Pages

Friday 3 February 2023

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 1 to 2

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 1 to 2

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Main Pagal By Miral Shah Episode 1'2


Novel Name: Tere Ishq Main Pagal

Writer Name: Miral Shah

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


وہ اسوقت کلب میں شراب کے نشےمیں بیٹھا لڑکیوں کو 

ناچتا ہوا دیکھ رہا تھا کے اتنے میں نینا   أی ہاے زوار وہ جو بلیک پینٹ شرٹ بکھرے ہوے بال ہلکی بڑی ہوی شیو ایک ہاتھ  مے قیمتی گھڑی پہنے ہوے لڑکیوں کو دیکھنے مے مگن تھا ایک دم سے اسے دیکھ کر کالی أنکھوں مے بیزاریت چھإی اور نہایت اکتاہت بھرے لہجے مے کہا کیا مسلہ ہے اور أگ.ے بھی نینا تھی اسکی بیزاریت کو اگنور کر کے بہت مزے سے کہتی OfcorZ زوی جان تم سے ملنے إٔی ہوں 

زوار نے جو ہاتھ مے شراب کا گلاس پکڑا ہوا تھا میز پر پھینک کر اٹھ گیا ابھی جانے ہی لگا تھا کے نینا نے اسکا ہاتھ پکر لیا اور کہا

کہاں جا رہے ہو زوی تو زوار نے اپنی سرخ أنکھوں سے اسکی طرف دیکھا اور کہا جہنم مے جا رہا چلو گی اور نینا نہایت ہی بےشرمی سے بولی 

زوی جان جہاں کہو گے جانے کو تیار ہوں وہ اپنی شعلہ بار أنکھوں سے اسکی ترف دیکھتا اپنا ہاتھ چھڑوا کر کلب سے باہر نکل گیا نینا بس غصے سے اسے دیکھتی رہ گی ایک تو مے اس جناب کے لیے کلب إی اوت یے جناب ہیں کے وہ یہی سب سوچتی کلب کے دسرے کونے مے چلی گی 

وہ جو گہری نیند مے سو رہی تھی ایک دم فون کی بیل بجی اس نے کوفت سے فون دیکھا تو سانیہ کا فون تھا اسنے یس کیا اور فورن شروع ہوگی کیا مسلہ ہے تم مجھے سونے کیوں نہی دیتی تم ہاتھ لگو زرا میرے تمہارا قیمہ بنا دوں گی    بریک تو زینیا کو تب لگی جب سانیہ بولی أج میم تمرین نے ٹیسٹ لینا ہے اور تم ابھی تک سو رہی ہو پانچ منٹ مے کالج پہنچو الله حافظ اتنا کہ کر سانیہ نے فون کاٹ دیا 

زینیا تو جیسے ہوش مے إی ویسے یونیفارم اٹھا کر واشروم میں چلی گٕی اور ادھر سانیہ فون کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔

زینیا نے تیار ہو کر ایک اخری نظر خود پر ڈالی وإیٹ یونیفارم ٹیل پونی کر کے حجاب کیا گوری رنگت نیلی أنکھوں مے کاجل پنک ہونٹ جنہیں لپسٹک کی ضرورت نہی ایک ہاتھ مے گرلز واچ دسرے ہاتھ مے بریسلٹ اوپر بلیک جیکٹ پہنے وہ کوٕی حور پری ہی لگ رہی تھی خود کو إٔیینے مے دیکھ کر بیگ اٹھا کر نیچے أگی

اسکی بھابھی جو بیٹھی ہوی تھی زینیا کو دیکھ کر فورن طنز مارا أگٕی مہرانی ابھی کھانا مانگے گی جیسے مے اسکے لیے لے کر بیٹھی ہوں اور بھی بہت کچھ کہ رہی تھی جو کی زینیا نیچے منہ کییے سن رہی تھی أنکھوں مے سے أنسوں نکلنے کو بےتاب تھے یہ تو روز کا معمول تھا زینیا اپنے آنسو پیتی گھر سے چلی گٕی 

...............................

زوار سو کر اٹھا تو گھڑی پر ٹایم دیکھا تو گھڑی نو بجا رہی تھی پہلے تھوڑی دیر زوار اپنا سر ہاتھوں مے گرا کر رات کی کاروإی سوچتا رہا اور پھر اٹھ کر اپنے کپڑے لے کر واشروم مے چلا گیا واشروم سے باہر نکلا تو اس کا فون وإبریٹ کر رہا تھا اس نے فون دیکھا تو احمد یار کا نمبر جگمگا رہا تھا اس کا نام دیکھ کر زوار کے منہ پر خود بہ خود مسکراہٹ چھا گی جیسے ہی اسنے یس کیا تو احمد فورن شروع ہو گیا کیا مسلہ ہے ترا کب سے فون کر رہا ہوں کہا مر گیا تھا تو اور بھی بول رہا تھا اور زوار بس سن کر مسکرا رہا تھا جب احمد کو لگا وہ بس اویں ہی بول رہا ہے تو پھر سے شروع ہو گیا اب بکواس بھی کر یا مے ہی بولوں یا تیرے منہ پر ٹیپ لگی ہوی ہے

احمد یار تو بلنے کا موقع دے گا تو مے بولوں گا اپنی بکواس ہی کییے جا رہا 

ہاں ہاں اب تو مری باتیں بکواس ہی لگیں گی خیر مینے یے بتانے کے لیے فون کیا ہے کے مے تجھ سے ناراض ہوں  احمد کی بات سن کر زوار قہقہ لگا کر ہنسا اووووووو جگر تونے یے بتانے کے لیے فون کیا تھا تو مرا اویں ٹإٕیم ہی ویسٹ کیا اور یے بات احمد کو تپانے کے لیے کافی تھی تجھے یے بات چھوٹی لگ رہی ہے کمینے انسان جا مے تجھ سے اور ناراض ہو گیا ہوں اور ہاں اگر منانا ہو تو اپنی پرانی جگہ پر آجإیں یہ کہ کر فون کاٹ دیا اور ادھر زوار کا قہقہ کمرے مے گونجا

..............................

زینیا جب کالج پہنچی تو سانیہ اسے سامنے بینچ پر بیٹھی نظر آ گی زینیا جا کر اسکے ساتھ بیٹھ گی اور بولی سوری۔

سانیہ جو اسے تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی زینیا کی بھیگی آواز سن کر فورن اسکی طرف دیکھا کیا ہوا زینی ۔

زینیا نے جیسے منہ اٹھایا رونے کی وجہ سے سرخ آنکھیں لال ناک جو رونے کی وجہ سے اور لال ہو گی تھی سانیہ نے جیسے اسکی طرف دیکھا تو اسکی شکل دیکھ کر سانیہ کو جھٹکا لگا یار زینی آج پھر بھابھی نے کچھ کہا ہے تو زینی نے اپنا سر اثبات مے ہلایا 

آہہہہ اچھا چھوڑو زینی جانووووو آو کنٹین چلتے ہیں مجھے بہت بھوک لگی ہے اور یقینن تم کو بھی لگی ہوگی چلو جانوووووو 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوار نیچے آیا تو شازیہ (زوار کی چچی) اسے دیکھ کر مسکرإی اور بولیں سلام میرا بچہ زوار نے سنجیدگی سے سلام کا جواب دیا 

جانے لگا کے شازیہ نے کہا رک جاو ناشتہ تو کر لو 

نہیں چچی جان دل نہیں آفس کر لوں گا ام کلثوم(شازیہ کے بیٹی اور زوار کی کزن) آٸ اور بولی سلام زوار بھإی جان پلیز مجھے کالج چھوڑ دیں ڈرإیور ابو ساتھ گے ہیں 

ٹھیک ہے مے باہر انتظار کر رہا ہوں    اوکے زوار ام کلثوم کو کالج چھوڑ کر خود آفس چلا گیا۔

رولنمبر 429

present mam

جی زینیا جی آپ کل کالج نہی آییں میم نے اپنا چشمہ اتار ک زینیا کو دیکھا انکے اس طرح پوچھنے پر زینیا گھبرا گی 

وہ میم میں مجھے آآآآآ

زینی بخار تھا نیچے سے آہستہ سے سانیہ نے کہا

زینیا فورن بولی جی میم وہ مجھے بخار تھا

سیریسلی مس زینیا میم تمرین نے زینیا کو جانچتی ہوی نظروں سے کہا 

یسس میم زینیا تھوڑا کھانستے ہوے اور معصومیت سے بولی 

Ok sit down

یار سانیہ کل مینے ہی اکیلی نے چھوٹی کی تھی لیکچر ختم ہونے کے بعد زینیا سانیہ سے پوچھ رہی تھی 

نہیں یار اور بھی لڑکیوں نے کی تھی کیااااا تو میم کو بس مے ہی ملی ہوں پوچھنے کے لیے ایسے ہی باتیں کرتیں کرتیں وہ کنٹین کی طرف چلی گٕیں 

...............................

زوار اپنے کیبن مے بیٹھا سر پیچھے کرسی پر ٹکا کر سگریٹ پی رہا تھا کے اتنے مے رحیم اسکا سیکرٹری آیا 

سر آج اپکی میٹنگ ہے آپ الریڈی آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گے ہیں سر رفیق آپ کا میٹنگ روم مے انتظار کر رہے ہیں 

رحیم کی بات سن کر اسنے آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا اور پوچھا

اس میٹنگ مے فإدہ کس کو ہے

سر رفیق سر کو

اچھا تو پھر انہیں اور انتظار کرنے دو آدھا گھنٹہ اور ہاں آدھے گھنٹے بعد میٹنگ روم مے آوں گا مے اب جاو تم

اسے بھہیج کر زوار سگریٹ کے بڑے بڑے کشش لینے لگ گیا 

میٹنگ سے فارغ ہو کر زوار نے احمد یار کو فون کیا

احمد جو اپنے اوپر پرفیوم کی بارش کر رہا تھا ایک دم سے اسکا فون بجا فون پر جگرزز کالنگ دیکھ کر مسکرانے لگا اور فون اٹھایا 

یسسس جگر بولو

احمد اآدھے گھنٹے مے مجھے اپنے فیورٹ ہوٹل مے  مل یے کہ کر اسنے فون کاٹ دیا تو احمد جلدی جلدی تیار ہو کر گاڑی کی چابیاں اٹھا کر گھر سے نکل گیا

...............................

سانیہ یار چل نہ وہ دیکھ آسکریم پارلر چل وہاں چل کر آسکریم کھاتے ہیں زینیا تو جیسے آسکریم دیکھ کر پاگل ہو گی 

نہیں یار زینی سردی دیکھی ہے تو پاگل ہے جو اتنی سردی مے آسکریم کھاے گی تو ایسا کر ساتھ یے ہوٹل ہے یہاں چل کر پیزا کھاتے ہیں آسکریم کو چھوڑ 

نہیں مجھے آسکریم کھانی ہے 

یار رہنے دے نہ

ہاں ٹھیک ہے تجھے تو میری کوٕی فکر ہی نہیں ہے کے میرا کچھ کھانے کو دل ہے جا کوی نی 

(ایموشنل بلیک میلنگ) 

اچھا چل میری جانو کھاتے ہیں تو منہ نہ بنا 

زینیا کھل کے مسکرای

...............................

ہو گیا بیغیرت انسان تیرا پیٹ فل یا اور کچھ کھانا ہے زوار نے احمد سے پو چھا

نہیں یار مے تجھ کو اتنا پیٹو لگتا ہوں اب مے اتنا بھی نہیں کے پیزا کھا کر فل نہ ہوں احمد اپنی بتیسی دیکھاتے ہوے کہنے لگا 

جب دونوں ہوٹل سے باہر نکلے تو احمد کا فون وایبریٹ کرنے لگا

ایک منٹ تو گاڑی کے پاس جا مے آ رہا ہوں

...............................

زینیا آسکریم لے کر جیسے ہی موڑی پیچھے کھڑے زوار کے ساتھ ٹکرای تو ساری آسکریم زوار کے کپڑوں کو لگ گی

اوہہہ سوری سوری پلیز سوری مینے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا پلیز معاف کر دیں

زینیا شرمندگی سے بار بار سوری کیے جا رہی تھی

اور زوار کی آنکھیں زینیا کے چہرے کا طواف کر رہیں تھی 

سکتہ تو اسکا تب ٹوٹا جب احمد نے پیچھے سے آ کر کہا چل یار چلتے ہیں پر جیسے ہی نظر زوار کے کپڑوں پر گی تو دھنگ رہ گیا    زوار یے کیا ہوا

یے مجھ سے غلطی سے ہو گیا ایم سوری زوار کے بولنے سے پہلے زینیا بولی 

اٹس اوکے

احمد جو سمجھ رہا تھا کے اس لڑکی کی اب خیر نہیں اسکو زوار سے کیسے بچاے تو زوار کے منہ سے اٹس اوکے کا لفظ سن کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا 

زینیا شکریہ کہ کر جا چکی تھی جب وہ نظروں سے اوجھل ہوی تو اسنے احمد کی طرف دیکھا جو اسے گھور رہا تھا 

کیا ہوا

یار زوی یے تو ہی تھا نا یار تو کب سے معاف کرنے لگا تو اور اٹس اوکے تیری ڈکشنری مے تو میرے علاوہ کسی اور کے لیے تو اٹس اوکے کا لفظ ہی نہیں تھا تو پھر یے کیا مجھے تو لگا تو اس لڑکی کو چھوڑے گا نہیں احمد بس نان سٹاپ بولے جا رہا تھا

اسٹاپ اٹ احمد یار اب مے اتنا بھی ظالم نہیں معصوم لڑکی تھی غلطی سے ہوا

زوار نے جھنجلا کر کہا

جہا تک میرا خیال ہے زوار کوی کتنا معصوم ہی کیوں نا ہو تو نہیں نخشتا کسی کو احمد اسے جانچتی ہوی نظروں سے پوچھنے لگا

اچھا میرے باپ فل حال تو تو مجھے بخش دے چل اب

زوار اسے کھینچ کر لے گیا اور احمد ابھی تک حیرت میں تھا۔

یار زینی میری أپی کی شادی ہے اور تمنے لازم أنا ہے اگر تم نا ای نا تو مینے تمکو چھوڑنا نہیں اچھا أ جاوں گی میری جان بس بھای اجازت دے دیں 

وہ دونوں اس وقت بس سٹاپ پے کھڑی بس کا انتظار کر رہیں تھیں 

اچھا مے جا رہی ہوں میری بس أ گی الله حافظ اور ہاں اپنے بھای سے بات کر لی

کچھ دیر بعد زینیا بھی اپنی بس مے اپنے گھر کے لیے روانہ ہو گی

زینیا جب گھر پہنچی تو فرقان زینیا کا بھای سامنے بیٹھا تھا زینیا ڈرتی ڈرتی اسکے پاس جا کر بیٹھ گی اور اپنے ہاتھ ملنے لگی 

بھای وہ کچھ بات کرنی ہے

بولو فرقان نے کافی بیزاریت سے کہا

بھای سانیہ کی بہن کی شادی ہے کیا مے جا سکتی ہوں 

اچھا ٹھیک ہے

اتنی اسانی سے مان جانے پر تو زینیا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا

شکریہ بھای وہ یہ کہ کر اپنے کمرے مے چلی گی

اسکے جانے کے بعد ریحانہ اسکی بھابھی فورا بولی اپنے اسے اجازت کیوں دی

اسی لیے دی تکہ اس بلا سے کچھ دن جان چھوٹ جاے

زینیا نے اجازت ملنے والی خوشخبری سانہ کو سنای اور کپڑے لے کر واشروم مے چلی گی

...............................

زوار بیٹھا زینیا کے بارے مے سوچ رہا تھا کے ایک دم سے دروازہ کھٹکا 

زوار بھای کیا مے اجاوں

اجاو گڑیا

زی بھای نیچے مہمان اے ہیں علی بھای اور انکی فیملی ای ہے

اوکے ارہا ہوں

زوار ڈراینگ روم مے جاتا ہے تو علی اور اسکی فیملی پیٹھی ہوی تھی زوار سب سے مل کر علی سے گلے ملا اور بیٹھ گیا

زوار یے کارڈ ہے میری بہن کی شادی ہے اور تمنے لازمی انا ہے

دیکھوں گا

زوار دیکھوں گا نہیں پکا انا ہے ورنہ تجھے اٹھا کر لے جاوں گا

اچھا اجاوں گا

اتنے مے احمد ایا تو اسنے بھی سبکو مشترکہ سلام کیا اور علی سے مل کر بیٹھ گیا 

علی خیر تو یہاں احمد نے علی سے پوچھا

شکر ہے احمد تو یہیں مل گیا ورنہ تیرے گھر جانا پڑتا یہ لے میری بہن کی شادی کا کارڈ تونے انا ہے لازمی

زوار تو جا رہا ہے شادی پر احمد نے زوار سے پوچھا

ہاں جا رہا ہوں

تو ٹھیک ہے علی تیری بہن کی شادی مے میں ضرور اوں گا

اوکے ہم چلتے ہیں کہیں اور بھی جانا ہے الله حافظ ٕعلی انسے مل کر چلا گیا

شازیہ بھی رات کے ڈنر کی تیاری کے لیے اٹھ گی

اب ڈاینگ روم مے زوار اور احمد رہ گے تھے زوار صوفے کی پشت پر سر ٹکا کر انکھیں موند کر کچھ سوچ رہا تھا اور احمد اسے دیکھ رہا تھا اخر رہا نہ گیا تو اسنے کہ دیا

اووو بینیرت انسان کونسی یادوں مے گم ہے کہ تجھے مے نظر نہیں ارہا

زوار نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کچھ نہیں

زوی کیا ہوا تو ٹھیک تو ہے

ہاں ٹھیک ہوں یار

اچھا ایک بات تو بتا احمد نے کافی سنجیدگی سے کہا

زوار بھی سیدھا ہو کر سنجیدگی سے دیکھنے لگا

ہاں بول

تم لوگوں کے ڈنر کا وقت کب ہونا ہے

کچھ دیر مے ہی کیو زوار نے جھنجلا کر کہا

یار بڑی بھوک لگی ہے اج یہی ڈنر کر لوں سوچ رہا ہوں ویسے بھی اب کھاے بنا مہمان جاے تو اچھی بات نہیں نا ہے ڈنر تو ہونے ہی والا ہے تم لوگوں کو گھر احمد نے کافی معصومیت سے کہا

اور کمینے انسان تجھے ایسا کیوں لگتا ہے کے مے تجھے یہاں ڈنر کرنے دوں گا اور رہی بات مہمان کی تو تو کہا سے مہمان ہے زوار نے اسے گھور کر کہا اور سوچا یہ کبھی سیریس نہیں ہو سکتا

ہاے دوست دوست نا رہا مے ایتھے کلا رہ گیا احمد کی دوہایاں عروج پر تھی

بکواس بند کر اپنی زوار نے مسکرا کر کہا

چچی چچی جان احمد اونچی اونچی شازیہ کو بلانے لگ گیا

بولو بیٹا کیا بات ہے

چچی کیا مے ڈنر ییاں سے کر لوں نہایت معصومیت سے کہا کہ زوار غش کھاتا رہ گیا کمینے اور منہ مے بڑبڑایہ

کیوں نہیں بیٹا کھا لو مینے تو پہلے تمہے کھا تھا کے ڈنر ہمارے ساتھ کرنا مے کھانا لگاتی ہوں تم دونوں اجاو وہ یہ کہ کر چلی گی اور احمد نے اپنا کارلر جھاڑا 

زوار احمد پر لانت بھیجتا اٹھ گیا

کھانا کھانے کے بعد 

چل یار احمد کلب مے چلتے ہیں زوار نے احمد سے کہا 

نہیں زوی میرا دل نہیں ہے

ہاں کھانا ٹھوس لیا اب تیرا دل نہیں ہے

احمد بس اسے گھورتا ہی رہ گیا

تو چل رہا ہے احمد یا مے ایک لگاوں

اور احمد کسی لڑکی کی طرح زوار کے کندھے پر سر رکھ کر کہنے لھا ڈارلنگ اب تم مجھے ایک لگاو گے 

اسنے اتنے ڈرامای انداز مے کہا کے اسکا قہقہ پورے گھر مے گونجا شاید وہ بہت عرصے بعد ایسے کھل کر ہنسا تھا احمد نے اور شازہ نے مل کر اسکی خوشی کی دعا کی

اور زوار اسے کھینچ کر گاڑی کی طرف لے گیا اور دونوں کلب کی طرف روانہ ہو گے 

...............................

تین دن بعد شادی ہے تم ارہی ہو نا اس وقت دونوں کال پے بات کر رہیں تھیں

ہاں جانو ارہی ہوں پکا والا اوں گی

مکرو گی تو نہیں نہ

نہیں مکرتی یار اب ساین کر کے دوں 

اسنے اکتاہتے ہوے کہا 

کیوں کے جب سے فون کیا تھا وہ ایک ہی رٹ لگا کر بیٹھی تھی

...............................

"روپ کے جلووں کی ہاے کیا بات ہے

اک گناہ کر دوں گناہ کی رات ہے"

وہ دونوں کلب مے بیٹھے تھے اور زوار نے بے حد شراب پی رکھی تھی

احمد اسے پینے سے منع کرتا پر وہ یہ کہ دیتا یار احمد اسے پینے سے مجھے تسکین ملتی ہے سکون ہے اسمے تو بھی پی یار مزہ ے اور احمد انکار کر دیتا

احمد کو شراب بلکل پسند نہیں تھی وہ کلب اتا تو تھا پر شراب نہیں پیتا تھا اور جب زوار احمد کے ساتہ کلب اے تو وہ کچھ زیادہ ہی پی لیتا تھا کیوں کے وہ جانتا تھا احمد اسے سنبھال لے گا

یا.ر اح...مد نینا کہا.ں ہے دیکھ تجھ.ے نظر أ رہی ہے

اسنے بامشکل یے لفظ ادا کیے شراب پینے کی وجہ سے اسکی انکھیں لال ہو چکیں تھی

مجھے نہیں پتا وہ کہا ہے احمد جانتا تھا وہ اسوقت نینا کا کیوں پوچھ رہا ہے اسے اسوقت لڑکی کی ضرورت تھی

دو لڑکیا ناچتی ناچتی اسکے پاس ای کبھی اسکی شرٹ کھینچتی تو کبھی اسکے منہ کے ساتھ اپنا منہ مس کرتیں اور زوار بس لطف اندوز ہو رہا تھا

احمد کو بہت غصہ ارہا تھا جب یے سب اسکی برداشت سے باہر ہوا تو اسنے لڑکیوں کو دھکا دے کر زوار سے کہا چل ہم یہاں سے چلتے ہیں

ارے بڈی ابھی تو مزہ انے لگا اور تو جانے کو کہ رہا ہے

می کہ رہا ہوں نہ چل ورنہ مجھ سے برا کوی نہیں ہوگا

نہیں مجھے نہیں جانا وہ بصد ہوا

کیوں نہیں جانا تیرے تو اچھے بھی جایں گے احمد نے اسے اٹھا کر لا کر گاڑی مے پٹکا

زوار اٹھنے لگا کے احمد نے اسے دھکا دے کر دوبارہ سیٹ پر گرا دیا

تو یہاں سے ہلے گا بھی نہیں ورنہ دو لگاوں گا

احمد کی بات سن کر زوار مسکرایا اور بولا

اوکے بڈی نہیں جاتا اور کسی چھوٹے بچے کی طرح منہ پر انگلی رکھ کر سیٹ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا

احمد نے گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا

اسنے اسے لا کر بیڈ پر لیٹایا اور خود پاس بیٹھ گیا زوار سو چکا تھا۔

زوار کی انکھ کھولی تو اسنے دیکھا یہ اسکا کمرہ تو نہیں تھا اسنے اپنی باییں جانب دیکھا تو احمد بیٹھا بیٹھا ہی سو چکا تھا زوار مسکرانے لگا اسنے اٹھ کر احمد کے کندھے پر سر رکھا کیونکہ یہ جانتا تھا احمد نیند کا بہت کچا ہے 

احمد نے اپنی نیند سے بھری انکھوں سے زوار کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا

زوار نے بھی اسے دیکھ کر سمایل پاس کی

اٹھ گیا تو زوی

ہاں اٹھ گیا

ہم یہاں کیسے پہنچے زوار نے احمد سے کہا

گاڑی سے اے ہیں احمد نے لاپرواہی سے کہا

میرا مطلب ہم تو۔۔

رات کو کلب مے تھے

احمد زوار کی بات کاٹ کر بولا

اچھا تو پھر یہاں کب اے زوار ابھی بھی الجھا ہوا تھا

واہ جناب کو کچھ بھی یاد نہیں کم پی لینی تھی

احمد نے طنز کیا

سوری یار کچھ زیادہ ہی پی لی تھی

کچھ زیادہ نہیں بہت زیادہ پی لی تھی اسی لیے جناب کو نینا یاد ا رہی تھی

احمد نے گھور کر کہا

کیاااااااااا

احمد کی بات سن کر زوار ایک دم سے چینخا اور احمد نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا 

جی ہاں

تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔زوار نے بات ادھوری چھوڑ دی

جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا میرے ہوتے بھلا ایسا کچھ ہو سکتا ہے پر تیرے پورے پلین تھے

احمد کہ کے بیڈ سے اٹھ گیا

زوار اٹھنے لگا تو ایک دم سے اسکی کمر مے درد ہوا

اہ۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا زوی

احمد نے فورا فکرمندی سے پو چھا

یار میری کمر مے درد نکلا

ہااہااہہاہا زوار کی بات سن کر احمد زور سے ہنسا اور کہا

تجھے کچھ یاد نہیں ہے

نہیں یار کیا ہوا جلدی بھونک

بتاتا ہوں رات کو جناب کا کلب سے جانے کا دل نہیں تھا تو مینے اٹھا کر لا تجھے گاڑی مے پٹھکا اسی لیے درد ہو ریا ہوگا

احمد کی بات سن کر زوار پہلے حیرت سے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا

اچھا زوار تو ریڈی ہو تب تک مے کچھ کھانے کو لاتا ہوں 

چل ٹھیک ہے

...............................

زینیا تیار ہو کر نیچے ای تو سامنے بھابھی کھڑی تھیں

سلام بھابھی زینیا نے ادب سے کہا

کالج بعد مے جانا پہلے گھر کی صفای کرلو میری طبیعت ٹھیک نہیں بھابھی نے نیا ارڈر صادر کیا

لیکن بھابھی اج میرا امپورٹنٹ لیکچر ہے مے اکر کر دوں گی

تو کیا اتنی دیر گھر گندا رہے گا ایک کام کیا کہ دوں تمھارے بہانے ہی ختم نہیں ہوتے

نہیں بھابھی ایسی بات نہیں ہے اج میرا فرسٹ پریڈ ہے بہت ضروری مینے وہ۔۔۔

ٹھاہ

ابھی اتنا ہی بعلی تھی کہ فرقان نے زینیا کے منہ پر ٹھپر مارا اور زینیا زمین پر جا گری انسو تیزی سے بہنے لگے

زبان لڑاتی ہے اپنی بھابھی سے جاو جا کر صفای کرو نہیں جانا تمنے اج کالج ای بڑی زبان لڑانے والی

زینیا روتی روتی کمرے مے چلی گی

جلدی باہر او صفای کرنی ہے پیچھے سے بھابھی نے ہانک لگای

...............................

احمد کے جانے کے بعد زوار اٹھا تھا کہ اسکا فون وایبریٹ ہونے لگا

اسنے دیکھا تو ان ناون نمبر تھا

کون؟؟؟

شاہ کیسا ہے تو

زوار یے اواز تو لاکھوں مے بھی پہچان سکتا تھا 

کمینے تیری ہمت بھی کیسے ہوی مجھے فون کرنے کی

کول ڈاون شاہ یار اخر میں تمہارے پاپا کا دوست ہوں

بکواس بند کرو اپنی دوست لانت بھیجتا ہوں م جھ پر

زوار نے غصے سے چلا کر کہا

ہاہاہاہاہا شاہ مجھے تو لگا تو مجھ سے بدلہ لے گا پر تو تو کاہروں کی طرح چھپ کر بیٹھ گیا ہاہاہاہاہ اسنے قہقہ لگایا

اسکی بات سن کر زوار نے بھی قہقہ لگایا اور کہا تجھے کیا لگتا ہے کے زوار شاہ ڈر گیا شیر ابھی سویا نہیں ہے باقی سب کے لیے شاہ نے اپنے اندر کا درندہ سلا دیا پر تو شاہ کو اچھے سے جانتا ہے مے کسی کو معاف نہیں کرتا تجھے بھی مے زمین مے زندہ گاڑ دوں گا تو بھی میرے ہاتھوں مرے گا کمینے انسان

زوار کی بات سن کر اسکا رنگ ایک دم فیقا پڑا

تم تم مجھے کبھی نہیں ڈھونڈ سکتے شاہ

کسے تسلی دے رہے ہو تم عمران اپنے أپ کو یہ بات تم بھی جانتے ہو زوار شاہ کے لیے کچھ بھی  تم مشکل نہیں چل سن وہ جو تیری خوفیا ڈیل تھی جو تونے سإین ہونے کے بعد سبکے سامنے لانی تھی جانتا ہے وہ کینسل کس نے کروای مینے ہاہاہاہااہاہاہاہا زوار قہقہ لگا ک ہنسا

اور ادھر اسے جیسے اگ لگ گی ہو ہاں وہ کیسے بھول سکتا تھا اسکے اندر پلنے والے درندے کو یہ بات واقع ہی سچ تھی کے وہ اسے ڈھونڈ لے گا تو شاہ وہ ڈیل تمنے کینسل کروای تھی مے تجھے نہیں چھوڑوں گا

اسکی بات سن کر زوار کا قہقہ گونجا 

اچھا دیکھتے ہیں تیرے تو مے اتنے ٹکڑے کروں گا کے تیرے گھر والے گنتے گنتے تھک جاییں گے 

یہ کہ کر اسنے فون کاٹ دیا 

ادھر عمران نے فون زمین پر پھینک کر توڑ دیا

زوار کے غصے کی بھی انتہا نہ تھی غصے مے ہر چیز توڑ رہا تھا اب اسکا غصہ ایک شخص ہی ٹھنڈا کر سکتا تھا اور وہ تھا احمد۔

زینیا اپنے کمرے مے بیٹھی اپنے ماما بابا کی تصویر دیکھ کر رو رہی تھی

ماما بابا اپ مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گے بھای بھابھی بلکل بھی اچھے نہیں ہیں

زینیا کے بابا وقاس اور ماما علینہ کا ایکسیڈنٹ مے انتقال ہو گیا تھا علینہ وقاس کی دوسری بیوی تھی اور سارا اسکی پہلی بیوی اور فرقان کی ماما تھی

فرقان کے پیدا ہونے کے دو سال بعد مر گی تھی تو وقاس نے دوسری شادی کر لی فرقان کو علینہ بالکل پسند نہیں تھی حالانکہ وہ بہت اچھی تھی اسی لیے فرقان زینیا کو ناپسند کرتا تھا یہ بات زینیا کو نہیں پتا تھا کہ فرقان اسکا سوتیلا بھای ہے فرقان کے گھر اولاد نہ ہونے کا قصوروار بھی یہ زینیا کو سمجھتا تھا

زینیا روتی روتی ہی سو گی تھی

...............................

زوار شراب پی رہا تھا کہ کسی نے اکر اسے ٹھپر مارا اور زوار لڑکھڑاتا ہوا زمین پر گر گیا غصے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بس اپنا غصہ ضبط کرتا ہی رہ گیا

جی ہاں وہ اور کوی نہیں احمد تھا جس مے اتنی ہمت تھی ورنہ کوی اور ایسا کرتا تو زوار اسے ایک تھپر کے بدلے سو ٹکرے کر چکا ہوتا

احمد نے زوار کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کر رہے ہو کمرے کی کیا حالت بنای ہوی ہے اپنی حالت بھی دیکھ کیا ہو گیا ہے زوار تجھے

اح۔مد اس بی۔غیر۔ت انسا۔ن کا فون ایا تھا سب اس۔کا قصو۔ر ہے تو سمج۔ھ رہا ہے نہ 

زوار نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے کہا

کسکا فون احمد نے ناسمجھی سے کہا

عمران کا

کیا تو یہ سب اسکا کیا دھرا ہے اسکی تو ۔۔۔۔۔۔

اور زوار یہ تونے اپنی حالت ایسی کیوں بنای ہے 

احمد کو بھی شدید غصہ ارہا تھا

احمد اسکے فو۔ن کر۔نے سے سب می۔رے زہن مے گھو۔م رہا ہے اپن۔ی ماں کی حا۔لت بابا۔۔۔۔۔۔۔

زوار نے غصے سے شراب کی بوتل توڑ کر کانچ اٹھایا ہی تھا کہ احمد نے کانچ کھینچ کر اسکے منہ پر ایک اور تھپڑ لگایا کانچ کھینچنے کی وجہ سے احمد کے ہاتھ پر لگ گیا تھا

زوار تھپڑ کھانے کے بعد دوبارہ کانچ اٹھانے لگا کے احمد نے اسکی کنپٹی پر مارا کہ وہ بےہوش ہو گیا 

کیونکہ احمد جانتا تھا اگر وہ اسے بےہوش نہ کرتا تو وہ غصے مے خود کو نقصان پہنچاتا 

اسنے زوار کو بیڈ پر لیٹایا اور خود پاس چیر پر بیٹھ کر سگریٹ سلگانے لگا

...............................

سانیہ نے زینیا کو کتنی دفعہ فون کیا اخر پانچویں دفعہ زینیا نے اٹھا لیا

کیا یار زینی کب سے فون کر رہی ہوں

زینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زینیا بول بھی

ہاں سن رہی ہوں رونے کی وجہ سے اواز بھاری ہو گی تھی

یار زینی تو روی ہے کیوں اور کالج بھی نہیں ای

کچھ نہیں

جلدی بول کوی بہانہ نہیں

تو اسنے سب سانیہ کو بتایا اور ساتھ رونے لگ گی

سانیہ اسے تسلی دینے لگی چھوڑ زینی اج تونے میرے گھر انا ہے نہ تو پھر کچھ دن میرے گھر رہے گی تو ریلیکس ہو جاے گی شادی بھی تو ہے ہےنہ چل رعنا نہیں اب

چل ٹھیک ہے الله حافظ 

الله حافظ

...............................

احمد اسوقت کرسی پہ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا سگریٹ پینے کی وجہ سے اسکی انکھیں لال ہو چکیں تھیں ایشل ٹرے بھر چکا تھا ایک تو اس غم مے پی رہا تھا کہ اتنے عرصے کی محنت پہ پانی پھر گیا جو اسنے بہت مشکل سے زوار کے اندر کے درندے کو سلایا تھا وہ پھر جاگ چکا تھا اور دوسرا زوار کو مارنے کی وجہ سے پی رہا تھا اسے بہت دکھ ہو رہا تھا اسے مارنے پہ پھر یہ سوچتا اگر نہ مارتا تو وہ خود کو نقصان پہنچتا زوار کی انکھ کھولی تو اسنے دیکھا احمد کرسی پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اسنے احمد کو بلایا 

احمد یار

تو اسنے زور کی طرف دیکھا اور سگریٹ ایشل ٹرے مے مسل کر اسکے پاس بیٹھ گیا اور کہا

اب تو ٹھیک ہے زوار

نہیں أحمد میرا سر بہت پھٹ رہا ہے بہت زیادہ اسنے اپنا سر پکڑ کر کہا 

احمد مے اس انسان کو زندہ نہیں چھوڑوں گا جیسے اسنے میرے ماما بابا کو مارا اسسے زیادہ درد ناک موت دوں گا

دیں گے زوار پر تسلی رکھ غصے مے کچھ غلط مت کریں سمجھا اسکی پہلے ہر پیاری چیز کو تباہ کرنا ہے پھر اسکو تو سمجھ رہا ہے نہ 

احمد اسے پھر سے سمجھا رہا تھا جاکہ جانتا تھا زوار کو اب سمجھانا بہت مشکل کام تھا

ہاں سمجھ گیا

زوار نے اچانک شیشے مے دیکھا تو اسکا تھوبڑا بگڑا ہوا تھا اسکے ہونٹ پہ خون جم چکا تھا ہلکا سا سوجھ چکا تھا زوار یہ دیکھ کر مسکرایا اور کہا یہ تیرا کارنامہ ہے نہ احمد 

سوری زوی یہ کہ کر احمد زوار کے گلے لگ گیا

جانتا ہوں میری حسین شکل تونے کیوں بیگاڑ دی ہے 

احمد نے بتیسی دیکھای اور سوچا شکر ہے اسکا اس ثاپک سے دھیان ہٹا

اچھا زوی بیٹھ مے کھانا لے کر اتا ہوں وہ یہ کہ کر باہر چلا گیا

اور زوار خود کو شیشے مے دیکھنے لگ گیا

یہ لے زوی کھانا کھا لے

نہیں میرا موڈ نہیں

پلیز یار لڑکیوں کی طرح نکھرے نہ دیکھا مینے خود سے وعدہ کیا ہے کہ مے اپنے ہاتھوں سے کھانا صرف اپنے عزیز جان بیوی کو ہی کھلاوں گا اسی لیے نکھرے نہ دیکھا اور چپ چاپ کھا لے

زوار اسکی بات سن کر مسکرایا اور بولا نہیں یار میرا دل۔۔۔

ابھ اتنا ہی کہا تھا کہ احمد اسکی بات کاٹ کر بولا بولاکھا لے ورنہ تیری یہ شکل اور بیگاڑ دوں گا اسنے دھمکی دی

تو زوار کھانا کھانے لگ گیا 

...............................

زینیا کو اجازت تو مل گی تھی وہ جانتی تھی اب اسکا بھای اسے روکے گا نہیں جانے دے گا وہ پیکنگ کر رہی تھی کیونکہ پرسوں سانیہ کی بہن کی مہندی تھی 

بیگ لے کر نیچے ای تو سامنے اسکا بھای بیٹھا تھا اسے خدا حافظ بول کر چلی گی

شکر ہے کچھ دن اس بلا سے جان چھوٹ گی

...............................

کھانا کھانے کے بعد احمد برتن رکھ کر صوفے پر بیٹھ اور سنجیدگی سے بولا

شاہ اب مجھے سب بتاو

احمد اسے شاہ تب ہی بولتا تھا جب وہ بہت زیادہ سنجیدہ ہو

زوار نے اسے سب بتایا تو احمد کا خون خولنے لگا اسکا دل کیا سب تباہ کر دے پر اگر وہ خود اپے سے باہر ہو گیا تو زوار کو کون سنبھالے گا اسی لیے اسے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا تھا

احمد نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا 

زوار قاسم کو فون کر اور ملنے کے لیے بلا اسے عمران پر نظر رکھنے کو کہا تھا دیکھتے ہیں کیا خبر دیتا ہے اور اگلی کاروای علی کی بہن کی شادی کے بعد کریں گے 

شاہ تو ٹھنڈا رہیں ورنہ عمران کی جگہ تیرا حشر نشر کر دوں گا

احمد کی بات سن کر اسنے قاسم کو فون کیا اور احمد کے گھر بلا لیا

احمد گھر مے اکیلا رہتا تھا اسکے ماں باپ نہیں تھے۔

زینیا جب سانیہ کے گھر پہنچی تو سب نے اسکا بہت اچھے سے استقبال کیا سانیہ کی امی بھی اسے بہت اچھے سے ملیں سب سے ملنے کے بعد سانیہ اسے اپنے کمرے مے لے ای

لو زینی یہ میرا کمرا تم فریش ہو جاو مے کھانا لے کر اتی ہوں پھر دونوں مل کر کھاتے ہیں

وہ اسے کہ کر چلی گی 

اور زینیا بھی فریش ہونے چلی گی

...............................

زوار کے بلانے پر اب قاسم انکے پاس کھڑا تھا

اور بتاو قاسم عمران کی کوی خبر زوار نے قاسم سے پوچھا

جی شاہ سإیں عمران لڑکیوں کی سمگلنگ حیدراباد کر رہا ہے بس تاریخ معلوم کرنا رہ گی ہے وہ بھی جلدی پتا چل جاے گی

کب پتا کرو گے جب وہ لڑکیوں کو حیدراباد بھیج دے گا

زوار نے گرج کر کہا

تو مانو جیسے قاسم کے ہوش اڑ گے ہوں

وہ شاہ ساییں فکر نہیں کریں کام ہو جاے گا

اسنے ڈرتے ڈرتے کہا

وہ تو ہونا ہی چاہیے اگر نہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسنے فقرہ ادھورہ چھوڑ دیا

قاسم نے مدد طلب نظروں سے احمد کی طرف دیکھا

تو احمد اپنی ہنسی کنٹرول کرتا قاسم سے کہنے لگا

جاو قاسم کام کر کے بتانا

تو قاسم شکر کا سانس لیتا وہاں سے چلا گیا

یار زوی کم از کم قاسم کو تو بخش دے وہ تو ہمارا وفادار ہے

یہی دھمکیوں کی وجہ سے ہی وفادار ہے اور مجھے تیرے علاوہ کسی پر بھی یقین نہیں کیا پتا یہ بھی غدار ہو

احمد نے افسوس سے اسکی طرف دیکھا

اور کہا کیا پتا مے بھی غدار ہوں

اسکی بات سن کر زوار مسکرایا اور پھر سنجیدگی سے بولا 

امپوسیبل تو میرا جگر ہے دل ہے تو مجھے کبھی دھوکہ نہیں دے سکتا تجھ پر انکھ بند کر کر یقین ہے

احمد اسکی بات سن کر مسکرا دیا اور بولا

بل فرض اگر نکل ایا تو؟

تو احمد مے خود کی جان لے لوں گا

زوار کی بات سن کر احمد کے تیور بدلے اور کشن اٹھا کر مارنا شروع کر دیے 

تیری ہمت بھی کیسے ہوی ایسا کہنے کی کبھی سوچی بھی نہ ورنہ مے بھی خود کی جان لے لوں گا 

تو احمد تو بھی ایسا کبھی مت سوچیں تجھ پر خود سے بھی بڑھ کر یقین ہے

احمد نے زوار کو کھڑا ہونے کو کہا تو وہ ناسمجھتے ہوے کھڑا ہوا تو احمد نے اسے گلے لگا لیا

شکریا زوی اس یقین کے لیے

چل اسی خوشی مے پیزا کھاتے ہیں

تو زوار نے اسے گھور کر دیکھا تیرا یہ پیٹ کب فل ہوگا

میرے مرنے کے بعد احمد نے اپنی بتیسی دیکھاتے ہوے کہا

تجھے مرنے کا زیادہ شوق نہیں یہ نیک کام مے اپنے ہاتھوں سے نہ کر دوں 

زوار نے گھور کر کہا

ہاے زوی جان اپکے ہاتھوں تو مرنا بھی منظور ہے

یہ کہ کر اسنے باہر دوڑ لگا دی کیونکہ زوار کو اس لاین سے سخت چڑ تھی 

اکثر نینا اسے یہ کہتی تھی

احمد کے بچے ہاتھ لگ تو زرا میرے

زوار نے چلا کر کہا

سوری زوی میرے بچے نہیں ہے

جب دونوں بھاگ بھاگ کر تھک گے تو دونوں کھڑے ہو کر ہنسنے لگ گے

چل پیزا کھانے چلتے ہیں زوار نے احمد سے کہا تو دونوں گاڑی مے بیٹھ گے

احمد نے فون نکالا اور ارسلان کو فون کیا کمرے کی حالت چینج کرنے کو کہا اور کہا مے لسٹ بھیج رہا ہوں سامان لے کر گھر جا کر صحیح کروا دے

زوار نے اسے ناسمجھی سے دیکھا

تو احمد نے کہا جو تونے میرے گھر کا بیڑا گرک کیا ہے اسے صحیح نہیں کروانا ایسے تو مے وہاں نہیں رہوں گا پیزا کھانے کے بعد زوار اسے گھر چھوڑ کر خود بھی چلا گیا گھر۔۔۔

اففففف زینی ابھی تک تیار نہیں ہوی 

بس ہونے لگی ہوں یہ ٹوکریاں انٹی کو دے اوں

زینی کام ہی کرتی ہے صبح سے اب تیار ہوجا مے دے اتی ہوں امی کو 

سانیہ زینیا سے ٹوکریاں لے کر چلی گی 

تو زینیا بھی کپڑے اٹھا کر واشروم مے چلی گی

سانی اور زینی کا ڈریس ایک جیسا تھا

زینی مے تیار ہو گی ہوں تو بھی تیار ہو جا مے اپی کو دیکھ اوں

زینیا نے تیار ہو کر خود کو اینے مے دیکھا 

پیلے رنگ کی کڑتی اور گرین رنگ کا لہنگا جس پر گولڈن کام ہوا تھا اوپر پیلے اور گرین کلر کا دوپٹہ جو طریقے سے سیٹ کیا تھا بالوں کی چوٹیا بنا کر اس پر پھول لگاے ہاتھوں مے گجرے کانوں مے جھمکے نیلی انکھوں مے کاجل پنک کلر کی لپسٹک اور گولڈن کلر کی شوز پہنٕے وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ لگ رہی تھی

خود کو اینے مے دیکھ کر خود ہی شرما گی

تم تیار ہو گی زینی چلا چل۔۔۔۔ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ زینیا کو دیکھ کر خاموش ہو گی

اسکے چپ ہونے پر اسنے پہلے خود کو دیکھا پھر پھر سانیہ کو۔۔

کیا ہوا سانی اوووررر لگ رہا ہے 

نہیں زینی

You look osaammm

Beautifull

الله تجھے نظر نہ لگاے جانو یہ کہ کر وہ اسکے گلے لگ گی

چل اب چلتے ہیں جانوں

...............................

زوار تیار ہو کر خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا کہ احمد واشروم سے نکلا

دونوں جہاں بھی جاتے تھے اکھٹے تیار ہوتے اور ایک جیسا سوٹ پہنتے تھے

واہ زوی تو تو مجھ سے زیادہ ہینڈسم ہوتا جا رہا ہے اور چٹا بھی کونسی کریم لگاتا ہے

احمد تولیے سے اپنے بال رگڑتا نارمل اناز مے کہ کے اسے اگ لگا چکا تھا

کمینے انسان پہلے ہی ہینڈسم تھا مے اور تیرے سسر نے کریم لا کر دی ہے لانتی نہ ہو تو

زوار نے گھور کر کہا

زوار کی بات سن کر احمد ہنسنے لگ گیا 

اور زوار احمد کو گھور کر خود کو اینیے مے دیکھنے لگ گیا

اسنے وایٹ شلوار قمیض اوپر کالی واسکٹ پہنے ایک ہاتھ مے قیمتی واچ اور ہمیشہ کی طرح بال ویسے ہی بے ترتیبی لیکن پھر بھی وہ کسی ریاست ریاست کا بادشاہ ہی لگ رہا تھا

اسکے مقابل احمد کی بھی سیم ڈریسنگ تھی بس بال ترتیب سے سیٹ تھے اور وہ بھی بے انتیہا ہینڈسم لگ رہا تھا

...............................

ہاے عایشہ اپی اپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں زینیا نے کھل کر تعریف کی تو وہ شرما دیں اور سب ہنس دیے

چلو لڑکیو جلدی او مہندی اتی ہی ہوگی چلو چلو

تو سب نیچے چلیں گی

...............................

ہاے زوار احمد اگے تم دونوں علی نے گلے ملتے ہوے کہا

نہیں ابھی رستے مے ہی ہیں احمد نے جل کر کہا

اس کی بات سن کر علی نے قہقہ لگایا اور زوار مسکرانے لگ گیا

چلو اندر چلتے ہیں

جب اندر اے تو زوار کی سٹیج پر نظر گی اور ٹھہر گی وہاں زینیا کھڑی کسی بات پر ہنس رہی تھی

زوار کی نظر اس پر سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے ہی تھی

اوے زوی کدھر کھو گیا چل چلتے ہیں احمد نے بازو سے ہلا کر کہا

ہاں ہاں چل زوار نے گڑبڑا کر کہا

تو احمد اسے شکی نظروں سے دیکھنے لگ گیا

چل کمینے اب نظر نہ لگا دیں چل اب

زینیا بیٹی جاو اندر سے پھولوں کی ٹوکریاں لے او مہمان اتے ہی ہوں گے

جی انٹی ابھی لے کر ای

زوار کا فون بجا تو دیکھا شازیہ کا فون تھا

ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ہیلو

احمد مے فون سن کر ایا یہاں اواز نہیں ا رہی

زوار فون سنتا سنتا کچن کی طرف چلا ایام

فون سنے کے بعد جیسے ہی موڑا زینیا کے اندر ٹکرایا زینیا گرنے لگی کے زوار نے اسے پکڑ لیا اور جو ہاتھ مے پھولوں کی ایک ٹوکری تھی وہ ان دونوں کے اوپر گر گی زینیا نے اپنی انکھیں میچیں اسکی شرٹ کو کس کر پکڑا ہوا تھا

کہ زوار نے اسکے کان مے سرگوشی کی

مس اپ بچ گی ہیں گرنے سے

زینیا نے انکھیں کھولیں تو زینیا اسکی باہوں مے تھی

زوار اسکی نیلی انکھوں مے جیسے کھو گیا ہو 

"کیا کشش تھی اسکی انکھوں مے

        مت پوچھ

مجھ سے میرا دل لڑ پڑا کے مجھے وہ شخص چاہیے"

زوار اسے اتنا قریب دیکھ کر اپنے ہوش گوا بیٹھا تھا

پلیز چھوڑ دیں مجھے

چھوڑ دیا تو گر جاو گی

زوار نے مدہوشی مے کہا

نہیں میرا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کوی بات نہ بنی تو نظریں جھکا لیں

زوار نے مسکرا کر ارام سے خود سے دور کیا

سوری زینیا نے شرمندگی سے کہا

اٹس اوکے   کبھی اسکریم تو کبھی اپ خود

زوار نے مسکرا کر کہا

زینیا اور شرمندہ ہو گی

زینیا ا جاو ٹوکریاں لے کر مہندی ا گی ہے

اگی انٹی

زینیا کچن مے جا کر ساری ٹوکریاں اٹھا کر باہر چلی گی

اور زوار نے بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا

اففف تیری نیلی انکھیں

اور دوبارہ فون پر نمبر ملانے لگ گیا

سانیہ اپنے دھیان مے سیلفیاں لے رہی تھی کے پیچھے کھڑا احمد جو فون یوز کر رہا تھا اس مے ٹکرای 

اوے پاگل لڑکی اندھی ہو کیا

احمد نے گھور کر کہا

ہاں اندھی ہوں پر تم تو نہیں نہ اندھے تم دیکھ لیتی جواباً اسنے بھی گھور کر کہا

بدتمیز

تم تمیز دار ہو نہ مے بدتمیز ہی سہی

سانیہ نے زبان چڑھا کر کہا

اسکی اس حرکت پر احمد مسکرا دیا

سوری کرو سانیہ نے انگلی اٹھا کر کہا

تو احمد نے پہلے انگلی دیکھی پھر اسے

چھٹانک بھر کی لڑکی ہو اور مجھ سے سوری کرواو گی احمد دو قدم اگے ہو کر اسکے قریب ہو ہوکر کہا

تو سانیہ نے سٹپٹا کر کہا ارے جاو معاف کیا علی بھای کے دوست ہو یہ کہ کر جلدی سے وہاں سے بھاگ گی

اور پیچھے احمد کا قہقہ گونجا

زوار واپس ایا تو احمد نے کہا اگیا فون سن کر کسکا تھا 

چچی جان کا

اور دونوں سٹیج کی طرف چل دیے

زوار کی بار بار نظر زینیا کی طرف جاتی اور مسکرا دیتا زینیا جب دیکھتی تو شرمندہ ہو کر منہ نیچے کر لیتی

احمد جب سانیہ کو دیکھتا تو وہ زبان چڑھا دیتی تو تواحمد ہنس دیتا

پاگل لڑکی احمد نے سوچا

احمد کی جب زینیا پر نظر گی تو اسنی زوار کو کہنی ماری اوے زوی وہ دیکھھھ اسکریم والی

یار تونے اب دیکھی مے دیکھ چکا ہوں اور ساتھ مے مسکرا دیا

ہاے دال مے کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے کیا بات ہے بڑا مسکرایا جا رہا ہے

احمد نے چھیرتے ہوے کہا تو زوار نے اسے گھورا ایسے ہی مہندی اختتام کو پہنچی۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Pagal  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Pagal  written by Miral Shah  . Ishq Mian Pagal  by Miral Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment