Pages

Saturday 19 August 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 9 to 10

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 9 to 10

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 9 to 10

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”کہاں جانا ہے دادا!....“تناوش کے گھر سے باہر نکلتے ہی وہ جونھی کار میں بیٹھا ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے مودّبانہ لہجے میں پوچھا ۔

”گھر ۔“مختصراََ کہتے ہوئے اس نے کار کی سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔ ایک دم تناوش کا خوب صورت سراپااس کی آنکھوں کے سامنے ابھرا اور سرجھٹکتے ہوئے اس نے آنکھیں کھول دیں ۔کار چوڑی گلی سے نکل کر سڑک پر چڑھ رہی تھی ۔وہ باہر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا ۔

اس کا دماغ اپنے رویے پر الجھا ہوا تھا ۔ایک کم سن لڑکی کے لیے یوں وقت ضائع کرنا اس کی اپنی سمجھ سے بھی بالاتر تھا ۔تناوش کی خوب صورتی میں کوئی کلام نہیں تھا لیکن اسے زندگی میں کبھی خوب صورت لڑکیوں کی کمی نہیں رہی تھی ۔تناوش کی طرح درجنوں خوب صورت لڑکیاں اس کی زندگی میں آ چکی تھیں ۔اس کی خواب گاہ میں آئے روز خوب صورت تتلیوں کی آمدورفت رہتی تھی ۔دولت اور اختیار ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی کسی خواہش کو تشنہ نہیں رہنے دیتیں ۔دنیا کی ہر عیاشی دولت کے سامنے سرتسلیم خم کرتی نظر آتی ہے ۔وہ تو ایسا آدمی تھا کہ کسی لڑکی پر دل آجانے پر اسے ہر قیمت پر اپنی خواب گاہ کی زینت بنا سکتا تھا ۔لیکن اس کا مزاج ایسا نہیں تھا ۔ اس نے کبھی کسی عورت کو اٹھانے کا جرم نہیں کیا تھا ۔خود اس کے گروہ میں ایسی کئی خوب صورت لڑکیاں موجود تھیں جو اس کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتیں ۔فلموں اور ڈراموں کی کئی اداکارائیں بھی اس کی دولت اور دھونس کے رعب میں آکر اسے نواز چکی تھیں ۔ اس کے باوجود نجانے تناوش میں ایسی کون سی بات تھی کہ وہ ایسی بے وقوفی کا ارتکاب کر بیٹھا تھا ۔ سب سے بڑھ کر اسے نکاح پڑھوانے پر حیرانی ہو رہی تھی ۔

”کوئی بات نہیں ایک دو دن بعد طلاق دے دوں گا ۔“وہ خود کو تسلی دینے لگا ۔

اچانک موبائل فون کی گھنٹی نے اسے خیالات کی دنیا سے باہر نکالا۔موبائل فون کی سکرین پر نظریں دوڑاتے ہی اس نے اٹینڈنگ بٹن دبا کر فون کان سے لگا لیا ۔

”ہیلو !“اس کے لہجے میں حیرانی کا عنصر نمایاں تھا ۔یقینا وہ اس وقت کسی ایسی کال کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔

”کبیر دادا !....آپ سے ضروری بات کرنا تھی ۔“دوسری جانب ابھرنے والی آواز میں مودّبانہ جھجک کے بجائے بے تکلفی اور ہم سری کی کھنک شامل تھی ۔

”ابھی ....؟“کبیر دادا کا انداز جان چھڑانے والا تھا ۔

وہ مصر ہوا ۔”بالکل ،ابھی اور اسی وقت آپ کو میرے پاس آنا پڑے گا ،یا میں خود آجاتا ہوں ۔“

”اچھا میں آرہا ہوں ۔“رابطہ منقطع کرتے ہوئے وہ ڈرائیور کو مخاطب ہوا ۔ ”شہاب قصوری کی طرح چلو ۔“

”جی !“مودّبانہ انداز میں کہتے ہوئے ڈرائیور سیدھا چلتا رہا ۔تھوڑی دور جا کر اس نے یو ٹرن سے گاڑی موڑی اور مطلوبہ سمت کی طرف بڑھ گیا ۔آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ وسیع کوٹھی کے داخلی دروازے پر رک رہا تھا ۔

ان کی گاڑیوں کو پہچانتے ہی چوکیدار نے دروازہ کھولا اور وہ گاڑیاں اندر لے گئے ۔ سیمنٹ کی پختہ روش کے اختتام پر کار رک گئی ۔کبیردادا نیچے اتر کر اندرونی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔اس کے دونوں محافظ بھی اس کے پیچھے چل پڑے ،البتہ انھوں نے کبیردادا کے پیچھے ڈرائینگ روم میں گھسنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ پرتکلف ڈرائینگ روم میں دو آدمی اس کے منتظر تھے۔ دونوں نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا ۔

نشست سنبھالتے ہی کبیردادا مستفسر ہوا ۔”شہاب بھائی !....خیریت تھی ؟“

”خیریت کہاں کبیردادا....“ادھیڑ عمر شہاب شاہ قصوری نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ”جب کبیر دادا جیسا آدمی شادی کر لے گا تو خیریت کہاں رہے گی ۔“

”ہاہاہا....“کبیر دادا نے قہقہہ لگایا۔”یہ خبرآپ تک بڑی جلدی پہنچ گئی ہے ۔“

”باخبر رہنا توپڑتا ہے کبیر دادا !....ویسے اخلاق حسین شاہ صاحب آپ سے سخت خفا ہیں ۔“شہاب نے ساتھ بیٹھے دوسرے آدمی کی طرف اشارہ کیا ۔

”خدا خیر کرے شاہ صاحب !....یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟“کبیر دادا اس کی طرف متوجہ ہوا ۔

”کبیردادا!....دلاور شیخ میرا خاص آدمی تھا ۔“اخلاق حسین کے لہجے سے بھی سخت قسم کی خفگی کا اظہار ہو رہا تھا ۔

”ہونہہ!....“کبیردادا نے سر ہلاتے ہوئے سرسری لہجے میں کہا ۔”اب تو نہیں رہا ناتو آپ کسی اور کو اپنا خاص آدمی بنا لیں ۔“

”سن لیا شہاب صاحب ۔“اخلاق حسین ،شہاب کی طرف متوجہ ہوا ۔

”کبیردادا آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔“شہاب نے اخلاق حسین کی طرف داری کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔

کبیردادا نے کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے کہا۔”یہ بھلا کون سی زیادتی ہے۔ دلاور شیخ ،اخلاق حسین کا رشتا دار تو تھا نہیں ۔ایک عام سا غنڈہ تھا ۔مر گیا ہے تو اس کی جگہ لینے والے کئی مل جائیں گے ۔“

اخلاق حسین غصے بھرے طنز سے بولا۔”صحیح کہا ،کسی بھی غنڈے کے مرنے کے بعد جگہ لینے والے کئی مل جاتے ہیں ۔“ 

کبیردادا کے چہرے پر گہری سرخی ابھری ،مگر جب وہ بولا تو اس کا لہجہ ان تاثرات سے میل نہیں کھا رہا تھا جو اس کے چہرے پر ہویدا تھے۔ ۔”شاہ صاحب !....میرا تجربہ کہتا ہے کہ سوچ کر بولنے والے زیادہ عرصہ زمین کے اوپر چلتے نظر آتے ہیں ۔“

شہاب نے فوراََ مداخلت کی ۔”آپ لوگ تو لڑنے لگے ۔“

”شہاب صاحب !....آپ نے دیکھ لیا کبیر دادا کا لہجہ اور انداز؟....زیادتی بھی یہ کرے اور دھمکیاں بھی یہ دے ۔ہم نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہنیں ....سیاست میں حصہ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا کام بھول گئے ہیں یا چھوڑ دیا ہے ۔“

”اچھا اب چھوڑو اس بحث و تکرار کو اور بات ختم کرو ....دلاور شیخ کا قتل کبیردادا کی جلد بازی ہے ،لیکن اس کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں کہ لڑائی کرنا پڑے ۔“

”ٹھیک ہے شہاب صاحب !....آپ کی بات مان لیتے ہیں ،لیکن کبیردادا نے وہاں نہایت غلط اعلان کیا ہے کہ آج کے بعد اس محلے میں میرا کوئی آدمی نہیں جائے گا ۔“

شہاب کبیردادا کو مخاطب ہوا ۔”یقینا اس بارے آپ کچھ سوچیں گے ۔“

کبیر دادا حتمی لہجے میں بولا ۔”میں سوچ کر فیصلہ کرتا ہوں، فیصلہ کر کے نہیں سوچتا ۔“

اخلاق نے طنزیہ لہجے میں شہاب کو متوجہ کیا ۔”سن لیا ۔“

 ”کبیر دادا!....“شہاب شاہ نے امید بھرے لہجے میں اسے پکارا ۔

کبیردادا نے کہا ۔”شہاب صاحب !....کیا کبیر دادا کی زبان اتنی ہلکی ہے ۔“

”سمجھنے کی کوشش کرو ۔“اس مرتبہ اخلاق حسین براہ راست اسے مخاطب ہوا ۔”اگر میں نے اس محلے والوں کو یونھی چھوڑ دیا تو وہ باغی ہو جائیں گے اور میرا رعب خاک باقی رہے گا۔“

”چند گھرانوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔“کبیردادا اپنی زبان سے پھرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔

”شہاب صاحب !....ا ب مجھ سے گلہ نہ کرنا ۔“اخلاق حسین خفگی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہاں سے جانے لگا۔

”بات تو سنو ؟“شہاب نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر اخلاق حسین سنی ان سنی کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا ۔

شہاب نے افسوس بھرے انداز میں سرہلایا۔”یہ اچھا نہیں ہوا ۔“

”صحیح کہہ رہے ہیں آپ ۔“کبیردادا نے اثبات میں سر ہلایا۔”غریب ایم این اے اور ایک گینگ کا سربراہ بے موت مارا جائے گا ۔“

شہاب ہنسا ۔”ویسے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کو ہو کیا گیا ہے ۔اس سے پہلے تو آپ نے کبھی کسی عورت کو اتنی اہمیت نہیں دی ۔“

”اہمیت کہاں دی ہے صرف نکاح پڑھایا ہے ،اگر کوئی عورت نکاح پڑھا کر ہی میری تنہائی کی ساتھی بننے کی خواہاں ہے تو مجھے کیا اعتراض ۔ان دو بولوں کی اہمیت تو بس اتنی ہی ہے کہ ایک لفظ تین بار دہرانے سے سب کچھ ختم ، ہر ذمہ داری اور ہر واسطہ خلاص ....“

”تو اس ایک لفظ کی تکرار کب ہو گی ؟“

وہ مسکرایا ۔”کبیر دادا کے ایک گھنٹے کی قیمت اتنی کم نہیں کہ دو تین دن میں اس کی قیمت وصول ہو جائے ۔چند دن اس سے لطف اندوز تو ہو لوں ۔یوں بھی ان چھوا مال ہے ۔“

”کیا اس کے بعد ہمیں بھی اس گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع مل سکتا ہے ۔سنا ہے لڑکی نہایت پرکشش ،جاذب نظر اور خوب صورت ہے ۔“

کبیرادادا نے قہقہہ لگایا۔”وہ کیا کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے ۔“

”اچھا وہ بعد کا مسئلہ ہے ،فی الحال یہ بتائیں اخلاق حسین شاہ کے مسئلے کے بارے کیا سوچا ۔میرا تو مشورہ ہے جانے دیں ۔اس محلے میں سے کون سا کسی نے آپ کے پاس آکر شکایت کرنا ہے ۔“

کبیرا دادانے بے ساختگی سے کہا ۔”وہ تناوش کا محلہ ہے ۔“یہ کہتے ہی اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ غلط کہہ گیا ہے ۔فوراََ وضاحت کرتے ہوئے بولا ۔”میرا مطلب ہے جب تک وہ میرے پاس موجود ہے ،یہ کہہ تو سکتی ہے کہ میرا اعلان بس ہوائی فائر ہی تھا ۔“

”یہ تناوش کون ہے ؟“شہاب معنی خیز لہجے میں مسکرایا ۔

کبیردادا جان چھڑانے والے انداز میں بولا ۔”میری بیوی سمجھ لو ۔“

”ویسے بیوی اور رکھیل میں فرق کیا ہوتا ہے؟“شہاب نے اسے چھیڑنا جاری رکھا تھا۔

”یار چھوڑو اس موضوع کو ۔“کبیر نے بے زاری کا اظہار کیا ۔

”ایسے بہت سارے سوالات کا سامنا کرنا تو باقی ہے کبیرا دادا،ابھی سے چیں بول گئی ہے ۔“

”مجھے چلنا چاہیے ۔“کبیردادا کھسیانی ہنسی ہونٹوں پر بکھیرے کھڑا ہو گیا ۔

”کب تک بھاگو گے ۔“شہاب کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اس کے ہمراہ اٹھ گیا تھا۔

کبیر دادا کو باہر آتا دیکھ کر ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور اس کے قریب لے آیا ۔شہاب سے الوداعی مصافحہ کر کے اس نے عقبی نشست سنبھا ل لی ۔

”گھر چلو۔“ڈرائیور کے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے بتا دیا تھا ۔ساڑھے آٹھ ہو گئے تھے اور دس بجے اس نے تناوش کو لینے جانا تھا ۔

گھر پہنچتے ہی محافظوں کو چند منٹ میں تیار ہو جانے کا حکم سنا کروہ اپنی خواب گاہ میں گھس گیا ۔

”ویسے دادا کل سے کچھ عجیب سی حرکتیں نہیں کر رہا ۔“کبیر دادا کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی اس کے ذاتی محافظ رخسار نے تبصرہ کیا ۔

بخش نے تائیدی انداز میں کہا ۔”کہہ تو صحیح رہے ہو ۔“امتیاز اور باقر نے بھی اثبات میں سر ہلادیا تھا ۔

باقر نے خیال ظاہر کیا ۔”ویسے لڑکی بہت خوب صورت ہے جس کی وجہ سے باس سے رہا نہیں جا رہا۔“

امتیاز بولا۔”کئی خوب صورت لڑکیاں کبیر دادا کی زندگی میں آچکی ہیں ۔“

”ہاں مگر اس لڑکی میں کوئی نئی بات ضرور ہے ۔“باقر اپنی با ت پر قائم تھا ۔

رخسارنے قہقہہ لگا کر کہا ۔”نئی بات یہی ہے کہ نئی نکور ہے ۔“

بخش نے کہا ۔” دلاور شیخ کو قتل نہیں کرنا چاہیے تھا ،وہ اخلاق حسین شاہ کا خاص آدمی تھا۔اور ابھی دیکھا تھا کتنے غصے سے وہ شہاب صاحب کی کوٹھی سے رخصت ہو کرگیا ہے۔“

امتیاز نے لقمہ دیا ۔”تمھاری بھی بے عزتی کر دی ہے نا ۔“

”مجھے علم ہوتا تو کبھی بھی مصافحے کے لیے ہاتھ نہ بڑھاتا ۔بہ ہر حال اس بارے کبیر دادا کے سامنے منھ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔“

باقر ہنسا ۔”بہتر تو یہی ہے کہ کبیر دادا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے ان کے محافظ کی کتنی بے عزتی ہو گئی ہے ۔“

بخش نے کہا ۔”چھوڑو یار !....سانڈوں کی لڑائی میں فصل ہی اجڑتی ہے ۔“

باقر نے کہا ۔”یہ تو خیر غلط بات ہے ،اخلاق حسین شاہ ہمارے لیے سانڈ ہو سکتا ہے ، کبیر دادا کے سامنے اس کی حیثیت بکری سے زیادہ نہیں ہے ۔“

امتیاز پوچھنے لگا ۔”ویسے اب اس لڑکی کی یہاں کیا حیثیت ہو گی۔کیا اس کے احکامات کی بھی پابندی کرنا پڑے گی ؟“

”اس کی مدتِ قیام دو تین دن سے زیادہ نہیں ہو گی ۔“بخش نے قہقہہ لگایا ۔”اور اتنے دنوں میں غریب کو خواب گاہ سے نکلنے کا موقع نہیں ملے گا احکامات خاک دے گی ۔“اس کی بات سن کر باقی بھی کھل کھلا ہنس پڑے تھے ۔

اسی وقت کبیردادا اندر سے برآمد ہوا ۔سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ نے اس کی وجاہت میں اضافہ کر دیا تھا ۔

امتیاز دبے لہجے میں بولا ۔”آج تو دادا نے بڑی چمک نکالی ہوئی ہے ۔“

امتیاز دبے لہجے میں بولا ۔”آج تو دادا نے بڑی چمک نکالی ہوئی ہے ۔“

”دولھا جو ہوا ۔“بخش نے سر جھکاتے ہوئے دانت نکالے ۔

کبیر دادا ان کی باتوں سے بے خبر آگے والی کار میں بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی ۔ وہ اپنے محافظوں سے زیادہ بے تکلف نہیں تھا ۔یوں بھی کم گوئی اس کی فطرت تھی ۔

 کوٹھی سے نکلتے نکلتے پونے دس ہوچکے تھے ۔سوا دس بجے کے قریب وہ تناوش کے گھر کے سامنے رک رہے تھے ۔کبیرا دادا کے کار سے باہر نکلتے ہی بخش اور امتیاز اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔دروازہ بند تھا ۔کبیردادا نے بخش کو دستک دینے کا اشارہ کیا ۔

دروازہ کھٹکھٹانے کے چند لمحوں بعد ہی اندر سے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا گیا ۔ ”کون؟“

بخش نے فوراََ جواب دیا ۔”خالہ !....ہم دلھن کو لینے آئے ہیں ۔“

ایک دم دروازہ کھول کر بشریٰ نے باہر جھانکا ۔”دلھن؟“اس کے لہجے میں حد درجہ حیرانی تھی ۔سٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں کبیردادا کو دیکھتے ہی وہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔

”تت....تناوش بیٹی کو تو کافی دیر ہوئے لے گئے ہیں ۔“

”کون ....؟“بخش کے کچھ کہنے سے پہلے کبیردادا نے بے صبری سے پوچھا ۔

”آ....آپ کے ہی آدمی تھے بیٹا ۔“بشریٰ الجھی ہوئی نظر آنے لگی تھی ۔

لمحہ بھر اسے کھوجتی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بعد کبیردادا سمجھنے والے انداز میں سرہلاتا ہوا بولا ۔”ہونہہ!....سمجھ گیا ۔میں کسی کام سے گیا تھا ،شاید میرے آدمی لے گئے ہوں ۔“

بشریٰ نے سکون بھرا سانس لیا۔”میں تو ڈر ہی گئی تھی بیٹا !“

” پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،کچھ نہیں ہوگا ۔“وہ بشریٰ کو تسلی دیتا ہوا بولا ۔ ”آپ آرام کریں ہم چلتے ہیں ۔“یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے چلتا ہوااپنی کار کے قریب پہنچا ۔ اس کے چہرے پر چھایا غیض و غضب دیکھ کر بخش پارٹی کے دل دھڑکنے لگے تھے ۔پہلی مرتبہ انھیں کبیر دادا کے چہرے پر اتنا غصہ نظر آیا تھا ۔وہ بڑے بڑے مسائل اور نقصانات کو ذرابھر اہمیت نہیں دیا کرتا تھا، آج کسی اور ہی جون میں نظر آرہا تھا ۔

٭٭٭

شہاب علی خان کے گھر سے نکلتے ہی اخلاق حسین موبائل فون نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا ۔ڈرائیور کو اس نے گھر جانے کا بتا دیا تھا ۔

پہلی ہی گھنٹی پر کال رسیو کر لی گئی تھی ۔

مودّبانہ لہجے میں پوچھا گیا ۔”جی شاہ صاحب !“

”خاور !....کبیر اس وقت شہاب علی خان کے پاس بیٹھا ہے ،تم اس لڑکی کو لانے کے لیے کسی کو اس کے گھر بھیج دو ۔“

خاور نے حیرانی سے پوچھا ۔”مگر کسی دوسرے کے ساتھ وہ کیسے آئے گی ؟“

”میری اطلاع کے مطابق کبیر نے دس بجے اپنے آدمی وہاں بھیجنے ہیں اور وہ لڑکی کبیر خان کے تمام آدمیوں کو نہیں پہچانتی ہو گی ۔تم کسی کو بھی وہاں بھیج دو اسے کیا معلوم وہ آدمی کس کے ہیں ۔“

”ٹھیک ہے شاہ جی !....میں خود تو اس وقت کہیں باہر ہوں ،اپنے آدمیوں کو بتا دیتا ہوں وہ اسے لے آئیں گے ۔کیا اسے آپ کے پاس بھیجنا ہے ۔“

اخلاق حسین ہنسا ۔”بھابی تو وہ تمھاری بننے والی تھی ،یقینا مجھ سے زیادہ تمھارا حق بنتا ہے ۔“

”کبیردادا پھڈا تو ڈالے گا ۔“خاور کے لہجے میں تشویش تھی ۔

”کبیر نے کون سا سچ مچ کا نکاح پڑھایا ہے کہ پھڈا ڈالے گا ۔کبیر جیسے آدمیوں کے لیے ایسی لڑکیوں کی اہمیت رکھیل سے بڑھ کر نہیں ہوتی ۔یوں بھی جو جنس وافر مقدار میں دستیاب ہو وہ اپنی قدر کھو بیٹھتی ہے اور کبیر جیسے آدمیوں کو لڑکیوں کی کیا کمی ۔“

”تو ہمیں لڑکیوں کی کون سی کمی ہے ۔ہم کیوں ایک لڑکی کے لیے کبیردادا سے دشمنی کو بڑھاوا دیں۔“

”ہم دشمنی نہیں بڑھا رہے کبیر دادا کو باور کرا رہے ہیں کہ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنیں ۔دوسرا یہ لٹی پٹی لڑکی جب گھر جا کر اپنی بربادی کی داستان سنائے گی اور وہ داستان اس محلے میں پھیلے گی تو خود بہ خود اس محلے کے لوگوں کو میری اہمیت معلوم ہو جائے گی ۔“

خاور شیخ نے تحسین آمیز لہجے میں پوچھا ۔”گویا آپ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں ۔“

اخلاق حسین نے فخریہ لہجے میں کہا ۔”ایک اچھے شکاری کو تیر ضائع نہیں کرنے چاہئیں ۔“

”شاہ جی !....آپ کی بات تو ٹھیک ہے مگر کبیر دادا سے کوئی بعید نہیں کہ اس لڑکی کے لیے کوئی الٹا سیدھا قدم اٹھا لے ۔“خاور شیخ کے لہجے میں تشویش کا عنصر نمایاں تھا ۔

”کبیر کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ،وہ کبھی کچے پر پاﺅں نہیں رکھے گا ۔ایک لڑکی کے لیے وہ کسی صورت مجھ سے دشمنی مول نہیں لے گا ۔

”ٹھیک ہے شاہ جی !.... جو آپ کی مرضی ۔“

٭٭٭

”کک....کہاں جانا ہے دادا !“ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے اس کے سیکرٹری نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔

”اخلاق حسین کی کوٹھی پر چلو ۔“کبیردادا نے اپنے لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی جس میں اسے بالکل ہی ناکامی ہوئی تھی ۔

”جی دادا!“عظیم نے کہا ۔ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔اخلاق حسین کی وسیع و عریض کوٹھی تک انھیں بیس منٹ لگے تھے ۔اس دوران کبیردادا بے صبری سے پہلو بدلتا ہوا بار بار گھڑی کو دیکھتا رہا ۔ڈرائیور اس کا مزاج آشنا تھا اس لیے اس نے حتی الوسع تیزرفتاری کا مظاہر ہ کیا تھا ۔

چوکیدار نے باہر نکل کر اس کی کار کو دیکھا ۔وہ کبیر داداکو اچھی طرح پہچانتا تھا ۔لیکن اس کے باوجود وہ دروازہ کھولنے کی طرف نہیں بڑھا تھا۔البتہ کبیردادا کو دیکھ کراس کے چہرے پر خوف کے اثرات ضرور نمودار ہو گئے تھے ۔

اسے خاموش کھڑا دیکھ کر ڈرائیور نے کہا ۔”دروازہ کھولو۔“

وہ ہکلاتے ہوئے بولا ۔”شش....شاہ صاحب نے کسی کے لیے بھی دروازہ کھولنے سے منع کیا ہوا ہے ۔“ 

”میں کوئی نہیں ہوں ۔“ڈرائیور سے پہلے کبیر دادانے دبنگ لہجے میں کہا ۔اس کا عام لہجہ بھی مخالف کا پتہ پانی کر دیتا تھا ۔اس کے غصے کا اظہار کرنے پر چوکیدار تھر تھر کانپنے لگا ۔

”دروازہ کھولا تو نوکری چلی جائے گی ۔“

”نوکری بچانا ہے یا زندگی ۔“کبیرداداکی بات ایسی نہیں تھی کہ چوکیدار مزید بحث کر سکتا ۔وہ جانتا تھا کہ کبیر دادا جو کہتا وہ کرتا بھی ہے ۔اور یقینا نوکری زندگی سے اہم نہیں تھی ۔ مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا وہ دروازے کے قریب پہنچا اور دروازہ کھول دیا ۔

دروازہ کھلتے ہی ڈرائیور کار اندر لے گیا ۔سیمنٹ کے پختہ رستے کے اختتام پر جونھی ڈرائیور نے کار روکی کبیر دادا باہر نکلا اور اندرونی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔اسی وقت اس کے چاروں محافظ بھی گاڑی سے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہو لیے تھے ۔کبیر دادا کی رفتار دیکھتے ہوئے انھیں بھاگنا پڑ گیا تھا ۔ڈرائینگ روم میں گھستے ہی انھیں اخلاق حسین کی خواب کے سامنے دو محافظ کھڑے نظر آئے ۔کبیر دادا کو دیکھتے ہی وہ چونکے اگلے ہی لمحے انھوں نے جیبوں سے خوفناک شکل والے پستول نکال کر ہاتھوں میں پکڑ لیے تھے ۔

ان کے پستولوں کی پروا کیے بغیر کبیر دادا ان کی طرف بڑھتا گیا ۔کبیردادا خالی ہاتھ تھا اور وہ دونوں مسلح مگر اس کے باوجود ان کے چہروں پر چھایاخوف نمایاں نظر آرہا تھا ۔

”کبیر دادا !....شاہ صاحب آرام کر رہے ہیں اور ....“ایک محافظ اسے رکنے کی دھمکی دینے کے بجائے وضاحت پیش کرنے لگا تھا ۔لیکن اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے کبیردادا کا ہاتھ گھوما ۔کنپٹی پر لگنے والے ہتھوڑے نما مکے سے وہ اچھل کر خواب گاہ کے دروازے سے ٹکرایا اور ہاتھ پاﺅں ڈھیلے چھوڑ دیے ۔

”تم بھی آرام کرو ۔“اطمینان بھرے انداز میں کہتے ہوئے اس نے دوسرے محافظ کی طرف دیکھا ۔وہ فوراََ ہاتھ سر سے بلند کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا ۔

دروازے پر دستک دینے کے بجائے کبیردادا نے زوردار لات رسید کی ۔دروازہ کافی مضبوط تھا اس لیے صرف کھڑکھڑا کر رہ گیا تھا ۔

کبیر دادا نے ایک طرف ہوتے ہوئے اپنے محافظوں کو اشارہ کیا ۔ امتیاز اور بخش دوڑتے ہوئے دروازے کے قریب پہنچے اور اپنے کندھوں کی ضرب سے دروازے کا لاک توڑ دیا۔

کبیردادا فوراََ اندر گھسا، اخلاق حسین صوفے پر بیٹھا تھا ۔سامنے پڑی شیشے کی میز پر ادھ بھری بوتل دھری تھی ۔نفیس گلاس ہاتھ میں تھامے وہ سنہری سیال کی ہلکی ہلکی چسکیاں لے رہا تھا ۔دروازہ کھلنے کی اس نے مطلق پروا نہیں کی تھی ۔

”لڑکی کہاں ہے ؟“کبیردادا کسی تمہید کے بغیربراہ راست مقصد کی گفتگو پرآگیا تھا ۔

اخلاق حسین نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”لڑکی یا تمھاری دلھن ۔“

”جو سمجھو ،مگر وہ ہے کہاں ؟“

اخلاق حسین منھ بناتے ہوئے بولا ۔”تمھاری بیوی کے بارے مجھے کیا معلوم۔“

یہ الفاظ اس کے ہونٹوں پر تھے کہ بجلی چمکنے کی طرح کبیردادا اپنی جگہ پر اچھلا ، اس کے پاﺅں کی بھرپور ٹھوکر اخلاق حسین کی چھاتی پر لگی اور وہ صوفے سمیت پیچھے کو الٹ گیا ۔اگلے ہی لمحے اس کے گریبان سے پکڑتے ہوئے کبیر دادا نے اوپر اٹھا لیا تھا۔

” شاید تمھیں بھول گیا ہے کہ کسے مخاطب ہو۔“

”کبیر دادا !....اس کا نتیجہ تمھیں بھگتنا پڑے گا ۔“اخلاق حسین کے گلے خرخراتی ہوئی آواز نکلی ۔

”اگر تم زندہ بچ گئے تو ....“کبیر دادا نے اسے زمین پر پٹختے ہوئے جیب سے پستول نکالا۔

”تم اپنے حواس کھو چکے ہو ،ایک لڑکی کے لیے تم میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو ؟“ اخلاق حسین کے لہجے میں پہلی بار خوف جھلکا تھا ۔

”میرے تین تک گننے سے پہلے تم اس کے بارے زبان کھول کر اپنی زندگی کو طول دے سکتے ہو ۔ایک....“اس کی بات کا جواب دیے بغیر کبیردادا نے دھمکی دیتے ہوئے گنتی شروع کر دی تھی ۔

اس کے تین کہنے سے پہلے اخلاق حسین جلدی سے بولا ۔”وہ خاور شیخ کے پاس ہے۔“

”کہاں رہتا ہے وہ ؟“کبیردادا نے میکانکی انداز میں اگلا سوال پوچھا ۔

اخلاق حسین سرعت سے اس کا پتا دہرانے لگا ۔کبیردادا کی آنکھوں سے ہویدا دیوانگی نے اسے ڈرا دیا تھا ۔

”دعا کرنا خاور شیخ نے اسے کچھ نہ کہا ہو اور صرف اسی صورت میں تم زندہ رہ پاﺅ گے۔“یہ کہتے ہی کبیر دادا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے باہرنکل آیا ۔اس کے محافظ اخلاق حسین کی خواب گاہ کے دروازے ہی پر رک گئے تھے ۔لیکن اندر داخل نہ ہونے کے باوجود انھوں نے سارا منظر دیکھ لیا تھا ۔

کار میں بیٹھتے ہی اس نے ڈرائیور کو خاور شیخ کی کوٹھی کا پتا بتا یااورڈرائیور نے سر ہلاتے ہوئے کار آگے بڑھا دی ۔

خاور شیخ اخلاق حسین کا دست راست اور دلاور شیخ کا بڑا بھائی تھا ۔یقینا تناوش کو اغوا کرنا اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے تھا ۔

”عظیم !....خاور شیخ کے متعلق تم کیا جانتے ہو۔“اس نے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے اپنے ذاتی سیکرٹری سے پوچھا۔ایسے معاملات میں وہ بہت باخبر رہتاتھا ۔

”خاور شیخ ،دلاور شیخ کا بھائی اور اخلاق حسین شاہ کا خاص بندہ ہے ۔ دونوں بھائی اخلاق حسین کے لیے کام کرتے ہیں ۔ان کا والدعبداللہ شیخ ایک شریف آدمی ہے اور اپنے دونوں بیٹوں کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے اس نے انھیں گھر سے نکال دیا ہے ۔ان کی تین بہنیں ہیں۔ دو کی شادی ہو چکی ہے اور ایک یونیورسٹی میں جاتی ہے ۔تینوں بہنیں بھی نہایت شریف اور گھریلو لڑکیاں ہیں ۔اگر یہ کبھی گھر جاتے بھی ہیں تو والد فوراََ گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ اسے ان کی صورت دیکھنابھی گوارا نہیں ہے۔ماں اور بہنیں البتہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان سے رشتا رکھے ہوئے ہیں ۔خاور شیخ لڑائی بھڑائی کا کافی ماہر ہے ۔نہایت ہی چالاک اور خطرناک شخص ہے ۔ اخلاق حسین شاہ کے سارے غیر قانونی دھندوں کا نگران یہی ہے ۔“

”ہونہہ!“کر کے کبیردادا نے گہرا سانس خارج کیا اور کلائی پر بندھی سنہری ڈائل کی گھڑی پر نگاہ دوڑانے لگا ۔اس کی بے چینی ڈرائیور کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں تھی ۔ وہ حتی الوسع کار کو اڑائے جا رہا تھا ۔

تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ پندرہ منٹ میں خاور شیخ کی کوٹھی کے سامنے پہنچ گئے تھے۔کار کے ہارن پر چوکیدار ذیلی کھڑکی کھول کر باہر نکلا ،اس نے کندھے سے رائفل لٹکائی ہوئی تھی ۔اسے تعارف کرا کر دروازہ کھلوانے کا تکلف کیے بغیر کبیردادا نیچے اترا۔وہ پہلی مرتبہ وہاں آیا تھا ۔چوکیدار اسے پہچانتا نہیں تھا، لیکن اس کی قیمتی کار دیکھ کر چوکیدار کے لیے اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا ۔

اس نے موّدبانہ لہجے میں پوچھا۔”جی سر !....کس سے ملنا ہے ؟“

 سوال و جواب میں خود کو الجھائے بغیر کبیر دادا کا ہاتھ گھوما ،کنپٹی پر لگنے والا ہتھوڑا نما مکا چوکیدار کو استفسار کی دنیا سے بہت دور لے گیا تھا ۔کبیردادا اس کا انجام دیکھنے کے لیے رکا نہیں تھا۔یا پھر اسے اپنے مکے کی طاقت پر مکمل بھروسا تھا ۔

دروازے میں داخل ہوتے ہی اس نے جیب سے خوفناک شکل کا سائیلنسر لگا پستول نکال کر ہاتھ میں تھام لیا تھا ۔کوٹھی کا صحن عبور کر کے وہ اندرونی عمارت میں داخل ہوا ۔ چاروں محافظ اس کے عقب میں چوکنا انداز میں چلتے ہوئے آرہے تھے ۔ان کی نگاہیں کسی پھرکی کی طرح چاروں طرف گھوم رہی تھیں ۔ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے ہی اسے ایک کمرے کے سامنے دو ہتھیار بردارآدمی کھڑے نظر آئے ۔کبیردادا کو دیکھتے ہی ان کے چہروں خوف ابھرا، کبیردادا کی شخصیت ان کے لیے اجنبی نہیں تھی ۔

خوفزدہ ہونے کے باوجود انھوں نے کندھوں سے لٹکائے ہتھیار ہاتھ میں تھام کر سیدھے کرنا چاہے ۔لیکن انھیں کافی دیر ہو گئی تھی ۔یوں بھی کبیردادا ان کی گیدڑ بھبکیاں سننے کے موڈ میں نہیں تھا ۔تناوش کا کسی دوسرے مرد کے ساتھ بند کمرے میں ہونا اس کے سینے میں عجیب قسم کی آگ کو بھڑکائے جائے جا رہا تھا ۔ایک ایسی آگ جو ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح جلانے پر تلی تھی ۔ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس کے ہاتھوں میں موجود پستول نے مسلسل تین چار دفعہ آگ اُگلی اورخاور شیخ کے دونوں محافظ اپنی چھاتیوں میں سرخ روشندان کھولے نیچے گر کر تڑپنے لگے ۔دروازے کے قریب پہنچتے ہی کبیر دادا نے زور دار لات رسید کی ۔دروازے کی کنڈی ٹوٹ کردونوں پٹ کھل گئے تھے ۔پستول ہاتھ میں تھامے وہ بے دھڑک اندر گھس گیا ۔اس کا دل عجیب خوف سے بری طرح دھڑک رہا تھا ۔ چاروں محافظ بھی اس کے پیچھے اندر گھستے چلے گئے ۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment