Pages

Friday 17 May 2024

Dasht E Wafa By Seema Shahid Complete Urdu Novel Story

Dasht E Wafa By Seema Shahid Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Dasht E Wafa By Seema Shahid Complete Novel Story


Novel Name :Dasht E Wafa 

Writer Name : Seema Shahid

New Upcoming :  Complete 

چوبیس  سال کی وہ دلکش خوبصورت حسینہ سورج کی کرنوں کا سا  سنہری روپ لئیے سنجیدگی سے بریفننگ سن رہی تھی اس کے لمبے سرخی کی آمیزش لئیے سنہرے بال اس کی کمر پر لہرا رہے تھے  بلیک ڈریس پینٹ پر سفید شرٹ اور کالا کوٹ پہنے وہ حددرجہ سنجیدگی سے بیٹھی ہوئی تھی اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔۔۔

" ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمارے گریٹ لیڈر عبدل الفاتح  کو زلمے خان زادہ کے ذریعے  اغوا کرکے پاکستان لے جایا گیا تھا اور وہی سے وزیرستان کے راستے یا پھر چمن بارڈر یا پشین  سے گزرتے ہوئے انہیں افغانستان لے جایا گیا ہے ۔ اس سے پہلے انہیں کوئی نقصان پہنچا کر ہمیں بلیک میل کیا جائے ہمیں ہر صورت انہیں آزاد کروانا ہوگا ۔ایجنٹ بورک اور ایجنٹ قانتا  تم دونوں کو ابھی روانہ ہونا ہے تمہارے پاس دو دن ہیں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے   انڈر اسٹینڈ ۔۔۔" 

" یس سر !! " تیس سالہ ایجنٹ بورک اور قانتا نے سر ہلا کر ایک ساتھ جواب دیا 

" میٹنگ برخواست ۔۔۔" 

تیس سالہ سفید فام چھ فٹ لمبا چوڑا بورک میٹنگ ختم ہوتے ہی قانتا کی طرف متوجہ ہوا ۔

" ایجنٹ قانتا یہ فیلڈ میں  تمہارا دوسرا کیس ہے کیا تم کمفرٹیبل فیل کررہی ہو ؟  ہمیں پاکستان اور پھر افغانستان جانا ہوگا تم کر لوگی ؟ سوچ لو  ورنہ میں پارٹنر بدل بھی سکتا ہوں ۔۔۔" بورک نے سنجیدگی سے کہا

" اٹس اوکے سر بورک ! کام کام ہے چاہے افغانستان میں کرنا ہو یا اسرائیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔" وہ متانت سے اپنے سنہرے بالوں کو پیچھے جھٹکتے ہوئے بولی 

" پاکستان کبھی گئی ہو ؟؟ " بورک نے سوال کیا 

" ایک بار آئی ایس آئی کے ساتھ داعش کے خلاف کام کیا تھا تو تھوڑا آئیڈیا ہے اور اردو بھی پورے تلفظ کے ساتھ بولنی آتی ہے ۔۔۔"وہ نرمی سے بولی 

" گڈ  !! لیٹس گو ہمیں ٹھیک آدھے گھنٹے میں پشاور کیلئے روانہ ہونا ہے وہاں سے چمن بارڈر جائینگے اور پھر اپنے ٹارگٹ کابل ۔۔۔" بورک نے اسے اپنا پلان بتایا 

وہ دونوں پشاور پہنچ چکے تھے اور اب ایک مقامی ڈرائیور سے ساز باز کر کے  کوئٹہ اور وہاں سے چمن کی طرف روانہ ہو چکے تھے قانتا نے مقامی عورتوں کی طرح خود کو شٹل کاک برقع میں چھپایا ہوا تھا اور بورک قمیض شلوار کندھے پر صافہ رکھے پیروں میں پشاوری چپل اور منھ میں نسوار دبائے مقامی پٹھان لگ رہا تھا ۔

" بھائی ہماری بیگم کو چمن سے گاڑی کی شاپنگ کرنی ہے بس تم ہمیں بارڈر کے پاس جہاں گاڑیاں بکتی ہیں ادھر  مین بازار تک پہنچا دو ۔۔۔" بورک کا لہجہ کہیں سے بھی غیر ملکی نہیں لگ رہا تھا 

"دیکھو بھائی شام ہونے والا ہے ادھر اندھیرے کا سفر ٹھیک نہیں ہوتا ، ہم تمہیں لیکر جا تو رہا ہے لیکن اگر پہاڑیوں کے بعد کسی نے راستہ روکا تو میں گاڑی روک کر بھاگ جاؤں گا تمہاری اور تمہاری عورت کی ذمہ داری ہرگز نہیں لونگا ۔" پٹھان ڈرائیور نے اسے صاف صاف آنے والے خطرے سے آگاہ کیا 

" یارا تم گاڑی تیز چلاؤ آگے کی فکر مت کرو ۔۔۔" بورک نے جواب دیا 

اونچی نیچی پتھریلی سڑکوں پر وہ سفید گاڑی دوڑتی چلی جا رہی بورک اور قانتا دونوں ہی چوکنا بیٹھے ہوئے تھے کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد گاڑی ایک علاقے میں داخل ہوئی مٹی اور اینٹوں سے بنے  کچے مکانات  جگہ جگہ بڑی بڑی دریوں کو پردے کی طرح لٹکایا ہوا تھا  ۔۔

" ہے بورک ان مکانوں کی چھت چیک کرو ۔۔۔" قانتا نے سرگوشی کی 

مکانات کی چھتوں پر مشین گنیں ، توپیں ترتیب سے لگی ہوئی تھیں گلی میں  مٹی سے سنے بچے بھی پستول گن تیز دھار چاقوؤں سے کھیل رہے تھے

" ویلکم ٹو " نو مین لینڈ "۔۔۔" بورک نے سرسراتی ہوئی آواز میں جواب دیا 

" پٹھان بھائی !! ہم اس سے آگے نہیں جاسکتا اب آپ کو پیدل جانا ہوگا بس آدھے گھنٹے چلنے کے بعد آپ بارڈر کنارے پہنچ جاؤ گے ۔" ڈرائیور نے گاڑی روکی 

بورک نے سر ہلاتے ہوئے قانتا کو گاڑی سے اترنے کا اشارہ اور جیب سے ہزار ہزار کے کڑکڑاتے نوٹ نکال کر ڈرائیور کو دئیے 

"شکریہ بھائی اگر زندہ لوٹے تو مجھے کال کردینا میں واپس لینے آجاؤنگا ۔" ڈرائیور نے خوشی سے رقم اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا 

وہ دونوں تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے علاقے کے اندر داخل ہوگئے چاروں طرف لوگ کندھوں پر بندوق لٹکائے چل پھر رہے تھے ۔

" یہ نو مین لینڈ ابھی بھی اگزسٹ کرتی ہے ؟ " قانتا نے چلتے ہوئے پوچھا 

" یہ علاقہ فاٹا کے اندر آتا ہے اور بظاہر یہ علاقہ غیر نہیں لیکن   حقیقتاً یہ علاقہ غیر ہی ہے ۔۔۔" بورک نے تیزی سے چلتے ہوئے جواب دیا ۔

" قانتا ہمیں رات ہونے کا انتظار کرنا پڑیگا ایسا کرتے ہیں کسی گنجان ٹیلے کے پاس آڑ میں چھپ کر وقت گزارتے ہیں ۔" بورک اسے ہدایات دیتے ہوئے پلٹا ہی تھا کہ سامنے دو بڑی بڑی مونچھوں والے لمبے تڑنگے سے پٹھان اس کے سامنے کھڑے ہوئے تھے 

" کون ہو تو ؟ ادھر کیا کررہے ہو ؟؟ " ایک نے گن نکال کر بورک کے ماتھے پر رکھی 

" ہم ادھر شاپنگ کرنے آیا ہے ۔۔۔" 

" شاپنگ کرنے آیا ہے ہممم " اس نے طنزیہ انداز میں بورک کے الفاظ دھرائے 

" قانتا یہ افغان طالبان ہیں میں جیسے ہی اشارہ کرو فائر کھول دینا ۔۔۔" بورک نے کوڈ ورڈز  میں کہا 

" یہ کیا بولا تو ؟؟؟ " اس افغان نے سختی سے بورک کا منھ دبوچا 

" ان دونوں کو خان کے پاس لے کر چلو وہی فیصلہ کریگا ۔۔۔" دوسرے آدمی نے قانتا کو آگے دھکا دیتے ہوئے کہا 

بورک کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اگر وہ ان کے اڈے پر پہنچ گیا تو نکلنا مشکل ہو جائیگا وہ لوگ چلتے چلتے ویرانے میں پہنچ چکے تھے ۔جب بورک چلتے چلتے لڑکھڑا کر رکا اور قانتا کو آنکھوں سے مخصوص اشارہ کیا 

قانتا بجلی کی تیزی سے پلٹی اور ایک زور دار کک اپنے ساتھ چلتے آدمی کو رسید کی اب وہ اپنے برقع کے اندر چھپی گن نکال کر ان دونوں کا نشانہ لے چکی تھی 

" سیدھے کھڑے ہوجاؤ ورنہ شوٹ کردونگی ۔۔۔" وہ غرائی 

وہ دونوں افغانی بڑی دلچسپی سے قانتا کو دیکھ رہے تھے جیسے کوئی بڑا بچے کو شرارت کرتا دیکھ کر محفوظ ہوتا ہے ۔۔

" امارا شک ٹھیک تھا تم دونوں ایجنٹ ہو ۔۔۔۔" اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا پورا علاقہ فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھا قانتا نے فائر کھول دیا تھا ۔

" قانتا یہ تم نے کیا کیا ؟ اب بھاگوں جلدی کرو ۔۔۔۔" بورک غصہ سے چلایا 

لیکن وہ دونوں چار قدم بھی نہیں چلے تھے کہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا پورا علاقہ  بھاگتے قدموں اور فائرنگ کی آواز سے گونج رہا تھا بورک اور قانتا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے ۔

-------------------------------------------------------------------------

کوئٹہ چھاؤنی ۔۔

 تیز رفتاری  سے چلتی ہوئی چیپ اندر داخل ہوئی وہ جیپ سے اتر کر سر سے سلیوٹ کا جواب دیتے ہوئے تیزی سے اندر بڑھا ۔۔

" سر میجر احمد رپورٹنگ ۔۔۔" اس نے اندر داخل ہو کر سلیوٹ کیا 

" میجر کل ہی رپورٹ ملی ہے کہ کچھ مسنگ پرسنز کو چمن بارڈر کے ذریعے علاقہ غیر لے جایا گیا ہے جن میں مصر کی ایک اہم شخصیت بھی شامل ہے جن کے دستخط اسرائیل کو لیکر لبنان سے ایک اہم معاہدے پر ہونے ہیں مصری حکومت نے ان کی گمشدگی ابھی راز میں رکھی ہے لیکن اگر وہ انہیں بازیاب نہیں کروا سکے تو یہ یہودیوں کی فتح  ہوگی جو اس معاہدے کے خلاف ہیں  ۔اس لیے ہمیں اپنے لیول پر انہیں بازیاب کروانے کی کوشش کرنی چاہیے ، کوئی سوال ؟؟ " کرنل جھانگیر نے بات ختم کی 

" نو سر ! " اس نے سمپل جواب دیا 

" ہمیں ہر حال میں دشمن کو اس کی چال میں ناکام کرنا ہے انڈر اسٹینڈ ۔۔۔۔" کرنل جھانگیر نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر سختی سے کہا 

" سر مارخور کبھی بھی دشمن کو اس کی چال میں کامیاب ہونے نہیں دے سکتا ۔۔۔" میجر احمد نے سرد لہجے میں جواب دیا 

" اس میں عبدل الفاتح کی تمام  تفصیلات ہیں آخری بار کہا دیکھا گیا اور تصاویر سب موجود ہے آپ کو اس کیس میں ایجنٹ دلاور ، کیپٹن حمید اسسٹ کرینگے دونوں اس وقت چمن میں تعینات ہیں  ۔۔۔" انہوں نے ایک یو ایس بی میجر احمد کی طرف بڑھائی 

" گڈ لک فار مشن میجر  ۔۔۔۔" انہوں نے میٹنگ ختم کی 

" تھینکس سر ۔۔۔" اس نے کرنل جھانگیر کو سلیوٹ کیا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گیا

جیپ میں بیٹھ کر اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا دن کے بارہ بج رہے تھے اس کا رخ اب اپنے آفس نما فلیٹ کی جانب تھا وہ ہر صورت ایک گھنٹے کے اندر اندر  اپنے ہتھیار اور سازو سامان  لے کر چمن کے سفر پر نکل جانا چاہتا تھا ۔

-------------------------------------------------------------------------

پشین کے قریب ایک قہوہ خانہ   پر علاقہ کے مردوں کا ہجوم جما تھا بیچ میز پر دو علاقائی جوان پنجہ لڑانے میں مصروف تھے ۔

" آج تم ہارے گا اور پھر منھ کالا کر کے گدھے پر بیٹھ کر سیر کرےگا ۔۔۔"  اس نے اپنے مخالف کو چڑایا 

مقابلہ اپنے زورو پر تھا جب اس کی جیب میں پڑا ٹرانسمیٹر  مخصوص انداز میں وائیبریٹ کرنے لگا 

" ایک تو یہ دلاور بھائی کو بھی غلط وقت پر میری یاد آتی ہے ۔۔۔" وہ بڑبڑایا اور ایک جھٹکے سے اس نے اپنے مخالف کا ہاتھ میز پر پٹخ دیا 

واہ واہ مبارک چاروں طرف شور مچ گیا وہ کسی ہیرو کی طرح اکٹر کر ہاتھ ہلاتے ہوئے میز سے اٹھ کر بیت الخلا کی جانب بڑھا چاروں جانب اچھی طرح دیکھ کر اس نے اپنا فون نما ٹرانسمیٹر نکالا 

" کیپٹن حمید کدھر ہو تم ؟؟ " اوور 

" دلاور سر میں اس وقت ایک اہم مشن پر چائے کے کھوکہ میں ہوں ۔۔۔" اوور 

" اپنا اہم مشن ابھی چھوڑو اور جلدی سے سرمئی  پہاڑ پر پہنچوں ہمیں میجر احمد کو رپورٹ کرنا ہے ۔۔" اوور اینڈ آل 

" میجر احمد ! یا اللہ کبھی کوئی خوبصورت دلکش حسینہ ہی بھیج دیا کر یہ کیا ایجنٹ دلاور سے گرا اور میجر احمد میں اٹکا ۔۔" وہ خود پر ترس کھاتا ہوا اپنی سرمہ سے بھری آنکھوں کو مسلتے ہوئے باہر نکلا 

" اوئے خوچہ کدر جاتا ہے ۔۔" قہوہ خانہ کے مالک نے باہر نکلتے ہوئے کیپٹن حمید کو ٹوکا 

" امارا ماں بلا رہی ہے اب ام کل آئے گا ۔۔۔۔" وہ نشئی کی طرح لڑکھڑاتا ہوا  باہر نکل گیا 

--------------------------------------------------------------

میجر احمد فاٹا کی وردی میں ملبوس گارڈز کو اپنی شناخت کروا کر مشہور پہاڑی سلسلے پر موجود تھا جہاں مار خور ایجنٹ دلاور نے اس کا استقبال کیا ۔

" کیا رپورٹ ہے ۔۔۔" میجر احمد نے کرسی پر بیٹھ کر سوال کیا 

" سر انسانی اسمگلنگ یعنی ہیومن ٹریفکنگ اس وقت  چاغی کے مقام پر ہورہی ہے ہم نے بارہ مغوی بازیاب کروائے ہیں ۔۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے رپورٹ دی 

" کوئی گرفتار ہوا ؟ " 

" سر آپ جانتے ہیں ان ٹوپی والوں  کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ۔انہوں نے تمام مغویوں کو زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اور تاوان کا مطالبہ بھی کیا جاچکا تھا ۔جب ہماری ٹیم ادھر پہنچی تو سوائے ان قیدیوں کے ادھر کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔" دلاور نے تفصیل بیان کی 

" اس وقت ہمارا ٹارگٹ مصری  لیڈر عبد الفاتح کی رہائی ہے جنہیں یا تو چاغی یا پھر پشین کے راستے لے جایا گیا ہے ہمیں ان کی لوکیشن معلوم کرنے کیلئے ان کے نیٹ ورک میں شامل ہوکر ان تک پہنچنا ہوگا ۔۔۔" میجر احمد نے پلان بتایا 

" کیپٹن حمید اس علاقے کے ایک بارسوخ خاندان کے اندر تک پہنچ چکا ہے وہ آجائے تو پلان فائنل کرلیتے ہیں ۔۔" 

"زلمے ؟؟ " 

" جی سر ۔۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا

                               ********

سرمئی پہاڑی کے دامن میں ایک غار نما خلا کے اندر  میجر احمد اور ایجنٹ دلاور سنجیدگی سے گفتگو میں مصروف تھے جب کیپٹن حمید تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ملیشیا یونیفارم میں ملبوس   فرنٹیئر کور  کے سپاہیوں کو اپنی شناخت کرواتا ہوا اندر داخل ہوا۔

"اسلام علیکم سر !! 

کیپٹن حمید رپورٹنگ سر ۔۔۔" وہ اٹینشن ہوا 

گھنی  بڑھی ہوئی داڑھی لمبے کندھوں تک آتے بال قمیض شلوار میں ملبوس آنکھوں میں بھر کر سرمہ ڈالے وہ عجیب ہی لگ رہا تھا 

" وعلیکم اسلام کیپٹن یہ تم نے اپنی آنکھوں کا کیا حال کررکھا ہے ۔۔۔" دلاور کو اسے دیکھ کر جھٹکا لگا 

" سر نشیلی آنکھیں بنائی ہیں سمجھا کریں ۔۔۔" کیپٹن حمید مسکرا کر آنکھ مارتے ہوئے بولا 

" لیٹس بی سیریس گائیز ۔۔۔۔" سلام دعا کے بعد میجر احمد نے انہیں متوجہ کیا 

" کیپٹن یہ زلمے خان پر جو آپ کام کررہے ہیں اس کی کیا پروگریس ہے ؟ " میجر احمد نے سوال کیا 

" زلمے خان اس وقت سب سے بڑا اثر رسوخ والا لیڈر ہے یہ پاکستان میں رہ کر پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔پورے ملک سے اغوا برائے تاوان کا بڑا نیٹ ورک کھڑا کیا ہوا ہے باقی مغوی افراد کو یہ ایران کے راستے بھی باہر نکال رہے ہیں اور افغانستان تو ان کا گڑھ ہے ہی ۔ ان کے پیچھے را اور موساد ہیں  جو پاکستان کو کھوکھلا کرنے کے لیے انہیں استمعال کررہے ہیں ان کا ٹارگٹ پاک فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانا اور پختونوں کو بدنام کرکے الگ کرنا ہے ان کے کئی سلیپنگ سیل ہر بڑے شہر میں موجود ہیں ۔۔۔" کیپٹن حمید نے سنجیدگی سے تفصیلات دیں 

" کیا ہمیں زلمے خان تک رسائی ہوسکتی ہے ؟ " دلاور نے پوچھا 

" اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اپنے بھائی کا خون کرکے سردار بنا ہے لیکن اس کی بھتیجی میرا ساتھ دے رہی ہے ۔۔۔" کیپٹن حمید نے جواب دیا 

" بھتیجی ؟ کیا تم اس پر بھروسہ کرسکتے ہو ؟ " میجر احمد نے ابرو اچکا کر پوچھا 

" سر وہ ایک باشعور پاکستانی شہری ہے لیکن آپ بیفکر رہیں میں اتنی آسانی سے اس کے دھوکے میں آنے والا نہیں اور وہ بھی دھوکہ دینے والوں میں سے نہیں ہے ۔۔" کیپٹن حمید سرد لہجے میں بولا 

" نام ؟ " 

" پلوشہ شیر خان ۔۔۔۔۔" کیپٹن حمید نے جواب دیا 

" مصری رہنما عبدل الفاتح کو کل رات اغوا کیا گیا ہے ہمیں انہیں ٹریس کرنا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو مصری ایجنٹس کی مدد بھی کرنی ہوگی ۔۔۔" تمام تفصیلات بتا کر میجر احمد نے اپنا لیب ٹاپ بند کیا 

" کیا انہوں نے ہماری مدد مانگی ہے ؟ " دلاور نے سوال کیا 

" نہیں لیکن یہ ہمارا علاقہ ہے اور مارخور کے علاقے میں کوئی اس کی مدد کے بنا آگے بڑھنا  تو دور کی بات  پر بھی  نہیں مار سکتا ۔۔۔" میجر احمد نے ان دونوں کو دیکھا 

" تو کیا اب ہم مصر کی انٹیلیجنس کے ساتھ کام کرینگے ؟؟ " دلاور نے سنجیدگی سے سوال کیا 

" نہیں ہم اپنا کام کرینگے  ابھی ہمیں صرف آبزرو کرنا ہے اگر وہ اپنے مشن میں ناکام ہوتے ہیں تو ہم عبدالفاتح کو ریسکیو کرینگے انڈر اسٹینڈ ؟؟ " احمد نے سمجھایا 

" یس سر ۔۔۔۔" وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے 

" سر کوژک کے پاس  زلمے کے آدمیوں کی فائرنگ کرنے کی اطلاع ملی ہے ۔۔۔" ایک ایف سی کے جوان نے اندر آکر اطلاع دی 

" ویل جنٹلمین لگتا ہے ہمارا شکار قریب ہی ہے لیٹس گو ۔۔۔" میجر احمد نے اپنا لیب ٹاپ بند کیا 

_____________________________________________

وہ دونوں چاروں جانب سے گھیر لئیے گئے تھے ۔

" ہتھیار پھینک دو ورنہ امارا آدمی لوگ تمہیں گولیوں سے بھون دیگا ۔۔۔" سمندر خان نے اونچی آواز میں ان دونوں کو وارننگ دی

بورک نے قانتا کو اشارہ کرتے ہوئے گن زمین پر پھینک دی 

" اوئے برقع والا باجی !! تم بھی گن پھینک دو ۔۔" سمندر خان کا ساتھی چلایا 

قانتا  آہستگی سے دوقدم پیچھے ہٹی اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایک بار اگر وہ اور بورک ان کے ہتھے چڑھ گئے تو مشن فیل ہو جائیگا اس نے آہستگی سے اپنا گن والا ہاتھ نیچے کیا جیسے گن پھینکنے والی ہو دیکھتے ہی دیکھتے وہ جھک کر گن زمین پر رکھتے ہوئے اپنی جیب میں سے غیر محسوس طریقے سے ہاتھ ڈالتے ہوئے چھوٹا سا دستی بم نکال چکی تھی گن کو زمین پر رکھتے ہی وہ سیدھی ہوئی اور اس نے  تیزی سے بم دائیں طرف اچھال کر دھماکہ ہوتے ہی زمین پر پڑی  گن اٹھا کر ان دشمنوں کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر فائر کھول دیا تھا

" خنزیر کا بچی !! " سمندر خان کے منھ سےگالیوں کا طوفان امنڈ آیا تھا ان کے دو آدمی بم دھماکہ کا شکار ہو کر مارے گئے تھے 

" قانتا بھاگو ۔۔۔۔" بورک نے قانتا کو کوور کرتے ہوئے آرڈر دیا اب وہ اکیلا ان طالبان کو اپنی گن سے نشانہ بنا رہا تھا 

قانتا بنا رکے  تیزی سے دوڑتی ہوئی پہاڑی بھول بھلیوں میں غائب ہو گئی 

بورک کافی دیر تک مسلسل فائرنگ کرکے انہیں روکنے میں کامیاب رہا تھا وہ خود بھی ٹھیک ٹھاک زخمی ہو چکا تھا دو گولیاں اس کے کندھے کو چھو کر گزر چکی تھیں جب اس کا ایمونیشن ختم ہو گیا ماحول میں اچانک سے  ایک سناٹا سا چھا گیا تھا

" اس خبیث کے بچے کے پاس گولیاں ختم ہوگئی ہیں گھیر لو اسے ۔۔۔" سمندر خان نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا 

تھوڑی ہی دیر میں بورک سمندر خان اور اس کے ساتھیوں کے چنگل میں پھنس چکا تھا 

" کون ہو تم اور ادھر کیا کرنے آئے ہو ؟ "سمندر خان نے بورک کے سر بالوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا 

" تو تم اتنی آسانی سے زبان نہیں کھولو گئے ۔۔۔" سمندر خان نے اپنی بندوق کی نال کو  اس کے شانے پر موجود زخم پر رکھ کر زور سے  دباؤ ڈالا  

بورک کے زخم سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا سمندر خان اسے اپنے جوتے کی نوک سے بے دردی سے پیٹ رہا تھا چاروں جانب اس کے مسلح افراد بندوق تانے چوکس کھڑے ہوئے تھے ۔بورک نیم بیہوش ہوگیا تھا 

" سمندر خاناں پہاڑ کی طرف سے فوجی جیپ آرہی ہے ۔۔۔" 

" نکلو یہاں سے اور کسی بھی قیمت پر اس باجی  کو زندہ پکڑ کر اڈے پر لاؤ ۔۔۔" سمندر خان نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا 

" اور اس کا کیا کریں ؟؟ " اس کے ساتھی نے نیم مردہ بورک کی طرف اشارہ کیا 

" یہ بہت پکا ہے اپنی زبان نہیں کھولے گا  ، یہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہے ۔۔۔" سمندر خان نے بے رحمی سے کہتے ہوئے اپنی گن اٹھائی اور فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی اس نے بورک کے وجود کو چھلنی چھلنی کردیا تھا 

" نکلو یہاں سے اور اس لڑکی کو پکڑ کر میرے سامنے حاضر کرو ۔۔۔" وہ تیزی سے بولتا ہوا اپنے ساتھیوں کو تتر بتر کرتا وہاں سے روانہ ہو گیا 

--------------------------------------------------------------------------

وہ پہاڑی سلسلے پر پتھروں اور چٹانوں کی آڑ لیتی تیزی سے آگے بڑھتی چلی جارہی تھی اسے ہر قیمت پر ادھر سے نکل کر اپنے ہیڈ کوارٹر رابطہ کر کے صورت حال بتا کر مدد طلب کرنی تھی جب تڑا تڑ برستی گولیوں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا چاروں طرف سے دوڑتے بھاگتے قدموں کی آوازیں سنائیں دے رہی تھیں   وہ چاروں جانب دیکھ کر چھپنے کی جگہ تلاش کررہی تھی اس علاقے میں ریت مٹی پہاڑ اور چٹان ہی چٹان تھے اس کا برقع بھی کئی جگہ سے پھٹ چکا تھا موت کے ہرکارے اس کے تعاقب میں تھے تبھی اس کی نگاہ میں پہاڑ کی  اوپر ایک دڑار نظر آئی اس کی نیلی آنکھیں جگمگا اٹھیں اس نے تیزی سے اپنا رخ بدلا اب وہ ہاتھوں کو مضبوطی سے پتھروں پر جماتے ہوئے اوپر چڑھ رہی تھی رات کا اندھیرا اس پر اس کا سیاہ برقع اسے پروٹیکٹ کررہا تھا اوپر پہنچ کر کہنیوں کے بل رینگتی ہوئی وہ اس دڑار کے اندر غائب ہو گئی ۔

" سر یہ تو زلمے خان کا دست راست سمندر خان ہے ۔۔۔" کیپٹن حمید نے دوربین آنکھ سے ہٹاتے ہوئے کہا 

" ایجنٹ دلاور تم جیپ لے جاؤ اور احتیاط سے  اس سمندر خان کا پیچھا کرو اس کا ٹھکانہ معلوم کرتے ہی مجھے انفارم کرنا ۔"میجر احمد نے اسے آرڈر دیا 

" یس سر ۔۔۔۔" دلاور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پلٹا اور تیزی سے جیپ کی طرف بڑھا اسے ایک مخصوص فاصلے پر رہتے ہوئے اس شیطان کا پیچھا کرنا تھا 

" سر یہ تو مر چکا ہے حلیہ تو مقامی ہے لیکن یہ بندہ مقامی نہیں لگ رہا  ۔۔" کیپٹن حمید نے بورک کی لاش کو سیدھا کیا 

میجر احمد نے بورک کو بغور دیکھا پھر اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا 

"کیپٹن حمید یہ مصری ایجنٹ تھا اس کی کلائی میں بندھی گھڑی چیک کرو یہ ایک جدید ٹرانسمشن کا آلہ ہے جسے مصر اور شام کے مجاھدین استمال کرتے ہیں ۔"وہ بورک کا ہاتھ چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہوا

" سر آپ ۔۔۔" 

""سسشش " میجر احمد نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

" کیپٹن ان کے کچھ ساتھی ابھی بھی آس پاس ہیں غور سے سنو پہاڑ کی جانب سے بھاگتے قدموں کی دھمک آرہی ہے ۔۔۔" 

" کیپٹن تم ایف سی سے کانٹیکٹ کرو اور ان لاشوں کو یہاں سے اٹھوانے کا بندوست کرو میں ان آدمیوں کے پیچھے جاتا ہوں ۔۔۔" وہ کیپٹن حمید کو ہدایات دیتا ہوا  آگے بڑھا 

پہاڑ کے نزدیک پہنچ کر اس نے اپنی جیب سے کالا ماسک نکال کر چہرے پر چڑھایا پنڈلی تھپتھپا کر چاقو کو چیک کیا اور چیتے کی طرح تیزی سے جمپ لگا کر وہ پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوگیا کچھ اوپر جاکر وہ رکا اسے بائیں جانب سے آگے بڑھتے سائے دکھائے دئیے اس نے تیزی سے اپنا چاقو نکالا اور بنا آواز کئیے ان سایوں کی جانب بڑھا 

" یہ دیکھو کالا کپڑا یہ اس لڑکی کے برقع کا ہی ہے وہ یہی کہیں چھپی ہوئی ہے ۔۔۔" میجر احمد کو ان کی باتوں کی آواز سنائی دی 

"ایک بار ہاتھ لگ جائے دیکھنا زلمے خان اس کا کیا حشر کرتا ہے کمینی نے ہمارے چار آدمی مار گرائے ہیں ۔۔۔" 

احمد دبے قدموں چلتا ہوا ان کے بالکل پیچھے پہنچ چکا تھا اس نے بڑے آرام سے اندھیرے میں ایک کے منھ پر سختی سے اپنا بائیاں ہاتھ رکھا اور تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس کی گردن پر اپنا تیز دھار چاقو پھر دیا چند لمحوں بعد اس کے مردہ وجود کو آرام سے بنا آواز کئیے زمین پر ڈال کر وہ دوسرے سائے کی طرف بڑھا 

  -----------------------------------------------------------------------

وہ اس خاردار دراڑ میں چھپی ہوئی تھی جب قدموں کی آوازیں بالکل دراڑ کے سامنے آکر رک گئی وہ شاید دو افراد تھے وہ سانس روکے دم سادھے پڑی تھی جب اچانک سے زمین پر انسانی لاشہ دکھائی دیا اس نے اپنی کلائی پر بندھے گھڑی نما آلہ  سے ہلکی سی روشنی ڈالی 

گلا کٹا مقامی انسان زمین پر پڑا تھا جس کی آنکھیں بھیانک انداز میں کھلی ہوئی تھیں اب یہاں رکنا خطرناک تھا وہ فیصلہ کرچکی تھی نہایت احتیاط سے وہ رینگتی ہوئی دڑار سے باہر نکلی کچھ قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ اسے ایک لمبا مضبوط جسامت والا انسانی ہیولہ نظر آیا وہ فوراً پاس موجود چٹان کے پیچھے ہوئی بڑی احتیاط سے اس آدمی کا چہرہ اپنی گھڑی کی ریز میں دیکھنا چاہا پر وہ نقاب میں تھا چند لمحے سوچنے کے بعد وہ اٹھی پاس پڑی سریہ کی سلاخ احتیاط سے اٹھا کر اس نقاب پوش کے سر کا نشانہ لیتے ہوئے دبے قدموں بنا آواز کئیے اس کی طرف بڑھی ۔۔۔۔ 

کیپٹن حمید ایجنسی سے رابطہ کرکے وہی فاٹا والوں کا انتظار کررہا تھا اور دلاور اسے چھوڑ کر سمندر خان کے پیچھے جا چکا تھا ۔

دلاور  بڑی مہارت سے اونچی نیچی بل کھاتی پتھریلی سڑک پر ایک مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے سمندر خان کی پجیرو کا پیچھا کررہا تھا کافی دور جاکر سمندر خان کی جیپ ایک تنگ گلی میں داخل ہو گئی کچے پکے مکانات سے بنی اس گلی کے باہر کئی مسلحہ افراد ٹولیوں میں بٹے پہرا دے رہے تھے دلاور نے اپنی جیپ ایک گنبد نما چٹان کے پیچھے روک دی تھی اب اس کا ارادہ پیدل ان لوگوں کی نظروں سے بچتے بچاتے اندر گلی میں داخل ہونے کا تھا وہ خاموشی سے دم سادھے  رات کے گہرے ہونے کا انتظار کررہا تھا ۔۔۔

آدھی سے زیادہ رات بیت چکی تھی پہرے دار بھی اب ایک جگہ گول دائرے میں آگ جلائے بیٹھے تھے دلاور کیلئے  یہ ایک بہترین موقع تھا وہ زمین پر لیٹ کر کہنیوں کے بل سانپ کی طرح رینگتا ہوا گلی طرف بڑھا اس اندھیرے میں کسی کی بھی توجہ پیچھے زمین کی طرح نہیں تھی زمین چٹان کی طرح سخت اور سرد تھی پر وہ بڑے اطمینان سے رینگتا ہوا اس ممنوع گلی میں داخل ہوچکا تھا ۔

گلی میں داخل ہوتے ہی وہ قلابازی کھاتے ہوئے سیدھا کھڑا ہوا اور ایک کچی اینٹوں سے بنی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا پوری گلی سنسان  اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تین سے چار جھونپڑی نما مکانات بنے ہوئے تھے وہ چوکنا انداز میں چاروں جانب دیکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ایک مکان کی جانب بڑھا مکان کے دروازے کے باہر بوسیدہ سی چٹخنی لگی ہوئی تھی اس نے دھیرے سے چٹخنی کھول کر دروازہ کھولا اور پلٹ کر دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اندر داخل ہوگیا ۔

باہر سے کچا مکان اندر سے کسی محل سے کم نہیں تھا سامنے ہی بڑے بڑے بینرز پڑے تھے دلاور نے ٹارچ کی روشنی ان پر ڈالی ۔۔

  "باجوہ ماجوہ دھشتگرد، غپورا مپورا دھشتگرد" 

" یہ جو دھشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ۔" 

بڑے بڑے الفاظ میں پاک فوج کے خلاف نفرت آمیز مواد  ان جھنڈے نما بینرز پر لکھا ہوا تھا کئی پمفلٹس بھی بکھرے پڑے تھے یہ ان لوگوں کا ٹھکانہ تھا جو اس وقت پاکستانیوں کو فوج کے خلاف ورغلا کر ملک کو توڑنے کی کوشش کررہے تھے ۔اس سب کو دیکھ کر  دلاور کے وجیہہ چہرے پر پتھروں کی سی کرختگی ابھر آئی تھی ، وہ دبے قدموں اس کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے کی جانب بڑھا اندر گھپ اندھیرا تھا اس نے احتیاط سے ٹارچ لائٹ جلائی اندر کمرے میں سات آٹھ منھ بند  بوریاں پڑی ہوئی تھیں اس نے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے اپنے قدم ایک بوری کی طرف بڑھائے اور آہستگی سے بوری کو ہاتھ لگاتے ہی چونک گیا ، بوری کے اندر سو فیصد انسانی جسم بند تھا ۔اس نے احتیاط سے بوری کو اوپر لگی رسی کو کھولا اندر ایک مسخ شدہ انسانی لاش بند تھی ابھی وہ مزید جائزہ لینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کھٹکے کی آواز سنائی دی یقیناً کوئی گھر کے اندر داخل ہوا تھا اس نے تیزی سے بوری کو دوبارہ بند کیا باہر سے قدموں کی آوازیں اسی سمت بڑھتی سنائی دے رہی تھیں وقف کم تھا وہ چوکنا ہو کر  دم سادھے اپنی سائلنسر لگی پستول ہاتھ میں لئیے دروازے کے بالکل ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا ۔قدموں کی دھمک سے اندازہ ہو رہا تھا کہ آنے والے کم از کم دو  افراد ہیں قدموں کی چاپ کمرے کے باہر آکر رک گئی دروازہ کھلا اب دلاور دروازے کے پیچھے تھا 

" سمندر خان یہ سات بورے آج ہی آئے ہیں آپ بتاؤ ان کا کیا کرنا ہے ؟ " سمندر خان کے ساتھی نے بورے دکھاتے ہوئے سوال کیا 

" گلریز کا بچہ !! کیا آج نشہ نہیں کیا ؟؟ جو دماغ کام نہیں کررہا  ؟  وہی کرنا ہے  جو ہمیشہ کرتے ہیں اس میں نئی بات کیا ہے " سمندر خان دھاڑا 

"خاناں ناراض کیوں ہوتے ہو میرا مطلب انہیں کس شہر میں پھنکوانا ہے اس بار کراچی میں پھنکوا دیں کیا ۔" گلریز اپنے سر پر شیشے کی بنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے بولا 

" نہیں تین کو تو لاہور میں مختلف عوامی مقامات پر پھنکوا دو اور وہ جو یونیورسٹی والا لڑکا تھا اسے پشاور میں یونیورسٹی کے پاس اور باقی کو وزیرستان کے علاقے میں ۔۔۔" سمندر خان نے ہدایات دیں 

" ٹھیک ہے خاناں ۔۔۔" 

" کل صبح ان بوروں کے ملنے کے بعد فوج اور پولیس کے خلاف احتجاج کیلئے سب کو اشارہ دے دینا امارا لوگ مارا جا رہا ہے ہمیں انصاف دو فوج سے امارے علاقے خالی کراؤ ۔  یہ نعرہ لگوانا ہے   ۔۔۔" وہ خباثت سے بولا 

" اوئے اندر آؤ اور یہ بورے اٹھا کر باہر ٹرک پر سوار کرواؤ ۔۔۔" گلریز نے آواز لگائی 

تین مزدور نما آدمی اندر داخل ہوئے اور باری باری سارے بورے اٹھا کر باہر لے جانے لگے دو سے تین چکروں میں سارے بورے باہر جا چکے تھے ۔۔۔

" گلریز اس لڑکی کا کچھ پتا چلا  ؟؟ " کمرے سے نکلتے ہوئے سمندر خان نے سوال کیا 

" وہ برقعے والا  باجی کا ؟ " گلریز  نے احمقانہ سوال کیا

" نہیں تیری ماں کا ۔۔۔" سمندر خان ٹھیک ٹھاک تپ اٹھا 

" میں یہ بوریاں روانہ  کروا کر خود اس باجی کی تلاش میں نکلتا ہوں ۔۔۔" گلریز نے دروازہ بند کرتے ہوئے بولا 

______________________________________________

وہ دونوں آدمیوں کو مار کر  چوکنے انداز میں سیدھا کھڑا  مزید شکار ڈھونڈ رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے ہلکی سی سرسراہٹ محسوس ہوئی ایک خطرناک سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر دوڑ گئی وہ بڑے آرام سے اپنی جگہ کھڑا رہا جو بھی تھا وہ بڑے احتیاط سے اس کا شکار کرنے آرہا تھا  دیکھتے ہی دیکھتے  نامحسوس سی سرسراہٹ اسے اپنے بہت قریب محسوس ہوئی ہاتھ میں پکڑے چاقو  کو تولتے ہوئے  وہ بجلی کی رفتار سے  پلٹا ۔اس نے ایک زوردار کک  پیچھے کھڑے وجود کو ماری اور پھر چلتا ہوا اس کی سمت بڑھا اور گردن سے پکڑ کر اسے کھڑا کیا اس سے پہلے وہ اس کی گردن پر چاقو پھیرتا وہ چونکا چاند کی ملگجی سی روشنی میں اس نے اپنے سامنے کھڑے نسوانی وجود کو دیکھا اور  ایک جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑی ۔

قانتا ہاتھ میں سریہ کی سلاخ  لئیے انتہائی احتیاط سے اس نقاب پوش کی طرف بڑھ رہی تھی قریب پہنچ کر اس نے اپنا ہاتھ اونچا کرکے جیسے ہی اس نقاب پوش پر  وار کرنا چاہا وہ تیزی سے پلٹ کر اسے کک مار چکا تھا وہ کراہ کر گری اس سے پہلے وہ  اپنے قدموں پر کھڑی ہو پاتی وہ نقاب پوش مضبوط قدم اٹھاتے ہوئے اس کے نزدیک آیا اور بڑی بے رحمی سے اس کی گردن دبوچ کر اسے کھڑا کیا قانتا نے مشکل سے اپنی سسکی کو روکا اس سے پہلے وہ اس کو کک لگا کر خود کو چھڑواتی اس نے خود ہی اسے دھکا دے کر چھوڑ دیا 

" کون ہو تم ۔۔۔۔۔" اس نقاب پوش کی بھاری آوز گونجی 

" میں ۔۔۔۔" قانتا نے لبوں پر زبان پھیری شکر ہے وہ اس وقت بھی برقعے میں ملبوس تھی 

" ہاں تم اتنی رات گئے یہ سریہ ہاتھ میں لئیے ان پہاڑوں پر کیا کررہی ہوں ۔۔۔۔" اب کے اس نے سختی سے سوال کیا 

 " میں وہ بکریاں چرانے نکلی تھی کہ کچھ غنڈے میرے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔۔" قانتا نے جلدی سے کوور اسٹوری بنائی 

میجر احمد نے غور سے شٹل کاک برقعے والی کو دیکھا جس کا لہجہ کچا پکا سا تھا برقع بھی ایک دو جگہ سے پھٹا ہوا تھا جالیوں سے نیلی آنکھیں صاف نظر آرہی تھیں  اسی وقت بھاگتے قدموں کے ساتھ ٹارچ کی روشنی چمکی احمد نے تیزی سے جھک کر خود کو روشنی سے محفوظ کیا 

" ارے ادھر آؤ برقعے والا باجی وہ اوپر کھڑا ہے ۔۔۔۔" نیچے سے گلریز خان نے قانتا پر ٹارچ کی روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو آواز دی 

قانتا نے سر اٹھا کر سامنے کھڑے نقاب پوش کو دیکھا 

" میں جاؤں وہ لوگ آرہے ہیں ۔۔۔۔" بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں قریب آرہی تھیں 

" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے وہی کھڑے رہنے کا اشارہ کرکے اندھیرے میں غائب ہوگیا 

" یہ دیکھو  خانہ خراب  یہ باجی ادھر آرام سے کھڑا ہے ادھر سمندر خاناں اس کے لئیے پاگل ہورہا ہے ۔۔۔۔" گلریز نے اوپر آکر قانتا کو آرام سے کھڑا ہوا دیکھ کر دانت پیسے 

"اب امارا شکل کیا دیکھ رہے ہو پکڑو اس باجی کو ۔۔۔" اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو آگے بڑھنے کا ہاتھ ہلا کر  اشارہ کیا جو دم سادھے کھڑے ہوئے تھے ۔

" ایک لڑکی سے ڈر رہے ہو ؟؟ باجی کچھ نہیں کہے گا اسے پکڑو اور چلو ۔۔۔" وہ بولتے ہوئے پلٹا اور حیران رہ گیا ایک سیاہ پوش اس کے سر کا  نشانہ لئیے کھڑا تھا ۔

میجر  احمد ہاتھ میں تیز دھار چاقو لئیے چٹان کے ساتھ دم سادھے ٹیک لگائے کھڑا تھا جب تین قبائلی افراد بھاگتے ہوئے اس لڑکی تک پہنچے وہ دبے قدموں چلتا ہوا ایک کے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اس نے مضبوطی سے اپنا ہاتھ اس کےمنھ ہر رکھا اور تیزی سے چھرا اس کی گردن پر پھیر کر اسے آرام سے بنا آواز زمین پر ڈال کر دوسرے آدمی کا شکار کیا سامنے ہی وہ لڑکی دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی وہ اس کی نیلی آنکھوں کو خود پر جما ہوا محسوس کررہا تھا اس نے آرام سے چاقو اپنی پنڈلی میں اڑسا  اور گن نکال کر گلریز خان کے سر کا نشانہ لیکر کھڑا ہوگیا ۔

__________________________________________

گلریز خان جیسے ہی پلٹا اپنے اوپر نشانہ تانے کھڑے نقاب پوش کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتا یا کرتا میجر احمد نے زور سے گن کا دستہ اس کے سر پر مارا وہ بیہوش ہو کر گر گیا ۔

" تم یہی ٹہرو میں دو منٹ میں آتا ہوں یہ بیہوش ہے تمہیں اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" وہ ساکت کھڑی برقعے والی لڑکی کو تسلی دیتے ہوئے پلٹ کر واپس اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

تھوڑی دور جا کر اس نے جیب سے وائرلیس ٹرانسمیٹر نکالا 

" ایجنٹ دلاور واٹ از یور  پوزیشن اوور ۔۔۔" 

" ٹھکانہ ٹریس کرلیا ہے اٹس آ کیس آف مسنگ پرسنز  اوور " 

" کوئی evidence اوور ۔۔۔" 

" سات مسخ شدہ بوری بند لاشیں  اوور " 

" لیو دا پلیس ۔۔۔۔" 

"  یس سر اب واپس آرہا ہوں اوور ۔۔۔" 

" گڈ میرے پاس بھی شکار ہے تم ادھر ہی آجاؤ ۔اوور اینڈ آل ۔۔۔" لوکیشن بتا کر اس نے ٹرانسمیٹر آف کیا اس کے اندازے کے مطابق دلاور کو آنے میں بس بیس منٹ ہی لگنے تھے وہ رسٹ واچ میں وقت دیکھتے ہوئے پلٹا اب اس کا ارادہ اس لڑکی سے تفتیش کرنے کا تھا ۔

-------------------------------------------------------------------------

نقاب پوش کے جاتے ہی قانتا تیزی سے بیہوش پڑے گلریز کی طرف بڑھی وہ بڑی مہارت سے اس کی تلاشی لے رہی تھی  اس کی جیب سے پستول نکال کر وہ اپنی جیب میں ڈال چکی تھی اس کے ہاتھوں میں ایک عجیب سی ساخت کی مردانہ انگوٹھی تھی وہ اسے اتار ہی رہی تھی کہ اسے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ تیزی سے اسے چھوڑ کر واپس دور جا کر کھڑی ہوگئی 

میجر احمد واپس آیا تو گلریز اسی طرح بیہوش پڑا تھا اور وہ برقعے والی لڑکی خاموشی سے یا شاید ڈر کے مارے دور  کھڑی ہوئی تھی 

" اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بس تم یہ بتاؤ تمہارا گھر کدھر ہے ؟ ۔۔۔"احمد نے اسے مخاطب کیا 

وہ چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی اس علاقے اسے بالکل بھی آگاہی نہیں تھی مقامی زبان بھی اسے تھوڑی بہت آتی تھی سامنے کھڑا آدمی اس کا انداز سب کچھ اسے ایک ٹرینڈ کمانڈو ثابت کررہا تھا لیکن جب تک کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا اس وقت تک قانتا کا اپنی شناخت چھپانا ہی بہتر تھا 

" کیا پوچھ رہا ہوں میں تمہارا گھر کدھر ہے ؟؟ " اب کے وہ سخت انداز میں بولا 

قانتا نے پرسوچ نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر دھیرے سے جھومتے ہوئے بیہوش ہو کر وہی گر گئی اس صورتحال میں اسے اپنا بیہوش ہونا ہی مناسب لگا ۔

" شٹ اب یہ ایک اور نئی مصیبت ۔۔۔" احمد ٹھیک ٹھاک جھنجھلا گیا تبھی اس کا ٹرانسمیٹر وائیبریٹ کرنے لگا 

" سر میں آگیا ہوں آپ کدھر ہیں اوور ۔۔۔" دلاور کی آواز سنائی دی 

" دلاور تم اوپر آؤ میں سگنل دیتا ہوں یہاں ایک معصوم لڑکی ان دھشت گردوں سے ڈر کر بیہوش ہو گئی ہے اوور اینڈ آل ۔۔۔۔۔" 

-----------------------------------------------------_------------_-

" تم ایک نمبر کے جھوٹے مکار  آدمی ہو ۔۔۔۔" 

وہ جو ابھی جائے وقوع سے لاشیں اور زخمیوں کو ہٹوا کر فارغ ہوا تھا جانی پہچانی نسوانی آواز سن کر چونک گیا 

" پلوشہ ۔۔۔" وہ بڑبڑایا 

" تم ادھر کیا کررہی ہوں ؟؟ " وہ چاروں طرف دیکھتا ہوا اس کے نزدیک آیا 

" دور ہٹو سڑے ہوئے بندر !! افف کتنی بدبو آرہی ہے ۔۔" وہ نزاکت سے ناک پر ہاتھ رکھتی ہوئی پیچھے ہٹی 

"اسٹوپڈ  تم اس وقت ادھر مجھ سے کھڑی ہو کر بات کرتے ہوئے مجھے بھی مشکوک بنا رہی ہو  گھر جاؤ ۔۔۔" وہ رخ موڑ کر بولا 

" تم نے  تو  ایک ماہ پہلے کہا تھا کہ تم یونٹ واپس جا رہے ہو  تو پھر ادھر کیا مونگ پھلی بیچنے کے واسطے رکے ہوئے ہو ؟؟ جھوٹا ۔۔۔" وہ ناراض ہوئی 

وہ پلوشہ کی بات سن کر تیزی سے پلٹا اور اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے ایک ویران کونے میں لے گیا 

" کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے ۔۔۔" وہ غرائی 

" تم !! " اس نے اس کا بازو چھوڑا 

"  کتنی بار سمجھایا ہے کہ یونٹ کا نام مت لیا کرو  انفیکٹ تمہیں مجھے ایک اجنبی سمجھ کر گزر جانا چاہئیے یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔۔۔" وہ انتہائی سرد لہجے میں بولا 

" واہ واہ ایک تو  تمہارے لئیے اپنے چچا تایا  کی جاسوسی کی ،اس منحوس جاسوسی کی وجہ سے یونیورسٹی سے بریک لے کر ادھر گھر میں پڑی مورے کے لیکچر سنتی رہتی ہوں اور تم مجھے ایسے ٹریٹ کررہے ہو ؟؟ اب لینا تم مجھ سے زلمے تایا کی کوئی انفارمیشن ۔۔۔" وہ غصہ ہوئی 

بلیو  جینز کے اوپر سفید لمبا گھٹنوں تک آتا  کرتا ،  پیروں میں جاگرز شوز اور سر پر اچھی طرح سے دوپٹہ لئیے ہوئے پلوشہ مشرق و مغرب کا ایک حسین امتزاج لگ رہی تھی 

کیپٹن حمید نے غور سے اس کے غصہ سے سرخ چہرے کو دیکھا پلوشہ اس کے اسکول کے زمانے کی دوست تھی شہید کرنل شیر گل  کی بیٹی ،  جس کا تعلق بلوچستان کے ایک مشہور سیاسی خاندان سے تھا  انٹر کے بعد حمید  نے  پی ایم اے  جوائن کرلیا تھا  اور پلوشہ نے اسلام آباد  یونیورسٹی ، وہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں اپنا آنرز  مکمل کرچکی تھی اور اب  لاء (وکالت) پڑھ  رہی تھی جب حمید نے اس سے رابطہ کیا تھا اسے زلمے خان تک پہنچنے کیلئے پلوشہ سے بہتر کوئی ذریعہ مناسب نہیں لگا تھا ۔

" تم اس وقت ادھر کیا کررہی ہو اکیلی آئی ہو یا ؟؟ " وہ چاروں جانب دیکھتا ہوا بولا 

" پہلے یہ بتاؤ مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ؟ " وہ ضدی لہجے میں بولی

" مجھے یونٹ جوائن کرنا تھا لیکن پھر ادھر سے کچھ ایسی مشکوک حرکتیں ہوئی کہ مجھے یہی رکنا پڑا ، اب تم بولو ادھر کیا کررہی ہو ۔۔۔" 

" زلمے  تایا کا خاص آدمی سمندر خان گھر آیا تھا سنا ہے کوئی غیر ملکی  جاسوس ہمارے علاقے میں آئے ہیں  تو میں بس اس کا پیچھا کرتے ہوئے ادھر آئی تو یہاں فائرنگ ہورہی تھی پھر ایف سی والے آگئے ان کے ساتھ تمہیں دیکھا تو سامنے آگئی سمپل ۔۔۔" 

" پلوشہ یہ سمپل نہیں ہے تمہیں اس طرح گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئیے گاڑی کہاں ہے تمہاری ؟ جاؤ گھر جاؤ میں آج کل میں خود تم سے رابطہ کرونگا ۔" وہ سنجیدگی سے بولا 

" گاڑی تو نہیں ہے میں تو سمندر خان کی جیپ میں  نیچے چھپ کر آئی ہوں ۔۔۔" اس نے اپنا کارنامہ بیان کیا 

کیپٹن حمید نے افسوس سے اس سرپھری کو دیکھا 

" چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔" وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے آگے چلنے لگا کافی دور جا کر ایک جھنڈ کے پیچھے سے اس نے ایک بہت ہی پرانے زمانے کی کھٹارا سی اسکوٹر نکالی 

" آؤ جلدی کرو ۔۔۔" وہ بائیک کو کک لگا کر اسٹارٹ کرتے ہوئے بولا 

پلوشہ نے اپنا دوپٹہ کھول کر اچھی طرح سے اپنے چہرے کے گرد نقاب کرکے پوری طرح پھیلا لیا تھا 

" چلو اور سنو بس گلی سے دور دکانوں سے پہلے چھوڑ دینا آگے میں خود چلی جاؤنگی ۔۔۔" وہ احتیاط سے اسکوٹر پر بیٹھی 

کئی بھول بھلیوں ٹائپ راستوں سے گزرتے ہوئے وہ مطلوبہ مقام تک پہنچا اسکوٹر کے رکتے ہی پلوشہ نیچے اتری 

" سنو ۔۔۔۔" اس نے جاتی ہوئی پلوشہ کو آواز دی 

" آئندہ اس طرح تم کسی کے پیچھے گھر سے باہر نہیں نکلو گی اور اگر کوئی انفارمیشن ہو تو مجھے ٹیکسٹ کردینا میں خود دیکھ لونگا ۔۔۔" 

پلوشہ نے ایک لحظہ کو رک کر بنا مڑے اس کی بات سنی اور کوئی بھی جواب دئیے بغیر آگے بڑھ گئی ابھی تو اسے سب کی نظروں سے بچ کر گھر کے اندر داخل ہونے کے بعد اپنے کمرے تک کھڑکی کے ذریعے پہنچنا تھا جسے وہ اندر سے لاک کرکے آئی تھی ۔

_____________________________________________

تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتی ہوئی پولیس جیپ تھانے کے احاطے میں آکر رکی 

" سلام سر  " باوردی حوالدار نے اسے دیکھتے ہی سلیوٹ کیا 

کیپ کو اتار کر ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ اپنا دائیاں ہاتھ  گھنے شارٹ فوجی کٹ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اندر داخل ہوا 

" سلام سر ۔۔۔ " اسے دیکھتے ہی سب ایک دم ایکٹیو ہوگئے 

" انسپکٹر عزیز آپ یونیورسٹی میں  بم دھماکے والے کیس کی فائل میری میز پر پہنچائیں ۔۔۔" وہ جاتے جاتے رکا 

" اس  بم کیس والے  ملزم  نے اپنی  زبان کھولی ؟؟ "

" نہیں سر سب کرکے دیکھ لیا پر وہ کچھ بولتا نہیں ہے ۔۔"انسپکٹر عزیز نے جواب دیا 

" سر اس پٹھان کو رہا کرنے کے لئیے صبح سے فون آرہے ہیں کافی بڑے وزیروں کا چہیتا لگ رہا ہے  ۔۔۔" 

" ہمم اوکے خالد  ، محمود  تم دونوں ذرا برف کی بڑی  سلیں   ارینج کر کے لاک اپ میں لاؤ ۔۔۔" وہ حکم دیتا ہوا اندر لاک اپ کی طرف بڑھ گیا 

"مجھے تو اس پٹھان پر  پر ترس آرہا ہے وہ تو گیا اب سر کے ہاتھوں سے اسے کون بچائے گا ۔" خالد نے ایس پی موحد کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا 

" ایس پی ابھی جوان خون ہے اسے باریکیاں نہیں پتہ دیکھنا کسی دن کوئی بڑا نقصان نا اٹھا لے .." سینئر تھانیدار محمود نے پرسوچ نگاہوں سے ایس پی کو دیکھا 

چھ فٹ سے نکلتا قد ، مضبوط جسامت عمر تقریباً اٹھائیس سال ،ایس پی موحد خان  مردانہ وجاہت کا جیتا جاگتا شاہکار تھا اور وردی میں تو اس کی چھب ہی الگ تھی ، مضبوط قدموں سے چلتا ہوا وہ لاک اپ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔

سامنے ہی ایک لمبا تڑنگا تقریباً چالیس سال عمر کا پٹھان فرش پر بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پر  کرختگی تھی ۔

"اٹھو سیدھے کھڑے ہو ۔۔۔" ایس پی موحد نے اس کی ٹانگ پر اسٹک ماری 

" کون ہو تم ؟ تمہارا مالک کون ہے کس کے کہنے پر تم نے شہر میں بم دھماکے کروائے ۔۔۔" ایس پی موحد نے سنجیدگی سے پوچھا 

وہ چپ چاپ ایس پی کی نظروں میں دیکھتا رہا منھ سے ایک لفظ نہیں بولا 

" تو تم اپنی زبان نہیں کھولو گے ؟ ۔۔۔ " ایس پی موحد نے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا وہ ڈھٹائی سے مسکرایا جیسے کہہ رہا ہو کر لو جو کرنا ہے 

موحد نے بڑی بے رحمی سے اس کے چہرے پر دو تین باکسنگ پنچ مارے ، تشدد شروع ہوچکا تھا مگر وہ پٹھان بڑی ڈھٹائی سے مار کھا رہا تھا موحد نے اس کے دونوں ہاتھ اوپر چھت سے لٹکتے کڑوں سے باندھ دئیے تھے انسپکٹر عزیز بھی موحد کے ساتھ اس کی زبان کھلوانے کی پوری کوشش کررہا تھا 

" سر ڈی آئی جی صاحب کا فون ہے ۔۔۔" حوالدار اندر آیا 

" عزیز اس کے سارے زخموں میں نمک بھرو اور اسے سارا دن  ساری رات سونے نہیں دینا ہے ایک لمحے کو بھی اسے سکون نہیں ملنا چاہئیے ۔۔" موحد اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے انسپکٹر عزیز کو ہدایات دیتے ہوئے باہر نکل  کر اپنے آفس میں آیا اور میز پر رکھا فون اٹھایا 

" اسلام علیکم سر  ۔۔۔" 

" موحد یہ کیا کرتے پھر رہے ہوں ؟ بنا ریمانڈ لئیے تم نے بندہ پکڑ رکھا ہے اب اوپر سے بہت پریشر آرہا ہے بہتر ہے اسے چھوڑ دو ۔۔۔" آئی جی صاحب کی آواز گونجی 

" سر یہ لوگ کئی معصوم شہریوں کی جان لے چکے ہیں اور اگر انہیں روکا نہیں گیا تو یہ سلسلہ جاری رہیگا بس آپ ایک رات تک کا وقت اور دے دیجئیے میں اس کی زبان کھلوا لونگا یہ ہمارے لئیے ایک پکا ثبوت ثابت ہوگا ۔۔" موحد نے وقت مانگا 

" ٹھیک ہے بس چوبیس گھنٹے ہیں تمہارے پاس ۔۔۔" 

" تھینک یو سر ۔۔۔" موحد نے فون رکھا اور اپنی آستینیں چڑھاتے ہوئے واپس لاک اپ کی طرف بڑھ گیا جو بھی ہو اسے ہر حال میں اس پٹھان کی زبان کھلوانی تھی کیسے یہ وہ خوب جانتا تھا ۔

______________________________________________

کاندھے پر بیگ لٹکائے  ، سر پر چادر جمائے وہ کالج کے باہر کھڑی بس کا انتظار کررہی تھی اس کا سرخ و سفید چہرہ دھوپ کی تمازت سے سرخ پڑگیا تھا تبھی پولیس کی جیپ اس کے پاس آکر رکی دروازہ کھول کر موحد باہر نکلا ۔ہونیفارم میں ملبوس سن گلاسز آنکھوں پر لگائے وہ سب لڑکیوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا کئی لڑکیوں کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی تھی تو کئی سیکنڈ ائیر کی اسٹوڈنٹ علیزے کو حسد سے دیکھ رہی تھیں

" کیسی ہو ؟؟ " موحد اس کے بالکل عین سامنے آکر رکا 

" آپ ادھر کیسے ؟؟ " علیزے کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر چمک سی اتر آئی تھی جسے موحد نے بڑی دلکشی سے مسکراتے ہوئے نوٹ کیا 

" ایک ضروری کیس کے سلسلے میں شہر سے باہر جا رہا ہوں تو سوچا جانے سے پہلے تم سے ملتا ہوا جاؤں۔"وہ اسے اپنی نظروں کے حصار میں لئیے ہوا تھا 

" وہ میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہئیے دادو ویٹ کررہی ہونگی ۔۔۔" وہ اس کی پرشوق نظروں سے گھبرا اٹھی 

"  آؤ بیٹھو  لنچ کے بعد میں تمہیں گھر چھوڑ دونگا ۔۔۔" وہ جیپ کا دروازہ اس کیلئے کھولتے ہوئے بولا 

" وہ دادو ۔۔۔" علیزے پریشان ہوئی 

" علیزے میری زندگی !! دادو کی پرمیشن ہی سے تمہیں پک کرنے آیا ہوں اب جلدی کرو ۔۔۔" 

گاڑی کالج کے احاطے سے نکل کر مین روڈ پر نکل آئی تھی موحد نے گردن موڑ کر علیزے کو دیکھا لمبی چوٹی میں سے سیاہ بال نکل کر اس کے خوبصورت چہرے کو چومتے ہوئے اس کی دلکشی میں مزید اضافہ کررہے تھے وہ بیگ گود میں لئیے سر جھکائے بیٹھی تھی 

" ہم پورے دو ویک بعد مل رہے ہیں اور تم نہ سلام نہ دعا  کیا ناراض ہو ؟؟ " 

" نہیں ناراض تو نہیں ہوں ۔۔" علیزے نے سنجیدگی سے جواب دیا 

موحد نے ایک ہاتھ اسٹیئرنگ سے ہٹا کر اس کی سمت بڑھایا اور اس کی گود میں رکھا اس کا نازک مخروطی ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا 

" سوری یار !! میں ایک اہم کیس میں بزی تھا اسی لئیے تمہاری برتھ ڈے مس کرگیا خیر آج ساری کسر نکال لینگے ۔۔۔" 

وہ علیزے کو لیکر اپنے گھر آگیا چوکیدار نے اس کی گاڑی دیکھتے ہی گیٹ کھول دیا تھا وہ گاڑی اندر لے آیا 

" کیا احمد بھائی آئے ہوئے ہیں ۔۔۔" علیزے نے خوشی سے پوچھا 

علیزے  موحد  اور احمد کی چچازاد  تھی میٹرک  کی اسٹوڈنٹ تھی ، احمد اپنی ایس ایس جی  کی ٹریننگ مکمل کرچکا تھا اور  موحد فائنل ائیر کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس کی  تیاریاں کررہا تھا  جب ایک  بم بلاسٹ میں ان کے والدین کی شہادت ہوگئی بس اب ایک بوڑھی دادی ہی رہ گئیں  تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی علیزے کا  نکاح موحد سے کروادیا تھا رخصتی علیزے کے گریجویشن کے بعد طے پائی تھی چار سال تھے اس وقت تک انہیں یقین تھا کہ وہ احمد کیلئے بھی کوئی اچھی لڑکی ڈھونڈ لینگی ۔نکاح کے بعد سے علیزے نے موحد کے گھر آنا چھوڑ دیا تھا لیکن جب احمد آیا ہوا ہوتا تھا تو وہ ادھر ہی پائی جاتی تھی آخر اپنے احمد بھیا کی لاڈلی جو تھی ۔احمد بھی اس گڑیا کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا وہ بابا اور چچا کے انتقال کے بعد خود کو موحد اور علیزے کا باپ بنا چکا تھا اور ایک باپ ہی کی طرح اس نے ان کی ذمہ داری نبھائی تھی 

" کیوں تم کیا صرف احمد بھائی کی موجودگی میں ہی ادھر آسکتی ہو ؟ " موحد نے اسے گھورا 

وہ اسے لیکر گھر کے اندر آیا 

" جاؤ میرے روم  میں جاکر ریڈی ہوجاؤ پھر ہم مل کر لنچ پر چلینگے تھوڑی شاپنگ کرینگے ایک ساتھ ایک اچھا ٹائم اسپینڈ کرینگے ۔۔۔" 

" آپ کے کمرے میں ۔۔۔۔" وہ ہچکچائی 

" لڑکی جلدی کرو تین  منٹ تو تم نے یہیں ضائع کردئیے ہیں تمہارے پاس صرف پندرہ منٹ ہیں جلدی سے ریڈی ہو کر آؤ ۔۔۔۔" 

اسے اوپر بھیج کر وہ خود احمد کے کمرے میں بڑھا جہاں وہ اپنی جینز اور ٹی شرٹ پہلے ہی رکھ چکا تھا ۔

موحد کے ٹوکنے پر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر کمرے کی طرف بڑھ گئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی بیڈ پر ایک خوبصورت گلابی  لباس اس کا انتظار کررہا تھا وہ دھیرے دھیرے سے چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اس خوبصورت شیفون کے لباس کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک سی اتر آئی تھی وہ لباس اٹھا کر سیدھا واش روم کی طرف بڑھ گئی 

جلدی جلدی ہاتھ منھ دھو کر اس نے لباس تبدیل کرکے کالج کا یونیفارم سلیقے سے تہہ کرکے بیگ میں رکھا اپنے لمبے بالوں کو کھول کر برش کر کے اونچی پونی بنا کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ دروازہ کھول کر موحد اندر داخل ہوا ۔۔۔

" واؤ یو آر لکنگ سو پریٹی ۔۔۔۔" وہ چند لمحے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا رہا 

" میں بہت لکی ہوں !!  ویسے سوٹ تو تم نے بڑا زبردست پہن رکھا ہے بالکل اپنی رنگت سے میل کھاتا ہوا ۔۔۔" وہ شرارت سے اس کے پاس آیا 

" یہ آپ ہی تو لائے ہیں نا ۔۔۔۔" وہ کنفیوز ہوئی 

" یار ایک تو تم !!   تم بہت سیدھی ہو خیر کوئی بات نہیں جب میری دسترس میں آؤ گی تو میں تمہیں اپنی طرح  چالاک بنا دونگا ۔۔۔" موحد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا جو اب جاگرز پہن رہی تھی 

" اب کیا ڈیٹ پر جاگرز پہن کر چلو گی ؟؟ وہ بھی فینسی قمیض شلوار پر ؟؟ " موحد نے اسے ٹوکا 

" وہ سینڈل تو نہیں ہیں ۔۔۔۔" وہ ہچکچائی 

" کیوں نہیں ہیں ۔۔۔" موحد نے اس کے خفت سے گلابی پڑتے  چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیا 

" وہ تو گھر پر  ہیں میں کالج تو سینڈل پہن کر  نہیں جاتی ۔۔۔" 

" کوئی بات نہیں ہم پہلے مال چلینگے ۔۔۔۔" وہ اس کی معصومیت پر ہمیشہ ہی دل ہار جاتا تھا 

علیزے کا ہاتھ پکڑ کر وہ گھر لاک کرتا ہوا باہر نکلا پولیس جیپ کو وہی چھوڑ کر وہ ڈرائیوے پر کھڑی  احمد کی اسپورٹس کار کی طرف بڑھا  

" یہ تو احمد بھائی کی گاڑی ہے ۔۔۔" علیزے ٹھٹک کر رکی

" ہاں تو ؟ بھائی کی ہر چیز میری اور میری ہر چیز بھائی کی ہے چلو بیٹھو ۔۔۔" اس نے دروازہ کھول کر اسے بٹھایا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا 

تھوڑی ہی دیر میں گاڑی گھر سے باہر نکل چکی تھی ۔ گلی سے گاڑی کے نکلتے ہی دور کھڑی اسٹیشن ویگن اسٹارٹ ہوئی اور ان کے پیچھے روانہ ہو گئی تعاقب شروع ہوچکا تھا ۔

_____________________________________________

میجر احمد چوکنا کھڑا دلاور کا انتظار کررہا تھا ٹھیک دس منٹ بعد دلاور نے اسے میسج کیا اب میجر دلاور ٹارچ کی روشنی سے دلاور کو اپنی پوزیشن دکھا رہا تھا کچھ ہی دیر میں دلاور اوپر آچکا تھا 

"سر ان محترمہ کا کیا کرنا ہے ؟؟ " دلاور نے سمندر خان کو کندھے پر اٹھا کر زمین پر بیہوشی کی ایکٹنگ کرتی قانتا کی طرف اشارہ کیا 

" اسے بھی ساتھ کے کر جائیں گے ہوش میں آتی ہے تو پتہ پوچھ کر گھر پہنچا دینگے ۔" میجر احمد نے جواب دیا 

" سر اگر یہ رات بھر ہوش میں نہیں تو ؟ یہ قبائلی لوگ ہیں اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے کہا 

" ابھی یہاں سے تو نکلتے ہیں پھر سیف ہاؤس پہنچ کر اس لڑکی کا کچھ کرتے ہیں ۔۔۔" میجر احمد نے آگے بڑھ کر اس برقعے میں ملبوس بیہوش لڑکی کو اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا 

وہ دونوں اس اندھیرے میں بڑی تیزی سے نیچے ڈھلان کی جانب بڑھ رہے تھے رات کے وقت ان علاقوں میں موت کا پہرا ہوتا تھا یہاں زیادہ دیر تک ٹہرنا وہ بھی ایک لڑکی کے ساتھ مناسب نہیں تھا نیچے پہنچ کر میجر احمد نے احتیاط سے اس لڑکی کو پچھلی سیٹ پر لٹایا اور خود ڈگی سے ایک موٹا رسا نکال کر بیہوش پڑے سمندر خان کی طرف بڑھا اچھی طرح سے اس کے ہاتھ پیر باندھ کر منھ میں کپڑا ٹھونسا اور اسے ڈگی میں ڈال کر ڈگی بند کردی ۔

" لیٹس گو دلاور ۔۔۔ " وہ آگے سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولا

میجر احمد کے بیٹھتے ہی دلاور نے جیپ اسٹارٹ کی اور تیزی سے سیف ہاؤس کی طرف روانہ ہوا ابھی جیپ  دو میل ہی چلی ہوگی کہ بری طرح سے ڈگمگا گئی

" سنائپر شاٹ 

" we got hit Sir ...." 

ایک  ٹائر برسٹ ہوچکا تھا لیکن دلاور نے جیپ نہیں روکی احمد بھی اپنی گن نکال چکا تھا دیکھتے ہی دیکھتے چارو ں ٹائر برسٹ ہوچکے تھے ۔

____________________________________________

اسلام آباد 

وہ گاڑی چلاتے ہوئے گاہے بگاہے ساتھ بیٹھی علیزے پر بھی نظر ڈال رہا تھا جو خاموشی سے سر جھکائے اپنی انگلیاں مڑوڑنے کا کام سر انجام دے رہی تھی ۔ایک مشہور مال کی پارکنگ میں گاڑی روک کر وہ پوری طرح سے چپ چاپ بیٹھی علیزے کی طرف متوجہ ہوا 

" لگتا ہے جلدی جلدی میں تیار ہوئی ہو ! منھ پر تو تم نے بس پانی کے چھینٹے ہی مارے ہیں عجیب بھوتنی سی لگ رہی ہو کم از کم صابن سے منھ تو دھو لیتی  ۔۔۔۔" اس نے علیزے کو چھیڑا اور اس کی توقع کے عین مطابق وہ شرم و  جھجک چھوڑ کر الرٹ ہو گئی 

" کیا واقعی میں بہت بری لگ رہی ہوں ۔۔۔" اس نے پریشانی سے موحد سے سوال کیا جو کافی سنجیدہ لگ رہا تھا 

" ہاں تمہارا کاجل پھیلا ہوا ہے آدھا چہرہ کالا ہوا پڑا ہے پکی پکی بھوتنی لگ رہی ہو  ۔۔" 

" اللہ اللہ اب میں کیا کروں ایسے تو میں باہر نہیں جاسکتی آپ واپس گھر چلیں پلیز ۔۔۔" وہ روہانسی ہوئی 

" تم پریشان مت ہو میں ہو نا ، ابھی سب ٹھیک کردیتا ہوں ۔۔۔" موحد نے شرارت سے کہتے ہوئے ٹشو پیپر باکس سے نکالا اور اس کی سمت جھکا علیزے نے سادگی سے سر ہلاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں تھی کتنے ہی پل گزر گئے تھے جب اس نے آنکھیں کھولیں تو موحد اس کے انتہائی نزدیک ٹکٹکی باندھے بڑی فرصت سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا دیکھتے ہی دیکھتے علیزے کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا اور وہ نظریں جھکا کر رخ موڑ گئی 

علیزے کے چہرے پر پھیلتی سرخی اور لرزتی پلکوں کا رقص دیکھ کر وہ چونک کر ہوش میں آکر پیچھے ہٹا 

" چلو وائف  آج تمہیں  اپنی پسند کی شاپنگ کرواتا ہوں ۔۔" وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا 

" لیکن میرا چہرہ ۔۔۔۔" وہ ہچکچائی 

" ہمیشہ کی طرح دلکش  ہے چاہوں  تو میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لو ۔۔۔" وہ گھمبیر لہجے میں بولتا ہوا پھر سے  اس کے نزدیک ہوا 

" نہیں اٹس اوکے ۔۔۔" وہ تیزی سے پیچھے ہوئی 

" چلو بھی یا اب گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے ۔۔۔" وہ سن گلاسز آنکھوں پر لگاتا ہوا نیچے اترا 

ان دونوں کے مال کے اندر جاتے ہی دور کھڑی اسٹیشن ویگن حرکت میں آئی اور مال کے مین گیٹ پر آکر رکی ویگن میں سے ایک ادھیڑ عمر آدمی پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر اترا اور چاروں جانب دیکھتے ہوئے اندر مال کے اندر داخل ہو گیا اس کے کانوں میں بلو ٹوتھ لگا ہوا تھا اس کے اندر داخل ہوتے ہی ویگن دوبارہ حرکت میں آئی اور پارکنگ میں چلی گئی ۔

"کیا لو گی ؟ "  مال کے اندر داخل ہوئے اس نے پوچھا 

" بس سینڈل ۔۔۔" وہ جوتوں کی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی 

" آؤ پہلے تمہاری سینڈل خرید لیتے ہیں پھر باقی شاپنگ کرینگے ۔۔" وہ اسے لیکر شاپ میں داخل ہوا رنگ برنگے شوز سینڈلز میں سے اس نے اپنی پسند کی نازک سی ہیل والی سینڈل پسند کی ۔

" تم یہ ٹرائے کرو اگر سائز ٹھیک ہے تو فائنل کرتے ہیں ۔۔" وہ سیلز مین کے ہاتھ سے ڈبہ لے کر علیزے کی سمت بڑھاتے ہوئے بولا 

" میم آپ پیر آگے کیجئے میں آپ کی ہیلپ کردیتا ہوں ۔۔" سیلز مین خوش اخلاقی سے بولتا ہوا علیزے کے پیروں کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ موحد نے اسے گردن سے پکڑ  کر دور کیا 

" کیا ہم نے آپ سے ہیلپ مانگی ؟؟ " وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا 

" نو سر ! بٹ سر اٹس مائی ڈیوٹی سر ۔۔۔" وہ گڑبڑا اٹھا 

" آپ جاسکتے ہیں ہمیں کوئی مدد نہیں چاہئیے ۔۔۔" موحد نے  خشک لہجے میں بولتے ہوئے اسے ہٹایا 

" تم اتنی پریشان کیوں ہورہی ہو ؟؟ شوز ٹرائے کرو اور چلو یہاں سے ۔۔۔" وہ اس سچویشن سے پریشان ہوتی علیزے کو دیکھ کر بولا 

علیزے نے اثبات میں سر ہلاتے باریک اسٹریپ والی سینڈل اپنے پیروں میں ڈالی اس کے نازک سے  گلابی رنگت والے پیر  اس سینڈل میں جگمگا اٹھے تھے موحد کی نظروں میں ستائش سی اتر آئی تھی ۔۔۔

" بس یہ ٹھیک ہیں تم یہی پہنی رہو اور جاگرز اس کے ڈبے میں رکھ لو ۔۔۔" وہ علیزے کو ساتھ لیکر بل پے کر کے شاپ سے باہر نکلا 

" اب چلیں ۔۔۔" علیزے نے باہر کی طرف رخ کیا 

" اتنی جلدی کیا ہے مسز ابھی ایک چیز اور لینی ہے جس کی آج مجھے شدت سے کمی محسوس ہوئی ہے ۔۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا 

" سنئیے ۔۔۔" کافی دیر مال میں چلنے کے بعد علیزے نے اسے پکارا 

وہ تو اس کے منھ سے " سنئیے " سن کر ہی جھوم گیا تھا

" سنائیے مسز موحد ۔۔۔۔" وہ شوخ ہوا 

اس کے طرز تخاطب سے علیزے کے چہرے پر سرخی ابھر آئی تھی وہ بلش کرنے لگی تھی 

" یار اب تم ایسے شرمایا  کروں گی تو پھر ۔۔۔" وہ سرد آہ بھرتے ہوئے پیچھے ہٹا 

"چھ بج گئے ہیں جلدی کیجئے ورنہ دادی پریشان ہو جائینگی ۔۔۔" وہ منمنائی

" بے فکر رہو  دادی کو پتہ ہے کہ تم میرے ساتھ ہو انہیں کی اجازت سے تمہیں ڈنر پر لے جارہا ہوں  ۔۔۔" وہ علیزے کا ہاتھ پکڑ کر  جیولری شاپ میں داخل ہوا 

" مجھے نازک سی پائل دکھائیں وائٹ گولڈ کی ملٹی شیڈز میں  ۔۔۔" اس نے کاؤنٹر پر  پہنچ کر سیلز مین کو اپنی ڈیمانڈ بتائی 

" یہ آپ کیا کررہے ہیں ۔۔۔۔" علیزے نے سیلز مین کے ہٹتے ہی سوال کیا 

" اپنی منکوحہ کیلئے پائل خرید رہا ہوں کوئی اعتراض ؟؟ " وہ تیکھے لہجے میں بولا 

اپنی پسند سے پائل خرید کر وہ باکس اپنی جیب میں ڈال کر علیزے کو لے کر ریسٹورنٹ کی طرف روانہ ہوا ۔اس بات سے انجان کہ ایک ویگن بڑی مہارت سے فاصلہ رکھتے ہوئے اس کا پیچھا کررہی تھی ۔

-----------------------------------------------------------------

چمن ۔۔

جیپ کے چاروں ٹائر برسٹ ہوچکے تھے وہ کئی جھٹکے کھا کر ڈگمگا کر رک گئی تھی 

میجر احمد اور دلاور دونوں اپنی اپنی گنز اٹھا کر گاڑی سے کود کر نیچے اتر آئے  تھے یہ نو مین لینڈ ایریا تھا اگر فائرنگ ہوتی بھی تو ایف سی یا کسی نے بھی مدد کو نہیں آنا تھا 

" دلاور تھری او کلاک فائر۔۔۔" احمد نے تیز لہجے میں اسے دشمن کی پوزیشن بتائی 

دلاور کے فائر کرتے ہی دوسری جانب سے بھی فائر کھول دیا گیا تھا وہ دونوں اپنی ہی گاڑی کی آڑ سے دشمن کو نشانہ بنا رہے تھے ۔

" اوہ  خوچہ تم جو بھی ہے بندوق پھینک دو ورنہ ہم تم پر گرینڈ پھینک رہا ہے ۔۔۔" ایک بھاری  آواز گونجی  

" سر اب کیا کرنا ہے اگر ہم گاڑی چھوڑ دیں تو یہ سمندر خان ہاتھ سے نکل جائیگا کیا مقابلہ کریں ؟؟  ۔۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے پوچھا 

" نہیں ہم ابھی مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہیں صرف سمندر ہی نہیں یہ لڑکی بھی اس وقت ہماری ذمہ داری ہے اوپر دیکھو ہمیں چاروں جانب سے گھیرا ہوا ہے ۔۔۔" 

میجر احمد کے کہنے پر دلاور نے اوپر نگاہ دوڑائیں تو دور سے فصیلوں پر ہلکی ہلکی فاصلے سے ٹمٹماتی ہوئی لائٹس دکھائی دی 

" سمندر خان کی مجھے کوئی فکر نہیں ہے مگر وہ  لڑکی سویلین ہے اس کی رکھوالی ہماری ذمہ داری ہے  ۔۔" میجر احمد نے چاروں جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا 

" ابھی سرنڈر کرتے ہیں جیسے ہی یہ سارے سامنے آئینگے فائر کھول دینگے ۔۔۔" احمد بے خوفی سے  آگے بڑھ کر کھڑا ہوگیا دلاور  نے ایک نظر اسے دیکھا پھر خود بھی ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا 

" خوچہ تھوڑا سا اور آگے آؤ نا  اور گن پھینک دو تاکہ ہم بھی تمہارا دیدار کرسکیں ۔۔۔" اب کے وہ آواز تھوڑا نزدیک سے سنائی دی  

سامنے ہی ایک چالیس سالہ آدمی ہاتھ میں 30 بور کی  ماؤذر گن لئیے کھڑا تھا قمیض شلوار میں ملبوس کندھے پر صافہ رکھے منھ میں نسوار دبائے سر پر شیشیوں کی بنی ٹوپی پہننے ہوئے نیلی آنکھوں میں سرمہ کی دھار لگائے  وہ انہیں گھور رہا تھا 

احمد ایک قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ چاروں جانب سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی اب وہ دونوں گاڑی سمیت  بیس آدمیوں کے گھیرے میں تھے ۔

"ام آخری بار کہہ رہا ہے گن پھینک دو ورنہ امارا آدمی لوگ تم پر گولی چلا دے گا پھر شکایت مت کرنا کے سرمہ خان نے تمہیں جان بچانے کا موقع نہیں دیا ۔۔" وہ دونوں کو گھورتے ہوئے بولا 

احمد نے دلاور کو آنکھ سے اشارہ کیا اور ان دونوں نے اپنی اپنی گنیں نیچے پھینک دیں ۔

" تم لوگ کھڑا امارا  منھ کیا دیکھ رہا ہے ۔بابا اس  گاڑی کی تلاشی لو ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور خود  چلتا ہوا ان دونوں نزدیک آیا اور ٹارچ کی لائٹ باری باری دونوں پر ڈالی  

" تم تو اپنا ہی آدمی لگتا ہے  پھر اس فوجی جاسوس کے ساتھ کیا کررہا ہے ؟؟ " اس نے پشتو میں دلاور سے پوچھا 

" ہم دونوں ادھر پشین سے ہی ہے یہ میرا دوست ہے ہم بڑا  گاڑی خریدنے جا رہا تھا ۔۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے پشتو میں جواب دیا 

" تو پھر تمہارا پاس یہ گن کدھر سے آیا ۔۔۔"سرمہ خان نے سوال کیا 

" یہ گن !! یہ ادھر سے آیا ہے جدھر سے تم کو ملا ہے ۔۔۔" اب کے احمد نے جواب دے کر سرمہ خان کو چونکا دیا 

" خان ادھر گاڑی میں ایک آدمی اور ایک  لڑکی بیہوش پڑا ہے ۔۔۔" ایک آدمی چلایا اور اس نے سمندر خان کے بیہوش وجود کو اٹھا کر زمین پر پھینکا اس سے پہلے وہ قانتا کو ہاتھ لگاتا 

" تمہیں اتنے اندھیرے میں کیسے پتہ چلا کہ لڑکی ہے ؟ ٹھیک سے دیکھو ۔۔۔" سرمہ خان چلایا 

"خان لڑکی ہی ہے اس نے برقع پہنا ہوا ہے ۔۔۔" 

"برقع ہٹا کر دیکھو کیا پتہ  ان کا کوئی ساتھی عورت بن کر چھپا ہوا ہو جسے یہ سرحد پار کروانا چاہ رہے ہوں ۔۔"سرمہ خان نے حکم دیا 

" لڑکی کو ہاتھ مت لگانا وہ ہماری حفاظت میں ہے ۔۔۔۔" میجر احمد سرد لہجے میں بولا 

"ہمم لڑکی کو بھی باہر نکالو ۔۔۔۔" سرمہ خان اپنی بندوق احمد کے سینے پر رکھ کر بولا 

سرمہ خان کا ساتھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے واپس گاڑی کی طرف مڑا بیک سیٹ کی طرف جھکا تو وہ خالی تھی وہ تیزی سے سیدھا ہوا 

" سرمہ خان وہ لڑکی غائب ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔" 

اس کی آواز سنتے ہی احمد بجلی کی تیزی سے جھکا اور سرمہ خان کو گردن سے پکڑتے ہوئے اپنے شکنجہ میں کس لیا 

" سرمہ خان گن پھینک دو اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہوں کہ بندوقیں پھینک دیں ۔۔۔"احمد غرایا 

اس سے پہلے سرمہ خان کچھ کہتا پیچھے ایک دھماکہ ہوا اور سرمہ خان کے چار آدمی اڑتے ہوئے دور جا گرے 

دلاور اور میجر احمد نے موقع سے فائدہ اٹھا کر تیزی سے زمین پر گری اپنی گنز اٹھائیں اور اوپن فائر کھول دیا وہ دونوں کھلے میدانی علاقے میں تھے ان دونوں کے فائر کھولتے ہی سارے آدمی ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

"دلاور پہاڑی کی طرف چلو ۔۔۔"میجر احمد نے اسے بیک اپ کرتے ہوئے حکم دیا 

فائرنگ کی آواز پورے علاقے میں گونج رہی تھی دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا لیکن کوئی تھا جو ان دشمنوں کو ٹارگٹ کررہا تھا جس کا فائدہ اٹھا کر   وہ دونوں دوڑتے ہوئے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے 

احمد نے دلاور کو آگے جانے کا اشارہ کیا اور خود زمین پر لیٹ کر  پوزیشن سنبھال لی کچھ دیر بعد وہ تین آدمیوں کو گرا کر اٹھنے ہی لگا تھا کہ کوئی اس سے ٹکرا کر دھم سے گرا میجر احمد نے تیزی سے اپنی گن سے اس کے سر کا نشانہ لیا ۔

_____________________________________________

قانتا خاموشی سے ان کی جیپ میں بیہوش ہونے کی ایکٹنگ کررہی تھی جب ٹائر برسٹ ہوا ، دیکھتے ہی دیکھتے چاروں ٹائر برسٹ ہو چکے تھے کچھ ہی دیر میں فائرنگ کے بعد ان لوگوں کو گھیر لیا گیا تھا وہ کسی بھی صورت ان کے ہاتھ لگنا نہیں چاہتی تھی جیسے ہی اس آدمی نے سمندر خان کو ڈگی سے نکال کر پھینکا وہ  گاڑی کے پچھلے دروازے کو آہستگی سے کھول کر رینگتی ہوئی نیچے اتر کر جیپ کے نیچے سرک گئی اب اس نے ٹٹول کر اپنے جوتے کی ہیل ہٹائی اور اندر سے ایک چھوٹا سا دستی بم نکال کر اس سرمہ خان کے پیچھے کھڑے ساتھیوں پر پھینکا ۔وہ ساتھ ساتھ ان پر فائرنگ کرکے اپنا راستہ صاف کرتی جا رہی تھی ۔جب امینیش ختم ہونے پر گن ایک طرف پھینک کر وہ بھاگی ۔

 دھمکا ہوتے ہی وہ  تیزی سے گاڑی کے نیچے سے نکل کر مخالف سمت بھاگنے لگی کافی آگے جاکر اسے احساس ہوا یہ میدانی علاقہ تھا وہ ٹھٹک کر رکی اور غور سے چاروں جانب دیکھا  قریب ہی گھنے درختوں کا سلسلہ تھا وہ جلدی سے اندر داخل ہوئی تھی چاروں جانب دیکھتے ہوئے جھاڑیوں کو ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے وہ آگے بڑھ رہی تھی کہ زمین پر گرے کسی انسانی وجود سے ٹکرا کر گر پڑی اس سے پہلے وہ سیدھی کھڑی ہوتی اس آدمی نے اس کے سر پر گن تان لی تھی 

" تم ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ " احمد نے جو اسے شوٹ کرنے ہی والا تھا برقع دیکھ کر اسے پہچانتے ہوئے اپنی گن نیچے کی 

" میں نے ادھر بم ۔۔۔۔۔" قانتا نے بولنا شروع کیا 

" اٹس اوکے ابھی فالتو باتوں کا وقت نہیں ہے ، تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں اس سچویشن سے نکلتے ہی تمہیں ذمہ داری سے تمہارے گھر پہنچا دونگا ۔۔۔" میجر احمد تیزی سے کھڑا ہوا اور قانتا کو ساتھ آگے چلنے کا اشارہ کیا 

" آپ  لوگ کون ہیں ؟؟ " قانتا نے سوال کیا 

" ہم !! ہم اس مٹی کے محافظ ہیں ۔۔۔" وہ چلتے ہوئے بولا 

" اور وہ لوگ کون ہیں ؟ " قانتا نے دوسرا سوال کیا 

" یہ تمہارا کنسرن نہیں ہے تم اپنے ننھے منے دماغ پر زور مت دو اور چپ چاپ چلو  اب مجھے تمہاری آواز سنائی نا دے ۔۔۔" اب کے میجر احمد نے اسے ڈانٹا

کچھ دور جا کر ایک چٹان کے پاس انہیں دلاور ملا 

" میجر احمد یہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور اس وقت بری طرح ہمیں ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں ہم زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتے  ۔۔۔" دلاور نے احمد کو رپورٹ دی 

" جو بھی ہو یہاں سے نکلنا ہوگا ۔۔۔۔" احمد نے اپنی گن لوڈ کی 

" یہ برقعے والی باجی ! " وہ قانتا کو دیکھ کر حیران ہوا 

"  یہ تو بھاگ گئی تھی !! یہ  آپ کو کدھر سے ملی ؟ اب ہم  اس باجی کی حفاظت کریں یا مقابلہ کریں ۔۔ " دلاور نے اب قانتا کو دیکھا 

"آپ لوگ ابھی چھپ جائیں ۔۔۔۔۔۔" قانتا نے مشورہ دینا چاہا 

" دلاور لڑکی ذات ہے مت الجھو اسے کیا پتہ اس سب کا  ، وہ لوگ جلد ہی ادھر تک پہنچ جائینگے پوزیشن سیٹ کرو  ۔۔۔" میجر احمد نے اسے ٹوکا 

" اور تم خبردار جو کوئی چیخ ماری یا ڈر کر بیہوش ہوئیں بس خاموشی سے ہمیں فالو کرنا ۔۔۔" اب کے احمد نے قانتا کو ہدایات دیں 

دوڑتے بھاگتے قدموں کی آوازیں قریب آرہی تھی

" سر وہ باجی کدھر گئی ۔۔۔۔" دلاور چونکا 

احمد جو چٹان کی آڑ میں پوزیشن سنبھال چکا تھا دلاور کی آواز سن کر چونک کر پلٹا 

سامنے ہی ایک گھنے درخت پر وہ لڑکی اپنا برقع سنبھالتے ہوئے اوپر چڑھتی چلی جا رہی تھی ۔

"اس وقت اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہوسکتا ۔ "دلاور نے بھی اسے دیکھ لیا تھا 

" سر آپ باجی والے درخت پر چڑھ جائیں کہیں وہ ڈر کر گر گرا گئیں تو سب پھنس جائینگے۔ ۔۔" 

اب وہ دونوں بھی تیزی سے درخت پر چڑھ رہے تھے ۔

اسلام آباد ۔۔۔

موحد علیزے کو لے کر اوپن ائیر ریسٹورنٹ میں آیا تھا ۔پہلے سے ریزرو کرائی ہوئی میز پر پہنچ کر اس نے ویٹر کو منع کرتے ہوئے خود  علیزے کیلئے کرسی باہر نکالی ۔

" بیٹھئے میڈم ۔۔۔۔"۔ علیزے کو بٹھا کر وہ خود عین اس کے سامنے بیٹھا اور بڑے سکون سے اسے دیکھنے لگا جیسے اس سے اہم کوئی اور کام نہیں ہے ۔

موحد کی نظروں کی تپش علیزے کو گڑبڑانے پر مجبور کررہی تھی اس کے گال شرم سے سرخ پڑ گئے تھے ۔

" آپ ۔۔۔۔" اس نے موحد کو ٹوکنا چاہا 

" کیسی ہو اتنے دن بعد ملی ہو تو نظریں تمہارے چہرے سے ہٹنے کو راضی نہیں ہو رہیں اس لیے گھبراؤ نہیں بس دیکھ رہا ہوں   ۔۔۔" اس نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا 

" آپ کئی دنوں سے گھر بھی نہیں آئے دادی بھی آپ کو مس کررہی تھیں ۔۔۔" اس نے دھیمے لہجے میں شکوہ کیا

" اور دادی کی پوتی کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے مجھے مس نہیں کیا کیا ؟؟ " وہ گھمبیر لہجے میں اس کے معصوم چہرے پر چھائی خفت کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

" میں نے بھی آپ کو مس کیا تھا ۔۔۔" وہ نظریں جھکا کر آہستگی سے اپنے مومی ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بولی 

     ہلکی پھلکی باتوں کے دوران اس کے اشارے پر ویٹر کیک لے آیا 

" Happy  belated birthday Sweet Wife  ...."

اس نے علیزے کو وش کیا جس کی آنکھیں یہ سب اہتمام دیکھ کر جگمگا اٹھیں تھیں۔ انہیں آنکھوں کی جگمگاہٹ دیکھنے کو تو اس نے یہ اہتمام کیا تھا اس کی آنکھوں میں چھائے خوشی کے رنگ دیکھ کر  موحد کو اپنے اندر ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا تھا 

" آپ کو یاد تھا ؟؟ مجھے لگا اس سال آپ بھول گئے ہیں ۔۔۔" وہ چمکتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی 

" میں اپنی زندگی کی زندگی  کا اتنا اہم دن بھلا کیسے بھول سکتا ہوں ؟؟  سوری جاناں میں ان دنوں  ایک کیس میں بری طرح سے بزی ہوں لیکن  آج جیسے ہی فارغ ہوا دیکھو سر کے بل کھینچا چلا آیا اپنی محبت کے دربار میں ۔۔۔" وہ بولتے بولتے رک کر علیزے کو دیکھنے لگا جو بڑی محویت سے اسے دیکھ رہی تھی نظر ملتے ہی علیزے نے سٹپٹا کر اپنی نظریں جھکا لیں ۔

" اب جلدی سے موم بتی بجھا کر کیک کو حلال کرو ۔۔۔" 

علیزے نے کیک پر لگی موم بتیاں پھونک مار کر بجھائیں پھر آنکھیں بند کرلیں موحد اچھی طرح سے جانتا تھا وہ بچپن سے ہی اس طرح موم بتیاں بجھا کر اللہ سے ایک وش گفٹ میں مانگا کرتی تھی ۔وہ غور سے اس کی بند گھنیری  پلکوں کو ،  لرزتے لبوں کو دیکھ رہا تھا جب علیزے نے دھیرے دھیرے اپنی گھنیری پلکوں کا جال اٹھایا 

" اس سال کیا گفٹ مانگا اللہ میاں سے ۔۔۔" موحد نے شرارت سے پوچھا 

" بری بات وش بتاتے نہیں ہیں ورنہ وہ پوری نہیں ہوتی ۔۔۔۔" علیزے نے اسے سمجھایا 

" خیر مجھے تمہاری سب وشز کا پتہ چل جاتا ہے آخر اللہ نے مجھے تمہارا محرم راز جو بنایا ہے تم بے فکر رہوں میں اپنا بہت خیال رکھوں گا اتنی جلدی تمہاری جان چھوڑنے والا نہیں ہوں  ۔۔۔" وہ علیزے کے ہاتھ میں چھری تھما کر کیک پر پھیرتے ہوئے بول رہا تھا 

" آپ بھی بس ۔۔۔۔" علیزے اپنے دل کا حال اس کی زبان سے سن کر شرما گئی 

" وہ محرم ہی کیا جو اپنے ساتھی کے دل کا حال نا جان سکے ۔۔۔" موحد نے پیار سے علیزے کی پلیٹ میں کیک ڈالا 

ایک پرتکلف ڈنر کر کے وہ دونوں ریسٹورنٹ سے نکلے اب اس کا رخ علیزے  کے گھر کی طرف تھا 

" علیزے تمہارا کالج کیسا چل رہا ہے کوئی پرابلم تو نہیں ہے ۔۔۔" اس نے گاڑی چلاتے ہوئے سوال کیا 

" نہیں سب ٹھیک ہے ۔۔۔" علیزے نے دھیرے سے جواب دیا 

" اگزام کب ہیں ؟؟ " اگلا سوال آیا 

" اللہ اللہ ابھی تو سیکنڈ ائیر شروع ہوا ہے اتنی جلدی امتحان نہیں ہوتے ۔۔۔" علیزے نے جیسے اس کی عقل پر افسوس کیا 

 موحد نے علیزے کے انداز پر اسے گھور کر دیکھا تبھی اس کی نگاہ بیک ویو  مرر میں  ویران سڑک پر پیچھے آتی ویگن پر پڑی اس کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اپنے خدشے کی تصدیق کرنے کیلئے اس نے بلا وجہ گاڑی دو تین سڑکوں پر فضول میں بھگائی اب اسے پورا یقین ہوگیا تھا کہ بڑی مہارت سے اس کا پیچھا کیا جارہا تھا ابھی علیزے اس کے ساتھ تھی اس لئیے وہ کوئی بھی رسک لینا نہیں چاہتا تھا وہ گاڑی کا رخ اپنے گھر کی طرف موڑ چکا تھا علیزے کا گھر وہ کسی بھی قیمت پر دشمنوں کی نظر میں لانا نہیں چاہتا تھا 

" آپ گھر نہیں چل رہے ؟؟ دادی انتظار کررہی ہونگی ۔۔" علیزے نے موحد کو راستہ بدلتے دیکھ کر سوال کیا  

" ہمم ۔۔۔" موحد نے ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہوئے دوسرے سے اپنا فون نکالا 

" اسلام علیکم دادی ۔۔۔" فون کے ملتے ہی اس نے سلام کیا

" میں علیزے کو لے کر آپ کے پاس  گھر آرہا تھا کہ راستے میں کچھ پرانے چاہنے والے مل گئے ہیں ۔اب میں علیزے کو اپنے گھر لے جارہا ہوں ۔۔۔" اس نے مختصر الفاظ میں اپنی بات مکمل کیں

" اپنا بہت خیال رکھنا اور علیزے کو آرام سے صبح گھر چھوڑ جانا ۔۔" وہ بھی اس کی اور احمد کی دادی تھیں فوراً بات کو سمجھ گئیں تھیں 

موحد نے فون رکھ کر گاڑی کی اسپیڈ بڑھائی

علیزے نے سنجیدگی سے لب بھینچے گاڑی چلاتے ہوئے موحد کو دیکھا پھر سائیڈ مرر سے باہر جھانکا 

" باہر کچھ نہیں ہے اور میرے ہوتے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" موحد نے موڑ کاٹتے ہوئے علیزے کو ٹوکا 

 گھر پہنچتے ہی واچ مین نے اس کی گاڑی دیکھتے ہی مین دروازہ کھول دیا گاڑی اندر لاکر وہ تیزی سے باہر نکلا 

" علیزے تم اندر میرے روم میں جاکر آرام کرو میں ابھی کسی کام سے جارہا ہوں صبح ملتے ہیں  ۔۔" اس نے علیزے کو اندر جانے کا حکم دیا اور خود بھی ساتھ اندر داخل ہوکر دروازے کھڑکیاں چیک کرنے لگا 

" آپ ! سب ٹھیک تو ہے ؟ آپ کدھر جارہے ہیں ۔۔" وہ گھبرا اٹھی 

" سنئیے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔۔۔۔" علیزے کا ننھا سا دل بیٹھا جا رہا تھا 

" مجھ پر ٹرسٹ ہے ؟؟ " موحد نے اس کے نزدیک آکر سوال کیا 

" خود سے بھی زیادہ ۔۔۔" اب کے علیزے نے مضبوطی سے جواب دیا 

" تو پھر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے آرام سے ہمارے کمرے میں آرام کرو اور ہاں صبح کا ناشتہ میں تمہارے پیارے پیارے ہاتھوں سے بنا ہوا کھاؤں گا ۔۔" وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسے تسلی دیتے ہوئے باہر نکل گیا 

علیزے نے وہی کھڑے کھڑے اس پر آیت الکرسی کا حصار کھینچا  اور اوپر موحد کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے ۔

کمرے میں پہنچ کر اس نے سائیڈ میز پر اپنا دوپٹہ اتار کر رکھا اور وضو کرنے کیلئے واش روم کی طرف چلی گئی 

______________________________________________

چمن ۔

احمد اور دلاور دونوں ایک  ہی درخت پر چڑھ گئے تھے یہ اونچے گھنے درخت تھے رات کے اندھیرے میں انہیں ان درختوں پر ڈھونڈنا ناممکنات میں سے تھا ۔

احمد جیسے ہی اوپر کی شاخ پر پہنچا اسے وہ برقعے والی لڑکی  بڑے آرام سے پتوں میں خود کو سمیٹ کر بیٹھی ہوئی دکھائی دی وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے سامنے ہی چوکنا ہو کر بیٹھ گیا تھا دلاور بھی سامنے ہی دم سادھے  بیٹھا ہوا تھا یہ ایک بہت ہی گھنا پرانا درخت تھا جس پر وہ تینوں ہی آرام سے چھپ کر بیٹھ گئے تھے ۔

" باجی آپ کو درخت پر چڑھنا کس نے سکھایا ؟؟ " دلاور نے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں اس برقعے والی لڑکی سے پوچھا 

" میں بچپن سے ہی درخت پر چڑھنے میں ماہر تھی اور جب  فیلڈ میں ۔۔۔۔" قانتا نے بات شروع کی 

" سسش خاموش !! دشمن قریب ہی ہے اگر ہماری آوازیں اس تک پہنچ گئیں تو سب پکڑے جائینگے اور محترمہ ہم مردوں کی تو پھر بھی خیر ہے میں نہیں چاہتا آپ کوئی ناقابل تلافی نقصان اٹھائیں اس لئیے خاموشی سے بیٹھو پتہ تک ہلنا نہیں چاہئیے ۔۔۔" میجر احمد نے ان دونوں کو ٹوک کر چپ کروایا 

" ناقابل تلافی ۔۔۔۔" قانتا نے دہرایا ابھی اس کی اردو اتنی اچھی بھی نہیں تھی کہ بھاری بھرکم الفاظ سمجھ سکے 

" یہ ناقابل تلافی نقصان کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔" اس نے سرگوشی میں پوچھا 

" سر جی !! " دلاور نے سنجیدگی سے میجر احمد کو مخاطب کیا 

" باجی جی  کو ناقابل تلافی نقصان سمجھا دیں ۔۔۔" دلاور نے احمد کے متوجہ ہوتے ہی کہا 

" شٹ اپ دلاور !! اور تم برقعے والی  اب ایک آواز حلق سے نہیں نکلے ورنہ ان دشمنوں کے ہاتھوں  تمہاری عزت کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں لونگا میں ۔۔" میجر احمد نے ترش لہجے میں دونوں کو ڈانٹا 

کچھ ہی دیر میں اندھیرے میں دور سے بھاگتے  قدموں کی آوازیں سنائی دینے لگیں میجر احمد اور دلاور دونوں اپنی اپنی گنیں سنبھال کر چوکنا ہو گئے تھے اور قانتا وہ بڑے آرام سے مزید اونچی شاخ کی طرف بڑھ گئی تھی 

" کدھر گیا وہ لوگ ؟؟ خوچہ تم ہڈحراموں سے دو بندے نہیں پکڑے جاتے ۔۔۔۔" سرمہ خان تھک کر درخت کے نیچے بیٹھتے ہوئے بولا 

" خان وہ لوگ اتنی جلدی علاقے سے نہیں نکل سکتا یہیں کہیں چھپا بیٹھا ہوگا کچھ گھنٹوں میں سورج نکل آئیگا تو ہم انہیں پکڑ لے گا  ۔۔۔" سرمہ خان کا دست راست بھی  تسلی دیتے ہوئے بیٹھ گیا 

" امارے کو کچھ نہیں پتہ بس ام کو وہ لوگ چاہئیے ہر قیمت پر ۔۔۔" سرمہ خان نے ٹانگیں پھیلا کر سر درخت سے ٹکا لیا 

" خان آپ اڈے پر جاؤ آرام کرو ہم انہیں پکڑ کر ادھر لے آئیگا ۔۔۔" 

" کیا سراپا تھا اور آنکھیں !!! " سرمہ خان نے اپنی ران پر ہاتھ مارا 

" آہ  ظالم ہم تو اس کی خوبصورتی پر مر گیا بس اب دل کو وہ چاہئیے ۔۔۔۔" سرمہ خان خالص عاشقوں کے انداز میں آہ بھرتے ہوئے بولا 

" سر  آپ ٹھیک کہہ رہے تھے باجی کی عزت کو خطرہ ہے پر یہ باجی تو برقعے میں ہے پھر اس خبیث نے اسے کیسے دیکھ لیا ؟؟ " دلاور نے آہستگی سے میجر احمد سے سوال کیا 

میجر احمد نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا خود اس کے وجیہہ چہرے پر بھی الجھن تھی 

" ہائے کیا بازوں  تھے ، کیا قد تھا اور اس پر اس کی ہوش ربا جوانی اندھیرے میں بھی الگ سے نظر آرہی تھی ۔۔" سرمہ خان کی آنکھوں میں جیسے اس کا وجود جھلک رہا تھا 

" خان !! آپ فکر مت کرو پر یہ تو بتا دو آپ کو وہ برقع والا باجی کب نظر آیا ؟؟ " سرمہ خان کے نئے چیلے نے سوال کیا 

" برقع  والا ؟؟  ارے وہ باجی  جائے بھاڑ میں ! میرا دل تو اس خوچہ  لمبا والا فوجی جیسا دکھتا  جوان پر آیا ہے  ۔۔" سرمہ خان نے آنکھیں میچ کر کہا 

" کیا جوان تھا اور اس کا ماتھے کا بل وہ کسرتی بازو ہائے ڈھونڈ کر لاؤ اسے ۔۔۔۔" سرمہ خان اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے بولا 

سرمہ خان کی بات سن کر دلاور درخت سے نیچے گرتے گرتے بچا 

" سر !!   باجی کی نہیں ادھر تو آپ کی عزت خطرے میں ہے ۔۔۔"  دلاور نے میجر احمد کو دیکھا

" ناقابل تلافی نقصان ۔۔۔۔" درخت پر بیٹھی قانتا مسکراتے ہوئے بڑبڑائی  جس ہر احمد نے گھور کر اسے دیکھا 

"مبارک ہو سر ! باجی کو ناقابل تلافی نقصان کے معنی سمجھ میں آ گئے ہیں ۔۔۔" دلاور نے مسکرا کر اسے چڑایا 

علیزے کو اوپر بھیج کر موحد نے اپنا سروس ریوالور لوڈ کرکے اس پر سائلنسر لگا کر  جیب میں رکھا باہر نکل کر گھر کا مین دروازہ باہر سے لاک کیا اب وہ پائیں دیوار پھلانگ کر گھر کی پچھلی طرف سے کود کر باہر نکلا اس کے چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی وہ احتیاط سے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے گلی عبور کرکے مین روڈ کی طرف آیا سامنے ہی برگد کے درخت کے نیچے وہ مشکوک اسٹیشن ویگن کھڑی ہوئی تھی موحد نے اپنی جیب سے نائٹ وژن دوربین نکالی ۔۔۔

دو افراد گاڑی میں بیٹھے کھانے پینے میں مصروف تھے وہ وقفے وقفے سے موحد کے گھر کی طرف بھی نظر دوڑا رہے تھے یعنی پوری طرح سے نگرانی کی جارہی تھی ۔

موحد ریوالور نکال کر جھک کر چلتے ہوئے پیچھے سے اس ویگن کے نزدیک آیا اور پھر اس نے فرنٹ وھیل کا نشانہ بنا کر فائر کردیا ۔

کچھ ہی دیر میں فرنٹ ڈور کھول کر ایک آدمی نیچے اترا موحد دم سادھے گاڑی کی بیک کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس آدمی نے اتر کر چاروں جانب دیکھا پھر ٹائر کی سمت جھکا یہ وقت بالکل مناسب تھا موحد  تیزی سے کہنیوں کے بل رینگتا ہوا اس کے بالکل پیچھے آیا اور زور سے ریوالور کے دستے سے اس کی گردن پر وار کیا ۔

وہ دونوں آج پورا دن ایس پی موحد کی نگرانی کرتے رہے تھے اب ایس پی تو اپنے گھر میں چلا گیا تھا اب بس اس کے سونے کا انتظار تھا اس لئیے وہ دونوں راستے سے لئیے برگر نکال کر باتیں کرتے ہوئے اپنی پیٹ پوجا کررہے جب گاڑی ہلکی سی ڈگمگائی 

" لگتا ہے ٹائر برسٹ ہوگیا ہے " ان میں سے ایک تشویشناک انداز میں بولا 

" کھڑی گاڑی کا ٹائر برسٹ کیسے ہوسکتا ہے ؟؟ " دوسرے ساتھی نے نفی کی 

" تم اندر بیٹھو میں چیک کرتا ہوں ۔۔۔" پہلا آدمی اپنا برگر پیپر میں لپیٹ کر ڈیش بورڈ پر رکھتا ہوا بولا 

وہ گاڑی سے اترا چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا وہ گردن گھما کر اطراف میں دیکھتا ہوا ٹائر چیک کرنے جھکا ہی تھا کہ اس کی گردن پر زور سے ریوالور کا دستہ پڑا اس سے پہلے وہ سنبھلتا موحد نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھا اور پے در پے اس کی گردن پر وار کرکے اسے بیہوش کردیا اب وہ سیدھا کھڑا ہو کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا دروازہ کھولا 

" کیا ہوا ٹائر چیک کیا ؟؟ " اندر بیٹھا آدمی بوتل سے پانی پیتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا 

" ہمم وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اندر بیٹھا 

" کون ہو تم ۔۔۔۔" وہ آدمی اب چونکا 

" تمہارا باپ ۔۔۔۔" موحد نے سرد لہجے میں جواب دیتے ہوئے ریوالور اسے کے ماتھے پر رکھا 

" کون ہو تم اور میرا تعاقب کیوں کررہے تھے ؟؟ " موحد نے ٹریگر پر دباؤ بڑھایا 

" تم تم ایس پی ہو ؟؟ " اب کے اس آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں 

" جتنا پوچھا اتنا جواب دو ؟؟ " موحد نے اس کے چہرے پر ایک زور دار پنچ مارا 

" مجھے کچھ نہیں پتہ ۔۔۔۔" اب کے وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولا 

" اوکے اگر تمہیں کچھ نہیں پتہ تو تم میرے کسی کام کے نہیں ہو ۔۔۔" موحد نے اس کے بازو کا نشانہ لیکر فائر کیا 

" وہ تکلیف سے چیخ اٹھا 

" اس بار گولی چوک گئی لیکن فکر مت کرو اگلی گولی تمہارے دل کے آر پار ہو گی ۔۔۔" وہ ریوالور گھماتے ہوئے بولا 

" بتاتا ہو سر بتاتا ہوں بس آپ اس گھوڑے کو تو دور کریں ۔۔۔" اس نے موحد کے ہاتھ میں تھامے ہوئے ریوالور کی طرف اشارہ کیا 

" میں بس تین تک گن رہا ہوں شروع ہوجاؤ ورنہ اگر تم میرے ہاتھوں جہنم رسید ہوگئے تو اوپر جا کر شکایت مت کرنا ۔۔" موحد نے ٹھیک اس کے دل کے مقام پر ریوالور رکھا 

" ایک ۔۔۔ دو ۔۔۔۔۔" 

اس آدمی کے دائیں بازو سے خون بہہ رہا تھا چہرے پر ڈر و خوف سے پسینے چھوٹنے لگے تھے 

" ہمیں ۔۔۔۔۔تنظیم نے بھیجا ہے آپ کل ہمارے آدمی کو پشاور ہائیکورٹ لے کر جارہے ہو ہمیں آپ کے پل پل کی خبر اوپر تک دینی ہے ۔۔۔" وہ فر فر بول اٹھا 

" رپورٹ کیسے  اور کسے دے رہے ہو ؟۔۔۔" موحد نے سوال کیا 

" وہ ۔۔۔۔" اس آدمی کی حالت خراب ہونے لگی 

" کیسے اور کسے دے رہے ہو؟  ۔۔۔۔" موحد نے  اب اس کی ران پر گولی چلائی 

" اس فون سے ، شیخ الاسلام کو ۔۔۔۔" اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا فون  جیب سے نکال کر موحد کی طرف بڑھایا  

اس آدمی کے ہاتھ سے فون لے کر موحد نے اسے بھی سر پر دستہ مار کر بیہوش کیا اب وہ فون کو چیک کررہا تھا اور اس کے چہرے پر سرد مہری پھیلتی جارہی تھی ۔

شیخ کو کون نہیں جانتا تھا ایک مشہور سیاسی رہنما وفاقی وزیر ۔ 

موحد نے گاڑی سے اتر اپنے واچ مین کو فون کر کے اپنی پولیس  جیپ گلی کے نکڑ پر لوکیشن بتا کر لانے کو کہا 

وہ اس سیاسی پارٹی کا نام آنے کے بعد اب کسی پر بھی ٹرسٹ نہیں کرسکتا تھا ۔ چوکیدار اس کی پولیس جیپ لے آیا تھا چوکیدار کے ساتھ مل کر اس نے ان دونوں آدمیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر منھ پر ٹیپ لگا کر انہیں اپنی جیپ کی پچھلی نشست پر ڈالا ۔یہ چوکیدار ان دونوں بھائیوں کا خاص آدمی تھا 

" رازق خان اس ویگن کا ٹائر بدل کر اسے صبح ہونے سے پہلے پہلے غائب کرنا ہے ۔۔۔" 

وہ اسے ہدایات دیتا ہوا اپنی پولیس جیپ میں بیٹھا ، جیپ اسٹارٹ کرکے کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا یہ وقت مناسب تو نہیں تھا لیکن اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اس نے فون نکال کر کال ملائی تین بیل کے بعد فون پک کرلیا گیا 

" ہیلو سر میں آپ کی طرف آرہا ہوں ۔۔۔" سلام کرنے کے بعد اس نے مختصر رپورٹ دے کر فون بند کیا اب اس کا رخ کمشنر پولیس اسلام آباد کی رہائش گاہ کی طرف تھا 

____________________________________________

"ناقابل تلافی نقصان  !! "قانتا کے منھ سے یہ الفاظ سرگوشی کی صورت میں ادا ہوئے تھے جنہیں میجر احمد کے حساس کانوں نے باخوبی سنا تھا اس نے سر اونچا کرکے اس برقعے والی کو گھور کر دیکھا اور انگلی سے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔

کافی دیر ہوچکی تھی سرمہ خان اور اس کے ساتھی وہی آگ جلا کر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ چکے تھے 

" اوئے خبیثوں کوئی شغل لگاؤ !!  وہ گانا تو سناؤ

" آنکھیں ڈرون اور دل بم ہوگیا ۔۔۔" سرمہ خان نے فرمائش کی 

سرمہ خان کی فرمائش پر سارے ہی موڈ میں آگئے اب بندوقیں ایک طرف رکھ کر وہ گانے بجانے میں مصروف ہوگئے تھے جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا وہ آپس میں واہیات حرکات کرنا شروع ہوچکے تھے 

" باجی !! " دلاور نے قانتا کو سرگوشی میں پکارا 

"او برقع والا  باجی  !! " اب کے وہ تھوڑا اونچا بولا تو قانتا نے اس کی طرف دیکھا 

"باجی تم اپنی آنکھیں اور کان بند کرلو  ۔۔" دلاور نے ریکوئسٹ کی 

قانتا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے برقعے کی جالیوں سے اسے گھورا وہ آنکھیں بند کرے یا کھلی رکھے ان دونوں کو تو پتہ بھی نہیں چلنا تھا نیچے کا منظر سلگتی لکڑیوں کی مدھم سی روشنی کی وجہ سے واضح تھا وہ لوگ شیطان کی راہ اپنا چکے تھے آپس میں مگن ہو چکے تھے  سرور کی محفل جم چکی تھی  یہ ایک بہترین وقت تھا یہاں سے نکل جانے کا لیکن یہ دو میجر احمد اور دلاور ان کی نظر سے کیسے بچا جائے وہ یہ سوچنے میں مصروف تھی ۔

" سر کیا خیال ہے نیچے اتر کر ان غافلوں پر حملہ کردیا جائے ؟ " ایجنٹ دلاور نے سوال کیا 

" نہیں  !!  یہ ان کا اپنا علاقہ ہے فائر کریں گئے تو ان کی مدد کو مزید افراد آسکتے ہیں بنا فائرنگ گوریلا وار اسٹائل میں حملہ کرنا ہوگا ۔۔۔" میجر احمد نے پرسوچ نگاہوں سے نیچے دیکھتے ہوئے کہا 

" اور یہ باجی اس  کا کیا کریں ؟  اسے ادھر ہی چھوڑنا تو خطرناک ہوگا ۔" دلاور نے اپنی دانست میں ایک اہم پوائنٹ اٹھایا 

" اے لڑکی !! محترمہ ۔۔۔۔" میجر احمد نے سرگوشی میں قانتا کو پکارا 

" یار  ایک تو !!  اس مصیبت  کا نام کیا ہے اسے ادھر متوجہ کرو ۔۔۔" احمد رسپانس نا ملنے پر جھنجھلا گیا 

" سر جی اس مصیبت  کا نام باجی ہے  ۔۔۔" دلاور نے جواب دیا

" ہر وقت مذاق اچھا نہیں ہوتا بلاؤ اسے ۔۔۔۔" میجر احمد جھنجھلایا

" میں مذاق کب کررہا ہوں آپ نے دیکھا نہیں اس سمندر خان سے اس سرمہ خان تک سب ہی اسے باجی وہ بھی برقعے والی پکار رہے ہیں ان لوگوں کے تو نام ہی الگ ہوتے ہیں کیا پتہ اس کا نام ہی باجی برقعے والی یا برقع خانم ہو ۔۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے کہا پھر احمد کے چہرے کے جھنجھلائے ہوئے تاثرات دیکھ کر اوپر اچک کر قانتا کو نیچے آنے کا کہا 

" سنو مس برقع خانم !! ہم دونوں ابھی نیچے اتر رہے ہیں تم دس منٹ بعد نیچے اترنا اور ادھر میدان کی طرف جا کر ان کی گاڑی کے پاس ہمارا انتظار کرنا ۔۔۔" میجر احمد نے اسے ہدایات دیں اور خود دلاور کو اشارہ کرتے ہوئے ایک جمپ لگا کر نیچے کودا 

" سر آپ نے اسے ابھی اترنے کا کیوں کہا ؟ وہ لڑکی ہے ادھر خون خرابہ دیکھ کر بیہوش ہوگئی تو کون اٹھائے گا ؟؟ " 

" درخت پر چڑھنا آسان ہوتا ہے اترنا نہیں اب وہ ہم لوگوں کی طرح ایک جمپ لگا کر تو اترنے سے رہی بے فکر رہو آدھے ایک گھنٹے میں جب تک وہ سنبھل سنبھل کر   اترے گی اس وقت تک ہم سارا صفایا کرچکے ہونگے ۔۔۔" وہ اپنی پنڈلی میں سے تیز دھار چاقو نکال کر سیدھا کھڑا ہوا 

" دلاور تم ریڈی ہو ؟؟ " میجر احمد نے سوال کیا 

" یس سر ۔۔۔" وہ پرجوش انداز میں بولا 

" لیٹس گو ۔۔۔" وہ دونوں دبے قدموں ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگے 

میجر احمد چند قدم ہی آگے  بڑھا تھا کہ اسے دو آدمی نظر آئے وہ دبے قدموں  ان کے بالکل پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا اپنے سامنے موجود آدمی کو پیچھے سے پکڑ کر بڑی تیزی  اس  کے گلے پر چاقو پھیرنے کے بعد دوسرے کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر اس پر بھی حملہ کردیا  ۔

میجر احمد اور دلاور تقریباً چھ افراد کو ٹھکانے لگا چکے تھے اب سامنے ہی لکڑیاں سلگ رہی تھی وہ دونوں چوکنا انداز میں  چلتے ہوئے ادھر پہنچے ہی تھے کہ میجر احمد کو اپنی کنپٹی پر بندوق کی نال رکھی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

" یہی رک جاؤ ۔۔۔" 

------------------------------------------------------------------------

" آنکھیں ڈرون ہوگی ہیں ۔۔۔۔۔" سرمہ خان گنگناتے ہوئے منھ میں نسوار پر نسوار ڈالے جا رہا تھا نشہ چڑھ رہا تھا جب اسے سامنے سے ایک آدمی آتا نظر آیا چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد ورزشی جسامت وہ دور سے ہی ہزاروں میں ایک نظر آرہا تھا جیسے جیسے وہ نزدیک آرہا تھا سرمہ خان کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔

" ارے یہ تو وہ اپنا فوجی والا جوان ہے بخیر بخیر ۔۔۔۔" وہ اب اسے پہچان چکا تھا ۔۔

" خوچہ آؤ میری آنکھوں میں دیکھو ، میرا دل بم جیسا ہے تم آکر تباہ کردو ۔۔۔" سرمہ خان ایک جذب سے بولتا ہوا اٹھا 

" تم میں  ام کو امارا دلہن نظر آتا ہے ۔۔۔" وہ آنکھ میچ کر مسکرایا 

اس جوان کے چہرے پر اس کی بات سن کر سرخی سی چھا گئی  ۔۔

" ام تم کو اپنی نسوار سے بھی زیادہ عزیز رکھے گا ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنی چاہت کا احساس دلایا 

ابھی وہ  میجر احمد کے دلکش خوابوں میں کھویا ہوا تھا جب کسی نے اسے جھنجھوڑا 

" سرمہ خاناں اٹھو ہمارے چھ آدمی مارے گئے ہیں دشمن چھپ کر وار کررہی ہے ۔۔۔" اس کا ساتھی اسے جگا رہا تھا 

" کون دشمن ؟؟ " سرمہ خان سیدھا ہوا 

" وہی جوان جسے آپ ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔" 

" وہ امارا دلدار ؟؟ کدر ہے ام کو بتاؤ ۔۔۔" 

"بڑا  ہی خطرناک دلدار چنا ہے خان نے ۔۔۔"سرمہ خان کا ساتھی بڑبڑایا

" اس کی ساری اکٹر سارا خطرناک پن ام نکال دے گا بس وہ ایک بار امارے ہاتھ لگ جائے قسم نسوار کی تیر کی طرح سیدھا کر کے گھر بٹھائے گا اسے ۔۔۔۔"سرمہ خان نے اپنی گن اٹھائی 

" پیچھے دیکھو خان وہ دلدار ادھر ہمارے آدمی لوگ کو مار رہا ہے ۔۔۔" 

سرمہ خان نے مڑ کر دیکھا جہاں دلاور اور احمد اس کے ساتھیوں سے لڑ رہے تھے اس نے اپنے ساتھیوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور خود دبے قدموں چلتے ہوئے اس کے بالکل پیچھے جاکر اپنی گن اس کی کنپٹی پر رکھ دی ۔

" یہی رک جاؤ میرے ڈرون محبوب ورنہ ام تم کو کچا چبا جائیگا ۔۔۔" سرمہ خان اور اس کے ساتھی ان دونوں کو چاروں طرف سے گھیر چکے تھے

" انہیں ڈیرے پر لے کر چلو  ۔۔۔۔" اس نے حکم دیا 

" دیکھو میرا جان ام ابھی تمہیں اڈے پر لے جا کر سبق سکھائے گا پھر تم کو اپنے ساتھ جنت  کی سیر بھی کروائے گا دم پخت بھی کھلائے گا ۔۔۔" 

اس خطرناک سچویشن میں بھی دلاور سے سرمہ خان کی بات ہضم نہیں ہوئی یہ دھمکی تھی پیار تھا کیا تھا کچھ سمجھ نہیں آیا  اور اسے اچھو لگ گیا 

" یہ تو اب میجر احمد سے سبق حاصل کرکے رہے گا ۔۔۔" وہ میجر احمد کا ضبط سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر سوچ رہا تھا 

---------------------------------------------------------------------

موحد کمشنر صاحب کے گھر پہنچ چکا تھا اور اب وہ انہیں اس مجرم کا سیل فون اور اس پر آئے میسجز دکھا رہا تھا 

" ہمم یہ بہت بڑا گیم ہے جب سے فوج نے ان کے اڈے تباہ کئیے ہیں اب یہ پختون بچاؤ کی مہم کی آڑ میں چھپ کر یہ سب کام کررہے ہیں ان کی وجہ سے ہمارے پختون بدنام ہورہے ہیں  ۔۔۔" 

" سر میرے لئیے کیا حکم ہے ؟؟ " موحد نے ادب سے سوال کیا 

" سرکاری حکم کے مطابق بم دھماکہ کیس کی سماعت تو پشاور ہائی کورٹ میں ہی ہوگی میں صبح ہوتے ہی اگلے ہفتے کی تاریخ لے لیتا ہوں ، کل تمہارا نکلنا مناسب نہیں لگ رہا کیا پتہ دشمنوں نے کیا جال بچھایا ہوا ہے ۔۔" 

"اور ان دونوں کا کیا کرنا ہے ؟ " موحد نے گاڑی میں بیہوش پڑے مجرموں کے بارےمیں پوچھا 

" انہیں یہی چھوڑ دو میں نظام کو فون کرتا ہوں کوشش کرتے ہیں اگر یہ وعدہ معاف گواہ بن کر ہماری مدد کرسکیں ۔" کمشنر صاحب نے سنجیدگی سے کہا 

"اوکے سر جیسے آپ کہیں  ، اب اجازت دیجئے  ۔" موحد جانے کی اجازت لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا 

" موحد !! تم جیسے جوان اس ملک کا اثاثہ ہیں ۔۔" 

 I am very Proud on you young man ..

تم نیکسٹ ویک اس بم دھماکہ کیس کے ملزم کو  پشاور ہائیکورٹ اپنی نگرانی میں لے کر جا رہے ہو ہر قدم پھونک  پھونک کر رکھنا ہوگا ۔۔۔" 

" یس سر !! " موحد نے غور سے ان کی بات سن کر سر ہلایا اور مصافحہ کر کے باہر نکل گیا 

اب اس کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا جہاں اس کے دل کا سکون علیزے اس کا انتظار کررہی تھی ۔

------------------------------------------------------------------------

کمشنر صاحب کی ریذیڈینسی سے نکل کر موحد  نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا صبح کے چار بجنے والے تھے وہ تیزی سے چلتا ہوا اپنی جیپ تک پہنچا چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے اس نے جیپ کا دروازہ کھولا اور اب اس کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا ۔گاڑی چلاتے ہوئے وہ مسلسل اپنے اپنے تعاقب کا خیال رکھ رہا تھا لیکن دور دور تک کوئی بھی نہیں تھا اچھی طرح مطمئن ہونے کے بعد وہ گھر پہنچا تو واچ مین نے اسے دیکھتے ہی دروازہ کھول دیا ۔

" رازق خان کام ٹھیک ہوگیا ؟ کوئی مشکل تو نہیں ہوئی ؟ " موحد نے سوال کیا 

" نہیں سر آپ بے فکر رہیں ویگن سے سارے شواہد مٹا کر اسے ڈیم کے پاس دریا میں ڈبو دیا ہے ۔۔۔" رزاق خان نے رپورٹ دی

" ہمم بہت شکریہ رزاق خان ۔۔" اس نے ریٹائرڈ سپاہی اپنے بااعتماد واچ مین رزاق خان کا کندھا تھپتھپایا اور اندر گھر میں باہر سے لاک کھول کر داخل ہوا 

اس کے کمرے میں علیزے ٹہری ہوئی تھی اس وقت اسے اپنے کمرے میں جانا مناسب نہیں لگا وہ پرسوچ نگاہوں سے اوپر سیڑھی کی جانب دیکھتے ہوئے نیچے احمد کے روم میں چلا گیا ۔

آج کے دن کا آغاز بہت خوبصورت ہوا تھا اور شام کو علیزے کے ساتھ نے اسے  بہترین بنادیا تھا لیکن پھر ان آدمیوں کی وجہ سے اسے علیزے کو اس طرح اکیلے چھوڑ کر جانا پڑا تھا ۔

" وہ ڈرپوک لڑکی تو اکیلے گھر میں ڈر ڈر کر سوئی ہوگی ویری سوری علیزے ۔۔۔" وہ سوچتا ہوا واش روم میں فریش ہونے کیلئے چلا گیا 

منھ ہاتھ دھو کر اس نے ڈریسنگ روم میں  کیبنٹ سے احمد کا ٹنگا ہوا نائٹ سوٹ نکالا دونوں بھائیوں کا قد جسامت تقریباً ایک جیسی ہی تھی جس کا وہ اکثر فائدہ اٹھا لیا کرتا تھا لباس تبدیل کرتے ہوئے اسے اپنی جیکٹ کی  جیب میں پڑے جیولری باکس کا خیال آیا اس نے آرام دہ لباس پہن کر جیولری باکس جیب سے نکالا اور کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ کر جیولری باکس کو کھولا اندر 

نازک سی پائل کا جوڑا جگمگا رہا اس نے ایک پائل نکال کر ہاتھ میں لی اس کی نظروں میں علیزے کے صاف شفاف گلابی پیر لہرا گئے ۔۔

" یہ پائل لگتا ہے  بنی ہی تمہارے لئیے ہے ۔۔۔"

 اس کی آنکھوں میں کئی خوشنما خواب لہرا گئے تھے اس نے پائل واپس باکس میں رکھی اور سونے لیٹ گیا پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی دل بار بار ہمک کر ایک نظر علیزے کو دیکھنے کا چاہ رہا تھا لیکن یہ وقت مناسب نہیں تھا کچھ دیر بعد اس کے حساس کانوں میں اوپر کی منزل پر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی وہ چونک کر اٹھا سائیڈ میز پر  سے اپنا سروس ریوالور اٹھا کر دبے قدموں باہر نکلا سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ اوپر کی سمت بڑھا اس کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اندر سے مدھم سی روشنی باہر آرہی تھی وہ احتیاط سے آگے بڑھا دھیرے سے پستول پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے دروازہ کھولا ۔اندر داخل ہوا پورا کمرہ خالی تھا وہ بیڈ کی سمت بڑھا بستر پر ایک شکن بھی نہیں تھی یعنی علیزے لیٹی ہی نہیں تھی اس کے چہرے پر تفکرات چھانے لگے تھے تبھی بیڈ کی دوسری سائیڈ سے علیزے سجدہ کرنے کے بعد  کھڑی ہوئی اس نے نیت باندھی ہوئی تھی موحد نے وقت دیکھا اور ایک پرسکون گہرا سانس لیتے ہوئے وہی صوفے پر بیٹھ کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔

-----------------------------------------------------------------------

موحد کو گئے ہوئے بہت دیر ہوچکی تھی علیزے   اپنے کالج بیگ سے سفید چادر نکال کر نماز کے اسٹائل میں لپیٹ کر جائے نماز بچھا کر عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اس کی حفاظت کے لئے نوافل کی نیت کرچکی تھی ۔نوافل ادا کرنے کے بعد پتہ نہیں کب جائے نماز پر بیٹھ کر تسبیح پڑھتے پڑھتے اسے نیند کے جھونکے نے آ لیا تھا ۔کچھ دیر بعد  ہڑبڑا کر اس کی آنکھ کھلی اس نے پاس پڑا اپنا سیل فون اٹھا کر ٹائم دیکھا رات اپنے اختتام کو تھی اس نے فون کانٹیکٹ میں موحد کا نمبر نکالا مگر چاہنے کے باوجود وہ اس وقت کال کرنے کی ہمت نہیں کرسکی ۔  وہ جائے نماز کا کونا موڑ کر اٹھی اس کا ارادہ وضو کرکے تہجد پڑھنے کا تھا ۔

وضو کرنے کے بعد وہ کمرے سے اس امید پر باہر نکلی کہ شاید موحد آگئے ہوں لیکن پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس اندھیرے میں اکیلے گھر میں اس کی نیچے جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی اور وہ جو صرف چار سیڑھیاں ہی اتری تھی دوبارہ پلٹ کر موحد کے کمرے میں چلی گئی اور اب وہ نماز کے بعد آنکھیں بند کئیے بڑے جذب سے اس کے باحفاظت لوٹ آنے کی دعا مانگ رہی تھی ۔

موحد بہت غور سے سفید چادر میں لپٹے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا وہ آنکھیں بند کئیے اللہ سے راز و نیاز میں مصروف تھی اس کی گھنیری سیاہ پلکیں بھیگنے لگی تھیں وہ دھیرے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور علیزے کے پاس آکر دوزانو ہو کر بیٹھ گیا 

"  علیزے !!  جاناں !! میں آگیا ہوں پلیز رونا نہیں ۔۔۔" اس نے اپنی شہادت کی انگلی سے علیزے کی بھیگتی پلکوں کو نرمی سے چھوا ۔

علیزے نے اس کی آواز سن کر ایک سکون سا اپنے اندر پھیلتا محسوس کیا موحد کی انگلیوں کا لمس اس کے چہرے کی سرخی بڑھا گیا تھا اس نے دھیرے سے اپنی گھنیری پلکوں کا جال اٹھا کر اسے دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے وہ اس کی فکر میں بے حال تھی اور اب اسے اپنے سامنے پاکر اسے اپنے  اندر ایک توانائی سی ابھرتی محسوس ہورہی تھی ۔

" کیا ہوا ؟؟ " موحد نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی 

وہ جو ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے جارہی تھی چونک کر نظریں جھکا گئی اب اس کے چہرے پر خفت اور شرمندگی کے رنگ تھے 

" تم سوئی کیوں نہیں ؟؟ " موحد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جائے نماز سے اٹھایا 

" آپ گھر پر نہیں تھے فون بھی نہیں کیا تو مجھے آپ کی فکر ہو رہی تھی ۔۔۔" وہ سادگی سے بولتے ہوئے اس کا دل چرا رہی تھی 

" سوری میری وجہ سے تم رات بھر پریشان رہی لیکن علیزے یہ سب میری جاب کا حصہ ہے اس وطن سے محبت میری رگ رگ میں بسی ہے اور یار تم ایک پولیس والے کی  وائف ہو اپنے آپ کو مضبوط بناؤ  کل اگر مجھے کچھ ہو گیا تو ؟ میں فرض کی راہ میں شہید ہوگیا تو ؟؟ تمہیں چھوڑ گیا تو " وہ گھمبیر لہجے میں اسے سمجھا رہا تھا 

اس کی بات سن کر علیزے کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا  اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرا چھپا کر رونا شروع کردیا ۔۔۔

" آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ آپ اتنے سنگدل کیسے ہوسکتے ہیں مجھے ایسے  کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟  ۔۔۔۔" وہ روتے ہوئے شکوہ کررہی تھی ۔

موحد نے ایک گہرا سانس لے کر اس کے سرد پڑتے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے کر  نرمی سے اس کے چہرے سے ہٹا کر اس کی سرخ آنکھوں میں جھانکا 

" علیزے گڑیا میں بس ایک جنرل بات کررہا ہوں ، میں تمہیں مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں اتنا مضبوط کہ تم آنے والی لڑکیوں کے لئیے مثال بن کر ابھرو  ۔۔۔" 

" آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے نا ؟؟ " اس کے لہجے میں اندیشے بول رہے تھے 

" کبھی نہیں بھلا کوئی اپنی جان کو بھی چھوڑتا ہے ؟؟ " وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا 

" ہاں لیکن اگر وقت شہادت آگیا تو میں اسے لبیک کہونگا ۔۔" اس کا لہجہ مضبوط تھا 

علیزے نے دہل کر اسے دیکھا اس کا دل رک سا گیا تھا وہ ایک فوجی خاندان کی بیٹی تھی فرض کی اہمیت کو جانتی تھی  لیکن دل تو دل ہی تھا جو اس وقت خزاں رسا پتے کی طرح لرز رہا تھا ۔

" آپ کیوں میری جان لینے پر تلے ہوئے ہیں یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ میں اپنا خیال رکھوں گا ۔۔۔۔" وہ ناراضگی سے بولی 

موحد نے دلچسپی سے اس کا خفا خفا سا دلربا سا روپ دیکھا اس کے وجیہہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی تھی 

" علیزے جاناں تم فکر مت کرو ، میں اپنا ڈھیر سارا خیال رکھوں گا اور ویسے بھی جب تک میں تمہاری دعاؤں کے حصار میں ہوں تب تک مجھے کچھ نہیں ہونے والا اور ابھی تو مجھے ڈھیر سارا تمہارے ساتھ جینا ہے ، ہمارے پیارے پیارے  بچوں کے ساتھ مل کر تمہیں تنگ کرنا ہے ۔۔۔۔" اس کے گھمبیر  لہجے میں جذبات بول رہے تھے انکھوں میں مستقبل کے حسین خواب چمک رہے تھے ۔وہ علیزے کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتا ہوا اس پر جھکا ہی تھا کہ 

وہ جھینپ کر پیچھے ہٹی ۔۔۔

" جاؤ لڑکی تمہارا شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے کوئی چائے پانی کا اہتمام کرو اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے  اچھا سا ناشتہ بناؤ ، پراٹھا قیمہ آملیٹ وغیرہ وغیرہ  آخر آج خوش قسمتی مجھے  اپنی بیوی کے ہاتھ کا ناشتہ نصیب ہوگا   ۔۔۔۔" وہ  ٹرانس سے نکلتے ہوئے ماحول کو  بدلتے ہوئے بستر پر گرتا ہوا بولا 

" آپ آرام کریں میں ناشتہ بنا کر آپ کو بلا لونگی  ۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکلنے لگی 

" سنو ۔۔۔" موحد نے جاتی ہوئی علیزے کو آواز دی 

" جی ۔۔۔" وہ پلٹی 

" اکیلے کچن میں ڈرو گی تو نہیں ؟ میں ساتھ چلوں کیا ؟ " وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا 

" نہیں آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ناشتہ بننے میں ٹائم لگے گا اور ویسے بھی جب آپ کا احساس ساتھ ہے تو ڈر کس بات کا ۔۔۔" وہ مدھم سروں میں بولتی ہوئی لائٹ آف کرکے کمرے سے باہر نکل گئی 

_____________________________________________

چمن !! 

میجر احمد سیدھا کھڑا سرمہ خان کی بکواس سن رہا تھا 

" دیکھو میرا جان ام ابھی تمہیں اڈے پر لے جا کر سبق سکھائے گا پھر تم کو اپنے ساتھ جنت  کی سیر بھی کروائے گا دم پخت بھی کھلائے گا  ۔۔۔" 

اس خطرناک سچویشن میں بھی دلاور سے سرمہ خان کی بات ہضم نہیں ہوئی یہ دھمکی تھی ، پیار تھا ، کیا تھا کچھ سمجھ نہیں آیا  اور اسے اچھو لگ گیا 

دلاور کی ہنسی سن کر میجر احمد نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا 

" اوئے  دلبر   تم ایسے اپنی نظروں سے ڈرون والا حملہ کروگی تو امارا جان نکل جائیگی ۔۔۔" سرمہ خان اس کی گھورتی نظروں پر فدا ہوا 

" خان یہ دونوں مشکوک ہیں تم بولے تو ام ان کو گولی مار دیتا ہے ۔۔۔" سرمہ خان کا آدمی کینہ توز نظروں سے ان دونوں کو گھورتا ہوا بولا 

" اوئے خانہ خراب اتنا حسین لڑکا لوگوں کو گولی نہیں مارتے گناہ ملتا ہے  ان کو تو اڈے پر لے کر چلو وہاں سے جو سرکار کا حکم آئے گا اس پر عمل کرلینگے ۔۔۔" سرمہ خان بولتے ہوئے میجر احمد کے نزدیک آیا 

" خوچہ  تمارا قد کاٹھی بوت اچھی ہے ۔۔۔" اس نے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے میجر احمد کے بازوؤں پر ہاتھ پھیرا 

میجر احمد سختی سے اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے پیچھے ہٹا اور اسے خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا 

" اب تم ام کو ایسے دیکھتا  ہے تو امارا دل  خانہ خراب میں کچھ کچھ ہوتا ہے ۔۔۔۔" سرمہ خان نے شکوہ کیا

" سر جی آپ کی  اس لیلی کو ڈوز کی ضرورت ہے شروع کروں کیا ؟؟ " دلاور نے انگلش میں پوچھا 

" نہیں ہمیں ان کے اڈے تک پہنچا ہے ۔۔۔" میجر احمد سرد ٹھنڈے  لہجہ میں سرمہ خان کو گھورتے ہوئے بولا 

" دیکھو خوچہ لوگ یہ کافروں کی زبان میں بات مت کرو ورنہ امارا دماغ گھوما تو ام تم کو ادر ہی زمین میں زندہ گاڑ دے گا پھر شکایت مت کرنا ام سے !!  محبت اپنی جگہ اور کافر کا مارنا  اپنی جگہ  ۔۔۔" سرمہ خان نے پیار سے ان دونوں کو اپنی دانست میں سمجھایا 

"دور ہٹ کر بات کرو ۔۔۔" میجر احمد نے سرمہ خان کو وارن کیا 

" او دلبر جان  !! کیوں روٹھی محبوبہ بن رہی ہے ؟؟ ایسے ناراض ہو کر  کیوں امارے دل پر بار بار بم دھماکہ کرتے ہو  ڈرون حملہ کرو نا ام کو مزا آئیگا ۔" سرمہ خان نے آنکھ مارتے ہوئے انہیں آگے چلنے کا اشارہ کیا 

وہ دونوں ان کی بندوقوں کے نرغے میں چلتے ہوئے درختوں کے جھنڈ سے باہر نکلے جہاں چار بڑی جیپ گاڑیاں کھڑی ہوئی تھی ۔۔

" سر ابھی بھی وقت ہے سوچ لیں ورنہ ادھر جا کر اگر آپ کو یہ الگ کمرے میں لے گیا تو میں کیسے آپ کی عزت کی رکھوالی کر پاؤں گا ۔۔۔" دلاور شرارت سے اس کے پاس سے گزرتا ہوا بولا 

میجر احمد نے خونخوار نظروں سے دلاور کو گھورا جسے بے وقت کا بیہودہ مذاق سوجھ رہا تھا 

" ظالم نظروں سے تم نا مجھ کو دیکھوں مرجاؤ گا 

او سرمہ خان کی جاناں میں مر جاؤنگا ۔۔۔" دلاور گنگنایا 

" او خوچہ تم کیا گاتا ہے ام خوش ہوا ۔۔۔۔" آگے چلتا  سرمہ خان دلاور کا گانا سن کر جھوم جھوم گیا 

ان دونوں کو ایک ہی گاڑی میں بٹھا کر ان کے دائیں بائیں مسلحہ افراد چوکس بیٹھ گئے سرمہ خان نے فرنٹ سیٹ سنبھالی اور سب گاڑیاں آگے پیچھے روانہ ہو گئیں 

" ام کو وہ گانا لگا کر دو ظالم ۔۔۔

الک دے سمرا خکلے 

 ذڑگے رانا وڑے"

 سرمہ خان نے ڈرائیور سے فرمائش کی اور زور زور سے گاڑی میں پشتو سانگ بجنے لگا 

" سر آپ کو اس گانے کا مطلب پتہ ہے ؟؟ " دلاور نے سوال کیا 

" مجھے پشتو آتی ہے ۔۔۔" میجر احمد نے ری لیکس ہو کر جواب دیا 

" پھر بھی سر میں آپ کو مطلب سمجھا دیتا ہوں ۔۔۔" دلاور مکمل شرارت کے موڈ میں تھا 

" سر اس گانے میں شاعر اوپس  سوری سر !!  سرمہ خان کہہ رہا ہے 

یہ لڑکا بہت پیارا ہے 

میرا دل لے اڑا ہے یہ لڑکا ۔۔۔۔" 

وہ دونوں پرسکون انداز  میں آپس میں باتیں کررہے تھے جیسے کہ یہ ان کا روز کا معمول ہو دشمن کے چنگل میں پھنس جانے کی انہیں کوئی فکر نہیں تھی کوئی ڈر نہیں تھا ۔ویسے بھی وطن کی مٹی کے یہ رکھوالے سر سے کفن باندھ کر نکلے تھے اور جن کے سر پر کفن ہو انہیں سوائے شہادت کے اور کوئی طلب نہیں ہوتی تو پھر اس راہ میں کیا ڈرنا ۔۔۔۔

_____________________________________________

علیزے کچن میں جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھی یہ کچن یہ گھر اس کیلئے اجنبی ہرگز نہیں تھا یہ  اس کے تایا کا گھر تھا جہاں وہ نکاح سے پہلے اکثر آیا کرتی تھی تائی امی کے شانوں سے لٹک کر اس کا فرمائشی پروگرام جاری رہتا تھا۔اس کی اپنی ماما اسے ڈانٹنا شروع کرتی تھیں اور تائی اپنی پرشفقت آغوش میں اسے لیکر ماما کو ٹوک دیا کرتی تھیں ۔

 بڑی ہی خوشگوار یادیں وابستہ تھی اس گھر سے اس کے مکینوں سے ، علیزے نے اپنی آنکھوں سے نمی کو صاف کیا اور فرج سے قیمہ نکال کر بھوننا شروع کیا ایک گھنٹے میں وہ قیمہ آملیٹ پراٹھے اور چائے بنا کر ڈائننگ ٹیبل پر رکھ چکی تھی ایپرن اتار کر ہاتھ دھونے کے بعد وہ موحد کے کمرے کی جانب بڑھی ۔

کمرے کا دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوئی تو وہ نیم غنودگی میں آنکھیں بند کئیے  اڑھا ترچھا بیڈ پر لیٹا ہوا تھا وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آکر کھڑی ہو گئی 

" موحد ۔۔۔۔" علیزے نے آہستگی سے پکارا 

" ہوں۔۔۔" وہ بند آنکھوں کے ساتھ اس کی موجودگی محسوس کرکے  مسکایا

" اٹھیں ناشتہ کرلیجئے پھر آرام سے سو جائیے گا ۔۔۔" علیزے نے اس کی تھکن محسوس کرتے ہوئے نرمی سے اسے اٹھانا چاہا 

وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا

" آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ آنکھیں بھی دیکھیں کتنی ریڈ ہو رہی ہیں ۔۔۔" علیزے نے پریشانی سے اسے دیکھا

" میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سر میں درد ہورہا ہے ابھی تمہارے ہاتھوں کی بنی اسٹرانگ سی چائے پیونگا تو سارا درد بھاگ جائے گا ۔۔۔" وہ رات بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد اب تھک چکا تھا تین دن سے اسے ایک لمحہ آرام کا نہیں ملا تھا 

" کیا بہت زیادہ درد ہورہا ہے ؟؟ " اب کے علیزے کی آنکھوں میں اس کے درد کے احساس سے نمی چمکنے لگی تھی 

" نہیں چلو تم ناشتہ لگاؤ میں دو منٹ میں فریش ہوکر آتا ہوں ۔۔۔" وہ دوبارہ بیڈ پر نیم دراز ہوگیا 

علیزے نے پرتفکر انداز میں اسے دیکھا جو دوبارہ آنکھیں موند چکا تھا وہ چاہ کر بھی اسے یہ نہیں بتا پائی کہ ناشتہ وہ لگا کر آئی تھی وہ پلٹی اور لائٹ آف کرکے دبے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آکر بیڈ کے پاس قالین پر دوزانو ہو کر بیٹھ گئی اور سر پر دوپٹہ درست طریقے سے لپیٹ کر اس نے اپنی نازک ہتھیلیوں سے اس کے سر کو دبانا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ وہ آنکھیں بند کئیے  قرآنی آیات زیر لب پڑھتے ہوئے اس پر دم کرنے لگ گئی تھی۔

وہ صرف دو منٹ کیلئے ہی لیٹا تھا جب علیزے لائٹ آف کرکے اس کے پاس آئی اس کی نرم ہتھیلیوں کا لمس سکون بن کر اس کی رگ رگ میں اترا تھا اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو  اس کی علیزے آنکھیں بند کئیے اس پر دم کررہی تھی یہ احساس ہی اس کیلئے بہت تھا کہ اس کی چاہت اس کی منکوحہ کو اس کی فکر ہے اس کا احساس ہے وہ اس کی دعاؤں کا اس کی چاہت کا مرکز ہے علیزے کی محبت پر اسے اپنے آپ پر رشک محسوس ہوا اور اس کے سادہ ملیح چہرے کو نظروں میں بساتے ہوئے وہ پرسکون نیند کی وادی میں اتر گیا جہاں وہ تھا اور اس کی علیزے ۔۔۔۔۔

____________________________________________

چمن !! 

ان دونوں کے نیچے اترنے کے بعد قانتا نے دو منٹ ویٹ کیا پھر بڑے آرام سے اپنے شٹل کاک برقعے کو سمیٹ کر درخت کی دوسری سمت سےچاروں طرف اچھی طرح سے دیکھ بھال کر کے جمپ لگائی اور سیدھی زمین پر گری اٹھ کر اپنے ہاتھ جھاڑے اور آگے بڑھی ہی تھی کہ اسے دور میجر احمد اور دلاور کچھ علاقائی افراد سے لڑتے ہوئے نظر آئے دونوں کا انداز کمانڈو ایکشن والا تھا وہ مخالف سمت میں چلنا شروع ہوئی ۔

درختوں کے جھنڈ سے نکلی تو سامنے ہی چار بڑی جیپیں کھڑی ہوئی تھی  وہ سارے کتنے احمق تھے اپنی گاڑیاں بنا کسی گارڈ کے باہر چھوڑ کر اندر  تھے وہ ان کے احمقانہ پن کو سوچتی ہوئی ایک جیپ کی طرف بڑھی اس کا ارادہ جیپ چرا کر یہاں سے بھاگ جانے کا تھا جیپ کا دروازہ کھول کر وہ اچک کر اندر داخل ہوئی اب وہ اگنیشن کے پاس وائر ڈھونڈ رہی تھی جب جیپ میں موجود وائرلیس پر پشتو میں ایک بھاری مردانہ آواز گونجی ۔۔

" سرمہ خان ۔۔۔۔۔" 

" سرمہ خاناں کابل میں رابطہ کرو ۔۔۔۔" 

ٹرانسمیٹر کچھ دیر کے بعد خود بند ہوگیا قانتا کابل کا سن کر چونک گئی اس کی معلومات کے مطابق ان کے لیڈر عبدل الفاتح کو اغوا کر کے افغانستان ہی لے جایا گیا تھا اب وہ جلدی جلدی جیپ کی تلاشی لے رہی تھی باری باری ساری گاڑیوں کو اس نے چیک کیا سب کی سب اسلحہ بارود سے بھری ہوئی تھی اس نے اپنی پسند سے ایک گن نکال کر اپنے برقعے کے اندر جیب میں رکھی سائیڈ سیٹ پر پڑی جدید  دوربین اٹھائی اور چند دستی بم اٹھا کر وہ بڑے آرام سے گاڑیوں سے تھوڑی دور جا کر  ایک درخت کو منتخب کرکے اس پر چڑھ گئی اب وہ نائٹ وژن دوربین سے ان لوگوں کو ٹریس کرنے کی کوشش کررہی تھی اس کا ارادہ ان سب کو مار کر اس سرمہ خان کو اپنے قبضے میں کر کے انفارمیشن اگلوانے کا تھا ۔کچھ ہی دیر میں 

اسے سرمہ خان اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میجر احمد اور دلاور نظر آچکے تھے ۔

" یہ جس پوزیشن میں کھڑے ہیں بڑی آسانی سے داؤ لگا کر اس سرمہ کی گردن پکڑ سکتے ہیں تو یہ ایسا کیوں نہیں کررہے ؟؟ " وہ پرسوچ انداز میں انہیں دیکھ رہی تھی 

" شٹ یہ تو ان کے ساتھ ادھر ہی آرہے ہیں ۔۔۔۔" وہ تیزی سے جمپ لگا کر درخت سے اتری اور دوڑتی ہوئی گاڑیوں کی طرف بڑھی ایک گاڑی کی ڈگی میں خاصی خالی   جگہ وہ پہلے ہی نوٹ کر چکی تھی تیزی سے گٹھری کی طرح خود کو سمیٹ کر ڈگی میں چھپ کر وہ لیٹ گئی 

وہ سب شاید گاڑیوں میں سوار ہوچکے تھے سفر شروع ہوچکا تھا اور قانتا کو ابھی تک ان دونوں کی سمجھ نہیں آرہی تھی جو بڑی آسانی سے خود کو ان دشمنوں کے حوالے کئیے بیٹھے تھے ۔

" کیا یہ واقعی یرغمال بن چکے تھے یا یہ کوئی ان کا پلان ہے ۔۔۔۔" وہ مسلسل سوچ رہی تھی 

______________________________________________

سفید شلوار پر گھیر دار گلابی فراک پہنے دوپٹہ کاندھے پر لٹکائے وہ خود بھی اس گلابی شام کا حصہ لگ رہی تھی اس کے لمبے سنہرے گھونگریالے بال پشت پر پھیلے ہوئے تھے وہ بلاشبہ ان کے خاندان کی سب سے حسین  پر  ضدی لڑکی  تھی  انہیں اس میں انہیں اپنے بیٹے شہید کرنل شیر کی جھلک دکھائی دیتی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی پلوشہ پر کوئی سختی نہیں کرپارہی تھیں ۔۔

" پلوشہ !! " انہوں نے آواز لگائی 

"پلوشہ۔۔زما خکلے لورے دننا راشہ۔"( پیاری بیٹی اب اندر آجاؤ ۔۔) 

پلوشہ جو کب سے چھت پر دھوپ سینکنے کے بہانے آکر زلمے خان کی بیٹھک پر نظر رکھی ہوئی تھی جہاں زلمے خان سمندر خان اور چند غیر ملکی  موجود تھے مورے کی آواز سن کر چونک گئی 

" آئی مورے ۔۔۔۔۔" وہ پلٹی اب اس کا ارادہ تایا زلمے کے باہر بنے بیٹھک نما کمرے کی طرف جا کر ٹوہ لینے کا تھا 

" جی مورے کیوں بلا رہی تھیں ؟؟ " وہ تخت پر مٹر چھیلتئی مورے کے پاس آئی 

" تمہیں کتنی بار منع کیا ہے اس ٹائم بال کھول کو چھت پر مت جایا کرو جن چمٹ جاتا ہے اور پھر اگر تمہارے زلمے تایا نے تمہیں چھت پر دیکھ لیا تو وہ بھی غصہ کریگا  ۔۔۔" انہوں نے اس ٹوکا 

" مورے مجھے باہر دالان میں جانا ہے ۔۔۔۔" وہ ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولی 

" اے لو میں کیا کہہ رہی ہوں اور تم کیا سن رہی ہو ؟؟ لور۔ باہر زلمے سے ملنے مرد آئے ہوئے ہیں وہ ناراض ہوگا ۔۔۔" مورے نے پلوشہ کو ٹوکا 

" میرا دل گھبرا رہا ہے بابا یاد آرہے ہیں ابھی وہ ہوتے نا تو مجھے باہر جانے سے کبھی بھی نہیں روکتے ۔۔۔۔" وہ روٹھے لہجے میں بولی 

" لورے اگر شیر یاد آرہا ہے تو جاؤ اس کیلئے قرآن پڑھو نفل پڑھو یہ باہر جانے کی کیا تک ہے ۔۔۔۔" 

پلوشہ نے ناراض نظروں سے اپنی دادی کو گھورا جو کسی بھی طرح اس کے جھانسے میں نہیں آرہی تھی اور پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی اندر پہنچ کر اس نے دروازہ بند کیا اور اپنا سیل فون نکال کر کیپٹن حمید کو کال ملانے لگی ۔۔

-----------------------------------------------------------------------

کیپٹن حمید کافی دیر سے سیف ہاؤس میں بیٹھا میجر احمد اور ایجنٹ دلاور سے رابطے کی کوشش کررہا تھا آخری رابطے پر ان دونوں نے ہی اسے وہی سیف ہاؤس میں رکنے کی ہدایات دی تھیں رات ہورہی تھی جب اس کا  سیل فون بجا 

" شیرنی  کالنگ ۔۔۔۔" 

" اب اس وقت اس کو کیا ہوگیا ۔۔۔" وہ نمبر دیکھ کر بڑبڑایا اور فون کو کان سے لگاتے ہوئے کال ریسیو کی 

"کیپٹن ؟؟ " 

" ظاہر ہے کیپٹن کو کال ملائی ہے تو کیپٹن ہی بول رہا ہوں ۔۔۔" 

" اتنا لمبا جملہ بولنے کی بجائے تم سیدھا یس یا جی میڈم بھی بول سکتے تھے ۔۔۔" پلوشہ تپ اٹھی 

" بولو کیا بات ہے ؟؟ " وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا پوائنٹ پر آیا 

" زلمے تایا کی بیٹھک میں مہمان ٹہرے ہوئے ہیں آج ہی آئے ہیں تین غیر ملکی ہیں اور شکل سے پکے خبیث ، ایک تو ہندوستانی لگ رہا ہے اور باقی دو گورے ہیں شاید یہودی ہیں ۔۔۔" وہ پرجوش انداز میں بولی 

" تو ؟؟ " حمید نے سنجیدگی سے پوچھا

" تو کیا مجھے ان کی باتیں سننی ہیں اور مورے باہر پہرا لگا کر بیٹھ گئی ہیں ۔۔۔" اس نے اپنی پریشانی بیان کی 

" تو پھر میں کیا کروں اس سب میں ؟؟ " حمید نے ٹہرے ہوئے لہجے میں پوچھا 

" حمید وہ لوگ جب آئے تھے میں باہر تھی اور وہ بار بار انڈیا کا ہنس ہنس کر نام لے رہے تھے بس اب تم جلدی سے آکر ان کی باتیں پتہ کر کے مجھے بتاؤ ورنہ مجھے کھڑکی سے کود کر مردان خانے جانا پڑیگا  ۔۔۔" 

" پلوشہ  !! تم نے مجھے بتایا کافی ہے خبردار جو تم مردانے میں گئیں ۔۔۔" 

" اوکے تو پھر تم آرہے ہو ؟؟ میں پچھلا دروازہ کھول دوں ۔۔۔؟" 

" نہیں اب خدا کیلئے تم اس سب کو بھول جاؤ مار خور جاگ رہا ہے وہ دیکھ لیگا ۔۔۔" حمید نے فون بند کیا

 اس کے چہرے پر سوچ و تفکر کی لکیریں چھائی ہوئی تھیں زلمے خان کے پاس غیر ملکیوں کا رات کو آنا ہرگز نظر انداز کئیے جانے کے قابل نہیں تھا وہ جو دو راتوں سے جاگا ہوا تھا اپنے آرام کو پس پشت ڈالتے ہوئے اٹھا اور زلمے خان کے ڈیرے کی طرف روانہ ہوا اپنی بوسیدہ بائیک کو دور چھوڑ کر وہ چادر لپیٹے گلیوں سے گزرتا ہوا اپنے ٹارگٹ مقام تک پہنچا چاروں اطراف دیکھتے ہوئے دیوار پر ہاتھ رکھ کر اچھل کر اندر داخل ہوا یہ چار پانچ کمروں پر مشتمل ڈیرہ بنا ہوا تھا جس کا ایک رخ حویلی کے دالان میں تھا وہ احتیاط سے کمرے چیک کرتے ہوئے آگےبڑھ رہا تھا جب ایک کمرے سے اسے باتوں کی آوازیں سنائی دیں اس نے چاروں جانب دیکھتے ہوئے دروازے کی جھری سے اندر جھانکا 

محفل جمی ہوئی تھی زلمے خان کے ساتھ پلوشہ کے بتائے گئے حلیہ والے آدمی بھی موجود تھے 

" سب یہ سمجھ رہے ہیں وہ لیڈر کابل میں ہے اب فوج پر دباؤ ڈالیں گے اور پھر انہیں ناکام ثابت کرنے کے بعد جب آپ کہوں گے اس کی لاش وزیرستان پھنکوا دینگے ایک تیر سے دو شکار ۔۔۔۔" 

" ہمم یہ بات اچھا ہے ! اس سے ہماری پوزیشن بھی مضبوط ہوگی اور ہمیں فوج کے خلاف جلوس نکالنے کا موقع بھی مل جائیگا ۔۔۔" زلمے خان نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا 

" ہماری سرکار آپ پختونوں کا دکھ سمجھتی ہے اسی لئیے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں بس ایک بار کسی طرح ہم پاکستانیوں پر فوج کا اثر ختم کردیں تو پھر اس ملک کے ٹکڑے ہونے ہی ہونے ہیں ۔۔" ہندوستانی جاسوس نے چاپلوسی دکھائی 

" ہندوستان نے،  اسرائیل نے،  ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے آپ آرام سے اس لیڈر کو اپنے علاقے میں رکھو اور جب چاہو زندہ یا مردہ ادھر بھجوا دینا آگے کا ہم سنبھال لینگے ۔۔" زلمے خان  نے جواب دیا 

" سمندر خان  یہ رقم رکھو پورے دو ملین ڈالر ہیں خیال سے ۔۔۔" زلمے خان نے پاس رکھے بریف کیس کی طرف اشارہ کیا 

" اس بریف کیس میں سارا پلان اور نقشہ بھی موجود ہے احتیاط سے ۔۔۔۔" 

کیپٹن حمید بہت چوکنا ہو کر  ان کی گفتگو سن رہا تھا جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بجلی کی تیزی سے پلٹا اور گھما کر ہاتھ رکھنے والے کو اپنی گرفت میں لے کر گھسیٹتے ہوئے برابر والے کمرے میں لے گیا 

" پاگل انسان چھوڑو  مجھے ۔۔۔۔۔" پلوشہ اس کی گرفت میں بلبلائی 

کمرے میں لاکر اس نے پلوشہ کو اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کیا 

" تم ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ " وہ سرگوشی میں پھنکارا

" وہی جو تم کررہے ہو اور اگر تم مجھے سیدھے سیدھے بتا دیتے کہ آرہے ہو تو پھر میں ادھر کیوں آتی اس لئیے غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے سارا قصور تمہارا اپنا ہے اور جلدی سے اس کمرے سے نکلو ادھر رات ہوتے ہی تایا کے جانے سے پہلے  سارے کمرے لاک کردئیے جاتے ہیں " وہ دروازے کی طرف بڑھی ناب پر ہاتھ رکھا اور غصہ سے پلٹی 

" کیپٹن حمید تمہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی ایک تو اتنے خطرناک کام کرتے ہو اوپر سے مجھے بھی پھنسا دیتے ہو ۔۔۔" وہ خونخوار انداز میں اسے گھورتے ہوئے بولی 

" او میڈم !! تمہیں کس گدھے نے مشورہ دیا تھا کہ اس معاملے میں کودو ؟؟ منع کیا تھا نا ؟؟ اب بھگتو " وہ آرام سے پیر پسار کر بیٹھ گیا 

"حمید ۔۔۔" پلوشہ غصہ دباتے ہوئے اس کے نزدیک آئی 

" دیکھو دروازہ باہر سے لاک کردیا گیا ہے اور یقیناً اس وقت رکھوالی کے کتے بھی چھوڑ دئیے گئے ہونگے میں گھر کیسے جاؤں ؟؟ ویسے تو میرا کمرہ اندر سے لاک ہے لیکن صبح تو مجھے کمرے سے نکلنا ہوگا ورنہ ۔۔۔۔" وہ پریشان تھی 

" یہ تو کمرے سے نکلنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اب آرام کرو صبح دیکھتے ہیں ۔۔۔" وہ بے فکری سے بولا پلوشہ کو بھی سبق سکھانا ضروری تھا 

" حمید تم بہت خبیث انسان ہو ۔۔۔" وہ تپ اٹھی 

کیپٹن حمید نے دلچسپی سے مدھم روشنی میں اس کے خفا خفا چہرے کو دیکھا 

" تمہاری وجہ سے مجھے بھی محتاط ہونا پڑا ہے ورنہ کب کا ان سب کو ٹائیں ٹائیں فش کرکے نکل گیا ہوتا ۔۔۔" وہ ہاتھ سے گولی مارنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا 

" مطلب کیا ہے تمہارا ؟؟ " پلوشہ نے کیپٹن حمید کو گریبان سے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکا 

" وہی جو تم سمجھ رہی ہو ۔۔" وہ نرمی سے اس کا نازک ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتے ہوئے بولا 

" کیپٹن یہ میرے تایا ہیں جنہیں تم مارنے کی بات کررہے ہو میں تمہاری اتنی مدد کررہی ہوں اور تم ؟؟ " وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے ہٹی 

" پلوشہ ۔۔۔" کیپٹن حمید نے اس کے ہاتھ تھام کر اسے روکا 

" یہ شخص زلمے خان اور اس کے ساتھی وحشی درندے ہیں یہ ہمارے ملک کے دشمن ہیں ہزاروں بےگناہوں کا خون ان کی گردن پہ ہے یہ را کے ایجنٹ ہیں یہ بک چکے ہیں کتنے ہی معصوم پختونوں کو یہ ورغلا رہے ہیں !!  یہ ٹوپی والے انہیں تو میں انسان ہی نہیں مانتا اور تم ؟؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسی بات کررہی ہو ؟؟ " 

" پر کیپٹن وہ میرے تایا ہیں ۔۔۔" پلوشہ نے کہنا چاہا 

" یقین کرو جو اپنی مٹی کا نہیں اپنی فوج کا نہیں وہ کسی کا نہیں ہوسکتا اور دیکھنا اگر اسے ضرورت پڑی تو یہ تمہیں بھی مارنے میں ایک لمحہ نہیں لگائے گا ۔۔۔" وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا 

" ہمم " وہ سر جھکاتے ہوئے پاس ہی بیٹھ گئی 

حمید نے ایک نظر اس کے پریشان چہرے کو دیکھا 

" جب تک میں زندہ ہوں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ذرا رات گہری ہونے دو پھر تمہیں باحفاظت تمہارے کمرے تک چھوڑ دونگا ۔۔۔" 

----------------------------------------------------------------

صبح ہونے میں تھوڑی ہی دیر رہ گئی تھی جب چاروں گاڑیاں پہاڑوں میں گھری وادی میں آکر رکیں ۔۔

" چلو اترو !! خوچہ لوگ اب تم امارا میزبانی دیکھنا ۔۔۔۔" سرمہ خان گاڑی سے اترتے ہوئے گویا ہوا 

میجر احمد اور دلاور دونوں آرام سے گاڑی سے اترے ان کو چاروں طرف سے سرمہ خان کے آدمیوں نے اپنے نرغے میں لیا ہوا تھا وہ دونوں چاروں طرف دیکھتے ہوئے علاقے کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہے تھے 

یہ چار پانچ  کچے گھروں پر مشتمل تھا جو سارے ایک دائرے میں بنے ہوئے تھے وہ دونوں  ان لوگوں کے نرغے میں چلتے ہوئے ایک باہر سے بوسیدہ نظر آتے مکان کے اندر داخل ہوئے ۔۔

اندر سے یہ بوسیدہ مکان پورا محل تھا دبیز مہنگے ایرانی قالین ریشمی پردے اسپاٹ لائٹس سب کچھ جدید ۔۔

انہیں ایک کمرے میں لایا گیا ۔

" اوئے خبیثوں ان دونوں خانہ خرابہ لڑکا لوگوں کو کرسی پر بٹھا کر  رسی سے باندھ دو ام  ابھی آتا ہے ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت دی 

" جی خان آپ بے فکر رہوں ام ان خبیثوں کو اچھی طرح سے باندھ کر رکھے گا ۔۔۔" ایک آدمی نے موٹا رسہ اٹھا کر پہلے دلاور کے ہاتھ اور پیر باندھے پھر میجر احمد کی طرف بڑھا 

سرمہ خان جو کمرے سے نکل کر زلمے خان کو فون کرنے جارہا تھا اسے اچانک خیال آیا کہ ان لوگوں کا نام تو پتہ ہی نہیں کیا وہ پلٹ کر واپس کمرے کی طرف بڑھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور تڑپ کر رہ گیا 

" اوئے خانہ خرابہ امارا لڑکے کو اتنی بری طرح سے باندھ رہے ہو ؟؟ شرم کرو اگر اسے چوٹ لگ گئی تو امارے دل کو تکلیف ہوگا ۔۔۔" وہ رسہ میں سختی سے بندھے میجر احمد کے مضبوط ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے چلایا 

" اس کا رسی ڈھیلا کرو دیکھو تو اس کے ہاتھ میں نشان پڑ گیا ہے ام کو یہ پسند نہیں ہے ۔۔۔" وہ بول کر میجر احمد کی طرف جھکا 

" دلبرا تم فکر مت کرو ام ابھی تمہارے ہاتھ پر برف لگائے گا  ۔۔۔" وہ پیار سے بول کر سیدھا کھڑا ہوا 

" قمیض خان امارے دلبر کیلئے دم پخت کا اہتمام کرو اور تم ۔۔۔" اس نے پاس کھڑے آدمی کو بلایا 

" ذرا دیکھو تو امارے  معصوم دلبر کو اس کے ہونٹ خشک ہورہے ہیں سارا ہونٹوں کا رنگ خراب ہوگیا ظالم کا ۔ جاؤ  جا کر ٹھنڈا شربت برف ڈال کر لاؤ ۔۔۔" سرمہ خان نے دل پر ہاتھ رکھ کر احمد کو دیکھا 

" خان یہ دشمن ہے اس کو تم ٹھنڈا پانی شربت پلاؤ گئے ؟؟ " 

" نہیں اے دشمن نہیں ہے دشمن تو وہ خبیث ہے جو ہمیں گھور رہا ہے ۔۔۔" سرمہ خان نے دلاور کی طرف اشارہ کیا 

" یہ معصوم تو امارا ڈرون  محبوب ہے اس کی آنکھوں میں ام ڈوب جائیگا ذرا دیکھو تو کیسا اپنی آنکھوں سے بم مارتا ہے ظالم !! ہائے  پھر ام مل کر کام کیا کرے گا ایک تھکے گا دوسرا اس کا خیال کریگا ، ام اس کو  یہ ام کو نسوار کھلائے گا  ۔۔" 

سرمہ خان مستقبل کے حسین خوابوں کے سفر پر نکل گیا تھا جہاں وہ اور میجر احمد ہاتھ میں ہاتھ ڈالے  کمر سے کمر لگائے منھ میں نسوار دبائے  شلوار قمیض اور  شیشے والی ٹوپی پہنے اپنے دشمنوں سے لڑنے میں مصروف تھے ۔

" خان ہوش میں آؤ تمہارا یہ محبوب محبوب نہیں بلکہ ڈرون ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے ۔۔۔۔" 

" اوئے اسماعیل خاناں بس !! قسم نسوار کی اب اگر تم نے امارے محبوب پر شک کیا تو ام تمہیں یہی بھون کر رکھ دے گا ۔۔۔" سرمہ خان اپنے ساتھیوں کو ڈانٹ کر ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا 

" خوچہ تم لوگ اپنا نام بتاؤ اور ادر امارے علاقے میں تم کیا کررہا تھا ؟؟ سب جلدی جلدی بتاؤ ۔۔۔۔" اس نے سوال کیا 

" سرمہ خان میرا کیا قصور ہے ؟ کیا میں حسین نہیں ہوں ؟  مجھ سے بھی تو پیار سے بات کرو  ..." دلاور نے شکایت کی 

" بکواس مت کرو " احمد نے دلاور کو ٹوکا 

" او یارا !! تم اپنے دوست سے جل رہا ہے ؟؟ کیسا دوست ہے تم ؟؟ " سرمہ خان حیران ہوا اس نے دلاور سے سوال کیا 

" نہیں  سرمہ خان  میں تو اس کے نصیب سے ڈر رہا ہوں پیار بھی ملا تو  کتنا اور  کس کا ۔۔۔۔" 

" تم کو بھی امارا پیار چاہئیے ؟؟ " سرمہ خان نے سنجیدگی سے سوال کیا اور دلاور کو اچھو لگ گیا اس کا سانس رک گیا تھا 

" دیکھو خوچہ ام ون نائٹ اسٹینڈ کا قائل نہیں ہے ام ایک آدمی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے اور وہ ام کو مل گیا ہے اماری محبت کا گلاب اب کھل گیا ہے تم اپنے واسطے اگر زندہ بچ گئے تو کسی اور کو ڈھونڈ لینا سرمہ خان ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتا بچہ اپنے دل کو سنبھال لو  ۔۔۔چلو اب جلدی سے اپنا اپنا نام پتہ فر فر بتاؤ پھر ام رپورٹ دے کر آتا ہے ۔۔" 

" یہ جو تمہاری محبت کا لمبا چوڑا گلاب ہے اس کا نام گلاب خان ہے اور ام اس کا چھوٹا بھائی کانٹے خان ہے ہمارا سبزی منڈی میں دکان ہے اور چمن ام ٹرک خریدنے آیا تھا ۔۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے کہا 

" تم جھوٹ بولتا ہے ام کو بیوقوف سمجھتا ہے کیا ؟؟ " سرمہ خان نے سرد نظروں سے ان دونوں کو گھورا 

" تم ہماری پوری انکوائری کروا لو ہم بس ٹرک خریدنے آئے تھے راستے میں تمہارے آدمی ٹکرا گئے ۔۔۔" میجر احمد کی گھمبیر آواز گونجی 

" پر تمہارے پاس ہتھیار کدر سے آیا ؟؟ " سرمہ خان نے سوال کیا 

" ہم پٹھان ہے ہتھیار ہمارا زیور ہوتا ہے اتنا تو تمہیں بھی پتہ ہوگا ؟؟ " میجر احمد نے الٹا سوال کیا 

" ٹھیک ہے ٹھیک ہے ام تم پر بھروسہ کرتا ہے لیکن دیکھو گلاب خان تم اماری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جھوٹ مت بولنا ورنہ اگر امارا دل ٹوٹا تو ام سب کو مار دیگا ۔۔۔"سرمہ خان نے گردن ہلا کر جواب دیا  

" سرمہ خان اب اپنا بھی تو بتاؤ تم کون ہو کیا کام کرتے ہو ہم شریف لوگوں کو پکڑ کر ادھر کیوں لائے ہو ؟؟ " میجر احمد نے پوچھا 

" اب ام  تم کو کیا بتائیں دلبرا ۔۔۔۔۔" سرمہ خان لمبا سانس لے کر کرسی گھسیٹ کر میجر احمد کے سامنے بیٹھا ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا اس نے فون جیب سے نکالا زلمے خان کی کال آرہی تھی 

" بخیر زلمے خان ۔۔۔۔" 

" یہ تو بڑی اچھی خبر ہے ام ابھی آتا ہے ۔۔۔" سرمہ خان نے فون رکھا 

" گلاب خان تم اماری زندگی میں بہار بن کر آئے ہو تم نے ادر  امارے دل میں قدم رکھا دیکھو ام کو ڈالر ملا ام ابھی جارہا ہے پر تم دل چھوٹا مت کرنا ام جلدی سے واپس آتا ہے  تب تک دم پخت بھی پک جائیگا  پھر ام تم مل کر جشن منائے گا ۔۔۔" وہ پیار سے میجر احمد کو آنکھ مار کر کمرے سے باہر نکل گیا 

" اب آپ کا عاشق نامراد تو چلا گیا ہے میرے لئیے کیا حکم ہے ؟؟ " دلاور نے سنجیدگی سے پوچھا 

" اسے واپس آنے دو اس کی زبان کھلوانا ضروری ہے بلکہ کوشش کرتے ہیں یہ ہمیں بھی اپنے آدمیوں میں شامل کرلے ۔۔۔" 

" آپ کا تو کنفرم ہے کہ وہ دل و جان سے  آپ کو اپنا مان چکا ہے بس میری ہی گاڑی اٹکی ہوئی ہے آپ ایسا کرنا اس سے کہنا پہلے میرے بھائی کو نوکری دو پھر میں تمہیں اپنا  دل دونگا ۔۔۔" دلاور خوشدلی سے بولا 

یار ایک تو تم بکواس بہت کرتے ہو اور یہ ہم جنس پرستی جو ان لوگوں میں زہر کی طرح پھیل رہی ہے اس کی ہمارے مذہب میں معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں میرا بس چلے تو ان لوگوں کو سنسار کرنے کی سزا سنائی جائے ۔۔۔"میجر احمد نے بات ختم کی ہی تھی کہ باہر سے مشین گن گولیوں کے تڑتڑانے کی آوز سنائی دی 

" لگتا ہے ان پر حملہ ہوا ہے دلاور بی ریڈی اپنے ہاتھ پیر کھول لو ۔۔۔" 

 ابھی وہ دونوں اپنی رسیوں کو کھولنے میں  لگے ہوئے  تھے کہ میجر احمد کو اپنی گردن میں سوئی سی چبھتی محسوس ہوئی اس نے تیزی سے گردن پر ہاتھ پھیرا اور گردن میں چبھی ڈارٹ سوئی باہر نکالی اس سے پہلے وہ دلاور کو ہوشیار کرتا وہ بھی سوئی کا شکار ہوچکا تھا 

" دلاور ہمیں بلو پائپ سے ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔۔۔۔" اپنی بات مکمل کرتے کرتے وہ بیہوش ہوچکا تھا اور دلاور بھی کرسی پر اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ بیہوش پڑا تھا ۔

______________________________________________

گاڑیوں کے رکنے کے بعد قانتا کچھ دیر تک ڈگی میں چھپی رہی پھر آہستگی سے ڈگی اٹھا کر اس نے باہر جھانکا دور دور تک کوئی بھی نہیں تھا وہ احتیاط سے گاڑی سے اتری اور ڈگی میں پڑی مشین گن اٹھا کر اندر کی طرف بڑھی باہر مکان کے سامنے لکڑیوں پر آگ لگا کر دنبہ بھونا جا رہا تھا چاروں طرف اسلحہ برادر افراد کھڑے باتیں کرنے میں مصروف تھے وہ چوکنا انداز میں آگے بڑھی ہی تھی کہ اسے اپنی پشت پر بندوق کی نالی کا دباؤ محسوس ہوا 

" اوئے لڑکی تم ادھر کیا کررہا ہے ۔۔" 

وہ دھیرے سے پلٹی 

" اوئے تم تو وہ برقع والا باجی ہو جسے سمندر خان ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔" وہ چلایا اٹھا اس کی آواز سن کر باقی لوگ بھی قانتا کی طرف متوجہ ہوگئے 

" دیکھو باجی ام بہت خطرناک لوگ ہے تمہارا ساتھی تو مرگیا ہے اب تم لڑکی ذات خود سوچو باجی  !! " 

" اسماعیل خاناں  تم  برقع والا باجی کو لے کر اندر چلو ام سمندر خان کو اطلاع کرتا ہے ۔۔۔" ایک ساتھی نے اسے ہدایت دی 

قانتا اس کی بات سنتے ہی چوکنا ہوئی اور اس نے آگے چلتے چلتے مکان کے دروازے پر پہنچتے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑی گن سیدھی کی جو ان لوگوں نے نوٹ ہی نہیں کی تھیں اور پھر پورا میدان مشین گن کی آواز سے گونج اٹھا وہ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کسی کو بھی سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر بھون چکی تھی اب وہ اندر داخل ہوئی وقت کم تھا یقیناً گولیوں کی آوازیں دور تک سنائی دی گئی ہونگی سارے کمرے وہ چیک کررہی تھی جب دوسرے ہی کمرے میں اسے رسی سے بندھے ہوئے  احمد اور دلاور دکھائی دئیے اس نے اپنے برقع کے اندر ہاتھ ڈال کر سر سے ہئیر پن اتاری جو ایک جدید بلو پائپ تھا اور میجر احمد اور دلاور کی گردن کا نشانہ لے کر پھونک مار دی ۔

--------------------------------------------

موحد کے سونے کے بعد وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئی سب سے پہلے تو دادی کو فون کرکے ساری سچویشن بتائی پھر آرام سے ٹیبل پر سجے ناشتے کے لوازمات کو واپس کچن میں لے جاکر اس نے اوون میں رکھا تاکہ وہ گرم رہیں اور خود ٹی وی لاؤنچ میں آکر بیٹھ گئی کچھ دیر تک چینل بدلتی رہی پھر دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالی تو دن کے دس بج رہے تھے موحد کو سوتے ہوئے دو گھنٹے ہوچکے تھے وہ چلتی ہوئی واپس بیڈروم میں آئی دروازہ آہستگی سے کھول کر اندر داخل ہوئی سامنے ہی موحد آنکھیں بند کئیے لیٹا ہوا تھا اس نے تھوڑا سا جھک کر غور سے اس کی بند آنکھوں کو دیکھا وہ پرسکون نیند میں گم تھا وہ خاموشی سے پلٹی اور کچن میں آگئی کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنے لئیے چائے بنانے کا ارادہ کیا چولہے پر پانی چڑھا کر وہ فرج سے دودھ نکال ہی رہی تھی کہ جب موحد اندر داخل ہوا ۔۔

" تھینکس ڈئیر ۔۔۔" اس نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے علیزے کو مخاطب کیا 

" تھینکس ؟؟ کس لئیے ؟" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی 

" میری تھکن کا احساس کرکے میری تھکن سمیٹنے کیلئے ۔۔" وہ گھمبیر لہجے میں بولا اس کی گہری نگاہوں سے علیزے کی نظریں الجھ کر بے ساختہ انداز میں جھک گئیں تھیں اس کے گلابی گال تپ اٹھے تھے 

موحد نے بڑی دلچسپی سے اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو اٹھتی جھکتی پلکوں کے رقص کو دیکھا 

" چلو تمہیں مزیدار سا لنچ کرواتا ہوں پھر گھر چھوڑ دونگا ۔۔۔" 

" نہیں میں نے آپ کے لئیے ناشتہ بنایا ہے آپ فریش ہو جائیں میں ٹیبل لگاتی ہوں ۔۔۔" وہ نرمی سے بولتے ہوئے اوون کو کھول کر چیک کرنے لگی 

" تم اکیلی اتنا کام کررہی تھی مجھے مدد کیلئے کیوں نہیں بلایا ؟؟ " وہ اوون میں قیمہ سالن چھولے دیکھتے ہوئے بولا 

"آپ اتنا تھکے ہوئے تھے اور پھر بھلا  میرے ہوتے ہوئے آپ  کیوں کچن میں کام کرتے ایسے اچھا تھوڑی لگتا ہے ۔۔" وہ اوون میں سے ڈشز نکالتے ہوئے بولی 

" ویسے گرینڈ ماں نے تمہیں اچھا خاصا ٹرینڈ کردیا ہے مجھے شادی کے بعد کھانے پینے میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔۔۔"وہ شرارت سے بولتے ہوئے اس کے نزدیک آیا 

موحد نے نرمی سے اس کے ہاتھ سے ڈشز لینا شروع کی اور ٹیبل پر رکھنے لگا وہ دونوں مل کر کام کررہے تھے علیزے کے دل کی ایک ایک  دھڑکن اس کی اتنی توجہ محبت دیکھ کر خدا کا شکر ادا کررہی تھیں 

" چلو بیٹھو ۔۔۔" موحد نے اس کیلئے کرسی کھسکائی اور اس کے بیٹھنے کے بعد ساتھ والی کرسی پر خود بیٹھ کر علیزے کے سامنے پلیٹ رکھ کر اسے شروع کرنے کا اشارہ کیا 

" پہلے آپ پلیز ۔۔۔" علیزے ہچکچائی

" موحد نے بڑے آرام سے اس کی پلیٹ میں قیمہ نکال کر ہاٹ پاٹ سے پراٹھے نکالے اور اسی پلیٹ میں خود بھی کھانا شروع ہوگیا 

" سوچ کیا رہی ہو جلدی سے ناشتہ کرو پھر تمہیں گھر چھوڑ کر مجھے آفس بھی جانا ہے ۔۔۔" اس نے خاموشی سے پلیٹ کو تکتی علیزے کو ٹوکا 

" جی میں لیتی ہوں ۔۔۔" علیزے نے ہچکچاتے ہوئے نوالہ توڑا  اسے ایک ہی پلیٹ میں کھاتے ہوئے عجیب سا لگ رہا تھا 

" سنئیے ۔۔۔" 

" جی بیگم سنائیے ۔۔۔" 

" آپ ۔۔۔" اس کا طرز تخاطب سن کر وہ بلش کر گئی 

" کیا بات ہے علیزے ؟؟ " 

" آپ پلیز آرام سے ناشتہ کریں میں چائے لاتی ہوں ۔۔۔" وہ جو اس سے الگ پلیٹ مانگنے لگی تھی بات بدل کر کھڑی ہوئی 

" علیزے !! قسمت سے کبھی کبھار ہی تمہارے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے جو میں ہرگز بھی گنوانا نہیں چاہتا اور ویسے بھی رخصتی کے بعد تو میں ایک پلیٹ میں تمہارے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے کھانا کھایا کرونگا اس لئیے اب یہ شرمانا چھوڑو اور ڈھنگ سے خود بھی ناشتہ کرو اور مجھے بھی کرواؤ ۔۔۔" وہ دونوں ہاتھ باندھ کر آرام سے بیٹھ گیا 

"علیزے جلدی کرو میں رات سے بھوکا ہوں ۔۔۔"علیزے نے بوکھلا کر جلدی سے نوالہ توڑا 

" آپ یہ کھا لیں ۔۔۔" اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے نوالہ کی طرف اشارہ کیا 

" آپ یہ کھلا دیں ۔۔۔" موحد نے اسی کے انداز میں فوری جواب دیا 

اب صورتحال یہ تھی کہ علیزے بی بی کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے نظریں زمین پر فوکس کئیے  اسے ناشتہ کروا رہی تھیں ہر نوالہ وہ بڑی احتیاط سے اس کے منھ میں ڈال رہی تھی اور موحد بہت ہی اطمینان سے اس کے شرم سے گلگوں چہرے پر نظریں جمائے اس کے نرم و نازک ہاتھوں سے ناشتہ کررہا تھا ۔

" بس ۔۔۔" اس نے علیزے کو روکا 

" میں تیار ہوکر آتا ہوں تم جب تک آرام سے ناشتہ کرلو ۔" وہ نرمی سے اس کی مشکل آسان کرتا ہوا اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا موحد کے جاتے ہی ایک گہری سانس علیزے نے خارج کی اور بمشکل تھوڑا بہت کھا کر جلدی جلدی برتن سمیٹنے لگی ۔

وہ ابھی برتن دھو ہی رہی تھی کہ یونیفارم میں ملبوس موحد کچن میں آیا 

" یار برتن کیوں دھو رہی ہو ابھی شام میں بوا آئینگی وہ دیکھ لینگی ۔۔۔" موحد نے نلکا بند کرکے اسے سنک کے سامنے سے ہٹایا 

" جاؤ جلدی سے اپنا حلیہ درست کرو اور اپنا بیگ لے کر آؤ  میں جب تک گاڑی نکالتا ہوں ۔۔" 

علیزے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جلدی سے اوپر بیڈروم کی طرف بڑھی جہاں اس کی چادر  کالج بیگ اور جاگرز  رکھے ہوئے تھے ۔

------------------------------------------------------------------------

 رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا چاروں جانب سناٹا چھایا ہوا تھا باہر سے رکھوالی کے کتوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ حددرجہ پریشان تھی اور کیپٹن حمید بہت مزے سے ٹانگیں پسارے آنکھیں بند کئیے بیٹھا ہوا تھا وہ خونخوار نظروں سے اسے گھورتی ہوئی قریب آئی جو ناجانے ایسے خطرناک ماحول میں اتنے آرام سے کیسے سو رہا تھا 

"کیپٹن !!" 

" کیپٹن کے بچے شرافت سے اٹھ جاؤ ۔۔۔" اس نے کیپٹن حمید کے کان میں سرگوشی کی اس کی پوری کوشش تھی کہ آواز دھیمی رہے 

" کیا پرابلم ہے کیوں تنگ کررہی ہو ؟ " کیپٹن حمید نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا 

" کیپٹن مجھے گھر جانا ہے فجر میں مورے مجھے نماز کیلئے اٹھانے آتی ہیں ۔۔۔" 

" تو میں بھلا  کیا کرسکتا ہوں جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی جاؤ  ۔۔۔" وہ دوبارہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا 

" تم بہت خبیث ہو تم نے ابھی دو گھنٹے پہلے ڈائیلاگ مارا تھا کہ تمہارے ہوتے مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اب دیکھو کیسے مجھے تنگ کررہے ہو ۔۔" وہ تھک کر دروازے کے قریب جا کر کھڑی ہوگئی 

" مجھے تم پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہئیے تھا ۔۔" 

کیپٹن حمید نے آنکھیں کھول کر اندھیرے میں اس کے خفا خفا سے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی پھر اسے مزید سبق سکھانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے کھڑا ہوا اور چلتے ہوئے اس کے پاس آیا 

" چلو تمہیں تمہارے روم تک چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا اور ایک ہاتھ سے پلوشہ کو دروازے سے ہٹاتے ہوئے اپنی جیب سے تار نکال کر دروازے کا لاک کھولنے میں لگ گیا 

" کیپٹن تم ۔۔۔۔" 

" سسش ۔۔۔" کیپٹن نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا 

" مار خور کبھی بھی بھروسہ نہیں توڑتا ۔۔۔"

کلک کی ہلکی سی آواز ابھری اور دروازہ کھل چکا تھا چاروں جانب اچھی طرح سے دیکھنے کے بعد اس نے پلوشہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا اب وہ اس کا ہاتھ تھامے دبے قدموں چلتا ہوا باہر راہداری میں آچکا تھا سامنے ایک لمبا بڑا  سا صحن تھا اور کونے پر رہائشی عمارت تھی جس میں پلوشہ کا کمرہ تھا بیچ میں رکھوالی کے کتے گھوم رہے تھے 

" کیپٹن اب ان کتوں کا  کیا کریں ۔۔۔" پلوشہ نے پریشانی سے اس کے کان میں سرگوشی کی 

" میں صحن کے مخالف سمت جا رہا ہوں یہ سارے کتے میری طرف متوجہ ہونگے تمہارے پاس صرف تین منٹ ہیں تمہیں ان تین منٹ میں بھاگ کر اپنے کمرے تک پہنچنا ہوگا کیونکہ میرے اندازے کے مطابق ان کے بھونکنے کی آواز سن کر چوکیداروں کے آنے اور لائٹ جلنے میں تین منٹ ہی لگنے ہیں بولو کر لوگی ؟؟ " 

" لیکن تم !! کیپٹن یہ خطرناک شکاری کتے ہیں اگر تم پھنس گئے تو یہ ایک لمحے میں تمہیں چیرپھاڑ کر رکھ دینگے ۔۔۔" وہ پریشان ہوئی 

" میری فکر مت کرو ۔" اس نے سنجیدگی سے کہا 

" بی ریڈی ون ٹو تھری ۔۔۔۔"

 کیپٹن حمید تیزی سے صحن میں نکلا اس نے صحن میں نکلتے ہی سیٹی بجا کر کتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بائیں جانب دوڑ لگا دی پلوشہ نے کتوں کے دوڑتے ہی تیزی سے حویلی کی طرف جان لگا کر دوڑنا شروع کیا قریب پہنچ کر چھوٹی دیوار کے پاس پڑی سیڑھی سے اوپر چڑھی اور منڈیر پر ہاتھ رکھ کر اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھی ہی تھی کہ پورا دالان اور حویلی جگمگا اٹھی ساری لائیٹس آن ہو چکی تھی دوڑتے قدموں کی آوازیں گونج رہی تھیں وہ دیوار کے ساتھ دم سادھے کھڑی ہو کر رینگتی ہوئی اپنے کمرے کی کھڑکی تک پہنچی اور پھر تیزی سے اندر کود گئی 

کمرے میں پہنچ کر اس نے کھڑکی لاک کرکے پردے برابر کئیے اور جلدی سے دروازے کا لاک کھول کر بستر میں لیٹ گئی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بار بار کیپٹن حمید کا چہرہ اس کی نگاہوں میں آرہا تھا 

" کیا مصیبت ہے آخر میں تمہارے لیے اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہوں ۔۔۔" اس نے کروٹ بدلی چند منٹ بعد وہ تھک ہار کر سیل فون ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئی 

" کیپٹن تم انتہائی خبیث آدمی ہو میری نیند اڑ گئی ہے اب خوش !! مجھے یہ میسج دیکھتے ہی بتاؤ کہ تم ٹھیک تو ہو اگر نہیں تو پھر  میں آرام سے اپنا دوسرا پارٹنر ڈھونڈنے کا پلان بناتی ہوں ۔۔۔" اس نے  دل جلانے والا  میسج سینڈ کیا اور پھر فون پر نظریں جما کر انتظار کرنے لگی 

تقریباً ایک گھنٹے بعد اس کا سیل فون وائبریٹ ہوا وہ جو اونگھنے لگی تھی ایک دم چوکنا ہوئی اور فون دیکھا 

" چلو کسی کی تو نیند میری وجہ سے اڑ گئی ہے اچھا شگون ہے ۔۔۔" 

" مار خور تم بھی ۔۔۔" وہ اس کا میسج پڑھ کر ایک سکون سا اپنے اندر اترتا محسوس کررہی تھی 

" بلے کو خواب میں چھیچھڑے ۔۔۔۔" اس نے جوابی میسج ٹائپ کیا اور فون بند کرکے لیٹ گئی 

_____________________________________________

چمن !! 

قانتا ان دونوں کے بیہوش ہوتے ہی اندر آئی وہ سارے کمروں کی جلدی جلدی تلاشی لے رہی تھی لیکن کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں لگا تھا تھک ہار کر وہ میجر حمد اور ایجنٹ دلاور کے پاس آئی ان دونوں کے ہاتھ پیر رسی سے بندھے ہوئے تھے یقیناً یہ لوگ اہم ہیں ورنہ انہیں اس طرح باندھ کر نا رکھا جاتا وہ چلتی ہوئی میجر احمد کے نزدیک آئی اب وہ میجر احمد کی تلاشی لینے ہی لگی تھی کہ باہر سے دوڑتے ہوئے قدموں کی گونج سنائی دی وہ چونک کر کھڑی ہوئی قدموں کی دھمک بہت نزدیک آچکی تھی اس نے کمرے میں چاروں جانب دیکھا اور پھر جلدی سے دروازے کے پیچھے دیوار کے ساتھ بالکل لگ کر دم سادھے کھڑی ہو گئی ۔

سرمہ خان اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پشین کی طرف روانہ ہوچکا تھا اس کا ارادہ زلمے خان سے مل کر رات ہی میں واپس اپنے اڈے پر آنے کا تھا وہ کافی آگے آچکے تھے جب انہیں دور سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں 

" خان لگتا ہے آپ کا محبوب ایکشن  میں آگیا ہے یہ آواز امارے اڈے کی طرف سے آئی ہے ۔۔۔" 

" تم خبیث آدمی کبھی تو اس منحوس منھ سے اچھی بات بھی کرلیا کرو ام کو یقین ہے امارا گلاب خان ام کو دھوکہ نہیں دے سکتا ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنے آدمی کو سخت نظروں سے گھورا 

"اوئے ڈرائیور گاڑی موڑو اور واپس اڈے پر چلو ۔۔۔" سرمہ خان نے ڈرائیور کو ہدایت دی 

ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ریورس گیئر لگا کر گاڑی کو واپس موڑا اب وہ تیز رفتاری سے واپس جا رہے تھے اڈے پر پہنچ کر سرمہ خان گاڑی سے باہر اترا آگ دھک رہی تھی اس پر دنبہ سلاخوں میں پرویا بھن رہا تھا چاروں جانب خون ہی خون تھا اس کے سارے ساتھی زمین پر  اپنے ہی خون میں نہائے گرے پڑے تھے 

سرمہ خان کی آنکھوں میں یہ سب دیکھ کر خون اتر آیا تھا چہرے پر کرختگی چھا چکی تھی وہ گن تھامے اپنے ساتھیوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے مکان کے اندر داخل ہوا پورا مکان سائیں سائیں کررہا تھا وہ اچھی طرح ایک ایک کمرہ دیکھتے ہوئے قیدیوں کے کمرے میں داخل ہوا سامنے ہی گلاب خان اور دلاور رسیوں سے بندھے بیہوش پڑے تھے 

"اللہ تیرا شکر ہے امارا گلاب خان غدار نہیں ہے ورنہ ام تو ابھی رنڈوا ہوجاتا ۔۔" سرمہ خان کے منھ سے اطمینان بھری سانس نکلی 

" جاؤ سارا لاش ٹھکانے لگا کر ادر سے چلنے کا انتظام کرو ام تب تک گلاب خان کو دیکھتا ہے ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حکم دیا اور خود بیہوش میجر احمد کے پاس آیا 

" گلاب خان !! آنکھیں کھولو یارا ۔۔۔"اس نے میجر احمد کے گال تھپتھپائے

" ظالم نے کس بیدردی سے امارے محبوب کو مارا !!قسم نسوار کی ایک بار ہاتھ لگ جائے ام اس کو الٹا لٹکا کر مارے گا ۔۔۔" وہ میجر احمد کی رسی کھولتے ہوئے بڑبڑایا 

میجر احمد کی رسی کھول کر وہ غور سے احمد کو دیکھ رہا تھا جب اس کی کنپٹی پر ٹھنڈی بندوق کی نالی آ لگی 

" کون ۔۔۔" اس نے پلٹنے کی کوشش کی 

قانتا نے زور سے گن کا دستہ اس کے چہرے پر مارا وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا اور برقع میں ملبوس قانتا کو دیکھ کر چونک گیا 

" برقع والا باجی تم ادر کیا کررہا ہے ؟ یہ لڑکی ذات کیلئے اچھی جگہ نہیں ہے چلو شاباش جلدی سے یہ گن امارے کو دے دو تمارا روٹی پکانے والا ہاتھ میں گن اچا نہیں لگتا ۔۔" سرمہ خان نے پیار سے سمجھایا

" کون ہو تم ؟ کس کیلئے کام کرتے ہو ؟"قانتا نے سختی سے پوچھا 

" پہلے تم ام کو بتاؤ تم کون ہو اور ادر کیا کررہی ہو ؟" 

" اغوا کئیے ہوئے لوگ کدھر جاتے ہیں ؟" قانتا نے سیدھا سوال کیا 

" جواب دو ورنہ میں تمہیں گولی سے اڑا دونگی ۔۔" وہ پھنکاری 

سرمہ خان نے دلچسپی سے اسے دیکھا اور جیب سے نسوار نکال کر اپنے منھ میں رکھی 

" ام نہیں بتائے گا جو کرنا ہے کرلو ۔۔۔" 

" ذلیل بڈھے ۔۔۔۔" قانتا کا ضبط جواب دے گیا اس نے گن کے دستے سے سرمہ خان کے سر کا نشانہ لے کر مارا وہ تیزی سے پیچھے ہٹا اور وہ دستہ سیدھا میجر احمد کے بازو پر لگا 

" اوئے ظالما تم نے امارے گلاب کو مارا اب ام تم کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔" 

" گلاب خاناں اماری جان تم ٹھیک ہے ۔۔۔" سرمہ خان نے تڑپ کر میجر احمد کے بازو کو چیک کیا

" تم ایسے نہیں مانو گے ۔۔۔" قانتا نے اسے گھورا اور اس کی پٹائی شروع کردی وہ پینترے بدل بدل کر سرمہ خان پر وار کررہی تھی سرمہ خان کا ہونٹ پھٹ چکا تھا خون رس رہا تھا جب اس کے ساتھی اندر داخل ہوئے اور تیزی سے سرمہ خان کی مدد کو آئے اب وہ تین اور قانتا اکیلی تھی جب سرمہ خان کا ایک ساتھی اس پر بڑی مشکل سے قابو پانے میں کامیاب ہو گیا 

" چھوڑو مجھے ۔۔۔" قانتا نے اس کی ٹانگ پر کک ماری 

میجر احمد کا سر چکرا رہا تھا اس نے اپنے حواسوں پر قابو پاتے ہوئے بمشکل  آنکھیں کھولیں سامنے ہی برقع خانم کو سرمہ خان کے ساتھی نے جکڑا ہوا تھا وہ مظلوم لڑکی شاید  مدد کیلئے چلا رہی تھی 

" چھوڑو مجھے ۔۔۔" 

اس کی آواز سن کر میجر احمد کا خون کھول اٹھا تھا 

"سرمہ خان اپنے آدمی سے کہو لڑکی کو چھوڑ دے ۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بولتے ہوئے کھڑا ہوا 

" وئی زار !! تم کو ہوش آگیا ۔۔۔ " 

" اپنے آدمی سے کہو لڑکی کو چھوڑ دے ۔۔ " 

"خوچہ  امارا آدمی تو تم ہے یہ تو امارا ساتھی لوگ ہے  ۔۔۔" سرمہ خان نے پیار سے جواب دیا 

" اور یہ باجی یہ باجی نہیں پورا بم ہے وہ بھی  ایٹم بم ۔۔" 

" شرم نہیں آتی ایک شریف لڑکی کو بم کہتے ہوئے۔۔۔" اب کے دلاور بولا جو ہوش میں آکر سچویشن سمجھنے کی کوشش کررہا تھا 

" گلاب خاناں تم امارا محبت کا فائدہ اٹھا رہے ہو ۔۔" 

قانتا ان دونوں کو ہوش میں دیکھ کر چپ چاپ کھڑی ہوئی تھی جب میجر احمد چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور ایک جھٹکے سے اس کا بازو چھڑوا کر اسے اپنے پیچھے کیا 

" سرمہ خان ہم لڑکی ذات پر ظلم برداشت نہیں کرینگے معصوم لڑکیوں کو پکڑنا ان سے زیادتی کرنا یہ ایک خان کو زیب نہیں دیتا چھوڑو اس لڑکی کو میں اسے اس کے گھر تک چھوڑ کر آؤنگا ۔۔۔" وہ سختی سے بولا 

" تم اس برقع والا باجی کا رشتہ دار ہے ؟" 

" نہیں لیکن میرا اصول ہے عورت کی عزت کرنا ۔۔۔" 

" عزت اچھا بات ہے شکر ہے تم نے محبت نہیں کہا ۔۔" سرمہ خان ری لیکس ہوا 

_____________________________________________

دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی وہ گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی تھوڑی دیر دستک کے بعد ملازمہ شاید مایوس ہوکر واپس چلی گئی تھی کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا جیسے کوئی اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے سے انگلیاں پھیر رہا ہو بڑی مشکل سے اس نے مندی مندی آنکھیں کھولیں اور اپنے سامنے  کھڑی بارعب سی مورے کو دیکھ کر جھٹکے سے کمبل کو اتارتے ہوئے کھڑی ہوئی ۔

" پلوشہ کتنی دیر سے تمہیں نماز کیلئے بلوا  رہی ہوں اور تم ؟؟ کبھی تو وقت سے اٹھ جایا کروں لوگوں کی لڑکیاں صبح اٹھ کر اپنے گھر والوں کو قہوہ بنا کر دیتی ہیں وضو کا پانی گرم کرتی ہیں اور ایک یہ ہماری پوتی ۔۔" انہوں نے پلوشہ کو گھورا جو بڑی ڈھٹائی سے جمائی لیتے ہوئے ان کو دیکھ رہی تھی

" سوری مورے آپ اتنا غصہ کیوں کررہی ہیں بس اب وعدہ آئندہ سے وقت پر اٹھ جایا کرونگی ۔۔" 

" بیس سال کی لوٹھا کی لوٹھا ہوگئی ہو آج تک مجال ہے جو وقت پر اٹھ کر کبھی خود سے فجر کی نماز کو آئی ہو ۔۔۔" وہ خفگی سے بولیں 

" آپ چلیں میں وضو کرکے آتی ہوں ۔۔" وہ وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے  تیزی سے باتھ روم کی جانب بڑھی دروازہ کھول کر پلٹ کر دیکھا اسے پتہ تھا مورے ابھی بھی اسے دیکھ رہی ہونگی 

" پتہ ہے مورے ہم پاکستانی لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟ " وہ رکی 

" ہماری مائیں کبھی بھی ہم سے خوش نہیں ہوتیں انہیں ہمیشہ ہی دوسروں کی لڑکیوں میں اچھائی نظر آتی ہے ۔۔" وہ تیزی سے بات مکمل کرکے اندر گھس گئی 

نماز پڑھ کر وہ کچن میں آئی جہاں تائی امی ناشتہ بنوانے میں مصروف تھیں 

" پلوشہ آج تو بڑا جلدی کچن میں آگئی ہو طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا 

" آج میرا اردہ مورے کو اور آپ کو اپنے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے قہوہ بنا کر دینے کا ہے ۔۔۔۔" وہ آگے بڑھ کر چولہا جلاتے ہوئے مگن انداز میں بولی 

ابھی وہ قہوہ کا پانی چڑھا ہی رہی تھی کہ زلمے تایا اندر داخل ہوئے 

" خانم آپ نے ہماری بیٹی کو چولہے کے آگے کیوں  کھڑا کیا ہوا ہے ۔۔۔" وہ پلوشہ کو دیکھ کر بولے 

" تایا ابو  میں خود ادھر آئی ہوں اور آج میں خود مورے کو اور آپ کی خانم کو قہوہ بنا کر پلاونگی ۔۔" وہ ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولی 

" پر اتنے ملازم کس کام کے ؟ کہ  ہماری بیٹی کو کام کرنا پڑے  ۔۔" وہ ناراض ہوئے 

" تایا بنانے دیں نا ورنہ مورے نے دوسروں کی لڑکیوں کے طعنے دے دے کر مار دینا ہے ۔۔" وہ منہ بسورتے ہوئے بولی

" اچھا اچھا ٹھیک ہے پھر ہم بھی اپنی بیٹی کے ہاتھ کا قہوہ پی کر کام سے نکلے گا ۔۔۔" زلمے خان نے شفقت سے کہا 

" آپ کے مہمان چلے گئے ؟ " پلوشہ نے سرسری انداز میں پوچھا  

" کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟ " اب زلمے خان چونکے

" میں وہ مورے نے بتایا تھا مہمان خانہ میں مہمان آئے ہوئے ہیں تو کیا ان کیلئے بھی قہوہ بنالوں ۔۔۔" وہ بات بناتے ہوئے بولی 

" نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے اور خانم آپ مہمان خانہ میں انگریزی چائے ناشتہ بھجوا دیں ۔۔۔" زلمے خان نے ہدایت کی 

" پلوشہ میں مورے کے پاس جا رہا ہوں میرا قہوہ ادھر ہی لے آنا ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتے ہوئے  باہر نکل گئے  بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے وہ مورے کے کمرے میں داخل ہوئے 

" اسلام علیکم ۔۔۔" 

" وعلیکم اسلام زلمے خان ۔۔" مورے نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنی تسبیح ایک طرف رکھی 

" مورے آپ پلوشہ کو میرے کسی  مہمانوں کا نہیں بتایا کریں  اب وہ مجھ سے میرے آنے جانے والوں کا پوچھے یہ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔" 

" زلمے تم کن مہمانوں کی بات کررہے ہوں ؟اور میں پلوشہ کو کیوں بتاؤنگی ؟  " وہ حیران ہوئیں  

اس سے پہلے زلمے خان کوئی جواب دیتا دروازہ کھول کر ٹرے میں سلیقہ سے قہوہ اور ساتھ لوازمات لئیے پلوشہ اندر داخل ہوئی 

" یہ لیں مورے گرم گرم قہوہ اور تایا ابو یہ آپ کیلئے حلوہ بھی ہے ۔۔۔" وہ پیالہ زلمے خان کی طرف بڑھاتے ہوئے خوشدلی سے بولی جو اسے پرسوچ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا 

" پلوشے رات تم کدھر تھیں ؟ "   زلمے خان نے سنجیدگی سے سوال کیا 

" میں نے کدھر جانا ہے زہرا خالہ کے گھر جانا تھا مورے نے منع کردیا پھر ٹی وی دیکھتے دیکھتے کب سو گئی پتہ ہی نہیں چلا صبح بھی مورے نے زبردستی اٹھایا ہے ۔" وہ سکون سے کانفیڈنس سے بولی 

" ہمم ۔۔۔" زلمے خان نے پیالہ خالی کرکے میز پر رکھا اور کھڑا ہوگیا 

" مورے چلتا ہو ۔۔۔" 

" زلمے خان گھر کب لوٹو گے؟ آج زبیر  کے سسرال والے آرہے ہیں ۔۔۔" مورے نے آگاہ کیا 

" مورے آج شاید کام سے کابل بھی جانا پڑے دودن بعد ہی لوٹو گا  ویسے بھی یہ سسرال دعوت یہ آپ کا شعبہ ہے ۔۔۔" وہ بیزاری سے بولا 

" زلمے خان زبیر تمہارا بیٹا ہے ۔۔" مورے نے یاد دلایا

" پتہ ہے مورے اور وہ بھی میرے ساتھ ہی جا رہا ہے آپ عورتوں کی دعوت نبٹاؤ اگر کام اہم نہیں ہوتا تو میں ضرور رک جاتا ۔۔۔" زلمے خان نے جواب دیا 

" اب کم از کم زبیر کو تو چھوڑ جاؤ ۔" وہ ناراض ہوئیں 

" ٹھیک ہے مورے زبیر کو چھوڑ دیتا ہوں ۔" زلمے خان خداحافظ کہتا ہوا باہر نکل گیا 

پلوشہ بھی تیزی سے کھڑی ہو کر برتن اٹھا کر باہر نکلنے لگی تھی کہ مورے نے آواز دی

"برتن رکھ دو ملازم لے جائے گا تم ادھر آکر بیٹھو ۔۔۔" 

پلوشہ نے تیزی سے ٹرے واپس رکھی اور مورے کے پاس آئی 

" مورے سچ میں مجھے بہت نیند آرہی ہے پلیز تھوڑی دیر تو اور سونے دیں بعد میں جتنا چاہیں لیکچر دے لیجئے گا  ۔۔۔" وہ معصوم سا چہرہ بنا کر بولی 

" اچھا جاؤ ۔۔۔" انہوں نے اجازت دی 

وہ تیزی سے کمرے سے نکلی دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ کو لاک کیا سائیڈ میز کی دراز میں سے دوربین نکالی اور کھڑکی کا پردہ سرکا کر باہر دیکھنے لگی کچھ دیر بعد اس کی انگلیاں تیزی سے سیل فون پر میسج ٹائپ کررہی تھیں ۔

______________________________________________

موحد  کافی دیر سے پولیس اسٹیشن میں اپنے آفس میں بیٹھا بم دھماکہ کیس کی ساری فائلز کیس ہسٹری ثبوت کمپائل کررہا تھا اس کی پوری کوشش تھی کہ ملزم کسی بھی طرح سے بچنے نا پائے ابھی وہ اپنے کاموں میں مصروف تھا کہ دروازہ ناک کرکے انسپکٹر خالد اندر داخل ہوا ۔

" سر بکتر بند گاڑی اور سارے انتظامات ہوگئے ہیں آپ بتائیں ملزم کو لے کر کب نکلنا ہے ؟ " سلیوٹ کرنے کے بعد اس نے سوال کیا 

" میں آپ کو نکلنے سے پہلے انفارم کردونگا ابھی میں اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوں ۔" موحد نے سنجیدگی سے اسے دیکھا 

" یس سر ، اوکے سر ۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا 

انسپکٹر خالد ابھی موحد کے کمرے سے نکلا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا اس نے چور نظروں سے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے فون کان سے لگایا اور تھانے سے باہر نکل گیا 

" میں نے منع کیا تھا کہ مجھے فون مت کرنا تم لوگوں کی سمجھ میں بات کیوں نہیں آتی ۔۔" وہ غصہ دباتے ہوئے بولا 

" اوئے انسپکٹر اب تو ہمیں بتائے گا کہ کب اور کیا بات کرنی ہے ؟ " ایک بھاری آواز ابھری 

" شیخ صاحب آپ ۔۔۔" وہ چونکا 

" ہمارے آدمی کو لے کر وہ ایس پی پشاور کیلئے  کب نکل رہا ہے ؟ " 

" سر کچھ پتہ نہیں اس نے ابھی تک کوئی وقت نہیں بتایا ہے لیکن آپ بیفکر رہیں وہ جیسے ہی نکلے گا آپ کو اطلاع کردی جائیگی ۔۔" انسپکٹر خالد نے مودبانہ انداز میں جواب دیا 

اس کی بات سنتے ہی دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا تھا ۔

_____________________________________________

میجر احمد نے بڑی مشکل سے سرمہ خان کی بکواس پر اپنا غصہ ضبط کیا تھا ۔

" او گلاب خاناں ناراض کیوں ہوتا ہے ام اس باجی کو چھوڑ دیگا بس تم غصہ مت کرو دیکھو تو تمہارا دونوں گال بھی لال ہوگیا ہے واللہ واللہ کیا سرخی ہے  ۔۔۔" اس نے محبت سے احمد کو دیکھا 

"اوئے خبیثوں باجی کو چھوڑ دو ۔۔۔" سرمہ خان نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت دی جنہوں نے فوراً قانتا کو چھوڑ دیا سرمہ خان چلتا ہوا قانتا کے پاس آیا جو اپنے برقعے کی جالیوں سے اسے گھور رہی تھی 

" دیکھو برقع والا باجی ام تم کو صرف اپنا گلاب خاناں کے صدقے میں چھوڑ رہا ہے اب تم جلدی سے اپنا علاقہ بتاؤ امارا ساتھی لوگ تمہیں چھوڑ آئیگا ۔۔" 

" برقع باجی آپ گھبرائیں نہیں اس کو گلاب خان سے بہت محبت ہے اس لئیے آپ محفوظ ہیں بس جلدی سے اپنا پتہ بتائیں تاکہ آپ اس جھنجھٹ سے نکل کر اپنے گھر پہنچ سکیں۔ " دلاور نے سنجیدگی سے اسے سمجھایا 

" کانٹا خان تم بہت سمجھداری والا باتیں کرتا ہے ۔" سرمہ خان نے تائید کی 

اس سے پہلے قانتا کچھ کہتی سرمہ خان کا فون بج اٹھا اور مغنیہ کی تیز آواز میں رنگ ٹیون ابھری 

" پشاور سے میری خاطر دنداسہ لانا ۔۔" 

سرمہ خان نے ناگواری سے فون نکالا اور زلمے خان کا نمبر دیکھ کر فوراً فون کان سے لگایا 

" اچا اچا ام ابھی نکلتا ہے شام تک کابل پہنچ جائیگا ۔۔" سرمہ خان نے پوری بات سن کر جواب دیا قانتا کابل سنتے ہی الرٹ ہوگئی تھی 

"اسماعیل ۔۔۔"سرمہ خان نے اپنے ساتھی کو پکارا 

"جی خان حکم ۔۔۔"

"بڑا والا گاڑی نکالو ام آتا ہے ۔۔۔"اسے ہدایات دے کر وہ قانتا کی طرف مڑا 

" دیکھو برقع  باجی اب جلدی سے اپنا پتہ بتاؤ ام تم کو گھر بھیج کر اپنے گلاب خان سے ملاقات کریگا پھر ام کو سفر پر بھی نکلنا ہے تھوڑا امارے حال پر رحم کرو جلدی سے ادر سے اپنے گھر جاؤ تمہارا گھر والا اور بچہ لوگ پریشان ہورہا ہوگا  ۔۔۔" سرمہ خان نے اسے سمجھایا 

"میرا گھر تو کابل میں ہے ادھر بارڈر پار رشتہ داروں کے ساتھ شاپنگ کیلئے آئی  تھی آپ مجھے کابل چھڑوا دو ۔۔۔" قانتا دھیمے لہجے میں بولی 

"باجی  ویسے تو تم  پورا بم ہو اور آواز اتنی ہلکی ۔۔۔جاؤ اسماعیل خان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر امارا انتظار کرو ام ابی اپنے گلاب خان سے مل کر آتا ہے ۔۔" قانتا تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے سرمہ خان کے آدمی کی نگرانی میں باہر نکل گئی 

" گلاب خاناں یاراں ام کو ابی کام سے جانا ہے پر تم فکر مت کرنا یہ لوگ تمہارا خیال رکھیں گئے ام بی دو دن میں واپس جائے گا ۔ پھر پشاور بھی جانا ہے اس نے  اپنی دانست میں احمد کو تسلی دی اور کمرے سے نکلتے نکلتے پھر رکا 

"تم کو امارا یاد  تو آئیگا  یہ امارا نشانی نسوار رکھ لو  ۔۔" 

" گلاب خان ام پشاور سے تمہارا واسطے کیا لائے ؟؟ " وہ دروازے پر کھڑا بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا ۔

اس نے ابھی تک کسی کو بھی اپنی پشاور روانگی کا وقت نہیں بتایا تھا وہ اچھی طرح سے یہ بات جانتا تھا کہ  مجرم  کو بچانے کیلئے ان کی تنظیم کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا شام کے چار بجنے والے تھے وہ اپنی کیپ اٹھاتے ہوئے اٹھا اور اپنے آفس سے باہر نکلا باہر کھڑے اردلی نے اسے دیکھتے ہی سلیوٹ مارا وہ اشارے سے جواب دیتے ہوئے تھانہ سے باہر نکلا ہی تھا کہ انسپکٹر خالد اسے دیکھ کر چونکا اور تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا 

" سر آپ اس وقت پشاور کیلئے  نکل رہے ہیں ؟ " 

" کیوں کوئی پرابلم ہے ؟ " موحد نے اسے گھورا 

"نو سر میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا دیر بہت ہوگئی ہے راستے میں رات ہو جائیگی  ۔۔" انسپکٹر خالد اپنے ماتھے پر سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا 

"بات تو تمہاری ٹھیک ہے ، اسی لئیے ابھی گھر جا رہا ہوں ۔۔۔" وہ انسپکٹر خالد کو بغور دیکھتے ہوئے بولا 

" تو پھر پشاور کب جائینگے ؟ پرسوں تو اس کی پشاور ہائی کورٹ میں پیشی ہے ۔" 

" میں کل صبح دس بجے تک ملزم کو لے کر روانہ ہونگا عدالت کے وقت سے پہلے ہم پشاور میں ہونگے ۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتے ہوئے اپنی جیپ کی طرف بڑھا

موحد کے جاتے ہی انسپکٹر خالد نے سکون کی سانس لی اور چور نظروں سے چاروں جانب دیکھتے ہوئے اپنا سیل فون نکالا 

" جناب ایس پی موحد کل صبح دس بجے آپ کے بندے کو لیکر روانہ ہوگا اب آپ کسی چیک پوسٹ پر اسے روک کر اپنا بندہ چھڑوا سکتے ہیں ۔۔" وہ پوری تفصیلات بتا رہا تھا ۔

____________________________________________

موحد تھانے سے نکل کر سیدھا دادی اور علیزے سے ملنے کا ارادہ کرتے ہوئے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوچکا تھا ایک پوش علاقے میں بنے اس عالیشان بنگلے کے چوکیدار نے موحد کی جیپ دیکھتے ہی سلام کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا تھا وہ جیپ سے اتر کر کیپ ہاتھ میں لیتے ہوئے اندر داخل ہوا سامنے ہی لاؤنچ میں  علیزہ اور دادی کی محفل جمی ہوئی تھی دادی تخت پر بیٹھی ہوئی تھی اور ان کے پیروں کے پاس قالین پر علیزے منھ بنائے بیٹھی تھی اس کے لمبے سیاہ بال کھلے ہوئے اس کی پوری پشت کو ڈھانپے ہوئے تھے اور دادی اس کے سر میں تیل لگانے کا فریضہ انجام دے رہی تھیں 

" اسلام علیکم ! " موحد نے بآواز بلند سلام کیا 

" وعلیکم السلام ارے میرا بیٹا آیا ہے ۔۔۔" وہ اسے دیکھ کر خوش ہوگئیں 

" جی دادی پشاور کیلئے نکل رہا تھا سوچا آپ سے ملتا جاؤں ۔۔۔" وہ دلچسپی سے علیزے کو دیکھتے ہوئے بولا 

موحد کی بھاری آواز سن کر علیزے نے چونک کر اس کی سمت دیکھا جو پولیس یونیفارم میں کیپ ہاتھ میں لئیے مردانہ  وجاہت کا شاہکار نظر آرہا تھا پھر اس کی پرشوق نظریں خود پر مرکوز دیکھ کر وہ سٹپٹا گئی اور تیزی سے اپنے بال سمیٹ کر تخت پر رکھا دوپٹہ اٹھا کر سلیقے سے اوڑھا 

" علیزے جاؤ موحد کیلئے اچھی سی چائے کا اہتمام کرو ۔۔" دادی نے علیزے کو حکم دیا وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔

موحد نے انہیں اپنی روانگی سے لے کر مشن تک کی ساری باتیں بتا دی تھیں ۔

" موحد بیٹا میرا دل تو احمد اور تمہارے درمیان اٹکا رہتا ہے اللہ تم  دونوں بھائیوں کو اپنی امان میں رکھے بس اب کے میں نے کچھ نہیں سننا تم خیریت سے واپس آجاؤ تو کم از کم میں تمہاری خوشی تو دیکھ لوں ،احمد کی تو آواز سنے بھی  ہفتہ  ہوگیا ہے   ۔۔" وہ سنجیدگی سے بولیں

" اماں آپ شہید کی بیوہ اور ماں ہیں آپ جیسی مائیں اس سرزمین کا اثاثہ ہیں مت پریشان کیا کریں دل کو میں احمد  بھائی کو میسج بھیج دونگا وہ موقع ملتے ہی آپ کو فون کرلینگے آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔"موحد نے پیار سے ان کا ہاتھ تھاما 

" احمد کی تو بات ہی مت کرو اللہ جانے کب شادی کیلئے ہامی بھرے گا لیکن تم کان کھول کر سن لو میں نے اسی سال علیزے کو تمہارے ساتھ رخصت کردینا ہے ۔۔" انہوں نے دو ٹوک لہجے کہا 

" پر دادی ماں علیزے ابھی چھوٹی ہے اسے گریجویشن تو کرنے دیں ۔۔۔" وہ پریشان ہوا 

" شادی کے بعد پڑھا لینا ، دیکھو موحد خوشیاں جتنی ملیں سمیٹ لینی چاہئیے وقت کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا ہاں اگر تمہں  اعترض ہے تو بولو ۔۔۔"انہوں نے عینک کی آڑ سے اسے دیکھا 

" میں بھلا کیوں اعترض کرونگا ؟ لیکن احمد بھائی نہیں مانیں گے اور اماں ایسے اچھا تھوڑی لگتا ہے کہ بڑا بھائی کنوارا ہو اور چھوٹے کی شادی ہوجائے   ۔۔۔" موحد نے مشروط  ہامی بھری 

" احمد نے تو اپنی وردی سے شادی کرلی ہے آ لینے دو اسے  اس بار  ، میجر بن گیا ہے اب کیا بوڑھا ہو کر بیاہ رچائے گا ۔۔۔" دادی خاصی بھری بیٹھی تھیں 

" دادی ماں آپ جو چاہیں کریں میں حاضر ہوں بس علیزے کی مرضی ضرور پوچھ لیجئے گا ۔۔۔" موحد نے ان کے کندھوں کو پیار سے دبایا 

" علیزے تم دونوں بھائیوں کی طرح نہیں ہے بہت تابعدار بچی ہے ، اس سے تم خود بھی اس کی رائے پوچھ سکتے ہو ۔" وہ کھڑی ہوئیں

" دادی میں راضی ہوں آپ جب چاہیں رخصتی کردیں مجھے کوئی اعترض نہیں ہے کہیں تو آج ہی لے جاتا ہوں  اور  نہ ہی مجھے  علیزے سے پوچھنے کی ضرورت ہے  ۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا

" جیتے رہو جگ جگ جیو !! اب بس احمد کو لکھ بھیجو اس ماہ کے آخر تک آجائے میں رخصتی کی تیاری شروع کرتی ہوں ۔۔۔" وہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں 

" نماز کا وقت ہورہا ہے پتہ نہیں یہ لڑکی چائے بنانے میں اتنا وقت کیوں لے رہی ہے میں دیکھتی ہوں ۔۔۔" 

" دادی آپ نماز پڑھ لیں میں علیزے کو چیک کرتا ہوں پھر چائے ساتھ پئیے گئے ۔" وہ انہیں روکتا ہوا خود کچن کی طرف بڑھا

___________________________________________

 ویسے تو گھر  میں مالی چوکیدار اور ایک کام کرنے والی ، سب  موجود تھے لیکن کھانا پکانے کا کام دادی کو ملازمین سے کروانا پسند نہیں تھا وہ خود بھی ایکٹیو تھیں اور اب تو علیزے بھی کچن سنبھال لیتی تھی ۔  دادی سے بات کرنے کے بعد وہ علیزے کو دیکھنے کے لیے سیدھا کچن میں آگیا جہاں علیزے بڑے انہماک سے اس کے لئیے چائے اور لوازمات ٹرے میں سیٹ کر رہی تھی ۔

" کیسی ہو ؟ " اس کی گھمبیر آواز گونجی 

علیزے  اس کی آوز پر پلٹی 

"آپ میں بس چائے لا ہی رہی تھی ۔۔۔" وہ اوون سے کیک نکالتے ہوئے بولی 

" یار میں کیا مہمان ہوں ؟ اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔" وہ ٹرے میں رکھے لوازمات کباب فروٹ چاٹ سینڈوچز پر نظر دوڑاتے ہوئے بولا 

" آپ سیدھا آفس سے ادھر آئے ہیں مجھے پتہ ہے آپ نے لنچ بھی نہیں کیا ہوگا ۔۔" وہ رسان سے بولتی ہوئی اس کی فکر کرتی سیدھا اس کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی 

" بس ابھی نکلنا تھا تو دادی کو سلام کئیے بغیر ، تمہارا چہرہ دیکھے بغیر  کیسے جا سکتا تھا ۔۔۔" وہ کباب اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے بولا 

" آپ کہیں جارہے ہیں ؟ " علیزے نے دھیرے سے پوچھا 

" ہاں ایک اہم کام سے پشاور کیلئے نکلنا ہے سوچا جاتے جاتے تمہارے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے بنی چائے پیتا جاؤں ۔۔۔" وہ بولتے ہوئے نزدیک آیا اور ٹرے علیزے کے ہاتھوں سے لے کر اسے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے باہر نکلا

 لاؤنچ  کے پاس پہنچ کر ٹرے تخت پر رکھی اور خود بھی بڑے اطمینان سے سامنے پڑے صوفے پر پیر پسار کر بیٹھ گیا ۔

" دادی کدھر گئیں ؟ " علیزے نے چاروں طرف دیکھا 

" وہ نماز پڑھنے گئی ہیں ابھی آتی ہونگی تم بیٹھو ۔۔۔" وہ ریلیکس انداز میں اپنی نظریں اس کے صبیح چہرے پر جماتے ہوئے بولا 

" میں نماز پڑھ کر آتی ہوں ۔۔۔" وہ اس کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر ہاتھ مسلتے ہوئے بولی 

" ابھی خاصا وقت ہے میرے جانے کے بعد پڑھ لینا ۔۔" موحد نے  قریب آکر اس کا نازک ہاتھ تھام کر اسے صوفے پر بٹھایا ۔

علیزے کو آج موحد کی بار بار خود پر اٹھی نظریں کچھ اور ہی رنگ اور جذبات سے بھری ہوئی محسوس ہو رہی تھیں وہ سر جھکائے بیٹھی اپنے  ہاتھ مسل رہی  تھی 

" علیزے ۔۔۔۔" موحد کی گھمبیر آواز گونجی 

" جی ۔۔۔۔" اس نے سر اٹھایا اور اس کی بھرپور توجہ خود پر مرکوز دیکھ کر فوراً سر جھکا لیا 

" میں اب تم سے الگ نہیں رہ سکتا ، بچپن سے تمہیں چاہتا آرہا ہوں میری محبت سے تم بھی انجان تو نہیں ہو  بولو جانتی ہو نہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں ؟؟ " وہ اس کے جھکے سر پر نظریں جمائے پوچھ رہا تھا

 علیزے کے چہرے پر اترتے دھنک کے دلکش رنگوں  سے وہ ہرگز بھی انجان نہیں تھا

" تمہیں اندازہ بھی ہے تم کتنی خوبصورت ہو ،  کتنی دلکش ، کتنی معصوم ہو ؟  کس طرح سے مجھ جیسے بندہ بشر کے دل میں اندر تک  اتر کر وار کرتی  ہو  ۔۔۔" وہ سوال کررہا تھا علیزے کو اپنے اندر کپکپاہٹ سی اٹھتی محسوس ہوئی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھ کر بھاگ جائے 

" میں نے تمہارے لئیے ایک گفٹ لیا تھا اس رات دینا ہی بھول گیا ۔۔۔" اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پازیب نکالی 

" یہ میں تمہیں خود پہنانا چاہتا ہوں اجازت ہے ؟ " اس نے علیزے کی جھکی ہوئی نظروں کے آگے پازیب لہرائی 

وہ سٹپٹا کر رہ گئی آج تک موحد نے اس سے اس طرح بات نہیں کی تھی ۔کبھی اپنے جذبات یوں عیاں نہیں کئیے تھے ۔موحد نے علیزے کی جھکی لرزتی پلکوں کو بغور دیکھتے ہوئے دھیرے سے جھک کر علیزے کے نرم و نازک  سفید  پیروں میں وہ بیش قیمت باریک  سی پائل باری باری پہنائی اور پھر سیدھا ہوا 

" تمہارے انٹر کے فائنل امتحان کب ہیں ؟ " 

" چار ماہ بعد ! کیوں ؟ " وہ حیران ہوئی 

" میں نے دادی سے اس ماہ کے آخر میں تمہیں رخصت کرانے کی ہامی بھر لی ہے تم بھی اپنا مائنڈ سیٹ کرلو ، امتحان اب تم رخصتی کے بعد ہی دینا ۔ اب جاؤ اور دادی کو بھیج دو  ۔۔" وہ نرمی سے  اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتا ہوا پیچھے ہٹا 

علیزے اجازت ملتے ہی اپنے تیزی سے دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے  کمرے سے باہر نکل گئی ۔

_____________________________________________

تین دن ہوچکے تھے میجر احمد اور ایجنٹ دلاور نے اب تک اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا وہ آج ان کی تلاش میں نکلنے کا اردہ کر چکا تھا جب اس کے فون پر پلوشہ کا میسج آیا ۔

" زلمے تایا ابھی زبیر لالہ کے ساتھ  کابل کیلئے نکل رہے ہیں اور وہ رات والا ہندوستانی آدمی بھی ان کے ساتھ ہے انہوں نے ڈالر سے بھرا بریف کیس بھی پجیرو میں پچھلی  سیٹ کے اندر چھپایا ہے  ۔۔۔۔" 

کیپٹن حمید پلوشہ کا میسج دیکھ کر چونک گیا زلمے خان کا اس طرح بارڈر کراس کرنا یقیناً کوئی بڑی بات تھی 

" مجھے زلمے خان کی گاڑی کا رنگ ماڈل اور نمبر بتاؤ ۔۔ " اس نے جوابی ٹیکسٹ کیا اور اپنا ریوالور جیب میں رکھتے ہوئے باہر نکلا سرمئی ملگجے قمیض شلوار میں آنکھوں میں سرمہ ڈالے بال بکھرائے وہ پکا نشئی لگ رہا تھا اب اس کا رخ بارڈر کے راستے پر تھا جہاں سے زلمے خان نے گزرنا تھا 

کچھ ہی دیر میں اس کی اسکرین پر زلمے خان کی جیپ کی تصاویر آگئی تھیں ۔جنہیں دیکھ کر اس کے چہرے پر کرختگی چھا گئی اور اس نے پلوشہ کو فون ملایا 

" تمہیں میں نے فیلڈ ورک سے  منع کیا تھا ، کیا تھا کہ نہیں ؟؟" وہ سختی سے فون ملتے ہی  بولا 

" اتنا ناراض کیوں ہو رہے ہو ؟ میں نے تو بس  اپنے کمرے کی کھڑکی سے تصویریں کھینچی ہیں ہاں اب ذرا زلمے تایا نکل جائیں تو مہمان خانے کی جا کر تلاشی لونگی ۔۔" وہ پردہ برابر کرتی ہوئی کمرے میں پڑی آرام کرسی پر بیٹھ گئی 

" پلوشہ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو اس سب میں تمہاری جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے جو میں افورڈ نہیں کرسکتا ۔۔۔" وہ جھنجھلا اٹھا 

" کیپٹن حمید !! میری جان کی پرواہ مت کرو زلمے تایا مجھے بہت پیار کرتے ہیں وہ کبھی بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔" پلوشہ کے لہجے میں اپنے تایا کی محبت کا  مان تھا 

" پلوشہ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں !! جو اپنی زمین کا نہیں وہ کسی کا نہیں ہوتا بس اب تم مزید کچھ نہیں کروگی اور واپس لاہور جا کر یونیورسٹی جوائن کرو ۔۔۔" وہ سختی سے بولا 

" تم کیوں فضول میں میرے ابا بن رہے ہو ؟ میں نے کہا نا کہ جب تک یہ کیس ۔۔۔۔۔۔۔" وہ بول ہی رہی تھی کہ کسی نے اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا ۔۔۔

_____________________________________________

زلمے خان جیپ میں اپنی نگرانی میں سامان رکھوا رہا تھا جب اسے جیپ کے سائیڈ مرر میں اوپر کمرے سے جھانکتی پلوشہ دکھائی دی ۔۔

بچپن سے ہی پلوشہ وہ جب بھی کہیں جاتا تھا اسے خداحافظ کہنے کھڑکی میں کھڑی ہوتی تھی اور اس وقت تک کھڑی رہتی تھی جب تک اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتی تھی ۔وہ مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ ہلانے کیلئے پلٹ ہی رہا تھا کہ پلوشہ نے فون سے تصویر کھینچی زلمے خان کی رگیں تن گئی تھی وہ زبیر کو ہدایات دیتے ہوئے واپس حویلی کے اندرونی رہائشی حصے کی طرف بڑھا اس کا رخ سیڑھیوں کی جانب تھا 

" زلمے ابھی نکلے نہیں تم ؟؟ " مورے نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا 

مگر وہ کوئی جواب دئیے بغیر سیڑھیاں چڑھ کر سیدھا پلوشہ کے کمرے کے دروازہ پر پہنچا اور آہستگی سے دروازہ کھولا وہ کرسی پر بیٹھی کسی سے فون پر باتوں میں مگن تھی پلوشہ کی پشت اس کی سمت تھی ۔۔

" کیپٹن حمید !! میری جان کی پرواہ مت کرو زلمے تایا مجھے بہت پیار کرتے ہیں وہ کبھی بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔"

زلمے تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس پہنچا اور فون اس کے ہاتھوں سے چھین لیا 

"ہیلو پلوشہ ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔۔" کیپٹن حمید کی بیقرار سی آواز گونج رہی تھی 

" تایا ابو وہ میں ۔۔۔۔۔" پلوشہ گڑبڑا کر کھڑی ہوگی 

زلمے خان نے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور اپنی جیب سے پستول نکال کر اس کی کنپٹی پر رکھی 

" تایا ابو ۔۔۔۔" پلوشہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا اور یہ اس کی آنکھوں کا آخری منظر تھا زلمے خان نے ٹریگر دبا دیا تھا پلوشہ کے سر میں سوراخ ہوچکا تھا روح قفس عصری  سے پرواز کرچکی تھی بے جان لاشہ اپنے ہی خون میں نہایا ہوا تھا ۔

گولی کی آواز سن کر مورے تائی اماں زبیر سب بھاگے ہوئے اندر آئے اور سامنے کا منظر دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئے مورے نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا 

" اس کا غیر مرد سے تعلق تھا جس کا امارا مذہب اجازت نہیں دیتا  اس کو دفنانے کا انتظام کرو ۔۔۔۔" زلمے خان نفرت  سے کہتا ہوا اپنے ہاتھ میں پکڑے فون کو نفرت سے دیکھتے ہوئے بند کرگیا ۔

_____________________________________________

سارا شہر بلکتا ہے 

پھر بھی کیسا سکتہ ہے 

گلیوں میں بارود کی بو 

یا پھر خون مہکتا ہے 

سب کے بازو یخ بستہ 

سب کا جسم دہکتا ہے 

ایک سفر وہ ہے جس میں 

پاؤں نہیں دل تھکتا ہے 

(احمد فراز )

فون بند ہو چکا تھا تھا وہ شاکڈحالت  میں فون کو دیکھ رہا تھا پلوشہ شہید ہوچکی تھی ، اسے زلمے خان پر  اس کا حد سے زیادہ  اعتبار لے ڈوبا تھا ۔  

کیپٹن حمید کی آنکھ سے ایک پانی کا شفاف قطرہ گرا اور اس کی گھنی داڑھی میں گم ہوگیا وہ اس وطن کا محافظ تھا مار خور تھا  اور ان مار خوروں کو  اس راہ میں رکنے کی ، قیام کرنے کی اجازت نہیں تھی ، ان کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ ہے شہادت ، شہید کی موت ہی اس کے وطن عزیز کی زندگی کی نوید ہوتی ہے اور وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا ۔

 اس نے دونوں ہاتھ بلند کرکے پلوشہ کیلئے دعائے مغفرت کی ،اب اس کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی چھا گئی تھی پلوشہ کی قربانی کو وہ ہرگز بھی رائیگاں نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنا ارادہ بدل دیا تھا گاڑی وہی چھوڑ کر اس نے جھاڑیوں میں چھپی اپنی کھٹارا موٹر سائیکل نکالی اور پشین کے بدنام زمانہ چائے خانہ کی طرف اپنا رخ کیا لب بھینچے چہرے پر کرختگی لئے وہ چائے خانہ کے نزدیک پہنچا موٹر سائیکل وہی چھوڑ کر اس نے جیب سے شراب کی بوتل نکال کر خود پر چھڑکی منہ میں نسوار ڈالی اوراب اس کے چہرے پر ایک نشہ سا تھا ساری کرختگی پتھریلا پن کہیں دور جا سویا تھا مار خور جاگ گیا تھا وہ اپنے گلے میں پڑے مفلر کو اتار کر سر پر شیشے کی ٹوپی سجا کر چائے خانہ کے اندر داخل ہوا ۔

" اوئے منصور خاناں کدر تھا تم ؟  ۔۔۔ " چائے خانہ کا مالک اسے دیکھ کر پرجوش ہوا 

" او یارا اتنے دن سے غائب تھا پنجہ لڑانے بھی نہیں آیا چل آج ایک میچ ہوجائے ۔۔۔" کئی پشتون اسے دیکھ کر خوش ہوئے 

" امارے کو کام چاہئیے ۔۔۔۔" کیپٹن حمید چائے خانے کے مالک  زمین خان کی آنکھوں میں جھانک کر بولا 

" کام  کیسا کام ؟؟ تم کب سے کام کرنے لگا ؟ ۔۔۔۔" زمین خان نے مذاق اڑایا 

" ام کو پیسہ چاہئیے ڈھیر سارا کام دیتا ہے تو بولو ورنہ ام پشاور جا کر کوئی کام دھندا ڈھونڈے گا تم بھی پنجہ لڑانے والا کوئی اور آدمی ڈھونڈ لینا  ۔۔۔" 

" یارا تم کو سوائے لڑائی جھگڑے اور نشہ کرنے کے اور کچھ آتا ہے ؟ ۔۔۔" زمین خان نے سوال کیا 

" ام سب کرسکتا ہے گاڑی چلا لیتا ہے بندہ مار سکتا ہے چوری کرسکتا ہے ۔۔۔۔" کیپٹن حمید عرف منصور خان نے سینہ پھلایا 

" اتنا پیسہ کا کیا کریگا ؟ " 

" اماری محبوبہ کا باپ سے رشتہ مانگا  ہے جرگہ نے چالیس لاکھ ادا کرنے کو کہا ہے اب ام چالیس لاکھ کہاں سے لائے پنجہ لڑا کر تو نہیں ملیگا اتنا رقم ۔۔۔" 

" اوہ شادی کا معاملہ ہے ٹھیک ہے ٹھیک ہے ام مدد کریگا تم رکو ام ابھی آیا ۔۔۔" زمین خان اسے وہی بیٹھنے کا اشارہ کرکے اندر آیا اور دروازہ بند کرکے اس نے اپنا فون نکالا ۔

" سلام سردار ۔۔۔۔" فون ملتے ہی وہ خوشامدانہ انداز میں بولا 

" کہو کیوں فون کیا ہے ؟ " 

" سردار امارا ایک آدمی ہے اسے کام چاہئے بہت وفادار اور اچھا آدمی ہے پیسے کیلئے کچھ بھی کریگا ۔۔۔" 

" بھروسہ کا قابل ہے ؟ " 

" جی سردار پکا بھروسہ والا آدمی ہے لڑائی جھگڑے کا ماہر ہے امارا چائے خانہ میں پنجہ لڑاتا ہے ام اس کو دو سال سے جانتا ہے ۔۔۔" 

" ٹھیک ہے ڈیرے پر بھیج دو اور یاد رکھنا اگر غلط آدمی نکلا تو ام تمہارا لاش الٹا لٹکا کر جانوروں کو کھلائے گا ۔۔"

" سردار امارا بات پر یقین کرو اور وہ سردار  تھوڑا خیال بھی کرو امارا  آدمی بھیجنے کا امارا حصہ ۔۔" وہ لالچی انداز میں آنکھیں مٹکاتے ہوئے اپنا حصہ مانگ رہا تھا 

فون بند کرکے زمین خان کمرے سے باہر نکلا جہاں سامنے ہی منصور خان بیٹھا ہوا تھا 

" ام نے تمہارا نوکری کا بات کیا ہے بس تم وفاداری سے کام کرنا امارا سردار اگر تمہارے کام سے خوش ہوا تو چالیس لاکھ کیا تم کڑوڑ کمائے گا ۔۔۔" زمین خان نے اسے خوش خبری سنائی 

" ام تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولے کا زمین خاناں ۔۔۔" 

" احسان چھوڑو بس جب پیسہ آجائے تو امارے کو دو لاکھ دے دینا اب تم سرادر کے ڈیرے پر چلا جاؤ وہ انتظار کرتا ہے ۔۔۔" 

" سردار کا نام اور ڈیرہ تو بتاؤ کدھر ہے ۔۔۔" 

" زلمے خان کا نام سنا ہے ؟؟ " 

"سردار  زلمے خان کو کون نہیں جانتا ام کو پتہ بتا دو ام چلا جائیگا ۔۔۔" کیپٹن حمید نے سنجیدگی سے کہا 

زمین خان نے اسے زلمے خان کا پتہ بتایا اور کیپٹن حمید اپنے پلان کی کامیابی پر سر ہلاتے ہوئے زلمے خان سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا ۔

زلمے خان کے ساتھیوں میں شامل ہو کر اس ملک دشمن عناصر  کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کرنے کا وقت آگیا تھا ۔

___________________________________________

شام ڈھل گئی تھی سات بجتے ہی موحد دادی ماں سے اجازت لیکر گھر سے نکلا اب اس کا رخ تھانے کی طرف تھا  اسے اس وقت تھانے میں دیکھ کر حوالدار ، سب انسپکٹر سب حیران رہ گئے ۔

" سلام سر ۔۔۔۔" حوالدار نے سلیوٹ کیا 

" آپ اس وقت سر ؟ سب ٹھیک تو ہے ۔۔۔" سب انسپکٹر نے سوال کیا 

" یس سب ٹھیک ہے آپ لوگ ادھر فارغ بیٹھے کیا کررہے ہیں ؟ پٹرولنگ پر نکلیں ۔۔۔" موحد نے سب انسپکٹر کو گھورا 

ان سب کے نکلتے ہی وہ سیدھا اسپیشل سیل کی طرف بڑھا اور اندر بند بم دھماکہ کے ملزم کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکال کر باہر کھڑی بکتر بند گاڑی میں لاکر بٹھایا اس کے ہاتھ گاڑی کی  راڈ کے ساتھ ہتھکڑی لگا کر باندھ دئیے تھے ۔

" نذیر کوشش کرنا میرے جانے کی اطلاع کسی کو بھی صبح سے پہلے نہیں ملے ۔۔۔" اس نے انچارج کو جو اس کا قابل اعتماد ساتھی تھا ہدایات دیں 

چاروں جانب اچھی طرح چیک کرنے کے بعد موحد بکتر بند گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آرام سے بیٹھا اور پشاور کیلئے نکل پڑا ۔اٹھارا گھنٹے کا سفر تھا وہ فل اسپیڈ سے گاڑی دوڑانا شروع کر چکا تھا ۔

______________________________________________

سرمہ خان بڑے پیار سے گلاب خان کو دیکھ رہا تھا 

" او دلدارا شرماؤ مت ام کو بتاؤ ام تمہارے لئیے پشاور سے کیا لائے ؟؟ " سرمہ خان نے اپنی بات دہرائی 

" سر اتنے پیار سے پوچھ رہا آپ اس سے اور کچھ نہیں تو دنداسہ تو منگوا ہی لو بڈھا خوش ہو جائے گا ۔۔" دلاور نے سنجیدگی سے سرگوشی کی 

" سرمہ خان ہم ادھر اکیلا رک کر کیا کریگا ؟  ہمیں بھی تمہارے ساتھ کابل جانا ہے ۔۔۔" میجر احمد نے اپنے ہاتھ رسی سے نکالتے ہوئے کہا 

" اوئی قربان ! تم کو ام سے بھی زیادہ جلدی ہے ۔۔۔" سرمہ خان کی بانچھیں کھل گئی 

" عشق چیز ہی ایسی ہے سب کو گدھا بنا دیتی ہے ۔۔۔" دلاور بڑبڑایا 

" چلو جلدی کرو یاراں ام ابھی نکلے گا تو جلدی سے کابل  پہنچے گا اور کام ختم کرکے تم کو اپنا پیرس گھمائے گا ۔۔۔" سرمہ خان نے میجر احمد کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا جو دلاور کی رسی کھول رہا تھا

"سر یہ تو پورا ہنی مون پلان کررہا ہے ۔۔۔" دلاور نے احمد کے تپے ہوئے چہرے کو دیکھا

" بکواس بند کرو ۔۔" میجر احمد دھیمے لہجے میں غرایا

" خوچہ کانٹا خان تم کیا بول رہا ہے ؟ " سرمہ خان نے مشکوک نظروں سے دلاور کو گھورا 

" سرمہ خان ام بس گلاب خان سے اس کا پاسپورٹ کا پوچھ رہا تھا ۔۔" 

" امارے ساتھ ہوتے کوئی پاسپورٹ ویزا کی فکر  نہیں ہے ام ہے نا اپنے گلاب خان کا پاسپورٹ ۔۔۔"سرمہ خان نے فخر سے اپنا سینہ پھلایا

" تو کیا پیرس بنا پاسپورٹ بس تمہارا شکل دکھا کر جاسکتے ہیں ؟ " ایجنٹ دلاور نے بھول پن کی حد کردی 

" کون سا پیرس کی بات کرتا ہے ؟ " سرمہ خان نے اسے گھورا 

" ابھی تو تم نے گلاب خان کو ہنی مون پر ہیرس لے جانے کا بولا ہے ۔۔" 

" ہنی مون ۔۔ " سرمہ خان کا چہرہ کھل اٹھا تو دوسری طرف احمد نے بڑی مشکل سے اپنے غصہ پر قابو پایا 

" کابل میں بس دو تین گھنٹے کا کام ہے پھر ام لانگ ڈرائیو کر کے گانا سنتے ہوئے پیرس جائیگا بولو گلاب خان چلو گے امارا ساتھ ؟ادر کا نسوار واللہ کمال ہے  ام تم کو شاپنگ بھی  کروائے گا اور ادر ہوٹل میں  ٹھہرے گا ۔۔ " سرمہ خان نے اپنی دانست میں میجر احمد کو سہانے خواب دکھائے 

" پیرس میں نسوار ۔۔۔۔" دلاور کو پھندا لگ گیا 

" تم امارا مذاق اڑاتا ہے ؟ " سرمہ خان نے اپنی پستول دلاور کی سمت کی 

" نہیں میں تو بس لانگ ڈرائیو کر کے پیرس جانے کا سوچ سوچ کر ہوا میں اڑ رہا ہوں ویسے کابل سے پیرس کتنی دور ہے ؟ کیا میں بھی چل سکتا ہوں ۔۔ " 

" دیکھو خوچہ ام پہلے بول چکا ہے سرمہ خان کی محبت ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتی ام تم کو کباب میں ہڈی بنا کر نہیں لے جائیگا ، ام تم کو کابل میں چھوڑے گا پھر ام اور امارا گلاب خان پیرس جائے گا۔"  سرمہ خان ایک  آنکھ بند کرکے بولا 

" سرمہ خان مجھے اپنا مرید بنا لو اور  بس اتنا بتادو کابل سے پیرس لانگ ڈرائیو پر کیسے جاؤگے بیچ میں جو سمندر پڑے گا اسے گاڑی میں کیسے پار کرو گے ؟ " ایجنٹ دلاور ابھی تک پیرس پر اٹکا ہوا تھا

"سمندر ؟ کانٹا خان تم پاگل ہے کیا ؟ کابل سے قندھار کے بیچ سمندر کدر ہے ؟ " سرمہ خان نے تاسف سے اس کم عقل کو گھورا 

" اب یہ پیرس جاتے جاتے قندھار کدھر سے آگیا ؟ " دلاور نے سر پیٹا

" اپنا قندھار ہی تو امارا پیرس ہے واللہ ادر کی نسوار ادر کی بھیڑیں اور دم پخت واللہ واللہ ۔۔۔" سرمہ خان نے آنکھیں بند کر کے اپنے پیرس کی ہواؤں کو محسوس کیا

" چلو اب دیر مت کرو رات ہورہا ہے لمبا دوسو پچاس میل کا سفر ہے ۔۔" سرمہ خان نے دونوں کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا 

میجر احمد اور ایجنٹ دلاور باہر آئے تو سامنے ہی بڑی جیپ میں اسماعیل خان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا پیچھے برقع خانم آرام سے سیٹ پر ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی ۔

"چلو تم دونوں پیچھے بیٹھو  ۔۔۔" سرمہ خان آگے کا دروازہ کھول کر بیٹھتے ہوئے بولا 

" سر باجی کے پاس آپ بیٹھیں گے یا یہ نیک فریضہ میں انجام دوں ؟ " دلاور نے سنجیدگی سے پوچھا 

ان دونوں کی آواز سن کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی قانتا سیدھی ہوئی ۔

"افف  یہ دونوں کھڑوس بھی ساتھ چلیں گے ۔۔۔" وہ بڑبڑائی 

میجر احمد دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ سرمہ خان کی پیچھے مڑا 

" او برقع والا باجی تم بیچ میں بیٹھو رات کا سفر ہے عورت کا ساتھ ہونا خطرناک ہے ام نہیں چاہتا کوئی اونچ نیچ ہو ام نے گلاب خان سے تمہیں صحیح سلامت تمہارا گھر پہنچانے کا وعدہ کیا ہے ۔ " 

قانتا کھسک کر بیچ میں ہوگئی اب ایک کونے پر دلاور اور دوسرے پر میجر احمد اور ان دونوں کے بیچ میں قانتا اپنا برقع سنبھال کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

___________________________________________

آٹھ گھنٹے تک مسلسل گاڑی چلاتے ہوئے وہ پشاور پہنچ چکا تھا بارہ بجے اس بم دھماکہ کیس کے ملزم کی پیشی تھی جسے چھڑانے کیلئے موحد پر ازحد دباؤ ڈالا گیا تھا پر وہ اپنی عقل و فراست سے کام لیتے ہوئے سب کو ڈاج دے کر اس ملزم کے ساتھ پشاور پہنچ چکا تھا اور اب پشاور ہائی کورٹ کی پارکنگ میں انتظار کررہا تھا ۔ 

پاکستان میں جتنے دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں ان حملوں میں تقریباً  افغانی ملوث  تھے جو پشاور سے آتے جاتے تھے ۔بم دھماکہ ، فوجی گاڑیوں پر حملے ، خود کش دھماکے سب میں زیادہ تر افغانی ملوث تھے ۔جو را کے اشاروں پر ناچ رہے تھے ان کا مقصد ہی پاکستان کو کھوکھلا کرنا بلوچستان کو الگ کرکے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا تھا ۔

دہشت گردی آخر ہے کیا ؟  منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔

حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف و ہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے جبکہ منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں، کارباری برادری، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں۔

وہ بارہ بجنے کا انتظار کررہا تھا پونے بارہ بجے وہ بکتر بند گاڑی سے اترا اور اس نے پیچھے آکر دروازہ کھول کر گردن سے پکڑ کر اس ملزم کو باہر نکالا ۔وہ اسے لے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ  ہائی کورٹ کے باہر غیرقانونی پارکنگ میں سڑک سے گزرنے والے رکشے میں زور دار  دھماکہ ہوا۔ایک افراتفری سی پھیل گئی تھی چاروں طرف دھواں ہی دھواں چیخیں ہی چیخیں تھی بھاگ دوڑ سی مچ گئی ساری سیکیورٹی فورس کی توجہ باہر دھماکے کی  تھی موحد نے ساتھ چلتے ملزم کی گردن ہر اپنی گرفت مضبوط کی اور تیزی سے آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک سنسناتی ہوئی گولی آکر اس کے ساتھ چلتے ملزم کے سر پر لگی اور وہ وہی ڈھیر ہوگیا  موحد نے تیزی سے قلابازی کھا کر خود کو ایک گاڑی کے پیچھے کیا اور جیب سے اپنا سروس ریوالور نکالا وہ عقابی نگاہوں سے چاروں جانب دیکھ رہا تھا یہ سنائپر شاٹ تھا اور حملہ بہت پلاننگ سے کیا گیا تھا اتنی احتیاط کے باوجود دشمن عناصر کو اس کی آمد اور سارا پلان پتہ تھا جو ایک انتہائی خطرناک بات تھی اس بھیڑ میں فائر کہاں سے ہوا ، کس نے کیا پتہ چلانا ناممکن تھا ۔پولیس، ریسکیو اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھیں  اور ہائی کورٹ آنے جانے والے تمام راستے مسدود کر دیے گئے تھے ۔

دھماکے سے قریب کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے موحد خاموشی سے وہاں سے نکل گیا کہ ٹارگٹ صرف ملزم ہی نہیں وہ بھی تھا ۔

                                    *********

کیپٹن حمید زلمے خان تک پہنچ گیا تھا اور اب اس کے ٹریننگ سینٹر میں اسی کے  ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا اس کی تقریر سن رہا تھا ۔

"ہمیں جتنا دبانا تھا یہ لوگ دبا چکے ہیں اب ہمیں اپنا حق خود لینا ہوگا ۔ساتھیوں  ٹھیک دو ماہ بعد ہم اسٹرائیک  کرینگے اور اس بار حملے پوری قوت سے  اور بہت شدید ہونگے اور ان کو ایسی چوٹ پہنچائیں گے کہ انہیں بھی ہمارا دکھ محسوس ہو ہمیں اپنا وطن بنانا ہے اور اس کی راہ میں آنے والی فوج کو ،حکومت کو ہم سبق سکھا کر رہینگے ۔۔" زلمے خان پرجوش انداز میں سب کو ورغلا رہا تھا ان کے اندر پاکستان کے خلاف ، پاک فوج کے خلاف اشتعال پیدا کررہا تھا 

کیپٹن حمید پرسکون انداز میں اس کی تقریر سن رہا تھا زلمے خان جیسے لیڈر کے سر پر نہ جانے کتنے بےگناہ شہریوں کا خون تھا اس نے تو سرداری قائم رکھنے کے لیے اپنے بھائی اور بھتیجی تک کو نہیں چھوڑا تھا لیکن ہر ظلم کا ایک اختتام ہوتا ہے ظالم کہ رسی دراز ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے گلے میں صحیح وقت کا انتظار کررہی ہوتی ہے اب زلمے خان کے حواریوں میں ایک مارخور کا اضافہ ہوچکا تھا جو اسے دردناک موت دینے کا ٹھان کر آیا تھا کہ گرفتار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ان ظالموں کے ہاتھ کافی لمبے تھے ۔اسے رات کا انتظار تھا گہری سیاہ رات جو اپنے اندر بہت سے راز سمیٹ لیتی ہے ۔

رات کے ایک بجے وہ خاموشی سے بستر سے اٹھا دبے پاؤں چلتا ہوا باہر نکلا پوری عمارت سناٹے میں ڈوبی ہوئی تھی باہر رکھوالی کے کتوں کے غرانے کی آوازیں آرہی تھیں اس سے پہلے وہ اس تک پہنچتے وہ ایک جمپ لگا کر دیوار پھلانگ گیا تھا ۔اب اس کا رخ زلمے خان کی حویلی کی طرف تھا۔ 

" وہ دیکھو میرے کمرے کی کھڑکی تمہاری وجہ سے ہمیشہ کھلی رکھتی ہوں ۔۔۔" اس کے ذہن میں پلوشہ کی باتیں گونج رہی تھیں 

" تم بہت کھڑوس ہو کیپٹن ایک تو میں تمہاری اتنی مدد کرتی ہوں اور تم بجائے احسان ماننے کے الٹا اکٹر جاتے ہو ۔۔" ایک یاد ابھر کر اس کی آنکھیں نم کرگئی 

وطن کی راہ میں ہر چیز مٹ جاتی ہے ، جانیں قربان ہوجاتی ہیں بس یاد اور یاد رہ جاتی ہے ۔

وہ حویلی کے سارے چور  راستے ، ساری فصیلیں پہچانتا تھا جانتا تھا کہ پلوشہ اسے کئی بار یہ راستے دکھا چکی تھی بڑی سی دیوار پر چڑھ کر منڈیر پر چلتا ہوا وہ کونے والے کمرے کی طرف بڑھا جس کی کھڑکی پر پڑا پردہ آج بھی ہلکا سا کھلا ہوا تھا یہ پلوشہ کا کمرہ تھا یہ وہ کھڑکی تھی جہاں سے وہ اپنے تایا اور اس کے حواریوں کی جاسوسی کرنے کے لیے باہر آتی جاتی تھی ۔ کیپٹن حمید نے کھڑکی پر ہاتھ رکھا وہ حسب معمول لاک نہیں تھی کھڑکی کا پٹ کھول کر وہ اندر کود کر  داخل ہوا اور پردے برابر کرکے کمرے کی لائٹ آن کی ۔سائیڈ کارنر میز پر پلوشہ کی ہنستی مسکراتی تصویر موجود تھی وہ اس تصویر کو دیکھتا ہوا کمرے کا جائزہ لینے لگا  فرش پر ابھی بھی پلوشہ کے خون کے نشانات موجود تھے وہ ان نشانات کے پاس بیٹھا اس کے چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی اس نے ان نشانات ہر ہاتھ پھیرا پھر لائٹ آف کرکے اپنی جیب سے ماسک نکال کر چہرہ کوور کیا اور کمرے کا دروازہ کھول کر زلمے خان کے کمرے کی طرف بڑھا ۔وہ اس حویلی کے چپے چپے سے واقف تھا ۔

زلمے خان اپنی خوابگاہ میں محو استراحت تھا جب کسی سائے کی طرح کیپٹن حمید اندر داخل ہوا اس نے سختی  سے زلمے خان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور لمحہ بھر میں وہ اس کی بیگم  کے پہلو سے  زلمے کو اٹھا کر باہر نکل گیا اب اس کا رخ پلوشہ کے کمرے کی طرف تھا زلمے خان جاگ چکا تھا اس کی گرفت میں پھڑپھڑا رہا تھا لیکن مار خور کی گرفت سے نکلنا اس جیسے لحیم شہیم انسان کے لیے بھی ممکن نہیں تھا ۔کمرے میں لاکر اس نے زلمے خان کو فرش پر بیدری سے پٹخا ۔

" کون ہو تم ؟ " زلمے خان نے اپنے سامنے کھڑے نقاب پوش سے پوچھا 

" تمہاری موت ۔۔۔" کیپٹن حمید نے سنجیدگی سے جواب دیا اور ایک ہاتھ سے اس کا گلا دبوچ لیا 

"تم غلط آدمی سے الجھ رہے ہوں میرے ساتھی تمہاری بوٹی بوٹی نوچ کر کتوں کو کھلا دینگے ۔۔" زلمے خان نے اسے دھمکایا 

کیپٹن حمید کے چہرے پر نقاب کے اندر ایک مسکراہٹ سی ابھری ۔پلوشہ کی موت کے بعد پہلی بار زلمے خان کو اپنی گرفت میں بلبلاتا ہوا دیکھ کر اسے سکون ملا تھا اس نے ایک ہاتھ سے سختی سے زلمے کا منہ بند کیا اور دوسرے سے اس کے گلے پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا دس منٹ بری طرح اس کی گرفت میں پھڑپھڑانے کے بعد زلمے کا جسم ڈھیلا پڑگیا اور گردن ڈھلک گئی کیپٹن حمید نے اس پر سے اپنے ہاتھ ہٹائے ۔ چلتا ہوا پلوشہ کی تصویر کے پاس آیا اور ایک سلیوٹ مار کر ، اس نے زلمے خان کی لاش کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور ایک بھرپور الوداعی نظر اس کمرے پر ڈال کر باہر کود گیا ۔ایک عہد ایک الفت ایک صدی کا اختتام ہوگیا تھا اب اسے پلٹ کر نہیں دیکھنا تھا ۔زلمے خان کے ٹریننگ سینٹر پہنچ کر اس نے دیوار پر چڑھ کر زلمے کی لاش میدان میں پھینک دی جس کی بو سونگھ کر اس کے پالتو رکھوالی کے کتے اب اس کا لاشہ بھنبھوڑ رہے تھے ۔کیپٹن حمید کے چہرے پر سکون چھا گیا تھا اس نے نقاب اتار کر جیب میں رکھا اور خاموشی سے واپس اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا اب صبح کا انتظار تھا ۔

موحد  خاموشی سے پارکنگ سے نکل گیا تھا ۔ اب یہاں رکنا بیکار تھا ، جس مجرم کو وہ عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا تھا وہ مارا جاچکا تھا لیکن اس کا ریکارڈ کردہ  بیان اور ثبوتوں کی فائل  موحد کے پاس تھی وہ روڈ پر چلتا ہوا فورسز کی نظروں سے بچتا بچاتا اس علاقے سے دور نکل آیا تھا اب اس کی نظریں ٹیکسی کی تلاش میں تھیں وہ بسوں کے اڈے سے کراچی کیلئے بس پکڑنے کا ارادہ کرچکا تھا ۔نزدیک سے گزرتی ٹیکسی کو روک کر اس نے ڈرائیور کو ڈائیوو ایکسپریس  اسٹینڈ تک چلنے کی ہدایت کی اور پچھلی سیٹ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ٹیکسی کے رکتے ہی وہ ڈرائیور کو پیسے دے کر نیچے اترا اور کراچی جانے والی ڈائیوو ایکسپریس کا پتہ چلانے کیلئے آگے بڑھا ہی تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا ۔اس نے جیب سے فون نکالا کمشنر صاحب  کی کال تھی ۔اس نے فون اٹھایا

" موحد کہاں ہوں تم ؟ سب ٹھیک تو ہے بم بلاسٹ نیوز آرہی ہے  " کمشنر صاحب نے فوراً سوال کیا 

" جی سر خود کش حملہ ہوا ہے اور میں  ادھر پشاور میں ہی  ہوں ۔۔" وہ ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا 

" آئی نو لیکن کدھر ؟ " وہ جھنجھلا گئے 

" سر ہائی کورٹ کے پاس ہی ہوں ۔۔" اس نے دانستہ اپنی لوکیشن نہیں بتائی 

" اور وہ ملزم ؟ وہ ٹھیک ہے " ان کے لہجے میں تشویش تھی 

" نہیں سر !  ہی از نو مور ، اس بلاسٹ کا مقصد ہی اسے ہائی کورٹ پہنچنے سے روکنے کا تھا ۔۔" 

" اوہ یہ تو بہت برا ہوا وہی تو ہمارا ثبوت تھا ۔۔" کمشنر صاحب نے تاسف سے کہا 

" اٹس اوکے سر محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اس کا وڈیو بیان میں نے چلنے سے پہلے ریکارڈ کرلیا تھا وہی ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے کافی ہوگا ۔۔" وہ مضبوط لہجے میں بولا 

" گریٹ ! تو پھر ایسا کرو تم وہ وڈیو پشاور پولیس کے حوالے کردو اور  آج رات سرکاری  گیسٹ ہاؤس میں رک جاؤ تھوڑا  آرام کرو ۔۔" انہوں نے ہدایات دی 

" شیور سر ۔۔" اس نے تابعداری سے جواب دے کر فون بند کیا اور کھڑکی کے نزدیک پہنچ کر کراچی جانے والی ڈائیوو کا ٹکٹ لے کر اپنی بس کی طرف آگیا یہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں تھا اور اب وہ یہ سارے  ثبوت انسداد دہشت گردی کی انویسٹیگیشن ٹیم کے حوالے کرنا چاہتا تھا ۔

آدھے گھنٹے بعد ڈائیوو کراچی کے لئیے روانہ ہوچکی تھی وہ اطمینان سے کھڑکی سے ٹیک لگائے چوکس چوکنا بیٹھا ہوا تھا ۔

لمبے سفر کے بعد وہ شام ڈھلے  کراچی پہنچ چکا تھا وہی سے رکشہ کرکے وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا دو دن سے وہ ایک لمحہ بھی نہیں سویا تھا ۔اس کیس پر اس نے بہت محنت کی تھی کوئی تو تھا جس نے اس کا سارا پلان آؤٹ کیا تھا لیکن کون اسٹیبلشمنٹ میں کسی کو بھی اس کا پلان پتہ نہیں تھا نہ ہی تھانے میں تو ؟؟ پولیس کمشنر ؟ اس سے آگے وہ ابھی سوچنا نہیں چاہتا تھا گھر پہنچ کر رکشے والے کو فارغ کرکے وہ پہلے احمد کے کمرے میں آیا جیب سے یو ایس بی اور مائیکرو چپ نکال کر مخصوص جگہ پر رکھ کر  اپنے کمرے میں آیا اور سونے کے لئے لیٹ گیا ۔

صبح اٹھ کر وہ یونیفارم میں ملبوس سر پر کیپ پہنے تھانے جانے کے لیے تیار تھا ۔ٹھیک نو بجے وہ تھانے پہنچ چکا تھا اپنے اسٹاف کو سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آیا کیپ اتار کر میز پر رکھی اور کرسی پر بیٹھ کر انسداد دہشت گردی کے ڈپارٹمنٹ کو کال ملانے لگا ۔

کال ملتے ہی اس نے اپنا تعارف کروا کر ملنے کی خواہش کی وہ انہیں اپنے جمع کئیے ہوئے سارے ثبوت اور فائلز ہینڈ اوور کرنا چاہتا تھا ۔فون سے فارغ ہوا ہی تھا کہ آفس کا فون بج اٹھا ۔

" گڈ مارننگ  سر ۔۔" اس نے کمشنر صاحب کی آواز سن کر سرد لہجے میں وش کیا

" موحد تم واپس آگئے مجھے انفارم بھی نہیں کیا ؟ اتنی غیر ذمہ داری کی مجھے تم سے امید نہیں تھی ۔۔" وہ ناراض ہوئے 

" سر آج ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس آیا ہوں ۔۔" اس نے جواب دیا 

" ٹھیک ہے تم ڈی سی آفس آجاؤ اور کیس کی فائل لیتے آنا ۔۔"  انہوں نے ہدایات دی 

" سر فائل کیوں ؟ " 

" واٹ از رانگ ود یو ایس پی موحد ؟ تمہیں نہیں پتہ یہ کیس اب کلوز کرنا ہے  "کمشنر صاحب نے سختی سے پوچھا 

" سر یہ دہشت گردی کا کیس ہے اور میں یہ فائل ایجنسی کو ہینڈ اوور کررہا ہوں ۔۔" وہ دو ٹوک لہجے میں بولا کر فون بند کرکے کھڑا ہوگیا 

تھانے کا چکر لگا کر ہیڈ کانسٹیبل اور انسپکٹرز کو روز مرہ کی ہدایت دے کر باہر نکلا آنکھوں پر سن گلاسز لگا کر چلتا ہوا اپنی پولیس جیپ کی طرف آیا تبھی کسی نے پیچھے سے اس کے سر پر زور سے ریوالور کا دستہ مارا ۔ وہ تیزی سے مڑا اور سامنے کھڑے آدمی کو جس نے اپنے چہرے پر مفلر لپیٹا ہوا تھا ایک ہاتھ سے روکتے ہوئے زور سے دھکا دیا اور اس پر ٹوٹ پڑا ۔موحد کے سر پر کنپٹی کے پاس سے خون بہے چلے جا رہا تھا وہ اپنے چہرے پر سے خون صاف کرکے کھڑا ہوا اور اس آدمی کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے تھانے کے اندر لے جانے لگا تھا کہ دور سے ایک فائر ہوا اور گولی اس کے بازو میں لگی وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا اور اس آدمی نے اپنی جیب سے کلوروفارم میں ڈوبا ہوا رومال زبردستی اس کی ناک پر رکھا ۔

موحد بیہوش ہو کر گر گیا تھا ۔حیرت کی بات تھی کہ فائر کی آواز سن کر بھی تھانے سے کوئی باہر نہیں نکلا تھا ۔اس آدمی نے موحد کو اٹھا کر اپنی اسٹیشن ویگن میں ڈالا اور آرام سے وہاں سے نکل گیا ۔

                                 ********

: "يَوْمُ‌ الْعَدْلِ عَلَى الظّالِمِ أشَدُّ مِنْ يَوْمِ الْجَوْرِ عَلَى الْمَظْلُومٍ"،

"ظالم کے لئے انصاف کا دن اُس سے زیادہ سخت ہوگا، جتنا مظلوم پر ظلم کا دن"۔

فجر کی نماز پڑھ کر چوکیدار رکھوالی کے کتوں کو باندھنے کے لئیے بڑا سا لوہے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور چونک گیا ۔سامنے زمین پر خون ہی خون پھیلا ہوا تھا ایک نچا ہوا بھنبھوڑا ہوا مردہ جسم سامنے پڑا تھا جس کی شناخت مشکل تھی کتوں نے اسے بری طرح نوچ کھایا تھا اور اب بڑے اطمینان سے ہڈیاں چبا رہے تھے چوکیدار نے اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو تیزی سے وہاں سے ہٹایا اور گن نکال کر ایک ہوائی فائر کیا ۔

فائر کی آواز سنتے ہی پوری عمارت کی بتیاں روشن ہونی شروع ہوگئی کئی افراد بھاگتے ہوئے باہر آئے جن میں کیپٹن حمید بھی شامل تھا ۔ لاش کی شناخت زمین پر پڑے اس کے سیل فون اور قیمتی سونے کے ڈائل والی  راڈو گھڑی سے ہوچکی تھی یہ زلمے خان ان کے سردار کی لاش تھی ۔ پورے ٹریننگ سینٹر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوچکا تھا  کیپٹن حمید خاموشی سے وہاں سے کھسک گیا تھا اس کا کام ادھر ختم ہوچکا تھا اب اس کا رخ بڑے پہاڑ پر واقع ایجنسی  کے آفس کی طرف تھا ۔اسے میجر احمد اور دلاور کو رپورٹ کرنی تھی ۔وہ  آگے قدم  بڑھا رہا تھا اور  دور کھڑی پلوشہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اسے انصاف مل گیا تھا بیشک ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ، ظلم خود نہ برداشت کرنا اور دوسرے لوگوں کو بھی ظلم سے نجات دلانا مسلمانوں کی پہچان اور ان کی امتیازی شان ہے اور کیپٹن حمید جیسے جوان مرد مومن ہی اس کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں وہ چلتے چلتے رکا ایک مانوس سا احساس اسے اپنے آس پاس محسوس ہورہا تھا اس نے ایک گہرا سانس لیا اور پلٹ کر دیکھا ۔

سفید لبادے میں ملبوس پلوشہ دور کھڑی اسے دیکھ رہی تھی نظریں ملتے ہی وہ مسکائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہوگئی ۔

 کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی 

میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی 

مری داستاں کا عروج تھا تری نرم پلکوں کی چھاؤں میں 

مرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تری آنکھ کیسے جھپک گئی 

بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے 

نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی 

ترے ہاتھ سے میرے ہونٹ تک وہی انتظار کی پیاس ہے 

مرے نام کی جو شراب تھی کہیں راستے میں چھلک گئی 

تجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں 

تری یاد شاخ گلاب ہے جو ہوا چلی تو لچک گئی 

                              ********

میجر احمد اور دلاور دونوں ہی بڑے سکون سے جیپ میں بیٹھے ہوئے تھے ان دونوں کے درمیان میں بیٹھی قانتا ان کا اطمینان دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی گاڑی پتھریلے راستوں پر دوڑ رہی تھی ۔

" سرمہ خاناں آگے فوج کا لوگ کھڑا ہوا ہے  ۔۔"ڈرائیور  گاڑی کی رفتار کم کرکے راستہ بدلتے ہوئے بولا 

" یہ فوج اس وقت ادر کیا کرتا ہے ۔۔" سرمہ خان نے پاک فوج کی گاڑی کو دیکھا 

" لگتا ہے بارڈر سے آرہا ہے یہ گروپ اور ادر  سے گزرتے پانی پینے ہلکا ہونے واسطے رکا ہے دیکھو سارا آدمی گاڑی میں بیٹھ رہا ہے ۔۔" 

" سمندر خان  ۔" سرمہ خان نے پیچھے آتی اپنے ساتھیوں کی ویگن میں رابطہ کیا 

" جی خان حکم ۔۔" سمندر خان کی آواز ابھری 

"اس موقع کا فائدہ اٹھانا ہوگا پہلے ان کو مارے گا  تم   گاڑی کسی چٹان کی آڑ میں چھوڑ دو ہمیں ان کا شکار کرکے  پہاڑوں میں چھپ کر ادر سے نکلنا ہوگا جلدی کرو ۔۔"سرمہ خان نے ہدایت دی ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی کا رخ موڑا ۔

" خان موقع اچھا ہے یہ چھ فوجی ہیں ابھی ان کا گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوا ہے  انہیں اڑا دیتے ہیں ۔" سمندر خان کی آواز ابھری 

"اچھا بات ہے ! اس طرح ان کی موت سے ہماری دہشت اور پھیلے گی ٹھیک ہے خوچہ پوزیشن لو اور اڑا دو   سمندر خان ان کی گاڑی پر لانچر سے حملہ کرو ایک بھی فوجی بچنا نہیں چاہئیے ۔۔۔" سرمہ خان نے ہدایت دی جسے سن کر میجر احمد اور دلاور کے چہرے پر تناؤ کی کیفیت آگئی تھی دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور ۔۔۔

میجر احمد نے اپنےآگے بیٹھے سرمہ خان کے گلے میں ہاتھ ڈالا اسی وقت دلاور نے اپنے نیفے سے سائلنسر لگی پستول نکالی اور دروازہ کھول کر چلتی گاڑی سے باہر کود گیا ۔

دلاور نے پتھریلی زمین پر گرتے ہی قلابازی کھا کر پوزیشن لی اس کا ٹارگٹ سمندر خان کی وین تھی جہاں سے حملہ ہونا تھا اس نے وین کے ٹائروں کا باری نشانہ لیا وین ڈگمگا کر آگے بڑھی اور ایک درخت سے ٹکرا کر رک گئی اب اس نے وین کے دروازوں پر فائر کیا پوری کوشش تھی کہ انہیں باہر نہ نکلنے دیا جائے تاکہ فوجی گاڑی وہاں سے آرام سے نکل جائے ۔

میجر احمد کے بازو سرمہ خان کی گردن پر دباؤ بڑھا رہے تھے ۔

" گلاب خان ۔۔۔" سرمہ خان نے شاکڈ ہوں کر اسے پکارا 

" گاڑی روکو ورنہ اسے مار دونگا ۔۔" میجر احمد پھنکارا اسماعیل خان نے فوراً گاڑی کو بریک لگایا 

" نیچے اترو ۔۔۔" میجر احمد نے حکم دیا 

" گلاب خان یہ تم ٹھیک نہیں کررہا تم نے ابھی تک سرمہ خان کا پیار دیکھا ہے  غصہ نہیں ۔۔۔" سرمہ خان  نے اسے ٹوکا 

" نیچے اترو ۔۔۔" میجر احمد غرایا 

اسماعیل خان اور سرمہ خان نیچے اترے میجر احمد نے سرمہ خان کی سیٹ پر پڑی گن اٹھائی اور نیچے اتر گیا ۔

"آگے چل ۔۔"  احمد نے سرمہ خان کو دھکا دیا اور جیپ کی کھڑکی سے جھانک کر برقع والی لڑکی کو مخاطب کیا 

" مس آپ ادھر ہی رہیں گاڑی سے ہرگز بھی باہر مت نکلنا آپ پاک فوج کی حفاظت میں ہیں ہم آپ کو بحفاظت یہاں سے فارغ ہوکر   آپ کے گھر تک پہنچا دینگے ۔" اس نے قانتا کو تسلی دی اور ان سرمہ خان کی طرف متوجہ ہوا جو خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا ۔

" تم نے ام کو دھوکہ دیا تم فوج کا آدمی لوگ ہو تم سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے ۔۔" سرمہ خان نے زمین پر تھوک پھینکا 

" دھوکہ ؟ یہ لفظ تمہارے منہ سے اچھا نہیں لگتا دہشت گردی تم لوگ کرو ، اپنے ہی لوگوں کو تم ماروں ڈاکے ڈالو معصوم بچوں کی جان لو  اور الزام پاک فوج پر لگاؤ ۔۔۔غدار ہو تم ۔۔۔" میجر احمد پھنکارا 

" تم ۔۔۔" سرمہ خان نے مٹھیاں بھینچ لیں اس کی آنکھیں سرخ رنگ ہوگئی تھی تبھی ماحول فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھا سرمہ خان  تیزی سے قلابازی کھا کر پہاڑ سے نیچے کود گیا .

                                  *******

دلاور اکیلا انہیں نہیں روک سکتا تھا لیکن اس کے عمل سے فوجی جیپ وہاں سے صحیح سلامت گزر چکی تھی اب اس ویگن کے پچھلے دروازے سے سے سرمہ خان کے ساتھ اتر کر دلاور پر فائر کھول چکے تھے وہ درختوں کی آڑ لے کر خود کو بچاتے ہوئے ان کی فائرنگ کا جواب دے رہا تھا ۔جب اس کے بیک اپ پر میجر احمد آگیا ہے ۔

" سر آپ کا عاشق کہاں ہے ؟ " دلاور نے سرگوشی کی 

" انہیں پہاڑیوں میں کہیں  ہے اور اب یہ ہمارا شکار کرینگے اور ہم ان کا  ۔۔" میجر احمد نے سفاک لہجے میں کہا 

" شکار ۔۔۔" دلاور کی آنکھیں جگمگا اٹھی جیسے اسے کوئی من پسند کام مل گیا ہو 

" ہمیں ان سب کو مار کر سرمہ خان کو زندہ پکڑنا ہے ۔۔" میجر احمد نے پلان بتایا اور وہ دونوں ان گہرے اندھیرے میں ڈوبے پہاڑوں میں گم ہوگئے خونی آنکھ مچولی شروع ہو گئی تھی ۔وہ دو مار خور ان دس افراد پر بھاری تھے لیکن یہ ان کا علاقہ تھا اور گولی کی آواز سن کر بہت جلد ان کے مزید ساتھیوں کی کمک آجانی تھی وقت کم تھا جس کا میجر احمد اور ایجنٹ دلاور کو اندازہ تھا ۔

قانتا نے میجر احمد کی ہدایات سن کر سر ہلا دیا تھا لیکن وہ ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتی تھی اس نے اپنے لباس میں چھپی  اے کے 47 نکالی اور برقع کی جیب میں رکھے دھواں بن چیک کئیے جو صرف ایک ہی بچا تھا اب وہ آگے سرک کر اس گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی سیٹ کے نیچے اچھا خاصا اسلحہ بارود چھپا ہوا تھا اس نے چند  دستی بم اٹھائے ایک اور گن اٹھا کر اپنی گردن میں لٹکائی اور خاموشی سے دوسرا دروازہ کھول کر رینگتی ہوئی گاڑی سے اتر کر اس سمت بڑھی جہان سرمہ خان نے چھلانگ لگائی تھی اس کا ٹارگٹ  سرمہ خان  تھا جو اسے ان کے اس  اڈے کا پتہ بتا سکتا تھا  جہاں عبدالفاتح کو رکھا گیا تھا ۔فائرنگ کی آوازیں گونج رہی تھیں وہ رینگتی ہوئی پہاڑ کے کنارے تک آئی اور پھر نیچے دیکھتے ہوئے اس نے چھلانگ لگا دی ۔

پتھریلی زمین پر گرتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر خود کو سیف کیا اب وہ سرمہ خان کو ٹریک کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی ۔

چاند کی ہلکی سی چاندنی میں وہ آگے بڑھ رہی تھی جب اسے اوپر  دلاور اور احمد دشمنوں میں گھرے ہوئے نظر آئے وہ آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اسے سرمہ خان نظر آگیا اس کے ساتھیوں کی کمک آچکی تھی اور وہ ان گن برادر آدمیوں کے ساتھ ان دونوں احمد اور دلاور کو گھیر چکا تھا۔

قانتا نے تیزی سے پتھروں پر ہاتھ جماتے ہوئے اوپر چڑھنا شروع کیا ۔اب اسے ان دو جوانوں کو بچانا تھا ۔وہ احتیاط سے اوپر پہنچ کر کھڑی ہوئی ہی تھی کہ اس کی گردن پر گن کی نوک لگی ۔اسماعیل خان خباثت سے کھڑا اسے اپنی گن کا نشانہ بنائے دیکھ رہا تھا ۔

                                  *******

" ہتھیار پھینک دو گلاب خان ورنہ امارا آدمی لوگ تم کو بھون دے گا ۔۔" سرمہ خان نے ان دونوں کو للکارا 

میجر احمد اور دلاور سیدھے کھڑے ہوگئے ۔

" کون ہو تم ؟ " سرمہ خان نے میجر احمد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا جو بڑے اطمینان سے ایسے کھڑا تھا جیسے ہوا کھانے چہل قدمی پر نکلا ہو 

" جواب دو ۔۔۔" سرمہ خان نے بندوق کی نالی اس کے سینے پر رکھی ۔

" سرمہ خان یہ برقع والا باجی اس کا کیا کرنا ہے ؟ " اسماعیل خان کی آواز سن کر سرمہ خان پلٹا 

" ام کو پتہ تھا تم مشکوک ہو باجی  ۔۔۔"سرمہ خان نے قانتا کو گھورا  

"یہ بیوقوف ادھر کیا کررہی ہے ۔۔" دلاور کا موڈ خراب ہوا 

" ویٹ ۔۔" احمد نے قانتا کو گھورتے ہوئے سرگوشی کی 

" یہ خود بھی مرے گئی اور اب اسے سیو کرنے کے چکر میں ہم بھی مرینگے ۔" دلاور بھنایا 

"دیکھو گلاب خاناں تم  ام کو صاف صاف بتاؤ تم کون ہو ورنہ ام ابھی ادر اس باجی کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر کے اس کا تماشہ دیکھنے گئے ۔۔" سرمہ خان نے قانتا کو دھکا دیا 

" لڑکی کو چھوڑ دو اس کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔" احمد غرایا 

" Let me Handle this ..." 

قانتا نے ہاتھ اٹھا کر میجر احمد کو سشتہ انگریزی میں روکا 

"سر یہ باجی تو انگریزی بول رہی ہے ۔ "دلاور نے سرگوشی کی 

" یہ لڑکی کافر ہے کافروں کی زبان بولتی ہے اسے اب ہم بتائے گا ہم کون ہے اسماعیل خان اس کا برقع اتارو ۔۔۔" سرمہ خان نے حکم دیا اور اسماعیل خان کمینی مسکراہٹ چہرے پر سجائے قانتا کی طرف بڑھا ۔

"آؤ باجی ہم تمہارا رونمائی کرتا ہے ۔۔"  نسوار سے رنگے دانت نکالتے ہوئے اس نے قانتا کے برقع کی طرف ہاتھ بڑھایا اور جیسے ایک بجلی سی لپکی تھی قانتا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے پٹخ کر گلے میں لٹکی گن اتار کر فائر کھول دیا تھا ۔

چالیس سالہ دراز قد چہرے پر کرختگی کاندھے پر صافہ اور سر  پر پگڑی باندھا ہوا ملا عبد السفیان  اپنے تین حواریوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا  ۔

یہ ایک بند کمرہ تھا نہ کوئی کھڑکی نہ کوئی فرنیچر بس ایک کونے پر لکڑی کی میز تھی جس پر لوہے کے آنکڑے رکھے ہوئے تھے اور ساتھ  ایک  کرسی بیچ کمرے میں پڑی ہوئی تھی جس پر ایک جوان  بندھا ہوا تھا اس کے چہرے پر کالا کپڑا چڑھا ہوا تھا گردن ڈھلکی ہوئی تھی ، وہ بیہوش تھا۔ وہ قدم اٹھاتے ہوئے اس بیہوش جوان کے نزدیک آیا اور ایک جھٹکے سے اس کے چہرے پر سے کالا کپڑا ہٹایا ۔

" ٹھنڈا پانی لاؤ ۔۔۔" اس نے سرد لہجے میں اپنے ساتھ کھڑے آدمی  کو مخاطب کیا 

" جی سرکار ۔۔۔" وہ تیزی سے پلٹ کر واپس گیا اور پانی سے بھری بالٹی میں برف ڈال کر واپس لایا اور ملا عبدالسفیان  کے اشارے پر اس نے یخ ٹھنڈے پانی کی بالٹی اٹھا کر پانی اس جوان کے چہرے پر پھینک دیا ٹھنڈا پانی چہرے پر پڑتے ہی وہ جوان کسمسا کر اٹھا اور ملا  نے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے سیدھا کیا ۔

" خوش آمدید ایس پی موحد  ۔۔۔" 

موحد  نے ایک جھٹکے سے اپنا چہرہ اس کی گرفت سے چھڑانا چاہا تو اس نے اپنی انگلیوں سے  موحد کو جبڑوں سے اس قدر سختی سے پکڑا کے اس کی انگلیاں موحد کی کھال کے اندر دھنس سی گئیں تھیں ۔

" تم اب تک ہمارے تیس  آدمیوں کو مار چکے ہو ہمارے دو   آدمی تم نے زندہ پکڑے تھے ان کے بیان اور ثبوت کہاں ہیں ؟ کس کی کسٹٹڈی میں ہیں ؟ بتاؤ ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں کوئی خوف کوئی ڈر نہیں تھا الٹا وہ اسے چیلنچ کرتی نگاہوں سے گھور رہا تھا ۔

" آخری بار پوچھ رہا ہوں سارے ثبوت کدھر ہیں ؟ " ملا عبدالسفیان نے اسے ایک موقع دیا لیکن وہ تو نا بولنے کی قسم کھائے نڈر انداز میں بیٹھا ہوا جیسے اسے چڑا رہا تھا ۔

" اسے میز کی سیر کروانی ہوگی ۔۔۔" اس نے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھے موحد کے ہاتھ پیر کھول کر اسے زبردستی اٹھا کر میز پر لٹانے کے بعد اس کے دونوں ہاتھ اور پیر میز کے کناروں پہ ابھرے ہوئے لوہے کے راڈ کے ساتھ باندھ دئیے گئے تھے ۔

" شروع کرو ۔۔۔" ملا عبدالسفیان  نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے موحد کو الیکڑک شاک دینے شروع کردئیے ہر بجلی کے جھٹکے پر اس کا جسم تڑپ کر اچھل رہا تھا ۔

" ابھی بھی وقت ہے بتا دو ہماری پارٹی کے خلاف اکھٹے کئیے ثبوت اور گواہوں کے بیان کدھر چھپائے ہیں ۔۔۔" ملا  نے پسینے میں شرابور موحد کو جبڑوں سے پکڑ کر ایک آخری موقع دینا چاہا مگر موحد کی آنکھوں سے چھلکتا ہوا نڈر انداز اور بے خوفی دیکھ کر وہ پیچھے ہٹا اس کے ٹرانسمیٹر پر سگنل آنے لگے تھے 

" اسے ایک لمحے کی بھی نیند میسر نہیں ہونی چاہیے اس کا منہ کھلواوں نہیں بتاتا تو اس کھال ادھیڑ دو  چاہے تھرڈ ڈگری تششد ہی کیوں نہ کرنا پڑے  ورنہ تم لوگ میرے ہاتھوں زندہ نہیں بچو گے ۔۔" وہ موحد کے پاس کھڑے جلادوں کو  وحشیانہ لب و لہجہ میں ہدایات دے کر مڑا پھر پلٹا 

" خیال رہے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کرنی چاہیئے باقی سب خیر ہے ۔۔۔" 

                             *********

قانتا نے فائر کھول دیا میجر احمد اور دلاور نے تیزی سے زمین پر بیٹھ کر خود کو سیف کیا قانتا نے بجلی کی تیزی سے سرمہ خان کے ساتھیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا اسماعیل خان کا بے جان لاشہ گولیوں سے چھلنی ہو کر رہ گیا تھا سرمہ خان اور اس کے باقی ساتھی حصوں میں بٹ کر بھاگتے ہوئے سرمئی پہاڑیوں میں غائب ہوگئے تھے ۔

" کون ہو تم ؟ ۔۔۔۔" ایجنٹ دلاور نے قانتا کے نزدیک پہنچ کر میں سوال کیا 

" دلاور ابھی انویسٹیگیشن کا وقت نہیں ہے وہ لوگ پہاڑیوں میں چھپے ہیں کہیں سے بھی انجانی گولی ہمارا شکار کرسکتی ہے موو ناؤ ۔۔۔" میجر احمد کی سرد مہری میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری

دلاور سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا جب احمد نے رک کر ساکت کھڑی برقع  والی لڑکی کو دیکھا 

" محترمہ آپ کو کیا الگ سے انویٹیشن دینا ہوگا ؟ " 

میجر احمد کا طنزیہ لہجہ سن کر قانتا تیزی سے آگے بڑھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا ہاتھ آیا شکار اس  کی جلد بازی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔وہ تینوں اپنی پوزیشن لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دلاور اور احمد دونوں نے چاقو نکال کئیے تھے رات گہری ہونا شروع ہوگئی تھی پہاڑیوں کے پار افغانستان کا علاقہ شروع ہوچکا تھا ۔

" وہ دیکھو ادھر کوئی سگریٹ پی رہا ہے ۔" اندھیری رات میں دور ایک ہلکا سا سرخ دھبا نظر آرہا تھا 

" دشمن کے علاقے میں گھس کر اسے مارنے کا اپنا مزا ہے ۔۔" احمد نے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا اور دبے پاؤں اس سمت بڑھا 

سمندر خان اور چند ساتھی سستانے کے لیے سرحد پار کرکے رک گئے تھے یہ ان کا اپنا علاقہ تھا تو تھوڑی بہت بیفکری بھی تھی سرمہ خان آگے چلا گیا تھا جب میجر احمد اور دلاور نے ان پر حملہ کیا چند منٹ میں وہ سارے ڈھیر زمین پر پڑے تھے جب قانتا میجر احمد کے پاس آئی ۔

" ان سے عبدالفاتح کو کہاں رکھا گیا ہے یہ انفو نکلوائیں ۔۔۔" 

میجر احمد نے غور سے برقع میں چھپی قانتا کو دیکھا 

" آپ یہ نیک کام خود کیوں نہیں کرلیتی ؟ ۔۔" اس نے قانتا کو آفر کی 

" اوکے ۔۔۔" قانتا نے سر ہلا کر اپنا رخ سمندر خان کی طرف کیا جو میجر احمد کے ہاتھ مار کھا کھا کر ادھ موا زمین پر پڑا گہری سانسیں لے رہا تھا ۔قانتا نے گریبان سے پکڑ کر سمندر خان کو سیدھا کیا ۔

" ترک لیڈر عبدالفاتح کو کہا رکھا ہے ؟ " اس نے اپنی گن سمندر خان کے ماتھے پر رکھی 

" ام نہیں بتائے گا باجی !  ام تو تم کو معصوم باجی سمجھا تھا اور تم ۔۔۔۔" اس نے قانتا کو گھورا 

" تم بھی ان فوجی لوگوں کا ساتھی نکلا جو ام پر ظلم کرتا ہے ۔۔۔" 

" ترک لیڈر عبدالفاتح کو کہا رکھا ہے ۔۔۔" قانتا نے ایک زور دار تھپڑ رسید کرکے سوال دہرایا

" ہمارے پاس پوری رات اس ڈرامے کے لئیے نہیں ہے اگر یہ نہیں بتا رہا تو اسے شوٹ کرکے ختم کرو ۔۔۔" میجر احمد نے سرد لہجے میں قانتا کو مخاطب کیا ۔

" گلاب خان !  امارا سرمہ خان نے تم کو کتنی محبت دی اور تم خنزیر کا بچی ۔۔۔" ابھی اس کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ میجر احمد ایک ہاتھ سے قانتا کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھا اور ایک زور دار کک اس کے منہ پر ماری جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور منہ سے خون بہنے لگا تھا ۔میجر احمد نے اطمینان سے اپنی سائلنسر لگی گن نکالی اور سمندر خان کی ٹانگ پر فائر کیا ۔

" ام بتاتا ہے اسے  ادر  اوڑی کے علاقے میں کیمپ میں رکھا ہے ۔۔۔" سمندر خان  بمشکل  بولا 

" اوڑی ۔۔۔" میجر احمد بڑبڑایا 

" ہاں اوڑی میں رکھا ہے اب ام کو جانے دو ۔۔۔" سمندر خان نے ہاتھ جوڑے 

میجر احمد نے ایک نظر سمندر خان کو دیکھا جس کے سر پر نہ جانے کتنے بے گناہوں کا خون تھا یہ وہ ناسور تھا کو ملک میں رہ کر ملک کی جڑیں کاٹ رہا تھا انہیں زندہ گرفتار کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا میجر احمد نے اس کے سر کا نشانہ لے کر گولی چلا دی تھی ۔دلاور نے باقی سب کو بھون ڈالا تھا قانتا حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔

" یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ؟  یہ میرے ملک کا دشمن تھا ابھی تو مجھے عبدالفاتح تک پہنچنا تھا ." قانتا نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کیا ۔

" ہمیں یہاں سے فوراً نکلنا ہوگا یہ ان کا علاقہ ہے اور مس آپ کیا انہیں سر پر اٹھا کر لے جاتیں آپ کو پتہ بھی ہے اوڑی کدھر ہے ؟"میجر احمد نے سوال کیا 

" یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ہم ان کے آدمی انہیں کی زمین پر مات چکے ہیں اب صبح کا اجالا پھیلنے سے پہلے ہمیں بارڈر کراس کرنا ہے ۔۔" میجر احمد نے سنجیدگی سے کہہ کر قانتا اور دلاور کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا وہ جس سرمئی پہاڑیوں کے راستے سے آئے تھے اب اسی راستے سے واپس جارہے تھے ۔

رینگتے ہوئے کئی دراڑیں عبور کرکے وہ پشین پہنچ چکے تھے قانتا کا برقع جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا  وہ لوگ صبح کا اجالا پھیلنے کا انتظار کر رہے تھے 

" مس آپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا ۔" دلاور نے قانتا سے سوال کیا جو نیم اندھیرے میں اپنا برقع اتار کر رکھ رہی تھی 

" ہمارا کوئی ایک نام نہیں ہوتا اتنا تو آپ کو پتہ ہوگا ۔۔۔" قانتا نے بات شروع کی ۔

" ہمم ۔۔" دلاور نے ہنکارہ بھرا میجر احمد بھی چٹان سے ٹیک لگائے ان دونوں کی طرف متوجہ تھا 

" میرا تعلق مصر کی ایجنسی سے ہے میں یہاں اپنے پارٹنر کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کو چھڑانے آئی تھی ہماری ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق ہمارے لیڈر عبدالفاتح کو اغوا کرکے وزیرستان میں رکھا گیا تھا لیکن یہاں آکر تو سب الٹا ہو گیا ہے مجھے لگا عبدالفاتح کو کابل لے جایا گیا ہے پر اب یہ آدمی اوڑی کے علاقے کا کہہ رہا ہے تو اب مجھے ادھر جانا ہوگا ۔۔" قانتا نے تفصیل سے اپنی بات مکمل کی ۔

" کیا آپ میری مدد کرینگے ؟ " اس نے میجر احمد کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا 

صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا قانتا کی نیلی آنکھیں اور سنہری رنگت نمایاں ہورہی تھی وہ مصری حسن والی پرکشش حسینہ احمد کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی جب دلاور نے اسے ٹہوکہ مارا

" سر جی باجی کچھ پوچھ رہی ہیں ۔۔۔" 

" مس ۔۔۔" احمد سیدھا ہوا 

" قانتا ! مائی نیم از قانتا ۔۔۔" اس نے فوراً اپنا تعارف کروایا جسے سن کر دلاور حیران رہ گیا

" سر جی  ابھی کچھ دیر پہلے تو باجی کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی نام نہیں ہوتا اور اب ۔۔۔دال میں کچھ تو کالا ضرور ہے ۔۔" وہ بڑبڑایا 

" اوڑی مقبوضہ کشمیر میں سری نگر سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ادھر جانا اتنا آسان نہیں ہے ۔۔" میجر احمد نے اوڑی کی لوکیشن بتائی 

" یعنی یہ را اور یہ طا*لبان ملے ہوئے ہیں ۔۔" قانتا حیران ہوئی۔

" اس میں کون سی نئی بات ہے بھارت کا مقصد ہی پاکستان کو توڑنا ہے زیادہ تر سازشیں ادھر سے ہی ہوتی ہیں ۔" دلاور نے دخل دے کر اپنی بات مکمل کی 

" لیکن پاکستان تو خود بھی حملے کروا رہا ہے ۔۔" قانتا نے الجھے ہوئے انداز میں کہا 

 " یہی تو نظر کا دھوکہ ہے ۔بھارت، پاکستان کیلئے جو مذموم عزائم رکھتا ہے، وہ سب جانتے ہیں پاکستان کو توڑنے کیلئے پی ٹی ایم کی پشت پناہی کرنے سے لے کر دنیا بھر میں پاکستان کو ایک ٹیررسٹ اسٹیٹ ڈکلیئر کروانا ان کا  مقصد ہے  جس کے لئیے  ’’را‘‘ تو اپنی جگہ سرگرم ہے ہی، پر ساتھ ساتھ اس  نے ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ نامی دہشت گردم تنظیم کی بھی باقاعدہ سرپرستی اور فنڈنگ شروع کر دی ہے۔ ’’را‘‘ کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ ’آئی ایس آئی ایس‘‘ کے دہشت گردوں کو اغوا کر کے جنوبی ہندوستان میں لے جاتے ہیں اور ان کو خودکش دھماکوں کے ٹارگٹ دئیے جاتے ہیں۔ اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ دہشت گردی کرے تو الزام پاکستان پر آتاہے۔ ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا‘‘کا مخفف ہے۔ جس کا کام ہی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح مختلف ملکوں اور ریاستوں میں دہشت گردی جیسے عفریت کو فروغ دینا ہے۔ یوں  تو را دہشت گردی میں کسی سے کم نہیں لیکن پاکستان میں بار بار اپنے عظائم میں ناکام ہونے کے بعد اب یہ کام شروع کیا ہے ۔ اس تنظیم کے ساتھ اگرچہ غیر مسلم کم ہیں اور مسلم ممبران کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ  دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی مسلک اور ایشو کو بنیاد بنا کر کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے اس لیے یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ یعنی اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا‘‘ نامی یہ تنظیم کسی مسلمان ملک میں کچھ نہیں کر سکتی۔ " میجر احمد نے تفصیل سے سمجھایا 

" اور اوڑی میں ہمارا سامنا آئی ایس آئی ایس اور را دونوں سے ہوگا ۔۔۔" دلاور نے بیچ میں لقمہ دیا 

                              ********

فجر کی نماز پڑھ کر کر وہ کمرے سے نکلی سفید دوپٹہ نماز کے انداز میں لپیٹا ہوا تھا ۔ نہ جانے کیوں پر  اس کا دل گھبرا رہا  تھا جیسے کچھ ہونے والا ہوں وہ کچھ دیر لان میں چہل قدمی کرنے کے بعد  خاموشی سے چلتی کچن میں آئی اور دادی کے لئے چائے بنا کر ٹرے میں رکھی  اور ٹرے اٹھا کر دادی کے کمرے میں آئی جہاں وہ حسب معمول فجر کی نماز کے بعد اپنی تسبیحات پڑھنے میں مصروف تھیں ۔ 

علیزے نے چائے کی ٹرے ان کے سامنے رکھی اور وہی دوزانوں ہو کر بیٹھ گئی ۔ دادی جان نے روز مرہ کے معمول کی طرح احمد ، موحد پر حصار کھینچ کر علیزے پر پھونک ماری ۔

" کیا بات ہے علیزے ، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے چہرا اتنا اترا اترا سا کیوں لگ رہا ہے ؟ " انہوں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا 

" دادی پتہ نہیں پر رات سے دل بہت گھبرا رہا ہے جیسے جیسے  ۔۔" علیزے کی سمجھ نہیں آیا کہ اپنی فیلنگز کیسے بیان کرے 

"بیٹی ایسے وہم نہیں پالتے بس لاحول پڑھ کر وضو کرکے احمد اور موحد پر حصار کھینچ دیا کرو ۔میں تو برسوں پہلے ہی اپنے دونوں پوتوں کو  اللہ کی امان میں دے کر پرسکون ہوچکی ہوں ۔" انہوں نے سمجھایا 

" دادی ۔۔۔" وہ سسکی 

" دادی مجھے ڈر لگتا ہے اگر کچھ ہوگیا ۔۔۔۔" 

" علیزے ! " انہوں نے اسے ٹوکا 

" ایک شہید کی بیٹی اور  سپاہی کی منکوحہ ہو کر تمہارا دل اتنا کمزور کیسے ہوسکتا ہے ؟ میرے دونوں ہوتے اگر اس مٹی کا قرض اتارتے ہوئے شہید بھی ہوگئے تو یہ میرے لئیے باعث فخر ہوگا ۔۔" انہوں نے نم آنکھوں سے مضبوط لہجے میں اپنی بات مکمل کی ۔

" دادی پلیز ایسا تو مت کہیں اللہ انہیں سلامت رکھے آپ پلیز ایسا مت کہیں ۔۔" علیزے کا ننھا سا دل لرز اٹھا 

" سچائی کو قبول کرنا سیکھو اللہ اپنے خاص بندوں کو خاص کاموں کے لیے چنتا ہے اب اٹھو اور کالج جانے کی تیاری کرو ۔۔۔" انہوں نے اسے ٹوکا 

" دادی میرا آج دل نہیں کررہا کالج جانے کو ۔۔۔" وہ انکاری ہوئی 

" جاؤ پھر آرام کرو اور دو رکعات نماز نفل پڑھ کر اپنے سر کے تاج کیلئے دعا مانگو دیکھنا سب ٹھیک ہوگا ۔ وہ بتا کر کام سے پشاور گیا ہے آج یا کل تک جائے گا ۔" 

وہ دل ہی دل میں آمین کہتے ہوئے اٹھی اور پژمردگی سے چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئی وہ بار بار اپنی انگلیاں مسل رہی تھی اس کے دھیان کے سارے سرے موحد سے جڑے ہوئے تھے وہ موحد سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے موحد اس سے بہت دور جارہا ہوں حالانکہ ابھی دو روز پہلے ہی تو وہ اس سے مل کر اس کے پیروں میں نازک سی پائل پہنا کر گیا تھا موحد کا چہرہ اس کا ایک ایک نقش علیزے کی آنکھوں میں اترنے لگا تھا وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر اسے اپنے اوپر اختیار نہیں رہا تھا آنکھوں سے آنسوں کی لڑی بہنا شروع ہوچکی تھیں ۔

" اللہ میاں میرے موحد کو سلامت رکھنا ۔۔۔" وہ تڑپ تڑپ کر بس ایک ہی دعا مانگے جا رہی تھی ۔

                           *********

 صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا میجر احمد دلاور اور قانتا کے ساتھ فاٹا کے نزدیکی آفس پہنچنے کے لیے نکل چکا تھا وہاں سے مناسب سواری کا انتظام کرکے انہیں کوئٹہ چھاؤنی پہنچنا تھا  ۔صبح کے اجالے میں قانتا کا بنا برقع کے غیر ملکی حلیہ بہت نمایاں تھا جو کسی کی بھی نظر میں بآسانی آسکتا تھا کہ ان علاقوں میں عورتیں خال خال ہی نظر آتی تھیں وہ بھی مکمل پردے میں ۔

" مس قانتا آپ کا برقع کدھر ہے ؟ " میجر احمد نے سوال کیا 

" وہ تو پہاڑیوں میں رگڑ کھا کھا کر  پورا پھٹ چکا ہے ۔۔۔" قانتا نے جواب دیا 

" ہمم آپ کا حلیہ ہمیں پکڑوا سکتا ہے ۔۔" میجر احمد نے جینز اور شرٹ میں ملبوس سنہری  بالوں کی اونچی پونی بنائے پیروں میں جاگرز پہنے ہوئے سیدھی کھڑی قانتا کو ناقدانہ انداز سے دیکھا اب سے پہلے وہ برقعے میں چھپی ہوئی تھی تو اس کا لباس انداز سب مخفی تھا لیکن اب اسے بآسانی بحثیت غیر ملکی پہچانا جاسکتا تھا ۔

" سر راستے میں  بڑا بازار پڑتا ہے وہاں سے باجی کیلئے کچھ خرید لیتے ہیں ۔۔ " دلاور نے مشورہ دیا 

" بازار صبح دس سے پہلے نہیں کھلے گا اور اتنی دیر رکنے کا چانس ہم نہیں لے سکتے ۔۔" احمد نے صاف انکار کیا .

" اب ہم دونوں بھی اس پٹھانی قمیض شلوار میں ہیں ورنہ اپنی جیکٹ ہی باجی کو دے دینی تھی اب نسوار والے سرمہ خان سے مصری حسن والی حسینہ  تک کی جمپ لگے کس کو پتہ تھا ۔۔۔" دلاور نے دکھڑا رویا وہ دونوں ہی گلاب خان اور کانٹے خان کے گیٹ اپ میں تھے ۔

"                                                   Behave Dilawar 

باجی ہے تمہاری ۔۔۔" احمد نے اسے ٹوکا 

وہ باتیں کرتے ہوئے احتیاط سے چاروں جانب دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے جب قانتا کی نظر ایک چائے خانے کے باہر کھڑی گاڑی پر پڑی وہ تیزی سے بلی کی چال چلتی ہوئی آگے بڑھی اور جیسے ہی چائے خانے کا مالک اندر گیا وہ اچک کر جیپ میں بیٹھ گئی اب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر وائر الگ کررہی تھی تاکہ گاڑی اسٹارٹ کرسکے ۔

" سر ویسے باجی ماشاءاللہ بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں سواری کا انتظام کررہی ہیں ۔۔۔" دلاور نے قانتا کو دیکھتے ہوئے کہا 

قانتا گاڑی اسٹارٹ کرکے ان دونوں کے نزدیک لائی 

" کم آن گائز  ! جلدی کرو  ۔۔" اس نے کھڑکی سے منہ نکال کر ان دونوں کو پکارا 

میجر احمد نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر قانتا کو کھسکنے کا اشارہ کیا اور خود پوزیشن سنبھال کر گاڑی کو گئیر میں ڈال کر اسٹارٹ کیا 

" دلاور پوزیشن سنبھال کر بیٹھنا ۔۔۔" اس نے ہدایت دی 

" یس سر ۔۔ " دلاور نے سر ہلایا اور گن نکال کر پچھلی سیٹ پر پوزیشن لے کر بیٹھ گیا گاڑی تیزی سے دوڑنے لگی تھی ۔

" اب تو ہم پاکستان کی سرحدی حدود میں ہیں تو پھر اب کس بات کا خطرہ ہے ؟ " قانتا نے سنجیدگی سے گاڑی چلاتے ہوئے احمد کو دیکھا 

" مس قانتا یہ علاقہ غیر کہلاتا ہے یہاں ان کے کئی ساتھی کئی روپ میں موجود ہیں اور سرمہ خان کو اب تک اپنے ساتھیوں کی موت کا پتہ چل چکا ہوگا ۔ہمارے حلیے تک نشر ہوچکے ہونگے  کسی بھی لمحے کسی بھی چھت یا گاڑی سے ہم پر وار ہوسکتا ہے ۔ " اس نے وضاحت کی ۔

قانتا نے اثبات میں سر ہلایا اور خود بھی گن نکال کر چوکنا ہو کر سائیڈ مرر پر نگاہ جما کر بیٹھ گئی گاڑی تیزی سے پہاڑیوں کو کاٹ کر بنائی ہوئی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی جب اس کا بیک ٹائر ہٹ ہوا ۔۔

" شٹ ! ہم اسپاٹ ہوگئے ہیں دلاور ٹیک پوزیشن   ۔۔۔"میجر احمد نے بڑی مشکل سے گاڑی کو کنٹرول کیا ہی تھا کہ ایک گولی شیشے پر آکر لگی گاڑی ڈگمگا کر ڈھلان کی سمت لڑھکتی ہوئی نیچے گری۔

" بوتھ آف ہو جمپ ناؤ ۔۔۔" میجر احمد چلایا 

 دلاور پہلے ہی دروازہ کھول کر کود چکا تھا احمد نے تیزی سے حواس باختہ قانتا کی کلائی مضبوطی سے تھامی اور باہر کود گیا وہ دونوں روڈ پر رگڑ کھاتے ہوئے آگے جا کر گرے سامنے ہی چار آدمی سروں پر شیشے کی بنی ٹوپیاں پہنے بندوقیں ہاتھ میں لئیے کھڑے ہوئے تھے ۔

" اپنا بندوق پھینک کر ہاتھ سر پر رکھو ۔۔۔" ایک آدمی چلایا ۔

احمد اور دلاور دونوں نے اپنے ہاتھ میں تھامی گنیں زمین پر پھینک دی 

" واؤ اب تم لوگ لڑکی لے کر گھومنے لگے ہو ۔۔۔" اس نے قانتا کو خباثت سے دیکھا پھر مڑا 

" یہ وہی ہیں جنہوں نے رات ہمارے ساتھیوں کو مارا تھا ۔۔۔" وہ آگے بڑھ کر میجر احمد کے نزدیک آیا 

" میجر احمد یہی نام ہے نا تمہارا ؟ تم ہمیں سمجھتے کیا ہو ہمارے آدمیوں کو مارو گئے اور ہم چپ رہیں گے ؟ آخر جب تک تم فوجی ہمارے مظلوم آدمی لوگوں کو بلا جواز جان سے مارتا رہیگا ۔۔۔" وہ دن دھاڑے جھوٹ بول رہا تھا 

"ہم نے کوئی چوڑیاں نہیں پہننی بلکہ ہم نے پوری تیاری کررکھی ہے ہم بہت جلد پاکستان کو توڑ کر رہیں گئے اپنا حق لے کر رہیں گئے ۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا اور قانتا کے پاس آیا جس کے حسن کی جھلک اس کی نیت خراب کرچکی تھی یہ چاروں طا*لبان کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے ان کے انداز سے پتہ چل رہا تھا ۔

" میں اس لڑکی کو اڈے پر لے جارہا ہوں تم ان دونوں کو ٹھکانے لگا کر پہنچوں اور ان کے سر اڑانے کی وڈیو ضرور بنانا ۔۔۔" اس نے ایک جھٹکے سے قانتا کا ہاتھ احمد کی گرفت سے چھڑوایا اور اسے گھسیٹتے ہوئے اپنی جیپ کی طرف لے جانے لگا 

قانتا  اس کی گرفت سے نکلنے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہی تھی لیکن وہ لحیم شحیم آدمی تھا جس پر قانتا کے کسی وار کا اثر نہیں ہورہا تھا ۔

" دلاور ۔۔۔" میجر احمد نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا اور وہ دونوں جیسے وہ لوگ انہیں باندھنے ان کے نزدیک آئے ان ہر ٹوٹ پڑے ایک لمحہ لگا تھا پانسا پلٹنے میں احمد نے فائر کھول دیا تھا ۔

" رک جاؤ ورنہ یہ لڑکی ۔۔۔" اس لحیم شحیم آدمی نے تیزی سے قانتا کو اپنے آگے کرکے اس کے سر پر گن رکھی 

" مار دو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔" احمد نے سرد لہجے میں بولتے ہوئے اس آدمی اور قانتا دونوں کو حیران کرگیا تھا 

" اپنے قدم روک لو میجر ورنہ ۔۔۔" اس نے ٹریگر پر دباؤ بڑھایا لیکن جیسے ایک بجلی سی کوندی تھی اور فائر ہوا میں ہوا اب وہ آدمی بری طرح سے احمد سے گتھم گتھا تھا ۔ دلاور نے پاس پڑی گن اٹھا کر اس کا نشانہ لینا چاہا 

" نو دلاور اس کو زندہ پکڑنا ہے ۔۔ " میجر احمد نے چلا کر اسے روکا 

قانتا حیرت سے احمد کو اپنے سے دوگنا سائز کے آدمی سے لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی احمد تواتر اس پر  وار کررہا تھا بلاشبہ وہ ایک بہترین فائٹر تھا قانتا کی آنکھوں میں اس کیلئے تحسین اتر آئی تھی ۔

میجر احمد اس آدمی ہر قابو پا چکا تھا اور اب اسے اس ہی کی جیپ میں رسی سے باندھ کر ڈال دیا تھا 

" سر کہا چلنا ہے ؟ ۔۔"دلاور نے فرنٹ سیٹ سنبھالی 

احمد نے قانتا کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود جمپ لگا کر پچھلی سیٹ پر بیہوش آدمی کے اوپر پیر رکھ کر بیٹھ گیا ۔

" اپنے اڈے پر چلو ۔۔۔" اس نے جواب دیا 

" اوکے ۔۔۔" دلاور نے گاڑی کا رخ موڑا 

" کیا ہم کوئٹہ نہیں جارہے ؟ " قانتا نے سوال کیا 

" ابھی نہیں ۔۔۔" میجر احمد نے دو لفظی جواب دیا 

" کیوں ۔۔" 

" ابھی بھی ان لوگوں کے کئی سلیپنگ سیل ادھر موجود ہیں جو کبھی بھی ایکٹیو ہوسکتے ہیں ۔ ذرا اس کا منہ کھلوا لیں پھر چلیں گے ۔۔۔" 

" آخر یہ لوگ کون ہیں آپ کا ملک ہر وقت ان کا نشانہ کیوں بنتا ہے ؟ آپریشن ضرب عضب کے بعد تو اس سب کو ختم ہوجانا چاہئیے تھا  ۔۔" قانتا نے سوال کیا جس سے ظاہر تھا کہ وہ بھی اپنا ہوم ورک پورا کرکے ادھر آئی تھی 

" مس قانتا !  دہشت گردی جسم پر نکلا  کوئی پھوڑا نہیں  جسے ہم کاٹ کر ، زخم پر مرہم رکھ کر یہ مسئلہ حل کر لیں گے‘ یہ خون کی بیماری ہے اور یہ خون ہمارے پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے‘ دہشتگردی ایک سوچ ہے اور یہ سوچ اس وقت پورے ملک میں موجود ہے‘ یہ سوچ کسی خاص خطے‘ فرقے یا طبقہ فکر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی‘ ملک کے تمام طبقے اس سوچ کے حصار میں ہیں‘ یہ لوگ طالبان بھی ہیں‘ یہ لوگ وہ بھی ہیں جو شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ کو قتل کر دیتے ہیں یا سنیوں کی مسجد کو اڑا دیتے ہیں‘ اس سوچ میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے خواہش مند نوجوان بھی شامل ہیں‘ اس میں بلوچ لبریشن  کے لوگ بھی شامل ہیں‘ سندھو دیش کے لوگ بھی اور وہ لوگ بھی جو کراچی کو سندھ سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو اپنی سوچ کو شریعت اور دوسروں کی نمازوں کو ’’کفر‘‘ قرار دیتے ہیں اور وہ بھی جن کی نظر میں ہر داڑھی والا اور ہر شلوار قمیض اور ہر پگڑی والا دہشت گرد ہے اور وہ بھی جو ہر جینز‘ ہر شرٹ اور ہر کلین شیو کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں ان سب کو سلو پوائزن دیا جارہا ہے یہ کس وقت ایکٹیو ہو جائیں کسی کو نہیں پتہ ۔۔۔" میجر احمد نے تاسف سے جواب دیا ۔

" ٹھیک کہا سر اور اس کی بنیادی وجہ شدت پسندی ہے جسے باقاعدہ یہ را اور آئی ایس آئی ایس والے  ان لوگوں کو ٹریننگ دے کر مائنڈ ڈسٹرب کرکے ابھارتے  ہیں ان کے نام نہاد لیڈرز کا کام ہی برین واش کرکے انہیں سلیپنگ سیل بنانا ہے ۔

یہ سیل کس وقت ایکٹو ہو جائے ہم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا‘ دہشت گردی کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اس کی علامت صرف ایک ہوتی ہے اور وہ علامت ہے شدت پسندی ۔ ہم جب شدت پسند ہو جاتے ہیں‘ ہم جب خود کو ٹھیک اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگتے ہیں‘ ہم جب خود کو مظلوم اور دوسروں کو ظالم سمجھنے لگتے ہیں اور ہم جب خود کو مومن اور دوسروں کو کافر سمجھنے لگتے ہیں تو اس وقت ہم دہشت گردی کے دھانے پر پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔" دلاور نے بھی افسوس کیا 

" اور یہ سب معصوم ذہنوں کو باور کروایا جاتا ہے ینگ جنریشن ان کا ٹارگٹ ہوتی ہے  ابھی کچھ سال پہلے ہی کی بات ہے کہ دنیا بھر سے کئی طالب علم جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں اپنی یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر داعش چلے گئے کسی کو بھی بنا بتائے بس ایک لیٹر چھوڑ کر  ان سب اسٹوڈنٹس کو سوشل میڈیا سے ٹارگٹ کیا گیا تھا سارے ایک سے بڑھ کر ایک ذہین ہائی آئی کیوں والے ۔۔۔" قانتا نے ایگری کیا 

کچھ دیر بعد وہ لوگ دلاور کے خفیہ اڈے پر پہنچ چکے تھے ۔میجر احمد اس آدمی کو اٹھا کر اندر لے گیا تھا اور دلاور کیپٹن حمید سے رابطہ کرنے کیلئے فریکونسی سیٹ کرنے لگا تھا ۔

                            ********

کیپٹن حمید ، ایجنٹ دلاور ، میجر احمد قانتا کے ساتھ رات گئے کوئٹہ پہنچ چکے تھے اس آدمی سے پوچھ گچھ کے بعد اسے فاٹا کے حوالے کردیا گیا تھا ۔

رات گیسٹ ہاؤس میں گزار کر صبح آٹھ بجے فریش وردی میں ملبوس میجر احمد ، کرنل جھانگیر کے آفس پہنچ چکا تھا۔

" گڈ مارننگ سر ! " اس نے اندر آکر سلیوٹ کیا 

" بیٹھو ۔۔۔" کرنل جھانگیر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا 

" یس سر ۔۔۔" وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا  اور اب انہیں اپنی رپورٹ دے رہا تھا ۔

" میجر تم ان ٹیررسٹ کو زندہ پکڑ کر بھی تو لاسکتے تھے مگر تم کسی مہم پر جاؤ اور خون خرابہ نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ۔۔۔" کرنل جھانگیر نے اسے گھورا۔

" ویل سر سچویشن ہی کچھ ایسی تھی کہ ۔۔" 

" تمہیں پتہ ہے اگر تم ان کو زندہ پکڑ لاتے تو ہم ان کا منہ کھلوا کر کتنی انفارمیشن نکلوا سکتے تھے ؟ " کرنل جھانگیر نے بات کاٹی ۔

" سر ان کا پورا ڈیٹا ، ان کے سلیپنگ سیل سب آپ کیلئے اس ڈیوائس میں ریڈی ہے اس سب کے پیچھے را ہے  .." احمد نے یو ایس بی ان کی طرف بڑھائی۔

" آپ جانتے ہیں سر کہ وہ لوگ صرف موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اگر ہم ان کے ساتھیوں کو زندہ پکڑ لاتے تو وہ ضرور ان کو چھڑانے کے لیے ہمارے ایریا میں آکر اٹیک کرتے ۔۔" 

" میجر  ! اٹیک تو اب بھی ہوگا آخر تم لوگوں نے ان کے علاقے میں گھس کر انہیں مارا ہے ۔۔۔" 

" ہم ہمیشہ کی طرح تیار ہیں سر ! مگر اس بار ان کی تواضع چائے سے نہیں ہمارے جوانوں کی بلٹس سے ہوگی  ۔۔" میجر احمد نے کانفیڈنس سے جواب دیا 

" اب پلان کیا ہے ؟ " کرنل جھانگیر نے سوال کیا 

سر ہم  اوڑی میں سرجیکل اسٹرائیک کے لئیے تیار ہیں نا صرف عبدالفاتح کو چھڑائیں گے بلکہ ان کا پورا اڈہ تباہ کرکے آئینگے ۔۔" 

" ہمم اوکے مگر خون خرابہ نہیں بس اپنا ٹارگٹ اچیو کرو اور واپس انڈر اسٹینڈ ؟ " انہوں نے ہامی بھری 

" سر مار خور دشمن کو پسپا کر کے اوپر پہنچا کر  ہی واپس آتا ہے اس لئیے آپ فکر مت کریں ویسے بھی اگر اسے  زندہ پکڑا تو وہ لوگ اسے چھڑانے کے لیے ہمارے ایریا میں اٹیک کرنے آئینگے  ۔۔۔" وہ مسکرایا 

" اٹیک تو ہوگا یہ ہم سب جانتے ہیں  ۔۔۔" 

" جب انہیں بعد میں بھی گیڈر کی موت مارنا ہے تو پھر ابھی کیوں نہیں ؟ "میجر احمد نے سوال کیا 

" میجر آپ مشن کی تیاری کریں کل رات دو بجے اوکے  ! یو مے گو ناؤ  .." 

" یس سر ۔۔۔" وہ کھڑا ہوا اور سلیوٹ مار کر باہر نکل گیا ۔

                            *******

وہ چاروں میز کے گرد کرسی رکھے بیٹھے ہوئے تھے جب قانتا نے میجر احمد کو مخاطب کیا ۔

" آپ مجھے ادھر کیوں لائے ہیں ؟ ہمیں تو اوڑی جانا تھا ۔۔۔" وہ اس سیف ہاؤس میں آکر الجھی ہوئی تھی صبح سے میجر احمد غائب تھا اور اب لنچ کے وقت آیا تھا تو کوئی بات ہی نہیں کررہا تھا ۔

" مس قانتا ۔۔۔۔" احمد نے اسے مخاطب کیا 

" پلیز کال می قانتا جیسے آپ اپنے ان ساتھیوں کو نام سے بلاتے ہیں ۔۔۔" اس نے دلاور اور کیپٹن حمید کی طرف اشارہ کیا 

" آپ ہماری ساتھی نہیں ہیں باجی ورنہ کہنے کو تو میں آپ کو بھابھی ۔۔۔۔" 

" شٹ اپ دلاور ۔۔۔" احمد نے اس کی بات کاٹی 

" قانتا ! اوکے ؟ " احمد نے اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکا 

" ہمم " اس نے سر ہلایا 

" آپ کی گورنمنٹ نے ہماری ہیلپ مانگ لی ہے اس لئیے آپ بیفکر ہوجائیں ۔۔۔" اس نے تسلی دی 

" لیکن کوئی پلان تو ہوگا ہم ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے ۔۔" قانتا نے سوال کیا 

" آپ ابھی آرام کریں کل شام تک آپ کو پلان بتا دونگا ۔۔۔" احمد نے سنجیدگی سے کہا 

قانتا نے ایک نظر ان تینوں کو دیکھا اور اٹھ کر اندر بیڈ روم میں چلی گئی وہ سمجھ گئی تھی کہ احمد اسے ابھی کچھ نہیں بتانے والا ۔

" سر آپ نے باجی کا دل توڑ دیا ہے جب ہم آج رات اٹیک کررہے تو کیا باجی ساتھ نہیں ہونگیں ؟ " کیپٹن حمید نے داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوال کیا 

" نہیں یہ پورا مشن مارخور پورا کریگا اور ویسے بھی جو ٹیم لیڈر اس مشن کیلئے آرہا ہے وہ کبھی بھی غیر ملکی ایجنٹ کو وہ بھی لڑکی کو ہرگز  ساتھ شامل کرنا پسند نہیں کریگا ۔۔۔" میجر احمد نے جواب دیا 

" ٹیم لیڈر ؟ " دلاور نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائیں

" یس ٹیم لیڈر آج ہی وزیرستان سے واپس آکر شام تک ہمیں جوائن کرلینگے اور ذرا خیال سے بندہ بہت اکھٹر مزاج اور گرلز الرجک  ہے اس کے سامنے تم دونوں یہ باجی باجی مت کرنا ۔۔۔" احمد نے وارن کیا 

" گرلز الرجک + اکھٹر مزاج + آئی ایس آئی او گاڈ میجر زوار  سپر ایجنٹ کے ساتھ ہم یہ مشن کرینگے ۔۔۔" دلاور جوش سے بولا 

" مزا آئیگا ۔۔۔" کیپٹن حمید کرسی سے ٹیک لگا گیا ۔

                            **********

تیز رفتار فوجی جیپ کمپاونڈ میں آکر رکی ایک دراز قد ورزشی جسامت کا حامل عمر تقریباً تیس سال مردانہ وجاہت سے بھرپور کمانڈو ڈریس کوڈ میں ملبوس جوان باہر نکلا ۔

وہ آج ہی واپس آیا تھا اب اس کا ارادہ لمبی چھٹی پر اپنے ڈیڈ ریٹائرڈ بریگیڈیئر افتخار کے پاس جانے کا تھا جو ان دنوں بیرون ملک  رہائش پذیر تھے  جب کرنل جھانگیر نے اسے کانٹیکٹ کیا اور فوراً رپورٹ کرنے کا حکم دیا ۔

"گڈ ایوننگ سر ۔۔۔" اس نے اندر آکر سلیوٹ کیا 

" ویلکم ٹائیگر ! ۔۔۔" انہوں نے پرجوش انداز میں اٹھ کر اسے گلے لگایا 

" ٹائیگر ایک مشن ہے اس میں تمہاری مدد کی ضرورت ہے "  ۔۔انہوں نے تفصیلات بتانا شروع کیں ۔

"پورا مشن ہمارے ایجنٹس پورا کرینگے لیکن یہ تینوں ابھی فیلڈ میں نئے ہیں کسی ماہر ایجنٹ کا ساتھ ان کے لئیے ضروری ہے کہ معاملہ بین الاقوامی ہے اور ہمیں ہر صورت اپنا ٹارگٹ زندہ بچا کر لانا ہے ۔۔" 

" آج رات دو بجے سرجیکل اسٹرائیک بہتر ہے ۔ میں بیس  ہینگر پہنچ جاؤنگا ۔۔۔" زوار نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔

                          *********

میز پر نقشہ پھیلا ہوا تھا جس پر بیچ میں سرخ مارکر سے اوڑی کے ایک مقام کو سرکل کیا ہوا تھا میجر زوار اس آپریشن کو  احمد ، دلاور اور حمید کے ساتھ لیڈ کررہے تھے  ۔ترک حکومت پاکستان سے عبدالفاتح کو چھڑوانے میں مدد کیلئے درخواست کرچکی تھی ۔

"  یہ کیمپ ہمارا مین ٹارگٹ ہے ہماری انفارمیشن کے مطابق ترک لیڈر عبدالفاتح کو اغوا کرکے یہی رکھا گیا ہے ۔ اس کیمپ کا کمانڈر یہ کرشن  ہے جو را کا ایجنٹ ہے اور اس وقت کیمپ میں موجود ہے ہمیں عبدالفاتح کو زندہ واپس لانا ہے اور دشمن کے اس کیمپ کو جہاں اغوا کنندگان کو رکھا جاتا ہے تباہ کرکے آئینگے ۔۔۔" میجر زوار نے پلان بتا کر سب کو دیکھا 

" جنٹلمین آپ تیار ہیں ؟ " اس نے سوال کیا 

" یس سر ۔۔۔۔" وہ سب بلند آواز میں بولے 

چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا جب آسمان کی بلندیوں پر موجود جہاز سے چار پیراشوٹرز اس جنگل میں اترے اپنے اپنے پیرا شوٹ جسم سے الگ کرکے انہوں نے اپنی گنز ہاتھ میں لیں اب وہ بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ان کے چہرے کالے نقاب سے ڈھکے ہوئے تھے ۔صرف ان کی آنکھیں نظر آرہی تھیں ۔

" الرٹ ٹیم ! دشمن کیمپ نزدیک آرہا ہے ہمیں بہت احتیاط سے اندر گھس کر اپنے ٹارگٹ کو چھڑانا ہے ۔۔۔" میجر زوار نے درختوں کے جھنڈ کے پاس رک کر نائٹ وژن دوربین آنکھ سے لگائی جہاں جھنڈ کے اندر درختوں میں گھرا لکڑی کا بنا بڑا سا جھونپڑا نما  مکان نظر آرہا تھا جس کے چاروں اطراف علاقائی لباس میں ملبوس گنیں اٹھائے چوکنے ٹیررسٹ پہرا دے رہے تھے ۔

" دلاور ، حمید تم دونوں رائٹ سائیڈ سے اٹیک کرکے دشمن کو اپنی طرف متوجہ کرو اور میجر احمد تم مجھے کوور کرو ۔۔۔"  میجر زوار نے انہیں ہدایات دیں

دلاور اور حمید آہستگی سے دائیں جانب بڑھنا شروع ہو گئے ۔ کیمپ کے نزدیک پہنچ کر کیپٹن حمید نے زمین پر سے ایک بڑا سا پتھر چن کر اٹھایا اور دلاور کو اشارہ کرتے ہوئے وہ پتھر زور سے پھینکا ۔پتھر جا کر لکڑی کے تختے پر جاکر لگا ایک آواز سی پیدا ہوئی اور دو پہرے دار اس آواز کو سن کر اس سمت آئے ۔

" یار ادھر کوئی نہیں ہے تجھے وہم ہوا ہوگا ۔۔۔" ایک پہرے دار لے دوسرے کو ٹوکا جو چاروں جانب گھور گھور کر دیکھ رہا تھا اس سے پہلے وہ دونوں پلٹ کر واپس جاتے تختے کے نیچے چھپے دلاور اور حمید نے جمپ لگا کر ان دونوں کو گلے سے پکڑ لیا اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تیز دھار چاقو ان کی شہ رگ پر پھیر کر ان کا بے جان لاشہ نیچے پھینک دیا اب وہ کیمپ کا رائٹ حصہ آرام سے کوور کرسکتے تھے پوزیشن لے کر انہوں نے اپنا نشانہ سیٹ کیا  اندھیرے میں ان دونوں کی سیاہ آنکھیں چمک رہی تھیں ۔اب کھل کر دشمن کو زک پہچانی تھی ۔

میجر زوار اور احمد دونوں سگنل کا ویٹ کررہے تھے۔جب فائر کی آواز گونجی اور سب بھاگتے ہوئے دائیں جانب جاتے نظر آئے ۔

" سر ہم نے رائٹ سائیڈ ایریا ہوتی طرح  سیکور کرلیا ہے ۔۔" دلاور کی آواز ٹرانسمیٹر میں ابھری 

زوار ، احمد کے ساتھ اس مکان میں گھس چکا تھا فائرنگ شروع ہوچکی تھی وقت کم تھا انہیں یہاں دشمن کی  مزید کمک پہنچنے سے پہلے نکلنا تھا وہ دونوں کمر سے کمر ملائے تیزی سے فائرنگ کرتے ہوئے دشمن کو کوئی بھی موقع دئیے بغیر مار چکے تھے اور اب ایک ایک کمرہ چیک کررہے تھے انہیں بھاری مقدار میں بم ، ہینڈ گرنیڈ ملے تھے اس پورے کیمپ میں موجود پندرہ افراد مارے جاچکے تھے ۔

دلاور اور حمید  چوکنا انداز میں کیمپ کے دونوں اطراف پہرا دے رہے تھے اور اندر زوار اور احمد مکان کی ایک ایک دیوار کو چیک کررہے تھے ان کی اطلاع کے مطابق عبدالفاتح کو یہی رکھا گیا تھا وہ دونوں ہی پورے مکان کا جائزہ لے رہے تھے جب میجر زوار کی نظر فرش پر بچھے ایرانی قالین پر پڑی عموماً قالین کمرے کے وسط میں بچھائے جاتے ہیں لیکن یہ داہنی طرف ایک کونے پر بچھا ہوا تھا۔۔

" احمد کم ۔۔۔" زوار نے آہستگی سے قالین کے نزدیک پہنچ کر اپنی گن کی نوک سے قالین کو اٹھایا تو نیچے لکڑی کا فرش تھا ۔۔۔

" پورا فرش سیمنٹ کا ہے سوائے اس کے ۔۔۔" احمد نے ہاتھ پھیر کر کھوکھلا پن محسوس کیا 

" میجر احمد ہمیں بنا آواز کئیے خاموشی سے یہ تختہ اکھاڑنا ہوگا ۔۔۔" زورا گن زمین پر رکھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھوڑی سی محنت کے بعد تختہ جڑ سے اکھڑ چکا تھا اور نیچے بوسیدہ سی سیڑھیاں جاتی نظر آرہی تھیں احمد نے جیب سے ٹارچ نکال کر اندر روشنی ڈالی 

" یہ یقیناً کوئی سرنگ ہے ۔۔" میجر احمد نے زوار کو مخاطب کیا 

" ہوسکتا ہے ہمیں اندر اتر کر چیک کرنا پڑیگا ۔۔۔" زوار  پرسوچ انداز میں بولا

" کیپٹن حمید ، دلاور باہر سب کلئیر ہے تو اندر آؤ اوور  ۔۔۔" میجر زوار نے آہستگی سے ان دونوں سے کانٹیکٹ کیا 

" یس سر ۔۔" 

ان دونوں کے اندر آتے ہی احمد اور زوار بھی سیدھے کھڑے ہوگئے اب وہ چاروں اس سرنگ کے اوپر کھڑے ہوئے تھے ۔

" دلاور اور حمید تم دونوں ادھر پہرا دو اور میرے سگنل کا ویٹ کرو اور احمد تم میرے ساتھ آؤ ۔۔۔" 

زوار احتیاط سے قدم جماتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہا تھا اندر گھپ اندھیرا تھا اور یہ ایک سیلن زدہ سرنگ نما تہہ خانہ تھا وہ دونوں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے جب میجر زوار کے حساس کانوں میں کسی کے تیزی سے قدم پیچھے کرکے سرکنے کی آواز آئی وہ فوراً احمد کو رکنے کا اشارہ کرکے دیوار سے ٹیک لگا کر دم سادھے کھڑا ہوگیا ۔کوئی تھا جو انہیں دیکھ رہا تھا چند لمحوں بعد اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا بال نما آلہ نکالا اور اسے آگے سرنگ میں لڑھکا دیا اس بال کے فرش سے ٹکرانے کی آواز سنتے ہی فائرنگ شروع ہوگئی یعنی کچھ دھشتگرد اندر چھپے بیٹھے تھے احمد اور زوار نے آگے بڑھ کر فائرنگ کرتے ہوئے انہیں ٹارگٹ کرنا شروع کردیا تھا ۔

تہہ خانے سے آتی فائرنگ کی آواز سن کر دلاور اور حمید نے بھی نیچے چھلانگ لگا دی تھی اب دلاور رول کرتا ہوا آگے بڑھ آیا تھا اور وہ جیسے ہی اپنی جیب سے لائٹ بم پھینکتا فوری چراغاں ہوتے ہی زوار اور احمد اپنی گنوں سے ان چھپے ہوئے کتوں سے بدتر دہشت گردوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے آگے بڑھ رہے تھے کچھ ہی دیر میں پوری سرنگ میں سناٹا چھا گیا تھا ۔

"دلاور تم بائیں بازو چیک کرو حمید بیک اپ کرو ۔۔۔"میجر زوار نے ہدایات دیں تبھی سامنے ملگجی سی پیلی روشنی میں انہیں فرش پر ایک آدمی  اوندھے منہ پڑا ہوا نظر آیا جس کے ہاتھ پیر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور منہ میں کپڑا ٹھونس کر ٹیپ لگایا ہوا تھا ۔۔۔

" سر ! ایوری تھنگ اوکے ؟ " احمد نے آگے بڑھ کر زوار  سے سوال کیا جو جھک کر اس آدمی کو سیدھا کررہا تھا 

" یس آل ان کنٹرول ٹارگٹ مل گیا ہے ۔۔" زوار نے سنجیدگی سے جواب دیا تبھی کسی کے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی 

" احمد ہری آپ تم ٹارگٹ کو لے کر باہر نکلو میں اسے دیکھتا ہوں ۔۔" 

احمد اور دلاور اس بیہوش بندھے ہوئے آدمی کو اٹھا کر تیزی سے نکل گئے تھے ۔

میجر زوار  ، کیپٹن حمید کے ساتھ اس آدمی کا تعاقب کررہا تھا جو یقیناً اس کیمپ کا کمانڈر انچارج تھا کچھ دور چل کر زوار نے ہاتھ کے اشارے سے کیپٹن حمید کو روکا اور اس آدمی کی ٹانگ کا نشانہ لے کر فائر کیا ۔اس کے گرتے ہی وہ دونوں اس کے نزدیک پہنچے اور اس کی گن پیر سے ٹھوکر مار کر دور پھینک دی 

را کے ایجنٹ کرشن کی حالت پاک فوج کے کمانڈوز کو دیکھ کر خراب ہوگئی تھی پہلی بار اس طرح انہیں کے علاقے میں گھس کر انہیں مارا جارہا تھا ۔

" دیکھو مجھے چھوڑ دو یہ ہماری زمین ہے اگر مجھے مارو گے تو یہاں سے بچ کر نہیں جا سکو گے ۔۔" اس نے دھمکانے کی کوشش کی 

میجر زوار نے گڑگڑاتے ہوئے کرشن کو آرام سے دیکھا اور پھر اسے شوٹ کرکے وہ واپس پلٹا 

" سر ۔۔" کیپٹن حمید کہنا چاہتا تھا کہ اسے زندہ پکڑ لینا تھا کرنل جھانگیر کا حکم تھا زورا اس کے پاس آکر رکا 

" کیپٹن پاگل کتوں کو مار دینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔۔" 

وہ چاروں اس کیمپ سے ترک لیڈر عبدالفاتح کو لے کر باہر نکل آئے تھے ۔

" جنٹلمین لیٹس گو ۔۔۔" زورا ہے انہیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور اپنی جیب سے ہینڈ گرنیڈ نکال کر اندر گیا دو ہینڈ گرینڈ پن نکال کر اس سرنگ میں پھینک کر وہ برق رفتاری سے کھڑکی کی طرف بڑھا اور ایک ان ہینڈ گرنیڈ کی پن ہٹا کر اسے کھڑکی سے اندر پھینک کر باہر کود گیا ۔زور دار دھماکوں سے فضا لرز اٹھی تھی دشمن کا ایک بڑا اڈا اسی کی سرزمین پر تباہ ہوچکا تھا ۔

                            *********

زنجیروں میں جکڑا ہوا موحد لہو لہان تھا اس کی کمر کی کھال ادھڑ چکی تھی آنکھیں کالی ہو چکی تھی جب ملا اندر داخل ہوا ۔

" اس نے زبان کھولی کے نہیں ؟ " اس نے دلچسپی سے موحد کے لہولہان وجود کو دیکھا 

" بہت ڈھیٹ جان ہے کچھ بولتا ہی نہیں ہے ۔۔۔" ایک آدمی نے جواب دیا 

" اس کے گھر کی تلاشی کے لئیے ٹیم بھیجو چپے چپے کی تلاشی کراؤ کچھ تو ملیگا ۔۔۔" اس نے حکم دیا ۔

عبدالفاتح کو راتوں رات خاموشی سے پاک فضائیہ کے طیارے نے قاہرہ پہنچا دیا تھا ۔مشن مکمل ہوچکا تھا۔ میجر زوار اپنی لمبی چھٹی پر اگلی فلائٹ سے  بیرون ملک روانہ ہورہا تھا ۔احمد ، کیپٹن حمید اور دلاور سب کام نبٹا کر دن کے بارہ بجے سیف ہاؤس پہنچے ۔دلاور اور کیپٹن حمید کو اب بہت جلد کسی نئے مشن پر روانہ ہونا تھا کچھ دن وہ دونوں میجر احمد کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے ۔

" آپ لوگ رات بھر کدھر تھے ۔۔۔" کچن سے کافی کا مگ ہاتھ میں لئیے قانتا نے ان تینوں کو گھورتے ہوئے سوال کیا 

" افف باجی کو تو ہم بھول ہی گئے تھے ۔۔۔" دلاور نے سر پر ہاتھ مارا 

" مسٹر احمد آپ نے تو آج مجھے اوڑی لے کر جانا تھا ۔۔" اس نے احمد سے سوال کیا 

" دلاور حمید ناشتے کا بندوست کرو اور مس قانتا آپ کا کام ہوچکا ہے ۔۔۔" 

" جانتی ہوں ۔۔۔" قانتا نے اس کی بات کاٹی 

"  جب سب جانتی ہیں تو پھر اس طرح کیوں سوال کررہی ہیں ۔ ؟ " میجر احمد نے اسے گھورا 

" باجی آپ کیا جانتی ہیں ہمیں بھی بتائیں ۔۔۔" کچن تک جاتا دلاور پلٹ کر واپس آیا ۔

" میں بھی ایک ایجنٹ ہوں آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں ۔۔" قانتا نے بلیک ٹی شرٹ میں ملبوس لمبے  چوڑے احمد کو گھورا ۔

" یہ مشن ہمیں آئی ایس آئی نے اسائن کیا تھا اور آپ ہم میں سے نہیں ہیں اب آپ تیاری کریں شام تک آپ کی واپسی کا ارینج کردیا جائیگا ۔۔۔" احمد نے اکھٹر انداز میں جواب دیا اور سیدھا اندر کچن میں دلاور اور حمید کے پیچھے چلا گیا ۔

" تم بہت اکھڑ ہو اور شاید بدتمیز بھی لیکن مجھے پتہ نہیں کیوں اچھے لگتے ہو ۔۔۔" قانتا نے پرسوچ نگاہوں سے اسے اندر جاتے دیکھا ۔

کچن میں میز پر چائے کے کپ اور پاپے کی ٹرے کے ساتھ ان تینوں کا شاہی ناشتہ حمید تیار کرکے رکھ چکا تھا وہ تینوں گول میز پر کرسی گھسیٹ کر بیٹھے چائے پیتے ہوئے باتیں کررہے تھے جب دلاور کی نظر دروازے میں ساکت کھڑی قانتا پر پڑیں جو احمد کو ٹکٹکی باندھے دیکھے چلی جارہی تھی اس کی آنکھوں سے جھلکتے جذبے بہت واضح تھے ۔

" حمید 1.45 ..." دلاور نے چسکی بھرتے ہوئے سرگوشی کی جس پر حمید نے غیر محسوس انداز سے گردن گھمائی 

" میجر احمد ! سر اگر ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں ۔۔" کیپٹن حمید نے اسے متوجہ کیا 

" یس کہوں ۔۔" احمد نے اپنا کپ میز پر رکھا 

" میجر مجھے لگتا ہے وہ آپ کو بہت پسند کرتی ہے اور شاید بات پسندیدگی سے بھی آگے نکل چکی ہے  ۔۔" کیپٹن حمید نے سنجیدگی سے کہا۔

" واٹ ناسنس ؟ ہم ادھر سب کام کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں یہ فضولیات کرنے نہیں ۔۔۔" احمد کو غصہ چڑھ گیا ۔

" اٹس اوکے کیپٹن ! تم احمد سر کو چھوڑو بس یہ بتاؤ کہ کس کی بات کررہے ہو ؟ ۔۔" دلاور نے شرارت سے پوچھا 

" اپنی اور تمہاری بلکہ سارے جہاں کی باجی جان کی سوائے ۔۔۔" وہ بڑے مزے سے بولا 

" ناٹ اگین ۔۔۔تم دونوں پھر شروع ہوگئے ۔۔۔" احمد ٹھیک ٹھاک تپ گیا اور کرسی گھسیٹ کر دروازے پر ساکت کھڑی قانتا کے پاس سے گزرتا ہوا اندر بیڈ روم میں چلا گیا ۔

قانتا اسے اندر جاتا دیکھ کر ہوش میں آئی ۔

" میجر احمد ! میجر احمد پلیز میری بات سنئیے ۔۔" اس نے آواز لگائی وہ بیڈروم کے دروازے پر رکھا ہاتھ ہٹا کر پلٹا 

" جی فرمائیے ۔۔۔" 

قانتا باوقار انداز میں چلتی ہوئی اس کے نزدیک آئی ۔

" سر کیا آپ میرے ساتھ ایک کپ کافی جوائن کرسکتے ہیں ؟ " 

احمد نے ایک نظر اس کی گہری سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں جھانکا وہ بڑی امید سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

" لسن مس ! آپ کا کام اب ادھر ختم ہوچکا ہے بہتر یہ ہے کہ آپ کافی پلاننگ کی بجائے قاہرہ واپسی کی تیاری کریں ۔" اس نے سختی سے جواب دیا 

" میجر احمد ! میں نے سوچا تھا ریسکیو مشن آپ کے ساتھ کرکے مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ملیگا لیکن ۔۔خیر آپ سے مل کر آپ کے ساتھ جتنا بھی سہی پر کام کرکے اچھا لگا میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گئی ۔۔۔" وہ جواب دے کر تیزی سے پلٹ گئی لیکن اس کی آنکھوں میں آئی ہلکی سی نمی احمد کی زیرک نگاہوں سے اوجھل نہیں تھی وہ ایک گہرا سانس لے کر اندر کمرے میں داخل ہوگیا اس کا اردہ تین چار گھنٹے سونے کے بعد قانتا کو ائیر پورٹ چھوڑ کر آنے کا تھا ۔

شاور لے کر فریش ہونے کے بعد وہ سونے لیٹ گیا آنکھیں بند کرتے ہی قانتا کی گہری نیلی آنکھیں اس کی بند آنکھوں میں اتر آئیں ۔۔

" ہمیں ایسے پڑاؤ کی اجازت نہیں ہوتی مس قانتا ۔۔۔" وہ بڑبڑایا 

ابھی اس کی آنکھ لگے بمشکل ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اس کا پرسنل سیل فون لگاتار تواتر سے بجنے لگا اس نمبر پر گھر والے اس سے کوئی بہت ہی اہم بات یا ایمرجنسی ہو تو ڈسٹرب کرتے تھے اس نے تیزی سے اٹھ کر اپنا فون اٹھایا دادی کی کال پر کال آرہی تھیں ۔

" اسلام علیکم دادی ۔۔" اس نے فون اٹھایا 

" وعلیکم اسلام احمد ۔۔ " ان کی ٹہری ہوئی آواز ابھری 

" دادی سب خیریت تو ہے ۔۔۔" اس نے پوچھا 

" احمد کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے موحد تین دن سے غائب ہے پشاور کسی مجرم کو لے کر گیا تھا اور اب یہ پولیس والے کہتے ہیں وہ غائب ہوگیا ہے کل رات تمہارے گھر پر بھی چار آدمیوں نے حملہ کیا ہے چوکیدار مارا گیا ہے پورا گھر اس وقت سیل ہے بچے ۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکیں جیسے اپنے آنسو پی رہی ہوں احمد دانت بھینچے ان کی بات سن رہا تھا۔

" احمد ان بوڑھی ہڈیوں میں اب مزید کوئی خبر سہنے کی ہمت نہیں ہے تم چھٹی لے کر آؤ اور میرے موحد کو ڈھونڈ کر لاؤ ۔۔۔" انہوں نے بات مکمل کی احمد نے بنا ایک لفظ کہے فون بند کردیا تھا اس کے وجیہہ چہرے پر بلا کی سختی چھائی ہوئی تھی وہ اپنا سامان بیگ میں ڈال کر جانے کیلیے تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلا جہاں سامنے ہی قانتا ، حمید اور دلاور بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔

" Is everything okay ? " 

کیپٹن حمید اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چونک گیا 

" مجھے فوراً کراچی جانا ہوگا تم دونوں قانتا کو ائیر پورٹ چھوڑ دینا کرنل جھانگیر کو میں خود کال کردونگا  ۔۔۔" وہ انہیں ہدایات دیتا ہوا آگے بڑھا 

" احمد ! آخر ہوا کیا ہے ۔۔۔" دلاور اٹھ کر اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے پوچھا 

" میرے گھر پر اٹیک ہوا ہے اور موحد کو مسنگ پرسن ڈکلیئر کیا گیا ہے ۔۔۔" اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہوچکی تھیں 

" ٹیررسٹ اٹیک ؟ " حمید نے جو اٹھ کر ان کے نزدیک آچکا تھا سنجیدگی سے پوچھا 

" یس ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے جواب دے کر اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔

" موحد نے تو  لاسٹ ائیر ہی سی ایس ایس کرکے پولیس فورس جوائن کی تھی نا ۔۔۔" احمد نے دلاور سے سوال کیا 

" ہاں بہت بریلینٹ لڑکا ہے ۔۔۔" 

" مسننگ پرسن ۔۔یہ یقیناً انہیں لوگوں کی کاروائی ہے اور اندر کے لوگ بھی ملے ہوئے ہیں ورنہ ایک ایس پی ہر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا  ۔۔۔" احمد نے برفیلے سرد لہجے میں کہا۔

" میں مس قانتا کو آج رات کی فلائیٹ سے روانہ کرکے کراچی جارہا ہوں ویسے بھی ابھی کچھ دن کی چھٹی ملی ہے ۔۔۔" دلاور نے فیصلہ کیا 

" لیٹس گو ! میجر احمد کو جوائن کرتے ہیں تم قانتا کو ڈراپ کا انتظام کروں میں ہمارے ٹکٹس بک کرواتا ہوں ۔۔۔" کیپٹن حمید سنجیدگی سے بولتا ہوا کھڑا ہوگیا ۔

احمد اور دلاور ایک ہی بیچ کے تھے جبکہ حمید ان کا جونئیر تھا ایس ایس جی کمانڈو ٹریننگ کے بعد احمد آئی ایس آئی جوائن کرچکا تھا اور اب اس کے نقش قدم پر دلاور اور حمید چل رہے تھے ۔

دادی کے کمرے میں جانے کے بعد علیزے  خبروں کا چینل بند کرکے اوپر ٹیرس پر آگئی اس کا دل بہت اداس تھا نیند آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی اسے موحد یاد آرہا تھا دل اس کی گمشدگی سے بہت ڈرا سہما ہوا تھا مگر وہ دادی کے سامنے رو کر انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی اس لئیے ان کے سونے کے بعد ادھر خاموشی سے آکر بیٹھ گئی تھی آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے اس کی آنکھوں سے موتی کی لڑیوں کی طرح آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے موحد نے اسے جتنی اپنائیت اور محبت دی تھی وہ اس کی رگ رگ میں اتر چکی تھی اس کی ساری امیدیں چاہتیں محبتیں سب صرف اور صرف موحد کیلئے تھیں ۔

" کیا بات ہے دادی یہ علیزے کا منہ کیوں پھولا ہوا ہے ؟ " وہ تین دن کا تھکا ہارا ابھی شام ہی گھر پہنچا تھا اور برآمدے میں بچھے تخت پر تسبیحِ پڑھتی دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تھا ۔جب علیزے چائے کا کپ اس کے نزدیک رکھ کر اندر گئی 

" اسے چھوڑو اور تم اٹھو اندر کمرے میں لیٹ کر سو جاؤ دیکھو تو آنکھیں کیسے سرخ ہورہی ہیں ۔۔ " انہوں نے پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا 

" دادی جان مجھ سے آرام نہیں ہوگا جب تک آپ مجھے  علیزے کی ناراضگی کی وجہ نہیں بتائیں گئیں ۔۔۔" وہ اٹھ کر  بیٹھ گیا

دادی نے۔ ایک نظر پینٹ اور ہالف ٹی شرٹ میں ملبوس موحد پر ڈالی  چوڑا سینہ ورزشی بازو خوش شکل ، لمبا قد وہ پورے ماحول پر چھا جاتا تھا ۔۔

" ماشاءاللہ ۔۔۔" بےاختیار ان کے لبوں سے نکلا اور انہوں نے آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکی کہ کہیں ان کے لاڈلے پوتے کو ان کی نظر ہی نہ لگ جائے ۔

" دادی جان ۔۔۔" موحد نے ان کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلایا 

" بتائیں نہ اس کا موڈ کیوں آف ہے ؟ " اس کا دل علیزے میں اٹکا ہوا تھا 

" ارے میاں کیا بتاؤں کل عید ہے اور وہ مہندی لگانے کی ضد کررہی ہے  میں نے تو پیالے میں مہندی گھول لی تھی ہر اسے ڈیزائن بنوانا ہے ۔۔ " انہوں نے موحد کو مخاطب کیا 

" تو دادی آپ اسے لگانے دیں اس میں پرابلم کیا ہے ۔۔۔" وہ حیران ہوا 

" پرابلم ! کوئی ایک ہو تو بتاؤں بھی تم اچھی طرح سے جانتے ہو وہ کتنی سیدھی اور بزدل ہے اب جگہ جگہ قربانی کا جانور بندھا ہوا ہے چوزے سے ڈرنے والی کو میں باہر کیسے لے کر جاؤں ؟ اس ڈرپوک کی وجہ سے ہم تو اپنا بکرا تمہاری طرف بندھواتے ہیں ۔۔۔" انہوں نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا ۔

" دادی اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے مہندی لگوانے لے جاتا ہوں ۔۔۔" اس نے پیار سے ان کے ہاتھ پکڑے ۔

" پہلے تھوڑی دیر آرام کرلو پھر لے جانا ۔۔۔" انہوں نے اجازت دی  

" شام تو ہورہی ہے دادی میں اسے لے کر جاتا ہوں پھر آکر ہی آرام کرونگا ۔آج ایک طرح سے چاند رات والی رونقیں ہیں صبح قربانی بھی کرنی ہے اس لئیے آج تو آپ کے پاس ہی رکونگا ۔۔" وہ ان سے اجازت لے کر اندر گیا 

کمروں میں جھانک کر وہ کچن میں آیا جہاں علیزے پھولے ہوئے منہ کے ساتھ رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھی ۔وہ دروازے سے ٹیک لگا کر اسے دیکھ رہا تھا نیوی بلیو کلر کے سوٹ میں اس کی چمپئی رنگت چمک رہی تھی یہ سوٹ اس پر بہت جچ رہا تھا وہ شاید پارلر جانے کیلئے تیار ہوئی تھی لمبی چٹیا نازک کمر کی شان بڑھا رہی تھی ۔موحد آج  کئی دنوں بعد بڑی فرصت  سے اسے دیکھ رہا تھا جب اس کی نظروں کی تپش محسوس کرکے علیزے نے دروازے کی طرف دیکھا ۔۔

" آپ ۔۔کچھ چاہئیے کیا ؟ " اس نے پوچھا 

" موڈ کیوں خراب ہے میری بیوی کا ؟ " وہ آگے بڑھ کر اس کے نزدیک آیا اور کفگیر اس کے ہاتھ سے لے کر الگ رکھا 

" ایسی تو کوئی بات نہیں میں تو ٹھیک ہوں ۔۔۔" وہ اس کی بولتی نگاہوں سے نظریں چرا کر پیچھے ہوئی ۔

" تو پھر یہ غبارے کی طرح منہ کیوں پھیلایا ہوا ہے ؟ " موحد کی نظریں علیزے کو اپنے اندر تک اترتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔

" جلدی سے اپنی چادر لے کر آؤ میں باہر انتظار کررہا ہوں ۔۔۔" وہ اس کے چہرے سے بمشکل نظریں ہٹا کر پیچھے ہٹا 

" رئیلی ۔۔۔" وہ خوشی سے کھل اٹھی 

" جلدی کرو ۔۔۔" وہ اسے حکم دیتا کچن سے نکلا اور  باہر گاڑی میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا بمشکل پانچ منٹ میں سیاہ شیشوں والی چادر اوڑھے خوشی سے دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ علیزے باہر آئی اور اس کی جیپ کا دروازہ کھول کر اندر اس کے برابر بیٹھ گئی ۔موحد نے گاڑی سڑک پر ڈالی اور ایک مشہور بیوٹی پارلر کا رخ کیا بیس منٹ کی ڈرائیو کے دوران ہلکی پھلکی باتیں کرتے وہ پارلر پہنچ چکے تھے ۔

" سنو ۔۔۔" اس نے دروازہ کھول کر اترتی ہوئی علیزے کو پکارا 

" یہ رکھو ۔۔۔" اس نے اپنا والٹ نکال کر اس کی سمت بڑھایا 

" میرے پاس پیسے ہیں ۔۔۔" علیزے نے سہولت سے اسے بتایا 

" ہاں لیکن مہندی تو میرے نام کی لگاؤ گی نا ! " وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور علیزے کا ہاتھ پکڑ کر اپنا والٹ اس کی شفاف ہتھیلی پر رکھا ۔

" اچھی سی کلائیوں سے اوپر تک مہندی لگوانا مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔" اس کے گھمبیر لہجے میں کی گئی فرمائش سن کر وہ سٹپٹاتے ہوئے اس کا والٹ اپنی ہتھیلیوں میں مضبوطی سے تھامے اندر بھاگ گئی تھی ۔

پارلر میں بہت رش تھا تقریباً دو گھنٹے بعد وہ دونوں ہاتھوں میں مہندی لگائے آستینیں اوپر کئیے دروازے پر سے اچک کر موحد کو باہر تلاش کررہی تھی جب وہ اسے جیپ سے ٹیک لگائے آرام سے کھڑا نظر آیا وہ فورا باہر نکلی اسے آتا دیکھ کر موحد سیدھا ہوا تبھی سامنے سے کچھ بچے اپنا بکرا گھماتے ہوئے آتے نظر آئے اور علیزے کا رنگ اپنے  سامنے بکرے کو دیکھ کر فق پڑگیا وہ زور سے چیختے ہوئے موحد کی طرف بھاگی تو دوسری طرف بکرے کو اپنی بےعزتی پسند نہیں آئی اور وہ رسی تڑوا کر علیزے کی طرف بڑھا ۔

موحد نے تیزی سے علیزے کو تھاما ۔

" وہ بکرا مجھے بچا لیں پلیز ۔۔۔۔" علیزے کی آنکھوں سے خوف ٹپک رہا تھا 

" آرام سے ورنہ مہندی خراب ہو جائے گئی ۔۔۔" اس نے احتیاط سے اسے اپنے پیچھے کرکے سامنے سے آتے بکرے کو سینگوں سے پکڑ کر روکا ۔اس کی یہ بہادری دیکھ کر علیزے کا دل عش عش کر اٹھا ۔

بکرے کو بچوں کے حوالے کرکے وہ ہنستا ہوا اس کی طرف بڑھا اور جیپ کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھنے میں مدد کی ۔

وہ گاڑی چلاتے ہوئے گایے بگاہے اس کے دودھیا ہاتھوں پر سجی مہندی کو دیکھ کر بار بار ایک ہی شعر پڑھتے ہوئے اپنا سر دھن رہا تھا ۔۔

مہندی لگائے بیٹھے ہیں کچھ اس ادا سے وہ 

مٹھی میں ان کی دے دے کوئی دل نکال کے 

" موحد ۔۔۔" وہ روتے ہوئے اسے پکار رہی تھی 

" موحد پلیز آجائیں ۔۔۔۔" وہ اپنا اختیار کھو رہی تھی اس پر جان چھڑکنے والا اس کا محرم اس کا سب کچھ غائب تھا سب کہہ رہے تھے وہ شاید ۔۔۔۔۔

لیکن اسے اپنی دعاؤں پر ، اپنے رب کی رحمت پر بھروسہ تھا وہ ہمت کرکے وضو کرنے اٹھی ۔

                              *********

میجر احمد جناح ٹرمینل کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی تیزی سے باہر نکل کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا شام ڈھلنے کو تھی پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ ٹیکسی سے اتر کر ڈرائیور کو پیسے دے کر اپنا بریف کیس سائز جتنا   بیگ اٹھا کر مین گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا۔

سامنے لان میں کرسیاں الٹی پڑی تھیں ۔پولیس کی پیلی پٹی نے راستہ بلاک کیا ہوا تھا آگے فرش پر چاک سے ڈیڈ باڈی مارکنگ ہوئی تھیں جو یقیناً چوکیدار کی لاش کا خاکہ تھا وہ بغور دیکھتے ہوئے آگے بڑھا اندر جانے والے دروازے کا لاک ٹوٹا ہوا تھا اس کا سوراخ اور دھوئیں کا نشان بتا رہا تھا کہ اسے گن سے فائر کرکے توڑا گیا ہے ۔وہ دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوا اور  دیوار پر نصب سوئچ پر ہاتھ مار کر لائٹ آن کی ۔

پورا لاؤنچ الٹا پڑا تھا صوفے کی گدیاں تک پھٹی ہوئی تھیں ۔وہ لب بھینچے ایک ایک کمرے کو چیک کررہا تھا ۔گھر کی حالات واضح بتا رہی تھی کہ ان لوگوں کو کسی خاص چیز کی تلاش تھی جس کیلئے الماری بیڈ دیوار فرنیچر کسی چیز کو نہیں بخشا تھا ۔

                               ********

وہ تینوں اس وقت تہہ خانے میں موجود تھے کمشنر کرسی پر رسی سے بندھا ہوا تھا کیپٹن حمید اوپر کچن سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر لایا اور بیہوش کمشنر کے منہ پر پانی پھینکا وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور رسی سے بندھا ہونے کی وجہ سے کسمسا کر رہ گیا اس نے چاروں طرف دیکھا یہ ایک بند تہہ خانے نما کمرہ تھا جس میں اوپر سیلنگ پر پیلا سو واٹ کا بلب جل رہا تھا اور سامنے تین سیاہ پوش لمبے لمبے افراد کھڑے اسے گھور رہے تھے ان کے نقاب سے جھانکتی سیاہ آنکھوں میں سفاکی عروج پر تھیں ۔

" کون ہو تم لوگ ؟ جانتے نہیں میں کون ہوں ؟ ۔۔۔" کمشنر غرایا 

ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دلاور سامنے پڑی کرسی گھسیٹ کر بڑے اطمینان سے اس کے سامنے بیٹھا اور اپنی ایڑی میں چھپا تیز دھار چاقو نکال کر اس نے کمشنر کو دیکھا پھر بڑے آرام سے اس کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا پور کاٹ ڈالا 

کمشنر کی زوردار چیخ گونج اٹھی اب وہ باری باری اس کی تمام انگلیوں میں چیرا لگا رہا تھا اور کمشنر کا درد سے ، خوف سے برا حال تھا ۔

" تمہیں مجھ سے کیا کام ہے بتا دو پر پلیز اس طرح مت کرو ۔۔۔" کمشنر نے التجا کی پر دلاور بنا کچھ سنے بنا کچھ کہے اب اس کے دوسرے ہاتھ کی ایک ایک انگلی اور ہتھیلی پر چیرا لگانے میں مگن ہوگیا تھا جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام نہیں ہو ۔احمد اور حمید بڑے اطمینان سے یہ کھیل دیکھ رہے تھے ۔

"بہرے ہو کیا ؟ سنائی نہیں دیتا ۔۔۔" کمشنر کا برا حال تھا 

" ہاتھ ہوگئے اب میری باری ہے میں اس کی آنکھوں میں چیرا لگانا چاہتا ہوں ۔۔۔" حمید بھاری لہجے میں دلاور سے مخاطب ہوا جسے سن کر کمشنر کی حالت بری ہوگئی 

" دیکھو خدا کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو جتنا پیسا چاہئیے یا اگر تمہارا کوئی بندہ چھڑوانا ہے تو بتاؤ میں سب کام کروا دونگا بس مجھے جانے دو ۔۔۔" وہ منت سماجت پر اتر آیا تھا 

دلاور سکون سے کرسی سے اٹھ کر حمید کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے احمد کے ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا حمید نے ہاتھ میں پکڑے چاقو کی دھار کو چیک کیا 

" تم لوگ کچھ بولتے کیوں نہیں ہو ؟ کس تنظیم سے ہو کس نے بھیجا ہے تمہیں ؟؟ " وہ انہیں ابھی بھی کسی تنظیم مافیا کے ساتھی سمجھ رہا تھا ۔حمید نے سنجیدگی سے چاقو کی نوک اس کے داہنے گال پر رکھی اور ہلکا سا دباؤ بڑھایا 

" آہ ۔۔۔" وہ چلا اٹھا 

اب چاقو اس کی کھال کے اندر اتر چکا تھا وہ تقریباً نیم بیہوش ہونے کو تھا جب میجر احمد نے حمید کو اٹھنے کا اشارہ کیا وہ اسے نفسیاتی طور پر ہرا چکے تھے اب بس معلومات لینی باقی تھیں جو یقیناً آرام سے مل جانی تھیں ۔

" زندہ رہنا چاہتے ہو ؟ " احمد نے سر کے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اونچا کیا اس کے خون سے بھرے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں تھیں اس نے تیزی سے اثبات میں سر ہلایا 

" ایس پی موحد کدھر ہے ۔؟ " میجر احمد کا پوچھا ہوا سوال سنسناتے ہوئے تیر کی طرح کمشنر کے دماغ میں لگا 

" تم !! کون ہو تم ۔۔۔" اب وہ میجر احمد کی نقاب سے جھانکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جب ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا 

" سوال نہیں بس جواب دو ورنہ ۔۔۔۔" احمد نے اپنی پسٹل اس کی کنپٹی پر رکھی 

" بتاتا ہوں بتاتا ہوں ۔۔۔" کمشنر ہانپنے لگا میجر احمد کے اشارے پر کیپٹن حمید نے اپنا سیل فون نکال لیا تھا وہ اب کمشنر کا بیان اعتراف گناہ ریکارڈ کررہا تھا ۔ کمشنر کو وہی بندھا چھوڑ کر وہ کمرہ لاک کرتے ہوئے سیڑھی کے ذریعے اوپر چڑھنے ہوئے کچن کی پینٹری میں پہنچے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس پینٹری کے نیچے ایک خفیہ تہہ خانہ تھا ۔

" ہمیں فوری وزیرستان کیلئے نکلنا ہوگا ۔۔۔" دلاور سنجیدگی سے بولا کمشنر کی اطلاع کے مطابق موحد کو اغوا کر کے وزیرستان کے راستے افغانستان لے جایا گیا تھا ۔

" کمشنر کے بیان کی وڈیو ریڈی ہے ؟ " احمد نے سوال کیا تو حمید جو وڈیو ایڈٹ کرنے میں لگا تھا اس نے سر ہلایا 

" ہمیں بیس رپورٹ کرنی ہوگی وہی سے ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے گھنٹے میں وزیرستان پہنچ سکتے ہیں ۔۔" میجر احمد سنجیدگی سے بولا 

" اور اس خبیث کا کیا کرنا ہے ؟ " دلاور نے سوال کیا۔ 

" کرنل جھانگیر کو اعتماد میں لینا ہوگا وہ خود ہینڈل کر لینگے ۔۔۔" میجر احمد نے اپنا سیل فون نکالا صبح کے چار بجنے والے تھے وقت تو مناسب نہیں تھا پر یہ ایمرجنسی تھی اس نے کرنل جھانگیر کے مخصوص نمبر پر وقفے وقفے سے تین بیل دیں یہ ایک سگنل تھا تاکہ کرنل پرائیویسی میں ان سے بات کرسکیں ۔ٹھیک چالیس سیکنڈ میں کرنل کا فون میجر احمد کے پاس آرہا تھا۔

انہیں ساری ڈیٹیلز بتا کر اب وہ تیزی سے گھر بند کرکے اپنی آمد کے سارے آثار مٹا کر حمید اور دلاور کے ساتھ بیس جانے کیلئے تیار تھا جہاں کرنل کا ارینج کردہ کاپٹر ان کا انتظار کررہا تھا ۔

                           **********

صبح کے اجالے کے ساتھ ہی وہ تینوں کمانڈو لباس میں تیار اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے ۔مار خور جب سر پر کفن باندھ کر دشمن کو گرانے کی ٹھان لیتا ہے تو بڑے سے بڑی چٹان بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی قدرت بھی اس کا ساتھ دیتے ہے کہ وہ راہ حق پر فرض کی راہ پر چلنے والے خوش نصیبوں میں سے ایک ہوتا ہے ۔

سپین واگ میں موجود ٹوپی والوں کا اڈہ ان کا ٹارگٹ تھا فجر کے وقت وہ اپنے ٹارگٹ پر پہنچ چکے تھے ۔یہ ایک چھوٹا سا تربیتی کیمپ تھا جہاں سلیپنگ سیلز کو ٹرینڈ کیا جاتا تھا ۔ وہ ہاتھ میں چاقو لئیے دبے پاؤں چلتے ہوئے پہرے داروں کی طرف بڑھے جو آپس میں باتوں میں مگن تھے انہیں سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر جیسے بجلی سی کڑکی تھی اور وہ چھ کے چھ چوکیدار ان تینوں کے تیز دھار چاقوؤں کا شکار بن کر زمیں پر بے جان لاشہ بنے گرے پڑے تھے ۔

ایک دوسرے کو ہاتھ کے اشارے سے اوکے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئے جہاں سب موت کے ہرکارے پرسکون نیند سو رہے تھے وہ ایک ایک  کرکے سب کو موت کی گھاٹ اتارتے کمرے چیک کررہے تھے جب دلاور اور میجر احمد آخری کمرے میں داخل ہوئے ۔

"کون خبیث انسان کا بچہ امارے کمرے میں داخل ہوا ہے ۔۔۔" ساتھ والے دروازے سے اپنی شلوار کا ازار بند بند کرتے ہوئے سرمہ خان اندر داخل ہوا وہ شاید واش روم سے آرہا تھا اسے دیکھ کر وہ دونوں چونک گئے اور سرمہ خان اپنے سامنے دو سیاہ پوش افراد کو دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔

" تم بالکل امارا ظالم محبوب گلاب خان جیسا ہے ہائے ۔۔۔" وہ میجر احمد کی قد کاٹھی دیکھتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا 

میجر احمد نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر مارا وہ گھوم کر رہ گیا اس سے پہلے وہ اپنے نیفے سے ہتھیار نکالتا دلاور نے تیزی سے اپنی گن نکالی اور اس کے سر پر رکھ دی ۔

" تمہارے ہاتھ کا گرمی اور طاقت ۔۔۔" سرمہ خان نے میجر احمد کو گھورا 

" تم امارا گلاب خان ہے کہہ دو تم ادر امارے واسطے آیا ہے ۔۔۔" وہ واقعی کھسکا ہوا تھا ۔

" ایس پی موحد کدھر ہے ؟ کہاں چھپایا ہے اسے ؟ " میجر احمد نے اسے گردن سے پکڑ کر زمین سے اوپر اٹھایا 

سرمہ خان ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا ۔

" ام کو سب پتہ ہے پر ام نہیں بتائے گا  ۔۔۔" وہ میجر احمد کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولا 

" تیری تو۔۔۔" دلاور کو غصہ چڑھ گیا اس نے ایک زور دار کک اسے ماری اور وہ میجر احمد کی گرفت سے نکل کر دور جا گرا دلاور اسے بری طرح پیٹ رہا تھا حمید بھی سب کا صفایا کرکے اندر آچکا تھا پر سرمہ خان کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں تھا ۔

" تم ام کو مار ڈالو زبان کاٹ کر پھینک دو پر ام تم کو کچھ نہیں بتائے گا ۔۔۔" وہ اپنی ضد پر ڈٹا ہوا تھا 

" کیوں ۔۔۔۔" اب کے پہلی بار حمید دلاور کا ہاتھ روکتے ہوئے اس کے سامنے آیا ۔

" پٹھان تو اپنی مٹی کی ، اپنی ماں کی حفاظت میں جان دینے سے بھی نہیں ڈرتا تم کیسا خان ہے جو ان دشمنوں کے ساتھ اپنے ہی لوگوں کو مار رہا ہے تم غدار ہے خان تم غدار ہے  ۔۔۔" حمید نے رواں پشتو میں اسے ٹوکا 

" ام ایسا نہیں اے ۔۔۔۔" 

" تم ایسا ہی اے ۔۔۔" حمید نے اسے ٹوکا اور اسے ٹوپی والوں کی اصلیت جس سے وہ بھی بخوبی واقف تھا بتانے لگا 

" دیکھو خوچہ لوگ ام غدار نہیں ہے اور یہ مار پیٹ کر کے تم ام سے کوئی کام نہیں لے سکتا ہے ہاں اگر ۔۔۔۔" اس نے پیار سے میجر احمد کی طرف دیکھا 

" گلاب خان اپنا گلاب سا چہرہ دکھا کر ام کو حکم دے تو قسم نسوار کی ام تم کو ابھی کے ابھی  افغانستان لے جائے گا ۔۔۔" اس کی فرمائش سن کر دلاور کو پھندا سا لگ گیا حمید الگ حیران تھا اسے سرمہ خان اور گلاب خان کی یک طرفہ لو اسٹوری کا کچھ علم نہیں تھا ۔

" یہ گلاب خان آپ ہیں سر ۔۔ " اس نے میجر احمد کو دیکھا 

" یہ عشق وشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجے 

اک ڈرون کا حملہ ہے امارے دل  بم دھماکہ کرتا ہے " سرمہ خان نے شعر پڑھا 

" سر اب ایک یہی آدمی ہے جو ہمیں وہاں تک لے جاسکتا ہے تھوڑا ٹھرکی ہے پر ابھی یہ ہمارا وقت باتوں میں لگا کر برباد کررہا ہے جلدی کریں اس سے پہلے ادھر دشمن کی  کوئی اور ٹولی آجائے،  آپ ہی اسے ڈیل کرسکتے ہیں ۔۔" کیپٹن حمید نے سنجیدگی سے میجر احمد کو دیکھا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنا نقاب اتار کر سرمہ خان کے سامنے آیا 

" سرمہ خان میرا بھائی ایس پی موحد کدھر ہے ۔۔" اس نے سنجیدگی سے سوال کیا

" وئی زار ! وہ ایس پی تمہارا بھائی ہے ؟ " وہ حیران ہوا 

" ام کو وعدہ معاف گواہ بنائے گا ؟ " سرمہ خان نے سنجیدگی سے پوچھا اور میجر احمد کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ انہیں لوکیشن اور تمام معلومات فرفر بتانے لگا غدار کا طعنہ اس کی غیرت پر کسی تازیانے کی طرح لگا تھا ۔

                               ********

وہ تینوں ہیلی کاپٹر سے مطلوبہ ہدف پر پیرا شوٹ کے ذریعے کود چکے تھے یہ سر پر کفن باندھ کر چلے مجاہدو کا ٹولہ تھا جو تعداد میں بظاہر کم تھا لیکن قوت میں سب پر بھاری تھا انہیں جلد از جلد موحد کو بازیاب کرکے  اس پورے اڈے کو تباہ کرنا تھا اس مقصد کیلئے وہ ٹائم بم ساتھ لائے تھے کرنل جھانگیر نے کم وقت میں بھی پوری تیاری سے انہیں بھیجا تھا ۔

عمارت میں بیہوشی کے بم اور دھواں بم پھینک دئیے گئے تھے اب وہ تینوں تیزی سے موحد کو ڈھونڈ رہے تھے کئی بے جان وجود ادھر موجود تھے کئی لاشوں کی بوریاں تیار تھیں اندر ایک کمرے میں انہیں نیم مردہ موحد کا وجود ملا جس کی سانس رک رک کر چل رہی تھی جس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا اس کی یہ حالت دیکھ کر احمد کا دل رک سا گیا تھا۔

" حوصلہ ۔۔۔۔" دلاور نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور خود تیزی سے موحد کی طرف بڑھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا فائر کرکے اس کی زنجیریں توڑنے کے بعد وہ موحد کو اٹھا کر باہر نکلے کیپٹن حمید ان کے نکلتے ہی جلدی جلدی دس منٹ کا ٹائم سیٹ کرکے بم لگا رہا تھا سب بم پلانٹ کرنے کے بعد اس کے پاس صرف چار منٹ بچے تھے وہ تیزی سے دوڑتا ہوا چھلانگیں مارتا ہوا اس عمارت کے احاطے سے نکل کر اب دور بھاگ رہا تھا جب ہیلی کاپٹر اس کے سر پر آکر رکا اور ایک رسی اس کی طرف اچھالی گئی جسے تھام کر وہ اوپر چڑھنا شروع ہوا اور ہیلی کاپٹر تیزی سے رخ موڑتا ہوا غائب ہو گیا ۔

                           ********

موحد کو فوری طور پر سی ایم ایچ ہسپتال لایا گیا پر اس کی حالت بہت نازک تھی دادی اور علیزے کو احمد خود جا کر لے آیا تھا  ۔

اس کے جسم کی ادھڑی ہوئی کھال کٹی انگلیاں دیکھ کر علیزے لرز کر رہ گئی تھی ۔

" موحد بیٹا ! دادی سے نہیں ملے گا ۔۔" وہ پرشفقت آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی وہ آنکھیں کھولنا چاہتا تھا پر نہیں کھول پارہا تھا علیزے کی سسکیاں اس کے کانوں میں اتر رہی تھیں کتنی بے بسی تھی کہ اس کی زندگی اس کے پاس تھی پر وہ اسے چھو نہیں سکتا تھا دیکھ نہیں سکتا اس کی بند آنکھوں سے پانی کا ایک قطرہ نکلا جسے علیزے نے تیزی سے اپنی انگلی کی پوروں میں سمیٹ لیا ۔۔

علیزے کے نرم ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس شاید یہی وہ چیز وہ خواہش  تھی جو اسے اب تک روکے ہوئے تھی اور اب  ۔۔۔

اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا ڈاکٹرز نے فوراً سب کو باہر جانے کا حکم دیا ۔

علیزے دادی احمد دلاور حمید سب آئی سی یو کے باہر انتظار کررہے تھے جب میجر  ڈاکٹر اقبال باہر نکلے ۔احمد تیزی سے ان کے پاس آیا

                                         " He is no  more ..." 

 ڈاکٹر نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر موحد کی شہادت کی اطلاع دی تھی ۔

                              *******

فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سورہ النساء ۔ 69)

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے ۔ جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا ۔

شہید کی جب روح نکلتی ہے تو رحمت والے فرشتے ساتھ آتے ہیں اور ایک گواہ ہوتا ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے وہ گواہ اس کا بہتا ہوا خون ہوتا ہے اور قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا ۔

موحد  پاک وطن کا  جانباز سپاہی تھا جو فرض کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرگیا تھا اس کے اکھٹے کئیے ثبوت  اور کمشنر  ، کرنل جھانگیر کی کسٹٹڈی میں تھے ۔وقت گزر رہا تھا دادی کا وجود مزید بوڑھا ہوگیا تھا تین دن تین سو برس کے پل باندھ کر ساتھ لے گئے تھے ۔دور دور سے لوگ افسوس کرنے پرسہ دینے آرہے تھے ۔

احمد کو نیا اسائنمنٹ مل چکا تھا دلاور اور حمید انڈر گراؤنڈ جاچکے تھے ۔بس اگر کوئی اپنی جگہ تھم سا گیا تھا تو وہ علیزے تھی ۔وہ جاتے جاتے علیزے کو بہت سمجھا کر گیا تھا دادی کا خیال رکھنے کی تاکید کرکے بڑے بوجھل دل سے وہ اپنے نئے مشن پر روانہ ہوا تھا ۔یہ مار خور بھی جب گھر چھوڑ کر جاتے ہیں تو انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا وہ کب ، کتنے برسوں میں لوٹیں گے اور لوٹیں گئے بھی یا نہیں کچھ خبر نہیں ہوتی ۔بس شہادت کا رتبہ پانے کی چاہ انہیں آگے بڑھاتی کہ یہ رتبہ ہی کچھ ایسا ہے ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شہید کے لیے اللہ تعالی کے ہاں سات انعامات ہیں

 ( 1 ) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے

 ( 2 )  اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے

 ( 3 ) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے

 ( 4 ) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے 

( 5 ) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ 

( 6 ) بہتر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے

 ( 7 ) اور اپنے اقارب میں ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ 

                               *******

وہ بڑے انہماک سے چائے بنا رہی تھی جب کوئی دبے پاؤں اس کے پیچھے آیا 

" بھو ۔۔۔۔" وہ اچھل کر سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے ہٹی 

" اللہ اللہ موحد !  آپ نے تو ڈرا دیا ابھی اگر ساری چائے گر جاتی تو ۔۔۔" وہ ناراض ہوئی ۔

" تو کیا ہوتا تم دوبارہ بنا لیتی اس میں کیا بڑی بات ہے ۔۔۔۔" وہ اچک کر سلیب پر بیٹھا اور اسے بغور دیکھنے لگا ۔

" یار علیزے یہ تم دن بہ دن اتنی خوبصورت کیوں ہوتی جارہی ہو ۔۔۔۔" اس نے اپنی پرتپش نظروں کی تپش سے علیزے کے سرخ چہرے اور اٹھتی گرتی گھنی پلکوں کے جال کو دیکھا اور سلیب سے نیچے اتر کر اس کے نزدیک آیا ۔

" تم میرے لئیے بہت ضروری ہو دیکھو آج ہی واپس آیا ہوں اور سیدھا تمہارے دربار میں حاضری دے رہا ہوں ۔۔۔" وہ گھمبیر لہجے میں بولتے ہوئے اس کی پلکوں کو چھو رہا تھا ۔

" آپ باہر جائیں دادی ویٹ کررہی ہیں ۔۔۔" اس نے لرزتے ہاتھوں سے اسے پیچھے کیا 

"علیزے کاکروچ ۔۔۔۔" اس نے جاتے جاتے پلٹ کر شرارت کی اور چیخ کر اس کا بازو پکڑ کر اس کی آڑ میں ہوگئی 

" پلیز اسے مار دیں ۔۔۔۔" وہ آنکھیں بند کئیے لرز رہی تھی ۔

" علیزے ری لیکس جاناں میں مذاق کررہا تھا ۔۔۔" اس نے لرزتی کانپتی علیزے کو اپنے حصار میں لے کر تسلی دی 

" موحد آپ ۔۔۔آپ بہت برے ہیں کوئی بھلا کاکروچ کا مذاق کرتا ہے اب پتہ ہے کتنے دنوں تک مجھے کچن میں آنے سے ڈر لگے گا ۔۔۔" وہ اس کے حصار سے نکلتے ہوئے خفا خفا لہجے میں بولی ۔

" علیزے تم ایک شہید کی بیٹی ، فوجی کی بہن اور ایس پی کی بیوی ہو تمہیں تو بہت نڈر بے خوف ہونا چاہئیے ۔۔۔" 

" آپ ہیں نا بہادر تو پھر مجھے آپ کے ہوتے ہوئے کس بات کا ڈر ۔۔ "

" فرض کرو کل اگر میں نہ رہا ؟ شہید ہوگیا تو ؟ تو کیا کرو گی ؟ " وہ اسے سمجھا رہا تھا 

" موحد آپ بہت برے ہیں ۔۔۔" علیزے کا نازک دل سہم گیا تھا آنکھوں میں آنسو آگئے تھے 

" اچھا بابا اب رونا نہیں ورنہ دادی سے مجھے آج تو پکی پکی ڈانٹ پڑنی ہے ۔۔۔" اس نے علیزے کو ٹوکا اور چائے کی ٹرے خود اٹھا کر باہر نکل گیا ۔

" موحد ۔۔۔۔" وہ سسک اٹھی 

" موحد میں کیا کروں بتائیں آپ کے بغیر میں کیسے جیوں ! " اس کے اندر سے کراہیں اٹھنے لگی تھی جانے والا جا چکا تھا بس اب اس کی سسکیاں تھی وہ روز بلک بلک کر روتی تھی اس کا ساتھی اس کا محافظ اس کا موحد اب اس دیس چلا گیا تھا جہاں سے کوئی بھی لوٹ کر نہیں آتا ۔۔۔۔

" موحد آپ نے اس مشکل وقت میں کتنی آہیں بھری ہونگی جو ہم تک نہیں پہنچیں آپ نے کتنی آوازیں دی ہونگی ۔۔۔۔" وہ بلک رہی تھی 

وہ جانتی تھی کہ جانے والے واپس نہیں آتے لیکن پھر بھی وہ روز اس کے لوٹ آنے کی دعا مانگ رہی تھیں وہ شہید تھا اور شہید کبھی نہیں مرتے وہ بس دنیا سے پردہ کرلیتے ہیں وہ اسے  اپنے پاس محسوس کرنا چاہتی تھی ۔

انہیں گزرتے دنوں میں وہ صبح اٹھ کر کچن میں دادی کیلئے چائے بنا کر ان کے کمرے میں آئی ۔

" علیزے تمہارا انٹر کا رزلٹ آگیا ہے ماشاءاللہ سے اسی فیصد سے اوپر مارکس آئے ہیں ۔۔۔" وہ اسے اطلاع کررہی تھیں 

" جی دادی میں نے صبح آن لائن چیک کرلیا تھا ۔۔ " اس نے چائے سلیقے سے ان کے سامنے رکھی ۔

" آگے کیا ارادہ ہے یونیورسٹی جوائن کرنی ہے یا کالج سے بی ایس سی کرنا ہے ؟ " دادی نے اخبار لپیٹ کر رکھا 

" دادی ! " علیزے نے انہیں دیکھا پھر مضبوط لہجے میں بولی 

" میں آرمی جوائن کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔" اس کی آنکھوں سے چھلکتے عزم کو دیکھ کر دادی مسکرا دی کہ علیزے کی آنکھوں کا عزم انہیں اس کا مستقبل دکھا رہا تھا انہیں لگا کہ جیسے موحد کو آج سکون ملا ہو ۔۔۔وہ ان کی بوڑھی نظروں کے سامنے مسکرا رہا تھا ۔

وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ (سورہ البقرہ ۔ 154 )

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔

                                ********  

قاہرہ ۔۔۔۔مصر کا دارالحکومت 

وہ نیند میں ڈوبی ہوئی تھی جب اس کا فون بجا اس نے تیزی سے اٹھ کر فون اٹھایا صبح کے پانچ بج رہے تھے 

" سات بجے جہاں فرعون  روتے ہیں ۔۔۔" فون پر کوڈ ورڈ میں  میسج جگمگا رہا تھا وہ جلدی سے لحاف ہٹا کر بستر سے اتری  الماری سے بلیک پینٹ اور سفید ہلکی سی سیلف  ایمبرائیڈری والی شرٹ اور بلیزر کوٹ نکال کر شاور لینے چلی گئی ۔

پندرہ منٹ بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی اپنے سنہری سرخ آمیزش والے بالوں کو ڈرائر سے سکھا رہی تھی بالوں کو بلو ڈرائے کرکے اس نے اونچی پونی باندھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا لیڈیز ریوالور اٹھا کر جیب میں رکھا اور کوٹ پہن کر آئینے میں خود کو دیکھا اس کی نیلی آنکھوں میں اپنا حلیہ دیکھ کر اطمینان اتر آیا تھا وہ جانے کیلئے تیار تھی ۔

میوزیم کے باہر ایک کالے شیشے والی گاڑی کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی اس کے بیٹھتے ہی وہ گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور روڈ پر دوڑنے لگی ۔ایک گھنٹے بعد وہ ہیڈ کوارٹر  میں موجود تھی ۔

وہ ٹک ٹک کرتی تیزی سے چلتی ہوئی اندر کانفرنس روم میں داخل ہوئی ۔

" مس قانتا سٹ ڈاؤن ۔۔۔۔" باس نے اسے حکم دیا

وہ سر ہلاتے ہوئے بیٹھ گئی 

" اس بار ان یہودیوں نے بہت بڑا پلان بنایا ہے وہ فلسطین کے بعد اب یمن اردن کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ان کے ایجنٹ فساد پھیلانے پھوٹ ڈلوانے ان علاقوں میں پہنچ چکے ہیں ان کے مقاصد ناکام بنانے کیلئے انہیں چن چن کر مارنا ہوگا ۔ 

مس قانتا ، ابرک  آپ دونوں اس مشن میں حصہ لینگے ۔۔۔" انہوں نے قانتا اور اس کے ساتھ بیٹھے پچیس سالہ ابرک کو مخاطب کیا 

" یس سر ۔۔ " وہ دونوں ہم آواز کو کر بولے 

" اس مشن میں آپ کو ہمارے دوست ملک کے ایجنٹ میجر احمد کے انڈر کام کرنا ہوگا ۔۔۔۔" انہوں نے فائل ان دونوں کی طرف بڑھائی 

" مشن ایکسیپٹڈ ؟ " انہوں نے خاموشی سے فائل کو تکتی کوئی قانتا کو دیکھا 

" یس سر ۔۔۔" وہ سر اٹھا کر بولی اس کی نیلی آنکھیں جگمگا رہی تھیں ایک نیا سفر اپنی شروعات کو تھا ۔۔۔

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Dasht E Wafa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dasht E Wafa written Seema Shahid Dasht E Wafa by Seema Shahid  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment