Pages

Wednesday 1 February 2023

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 14 to 15

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 14 to 15

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do By Maha Abid Episode 14'15

Novel Name: Meri Muhabbaton Ko Qarar Do

Writer Name: Maha Abid 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

میں آپ کو اس دن کہہ کر آئی تھی, غازی صاحب کے آپ اپنی وائف کا خیال رکھیں, نہیں تو ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے-' 

پر آپ شاید میری بات کو  سمجھیں ہی نہیں, آپ کی وائف کو کوئی گہرا صدمہ لگا ہے جس کی وجہ وہ ڈر سے بے ہوش ہو گئیں تھیں, اور اگر آئندہ ایسا کچھ ہوا تو ان کے لیے اچھا نہیں ہو گا-' 

ڈاکٹر سخت غصے میں شانزے کی کنڈیشن کے بارے میں غازی کی کلاس لے رہی تھی جو وہ سر جھکائے آرام سے سن رہا تھا,  

اب ان کی طعبیت کیسی ہے-' غازی نے تھکے تھکے سے لہجے میں ڈاکٹر سے  پوچھا-" 

ٹھیک ہیں" کچھ دیر تک ان کو ہوش آجائے گا تو آپ گھر لے جا سکتے ہیں-" 

ڈاکٹر یہ کہہ کر چلی گئی, تو غازی شانزے کے روم میں اس کے پاس آکر بیڈ کے کنارے ٹک کر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا-"

 سوری جاناں" مجھے پتا ہوتا کہ ایسا کچھ ہو گا تو میں کبھی بھی تمہیں اس ہوٹل میں نا لے کر جاتا-" 

غازی بے بسی کے عالم میں شانزے کا چہرہ تکتے بول رہا تھا-' 

اور پھر کتنی ہی دیر تک شانزے کے پاس اس کا ہاتھ تھمے بیٹھا رہا-" 

________________________

عمر پتا کرواؤ کہ پاشا اس وقت کہاں چھپ کر بیٹھا ہے-'  غازی اپنا غصہ ضبط کرتے عمر سے بولا-'

میں تمہارے کہنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں پتا کروا چکا ہوں, پر وہ کمنیہ شخص پتا نہیں کہاں چھپ کر بیٹھا ہے پورے شہر میں پولیس اس کو کتوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہے-'   عمر نے غازی کے تھکان سے چور چہرے کی طرف دیکھا-" 

مجھے وہ شخص کسی بھی حال میں چاہیے عمر پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے, زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا کبھی تو وہ سامنے آئے گا ہی-" 

غازی کچھ سوچتے ہوئے غصے سے بولا-' 

تو عمر سر ہلاتے اسے تسلی دیتے چلا گیا-"

_______________________ 

شانزے کو ہوش آگیا تھا تو غازی اسے لیے گھر آگیا اور اس وقت کمرے میں اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھائے خود کرسی پر بیٹھا تھا-" 

مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے-"غازی نے چپ بیٹھی شانزے سے کہا, 

غازی کو اس کی چپ کھائے جارہی تھی کہ وہ اتنا چپ کیوں ہے, غصہ دکھائے, بات کرے کچھ, پر شانزے اپنے لبوں پر فقل لگائے بیٹھی تھی-" 

میں تمہیں آج سارا سچ بتانا چاہتا ہوں-" غازی نے یہ کہتے ساتھ ہی اپنے چہرے پہ پہنے اس نقلی ماسک کو اتار دیا-' 

شانزے کی نظر جیسے ہی غازی کے چہرے کی طرف گئی تو وہ ساکت سی بیٹھی غازی کے چہرے کی طرف دیکھتی رہ گئی-" 

میں فارس غازی ہوں, تمہاری صدف پھپھو کا بڑا بیٹا ہوں, تمہیں شاید یاد نہ ہو, کیوں کہ میں پاکستان آیا ہی بہت کم ہوں لاسٹ ٹائم میں جب دس سال کا تھا تب آیا تھا-" 

پاشا کا باپ, احسن, نعمان, حسن ماموں کے ساتھ بزنس میں پارٹنر تھا, پر پاشا کا باپ کچھ غلط کاموں میں انولو تھا, جس میں وہ ہیرؤئن, چرس, اور کالج سے لڑکیاں اغواء کر کے باہر بیچ دیتا تھا-" 

تب پاشا مجھ سے بھی پانچ سال بڑا تھا میں دس سال کا تھا وہ پندرہ سال کا تھا اور اسے اپنے باپ کے سارے کالے کارناموں کا پتا تھا, جب نعمان ماموں والوں کو پاشا کے باپ کی حقیقت کا پتا چلا, تو نعمان ماموں والوں نے اس سے اپنی پارٹنر شیپ کنیسل کر دی تھی, جس سے پاشا کے باپ کو غصہ آگیا اور وہ دھمکیوں پر اتار آیا تھا, کیوں کہ وہ تمہارا رشتہ اپنے پاشا کے لیے مانگ رہا تھا, جب وہ دھمکیاں دینے لگا تو  تب مجھ سے بھی میری مرضی پوچھ کر ڈیڈ اور ماموں والوں نے ہمارا نکاح کروا دیا تھا-' 

دس سال کا بچہ کوئی چھوٹا نہیں ہوتا مجھ میں ساری سمجھ بوجھ تھی , پھر اپنی عمر کے بچوں سے زیادہ ذہین بھی تھا, تب تم ایک سال کی تھی, مجھے تو تم بچپن سے ہی پسند تھی, اس لیے تب فورًا سے ہاں کر دی-" 

اور اب میں بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آرمی آفیسر بھی ہوں, جب کچھ زیادہ خطرناک کیسسز ہوتے ہیں تو آفاق انکل کے کہنے پر میں انہیں ہینڈل کرتا ہوں پھر یہاں پہ تو تمہارا نام آرہا تھا تمہاری پوری ذات انولو تھی, تو کیسے پھر میں یہ میشن چھوڑ دیتا-" 

پھر جب تم اغواء ہوئی تھی تو نعمان ماموں مجھے تم سے پھر سے نکاح کرنے کا بول چکے تھے جس وجہ سے پھر سے تمہارے سامنے نکاح ہوا-' 

غازی نے ساری بات بتاتے سر اٹھا کر دیکھا تو شانزے ششدر سی بیٹھی بے یقننی سے غازی کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی, آنسو متواتر سے بہت بہتے اس کا پورا چہرہ بھیگو رہے تھے-"

شانزے کے آنسو دیکھ کر غازی کا دل کٹ کر رہ گیا, 

اس نے یہ کبھی نہیں چاہا تھا کہ حالات اس کنڈیشن میں آجائیں گے اور اس طرح سے سچائی شانزے کے سامنے آئے گی-' 

یہ مت سمجھنا کہ میں نے تب کوئی مجبوری میں تم سے نکاح کیا, ایسا کچھ نہیں ہے میں پہلے سے ہی تم سے پیار کرتا تھا, جب مجھے خود بھی محبت کے مغیٰ سہی سے پتا بھی نہیں تھے, 

غازی یہ کہتے اس کے پاس آیا تا کہ وہ شانزے کے آنسو صاف کر سکے پر شانزے کے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اور غازی کو خود کے قریب آتا دیکھ کر بیڈ سے اٹھ کر ایک جھٹکے سے دور ہوتے چیخ پڑی-' 

چپ..... چپ ایک دم چپ.... سمجھتے کیا ہیں آپ لوگ ہاں, جب چاہا مجھ سے سب کچھ چھپا لیں گے سب اور جب چاہا بتا دیں گے-" شانزے روتے ہوئے بولی کیوں کہ یہ انکشاف اس کے لیے ایک جھٹکے سے کم نہیں تھا-" 

میری بات سنو تم غلط سمجھ رہی ہو, ایسا کچھ نہیں ہے-"  غازی بے بسی سے اسے روتے ہوئے دیکھ آگے آیا اور اسے کھنچ کر اپنے  قریب کیا-" 

میں تم سے محبت کرتا ہوں, تو کیسے تمہیں اکیلا چھوڑ سکتا ہوں-' غازی نے انتہائی گھمبیر لہجے میں کہتے اس کے آنسو صاف کرنے چاہے پر شانزے غازی کے گلے لگ پھوٹ پھوٹ کر رو دی-' 

کہ غازی کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تو غازی نے اسے خود میں سمیٹ لیا-' 

_________________________

ہمدانی ولا میں نعمان صاحب کی بات سنتے سب ہی گھر والے خوشی خوشی تیاریوں میں لگ گئے تھے, ادھر حمزہ, زوار والے واپس آئے تو شانزے کے اغواء اور پھر باقی صورتحال سن کر انہیں بھی شاک لگا تھا, بے شک ان کو نکاح کا پتا تھا, پر پاشا کی حقیقت کے بارے میں نہیں پتا تھا جس وجہ سے وہ اب گھر والوں سے ناراض صوفے پر بیٹھے ہوئے  تھے-' 

مما آپ کو تو ہمیں بتانا چاہیے تھا نا کہ شانزے اغواء ہو گئی ہے-'  حمزہ خفا لہجے میں رمشا بیگم سے گویا ہوا-" 

بیٹا ہم سب آپ لوگوں کا ہنی مون خراب نہیں کرنا چاہتے تھے-" کشف بیگم نے رسانیت سے انہیں بتایا-" 

چاچی جان اس میں ہنی مون خراب والی کون سی بات ہے, شانزے ہماری بھی کچھ لگتی ہے, یہ آپ لوگوں نے بلکل ٹھیک نہیں کیا-" اب کی بار زوار بولا-" 

تمہارے بابا نے مانا کیا تھا کہ آپ لوگوں کو وہاں پریشان نا کیا جائے-" رمشا بیگم نے ان سب کو دیکھتے نعمان صاحب کا حوالہ دیتے بتایا تو وہ لوگ بھی سر ہلاتے چپ ہو گئے-' 

چلو اب منہ پھولائے مت بیٹھو" اٹھو اور فریش ہو جاؤ تھکے ہوئے آئے ہو-"  رمشا بیگم نے بات سمیٹتے انہیں کہا تو وہ بھی چپ چاپ اٹھ کر اپنے اپنے کمرے کی طرف فریش ہونے چل دیے -" 

_____________________-

چلو اب چپ کر جاؤ کیا اب ساری رات روتی رہو گی, اتنی خوبصورت آنکھوں کا ستیاناس کر دیا ہے رو رو کر"  کچھ مجھ معصوم کا بھی خیال کرو, ساری شرٹ خراب کر دی-" 

غازی نے ہلکے پھلکے انداز میں اسے چپ کروانے کے لیے چھیڑتے ہوئے کہا-" 

تو شانزے بھی چھینپ کر غازی کے سینے سے الگ ہوتے دور ہو گئی اور سر جھکا کر اپنے بائیں ہاتھ سے چہرہ صاف کیا جو کافی دیر رونے کی وجہ سے پورا چہرہ سرخ ہوا گیا تھا-" 

شانزے کو چھینپ کر ہٹتے دیکھ, سیاہ دبیز مونچھوں تلے دلکش مسکراہٹ بکھر گئی-' 

منہ ہاتھ دھو کر آو تو کھانا کھائیں پھر-' غازی نے شانزے کے جھکے سر کو دیکھتے نرم لہجے میں پھر سے لب کشائی کی-"

شانزے بھی سر ہلاتے واش روم کی طرف بڑھ گئی,

تو غازی کمرے سے باہر کی طرف چل دیا-'

________________________

منہ ہاتھ دھو کر وہ ڈائینگ ٹیبل پر آگئی, اور بیٹھنے کے بجائے,  غازی کی طرف دیکھنے لگی-" 

غازی عمر سے بات کرنے میں مصروف تھا, دھیان نہ دے پایا کہ شانزے اب تک کھڑی ہے, تو عمر نے اسے اشارے سے بتایا اور خود ڈائینگ ہال سے نکلتا چلا گیا-"

کیا ہوا کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاؤ-' غازی نے شانزے کو دیکھتے کہا, جو نروس سی کھڑی اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈوپٹے کے پلو سے کھیل رہی تھی-' 

غازی چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے آہنی ہاتھوں میں تھما لیا-' 

کیا ہوا ہے اتنا کیوں گھبرا رہی ہو-' غازی نے  ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ اوپر کیا-' 

مم....... مجھے گھر جانا ہے-' شانزے نے ہچکچاتے ہوئے کہا-' 

گھر بھی جارہے ہیں ہم, پہلے کھانا کھاؤ پھر چلتے ہیں-"  غازی نے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا تو شانزے کی آنکھیں گھر کانام سن کر چمک اٹھی-" 

سچ کہہ رہے آپ-" شانزے نے بے یقننی سے غازی سے کہا-" 

بلکل سچ مائی پرنسس ڈول-" چلو آؤ-" 

غازی نے اس کے چمکتے چہرے کی دیکھتے ہلکی مسکراہٹ سے کہا اور اسے لیے کرسی کھینچتے بیٹھایا-' 

___________________________

شانزے غازی ہمدانی ولا آئے, تو پورے ہمدانی ہاؤس کو لائیٹینگ سے سجایا گیا تھا, کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا, جیسا کیسی شہنشاہ بادشاہ کی شادی ہو-' 

آخر کیوں نا سجایا جاتا, اس گھر سے سب سے بڑے بیٹے کی شادی, گھر کی سب سے لاڈلی نازو پالی کے ساتھ شادی تھی, ہمدانی ولا کے مکینوں کے لیے یہ سب بھی کم تھا, ٹائم کم ہونے کی وجہ سے پھر بھی بہت اچھے خوبصورتی سے ساری تیاری کی گئی تھی-" 

 ہمدانی ولا کے سب مکین اس وقت لاؤنج میں بیٹھے غازی اور شانزے سے مل رہے تھے, پر شانزے حسن صاحب کے گلے لگتے رو پڑی اور چپ ہونے کا نام ہی نہیں لیا-" 

چپ کر جاؤ بہن, تمہاری رخصتی ابھی ہم نے کرنی ہے, اگر ابھی سے اتنا رو لو گی, تو لوگ کیا کہیں گے کیسی لڑکی ہے جو رو بھی نہیں رہی-"  حمزہ نے افسوس سے سر ہلاتے شرارت سے کہا, تو سبھی کے چہرے حمزہ کی شرارت سمجھتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس پڑے-" 

کوئی رخصتی نہیں ہو رہی مجھے نہیں کرنی کوئی شادی وادی-"  شانزے نے پھولے منہ سے بوجھل آواز میں کہا, کیوں کہ روتے رہنے سے اس کی آواز قدرے خراب ہو گئی تھی-" 

کیسی لڑکی ہو بے شرم خود بول رہی ہو, کہ مجھے شادی نہیں کرنی, لڑکیاں تو شادی کے نام پر شرماتی ہیں, اور ایک تم ہو-"  حمزہ کو شانزے کو چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا, ایک تو وہ کافی دن بعد گھر آئی تھی, 

دوسرا ماحول کچھ گرم  ہو گیا تھا, تو شانزے کو تنگ کرنے لگا,

 سب ہی ان کی نوک جھوک کو انجوائے کر رہے تھے-" 

کیوں شرماؤں کہاں کس کتاب میں لکھا ہے شرمانا-" شانزے نے بھی دوبدو جواب دیا-" 

وہ شانزے ہمدانی تھی, جس سے شرمانے کی امید رکھنا سراسر بے قوفی-" شانزے کی بولتی بس ایک ہی شخص کے آگے بند ہوتی تھی, وہ تھا, فارس غازی جس کی قربت میں وہ بھول جاتی تھی کہ جواب کیا دینا ہے-" 

چپ کر جاؤ پرسوں تمہاری مہندی ہے اور تم ہو کہ کہہ رہی ہو کیوں شرماؤں, غازی بھائی اپنی اب خیر منائیں کیوں کہ آپ کا شانزے نامی آفت سے پلا پڑنے جارہا ہے-"  

حمزہ اسے تنگ کرنے سے باز نہ آیا اور غازی کو بھی گھیسٹ لیا اپنی گفتگو میں-" 

بابا آپ اسے چپ کیوں نہیں کروا رہے-" شانزے نے بلآخر حسن صاحب سے حمزہ کی شکایت کی-" 

میں سنبھال لوں گا شانزے کو بلکہ سدھر بھی لوں گا-"  غازی شانزے کے تپے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے گھمبیر لہجے میں بولا-' 

ایویں سدھر لیں گے ہاں, چپ کر کے بیٹھ جائیں کوئی شادی وادی نہیں ہو رہی-' شانزے  غازی کو سنا کر پاؤں پٹختے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی, پیچھے سبھی شانزے کے جھنجھلانے پر ہنس پڑے اور غازی سے آگے کے بارے میں تفصیلی بات کرنے لگے تو حمزہ بھی سیریس ہو کر  بیٹھ گیا-'

پھر آگے کا کیا کرنا ہے غازی بیٹا-"   نعمان صاحب نے اپنے برابر بیٹھے غازی سے پوچھا-' 

فلحال تو ماموں جان رخصتی ہو, اور پاشا کا بھی پتا چلے کہاں ہے تو ہی آگے کا لاحمل طے کریں گے-'  میں شانزے کو رخصت کروا کر اسلام آباد چلا جاؤں گا کیوں کہ میں نہیں چاہتا پھر پاشا  آپ لوگوں پر اٹیک  کریں یا آپ میں سے کسی کو نقصان پہنچائے-'  

غازی گہری نظروں سے کچھ سوچتے ہوئے بولا-' 

پر فارس بیٹا تم وہاں اکیلے کیسے رہو گے شانزے کے ساتھ-' احسن صاحب نے غازی سے پوچھا-"

 ماموں جان ہمیں یہ رسک لینا ہو گا, کیوں کہ پاشا کو یہ پتا ہے کہ شانزے میرے پاس ہے, اسے یہ نہیں پتا کہ فارس بھی میں ہی ہوں, اگر اسے یہ پتا چل گیا, تو زیادہ خطرے کی بات ہو سکتی ہے-'

غازی نے احسن صاحب اور باقی سب کو سمجھاتے ہوئے بولا-' 

ابھی ہمیں بس پاشا کو پکڑنا ہے, جو ناجانے کتنے معصوم جانوں کی جان لے چکا ہے, کتنوں کی زندگی برباد کر چکا ہے, پھر شہیر یہی ہیں وہ یہاں کی خبر رکھے گا اور مجھے اپ ڈیٹ بھی کرتا رہے گا-"  غازی نے شہیر کی طرف دیکھتے مزید کہا تو شہیر نے بھی سر ہلا دیا-' 

چلو آگے بھی اللہ مدد کرے گا اور سب اچھا ہو گا ابھی جا کر آرام کر لو-' 

نعمان صاحب یہ کہتے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے,اور غازی اور باقی سب بھی کافی تھک چکے تھے, اپنے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے-'

__________________________

شانزے رخصتی کا سن کر بے چین ہو گئی تھی, کمرے میں آتے ساتھ ٹہل ٹہل کر سوچتے اس کے پاؤں شل ہو گئے تھے کہ اب آگے کیا کرے-"

 نیچے تو وہ بول آئی تھی کہ  نہیں کرنی پر سب ہی اس کی بات کو مذاق میں سمجھ رہے تھے-' 

یہ نہیں تھا کہ وہ اب غازی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی, پر ابھی اتنی جلدی کرنے پر اعتراض ہو رہا تھا-"

کچھ کچھ اس کے دل کی دنیا بھی بدل رہی تھی غازی کے لیے,  اس لیے کچھ سوچتے وہ غازی کے پاس گئی کہ شاید وہ مان جائے اور رخصتی تھوڑا لیٹ کروا لے, 

شانزے غازی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی یہ جانے بنا کہ  وہ اب ایک پل کے لیے بھی شانزے کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتا, پر ہم جو انسان سوچتے ہیں لازمی نہیں کہ وہی سب ہو, 

ابھی ان دونوں کو بھی اپنی محبت کو پانے کے لیے ایک بار دور ہونا تھا پھر سےملنے کے لیے-' 

شانزے بنا دروازے پہ ناک کیے غازی کے کمرے میں اندر داخل ہوئی, اور سسپٹا کے پلٹ کر  کھڑی ہو گئی-" 

آپ کو پتا نہیں ہے چینج کرتے وقت بندہ دروازہ بندہ کر لیتا ہے, -" شانزے غازی کو بنا شرٹ کے کھڑا دیکھ  کر غصے سے بولی-" 

غازی شانزے کو اپنے روم میں اس وقت دیکھنے کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایسے اس کے روم میں آئے گی وہ بھی اس وقت کیوں کہ پچھلے دونوں وہ اسے گھر آنے کے لیے کافی کچھ بول چکی تھی اس لیے غازی کا اندازہ تھا کہ وہ عائشہ مامی کے ساتھ سو چکی ہو گی اس لیے تھوڑا حیران ہوئے بنا نہ رہ سکا-'

کیوں میرا روم ہے میں جیسے مرضی رہوں-" غازی نے شرارت سے کہتے شانزے کے پاس قدم بڑھائے-' 

آپ کا روم ہے تو کیا ہوا, بندہ دروازہ بند کر کے رکھتا ہے-'  شانزے غازی کو خود کے قریب آتا دیکھ کر گھبرا گئی-' 

کیا ہوا کوئی کام تھا-" غازی نے اس کی گھبراہٹ کم کرنے کو نرمی سے پوچھا-' 

مم..... مجھے شادی نہیں کرنی پلیز آپ گھر والوں کو انکار کر دیں-' شانزے الجھی الجھی سے نروس ہو کر بولی-' 

سویٹ ہارٹ ہماری شادی ہو چکی ہے, بلکے اب تو صرف تمہیں رخصت ہو کر میرے پاس میرے کمرے میں آنا ہے-' غازی نے اس کے جھکے سر کو دیکھتے کندھوں سے پکڑتے اپنے قریب کرتے بولا-'

پر مجھے ابھی نہیں کرنی شادی, -' شانزے ابھی بھی اپنی بات پر ٹکی ہوئی تھی-' 

تو میری جان کب کرنی ہے, کل بھی کرنی ہے اور آج بھی, چلو شاباش پریشان مت ہو اور جاکر آرام کرو, کچھ بھی مت سوچو-" 

غازی نے نرمی سے کہتے اس کے ماتھے پر  بوسہ دیتے کہا-' 

تو شانزے کی ڈھڑکنے غازی کا لمس محسوس کرتے اتھل پتھل ہونے لگی اس لیے غازی کو سائیڈ پر کرتے جلدی سے اپنی تیز ہوتی سانسیں سنبھالتی بھاگ گئی-"

غازی شانزے کو بھاگتا دیکھ کر ہنس  پڑا-'

___________________________

اگلے دن شانزے عشما کی گود میں سر رکھے اسی کے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی, اور عشما شانزے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کے سوالوں کے مسکرا کر جواب دے رہی تھی-' 

آپی رخصتی لازمی کرنی ہے کیا-' شانزے کچھ سوچتے ہوئے عشما سے بولی-' 

میری جان آپ کا نکاح ہو چکا ہے پھر رخصتی پہ اتنا کیوں انکار کر رہی ہو-' عشما نے نرمی سے اس کے چہرے پر آئے بال سائیڈ پر کرتے کہا-' 

پر آپی میں ابھی نہیں کرنا چاہتی رخصتی-"  شانزے الجھی سی بولی-" 

میری جان ہم جانتے ہیں سب کہ آپ ابھی چھوٹی ہو اور کچھ ٹائم لینا چاہ رہی ہو, پر ابھی تمہاری رخصتی ہونا بھی لازمی ہے, 

عشما نے شانزے کو اپنے سامنے بیٹھاتے پیار سے سمجھایا-" 

اور یہ بھی کہ ابھی تم شادی کی باریکیوں کو نہیں جانتی, پر میری جان فارس بہت اچھا ہے وہ تمہارا ہمیشہ  خیال رکھے گا-" 

اور پھر عشما نے شانزے کو پیار سے سب بتایا تو شانزے اتنی بھی نا سجھ نہ تھی  کہ سمجھتی نا, پھر اسے پہلے یہ سب نہیں پتا تھا, پر اب وہ سمجھ گئی تھی,

___________________________

مہندی کی ارینجمنٹ ہوٹل میں کروائی گئی تھی, خوبصورت پیلے, اور وائٹ پھولوں سے پورے ہوٹل کو سجایا گیا تھا-' 

شانزے نے ملٹی کلر کا افغانی فرواک پہن رکھا تھا, ماتھے پہ افغانی ہی ماتھا پٹی سجائے, گولڈن بھورے بالوں کو کلرل کیے ڈوپٹہ سر پہ ٹیکائے, سادگی میں بھی وہ غضب ڈھا رہی تھی-" 

شہوار کی بھی مہندی شانزے کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی, کیوں کہ شہوار اور شہیر کا نکاح بھی پہلے ہو چکا تھا, اور اب شانزے فارس کے ساتھ لگے ہاتھوں شہوار کی بھی رخصتی ہونی تھی-" 

شہوار نے بھی سبز, پرپل اور گولڈن رنگ کا افغانی فرواک پہنے, افغانی جیولری میں بہت حیسن لگ رہی تھی-' 

صدف بیگم بہت ہی خوش تھیں, کہ ان کے دونوں لاڈلے بیٹوں کو ان کی پسند ان کی محبت مل گئی ہے, پھر شانزے تو ان کی پکی سہیلی تھی جس کے ساتھ ان کی بنتی بھی بہت تھی تو کیسے نہ سب چاؤ ارمان پورے کرتی, ہر چیز صدف بیگم نے شہوار اور شانزے کی پسند کی تیار کروائی تھی, کسی بھی قسم  کی کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی-" 

فارس سفید کاٹن کے سوٹ پر مہرون شال لیے, اپنی مغرور طعبیت کے باعث بہت ہی دلکش سب سے منفرد لگ رہا تھا-' 

وہیں شہیر بھی سفید کاٹن کے سوٹ پر سیاہ افغانی واسکٹ پہنے ہینڈسم لگ رہا تھا-' 

مہندی کی تقریب بڑے پیمانے پہ ہو رہی تھی, بڑے بڑے بزنس مین آئے ہوئے تھے, جن میں یہ شکر تھا فارس غازی پاشا کی گینگ میں ماسک پہن کر گیا تھا, ورنہ اب تک کوئی نہ کوئی ان میں سے پہچان لیتا اور کوئی مصیبت کھڑی ہو چکی ہوتی-" 

غازی شانزے کے پاس آکر بیٹھا تو شانزے پہلے ہی کچھ گھبرائی ہوئی تھی غازی کے پاس بیٹھے وہ خود میں سمیٹ گئی, اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے, غازی شانزے کی گھبراہٹ محسوس کرتے ہوئے اس کے یخ ٹھنڈے ہوئے ہاتھ کو اپنے مضبوط گرم ہاتھوں میں لیتے سہلانے لگا-' 

ریلکس کرو جان, اتنی سرد کیوں ہو رہی ہو-" غازی نے اس کے قریب جھکتے نرمی  سے کہا-' 

نہیں وہ میں... شانزے سے کوئی بات ہی نہ بن پائی تو غازی اسے گھبراتا دیکھ ہنس پڑا-' 

ٹیک اٹ ایزی یارا-' اور پھر غازی کی ہلکی پھلکی باتوں پر شانزے بھی ریلکس ہو گئی اور کھلکھلاتے ہوئے اپنی مہندی کو انجوائے کرنے لگی, غازی اسے کھلکھلاتے دیکھ کر مطمین ہو گیا تھا-" 

__________________________

اگلے دن بارات تھی,بیوٹیشن کو گھر ہی بلایا گیا تھا, شانزے شہوار کو تیار کروانے کے لیے, 

شہوار پنک گولڈن کام والے لہنگے میں تیار ہوئی حیسن پری لگ تھی,

 وہیں شانزے نے فارس غازی کا پسند  کیا ہوا لہنگا پہنا تھا, 

بلڈ ریڈ کلر کا لہنگا جس پہ نفاست سے کام کیا تھا شانزے کے نازک سراپے پہ بہت ہی جچ رہا تھا-' 

فارس بلیک اور گولڈن شیروانی پہنے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا, 

شہیر یزدانی نے وائٹ اور گولڈن شیروانی پہنے اپنی مردانہ وجاہت سمیت دلکش ہینڈسم لگ رہا تھا-"

رخصتی بھی بہت ہی اچھے طریقے سے ہوئی تھی, جہاں شہوار رخصتی کے ٹائم پر روئی تھی اپنے والدین سے اب الگ ہو کر ایک نئی دنیا بسانی تھی, کسی اور کے سنگ, 

وہیں شانزے کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا تھا کہ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں شفٹ ہو رہی تھی کہ اسے تو اسی گھر میں رہنا ہے-' 

گھر آکر شہوار, شانزے  کو شہیر اور فارس کے سجے ہوئے کمروں میں پہنچا دیا گیا تھا,

جہاں وہ دونوں الگ الگ کمروں میں اپنی اتھل پتھل ہوئی ڈھرکنے لیے بیٹھی پر اپنے اپنے مجازی خدا کا انتظار کر رہیں تھی-'

________________________ 

شہیر کمرے کا دروازہ کھولتے کمرے میں آیا تو شہوار کو اپنا انتظار کرتے دیکھ وہ دروازہ بند کرتے قدم قدم چلتا بیڈ تک آیا-' 

اسلام و علیکم... شہیر نے گلا کھنکارتے شہوار کو سلام کیا تو شہوار نے سر کے اشارے سے جواب دیا-" 

شہیر نے بیڈ پر بیٹھ کر اس کا گھونگھٹ اٹھایا تو کتنے  ہی پل وہ اس کے سجے ہوئے روپ کو دیکھتا رہا, اور پھر اپنی شیروانی کی جیب سے  مخملی ڈبیا نکال کر ڈائمنڈ کا بریسلٹ نکلا, اور شہوار سے پوچھا-" 

اجازت ہے -" شہیر کے پوچھنے پر شانزے سے سر ہلاتے جواب دیا, تو شہیر نے اسے بریسلٹ پہنتے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا-' 

___________________________

غازی چلتا ہوا بیڈ تک آیا, اور شانزے کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا, شانزے غیر اداری طور پر تھوڑا پیچھے کھسک لی تھی, غازی شانزے کی گھبراہٹ سے اپنی جگہ کافی لطف انداز ہو رہا تھا,  تبھی غازی اسے مزید تنگ کرنے کو اس کا گھونگھٹ اٹھاتے چہرے پر اپنی انگلیوں سے اس کے ایک ایک نقش کو چھوتے اس کے کان میں سرگوشی کی-" 

بہت خوبصورت لگ رہی ہو تم, 

غازی کے گرم سانسوں کی تپیش اس کی کان کی لو کو چھو کر ایک عجیب سا احساس پیدا کر رہی تھی, شانزے کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے, ڈھڑکنوں نے الگ سے شور مچا رکھا تھا,

 غازی شانزے کے اتنا پاس تھا کہ اسے شانزے کی ڈھڑکنیں باخوبی سن رہی تھی, غازی خود کے بہکتے دل کو مزید نا روک پایا اور شانزے کو کھینچ  کر اپنے قریب کیا,

 غازی کی قربت میں شانزے کا دل مزید تیزی سے ڈھڑک اٹھا تھا-'  

کبھی ناراض مت ہونا

گلے چاہیں بہت کرنا

رلانا اور بہت لڑنا

سنو ناراض مت ہونا

کبھی ایسا جو ہوجاے

کہ تیری یاد سے غافل

کسی لمحے جو ہو جاؤں

بنا دیکھے تیری صورت

کسی شب میں جو سو جاؤں

تو سپنوں میں چلے آنا

مجھے احساس دلا جانا

سنو ناراض مت ہونا

کبھی ایسا جو ہوجاۓ

جنہیں کہنا ضروری ہو

وہ مجھ سے لفظ کھو جائیں

انا کو بیچ مت لانا

میری آواز بن جانا

کبھی ناراض مت ہونا

غازی نے اسے اپنی بانہوں میں بھرتے گھمبیر لہجے میں غزل پڑھ کر سنائی تو شانزے شرم سے پانی پانی ہوتے چہرے کے ساتھ غازی کے سینے میں منہ چھپا گئی, تو غازی نے بھی اسے قیمتی متا کی طرح خود میں سمیٹتے اس پر اپنے پیار کی بارش سے نکھار دیا-"

___________________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

 Meri Muhabbaton ko Qarar Do Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri Muhabbaton Ko Qarar Do written by Maha Abid . Meri Muhabbaton Ko Qarar Do  by Maha Abid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

No comments:

Post a Comment