Pages

Thursday 30 May 2024

Mere Charagar Tujhe Kya Khabar By Faiza Shah Complete Urdu Novel Story

Mere Charagar Tujhe Kya Khabar By Faiza Shah Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Mere Charagar Tujhe Kya Khabar By Faiza Shah Complete Novel Story

Novel Name :Mere Charagar Tujhe Kya Khabar 
 Writer Name : Faiza Shah

 Novel :  Complete 

ساحل کی گیلی ریت پر چلتے 

کیا تم نے یہ سوچا ھوگا

کہ جس کوقدموں میں روندتے ھو

وہ کہاں سے گزر کر آئی ھوگی

کتنی قیامت گزری ھوگی اس پے

کتنے طوفاں دیکھے ھونگے

کیا کچھ کھویا ھوگا اس نے

کتنی ٹھوکر کھائی ھوگی 

کتنی لہروں نے پتخا ھوگا

ساحل کی گیلی ریت پے چلتے

کیا تم نے یہ سوچا ھوگا……..

اج گزرے دنوں کو یاد کرتے ھوے بے اختیار میری انکھیں بھیگ گئی تھی

 .میں بھی تواس ریت کی طرح ھوں کتنی قیامت کتنے طوفان گزر گئے مجھ پے کتنے پیروں نے روندا تھا مجھے پر پھر بھی زندہ ھوں کتنی سخت جان ھوں نا میں.اماں ٹھیک ہی کہتی تھی کہ کشف نا جانے تو کس مٹی کی بنی ھے کچھ اثر ھی نہیں ھوتا تجھ پے

 …..مگر اماں کو کون بتائے کے میں اس عمارت کی طرح ھوں جسکی بنیادیں ختم ھوجاتی ھے

 بس وہ باھر سے مضبوط نظر آتی ھے.میں نے سب کھو دیا تھا کچھ بھی تو نہیں تھا آج میرے پاس .تہی دامن خالی ہاتھ 

اماں کے گھر تھی تب بھابھی کی نا انصافیوں پے اماں کہتی تھی کے صبر کراگلے گھر میں راحت ملے گی صبر کا پھل میٹھا ھوتا ھے مگر شاید ہر کسی کے نصیب میں یہ پھل نہیں ھوتا کچھ کو صبر کا اجر آخرت میں ملتا ھے

            ==========================

میں نے ایک متوسط گھر میں آنکھ کھولی جہاں اماں کے لبوں سے ھمیشہ اللہ کا شکر ھی سناکبھی ناشکری نہیں سنی اور ھمیں بچپن سے  اماں یہی سکھاتی کے ھر حال میں شکر ادا کرنا سیکھو خوش رھوگی ھمیشہ

مگر اماں آپ بھی تو صبر کرتی ھیں ..آپ تو خوش نہیں ابا آپ پے غصہ کرتے ھیں بات بات میں تب آپ کتنا.اداس ھوجاتی ھیں…کشف اپنے ننھے ھاتھوں سے اما ں کا ڈوپٹہ کھیچتے ھوے پوچھتی

ارے پگلی وہ تو انکا انداز ھی ایسا ھے ..اماں ہنس دیتیں

اور کشف سوچتی ھی رہ جاتی…

 ابا ایک سرکاری اسکول میں ماسٹر تھے اور مزاج کے سخت تھے ابا کے غصے سے میں بہت ڈرتی تھی انکے سامنے بات بھی سوچ کے کرتی تھی میں جو فرمائش ھوتی اماں سے کہتی تھی کبھی ڈائرکٹ ابا سے کچھ نہیں مانگا

…ھم دو بہنیں اور ایک ھی بھائی تھے یاسر بھائی جو سب سے بڑےتھے پھر نجف آپی اورپھر میں …….بھائی.نے انٹر کر کے ایک جگہ نوکری کر لی تھی آپی کی تو میٹرک کے بیچ میں ھی اماں نے شادی کی تاریخ دے دی تھی پھپھو کو 

..آپی کی شادی پھپھو کے بیٹے عماد سے ھوئی تھی اتنی چھوٹی عمر میں شادی ھوگئی تھی آپی.کی

 یاسربھائی کی شادی کے اتنے ارمان تھے ھم دونوں بہنوں کوکے بتا نہیں سکتی ھر وقت ھر جگہ انکے لئیے بس لڑکی ھی ڈھونڈنے لگ جاتی تھی ھسپتال ھو یا بازار…

پر بھائی منع کرتے کے مجھے نہیں کرنی شادی…

مگراماں کہتی تھیں کے لڑکے بس اوپر اوپر سے منع کرتے ھیں من میں تو لڈو پھوٹ تے ھیں

پھر ایک لڑکی پسند آئی اماں کو  بہت اچھی تھی اچھے گھر کی تھی مگر انہوں نے ھمارے حالات اور گھر دیکھ کر انکار کردیا اماں کو دکھ ھوا بہت پر کچھ ٹائم میں بھول گئیں 

اماں تھیں ھی ایسی کبھی کسی بات کو دل سے لگا کر نہیں بیٹھ جاتی تھی میں بھی اماں جیسی ھی بن نا چاھتی تھی

پھر بہت مشکلوں سے ایک لڑکی پسند آئی بھائی کے لئیے…زویا ……..چھوٹا سا قد گورا رنگ بڑی بڑی آنکھیں.لمبے بال 

زویا بھابھی بہت پیاری لگی ھم سب کو …بھائی بھی مان گئے...شادی بھی ھوگئی….شادی کے کچھ ھی دن بعد اس پیاری صورت کی بھابھی نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا

روز روز کے جھگڑے کرنا شروع کر دیےروز ناراض ھوکر میکے چلی جاتی اماں سے اور مجھ سے انکو الگ گھر میں رھنا تھا

آخر کار روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکرابا نے کہاکے تم لوگ الگ جانا چاھو تو چلے جاو اور بھائی کو تو شاید اس ھی بات کا انتظار تھا بھابھی کو لے کر الگ ھوگئے….

اماں اور میں اداس ھوگئے 

    _____________________________________________

میں سیکنڈ ائیر میں تھی تب ھی اماں پے بھوت سوار ھوا میری شادی کا ھر کسی سے کہنے لگیں کے کوئی رشتہ ہو تو بتانا

اک دن اک رشتہ کروانے والی آئی.اماں سے کہنے لگی 

ارے صفیہ بہن ایسی بھی کیا جلدی ھے عمر تو دیکھو لڑکی کی…شمع خالہ منہہ سکوڑ کے بولیں

میری زندگی میں اپنے گھر کی ھوجائے کشف بس پھر سکون سے مر جاو میں ….اماں دھیمے انداز میں بولیں 

ھوجائے گا فکر کیوں کرتی ھوں تم …چلو چائے تو پلوا دو ….شمع خالہ شاید رشتہ کروانے کم اور چائے پینے زیادہ آتی تھیں

ھاں ھاں کیوں نہیں …کشف چائے بنا لاو خالہ کے لئے …امان نے برامدے سے آواز لگائی

جی اماں …..کشف نے باورچی خانے میں آکر چائے کا پانی رکھا

رشتے کا جلدی ھی کچھ کرنا شمع اماں پھر کہہ رھی تھیں

کشف کو کوفت ھوئی

 جیسے میں پچاس برس کی ھوگئی تھی

 میں تو ابھی صرف آٹھارہ برس کی تھی پر اماں کو فکر تھی میری کہ میں اپنے گھر کی ھوجاو …

   =================================

کچھ ھی دن گزرے شمع آنٹی نے خبر دی کے ایک رشتہ ھے  لڑکا کا اپنا کاروبار ھے بہت اچھے لوگ ھےشام میں آیئنگے وہ لوگ کشف کو دیکھنے.

اماں کی تو مانو مراد پوری ھوگئی ھو جیسے آپی کو بلوا لیا…مہمانوں کے لیے اہتمام شروع ھوگئے پورے گھر کی صفائی کروائی .میز پوش نکلوائے جو آپی نے اپنے ھاتھوں سے کاڑھے تھے پیٹی سے اماں کے جہیز کے برتن نکلوائے 

ابا سے بسکٹ پیٹیس وغیرہ منگوا لیے بازار سے کباب سموسے میں نے گھر ھی میں بنالیے تھے

مہمان آگئے تھے اماں کے پاس بیٹھے تھے 

اپی آئی کے چلو اماں بلا رھی ھیں.

مجھے اتنا عجیب لگ رھا تھا ایسے کسی کے سامنے جانا 

پر جانا تو تھا ورنہ اماں ناراض ھوجاتیں

اپی کے ساتھ میں چائے لے کر اندر گئی

سب کی نظر مجھ پے ھی تھی

میں کوئی اتنی خوبصورت بھی نہیں تھی اور بدصورت بھی نہیں تھی بس قبول صورت تھی 

گندمی رنگ درمیانہ قد آنکھیں کالی اور ہاں پلکیں گھنی تھی بہت  آپی کہتی تھی کے بہت جوبصورت ھیں  تمہاری آنکھیں پر بہن تھی نا وہ  تو ایسے ھی کہینگی انکو تو پیاری ھی لگو گی میں.

ستواں ناک متناسب سے ہونٹ اور سیاہ گھنے بال بس ایسی تھی میں 

آج میں نے ہلکا آسمانی رنگ کا آپی کا سوٹ پہنا تھا ..کیوں کے میرے پاس تو کوئی ایسا جوڑا نہیں تھا جو میں پہنتی.

سلام کر کے میں اماں کے پاس بیٹھ گئی ..دب کی مجھ پے ھی نظر تھی مجھے اندازہ ھورھا تھا

کیا کرتی ھو بیٹا ایک آواز پے میں نے سر اٹھایا

وہ کوئی ساٹھ سال کے قریب کی عمر کی آنٹی تھیں اور انکے ساتھ ایک لڑکی تھی جو میری ھی ھم عمر تھی شمع آنٹی بھی ان کے سا تھ بیٹھی تھیں

پڑھتی ھوں سیکنڈ ایئر میں   …میری آواز مشکل سے نکلی کیوں کے میں بہت کنفیوز ھورھی تھی

ایسے مرحلے سے پہلی بار جو گزر رھی تھی

جو لڑکیاں گزرتی ھیں انکا دل ھی جانتا ھے کے کیا عذاب ھے یہ...خیر..

وہ یہاں وہاں کی باتیں کر کے اور میز پے رکھی سب پلیٹ صاف کر چلی گئی 

اماں انتظار ھی کرتی رھی ایک مہینہ گزر گیا پر کوئی پیغام نہیں ایا اماں مایوس ھوگئیں…

   =================================

اماں …….کھانے میں کیابناو دوپہر میں …اس دن کالج سے آکر میں نے اماں سے پوچھا

میں نے بنا لیا ھے تو منہہ ھاتھ دھو لے تو میں کھانا لگاتی ھوں.اماں کی آواز میں اداسی تھی میں ٹھٹھک گئی

کیا ھوا اماں طبیعت ٹھیک نہیں کیا ..کہا بھی ھے مت کیا کریں کام میں آکر کر تو لیتی ھوں

ٹھیک  ھے طبیعت مجھے کیا ھونا ھے ..آج شمع آئی تھی 

اماں میری طرف دیکھ کر بولیں

اچھا ..کیوں آئی تھی ….میں نے صحن میں لگے نلکے سے منہہ دھوتے ھوے پوچھا

کشف وہ رشتہ لے کر جو آئے تھے نا…انہوں نے منع کردیا انکا کہنا ھے کے انکو خوبصورت بہو چاھیے اماں تاسف سے بولیں

اک لمحے کے لیئے میرا ھاتھ رک گیا یہ سوچ کر نہیں کہ مجھے کوئی مسترد کرگیا بلکہ یہ سوچ کر کے اماں اداس ھیں میری وجہ سے اماں کو برا لگا تھا کوئی اولاد کو برا کہے کونسی ماں برداشت کرےگی 

میں کھڑی ھوئی تولیہ سے منہہ صاف کیا اور اماں کے پاس وہیں چارپائی پے بیٹھ گئی 

اماں جو نصیب میں لکھا ھوتا ھے وہی ھوتا ھے.یہ آپ ھی مجھے کہتی ھیں نا پھر اب آپ خود کیوں اداس ھیں میرے نصیب میں اس سے اچھآ ھوگا…..میں نے اماں کو رسانیت سے کہا…

چلیں بھوک لگی ھے مجھے …میں نے بات پلٹ تے ھوے کہا

کھانا کھا کر اماں سونے چلی گئیں

میں برتن دھو کر میں اپنے بستر پے آگئی پھر رشھتے والی بات ذہن میں در آئی..اماں کو تو اپنے طور پے مطمئن کردیا تھا

پر اب یہ باتیں دماغ سے چمٹ گئی تھی میرے

مسترد کیے جانے کا احساس 

کم صورت ھونے کا طعنہ

انسو کے قطرے تکیے میں جذب ھوگئے

لڑکی شریف اور نیک ھونی چاھیے گھر کے کام کاج میں ماہر 

گورا رنگ بھلے ھی نا ھو مجھے ٹی وی ڈراموں میں کام نہیں کروانا اس سے گھر گھرھستی کروانی ھے…….زیتون بانو اپنے پاندان سے چھالیہ نکال کر منہ ڈالتے ھوے بولیں

ارے آپ فکر ھی نا کریں آپا بہت پیاری بچی ھے چل کر تو دیکھ لیں اک بار 

 دعا دینگیں ساری عمر مجھے ……..شمع نے  اتراتے ھوے کہا اورجلدی سے چائے کی پیالی اتھالی 

میرا بیٹا بہت سیدھا ھی ایسی ویسی آگئی تو لے اڑے گی اسکو 

زیتون بانو اب سنجیدہ تھی

کیا باتیں ھورھی ھیں …..بسمہ کمرے میں داخل ھوئی

وھی جبران کے رشتے کی بات….. زیتون بانو بسمہ سے کہہ کر پھر شمع کی طرف متوجہ ھوئیں

بسمہ زیتون بانو کی بڑی بہو تھی

ھاں ھاں سمجھ سکتی ھوں ..وہ کیا ھے نا کہ بسکٹ نہیں کیا سوکھی چائے اتر نہیں رھی…شمع بے شرمی سے بولیں

نہیں اتر رھی تو واپس رکھدو.…

زیتون بانو نے عینک کے اوپر سے گھورتے ھوے کہا

اب مذاق بھی نا کریں کیا……. شمع ڈھٹائی سے ہنس دیں

کل پھر چلتے ھیں لڑکی دیکھنے ..کیا بولتی ھو تم …زیتون بانو شمع سے پوچھنے لگیں

جب آپ کہیں آپا …..شمع جلدی سے بولیں

ٹھیک ھے ….زیتون بانو کے چہرے پے اطمینان چھا گیا

                 ===================

کشف آج کالج نہیں جانا  …کچھ لوگ آرھے ھیں تمہیں دیکھنے…اماں کمرے میں آکر بولیں …میں ابھی اٹھی ھی تھی ..

پھر سے اک امتحان…مجھے جھنجھلاہٹ ھونے لگی پر ظاہر نا کیا .

اچھا اماں.کہہ کر میں باہر آگئی مجھے معلوم تھا کے اب شام تک اماں کے کام ختم ھی نہیں ہونگے …

وہ لوگ ائےایک آنٹی اور انکی بہو تھی  مجھے دیکھا اورابا کا فون نمبر لیا اماں سے اور فون پے جواب دینے کا بول کر چلی گئی

مجھے امید تھی کے یہ بھی پلٹ کے نہیں آئنگی

لیکن خلاف معمول دوسرے ھی دن انکا فون آگیا ابا کو کہ کشف پسند ھے ھمیں جمعہ کو ھم آئینگے رسم کرنے لڑکے کو بھی ساتھ لاینگے

اماں کے تو ھاتھ پاوں پھول گئے انکا خوشی کا کوئی ٹھکانہ نھیں تھا مجھے تو سمجھ نہیں آرھا تھا کہ میں خوش ھوں یا دکھی اماں سے دور جانے کا سوچ کر ھی رونا آتا تھا

           ======<<<===========

جبران بیٹا …….زیتون بانو کمرے میں داخل ھوئیں

جی امی جان کہیے……...جبران نے لیپ ٹاپ سے سر اٹھایا

ہم آج لڑکی دیکھ آئے ھیں اچھی لگی مجھے سیدھی سادھی سی ھے غریب سے لوگ ھیں مگر عزت دار لگتے ھیں……زیتون بانو رسانیت سے بولیں 

اچھا .تو پھر …..جبران کی نظریں پھر لیپ ٹاپ پے تھی

جمعہ کو جانا ھے لڑکی کو انگھوٹھی پہنانے تم بھی چلنا ساتھ…..زیتون بانو نے جیسے کوئی انہونی بات کردی جبارن نے ایکدم سر اٹھایا

میں کیوں آپ لوگ چلے جایےگا نا ……میرا کیا کام ……کوفت ھورھی تھی اسے سن کر ھی

جتنا کہا ھے نا اتنا کرو ……تیار ھوجانا .پرسوں…..زیتون بانو کہتی ھوئی نکل گئی باہر 

کیا مصیبت ھے یہ اب   آنے سے پہلے ھی امی کو قابو کر لیا ھے …….جبران نے لیپ ٹاپ ے زاری سے ایک طرف پھینکا

        ====================

اپی نے مجھے تیار کیا تھا لائٹ.گرین کلر کے ایمبرائیڈری سوٹ پے سلک کا دوپٹہ …اور ہلکا سا میک اپ.کردیا تھا

میرے پاس بس ایک یہی اچھا ڈریس تھا جو بھائی کی شادی پے بنوایا تھا

اج میں بہت نروس تھی.کیوکہ لڑکا بھی آرھا تھا ساتھ میں 

انگھوٹھی وہی پہنائےگا شمع آنٹی صبع بتا گئی تھیں

میری ایک ھی دوست تھی صبا اماں نے اسکو بھی بلا لیا تھا

آگئے وہ لوگ دلہا بھائی تو بہت اسمارٹ ھے بھائی ……صبا اندر آکر چہکی

میں نےمسکرا کر سر جھکا دیا 

ارے شرما گئی تم تو …صبا ہنس پڑی

آپی بوکھلائی ھوئی اندر آئیں .

چلو کشف باہر بلا رھے ھیں اماں 

اوکے آپی آپ جایئں میں لے آتی ھوں کشف کو ….صبا نے آپی کو بھیج دیا اور مجھے کہا چلو کھڑی ھو….اورمجھے سمجھاتے ھوے باہر لے آئی

باہر ایک طرف ابا اور کچھ مہمان بیٹھے تھے 

ایک طرف اماں اور وہ مہمان خواتین …

مجھے صبا نے ایک.طرف رکھے صوفہ پے بٹھا دیا 

کچھ دیر بعد وہاں کوئی آکر بیٹھا میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا جیسے ابھی سینے سے باہر آجائےگا 

 میں نے ڈرتے ڈرتے کن انکھیوں سےدیکھا …

صبا ٹھیک.کہہ رھی تھی وہ واقعی خوبصورت تھا متاثر کن شخصیت تھی اسکی.….بس ایک نظر میں اتنا ھی دیکھ سکی میں .پھر  نظر جھکا لی میں نے ….

جبران رنگ پہناو نا کشف کو ….کسی کی آواز آئی..

اچھا تو جبران نام ھے مجھے تو نام ھی پتہ نہیں تھا ابھی تک اسکا..

 نا آماں نے بتایا نا ھی مجھے پوچھنا اچھا لگا اماں سے

کشف ھاتھ آگے کرو آپی کی آواز آئی

میں نے برف ھوتے ھاتھ کو آگے کر دیا اس نے انگھوٹھی انگلی میں تقریبن گھسیڑ دی تیزی سے

 جیسے بے دلی سے انگھوٹھی پہنائی ھو ….یا میرا وہم ھوگا .

اپی نے مجھے انگھوٹھی دی اسکو پہنانے کو

اس نے خود ھاتھ آگے کردیا…

میں نے آنگھوٹھی پہنائی دی …

کچھ دیر بیٹھ کر مجھے اندر لے آئی صبا….

بڑا ھی کوئی کھڑوس ھے ویسے تیرا ھونے والا شوہر …صبا پلنگ پے بیٹھتے ھوے ناک سکیڑ کر بولی…

کیوں کیا ھوا …میں نے چونک کر پوچھا

ارے مجال ھے جو ایک بار بھی مسکرایا ھو … کہیں خوبصورتی کا گھمنڈ تو نہیں اسکو ..صبا پوچھنے لگی 

پتہ نہیں ……میں ابھی کیا بول سکتی تھی میں ابھی جانتی ھی نہیں تھی اسکو

 مجھے بھی کچھ ایسا وہم ھوا تھا.پر میں بولی نہیں صبا سے

       ==========<<<<=============

نصیب کھلتے تو دیر نہیں لگتی میری دعائیں قبول ھوگئی ھیں

اماں انکے جانے کے بعد مسکراتے ھوے بولیں

وہ لوگ شادی کی.تاریخ مانگ رھے تھے رات فون ایا تھا زیتون بہن کا

.میری سانس رکنے لگی اتنی جلدی کس بات کی ھے انہیں میں اماں سے دور کیسے رھوگی آنکھیں بھرنے لگیں کیسے لوگ ھونگے میں جانتی تک نہیں 

ایک انجانے سے ڈر نے سر آبھارا

کیا ھوا پگلی رو کیوں رھی ھے ….اماں نے شاید میری آنکھوں میں آنسوں دیکھ لیئے 

سب لڑکیوں نے جانا ھوتا ھے نا نصیب والی یہ دن دیکھتی ھیں اماں ہنس پڑیں

مجھے آپ سے دور نہیں جانا اماں مجھے آپکے بغیر نیند نہیں آتی

میں منمنائی

ارے سب لڑکیاں ایسے ھی بولتی ھیں کچھ دنوں بعد تو میکہ یاد تک نہیں آتا اماں مسکراتے ھوے بولیں

ایسا نہیں ھوگا میں نہیں بھولونگی کبھی بھی آپکو ………..میں خفگی سے بولی

اور میری دعا ھے کے وہاں کی محبت میں تو مجھے بھول جائے …..اماں ہلکے دے بول کر باورچی خانے میں چلی گئیں

    ==================

امی جان پوچھ کے تو تاریخ رکھتے آپ شادی کی …….جبران پیر پٹختا زیتون بانو کے کمرے میں آیا جب سے اسکو پتہ چلا کے امی تاریخ طے کر آئی ھیں تب سے تپ رھا تھا

کیوں میاں تم میرے ابا لگتے ھو جو میں پوچھوں تم سے  ..…زیتون بانو اطمینان سے بولیں 

جبران گڑبرا گیا ……

اب ایسا بھی نہیں کہا  …آپ نے کہا تھا کہ صرف رشتہ کرینگے شادی کا نہیں بولا تھا آپ نے امی جان…..جبران نے دبا دبا احتجاج کیا

کرنی تو ھے نا بعد میں بھی شادی …..صرف رشتہ کر کے رکھ تو نہیں دینا تھا نا ….میں زبان دے آئی ھوں……بس ….زیتون بانو کڑے انداز میں بولیں.

جبران منہہ لٹکائے اپنے کمرے میں آگیا

کیوں کہ امی فیصلہ کر چکی تھیں کچھ بولنا بیکار تھا

    =======================

آج میرا نکاح تھا یہ دن بھی کتنا خوبصورت ھوتا نا ….ایک رشتہ ملنے کی خوشی اور ایک کھو دینے کا غم لڑکیوں کے بھی کیا نصیب ھے

…میں نے سرخ رنگ کا کامدار عروسی جوڑا جو میرے سسرال سے آیا تھا پہنا تھا  ..میک اپ صبا نے کردیا تھاصبا بار بار تعریف کر رھی تھی میری ...

ابا اندر آتے دکھائی دیے مجھے…

 میں سر جھکا کر بیتھی رھی  

کشف بیٹی ھم نے تمہارے لیے بہت دیکھ بھال کر یہ رشتہ دیکھا ھے اب اسکو نبھانا تمہارا کام ھے اگر کبھی زندگی میں کوئی دکھ آئے تو اپنے شوہر اپنے سسرال والوں کو اکیلا مت چھوڑنا 

کبھی انکو مایوس  مت کرنا بیٹی ہمارا سر شرم سے جھکنے مت دینا .مجھے بہت مان ھے تم پے ….میری آنکھوں سے آنسوں رواں ھوگئے…

…مجھے معلوم ھے تم میری بہت صبر والی بیٹی ھو ہر حال میں صبر اور شکر کا دامن نہیں چھوڑنا

بھلے سے اپنی خواھشوں کا گلا گھونٹ دینا پر کبھی بھی اپنے شوہر کو ناراض نا کرنا …..ابا میرے سر پے ھاتھ رکھ کے چلے گئے شاید ابا رو رھے تھےمیں تو انکو دیکھ بھی نا سکی سر اٹھا کر.........

ابا کے آنسو میرے دل پے گرے تھےاور ان کی نصیحت میرے دماغ…

 میں بارات آچکی تھی ….نکاح نامہ پے سائن کروانے کے لئے آبا اور خاندان کےکچھ اور لوگ آئے …

میرے ھاتھ لرز رھے تھے نکاح نامہ پر سائن کرتے ھوے انجانہ.خوف تھا ڈر تھا ..میں کسی کو جانتی تک نہیں تھی.کیسے لوگ تھے …

…اماں اور ابا کے سامنے کچھ بول بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے شادی نہیں کرنی میں اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ آنکھ بند کر کے کر رھی تھی اندھا سودا تھا یہ

….پر میں کچھ نہیں بول سکی کیوںکہ انکو میری فکر تھی.

نکاح ھوا اور مجھے باہر گلی میں ٹینٹ میں بنے اسٹیج پر بٹھادیا گیا  کچھ دیر میں دلہا کو بھی ساتھ بٹھا دیا .

.میں گھونگھٹ میں تھی بس اندازہ لگا رھی تھی …..نظر کچھ نہیں آرھا تھا

رخصتی کا کہا گیا اور اماں آئی میرے پاس …

وہی نصیحتیں ...اس گھر سے مر کے ھی نکلنا کبھی کسی کو مایوس نا کرنا ….آپی آئی سر پے ھاتھ پھیر کر دعایئیں دی

سب نصیحت ھم لڑکیوں کے لئے ھی کیوں ھوتی ھے ….میں نے آنسو پیتے ھوے سوچا

…آج میرا بچپن کا گھر مجھ سے دور ھورھا تھا میرے اماں ابا کو چھوڑ کے جارھی تھی میں وہ اماں جچن کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی تھی میں انکے بغیر کیسے رھونگی

 آسان نہیں ھوتا ایسے سبکو چھوڑ کے جانا …اب میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ..صبا پاس آئی چپ کروانے 

گاڑی میں بتھا دیا گیا اور گاڑی چل پڑی

بابا کی رانی ھوں ، آنکھوں کا پانی ھوں

بہہ جانا ھے جسے ، دو پل کہانی ھوں

اماں کی بٹیا ھوں ، آنگن کی مٹیا ھوں

ٹُک ٹُک نہارے جو، پردیسی چٹھیا ھوں

ممتا کے آنچل میں جو گیت گائے ھیں

بابل نے جھٹ پٹ جو سپنے سجائے ھیں

وہ یاد آئیں گے ، گُپ چپ رلائیں گے

ڈولی کے سنگ میرے جب ساتھ جائیں گے

بابا کی رانی ھوں ، آنکھوں کا پانی ھوں

بہہ جانا ھے جسے ، دو پل کہانی ھوں

       =====================

اب میں اپنے گھر میں تھی جہاں اب مجھے ساری عمر رھنا تھا ….

میری بڑی نند سیما جو شادی شدہ تھی مجھے میرے کمرے میں لے آئیں….ساتھ میں بسمہ بھابھی تھیں

پیاری لگ رھی ھو ماشااللہ …میرا پورا گھونگھٹ الٹ کےاب  وہ میرا جائیزہ لے رھی تھیں…دونوں کے تبصرے جاری تھےمجھ پے

میں مسکرا بھی نا سکی ..

چلو تھک گئی ھوگی تم …آرام کرو کسی چیز کی ضرورت ھو تو بتا دینا …

دونوں کمرے سے نکل گئی …میری کمر درد کر گئی تھی بیٹھ بیٹھ کر میں نے سوچا کچھ دیر کمر سیدھی کر لوں

اور کب آنکھ لگ گئی پتہ ھی نا چلا….

    ======================

ارے یار آج تو بھلے بھابھی انتظار کرتی رھیں ھم تجھے جانے ھی نہیں دینگے…….. ظفر نے شرارت سے جبران کی طرف دیکھتے ھوے کہا

نا جانے دو مجھے کونسا فرق پڑنا ھے کرتی رھے انتظار

 .…..جبران لاپرواھی سے بولا

شرافت سے جاو چلو  …خرم بھائی  پیچے سے آکر سختی سے بولے جو بہنوئی تھے جبران کے سیما آپا کے شوھر ….

اب اکیلے نہیں تم بیوی بھی ھے تمھاری اسکا خیال.پہلے کرو ..اور تم کیا اسے روک رھے ھو …خرم بھائی اب ظفر کی طرف پلٹے…ظفر جبران کا بچپن کا جگری دوست تھا….

وہ میں تو مذاق کر رھا تھا خرم بھائی ……ظفر اس اچانک حملے پےسٹپٹایا.

جبران جاو بھابھی کے پاس انتطار کر رھی ھوگی….خرم بھائی حکم دے رھے تھے گویا

..جی خرم بھائی……..جبران بمشکل کھڑا ھوا دل تو بلکل نہی چاہ رھاتھا  پر کیا کریں امی جان نے مصیبت گلے ڈال دی ھے .نبھانا تو تھا

       ========<<=========

جبران نے اہستہ سے دروازہ کھولا اور اندر آگیا دروازے کو لاک کر کے جب پلٹ کے دیکھا کمرے میں دھیمی روشنی پھیلی ھوئی تھی سجاوٹ بہت اچھی کی تھی دوستوں 

گلاب کے پھولوں سے کمرہ مہک رھا تھا

اگے بڑھ کے دیکھا….

 نے تو محترمہ خواب و خرگوش.کے مزے لے رھی تھی…ا

.ریڈ لہنگے میں ھی ملبوس تھی …ماتھے بے ٹیکا ایک طرف ڈھے  گیا تھا……

میک اپ تو شاید رو دھو کے دھل گیا تھا ..

لامبی گھنی پلکیں آنکھوں پے بچھی ھوی سی تھی 

پرکشش لگ رھی تھی وہ سوتے ھوے.…

کیسی ھوگی کیا ھوگی کتنا سوچا تھا اپنی ھونے والی شریک ء حیات کے بارے میں …بری تو نہیں تھی 

....اسکو تو کوئی انتظار ھی نہیں اپنے شوہر کا….عجیب لڑکی ھے

…..جبران نے سب نظر انداز کیا اور ایکدم یاد آیا کے یہ تو امی کی پسند ھے میری نہیں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں اس میں چاھے جیسی بھی ھو

……امی نے اپنی ضد چلائی ھے اب میں بھی بتاوگا امی کو اپنی ضد..

..کچھ تو سکون ملے گا مجھے …..جبران سفاکی سےسوچنے لگا۔

اٹھو لڑکی کھڑی ھو …..جبران نے غصے سے بازو ہلایا  کشف کا  …

      =====================

مجھے کوئی جنجھوڑ رھا تھا…..

اٹھو لڑکی کھڑی ھو……اجنبی آواز….…اجنبی لہجہ……

میں نے آنکھیں کھولی ..

سامنے وہی میرا شریک سفر.اجنبی نظریں لیے کھڑا تھا ….

مجھے شرمندگی سی محسوس ھوئی 

میں اٹھ کر بیٹھ گئی 

بہت نیند آرھی ھے آپکو . ….جایئے چینج کیجیے اور سو جایئے ارام سے……. …جبران خشک لہجے میں بولا

میں ایک لمحے کے لیئے سمجھ ھی نا سکی اسکا انداز….

جایئے ……..اب کے اسکا لہجہ کرخت تھا..

میں جلدی سے کھڑی ھوئی……الماری سے اپنا ایک لان کا جوڑا لے کر کمرے سے منسلک باتھ روم میں چلی گئی…

جب میں باہر آئی تو میرے مجازی خدا میرے شریک سفر…پورے بیڈ پر انکھیں بند کیے اس طرح سے لیٹے تھے کسی اور کے بیٹھنے یا سونے کی جگہ مشکل سے نکل پائے..

میں شش و پنج میں مبتلا  کھڑی سوچ ہی ر ہی تھی کے کیا کیا جایے  ….

تب ہی پٹ سے آنکھیں کھولی جبران نے …

اب کیا ساری رات یونہی میرے سر پے سوار کھڑی رہوگی …..جبران خشک لہجے میں بولا…

بہت نیند آرہی تھی نا سوجاو سکون سے اب جاو…….رخ پھیر کے بولا گیا..

وہ میں……..میں پزل ھوگئی مجھ.سے تو بولا بھی نہیں جا رھا تھا اسکے سامنے ….

کیا وہ میں بولو …..اب  جبران اٹھ کے بیٹھ گیا اور کڑے تیوروں سے بولا ….

میں کہاں سووگی ……بمشکل میں بول پائی تھی

پہلے میری بات کان کھول کر سن لو اس خوش فہمی میں نا رہنا کے تم سوگئی تھی اس بات کا مجھے برا لگا ھے مر نہیں رہا تھا تم سے شادی کے لیے….…تم سوتی رہو ساری زندگی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا بس مجھ سے کوئی امید مت رکھنا کبھی بھی ….. میری امی اور گھر والوں کو اگر شکایت ہوئی تم سے تو اپنے میکے راستہ ناپنا سمجھی مجھے کوئی غرض نہیں تم سے ….جبران کڑوے انداز میں بولے جا رہا تھا ……..مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ اسکے انداز میں نفرت تھی یا بے زاری

اور رہی بات سونے کی…..تو صوفہ ھے اس پے یا نیچے زمین پے سوجاو تم عادی ھوگی ان سب کی…….وہی تلخ انداز…اپنی کہہ کر وہ دوسری طرف رخ پھیر کے شاید سونے لگا تھا

…..اسکی اس بات پے میرے چہرے کا رنگ اڑنے لگا پہلے ھی دن مجھے میری اوقات یاد دلا دی تھی 

…..دل چاہا ایسا جواب دوں کے ساری زندگی یاد رکھے کہ جس بیڈ پے وہ راجہ بن کے سویا ھے وہ میرے ھی جہیز کا ھے ……پر اماں ابا کی نصیحت یاد اگئی کبھی کسی کے اگے زبان نہیں چلانا…

کوئی اتنا تلخ.بھی ہوسکتا ھے آج پہلی بار دیکھا تھا….

میں بنا کچھ کہے صوفہ پےھاتھوں کا تکیہ بنا کر لیٹ گئی

آنکھوں میں ڈھیروں آنسو امنڈ آئے …

تو ھوگئی شادی تمہاری کشف…..

ایسی ہوتی ھے شادی

  اور یہ پزیرائی ملی ....

کتنی نفرت تھی لہجے میں …..

میں نے کیا بگاڑا ھے اسکا …..….ابھی مجھے یہاں آئے چند گھنٹے ھی ھوے تھے اور اتنے تازیانے لگا چکا تھا وہ …ابھی تو ساری عمر رہنا ھےمجھے یہاں……کیسے رہونگی میں….آنکھیں گویا سمندر بن چکی تھی

اماں …..سسسکتے ھوے منہہ سے ایکدم نکلا….ڈر کے منہہ پے ھاتھ رکھا کہیں وہ سن نا لے اس پے بھی ہزار باتیں سنائےگا….

آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی ….

      ÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

  آنکھ کھلی جبران کی …کیا ٹائم ہر رھا ہے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا5:55 ہو رھے تھے ….صوفہ پے نظر ڈالی وہاں کوئی نہیں تھا…

زمیں پے نظر دوڑائی ..

جائے نماز بچھائے معلوم نہیں کونسی دعائیں ہورھی تھی 

سفید دوپٹے کے ہالے میں کچھ اور ہی لگ رہی تھی وہ

یہ کب اٹھ گئی …..سوئی بھی تھی یا نہیں …...رات کچھ زیادہ نہیں بول دیا میں نے….

 اسکا پہلا دن تھا اس گھر میں…. پر مجال ھے جو یہ ایک لفظ بھی بولی ہو سامنے  یا کوئی احتجاج کیا ھو اس نے….

 شروعات ھے ابھی  جبران بیٹا وقت کے ساتھ رنگ دکھائےگی  ….جبران اب منفی سوچنے لگا

…منہہ پے ھاتھ پھیر کر وہ جائے نماز اٹھانے لگی تھی…..جبران نے  جلدی سے آنکھیں بند کر لی……..

کھڑی ھوچکی تھی وہ شاید

 ……..جبران نے ہلکی سی آنکھیں کھولی اتنی کے محسوس نا ہو اسکو کے وہ جاگ رھا ھے ….

وہ صوفہ پے بیٹھی تھی اب بلکل سامنے…..رات سوئی بھی وہیں تھی وہ ....

نا جانے کیا سوچ رہی تھی.…

پھر اچانک اٹھی کمرے کا دروازہ اہستہ سے کھولا اور باہر چلی گئی..

جبران نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں….

کہاں گئی ہے اس وقت یہ…

جبران بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا…اور پیروں میں سلیپر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھا…..

   ÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

مجھے رات بھر نیند نہیں آئی اس صوفہ پے …..

ہیں تک کے فجر کی اذانیں ہونے لگیں…

میں نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز پڑھی ….

پھر آکر بیٹھ گئی صوفہ پے ….یہی تو میری جگہ تھی اب….مجھے میری اہمیت بتا دی گئی تھی ….

چائے کی طلب ہورھی تھی پر نئے ماحول میں کس سے کہوں ….

ابھی تو سب سوئے ھونگے شادی کے ہنگاموں سے تھک کر …میں خود بنا لیتی ہوں چائے…..

میں باہر آگئی…

کچن کس طرف تھا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا…

گھر اچھا خاصا بڑا تھا ….میرے گھر سے کم از کم بہت بڑا تھا…

پر یہاں کے مکینوں کے دل بہت چھوٹے ھیں…

رات کو ایک مثال دیکھ چکی تھی میں…

پر سب لوگ تو ایسے نہیں ھونگے نا …..

میرابیڈروم اوپر کے پورشن میں تھا اور میرے بیڈروم کے ساتھ ھی مزید دو اور کمرے تھے جو کے ابھی معلوم نہیں کس کے تھے….

میں سیڑھیوں سے ھوتی نیچے آئی….

نیچے بڑا سا ٹی وی لاونج تھا …

سامنے دو کمرے تھے ….ایک طرف کچن نظر آیا میں وہیں آگئی…

اب ضرورت کی چیزیں ڈھونڈنا نئی جگہ پے مشکل ہوتا ھے ……پھر بھی بہت دیر کوشش کے بعد مطلوبہ چیزیں مل ھی گئیں…

چائے بنا کر کپ میں بھر کے جیسے ہی میں پلٹی …

میرے سامنے کوئی تھا …. ابھی تک وہاں کوئی نہیں تھا ایکدم کون آگیا سب تو سوئے تھے..

ڈر کے مارے میں اچھل پڑی اور

گرم گرم چائے میرے ھاتھ کو جلاتی ھوئی نیچے چھلکی

چائے کی گرمائش.سے میرے ھاتھوں سے کپ چھوٹ کر نیچے جاگرا……سیدھا میرے پیروں پے ٹوٹا وہ کپ….

اففف …..دوہری تکلیف سے جان نکل رھی تھی میری……

کیا مصیبت ھے کوئی بھوت دیکھ لیا ھے کیا…..جبران میری اس حرکت پے بگڑ کر بولا

میں اسے دیکھے اورکچھ کہے بنا بھاگتی ہوئی اپنے بیڈروم میں آگئی..

باتھ روم میں آکر ھاتھ کو واش بیسن کا نل کھول کے پانی ڈالنے لگی…..جلن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رھی تھی….

آنکھیں آنسو سے ڈبڈبا گئی تھی….

ایک چائے بھی نصیب نا ہوسکی….

کچھ جلن کم ھوئی تو منہہ پے پانی مار کے باہر آئی …

بیڈ پے بیٹھا جبران مجھے ہی دیکھ رھا تھا…..

زیادہ جل گیا ھے…..؟……جبراں نارمل لہجے میں بولا..

نہیں….میں نے آہستہ کہا…

اچھا تو پھر یہ کیا ھے ……..جبران نے کارپٹ کی طرف اشارہ کیا جہاں جگہ جگہ پے خون کے نشان تھے

اللہ…..میرے منہہ سے بے اختیار نکلا…

اور اپنے پیروں پے نظر گئی جہاں وہ کپ لگنے سے اچھا خاصا کٹ لگ گیا تھا…

اوہ مجھے یاد آیا کے کپ تو وہیں ٹوٹا ہوا چھوڑ آئی تھی میں کسی نے اٹھ کر دیکھ لیا تو پہلے ھی دن عزت افزائی ہوجائےگی…

میں اٹھی اور دراز سے رومال نکال کر کارپٹ پے آگئی وہاں سے خون کے دھبے صاف کرنے لگی …..جبران بغور دیکھ رھا تھا ……

میں کھڑی ھوئی اور دروازے کی طرف بڑھی….

کہاں جارھی ھو ...…جبران نے تحکمانہ انداز میں پوچھا….

کچن میں چائے گری ھے صاف کرنے….میں نے ڈرتے ھوے کہا.

پاگل تو نہیں ھوگئی اپنے پاوں کو دیکھو پہلے پاگل لڑکی…جبران غرا کر بولا

…..کچن میں صاف کر آیا ھوں …..جبران اب آرام سے بولا

میں واپس آکر صوفہ پے بیٹھی اور پاوں صاف کرنے لگی خون جم چکا تھا پر کٹ گہرا لگ گیا تھا…

صاف کرتے ھوے درد کی لہر اٹھی …پر بنا ظاہر کیے میں صاف کرتی رھی 

اپنے درد کو ان لوگوں کے سامنے کیا بتانا جن کے دل پتھر کے ہوں…میں سوچ کر رہ گئی

رومال ایک طرف رکھ کے میں دوبارہ صوفہ پے لیٹ گئی…

ھاتھ اور پاوں کے درد نے پھر سر اٹھایا….

سس…. درد سے سسکی ابھری میں نے کروٹ لے لی…

کوئی اٹھ بجے کے قریب دروازہ بجا…

میں نے سر اٹھا کر دیکھا جبران گہری نیند میں سورہے تھے 

صوفہ پے ایک کروٹ سو سو کر کمر اکڑ گئی تھی 

کھڑی ھوکر دوپٹہ سر پے درست کر کے میں نے دروازہ کھولا …سامنے جبران کی بھابھی بسمہ کھڑی مسکرا رھی تھیں

گڈ مارننگ ..کیسی ہو دلہن رانی ….. بسمہ بھابھی شوخی سے اندر آتے ھوےبولیں 

میں بس مسکرادی ….

چلو ابھی تمہارے گھر والے آئینگے تمہیں لینے ….تیار ھوجاو…

میں تیار ہی ہوں ………میں نے جبران کی نیند ڈسٹرب نا ہو اس ڈر سے آہستہ سے کہا….

ارے ایسے جاوگی اپنے گھر آج تمہاری شادی کا دوسرا دن ھے ……بھابھی حیرانگی سے مجھے دیکھتے ھوے بولیں….

اور آگے بڑھ کے الماری.کے پٹ کھول کر اندر کپڑے دیکھنے لگیں…

پھر ایک آتشی گلابی ارو اورنج کلر کا ڈریس نکالا ….

یہ پہنو چلو جاو…..…..بھابھی نے حکم دیا…..

میں نے خاموشی سے وہ جوڑا لیا اور چینج کر آئی…

بھابھی نے میک اپ.کیا مجھے ہلکا سا کانوں میں بالیاں پہنائی …ھاتھوں میں میچنگ کی چوڑیاں …

اب لگ رھی ھو نا ایک دن کی دلہن مجھے چوڑیاں پہناتے ھوے بھابھی بولیں…

یہ ھاتھ پے کیا ھوا ھے تمہارے کشف….بھابھی رک گئی اور ھاتھ دیکھنے لگیں..

وہ ..بھابھی ….جل گیا تھا……بلآخر بتانا تو تھا..سو سب بتا دیا

اوہ مجھے اٹھا دیتی نا تم میں بنادیتی….بھابھی تشویش سے بولیں

ٹھیک ھے اب تو بھابھی  …..میں مسکرائی…..ابھی تو پاوں کا زخم بھی تازہ تھا….

چلو تم نیچے آجاو جبران کا تو کچھ پتہ نہیں کب اٹھے گا……بھابھی میرا ھاتھ پکڑ کر نیچے لے آئیں…..

نیچے زیتون بانو سے مل کر میں نند کے پاس آبیٹھی…زیتون بانو نے بہت دعائیں دی…..میرے دل میں سکون سا اترا……سب لوگ برے نہیں تھے اس گھرکے….

نجف آپی اور صبا لینے آگئی تھیں مجھے ناشتہ وغیرہ کر کے آپی نے کہا چلو ……..

میں کھڑی ھوگئی….

کشف بیٹی .جانے سے پہلے جبران کو پوچھ آو جانے کا ….منع نہیں کرےگا پر زندگی کی شروعات میں ایسی چھوٹی باتوں کو اہمیت دوگی تو کامیاب رھوگی ہمیشہ ………زیتون بانو نے پیار سے کہا…

آپی نے تائید میں سر ہلایا..

میں انکی بات پے اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کھڑی ھوئی

سب سے مشکل کام تھا یہ میرے لیے……مجھے کوفت ہوئی پر کیا کرتی ساس امی کا حکم تھا …

میں اوپر اپنے کمرے کی طرف آگئی…

دروازہ آہستہ سے کھولا اور اندر آگئی….پر جبران نہیں تھے …شاید باتھ روم میں تھے اب مجھے انتظار کرنا پڑےگا..

میں بیڈ پر بیٹھنے لگی پھر یاد آیا کچھ تو کھڑی ھوکر صوفہ پے آکر بیٹھ گئی….

جبران تولیہ ھاتھ میں لیے باہر آیا……..مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گیا..

کہیں جارہی ھو کیا جو اتنا تیار ھوئی ھو……….جبران نے تولیہ سے سر رگڑتے ھوے پوچھا…..

آپی ائیں ہیں مجھے لینے …..میں جاوں…..میں نے ہلکی آواز میں کہا….

جبران نے تولیہ بیڈ پے اچھالا.اور میری طرف مڑا.

نہیں جانا بول دو اپنی آپی کو جاو …پھر وہی سخت لہجہ..

میں بس اسکو دیکھتی ہی رہ گئی….

سنا نہیں تم نے …..میری اجازت کے بغیر تم کہیں نہیں جاوگی….پھر سے سختی سے کہا

ٹھیک ہے…..میں آہستہ سے بول کردروازے کی طرف پلٹی….

=================

کشف ابھی تک نہیں ائی بسمہ……..زیتون بانو تشویش بھرے انداز میں بسمہ کی طرف دیکھ کر بولیں

جبران سویا تھا آپکو تو معلوم ھے نا اسکی نیند کا …اب بیچاری کشف کو کیا معلوم امی کہیں اسکے اٹھنے کا انتظار ہی نا کرنے بیٹھ گئی ہو …بسمہ ہسنے لگی

نجف بھی صبا کو دیکھ کر مسکرانے لگی

ہاں کشف کی عادت کچھ ایسی ہی ھے بہت دھیمے اور ٹھنڈے سبھاو کی ھے تیزی غصہ اس میں دیکھا ہی نہیں ہم نے……..نجف مسکراتےھوے بولیں

جاو بلا کر آو اسے کہو اسکے گھر والے انتظار کر رھے ھیں…..زیتون بانو دھیمے لہجے میں بولیں…..

امی آجائے گی کچھ دیر  انتظار کر لیتے ہیں……..بسمہ کو اچھا نہیں لگ رہا تھا اب نئی نویلی دلہن اور دلہا کے کمروں میں بار بار جانا…

      ====================

ﮨﻭنٹوﮞ ﭘﮧ ﮐبھی ﺍﻥ ﮐﮯ ﻡﯿﺭﺍ

 ﻧﺎﻡ ﮨﯽآئے

ﺁئے ﺗﻮ سہی ﺑﺮ ﺳﺮ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﮨﯽ

ﺁئے

.……سنو………کشف…...جبران کی آواز آئی ..

میرے قدم رک گئے…

میں پلٹی …..

آج چلی جاو ……….آگلی بار مجھ سے بنا پوچھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں…

…..خود ھی منع کر دینا مجھ سے پوچھنے آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھوگا…….جبران غرا کر بولا..

کیا ھے یہ شخص کبھی شہد اور کبھی کڑوا کریلا……

میں تو شاید اب اسکے حکم کی غلام تھی…

اچھا…….میں بول کر کمرے سے باہر آگئی

   =====================

میں گھر آگئی آپی اور صبا کے ساتھ…

گھر کی دہلیز میں قدم رکھتے ہی اماں نظر آئیں 

میں دوڑ کر گئی اور ان سے لپٹ گئی..اور انکھوں سے آنسو جاری ھوگئے…

ارے میری بٹیا کیا ھوگیا …..ایسے کوئی روتا ھے پگلی…..اماں پیار سے بولتے ھوے ہنس پڑیں….

مگر میں کچھ نا بولی اور ہچکیوں سے رونے لگی

کیا ہوا ھے کشف……..ایسے کیوں رو رھی ھے …….اب اماں کو فکر ھونے لگی..

کچھ نہیں ھوا اماں دل چھوٹا ھے اسکا آپ فکر نہ کریں وہاں سب بہت اچھے ہیں……

..نجف آپی اماں کے پاس بیٹھتے ھوے بولیں..

اماں………..میں نے اماں کی طرف دیکھ کر کہا

بول میری جان……..اماں چاو سے بولیں

مجھے واپس نہیں جانا وہاں……میں نے گویا بم پھوڑا ھو

اماں بدک کر دور ھوئیں مجھ سے 

کیا بک رھی ھو کشف…

خدا جانے میں ورق پر یہ کیا لکه رہا ہوں

تجهے بیان کرنے کو کچه نیا لکه رہا ہوں

جبران دروازے کی طرف ہی دیکھ رھا تھا…

بہت دیر ہوئی کشف جاچکی تھی………

یہ لڑکی سمجھ سے باہر تھی جبران کی …..کس مٹی کی بنی ھوئی ھے ..

جبران بیڈ پر اکر بیٹھ گیا…

بیڈ پے سجے گلابوں کو دیکھتے ھوے .

سائیڈ ٹیبل پہ نظر گئی وہاں ایک مخملی ڈبیا پڑی تھی..

اندر کیا تھا خود اسے بھی معلوم نہیں تھا

یہ رات امی جان نے دی تھی کشف کو دینے کے لیے  …انکو معلوم تھا کے انکے لاڈلے نے منہہ دکھائی کے لیے کچھ نہیں لیاھوگا پر موقع ھی نہیں ملا ..نا ہی جبران کا دل ھوا یہ سب چونچلے کرنے کا…..

 سوچ کا رخ پھر کشف کی طرف مر گیا

یا تو بہت معصوم ھے یا بہت بڑی اداکار….

نا کوئی احتجاج نا کوئی سوال…..

آج کل کی لڑکیاں تو دس سوال پوچھ لیتی ہیں…

کل سے دیکھ رھا تھا جبران کے وہ کسی روبوٹ کی طرح اسکی ہر بات مانے جارھی تھی……

دیکھتے ہیں کب تک اسکی یہ اداکاری قائم رہ پاتی ھے..

جبران زیر لب مسکرایا….

جیب سے پین نکالی اور پیپر لے کر کچھ لکھنے لگا ……

      ==================

اب میں کچھ سمبھل چکی تھی .…..اماں  سامنے بیٹھیں مجھے کڑے تیوروں سے دیکھ رھی تھی ....

آپی کچن میں تھیں…..

کیا بات ہے اب بتاو…..…..اماں تحمل اور پیار سے بولیں…

میں نے ایک تو آتے ھی روکر غلطی کردی تھی جس سے اماں کو سو طرح کے وسوسے آرھے تھے

مگر اب مزید اماں کو تنگ نہیں کر سکتی تھی میں….

میں اماں کو دیکھ کر خود پے قابو نہیں رکھ پائی تھی 

کیوکہ میں کبھی اماں سے ایک دن بھی دورنہیں رھی تھی…شاید اس وجہ سے بے اختیار رونا آگیا….

کچھ نہیں اماں آپکی یاد آرھی تھی ……میں خجل سی ھوکر بولی.

تو پھر یوں کیسے بولی کہ مجھے نہیں جانا واپس وہاں……اماں بھی اماں تھیں…پوری سی آئ ڈی بنی ھوئی تھیں..

ایسے ھی …..کہا نا یاد آرھی تھی آپکی اس لیے جزباتی ہوگئی……..……میں شرمندہ سی ہوئی..

اپنے گھر میں دل لگاو اب یہاں کچھ نہیں رکھا تمہارا سمجھی…..اماں کا لہجہ سخت تھا ….مجھے جبران کا انداز یاد آگیا……

ٹھیک ھے اماں …….میں نے آہستہ سے کہا ……اماں بھی پرایوں کی طرح پیش آرھی تھیں....

شام ہوئی تو بسمہ بھابھی اور ثوبان بھائی جو جبران کے بھائی تھے آئے لینے مجھے .….

کچھ دیر بیٹھے…….صبا نے مجھے تیار ھونے کا کہا

میرا دل بلکل نہیں چاہ …….

صبح والے ہی کپڑے پہنے تھے چادر لے کر باہر آگئی

اماں نے نے کھانا کھانے کی ضد کی مگر وہ لوگ نا بیٹھے کہا کہ گھر پے سب انتظار کر رھے ھیں ……

   ~~~~~~~~~~~~~

گھر آکر زیتون بانو کی دعائیں لی ناراض بھی ہوئیں وہ مجھے اس طرح سادہ دیکھ کر ….…. 

میں معزرت کر کے اوپر اپنے کمرے میں آگئی اپنا سامان رکھنے…

کمرہ صاف ستھرا اور خوشبووں سے مہک رھا تھا ….

بیڈ کی چادر بھی چینج کی ھوئی تھی….شاید کسی نے کمرے کو صاف کیا تھا ..….میں نے اپنا بیگ رکھا اور صوفہ پے بیٹھ گئی.

جبران نہیں تھا یہی میرے لیے سکون کا باعث تھا…

ایک یہ کمرہ ھے جہاں ضرورت کی ہر چیز ھے بیڈ الماری صوفہ بیڈروم فریج ڈریسنگ ٹیبل اے سی خوبصورت پردے اسٹائلش لائیٹیں ….پر مجھے یہاں سکون نہیں ملتا تھا…

اور ایک وہ میرا کمرہ تھا جہاں ایک پلنگ اور الماری اور چھت کے پنکھے اور ایک بیمار سے بلب کے سوا کچھ نہیں تھا پر اتنی سکون کی نیند آتی تھی وہاں…..

ایکدم میری نظر بیڈ کے ساتھ رکھے ٹیبل پے گئی….

وہاں کوئی میرون مخملی ڈبیا پڑی تھی…

میں کھڑی ھوئی اور قریب جا کر دیکھا بہت ھی خوبصورت ڈبیا تھی….ڈبیا کو میں نے اٹھایا تو ایک کاغذ اڑ کر میرے پیروں میں گرا….

میں نے جھک کر اٹھایا کچھ لکھا تھا اس پے….

اسلام علیکم

اپکا منہہ دکھائی کا تحفہ ھے اس ڈبیا میں لے لیجیے گا امی جان لائی تھیں مجھے کوئی تجربہ شوق  نہیں ایسی چیزوں کا 

امید ھے آپکی حیثیت سے بڑھ کر ھی ھوگی ….

ایسی.حرکت کی امید نہہیں تھی مجھے جبران سے …….قدم قدم پے وہ مجھے میری اوقات یاد دلا رھا تھا….

میں نے وہ ڈبیا وہیں رکھدی 

          ×××××××××××××××××

دروازہ دھڑ سے کھلا ….

میں اپنے بیگ سے کپڑے نکال رھی تھی ایکدم سر اٹھایا..

جبران شعلہ بار نظروں سے مجھے دیکھ رھا تھا…

میں گھبراکر کھڑی ھو گئی کہ اب کیا ھوگیا مجھ سے….

کوئی شرم کوئی احساس ھے تمہیں….بس کمرے میں آکر گھس گئی ھو باہر کی دنیا بھی دیکھ لو آکر …….جبران برس پڑا..

کک کیا ھوا…….میں کچھ بھی سمجھ نا سکی

مہمان نہیں ھو تم سمجھی …..بھابھی کب تک کرینگی ھماری خدمت .رات میں چلی جائینگی وہ اپنے گھر لاہور

  …آپی بھی جا چکی ھیں …اب کیا گھر کا کام امی جان کرینگی تمہیں یہاں بٹھانے کے لیے لائے ہیں شرافت سے گھر کے کام سمبھالو امی جان تو نہیں کرنے دینگی پر تمہیں پر تم زبردستی کرو…….جبران کڑوے لہجے میں بولتا چلا گیا

پیار سے بات کرنا بھی آتی ھے اس بندے کو یا ہر وقت بس زہر ھی اگلتا ھے یہ….میں سوچ کر رہ گئی

اور ہاں یہ ہر وقت کی مجھے یہاں نظر نا آو تم …..جب امی سوجائیں تب تم کمرے میں آوگی کان کھول کر سن لو…….اور جاو نیچے ………جبران تحکمانہ انداز میں بولا.

میں اس اچانک حملے سے اتنا ڈر گئی کے ایک لفظ نا نکلا منہہ سے اور میں جلدی سے بنا اسکی طرف دیکھے نیچے آگئی…

 =======================

میں رات دو بجے تک امی یعنی ساس کے کمرے میں ہی رہی بھائی بھابھی رات 9 بجے چلے گئے تھے گھر میں سناٹا چھا گیا تھا بھابھی تھیں ھی اتنی ہنس مکھ. …..

کچن کے کام نمٹائے .زیتون بانو بہت ناراض ہوئیں میرے کام کرنے سے پر میں نے انہیں پیار سے منا لیا

کھانا فریج میں رکھ کر امی کے پاس آگئی

کشف سوجاو بیٹا جاو بہت ٹائم ھوگیا ھے……….زیتون بانو پیار سے بولیں…

میرا بلکل دل نہیں چاہ تھا ٹی وی پے کوئی ڈرامہ چل رھا تھا

آپ سوجائیں میں بیٹھی ھوں یہیں…..نیند آئی تو چلی جاوگی…میں نے مسکرا کر کہا….

جبران نہیں ھے کیا اوپر ……..زیتون بانو شاید یہ سمجھیں کہ میں اس لیے نہیں جارھی اوپر …..

پتہ نہیں ………میں ہلکی آواز میں بولی…

اچھا……جاو اب تم اوپر ھی ھوگا وہ آرام کرو……زیتون بانو پیار سے بولیں

جی امی ……..

میں اٹھ کھڑی ھوئی……اور اوپر آگئی…

دروازے کا ہینڈل گھمایا اور آہستہ سے کھول دیا اندر مدھم سا اندھیرا تھا.…..

جبران شاید سوگیا تھا .…

وقت بھی تو اتنا ہورھا تھا…..

میں اپنی جگہ یعنی صوفہ پے آکر بیٹھ گئی …

نیند کا تو دور درو تک نام و نشان نہیں تھا….

       ====================

صبح آنکھ کھلی جبران کی تو دیکھا کشف کہیں نہیں تھی 

شاید نیچے ھوگی ….

صوفہ پے کوئی ڈائری پڑی تھی ..

ھاتھ بڑھا کر اٹھایا

ڈائری کھولی تو پہلے ھی صفحہ پے کچھ تحریر تھا

یہ کب کہتی ہوں تم میرے گلے کا ہار ہوجاؤ

وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بےزار ہوجاؤ

ملاقاتوں میں وقفہ اس لئے ہونا ضروری ہے

کہ تم اک دن جدائی کے لئے تیار ہوجاؤ

پروین شاکر

     =====================

جبران شاور لے کر فریش ھوکر نیچے آیا …

امی ڈائننگ ٹیبل پے بیٹھی ناشتہ کر رھی تھین میں کچن میں اپنے لیے ناشتہ بنا رھی تھی …..

جبران امی کے پاس ھی بیٹھ گیا…..

کشف  بیٹی جبران کے لیے ناشتہ لے آو……زیتون بانو وہیں سے پکاریں..

جی امی …….ابھی آئی……میں وہیں سے بولی 

بہت اچھی بچی ھے ……پورا گھر سمبھال لیا ھے دو دن میں….زیتون بانو خوشی سے کہنے لگیں..

میں ناشتہ بنا کر لائی.

آملیٹ ..بریڈ سلائس…اورنج جوس…

ٹیبل پے ناشتہ رکھ کے میں چائے کپ میں انڈیلنے لگی...

ایک منٹ رکو ………..جبران بولا 

…میرے ھاتھ رک گئےاب کونسا امتحان باقی ھے  ….میں سوالیہ انداز میں اسکی طرف دیکھنے لگی …

میں یہ ناشتہ نہیں کرونگا ……پراٹھا بنا کے لاو…اتنا بھی پتہ نہیں کہ شوہر کیا کھاتا ھے ناشتے میں….جبران اطمینان سے بولا…

اس ناشتے کا میں بولی تھی کشف کو کہ تم روز یہ کھاتے ھو………زیتون بانو بگڑ کر بولیں

آج نہیں کھانا مجھے یہ …….جبران ضدی انداز میں بولا ….

جاو پراٹھا بنا کے لاو……..جبران نے میری طرف دیکھتے ھوے کہا…

میں چپ چاپ کچن کی طرف آگئی…

جبران بلاوجہ کیوں تنگ کر رھے ھو….زیتون بانو سختی سے بولیں

 میں پراٹھا بنا کر دینے آئی 

جبران نے پراٹھے کا معائنہ کر کے اسے قبول کر لیا

اب تم بھی ناشتہ کر لو کشف …...زیتون بانو بولیں …

میں کپ میں چائے لے کر بیٹھ گئی امی کے پاس ہی….

جبران ……..شام میں فہمیدہ پھوپھو کےیہاں کھانے پے بلایا ھے جلدی آجانا تم……..زیتون بانو جبران سے مخاطب ھوئیں

اف …….منع کر دیتی آپ ….مجھے کتنی الجھن ھوتی ھے آپکو پتہ ھے نا….جبران چڑ کر بولا

کوئی ضرورت نہیں …..جانا پڑے گا سمجھے …ورنہ انکو برا لگ جائگا….زیتون بانو اٹل لہجے میں بولیں…..

کشف……..اب وہ میری طرف متوجہ تھیں…..

جی ….امی ……..میں نظریں اٹھا کر ہلکی آواز میں کہا

تیار رہنا شام میں اچھی سی……زیتون بانو بولیں

ٹھیک ھے …..میں نے کہہ تو دیا تھا پر میرا بلکل دل نہیں تھا جانے کا اس کھڑوس کے ساتھ کہیں بھی جانے کا……

جبران جا چکا تھا …میں برتن سمیٹ کر کچن میں آگئی تھی……کچن کا کام نبٹا کر میں نے ڈسٹنگ کی گھر کے نیچے پورشن کی زیتون بانو کا کمرہ دوسرا کمرہ تو بھائی. بھابھی آتے تب ھی کھلتا تھا….ورنہ بند ھی رھتا تھا….جبران کے بھائی ثوبان ساتھ ھی رہتے تھے پھر سرکاری جاب تھے انکئ پھر انکا ٹرانسفر ھوا لاہور میں تو جانا پڑا…

کام سے فارغ ھو کر میں اوپر آگئی اپنے کمرے میں..

یہاں بھی صفائی کرنی تھی ..کمرہ بہت ابتر حالت میں تھا …

جبران نے تولیہ اپنے میلے کپڑے سب بیڈ پے پھیلائے رکھے تھے 

اتنا غصہ آیا….

میں نے بیڈ شیٹ چینج کی ..جھاڑو پونچھا کیا …اور نیچے آگئی ..

کھانا بھی بنانا تھا ….

امی کھانے میں کیا بناوں…..میں زیتون بانو کےپاس بیٹھتے ھوے بولی…

ابھی تو کچھ بھی کھا لیں گے …شام میں تو تم لوگ کھانے پے جاوگے نا …..میرے لئے شام کے لیے کچھ بنا دینا ….زیتون بانو مسکرا کر بولیں….

آپ نہیں چلیں گی ھمارے ساتھ کھانے پر....میں نے حیرت سے پوچھا..

ارے میرا کیا کام تم نئے دلہا دلہن کے ساتھ ….زیتون بانو ہنسنےلگیں….

چلیے گا نا مجھے اچھا نہیں لگے گا آپکے بغیر… …مجھے واقعی میں اچھا نہیں لگا میں اداس ھوگئی 

نہیں بیٹا تم لوگ جاو میرے ویسے بھی جوڑوں میں درد ھے بہت….زیتون بانو پیار سے بولیں

اچھا…………..میں چپ ھوگئی ….

 ==================================

آفس میں آج بہت کام تھا ..جبران کو نہیں لگتا تھا کہ وہ جا پائے گا

پر امی خفا ھوجائےگیں اگر نا گیا تو…

جبران ایک پرائیویٹ فرم میں نوکری کرتا تھا سیلری اچھی تھی اور باقی سہولیات بھی …….

جبران سوچنے لگا آج تو جان بوجھ کر کمرہ پھیلا کر آیا ھو …..کشف میڈم نیچے کے کاموں سے فارغ ھوگی تو اوپر جائےگی نا ..پھر امی کو بتاو گا انکی سلیقہ مند بہو کی سلیقہ مندی…..جبران مکاری سے مسکرایا……

====================================

امی سے اجازت لے کر میں  اوپر آگئی میں…..

سمجھ نہیں آرھی تھی کیا پہنوں….الماری کھولے سوچ رھی تھی میں …..

پھر نیوی بلیو ڈریس نظر آیا …. شاید بری کا جوڑا تھا پر تھا بہت پیارا….لانگ شرٹ اور چوڑی دار پجامہ تھا ساتھ …..

اسی کو پریس کر لیا…

شاور لیا اور یہی ڈریس پہن لیا بالوں کی چوٹی بنا لی ڈھیلی سی ….ہلکا میک اپ کیا ….چھوٹے سے بندے پہن لیے کانوں میں..ھاتھوں میں چوڑیاں.

پھر یاد آیا جبران کیا پہنے گا……

اسکی الماری کھلی کپڑے بکھرے پڑے تھے 

پہلے ان سب کو ترتیب سے رکھا پھر ایک بلیو جینز کی پینٹ اور وائٹ شرٹ اور ایک لائٹ گرین شلوار کرتا نکال لیا اور بھی دو جوڑے نکال لیے کیس معلوم کونسے پہنےگا وہ

پریس کر کے ہینگ کر دیا الماری میں

اور میں پھر نیچے آگئی کیوکہ جبران کا آنے کا ٹائم تھا مجھے اوپر دیکھ پھر غصہ آتا اسکو……

…ارے اتنی سادہ تیار ھوئی ہو تم کشف………..زیتون بانو حیران رہ گئیں

اتنا تو تیار ھوئی ھوں….میں مسکرائی..

نئی دلہن ایسے تیار نہیں ھوتی …….زیتوںبانو سمجھاتے ھوے بولیں…

بس ٹھیک ھے امی ……..میں اتنا ہی کہہ سکی ….آگے بولنے کی ھمت ھی نا ہوئی…

کس کے لیے تیار ھوتی میں…..جس کو میرے ہونے نا ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا…..

جبران آگیا تھا…..

اتنا تیار کس خوشی میں ہوئی ھو  کھانے پے جارہے ہیں شادی میں نہیں….….مجھے دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولا

جبران…..…….زیتون بانوکی کڑکتی آواز ابھری.

جاو اور تیار ھو کر نیچے آو کشف تیار ہے …

اوکے امی جان………جبران مجھے گھورتے ھوے اوپر چلا گیا

اوپر آو تم ……..مجھے کہہ کر جبران چلا گیا..

ہاں جاو کوئی کام ہوگا …..زیتون بانو پیار سے بولیں.

میں مرے مرے قدموں سے اوپر آگئی…

جبران بیڈ پے بیٹھا موبائل میں کچھ ٹائپ کر رھا تھا..

میں کھڑی رہی ….

الماری کھولو اسکی حالت دیکھو …یا امی کو بلا کر دکھاو ….تمہارا سگھڑ پن……انکو بہت شوق ھے نا تمہاری تعریفوں کا....

نا ھی تمہیں یاد تھا کہ میرے کپڑے پریس کر دو..اپنی تیاری خوب یاد تھی.... گھر کے کام ہر لڑکی کرتی ھے تم اکیلی نہیں ھو جو پورے گھر کا کام کرتی ھو …..ساتھ میں شوہر کے بھی حقوق پورے کرتی ھہیں وہ لڑکیاں لیکن ایک تم ہو کہ..….جبران نان اسٹاپ شروع ھوگیا…

میں بس اسکی میرے لیے نفرت اور بے زاری دیکھتی رہی دکھ اس بات کا ہو رھا تھا کے وہ بس میری غلطیاں ہی ڈھونڈتا ھے شوہر کے حقوق یاد تھے اسےبیوی کے بھول گیا تھا وہ شاید …

میں نے آگے بڑھ کر الماری کھولدی…

جبران بولتے بولتے رک گیا..

الماری بلکل سلیقے سے سیٹ تھی 

میں نے اندر سے پریس کیے ھوے سارے کپڑے نکال کر بیڈ پر اسکے پاس رکھ دیے ……

جو بھی اپکو ٹھیک لگے اس میں سے پہن لیں….. نہیں سمجھ آرھے تو مجھے کوئی اور نکال دیں میں کر دیتی ہوں ….میں نے آہستگی سے کہا.

جبران بنا کچھ بولے شلوار کرتا اٹھا کر باتھ روم میں چلاگیا…

میں نیچے آگئی امی کے پاس

====================================

میرے چارہ گر تجھے کیا خبر.

تیری یاد میں یونہی عمر بھر

میں سلگ سلگ کے فنا ہوئی

کیا تجھے بھی ہے اسکی خبر.

کہ جو راکھ میرے بدن کی تھی

وہ کہیں ہواوں میں کھو گئی

مگر اے میرے ہمسفر 

تیرے قدموں کی اب تو یہ دھول ھے….

ہم آگئے تھے جبران کی زہرہ پھوپھو کے گھر ….بہت ملنسار اور اچھی خاتون تھیں وہ …انکی ایک بیٹی فضہ اور ایک بیٹا فارس تھا بیٹی شادی شدہ تھی…بیٹی بھی آئی ہوی تھی یہاں بیٹے کی آبھی شادی نہیں ہوئی تھی ……جبران تو باہر انکے بیٹے کے پاس بیٹھ گئے میں اندر پھوپھو کے پاس آگئی  

ارے کشف بھابھی اتنی سادہ کیوں تیار ہوئی ھو …….شادی ہوئی ھے ابھی اپکی …کیا جبران منع کرتا ھے ….…انکی بیٹی فضا بولی..

نہیں.تو …..میں خود سادہ رہنا پسند کرتی ہوں…..میں مسکرا کر بولی…

خود تو فیشن ایبل ھے جبران کہتا نہیں کہ کچھ اچھی تیار ہوجایا کرو…اسکو تو فیشن ایبل لڑکیاں ھی پسند ھے …ایسی سادی لڑکیوں سے تو وہ ہمیشہ چڑتا تھا……..فضہ تمسخرانہ انداز میں بولی

نہیں کچھ نہیں بولتے…….میں آرام سے بولی

…کالج کی ایک لڑکی تھی جو بہت ھی فیشن ایبل تھی جبران تو پاگل تھا اسکے پیچھے…..پر ممانی جان نہیں مانی ورنہ تم نہیں ھوتی یہاں…….فضہ تنقیدی انداز میں بولی.

اچھا   .……..میں اور کیا بولتی .ہر جگہ سوال کے جواب دینے ہونگے مجھے معلوم نہ تھا جبران کو جب کوئی اور پسند تھی وہیں کر لیتا نا  ….ایک زیتون بانو واحد وہ شخصیت ھیں میرے سسرال میں جو مجھ سے کبھی کوئی جرح نہیں کرتیں….

………فضہ کو شاید مایوسی ہوئی…مجھ سے زیادہ جواب نہیں ملے اس لیے

فضول مت بولو فضہ جاو کھانا لگاو ……..زہرہ بیگم سختی سے بولیں….

برا مت ماننا بیٹا زیادہ بولنے کی عادت ھے اسے ……زہرہ بیگم معذرت کرتے ھوے بولیں

کوئی بات نہیں ….میں بمشکل  مسکرا کر بولی….

کھانا بہت اچھا تھا پر مجھ سے کھایا نہیں گیا زیادہ…. کیوکہ نئے لوگ تھے جھجھک ھورھی تھی مجھے…جبران تو شاید مجھے ساتھ لاکر بھول گیا تھا.…ایک بار تو بات کی ھو اس نے….پھوپھو کی فیملی اچھی تھی مجھے مل کے اچھا لگا ….بس انکی بیٹی تھوڑی تیز تھی….

کچھ دیر بیٹھ کر جبران کھڑا ھوگیا بہت ٹائم ھوگیا تھا …امی بھی اکیلی تھیں…سب سے مل.کر ہم گھر کے لیے نکل گئے ….

گاڑی میں بیٹھ کر بھی ہم جیسے اجنبی تھے جبران بھی خاموش اور میں بھی ….

اسکا مطلب ھے کہ میں زبردستی شامل کردی گئی ھوں اسکی زندگی میں   …….فضہ کی بات یاد آگئی مجھے

….اسے کوئی دلچسپی نہیں مجھ میں نا ہی کبھی ھوسکے گی …کیوکہ انسان اپنا پہلا پیار کبھی نہیں بھولتا…

چاہے میں کچھ بھی کر لوں اسکے دل میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں بنا پاوگی…. میں نا فیشن ایبل ہوں نا ھی اسکے میعار کی ھوں…نا اسکے اسٹیٹس کی ھوں….بس ہمیشہ اسکے آگے جھک کے رہونگی تو مجھے رہنے دیا جائگا اگر کبھی زبان کھولی تو مجھے اماں کا گھر دکھا دیا جائگا ….بس یہی میرا مستقبل ھے مجھے نظر آرھا تھا …

گود میں ہاتھ رکھےمیں سوچے جارہی تھی…….

میں بھی آپکے ساتھ آیا ھوں ….شاید بھول گئی ہیں آپ……..جبران کی آواز پے میں سوچوں کے سمندر سے باہر آئی….

جی………میں سمجھی نہیں کیوکہ.میرا دل و دماغ تو خیالوں میں تھا…چونک کر بولی

یہی بات ویسے مجھے بولنی چاہیے تھی کہ میں بھی ساتھ آئی ھوں آپکے…

امی جان نے کہا تھا کہ آتے وقت تمہیں تمہاری امی کے وہاں چھڑ دوں….جبران ونڈاسکرین پے نظریں جمائے بولا…

میں کیا بولتی ..کیوکہ مجھے نہیں کہا تھا جبران کی امی نے…..پر اسکی بات پے ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی میرے رگ و پے میں….

پر بہت دیر ہوگئی ھے اور تم نے بھی نہیں کہا  کے لے چلو امی کے گھر …اس لیے جانا کینسل…….جبران مسکراہٹ دبائے بولا..

مجھے اتنا غصہ آیا اس پے ….خود رہے اپنی امی سے دور تو میں پوچھوں وہ بھی ایسے کھڑوس شوہر کے ساتھ……آگ سی لگ گئی میرے اندر …پر برداشت کر کے کہا.

مجھے نہیں جانا…..

ارے کیوں نہیں جانا……..میں تو لے جانے کا سوچ رھا تھا…..جبران بولا

کیوکہ کے میں نے امی سے نہیں پوچھا…..میں نے زیتون بانو کا کہا

انہوں نے ھی تو کہا کہ لے جانا ……جبران میری طرف دیکھ کر بولا…

میں ان سے بنا پوچھے کہیں نہیں جاوگی وہ خود کہیں گیں مجھے تب ہی جاوگی….مجھے انکے ساتھ پورا دن اور رات رہنا ہوتا ھے لہذا انکے بنا پوچھے کوئی کام نہیں کروگی میں…..میں نے قطیعت بھرے انداز میں کہا….اور لفظ انکے ساتھ پے زور دیا ….

جبران نے اب حیرت سے مجھے دیکھا ….شاید میں اتنے دنوں میں آج کچھ ذیادہ بولی تھی اس لیے جبران کو حیرت ھوئی…..

میں نے اسکی طرف دیکھا ھی نہیں …مجھے اس سے کوئی امید  ہی نہیں تھی اب ..پہلے کچھ امید تھی مجھے کہ شاید اسکا دل میرے لیے نرم ھوجائے …پر اب فضہ کی باتیں سن کر اندازہ ھوا ھے مجھے کہ کچھ بھی کرنا اس انسان کے آگے بیکار ھے …..مجھے شاید اس نے نوکرانی سے بھی بدتر سمجھا تھا ….گھر کے کام امی کی خدمت…..

 یہ ھوتی ہے بیوی ….یہ ھوتے ھے بیوی کے حقوق 

بیوی نہیں نوکرانی کی ضرورت تھی اسکو بس تو میں کرتی رھونگی انکی خدمت اور مجھے کچھ چاہیے ھی نہیں اس سے ….

  ==================================

گھر ائے تو اگیارہ بج چکے تھے  آکر جبران امی کے کمرے میں گیا امی سوچکی تھی ….

میں بلاوجہ کچن میں آگئی تھی 

….

میں نے دودھ گرم کیا اور جبران کی امی کے کمرے میں آگئی…..

جبران اب موجود نہیں تھا شاید اوپر چلا گیا تھا …میری بلا سے جہاں بھی جائے میں نے سر جھٹکتے ھوے سوچا

میں نے دودھ رکھ دیا وہ کچھ کچھ دیر میں اٹھتی تھیں نیند بہت کچی تھی انکی…اس لیے دودھ رکھا کہ جب بھی جاگیں گیں دودھ پی لیں گیں

میں اسی کپڑوں میں وہیں امی کے کمرے میں رکھے تخت پے لیٹ گئی…

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی.اپنے نصیب پے رونا آرہا تھا تو کبھی ہنسی…

میری کشف تو رانیوں کی طرح راج کرےگی….اماں کی آواز میرے کانوں میں گونجی

دیکھ لینا کتنی خوش رھےگی اپنے گھر میں .محلوں جیسا گھر ملےگا.. ..اماں اسے ساتھ لپٹاتے ھوے بولیں تھیں….

ہاں اماں دیکھو مجھے محل مل گیا ھے مگر میں اس میں راج نہیں کرتی حکم مانتی ھوں ..اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتی…

رانی نہیں داسی ہوں میں….

میری آنکھیں بھیگنے لگی……

   =================================

جبران اوپر آگیا ….کپڑے چینج کیے …ٹی وی آن کیا اور چینل بدلنے لگا….

ذہن میں ایک بات اٹک گئی تھی …

میں ان سے بنا پوچھے کہیں نہیں جاوگی وہ خود کہیں گیں مجھے تب ہی جاوگی….مجھے انکے ساتھ پورا دن اور رات رہنا ہوتا ھے لہذا انکے بنا پوچھے کوئی کام نہیں کروگی میں……

مطلب میری بات کی کوئی اہمیت نہیں….

بڑی گہری بات کر گئی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی جبران کچھ نا بول سکا کشف سے..

ابھی تک وہ کمرے میں آئی بھی نہیں

جبران صاحب آپ نے اپنی اہمیت بنائی کب ہے اس لڑکی کے سامنے…….اندر سے آواز آئی

ہمیشہ تو اسے جوتے کی نوک پے رکھا ھے بدلے میں تو یہی ملےگا..

کبھی بیوی سمجھا ھے اسے..

مگر میری پسند نہیں وہ کیسے بیوی مان لوں اسکو

جبران بڑبڑانے لگا..

یہ لڑکی کیوں میرے دماغ پے سوار ھے ..ہے کیا اس میں جو میں اتنا سوچ رہا ہوں اسکے بارے میں عام سی شکل و صورت کی لڑکی ہے …کوئی بھی تو خاص بات نہیں اس میں…جو میں اس کی طرف مائل ہوجاوں …. جبران نے خود کلامی کی ..

پر یہ اب تک اوپر آئی کیوں نہیں.. ناراض ہے تو کس بات پر ..میں نے کچھ بھی غلط نہیں کہا اسکو گاڑی میں.. ….کشف جان بوجھ کر امی کو بات کرنے کا موقع دے رھی تھی…امی نے اسکو نیچے دیکھ لیا تو مسئلہ ہوجائےگا 

میرا جینا حرام کر دینگیں امی ………..

بلاوجہ میں یہ لڑکی کوئی ایشو بنوائےگی …

افف شادی ہی نہیں کرنی چاہیے جبران نے زچ ہو کر سوچا…

کرتا ہوں اسکا بھی علاج کچھ …..

جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا

______________________________________

رات کے دو بج چکے تھے ..میری آنکھ لگ ھی نہیں رھی تھی….

مجھے امی کے کھانسنے کی آواز آئی ….کھانسی رک ھی نہیں رہی تھی 

میں جلدی سے کھڑی ھوئی ….

باہر جاکر پانی لے آئی ….

امی …….پانی پیں لیں ….امی …..میں نے جلدی سے انکو سہارہ دیا…

تم یہاں کشف ….کب آئی ……..…زیتون بانو ہانپتے ھوے بولیں..

وہ میں پانی پینے آئی تھی تو آپکی آواز آئی…مجھے فلحال یہی بہانہ سوچھا

اچھا اچھا…….جاو اب میں ٹھیک ہوں….آرام کرو بیٹی……زیتون بانو اب سمبھل چکی تھیں…

نہیں میں یہی ہوں آپ.آرام سے سوجائیں …..میں نے انکو کمبل اوڑھاتے ہوے کہا…

اچھا….وہ اب ریلکس لگیں مجھے …….پتہ نہیں کیوں ان سے اتنی انسیت ھوگئی تھی انکی تکلیف پے مجھے چین نہیں آتا تھا…سچ میں مجھے ان میں اماں نظر آتی تھیں

کھانسی رک نہیں رہی تھی انکی…

وقفہ وقفہ سے ہورہی تھی..

انکو بخار بھی تھا مجھے محسوس ہوا تھا ..انکو کمبل اوڑھاتے ہوے..

مجھے بے چینی سی  ہوئی ..میں اٹھ کھڑی ہوئی…..

سوچا کہ جبران کو جگاتی ہوں کوئی دوائی لے آئے وہ امی کے لیے..

          _____________________________________

نیچے سناٹے چھایا ہوا تھا…..جبران دبے پاوں سیڑھیاں اتر رہا تھا...

جبران زیتون بانو کے کمرےکی طرف بڑھا پر کشف کی آواز پے قدم رک گئے جبران کے.

  شاید وہ کچھ بول رہی تھی زیتون بانو سے.

جبران نے ہلکا سا آگے جھک کر دیکھا تو کشف کمبل اوڑھا رھی تھی..

یہ ابھی تک جاگ رہی ہے 

جبران سمجھا وہ سوچکی ہوگی مزے سے

پر یہ ابھی تک جاگ رہی تھی اس کی ماں کے لیے…

جبران کو ایک لمحے کے لیے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا اور کشف خود سے بلند لگی

…میری ماں ہے پر اولاد کی طرح تو یہ خیال رکھ رہی ھے رات کو اپنی نیند برباد کر کے …

مزے سے تو میں  وہاں آرام کررھا ہوں….

عام سی لڑکی بہت خاص لگی جبران کو اس وقت…

ایکدم کشف سامنے آگئی…جبران چونک گیا

     ________________________________________

میں دروازے سے باہر آئی تو جبران سے ٹکراتے ھوے بچی…وہ بلکل دروازے کے ساتھ کھڑا تھا میں جلدی میں تھی اس لیے وہ نظر نہیں آیا…

نظر نہیں آتا کیا اندھوں کی طرح چلتی ہو…اور کر کیا رہی ہو ابھی تک یہاں….جبران نے تو جیسے ہر وقت کڑوے کریلے چبائے ھوتے ہیں…چڑ کر بولا

اسے دیکھ کر میرا موڈ ویسے ہی خراب ہوجاتا تھا اور ابھی بھی ہوچکا تھا...

امی کی طبیعت ٹھیک نہیں……پلیز کوئی دوائی لادیں وہ سو نہیں پارہیں……میں نے اسکی فالتو باتوں کو نظر انداز کر کے فکر مندی سے بولی

کیا ہوا امی کو ……..جبران بھی پریشان ہوا اور امی کے پاس گیا

بہت کھانسی ھے ……..سو نہیں پا رہیں…اور شاید بخار بھی ہے انکو…..میں بولتی ہوئی پیچھے گئی اسکے…

امی طبیعت ٹھیک نہیں تو ہسپتال چلتے ہیں…..جبران ہلکے سے پکارا…

نہیں جبران میں ٹھیک ہوں …کشف بلاوجہ میں پریشان ہورہی ہے……زیتون بانو اب سہی لگیں..

اچھا مجھے اٹھا دیتیں آپ ……اگر طبیعت خراب تھی….جبران شرمندہ ہوکر بولا

کشف ہے نا بیٹا ….اکیلی نہیں چھوڑتی مجھے آدھی رات کو بھی پتہ نہیں کہاں سے آجاتی ہے یہ بچی. بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی …....زیتون بانو پیار سے میری طرف دیکھ کر بولیں

پتہ نہیں کیا تھا انکے لہجے میں مجھے اماں یاد آگئیں… میری آنکھیں بھیگنے لگی

میں کھڑی ہوکر باہر آگئی..

_____________________________________________

جبران نے پلٹ کر دیکھا کشف نہیں تھی وہاں

جبران……….ایک وعدہ کرو مجھ سے …….زیتون بانو نے جبران کا ھاتھ پکڑ لیا..

جی امی بولیے …..جبران نے انکا ھاتھ اپنے ھاتھوں میں لیتے ہوے کہا

اس لڑکی کو کبھی رلانا نہیں .بہت اچھی بچی ہے قدر کرنا اسکی...نصیب والو کو ایسی بیوی ملتی ہے لوگ ایسی بیوی کے خواب دیکھتے ہیں بیٹا

 بہت اچھی عادت کی مالک ہے .شکل صورت کو کبھی اہمیت مت دینا انسان کی سیرت دیکھنا ہمیشہ..اچھی صورت والے اکثر دل ہی دکھا جاتے ہیں …تم اپنی ہی مثال لے لو …کشف کو کتنا خوش رکھا تم نے ان چھ دنوں میں .مجھے نظر آرہا ہے ….اور اس کم صورت لڑکی نے کتنا ہم دونوں کو خوش رکھا ہے وہ بھی تمہارے سامنے ہے

میں جانتی ہوں تمہارا رویہ اسکے ساتھ کیسا ہے .پر جبران ایسا کچھ مت کرنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے..اچھے لوگ بار بار نہیں ملتے……………….زیتون بانو دھیمے انداز میں جبران کی طرف دیکھتے ہوے بولیں…شکایت تھی انکے لہجے میں تنبہہ تھی نصیحت تھی

جبران سے کچھ بولا نہیں گیا …..خاموشی سے زیتون بانو کے ھاتھ سہلاتا رہا…

کچھ غلط تو وہ کہہ نہیں رہی تھیں…..

جاو اب آرام کرو اسکو بھی کہو اوپر جاکر آرام کرے…..زیتون بانو مسکراتے ہوے بولیں

میں یہیں سوجاوں آپکے پاس…..جبران شرمندہ سا تھا…

نہیں اپنے کمرے میں جاو سکون سے سوجاو …..میں ٹھیک ہوں…..زیتون بانو قطیعت بھرے انداز میں بولیں…

جبران کھڑا ہوکر باہر آگیا..

_____________________________________________

میں باہر آگئی تھی برآمدے میں 

ان ماں بیٹے کے درمیان بیٹھ کر کیا کرتی میں 

…..کیاریوں میں لگے موتیا کے پودے میں لگی موتیا کی ادھ کھلی کلیوں سے پورا آنگن مہک رہا تھا

عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا تھا باہر آکر...

اماں کی یاد ابھی بھی آرھی تھی پر بول نہیں سکتی تھی .

جب جبران کی امی کہیں گی تب ہی جاوگی ..کیوںکہ اماں کہتی تھیں کہ ….سسرال میں بار بار ماں کے گھر کی باتیں نہیں کرنی چاہیے..برا لگتا ہے سسرال والوں کو ..

انکھیں پھر چھلکنے کو بے قرار تھی …

کب تک یہاں بیٹھنے کا ارادہ ہے چلو اندر رات بہت ہوگئی ہے امی فکر کر رہی ہیں تمہاری……..جبران کی اواز پے میں چونک گئی..

میں نے سر اٹھا کر دیکھا … اور بنا کچھ بولے کھڑی ہوگئی.اور اندر آگئی….

جبران دیکھتا ہی رہ گیا

زیتون بانو کے کمرے میں آئی تو وہ جاگ رہی تھیں….

کشف گئی نہیں تم ابھی تک کمرے میں…جاو بہت رات ہوگئی ہے …..زیتون بانو رسانیت سے بولیں…

اچھا کوئی کام ہو مجھے بلا لیجیے گا ……میں نے ان سے کہا

ہاں میری بچی ……تم جاو….زیتون بانو مسکرا کر بولیں

اب اوپر جائے بنا کوئی چارہ نہیں تھا ….

میں اوپر آگئی ..

جبران بیڈ پے بیٹھا تھا لیپ ٹاپ پے نظریں جمائے …

میں صوفہ پے آکر لیٹ گئی ….

اگر تم چاہوں تو بیڈ پے سو سکتی ہو میں صوفہ پے سوجاتا ہوں…. جبران بدستور لیپ ٹاپ پے نظریں جمائے بولا

میں نے حیرت سے اسے دیکھا..

ایک دن تو سو کر دکھاو صوفہ پے  تو میں مان جاو تمہیں مسٹر جبران..………میں سوچ کر رہ گئی.. کہنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں….

شکریہ……….…..فقط اتنا کہہ کر میں کروٹ لے کر صوفہ پے سوگئی….

     _________________________________________

میں اپنے لیے ناشتہ بنا رہی تھی …جبران اور امی ناشتہ کر چکے تھے ..…تب ہی مجھے اپنے عقب میں آواز آئی جبران کی….

سنو…….

میں نے پلٹ کے دیکھا ….

شام میں تیار رہنا تمہاری امی کے گھر چھوڑ دونگا ایک دو دن رہ لینا وہاں…….جبران نے میری طرف دیکھتے ہوے کہا…

مجھے نہیں جانا…..میں دوبارہ چولہے کی جانب مڑ گئی….

 یہ میں نے نہیں امی نے کہا ہے تم چاہو تو پوچھ سکتی ہو …..جبران شاید اپنے غصے کو قابو کرتے ہوے بولا….

امی ٹھیک ہوجائینگی تب جاوگی اماں کے گھر رہنے ..ابھی امی کا خیال کون رکھے گا…اگر میں چلی گئی تو……….میں نے اسی پوزیشن میں کھڑے جواب دیا….

میں رکھ لو گا امی کا خیال تم سے پہلے بھی تو وہ اکیلی رہتی تھی نا ………جبران طنزیہ انداز میں بولا.

تب  اور بات تھی …میں نہیں تھی….اب میں ہوں …اور جب میں ہوں تو میں نہیں چھوڑ سکتی انکو  طبیعت خرابی میں………..میں نے قطیعت بھرے انداز میں کہا..

جبران لاجواب ہوگیا…….

مرضی تمہاری .بعد میں پھر شکایتیں مت کرنا امی سے میری……جبران جاتے ہوے بولا

مجھے آگ لگ گئی اسکی بات پے ….وہ کبھی لحاظ نہیں رکھتا تو میں کیوں رکھوں….

کب کی آپکی شکایت میں نے آپکی آمی سے ……میں اب پلٹ کر بولی پر وہ جا چکا تھا…

ہہہ کھڑوس ……..میں بڑبڑائی….

    _________________________________________

حضور آگئے ہیں 

حضور آگئے ہیں

حضور آگئے ہیں

انوکھا نرالا

وہ ذیشان آیا

وہ سارے رسولوں کا

سلطان آیا

ارے بادشاہوں 

ارے کج کلاموں 

نگاہیں جھکاوں 

حضور آگئے ہیں

سماں ہے ثناء حبیب خدا کا

یہ میلاد ہے سرور انبیا کا

درودو کے گجرے سلاموں کے تحفے

غلاموں سجاو حضور آگئے ہیں

حضورآگئے ہیں

عید میلاد النبی کی میلاد جاری و ساری تھی

زیتون بانو نے گھر میں ربیع النور کی مناسبت سے آج میلاد کا انعقاد کیا تھا…..سب ہی نے پڑھا …میں نے یہ نعت پڑھی …جو سب سے زیادہ زیتون بانو کو پسند آئی….

ڈھیروں بلائیں لے لی میری انہونے

تمہاری بہو تو بہت اچھا پڑھتی ھے زیتون …….پڑوس والی آنٹی خولہ بولیں…

ہاں مجھے بھی آج ہی اسکے یہ گن پتہ چلے …زیتون بانو ہنستے ہوے مجھے ساتھ لگاتے ہوے بولیں…

میں مسکرا دی

آج میں بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھی…..میرے لیے امی نے مطلب زیتون بانو نے وائٹ گھیردار فراک بنوایا تھا ساتھ چوڑی دار پاجامہ…

اماں کو بھی کہلوایا تھا پر وہ نہیں آئی تھی اس لیے میں تھوڑی اداس تھی صبح سے انتظار تھا مجھے انکا…

میں باہر آئی کہ شاید وہ آئی ہو ….

مجھے جبران کی پھوپھو کا بیٹا فارس نظر آیا

کسےجبران کو ڈھونڈ رہی ہیں آپ بھابھی .…….وہ مسکراتے ہوے بولا

نہیں تو…….میں جزبز ہوئی

تو پھر مجھے ڈھونڈ رھی تھی کیا ……وہ شرارت سے بولا

میں اسکو حیرت سے دیکھنے لگی .میں کیوں ڈھونڈوگی اسکو…کیسی باتیں کر رھا تھا وہ

ارے مذاق بھی نہیں سمجھتی کیا آپ….وہ ہسنے لگا

اچھا …..مجھے اسکے مذاق اچھا نہیں لگا تھآ

مجھے فارس کی باتوں سے کوفت ہورہی تھی

اتنے میں جبران آتا دکھائی دیا……..

گاڑی سے اترتے …گاڑی لاک کرتے اسکی نظر مجھ پے ہی تھی ..پر اس نظر میں پیار نہیں تھا

نارضگی تھی

مجھے دیکھ کر اسکے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے …ناجانے کیوں   میں نے اداسی سے سوچا….

جبران پاس آکر ناگواری سے بولا 

اندر جاو کشف …یہاں کیا کام ہے تمہارا……

جبران صاحب آپکی بیوی کو کھا تو نہیں جائے گے ہم …….فارس ہنستے ہوے بولا

تم سے کیا کہا میں نے کشف…….جبران فارس کی بات کو نظر انداز کر کےتیز آواز میں مجھے بولا

میں اسکے لہجے میں چھپی تلخی محسوس کر گئی تھی اس لیے میں جلدی سے اندر آگئی……

   ¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو 

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو 

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو 

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو 

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سرِ بام 

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو 

ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے 

ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو 

یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو 

جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ 

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو 

بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے 

دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو

جبران کب سے گھورے جارہا تھا مجھےمیں صوفے پے سر جھکائے بیٹھی تھی……

قصور صرف اتنا تھا کہ جبران کے کزن فارس سےمیں نے بات کر لی تھی

مجھے اب تم نظر آئی اس سے بات کرتے ہوے تو میں کوئی لحاظ نہیں کرونگا تمہارا…سخت نفرت ہے مجھے ایسی عورتوں سے جو مردوں کت ساتھ ہنس ہنس کے باتیں کرتی ہیں…………جبران سخت لہجے میں بولا

ویسے کونسا کرتے ہو لحاظ …..میں نے ہلکا سا بڑبڑائی

زہر لگتا ہے مجھے وہ سمجھی تم …….…جبران ناگورای سے بولا…

اور مجھے تم …….میں نے سوچا

بس میں سوچ ہی سکتی تھی یہ باتیں..…

سمجھ آگئی کہ نہیں میری بات؟……جبران اب آرام سے پوچھ رہا تھا….

میں نے صرف اثبات میں سر ہلا دیا..اور کھڑی ہوکر جانے لگی…

رکو اور بیٹھو بات ختم نہیں ہوئی میری…….جبران نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا….

میں بیٹھ گئی……

تم نے وہ …..جو میں نے….. اس دن یہاں ڈبیا رکھی تھی وہ کیوں نہیں لی…ابھی تک رکھی ہے دراز میں..جبران رک رک کر بولا

بولنے کو بہت کچھ تھا پر میں چپ رہی ….کیوکہ چپ رہنا ہی بہتر تھا..

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے ……جبران بلند آواز میں بولا

مجھے نہیں چاہیے تھا اس لیے رکھ دیا……..میں بمشکل بولی .

بار بار یہ شخص مجھے کیوں مشکل میں ڈال.دیتا ھے ….

واہ بہت خوب امی کے دیے ہوے تحفے کی یہ اہمیت……..ویسے تو امی امی بولتے منہہ نہیں تھکتا تمہارا……یا وہ سب بس دکھاوا ہے امی کا دل جیتنے کے لیے…….میرا نہیں تو امی کا سمجھ کر ہی رکھ لیتی…………… ….جبران زہر اگلنے لگا….

میں اسکا منہہ تکتی رہ گئی …

کوئی صفائی کوئی دلیل اسے مطمئن نہیں کر سکتی تھی

کیا ہے یہ بندہ میری سمجھ سے باہر تھا کتنا غلط سوچتا تھا

کسی کے جذبات یا احساسات کی اسکو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی 

بس جو دل میں اتا بولتا چلا جاتا تھا

خود نے کس طرح دیا منہہ دکھائی کا تحفہ یہ یاد نہیں..

جواب بھی کبھی دے دیا کرو پاگلوں کی طرح بولتا رہتا ہو بس میں ہی ……….جبران چٹخ کر بولا. ..

مجھے کام ہے کچن میں………میں بہانہ کرتے ہوے کھڑی ہوئی….

الجھن ہوتی تھی مجھے اسکے ساتھ…….

جبران دیکھتا رہ گیا………….

 ¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

آج موسم بہت اچھا تھا ……آسمان پے بادل چھائے ھوے تھے 

بارش ہو سکتی تھی..

…..پر مجھےمعلوم نہ تھا کہ یہ میری زندگی کا سیاہ ترین دن ہوگا

 ……زیتون بانو کی طبیعت کچھ ناساز تھی….

اس لیے آج وہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھیں وہیں ناشتہ اور دوپہر کا کھانا کھا لیا تھا اور اب  آرام کر رہی تھیں…

.

میں نے کچن کے کام نبٹائے تین بج رہے تھے دوپہر کے …

میں نے انکے کمرے میں جھانکا پر وہ سورہی تھیں گہری نیند میں…

میں نے سوچا اوپر جاو کچھ دیر …..

اسی دم بارش شروع ہوگئی 

بارش تو میری کمزوری تھی بچپن سے 

پاگل سی ہوجاتی تھی میں بارش دیکھ کر ….

میں دوڑتی ہوئی برآمدے میں اگئی

ہر شے دھل رہی تھی بارش کے قطروں سے….

میں نے اپنا چہرہ اوپر کر لیا بارش کے ہر گرتے قطرے سے مجھے سکون مل رہا تھا…

اسی وقت بیل بجی…….

اس وقت کون ہوگا ….میں سوچنے ہوے گیٹ تک آئی اور گیٹ کھول دیا 

اف میرے خدا ….

سامنے فارس کھڑا تھا ..

یہ اس وقت کیوں آگیا امی بھی سوئی ہیں جبران بھی نہیں اور جبران نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ اس سے بات مت کرنا..

اسلام علیکم بھابھی جان…….فارس اندر آتے ہوے  بشاشیت سے بولا…

وعلیکم اسلام……..میں نے مرے ہوے لہجے میں کہا…

کوئی ھےنہیں کیا گھر میں اتنا سناٹا ھے …..وہ اندر کی طرف جاتے ہوے بولا…

امی سوئی ہیں جبران آفس میں ہیں…میں امی کو اٹھاتی ہوں…….میں نے  دروزہ چھوڑ کر اسکے پیچھے آتے ہوے جلدی سے کہا 

ارے آرام کرنے دیں انکو ………...فارس فورن بولا.

.

مجھے اچھی سی چائے پلا دیں………….وہ لاونج میں پڑے صوفے پے بے تکلفی سے بیٹھتے ھوے بولا…

ارے آپ تو پوری بھیگی ہوئی ہیں..…..بیمار ہوجائیگی چینج کر لیں …..وہ جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوے بولا

مجھے بے اختیار خیال آیا ….

اور شرم سی آئی مجھے بلکل خیال نہیں رہا کہ میں بھیگی ہوئی تھی

میں اوپر جاتی چینج کرتی بہت ٹائم لگ جانا تھا  اسکو چائے دے کر رخصت کرنا تھا بس اسلیے میں نے امی کے کمرے سے انکا بڑا سا دوپٹہ لیا اور چائے بنانے آگئی کچن میں

فارس وہیں ٹی وی آن کر کے دیکھنےگا

میں نے چائے کا پانی رکھا 

کپ نکالا …..فریج سے دودھ نکالنے کو پلٹی تو فارس کھڑا تھا 

میں ڈر سی گئی ویسے بھی جبران کی باتیں دماغ میں چپکی ہوئی تھی

ارے بھابھی کیا ہوا ڈر گئی کیا ……..وہ ہستے ہوے بولا.

نن نہیں تو ……میں نے ہکلاتے ہوے کہا.

اور چائے میں دودھ ڈال کر کپ میں بھرنے لگی .

فارس کےڈر سے چائے ھاتھ پے گر گئی 

درد اور جلن کی ایسی لہر اٹھی

میرے منہہ سے ہلکی سی چیخ نکلی 

کیا ہوا بھابھی ……..فارس آگے آیا 

کچھ نہیں…….ٹھیک ہوں میں…….میں نے درد برداشت کرتے ہوے کہا وہی جل گیا تھا جہاں پہلے دن جلا تھا

ارے دکھایے تو ……..فارس نے جھٹ سے 

میرا ھاتھ پکڑ لیا 

میں ہکا بکا رہ گئی …..اتنی ہمت جرات  ….

ارے آپ کو تو زیادہ جل گیا ہے ………چلیے ڈاکٹر کے پاس……وہ ھاتھ کا معاینہ کرتے ہوے بولا..

میں ٹھیک ہوں پلیز ھاتھ چھوڑیے………میں نے منت بھرے لہجے میں ھاتھ چھڑاتے ہوے کہا

مگر اسکی گرفت ناقابل یقین تھی جیسے وہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑ رھا ہو…..

ارے دیکھنے تو دیں بھابھی ………وہ بلکل ریلکس انداز میں بولا

پلیز ھاتھ …….بولتے ھوے…..

ایکدم میری نظر کچن کے دروازے پر پڑی 

میری انکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا…..

 ¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

جبران آج موسم بہت اچھا ہے کتنا رومنٹک موسم ہے …..

چلو کہیں فیملی.کے ساتھ گھوم ہی آتے ہیں….…..ظفر جبران کے کیبن میں آکر بولا…

موڈ نہیں ھے یار تم جاو…..جبران کمپیوٹر پے نظریں جما  ئے بولا

اوئے گدھے بھابھی کی بھی آوٹنگ ہوجائےگی …کہیں لے کر تو گئے نہیں ہوگے تم انکو  ……..ظفر کہاں ہار مان نے والا تھا

جبران کو خیال آیا ہاں لے کر تو کہیں نہیں گیا کشف کو ..دو مہینے ہوگئے تھے شادی کو

لیکن وہ حسب عادت منع کردےگی ….کبھی کوئی بات مانی ہے اس لڑکی نے………

جناب آج ہی جانا ہے ……..کہاں کھو گئے ……ظفر نے چٹکی بجاتے ہوے کہا.

ہاں…….چلو دیکھتا ہو گھر جاکر کال.کرتا ہوں………… جبران چیزیں سمیٹ تے ہوے بولا…..

چل ٹھیک ہے …..ظفر مسکراتے ہوے بولا

جبران راستے میں تھا کہ بارش شروع ہوگئی

گھر سے کچھ ہی فاچلے پے گاڑی رک گئی 

اف اسے کیا ہو اب…

جبران نے باہر نکل کر دیکھا ...

شاید پیٹرول ختم ہوگیا تھا

گھر زیادہ دور نہیں تھا گھر جاکر کوئی بندوبست کرتا ہوں گاڑی کا بھی…

جبران پیدل ہی چل پڑا

گھر پہنچا گیٹ کی طرف آیا …..دیکھا تو گیٹ کھلا ہوا تھا

اتنی لاپرواہی…..جبران ٹھٹھک گیا….غصہ بھی آیا 

اندر آیا  گھر میں سناٹے کا راج تھا پر کچن سے آوازیں آرھی تھی ..شاید امی اور کشف ھونگی

جبران سوچتے ہوےکچن کے دروازے پے آیا تو جو منظر دیکھا.وہ برداشت سے باہر تھا…..

فارس کشف کا ھاتھ تھامے کھڑا تھا…..

جبران کے تن بدن میں آگ لگ گئی ….

     ¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

جبراں آگے بڑھا اور مجھے تپھڑ لگا دیا…….ایک سیکنڈ کے لیے تو  میرا دماغ ماوف ہوگیا 

یہ کیا ہوا ….کچھ سمجھ ہی نہیں آرھی تھی…

جبران یار کیا ہوا ہے تمہیں…………فارس جبران کی طرف بڑھا

شٹ اپ……..دفع ہوجاو میرے گھر سے …..جبران چلایا…..

فارس تیزی سے نکل گیا …

اور تم…..اب جبران میری طرف پلٹا…..

جبران شعلہ بار نطروں سے مجھے دیکھ رہا تھا….

میں ابھی تک سکتے میں تھی …

میں نے تمہیں کہا تھا نا اس فارس سے دور رہنا پر تمہیں کچھ سمجھ آتی بھی ہے یا نہیں……جبران چنگھاڑتے ہوے بولا

وہ تو ایسا ہے ہی لوفر طبیعت کا پر تم تو بڑی پارسا بنتی تھی  تم چاہتی تو اسکی کیا مجال تھی کہ تمہیں ہاتھ بھی لگاتا 

 …پر کشف صاحبہ اپ چاہتی ہی کیوں……آپ بھی تو یہی چاہتی تھیں….تنہائی کا فائدہ اٹھالیا دونوں نے…

.….اگر اتنا ہی دل لگ رہا تھا اس سے تو پہلے بتا دیتی تم …..….جبران زہر اگلنے لگا…..

جتنا تمہیں نیک سیرت اور معصوم سمجھا میں نے ..اسکے الٹ نکلی تم ……دھوکہ دیتے ہوے تمہیں ایک بار بھی امی کا خیال نہیں آیا…

…امی کو پتہ چلے گا کہ انکی لاڈلی بہو کیسی بدکردار  ھے تو کیا گزرے گی ان پے…نکل جاو میرے گھر سے یہاں تم جیسی کی لڑکی کی کوئی جگہ نہیں....……جبران نے اب حد کردی… 

کیسا شور ھے کیا ہوگیا ہے جبران ……….زیتون بانو کچن میں داخل ہوتے ہوے بولیں

بدکردار….…….میں زیر لب بڑبڑائی….

میں بدکردار ہوں……

پوچھیں اپنی چہیتی بہو سے …اور مجھے اب یہ ایک سیکنڈ یہاں نہیں چاہیے  ….جبران تلخی سے بولا

کشف کیا ہوا بچی…کیا ھوگیا ہے جو جبران اتنا غصہ کر رہا ہے ……...زیتون بانو میرے قریب آئیں...

بادل زور سے گرجے ….شاید بارش ابھی بھی ہورہی تھی

میں جیسے ہوش میں آئی……زیتون بانو کو دیکھا …..ایک نظر جبران پے….…….الفاظ تو جیسے کہیں گم ہوگئے تھے

میں کیسے کہتی کہ میں بے قصور ہوں 

میں مجرم نہیں

غلط فہمی.ہوئی ہے جبران کو

مگر ہونٹ جیسے سل گئے تھے

جبران کا پارہ ہائی ہوگیا

یہ ہمیں پاگل سمجھتی ہے امی….. بس ہم بولتے رہتے ہیں یہ دیکھتی رہتی ہے نا جانے کس بات کا زعم.ہے اسکو… آج اسکی یہ اکڑ بھی نکل جائے گی پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے یہ……….

بتاو کب سے چل رہا ہے یہ سب 

کب سے آرہا ہے وہ …کب سے چل رہا ہے یہ چکر…..جبران چیخا

.

جبران آگے بڑھا اور میرا بازو دبوچا اور مجھے کچن سے باہر لے آیا …

جبران ….رک جاو میں بات کرتی ہوں کشف سے ایسے نا کرو کسی کی بیٹی کے ساتھ …مجھے پوری بات تو بتاو…………….  ...زیتون بانو عقب میں روتے ہوے بولیں

پر جبران نے ایک نا سنی 

اور مجھے گھر کے گیٹ تک لایا ..

بارش ابھی بھی ہورہی تھی میں گیٹ تک آتے آتے بھیگ گئی تھی پوری…..

اسکی گرفت اتنی سخت تھی کہ مجھے اسکی انگلیاں اپنے بازو میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئی

جبران کہاں لے جارہے ہو اسکو …بیوی ھے تمہاری کوئی انسانیت ہے تم میں……….زیتون بانو چلائیں

نہیں چاہیے مجھے ایسی بیوی …….

اپنی شکل مت دکھانا مجھے کبھی ….

جبران نے گیٹ کھولا اور مجھے باہر دھکیل کر بولتے ہوے گیٹ کر بند کردیا….

یہ کیا ہوا مجھے گھر سے ہی بے دخل کردیا…..

میری آنکھوں سے آنسوجاری تھے جو بارش ک

کشف اس گھر سے مر کے نکلنا….اماں کی آواز کانوں میں گونجی.

میں آگے بڑھی اور دروازہ پیٹنے لگی

امی دروازہ کھولیں……..میں نے کچھ نہیں کیا….میں کہاں جاوگی امی…….میں رونے لگی میری آواز گھٹ رہی تھی

زیتون بانو تڑپ اٹھیں…

جبران کہا جائے گی وہ دروازہ کھول دے بچےکیا بات ہوئی ہے گھر میں بیٹھ کر بھی بات ہوسکتی ہے ..…

 گھر کی عزت کو یوں باہر نہیں نکالتے  کشف کو بلاو اندر اتنی بارش میں کہاں جائےگی محلے والے کیا سوچے گے.…….زیتون بانو رندھی ہوئی آواز میں بولتے ہوے نیچے بیٹھ گئیں انکا دل ڈوبنے لگا تھا

وہ اندر آئےگی تو میں اس گھر میں نہیں رہونگا سمجھی

آپ…..جبران فیصلہ کن لہجے میں بولا….

امی جبران …..پلیز خدا کے لیے ….کھولیں…میں التجا کرنے لگی

جبران دروازہ کھو …ل……..اور زیتون بانو زمیں بوس ہوگئیں…

جبران جلدی سے آگے بڑھا……

  ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

میں دروازہ بجا بجا کر تھک گئی اندر سناٹا چھا گیا تھا……

تقریبن آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا …

دروازے سے دور چلے گئے تھے دونوں……

جبران تو سدا کا پتھر دل تھا پر زیتون بانو جو میری ماں کی جگہ تھیں انہونے بھی دروازہ نہیں کھولا

بارش اور تیز ہوگئی تھی…..

گلی میں سناٹا چھایا تھا ..

بارش کی وجہ سے کوئی نہیں باہر سب اپنے گھروں میں دبکے تھے…

ورنہ دنیا دیکھتی میرا تماشہ

میں کہاں جاتی اس وقت .مجھے تو امی کے گھر کا راستہ بھی نہیں معلوم تھا کہ یہاں سے کیسے آتا ہے……

اگر انکے پاس پہنچ جاتی بھی تو وہ تو اس صدمے سے ہوش کھو دیتیں کہ انکی بیٹی پہ برکرداری کا دھبہ لگا کر گھر سے نکال دیا 

میں کہاں جاوں میرے اللہ…….کتنی بے بس ہوگئی تھی میں چلتے ہوے سوچنے لگی…

آنسو بھی بہہ رہے تھے یا نہیں کچھ معلوم نہیں تھا….

ھاتھ پے نظر گئی….

جلے ہوے پے جلا تھا

میری اس گھر میں شروعات بھی ھاتھ جل کے ہوئی 

اور انتہا بھی ھاتھ جل کے ہوئی

کتنی عجیب بات تھی

جلے ہوے پے ہاتھ پھیرا

درد کی لہر اٹھی

پر درد کا کسکو احساس تھا

یہاں تو دنیا ہی لٹ گئی تھی

میری کسی بات کی تو لاج رکھ لی ہوتی تم نے جبران

میں کب کوئی دکھ دیا تھا تمہیں

کب کچھ مانگا تھا تم سے

میں نے کوئی کوتاہی بھی نہیں کی اس گھر کی خدمت کے معاملے میں…

اپنی زات کو بھلا کر سارا وقت گھر کو دیا امی کو دیا

مجھے صفائی کا موقع تک نہیں دیا

بیوی تو سمجھا نہیں نوکرانی ہی سمجھ کے کچھ کہنے دیتے.

صدمے سے میرا برا حال تھا…

جبران تم نے مجھے کہیں کا نہیں نہیں چھوڑا.

میرا اللہ جانتا ہے میں بے قصور ہوں

میرا خدا ہی بس جانتا ہے 

بادل زور سے گرجے ..

میں سہم گئی…میں چلتے چلتے کدھر نکل آئی تھی

کچھ معلوم نہیں تھا…

انجانہ علاقہ تھا….ایک طرف درخت نظر آیا 

اسکے نیچے آگئی.

بارش کچھ کم تھی یہاں….

سر آٹھا کر دیکھا بارش کی شدت سے دور کی کوئی چیز نظر نہیں آرھی تھی…

تاحد نظر دھند چھائی ہوئی تھی بارش کی وجہ سے….

اب کچھ دماغ کام کرنے کے قابل ہوا….

میں کھڑی ہوئی 

یہاں تو نہیں بیٹھ سکتی تھی

اندھیرا چھا رھا تھا.

بارش کی وجہ سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا وقت ہورہا ہے

میں اپنا گیلا ڈوپٹہ سر پے ٹھیک کیا اور چل پڑی

  ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں لکھ کر دی..

زیتون بانو گہری نیند سوئی تھیں

کب تک ہوش آئےگا ڈاکٹر صاحب .…..…..جبران باہر نکلتے ہوے پوچھنے لگا….

کچھ دیر میں آجائے تو ٹھیک ورنہ آپ انہیں کسی ہسپتال لے جایے گا…….ڈاکٹر صالح بولتے ہوے باہر نکل گئے

جبران اندر آگیا…

زیتون بانو کو دیکھا …

وہیں بیٹھ گیا….کیا کردیا تم نے کشف…….جبران نے سر ھاتھوں میں تھامتے ہوے سوچا….

میرا غصے قابو نہیں ہوتا…کیا وہ یہ بات نہیں جانتی تھی…

دل میں میں گھر کرنے لگ گئی تھی تم میرے …

تمہاری معصومیت 

تمہارا بھولا پن.

تمہاری سادگی

تمہاری خاموشی 

میں پگھلنے لگا تھا.

پر تم نے یہ سب کردیا مجھے امید نہیں تھی

مجھے یقین نہیں آرھا کہ تم ایسا کرسکتی ہو….

میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا تھا

مگر میرے علاوہ کسی اور مرد کے بارے میں کیسے سوچ سکتی ہو تم

جبران سوچے جارہا تھا…

  ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ﺁﮦ ﮐﻭ ﭼﺍﮨﯿﮯ ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﺍﺛﺮ ﮨﻭﻥﮯ

ﺕﮏ 

ﮐﻭﻥ ﺝﯿﺗﺎ ﮨﮯ ﺕﯿﺭﯼ ﺯﻟﻒ ﮐﮯ

ﺳﺮ ﮨﻭﻥﮯ ﺕﮏ

ﮨﻡ ﻥﮯ ﻣﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﺗﻐﺎﻓﻞ ﻥﮧ ﮐﺭﻭ

ﮔﮯ ﻝﯿﮑﻥ

ﺧﺎﮎ ﮨﻭﺟﺎﺉﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻡ ﺗﻢ ﮐﻭ

ﺧﺒﺮ  ﮨﻭﻥﮯ ﺕﮏ

سڑک پے اکا دکا کوئی بائک یا کار  آ جا رہی تھی

میں چلی جارہی تھی …

بلکل انجان علاقہ تھا 

دونوں طرف رہائشی عمارتیں تھییں..

کوئی پوش علاقہ تھا

پر سناٹا چھایا تھا

شاید زیادہ وقت ہوگیا تھا اس لیے کوئی نظر نہیں آرھا تھا

بارش رک گئی تھی….

جگہ جگہ پانی جمع تھا….

میں چل چل کر تھک گئی تھی اب …

دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا

ایسے لگ رہا تھا بس اب ساری طاقت ختم ہورہی ہے

مزید چلتی تو کہیں بھی گر جاتی..

ایک بند گیٹ کے پاس تھوڑی جگہ نظر آئی 

وہاں کچھ دیر بیٹھ گئی میں…

ایسے ہی گھر کا جائزہ لیا

یہ بہت خوبصورت طرز کا گھر تھا…

پھولوں سے ڈھکا ہوا گھر

باہر سے اتنا اچھا ہے تو اندر سے کیسا ہوگا

ایسے گھر تو خواب میں ہی سوچ سکتی تھی میں …

میرا گھر بھی تو ایسا ہی تھا 

جوبصورت پیارا جیسا میرا خواب تھا ویسا

 مگر نہیں وہ میرا گھر تھا ہی نہیں

میرا ہوتا تو وہاں سے مجھے اتنا بے عزت کر کے کوئی نہیں نکالتا 

اور ابھی یہاں خوار نہیں ہورہی ہوتی.

میں نے دکھ سے سوچا…

ابھی تو سب سے بڑی پریشانی اماں کے گھر پہچنے کی تھی جسکا مجھے راستہ ہی معلوم نہیں تھا

نا میرے پاس پیسے تھے 

میں خالی ھاتھ خالی دامن نکا لی گئی تھی وہاں سے

کوئی رکشہ یا ٹیکسی مل بھی جاتی تو میں اماں سے پیسے لے کر دے دیتی 

مگر بارش کی وجہ سے کوئی گاڑی کوئی ٹرانسپوٹ نہیں تھی سڑک پے ..

میں راستہ بھٹک چکی تھی کیوکہ یہ علاقہ آج پہلی بار دیکھا تھا میں نے …

راستہ ویسے کونسا معلوم تھا مجھے…..

کبھی اماں نے کہیں جانے نہیں دیا…

پھر میرا دھیان گھر کی طرف گیا..

گھر بڑا معلوم ہورہا تھا…

اچانک مجھے محسوس ہوا گیٹ کھلا ….

میں کھڑی ہوگئی ایکدم….

یوں کسی کے دروازے کے آگے بیٹھنا اچھی بات نہیں تھی اس لیے میں سائڈ پے ہٹ گئی…

اندر سے کوئی ادھیڑ عمر کی خاتون نکلیں 

جو حلیے سے کسی غریب گھر کی لگتی تھیں

….باہر نکلی اور سڑک کی طرف چلی گئیں.

اتنے اچھے گھر سے ایسی حلیے کی خاتون

ہوسکا ہے نوکرانی ہو

میں نے سکوں کا سانس لیا کہ مجھے دیکھا نہیں اس نے…

اور سوچنے لگی کہ اب کہاں جاوں رات کیسے گزارتی باہر….ایسے موسم میں ایسی ٹھنڈ اور اکیلی……

اللہ کیسا امتحان ہے یہ ..

کب مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے میرے رب 

میں نے ہمیشہ لوگوں کو خوش رکھا ہے …

کب کسی کا دل دکھایا

میری آنکھوں سے پھر آنسو رواں ہونے لگے ...

یہاں بیٹھنا بھی مناسب نہیں تھا 

ادھی رات کو پتہ نہیں لوگ مجھے کیسی لڑکی سمجھتے 

کوئی ٹھکانہ ڈھونڈنا ہی تھا  ….

میں بڑی سڑک پے آگئی …..

بارش پھر شروع ہوگئی تھی….

اللہ پاک میری مدد کردیں

میں دل ہی دل دعا مانگ رہی تھی…

اب نقاہت ہورہی تھی مجھے 

چلا نہیں جارہا تھا.

کوئی بیٹھنے کی جگہ پھر سے ڈھونڈنے لگی مگر کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی …

سر چکرانا شروع ہوگیا…

اور میں زمین پے گر گئی….

  ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

رات کے بارہ بج رہے تھے

زیتون بانو ہوش میں آچکی تھیں

جبران جلدی سے پاس آیا

امی..کیسی طبیعت ہے آپکی……….

کشف کہا ہے بلاو اسکو …آگئی ہےنا وہ؟……زیتون بانو آہستہ سے بولیں

جبران چپ رہا ……

کشف کا تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا اسکو…

میں کچھ پوچھ رہی ہوں جبران…زیتون بانو گرج کر بولیں

اسکی ماں کے گھر ہوگی….جبران رکھائی سے بولا

جبران……مجھے پوری بات بتاو کیا ہوا تھا…….زیتون بانو نے استفسار کیا

جبران نے تھوڑا ٹھہر ٹھہر کے سب بات بتائی…..

جیسے جیسے زیتون بانو سنتی گئی انکی تیوریوں پے بل پڑنا شروع ہوگئے

پاگل تو نہیں ہوگئے تم جبران….تم اپنے کزن کی عادت سے واقف ہو ..کیا کشف لگتی ہے تمہیں ایسی ……..زیتون بانو دکھ سے بولیں…

ارے وہ تو اتنی سادہ بچی ہے جو کچھ تم نے دیکھا بھی ہوگا تو اس میں کشف کا کوئی قصور نہیں ہوگا

….کیا کردیا تم نےاسکے ساتھ 

کہاں گئی ہوگی وہ اسے کوئی راستہ نہیں معلوم… بات کرتے اس سے بٹھا کے اسکی غلطی ہوتی تو دو تپھڑ جڑ دیتے پر یوں گھر سے تو نا نکالتے اپنے بیوی  کو  

 موسم دیکھو کتنا خطرناک ہے …   

خدانخوستہ.کہیں کسی غلط ہاتھوں میں نا پہنچ جائے..

یا کوئی حادثہ نا ہوجائے……….زیتون بانو رونے لگیں

جبران کو بھی پشیمانی محسوس ہوئی …

کیا تھا اگر اسکو بٹھا کے بات کرتا ..

تیرا غصہ ایک دن تجھے لے ڈوبے گا ……….زیتون بانو مسلسل روئے جارہی تھیں

فون کر کشف کی اماں کو پہنچی یا نہیں گھر….زیتون بانو کو عجیب واہمے تنگ کر ہے تھے

میرے پاس نمبر نہیں امی …جبران سر جھکائے بولا

کشف کےابا کا نمبر ہے وہاں ڈائری میں…….زیتون بانو نے اشارہ کیا میز کی طرف………..

جبران ڈائری اٹھا لایا ……امی نے نمبر ڈھونڈ کے دیا……جبران نے نمبر ملایا 

بیل جارہی تھی

جبران نے فون زیتون بانو کو تھما دیا

سامنے سے فون کشف کے ابا نے اٹھایا

اسلام علیکم بھائی صاحب .میں کشف کی ساس طبیعت کیسی ہے اپکی… ……زیتون بانو بمشکل لہجے میں بشاشیت لاتے ہوے بولیں.

جی بہن اللہ کا شکر ہے آپ سنایے ..جبران بیٹا اور کشف کیسی ہے..کشف کی ماں بہت یاد کرتی ہے اسے بولیے گا آئے نہیں پر فون پے بات کر لے ……..کشف کے ابا آہستگی سے بولے.

زیتون بانو کے پیروں تلے زمین نکلتی محسوس ہوئی…مطلب کشف وہاں نہیں پہنچی تھی

جی بول دونگی… ابھی تو سوگئی ہے ….زیتون بانو اٹکتے ہوے بولیں

جلدی سے اللہ حافظ کہہ کر فون کاٹا…. …دل انجانے خوف سے  تیز تیز دھڑکنے لگا… 

جبران کشف نہیں پہنچی وہاں….زیتون بانو ہلکی آواز میں جبران کی طرف دیکھتے ہوے بولیں…

کشف کو ڈھونڈ کے لاو ورنہ میں تجھے کبھی معاف نہیں کرونگی…زیتون بانو رونے لگیں

انکے لہجے میں ڈر تھا خوف تھا

جبران ایکدم کھڑا ہوگیا

وہاں نہیں گئی تو پھر گئی کہاں….

کہیں کوئی حادثہ یا کچھ اور….اوہ میرے خدایا یہ کیا کردیا میں نے اسکے ساتھ….

اب جبران کو معاملے کی نزاکت  احساس ہو رہا تھا….

ایکدم باہر نکل گیا…

     ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

آج آفس میں بہت دیر ہوگئی تھی…ایک کمپنی کے ساتھ میٹنگ تھی آج تو مما سے خوب ڈانٹ سننے کو ملےگی

کوئی دس بار فون کر چکی تھی وہ

..موسم بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا….

.پر گاڑی تیز بھی ڈرائیو نہیں کرسکتا تھا سڑکیں گیلی تھی اس لیے آہستہ ڈرایئونگ ضروری تھی

….ورنہ حادثے کا ڈر تھا

گاڑی میں ہلکا میوزک بج رہا تھا

اج کی میٹنگ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ

…….ایکدم اسے بریک پے پاوں رکھنا پڑا……

سڑک پے بیچو بیچ کوئی ہیولا سا نظر آیا 

ونڈاسکرین سے غور سے دیکھا سڑک پے کوئی برستی بارش میں پڑا تھا…..

اللہ خیر کرے کون ہے 

کوئی ایکسڈنٹ تو نہیں ہوگیا 

بلاول  نے میوزک بند کیا اور گاڑی سے باہر آیا 

افف سردی کی لہر جسم میں دوڑ گئی….

بارش ابھی بھی ہورہی تھی

ہلکی ہلکی …

بلاول نے قریب جاکر دیکھا 

کوئی لڑکی تھی یہ تو …

اس وقت ایسی جگہ پے 

اوہ….……بلاول کے منہہ سے بے ساختہ نکلا

     ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

جبران گاڑی لے کر نکلا …..

ہر جگہ سناٹے کا راج تھا …

کہیں کوئی انسان فلوقت تو نظر نہیں آرھا تھا…

کہاں چلی گئی ہو تم کشف ……جبران نے ایک جگہ گاڑی روک دی 

زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوگئی تھی آج جبراں سے….

کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا..

کسی کے ساتھ کی ضرورت تھی

پھر پینٹ کی جیب سےموبائل نکالا اور فون ملایا.

پر سامنے سے کوئی فون پک نہیں کر رھا تھا

چار پانچ بار ملایا…پر کوئی جواب نہیں….

جبراں نے فون ڈیش بورڈ پے پھینک دیا

کشف کہاں ہو تم یار…..

جبران باہر دیکھتے ہوے سوچنے لگا 

میں جانتی ہوں تمہارا رویہ اسکے ساتھ کیسا ہے .پر جبران ایسا کچھ مت کرنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے..اچھے لوگ بار بار نہیں ملتے ….امی کی اواز جبران کے کانوں میں گونجی

تو کیا میں نے کشف کو کھودیا….

نہیں میں سے نہیں جانے دونگا کہیں بھی

جبران نے پھر فون اٹھایا اور نمبر ملانے لگا

اب فون ریسیو کر لیا کسی نے…

ظفر ……میں تیرے گھر کے باہر ہوں ……جلدی باہر آ……جبران جلدی سے بولا

کچھ دیر بعد ظفر ساتھ تھا.……

شرمندگی سے ساری بات بتائی جبران نے …

تو پاگل تو نہیں ہوگیا جبران……….معلوم بھی ہے کیا کردیا ہے تو نے ………. ظفر تقریبن چلایا

غصے میں کچھ سمجھ نہیں آیا…..…….جبران مزید شرمندہ ہوا

بھاڑ میں گیا تیرا غصہ …..کسی اور کی وجہ سے اپنی عزت کو تو نے گھر سے باہر نکال دیا….

اب کہاں ہونگی بھابھی کس حال میں ہونگی انکی امی کے گھر فون کر ……ظفر تو جیسے صدمے سے دوچار ہوگیا….

کیا تھا فون وہاں نہیں ہے ….جبران ہلکے سے بولا

پولیس میں رپورٹ کرواتے ہیں …..ظفر جلدی سے بولا…

پولیس …..جبران سوچ میں پڑ گیا…..

  ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

میری آنکھ کھلی …..سر شدید درد ہورھا تھا….

کہاں تھی میں مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوا پہلے تو…

 پھر سمجھ آیا کہ ہسپتال کا کمرہ تھا یہ

ھاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی ہسپتال کے کپڑے پہنے ہوے تھے .میں نے 

…سر موڑ کے دیکھا کھڑکی سےدھوپ آرھی تھی ….صبح ہوچکی تھی شاید

….اور میری زندگی کی شام….

میں کھڑی ہوئی پر سر کے بھاری پن نے پھر لیٹنے پر مجبور کردیا…..

اتنے میں ایک نرس آئی اندر 

گڈ مارننگ…….کیسی طبیعت ہے اب آپکی مس ٹھیک ہے نا …نرس نرم لہجےمسکرا کر بولی 

میں صرف سر ہلا کر رہ گئی

……آپکےساتھ جو ہیں وہ بے چینی سے باہر انتظار کر رھے ہیں آپکے جاگنے کا…..نرس مسکراتے ہوے بولی

کون ھے باہر ……جبران ہوگا  ……دل ابھی تک خوش فہمی میں مبتلا تھا…

میرے کپڑے…….میں نے نرس سے پوچھا 

جی میم وہ بہت گیلے اس وجہ سے آپ پے بہت کپکی طاری تھی 

ہمیں چینج کرنا پڑے ….آپکو بہت بخار تھا رات….

 شاید آپ بارش میں بہت بھیگی تھیں.

میں اپکےساتھ جو ہیں انکو اطلاح دیتی ہوں کہ آپ جاگ گئی ہیں……نرس کہتی ہوئی باہر نکل گئی…

میری انکھیں اب بھی بند ہورہی تھی….

میں نے آنکھیں موند لیں..

اسلام علیکم اٹھ گئی آپ

 ….اجنبی آواز پے میں نے آنکھیں کھولیں…..

جو کوئی بھی تھا اسمارٹ اور ڈیشنگ تھا 

کسی اچھے گھر سے تعلق ہوگا …..

حلیہ تو کم از کم یہی بتا رہا تھا

پر یہ کون ھے میں تو نہیں جانتی اسے …..میں سوچنے لگی….

زیادہ دماغ پے زور نا ڈالیں…..

رات آپ مجھے سڑک پے بے ہوشی کے عالم میں ملیں تھیں…

میں آپکو ہسپتال لے آیا

بہت سخت بخار تھا آپکو اور بی پی بہت ہی لو تھا

 آپکے ساتھ کیا پریشانی تھی یہ زاتی سوال ہے… 

جو میں پوچھنے کا حق نہیں رکھتا….

بس اب آپ بتائیے کسی فیملی میمبر کا فون نمبر تاکہ میں انکو بلا کر  آپکو انکے حوالے کر کے بری الزمہ ہوجاو …..وہ مسکراتے ہوے بولا

فیملی میمبر …….میں پھر سوچ میں پڑ گئی

مجھے ابا کا نمبر یاد نہیں تھا 

اور جبران کا بھی یاد نہیں تھا  ہوتا تب بھی کونسا وہ آجاتا ….اس نے مجھے گھر سے نکالا ہے مجھے لینے تھوڑی آئےگا 

…مجھے کسی کا نمبر یاد نہیں…..میں نے اہستگی سے کہا

واقعی …عجیب بات ہے اپکو گھر کے کسی فرد کا نمبر یاد نہیں.. …اسکو شاید یقین نہیں آیا..

میں کیا بولتی….خاموش رہی

آج کل کے دور میں گھر کے کسی افراد کا نمبر نا یاد ہونا عجیب ہی بات تھی

اچھا چلیں گھر کا ایڈریس دیدیں میں بلواتا ہوں انکو …….وہ سامنے رکھی کرسی پے بیٹھتے ہوے بولا…..

گھر کا ایڈریس …..میں پھر اسکی طرف دیکھنے لگی ….

جی ہاں ایڈریس…….اس نے دہرایا….

یا ایڈریس بھی یاد نہیں آپکو ……..وہ شرارت سے مسکرایا

اگر اماں ابا کو بلواتی تو کیا کہتی انکو کہ انکی بیٹی اس حال میں کیسے پہنچی

جبران کے گھر کا ایڈریس دینا تو سراسر بے وقوفی تھی کیوں کہ وہ کبھی نہیں آتا…

اسے میری کبھی ضرورت تھی ہی نہیں

مس آج ہی جواب مل جائے گا یا کل تک بیٹھوں میں یہاں………بلاول نے مسکراتے ہوے کہا….

میں ٹھیک ہوں ….میں چلی جاوگی خود یہاں سے …آپ جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں …اور شکریہ آپکا….آپ مجھے یہاں لائے…..میں نے جھجھکتے ہوے کہا

ارے آپ تو مفت میں ٹرخا رہی ہیں….بندہ گھر بلوا کے چائے ہی پلا دے پوری رات  نگرانی کی ہے میں نے اپکی……بلاول ہنستے ہوے بولا…

پوری رات……….میں نے حیرت سے دیکھا اسے

کیا کرتی میں…..کیسے جان چھڑاوں اب اس سے…..کیسے بتاو کہ اب میرا کوئی گھر نہیں…

کوئی سخت الفاظ بھی نہیں بول سکتی تھی کیوکہ میری جان ہی بچائی تھی اس نے ایک طرح سے

بول بھی دیجیے مس بے نام….اوہ ہاں نام نہیں بتایا آپ نے اپنا………..پھر سے بولا وہ………..کتنا بولتا ہے یہ.….

مجھے اس وقت کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا….

کشف ……میں نے ہلکی آواز میں کہا…..

میرا نام بلاول شاہ ہے ….. ….وہ مسکرایا…

اب آپ ایسا کریں.میں ناشتہ بھیجتا ہوں .ناشتہ کرلیں اور چلیں میں چھوڑ دیتا ہوں آپکو آپکے گھر .…..وہ کہتے ہوے دروازے کی طرف بڑھا

سنیں……مجھے ناشتہ نہیں کرنا..….میں جلدی سے  بولی..

شیور ؟…………وہ پوچھنے لگا

جی بلکل …….میں نے اثبات میں سر ہلایا

ٹھیک ہے آپ بیٹھیں میں ابھی آیا……..وہ کہتے ہوے باہر نکل گیا….

میں کھڑی ہوئی …..اب اس کپڑوں میں کیسے جاتی ….

نرس پھر سے آئی ………ہاتھوں میں میرے کپڑے تھے..

مسکراتے ہوےکپڑےمجھے دے کر چلی گئی

میں کپڑے چینج کر کے بیڈ پے آبیٹھی .….

دوپٹہ ٹھیک کیا اور کھڑی ہوئی 

اس آدمی کے آنے سے پہلے ہی چلی جاتی ہوں….

بہت سے سوال کے جواب دینے سے بچ جاوگی ..

میں نے دروازہ کھولا اور باہر آگئی ….

کس طرف راستہ تھا جانے کا سمجھ نہیں آئی کچھ دیر تک…

خالی خالی نظروں سے دیکھا سامنے ..

نقاہت ابھی بھی ہورہی تھی 

سر چکرا رہا تھا بمشکل چلی دو قدم اور وہیں لگی ایک بینچ پے بیٹھ گئی …

ارے آپ یہاں ……………اپنے عقب سے مجھے آواز آئی

میں نے پلٹ کے دیکھا…….

میں نے دیکھا وہی اجنبی کھڑا تھا…

اپ یہاں کیسے آگئی مس میں وہاں روم میں ڈھونڈ رہا تھا آپکو  …..…….وہ آگے آتے ہوے بولا

اسکے ھاتھ میں جوس اور بسکٹس کے پیکٹ تھے 

میں خاموش رہی

چلیے آپکو گھر چھوڑ دیتا ہوں…..وہ ایک طرف ہوتے ہوے بولا

میں چل پڑی وہ ساتھ چلنے لگا

ہسپتال سے باہر آکر مجھے کھڑا رہنے کا بول کے وہ اپنی گاڑی پارکنگ سے لینے چلا گیا...

میں وہیں ایک طرف کھڑی ہوگئی

یہ ہمیں پاگل سمجھتی ہے امی….. بس ہم بولتے رہتے ہیں یہ دیکھتی رہتی ہے نا جانے کس بات کا زعم.ہے اسکو… آج اسکی یہ اکڑ بھی نکل جائے گی پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے

جبران کی چنگھاڑ

دماغ میں جھماکا سا یوا.

اپنی شکل مت دکھانا مجھے آئندہ…..

اگر اتنا ہی دل لگ رہا تھا اس سے تو پہلے بتا دیتی تم

جبران کے الزامات ….

آنسو خودبخود انکھوں سے نکل کر کب رخسار پے پھسل گئے مخھے پتہ ہی نہیں چلا

یوں لگ رہا تھا جیسے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سماں جاوں…

اتنی تزلیل اتنی حقارت

تم نے مجھے ایک بار بھی صفائی کا موقع نہیں دیا جبران

اتنی بے وقعت تھی میں…

چلیے مس…….مجھے دور کہیں سے آواز آئی….

میں نے نظریں آٹھائی….

وہ گاڑی کا ڈور کھولے بیٹھا تھا

میں آگے بڑھی اور چپ چاپ بیٹھ گئی….

گاڑی کے ڈرا کو کھول کر اس سے ٹشو نکال کر مجھے دیا 

میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا

یہ کیوں………میں نے حیرت سے پوچھا

آپکو شاید پتہ نہیں پر  آپ رو رہی ہیں………....اس نے نارمل لہجے میں کہا

میں نے خاموشی سے ٹشو لے لیا…

اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی …

اب بتایے کس ایریا میں گھر ہے آپکا تاکہ اس راستے پے چلیں ہم……………….گاڑی کو مین روڈ پے لاتے ہوے اس نے پوچھا

میں خاموش رہی جواب نہیں تھا میرے پاس ..

میں آپ سے پوچھ رہا ہوں مس……وہ پھر سے بولا

میرا کوئی گھر نہیں ہے ….میں نے سر جھکائے ہوے کہا.

کیا……..……گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی

         ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

بلاول نے دیکھا کے یہ کوئی کم عمر لڑکی تھی …..

جو سردی کی شدت سے شاید کپکپا رہی تھی پر آنکھیں بند تھی

ہیلو ……..کون ہیں آپ……آنکھیں کھولیں..…..بلاول نے آواز دی پر کوئی جواب نہیں آیا…

سنیں مس ………..بلاول پھر سےاسکے قریب ہوکر بولا

مگر وہ بے سدھ تھی

اب کیا کروں…..کس کو مدد کو بلاوں بلاول نے سوچا

لڑکی ہے ..کون ہے .

کیا ہے.. کیسی ہے... کچھ پتہ نہیں.

یہ بھی ایک زمہ داری ھے ….

ایک جوابداری ھے اگر اسکو لے گیا ہسپتال….

جو بھی ہے سب جائیں بھاڑ میں انسانیت بھی کوئی چیز ہے …کیا معلوم مجبور ہو یہ ….

ابھی اہم مسئلہ اسکا علاج کروانا تھا

جو ہوگا دیکھا جائگا

حلیہ سے تو اچھے گھر کی لگ رہی تھی

پر اس حال کو کیسے پہنچی….

ہوسکتا ہے کوئی پرسنل پروبلم ہو اسکو

بلاول نے سوچتے ہوے اٹھا کر اسکو گاڑی کی پچھلی سیٹ پے ڈالا اور خود نے ڈرائیونگ سیٹ پے اکرگاڑی اسٹارٹ کردی….

ہسپتال میں ڈاکٹرز نے چیک اپ کیا اور بتایا کہ شدید سردی کی وجہ سے بے ہوشی اور بخار ہے اور بی پی بلکل کم تھا 

ڈاکٹر نے دوائیاں دی کچھ انجکشن ڈرپ ….جو لگ چکی تھی اسکو.

ہوش نہیں آیا تھا ابھی تک ا سے

 وہ اسکے پاس ہی بیٹھ گیا….

یہاں وہاں دیکھتے ہوے اسکے چہرے پے نظریں ٹک گئی

گندمی رنگ ستواں ناک تراشیدہ ہونٹ….اور کالے گھنے بال جو ابھی الجھ کر چہرے کے گرد بکھرے تھے 

گھنی پلکیں چہرے پے نمایاں تھیں…..پلکیں زیادہ پرکشش بنارہی تھی اسکے چہرے کو ….

بلاول نے نظریں پھیرلیں……

اور باہر آگیا

گھر کال کر کے بتا دیا تھا مما کو کہ ایک دوست کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اسکے پاس ہی رہونگا….

صبح ہوچکی تھی …..بلاول باہر بیٹھا تھا اب 

ساری رات اسکے جاگنے کا انتظار کیا ….پر وہ سوئی تھی …

آپکی پیشنٹ ہوش میں آگئی ہیں …….نرس نے آکر اطلاع دی .

وہ جلدی سے کھڑا ہوا ……..

   ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

پولیس میں جانا سمجھو بدنامی ہے جسکو پتہ بھی نہیں ہوگا اسکو بھی معلوم ہوجائگا….جبران پریشانی سے بولا

بدنامی کا ڈر تھا تو بھابھی کو نکالتا ہی نہیں تو…..ظفر بگڑ کر بولا…

یار اب بس بھی کروں….میں شرمندہ ہو ں ……جبران خجل.سا بولا

اب فائدہ نہیں تیرے شرمندہ ہونے نا ہونے کا تیرے گھر کی عزت کہاں رل رہی ہوگی کچھ اندازہ بھیہے تجھے …….ظفر خفگی سے بولا

جبران چپ ہوگیا 

کجھ غلط تو نہیں کہہ رہا تھا وہ

اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت باہر پھینک دی  تھی اس نے .. 

صبح ہونے کو آئی تھی 

دونوں ناکام گھر لوٹے

زیتون بانوکی حالت غیر ہونے لگی….

      ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﮨﺎﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ،

ﺻﺒﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ،

ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ،

ﺭﺷﺘﮯ ﻧﺒﮭﺎﺗﮯ ﻧﺒﮭﺎﺗﮯ ,

ﺻﻔﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﯾﺘﮯ،

ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﻣﻨﺎﺗﮯ،

ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ

کیا کہہ رہی ہیں آپ میں کچھ سمجھا نہیں.. ……بلاول میری طرف دیکھ کر الجھ کر بولا

میں چپ رہی…

آپ مجھ پے بھروسہ کر کے بتا سکتی ہیں اپنی پریشانی……شاید میں کچھ مدد کرسکو ں آپکی…

میں پھر بھی خاموش

کیا کرنے نکلی تھی آپ ایسے موسم میں ….

کچھ تو ہوا ہے ورنہ کوئی یوں تو نہیں نکلتا ایسے موسم میں…..

وہ کریدتے ہوے بولا.

میرا کوئی گھر نہیں ہے …….مجھے کسی ایدھی سینٹر میں چھوڑ دیں اپکا احسان ہوگا مجھ پے…بس اور کچھ نہیں کہنا مجھے…….میں نے بنا اسکی طرف دیکھے …آنسو پیتے ہوے کہا

بلاول کچھ دیر تک دیکھتا رہا….

اسے بہت ترس آیا اس لڑکی پے.

کیا معاملہ ہوگا اسکے ساتھ 

پر جس نے بھی کیا کوئی پتھر دل ہوگا

بلاول کچھ دیر سوچتا رہا

پھر بنا کچھ کہے گاڑی اسٹارٹ کردی

گاڑی انجان راستوں پے گامزن تھی…

گاڑی اب کسی پوش رہائشی علاقے میں داخل ہوگئی تھی

ایک بنگلہ کے آگے جا کر گاڑی رک گئی ….

میں نے سر اوپر کر کے دیکھا…….

وہ گاڑی کا ڈور کھولے میرے نیچے اترنے کے انتظار میں تھا …..

میں خاموشی سے باہر آگئی…

وہ گاڑی کا ڈور بند کر کے آگے چلنے لگا 

میں اسکے پیچے پیچے چل دی…..

گھر کا مرکزی دروازہ اتنا شاندار تھا کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے..

گھر کے اندر آکر اور حیران ہوئی 

کوئی خوابوں کا گھر لگ رہا تھا وہ….

اتنا عالیشان اتنا پر آسائش ……

بیٹھیے……….میں اسکی آواز پے چونکی ….

اور ایک طرف لگے صوفے پے جا بیٹھی….

وہ باہر چلا گیا ….

میں اندر ہی اندر ڈر رہی تھی …

کیا ہوگا…..میں آتوگئی تجی پر دل ڈر رھا تھا بہت

کچھ دیر بعد وہ اندر آیا تو ساتھ ایک ضعیف سی خاتون تھیں…….

میری اماں کہتی تھیں جب کوئی بزرگ خاتون نظر آئیں انکا عزت کے طور پے ہاتھ چوم لو ……

وہ پاس آئیں

میں کھڑی ہوگئی انکا ھاتھ تھاما اور چوم لیا…..

بلاول اور وہ خاتون حیرت سے مجھے دیکھنے لگے

میں سمجھی انکو میری یہ حرکت بری لگی ہے

 دادو یہ کشف ہے اور………بلاول بولا

بس کچھ بتانے کی ضرورت نہیں اسکی تربیت اسکی ہر بات سے چھلکتی ہے …..…………وہ مجھے پیار سے ساتھ لگاتے ہوے بولیں….

بلاول مطمئن ہوکر باہر چلا گیا…..

میں کچھ دیر بیٹھی انکے ساتھ پھر مجھے وہ کھانے کے لیے لے گئیں ڈائننگ ھال میں….مجھ سے کچھ کھایا نہیں گیا

وہ بزرگ خاتون مجھے  ایک کمرے میں چھوڑ گئی آرام کرنے کو…

کمرہ بھی بہت خوبصورت تھا 

میں لیٹ گئی بیڈ پے

مجھے تو وہاں بیڈ تک نصیب نہیں ہوا….

پھر یاد آگئی اس ستمگر کی ….

آنکھیں سمندر بن گئی گویا .

تم میری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے

ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا

ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے

صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا

سرد راتوں کے مہکتے ہوۓ سناٹوں میں

جب کسی پھول کو چومو گے تو یاد آؤں گا

میری خوشبو تمھیں کھولے گی گلابوں کی طرح

تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا

آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت 

جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا

حادثے آئیں گے جیون میں تو تم ہو کے نڈھال

کسی دیوار کو تھامو گے تو یاد آؤں گا

جبران میں کبھی معاف نہیں کرسکو گی تمہیں

میری اس رات کی ایک ایک اذیت کا حساب دینا ہوگا جو میں نے سڑکوں پے گزاری .

میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.

میں مر کیوں نا گئی یہ سب ہونے سے پہلے...

مر تو ابھی بھی سکتی ہوں..میں اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی

تم اگر ہم سے بچھڑنے میں نہ عُجلَت کرتے

ہم  عبادت  کی  طرح  تُم  سے محبّت کرتے

میں نے پوچھا تھا فقط تم سے تغافل کا سبب

بھیگی آنکھوں سے سہی کچھ تو وضاحت کرتے

اُن کو دعویٰ تھا مُحبّت میں جُنوں کاری کا

ہم سے وہ کیسے خسارے کی تجارَت کرتے

دُکھ  کا  ہر  رُوپ  بہر حَال  ہمارا  ہوتا

ہم جو تقسیم کبھی دل کی وراثت کرتے

فیصلہ اُس نے کِیا ترک ِ مرَاسِم کا مگر

زندگی  بیت  گئی میری  وضاحَت کرتے.

   موت بھی تو کسی کو اسکی مرضی سے نہیں آتی..

ذلت کے بعد تو بلکل نہیں آتی …

میں واپس بیٹھ گئی..

دروازے پے دستک ہوئی ….

بی بی اپکو بڑی بیگم بلارہی ہیں نیچے ……..کسی کی آواز پہ میں سوچوں کے سمندر سے باہر آئی….

گہری سانولی رنگت والی ایک لڑکی کھڑی دانت نکال رہی تھی تھی

ملازمہ تھی شاید وہ اس گھر کی

حلیہ سے تو یہی لگ رہا تھا….

اچھا ….آرہی ہوں میں………میں نے کہا….

وہ چلی گئی…

کب تک رہونگی میں یہاں….اور کس حیثیت سے…..

مجھے جلد ہی کوئی بندوبست کرنا ہوگا یہاں سے جانے کا…

اچھا تھوڑی لگتا ہے کسی کے گھر یوں رہنا…

وہ اجنبی تو مجھے ترس کھا کر لے آیا ہے …

مگر مجھے بھی سوچنا چاہیے ……..

میں کھڑی ہوئی ……

نیچے بلایا تھا یہ تو میں بھول ہی گئی تھی

میں نیچے آئی …

بلاول ایک صوفے پر اور اسکی دادو اسکے سامنے والے صوفہ پے  بیٹھی تھیں 

ٹی وی چل رہا تھا 

بلاول کوئی نیوز چینل دیکھ رہا تھا

….آپ نے بلایا تھا …….میں نے جھجکتے ہوے دادو سے پوچھا

ہاں ہاں بیٹی…..کچھ پوچھنا تھا تم سے یہاں آو میرے پاس بیٹھو ……..وہ شفقت بھرے لہجے میں بولیں.

میں انکے پاس جاکر بیٹھ گئی

یہ بتاو کہاں رہتی ہو تمہارے ماں باپ بہن بھائی ….کہاں ہیں سب بیٹا اور اس طرح رات کو تم …سب خیریت تھی نا ……..دادو رسانیت سے پوچھنے لگیں

مجھے اس سوالات سے ہی تو ڈر لگ رہا تھا..

کیا جواب دوں.میں…..میرا تو سچ میں کوئی نہیں تھا

شادی کے بعد اماں ابا.نے بھی کونسا میری خبر لی تھی ایک فون تک تو کیا نہیں تھا…….

بتانا چاہو تو بتاو …کوئی زور زبردستی نہیں جب تم خود بتانا چاہو بتا دینا

……بلاول نے بتایا تھا کہ تم اس حال میں اسے رات میں ملی ….وہ تمیں یہاں لے آیا اپنے گھر ….اسکی ماں اج صبح ہی لاہور گئی ہے

ہم تین افراد ہی ہیں اس گھر میں….

 بلاول تمہیں کسی اور جگہ بھی رکھ سکتا تھا ہم لوگوں سے چھپا کر ..پر وہ تمہیں یہاں لے آیا تم اسے اچھے گھر کی لگی تب ہی

….تاکہ تم یہاں آرام سے رہو اور تمہارے وارث ڈھونڈ کر تمہیں تمہیں انکے حوالے کرسکے …….وہ دھیمے لہجے میں مسکراتے ہوے بولیں…

میں چپ چاپ انکو دیکھتی رہی..

اب بتاو کہاں رہتی ہو…….وہ پھر بولیں

میرا کوئی گھر نہیں ہے……میں نے پھر وہی بات دہرائی..

….. ایسا کیسے ہوسکتا ہے کسی کا گھر نا ہو 

اگر گھر نہیں تو تم کہاں رہتی تھی….….وہ مسکرا کر بولیں…

صرف پتھر ریت اور اینٹوں سے بنے ہوے گھر نہیں ہوتے ….گھر تو وہ ہوتے جہاں……انسان بستے ہوں …. انسانیت ہو .…عزت ملے…. پناہ ہوں.

جہاں یہ سب نا ملے وہ گھر نہیں ہوتا …...اگر میں گھر میں رہ رہی ہوتی تو یوں سڑکوں پے رسوا نا ہورہی ہوتی آدھی رات کو ..

اس لیے میرا کوئی گھر نہیں ہے ..…..

پلیز آپ مجھے کسی ہوسٹل یا ایدھی سینٹر بھجوادیں اپکا مجھ پے احسان ہوگا مجھ پے

……..میں نے بظاہر مضبوط لہجے میں کہا …لیکن اندر کیا حال تھا میں ہی جانتی تھی کیسے اپنے آنسووں کو پیا تھا ….یہ میرا دل جانتا تھا

دادی اور بلاول دونوں میری طرف دیکھ رہے تھے ….اور میں فرش کو ….…..میرا دل چاہا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سماں جاوں

جاو تم اپنے کمرے میں آرام کرو……..دادو کی آواز پے میں نے اوپر دیکھا….

میں کھڑی ہوئی اور کمرے میں آگئی….

 ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

جبران اور ظفر پولیس اسٹیشن آئے تھے …

تھانیدار ابھی مصروف تھا کسی اور سے باتوں میں…

اب  انکے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب دینا تم …..ظفر جبران کے کان میں بڑبڑایا…

جبران بس پہلو بدل کر ہی رہ گیا…

کیا کرسکتا تھا 

غلطی کی سزا تو بھگتنا تھی

رہ رہ کر کشف کا چہرہ نظروں کے سامنے آرھا تھا.

کس طرح اسکی کڑوی باتیں سہہ لیتی تھی

کبھی کچھ نہیں بولی سامنے سے..

گھر کو ایسے سمبھال لیا تھا 

جیسے برسوں سے یہی رہتی ہو

اب جو گھر کا حال ہوا تھا اس سے جبران کو اندازہ ہورہا تھا کہ کشف کیا کچھ کرتی تھی گھر میں

جب وہ آفس سے آتا تو

ہر چیز سلیقے سے ملتی تھی

ناشتہ کھانا وقت پے ملتا تھا

اب تو گھر کا حال ابتر تھا

امی کا کتنا خیال تھا اسے

چھوڑ کے اپنے سگی ماں کے پاس بھی نہیں جاتی تھی

تب  اور بات تھی …میں نہیں تھی….اب میں ہوں …اور جب میں ہوں تو میں نہیں چھوڑ سکتی انکو  طبیعت خرابی میں…

کشف کی بات یاد آئی جبران کو ..

کہاں ہو کشف امی کو اس حال میں چھوڑ کے…

امی بہت بیمار ہیں آجاو ..

کیا کردیا یار میں نے ….گھر سے نکالنے کی کیا ضرورت تھی

فارس کو اسکے ھاتھ پکڑے دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگیا تھا …

کس حال میں ہوگی وہ…کسی غلط ھاتھوں میں ……نہیں نہیں…..اللہ نا کرے

 دل عجیب انداز میں دھڑکا…

اتنی شدت سے یاد آرہی تھی وہ جبران کو 

سچ کہا ہے ہے کسی نے .

انسان کی قدر اسکے جانے کےبعد ہوتی ہے

ایک بار مل جاو کشف میں کبھی نہیں جانے دونگا تمہیں…

معافی مانگ لونگا….

جبران اداسی سے سوچنے لگا…….

   ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اب یوں متاعِ درد کو --------------- کھونا تو ھے نہیں

کرنا ھے ضبط ہجر میں ------------- رونا تو ھے نہیں

اس دل کے داغ سب کو -------- دکھائوں تو کس لیے

آکر کسی نے بوجھ یہ ------------ ڈھونا تو ھے نہیں

اب اس سے کھیلنے کی ---------- اجازت نہیں تمہیں

دل ھے میرا یہ کوئی ------------ کھلونا تو ھے نہیں

ترکِ تعلقات کی ----------------- کوشش فضول ھے

صاحب ! یہ کام پ سے ------------ ھونا تو ھے نہیں

بہتر ھے اس کی یاد سے ------------ کر لو مکالمہ

ویسے بھی رات بھر مجھے ------ سونا تو ھے نہیں

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی….

نئی جگہ پے نیند آتی بھی نہیں….

میں اٹھ بیٹھی….

گھڑی دیکھی….ایک بج رہا تھا

کھڑی ہوئی اور کھڑکی سے پردہ ہٹایا….گھر کا شاید پچھلا حصہ تھا….سناٹے کا راج تھا….

میں یہاں کیوں رہ رہی ہوں..

کوئی بھی رشتہ نہیں کوئی وجہ نہیں 

کیوں بوجھ بنی ہوئی ہوں میں ان لوگوں پے…

میں نے دوپٹہ سہی سے اوڑھا پاوں میں چپل اڑسے اور دروازہ کھول کے باہر آگئی…

گھر میں سناٹا چھایا تھا….لگتا ہے سب سوئے تھے…

میں لاونج کو عبور کر کے  باہر آگئی..

جب نصیب میں خوار ہونا ہی لکھا ہے بعد میں بھی 

تو ابھی سے ہی نکل جاتی ہوں یہاں سے…

باہر سرد ہوا چل رہی تھی .

مجھے وہ رات یاد آگئی جب میں سرد موسم میں باہر تھی 

کیا آج بھی وہی وقت آنے والا ہے 

اللہ میری مدد کریں

میں گیٹ پر پہنچی …

گارڈ سویا ہوا تھا

میں.نے اہستہ سے گیٹ کھولا

چوکیدار جاگ گیا ایکدم کھڑا ہوا…

اوہ بی بی کیدر جا رہا ہے تم اس وقت……وہ پریشانی سے بولا

مجھے جانے دو بھائی …..پلیز…..میں منت بھرے انداز میں بولی

نہیں بی بی …..صاب کو جواب دینا ہوتا ہم کو اس سے پوچھ کر آو پھر بھلے جاو …..وہ ہکلاتے ہوے بولا….

تمہارے صاحب کی ملکیت نہیں جو اس سے  پوچھ کر آو ں میں…….میں نے غصے سے کہا…

بی بی ہماری نوکری کا سوال ہے …ہمارا زمیداری ہے گھر کا خیال رکھنا 

 کیوں ہمارا نوکری کے پیچھے پڑا ہے…..وہ لجاجت سے بولا…

کیا ہورہا ہے اس وقت یہاں گل خان ……….مجھےبلاول کی آواز آئی 

پلٹ کے دیکھا تو وہ پیچھے ہی کھڑا تھا میرے 

ایک یہ ہر جگہ پہنچ جاتا ہے غلط وقت پے………میں کوفت سے سوچا….

سلام صاب …..گل خان مودب ہوکر بولا…

وعلیکم اسلام  تم جاو گل خان….

…..کشف اس وقت کہاں جارہیں ہیں آپ …….اب وہ میری طرف متوجہ ہوا

مجھے نہیں رہنا یہاں مجھے جانے دیں……میں نے نروٹھے پن سے کہا…

وجہ …….اس نے استفسار کیا

بس مجھے نہیں رہنا مجھے آپکا  یا کسی کا احسان نہیں لینا 

جو آپنے کیا  میرے لیے وہ بہت ہے ……میں نے بدستور اسی لہجے میں کہا

مت رہیے …لیکن وقت دیکھیے اس وقت کہاں جارہی تھی آپ…یہ وقت ہے کوئی اچھی لڑکیوں کے نکلنے کا……اب اسکا لہجہ کچھ سجت تھا

صبح چلی.جایئے گا جہاں جانا ہو……جایئے اب آرام کیجیے اور آئیندہ ایسی.احمقانہ حرکت کرنے کا سوچیے گا بھی مت………وہ میری طرف دیکھتے ہوے ناراضگی سے بولا.

گھر سے باہرنکلنے کا یہ کونسا وقت ہے ..

اب اس وقت یہاں مجھے آپ نظر آئیں تو میں سختی سے پیش آونگا …….سمجھی آپ ………..وہ سختی سے بولا…..

میں شرمندہ ہوئی 

واقعی میں حرکت تو احمقانہ تھی 

آئم سوری ……..میں بول کر اندر آگئی….

….سنیے …………میں کمرے کی طرف پڑھی تب مجھے اسکی آواز آئی …

میں نے مڑ کے دیکھا 

وہ مجھے ہی بلا رہا تھا ..

جی ……میں نے رکھائی سے کہا….

سوری مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی…….وہ شرمندہ تھا

میں بنا کچھ کہے کمرے کی طرف بڑھی….

.…کشف ……..پھر پکارا اس نے

جی بولیے …….میں نے پلٹ کر کہا…..

کوفت ہورہی تھی مجھےا ب اس سے نا جانے کیوں

وہ میری جانب ہی دیکھ رہا تھا

کیوں جارہی تھی آپ یہاں سے.…...کوئی تکلیف ہے تو بتایے …..میں کوشش کرونگا اپ کو کوئی پریشانی نہ ہو یہاں پر اس طرح جایے تو مت……..وہ دھیمے لہجے میں بولا….

اسکی بات پے مجھے غصہ آگیا …

کیوں ……کس لیے آپ کوشش کروگے 

…..کس رشتے سے روک رہے ہو آپ مجھے…

… …مجھے نہیں رہنا یہاں

…پلیز زبردستی نا کریں جو اس رات آپ نے مجھ پے احسان کیا مجھے یاد رہےگا زندگی بھر 

….پر اب مجھے نہیں رہنا یہاں…..…میں نے اکھڑے ہوے لہجے میں کہا..

بلاول مجھے دیکھتا رہ گیا …

مجھے صبح جانا ہے یہاں سےروکیے گا مت میرا جانے کا بندوبست کر دیجیےگا …….میں اٹل لہجے میں کہا…

کہاں جائیں گی آپ بتایئے ……..پھر میں خود چھوڑ آونگا…..یہ وعدہ ہے میرا …مگر ایسے میں نہیں جانے دونگا..حالات کے رحم و کرم پے کم از کم میں تو نہیں چھوڑ سکتا اپکو………..وہ بھی ضدی لہجے میں بولا.

اسکی بات پے مجھے جبران یاد آگیا…..

جس نے مجھے کس طرح گھر سے بے گھر کردیا تھا..

جس سے میرا رشتہ تھا میرا مجازی خدا.

اسکو میری کوئی فکر نہیں تھی 

ابھی بھی سکون میں ہوگا وہ 

میری ذات سے ہی تو تکلیف تھی اسے

اور یہ میرا کچھ نہیں لگتا پھر کیوں اسکو میری اتنی فکر …

یا کہیں اسے بھی کوئی مطلب مقصد تو نہیں

آج کل کون کسی کی بنا مطلب مدد کرتا ہے

بتایے نا کہاں جایئےگی  آپ…….میں صبح سویرے چھوڑ آتا ہوں…

وہ پھر بولا

میرے والد کے گھر ……میں نے مضبوط لہجے میں کہا..کیا کرتی جانا تو وہیں تھا ایک نا ایک دن.

.….جبران تو بے دخل کر چکا تھا مجھے……

وہاںجاکر کرتی بھی کیا میں 

سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملنا تھا وہاں

پر آپ نے تو اس دن کہا تھا کہ آپکا کوئی گھر نہین آپ جھوٹ بھی بولتی ہیں مجھے آج پتہ چلا……..…..وہ اطمینان سے مسکرا کر بولا…

تب میں تھوڑی پریشان تھی جذباتی ہوگئی تھی…آپ مجھے صبح بجھوادیجیے گا…مجھے مزید یہاں نہیں رہنا ……….میں کہہ کر رکی نہیں اپنے کمرے میں آگئی

…دروازہ بند کیا اور بیڈ پے آکر بیٹھ گئی……

کیا امتحان ہے یہ بھی 

اب یہ کیوں پیچھے پڑ گیا ہے 

کہہ تو دیا کہ ابا کے گھر جاوگی پر اماں ابا کے پاس گئی تو وہ پریشان دیکھیں گے مجھے تو انکی پریشانی اور بڑھ جائی گی.

زندگی ابھی اور کتنے امتحان باقی ہے…..

میں کب تک یونہی لوگوں کے رحم و کرم پے رہونگی ……

کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہو جاتا…..

یا یہ سانس رک کیوں نہیں جاتی 

آنسو بنا اجازت آنکھوں میں آگئے….

کتنی مجبور تھی میں….

 ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

آج آفس میں بلکل دل نہیں لگ رہا تھا ….

اتنی خاص میٹنگ کینسل کروادی

ایسا تو کبھی نہیں ہوا 

دل کہیں لگ ہی نہیں رہا تھا

بس یوں دل چاہ رھا تھ کہ گھر چلا جائے … 

بس ایک ہی ڈر لگا ہوا تھا 

کے کشف نا چلی جائے کہیں

گل خان کو سختی سے منع کر آیا تھا کہ کشف کو کہیں نا جانے دے.. 

ورنہ اسکی خیر نہیں….

ایک تو یہ کشف….

بری طرح ہواسوں پے چھائی ہوی تھی

…کتنی ہی لڑکیاں کالج آفس میں دوست رہی ہیں ایک سے ایک خوبصورت لڑکیاں….

پر کبھی ایسا محسوس نہیں کیا انکے بارے میں …

کشف کو دیکھ کر دل عجیب انداز میں دھڑکنے لگتا تھا

ایک سچائی تھی اسکی آنکھوں میں 

اسکی کالی آنکھوں کی اداسی 

اسکی گھنی پلکوں کا اٹھنا 

اور پھر جھکنا….

دل.کرتا تھا دیکھتا ہی رہے.

کچھ تو خاص تھا اس میں

جب پہلی بار وہاں سڑک پے ملی تھی

جب ہسپتال میں بے یارومددگار پڑی تھی 

تب کتنی دعا کی اسکے لیے کہ وہ ہوش میں آجائے

حالانکہ جانتا بھی نہیں تھا اسے 

جب اسنے گاڑی میں کہا کہ اسکا کوئی گھر نہیں

جب اسکے بھیگے رخسار نظر آئے 

تب سیدھی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوی تھی وہ

کبھی کسی لڑکی کے بارے میں ایسے سوچا نہیں 

یار میں اتنا کوئی عاشق مزاج تو نہیں پھر کیا ہوگیا مجھے….….بلاول نے خود کلامی کی…

کچھ معلوم تک نہیں کیا ہے وہ لڑکی 

کہاں سے آئی ہے 

کیسی ہے

کچھ بھی تو نہیں معلوم…اسکے بارے میں..

کچھ بھی ہوجائےمیں جانے نہیں دونگا اسے اب چاہے کوئی بھی آجائے اسے لینے…..سب سے نمٹ لونگا .. ….بلاول نے خودغرضی سے سوچا…

کہہ دونگا اسکے وارثوں سے کہ اتنی پرواہ تھی تو آدھی رات کو نکالا کیوں …

اب کوئی لے دکھائے اسے مجھ سے …

 ……بلاول نے فیصلہ کرلیا

اور انٹرکام اٹھایا..

.…شزا …اندر آیئے …..…بلاول نے اپنے سیکریٹری کو بلایا…

    ♡♡♡♡♡♡♡♡♡☆♡♡♡♡♡♡♡♡♡

 ایک ہفتہ ہونے کو تھا پر کشف کا کوئی پتہ نہیں …….

پولیس میں بھی رپورٹ کروائی پر وہاں سے بھی کوئی امید نہیں …امی الگ بیمار تھیں 

گھر کا نظام درھم برھم تھا…

جبران کی بڑی بہن سیما آپی آئی ہوئی تھی……

زیتون بانو نے فون کر کےبلایا تھا….

اب ساری داستان سنا رہی تھیں…

جبران بھی سر جھکائے بیٹھا تھا

امی یہ کوئی طریقہ تو نہ ہوا اپ اب بتا رہی ہیں مجھے  …………سیما ناراض ہوکر بولیں

بس کچھ سمجھ نہیں آرھی ……کشف کا کچھ پتہ نہیں چل رہا مجھے ہول اٹھ رہے ہیں اسکے ابا کا فون بھی آیا تھا کل میں نے بہانہ کیا کہ گھر پے نہیں …کب تک ان لوگوں سے جھوٹ بولونگی میں ….…….زیتون بابو رونے لگ گئیں

جبران تم سے یہ امید نہیں تھی مجھے ……کوئی ایسے کرتا ہے اپنی بیوی کے ساتھ …کتنی معصوم لڑکی ہے وہ.کچھ پتہ بھی ہے کیسے گھر سے آئی تھی وہ تمہیں تو اسکو زیادہ توجہ اور پیار دینا چاہیے تھا الٹا نکال کر بیٹھ گئے ایک چھوٹی سی بات پے …سیما غصے سے بولیں

جبران کے پاس کچھ نہیں تھا بولنے کو …….شرمندگی سے سر جھکا لیا…….

کوئی طریقہ ہوتا ہے تم نے تو حد ہی کردی ہے کوئی تمہاری بہن کو برستی بارش میں گھر سے نکال دے سڑکوں پے رلنے کے لیے  تو کیسا لگے گا تمہیں ….سیما آپی پھنکاریں

جبران نے تڑپ کر سر اٹھایا…….واقعی میں سوچنا ہی اتنا تکلیف.دے تھا تو جس پے گزری اسکا کیا حال ہوگا…….

آپی مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئی ……جبران روہانسا ہوکر بولا…

میں کچھ بھی کر کے اسکو ڈھونڈ کے لاوگا ….

پولیس میں رپورٹ بھی کروائی ہے پر کوئی خبر نہیں…..جبران مایوسی سے بولا

ہسپتال میں پتہ کیا  ……..سیما پریشانی سے پوچھنے لگی

نہیں ……اللہ نا کرے وہ ہسپتال میں ہو…..جبران نے ہول کے کہا ……

کچھ بھی ہوسکتا ہے میاں ……جن حالات میں تم نے نکالا ہے اسے……سیما تلخی سے بولی…..

امی پہلی فرصت مئں کشف کے گھر والوں کو بتائیں ….چھپانا بیکار ہے …بعد میں پتہ لگا تو پھنس جائنگے ہم 

اور جبران تم ہسپتال مردہ خانے سب جگہ دیکھ آو…..سیما جلدی 

جلدی.بولی

جبران کا دل دھک سے رہ گیا

….مردہ خانے……..

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

میں بور ہورہی تھی تو کچھ دیر باہر آگئی لان بہت خوبصورت تھا

اتنے پیارے پودے پیڑ …..

پھول رنگ برنگے …

سبز سبز لان آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا

گیلی گھاس پے چلتے ہوے مجھے جبران کی امی یاد آئیں….

کس حال میں ہونگی وہ ….

گھر کو کیسے سمبھالا ہوگا انہوںے …….

بیمار بھی تھی وہ تو…..

اماں ابا کیسے ہونگے ….

نجف آپی …….سب بہت یاد آرھے تھے

ایک دفعہ کہیں پڑھی ہوئی بات ایکدم مجھے یاد آگئی….

..……… اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو‘ ………جو مل گیا اس پر شکر کرو‘ جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو‘ جو مانگ لے اس کو دے دو‘ جو بھول جائے اسے بھول جاؤ‘

 دنیا میں بے سامان آئے تھے‘ بے سامان واپس جاؤ گے‘سامان جمع نہ کرو‘

 ہجوم سے پرہیز کرو‘ تنہائی کو ساتھی بناؤ‘

 مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو‘

 جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کاکبھی احتساب نہ کرو‘

 بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے‘ کوئی پوچھے تو سچ بولو‘ نہ پوچھے تو چپ رہو‘

 لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے‘

 زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جاؤ ‘ تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی‘

 دینے میں خوشی ہے‘ وصول کرنے میں غم‘ دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاؤ گے‘ چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاؤ گے‘ سادھوؤں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا‘

 اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا‘ وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی‘ تم جب عزیزوں‘ رشتے داروں‘ اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کےلئے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے

 اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا“

 بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا‘ ………دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا‘ یہ اللہ کی سنت ہے‘ اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا‘……… مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دینا……… مگرجو واپس آ رہا ہو‘ اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا‘ یہ بھی اللہ کی صفت ہے‘…………… اللہ واپس آنے والوں کےلئے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے‘ تم یہ کرتے رہنا‘ تمہارے دروازے پر میلہ لگا رہے گا“

بی بی جی………….

میں چونکی ……وہی ملازمہ کھڑی تھی اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کر رھی تھی….

ہاں بولیں …….میں نے اسفسار کیا 

آپ سے ملنے کوئی آئیں ہیں……ڈرائنگ روم میں بلا رہی ہے …….وہ دوپٹہ ھاتھ میں مروڑتے ہوے بولی

اچھا میں آرہی ہوں آپ جائیں……..میں نے اس سے کہا اور اسکے پیچھے چل دی …..

ڈرائنگ روم سے باتوں کی آواز آرہی تھی

بلاول کمپوٹر پے نظریں جمائے بیٹھا تھا ….

سر .آپ نے بلایا مجھے……..…..بلاول کی سیکرٹری آفس میں داخل یو کر بولی…

شزا آو ….…بیٹھو …

بلاول نے بیتھنے کا اشارہ کیا…

…ایک کام کرنا ہے تمہیں ………بلاول اپنی چیئر پے سیدھا ہو کر بولا

جی سر بولیے……….. شزا مودب انداز میں بولی

میرے گھر جانا ہوگا آپکو …………اور ہماری ایک مہمان آئی ہوی ہیں وہ تھوڑی سیدھی سادھی ہیں انکو کچھ نئے اسٹائل کی شاپنگ کروا دیں آپ…

اور قیمتی ہونی چاہیے ہر چیز کوئی گھٹیا چیز نا ہو …سمجھ گئی نا آپ…………….…بلاول شزا کی طرف دیکھتے ہوے بولا

یس سر ……بلکل سمجھ گئی …………شزا مسکرا کر بولی

پر ایک بات کس خیال رکھنا ………بلاول کو اچانک یادآیا ….

وہ کیا سر …….شزا نے استفسار کیا…

اس پے کڑی نظر رکھنا کہیں یہاں وہاں نا ہوجائے.……بلاول نے تاکیدی انداز میں کہا…

کڑی نظر مطلب ……….؟ ….شزا نے الجھ کر پوچھا….

مطلب وہ نئی ہے اس شہر میں اس لیے بہت خیال رکھنا اسکا گم نا جائے راستوں سے ناواقف ہے وہ بلکل اکیلی مت چھوڑنا اسے بلکل بھی 

…..مجھے شاپنگ کی سمجھ نہیں ورنہ میں ہی لے جاتا اسے..………….بلاول نے جلدی سے کہا…

اور وہ.مانے گی نہیں آنے کے لیے پر آپ کوشش کرناکہ وہ مان جائے ……..بلاول شزا کو دیکھتے ہوے بولا….

اوکے سر آپ بلکل فکر نا کریں…….شزا مسکرا کر کھڑی ہوتے ہوے بولی

گڈ اب آپ جائیں اور مجھے بار بار انفارم کرتی رہنا کال پے ..……اور جاص خیال رکھنا اسکا 

…بلاول نے پھر کمپیوٹر پے توجہ مرکوز کردی………..

اوکے سر ……..…..…شزا دروازےکی طرف بڑھی…..

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

میں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سامنے.کوئی انجان لڑکی بیٹھی تھی…

نہایت فیشن ایبل لگ رہی تھی

ٹائٹ جینز اس پے وائٹ کرتی ..

دوپٹہ ندارد

کندھے تک کٹے ہوے بال 

اونچی ہیل

گہرا میک اپ

کھڑی مسکرا رہی تھی

جہاں تک مجھے یاد تھا میں نہیں جانتی تھی اسکو .

جی.……….. میں نے سوالیہ نظروں سے پوچھا..

ہائی.میم میں شزا ہوں بلاول سر کی سیکرٹری…..

انہوں نے کہا تھا میں آپ سے مل لوں ..

کس لیے ملنے بھیجنا ہے انہوں نے ..میں نے حیرت سے اسے دیکھا …

انہوں نے کہا ہے کہ آپکی شاپنگ کروا دوں………وہ اک ادا سے مسکراتے ہوے بولی……

میری شاپنگ …..مجھے سمجھ نہیں آئی اسکی بات کہ وہ کیا کہنا چاہتی تھی..

میں کچھ سمجھی نہیں …..میں نے الجھ کر پوچھا…

میں سمچھاتی ہوں…………….…سر نے مجھے بھیجاہے تاکہ میں آپکو شاپنگ.کروا دوں…….کپڑے وغیرہ جو آپ چاہیں………اپ تیار ہوجائیں ………..وہ پھر مسکر کر بولی

مجھے بلاول کے پاس جیسے برسوں رہنا ہے ایسی پلاننگ کی جارہی تھی….میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی…..کئا ساچا جارھا ہے میرے بارے میں…….کچھ تو غلط ہورہا تھا…..

دل میں آیا کہ منع کردوں اسے ………کہ بھاڑ میں گیا تمہارا سر مجھے نہیں جانا…..پھر سوچا .موقع اچھا ہے .باہر تو نکل رہی ہوں….وہاں سے فرار بھی ہو سکتی ہوں.….

ورنہ ایسا موقع نہیں ملے گا ….

ٹھیک ہے میں تیار ہوں چلیں…….میں نے ہلکی آواز میں کہا….

ڈیٹس گڈ ..چلیں…وہ خوشی سے بولی….

ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئی ……

وہ کسی بڑے سے شاپنگ مال میں لے آئی مجھے ….

میں تودیکھ کر حیران رہ گئی…

ایسا شاپنگ سینٹر تو صرف ٹی ڈراموں میں دیکھا تھا میں نے…

میں تو کھو سی گئی ایک ایک چیز دیکھ کر ….

کاش کہ جبران اور میں ہوتے یہاں ساتھ تو یہاں کی ہر چیز مزید جوبصورت لگتی…

میم چلیں……..اسکی آواز پے چونکی میں میں

جی چلیں…میں اسکے ساتھ آگے بڑھی……

وہ مجھے ایک شاپ پے لے گئی ….

مہنگے ترین کپڑے تھی اس شاپ پے

جو میں صرف سوچ ہی سکتی تھی …..

لینے کا تصور ہی بیکار تھا

مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی بس وہ ہی پسند کر کر کے لے رہی تھی ….

میم اپنی پسند بھی تو بتایے آپ. ….وہ مسکرا کر بولی….

مجھے سمجھ نہیں آرھی کچھ بھی جو آپکو ٹھیک لگے …..میں نے بے دلی سے کہا..……..میرا ذہن اب یہاں سے بھاگنے کے لیے سوچ رھا تھا. 

بل پے کرنے وہ چلی گئی ….کاونٹر کی طرف…

میں نے دیکھا وہ متوجہ نہیں تھی میری طرف اور کاونٹر پے دو خواتین اور کھڑی تھی مطلب کچھ دیر لگ سکتی ہے اسے…….

میں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹی….

وہ کاونٹر پے ہے متوجہ تھی….

میں نے موقع ءغنیمت جانتے ہوے مال کے دروازے کی طرف اپنی رفتار بڑھادی….

رش نہیں تھا .

اگر بھاگتی تو لوگ متوجہ ہوتے……

میں نے پیچھے مڑ کے آخری بار دیکھا وہ اب بھی میری طرف نہیں دیکھ رہی تھی….

میں باہر کی طرف آکر روڈ کے بجائے مال

کی پچھلی طرف آگئی 

کیوکہ آگے پارکنگ میں گاڑی اور ڈرائیور تھے وہاں میں پکڑی جاتی……..

میں تیزی سے چلتی جارہی تھی …اس علاقہ سے جلد دور جانا تھا…

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

شزا بل پے کرنے کھڑی تھی کاونٹر پے ..

اتنے میں فون بجا…

اوہ باس کالنگ …..شزا مسکرا دی….

ہیلو سر ………....وہ کھلکھاتے ہوے بولی

ہوگئی شاپنگ ……کشف کہاں ھے …..

…...بلاول نے بنا سلام دعا کے جھٹ سے پوچھا….

جی ہوگئی …….میم میرے پیچھے ہی کھڑی……

شزا نے گھوم کے دیکھا تو کشف کہیں نہیں تھی…

کہاں گئیں ابھی تو کھڑی تھیں میرے ساتھ……..شزا چیخی

کیا بکواس ہے ……….کہاں گئی وہ ڈھونڈو اسے جان سے مار دوگا تمہیں اگر وہ نا ملی تو ….…….بلاول اپنی کرسی سے کھڑا ہو کر غصے سے دھاڑا…

ج…ج.جی سر میں دیکھتی ہوں…..شزا کے ھاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے …….اس نے ہکلاتے ہوے کہا اور فون بند کر دیا…..بھاگتی ہوی باہر آئی ….ڈرائیور گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا شزا کو دیکھ کر سیدھا ہوگا

طاہر حسین …..وہ میرے ساتھ لڑکی تھی …وہ باہر نکلی ہے تم نےدیکھا ………..شزا بوکھلاتے ہوے بولی..

نہیں شزا میڈم میرے سامنے کوئی باہر نہیں آئی………میں تو کب سے یہی ہوں……………………...ڈرائیور نے جلدی سے کیا

افف میرے خدا باس مجھے جان سے مار دینگے اگر وہ نا ملی تو……..شزا کی حالت بری ہورھی تھی

اپ باہر دیکھو میں اندر مال میں اسے ڈھونڈ کے آتی ہوں

شاید وہ اندر ہی ہو……شزا دوڑتی ہوئی پھر مال میں گئی

پر وہ کہیں نہیں ملی …….شزا مایوس ہوکر باہر آگئی….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

میرا دل بہت ہول رہا ہے کشف کے ابا مجھے کشف کی یاد آرھی ہے اب تو لے جایے مجھے اسکے گھر ….کتنے دن ہوگئے ہیں

نا جانے کس حال میں ہوگی …. ….……کشف کی اماں صفیہ بی بی روٹی دیتے ہوے چینی سے بولیں

بیٹی اپنے گھر میں سکھی اچھی نہیں لگتی تمہیں…….ماسٹر کرامت نوالہ توڑتے ہوے بولے…

ایک بار لے جایے پھر نہیں کہونگی……..صفیہ لجاجت سے بولیں

کوئی ضرورت نہیں ..فون پے بات کر لینا …بیٹیوں کے گھر نہیں جاتے میکے والے……اچھے بات نہیں………… ماسٹر کرامت کڑک لہجے میں بولے

کبھی سنی بھی ہے میری آپ نے …..صفیہ رندھے ہوے لہجے میں بولیں..

تب ہی دروازے پے دستک ہوئی 

اس وقت کون ہوگا صفیہ بی بی نے گھڑی دیکھی 

سات بج رہے تھے شام کے

رکو میں دیکھتا ہوں…………ماسٹر کرامت کھڑے ہوکر بولے 

اور کمرے سے باہر نکل گئے

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

جبران زیتون بانو اور سیما…….تینوں کشف کی اماں کے گھر انکے سامنے شرمندہ بیٹھے تھے…………………

ایک بار بتا تو دیتے آپ لوگ ہمیں بلواتے ہم اس سے باز پرس کرتے غلطی پے اس سے سختی سے پیش آتے ………کشف کے ابا غصے میں دبی ہوئی آواز میں بولے 

ہم بہت شرمندہ ہیں معاف کردیں …….زیتون بانو روتے ہوے بولیں

ہمیں بلکل اندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہوگا …ہم سمجھے کہ مل جائیگی آس پاس ہی ہوگی ………سیما جلدی سے کر بولی

ان سب کا میں ذمہ دار ہوں میں سب کا مجرم ہوں…….جبران سر جھکا کر بولا

تم …بات مت کرو ہم سے …….ماسٹر کرامت ستخی سے بولے

جبران شرم سے زمین میں گڑ گیا…….

کشف کے ابا کا غصہ بجا تھا ….

اخر وہ انکی بیٹی ہے ….

کچھ بھی کہنے کا حق رکھتے تھے…

جبران مجرم تھا انکا

بیٹی شادی کر کے تھی تمہیں ..بیچی نہیں تھی….

جو تم نے ہمیں کچھ بتانا مناسب ہی نہیں سمجھا……ماسٹر کرامت بھڑکے…..

مجھے میری بیٹی کی کل تک خبر چاہیے …ورنہ میں تمہارے خلاف پولیس میں پرچہ کٹواوگا…….ماسٹر کرامت شدید غصے میں تھے

صفیہ کی حالت عجیب ہورہی تھی

جیسے جس کا ڈر تھا وہی ہوا ہو

دل ہول ہی رھا تھا کتنے فنوں سے 

پر شوہر کے ڈر سے بولتی نہیں تھیں

وہ سب کچھ دیر بیٹھ کر

گھر کے لیے نکل گئے خاموشی سے.

خاموش ہی رہتے نا 

بولتے بھی تو کیا 

کہ انکی بیٹی کو دربدر کردیا ہے .

ماسٹر کرامت نے صرف دھمکی نہیں دی تھی …

وہ سیریس تھے ..اور جو کہا تھا وہ کر بھی سکتے تھے..

کیوں کہ بات اب انکی بیٹی کی تھی …..

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

بلاول نے آفس سے نکلتے ہوے پھر فون کیا شزا کو…..

ملی کشف ……وہ تیزی سے بولا..

نہیں سر پتہ نہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا…میں نے شاپنگ مال میں ہر جگہ دیکھا باہر مال کی طرف کے ہر رستے پے دیکھا کہیں نہیں وہ ………….ابھی بھی ہم ڈھونڈ ہی رہے ہیں………..شزا نے بمشکل کہا

. ایک کام ٹھیک سے نہیں ہوتا تم لوگوں سے …….

بلاول نے غصے سے فون بند کیا….

گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کردی…..

غصے سے اسٹیئرنگ وہیل پے ھاتھ مارا .….

کہاں گئی ہوگی …بھاگنا ہی چاہتی تھی شروع دن سے….اور بھاگ گئی آخر….

کہاں سے آئی تھی کچھ پتہ بھی تو نہیں دیا تھا اس نے گھر کا….

مگر میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالو گا….

بلاول نے خود غرضی سے سوچا.

دماغ سے چپک گئی تھی وہ….اتنی آسانی سے تو اسکو نہیں چھوڑ سکتا…

کشف بھاگ لو کتنا بھاگوں گی تم…..

تمہیں آخری سانس رک تلاش کرونگا…

میری بچپن کی عادت ہے میں اپنی چیز کسی کو نہیں دیتا…

میری ضد کا تمہیں اندازہ نہیں شاید

دیکھ لوگی تم بھی مجھے

بلاول نے خود سے کہا…

گاڑی کی رفتار تیز کردی …….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡¤♡♡♡♡♡♡♡♡♡

چلتے چلتے میں کہاں آگئی تھی …کچھ پتہ نہیں تھا ….

..شاپنگ مال والے ایریا سے دور نکل آئی تھی..

میں نے دیکھا یہ کچھ متوسط طبقے کا علاقہ لگ رھا تھا

یا اللہ میرے نصیب میں کیا سفر ہی لکھا ھے ..

میں اب تھک چکی تھی بہت تھک گئی تھی 

اتنے دن کی خواری سے

کہیں رک کے تھوڑا آرام کا دل ہورہا تھا

ایک پارک جیسا نظر آیا….

شاید کوئی پبلک پارک تھا…..

میں اندر آگئی ….

پارک میں رش تھا….

بچے بڑے سب چہرے پے خوشی لیے گھوم رھا تھا….

جھولے 

ٹھیلے والے

غباروں والے…

غرض کہ رونق سی لگی ہوئی تھی

میں پارک کا ایک سنسان کونا دیکھ کر وہاں نصب بینچ پے بیٹھ گئی

بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے 

ایسا تو کسی کے ساتھ نہیں ہوتا 

جیسا میرے ساتھ ہوا ہے 

شادی ہوئی

شوہر کی طرف سے کوئی عزت نہیں ملی 

دھتکارا ہی اس نے ہمیشہ

تب بھی لب سی کے سب سہہ لیا

اس نے اپنے پاس بٹھانا تک گوارہ نہ کیا تب بھی چپ رہی 

اس نے مجھے اپنی ماں کی کیئر ٹیکر بنا کے رکھا دیا تب بھی چپ رہی

جب بات میرے کردار کی آئی

میں تب بھی چپ رہی 

اس نے گھر سے بے گھر کردیا

میں تم بھی چپ رہی

انسان ہو ں میں بھی 

کبھی سوچا بھی تھا تم نے جبران

کہ میں بھی گوشت پوست کی انسان ہوں

سانس لیتی ہوں

لوگوں کے رویے محسوس کرتی ہوں

مجھے بھی ہر چیز کی ضرورت تھی

پر کبھی اظہار نہیں کیا

میں نے تمہیں اپنا سب کچھ مانا پر تم تو ایک موقع کی تلاش میں تھے کب کوئی موقع ملے اور تم مجھے اپنی زندگی سے الگ کردو

میں نے اتنے عرصے میں تم سے کبھی کچھ ما نگا تھا….

کسی کی خاموشی کی ایسی سزا ملتی ہے ….

میرے پیروں کے پاس کوئی چیز تکرائی

میں نے چونک کر دیکھا تو یہ ایک بال تھی

.

آنٹی میری بال دے دو.…..کسی بچے کی آواز پے میں نے سر اٹھایا

چھ سات سال کا بچہ کھڑا تھا

بلیو پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس

میں نے بال اٹھا کر اس کیطرف بڑھائی

وہ بچہ مجھے ہی دیکھ رھا تھا..

آنٹی آپ کیوں رورہی ہوں..…وہ بچہ میرے قریب آکر بولا شاید اسنےمیری آنکھوںمیں آنسو دیکھ لیے تھے

میں کہاں رورہی ہوں………...میں ھتھیلیوں سے آنکھیں رگڑ کے مسکرانے کی کوشش کی 

جھوٹ بولنا بری بات ہے آنٹی اپ رورہی تھی….…….اب وہ میرے برابر آکر بیٹھ گیا….

اچھا…….اب میرے پاس کچھ تھا نہیں کہنے کو…….

کس لیے رورہی تھی آپ ..کسی نے مارا ہے 

….اسکول سے یا گھر سے مارپڑی ہے………وہ معصومیت سے پوچھنے لگا

بچہ تھا نا اپنی سوچ جتنی ہی بات کر سکا اسے کیا معلوم کہ اسکول اور ماں باپ کی مار سے بھی کئی بڑے مسئلے ہوتے ہیں زندگی میں……

اسے میں اسکول گرل لگی تھی 

بے اختیار مجھے ہنسی آئی

نہیں……..………میں نے مسکرا کر کہا….

اچھا ….. وہ شاید میرے جواب سے مایوس ہوا..

اور کھڑا ہوا…..بال اٹھائی اور جانے لگا…

میں اسکو دیکھنے لگی..

پھر وہ رکا…

واپس پلٹا 

میری طرف آیا…

یہ آپ رکھ لیں میرے پاس دوسری ہے ……..اس نے بال میری طرف بڑھائی

مجھے بے اختیار اس پے پیار آیا …..اسے میری اتنی فکر ہوگئی تھی کہ میں بال سے کھیلوگی تو خوش ہوجاوگی…

مجھے نہیں چاہیے ……میں دل سے مسکرا کر کہا..

…..وہ بھی مسکرایا اور بال کو بغل میں دبائے چلا گیا……

شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے مجھے نکلنا ہوگا یہاں سے …

اب اماں کے گھر کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا ..

کوئی رکشہ لے کر میں اماں کے گھر ہی چلی جاتی ہوں کرایہ وہاں پہنچ کر اماں سے لے کر دے دونگی

میں پارک سے نکلی .

گلیوں سے ہوتی ہوئی روڈ کی طرف آئی شاید یہاں کوئی کنوینس مل جاتی ….

مجھے روڈ کے اس پار دو تین رکشہ کھڑے دکھائی دیے ..

پر رود پے ٹریفک بہت تیز آرھا تھا

اور میں نے کبھی اتنے ٹریفک میں روڈ کراس نہیں کیا تھا

اللہ اب کیا کروں

دل ڈر رھا تھا

پر اس پار جاتی تب ہی رکشہ مل پاتا

میں نے دل کڑا کر کے قدم آگے بڑھائے

ایک کے بعد ایک گاڑی تیز اسپیڈ میں آجارہی تھی

ایک کار ائی زن کر کے گزری میرے قریب سے 

میں ڈر کے پیچھے ہٹ گئی

پھر ہمت کر کے آگے بڑھی

اب آہستہ سے آگے آئی

اب کچھ کم لگ رھی تھی ٹریفک

میں نے سوچا تھوڑی تیزی سے نکل جاوں 

جیسے ہی دو قدم آگے بڑھی

میرے جسم کو جھٹکا لگا 

اور مجھے یوں لگا میں ہوا میں معلق ہوگئی

مجھے کسی چیز کا ہوش نہیں رھا

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

جبران کو رہ رہ کر کشف کے والد کی بات یاد آرھی تھی 

ڈرائیونگ کرتے ہوے بھی کہیں اور دھیان تھا

امی سیما آپی پیچھے سیٹ پے بیٹھے پتہ نہیں کیا بات کر رھی تھیں

پر جبران کا دماغ کشف پے اٹکا ہوا تھا

کرھر چلی گئی تھی وہ 

کہاں ڈھونڈو اسے 

خاموشی سے آئی میری زندگی میں

اور ایک ہلچل مچا کر چلی گئی

اب مل بھی جاو کشف

میں اپنے ہر برے رویے کی ھاتھ جوڑ کر معافی مانگ لونگا

جبران گاڑی روکو…..….زیتون بانو کی آواز پے جبران نے بریک لگایا گاڑی کو….

کیا ہوا امی ….…..……جبران نے پیچھے مڑ کے پوچھا…..

ویاں دیکھو لوگ جمع ہے لگتا ہے کوئی حادثہ ہوگیا ہے جاو بیٹا شاید کسی کو مدد کی ضروت ہو ..…….زیتون بانو نے ھاتھ سے بائیں جانب اشارہ کیا

جبران نے دیکھا بڑے روڈ پے لوگوں کا رش لگا ہوا تھا….

اوکے دیکھتا ہوں……..جبران گاڑی کا دروازہ کھول کے باہر آیا….

اس طرف آیا جہاں لوگوں کا ایک ہجوم تھا……

رش کو ہٹاتے ہوے جبران اگے بڑھا…..

کوئی لڑکی اوندھے منہہ پڑی تھی شاید ایکسیڈنٹ ہوا تھا 

لڑکی کے ارد گرد خون پڑا تھا.

مگر اتنے رش میں کوئی مدد نہیں کر رھا تھا

سب تماشا دیکھ رھے تھے….

کوئی موبائل سے ویڈیو بنا رہا تھا

انسانیت ہی مر گئی ہے 

جبران بڑبڑایا

جبران کو غصہ آیا

یار کسی انسانی جان کی کوئی قدروقیمت ہے یا نہیں….

تم سب تماشا دیکھ رہے ہو 

کوئی ہسپتال ہی لے جاو اسے

جبران نے غصے سے سارے مجمعے سے کہا …

کوئی آگے نہیں بڑھا

سب ڈرتےہیں آج کل ……کسی نے کہا

کوئی بھی پولیس کیس میں ھاتھ نہیں ڈالنا چاہتا بھائی

….ایک اور اواز آئی

جبران آگے بڑھا تاکہ دیکھے کہ کیا حالت ہے لڑکی کی زندہ بھی ہے یا نہیں….ہسپتال لے جانے جیسی بھی ہے ..یا نہیں

جبران پنجوں کے بل سڑک پے بیٹھا اور لڑکی کو کندھا پکڑ کر سیدھاکیا…

لڑکی کا بے حس و حرکت سامنے تھا اب

لڑکی کا خون آلود چہرہ دیکھ کر

وقت جیسے تھم سا گیا..

یہ تو 

وہ اس طرح اس حالت میں ملے گی 

جبران نے خوابوں میں بھی نا سوچا تھا

لڑکی کا زخموں سے بھراچہرہ جبران کے سامنے تھا…

یہ کیا ہوگیا میرے خدا 

کیا کردیا میں نے اسکا حال

میں نے کس مقام پے پہنچا دیا 

جبران کو اپنی آنکھوں پے یقین نہیں آراھا تھا

کشف ف ف ف……..……جبران پوری طاقت سے چلایا….

اور کشف کو بازوں میں اٹھا کر دیوانہ وار مجمع کو چیرتے ہوے گاڑی کی طرف بھاگا 

مجمع کے لوگ حیران اسے دیکھتے رہ گئے

زیتون بانو نے حیرانی سے دیکھا جبران کسی کو بازوں میں اٹھائے دوڑا چلا آرھاتھا…………..

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

کشف انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تھی 

زیتون بانو جبران سیما آپی

سب وارڈ کے باہر کھڑے تھے ..

جبران یہاں سے وہاں ٹہل رھا تھا

اسے ایک سیکنڈ سکون نہیں آرھا تھا

ڈاکٹر کیا کنڈیشن ھے سب ٹھیک ھے نا……

خون بہت بہہ چکا ہے ہم نے کوشش کی ہے…..

…باقی آپ.دعا کریں………ڈاکٹر جیسے ہی باہر آیا جبران دوڑ کر انکے پاس گیا……

ڈاکٹر کہہ.کر رکا نہیں ….

جبران کی آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا…

وہ وہیں زمین پے بیٹھتا چلا گیا

جبران کھڑے ہو ہمت کرو تم ہی ہمت ہار دوگے کیا یار

…….….کسی نے کندھے سے پکڑ کر کھڑا کیا

جبران نے دیکھا سیما آپی کے شوہر خرم بھائی تھے

جبران انکے کندھے سے لگ کر رونے لگا …….

میں بہت برا ہوں خرم بھائی……..میں نے ایک لڑکی کی زندگی برباد کر کے رکھ دی……..

پر اس نے کبھی حرف شکایت نہیں کی ….

ہمت کرو جبران ..مانا کے تمہاری غلطی ہے پر اب تو جو ہونا تھا 

وہ ہو گیا….

اب کشف مل گئی ہے بس دعا کرو کہ وہ صحت یاب ہوجائے جلد از جلد.……خرم بھائی سمجھاتے ہوے بولے…

بہت سیریس حالت ہے اسکی……اسے کچھ ہوا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرونگا………جبران رو پڑا…

دعا کرو یار ایسے ہمت نہیں ہارتے…….خرم بھائی نے تسلی دی..

میں نے اسے کبھی بیوی سمجھا ہی نہیں ..ہمیشہ پاوں کی جوتی سمجھا …

.پر کبھی اس نے کچھ نہیں کہا….گھر سے نکال دیا تب وہ پہلی بار بولی تھی دروازہ بجا کر کہ امی میں کہاں جاوگی دروازہ کھولیں…

میں نے امی کو دروازہ کھولنے ہی نہیں دیا ایسی بارش تھی اتنا خراب موسم تھا 

کہاں جائےگی وہ .میں نے ایک بار بھی نہیں سوچا 

کتنا گھٹیا انسان ہوں میں

وہ کہاں کہاں خوار ہوئی ہوگی اور اس حال پے کیسے پہنچی ہوگی میرے خدا… ….جبران روئے جارہا تھا

جبران بس کرو کھڑے ہو 

…اور ڈاکٹر سےمعلوم کرو کیا حال ہے اب کشف کا اور کشف کے والدین کو بھی اطلاع دو تاکہ وہ بھی آجائیں………. …..خرم بھائی جبران کا کندھا تھپتھپاتے ہوے بولے…

.

جبران کھڑا ہوا رومال سےچہرہ صاف کیا 

اور آئی سی یو کے دروازے پر آگیا

دروازے کے درمیان لگا دائرہ نما شیشہ اندر کا منظر دکھا رھا تھا

کشف کا پٹیوں میں جھکڑا چہرہ نظر آیا 

جبران کے دل میں ہوک سی اٹھی

چہرے پے بہت خراشیں ائی تھی

ایک نرس جھکی کچھ انجکشن لگا رہی تھی کشف کے ھاتھ پے …

پھر دروازے کی طرف بڑھی

جبران ایک طرف ہوگیا

دروازہ کھول کر نرس باہر آئی

سنیے سسٹر …….جبران نے عجلت میں اس نرس کو پکارا

جی .……

نرس جبران کی طرف مڑی

وہ کچھ دیر میں اندر جا سکتا ہوں پلیز …..جبران منت بھرے اندار میں بولا

ڈاکٹر آئینگے ان سے پوچھ لینا آپ ….نرس بول کے ٹھک ٹھک کرتی چلی گئی

جبران مایوس ہوکر وہیں لگے بنچ پے بیٹھ گیا

زیتون بانو تسبیح پڑھتے ہوے جبران کو دیکھ رہی تھی

جبران زیتون بانو.اور خرم بھائی اس وقت وہ تینوں ہی تھے ہسپتال میں

جبران نے جیب سے موبائل نکالا اور نمبر ملا کر زیتون بانو کو دیا..

امی کشف کے امی ابو کو بتا دیں اور بلا لیں یہاں انکو……..جبران سنجیدگی سے بولا

زیتون بانو نے فون لے لیا جبران سے…….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

بلاول غصے میں یہاں سے وہاں ٹہل رھا تھا.

کشف کا کہیں کوئی پتہ نہیں مل رہا تھا

نا جانے کدھر چلی گئی تھی

آخر گئی کہا 

جتنی معصوم نظر آتی تھی اتنی ہی چالاک نکلی وہ

بلاول نے اسے ڈرپوک سمجھا تھا

اسے لگا تھا کہ ڈر کے مارے نہیں جائےگی کہیں

پر یہ تو پر آتے ہی اڑ گئی

بلاول دانت پیس کر رہ گیا

ساری غلطی میری ہے

بھیجا ہی کیوں اسے شاپنگ پے

مت ماری گئی تھی میری

جو اسے گھر سے باہر بھیج دیا

ڈھونڈ کے تو رہونگا تمہیں

بلاول بڑبڑایا

فون کی بیل بجی

بلاول نے چونک کر فون ریسیو کیا

ہاں…….

.بولو…

کچھ پتہ چلا لڑکی کا…

ایک کام نہیں ہوتا تم سے

کہیں سے بھی ڈھونڈ کے لاو اسے…….

میں کچھ نہیں جانتا

کسی کی بھی مدد لو……

لڑکی چاہیے مجھے ……

اوکے مجھے انفارم کرو جلدی سے…..…بلاول نے بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوے کہا اور فون بند کردیا….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

میری آنکھ کھلی ….

ٹی ٹی ٹی….کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی

عجیب سی بو ناک سے تکرائی 

کچھ دیر تو سمجھ نہیں آیا مجھے کچھ کہ میں کہاں ہوں. 

پھر کچھ کچھ. سمجھ آنے لگا 

میں گردن گھمائی مانیٹر سے آواز آرہی تھی 

یہ ہسپتال کا کمرہ تھا 

میں نے اپنا ھاتھ اٹھانا چاہا پر درد کی.لہر سے دوبارہ رکھ دیا

کون لایا مجھے .

کیا ہوا تھا مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں آرہا تھا

ذہن پے زور دیا 

تو تھوڑا یاد آیا 

میں اماں کے گھر جانے کے لیے رکشہ ڈھونڈ رہی تھی

اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں…

کیا میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا

اللہ ..اب کونسا امتحان ہے 

اب کن ھاتھوں میں پہچایا ہے مجھے

تھک گئی ہوں میں

کیوں زندہ رکھا مجھے مر جاتی تو اچھا تھا

کب کوئی برا کام کیا تھا جو اتنی تکلیف مل رہی ہے 

میں سوچنے لگی…

ایک نرس اندر آئی 

مخھے جاگتا دیکھ کر مسکراتی

اپکو ہوش آگیا مسز کشف…………..وہ ڈرپ چیک کرتے ہوے مسکرائی

…..مسز کشف ……میں نے الجھ کر سوچا میرا نام پتہ ہے اسکو پر مسز ….؟

میں اسکو دیکھتی رہی بولنے کی طاقت نہیں تھی مجھ میں

رکیے میں ڈاکٹر کو بتاتی ہوں…..وہ بول کر تیزی سے باہر چلی گئی..

میں اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ مجھے کون لایا تھا

کہیں وہ بلاول تو نہیں لایا تھا پھر سے

…پر میری آواز نے میرا ساتھ نہیں دیا اور پوچھ نا سکی…

مجھے غنودگی سی ہونے لگی تھی

اور میری آنکھیں بند ہونے لگی….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

زیتون بانو نے کشف کی اماں ابا کو فون کر کے بلا لیا تھا

سب وہ

آپکی مریضہ کو ہوش آگیا ہے ……ڈاکڑ آکر بولا.

تو جبران کی جان مہں جان آگئی

جلدی سے کھڑا ہوا …

ہم مل سکتے ہیں اس سے ڈاکٹر….جبران بے چینی سے بولا…

جی ہاں پر زیادہ بات چیت مت کیجیےگا ….

ڈاکٹر نے کشف کی فائل چیک کرتے ہوے کہا….

جبران نے اثبات میں سر ہلایا اور زیتون بانو کے پاس آیا ……

امی …..کشف کو ہوش آگیا……….جبران فرط مسرت سے بولا

ہاں بیٹا شکرانے کے نفل پڑھنا مل کے آجاو کشف سے پھر 

زیتون بانو کی آنکھیں چھلک پڑی

وہ لڑکی تھی ہی ایسی کہ اسکے لیے زیتون بانو کی بار بار آنکھیں بھیگ جاتی تھی

جبران مسکرا کر کھڑا ہوا ….

آپکی دعا رنگ لائی ہے امی جان…….جبران خوشی سے بولا

بلکل بیٹا دعاوں سے تقدیر بدل جاتی ہے 

اب کبھی اس لڑکی کو مت رلانا 

انمول ہیرا ہے کشف قدر ہوئی نا تمہیں اسکی اسکے جانے کے بعد……….…جاو اب تم مل آو پہلے کشف سے پھر میں جاوگی……زیتون بانو مسکرا کر بولیں

جبران مسکرا دیا….واقعی میں امی کی بات بلکل ٹھیک تھی 

انمول ہیرا ہی تھی کشف جو کھو گیا تھا…

اب نہیں کھونے دونگا اسے میں…. .

جبران نے خود سے عہد کرتے ہوے سوچا ……

جبران اب کشف کے روم کی طرف آگیا…

آہستہ سے دروازے کو دھکیل کر وہ اندر آگیا

اسکےکے بیڈ کے پاس آکر دیکھا

اسکی آنکھیں بند تھی…

چہرے پے اچھی خاصی چوٹ لگی تھی بازو ھاتھ سب میں پٹیاں بندھی ہوئی تھی

جبران کا دل کٹنے لگا 

اس حال میں بھی دیکھنا ہوگا …سوچا نہیں تھا…

آنکھیں بھر آئی

جبران نے ہمت کر کے کشف کا ھاتھ اپنے ھاتھوں میں لیا

اسکا ھاتھ ٹھنڈا برف سا ہورھا تھا

کشف………جبران نے پکارا

کشف …….آنکھیں کھولو

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

کشف…….آنکھیں کھولو……….کشف ………

مجھے کسی آواز نے جگایا….

میں نے انکھیں کھولیں…..

سامنے جو چہرہ تھا اسے میں زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی

میں نے دعاکی تھی کہ میں کبھی اسے نا دیکھوں

پر وہ سامنے تھا جس نے مجھے بدکردارکہا

جس نے مجھے گھر سے اس طرح نکال دیا

جیسے کوئی ناپسندیدہ جانور کو نکالتا ہے

جس کی وجہ سے میں دربدر ہوئی

جس نے زلیل و رسوا کردیا تھا

میری زندگی سے کھیل گیا یہ

مجھے کوئی موم کی گڑیا سمجھا اس نے 

پر یہ کیا……وہ رورہا تھا ..….

پر کیوں میرے زندہ بچ جانے پے…

یا میرے مل جانے پے….

کشف کیسی ہو …………وہ آنکھیں صاف کر کے میری طرف دیکھتے ہوے بولا…..

میں دیکھتی رہی اسے

آج بھی ہمیشہ کی طرح اسکے سامنے الفاظ دم توڑ گئے تھے…

.

بولو کشف کہا کہا نہیں ڈھونڈا تمہیں پولیس میں بھی رپورٹ درج کروائی پر انکو بھی تمہارا پتہ نہیں چلا ..کہاں چلی گئی تھی تم………وہ پھر بولا

میں خاموشی سے دیکھتی رہی اسے

میں مجرم ہوں نا تمہارا…..…..اب وہ سر جھکا کر بولا

میں تمہارا گناہگار ہوں……جو سزا دوگی میرے سرآنکھوں پے ……اف تک نہیں کرونگا…

…….جبران بھیگے لہجے میں بولا…….

کچھ تو بولو کشف……..وہ ملتجی انداز میں بولا

میں نے اہنا ھاتھ اسکے ھاتھ سے آہستہ سے چھڑایا

اور اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا……

کشف معاف نا کرو بھلے پر رخ نہ پھیروں پلیز…..وہ اسی اندازمیں بولا

کچھ برا بھلا بول دو دل کی بھڑاس نکالو

اب چپ مت رہو …..چپ.رہ کر تم نے بہت سزا کاٹ لی ہے ….

میں نے اسکی طرف دیکھا اور اپنی ساری ہمت جمع کی اور ایک لفظ بول پائی ……

اماں……

کال کی ہے پہنچتے ہی ہونگے وہ لوگ آپکی اماں اور ابا…….جبران جلدی سے بولا….

میں نے اسکی بات سن کر آنکھیں موند لی.مجھ میں ہمت ہی ختم ہوگئی تھی..

جبران دیکھتا رہا …شاید کمزوری کی وجہ سے زیادہ بول نہیں پا رہی….

خون بھی تو اتنا بہہ گیا تھا

جب کشف کو وہاں سڑک سے اٹھایا تھا

تب بھی اتنا خون بہہ چکا تھا….

گاڑی کی سیٹ پے ابھی بھی نشان ہے اسکے خون کے…

جبران سے گاڑی ڈرائیو ہی با ہوتی اس لیے جبران کشف کو پچھلی سیٹ پے لے کر بیٹھا

اور گاڑی سیما آپی نے ڈرائیو کی

جبران بس اپنے ھاتھوں سے کشف کا چہرہ صاف کرتا رہا اور کشف ہوش و خرد سے بیگانی.اسکی گود میں پڑی تھی

دروازہ کھلا اور نرس اندر آئی

چلیں آپ باہر جائیں…….مریض کو آرام کرنے دیں ………نرس کوئی ڈرپ وغیرہ لائی تھی

جبران کھڑا ہوا 

نرس پرانی ڈرپ نکال کر باہر لے گئ….

جبران بھی اسکےپیچھے دروازے کی طرف بڑھا…..

جبران……..ہلکی سی آواز اسکی کانوں میں گونجی

جبران پورا گھوم گیا…

یہ کشف کی آواز تھی

..وہ دوڑ کے کشف کے پاس آیا…

جبران قریب آیا …کشف کی آنکھیں بند تھی 

لب ہل رہے تھے

اور لبوں پے جو نام تھا..

اسے سن کر 

جبران کے چہرے پے مسکراہٹ پھیل گئی

….تم لاکھ رخ موڑو

ھاتھ چھڑاو…..

پر تمہارے دل میں میں ہی ہوں کشف یہ بات تم مان لو 

…اب تم جاگ رہی ہو یا نیند میں ہو یہ میں نہیں جانتا…پر جب تم ٹھیک ہوجاوگی تب پوچھوگا تمہیں…..

سارے تمہارے دکھ درد بانٹ لونگا

جو جو تم نےجھیلا ان سب کا بھلا کر نئی زندگی شروع کرینگے

تمہارے پیروں کے سارے کانٹے چن لونگا

بس تم اعتبار کرنا مجھ پے

جبران مسکراتے ہوے باہر آگیا…..

کیسی ہے کشف…..زیتون بانو کھڑی ہوئی……

سوئی ہے امی …..پر بہتر لگ رہی ہے اللہ کے کرم سے ….جبران نے اطمینان سے کہا

اللہ.کا لاکھ شکر ہے …..زیتون بانو تشکر سے بولیں………… 

میں شکرانے کے نفل پڑھ کے آیا ……..…..جبران جاتے ہوے بولا…

زیتون بانو مسکرا دیں ……..

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

میں اب بہتر محسوس کر رہی تھی …..

مجھے تین دن ہوگئے تھے ہسپتال میں……

یہ تین دن بس سو کر.ہی گزرے تھے میرے

مجھے آئی سی یو سے وارڈ میں منتقل کردیا تھا

اماں اور جبران کی امی دونوں میرے ساتھ تھیں.

جبران بھی یہی تھا

ڈاکٹر راونڈ پے آیا مجھے چیک کرنےکےبعد چھٹی دے دی…..

چلو گھر کشف……. جبران کی امی خوشی سے بولیں

میں اماں کے گھر جاوگی ……..میں نے سر جھکا کر ان سے کہا

جبران نے چونک کر مجھے دیکھا

کیوں بیٹی ناراضگی ختم کردونا میں معافی مانگتی ہوں جبران کی طرف سے…گھر چلو ……زیتون بانو لجاجت سے بولیں…

نہیں امی آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں …..مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں….. جو میرے نصیب میں تھا مجھے ملا ..

جو تکلیف میرے نصیب میں تھی مجھے ملی …..

شاید مجھ سے ہی جانے انجانے میں کوئی گناہ ہوگیا ہوگا جسکی یہ سزا ملی مجھے 

اپ لوگ شریف لوگ ہیں ….مجھ جیسی بدکردار کا آپ کے ساتھ کوئی گزارہ نہیں…میں نہیں چاہتی کہ مجھ سھ پھر کوئی غلطی ہو اور ایک بار پھر سے مجھے زلیل و رسوا کر کے نکال دیا جائے….میں تھک چکی ہوں ان دو ہفتوں میں میں نے باہر کی سرد و گرم جھیل لی ہے اب مزید ہمت نہیں مجھ میں میں پھر سے کوئی نیا الزام نہیں سہہ سکتی…………….….….میں نے سر جھکا آنسو چھپاتے ہوے کہا

جبران تڑپ کر آگے آیا……..

اماں اور زیتون بانو ایک طرف ہوگئے

میں نے اس دن بھی معافی مانگی تھی تم سے ابھی بھی مانگ رہا ہوں

تم بدکردار نہیں ہو کشف میرا ذہن خراب تھا …جو تمہیں بھی برا سمجھا میں نے …تم اذیت سے گزری تو میں بھی ایک پل سکون میں نہیں تھا…..میری ولعزت باہر رل رہی تھی مجھے کیسے چین آتا 

…اب گھر چلو اور آئندہ کچھ ایسا نہیں ہوگا….پلیز….تمہارے بنا ادھورے ہیں ہم .ہمارا گھر امی اور میں……….وہ میرے قریب آکر بولا……

میں نے سر اٹھایا تو جبران کو قریب پایا….

دائیں بائیں دیکھا تو دونوں اماں بھاگ چکی تھیں…

میں نے اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو سمبھالا ….

مجھے اسکے سامنےبلکل کمزور نہیں پڑنا تھا

ورنہ دل تو اسکے ہر عتاب کو بھلا کر اسکے قدموں میں گر رہا تھا

مجھے نہیں آنا ..………...میں اماں کے گھر رہنا چاہتی ہوں اور مزید میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی…..

….میں نے مضبوط لہجے میں کہا اور رخ پھیر کر کھڑی ہوگئی..

جبران بے بسی سے دیکھتا رہ گیا….قصور بھی تو ایسا تھا معافی اتنی جلدی کیسے ملتی…

تھوڑا ٹائم دینا چاہیے اسے سمبھلنے کے لیے …جبران سوچتے ہوے باہر آگیا….

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

عقیدت توڑ آئی ہوں ،،عبادت چھوڑ آئی ہوں ،

محبت میں وفاؤں کی روایت چھوڑ آئی ہوں

کسی نے خواب کے بدلے میں حرمت مانگ لی مجھ سے

میں زندہ آنکھ میں مرتی وہ حسرت چھوڑ آئی ہوں

یہ ایسے زخم تھے مجھکو جو اپنی جا ں سے پیارے تھے

سدا رستے رہیں ، بھرنے کی نیت چھوڑ آئی ہوں

خودی کو بیچ دیتی تو مسرت مل بھی سکتی تھی

اٹھا کے درد کی گھٹری میں راحت چھوڑ آئی ہوں

لگی تھی آگ جب دل میں تو دامن کو بچاتى کیا

بہت انمول رشتوں کی بھی قربت چھوڑ آئی ہوں

کبھی ایسا بھی تھا اس شخص کی مجھکو ضرورت تھی

مگر رو رو منانے کی،،،، وہ عادت چھوڑ آئی ہوں,,,

میں ضد کر کے اماں کے گھر آگئی تھی

جبران اور امی مجھے گھر تک چھوڑنے آئے تھے …پھر کچھ دیر اماں کے پاس بیٹھ کر چلے گئے. 

نجف آپی صبا اماں سب میرے پاس بیٹھے تھے 

میں بیڈ پر لیٹی تھی

جسم کے اور چہرے کے زخم مکمل ٹھیک نہیں ہوے تھے….

مجھ سے سب احوال لے رہےتھے .اور ڈانٹ بھی رھےتھے کہ یہاں کیوں نہیں آئی ….

میرا رشتہ طے ہوگیا پتہ ہے تمہیں …..صبا چہک کر بولی….

اچھا مبارک ہو کس سے ہوئی ….….میں نے مسکرا کر کہا…

خیر مبارک ابو کے دوست ہیں نا جرجیس انکل انکا بیٹا ہے نا زبیر اس سے…….وہ مسکرا کر بولی …..

اچھا……شادی کب ہے …….میں نے صبا سے پوچھا

2 مہینے بعد ………….وہ شرمائی…

میرے چہرے پے مسکراہٹ دوڑ گئی……

جلدی ٹھیک ہوجاو تم نے ہی میری شادی پے سارا کام سنبھالنا ہے ….صبا اترا کر بولی…

ہاں کیوں نہیں…..میں نے اسکی تائید میں سر ہلایا….

چلو اب کشف تم کچھ دیر آرام کرو نجف آپی کھڑی ہوئی….

وہ سب باہر چلی گئیں اور دروازہ بھیڑ دیا آپی نے ….

میں نے آنکھیں موند لیں شا ید نیند آجائے 

پلکوں کے دریچے بند ہوتے ہی وہ دشمن جان

آگیا خیالوں میں…

آنکھیں نم ہوجاتی تھی اسے دیکھ کر .

یہ زندگی کتنی عجیب ہے نہ ہم زندگی کو سمجھتے ہیں اور نہ زندگی ہمیں سجھتی ہے۔یہاں تک کے ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ پاتے….

یہ ابھی کچھ عرصے پہلےکی بات ہے کہ میں کتنی مختلف تھی میرے دل میں کئی طرح کی اُمنگیں جنم لے رہی تھیں

تمہارا ساتھ مجھے کتنا سکون دیتا تھا جبران اور اب میں اتنی سی دیر میں اُس بچے کی طرح رو رہی ہوں جس کا کھلونا گم ہو جاتا ہے.

ناجانے میں کسکو سزا دے رہی ہوں .

اسے یا خود کو…مجھے خود نہیں معلوم..

میں اب بھی سوچ رہی ہوں کہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔اور ہاں سوچوں بھی کیوں نہ کیا وقت ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے کیا۔۔؟؟

مگر ہاں ایک بات کا احساس دل میں اب بھی ہے کہ کوئی تو ہو جو تسلیوں کے حروف دے کر رگوں میں بہتی ازیتوں کا غرور توڑ دے

کوئی تو ہو جو دکھ بانٹ لے ..

کیا جو دکھ دیتا ہے وہ دکھ بانٹ بھی سکتاہے؟؟؟؟

۔ اگر اجازت ہو تو میں لکھوں

کہ لوٹ آؤ گے تم

لیکن یہ بھی بتانا کہ فاصلہ لکھوں۔۔؟؟

اور ہاں میری دیوانگی کا کیا ہو گا

گَر تم جو عادی ہوگئے

۔۔ دل کی تو بہت ضد تھی

کہ شکایت مت کرنا

ورنہ تم سے تو وہ گلے ہیں کہ۔۔۔بس۔۔۔!!!

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

جبران کا دل ایک منٹ کے لیے بھی نہیں لگ رہا تھا ابھی کل ہی وہ کشف کو ہسپتال سے گھر چھوڑ آیا تھا…

دل چاہ رہا تھا کچھ دیر دیکھ آئے اسے .

پر وہ برا مان جائے گی…

اسے اچھا نہیں لگے گا..

ورنہ دل تومچل رھا تھا اس سے 

ملنے کو….

کہیں پیار تو نہیں ہوگیا مجھے اس سے…

ہو بھی گیا تو میری بیوی ہی ہے کونسا کسی اور کی ہے 

جبران زیرلب مسکرایا

آخر دل کے ھاتھوں مجبور ہوکر گاڑی نکالی اور نکل پڑا

جبران کشف کےدروازے کے سامنے تھا

دروازہ بجایا…..ڈر بھی تھا کہیں کشف کی والدہ کھری کھری نا سنا دیں

دروازہ کشف کی اماں نے ہی کھولا

جبران کی توقعات کے برعکس انہوں نے خوشدلی سے جبران کو اندر آنے کو کہا.

جبران نے سکون کا سانس لیا 

بیٹھو بیٹا …..انہوں نے جبران کو صحن میں رکھی چارپائی پے بیٹھنے کا اشارہ کیا …

کیسی ہے سب گھر میں….. انہوں نے شفقت سے پوچھا

جبران ان کے اس لہجے پر شرمندہ سا ہو گیا

اس نے کیا کچھ نہیں کیا ان کی بیٹی کے ساتھ

پر وہ ان سب کے بعد بھی اسے اتنی عزت دے رہیں تھیں…

سب ٹھیک ہیں …….آپکی دعا ہے …..جبران نے سر جھکا کر کہا

اچھی بات ہے ….وہ مسکرا دیں

نجف بیٹی کشف کو دیکھو جاگ رہی ہے …..انہوں نے آواز دی

ان کے اس نرم لہجے سے پتہ چل رہا تھا کہ انہوں نے کشف کی بھی ایسی ہی تربیت کی ہے جب ہی تو وہ بھی ان کی طرح تھی صبر و وفا کا پیکر خاموش طبیعت..ہر ظلم سہہ جانے والی

    ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

بلاول آفس میں سے نکلا ……

حواسوں پے اب بھی کشف ہی چھائی تھی

 اسکی سیکرٹری شزا آتی ہوئی دکھائی دی….

وہ جوشیلے انداز میں پاس آئی اور بولی 

سر کشف میم کا پتہ چل گیا ہے زبیر ہے نا جو ہمارے آفس میں کام کرتا ہے اسکی منگنی جہاں ہوئی ہے وہیں رہتی ہے کشف

اسکی منگیتر صبا کی دوست ہے……….

کیا مطلب تمہیں کس نے نےبتایا………بلاول نے اسے گھورا

سر کل زبیر بات کر رہا تھا اپنے کولیگ سے تب میں نے سنا …

وہ بتا رہا تھا کہ اسکی منگیتر کی دوست کی کوئی دوست کھو گئی تھی اب ملی ہے کوئی سیریس ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اسکا…. ……….شزا نے تفصیل بیان کی

صروری تو نہیں وہ کشف ہی ہو کوئی اور بھی ہوسکتی ہے…..بلاول نے بے یقینی سے کہا

نہیں سر کشف ہی ہے وہ ساری معلومات کر کے آئی ہوں میں …..…..شزا مسکرا کر بولی

اچھا اب کہاں ہے وہ مجھے ایڈریس لاکر دو…..بلاول بے چینی سے بولا

جی سر یہ ایڈریس میں لے آئی ہوں ………شزا نے پرس سے ایک پرچی نکالی بلاول کو  تھمائی اور مسکرائی

اوکے تم جاو .…..……….بلاول نے ایڈریس دیکھتے ہوے کہا….

شزا خدا حافظ بول کے چلی گئی…..

بلاول گاڑی میں بیٹھا اور گیٹ سے باہر نکل گیا..

اب تمہیں کون مجھ سے دور کرےگا کشف 

کتنا چھپو گی میری جان

اخر ڈھونڈ لیا نا

اب کہیں جاکر بتاو..

بلاول زیرلب مسکرایا

ایڈریس کے مطابق وہ ایک مفلوک الحال سے علاقےمیں پہنچ گیا تھا

گاڑی کی حالت بری ہوگئی تھی یہاں آکر 

کس جگہ رہتی یو تم بھی کشف یہ کوئی جگہ ہے تمہارے رہنے کے لائق….

بلاول جھنجھلا کر بولا

یہاں کی گلیاں بہت تنگ تھی گاڑی کا جانا ممکن نہیں تھا .

.لہذا بلاول نے اپنی گاڑی ایک جگہ چھوڑی اور …

پیدل چل پڑا..ھاتھ میں پرچی دیکھی ….

ایک نوجوان نظر آیا 

اس کے پاس جاکر بلاول نے ایڈرس کنفرم کرنا چاہا…

اس لڑکے نے اشارے سے سمجھایا….

مطلب وہ ایک گلی کی دوری پر تھا کشف سے

خوشی کی لہر اسکے بدن میں دوڑ گئی

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

محبت بوجھ بن جائے 

تو اس کو چھوڑ دینا تم

محبت روگ بن جائے 

تو اس کو چھوڑ دینا تم

کہ جن کو اپنا مانا تھا 

اسی نے دل کو توڑا ہے

تو اب یہ طے ہوا جاناں

کہ بازی تم نے ہاری ہے

یہ بازی ہم نے ہاری ہے ……

اب.میں کچھ  بہتر ہوگئی تھی..

چلنا پھرنا شروع کردیا تھا

زخم بھی بھرنے لگے تھے

پر انکے نشان اتنی جلدی مٹنے والے نہیں تھے 

میں کپڑے تبدیل کر کے بالوں میں کنگھا گھما رہی تھی تب ہی نجف آپی ائیں

کشف جبران آیا ہے اماں پوچھ رہی ہیں تم باہر ارہی ہو یا اسے اندر بھیجوں ………نجف آپی نے کہا….

اب کس لیے آیا ہے جب مجھے اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا..………. میں نے منہہ بگاڑ کر سوچا

اندر بلانا نہیں چاہتی تھی میں اسے 

اس لیے کھڑی ہوگئی …

آرہی ہوں میں …میں نے آپی سے کہا

میں کچھ دیر بعد باہر برآمدے میں آگئی….

اماں اور جبران بیٹھے باتیں کر رہے تھے ….میں سلام کر کے خاموشی سے اماں کے ساتھ بیٹھ گئی..

کیسی طبیعت ہے اب …..جبران میری طرف متوجہ ہوا

ٹھیک…..میں رکھائی سے جواب دیا

گھر کب چلنا ہے ……جبران مسکرا کر بولا

میں نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا….

کبھی نہیں……..میں نے تڑک کر جواب دیا…

جبران کے چہرے کا رنگ اڑا……پھر سمبھل کر مسکرایا….

کیوں….اپنے گھر نہیں آنا…….وہ نرم لہجے پھر میں بولا

میں نے اسے گہری نظر سے دیکھا پر بولی نہیں کچھ .

تم لوگ باتیں کرو میں ابھی آئی …..اماں کھڑی ہوئیں….

میں پہلو بدل کر رہ گئی …

 میں تمہیں لینے آیا ہوں کشف….جبران اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آکر بیٹھ گیا.…

میں سٹپٹا گئی یہاں وہاں دیکھنے لگی  .کہیں کوئی دیکھ نا لے 

میں دور ہوئی…

جبران مسکرایا اور قریب کھسکا..

کیا تکلیف ہے آپ کو  دور رہیے ……میں ڈانٹ کر کہا…

تم ہو میری تکلیف ………….وہ شرارت سے بولا ….

مجھے آپکے ساتھ نہیں جانا آپکو سمجھ کیوں نہیں آرہی ………..میں نے اسے ڈپٹ کر کہا

میں تمہیں لے کر جاوگا تمہارے بنا دل نہیں لگ رہا میرا………جبران ہٹ دھرمی سے بولا

اسکی اس بات پے میں بھڑک اٹھی

تب آپکا دل کیسے لگ رہا تھا جب میں دربدر کی خاک چھان رہی تھی…………..میں نے طنزیہ انداز میں اسکو دیکھتے ہوے کہا

تب کس اذیت میں تھا میں تمہیں کیا معلوم...ایک ایک لمحہ مر رہا تھا میں..جو غلطی کی تھی میں نے تمہیں نکال کر اسکی سزا میں بھگت چکا ہوں میں کشف ………………………...جبران سر جھکائے کہے جا رہا تھا

آپکو اندازہ ہے میں کس کس جگہ خوار ہوئی

اپکے کزن کی غلطی کی سزا آپ نے مجھے دے دی

مجھے کچھ بولنے کا موقع تو دیتے آپ…

میں ایسی لڑکی تو نہیں تھی 

کبھی خواب میں بھی ایسا کام نہیں کر سکتی تھی جو آپ نے سوج لیا تھا

میری اماں کی تربیت اتنی بھی کچی نہیں تھی

ارے آپ ایک بار تو سوچ لیتے کہ کیسے  اور

کس طرح اس برستی بارش میں میں رہی تھی میں

سخت سردی اتنا خراب موسم.

آپ نے ایک بار بھی سوچا ہوتا تو تب ہی میرے پیچھے آتے

مجھے ڈھونڈتے 

میں تو اس علاقے سے انجان تھی

رات بھر وہیں ہی گھومتی رہی تھی

ایک بار تو آکر دیکھتے آپ 

یوں مجھے موسم کے حوالے نا کر تے

کچھ اندازہ تھا آپکو کہ کس کے گھر رہی میں

ایک نیک انسان مجھے اس رات بارش میں بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر ہسپتال لے گیا

پھر اپنے گھر لے گیا .اسکی دادی تھی ایک جو بہت اچھی خاتون تھیں.کچھ دن رہی میں وہاں پھر مجھے اس نیک انسان کی نیت پتہ نہیں کیوں ٹھیک نہیں لگی یا میرا وہم تھا جو بھی تھا میں وہاں سے کسی طرح بھاگی ہوں….جب ہی معلوم نہیں کیسے روڈ پے ایکسیڈنٹ ہوگیا میرا ………….بولتے بولتے میری ہچکیاں بندھ گئی تھی…

جبران نے تڑپ کر میرا ھاتھ اپنے ھاتھوں میں لیا.

میں اس ساری تکلیف کا ہی ازالہ کرنا چاہتا ہوں کشف……..جبران نے گہرے لہجے میں کہا…

میں ساری تکلیف جھیل چکی اب مزید کی ہمت نہیں مجھ میں….آپ چلے جایئے ………میں نے خشک لہجے میں کہا اور اپنا ھاتھ جبران کے ھاتھ سے چھڑا کر جانے کے لیے قدم بڑھایا

اسی دم دروازہ بجا . …

میں دروازے کی طرف آئی…

اور دروازہ کھول دیا……

سامنے جو کھڑا تھا …اسے دیکھ کر میرا سانس رکنے لگا…..  

یہ یہاں تک بھی آسکتا ہے میں نے سوچا نہیں تھا

اسکا یہاں تک آجانا خطرے سے خالی نہیں تھا

کشف کہاں چلی گئی تھی یار آپ …..کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا میں نے آپکو …اور یہ کیا اتنے زخم …..اتنا سیریس ایکسیڈنٹ ہوا تھا آپکا ……..وہ اس طرح بولا جیسے برسوں کا ساتھ ہو ہمارا……

میری آواز کہیں گم ہوگئی تھی اسے دیکھ کر …

کون ہے کشف…….…جبران میرے عقب میں آکر پوچھنے لگا.

میں نے پلٹ کر جبران کو دیکھا.

جبران کے میرے ساتھ کھڑے رہنے سے میرے اندر جیسے ہمت سی آگئی 

یہ وہ ہیں جنہوں نے میری جان بچائی تھی اس رات بلاول صاحب………..میں نے ہلکی آواز میں کہا ……

اچھا آئے نا بلاول پلیز…..جبران نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا

بلاول مسکراتا اندر آگیا

اماں بھی باہر آگئی…….بلاول سے ملیں اسکا شکریہ ادا کیا کہ اس نے میرا خیال رکھا…. اور میرے ساتھ بیٹھ گئیں

اپی چائے لے آئیں…..سب چائے پی رہے تھے باتیں کر رہے تھے  پر میرا دماغ کسی اور ہی جگہ تھا

میں نے کسی کا تعارف تو کروایا نہیں آپ سے …میں اچانک بلاول کی طرف دیکھ کر بولی ……

جبران چونک کر مجھے دیکھنے لگا

جی جی کروایئے …..بلاول مسکرا کر بولا

یہ میری امی ہیں ہیں یہ آپی اور یہ جبران میرے شوہر……میں نے مسکراتے ہوے کہا…

بلاول کی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی اور جبران مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر بلاول بولا

آپ نےبتایا نہیں تھا آپ میریڈ ہیں مس کشف …..وہ سپاٹ لہجے میں بولا

مس نہیں مسز کشف………میں نے مسکرا کر کہآ.

اور آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں تھا تو میں کیا بتاتی …..میں نے اطمینان سے کہا…

بلاول کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے….

میں کھڑی ہوئی ….اور جبران کی طرف پلٹی….

گھر چلیں امی اکیلی ہونگی………..…میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

جبران کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرھا تھا.….خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ وہ کھڑا ہوگیا ایکدم…..

اور اماں بلاول صاحب کو بنا کھائے مت جانے دیجیے گا انکے مجھ پر بہت احسان ہے ….جو مجھے ہمیشہ یاد رہےگا

 ….….میں نے اماں سے کہا….اماں خود حیران تھیں کہ یہ کایا اچانک کیسے پلٹی….

میں چلوں بلاول صاحب جبران کی امی بیمار ہیں ….اکیلی ہوتی ہیں وہ …..پریشان ہورہی ہونگی….میں نے بلاول کی طرف 

بلاول بھی کھڑا ہوگیا اسکو سمجھ نہیں آرھی تھی کیا بولے اس اچانک افتاد پر …….یہاں تو الگ ہی کہانی تھی..

جس کی اسے توقع نہیں تھی

میں نے جبران کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ چلو …..

کشف سنیے …….بلاول آگے بڑھا…..

جی بولیے……میں نے سوالیہ نطروں سے دیکھا اسے…

دل اندر ڈر رہا تھا کہ اب کیا کہنا ہے اسے…

یہ وہی شوہر نامدار ہیں آپکے جنہوں نے آپکو آدھی رات کو گھر سے بے گھر کیا تھا شاید اور آپ کہہ رہی تھی آپکا کوئی گھر نہیں …اب یہ سب کہاں سے آگئے  …..بلاول استہزیہ انداز بولا….

جبران کے چہرے پے غصے کے تاثرات ابھرے …اس نے دیکھا کہ کشف کیا بولتی ہے ورنہ وہ اسے جواب دیگا

میں ایک لمحے کو رکی …..پھر اسکی طرف مڑی….

 ہماری چھوٹی سے چپقلش پر گھر سے باہر آگئی تھی  جذباتی ہوکر …مجھے کسی نے نہیں نکالا تھا 

 غلطی میری تھی مجھے اس طرح نہیں نکلنا چاہیے تھا

 .جبران مجھے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے تھے ….

پر میں آپ جیسے اچھے انسان کو ہی ملی اللہ کے فضل سے کسی غلط ھاتھوں میں نہیں گئی ….…

اور اللہ پاک نے مجھے  اپنے گھر والوں سےملا دیا

.میں نے مسکرا کر مضبوط لہجے میں کہا..

بلاول میرا چہرہ تکتا رہ گیا…

اب کچھ کہنا باقی نہیں رہا تھا.

جبران کو تو میں حیران پر حیران کر رہی تھی ….

میں نے آگے بڑھ کر جبران کا ھاتھ تھام لیا ….

جبران چلیں گھر ……

جبران دل سے مسکرایا اور میرا ھاتھ دبایا 

اور تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور ہم باہر چل دیے ……… 

                                  ختم شد 

           ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Mere Charagar Tujhe Kya Khabar Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mere Charagar Tujhe Kya Khabar  written Faiza Shah Mere Charagar Tujhe Kya Khabar by Faiza Shah is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment