Pages

Wednesday 1 February 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Second Last Episode New Urdu Novel

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Second Last Episode New Urdu Novel   

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...


Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Second Last Episode 


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


عدالت سے باہر آتے ہی شميم اور علی حسن، مطيبہ اور رئيد سے اجازت لے کر اپنے گھر جانے کو پر تولنے لگے۔ 

"آپ کا بہت بہت شکريہ خالہ" مطيبہ نے تشکر آميز لہجے ميں کہا۔ کيس ميں آخری کيل علی کی بنائ ہوئ ويڈيو نے ہی ٹھوکی تھی۔ 

"ارے نہيں۔۔ تم ميری بيٹی جيسی ہو۔ اور بيٹيوں کی عزت بچانے کے لئے مائيں ہر حد تک جاتی ہيں" شميم محبت سے اسے اپنے ساتھ لگا کر بوليں۔ 

"نہيں آنٹی۔ آجکل کے دور ميں جہاں اپنے خونی رشتے نہيں پوچھتے آپکا اقدام قابل تحسين ہے۔" رئيد نے بھی انہيں سراہا۔ 

"بہت شکريہ بيٹے۔ گھر آنا کبھی رفيعہ کو لے کر" وہ نکلتے وقت ان سے گھر آنے کا وعدہ لے کر نکليں۔ انکے جاتے ہی رئيد سمير کی جانب مڑا۔

"تھينکس بڈی" اس سے مصافحہ کرتے محبت سے اسے گلے لگايا۔ 

"بے عقل انسان۔۔ تيرا کام ميرا ہی کام تھا" سمير نے اسے گھرکا۔ 

"بھابھی آپ لوگ چکر لگائيے گا کسی دن ميری طرف" رئيد کے بعد وہ مطيبہ کی جانب مڑا۔ 

"ان شاء اللہ بھائ ضرور" مطيبہ نے چہرے پر نرم سا تاثر ديتے ہوۓ کہا۔ 

"انکل آپکی کب کی فلائٹ ہے" سمير اب حسن سے مخاطب ہوا۔ بس اسی اتوار کی ہے۔ چار دن رہ گۓ ہيں" معاملہ نپٹ چکا تھا لہذا حسن واپس دبئ جانے کا سوچ رہے تھے۔ رات ميں ہی ٹکٹ کروا آئے تھے۔ 

انہيں اميد تھی کہ اسی پيشی پر کيس کا فيصلہ ہوجاۓ گا۔ 

اور اللہ نے انکی اميد نہيں توڑی۔ 

ويسے بھی انکے اينج ای اوز والے کام کا حرج ہورہا تھا۔ 

رئيد سے مشورہ کرکے وہ واپسی کی ٹکٹ کروا لائے تھے۔ 

"بس ٹھيک ہے کل ہی آپ سب ڈنر پر مجھے جوائن کريں" سمير نے وہيں کھڑے کھڑے پروگرام ترتيب ديا۔

"چل ٹھيک ہے گھر چل کر ديکھتے ہيں۔ پھر شام تک تجھے کنفرم کرديں گے" رئيد نے اسکی بات کا مان رکھتے ہوۓ کہا۔ 

"چلو ٹھيک ہے" سمير مطمئن سا اپنی گاڑی کی جانب پلٹ گيا۔ 

مطيبہ، حسن اور رئيد اپنی گاڑی کی جانب چل پڑے۔ 

سارا راستہ وہ کيس کو ہی ڈسکس کرتے جارہے تھے۔ 

گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے کہ رئيد کے موبائل پر سلمان کی کال آئ۔ 

"ہيلو" رئيد نے عام سے انداز ميں ہيلو کہا۔ 

"بھائ جی۔۔۔۔ بھابھی جی کی امی کو پتہ نہيں کيا ہوگيا ہے۔ تھوڑی دير پہلے نوافل پڑھ رہی تھيں۔۔ ميں چاۓ دينے کمرے ميں گيا تو وہ فرش پر اوندھی ليٹی نظر آئيں۔۔۔ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا" سلمان کی بات پر رئيد کی اسٹيرنگ پر گرفت ڈھيلی پڑی۔ 

"کيا بکواس کررہے ہو۔۔ صبح تک تو ٹھيک تھيں" وہ پريشانی سے بولا۔ 

"سچ کہہ رہاہوں۔ ميں نے سيدھا کرکے چيک کيا پانی کے چھينٹے وينٹے مارے۔۔۔ نبض چيک کی تو وہ ساکت ہے" سلمان نے اسے سر سے پير تک ہلا کر رکھ ديا تھا۔ 

اسکی پريشان آواز سنتے ہی مطيبہ اور حسن بھی اسے پريشانی سے ديکھنے لگے۔ 

"ہم پہنچنے والے ہيں تب تک تم ايمبولينس کو کال کرو" اسکی بات سن کر مطيبہ کے دل ميں خطرے کی گھنٹياں بجنے لگيں۔۔ اپنے شک کو بار بار جھٹلايا۔ کے نہيں رفيعہ کو کچھ نہيں ہوسکتا۔ 

"کيا ہوا ہے" مطيبہ ميں تو کچھ پوچھنے کی ہمت نہيں تھی۔۔ حسن نے ہی اسکی سوچ کو الفاظ دئيے۔ 

"اماں کی طبيعت ٹھيک نہيں ہے" ماتھے کی شکنيں اسکے اضطراب کو ظاہر کر رہی تھيں۔ 

رئيد نے ايک ہاتھ سے پيشانی کو مسلا۔۔اسپيڈ بڑھائ۔۔۔ گاڑی ہوا سے باتيں کرنے لگی۔

مطيبہ بالکل چپ اور ساکن تھی۔ 

گاڑی گھر کے پورچ ميں روکتے ہی رئيد تيزی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا بھاگتے ہوۓ اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ 

حسن بھی فورا باہر نکلے۔ 

مگر مطيبہ ميں باہر نکلنے کی ہمت نہيں ہورہی تھی۔ 

بہت کچھ کھونے کا احساس نجانے کيوں يکدم ہونے لگا تھا۔ 

کانوں پر ہاتھ رکھ کر وہ اندر کے شور کو دبانے لگی۔ 

وہ ماں جس نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پيار ديا۔ اسے کھونے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔ 

خوفزدہ نظروں سے وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب ديکھ رہی تھی۔ 

يکدم ايمبولينس کی آواز آئ۔ 

رئيد رفيعہ کو ہاتھوں ميں اٹھاۓ تيزی سے باہر کی جانب لپکا۔ 

مطيبہ نے خوف سے آنکھيں ميچ ليں۔ افراتفری ميں کسی کو خيال ہی نہيں رہا کہ مطيبہ گاڑی سے اتری ہی نہيں۔ 

حسن ايمبولينس کے ساتھ بيٹھ چکے تھے۔ 

رئيد کو انہوں نے گاڑی پر آنے کا کہا۔ 

وہ تيزی سے گاڑی کی جانب بڑھا۔ 

جب سيٹ پر بيٹھتے اسکی نظر آنکھيں ميچے روتی ہوئ مطيبہ پر پڑی۔ 

کانوں پر ہاتھ رکھے گٹھڑی سی بنی ہوئ تھی۔

"مطيبہ" رئيد نے لمحر بھر کو رک کر اسکی حالت ديکھی اور افسرہ لہجے ميں بولا۔ 

وہ ساری زندگی خود ماں کے لئے ترسا تھا۔ يہ کمی کيا ہوتی ہے وہ اچھے سے جانتا تھا۔

مگر اس وقت اسے تسلی دينے کا بھی وقت نہيں تھا۔ 

خاموشی سے اسے نظر انداز کرتا وہ گاڑی کو تيزی سے باہر سڑک پر دوڑانے لگا۔ 

چند منٹوں بعد گاڑی اور ايمبولينس آگۓ پيچھے ہاسپٹل کے احاطے ميں داخل ہوئيں۔ 

حسن تو رفيعہ کی اسٹريچر کے ساتھ ہی تيزی سے اندر کی جانب بڑھ گۓ۔ جبکہ رئيد مطيبہ کو اس شاک سے باہر نکال رہا تھا۔ 

"باہر چليں" لہجہ نرمی لئے ہوۓ تھا۔ 

"آپ جائيں ميں باہر نہيں آؤں گی" وہ رندھی ہوئ آواز ميں بولی۔ 

"مطيبہ اللہ بہتر کرے گا۔ ايسے پريشان مت ہوں۔ حقيت کا يوں آنکھيں بند کرکے تو سامنا نہيں کرنا نا۔۔ پليز۔ ميں آپکی وجہ سے يہاں ہوں۔ بابا کو اور اماں کو ميری ضرورت ہے" رئيد زچ آکر بولا۔ 

"آپ جائيں ميں يہيں ہوں۔ مجھ ميں ہمت نہيں۔۔ پليز۔۔" مطيبہ نے سر ہاتھوں ميں تھام رکھا تھا۔ نفی کے سے انداز ميں سر کو دائيں بائيں ہولے سے جنبش ديتے وہ مکمل طور پر باہر نکلنے سے انکاری تھی۔ 

رئيد نے ايک سر آہ بھری اور گاڑی سے نکل آيا۔ 

تيزی سے ايمرجنسی وارڈ کے قريب پہنچا۔ 

"ہم پمپ کرنے کی کوشش کرتے ہيں ليکن کوئ خاص اميد نہيں ہے۔ کيونکہ برين کی رگيں پھٹ گئ ہيں۔ کچھ بھی نہيں کہا جاسکتا کہ زندگی کا کوئ چانس ہے يا نہيں" ڈاکٹر نے حسن کے کندھے کو تھپتھپاتے کچھ بھی نہيں چھپايا۔ 

انکے قريب آتا رئيد سب سن چکا تھا۔ 

حسن نے ايک مايوس اور افسردہ نگاہ اس پر ڈالی۔ 

"گھر فون کرکے مطيبہ کو صورتحال بتا دو۔ وہ پريشان ہوگی۔ دعا کرنے کا کہو" گھر پہنچتے ہی جس افراتفری کا انہيں سامنا ہوا تھا وہ نہيں جانتے تھے کہ مطيبہ رئيد کی گاڑی ميں ہے۔

"وہ ميری گاڑی ميں ہے۔ گھر پر وہ يہ سب حالات ديکھتے گاڑی سے اتری ہی نہيں تھی۔ بہت شديد صدمے ميں ہے۔۔ خوفزدہ ہے ابھی بھی گاڑی سے باہر نہيں آرہی" رئيد نے تفصيل سے انہيں بتايا۔ 

"ميرے خدا۔۔ کياديکھا اس بچی نے زندگی ميں نشی باپ اور اب جب حالات بہتر ہونے جارہے تھے تو ماں کی زندگی بھی۔۔۔" حسن کا لہجہ گلوگير ہوگيا۔ رئيد نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہيں گويا تسلی دی۔ 

"پليز بابا آپ ايسے ہمت ہاريں گے تو مطيبہ کو کون ديکھے گا" رئيد نے ان کے شانے پر تھپکی دی۔ 

اسی لمحے ڈاکٹر افسردہ چہرہ لئے باہر آئے۔ 

"آئم سوری۔۔۔ آپ کو انہيں ہاسپٹل لانے ميں بہت دير ہوگئ۔ ہم بچا نہيں سکے" حسن سے معذرت کرتا ڈاکٹر مايوسی سے کہہ کر دوسری جانب چل پڑا۔ 

رئيد اور حسن دونوں شديد شاک کی سی کيفيت ميں تھے۔ 

چند پل تو دونوں اپنی اپنی جگہ سے ہل ہی نہيں پاۓ۔ 

رئيد نے خود کو سنبھالا۔ دوآنسو حسن کی آنکھوں سے بہے۔ جنہيں پونچھ کر انہوں نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ 

رئيد تيزی سے ضروری کاروائ کرنے کے لئے ہاسپٹل کی انتظاميہ کی جانب بڑھا۔

_________________

حسن پھر سے ايمبولينس ميں رفيعہ کی ڈيڈ باڈی لئے گھر واپس چلے گۓ۔ رئيد کو اپنی گاڑی پر آنے کا کہا۔ 

رئيد شکستہ سا گاڑی کا دروازہ کھول کر بيٹھا۔ 

مطيبہ نے تڑپ کر اسے ديکھا۔ 

اس کا بيٹھنے کا انداز ہی اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ 

اس احساس سے چھٹکارا پانے کے لئے مطيبہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

رئيد نے چونک کر ذرا سا رخ موڑ کر ديکھا۔ 

"امی ٹھيک ہيں نا۔۔ کوئ خطرے والی بات تو نہيں" وہ اب بھی آس لگاۓ بيٹھی تھی۔ 

رئيد کی آنکھوں ميں آنسو لہراۓ۔ 

بمشکل آنسو پيتے اپنے کندھے پر رکھا اس کا ہاتھ تھپتھپايا۔ 

مگر ہونٹوں کا کفل نہيں ٹوٹا۔ 

"کچھ پوچھ رہی ہوں ميں" وہ دبی دبی آواز ميں اسے گاڑی سٹارٹ کرتا ديکھ کر چلائ۔ 

ہاتھ ابھی بھی اسکے کاندھے پر تھا۔ 

رئيد نے چہرہ دوسری جانب موڑ کر اپنے تاثرات چھپانے چاہے۔ خود ميں ہمت پيدا کرنی چاہی اسے سب بتانے کی۔ 

"آپ کچھ کہتے کيوں نہيں۔۔۔پليز رئيد۔۔۔ پليز بتا ديں۔۔ امی ٹھيک ہيں نا۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے بتائيں مجھے کچھ" اب کی بار وہ بری طرح اس کا کندھا جھنجھوڑ کر چيخی۔ 

"نہيں۔۔۔"رئيد نے يکدم بلند آواز ميں کہا۔ 

وہ وہيں پر ساکت ہوگئ۔ 

"اماں۔۔۔ ام۔۔ اماں۔۔ اب" رئيد کے الفاظ اس کا ساتھ نہيں دے رہے تھے۔ 

"چپ کريں۔۔ جھوٹ بول رہے ہيں آپ" وہ ہذيانی انداز ميں بولی۔ 

آنکھيں ۔۔ آنسو سب پتھرا گئے تھے۔ 

"يہ سچ ہے اماں اب اس دنيا ميں نہيں" رئيد نے ہمت کرکے اسے بتا ديا۔ وہ سچ جو اسے گھر جاکر پتہ چلتا۔ 

رئيد اسے پہلے سے بتا کر ذہنی طور پر تيار کررہا تھا۔ 

مطيبہ نے يک لخت اسکے کندھے سے ہاتھ کھينچا۔ 

چہرے پر شاک کی کيفيت بہت واضح تھی۔ 

رئيد نے اسکے چہرے سے آنکھيں ہٹاليں۔ 

اتنی وحشت اس لمحے اسکے چہرے پر اتر آئ تھی کہ رئيد ششدر رہ گيا۔ 

گھر کے باہر گاڑی روکتے وہ اپنی سيٹ سے اترا۔ 

مطيبہ کی جانب کا دروازہ وا کرکے اسے بازو سے پکڑ کر اتارا جو کسی روبوٹ کی طرح اسکے ساتھ کھينچتی چلی جارہی تھی۔ 

کوئ مزاحمت، کوئ ری ايکشن تھا ہی نہيں۔ 

بس خاموش گم صم۔ 

کچھ ہی دير بعد لوگوں کا تانتا بندھ گيا۔ 

مشال، منزہ مسلسل مطيبہ کے ساتھ ساتھ تھيں۔ لوگوں کو بھی سنبھال رہی تھيں۔ 

شميم بھی آچکی تھيں۔ اور بھی نجانے کون کون موجود تھا۔ 

مطيبہ بس ساکت نظروں سے ماں کے چہرے کو ديکھ رہی تھی۔ 

ايک پل کو بھی نظريں نہيں ہٹائيں تھيں۔ کون کون اسکے پاس آکر اس کے گلے لگ کر رو رہا تھا۔ 

اسے کچھ ہوش نہيں تھا۔ 

اسکے انداز نارمل نہيں لگ رہے تھے۔ 

مشال اور منزہ نے بہتيری کوشش کی کہ وہ روئے مگر اسکی آنکھ سے ايک آنسو نہيں ٹپک رہا تھا۔ 

اور يہ حالت نہايت تشويش ناک تھی۔ عصر کے قريب رفيعہ کو دفنانے کے لئے اٹھايا گيا۔ 

مطيبہ اس لمحے بھی نہيں روئ۔ اسکے وجود ميں کوئ جنبش ہی نہيں ہورہی تھی۔ 

دوپٹہ ڈھلک کر کہاں جارہا ہے اس نے ايک بار بھی ہاتھ بڑھا کر ٹھيک نہيں کيا تھا۔ 

"اسے رلاؤ" وہاں موجود کسی عورت نے مشال کو مخاطب کيا۔ 

"مطيبہ۔۔۔ پليز يار رو لو ۔۔ دل کا غبار ہلکا کر لو۔" مشال نے اسے خود ميں بھينچا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔ 

منزہ نے بھی اپنی سی کوشش کرلی۔ 

لوگوں کو کھانا دے کر جيسے ہی وہ لوگ فارغ ہوئيں۔ مرد جنازہ پڑھ کر واپس آچکے تھے۔ 

مشال نے سلمان سے کہا کہ رئيد کو باہر مردوں ميں سے بلا کر لاۓ۔ 

مشال اور منزہ مطيبہ کو اسکے کمرے ميں لے جاچکی تھيں۔ 

"مطيبہ۔۔ آنٹی اب اس دنيا ميں نہيں ہيں۔ وہ تمہارے پاس نہيں ہيں۔۔۔ مطيبہ تم سن رہی ہو" جس لمحے رئيد اندر آيا منزہ پھر سے اسے رلانے کی اپنی سی کوشش کررہی تھی۔ 

مگر وہ ويسے ہی بت بنی بيٹھی تھی۔ 

"ہم کب سے اسے رلانے کی کوشش کررہے ہيں۔ مگر يہ ذرا سا بھی نہيں روئ۔ اور يہ کنڈيشن اسکے لئے ٹھيک نہيں۔ کوئ ڈاکٹر بلائيں" مشال نے اندر آتے رئيد کو ديکھ کر تمام صورتحال بتائ۔ 

رئيد نے ايک اچٹتی سی نگاہ مطيبہ کے بے پرواہ حليے  پر ڈالی۔ 

"نہيں ميں ديکھتا ہون" وہ آگے بڑھ کر اسکے سامنے بيڈ پر بيٹھا۔ 

مطيبہ کے ہاتھ تھام کر اسکی جانب ديکھا جو سامنے کسی غير مرئ نقطے کو گھور رہی تھی۔ رئيد کے ہاتھ تھامنے پر بھی وہ ويسے ہی بيٹھی رہی۔ 

مشال اور منزہ ايک جانب کھڑی ہو گئيں۔ 

"مطيبہ۔۔ اماں اب اس دنيا ميں نہيں اور اس حقيقت کو آپ کو فيس کرنا پڑے گا۔۔ جتنی جلدی کرلو بہتر ہے" رئيد نے بے تاثر اور قدرے سخت لہجہ اپنا کر کہا جو اسکی شخصيت کا خاصہ نہيں تھا۔ 

مطيبہ اسکی بات پر بغير کوئ ردعمل دئيے ويسے ہی بيٹھی رہی۔ 

رئيد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا۔ 

"آواز آرہی ہے ميری" اب کی بار اسکی آواز بلند ہوئ۔ 

"آپ اکيلی ہو اب۔۔۔۔ نہ آپکا باپ ہے نہ آپکی ماں۔۔ بالکل اکيلی رہ گئ ہو۔۔۔" رئيد نے پھر سے اسے زور زور سے جھنجھوڑا۔ 

يکدم مطيبہ کی نظريں رئيد کے چہرے پر ٹکيں۔ جو غصے اور دکھ سے اسکی جانب ديکھ رہا تھا۔ 

"اماں۔۔ نہيں رہيں۔۔ انہيں ميں ان ہاتھوں سے قبر ميں اتار کر آيا ہوں۔۔ ديکھو ميرے ہاتھ" رئيد نے سخت لہجے ميں اپنے ہاتھ اسکے سامنے کئيۓ۔ مطيبہ اسکے ہاتھ تھام کر ان پر چہرہ رکھ کر يکدم پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ 

تينوں نے سکھ کا سانس ليا۔ رئيد نے ہاتھ کھينچ کر اسے خود ميں سمو ليا۔ نم آنکھيں لئے وہ کچھ نہ بولا۔ 

بس اتنا جان گيا کہ وہ اسکے لئے خاص ہے۔ 

اور خاص رشتوں اور لوگوں کے سامنے ہی ہم اپنا دل کھول کر رکھ ديتے ہيں۔ 

ہر اجنبی کے سامنے ہم اپنے دکھوں پر نہيں روتے۔ چند خاص رشتے اور لوگ ہوتے ہيں جن کے سامنے روتے ہميں کوئ سوچ۔۔ کوئ سبکی محسوس نہيں ہوتی

بس انکے سامنے دل کا ہر درد رکھ دينا ہوتا ہے۔۔مطيبہ کے پاس بھی اب جو خاص رشتہ تھا وہ رئيد تھا۔ جوکسی کے سامنے نہ روئ۔۔ وہ اسکے سامنے بکھر بکھر گئ کہ رئيد کو پھر اسے سنبھالنا مشکل ہوگيا۔

____

ايک ہفتہ ہوگيا تھا رفيعہ کی وفات کو۔۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا آنا جانا کم ہوگيا۔ 

حسن بھی مہمان داری کی وجہ سے اور کچھ مطيبہ کی لجوئ کی خاطر رکے ہوۓ تھے۔ 

شام ميں رئيد کے آفس سے آنے کے بعد حسن اور رئيد کو شام کی چاۓ دينے کے بعد مطيبہ اپنے کمرے ميں کسی کام سے گئ جب حسن نے اپنی واپسی کاذکر چھيڑ ديا۔ 

"ميں سوچ رہا ہوں کہ اس ويک ايںڈ واپس چلا جاؤں۔۔" حسن نے رئید کی جانب منتظر نگاہوں سے ديکھا۔ 

"جی بابا۔۔ جيسے آپ کو ٹھيک لگے" رئيد نے خالی کپ سينٹر ٹیبل پر رکھ کر کہا۔ 

"ابھی مطيبہ سے اس نکاح کے حوالے سے بات کرنا مناسب نہيں لگتا ميں چند دنوں کے بعد پھر آؤں گا تو ہم مل بيٹھ کر کوئ حل نکاليں گے" حسن کی بات پر رئيد نے ايک نظر انہيں ديکھا۔ 

مطيبہ بھی باہر آچکی تھی۔ 

"کہاں جانے کی بات کررہے ہيں" مطيبہ نے ان کا آخری جملہ سن ليا تھا۔ 

"بيٹے بس کام کی کچھ مصروفيت ہے لہذا مجھے واپس جانا ہوگا" حسن کی بات پر اس نے ايک خاموش نگاہ حسن اور پھر رئيد پر ڈالی جو اسی کی جانب متوجہ تھا۔ 

"آپ يہاں آکر اپنا کام نہيں کرسکتے۔ اين جی اووز اور يو اين تو یہاں بھی کام کرتے ہيں" مطيبہ کی بات پر وہ ہولے سے مسکراۓ۔ 

"ہاں اب يہی سوچ رہا ہوں" ان کی بات پر رئيد نے چونک کر حسن کی جانب ديکھا۔ 

يہ بات انہوں نے اب تک کبھی رئيد سے ڈسکس نہيں کی تھی۔ 

'جس بہو کا نکاح ختم کروانے کی باتيں کررہے تھے اسے اپنا ہمراز بنا رہے ہيں۔'رئيد اس بات پر دل ہی دل ميں حيران ہوا۔ 

"بس اس ويک اينڈ پر تو واپس جاؤں گا۔ پھر کوشش کروں گا کہ اسی سال يہاں واپس آجاؤں" اب وہ اگی پليننگ بھی اسے بتا رہے تھے۔ 

رئيد نے بھنويں اچکا کر انکی جانب ديکھا۔ 

"ہاں نا۔۔اکيلے وہاں کيسے رہتے ہوں گے۔ مجھے تو یہی سوچ سوچ کر ٹينشن ہوتی ہے" مطيبہ کے انداز پر رئيد مزيد بھونچکا ہوا۔ شوہر کا پتہ نہيں سسر صاحب کے لئے اتنی فکر مندی۔ 

"بس بيٹا اللہ وقت گزار ہی ديتا ہے کبھی اچھا گزرتا ہے اور کبھی برا" انہوں نے ايک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ 

مطيبہ بھی ماں کو ياد کرکے غم زدہ ہوئ۔ 

"چلو آؤ واک پر چلتے ہيں" مطيبہ کو اشارہ کرتے وہ اٹھ کھڑے ہوۓ۔ 

رئيد کو اپنا يوں نظر انداز کيا جانا بری طرح کھلا۔

"مجھے بھی اجازت ہے يا پھر ميں آپ دونوں کی جانب سے نہ ہی سمجھوں" رئيد نے لطيف سا طنز کيا۔۔۔

حسن زور سے ہنسے۔ 

"آجاؤ بھئ۔۔۔ پيچھے بيٹھ کر ہميں بددعائيں دينے سے بہتر ہے تم بھی ہمارے ساتھ آجاؤ" حسن کی بات پر وہ سر جھٹک کر اٹھا۔ 

حسن کے ايک جانب مطيبہ اور دوسری جانب رئيد چل رہے تھے۔ 

مطيبہ نے بالآخر خود کو سنبھال ہی ليا تھا۔ اپنوں کے بچھڑنے اور کھونے کی تکليف بے تحاشا صحيح مگر زندگی ان کے بنا گزارنی ہی پڑتی ہے۔ 

اور زندگی کا نام تو ہے گزرتے رہنا۔۔ نہ وہ کسی کے آنے سے رکتی ہے نہ جانے۔ 

اور باقی کا کام وقت کرديتا ہے۔ اپنوں کا چھوڑا خلاء وقت بھر تو نہيں سکتا ہاں مگر اس خلاء کی وہ شدت جو شروع ميں بری طرح محسوس ہوتی ہے۔ وقت گزرتے گزرتے ہر لمحہ اس پر مرہم رکھتا جاتا ہے۔ خلاء وہيں رہتی ہے مگر اس کو محسوس کرنے کی شدت ميں کمی آجاتی ہے۔ 

مطيبہ نے اب زندگی ميں آگے بڑھنا تھا۔ اپنی زندگی کے بہت سے اہم فيصلے کرنے تھے۔ 

اس کے لئے اسے خود کو سنبھالنا تھا اور اس تگ ودو ميں وہ کامياب ہوگئ تھی۔ 

بس اب اسے حسن کے جانے کا انتظار تھا تاکہ وہ زيادہ پرسکون انداز ميں اپنا فيصلہ کرسکے۔  

____________________________

"ہيلو مشال کيسی ہو" حسن کے جاتے ہی اگلے دن اس نے مشال کو فون گھمايا۔ رئيد آفس جا چکا تھا۔ يہ وقت مشال سے بات کرنے کے لئے بہتريں تھا۔ 

"بالکل ٹھيک تم سناؤ کيسے ہو۔۔کيا کررہی ہو آجکل" مشال محبت سے بولی۔ 

"ميں بالکل ٹھيک ہوں۔ تم سے ايک ضروری بات کرنی تھی۔ مگر پہلے وعدہ کرو کہ بابا يا رئيد دونوں ميں سے کسی کو تم اس بات کی ہوا تک نہيں لگنے دوگی" مطيبہ نے رازداری کی شرط رکھی۔ 

"ايسی کيا بات ہوئ ہے۔۔ اب تو کہيں شہاب کے بندوں نے تمہيں تنگ نہيں کيا" مشال سب کچھ جان چکی تھی۔ فکرمندی سے بولی۔ 

"ارے نہيں۔۔ اس طرف سے تو سکون ہی سکون ہے۔" مطيبہ نے اسے تسلی دلائ۔ 

"پھر ايسی کيا بات ہے کہ تم ان دونوں سے چھپانے کا کہہ رہی ہو" مشال نے الجھ کر پوچھا۔ 

"پہلے تم وعدہ کرو" مطيبہ کی سوئ وہيں اٹکی ہوئ تھی۔

"ہيلو مشال کيسی ہو" حسن کے جاتے ہی اگلے دن اس نے مشال کو فون گھمايا۔ رئيد آفس جا چکا تھا۔ يہ وقت مشال سے بات کرنے کے لئے بہتريں تھا۔ 

"بالکل ٹھيک تم سناؤ کيسے ہو۔۔کيا کررہی ہو آجکل" مشال محبت سے بولی۔ 

"ميں بالکل ٹھيک ہوں۔ تم سے ايک ضروری بات کرنی تھی۔ مگر پہلے وعدہ کرو کہ بابا يا رئيد دونوں ميں سے کسی کو تم اس بات کی ہوا تک نہيں لگنے دوگی" مطيبہ نے رازداری کی شرط رکھی۔ 

"ايسی کيا بات ہوئ ہے۔۔ اب تو کہيں شہاب کے بندوں نے تمہيں تنگ نہيں کيا" مشال سب کچھ جان چکی تھی۔ فکرمندی سے بولی۔ 

"ارے نہيں۔۔ اس طرف سے تو سکون ہی سکون ہے۔" مطيبہ نے اسے تسلی دلائ۔ 

"پھر ايسی کيا بات ہے کہ تم ان دونوں سے چھپانے کا کہہ رہی ہو" مشال نے الجھ کر پوچھا۔ 

"پہلے تم وعدہ کرو" مطيبہ کی سوئ وہيں اٹکی ہوئ تھی۔

__________________________

"ہيلو" رئيد اپنے موبائل پر انجان نمبر ديکھ کر پہلے تو چونکا پھر کچھ سوچ کر فون اٹھا ليا۔ 

"ہيلو۔۔ رئيد بيٹا ميں  شميم بات کررہی ہوں" شميم نے اپنا تعارف کروايا۔ 

"جی جی آنٹی کيسی ہين آپ" رئيد نے کيس کے دنوں ميں شميم کو اپنا نمبر ديا تھا۔ 

ان دنوں تو ضرورت نہيں پڑی مگر آج شميم نے نجانے کيوں اسے فون کيا تھا۔ 

"بيٹا ميں مطيبہ کو کافی دير سے فون کررہی تھی وہ اٹھا نہيں رہی تھی تو ميں نے سوچا کہ تمہيں ہی فون کرکے گھر کا بتادوں" انکی بات پر وہ الجھا۔ 

"کون سا گھر؟" 

"بيٹا وہی جو ہمارے گھر کے ساتھ ہے۔ چند دن پہلے ہی مطيبہ نے مجھے وہ گھر بيچنے کا کہا تھا۔ ايک اچھا گاہک کل آيا تھا۔ وہ گھر کے نو لاکھ دينے کو تيار ہے۔ اگر ارادہ بن جاۓ تو کل آکر لکھت پڑت کر لينا" انکی بات پر رئيد جتنا حيران ہوتا کم تھا۔ 

مطيبہ نے ايسا کوئ ذکر نہ تو رئيد کے ساتھ کيا تھا اور نہ ہی حسن کے ساتھ۔ 

"جی ميں مطيبہ کو بتا دوں گا" شميم کو تو اس نے ٹالا مگر مطيبہ سے دو دو ہاتھ کرنے کو وہ تيار ہوچکا تھا۔ بس اب شام کا انتظار تھا۔

شام ميں جس وقت وہ گھر واپس آيا مطيبہ لاؤنج ميں کوئ کتاب ہاتھ ميں لۓ صوفے پر دونوں پاؤں ٹکاۓ پڑھنے ميں منہمک تھی۔ 

رئيد کو اندر آتے دیکھ کر سلام کرکے کچن ميں جانے لگی۔ جب رئيد نے اسے اپنے کمرے ميں آنے کا حکم صادر کيا۔ 

پرسوچ انداز لئے وہ اسکے پيچھے آئ۔ 

دوازہ ہولے سے ناک کيا۔ 

کم ان کی آواز پر وہ چہرے پر تفکر لئے رئید کے کمرے ميں داخل ہوئ۔ 

رئید سامنے ہی بیڈ پر وائٹ شرٹ اور بليک پينٹ ميں سلیويز کو کہنيوں تک موڑےچہرے پر سخت تاثرات سميت اسکی آمد کا منتظر تھا۔ 

"بيٹھيں" کمرے ميں موجود بين بيگز کی جانب اشارہ کيا۔ 

مطيبہ خاموشی سے ان ميں سے ايک پر ٹک گئ۔ 

"آپ نے شميم آنٹی کو اپنا گھر بيچنے کا کيوں کہا؟" رئيد بغير کسی تمہيد کے اس سے باز پرس کرنے لگا۔ 

"ميں اگر آپکے گھر ميں رہتی ہوں۔ اس کا مطلب يہ نہيں کہ اپنے ہر فعل کی آپکے سامنے جوابدہ ہوں" مطيبہ نے چند پل سوچ کر سرد لہجے ميں جواب دیا۔ 

"آپ ميری بيوی ہيں۔۔ اور ہر بيوی اپنے شوہر کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے" رئید نے اسے گھورا۔ 

"ميں آپکی بيوی نہيں۔ منکوحہ ہوں۔ اور وہ بھی مجبوری کی۔۔۔ مجھے اپنی آئندہ زندگی کے لئے بہت کچھ سوچنا ہے۔ ساری زندگی آپکے در پر پڑی نہيں رہوں گی۔ اسی لئے مجھے کچھ پيسوں کی ضرورت تھی اور ميں نے وہ گھر بيچنے کا کہا۔ اس سے زيادہ بتانے کی ميں پابند نہيں" مطيبہ کے کورے جواب پر وہ گنگ رہ گيا۔ 

"کيا بات ہے آپکی۔۔۔ فی الحال آپ ميرے گھر اور ميری چارديواری ميں رہتے ہوئ ميری پابند ہيں۔ آپ کو پيسے چاہئيے تھے آپ مجھے بتاتيں۔۔ 

مگر يوں گھر بيچنے کی تک نہيں تھی۔ اور چليں اگر بيچ ليا ہے تو وہ ويسے آپ اپنے اکاؤنٹ ميں رقم جمع کرليں۔ آپکی جتنی ضرورت ہے اسکے لئے ميں آپکو پيسے دے ديتا ہوں" رئيد کی بات پر اس کا دل کيا اسے جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ وہ کيوں اسے اپنے احسانوں تلے دبا کر رکھنا چاہتا تھا۔ 

"مجھے آپکے پيسوں کی ضرورت نہيں۔۔۔ پڑھی لکھی ہوں جاب کر سکتی ہوں۔ اور بہت جلد ميں ايسا کروں گی۔ ميں مزيد اس گھر ميں نہيں رہ سکتی۔ جتنا آپ کو تنگ کرنا تھا کر ليا۔ 

ميرے خيال ميں اب ہمارے راستے الگ الگ ہيں" وہ جو اس موضوع پر اس سے دوبدو بات نہيں کرنا چاہتی تھی رئيد کی وہی رٹ ديکھ کر کچھ سوچتی اسے آگاہ کرنے لگی۔ 

"مگر ميرے خیال ميں ايسا نہيں ہے۔ آپ کو جتنا وقت چاہئيے اس رشتے کو قبول کرنے کے لئے آپ لے ليں۔ مگر ميں آپ کو اپنی زندگی سے ہر گز بے دخل نہيں کروں گا" رئيد نے اپنا فيصلہ سنايا۔ 

"مگر ميں دوسری بيوی بن کر نہيں رہنا چاہتی۔ مجھے آپ اپنا پابند کررہے ہيں آپ نے کيا مجھے بتانے کی ضرورت محسوس کی کہ آپکی پہلے سے ايک بيوی ہے۔ ميں غاصب نہيں ہوں۔ 

آپکا يہ احسان ساری زندگی ياد رکھوں گی جو آپ نے مجھ پر کيا۔ مگر ميں کسی کا حق نہيں مار سکتی" آخر وہ زبان پر شکوہ لے آئ۔ 

"وہ سب ايسے نہيں ہے جيسے آپ سمجھ رہی ہو۔ اگر ٹھنڈے دماغ سے بات سنو گی تو ميں سب حقيقت بتا دوں گا۔ ليکن پہلے اپنے دماغ سے يہ احسان والا بھوت اتارو" رئيد بھی کچھ فيصلہ کرکے اسے ٹوک گيا۔ 

"احسان نہيں تو پھر کيا ہے ہمارے بيچ۔۔" مطيبہ غصے سے بولی۔ 

"محبت" رئيد نے ايک ہی لفظ ميں جواب دے کر بات ہی ختم کردی۔ 

"ہا۔۔۔۔" مطيبہ نے کندھے اچکا کر نفی ميں سر ہلايا۔ 

"ميرے خيال مين آپ کے لئے اتنا کچھ ميں نے احسان کے چکروں ميں نہيں کيا۔ اور نہ ہی کوئ کر سکتا ہے۔ ہاں مگر جو ايک جذبہ اس سب کے پيچھے ہے وہ محبت ہی۔ ميں بہتر انداز ميں يہ اعتراف کرنا چاہتا تھا۔ 

ليکن لگتا ہے ميری طرح آپ کو بھی نارمل چيزيں پسند نہيں تو يہ ابنارمل اعتراف ہی صحيح" رئيد کا مسکراتا لہجہ اسے اور غصہ دلا گيا۔ 

"کسی کے ساتھ چند دن رہ لينے سے محبت نہيں ہوتی۔ اس طرح تو ہميں جانوروں سے بھی محبت اور انسيت ہو جاتی ہے۔"مطيبہ نے اپنی جانب سے بہت پائيدار جواز ڈھونڈا۔ 

"بالکل ہوتی ہے۔۔ مگر انسان اور جانور کی محبت اور اسکے تقاضے الگ ہوتے ہيں" رئيد کی ذومعنی بات پر مطيبہ کا دل دھڑکا۔ 

"ليکن ميں اس سب کو نہيں مانتی۔ پليز۔۔ ميں مزيد آپکے ساتھ نہيں رہ سکتی" مطيبہ نے بے چارگی سے کہا۔ 

"اور ميں بھی آپ کو نہيں چھوڑ سکتا۔۔۔يہاں سے نکل کر کہاں جائيں گی" رئيد کی بات پر وہ استہزائيہ مسکرائ۔ 

"ديکھا ہمدردی کے تعلق کو آپ محبت کا نام دے رہے ہيں۔ يہی سوچ رہے ہيں کہ ميں اکيلی اور لاوارث ہوں۔۔ اسی لئے آپ مجھے چھوڑ نہيں سکتے۔ آپ مجبور ہيں مجھے ساتھ رکھنے ميں" وہ اسکی بات کو کوئ اور ہی رنگ دے گئ۔ 

"آپکی اس خودساختہ انا کا کچھ نہيں کيا جاسکتا۔ ميں زبردستی کرنے والوں ميں سے نہيں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ سيدھی بات سمجھتی نہيں ہيں۔ 

خير اس پر پھر کسی دن تفصيل سے بات کريں گے۔ فی الحال آپ کو اگر گھر بيچنے کا دھن سوار ہوچکا ہے تو اسے بيچ کر اپنے اکاؤنٹ ميں جمع کريں۔ اور يہ چيک رکھيں۔ اس سے زیادہ بھی چاہئے ہوں تو بنا کسی جھجھک کے کہہ دينا" اسکی باتيں ہوا ميں اڑاتے رئيد نے دو لاکھ کا چيک کاٹ کر ديا۔ 

"اور ٹھنڈے دماغ سے اس رشتے کو سوچيں۔ اسکی حقيقتوں کو جانيں تو يقين کريں آپ کو ہر چيز صحيح لگے گی۔ اور شايد ميری محبت پر يقين بھی آجاۓ" رئيد اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قريب آيا چيک اسکےپاس پڑی ٹيبل پر رکھ کر مڑا اور واش روم ميں چلا گيا۔ 

مطيبہ نے ايک غصيلی نگاہ اسکی پشت پر ڈالی۔ 

جيسے ہی وہ واش روم ميں بند ہوا۔ 

مطيبہ نے چيک اٹھا کر اسکی رائيٹنگ ٹيبل کی دراز ميں رکھا۔ 

اورانتہائ طيش کے عالم ميں اسکے کمرے سے باہر نکلی۔

________________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment