیسے اتنی جلدی ہمت ہار گئی تھی اسے کسی کا خیال کیوں نہیں آیا تھا سب اس کے بغیر مر جاتے ۔۔۔۔۔نرمین نے ارہان کا سہارا نا لیا ہوتا تو اب تک وہ زمین پر گر گئی ہوتی ۔۔۔۔۔۔

نرمین تو چارپائی پر پڑے وجود کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اسے آج کسی کی فکر نہیں تھی دوست جیسی بھابھی کو کھو کر وہ کیسے سکون پاتی ۔۔۔۔۔۔۔

بھابھی اٹھ جائیں نا ہم نے تو مل کر بھائی سے بدلہ لینا تھا نا اٹھیں نا مجھے ایسے مجرم بنا کر مت جائیں کاش آپ اس دن میرے سامنے نا آتیں کاش آپکی جگہ میں چلی جاتی ۔۔۔۔۔

اٹھ جائیں نا بھابھی نرمین کی نا سمجھی  میں کہی بات ارہان کا دل چیر گئی تھی اس نے بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا ورنہ اسے لگا تھا اس کا دل بند ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس روز شانزے کی جگہ اگر نرمین ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔۔

نرمین اٹھی اور اپنے بھائی کے گلے لگ کر رو دی ۔۔۔۔۔

راحم کو بھی کسی سہارے کہ ضرورت تھی تبھی وہ بھی نرمین سے لگا بچوں کی طرح رو دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

بھائی اب آپ کو خان کون کہے گا بولیں بھائی کون کہے گا خان ۔۔۔۔

نرمین کے ایسا کہنے پر راحم خود کو ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہا تھا ارہان بروقت راحم۔کو نا پکڑتا تو یہ بات تہہ تھی کہ اب تک وہ روتا روتا زمین پر گر جاتا ۔۔۔۔۔۔

جنازہ اٹھا تو ہر طرف چیخ و پکار تھی میجر دانش نے سب کو بہت اچھے سے سنبھالا تھا تدفین کے بعد سب جھکے کاندھوں کے ساتھ واپس آ گئے تھے راحم تو بلکل چپ ہو گیا تھا آج کوئی راحم کو۔ایسے دیکھ لیتا تو وہ یقین نا کرتا کہ۔یہ وہ ہی خوبصورت چھ فٹ قد کا جوان مرد ہے جس کی ایک مسکراہٹ پر نا جانے کتنی لڑکیاں مرتی تھیں اور آج وہ ہی مسکراہٹ سنجیدگی میں بدل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

میجر دانش نے جلد سے جلد میٹنگ رکھ لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

ارہان نرمین راحم میجر دانش کے آفس میں تھے ۔۔۔۔۔

راحم خان ایک فوجی کو بس اپنوں کو دفنانے تک غم منانے کی اجازت ہوتی ہے اس کے بعد مجھے اپنے فوجی اپنے سیکرٹ ایجنٹس پھر سے پہلے جیسے جوش میں چاہیے تم ایک اپنے کے جانے پر روگ لگائے بیٹھے ہو ان کا سوچو جن کے دن میں نا جانے کتنے جاتے ہیں ان سب میں اپنوں کو دیکھو اور چھوڑو یہ غم جانے والوں کے ساتھ جایا نہیں جاتا کل تم لوگوں کا نیا مشن ہے بہت ہوتے ہیں دو سال صبر کرنے کے لیے اب مزید صبر نہیں۔ کیا جا سکتا یونیورسٹی کی نئی پود ڈرگز کے نشے میں ڈل رہی ہے فوج تیار کرو کل سے تم لوگوں کو ایک نئی لڑکی جوائن کرے گی نرمین سب سیکھا دینا اسے ۔۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔۔

نرمین نے پورے جوش کے ساتھ میجر دانش کو جواب دیا تھا جس پر میجر دانش کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تھی راحم ابھی بھی خاموشی سے کھڑا تھا ارہان کو اپنے جگری دوست پر بے حد ترس آیا تھا ۔۔۔۔۔سب میجر دانش کے آفس سے باہر آ گئے تھے ۔۔۔۔

دو سال کا انتظار خالی ہاتھ گیا تھا مگر ارہان اور راحم نے سوچ لیا تھا کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے ملک کے دشمنوں کو نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔۔

ارہان نے راحم کا بہت ساتھ دیا تھا اسے کسی معاملے میں اکیلا نہیں چھوڑا تھا ارہان راحم۔کے لیے ہر بار اندھیرے میں روشنی کی طرح ثابت ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

_________________

میرا بہت دل گھبرا رہا ہے سوچ رہا ہوں ارحم کو میجر دانش کے پاس بھیج دوں ۔۔۔۔۔

اچھا خیال ہے اس طرح ہم اپنے دشمنوں کو آسانی سے پکڑ لیں گے میجر دانش ارحم کا اچھے سے خیال رکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

جانتے ہو ارہان جب ہم دونوں انٹیلیجنس میں آئے تھے تب ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی جان کی پرواہ نہیں کریں گے اور آج دیکھ لو ہمیں کوئی گرز ہی نہیں اپنی جانوں سے ہاں مگر گرز ہے تو اس ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے والوں کی جانوں سے خون کی ایک ایک بوند جب تک نچوڑ نہیں لیں گے ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے بہت حساب کتاب باقی ہے سیٹھ ابراہیم سے سیٹھ ابراہیم کا نام سنتے ہی ارہان کے کان کھڑے ہو گئے تھے وہ کیسے اس غلیظ شخص کو بھول سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔

راحم ساری حقیقت جانتا تھا تبھی اب سب حساب کتاب چکتا کرنے کا وقت آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔

نرمین ارحم کو پکڑے راحم اور ارہان کے پاس آئی تھی ۔۔۔۔۔

نرمین اس کا بیگ تیار کرو یہ کچھ وقت کے لیے میجر دانش کے پاس رہے گا ۔۔۔۔۔۔

نرمین کا۔دل۔جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا ۔۔۔۔۔

لیکن ارہان یہ وہاں کیسے رہے گا ۔۔۔۔۔

ہو۔سکتا ہے اسے وہاں ہی رہنا پڑے ہمیشہ کے لیے نرمین نے ایک دم۔چونک کر ارہان کی طرف دیکھا تھا نرمین کا چہرا ایک دم۔لٹھے  کی طرح سفید ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ نرمین نے کسی انہونی کے ڈر سے ارہان سے پوچھا تھا ۔۔۔۔۔

سر کی نظر ہے اس پر کہتے ہیں اس کو بھی میں ہی فوجی بناؤں گا ۔۔۔۔ 

نو بابا میں فوج میں نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔

ابھی تو آپکو دادا کے پاس جانا پڑے گا نا ماما اور بابا کو کچھ کام ہے وہ جلدی آ جائیں گے ۔۔۔۔۔

جلدی آنا آپ لوگ میں اداس ہو جاتا ہوں آپ لوگوں سے ۔۔۔۔۔۔

نرمین کو اپنی اولاد پر جی بھر کر پیار آیا تھا اسی لیے جلدی سے اسے اپنے سینے میں چھپا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

میجر دانش کا میسج آ چکا تھا نئی لڑکی بھی آ گئی تھی اب سب کو مشن پر نکلنا تھا سیٹھ ابراہیم کا خاتمہ کرنے ۔۔۔

سر میرے بیٹے کا بہت دھیان رکھیے گا اب یہ آپکی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔

نرمین آفس سے باہر نکلتے ہوئے بھی بار بار مڑ مڑ کر ارحم کو دیکھ رہی تھی جو ارہان کو گلے سے لگا کر مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

چاروں گاڑی میں بیٹھے سفر پر رواں دواں تھے ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم میرا نا عروش ہے اور میں پشاور سے ہوں ۔۔۔۔۔۔

سب نے خوش دلی سے عروش کے سلام کا جواب۔ دیا تھا ۔۔۔۔۔

فوج کب جوائن کی ۔۔۔۔۔نرمین نے نرمی سے عروش سے سوال کیا تھا عروش کو بھی وہ چھوٹی سی لڑکی بہت پیاری لگی تھی ۔۔۔۔۔۔

تب جب میرے شوہر کو شہید کر دیا گیا تھا نا صرف شہید کیا گیا ان کو گلی میں لٹکا کر ان کی عزت تار تار کر دی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

عروش زخمی آنکھوں سے سب کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔جو ضبط سے مٹھیاں پینچ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔

ان کا ٹھکانا آگیا تھا سب اپنی اپنی جگہ پر پہنچ گئے تھے یہ ایک غار تھی جہاں پر سب نے رکنا۔تھا سب ہی ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

اس سب میں اب تک جو نہیں بولا تھا وہ راحم تھا ۔۔۔۔۔۔

اگر ابھی بھی کسی کو لگتا ہے کہ اسے واپس چلے جانا چاہیے تو وہ واپس جا سکتا ہے 

۔۔۔۔۔۔

یا سب تیار ہیں کل کے لیے ۔۔۔۔۔

یس سر سب نے بلند آواز میں جواب دیا تھا ویسے تو ان سب کا لیڈر راحم خان تھا مگر راحم۔کی۔حالت کے مد نظر ارہان نے لیڈر کی سیٹ سنمبھال لی تھی ۔۔۔۔۔

اپنی جان مان اور عزت کی پرواہ کیے بغیر کیا سب اس ملک کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔۔

وعدہ کرتے ہیں ہم سب کہ ہم۔سب ایک ہو کر اس ملک کے دشمنوں کو جڑ سے اکھاڑ لیں گے اس کے لیے پھر ہمیں اپنی جان ہی کیوں نا دینی پڑے ۔۔۔۔

ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم وقت پڑھنے پر اس ملک کے لیے جان بھی دے دیں گے کیا آپ سب میری بات سے سہمت ہیں ۔۔۔۔۔۔یس سر سب کی بلند آواز نے ارہان کے اندر بھی جنون پیدا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

اب سب ہی تھوڑی دیر آرام کی گرز سے لیٹ گئے تھے انہیں سورج چڑھنے سے پہلے ابراہیم کے اڈے پر حملہ کرنا تھا ابراہیم کی ساری انفارمیشن پہلے ہی نرمین نکلوا چکی تھی ۔۔۔۔

ارہان کے لیے کل بہت بڑا دن تھا کل اس نے اپنی بیوی کا بدلہ لینا تھا اس کی عزت کے لٹیرے سے اس کا بدلہ لینا تھا ۔۔۔۔۔

ارہان کے لیے کل کا دن اپنی بیوی کی موت کا بدلہ لینے کا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔

نئے دن کا آغاز تھا سب نے مل کر نماز ادا کی نرمین نے ایک میسج میجر دانش کے لیے چھوڑ دیا تھا ارحم کو صبح سویرے اٹھ کر چاکلیٹ دودھ پینے کی عادت تھی وہ ماں تھی تبھی اتنے مشکل وقت میں بھی اس کو اپنے بچے کی فکر تھی ۔۔۔۔

نماز ادا کرنے کے فوری بعد سب اگلے مشن پر روانا ہو گئے تھے نرمین ارہان کی کیفیت سے واقف تھی جو اس کی بیوی کے ساتھ ہوا تھا اس کے بدلے میں ابراہیم کو بار بار زندہ کر کے بھی مارا جاتا تب بھی اس کے لیے یہ سزا کم تھی ۔۔۔۔۔۔

ارہان کی آنکھیں بار بار بھر رہی تھی نرمین نے نرمی سے ارہان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس کو تسلی دی کہ وہ ہر دکھ غم میں اس کے ساتھ ہے ارہان نے ضبط سے آنکھیں بند کر لی تھیں یہاں ہر ایک کی اپنی اپنی ایک کہانی تھی کسی نا کسی نے اپنا پیارا کھویا تھا تبھی آج وہ آتش فشاں پہاڑ بنے ہوئے تھے لمبی مسافت تہہ کرنے کے بعد ان سب کا ارادہ رات کے وقت حملہ کرنے کا تھا نرمین جو بہت اچھی شوٹر تھی اس کو ایک مخصوص جگہ دے کر بیٹھا دیا گیا تھا ارہان گھر کی پچھلی طرف تھا راحم گھر کے مین ڈور کے ساتھ بنی دیوار کے پاس کھڑا تھا ۔۔۔

اور عروش دیوار کے دوسری طرف کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔

ارہان نے پیچھے سے جب کے راحم نے آگے سے اٹیک کرنا تھا نرمین اچانک کسی کے آنے پر اٹیک کرنے والی تھی اور عروش نے اپنے آس پاس کا دھیان رکھنا تھا ۔۔۔۔۔

ارہان اور راحم اندر جا چکے تھے کافی دیر جب وہ واپس نا آئے تو عروش کو فکر ہونے لگی عروش جس نے راحم کی بات پر عمل نہیں کیا تھا اور اندر چلی گئی تھی جلد ہی اسے اپنی سنگین غلطی کا احساس ہو گیا تھا کیوں کہ عروش سیٹھ ابراہیم کے آدمیوں کے ہاتھوں لگ گئی تھی پورے گھر میں سائرن چل پڑھا تھا جس سے سیٹھ ابراہیم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ گھر میں کوئی گھس آیا ہے سیٹھ ابراہیم وہاں سے بھاگنے لگا تھا جب ارہان نے اسے اپنے قبضے میں لے۔لیا تھا اور بڈھے ابراہیم کے لیے ارہان کی مضبوط گرفت سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا راحم جو جلدی سے پیچھے کی طرف بھاگا کیوں کہ وہاں سے کسی عورت کی آواز آ رہی تھی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر راحم کی رگیں تن گئی تھیں اس نے جلدی سے آگے ہو کر عروش کو بچایا سب سے لڑتے ہوئے راحم کو کافی گہری چوٹیں آئیں تھیں عروش بھی اب سب سے لڑ رہی تھی مگر وہ راحم کے مقابلے میں کچھ کمزور تھی تبھی راحم کو بار بار عروش کی مدد کرنی پڑھ رہی تھی لیکن ہر بار جب بھی عروش پر کوئی حملہ کرتا راحم عروش کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتا تھا جس سے وہ بیچاری اپنی جگہ  سہم جاتی ۔۔۔۔۔

سب سے مقابلہ کرتے اب بس سیٹھ ابراہیم ہی بچہ تھا جس نے بچنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا ابراہیم ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا جب راحم نے اسے ارہان سے اپنے ہاتھوں میں قید کیا اور پھر ارہان کو بولا لے لو ارہان اپنا بدلہ ارہان جس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ایک دم آگے آیا اور ابراہیم پر پستول تان کر کھڑا ہو گیا ایک دم پیچھے سے  نرمین کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی اور ارہان کا ہاتھ اپنی جگہ تھم گیا تھا ارہان نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا ابراہیم کا بیٹا نرمین کو پکڑے کھڑا تھا۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا سیٹھ ابراہیم کا قہقہہ ایک دم بلند ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

اب کیا کرو گے ارہان اب کیسے بچاؤ گے اپنی بیوی کو کیا ہوا ڈر گئے کیا ایک بار پھر سے تیری عزت ۔۔۔۔۔۔

بسسسسسسس ابراہیم ابھی کچھ اور بولتا ارہان دھاڑا تھا اتنا اونچا کہ ابراہیم کا بیٹا بھی ایک دفعہ اپنی جگہ دہل کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

بس بہت ہوا اب اور کوئی بات نہیں سنوں گا

ابراہیم کا بیٹا جنید جس نے نرمین کو پکڑا ہوا تھا ارہان کے لیے امتحان کھڑا کر رہا تھا ارہان اس سے پہلے نرمین کو بچانے کے لیے آگے بڑھتا فزا میں گولی کی آواز گونجی تھی اور وقت اپنی جگہ تھم گیا تھا سب اپنی جگہ ساکت ہو گئے تھے ارہان کی آنکھوں سے ایک بھولا بھٹکا آنسو ٹوٹ کر  زمین بوس ہوا تھا راحم اپنی جگہ جم گیا تھا عروش نے ایک دم چیخ ماری تھی اور جنید کے ہاتھوں سے نرمین کا وجود زمین پر گر گیا تھا ۔۔۔۔۔

نرمین کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں دماغ سے خون بہہ رہا تھا ارہان تو گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا تھا ابراہیم کا بیٹا یہ سب دیکھتا بھاگا ہی تھا کہ راحم نے ہوش میں آتے ہی ابراہیم کے بھی اسی جگہ پر گولی ماری کہ وہ بھی اسی وقت دم توڑ گیا راحم جلدی سے ابراہیم کے بیٹے کے پیچھے بھاگا لیکن جنید وہاں سے بھاگ چکا تھا راحم جلدی سے واپس آیا اور نرمین کی سانسیں چیک کرنے لگا جو بند ہو چکی تھیں راحم گھبرا کر ایک دم پیچھے ہوا ارہان ابھی بھی اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

ارہان راحم کی آواز پر ارہان نے مردہ نظروں سے راحم کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں ۔۔۔۔

"شی از نو مور"

الفاظ تھے یا سیسہ پلائی جو ارہان کے کانوں میں ڈالی گئی تھی ارہان کو لگا یہ کوئی ڈروانا خواب ہے ابھی آنکھ کھلے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔

نر۔۔۔۔۔۔نرمین تم ۔۔۔۔۔تم ایسا نہیں کر سکتی تم جانتی ہو نا ابھی تم نے مجھے منانا تھا اٹھو ابھی کہ ابھی اٹھو نرمین پلیز اٹھ جاؤ ارہان نرمین کا سر گود میں رکھے بچوں کی طرح رو رہا تھا راحم اور عروش کا بھی حال اس سے کچھ الگ نہیں تھا ۔۔۔۔۔

نرمین ارحم کا تو سوچو وہ تمہارے بغیر کیسے رہے گا نرمین میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔

اااااا جنیددددددددددد

میں ۔۔۔۔۔میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو مار دوں گا سب کو مار ڈالوں گا اااااااا آرہان اپنی جگہ سے اٹھا اور ابراہیم کے مردہ وجود کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا میں تمہیں جان سے مار دوں گا تمہاری سزا بہت کم ہے تم اتنی جلدی نہیں مر سکتے تم۔نے میری بیوی کی عزت کو میری نظروں کے سامنے تار تار کیا تھا نا تب میں کمزور تھا لیکن تم نے مجھ سے پھر سے میرے جینے کی وجہ چھین لی کیا کچھ برداشت نہیں کرنا پڑا تھا مجھے کیسے پوری دنیا کو بتانا پڑا کہ ارحم کے ہوتے ہی وہ اس دنیا سے چلی گئی بس تیری وجہ سے تیری وجہ سے اٹھ سالے اٹھ ۔۔۔۔۔۔۔

ارہان ابراہیم کے وجود کو ٹھوکریں مار رہا تھا مگر راحم نے جلدی سے ارہان کو سنبھالا اور اسے ابراہیم کے گھر سے نکلنے کو بولا ارہان نے نرمین کا مردہ وجود اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کو لیے ابھی گھر سے ایک قدم باہر نکلے ہی تھے سب کہ ایک دم بمب دھماکے سے ابراہیم کا پورا گھر اڑ گیا تھا جس میں ارہان راحم اور عروش کی چیخیں تھیں ارہان کا وجود اونچائی سے نیچے گرا تھا ارہان کا چہرا خون سے بھر گیا تھا راحم اور عروش تو موقع پر دم توڑ گئے تھے لیکن ارہان کی سانسیں ابھی تک چل رہی تھیں جس کی نظروں کے سامنے نرمین کا وجود پڑا ہوا تھا ارہان نے اٹھ کر نرمین کی طرف جانے کی کوشش کی ہی تھی کہ ارہان کی سانسیں بھی اکھڑنے لگی تھیں اور پھر اس کی آنکھیں بھی ہمیشہ کہ لیے بند ہو گئیں آخری چہرا جو اس کی نظروں میں گھوما تھا وہ نرمین ارحم اور اس کی ہنسی مذاق کا تھا جس میں وہ تینوں ایک دوسرے سے شرارتیں کر رہے تھے اور پھر ایک بھولا بھٹکا آنسو ارہان کی آنکھوں سے گرا تھا ۔۔۔۔۔۔

ہر طرف ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں تھیں لیکن وہاں پڑے چاروں وجود بے حس و حرکت اپنی اپنی جاہ پناہ میں جانے کو تیار تھے ۔۔۔۔

______________________

ارحم آجاؤ بیٹا ناشتہ تیار ہے ۔۔۔۔۔۔

شیشے کے سامنے کھڑا سفید شرٹ کے بٹن بند کر کے اوپری دو بٹن کھلے چھوڑنے کے بعد بلیک پینٹ میں ہاتھ دیتے ایک آخری نگاہ خود پر ڈالتے وہ دھیمے سے مسکرایا تھا اتنا ہینڈسم نوجوان شاید ہی کسی نے دیکھا ہو جو خود سے ہمیشہ لاپرواہ رہتا تھا ۔۔۔۔

گڈ مارننگ میجر ارحم ارہان خود کو مارننگ وش کرتا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا تھا یہ اس کی بہت پہلے سے عادت تھی وہ سب سے پہلے خود کو مارننگ وش کرتا تھا اس کا کہنا تھا جب تک خود کو نہیں جگاؤ گے تب تک کیسے دوسروں کو فریش کر سکو گے ۔۔۔۔

گڈ مارننگ میجر دانش ۔۔۔۔۔

شرم کر لیا کرو کتنی بار کہنا پڑے گا بابا کہا کرو مجھے ۔۔۔۔۔

یار وہ کیا ہے نا کہ اتنے ہینڈسم اور ڈیشنگ ہیرو کو بابا کہتے مجھے کچھ شرم محسوس ہوتی ہے لوگ کیا کہیں گے خود سے چند سال بڑے لڑکے کو بابا کہہ رہا ہے لگتا ہے میجر دانش نے اپنی پیدائش کے فوری بعد ہی شادی کر۔لی تھی اور اس کے فوری بعد ہی خود ایک بچے کب باپ بن گئے کتنی جلدی سے میجر دانش کو بھی توبہ توبہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتا مذاق اڑانے والے انداز میں سر نا میں ہلاتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

میجر دانش جو ابھی تک ارحم کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جیسے ہی اس کی بات کا مطلب سمجھ آیا تو جوتا اتار کر ارحم کی طرف پھینکا تھا ۔۔۔۔۔

تم ویسے ہو الو کے پٹھے شرم نہیں آتی اپنے دادا کی عمر کے مرد سے مزاق کرتے ہوئے اور دوسری طرف ہمیشہ کی طرح ارحم نے میجر دانش کا جوتا کیچ کیا اور اس جوتے کو پکڑے ہوئے گھر سے باہر چلا گیا اللّٰہ حافظ بابا رات میں ملیں گے آپ کے دوسرے جوتے کے ساتھ تب تک آپ اپنی غلطی کی سزا بھگتیں جو میری طرف جوتا پھینکنے کی کی تھی ۔۔۔۔۔

اوفففففف ارہان نا جانے کیا اولاد پیدا کر دی ہے اوپر سے اس کی پرورش کرنے والی اس سے بھی ولا پورا نرمین کی فوٹو کاپی ہے مجال جو ایک جواب ٹھیک سے دے دے ۔۔۔۔۔

میجر دانش سر مارتے ایک جوتے کے ساتھ پورے گھر میں پھر رہے تھے اب تو اپنی حالت پر میجر دانش کو غصہ اور ہنسی دونوں آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

میجر ارحم یہ رہی آج کی ریپورٹ ۔۔۔۔۔

مجھے اب تک کی تمام ڈیٹیلز چاہیے خاص طور پر سیٹھ ابراہیم کا اڈا اب کون چلا رہا ہے وہ بھی ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے سر رات تک آپکو مل جائے گی ۔۔۔۔

ارحم نے ہاں میں سر ہلایا اور گہری سوچ میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔

ماضی

کیا کب او شٹ ٹھیک ہے سب کی ڈیڈ باڈیز کا دھیان رکھنا کسی کی بھی ڈیڈ باڈی کہیں نہیں جانی چاہیے سب احتیاط سے یہاں پہنچ جائے خیال رکھنا اس بات کا میں ارحم کو لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔

حال 

یہ سب سوچتے ہی ارحم کی آنکھوں سے جیسے خون بہنے لگا تھا ارحم اپنوں کے لیے الگ ہی روپ رکھتا تھا خوش ہنس مکھ اور نرمین کی طرح چنچل مگر دوسری طرف ارحم کو پہچاننا بے حد مشکل تھا کیوں کہ دوسری طرف اس کے دل میں اپنے دشمنوں کے لیے کوئی رحم نہیں تھا ۔۔۔۔

اسلام علیکم ہینڈسم میجر  دانش جو گہری سوچ میں تھے ارحم کے سلام کرنے پر چونک گئے تھے ارحم کے چہرے کو بغور دیکھتے وہ ارحم۔سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کچھ بھی ہو جاتا آج وہ بات کر کے ہی رہتے ۔۔۔۔

میں زرہ فریش ہو جاؤں پھر آپ کے ساتھ مل کر ڈنر کروں گا ۔۔۔۔۔

میں نے آج ڈنر نہیں بنایا ارحم۔سیڑیوں پر جاتا جاتا واپس مڑا تھا اور لڑاکا عورتوں کی طرح اپنی کمر پر ہاتھ رکھے ایک آنکھ اچکائے میجر دانش کو دیکھنے لگا جو ناراضگی ظاہر کرتے منہ موڑ گئے تھے ۔۔۔

ارحم کو ان پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا 

"اچھا چلیں تیار ہو جائیں پھر چلتے ہیں دونوں باہر کھانا کھانے "

ارحم کہہ کر واپس مڑ گیا تھا ارحم جانتا تھا کہ میجر دانش کچھ بات کرنا چاہ رہے ہیں اور کیا وہ بھی جانتا تھا پچھلے کئی سالوں سے بس وہ ایک ہی بات کر رہے تھے جو وہ کبھی نہیں ماننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

ارحم کب کا ارادہ ہے شادی کا پھر ڈھونڈ لی ہے لڑکی یا نہیں ۔۔۔۔۔

ارحم کا کھانا کھاتے کا ہاتھ اپنی جگہ تھم گیا تھا یہ اسلام آباد کا بہت بڑا ہوٹل تھا جہاں دونوں آج کافی دنوں بعد ڈنر کرنے آئے تھے میجر دانش کی بات پر ارحم ہمیشہ ہوں ہاں میں ہی جواب دیا کرتا تھا مگر اب میجر دانش دو ٹوک بات کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔

"کھانا مزے کا بنا ہے "ارحم کی کھانے کی تعریف پر میجر دانش آگ بگولہ ہی تو ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔

بس کر دو ارحم کب تک تم نے اکیلے رہنے کا فیصلہ کیا ہے میں تمہیں بتا رہا ہوں بس بہت ہو گیا اب تم یا تو خود دیکھو اپنے لیے لڑکی یا میں خود کوئی بھی لڑکی پسند کر لیتا ہوں ۔۔۔۔۔

یار آپ کیا چاہتے ہیں کہ بابا اور ماما کی طرح مجھے بھی ہر وقت اپنوں کو کھو دینے کا ڈر دل میں ۔۔۔۔۔۔۔

اوچچچچ 

آئی ایم سوری میں نے دیکھا نہیں سوری ارحم ابھی میجر دانش سے بات کر رہا تھا کہ امہ  جو بیگ میں سے کچھ تلاش کر رہی تھی ایک دم ارحم کی ٹیبل سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔۔۔

راحم تو امہ کی طرف ہی ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا لمبے گھنے بالوں والی چھوٹی سی وہ لڑکی ایسے انسان کو بھی اپنی طرف مائل کر گئی تھی جو لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا ۔۔۔۔۔۔

اٹس اوکے بیٹا نو پرابلم امہ جو ارحم کے گھورنے پر شرمندہ ہو رہی تھی میجر دانش کے کہنے پر جلدی سے آگے بڑھ گئی ارحم۔کی نظروں نے امہ کا دور تک پیچھا کیا تھا ۔۔۔۔۔

میجر دانش ارحم کی کیفیت دیکھتے مسکرانے لگے ۔۔۔۔

بس بھی کرو برخوردار چلی گئی ہے وہ ۔۔۔۔۔

میجر دانش کے بلانے پر ارحم ایک دم چونکا تھا وہ ایسا تو نہیں تھا پھر کیا ہو گیا تھا اسے خود پر غصہ آنے لگا تھا ساتھ ہی ساتھ اس لڑکی پر بھی جو نا جانے کہاں سے آن ٹپکی تھی ۔۔۔۔۔۔

ہیلو کون ؟؟؟؟

مجھے نہیں جانتے کیا تمہارے باپ تمہاری ماں اور تمہارے ماموں کی جان لینے والے کو بھی نہیں جانتے کیا ۔۔۔۔۔

ارحم کا سانس ایک دم اس کے سینے میں اٹکا تھا مگر اس نے چہرے سے کچھ واضح نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ بھی نرمین کا بیٹا تھا ایسے کیسے بات کو جانے دیتا ۔۔۔۔۔

"جانتا ہوں اس کو جس نے میرے ماں باپ اور میرے ماموں کی جان لی "

تمہیں کیا لگتا ہے جان لینا تمہارے بس میں تھا ۔۔

"چؤ چؤ چؤ چؤ چؤ"

بہت غلط سوچ رہے ہو جان تو اس رب تعالیٰ کے ہاتھ میں جس کے پاس تم نے اور میں نے بھی لوٹ کے جانا ہے ہاں یہ کہہ سکتے ہو ان کی شہادت لکھی ایسے تھی مگر تم نے ان کی جان لی ہے یہ غلط کہا تم نے ۔۔۔۔

باقی تم فکر نہیں کرو جلد تم تک بھی پہنچ جاؤں گا جنید ۔۔۔۔۔

مقابل کچھ پل کی لیے آنکھیں کھولے منہ پر قفل لگا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔

ارحم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی میجر دانش بہت غور سے ارحم کا چہرا پڑھ رہے تھے فون بند کرتے ہی دوسرے نمبر سے کال موصول ہوئی تھی

"سر جنید اسلام آباد میں ہے اور کل رات کی فلائٹ سے وہ کینیڈا جائے گا۔۔۔۔

وہ کینیڈا جائے گا ہی نہیں ارحم جس نے اپنے فون پر آنے والی ہر کال کو ٹریس کروایا تھا تبھی جنید کا پتا لگتے ہی ارحم میجر دانش کو گھر چھوڑے اپنے مشن پر نکل گیا تھا ۔۔۔۔

میجر دانش نے جاتے ہوئے ارحم کا ہاتھ تھام لیا ارحم نے چونک کر میجر دانش کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں پہلی بار آنسو تھے

جا رہے ہو جاؤ روکوں گا نہیں مگر اتنا یاد رکھنا کہ اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ کسی اپنے کو کھو دوں ۔۔۔۔

میجر دانش کہتے ہی اندر چلے گئے تھے اور ارحم دیر تک  ایک نقطے پر نظر ٹکائے کھڑا رہا ۔۔۔۔۔

کیا نیوز ہے ؟؟؟؟

سر یہاں سے کچھ دور ڈیرے پر اس وقت جنید موجود ہے ۔۔۔۔

اممم بچ کے نا جا پائے اور موت ایسی ہونی چاہیے کہ اس جیسے تمام جانور اس کی موت سے پناہ مانگیں میں چلتا ہوں میرے باپ جیسے دوست میرا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔

ارحم نے ابھی قدم بڑھایا تھا جب گولیوں کی آوازیں دور دور تک پھیلنے لگی تھیں ساتھ ہی نعرہ تکبیر کی آواز فضا میں بلند ہوئی تھی ۔۔۔۔

ارحم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سمٹ آئی تھی ۔۔۔۔

"وعدہ پورا ہوا بابا جان"

ارحم کی آنکھ سے ایک بھولا بھٹکا آنسو اس کی گود میں جذب ہو گیا تھا ارہان کا چہرا اک دم ارحم کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

جنید کو عبرت ناک انجام تک پہنچا کر اب ارحم میجر دانش کے پاس پہنچا تھا جہاں میجر دانش اس کے انتظار میں صبح ہونے تک سوئے نہیں تھے ارحم جانتا تھا کہ ان کو اتنی آسانی سے نیند آ ہی نہیں سکتی تھی جب تک ارحم واپس نا آجاتا ۔۔۔۔۔

ہیلو ہینڈسم کیا ہوا سوئے کیوں نہیں ابھی تک ۔۔۔

ارحم کے پاس گھر کی چابیاں ہر وقت رہتی تھیں ارحم دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے ہی میجر دانش اپنا سر جھکائے بیٹھے تھے لیکن ارحم کی آواز پر جیسے چمکتی آنکھوں سے انہوں نے جھٹ سے چہرا اٹھایا اور بھاگنے والے انداز میں ارحم کو اپنے گلے سے لگا لیا ارحم بھی میجر دانش کے گلے سے لگتا آنکھوں میں آنسو لیے مسکرا دیا تھا اپنے ماں باپ کے بعد اگر وہ کسی سے اٹیچ تھا تو وہ میجر دانش تھے ۔۔۔۔۔۔۔

میجر دانش بچوں کی طرح اپنی کھوئی ہوئی چیز مل جانے پر ارحم کا چہرا چوم رہے تھے جب ارحم کے دماغ میں نرمین کا دماغ جاگا تھا اور اس نے میجر دانش کے کان میں ہو کر کہا ۔۔۔۔

"بس کر دیں ایک جوان کنوارے لڑکے کے اندر فیلنگز کیوں جگا رہے ہیں "

میجر دانش جو ارحم کو والہانہ طریقے سے چوم رہے تھے ایک دم کرنٹ کھا کر ارحم سے دور ہوئے جس پر ارحم کا قہقہ ہوا میں بلند ہوا تھا ۔۔۔۔۔

بغیرت انسان میجر دانش کہہ کر اندر کچن کی طرف چل پڑے جانتے تھے کہ ارحم نے کچھ نہیں کھایا ہو گا تبھی ارحم کے کھانے کا انتظار کرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز ارحم میجر دانش کے ساتھ ایک مال پر گیا تھا ۔۔۔۔۔

میں کیا سوچ رہا ہوں ہینڈسم ہم پہلے آپکی شاپنگ کے لیے ٹی شرٹس دیکھ لیتے ہیں اور پھر ہم کہیں اور جائیں گے میجر دانش نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے فون پر نا جانے کس کو میسج کرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔

شک میں ڈال رہے ہیں اب آپ مجھے کیا ہوا لگتا ہے کوئی لڑکی وڑکی کا چکر ہے ۔۔۔۔۔

"ہاں ایسا ہی ہے "

میجر دانش جو اپنے دھیان میں فون پر کسی سے بات کر رہے تھے ایک دم اپنی ہی بات پر چونک کر ارحم۔کی طرف دیکھا جو منہ کھولے میجر دانش کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

کھوتے کے پتر اس عمر میں میں لڑکیاں پھساوں گا کیا ۔۔۔۔۔

میجر دانش کے غصہ ہونے پر اب وہ بلکل سیریس ہوا تھا ۔۔۔۔۔

ابھی ارحم ایک دکان میں جاتا کہ ایک دم کسی کے ساتھ بری طرح تصادم ہوا تھا ۔۔۔۔

ارحم کو تو فرق تک نہیں پڑھا تھا مگر سامنے والے کا سر اچھے سے گھوم گیا تھا امہ کو لگا جیسے وہ کسی بڑے سے پہاڑ کے ساتھ ٹکرا گئی ہو ۔۔

ارحم نے بھر پور نظر سے اس لڑکی کو دیکھا تھا وہ اسے کیسے بھول سکتا تھا۔۔۔۔۔

امہ پھر سے سوری کہہ کر آگے نکلنے لگی تھی کہ اچانک سے ارحم کے ہاتھ میں اس کی کلائی آ گئی تھی ۔۔۔۔

میجر دانش تو ایک بوکھلا گئے تھے ارحم نے امہ کو گھور کر دیکھا اور بولا کہ بہتر ہوتا اگر تم مجھ سے ڈائریکٹ مل لیتی اور ہینڈسم یہ اچھا انداز ہے کسی سے ملوانے کا کم از کم میرے پیشے کا لحاظ ہی کر لیتے یا تو مجھے سیکرٹ ایجنٹ نا بناتے یا پھر کسی لڑکی کو میرے قریب ایسے چھپ چھپ کر نا لاتے ۔۔۔۔۔۔

جب سے تمہیں سیکرٹ ایجنٹ بنایا ہے تب سے ہی پچھتا رہا ہوں تمہارا باپ بھی اتنا تیز نہیں تھا جتنا تم تیز ہو میجر دانش کا اپنے چوری پکڑے جانے پر بہت برا حال ہو رہا تھا ارحم کو ہنسی بھی آ رہی تھی مگر وہ بہت مشکل سے اپنے قہقہ کا گلا گھونٹ کر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

اگلے ہفتے نکاح ہے ہم دونوں کا چاہو تو ابھی میرے ساتھ چل کر اپنے کپڑوں کی شاپنگ کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔

امہ جس نے چہرا جھکایا ہوا تھا میجر دانش کے اشارہ کرنے پر ان دونوں کے ساتھ چل پڑھی ۔۔۔۔۔

وہ ارحم یہ میرے ایک عزیز کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔

میں نے آپ سے صفائی مانگی ہے کیا ہینڈسم آپ جس سے بھی کہتے میں کر لیتا شادی اب یہ ہے تو پھر یہ سہی ۔۔۔۔۔

امہ کے دل کو کچھ ہوا تھا مطلب کے وہ بس اپنے باپ کے کہنے پر شادی کر رہا تھا اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔

لیکن وہ جھلی اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ دو بار ٹکرانے سے  کون سی محبت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔

رات کے وقت امہ کو اپنے فون پر ایک اجنبی نمبر سے میسج آیا جس پر لکھا ہوا تھا میں ارحم ہوں فون میں سیو کر لیں ۔۔۔۔۔

امہ نے بھی ہمت کرتے ارحم کو فون کیا فون کال اٹھاتے ہی ارحم نے ہیلو بولا مگر مقابل کی رونے کی آواز سن ایک بار ارحم بھی پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔۔

ارحم نے امہ سے پوچھا کہ سب خیریت ہے 

آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے لیکن آپ مجھ سے شادی کر رہے ہیں کیوں کر رہے ہیں مجھ سے شادی ۔۔۔۔۔

ارحم تو گھورنے لگا تھا جیسے سامنے امہ بیٹھی ہو اور اس کو ہی گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

کچھ دن رہ گئے ہیں صبر کر لو جلد ہی تمہیں بتا دوں گا کہ کیوں کر رہا ہوں شادی ۔۔۔۔۔اور رہی محبت کی بات تو وہ تمہارا کام ہے میرا کام بس تمہاری محبت کے جواب میں مزید محبت دینا ہے ۔۔۔۔۔

اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب امہ کا نکاح ارحم کے ساتھ ہونا تھا ۔۔۔۔۔

نکاح کے بعد امہ کو ارحم کے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا ارحم بھی اپنے کمرے میں جانے لگا تھا کہ کچھ یاد آنے پر اچانک میجر دانش کی طرف مڑا جو ارحم کے پیچھے ہی کھڑے تھے ۔۔۔۔۔

وہ ہینڈسم آپ کے لیے ایک گفٹ ہے سوچا آپ نے اتنا کیا میرے لیے اب ایک گفٹ تو دینا بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میجر دانش تو سن کر حیران ہوئے اور مارے خوشی کے جلدی سے ارحم کے آگے ہاتھ کر دیا ارحم جلدی سے ایک کمرے میں گیا جہاں سے آتے ہی میجر دانش کے ہاتھ میں ان کا ایک جوتے کا ایک پاؤں رکھ دیا اور بولا اب دونوں جوتے پہن کر چلیں گے اوکے ۔۔۔۔۔

میجر دانش پہلے ارحم کی کارستانی پر ایک دم حیران ہوئے اور پھر سمجھ آنے پر بلند آواز میں ارحم کا نام لیا اور جوتا اس کے دروازے کی جانب اچھالا تھا لیکن ارحم قہقہ لگا کر ہنسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

ختم  شد


ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Sitam JaanTu JhanNovel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sitam Jaan Tu Jhan written Rida Abid Sitam Jaan Tu Jhan  by Rida Abid is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment