Pages

Monday 6 February 2023

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Second Last Episode New Urdu Novel

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Second Last  Episode New Urdu Novel   

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Main Pagal By Miral Shah Second Last Episode 


Novel Name: Tere Ishq Main Pagal

Writer Name: Miral Shah

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


اور احمد سر اب طبیعت کیسی ہے

احمد اور قاسم زوار کا انتظار کر رہے تھے کہ قاسم نے پوچھا

ٹھیک ہوں یار احمد نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا

زوار ایا اور اکر قاسم کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا

تو قاسم فوراً کھڑا ہو گیا

ارے تم کیوں کھڑے ہو گے بیٹھ جاو

پر شاہ ساٸیں قاسم ہچکچایا

کیا شاہ ساٸیں بیٹھ جاو میرے ساتھ کیا کانٹے لگے ہیں

نہیں میرا مطلب وہ 

تو بیٹھ جاو پھر زوار نے اسکی بات کاٹ کر کہا تو قاسم بیٹھ گیا

شاہ عمران کا کیا کرنا ہے احمد نے بات کا اغاز کیا جس کے لیے اکٹھے ہوے تھے

شاہ ساٸیں عمران کے تین مین ٹھکانوں کا پتا چلا ہے قاسم نے کہا

زوار مسکرایا اور بولا قاسم مجھے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر عمران میری نظروں کے سامنے چاہیے

چوبیس گھنٹے قاسم نے حیرت سے کہا

کیوں اسے نہیں لا پاوو گے

شاہ ساٸیں

وہ اسوقت حیدراباد میں ایک کھنڈر نما گھر میں بیٹھا ہے زوار نے اسکی بات کاٹ کر کہا

قاسم نے حیرت سے دیکھا کے انہیں ایک ماہ ہوگیا اسکے ٹھکانوں کے بارے میں معلوم کرنے کو اور شاہ سب جانتا ہے

اپکو کیسے پتا

زوار شاہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں اب ایک دن میں وہ میرے سامنے ہو

جو حکم اسنے تابعداری سے کہا

شاہ ساٸیں عمران کا ایک بیٹا بھی ہے

جانتا ہوں اسے ابھی رہنے دو اپنے باپ کا انجام دیکھ لے 

...............................

زینیا کچن میں کھڑی شازیہ کو دیکھ رہی تھی

زینیا بیٹا کھانا بنانا اتا ہے

نہیں چچی جان اس نے شرمندگی سے کہا

تو شازیہ مسکرادی اور بولی کوی بات نہیں بیٹی میں بنانا سکھا دوں گی

سچ میں زینیا کا چہرہ کھل گیا

ہاں اور تم زوار کی پسند کی ڈشز اسے بنا کر کھلانا

پر چچی جان مجھے نہیں بتا انہیں کیا بسند ہے اسنے مایوسی سے کہا

تو میں کس لیے ہوں میں بتا دوں گی 

تو اسکا چہرہ دوبارہ کھل گیا

پہلے تو جب زوار کام کر رہا ہو تو اسے چاے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو کیوں نہ چاے سے سٹارٹ لیں

تو اسنے اثبات میں سر ہلایا

زوار کام کر رہا تھا احمد کے نا ہونے کی وجہ سے سارہ کام اسکو سنبھالنا پڑ رہا تھا کیونکہ اسکے چچا اسلام اباد کا کام سنبھالتے تھے

زینیا ہاتھ میں کپ پکڑے اندر داخل ہوی تو زوار اسکو دیکھ کر مسکرایا

تو زینیا کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا زینیا نے جلدی سے کپ ٹیبل پر رکھا جلدی کے چکروں میں ہاتھ کپ کو لگا اور ساری چاے پیپرز پر گر گی زوار فورا اٹھا

سوری سوری سچی میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا سچ میں زینیا انکھیں بند کر کے لگی ہوی تھی یہ جانے بغیر کہ اگلے بندے کا کیا ردعمل ہے

زینیا نے انکھیں کھولیں تو زوار سینے پر ہاتھ باندھے اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا

زینیا کو اسکی دماغی حالت پر شک ہوا

زوار دو قدم اگے ہو کر اسکے قریب ہو کر کہا

یار ڈرتی کیوں ہو مجھ سے اتنا

اپ مج۔مجھے کچھ کہی۔ں گے تو نہی۔نہیں نہ

سویٹ ہارٹ میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں نہیں شاید عشق کرتا ہوں تمہیں تکلیف پہچانے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا

گلاب لب بدن چاند اور آتشی رخسار

نظر کے سامنے ایسا خزانہ ٹھیک ہے کیا

زوار نے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوے شاخ لہجے میں کہا

اسکا دل زور سے دھڑکا اسنے خود پر قابو پا کر کہا

شاہ اپنے مجھے خریدہ ہے میں ایک خریدی

ششش دوبارہ کبھی بھی ایسا بھی ایسا مت کہنا جان ہو تم میری ٹھیک ہے کچھ الٹا سیدھا مت سوچنا صرف مجھے سوچنا

اور ساتھ میں اسکا ناک دوبایا

اسکے ایسا کرنے سے زینیا کھل کھلای

زوار بھی دٕیکھ کر مسکرایا اور بولا

ظالم بیوی

اور اپ ظالم شوہر زینیا نے اسکے بال بیگاڑ کر کہا

تمہیں میں اچھا کب لگوں گا 

زوار نے منہ بنا کر کہا

کبھی نہیں کیونکہ اپ ہے ہی برے اپکی صرف داڑھی اچھی ہے

اچھا تم کو اچھی لگتی ہے

ہاں

تو چھو لو اسے زوار نے اپنا چہرہ اگے کر کے کہا

ن۔نہیں اسنے گھبرا کر کہا

کیوں نہیں

زینیا کی انکھیں چمکیں اور ہچکچا کر بولی کیا میں اپ کی گال پر کس کر لوں

کرلو جانم جہاں مرضی کر لو چاہو تو ہونٹ پر کر لو

تو زینیا شرمندہ ہوگی

اب کیا ہوا

کچھ نہیں

تو کر لو کس

تو زینیا نے اپنے ہاتھوں سے اسکا منہ پکڑ کر نیچے کیا اوراسکی گال پر کس کی

اور پیچھے ہوگی اسکا چہرہ سرخ ہو گیا

سویٹ ہاٹ کس تمنے میرے کی ہے اور لال ٹماٹر تم ہو گی ہو

زینیا کچھ بولنے لگی کے احمد دروازہ کھول کر اندر ایا زینیا نے زوار کو دھکا دے کر پیچھے ہو گی

اوہ سوری سوری زوار

احمد نے سنجیدگی سے کہا

لانتی اب میں اکیلا نہیں رہتا جو تو ایسے ہی اے گا

زوار ضروری بات ہے چل اسکی بات کو اگنور کر کے کہا

...............................

احمد ڈراٸیونگ کر رہا تھا اور زوار بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا بات ہے

تو احمد مسکرا کر کہ دیتا سرپرٸز

اسنے فلیٹ کے سامنے گاڑی روکی

دونوں اندر گے قاسم پہلے سے موجود تھا

احمد نے لیپ ٹاپ پر ایک وڈیو کھولی جسے دیکھ کر زوار کی انکھوں میں الگ چمک تھی  اج سب اسکے ہاتھ میں تھا

اسکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

چلو احمد زرا لاٸیو دیدار کروایا جاے

کون ہے کھولو مجھے آہہہ عمران اونچی اونچی چلا رہا تھا

کہ زوار ہنستا ہوا اندر داخل ہوا

کیا یار عمران اہستہ بول گلا سوکھ جاے گا تیرا یہاں پانی بھی نہیں ہے

شاہ تو تجھے میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔

تو مجھے کیسے مارے گا یہاں سے نکلے گا کیسے یہ تو بڑا سنگین مسلہ ہے میرے پاپا کے دوست کی اخری خواہش ہے اخر 

زوار نے گال پر انگلی رکھ کر سوچنے کے انداز میں کہا

اور احمد کو اواز دی

احمد ایا اور اسنے عمران کو دیکھ کر انکھ ماری

سنا تونے احمد عمران کی اخری خواہش

ہاہاہا سن لی ہے اسکی کبھی نہ پوری ہونے والی خواہش

شاہ مجھے چھوڑ دے ورنہ زندہ نہیں چھوڑوں گا

اسنے اتنی اونچی چلا کر کہا کہ احمد اور زوار دونوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے

کیا یار عمران اہستہہ بول کان خراب کرنے ہیں کیا احمد نے کہا تو عمران بولا

کاش احمد گولی تیرے دل پر لگی ہوتی اور تو مر چکا ہوتا

یہ بات زوار کے غصے کو ہوا دینٕے کے لیے کافی تھی

اسنے اتنی زور سے مکا مارا کہ عمران کرسی سمیت نیچے گرا زوار نے اسکی رسیاں کھولیں اور گربان سے اٹھا کر کا تیرا منہ نوچ لوں گا حرام خور اور مارنا شروع کر دیا اتنا مارا کہ وہ بےہوش ہو گیا احمد مزے سے کرسی پر بیٹھا فون پر گیم کھیل رہا تھا

قاسم

جی شاہ ساٸیں

برف کا انتظام کتو

کیوں زوای برف کیا کرنی ہے

کھا کر دیکھنی ہے کیسی ہے زوار نے چبا کر کہا

تو زامد زور سے ہنسا زوار نے نفی میں سر ہلایا کہ اسکا کچھ نہیں ہوسکتا

ہاں قاسم برف کا انتظام کرو اسے جیسے ہوش اے مجھے بتانا اور باہر چلا گیا

قاسم نے احمد کی طرف دیکھا جو مزے سے گیم کھیلتا کھیلتا باہر جا رہا تھا اسنے بھی سوچا کہ واقع اسکا کچھ نہیں ہو سکتا

زوار سگرتیٹ پر رہا تھا کہ احمد منہ لٹکا کر اسکے سامنے بیٹھا

کیا ہوا احمد

یار زوار شاہ مت پوچھ

بول تو سہی زوار اسکا پورا نام لینے پر مسکراہٹ روک کر بولا

یار میں گیم کا پانچواں لیول ہار گیا اسنے نہایت افسوس سے کہا

لانت تیری بدصورت شکل پر مینے کہا پتا نہیں تجھے کیا ٹینشن ہے

تو احمد نے کہا بس کر زوار میرے غم میں شریک نہیں ہوسکتا تو میرا غم بھی مت بڑھا

زوار نے کشن اٹھا کر مارا جو احمد بااسانی کیچ کر لیا

زوار کچھ کھلا دےیار احمد تو مجھے کھلانے کو تو ایسے کہتا ہے جیسے میں کچھ کھانے کو لےکر بیٹھا ہوں

احمد اسکی بات سن کر لیٹ گیا اور جہاں گولی لگی تھی وہاں ہاتھ رکھ لیا

کیا ہوا زوار نے فکر مندی سے پوچھا

یار زوی درد ہورہا ہے یہاں شایہ بھوکا ہوں اسی لیے

اسنے معصومیت سے کہا

تو زوار اکا ڈرامہ سمجھ کر پیزہ ارڈر کیا۔

زینیا بیٹھی بکس پڑھ رہی تھی یہ کہنا مناسب ہوگا پڑھ نہیں تھی زوار کے بارے میں سوچ رہی تھی

زینیا بس ڈرتی تھی زوار اسے برا تو کبھی نہیں لگتا تھا بلکہ وہ اسے اچھا لگتا تھا بلکہ کہنے کی ہمت نہیں کی زینیا کو تو زوار پہلے دن سے ہی اچھا لگنے لگ گیا تھا بس اسکے غصے سے ڈرتی تھی ایک ڈر تھا جو اسکے دل میں تھا

اسنے فون اٹھایا اور زوار کو فون کرنے کا سوچا پر پھر نہیں کرتی زوار نے اسے اسکا ذاتی فون دے دیا تھا اور باقاعدہ فون میں نمبر بھی سیو کر دیا تھا اپنا

زینیا نے اخر کار دھڑکتے دل کے ساتھ زوار کو فون کیا

زوار جو گن میں گولیاں ڈال رہا تھا اپنے فون پر زینیا کا نام جگمگاتا دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ نے ڈیرہ ڈالا

تو جانم کو میری یاد اگی اسنے سوچ کر یس کیا

ہیلو سویٹ ہارٹ

ہیلو کیسے ہیں اپ

بالکل ٹھیک

اچھا

خیریت کیسے اس شوہر کی یاد ای

وہ دراصل اپ کب تک اٸیں گے اسنے تھوڑا گھبرا کر کہا

جب جانم کا حکم ہو تم کہتی ہو تو ابھی اجاتا ہوں

نہیں اپ کام کریں مینے بس ویسے پوچھا

میری یاد ارہی ہے

ہاں نہیں میرا مطلب نہیں اسنے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا

ہاہاہاہہا اچھا جی

اوپس زینی تم بھی نہ زینیا بڑبڑای پر اسکی بڑبڑاہٹ زوار نے باخوبی سن لی تھی

تم جان ہو میری

اچھا الله حافظ

روکو سنو تو سہی

جی بولیں

            I love u❤❤

شاہ ساٸیں عمران کو۔۔۔۔۔۔۔قاسم کے اگلے الفاظ زوار کی خونخوار نظریں دیکھ کر منہ میں ہی رہ گے

زوار کے نے دوبارہ فون کو دیکھا جو کٹ چکا تھا

زوار خطرناک ارادے لیے قاسم کی طرف ایا اور انگلی اٹھا کر کہا

زوار ہر کسی کو موقع نہیں دیتا سیدھی اوپر کی ٹکٹ کاٹ دیتا ہے خوش نصیب ہو تم جسے یہ موقع مل رہا ہے اسے گوانا مت اور چلا گیا

قاسم نے سکھ کا سانس لیا کہ کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا

قاسم نے مڑ کر دیکھا تو احمد تھا

بیٹا قاسم اج تو تو گیا تھا

احمد سر مجھے بھی یہی لگ رہا تھا اسنے اتنی سردی میں بھی اپنے ماتھے پر انے والے پسینے کو صاف کر کے کہا

تو کس نے کہا تھا کہ زوار کو ڈسٹرب کر تو بھی اپنے کام سیدھے کر لے

احمد نے اسکی کمر پر مکا رسید کر کے کہا

مینے کیا کیا ہے مجھے کیا پتا تھا شاہ ساٸیں فون پر بات کر رہے ہوں گے

اسنے اپنے کمر سہلا کر کہا

ہااہہا ویسے اج تیرا کام تمام ہو جاتا تو بریانی کھانے کو ملتی

احمد سر کھانے کے علاوہ اور کچھ کام نہیں

جی سہی فرمایا قاسم میاں اسنے سر ہلا کر کہا

تو قاسم نے کہا چلو احمد سر شاہ ساٸیں نے دوبارہ موقع نہیں دینا

ہاں ہاں چل میرا تو کچھ نہیں جانا پر زوار نے تیرا نام و نشاں مٹا دینا

مت کیا کریں احمد سر بچہ ڈرتا ہے 

دونوں باتیں کرتے کرتے کمرے میں داخل ہوے

زوار برف کا معاٸنہ کر رہا تھا کہ احمد نے قاسم سے کہا 

یہ زوار برف کو ایسے کیوں دیکھ رہا ہے

احمد سے مجھے کیا پتا بس اپ بات نہیں کرو اپ نے سہی کہا تھا اپکا کچھ نہیں جانا پر میرا بہت کچھ جانا

ڈرپوک احمد نے ہنس کر کہا

قاسم عمران کو نرف پر لیٹا کر باندھ دو

تقو قسم نے پاس کھڑے تین لوگوں کو ایسا کرنے کو کہا

جب باندھ دیا تو زوار نے چاقو اٹھایا

عمران نڈھال سا بولا

نہیں شاہ معاف کردے

تو زوار نے چاقو سے اسکے جگہ جگہ کٹ لگانا شروع کر دیے 

عمران کی چینخیں عروج پر تھیں پر اسکی سننے والا کوی نہ تھا

برف خون سے بھر چکی تھی

قاسم اسکے جسم پر نمک چھڑکو اور ساری رات چھڑکتے رہنا پر ہاں یاد رہے یہ مرنا نہیں نہیں چاہیے ورنہ تم سب کو مار دوں گا

جو حکم سب نے تابعداری سے کہا

چلو احمد

باہر اے تو احمد کہا اسی کپڑوں میں گھر جاو گے تو اسنے اپنی خون الود شرٹ دیکھی اور دوسرے کمرے میں جا کر چینج کی

گھر پہنچے تو احمد نے زوار سے کہا 

زوی تو جا میں تھوڑی دیر تک اتا ہوں

تو کہاں جا رہا ہے

کچھ خاص نہیں ویسے ہی

اوکے دھیان سے

اوکے

...............................

زوار کمرے میں ایا تو زینیا کتابوں میں سر دے کر بیٹھی تھی

کیا پڑھا جا رہا ہے

تو زینیا نے سر اٹھا کر دیکھا اور کہا خوش ہو کر کہا شاہ اپ اگے

جی جانم اگیا اگر مجھے پتا ہوتا میرا اتنا انتظار ہوراہ ہے تو میں پہلے ہی اجاتا

زوار نے اسکے ہاتھ چوم کر کہا تو زینیا چھینپ گی اور کہا

وہ مجھے کوسچنز سمجا دیں

اچھا لاو اور وہ اسے سمجھانے لگ گیا

سمجھانے کے بعد زوار نے کہا بس اتنا سا کام لو ہوگیا

تھینک یو شاہ

ایسے نہیں جان شاہ شوہروں والا شکریہ ادا کرو اسے اپنے اوپر گرا کر کہا تو زینیا شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ نظریں جھکا گی

کیسے شکریہ کروں

kiss Me butterfly

نہ۔نہیں

کیوں نہیں

پلیز نہیں

پلیز ہاں اسنے اسی کے انداز میں کہا

تو اسنے کہا انکھیں بند کریں زوار نے انکھیں بند کیں تو زینیا نے اسکی گال پر کس کی

یار یہ بچوں والی کس نہیں کہی تھی زوار نے صدمے سے کہا

مجھے یہاں کس چاہیے زوار نے اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کر کے کہا

شاہ مجھے چچی جان بلا رہیں ہیں۔

اچھا مینے تو نہیں سنا

چھوڑ دیں پلیز

تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کس نہیں کرو گی سوچ لو ایسے رہنا ہے ویسے مجھے کوی مسلہ نہیں ایسے رہنے سے اسنے ایک انکھ دبا کر کہا

اچھا انکھیں بند کریں

زوار نے مسکرا کر انکھیں بند کیں

تو زینیا نے اپنے مرمری ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے

زوار کا ایک ہاتھ اسکے بالوں میں اور دوسرا اسکے چہرے پر تھا

زینیا نے دیکھا کہ اسکی گرفت ڈھیلی پڑ گی ہے تو فوراً اٹھ کر بیڈ سے اتر گی اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہوچکا تھازوار نشیلی انکھوں سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا

یہ ساری مستی تیرے ہونٹوں کی ہے صاحب

اگر نشہ شراب میں ہوتا تو بوتل بھی ناچتی

زوار نے خمار بھرے لہجے میں کہاتو زینیا باہر بھاگ گی۔🍁

احمد سانیہ کے گھر سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا اسنے سانیہ کو فون کیا 

سانیہ پڑھ رہی تھی احمد کا نام جگمگاتا دیکھ کر اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوی

ہیلو

کیسی ہو مسز احمد

احمد کس لیے فون کیا ہے

تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوں باہر او

تو سانیہ نے اٹھ کر کھڑکی سے دیکھا تو اسے نیچے احمد کھڑا نظر ایا

تم وہاں کیا کر رہے ہو

احمد نے کھڑکی کی طرف دیکھ کر سماٸل پاس کی اور کہا

نیچے او ملنا ہے

نہیں میں نہیں اوں گی جاو تم

ٹھیک ہے مت او میں اجاتا ہوں

اتے رہو اور فون کاٹ کر پیچھے بیڈ پر جا کر لیٹ گی

احمد نے مٹھیاں بھینچیں اور فون جیب میں ڈال کر نیچے سے اسکے کمرے میں پہنچنے تک کا جاٸزہ لینے لگ گیا اسکے لیے پہنچنا مشکل کام نہیں تھا اور چڑھنا شروع کر دیا

سویٹ ہارٹ میرے نہیچے بلانے پر کیوں نہیں ای احمد نے اسکے کان میں سرگوشی کی سانیہ نے پیچھے مڑ کر ایک دم سے ینخ مارنے لگی احمد اسکا ارادہ بھانپ کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھا احمد اسکے بے حد قریب تھا

ہاتھ ہٹا رہا ہوں چلانا مت اوکے

تو سانیہ نے انکھوں سے اشارہ کیا تو احمد نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا

تم یہاں کیسے اے

اس پیاری کھڑکی سے اسنے کھڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا

تم کیوں اے ہو

تم اجاتی نیچے تو میں نہ اتا اوپر

کوی دیکھ لے گا جاو تم احمد نے اردگرد دیکھا اور کہا فل حال تو میرے اور تمہارےعلاوہ کوی بھی نہیں ہے یہاں جو دیکھے گا اچھا سنو محبت کرتیہو مجھ سے

احمد جاو یہاں سے پلیز

نہیں پہلے میری بات کا جواب دو احمد نے اسکے اوپر تھوڑا اور جھک کر کہا

سانیہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور کرنا چاہا پر احمد نے اسکے ہاتھوں کو بیڈ کے ساتھ لگا دیا

احمد پلیز چھوڑ دو

چھوڑ دوں گا پہلے بتاو کرتی ہو مجھ سے محبت

ہاں کرتی ہوں محبت تم سے اسنے غصے سے چلا کر کہا

تو احمد مسکرا دیا اور بولا جانتا تھا پر تمہارےمنہ سے سننا چاہتا تھا

اچھا اب توچھوڑ دو سانیہ نے رندھی ہوی اواز سے کہا

چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑا احمد اسکے دل کی دھڑکن باخوبی سن سکتا تھا

کیا خیال ہے ابھی سب سے دور اٹھا کر لے جاوں تمہیں

احمد بہت بدتمیز ہو دور ہو جاو اور بھی بول رہی تھی پر احمد تو بس اسکے ہلتے ہونٹ دیکھ رہا تھا اور اخر کار اسنے بے بس ہو کر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے

احمد نے اپنا چہرہ اٹھایا تو سانیہ نے اسے پوری جان سے پیچھے دھکا دیا احمد پیچھے ہو گیا سانیہ نے اٹھ کر تکیے احمد کو مارنا شروع کر دیے احمد بس ہنس کر اسکی مار کھا رہا تھا

احمد نٕے اسکے ہاتھ سے تکیہ کھینچ کر ساٸیڈ پررکھا اور اسکے ہاتھوں کو اسکی کمر پر لیبجا کر قریب کر لیا اور کہا 

سوری یار

احمد اپ کو شرم نہیں ای

یار میں بے بس ہو گیا تھا اسنے بےچارگی سے ککا

اچھا جاٸیں اپ پلیز

پہلے بتاو ناراض تو نہیں

سانیہ نے اسکی انکھوں میں دیکھا  جہاں بہت کچھ تھا محبت عزت احترام وہ اسکے نظروں کی تاب نہ لاسکی اور نظریں جھکا گی اور کہا

نہیں ناراض اب جاٸیں

اوکے پھر میں خود اوں گا زوار اور زینیا بھابھی ساتھ تمہارا رشتہ لینے کیونکہ میرے پیرنٹس تو ہے نہں اور اسے چھوڑ کر بیڈ سے اتر گیا

سانیہ بس اسے دیکھ رہی تھیاحمد کھڑکی کے پاس پہنچا تو سانیہ نے کہا

دھیان سے جانا

جو حکم اسنے سر کو جھکا کر کہا

احمد چلا گیا تو سانیہ نے لیٹ کر خود سے کہا

افف یار سانی یہ بندہ تیری جان لے لے گا اور اپنے ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا جہاں اسکا لمس ابھی باقی تھا

..............................

شاہ کام کر رہا تھا اور زینیا اسے دیکھ کر اپنے ہاتھ مسل رہی تھی 

زوار نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور کہا کچھ کہنا ہے

جی وہ کہنا نہیں پوچھنا ہے

تو پوچھو زوار اب مکمل طور پر اسکی طرف متوجہ تھا

وہ اپ کے ماما بابا کہاں ہیں ان سے نہیں ملوایا

تو زوار کے تاثرات بدلے

رات ہوگی ہے سو جاو

شاہ کہاں ہیں بتاٸیں نہ

کہا نہ لیٹ جاو اسنےتھوڑا غصے سے کہا تو زینیا ڈرکر لیٹ گی اور اپنی انکھیں رگڑیں

اہہہ زوار نے ٹھنڈی اہ بھری اور لیپ ٹاپ ساٸیڈ پر رکھ کر صوفے سے اٹھ کر اسکے پاس بیڈ پر بیٹھا اور کہا

چلو باہر چلتے ہیں

نہیں مجھے نہں جانا اسنے منہ دوسری طرف کر کے کہا

چلو نہ جانم چلتے ہیں اسنے اسکے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا

نہیں مجھے نیند ارہی ہے اسنے اسکا ہاتھ جھٹک کر کہا

سمجھ نہہں ارہی اٹھو ابھی

تو زینیا نے غصے سے اٹھ کر اسکے سینے پر مکے مارنا شروع کر دیے اور ساتھ کہا

ہر وقت غصہ اپکی من مانی چلے گی پہلے کہا لیٹ جاو لیٹ گی پھر کہ رہے اٹھ جاو بس غصہ ہی اتا بات نہ کریں مجھ سے

تو زوار نے اسکے ہاتھ پکڑ کر کہا جانم پیار بھی تو کرتا ہوں بس کبھی کبھی غصہ اجاتا تم پیار سے بات مان لیا کرو نہ

کبھی کبھی اپکو تو ہر وقت غصہ اتا

اچھا سوری نہ چلو اب باہر چلتے ہیں

تو زینیا اپنی انکھیں رگڑتی بیڈ سے اتر گی

زینیا نے جیکٹ پہنی اور زوار نے اوپر شال اوڑھ لی زوار نے بلیک کرتا پہن رکھا تھا جو اس پر بہت جچ رہا تھا اور زینیا بھی بلو فراک میں کمال لگ رہی تھی

دونوں اسوقت سڑک پر واک کر رہے تھے

چلو زینیا وہاں بیٹھتے ہیں

اسنے ایک بینچ کی طرف اشارہ کرکے کہا

وہ دونوں بیٹھے تھے ٹھنڈی یخ ہوا چل رہی تھی زینیا کے بال ہوا سے اڑ رہے تھے

زینیا میرے ماما بابا نہیں ہیں 

اسکے یوں اچانک کہنے پر زینیا نے اسکی طرف دیکھا

مطلب 

مطلب میرے ماما بابا کا انتقال ہو چکا ہےجب میں پانچ سال کا تھا 

کیسے ہوا 

زوار نے منہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا

عمرا میرے بابا کا دوست تھا دونوں بزنس پاٹنرتھے پر عمران کی نسبت بابا پاس پیسہ بہت تھا عمران بابا سے حسد کرتا تھا پر یہ بات بابا نہیں جانتےتھے بابا عمران پر انکھ بند کر کر یقین کرتےتھے پر عمران دھوکے باز تھا میرے ماما بابا کی پسند کی شادی تھی شادی کے دو سال بعد میں پیدا ہوا  ہر طرف خوشی تھی پر عمران حسد کی اگ میں جل رہا تھا ماما بہت خوبصورت تھیں زینیا بالکل تمہارے جیسے تھیں زوار کی انکھوں سے انسوں نکل رہے تھے اور زینیا کی انکھیں بھی نم تھیں جب عمران نے ماما کو دیکھا تو عمران جیسے پاگل ہوگیا ہو ہر چیز بابا پاس تھی عمران نے سوچا کہ ہر چیز بابا پاس کیوں ہے اتنی دولت ایک بیٹا اور ایک انتہای خوبصورت بیوی

عمران نے پھر ایک دن میری ماما کو اگواہ کر لیا بابا مارے مارے پھیرے انہوں نے عمران کو بھی کہا پر وہ کیا جانتے تھے کہ انکی نورنظر اس درندے پاس ہی ہے عمران نے میری ماما ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے بار بار ماما کو اپنے حوس کا نشانہ بنایا ماما روتی رہیں تڑپتی رہیں پر وہ تو جیسے درندہ تھا زوار اب مسلسل رو رہا تھا اور زینیا بھی پھر ایک دن بابا عمران کے گھر گے پر اگے کا منظر دل دھلا دینے والا تھا ماما بیڈ پر نڈھا پڑیں تھیں اور عمران اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا بابا کو یہ دیکھ کر ہارٹ اٹیک ہوا کہ انکی نور نظر کا جان سے پیارے دوست کا کیا حشر کردیا جس پر اعتبار کیا اسنے اسکی عزت تار تار کر دی چچا جان بھی ساتھ تھے عمران بھاگ گیا چچاجان نے بابا اور ماما کو ہاسپٹل لے کر گے ماما کی ہارٹ بیٹ بہت سلو چل رہی تھی دونوں کی حالت نبہت خرب تھی اور دونوں اکھٹے ہاسپٹل میں دم توڑ گے مجھے اس ظالم دنیا میں اکیلا چھوڑ گی پر چچا چچی نے مجھ سے پیار کیا مجھے پالا اور اس درد ناک حقیقت سے اگاہ کیا زوار کا چہرہ انسووں سے بھیگ چکا تھا۔

زینیا میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں میں گناہوں میں پڑھ گیا تھا لڑکیوں کے ساتھ رات گزارنا میرے لیے عام بات تھی میں شراب پیتا تھا زینیا

زوار اسکا ہاتھ پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے کہ رہا تھا اور زینیا کے دل میں ایسا تھا جو ٹوٹا تھا

شاہ اپ لڑکیوں کے ساتھ رات گزارتے تھے

نہیں زینیا تمہارے انے سے پہلے تھا یہ سب جب سے تم ای ہو کسی لڑکی کی طرف نہیں گیا شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا تمہارے بعد کسی کی خواہش نہیں رہی اب میرا یقین کرو

شاہ مجھے اپ پر پورا یقین ہے مجھ سے پہلے جو تھا وہ اپکا ماضی تھا اپ اپنے ماضی کو بھول جاٸیں میں اپکو کبھی اپکے ماضی کے بارے میں یاد نہیں دلاوں گی

زینیا میں بکھر گیا تھا زندگی ویران سی ہو گی تھی احمد نہ ہوتا تو شاید میں نا ہوتا تمہارے انے سے میں پھر سے جینے لگا ہوں کبھی چھوڑو گی تو نہیں نہ میرا ساتھ دو گی نہ مجھ پر یقین رکھو گی نہ

شاہ میں اپکو کبھی نہیں چھوڑوں گی اپکا ہمیشہ ساتھ دوں گی زینیا نے زوار کے انسوں صاف کرتے کہا

تو زوار اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں پھر سے چلنے لگے ہر طرف خاموشی کا راج تھا زینیا نے زوار کے ہاتھ کی طرف دیکھا اور اسکا ہاتھ تھام لیا زوار نے دیکھا اور مسکرا دیا 

شاہ رکیں 

کیا ہوا اسنے فکر مندی سے کہا

وہ دیکھیں زینیا نے اٸسکریم والے کی طرف اشارہ کرکے کہا

نو وے زینیا بہت سردی ہے زینیا بیمار پڑجاو گی

نہیں ہوتی پلیز شاہ مجھے بہت پسند ہے اور ویسے بھی تو سردیوں مہں کھانے کا مزہ اتا ہے

نہیں کوی ضد نہیں

ٹھیک ہے کبھی میری بات مانی ہے جو اب مانیں گےہمشہ اپنی منمانی کرتے ہیں اسنے منہ پھلا کر کہا 

تو زوار نے ہار مان کر کہا چلو جان من اور اسے لے گیا

زینیا اٸسکریم کھا رہی تھی سردی کی وجہ سے اسکی ناک لال ہو چکی تھی نیلی انکھوں میں ہلکا ہلکا پانی تھی زوار اسے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا

شاہ کھاٸیں گے اپ زینیا نے اسکی نظروں سے کنفیوز ہو کر کہا

نہیں تم ہی کھاو

ٹھیک ہے پر اپ پلیز بند کریں

تمہیں نہیں دیکھنا تو اور کسے دیکھنا ہے ویسے زینیا یاد ہے ہماری پہلی ملاقات بھی اس اٸسکریم سے ہوی تھی 

جی اور ساری اٸسکریم اپکے کپڑوں پر گر گی تھی زینیا نے ہنس کر کہا

مت کرو اتنا ظلم جانم

کیوں میں نے کیا کیا ہے

میرے جزباتوں کو چھیڑ کر کہتی ہو مینے کیا کیا ہے

مطلب

مطلب پاگل کر رہی ہیں تمہاری یہ نیلی انکھیں تم جانتی ہو تمہاری ان نیلی انکھوں پر مرتا ہوں پاگل ہوں یار میں زوار نے جزبات سے چور لہجے میں کہا

تو زینیا نظریں جھکا گی

تیری ان نیلی انکھوں کے بعد

خدا قسم کچھ اور دیکھا نہ گیا

اپ کسی ہارے ہوے عاشق کی طرح شاعری کرتے ہیں زینیا نے گال پر انگلی رکھ کر شوچنے کے انداز میں کہا

اور زوار کا دل کیا کچھ اٹھا کر اپنے سر پر مارے نہیں یعنی کہ حد ہے اسکے جزباتوں کو نہیں سمجھ رہی

چلیں شاہ

ہاں چلو

تمہارا دماغ تو گھر میں ٹھکانے لگاتا ہوں نہ زوار منہ میں بڑبڑایا

..............................

احمد اور زوار عمران کے سامنے بیٹھے تھے اور قاسم انکے پیچھے کھڑا تھا عمران کی حالت حد سے زیادہ بری تھی

قاسم بندوق دو اب اسکے خاتمے کا وقت اگیا ہے

ن۔نہ۔نہں ش۔۔شاہ اسنے بامشکل یہ لفظ ادا کیے

زوار نے اسکی ٹانگوں پر گولی ماری اور کہا یہ میرے پاپا ساتھ بےوفای کرنے کے لیے پھر بازووں پر گولی ماری اور کہا یہ انکے اعتبار کو توڑنے انکو توڑنے انکی موت کے لیے اور پھر اسکے دل پر گولی مارنے سے پہلے کہا یہ احمد کے بدلے اگر تو احمد ساتھ کچھ نہ کرتا تو شاید کچھ راعیت مل جاتی اور گولی مار کر کام تمام کر دیا

قاسم جو وڈیو بنای ہے وہ اسکے بیٹے کو بھیج دینا اور ہاں اسکی لاش کو اگ لگا دینا

و احمد

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی احمد نے بھی کچھ بات کرنا مناسب نہ سمجھا

احمد گاڑی ماما بابا کی قبر کی طرف لی جا

ٹھیک ہے

ماما بابا اج اپکے قاتل کو سزا دے دی موت کے گھاٹ اتار دیا جہنم واسل کر دیا ہے بدلہ پورا ہوا اپ مبجھے بہت یاد اتے ہیں ماما بابا اپ مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گے میں اپ سے بہت پیار کرتا ہوں زوار ایسے ہی باتیں کر رہا تھا احمد دور گاڑی ساتھ ٹیک لگا کر دیکھ رہا تھا

...............................

رات دو بجے کا وقت تھا جب زوار کمرے میں ایا زینیا بیٹھی بیٹھی سو چکی تجی یقین اسکے انتظار میں

زوار نے اسے سیدھا لیٹانا چاہا تو اسکی انکھ کھل گی اور اٹھ کر بیٹھ گی

تمہیں سہی سے لیٹانے لگا تھا تم بیٹھی بیٹھی سو چکی تھی اسنے سپاٹ لہجے میں کہا اور دوسری ساٸیڈ پر اکر لیٹ گیا

شاہ کھانا دوں

نہیں بھوک نہیں

زینیا کو غصہ ایا کہ اسکے انتظار میں کھانا نہیں کھیا بیٹھی بیٹھی سو گی اور یہ صاحب ہیں کہ زینیا غصے سے دروازہ مار کر باہر چلی گی

زوار نے انکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھا

اسے کیا ہوا زوار خود سے کہتا باہر چلا گیا

کچن میں دیکھا تو زینیا اپنی انکھیں صاف کرتی کھانا کھا رہی تھی

اوو تو میڈم نے میرے انتظار میں کھانا نہیں کھایا اوپس

زوار سوچتا اسکے پاس گیا

سوری یار مجھے نہیں پتا تھا تمنے کھانا نہیں کھایا

مینے اپسے کچھ کہا ہے جاٸیں اپ یہاں سے اسے انکھوں میں غصہ لیے کہا

سوری یار زوار نے اپنی داڑھی کھجا کر کہا اور پاس بیٹھ گیا زینیا جو نوالہ اپنے منہ میں لیجانے لگی تھی زوار نے اسکا ہاتھ اپنے منہ ک طرف لیجا کر خود کھا لیا زینیا تو ہکا بکا رہ گی

اپ بہت۔۔۔۔زینیا نے چمچ پٹخ کر کہا

ہاں بہت ہینڈسم ہوں اسنے فقرہ مکمل کیا

اچھا اب غصہ چھوڑو زوار نے اسے جیکٹ سے پکڑ کر کھینچ کر کہا

اب اپکا کبھی انتظار نہیں کرنا یہ وقت ہے گھر انے کا

پکی بیوی لگ رہی ہو اچھا اٸندہ کبھی دیر نہیں ہوگی چلو اب ساتھ کھاتے ہیں اسکے کہنے پر زینیا نے اسکے لیے کھانا نکالا

...............................

ایسے ہی دن گزرتے گے زینیا اور زوار نے سانیہ کا رشتہ احمد کے لیے مانگ لیا تھا جو انہوں نے خوشی خوشی دے دیا تھا ان دونوں کا نکاح پیپرز کے بعد اور رخصتی سانیہ کی سٹڈٕی مکلمل ہونے کے بعد ہونی تھی

ان کے پیپرز ہو رہے تھے اج انکا اخری پیپر تھا زینیا دے کر نکلی تو اسنے زوار کو فون کیا

ہیلو شاہ

جی جان شاہ

کب تک اٸیں گے لینے

تھوڑی دیر رک پہنچ رہا ہوں

اچھا اسکریم کھلاٸیں گے

جو حکم سرکار

اوکے

اچھا سنو

جی بولیں زینیا جانتی تھی زوار کیا کہنے لگا ہے پر پھر بھی پوچھا

I loveee uuu❤❤

زوار ہمیشہ کال کے اینڈ پر یہی کہتا تھا

اوکے باے اسنے مسکرا کر فون کاٹ دیا

زینیا جا رہی تھی کہ اسے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکے اوسان خطا ہو گے۔

زینیا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکے اوسان خطا ہو گے پیچھے ایکھ نقاب پوش اس پر بندوق تانے کھڑا تھا زینیا پیچھے مڑ کر بھاگنے لگی کہ پیچھے بھی ایک کھڑا تھا پھر دو اردگرد بھی اکر کھڑے ہو گے فرار کے سارےراستے بند ہو چکے تھے پھر ایک نقاب پوش نے اسکے منہ پر رومال رکھ کر اسے بےہوش کر دیا اسکے منہ سے صرف ایک لفظ ادا ہوا

شاہ

...............................

زوار گاڑی چلا رہا تھا اور ساتھ گانا گنگنا رہا تھا کہ اسکے فون پر میسج کی بیب بجی اسنے دیکھا تو ان ناون نمبر تھا میسج پڑھا تو اس میں لکھا تھا 

بچا سکتا ہے اپنی بیوی کو تو بچا لے

زوار نے فون ڈیش بورڈ پر پھینکا اور گاڑی کو تیز بھگانے لگا رش ڈرٸیونگ کرتا وہاں پہنچا تو زینیا کو ڈھونڈنے لگ گیا اسے کال بھی کر رہا تھا بیل تو جا رہی تھی پر کوی فون نہیں اٹھا رہا تھا

اسے ایک درخت کے پاس بیگ پڑا دیکھا اسے وہ زینیا کا لگا اسنے کال کی تو فون کی اواز وہی سے ای اسنے وہ اٹھایا اور پاگلوں کی طرح پھر سے ڈھونڈنے لگ گیا دو گھنٹے مسلسل ڈھونڈنے کے بعد تھک ہار کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکا 

اہ کہاں چلی گی ہو

اسے پھر سے میسج ایا اسنے میسج دیکھا تو وہ ایک وڈیو تھی وہ وڈیو دیکھ کر اسکی انکھوں میں لہو دھوڑنے لگ گیا رگیں تن گیں 

اسنے دوبارہ وڈیو دیکھی زینیا کرسی پر بے ہوش بندھی ہوی تھی حجاب ڈھیلا پڑ چکا تھا اور اسمیں سے کچھ بال باہر نکلے ہوے تھے اور جمال(عمران کا بیٹا)کہ رہا تھا شاہ یہ دیکھ تیری حسینا میرے پنجرے میں قید ہے ویسے بڑا مال چھپا کر رکھا تھا حسین تو واقع ہی بہت ہے جیتی جاگتی قیامت ہے تو تو خوش قسمت ہے پر ابھی یہ قیامت میرے پاس ہے ہاہاہہااا

زوار کی غصے کی انتہا نہ تھی اسکے لیے زینیا کو ڈھونڈنہ کچھ مشکل کام نہ تھا پر اسوقت غصہ اسکے دماغ پر حاوی ہو چکا تھا 

اسنے احمد کو فون کیا

احمد فاٸلز دیکھ رہا تھا اسنے فون دیکھا اور مسکرا کر اٹھا کر کہا

اوے مجنوں ابھی تک ایا نہیں افس

احمد جلدی اجا

کیا ہوا زوار تو ٹھیک ہے

کچھ ٹھیک نہیں ہی جمال نے زینیا کو اگواہ کر لیا ہے

کیااا تو کہاں ہے میں ارہا ہوں

کالج ہوں اسکے

ٹھیک ہے تو رک میں ابھی ایا اور ہر چیز ویسے بکھری چھوڑ کر احمد وہاں سے بھاگا

...............................

احد پہنچا تو زوار ایک بینچ پر ہاتھوں میں سر گرا کر بیٹھا تھا

کیا ہوا زوار

زوار نے اسے دیکھا اور اسکے گلے لگ گیا

کیا ہوا کچھ بول

اسنے وہ وڈیو احمد کر اگے کر دی زوار ضبط کی انتہا پر تھا

احمد کا بھی خون کھولنے لگ گیا کہ اسکی بہنوں جیسی بھابھی اس خبیث انسان کے قبضے میں ہے

زوار فکر نہیں کر مل جاے گی

احمد اگر اسے زرا بھی خروش ای تو میں جمال کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا

زوار کوی نشانی اسے ڈھونڈنے کی یاد کر

احمد میرا دماغ کچھ کام نہیں کر رہا میرا غصہ دماغ کو چڑ رہا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہا

اوکے کول ڈاون ریلیکس میں کچھ کرتا ہوں اور اسنے فون نکال کر قاسم کو ڈھونڈنے پر لگا دیا

احمد اور زوار بھی اسے ڈھونڈنے پر لگ گے تھے

دن سے رات ہوگی تھی پر اسکا کچھ پتا نہ لگا زوار کا دماغ اور گھوم رہا تھا اس حوس پرست انسان کو زوار اچھے سے جانتا تھا اخر بچپن میں  ساتھ رہے تھے اسے زینیا کی فکر لگی ہوی تھی

...............................

زینیا کو حوش ایا تو اسن اردگرد دیکھا پر سہی سے دیکھا نہ گیا ہر طرف اندھیرا تھا اسنے اپنے ہاتھوں کو چھڑوانا چاہا پر وہ بندھے ہوے تھے زینیا بے اواز رونے لگ گی

شاہ اپ کہاں ہیں پلیز اجاٸیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز الله جی شاہ کو بھیج دیں

کہ دروازہ کھلا اور ایکھ شخص چین کو گھوماتا اندر داخل ہوا دروازے سے روشنے پڑنے کی وجہ سے سہی سے دیکھای نہیں دیا

کو۔ن ہو ت۔تم زینیا نے اٹک کر کہا

تمہارے شاہ کا چاہنے والا اور ساتھ میں قہقہ لگایا

پلز مجھے جانیں دیں اسنے روتے ہوے کہا

ارے ارے حسن کی ملکہ ایسے کیسے جانیں دوں فکر نہیں کر تیرا شاہ تجھے ڈھونڈ لے گا اور اسکے سامنے تجھے بیڈ کی زینت بناوں گا سچ پوچھو تو صبر نہیں ہو رہا تیرا حسن گھاٸل کر رہا ہے پر وہ کیا ہے نہ شاہ کے سامنے تجھے چھونے میں الگ ہی مزہ ہے ہاہاہہاہاہا

پلیز مجھے شاہ کے پاس جانیں دیں

اوو جانے من کو شاہ پاس جانا ہے ہاہہا روکو ابھی بات کرواتا ہوں اور اسنے زوار کو وڈیو کال کی

زوار نے ان ناون نمبر دیکھ کر اٹھایا تو جمال اسے دیکھ کر خباثت سے مسکرایا

حرام خور میں تیرا حشر نشر کر دوں گا اسے چھوڑ دے

ہاہاہا اج تجھ سے پہلی بار جیتا ہوں اسکا جشن تو منانے دے مجھے

اچھا رک رک غصہ نہیں ہو ابھی اس حسینہ سٕے بات کرواتا ہوں اور کیمرہ زینیا کے سامنے کر دیا اسکے منہ سے ٹیپ ہٹا دی 

شاہ پلیز بچا لیں یہ بہت برے ہیں اسنے روتے ہوے کہا

تم فکر نہیں کرو میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا

شاہ مجھے اپنے پاس لے اٸیں نہیں رہ سکتی اپکے بغیر پلیز بچا لیں

تم فکر نہیں کرو کہیں نہیں جانے دوں گا

اچھا بس کرو کیا رومینٹک سین کریٹ کر رہے ہو پھےر میرابھی دل رومینس کو کرنا اور تیری بیوی کے علاوہ کوی اور ہے بھی نہیں

تونے اسے ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ توڑدوں گا

ہاہاہاہہا فکر نہیں کر تیرے سامنے ہی ہاتھ لگاوں گا اور فون کاٹ دیا

زوار نے اہنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کیا اور کچھ یاد انے پر ایک دم سے سر اٹھایا اور کہا 

احد اسکے گلے میں ایک لاکٹ ہے اور اس میں مینے ایک چیپ لگای تھی اسکو ٹریس کرکے ہم زینیا تک پہنچ سکتے ہیں

زوار پیچھے لیپ ٹاپ پڑا ہے

تو زوار اسکی لوکیشن ٹریس کرنے لگ گیا

زوار کو وہ جگہ دیکھ کر جھٹکا لگا

کیا ہوا

احمد یہ تو وہ جگہ ہے جہاں ابو اور عمران رہتے تھے

کیاااا

احمد جلدی چل اسکی موت قریب ہے اب اور ایک میسج قاسم کو سینڈ کیا۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Pagal  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Pagal  written by Miral Shah  . Ishq Mian Pagal  by Miral Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment