Pages

Sunday 5 February 2023

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 5 to 6

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 5 to 6

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Main Pagal By Miral Shah Episode 5'6


Novel Name: Tere Ishq Main Pagal

Writer Name: Miral Shah

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


زوار اج کل بہت بزی رہنے لگ گیا تھا زینیا کی وجہ سے افس پر دھیان نہ دے سکا تھا بہت سے کام پینڈنگ پر تھے کچھ تو احمد نے کر لیے تھے پر ابھی بھی زوار کے کام باقی تھے اسی لیے وہ صبح زینیا کے اٹھنے سے پہلے زینیا کو پیار کر کے افس چلا جاتا اور زینیا کے سونے کے بعد گھر اتا اسے دیکھ کر اسکی ساری تھکن دور ہو جاتی

زوار کو لگتا زینیا کو نہیں معلوم میں اتا ہوں کہ نہیں پر زینیا جب صبح فجر کے وقت اٹھتی تھی تو اسے دیکھ لیتی تھی

اج سنڈے کا دن تھا زوار کو اج چھٹی تھی وہ گھر پر ہی تھا اور زینیا کی جان پر بنی ہوی تھی 

ہاں ہاں ٹھیک ہے اڈے پر اجاوں گا 

زوار احمد سے بات کر رہا تھا اور ساتھ میں زینیا کو تاڑ رہا تھا زینیا اسکی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی

اوکے باے زوار نے فون رکھا اور زینیا کو سمایل پاس کی

زینیا نے گھبرا کر منہ دوسری طرف کر لیا

بڑرفلاے میں کام سے جارہا ہوں تم یار کمرے سے باہر نکلا کرو گھر دیکھو میں نے کمرے سے باہر جانے سے تو پابندی نہیں لگای

جی اچھا زینیا نے بس اتنا ہی کہا

ویسے کتنے دن ہو گے مینے تمہیں فرصت سے دیکھا نہیں زوار نے انکھوں میں شرارت لیے کہا

وہ اپکو تو کہیں جانا تھا زینیا نے گھبرا کر کہا

چلا جوں گا اسنے زینیا کو کمر سے کھینچ کر کہا تو زینیا نے نظریں جھکا لیں

زوار نے اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اپر کیا تو زوار اسکی نیلی انکوں میں کھو گیا

جانم تمہاری ان نیلی انکھوں پر دل ہارا ہوں مجھ جیسا اجھا بھلا بندہ تیرے عشق میں پاگل ہے  اور اسکی انکھوں کو باری باری چوما زوار اسکے ہونٹوں کی طرف جھکنے لگا کہ زینیا نے اسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا زوار نے اسکے ہاتھ کو چوما اور دور ہو گیا

اوکے میں چلتا ہوں اور چلا گیا

زینیا کمرے سے باہر نکلی اور اسنے سارا گھر دیکھا گھر واقع ہی بہت خوبصورت تھا

عمران کا ادمی جو پہرے پر تھا زینیا کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا اسنی عمران کو فون کیا اور کہا عمران بابا شاہ نے ہیرہ چھپا کر رکھا ہے 

تو عمران مکرو ہنسی ہنسا اسکا مطلب ہیرہ ہاتھ لگا ہے ہاہاہاہا اٹھا کر لے ااس ہیرے کو اور فون بند کر دیا

عمران کے ادمی نے سوچا پہلے خود فایدہ اٹھا لیا جاے پھر عمران بابا کو دوں گا

زینیا اپنے دھیان میں جا رہی تھی کہ کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا زینیا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی پہرے دار تھا 

اپ ہاتھ چھوڑیں میرا اسنے گھبرا کر کہا

کیوں چھوڑوں ابھی تو ہاتھ لگی ہو مجھے پتا ہوتا کہ تم اتنی خوبصورت ہو تو کب کا اس نایاب ہیرے کو چرا لیتا

زوار نے احمد کو اسکے گھر سے لیا اور ایک دم سے یاد انے پر کہا

اووو شٹ

کیا ہوا زوی

یار احمد فاٸل گھر رہ گی

اوو تیری اب

چل گھر سے لیتے ہیں

دونوں گھر پہنچے تو اگے کا منظر انکا دماغ گھمانے کے لیے کافی تھا 

تیری اتنی ہمت زوار نے طیش میں اکر چلا کر کہا

تو اس شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکے ہوش اڑ گے

شاہ اسنے بامشکل یہ لفظ ادا کیا اور زینیا کا ہاتھ چھوڑ دیا 

زینیا روتی ہوی بھاگ کر زوار کے پیچھے چھپ گی اور اسکی شرٹ کو مٹھیوں مں سختی سی جکڑ لیا

احمد زینیا کو اندر لے کر جاو غصے سے زوار کی رگیں تن گیں تھیں انکھیں سرخ ہو چکیں تھیں

وہ بھاگنے لگا کہ زوار نے اسے دباچ لیا اور مارنا شروع کر دیا 

احمد نے زینیا کو لمرے میں چھوڑا اور خود باہر زوار کی طرف ایا

زوار اسکو چھوڑ احمد نے اسے چھڑوانا چاہا

نہیں احمد اسکی ہمت بھی کیسے ہوی اسے ہاتھ لگانے کی

زوار رک جا یہ ہمارا ادمی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ادمیوں میں سے کسی کی بھی اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایسی حرکت کرے 

زوار پیچھے ہوا اور جو چیز ہاتھ میں ای اسے اٹھا کر زمین پر مارا

وہ شخص نیچے لیٹا کراہ رہا تھا

احمد قاسم کو فون لگاو احمد نے قاسم کو فون لگایا او ادھر ادھر چکر کاٹنے لگ گیا

زوار صوفے پر بیٹھا سگریٹ کے بڑے بڑے کش لینے لگ گیا کہ قاسم ایا

حکم شاہ جی اسنے تابعداری سے کہا

زوار نے احمد کو اشارہ کیا تو احمد نے اس شخص کو زوار کے قدموں میں پھینکا

یہ کون ہے زوار نے انکھوں میں غصہ لیے کہا

مجھے نہیں پتا شاہ جی مینے اسے نہیں بھیجا یقین جانیں

زوار نے اس شخص کو گربان سے پکڑ کر اٹھایا اور پوچھا کون ہو تم

میں عمرا۔ن کا اد۔می ہو۔ں اس۔اسنے بھیجا تھ۔ا اور اس لڑکی ک۔و لا۔لانے کو کہا تھا 

وہ بامشکل اتنا ہی بول سکا

زوار نے پھلوں کی ٹوکری میں سے چاقو نکالا اور کہا 

انہیں گندی انکھوں سے دیکھا تھا نہ اور اسکی انکھوں میں مار دیا

وہ چینخ اٹھا اور درد سے چلانے لگا 

زوار نے پھر کہا انہی ہاتھوں سے چھوا تھا نہ تو اسکے ہاتھوں پر کٹ لا دیے خون ایسے نکل رہا تھا جیسے پانی بہ رہا ہو

وہ شخص زور زور سے چلانے لگ گیا 

زینیا اوازیں سن کر باہر ای تو اگے کا منظر دیکھ کر اسنے چینخ ماری اور منہ پر ہاتھ رکھ کر بے اواز رونے لگ گی

بھابھی احمد اگے بڑھا اور کہا چلیں یہاں سے اور لے گیا کمرے می لے جا کر بیڈ پر بیٹھایا اور پانی دیا

بھای وہ

زینیا رونے کے درمیان بس اتنا ہی بول سکی

بھابھی وہ اسی قابل تھا اپ فکر نہیں کریں 

ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ تین گولیوں کے چلنے کی اواز ای 

کہ زینیا کے رونے میں بھی روانگی اگی احمد نے اسے کندھے سے لگا کر تسلی دی 

رکیں بھابھی میں اتا ہوں اپ باہر مت انا وہ یہ کہ کر باہر زوار پاس چلا گیا جو قاسم کو لاش عمران کے پاس بھیجنے کو کہ رہا تھا

زوار بھابھی بہت ڈر گی ہیں اسکے پاس جا

زوار نے سر ہلایا اور دوسرے کمرے میں جا کر اپنے خون الود ہاتھ دھوے اور پھر شرٹ چینج کر کے زینیا کے کمرے میں گیا زینیا اسے دیکھ کر ڈر گی اور اس سے دور ہونے لگ گی 

پلیز پاس مت ایے گا

بٹرفلاے ڈرو نہیں کچھ نہیں کہتا

نہیں اپ بہت برے ہیں

زینیا پچھے ہوتے ہوتے دیوار کے ساتھ لگ گے

جانم ڈرو نہیں زوار اسکے انسو صاف کرتے بولا

اپ نے اسے مار ڈالا

کیونکہ تم صرف زوار شاہ کی ہو تمہیں صرف زوار شاہ ہی دیکھ سکتا ہے کوی اور دیکھے گا تو اسکی انکھیں نکال لوں گا تمہیں چھونے کا حق بھی صرف زوار شاہ کو ہی ہو کوی اور تمہیں چھووے گا تو اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا تم صف اور صف میری ہو صرف میری 

زینیا نے اسکے کندھے پر سر ٹکا لیا اور بے اواز رونے لگ گی

زوار اسکے بال سہلانے لگ گیا اور اپنے لب اسکے سر پر رکھ دیے.

زینیا کو اسکے پاس اے بیس دن ہو گے تھے اب زینیا کو بھی اسکی عادت ہوتی جارہی تھی پر پھر بھی وہ زوار سے کتراتی تھی اور زوار اسے تنگ کرنے کا کوی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا

زینیا کو اپنے اگزیمز کی فکر تھی اس نے سوچا تھا کہ یہ اج اس سے ضرور بات کرے گی اور اسکے کیے ہمت اکٹھی کر رہی تھی جو کہ بہت مشکل تھی

...............................

زوار اس وقت اپنے چچا چچی کے کمرے میں بیٹھا تھا اور زوار نے ان کو زینیا کے بارے میں سب سچ سچ بتایا

زوار بس یہ اہمیت ہے تمہاری زندگی میں ہماری شازیہ نے انکھوں میں انسو لیے کہا 

نہیں چچی جان سب بہت اچانک ہو 

تو ہمیں بتا بھی تو سکتا تھا اس بار چچا نے شکوہ کیا

اچھا نہ اب ناراض تو نہ ہوں

زوار تم ہمارے پیار کا ناجایز فاٸدہ اٹھاتے ہو جانتے ہو نہ ہم تم سے ناراض نہیں ہو سکتے

تو زوار نے مسکرا کو شازیہ کے ہاتھوں کو باری باری چوما

اچھا تو کم ملا رہے ہو ہمیں ہماری بہو سے

جب اپ کہیں

تو بس پھر رات کو لے انا اور پھر کہیں نہیں جانے دوں گی اپنی بہو کو

اوکے جو حکم اسنے سر کو خم دے کر کہا

...............................

زوار گھر ایا تو زینیا اسے دیکھ کر ہاتھ مسلنے لگ گی اور مسلسل اسے دیکھ رہی تھی اسکے دیکھنے پر زوار نے اسے انکھ ماری تو زینیا سٹپٹا گیاور 

زوار مسکرا کر شیشے میں دیکھنے لگ گیا

شاہ ب۔بات سنیں گا اسنے بامشکل کہا 

زوار نے پہلی بار اسکے منہ سے اپنا نام سنا تو پورا اسکی طرف گھوم کر دیکھا خوشی اسکے چہر سے صاف جھلک رہی تھی

جی جان شاہ

وہ کچھ بات کرنی ہے

جی حکم جناب زوار یہ کہ کر اسکے قریب ہوا اور اسک کھلے بالوں سے کھیلنے لگ گیا

ایسے کیسے بتاوں اسنے ہچکچا کر کہا

جیسے بتاتے ہیں اسنے بظاہر تو سنجیدگی سے کہا پر انکھوں میں صاف شرارت تھی

وہ میرے اگزیمز ہیں پلیز مجھے دینے دیں 

اسکی بات پر زوار سنجیدہ ہوا اور اس سے دور ہو گیا

پلیز شاہ مرا سال ضاٸع ہو جاے گا میں وعدہ کرتی ہو کے بھاگوں گی نہیں

زوار دوبارہ قریب ہوا اور اسکے چہرے پر انگلی پھیرتے ہوے کہا پکا نہیں بھاگو گی

ہاں ہاں پکا اسنے زور زور سے سر ہلا کر کہا

اوکے دے دینا

زوار کے مان جانے پر زینیا خوشی سے بے ساختہ اسکے گلے لگ گی اور زوار کی خوشی کی بھی انتہا نہ تھی زینیا کو جب احساس ہوا تو شرم سے اپنا سرخ چہرہ لیے پیچھے ہوی اور کہا سوری

ارے ارے جانم تمہارا ہی ہوں کر لو جو کرنا ہے اسنے ایک انکھ دبا کر کہا تو وہ اور شرمندہ ہو گی

زوار نے اسکی شرم سے لال گالوں کو چوما اور پھر اسکی ٹھوڑی کو اور پھر اسکے لبں پر اپنے لب رکھ دیے کہ دروازہ کھٹکا زوار بدمزہ ہوتا دور ہوا اور زینیا بھی خود کو سنبھالتی پیچھے ہو گی

اجاو

جی شاہ جی اپنے کہا تھا کہ کچھ دیر بعد اپکے کمرے میں اوں

ماسی ہم اج رات گھر جا رہے ہیں او زینیا کی پیکنگ کر دینا اب جاو اور وہ چلی گی

زینیا نے ناسمجھی نظروں سے اسکی طرف دیکھا اسکی نظروں کا مفہوم سمجھ کر زوار نے کہا 

ہم رات کو گھر جا رہے ہیں چچا چچی سے ملواوں گا اور ہم وہاں رہیں گے اب

پر کیوں میں وہاں کسی کو نہیں جانتی 

مجھے تو جانتی ہو نہ

اگر کسی نے پوچھا تو کیا کہوں گی 

کہنا زوار شاہ کی بیوی ہو 

اچھاااا

...............................

سانیہ بیٹھی تھی کہ کچھ سوچ کر اسنے احمد کو فون کیا 

احمد نے فون دیکھا تو سانیہ کا نام جگمگا رہا تھا اسنے فون کو حیرت سے دیکھا پھر اسنے اپنی انکھیں ملیں کہ جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو جب یقین ہو گیا کہ سانیہ کا فون ہے تو فورن یس کر کے کچھ کہنے لگا کہ سانیہ بولی

کب سے فون کر رہی ہوں اٹھا کیوں نہیں رہے تھی

وہ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ زہے نصیب کا فون ایا ہے یا میرا وہم ہے

اچھا اچھا بس بس

اچھا ویسے کیسے فون کیا ہے

تم سے ملنا ہے اسی لیے

کیا میں نے سہی سنا ہے یا میرے کان خراب ہو گے ہیں

اسکی بات سن کر سانیہ مسکرای اور بولی جی سہی سنا ہے

اچھا تو کہا ملنا ہے

سانیہ نے جگا کا بتایا اور فون رکھ دیا 

احمد فون اٹھ کر اپنے کپڑے لے کر واشروم میں گھس گیا

..............................

زوار لیپ ٹاپ پر بیٹھا کام کر رہا تھا ار زینیا بیٹھی بور ہو رہی تھی

اففف کیا کروں اسکے چہرے سے بوریت فاف جھلک رہی تھی

زوار نے دیکھا تو پوچھا جانم بور ہو رہی ہو

تو اور کیا میں بور ہو رہی ہوں زینیا نے منہ بنا کر کہا

تو جانم میں کس لیے ہوں اسنے زینیا کو جیکٹ سے پکڑ کر کھینچا تو وہ اسکے اوپر ا گری

نیہں وہ میں باہر جا رہی ہوں چھوڑیں

یار یہ کیا بات ہوی دور کیوں بھاگتی ہو حق رکھتا ہوں تمہیں چھونے کا زوار نے سنجیدگی سے کہا 

تو زینیا نے نظریں جھکا لیں زوار اسکے ماتھے پر کس کرتا دور ہو گیا 

زینیا بھی اپنا دوپٹہ درست کرتی دور ہو کر لیٹ گی

...............................

سانیہ اپنی بتای گی جگر پر پہنچی تو احمد کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا تھا اور سانیہ کو دیکھ کر شعر کی ٹانگ توڑی

وہ اے خدا کی رحمت

کبھی ہم انکو دیکھتے کبھی شرارتی چمکتی انکھوں کو

تو سانیہ نے زبان چڑھای

جی میڈم کیسے یاد کیا نیہں رکو بیٹھ کر بات کرتے ہیں چلو

شکر ہے مجھے لگا یہیں کھڑا رکھو گے اور دونوں رسٹورنٹ میں چلے گے

ہم جی اب بولیں میڈم

وہ ایک کام تھا سانیہ نے ہچکچا کر کہا

حکم بندہ حاضر ہے احمد نے سر کو خم دے کر کہا

وہ کیا تم میری زینیا سے بات کروا دو گی

ہاےےے ضروری ہے بات کرنا

پلیز پلیز پلیز اسنے ضد کرتے ہے کہا

اوکے روکو فون کرتا ہوں اور اسنے زوار کا نمبر ڈاٸل کیا

زوار جو بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا احمد کا فون ایا تو اسنے اٹھایا اور مصروف انداز میں کہا 

ہاں بول

یار زوی بھابھی سے بات کروای

کیوں خیر ہے

کروا تو سہی

یہ لے اور فون  کو دے دیا

اَلسَلامُ عَلَيْكُم 

وَعَلَيْكُم السَّلَام

کیسی ہو 

میں ٹھیک اپ سنایں

میں بھی ٹھیک یہ لو اپنی دوست سے بات کرو

ہاے زینی کیسی ہو

میں ٹھیک تو کیسی ہے

میں بھی ٹھیک اور پھر نہ ختم ہونے والی باتیں شروع

زوار اسکا چمکتا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا جو مسکرا مسکرا کر سانیہ سے بات کر رہا تھا زوار اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا

اسنے پھر کچھ وقت بعد فون بند کر کے زوار کو دے دیا

واہ بیگم دوستوں سے ہنس ہنس کر باتیں جانم ایک عدد شوہر بھی ہے اسے تو کبھی مسکرا کر بھی نہ دیکھا تم نے اسنے منہ ٹیڑھا کر کے کہا

تو زینیا کی اسکی حرکت پر ہنسی چھوٹ گی

ویسے مینے کوی لطیفہ تو سنایا نہیں اور یار میں اتنا برا بھی نہیں ہوں اسنے داڑھی کجھا کر کہا

تو زینیا بولی اپ برے بہت ہیں پر اپکی داڑھی اچھی ہے ساتھ میں اسکی چکس بھی کھینچیں تو زوار اسکے لبوں پر جھکا کہ زینیا نے منہ دوسری طرف کر لیا تو زوار نے اسکی گردن پر لب رکھ دیے 

زینیا نے اسے دھکا دیا اور بیڈ سے اتر کر کہا عمران ہاشمی کے بھای لگتے ہیں اپ اور باہر کو دوڑ لگا دی پیچھے سے زوار کا قہقہ گونجا۔

شکریہ احمد سانیہ نے مسکرا کر کہا

ویلکم اسنے بھی جواباً مسکرا کر کہا

اوکے میں چلتی ہوں اور اٹھ کھڑی ہوی جانے لگی کہ احمد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور کہا رک جاو یار تھوڑی دیر اور کم از کم چاے ہی پی لو

سانیہ نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو احمد نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور سوری کہا

سانیہ دوبارہ مڑ کر جانے لگی کہ احمد اسکے سامنے اگیا 

پلز یار تھوڑی دیر اور بیٹھ جاو میرے ساتھ

سوری پر مجھے دیر ہو رہی ہے اسنے گھبرا کر کہا

یار ڈر کیوں رہی ہو میں صرف ایک کپ چاے پینے کا کہ رہا ہوں میں ایسا ویسا چیپ قسم کا لڑکا نہیں ہوں یار 

احمد نے طنز کیا

تو سانیہ شرمندہ ہوتی کرسی پر بیٹھ گی اور احمد بھی اسکی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا

اور چاے کا ارڈر دیا

ویسے سانیہ ایک بات کہوں احمد نے تھوڑی دیر بعد ہچکچا کر کہا

جی بولیں

اسکے جی کہنے پر احمد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور کچھ کہنے لگا کہ ویٹر چاے لے کر اگیا اسنے سانیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا 

سانیہ چاے کا کپ اٹھا کر پینے لگ گی اسنے چاے کا کپ نہچے رکھا تو احمد نے پھر اسکا ہاتھ پکڑ لیا

سانیہ ہچکچا رہی تھی اسکے ایسا کرنے سے

سانیہ تم مجھے اچھی لگنے لگی ہو پتانہیں کیوں پر دل تمہاری خواہش کرنے لگ گیا ہے تمہارے علاوہ کوی اور مجھے اچھا نہیں لگتا

سانیہ سانس روکے اسے سن رہی تھی

سانیہ نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اٹھ گی احمد اسکے سامنے ایا سانیہ بروقت نہ رکتی تو احمد سے ٹکرا جاتی

پلیز رستہ چھوڑو احمد 

اسنے نظریں جھکا کر کہا

یار پلیز بات سن لو پہلے میری اسنے التجایا نظروں سے کہا

اچھا بولیں کیا کہنا ہے

دیکھو سانیہ تم مجھے اچھی لگتی ہو میں تمہارے گھر رشتہ پھیجنا چاہتا ہوں

کہ لیا اب میں جاووں

احمد کو اس پر غصہ ایا جو اسکے سچے جذبوں کی ناقدری کر رہی تھی احمد نے اسے کمر سے پکڑ کر قریب کیا اور اپنی پکڑ مضبوط کرلی

تمہیں کسی نے حق نہیں دیا میرے سچے جذبوں کی ناقدری کرنے کا

اسنے ایک ایک لفظ چبا کر کہا

ایک تو اسکی پکڑ سخت اوپر سے اسکی قربت سانیہ سہم گی اور رونے لگ گی

احمد اسکے انسو دیکھ کر نرم پڑا اور پکڑ تھوڑی ڈھیلی کر دی پر چھوڑا نہیں

دیکھو یار رو نہیں پر تم بھی تو سمجھ نہیں رہی ہو میں کوی فلرٹ نہیں کر رہا ہوں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے

پلیز چھوڑیں کوی دیکھ لے گا اسنے اردگرد دیکھتے ہوے کہا 

فکر نہیں کرو کوی نہیں دیکھے گا اور بتاو شادی کرو گی مجھ سے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہوے کہا

سانیہ نے نظریں جھکا لیں

احمد نے اسکا چہرہ اوپر کیا جو انسووں سے تر ہو چکا تھا

احمد نے اسکے انسو صاف کیے اور کہا ہم جو لڑتے ہیں ہماری لڑای کو ایک دفع بھول کر ایک بار میرے بارے میں سوچنا ہینڈسم بھی ہوں اور پیار بھی کرتا ہوں سوچ لو نمبر ہے میرا تمہارے پاس سوچ کر بتانا اور اسکی گال پر کس کر کے دور ہو گیا سانیہ شرم سے لال ہوتی وہاں سے بھاگ گی اور احمد واپس کرسی پر بیٹھ کر چاے پینے لگ گیا جوکہ ٹھنڈی ہو چکی تھی

...............................

زوار اور زینیا زوار کے گھر پہنچے تو زوار نے رحیم کو اواز دی 

رحیم بابا

اور رحیم کسی جن کی طرح حاضر ہوا

جی شاہ صاحب

یہ سامان کسی سے کہ کر میرے کمرے میں سیٹ کروا دو

جی شاہ صاحب یہ کہ کر اسنے زینیا کی طرف دیکھا اور پھر شاہ کا خیال کرتا وہاں سے چلا گیا

چچی جان چچا جان کہاں ہے اپ

وہ دونوں باہر اے تو انہوں نے زوار کو دیکھا پھر اسکے پیچھے کھڑی زینیا کو

شازیہ نے زینیا کا ماتھا چوما اور ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی ایسے ہی زوار کے چچا نے بھی اسے دعاووں سے نوازا

ارے واہ اپ تو بہت بہت خوبصورت ہیں ام کلثوم نے اسے گلے مل کر باری باری گال چوم کر کہا تو زینیا کی گال سرخ ہو گی

اوکے بچو جا کر فریش ہو جاو اور پھر ڈنر کے لیے بلا لیں گے

اوکے اور دونوں چلے گے

کمرے میں پہنچے تو سارہ رحیم کی بیٹی سامان سیث کر رہی تھی اسنے زینیا کو مسکرا کر دیکھا اور سوچا واقع شاہ صاحب کی بیوی انسے بھی خوبصورت ہیں اسکے مسکرانے پر زینیا بھی مسکرا دی وہ چلی گی تو زوار نے زینیا سے پوچھا

کیسے لگے میرے چچا اور چچی

بہت اچھے زینیا نے کھل کر تعریف کی

اور میں کیسا  لگا اسنے شرارت سے کہا

بہت برے زینیا نے بھی شرارت سے کہا

زیادہ تیز نہیں ہو گی تم ہاں

اپکی وجہ سے ہی ہوی ہوں اور واشروم بھاگ گی

ڈرپوک زوار نے اونچی اواز میں کہا

جی نہیں ڈرپوک نہیں اپ بےشرمی کو شروع ہوجاتے ہیں 

زینیا نے بھی واشروم میں سے کہا 

اور زوار مسکرا کر فون میں میلز چیک کرنے لگ گیا

زینیا باہر نکلی تو اسکے بال گیلے تھے اور گوری رنگت نکھری ہوی تھی

زوار نے اسے دیکھا تو اسکے ہوش اڑ گے اسنے بہت حسین لڑکیاں دیکھیں ستھی پر جیسے حسن اسپر اکر ختم ہو جاتا ہو

جانم خود اکساتی ہو پاس انے کے لیے مرے سوے ہوے جزباتوں کو جگاتی ہو اور پھر بےشرم کہتی ہو پاس بھی نہیں انے دیتی اگر ایسے میرے سامنے او گی تو میں بہکوں گا ہی تڑپا لو جتنا تڑپانا ہے ایک بار جانم میں اپے سے باہر ہوگیا نہ تو تمہاری ایک بھی نہیں سنوو گا اور سارے حق وصول کروں گا اسنے ذومعنی انداذ میں کہا اور اور کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا

زینیا کا اسکی بات سن کر سانس اٹکنے لگ گیا 

...............................

صبح سب جب ناشتہ کر رہےتھے کہ احمد ایا احمد سب کو دیکھ کر خاموش ہوگیا اور زوار کو اشارہ کیا اور پھر احمد نے سب کو سلام کیا

او بیٹا ناشتہ کرو ہمارے ساتھ

نہیں چچی بھوک نہیں ناشتہ کر کے ایا ہوں

واہ امی احمد بھای کو خیر نہیں لگتی اج خاموش بھی ہیں اور کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا ام کلثوم نے چھیڑتے ہوے کہا

چڑیل تم تو چپ ہی رہا کرو

تو وہ ہنس کر کھانا کھانے لگ گی

اوکے میں چلتا ہوں اور دونوں باہر اگے

کیا ہوا خیریت ہے احمد

زوار دھیان سے پتا چلا ہے عمران نے تجھے مروانے کے لیے کچھ ادمیوں کو کہا ہے

تو فکر نہیں کر وہ میرا کچھ نہیں بیگار سکتا

پھر بھی زوار احتیاط ضروری ہے

ٹھیک ہے چل چلتے ہیں

دونوں افس کے لیے نکل گے

پارکنگ ایریا میں دونوں نے کار پارک کی 

زوار کو فون ایا تو وہ فون سن رہا تھا کہ اچانک احمد کی نظر اچانک اسکے سینے پر ریڈ ڈاٹ پر گی احمد اس ڈاٹ کو اچھے سے پہچانتا تھا

زاور احمد چلایا اور پھر فضا میں دو گولیوں کی اواز گونجی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا۔

دو گولیوں کی اواز اور پھر ہر طرف سناٹا چھا گیا اور احمد لڑکھڑاتا ہوا نیچے گر گیا 

احمد اور زوار کی اواز گونجی

زوار نے سامنے دیکھا جس نے گولی چلای تھی اسنے دوبارہ گولی چلای کہ زوار نیچے بیٹھ گیا اور پھرتی سے گاڑی سے گن نکالی اور اسکے چلانے اسے پہلے زوار نے اسکا کام تمام کر دیا اور پھر نہیچے گرے پڑے احمد کے پاس ایا

احمد ۔۔۔۔احمد اٹھ نہ یار جگر اٹھ

احمد خون سے لت پت ہو چکا تھا زوار نے اسے اٹھا کر گاڑی میں لیٹایا اور خود ڈراٸیونگ کرنے لگ گیا زوار کے کپڑے بھی خون سے بھر چکے تھے زوار سپیڈ سے گاڑی چلاتا بندرہ منٹ کا سفر پانچ منٹ میں طے کرتا ہاسیٹل پہنچا اور احمد کو اٹھا کر اندر کی طرف بھاگا 

ڈاکٹر ڈاکٹر اسنے اونچی اونچی چلا کر داکٹرز کو بلایا اور اسے ایمرجنسی روم میں لیجایا گیا

زوار کے کپڑے خون سے بھرے ہوے تھے اور اج بہت بے بس کھڑا تھا اسنے چچا اور چچی کو فون کر کے ہاسپٹل بلایا 

شازیہ تو رونے لگ گی زینیا نے اس سے پوچھا ہ کیا ہوا تو شازیہ نے اسے بتایا ہاسپٹل کا نم سن کر ہی اسکا دل دھڑکا 

کیا چچی جان شاہ ٹھیک ہیں

بیٹا پتا نہیں ہاسپٹل جا کر ہی پتا چلے گا

چچی جان پلیز میں بھی چلوں گی ساتھ

نہیں بیٹا

پلیز چچی جان

ٹھیک ہے اور چچا چچی اور زینیا ہاسپٹل کے لیے روانہ ہو گے

جب ہاسپٹل پہنچے تو زوار اپنے چچا کو دیکھ کر انکے گلے لگ کر رونے لگ گیا

زوار نے اپنے انسووں صاف کیے اور کہا

پلیز چچا جان احمد سے کہیے نہ کہ وہ اٹھ جاے وہ جانتا ہے مجھ سے اسکی خاموشی برداشت نہیں زوار کسی چھوٹے بچے کی طرح کہ رہا تھا

زوار جا کر بینچ پر بیٹھ گیا او اسکا چچا ساری فارمیلیٹیز پوری کرنے چلا گیا

شازیہ زوار کے پاس بیٹھی اسے تسلی دے رہی تھی کہ زینیا اپنے بھاری قدموں کے ساتھ اسکے پاس گی زینیا کو دیکھ کر شازیہ اٹھ گی

زینیا زوار کے پاس بیٹھی اور اہستہ سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا زوار اسکا لمس محسوس کرتا اسکی طرف دیکھا زوار کی انکھیں سرخ ہو چکیں تھیں

پلیز رو نہیں احمد بھی ٹھیک ہو جاٸیں گے فکر نہیں کریں 

زینیا کی بات پر زوار اسکے گلے لگ گیا زوار اج چھوٹا سا بچا ہی لگ رہا تھا

شاہ اسنے زوار کو پکارا تو وہ اس سے الگ ہو گیا اور سر جھکا لیا

شاہ پلیز کچھ کھا لیں

نہیں زینیا میں کیسے کچھ کھا سکتا ہوں میرا دوست زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے 

شاہ کیا اپ کو لگتا ہے کہ احمد بھای ٹھیک ہوں گے؟

ہاں مجھے پورا یقین ہے وہ ٹھیک ہوگا اور میں اس سے لڑوں گا کہ اسنے ایسا کیوں کیا

شاہ وہ اپ سے بہت پیار کرتے ہیں اکر اپ کھانا نہیں کھاو گی تو کمزور ہو جاو گے تو اگر احمد بھای اپکو ایسے دیکھیں گے تو انہیں تکلیف ہوگی کیا اپ چاہتے ہیں کہ ان کو تکلیف ہو

نہیں

تو بس پھر کچھ تو کھا لیں

اسنے زینیا کے کہنے پر بس دو نوالے ہی لیے پر اسوقت اتنا ہی کافی تھا کہ اسنے کچھ کھا لیا

شاہ اپ الله سے دعا مانگیں انکی زندگی کی

تو کیا میں دعا مانگوں گا وہ سن لے گا

ہاں ضرور سنے گا

سچ کہ رہی ہو

اسنے کسے بچے کی طرح یقین دہانی کروانی چاہی

جی سچ کہ رہی ہو

تو زوار نے وضو کیا اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر احمد کی زندگی کی دیا مانگی

زوار اج رو رہا تھا احمد کے کیے جو اسے بہت عزیز تھا اسکی جان تھا اور اسکی جان اج خطرے میں تھی

زوار رو رو کر دعا مانگ رہا تھا کہ پاس بیٹھے لوگوں کے بھی اسکی حالت دیکھ کر انکوں مں انسوو اگے

زوار واپس ایا تو زینیا ویسے ہی بینچ پر بیٹھی تھی اکا چہرہ بھی سرخ ہو چکا تھا زوار نے اکر اسکے کندھے پر سر ٹکا کر بیٹھ گیا

زینیا اسنے زینیا کو پکا اسکی اواز بھاری وہو چکی تھی

جی بولیں

احمد سے کہو نہ کہ وہ اٹھ جاے ایسے مت کرے میرے ساتھ یار وہ بھوک کا بہت کچا ہے اسے بھوک لگی ہوگی اسے کہو اٹھ جاے اسے اس کی پسند کی ہر چیز لا کر دوں گا بس اسے کو اٹھ جاے 

زینیا بس  اسکی باتیں سن کر رو رہی تھی

زوار اٹھو گھر جا کر کپڑے چینج کر لو۔

نہیں اگر احمد اٹھا میں موجود نہ ہوا تو نہیں مجھے نہہیں جانا

بیٹا چلو پھر واپس اجانا

نہیں اگر وہ لوگ احمد کو لے گے تو

بیٹا نہں لے کر جاتے تمہارے چچا یہیں ہیں چلو اب چلو زینیا تم بھی

زینیا اور شازیہ کے زبردستی گھر لے جانے پر وہ چلا گیا

گھر پہنچے کے لیڈ لاین پر کل انے لگے زوار نے اٹھای تو عمران بولا 

کیسا ہے شاہ

عمران تجھے میں زندہ نہیں چھوڑوں تیری جان لے لوں گاہاہ

ہاہا شاہ پہلے تو اپنے اس احمد کو تو بچا لے ہاہا مروانا تو تجھے چاہتا تھا پر اگر تیرا وہ احمد مر گیا پھر بھی جیت میری ہوگی کیونکہ تو جیتے جی مر جاے گا

اہہہہہہ زوار نے غصے سے فون نیچے پھینک دیا اور واپس مڑا کہ شازیہ نے کہا کہاں جا رہے ہو زوار

چچی جان اس حرام خور کو زندہ دفنانے 

نہیں زوار تم کہیں نہیں  جاو گے

کیوں نہ اووں اس بیغیرت کی وجہ سے احمد کی یہ حالت ہے اپ کہنا چاہتی ہیں کہ میں  اسے زندہ چھوڑ دوں زوار نے چلا کر کہاا کہ یہاں جی درودیوار تک کانپ گی

اج تو یہ نہیں بچے گا اور کمرے میں چلا گیا

زینیا پلیز اسے روک لو اسکے وحشی پن کو روک لو

اپ فکر نہیں کریں میں دیکھتی ہوں اور زینیا کمرے کی طرف بھاگی

زوار گن لے کر واپس مڑا کہ سامنے زینیا کھڑی تھی اسکے پاس سے ہو  کر جانے لگاا کہ زینیا نے اسکاا ہاتھ پکڑ لیا

پلیز  شاہ مت جایے

زوار نے اسے سختی سے بازووں سے پکڑ کر کہا کیوں نہ جاوں ہاں کیوں نہ جاوں وہ جس نے میرے دوست کی یہ حالت کر دی میں کیسے اسے چھوڑ دوں ہاں بولو

شاہ انکو اس وقت اپکی ضرورت ہے اپ کو مینے روکا نہیں بس ابھی نہیں ابھی احمد بھای ہاس جایں سمجھیں  بات کو

زوار نے پیچھے ہو کر گن شیشے میں ماری کہ شیشہ چکنا چور ہو گیا

زینیا کی چینخ نکل گی

زوار کچھ اور اٹھانے لگا تھا کہ زینیا نے اگے ہو کر اسے گلے لگا لیا

زوار اسکے گلے لگا خود کو ٹھنڈا کرتا رہا اور پھر خود کو کمپوز کر کے پیچھے ہوا اور کپڑے لے کر واشروم چلا گیا

زینیا باہر بیٹھ کر ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگ گی

زینیا اور زوار واپس دونوں ہاسپٹل پہنچے تو سامنے اسکا چچا بیٹھا تھا

چچا جان ڈاکٹرز نے کیا کہا ہے اسنے خود پر ضبط کر کے کہا

بیٹا ابھی تک تو کچھ نہیں کہا اپریشن چل رہا ہے

صبح سے شام ہوگی اور پھر رات پر کچھ خبر نہ تھی

اور پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر ایا

تو زوار اگے ہوا اور کہا احمد کیسا ہے

دیکھیں پیشنٹ کو دو گولیاں لگیہیں ایک بازو پر اور دوسرے دل سے نیچے ہم نے نکال تو دیں ہیں پر

کیا پر اگر احمد کر کچھ بھی ہو تو یں زندہ نہیں چھوڑوں گا اگ لگا دوں گا اس ہاسپٹل کو اور اسکے ڈاکٹرز کو

دیکھیں ہم نے بہت کوشش کی پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے 

تو اب کیا بنا زوار کے چچا نے پوچھا

اور جو ڈاکٹر نے کہا زوار نے بامشکل سہارا لیا۔

دیکھیں شاہ صاحب ہم نے بہت کوشش کی انکی حالت بہت کریٹیکل ہے اگر انہیں اگلے ٢٤ گھنٹوں میں ہوش نہ ایا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا

زوار بس بینچ پر بیٹھا ایک نقطے کو گھور رہا تھا اسنے کچھ بات نہ کی

اگر انہں گولی دل پر لگ جاتی تو انکی موقع پر ہی دیتھ ہو جاتی اب بس اپکی دعا کی ضرورت ہے باقی الله خیر کرے

زوار اٹھ کر ایمرجنسی روم میں جانے لگا کے ادکے چچا نے پوچھا

کہاں جا رہے ہو

احمد سے ملنے

نہیں شاہ صاحب ابھی پرمشن نہیں اپ نہیں مل سکتے

پوچھا نہیں تم سے سمجھے اس سے ملنے کے لیے مجھے کسی پرمشن کی ضرورت نہیں اسکی اواز اس قدر اونچی تھی کہ اردگرد کے لوگ دیکھنے لگ گے ڈاکٹر بھی سہم گیا اور پیچھے ہو گیا

بھلا کون نہیں زوار شاہ اور اسکے غصے کو نہیں جانتا تھا

زوار نے اپنی انسووں سے بھری انکھوں سے مشینوں میں جکڑے احمد کو دیکھا اور بھاری قدموں کے ساتھ اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا

یار جگر اٹھ جا نہ اور کتنا تنگ کرے گا تو ان مشینوں میں جکڑا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا دیکھ اگر تونے مجھے اور ستایا نہ تو تیرا یہ ہینڈسم چہرہ ہے نہ یہ بیگاڑ دوں گا زوار کی انکھوں سے انسو گر رہے تھے

کون کہتا ہے مرد کو درد نہیں ہوتا مرد روتا نہیں کیوں اسکے سینے میں دل نہیں ہوتا اسکے جزبات نہیں ہوتے 

زوار اپنے انسوو صاف کرتا اسکے ماتھے پر کس کرتا باہر چلا گیا

زوار سنبھال خود کو اسکے چچا نے کہا تو زوار اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا گیا

زوار کو اج سگریٹ کی اشد ضرورت تھی اور وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونکی جا رہا تھا

ہر کوی دعا گو تھا پر احمد کو ہوش نہ ایا زوار کا دل جل رہا تھا زوار اٹھا اور پھر مسجد میں چلا  گیا دعا مانگ رہا تھا کہ احمد کے چچا نے اسے احمد کے ہوش میں انے کی خوشخبری دی زوار پہلے اپنے چچا کو دیکھتا رہا پھر انکے گلےلگ گیا

چچا جان سچ میں اہہہ شکر ہے خدا تیرا اور وہاں سے احمد سے ملنے کے لیے بھاگا لیکن روم کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اندر نہ گیا

اس لانتی نے مجھے بڑا تنگ کیا ہے اب تو دیکھ احمد میں بھی تجھ سے جلدی نہیں ملوں گا زوار خود سے سوچ کر مسکرا کر باہر بیٹھ گیا حلانکہ اسکا بہت دل تھا اس سے ملنے کو

احمد سب سے ملا پر جسے احمد تلاش کر رہا تھا وہ نہ تھا

زینیا احمد کے لیے سوپ نکال رہی تھی کہ احمد پوچھا

بھابھی زوار کہاں ہے

پتا نہیں زینیا نے کندھے اچکاے

چڑیل کیا اسے مجھ سے نہیں ملنا احمد نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا

احمد بھای اپ بہت بدتمیز ہیں اپ نے مجھے چڑیل کہا اب تو میں بالکل بھی نہیں بتاووں گی زینیا نے منہ بنا کر کہا

اووو بہنا تجھے نہں زوار کو چڑیل کہا احمد جلدی جلدی بات بنانے کے چکر میں کیا کہ گیا اسے تب احساس ہوا جب زینیا ہنسنے لگ گی 

اچھا اچھا اب بتا دو بھابھی احمد نے منت کرتے ہو کہا

وہ اپ سے ناراض ہیں اچھا خیر میں بھیجتی ہوں

اور باہر چلی گی

شاہ وہ احمد بھای ملنا چاہتے ہیں

اسکی بات سن کر زوار مسکرایا اور اندر کی طرف بڑھ گیا

بابھی وہ بندر ایا کہ نہیں جب کچھ جواب نہ ملا تو اسنے انکھیں کھول کر دیکا سامنے زوار سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے گھور رہا تھا

تو احمد نے دانت دیکھاے اچھا بس کر اب گھورنا

تو زوار نے اکر اسے کس کر گلے لگایا

اووو تیری خیر زوی میری پیچ اگے ڈھیلے ہیں اور تونے اور ستیاناس کر دیا

اوہ سوری یار

رین دی ہون مار تے دِتا ای اسکی بنجابی سن کر زوار ہنسا تو احمد بھی مسکرا دیا

یار احمد میں تجھ سے ناراض ہوں تونے ایسا کیوں کیازوار م

یرے ہوتے اگرتجھے کچھ ہوتا تو لانت دوستی پر میں تجھ پر کیسے انچ انے دے سکتا ہوں

اور اگر تجھے کچھ ہوجاتا تو

فل حال تو کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوں

احمد میں عمران کو زندہ نہیں چھوڑوں گا سب حساب چگتا کروں گا چھوڑوں گا نہیں

احمد کچھ کہنے لگا کہ زینیا زوار کے چچا چچی اندر اگے

یار چچا جان پلیز مجھے گھر جانا ہے ان مشینوں سے ازاد کروادیں پلیز اسنے بےچارگی سے کہا

بیٹا ابھی تم ٹھیک نہیں ہوے

یار زوی تو تو سمجھ نہ یار

تو زوار نے اییسے پہلو بدلا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو

لانت تیری شکل پر مینے کچھ بھونکا ہے

اچھا تو بھونک رہاتھا مجھے لگا شاید کتا بھونک رہا ہے اسکی بات پر سب کا مشترکا قہقہ گونجا اور احمد نے اسے ایسے گھورا جیسے ابھی کچا چبا جاے گا

جاو بچو جا کر فریش ہو جاو اور احمد کے کپڑے بھی لیتے انا تو زینیا اور زوار گھر چلے گے

کمرے میں پہنچ کر زوار کپڑے لے کر واشروم چلا گیا

زینیا کو لیڈ لاین پر سانیہ کی کال ای تو سانیہ اس سے باا  کرنے لگ گی اور اسے احمد کے بارے یں بتایا سانٕیہ کو سن کر شاک لگا اسے بھی رونا ایا فون بند کرنے کے بعد زینیا زوار کے نکلنے کا انتظار کرنے لگ گی کے زوار بنا شرٹ کے باہر نکلا

اوووو شاہ اپ ایسے کیوں باہر اگے اور منہ دوسری طرف کر لیا

زوار نے خود کی طرف دیکھا کیا ہوا یار

اپ شرٹ پہنیں

تو اسمے کیا تمہیں ہی میڈم دیکھنےکا حق ہے اور پیچھے سے ہگ کیا

زینیا تو جیسے پتھر کی بن گی

زوار نے اسکے کنھے پر تھوڑی ٹکای اور کان میں سرگوشی کی

مجھ سے کیا شرمانا جانم اور اسکے کان کی لو کو چوما

زینیا کے دل کی رفتار تیز ہوگی جیسے ابھی باہر اجاے گا

ش۔شاہ مجھے چھو۔ڑیں

چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑا اور اسکی گردن پر اپنے لب رکھ دیے

زینیا نے انکھیں میچ لیں

زینیا کی پشت زوار کے چوڑے سینے پر لگ رہی تھی

زوار نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا زینیا اسکی طرف دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی ایک تو اسکی انکھوں میں اپنے لیے محبت اور دوسرا زوار کا شرٹ لیس ہونا

جانم میں تم سے اتنی محبت کروں گا کہ تم خود مجھ سے محبت کرنے لگ جاو گی

love u i realy love you sweetheart 

زوار محبت سے چور سے چور لہجے میں کہتا اس پر جھکا

کہ زینیا نے دروازے کی طرف دیکھ کر کہا چچا جانتو ز

زوار فورا پیچھے ہوا اور دروزے کی دیکھا پر وہاں کوی نہ تھا زینیا واشروم میں بھاگ گی

سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا اس لڑکی نے زوار نے چبا کر کہا اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا پھیرتا شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر مسکرا دیا اسکی چلاکی پر

..............................

زینیا روم کے باہر بیٹھی تھی کہ سانیہ ای اور زینیا سے ملی اور زینیا نے کہا چلو احمد بھای سے مل لو

ہاں چلو تم بھی اتنا ہی کہا تھا کہ زوار ایا اور سانیہ کو دیکھا اور زینیا سے کہا چلو وہ لیڈی ڈاکٹر سے کچھ میڈیسن لینی ہیں تو زینیا اسکے ساتھ چلی گی 

زسایہ لمبا سانس لیتی اندر چلی گی احمد نے اسے دیجھا تو پہلے حیران ہوا پھر مسکرایا

سانیہ نے سلام کیا اور اسکا حال پوچھا

ٹھیک اور اب تمہیں دیکھ کر اور ٹھیک ہو گیا

اسنے ایک جزب سے کہا کہ سانیہ نے انگلیاں مڑونا شروع کر دیں

اجاو بیٹھ جاو تو سانیہ بیٹھ گی 

سانیہ کی انکھوں میں انسو تھے ایک انسو اسکی انکھ سے ٹوٹ کر گرا احمد کو اس حالت میں دیکھ کر

یہ انسو احمد کی نظروں سے چھپ نہ سکا

یہ میرے لیے رو رہی ہو یا صرف ہمدردی ہے

تو سانیہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا پر جواب نہ ہونے پر دوبارا جھکا گی

بولو بھی 

پر وہ کچھ نہ بولی

sania will u marry me?

سانیہ نے جھٹ سے چہرہ اٹھا کر دیکھا کہ ایسی حالت میں بھی 

احمد مج۔ھے وقت چا۔چاہیے تھوڑا او۔اور

لے لو جتا وقت لینا ہے میں ساری عمر تمہارا انتظار کرنے کو تیار ہوں بس انکار مت کرنا

سانیہ اسنے محبت بھرے لہجے میں کہا

ج۔جی

i love u

تو سانیہ کہ دل نے سپیڈ پکڑی اور اٹھ کر جانے لگی کہ زینیا اور زوار اے

زوار نے شیطانی مسکراہٹ احمد کو پاس کی تو احمد اسے گھورا

زینیا میں چلتی ہوں تو زینیا بھی ساتھ باہر نکل گی۔

احمد کو ہاسیٹل میں پانچ دن ہو گے تھے اور اسنے شور مچایا ہوا تھا گھر جانے کا اخر کار سب نے اسکے سامنے ہار مان لی تھی پر زوار نے شرط رکھی تھی کہ تم میرے گھر جاو گے اس پر بھی اسنے شور مچانا چاہا پر زوار کی دھمکیوں پر خاموش ہو گیا اور ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگیا

اس وقت احمد کے روم میں علی زوار اور احمد بیٹھے تھے اور احمد کو بے چینی لگی تھی کہ سانیہ بھی ای ہے یا نہیں 

اسنے انکھوں سے زوار کو اشارہ کیا تو زوار اپنی مسکراہٹ دباتا علی کو کہا یار اکیلا ایا ہے یا انٹی بھی اٸیں ہیں

نہیں یار ساتھ سانیہ ہے اس نے بھابھی سے ملنا تھا 

اچھا ایک منٹ میں ابھی ایا زوار یہ کہ کر وہاں سے چلا گیا

...............................

یار زینی تجھے کچھ بتانا ہے سانیہ نے ہاتھ مسل کر کہا

کیا بتانا ہے بتا ہچکچا نہیں

یار دراصل ۔۔۔۔۔اسنے احمد اور اپنا سارا بتایا

زینیا نے پہلے بےیقینی سے اسے دیکھا جو ہاتھ مسل رہی تھی

سچی سانی اسے ابھی بھی یقین نہیں ارہا تھا

تو سانیہ نے اثبات میں سر ہلایا

تو سانیہ خوشی سے اسکے گلے لگ گی

یار سانی احمد بھاج بہت اچھے ہیںتم انکو انکار مت کرنا اور بھی بہت کچھ بتا رہی تھی اور زوار باہر کھڑا سن کر مسکرا رہا تھا اور سوچا دوسروں کو کیسے سمجھا رہی ہے اور خود ۔۔۔۔۔۔۔

اور دروازہ کھٹکھٹا کر اندر چلا گیا

زینیا وہ احمد کو کچھ پوچھنا ہے چلو

اوکے چلو سانیہ تم بھی اسنے شرارت سے کہا تو سانیہ ہڑبڑا کر کہنے لگی چلو

سانیہ اور زینیا جا رہی تھیں کہ زوار نے زینیا کو پبارزسے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور کہا میں بھی جانتا ہوں سانیہ اور احمد کا سین

تو زینیا نے اسکی طرف دیکھا

زوار نے اسے انکھ ماری تو زینیا نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں

دوسروں کو ہدایات دیتی ہو کبھی فرصت سے میرے پاس انا اور مجھ سے بھی کچھ سیکھ لینا معنی خیزی سے کہتا اسکی گال کو چومتا کمرے میں چلا گیا زینیا نے گھبرا کر اردگرد دیکھا اور خود کو کمپوز کرتی اندر کی طرف بڑھ گی

احمد نے مسکرا کر سانٕیہ کی طرف دیکھا تو سانیہ نے علی کی طرف دیکھا کہیں وہ تو نہیں دیکھ رہا

علی یار چچی جان پوچھ رہیں ہیں زرا میرے ساتھ تو اا زوار نے احمد کو انکھ مار کر علی سے کہا تو احمد اپنی مسکراہٹ دبای وہ دونوں باہر چلے گے تو زینیا نے کہا

میں زرا اتی ہوں اور احمد بھای دھیان سے اور ساتھ میں ہنس دی اور سانیہ کو دیکھ کر باہر چلی گی

سانیہ بھی جانے لگی کہ احمد نے کہا

یار روکو وہ جان بوجھ کر کچھ دیر اکیلا چھوڑ کر گے ہیں رکو بات سن لو

تو سانیہ مرے قدموں کے ساتھ اسکے سامنے بیٹھ گی

کیا ساچا میرے بارے میں

اپ یقیناً اچھے ہیں زینی نے بھی کہا پر کیا واقع اپ مجھے پسند کرتے ہیں

پسند نہیں کرتا میں تمہیں اسکی بات سن کر سانیہ نے اسکی طرف دیکھا اور مزید بولا

پسند نہں کرتا محبت کرتا ہوں تم سے اور مسز احمد پسند میں اور محبت میں بہت فرق ہے سوو میرےی حبت کو پسند کا نام مت دو احمد نے اسکی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر کہا

تو سانیہ نے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا لیا

بولو محبت کرتی ہو

سانیہ کچھ بولنے لگی کہ زواع دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا

سانیہ نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑوایا اور باہر چلی گی

اہم اہم بڑی بات ہے زوار نے چھیڑا

احمد نے اسے گھورا اور کہا لانتی انسان تھوڑی دیر بعد نہیں اسکتا تھا ابھی تو بات بنی تھی اور تونے لڑکی کے باپ کی طرح انٹری ماری 

ہاہاہاہا اسکی بات سن کر زوار کا قہقہ گونجا

اچھا اچھا بس کر

احمد نے دیکھا زینیا ارہی ہے تو اسکی بینڈ بجانے کا سوچا اور کہا

اور میری پیاری بھابھی پلس بہنا کی سنا

زینیا و بولنے لگی تھی اسکی بات سن کر خاموش ہو گی

اسکا کیا سناووں یار دور بھاگتی رہتی ہے

کچھ نہیں ہوتا حوصلہ رکھ سمجھ جاے گی

سب سمجھتی ہے تیرے بھابھی پلس بہنا بس ویسے ہی اسے مجھے تڑپانے میں مزہ اتا ہے

تو تو نہ تڑپ

تو تو فصول بکواس بند رکھ

بھابھی اچھی ہے یار

اچھی تو ہے پر ہے چڑیل خوبصورت چڑیل

احمد اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا

زوار کچھ اور بھی بولنے لگا تھا کہ زینیا بولو

شاہ اپکو چچا جان بلا رہے ہیں

زوار نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو زینیا انکھوں میں انسو لیے اسکی طرف دیکھ رہی تھی اور واپس غصے سے دروازہ زور سے بند کر کے چلی گی

ادھر دروازہ دھڑام سے بند ہوا ادھر احمد کا قہقہ گونجا

زوار نے اسکی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا

کمینے بیغیرت لانتی بتا نہیں سکتا تھا پیچھے زینیا کھڑی ہے

ہاہااہاہا اچھا ہوا تیرے ساتھ اسی لیے نہیں بتایا ہنس ہنس کر احمد کی انکھوں میں پانی اگیا تھا

احمد کے بچے تیرا منہ توڑ دوں

احمد کا ہنسنے کی وجہ سے منہ درد کرنے لگ گیا تھا اسنے اپنے گال زور زور سے مسلے

سچی زوی بڑا مزہ ایا

اب دیکھ مجھے کیسے مزہ اتا علی کو بتاتا ہوں تیرے خیالات کے تو تنہای میں اسکی بہن کو چھوتا ہے

احمد کی ہنسی کو بریک لگی اوے مینے کب چھوا ہے

تونے نہیں چھوا یہ بس مجھے بتا ہے علی کو تو نہیں نہ

زوار تیرا حشر نشر کردوں گا اگر تونے کچھ فصول بکواس کی تو

نہیں اب ہنس نہ میری جان کو ناراض کر دیکا اب تو دیکھ یہ جو تیرا ٹانکا فٹ ہے نہ کینسل دیکھیں کرواتا

اوو سوری جگر یار تو کچھ الٹا نہ کریں تینوں رب دا واستہ ای

ہاہاہہا دفعہ ہو اور دہاں سے جانے لگا کہ احمد نے معصوم شکل بنا کر کہا

ہاہہاہاہا اب اموشنل نہ ہو نہیں کرتا کچھ اور چلا گیا

نیچے گیا تو زینیا کی طرف دیکھا جس نے اسکی طرف دیکھ کر منہ دوسری طرف کرلیا

زوار لب بھینچ کر رہ گیا اور اپنے چچا سے باتیں کرنے لگ گیا

...............................

زوار رات کو کمرے میں گیا تو زینیا اسے ایک نظر دیکھ کر بیڈ پر لیٹ کر انکھیں بند کر لیں

زوار اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اور کان میں سرگوشی کی

جانم ناراض ہے تو زینیا نے جھٹ سے انکھیں کھولیں اور اسے پرے دھکیل کر اٹھ کر بیٹھ گی

زوار نے اسے کھینچ کر اپنے اوپر گرایا اور بال کان کے پیچھے کر کے کہا سوری

نہیں میں تو چڑیل ہوں اسنے چڑیل پر زور دے کر کہا

یار خوبصورت چڑیل بھی تو تھا نا

زینیا نے خود کو چھڑوانا چاہا پر وہ زوار شاہ کی پکڑ تھی

زوار نے اسے نیچے کیا اور خود اوپر ہوگیا اور اسکے ہاتھوں پر پکڑ مضبوط کر لی

چھوڑیں اپ بات نہیں کریں مجھ سے

سوری نا یار اسنے بےچارگی سے کہا

چھوڑیں مجھے اور ہاتھ چھڑوانے چاہے

زوار نے اسکی مزاحمت کو ناکام بنا کر اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ کر اسکی سانسوں کو قید کر لیا

جب زوار پیچھے ہوا تو زینیا لمبے لمبے سانس لینے لگ گی

زوار نے اسکی انکھوں کو چوما اور کہا یہ سب احمد کا کیا دھرا ہے اسنے یہ سب کروایا اچھا اب سوری بھی

ہاں اپ تو جیسے بچے تھے سب کہتے گے اور ہاں دل میں جو تھا وہیں نکلا ہے

دل میں اور بھی بہت کچھ ہے کر کے دیکھاوں اور دوبارا اسکے لبوں کو چوم لیا زینیا شرم سے لال ہو گی

چھوڑیں

ایک شرط ر چھوڑوں گا ناراض تو نہیں

نہیں ہوں اب چھوڑیں

تو زوار پیچھے ہو گیا اور زینیا لیٹ کر سر تک کمبل تان لیا۔۔۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Pagal  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Pagal  written by Miral Shah  . Ishq Mian Pagal  by Miral Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment