Pages

Wednesday 8 March 2023

Ishq Baz Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 5 to 6 Episode

Ishq Baz  Novel By Monisa Hassan Urdu Novel  5 to 6 Episode 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Baz By Monisa Hassan Episode 5 to 6


Novel Name: Ishq Baz

Writer Name: Monisa Hassan 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

ارے میری گڑیا ادھر آؤ  میرے پاس ایسے تھوڑی روتے ہیں" "یہ دیکھو! میں یہی دینے آیا تھا ورنہ میں نے ویک اینڈ پہ آنا تھا"علی نے اسے اپنے پاس بیٹھاتے ہوۓ کہا 

"یہ کیا ہے؟"

"خود ہی دیکھ لو"علی نے اسے فائل پکڑاتے ہوۓ کہا"

ایڈمیشن فارم؟" سارا نے حیرانگی سے پوچھا

"ہاں میری گڑیا کا آرٹس میں ایڈمیشن کروانا ہے اس لیے آیا ہوں"

"لیکن بھائی اپنے منع کر دیا تھا اس لیے اب میں نہیں لوں گی"

"پہلے بھی میں نے منع کیا تھا اور اب بھی میں ہی رہا ہوں"

"لیکن کیوں بھائی؟"

"اس لیے کہ میں پہلے چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ اور پاپا کے ساتھ بزنس سنبھالو لیکن مجھے تمھارے پرنسپل کی کال آئی تھی وہ چاہتے ہیں تم آگے آرٹس پڑھو اور میں نے خود بھی تمہاری پینٹینگز دیکھی ہیں اور میں یہ فیصلہ کیے بغیر رہ نہیں سکا"

"Thank you bhaiya"

"خالی Thank you سے کام نہیں چلے گا جب میں ویک اینڈ پہ آؤ گا بریانی کھالانی پڑے گی"

"Hahaha Love you bhaiya"

*****

اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی جب امی کی کال آئی 

"آیت کیسا ہوا انٹرویو؟میں کب سے کال کر رہی ہوں اٹھا کیوں نہیں رہی؟"

"جی اچھا ہو گیا آپ کب آ رہی ہیں؟" 

"بیٹا ادھر پورا خاندان جمع ہے میں نے تو بہت کہا مجھے جانے دو لیکن کوئی آنے ہی نہیں دے رہا"

"سب تمہارا بار بار پوچھ رہے ہیں ایسا کرو کل آ جاؤ تم بھی مل کر واپس آ جایں گے"

"نہیں امی مجھے ضروری کام ہے"

"آیت ایسا کون سا ضروری کام ہے کے تم اپنے کزن کے نکاح میں بھی نہیں آ سکتی" 

"امی نکاح ہو چکا ہے" ضبط کے باوجود آنکھیں دھندلانے لگیں تھیں... 

"ہاں لیکن سارے مہمان ابھی ادھر ہی ہیں تم بھی آ آجاؤ ساتھ واپس آ جایں گے" 

"نہیں امی بس آپ کل واپس آ جائیں" 

"اچھا میں کوشش کروں گی...تصویریں دیکھیں تم نے نکاح کی میں نے بھیجیں تھیں" 

"نہیں امی میں نماز پڑھ کر دیکھتی ہوں" 

"چلو ٹھیک ہے تم نماز پڑھو اپنا خیال رکھنا میں کل آنے کی کوشش کرتی ہوں" 

"جی امی اللہ‎ حافظ" 

کال بند کر کے اس نے نماز مکمل کی تھی پھر تصویریں کھول کر بیٹھ گئی...

اسکے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی...

زین بہت خوش لگ رہا تھا اور اسکے پہلو میں بیٹھی اسکی بیوی بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی...جیسے دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں...تصویر ہر طرح سے مکمل تھی...جیسے کوئی کمی باقی نا رہی ہو...

کتنے خواب دیکھے تھے اس نے اس لمحے کے لیے...اب اسکی جگہ کسی اور کو دیکھ کر شدت سے دل پھٹنے کو تھا...

جوڑے تو ازل سے آسمانوں میں بنتے آ رہے ہیں...

جو جس کی قسمت میں ہوتا ہے وہ مل کر رہتا ہے پھر...پھر کیوں...انسان اس حقیقت کو قبول نہیں کرتا؟؟

"کیوں وقت سے پہلے ہی اس نے کیئے وعدے؟؟کیوں کہا کہ میں زندگی بھر تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا؟؟کیوں کہا کے تمہاری جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکے گا؟؟کیوں نہیں لے سکتا جب رب نے پہلے ہی کسی اور کو اس جگہ کا حق دار بنا دیا ہے پھر وہ کیوں نہیں لے سکتا وہ؟؟؟ لیتا ہے... ہر حال میں لے کر ہی رہتا ہے..."

خدا ہمیں انہی کے ہاتوں توڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم خدا کو بھول جاتے ہیں اس کی نافرمانی کرتے ہیں...

"اللہ‎ جی مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دیں...مجھے تو اس کی محبّت میں اسکا لالچ نظر نا آیا لیکن تو نے مجھے بچا لیا..."

"اللہ‎ جی ابو کا خواب تھا میں انکا بزنس ان سے بھی آگے لے کر جاؤ لیکن میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ دیا...میں اس انسان کی باتوں میں آ گئ مجھے معاف کر دے میرے مالک...

مجھے اپنی رحمت کی لپٹ میں لے لے..."

وہ اپنی محبّت پر نادم تھی...خدا کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگ رہی تھی...

اچانک فون کی آواز پر وہ چونکی تھی...سجدے سے سر اٹھایا تو زین کا لنک جگمگا رہا تھا...

"مبارک ہو"آیت کی آواز رونے سے بھری ہو رہی تھی 

"اوہو تم رو رہی ہو؟ویسے آج تو میرے بیگم بھی نہیں روئی تم کیوں رو رہی ہو؟"

"کیونکہ تم جیسے دھوکے باز انسان پر میں نے یقین کیا"

"پلز کزن آج نہیں آج میں بہت خوش ہوں اس لیا یہ شکوے کسی اور دن کے لیے رکھ لیتے ہیں...ویسے فون اس لیا کیا تھا کے بہت اچھا کیا جو تم نے کسی کو کچھ بتایا نہیں ورنہ اویں خاندان میں تمہاری بدنامی ہوتی" زین نے طنزً کیا تھا 

"یہ مت بھولو کے یہ دنیا مقافات عمل ہے جو تم نے آج میرے ساتھ کیا ہے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی اور ممکن ہے کے اس کا بدلہ تمیں اسے دنیا میں مل جائے..."

"تمیں لگتا ہے کوئی میرا دل توڑ سکتا ہے؟آیت بی بی میں کسی کو اپنی دل تک رسائی نہیں دیتا توڑنا تو بڑی دور کی بات ہے" قہقے کے درمیان کہا گیا

"غرور انسان کو خاک میں ملا دیتا ہے مسٹر زین آلحسن"

"چھوڑو نا آیت تم بھی کیسی باتیں لے کر بیٹھ گئ ہو...ویسے آج کوئی دعا نہیں دو گی آخر نکاح ہوا ہے میرا...پہلے تو بڑی دعائیں دیتی تھی کہ میری عمر بھی آپکو لگ جائے اور پتا نہیں کیا کیا..."اسنے ہستے ہوئے کہا 

"ہاں زین کیوں نہیں میرا دل چاہتا ہے تمہیں دنیا کی ہر نعمت ملے،ہر آسائس،ہر خوشی،ہر کامیابی،ہر خوائش تمہارے ہونٹوں پر آنے سے پہلے ہی پوری ہو جائے بس...بس محبّت حرام ہو جائے تم پر...آیت پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی اور کال بند کر دی...

*******

"جی سر ساری ڈیٹیلز مل گئی ہیں وہ پراپرٹی پہلے مسٹر رحمان احمد کے نام تھی جو انکی وفات کے بعد انکی بیٹی کے نام تھیں اور ابھی تقریباً  دو ہفتے پہلے مسٹر زین الحسن کے نام ٹرانسفر کر دی گئی ہیں..."

"ٹھیک ہے اب اس زین کے ساتھ میری میٹنگ فکس کرواؤ باقی کام میں بعد میں بتاؤں گا" 

"سر ابھی تک وہ آفس نہیں جا رہے شاید ایک ہفتے تک آ جایں"

"ٹھیک ہے جیسے ہی وہ آئے میری میٹنگ کرواؤ" 

****

رات کا پچھلا پہر،مسلسل بارش، تیز ہوا اور وقفے وقفے سے گرجتی بجلی نے کسی ہارر مووی کا سمع باندھا ہوا تھا...

ایسے میں سنسان پارک میں درخت کے نیچے موجود نیلی آنکھیں اس منظر کو قید کر رہیں تھیں...

 تیز ہوا اسکے سنہرے لمبے بالوں کو اردگرد پھیلا رہی تھی...

اوپر آسمان گواہ تھا کے آج سے پہلے جب بھی بارش کا موسم آتا تو ایسا لگتا کہ اس پوری دنیا کی خوشیاں ان نیلی آنکھوں میں بکھر گئیں ہیں...لیکن آج ان میں کیا نہیں تھا؟

خوف،درد،طوفان کے بعد کی خاموشی...اور گرم پانی کا سیلاب جو اسکے چہرے کو بھیگوئے ہوئے تھا اور دل جیسے ہر چیز سے اٹھ چکا تھا...بس خدا سے شکوہ کر رہا تھا کہ 

"میں تو تیری ہوں"

"تو مجھ سے محبّت کرتا ہے"

"تو پھر میرے ساتھ ایسا کیسے ہونے دے سکتا ہے؟"

"تو اس پوری دنیا کا مالک ہے...تو ہر چیز پر قادر ہے" 

" تو اسکا دل پھیر دے"

"میرا سب کچھ مجھ واپس لوٹا دے"

"مجھ سے میرے خواب نا چھین"

"مجھے میرے جینے کی وجہ لوٹا دے"

"آج میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے اتنا قریب آ کر انہیں کھو نہیں سکتی"

"یا اگر تو نے چھیننا ہی ہے نا...تو میری خواہش چھین لے لیکن میرے ابو کے خواب نا چھین"

"پہلے میرے ابو مجھ سے چھین لئے اب انکے خواب تو نا چھین"

"اسکے بعد چاہے مجھے کبھی کچھ عطا نا کرنا اگر میں مانگوں تب بھی نا کرنا"

"سنیں" کسی مردانہ آواز پر وہ حال میں واپس لوٹی تو اسے احساس ہوا وہ اس پاس سے بیگانہ اونچی آواز میں بول رہی تھی 

"رات یہیں خدا سے لڑ کر گزرنے کا ارادہ ہے ؟"

"نہیں...وہ میں...بس جا ...وہ ...لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے...

"وہ اسکی حالت کا اندازہ لگا چکا تھا اس لئے مزید کوئی سوال نا کیا"

"رات بہت ہو چکی ہے آئیں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں"

"نہیں میں چلی جاؤں گی"اس کی گھبراہٹ اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہی تھی...

"دیکھیں آپ ڈریں نہیں میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا کیونکہ اس ملک کی ہر بیٹی کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے"

آیت نے ایک نظر اس کی خاکی وردی پر ڈالی اور اس کے ساتھ چل پڑی...

"پارک کے گیٹ کے قریب پہنچتے ہی آیت نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا

"میں اپنی گاڑی میں چلی جاؤں گی"

گاڑی کے قریب پہنچتے ہی مینڈک کی فوج اس کے استقبال کے لئے پہلے سے موجود تھی اور مینڈک سے تو اسے سخت نفرت تھی...

 اب اسی سوچ میں تھی کے آگے جائے یا پیچھے...کوئی چیز اس کے پاؤں سے ٹکرائی...

ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی...

نیچے گرنے کو ہی تھی کہ کسی کے مظبوط ہاتھوں نے اسے پیچھے سے تھام لیا تھا...

"میں نے کہا تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں"

"لیکن میری گاڑی؟" آیت نے شرمندگی سے منہ جھکاتے ہوئے کہا 

"یہ ہیں نا مینڈک کی فوج آپ انہیں بتائیں یہ چھوڑ آئیں گے"

رامش نے اسکا موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا 

"انکو میرے گھر کا راستہ نہیں پتا" آیت نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا اور آگے چل دی...

"اوہ!میں تو مذاق کر رہا تھا آپ غصہ نا ہوں آپ چلیں میرے ساتھ اسے میرا ڈرائیور لے آئے گا"

آیت نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی...اسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی اور ایسے میں وہ گاڑی ڈرائیو نہیں سکتی تھی...

گھر کا پتہ بتانے کے بعد وہ سارا راستہ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی...

 اچانک اسے گاڑی رکنے کا احساس ہوا...اسنے آنکھیں کھولیں اور اسے گاڑی سے نکلتے ہوے دیکھا 

کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ اور کچھ دوائیاں تھیں جو اس نے آیت کی طرف بڑہائیں...

"یہ کس لیے؟"

"آپ کے لیے"

"لیکن میں نے تو نہیں منگوائیں" آیت نے حیرانگی سے دوائیوں کی طرف دیکھا 

"جی آپ نے نہیں منگوائیں لیکن آپ کو تیز بخار ہو رہا ہے گھر پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ لگ جائے گا"

"آپ کو کیسے پتا مجھے بخار ہے؟"اسکی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا تھا 

"ان مینڈک کی فوج نے بتایا"رامش نے مسکراہٹ ڈوباتے ہوے کہا 

آیت نے اسے گھور کر دیکھا تھا

"آپ میرا مذاق بنانا بند کریں ورنہ میں پیدل بھی گھر جا سکتی ہوں"

"ارے نہیں نہیں میرا مطلب تھا کے جب آپ ان سے ڈر کر گرنے لگیں تھیں تو میں نے ہی آپ کو پکڑا تھا تب مجھے پتا چلا"

آیت نے غصے سے منہ دوسری طرف کر لیا 

"ایک تو پہلے ہی میں اتنی تکلیف میں ہوں اوپر سے یہ نئ آفت میرے سر پر سوار ہو گئی ہے"اسنے دل میں سوچا 

"اب اسے کھا لیں اس سے پہلے بخار اور تیز ہو جائے اور ہاں آگے راستے میں کوئی ہسپتال بھی نہیں ہے"

آیت نے ایک نظر اس پر ڈالی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا...

ایک دم اسکی نیلی آنکھیں اسکے یونیفارم پر ٹھہر گئیں جس پر لکھا تھا 

"کیپٹن محمّد رامش"

"فاطمہ کو اگر پتا چلا کے ایک فوجی وہ بھی کیپٹن مجھے گھر چھوڑنے آیا ہے...وہ تو خوشی سے پاگل ہو جائے گی"

اس نے اپنی دوست کے بارے میں سوچا

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟

مجھے پتا ہے میں بہت handsome ہوں"رامش نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا...ایک دفعہ کے لیے تو اسے ایسے لگا کہ اگر اس نے نیلی آنکھوں سے نظر نا ہٹائی تو ان میں ڈوب جائے گا...

"کتنی گہری ہیں یہ آنکھیں...لیکن پتا نہیں انہیں تکلیف پہنچانے والا کون ہو گا"

"نہیں کچھ نہیں...میں وہ...پانی چائیے تھا...آیت نے اسے اپنی طرف متوجہ پا کر گڑبڑا کر کہا 

"ہاں وہ میں نے پچھلی سیٹ پر رکھا ہے"

 آیت دوا لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی...

"یا اللہ‎ تیرے بندوں میں کتنا فرق ہوتا ہے...کوئی اپنا نا ہو کر بھی اپنوں کی طرح خیال رکھتا ہے...اور کوئی اپنا ہو کر بھی ہمیں توڑ دیتا ہے جیسے ہمارا انکے ساتھ کوئی رشتہ ہی نا ہو...کوئی تیری خاطر اپنی پوری زندگی دوسروں کے لیے قربان کر دیتا ہے 

جیسے تیرا یہ بندا اس وردی کو پہننے والا ہر بندا اپنے ملک کے لیے اس کے لوگوں کے لیے... جس سے ان کا کوئی ذاتی رشتہ بھی نہیں ہوتا تیری خاطر اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں...شہادت کی دعایں مانگتے ہیں تاکے تیرے سامنے سر خرو ہو سکیں...

 اور کچھ لوگوں کے دل میں تیرا ذرا بھی ڈر یا خوف نہیں ہوتا... وہ جیسے تجھے جانتے ہی نہیں...جانتے ہی نہیں ہیں کہ کبھی انکی بھی پکڑ ہوگی....کیسے دوسروں کے دلوں کو کچل کررکھ دیتے ہیں کیسے لوگوں کے خوابوں کو توڑ دیتے ہیں...یہ جانے بغیر کہ انکے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں پوری زندگی انکی آنکھوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں....شاید انکو نہیں پتا کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جو بھی ہم کسی کے ساتھ کرتے ہیں اسکا اچھا یا برا بدلہ اس دنیا میں ہی ہمارے سامنے آجاتا ہے"

"میرے مالک میری مدد فرما...میں نے تو کبھی تیرے بندوں کا دل نہیں توڑا کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تو پھر  میرے ساتھ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"

رامش نے دیکھا وہ کافی دیر سے بغیر آواز کے رو رہی تھی اسکے دل کو کچھ ہوا تھا 

"اتنی تکلیف ؟کتنا برا کیا کسی نے اسکے ساتھ اے میرے مالک اسکی مدد فرما...میں  نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا...اپنا آپ بھی اس ملک کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن آج میں اس کے لیے خوشی مانگتا ہوں اسکی زندگی میں جو بھی تکلیفیں،دکھ،درد ہیں سب مٹا دے" (اچانک اسکے دل سے رعا نکلی تھی )

اور کاتب تقدیر کو اسکی معصوم دعا اتنی پیاری لگی کہ اسنے اس دعا پہ کن فرما دیا تھا

کچھ دیر بعد گاڑی کالونی میں داخل ہوئی اور ساتھ ہی فجر کی اذان سنائی دینے لگیں تھیں 

"گھر کس طرف ہے آپکا؟" رامش نے پوچھا 

آیت کچھ دیر سوچنے کے بعد فاطمہ کے گھر کا پتا بتا دیا تھا... 

"فل حال میں اس حال میں اپنے گھر نہیں جا سکتی ورنہ امی کو سب پتا چل جائے گا اور میں انھیں اب اور دکھی نہیں دیکھ سکتی انھیں تو میرے ہنستے ہوئے چہرے کے پیچھے چھپی میری تکلیف کا اندازہ ہو جاتا ہے پھر اس حالت میں تو وہ فوراً جان جائیں گی"

رامش نے گھر کے گیٹ کے پاس گاڑی روک دی تھی

آیت گاڑی سے اتر کر بیل بجا چکی تھی اسے احساس ہوا کہ وہ تو ابھی تک گاڑی میں ہی ہے

 وہ اسکے پاس گئی تھی... 

اندر نہیں آئیں گے آپ؟ 

"نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے امی پریشان ہو رہی ہونگی"

"تو آپ انھیں فون کر کے بتا دیں"

رامش جواب دیتا اس سے پہلے فاطمہ کے چلانے پر دونوں نے پریشان ہو کر ادھر دیکھا جو کھڑی انکی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی 

"اتنا برا سرپرائز؟" 

کم از کم ایک فون ہی کر دیتی یہ تو اچھا ہوا کہ میں نماز کے لیے اٹھی ہوئی تھی ورنہ یہیں کھڑی بیل بجاتی رہتی"

"اب آ گئی ہوں تو اندر آنے دو گی؟" اس نے گاڑی کی طرف متوجہ کروایا

ایک دم پہلے سے بھی زیادہ اونچی چیخ بلند ہوئی تھی 

"فوجی" آیت ذرا مجھے چٹکی کاٹنا یہ سچ میں فوجی ہے؟"

"اور یہ سچ میں تمھارے ساتھ آیا ہے؟" 

"جلدی بولو اب چپ کیوں کھڑی ہو؟"

"اب تم چیخیں مارنا بند کرو گی تو میں کچھ بولوں گی نا اور یہ باتیں اندر جا کر کرتے ہیں ورنہ تم سارے محلے کو اٹھاؤ گی"

"ہاں ہاں اندر چلو"

آیت اندر جا چکی تھی وہ جانتی تھی کہ فاطمہ ہی اب رامش کو اندر لا سکتی ہے 

رامش بھی اس سب گفتگو کے دوران گاڑی سے باہر آ چکا تھا 

فاطمہ اب اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی...جسکی خوشی کہ کوئی ٹھکانہ ہی نا تھا 

"آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں اندر چلیں کیوں کہ میں ایک فوجی کو اتنی ٹھنڈ میں باہر کھڑا نہیں کر سکتی"

پتا نہیں کیا تھا اسکے لہجے میں کہ وہ اسے منع نہیں کر سکا  اور اسکے ساتھ اندر چل پڑا ویسے بھی اسے فجر کی نماز پڑھنی تھی

"ویسے فوجیوں کو اس معمولی ٹھنڈ سے خاص فرق نہیں پڑتا"

رامش نے بھی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا 

"ہاں مجھے پتا ہے فوجی بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن اس وقت آپ ہمارے مہمان بھی ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ آپکو تھوڑی سی بھی تکلیف ہو...

 لگتا ہے آپ فوجیوں کی کافی بڑی فین ہیں؟

صرف فین؟"

"نہیں یہ لفظ بہت چھوٹا ہے میں دل و جان سے صرف فوجیوں کی ہی نہیں بلکہ پوری پاک آرمی کی عزت کرتی ہوں اور ... فاطمہ کی بات ابھی جاری تھی کہ اسکی امی باہر لاونج میں داخل ہوئیں 

!"السلام و علیکم بیٹا کیسے ہو؟ 

"وعلیکم اسلام آنٹی بلکل ٹھیک"

فاطمہ تمھیں پتا نہیں کب عقل آنی ہے دروازے میں ہی شروع ہو گئی ہو اسکو اندر لے کر جاؤ...

"جی جی امی وہیں لے کر جا رہی ہوں آپ فکر نہ کریں "

"بیٹا ناشتہ کیا کرو گے؟"

امی نے جاتے جاتے پوچھا 

"نہیں آنٹی میں بس نماز پڑھ کر نکلو گا پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے"

"ارے! ایسے کیسے؟ آپکو ناشتہ تو کرنا پڑے گا میں پاک آرمی کی کتنی بڑی فین ہوں ایسے تھوڑی جانے دوں گی" 

فاطمہ نے شرارت سے کہا اور اسے اندر لے گئی تھی...

"اب آپ فریش ہو جائیں میں تب تک ناشتہ تیار کرتی ہوں"

رامش کو کمرے میں چھوڑ کر وہ اب اپنے کمرے میں آ گئی تھی  اسے پتا تھا کہ آیت ادھر ہی ہوگی

"آیت کیسی ہو؟ اور اتنی صبح کیسے آگئی اور بتایا بھی نہیں"

"ہاں بس کل آخری پیپر تھا تو سوچا گھر چلی جاؤں"

"تم روتی رہی ہو"؟ فاطمہ نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا جو وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی...

"نہیں تو" آیت نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا

"اچھا پھر تمہاری آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں؟"

فاطمہ نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا

آیت نے سوچا کہ اگر اسے ابھی سارا کچھ بتایا تو یہ پریشان ہو جائے گی اور ابھی اسکے پیپر بھی مکمل نہیں ہوئے

"نہیں نہیں  ابھی نہیں بتا سکتی" اس نے سوچا 

"یار وہ ابو کی وفات کے بعد پہلی دفعہ گھر آئی ہوں نا بس اسی لیے"

"میری جان بس جو میرے مالک کی مرضی...وہ اللہ‎ کی امانت تھے جن کو انہوں نے واپس لے لیا تم پریشان نہیں ہو" اس نے آیت کو تسلی دیتے ہوئے کہا

"ٹھیک کہ رہی ہو تم"

'اوہ! یار میں تو ناشتے کا بھول ہی گئی تم چینج کرو میں ناشتہ لگاتی ہوں"

"ویسے ایک بات بتاؤ؟"

(سنجیدگی سے پوچھا گیا تھا)

آیت واش روم کی طرف بڑھتی ہوئی رکی 

"ہاں پوچھو؟"

"یہ اتنا پیارا فوجی کہا سے ملا؟" ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالی گئی

"اغوا کیا ہے" آیت چیخ کر کہتی واش روم میں چلی گئی

"تم سے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں"

فاطمہ کہتی ہوئی کچن میں چلی گئی تھی...

کچھ دیر بعد آیت کپڑے بدل کر ڈرائنگ روم میں آئی جہاں رامش وضو کر کے جائے نماز ڈھونڈ رہا تھا

"کچھ چاہیے تھا "؟

آیت نے آہستہ سے پوچھا 

"ہاں !جائے نماز چاہیے تھی"

"میں دوسرے کمرے سے لاتی ہوں ادھر شاید نہیں ہے"

آیت جائے نماز دینے کے بعد اب برتن لگانے لگی تھی 

رامش کو نماز پڑھتا دیکھ کر وہی رک گئی... کتنا سکون تھا اسکے چہرے پر  جیسے اسکے پورے چہرے پر نور ہی نور تھا ...جو لوگ خدا کے لیے اپنی جان ہر وقت قربان کرنے کو تیار رهتے ہیں...جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں...خدا انکو نور عطا کرتا ہے...کتنے پیارے ہوتے ہیں نہ یہ لوگ جن کو دنیا سے کوئی غرض نہیں...انکا ہر وعدہ خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر خدا انکو اتنی طاقت عطا کرتا ہے کہ انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا... انکے ناموں سے دشمن ممالک بھی کانپ اٹھتے ہیں اور ایک ہم لوگ ہیں جو امیدیں انسانوں سے لگاتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں ٹوٹتے رهتے ہیں

"آیت" رامش کی آواز پے وہ پلٹی اور اور دیکھا وہ نماز بھی پڑھ چکا تھا اور وہ ابھی تک انہی سوچوں میں گم تھی

"جی "

آیت نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا 

"ادھر آؤ...یہاں بیٹھو"

رامش نے ساتھ والے صوفہ کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا

"آیت مجھے نہیں پتا تمہے کیا پریشانی ہے لیکن پارک میں میں نے تمہیں خدا سے دعا کرتے دیکھا تھا...اس دعا میں دعا کم اور شکوہ زیادہ تھا...میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ تم پر کوئی آزمائش ہے تو تمھے شکوہ کرنے کے بجائے صبر کی توفیق مانگنی چاہیے کیوں کہ اللہ‎  نے فرمایا ہے کہ وہ انہی بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن کو وہ خود سے قریب کرنا چاہتا ہے اور جو بندے آزمائش میں ثابت قدم رهتے ہیں وہی اسکے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوتے ہیں

آیت آنسوؤں کے سمندر کو حلق میں اتار رہی تھی لیکن اب اسکی برداشت جواب دینے لگی تھی 

وہ کمرے سے باہر آگئی کیوں کہ وہ اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی

رامش اس کو کمرے سے باہر جاتا دیکھتا رہا تھا وہ اسکی نیلی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا

اسنے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی اتنے میں فاطمہ اور اسکی امی ناشتہ لگا چکے تھے 

" بیٹا آو کھانا لگا دیا ہے" 

ساجدہ بیگم نے کمرے میں آکر کہا 

سب ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے کہ ساجدہ بیگم نے فاطمہ کو آواز دی کہ آیت کو بھی بلا لاؤ...

"جی امی "

فاطمہ جواب دیتے ہوئے کمرے سے آیت کو بلا لائی تھی 

"آیت بیٹی تم نے بیٹے کا تعارف نہیں کروایا"

ساجدہ بیگم نے پیار سے رامش کی طرف دیکھتے ہوے کہا

رامش اسکی بھیگی ہوئی نیلی آنکھیں دیکھ چکا تھا اس لیے فوراً خود ہی بولا 

آنٹی وہ آیت کی گاڑی خراب ہو گئی تھی میرا گھر بھی یہاں قریب ہی ہے تو بس میں انکو یہاں لے آیا 

رامش نے بات بناتے ہوئے کہا 

وہ جانتا تھا کہ آیت کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے اس بارے میں گھر والوں کو اسنے کچھ نہیں بتایا کیوں کہ وہاں سب خوشگوار موڈ میں ہی تھے

بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ...تمہارا احسان رہے گا ہم پے اگر تم نہ ہوتے تو پتا نہیں ابھی تک میری بچی مصیبت میں ہی ہوتی

ساجدہ بیگم نے فکرمندی سے کہا

 آنٹی اب آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں میں اس ملک کا محافظ ہوں اور یہ میرا فرض تھا 

آیت بےیقینی  سے اسے دیکھ رہی تھی...یہ کون تھا جو اسکے بغیر کچھ کہے ہی سب سمجھ گیا تھا اور اب اگر وہ سچ بتا دیتا تو وہ کیا جواب دیتی

رامش اب فاطمہ سے باتوں میں مصروف تھا لیکن آیت اس کی نظروں کی تپش کو خود پر محسوس کر سکتی تھی...اسی لمحے رامش نے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھا جو اسی کی طرف متوجہ تھی...پتا نہیں کیا تھا ان گہری نیلی آنکھوں میں کہ کچھ دیر کے لیے وو نظر ہٹانا بھول گیا تھا...

"Ramish are you committed with someone?"

فاطمہ کی آواز پر وہ چونکا

No! Not Yet...

ویسے حیرانگی کی بات ہے اتنا handsome caption

ابھی تک سنگل ہے ؟ 

"ہاں حیرانگی کی بات تو ہے پر شاید ساری زندگی ہی سنگل رہنا پڑے"

 فوراً سے اسکے منہ سے نکلا لیکن بات کی گہرائی کا احساس ہوتے ہی اسنے بات کو گول کیا

"دراصل میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں" اس نے بات مکمل کی اور گھڑی کی طرف دیکھا..."ٹھیک ہے آنٹی اب میں چلتا ہوں مجھے لیٹ ہو رہا ہے"

آپ اتنی جلدی جا رہے ہیں مجھے تو ابھی آپ سے بہت ساری باتیں کرنی تھی آرمی لائف کے بارے پوچھنا تھا ویسے میں نے سنا تھا کہ آرمی میں سب روبوٹ ہوتے ہیں ہر کام وقت پر کرتے ہیں۔ نہ ہی ایک منٹ پہلے اور نہ ہی ایک منٹ بعد... فاطمہ نے  ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا 

"ایسی بات نہیں ہے بس ہم وقت کے پابند ہوتے ہیں... میں واقعی میں لیٹ ہو رہا ہوں ورنہ  تھوڑی دیر اور رک جاتا"

"مجھے بھی بہت اچھا لگا تم سب سے مل کر" رامش نے فاطمہ کی ناراضگی دور کرتے ہوئے کہا 

ٹھیک ہے لیکن وعدہ کرو کہ اسے اپنا ہی گھر سمجھو گے اور اپنی پوری فیملی کو لے کر یہاں ضرور آؤ گے...اب کہ ساجدہ بیگم نے مداخلت کی 

"جی آنٹی ضرور"

"جیتے رہو بیٹا خدا تمہے کامیاب کرے"

انہوں نے فاطمہ اور آیت کو اشارہ کیا کہ اسے باہر تک چھوڑ آؤ

گیٹ کے پاس آکر اسے یاد آیا کہ وہ چابی کمرے میں ہی بھول آیا ہے 

"میں چابی لے کر آتا ہوں"

رامش نے اندر جاتے ہوئے کہا 

"میں لے کر آتی ہوں... "میں نے ٹیبل سے اٹھا کے رکھی تھی"فاطمہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی 

"آیت " رامش کی آواز پے اس نے سر اٹھایا

جی !آیت نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

"یہ میرا کارڈ رکھ لو کبھی بھی میری ضرورت پڑے تو میں حاضر ہوں

اسنے بغیر دیکھے کارڈ رکھ لیا تھا 

"یہ لیں اور آپ اپنا نمبر تو دے دیں...پھر آپکو پوری فیملی کے ساتھ دعوت پر بھی تو بلانا ہے اور مجھے بہت ساری باتیں بھی کرنی ہیں"

"میں نے آیت کو اپنا کارڈ دیا ہے اس پر میرا نمبر بھی ہے"

"یہ تو ہو گیا لیکن فیس بک اور انسٹاگرام..."

آیت نے اسکی طرف گھور کر دیکھا 

"اچھا اچھا وہ میں آپ سے نمبر پر کانٹیکٹ کر کے پوچھ لو گی"

"جی ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں"

اس نے حیا کی آنکھوں میں دیکھا جیسے سارا نیلا رنگ اپنی آنکھوں میں جذب کر لینا چاہتا ہو لیکن یہ تو اتنی گہری ہیں کہ اگر ساری زندگی بھی ان میں ڈوبتا رہتا تو بھی انکی گہرائی تک نا پہنچ سکتا 

پتا نہیں کیسا سحر تھا اسکی آنکھوں میں جس نے اتنے مضبوط مرد کو لپیٹ کر اپنے سحر میں لے لیا تھا

رامش گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا...

"ٹھیک ہے فاطمہ میں بھی اب گھر جا رہی ہوں شام کو ملتے ہیں"

آیت کہہ کے ساتھ والے بنگلے میں میں داخل ہوئی

"فاطمہ یہ آیت اس وقت کس کے گھر گئی ہے؟"

"اپنے گھر"

"کیا مطلب یہ اسکا گھر نہیں ہے" 

"نہیں یہ میرا گھر ہے" اور میں اسکی بیسٹ فرینڈ ہوں اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اس لیے اتنی صبح وہ اپنے گھر نہیں گئی تاکہ آنٹی جاگ نہ جائیں"

"اوہ! کافی کلوز فرینڈ شپ  ہے مجھے لگا تم دونوں بہنیں ہو"

"Yup! We are sisters by hearts"

"Oh! Great"

ویسے آپکو پتا وہ جو دو بالکنی ایک ساتھ ہیں نہ وہ ہم دونوں کے کمروں کی ہیں (اس نے اوپر اشارہ کرتے ہوئے کہا )

Our friendship starts from there.

ہم پہلی دفعہ ایک دوسرے سے یہی پر  ملے تھے...

فاطمہ اب بھی کچھ بول رہی تھی لیکن وہ نہیں سن رہا تھا وہ اس بالکنی کو دیکھ رہا تھا اور کسی سوچ میں گم تھا...

"چلو ٹھیک ہے فاطمہ اب میں چلتا ہوں اپنا اور اپنی دوست کا خیال رکھنا"

 رامش نے مسکراتے ہوئے کہا

"آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا  اور کہیں ہمیں بھول نہ جائیے گا"

"اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"

اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا اور فاطمہ کو ٹھیک سے سنائی بھی نہ دیا...

 جب گاڑی گلی سے مڑ گئی تو فاطمہ اندر چلی گئی 

آیت کمرے میں داخل ہوئی اور سیدھا اپنی امی کے کمرے کی طرف چلی گئی...کمرے کا دروازہ بند تھا...اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا 

ماریہ بیگم سو رہی تھیں وہ انکے قریب صوفے پر بیٹھ گئی

تھوڑی دیر وہی بیٹھی انھیں دیکھتی رہی...آپ کتنی کمزور ہو گئی ہیں؟ آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے صاف نمایاں ہو رہے تھے...اور رنگت بھی پیلی پڑتی جا رہی ہے...

پھر اٹھ کر انکے ماتھے پے پیار کیا اور چادر ٹھیک کر کے اپنے کمرے میں لوٹ آئی...کمرے میں آتے ہی اسنے کھڑکی کھول دی اور تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارنے لگی... تھوڑی دیر بعد وضو کر کے آئی اور  جائے نماز پھیلا کے سجدے میں چلی گئی اور کھل کے رونے لگی... اور اپنے رب سے معافی مانگنے لگی...

"اے میرے مالک مجھے معاف کر دے میں تجھ سے ہمت مانگنے کے بجائے تجھ سے شکوہ کرتی رہی...جب کہ غلطی بھی میری ہی ہے...مجھے معاف فرما دے اور اگر یہ میری کوئی آزمائش ہے...تو مجھے صبر عطا کرنا اور اس آزمائش میں کامیابی عطا کرنا...

اور پھر پتا نہیں کتنی دیر وہ اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتی رہی...

جب اسکا دل ہلکا ہوا تو اٹھ کر کھڑکی کے پاس آگئی...جہاں ابھی بھی بارش کے بعد بادل چھائے ہوئے تھے...ٹھنڈی ہوا سے اسے سکون مل رہا تھا

 اچانک اسکی نظر  کھڑکی پے لگے sticky note پر پڑی  

اس نے اسے اتارا اس پر لکھا تھا 

"ان مع العسر یسرا"

یہ یہاں کس نے چپکایا یہاں ؟میرے بعد تو میرے کمرے میں کوئی بھی نہیں آتا یہاں تک کہ کوئی ملازم بھی نہیں... لیکن یہ کھڑکی کے باہر کی طرف لگا ہے وہاں کس نے لگایا...

"بےشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے"

اس نے زیر لب بڑبڑایا 

پھر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی...

چٹ اب وہ دراز میں رکھ چکی تھی 

نیند کی وجہ سے اسکی آنکھیں بھاری ہو رہیں تھیں...اور آہستہ آہستہ وہ نیند میں جانے لگی تھی...

کس نے یہ چٹ یہاں پر چپکائی ؟ لگتا ہے فاطمہ ہوگی ...ہاں وہی ہوگی اور پھر وہ گہری نیند میں چلی گئی...

****

وہ کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ کوڑے سے بھری بالٹی اس کے سر پر الٹی جسے بڈی مہارت سے دروازے کے اوپر رکھا گیا تھا...

"عادی! میں تمہیں جان سے مار ڈالو گا "

غصے سے کہتا ہوا وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں عادی ابھی خراٹے لے کر سو رہا تھا

 اس نے کمبل کھینچنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن پھر رک کے کچن کی طرف چلا گیا...

واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا ایک جگ تھا جسے اس نے عادل کے منہ پر انڈیل دیا...

 عادل ہڑبڑا کے بیڈ سے چھلانگ لگا کر اترا اور رامش کے ہاتھ میں خالی جگ دیکھ کے اسکی طرف لپکا اس سے پہلے کہ وہ اس کے ہاتھ آتا وہ واش روم میں جا کر کنڈی لگا چک تھا...

"باہر نکل ورنہ میں دروازہ توڑ دو گا"

ہاں تاکہ تو میری چٹنی بنا سکے...

رامش نے ہستے ہوئے کہا جس پر عادل اور بھڑک اٹھا

وہ تو میں بعد میں بھی بنا دو گا تو نے کونسا پوری زندگی اندر ہی رہنا ہے...

"اچھا اب اتنا بھی بھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے بس اپنا بدلہ لیا ہے ورنہ تجھے پتا ہے مجھ جیسا شریف بندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا" رامش نے منہ بناتے ہوئے کہا

"ساری شرافت سے واقف ہوں تیری اور کون سا بدلہ مسٹر شریف؟"

وہ جو گندے کیلوں کے چھلکوں سے بھری  بالٹی تو نے میرے لیے سجائی تھی... اسی کی بات  کر رہا ہوں...

یاد آتے ہی عادی کا قہقہ چھوٹ گیا 

"اوہ! وہ تو میں بھول ہی گیا تھا... اچھا اب باہر نکل کچھ نہیں کہتا میں"عادی نے ہستے ہوئے کہا "

نہیں تو جا اب میں تیری پھیلائی ہوئی گندگی صاف کر کے ہی نکلوں گا"

"ٹھیک ہے پھر میں میس جا رہا ہوں تم ادھر ہی آ جانا"

"نہیں میں ناشتہ کر کے آیا ہوں"

"کیا؟"

"تو اتنی صبح کس کے ساتھ ناشتہ کر کے آیا ہے" 

"اور ہاں تیری ڈیوٹی تو رات بارہ بجے ختم ہو گئی تھی پھر ساری رات کدھر تھا؟"

"یار کیا تو شکی بیویوں کی طرح سوال پر سوال کر رہا ہے...ایک ضروری کام تھا... اب مجھے نہانے دو"

"اچھا پھر سیدھا اکیڈمی ہی آ جانا"

"اچھا اب جا یا میں چھوڑ کر آو"

"جا رہا ہوں...جا رہا ہوں"

"آیت کدھر ہے؟"گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے ملازمہ سے پوچھا 

"جی وہ باجی جی کے کمرے میں ہیں" 

"اچھا لائیں یہ مجھے دے دیں"اس سے چائے کی ٹرے کی طرف اشارہ کیا جو وہ انہی کے لیے لے کر جا رہی تھی...

"Hellow Ladies"

"شکر ہے تم آ گئی تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی"آیت نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا 

"ہاں یار بس آج آخری پیپر تھا"

"یہ تو اچھا ہوا ورنہ تو آیت جب سے آئی ہے بور ہو رہی ہے"ساجدہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا 

"چائے تم بنا کر لائی ہو؟"

"بھئی اب ہمیں تو کوئی پوچھتا نہیں ہے تو خود ہی کچھ نا کچھ کرنا پڑتا ہے"فاطمہ نے مصنوئی ناراضگی سے کہا 

"بس یار تمہارے پپیرذ ہو رہے تھے اس لیے تمہے ڈسٹرب نہیں کیا"

" میں کب سے تم سے ڈسٹرب ہونے لگی؟"فاطمہ نے ایک چائے کا کپ ساجدہ بیگم کو پکڑایا اور دوسرے سے خود پینے لگی...

"اوہو میرا مطلب وہ نہیں تھا...اچھا چھوڑو یہ بتاؤ آج کا پیپر کیسا رہا؟"

"ہاں اچھا ہو گیا بس پروفیسر احمد کا دل کرے تو پوری کتاب ہی اٹھا کر دے دیں"فاطمہ نے اپنا کپ آیت کو پکڑاتے ہوئے کہا

"بیٹا آیت کو سمجھاو نا کچھ یہ کہ رہی ہے کے بزنس چھوڑ کر ادھر ہی آرٹ میں ایڈمشن لینا چاہتی ہے"ساجدہ بیگم نے آیت کی شکایت لگائی 

"کیا؟؟؟؟دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟؟؟بزنس پڑھنا تمہارا جنون تھا اب کیا ہو گیا؟فاطمہ غصے سے چلا اٹھی 

"اور آرٹ بھی تو میرا شوق ہے..."

"آیت تمہیں بزنس  پڑھتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور اب تھیں یاد آیا ہے؟؟؟ بےوقوف کس کو بنا رہی ہو ہمیں یا خود کو؟؟

"نہیں فاطمہ پلیز سمجھنے کی کوشش کرو پہلے ابو ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے اب امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی ایسے میں میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی" 

"آیت ادھر میں اور امی ہیں نا آنٹی کا خیال رکھنے کے لیے...اور آنٹی بہت جلدی ٹھیک ہو جائیں گی تم فکر نہیں کرو"

"فاطمہ تم جانتی ہو میرے پاس رشتوں کے نام پر صرف امی ہی ہیں اور اب میں ان سے دور نہیں رہ سکتی" آیت نے اصلی وجہ نہیں بتائی کہ اب بزنس پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں رہا...

"ٹھیک ہے پریشان نہیں ہو جیسا تمہیں ٹھیک لگے ویسا ہی کرو" فاطمہ نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھتے ہوئے کہا 

"امی اب آپ آرام کریں ہم اوپر چلے جاتے ہیں..."

دونوں کمرے کی لائٹ بند کر کے اوپر چلی گئیں 

*****

"یار اٹھ جلدی کر ہر وقت لمی تان کر پڈا رہتا ہے..."عادی نے کمبل دور پھنکتے ہوئے رامش کو اٹھایا...

"ہاں ڈیوٹی تو تو دیتا ہے میری جگہ...اب بول کون سی آفت آن پڑی ہے؟؟"رامش نے ناگواری سے کہا 

"یار ٹرانسفر کا آرڈر آ گیا ہے میرے بھائی"

"ہاں پتا ہے فون آیا تھا میجر علی کا" وہ تو کب کا اس انتظار میں تھا اسے کیسے نا پتا ہوتا... 

"پھر کب نکلنا ہے؟"

"ابھی میں بہت تھکا ہوا ہوں رات کو نکلتے ہیں"

"جو حکم میرے آقا...ویسے مجھے بھی کچھ کام ہے" اس نے سر کو خم کر کے کہا...

"I Am Comming Aayat"

اس نے بند آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سوچا...جو ہادی نے فوراً دیکھ لیا تھا 

"جناب کے مزاج کچھ بدلے بدلے سے ہیں" ہادی نے مذاق بناتے ہوئے کہا 

"اگر آپ مجھے تاڈ چکے ہوں تو اپنا کام مکمل کر لیں ہمیں شام کو نکلنا ہے" رامش نے کمبل منہ پر لیتے ہوئے کہا 

"کچھ تو چھپا رہے ہیں جناب...اگر یہ نہیں بتائے گا تو میں خود پتا کروا لوں گا" اس نے مسکراتے ہوئے سوچا...

****

آیت آئسکریم پارلر

اسے اپنا ماتھا بھیگتا ہوا محسوس ہوا تھا...اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں...

"Aayat relax...its me Ramish"

"تمہیں بہت تیز بخار ہو رہا ہے...ڈاکٹر نے پٹیاں کرنے کے لیئے کہا ہے..."

"آپ؟ آپ اتنی صبح یہاں کیسے؟"

آیت میں اتنی صبح نہیں آیا دوپہر کے دو بج رہے ہیں تم لیٹ جاؤ پلیز"

"فاطمہ؟ کدھر ہے؟"

"وہ انکل کو لینے گئی ہے رات تک آ جائے گی تم آرام کرو"

"لائیں میں خود کر لوں گی" آیت کو عجیب سا محسوس ہو رہا تھا...

"تم لیٹ جاؤ میں کر چکا ہوں"رامش نے اٹھتے ہوئے کہا 

"ناشتہ کرنے کے بعد یہ میڈیسن لے لینا اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کال کر دینا" یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا...

تھوڑی دیر بعد ملاذمہ ناشتہ لے کر آئی تھی اور وہ ابھی تک وہیں گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی...

"صبح سے آپ کہاں تھیں؟"اسنےملاذمہ سے پوچھا 

"بیٹا بارش کی وجہ سے راستے بند تھے اس لئے آنے میں دیر ہو گئ"

"وہ میرے کمرے میں کب سے تھا؟" 

"جب میں آئی تو صاحب آپ کو پٹیاں کر رہے تھے میں نے ان سے کہا کے میں کر دیتی ہوں تو انہوں نے کہا کے میں جلدی سے ناشتہ بنا لاؤں یہ وہ کر چکے ہیں"

"وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی میرا اتنا خیال کر رہا ہے...

"نہیں...خیال نہیں صرف ہمدردی دیکھا رہا ہے...نہیں چائیے  مجھے کسی کی ہمدردی"

"آئندہ وہ گھر آئے تو اندر مت آنے دیجیے گا"آیت نے ملاذمہ سے کہا 

لیکن اس دن کے بعد وہ خود ہی نہیں آیا تھا...

"آیت تمہاری بات ہوئی رامش سے؟" فاطمہ نے کافی دنوں بعد اس سے پوچھا تھا 

"نہیں بس اسی دن آیا تھا جب تم انکل کو لینے گئ ہوئی تھی"

"ہاں میری بھی اس کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی شاید مصروف ہو گا"

"بس اتنی ہی تھی اسکی ہمدردی...سمجھتا کیا ہے وہ خود کو...

شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں اسکی"اس نے دل میں سوچا

******

"ہادی کدھر ہے؟"اس نے میس میں ڈکل ہوتے ہوئے رافع سے پوچھا 

"ادھر ہی تھا ابھی...وہ رہا"

اتنے میں ہادی بھی اسے دیکھ چکا تھا بھگ کر اس سے چپک گیا 

"یار میرے جانے کے بعد کہیں بندروں والی ٹریننگ تو نہیں ملی آپ لوگوں کو؟"

"کیا مطلب؟" ہادی نے ناسمجھی سے کہا 

"بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا"ہادی جو ابھی تک اس پر چڑھا ہوا تھا پیچھے ہوا...

"اوہ!یہ تو آپ کی جدائی کا اثر ہے"رافع نے ہستے ہوئے کہا 

"اب مجھے سمجھ ائی تو رک ذرا ادھر ہم تیرے انتظار میں مجنوں بنے بیٹھے تھے اور یہ جناب...تو بچ آج مجھ سے..."اس سے پہلے عادی رامش کو دبوچتا رامش نے دھوڑ لگا دی تھی...

دونوں آگے پیچھے دھوڑ رہے تھی جب رامش کی ٹکر میجر ارشد سے ہوئی  اور ساتھ ہی ہادی بھی ان میں لگا اور وہ بمشکل گرتے گرتے بچے...

"یہ میس میں تم لوگ کیا بلی چوہا بنے ہوئے ہو؟تم لوگوں کا بچپنا ابھی تک نہیں جا رہا...یقین نہیں آتا میرے سامنے پاک فوج کے بہادر کھڑے ہوئے ہیں"انہوں نے گرجتے ہوئے کہا 

"اب تم لوگوں کی یہ سزا ہے ابھی کے ابھی push ups لگانا شروع کرو جب تک میں واپس نہیں آ جاتا...

"سر ابھی تو ناشتہ بھی نہیں کیا میں نے رحم کریں"ہادی نے دنیا جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے کہا 

"کوئی ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں ورنہ یہ سزا اور بھی بڑھ سکتی"

"یس سر" دونوں کہہ کر ایک دوسرے کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگے...

******

"آیت..." فاطمہ اپنے مخصوص انداز میں اندر آتے ہی آیت کو بلانے لگی تھی...

"ہاں جی آ گئی آفلاتوں" آیت نے امی کے کمرے سے نکلتے ہوئے انھیں اطلاح دی تھی...

"شرم کرو اتنی پیاری لڑکی کو آفلاتوں بنا دیا"  فاطمہ نے منہ بنایا تھا 

"تو افلاطون پیارے نہیں ہوتے؟"

"پتا نہیں میں کبھی ملی نہیں ان سے لیکن اگر ابے تم نے میری بات نہیں مانی تو میں ضرور تمیں ان سے ملوا دوں گی..."

"جی فرمائیے"

"چلو میرے ساتھ"

"کدھر؟"

"کہیں بھی...تم چلو تو سہی" فاطمہ اسے کھنچ کر گاڑی تک لائی تھی...

"منہ سے کچھ بولو گی؟"

"یار کچھ کھانے کا دل کر رہا باہر سے" 

آیت اور فاطمہ میکڈونلڈ میں داخل ہوئیں تو آیت آرڈر دینے چلی گئی تھی اور فاطمہ ٹیبل کی طرف مڑنے لگی جب اسکی نظر رامش پہ پڑی اس کے ساتھ اسکے دوست بھی تھے

وہ رامش کے پاس جانے لگی لیکن پھر رک گئی تھی...

اور رامش کو میسج کیا "look at the counter"

رامش نے میسج پڑھ کے کاونٹر کی طرف دیکھا جہاں فاطمہ کھڑی تھی اور آیت آرڑر لکھوا رہی تھی...

"ایک منٹ یار میں آتا ہوں"وہ کہہ کر اس کے پاس چلا آیا تھا

"کیسے ہیں کیپٹن صاحب کوئی لفٹ ہی نہیں؟" فاطمہ کی آواز پر آیت پلٹی تھی اور سامنے کھڑے آدمی کو دیکھ کر پھر مڑ گئی تھی...

"نہیں ایسی بات نہیں آج ہی واپس آیا ہوں...تم سناؤ کیسی ہو؟"

"ارے اپ کو تو پتا ہی ہے..."

"کہ تمہارا خون اور بڑھ گیا ہے مجھے دیکھ کے"رامش نے بات مکمل کی تھی 

"ایسا کس نے کہا؟" فاطمہ نے آبرو اچکا کے پوچھا

"تم نے ہی تو کہا تھا کہ..."

"اپکی یونیفارم کو دیکھ کہ میرا خون بڑھ جاتا ہے" فاطمہ نے فقرہ مکمل کیا تھا 

"اوہ ہاں! وہی...."

"ویسے نا بڑے کہتے ہیں بندے کو خوش رہنا چاہیے خوش فہیمیوں میں نہیں" فاطمہ نے ہنستے ہوۓ کہا

"ہاں سہی کہتے ہیں بڑے اور یہ بتاؤ اکیلی آئی ہو؟" رامش نے آیت کی پشت دیکھتے ہوئے کہا 

"نہیں آیت بھی ساتھ ہے...آیت" اس نے آیت کو متوجہ کیا اور اسے نا چاہتے ہوۓ بھی اسے مڑنا پڑا تھا 

"اسلام علیکم!" اس نے رامش کو دیکھتے ہوۓ کہا

"وعلیکم اسلام" اس نے آیت کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ  سر خم کیا...جس کا رنگ اس کے نیلے حجاب سے مل رہا تھا اور پھر وہی ہوا وہ اپنی نظر ہٹانا بھول گیا تھا...

"آہم آہم!" فاطمہ نے اس کا سحر توڑا تھا 

"بھائی صاحب اس پاس کافی لوگ ہیں" فاطمہ نے اسے چھڑا تھا اور آیت نے اسے گھور کر دیکھا 

"کیسی ہو؟ "وہ اتنا ہی بول پایا تھا 

"زندہ ہوں" اس نے دل میں سوچا اور رامش نے اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا تھا 

"جی ٹھیک"

اب چلیں کے ساری باتیں یہی کر لیں گے... فاطمہ نے انھیں یاد دلایا تھا کہ وہ کاؤنٹر پپر ہی کھڑے ہیں 

"سامنے والے ریسٹورینٹ میں چلتے ہیں وہ کافی اچھا ہے" اس نے مسلسل اپنے دوستوں کی نظر ان پر ڈالتے دیکھ کر کہا

"ایک منٹ میں آرڑر کینسل کروا کے آتی ہوں آپ دونوں چلیں" فاطمہ کہہ کر کاونٹر کی طرف مصروف ہو گئی اور وہ دونوں باہر کی طرف چل پڑے تھے 

"فامطہ نے بتایا تم بزنس چھوڑ رہی ہو" رامش نے بات شروع کی تھی 

"جی"

"وجہ پوچھ سکتا ہوں؟"

"اب اس کا کوئی فائدہ نہیں" اس نے سامنے دیکھتے ہوۓ کہا

"اب آگے کیا ارادہ ہے؟"

"آرٹس جوائن کرنے کا سوچ رہی ہوں"

"اوہ! تم پینٹگ بھی کرتی ہو؟"

"ہمم!"

"میں پھر بھی کہوں گا ایک بار سوچ لو"

"اب سوچنے کے لیے کچھ نہیں بچا"

"ٹھیک ہے میں کسی اچھی یونیورسٹی کا فارم بھیج دوں گا" "دیکھ لینا اگر کسی اور بھی چیز کی ضرورت ہوئی بتانا"

"Thank you" 

آیت نے نیچے دیکھتے ہوۓ کہا 

"کیا باتیں ہو رہی ہیں؟" فامطہ نے قریب آ کر پوچھا 

"کچھ نہیں آیت کے ایڈمیشن کی بات کر رہے ہیں اگر میری ضرورت ہوئی تو بتانا" اس نے فاطمہ سے کہا

"ضرورت کیا مطلب؟ آپ خود آ جائیے گا ایڈمیشن کروانے" فاطمہ نے آیت کو دیکھے بغیر جواب دیا جو اب اس کو گھور رہی تھی

"ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا...ایسا کرنا مجھے جانے سے پہلے بتا دینا میں آجاؤں گا" اس نے ویٹر کو آرڑر دیتے ہوۓ کہا

"ویسے آپ ادھر کوہاٹ میں کب تک ہیں؟" دو مہینوں تک

فاطمہ اب رامش کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئ تھی

"ویسے رامش مجھے بھی آرمی میں آنے کا بہت شوق تھا"

"ہاں تو اب آ جاؤ"

"اب کیسے؟" اس نے حیرانگی سے پوچھا

"اپنا میڈیکل کمپلیٹ کرو اور آرمی جوائن کرلو" اس نے آسان حل بتایا تھا 

کیا مطلب؟ یہ سب اتنا آسان ہے؟

ہاں اگر تم ٹیسٹ پاس کر لو تو کوئی مشکل نہیں"

"میں بہت محنت کروں گی..."

"انشاءلله" اس نے کھانے کی پےمنٹ کرتے ہوۓ کہا

"میں کرتی ہوں پے آپ رہنے دیں"آیت نے پہلی بار مداخلت کی تھی 

"رامش نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا جیسے بہت کچھ کہنا چاہتا ہو اور پھر پے کر کے کھڑا ہو گیا"

"ٹھیک ہے پھر اللہ حافظ" اور مجھے ایڈمیشن کا بتا دینا میں فارم بھیج دوں گا...

******

"امی میں سچ میں بہت خوش ہوں...اس یونیورسٹی میں پڑھنا میرا خواب تھا جو بھائی نے پورا کر دیا..."سارا خوشی سے امی کی گود میں سر رکھ کر انکو بتا رہی تھی 

"نہیں بیٹا بھائی کی وجہ سے نہیں میری بیٹی کی قابلیت کی وجہ سے"

"پھر بھی امی اگر وہ مجھے اجازت نا دیتے تو میں یہ کبھی نہیں کر پاتی"

"بیٹا ہر کام میں اللہ پاک‎ کی بہتری ہوتی ہے...بس اس کے ہر فیصلے کا احترم کرنا چائیے"

"جی امی میں شکرانے کے نفل بھی پڑھوں گی"

"بالکل پڑھنے چائیں کیوں کہ شکر کرنے والوں کو وہ اور بھی نوازتا ہے"

"امی اللہ‎ جی کتنے رحم ہوتے ہیں نا ہماری ہر خوائش کا خیال رکھتے ہیں...ہم انکی کتنی نافرمانی بھی کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں معاف کر دیتے ہیں انسانوں کی طرح بدلہ نہیں لیتے..."

"ہاں بیٹا خدا کی محبّت میں تو ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ جب خواہش دل میں اور دعا زبان پر آنے سے پہلے ہی قبول ہو جاتی ہے...بس خدا پر یقین پختہ ہونا چائیے"

جاری ہے                       


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wahshat E Ishq written by Rimsha Mehnaz . Wahshat E Ishq by Rimsha Mehnaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment