Pages

Thursday 22 December 2022

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 5 to 6

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 5 to 6

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 5'6 

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"چلو سب اپنے موبائل جلدی جلدی ٹیبل پر رکھو بغیر کسی چالاکی کے ساتھ"

ایک نقاب پوش بولا

دوسرا کمروں کی طرف گیا اور پوری جگہ کا جائزہ لینے لگا۔ کچن میں موجود خانساماں کو بھی لے کر لان میں آگیا۔ جب سب اپنے موبائل نکال چکے تھے اتنے میں خضر اور حور بھی لان کی طرف آئے اور لان کا منظر دیکھتے ہی جہاں خضر حیرت میں مبتلا ہوا وہی حور کی آنکھیں بھی خوف سے پھیل گئی ان تینوں میں سے ایک حور اور خضر کی طرف بڑھا اس کے قدم آگے بڑھانے پر حور بے ساختہ خضر کے پیچھے چھپنے کے انداز میں کھڑی ہوئی۔ اس عمل سے نقاب پوش جس کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھی اب ان آنکھوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی وہ حور کو  خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا اور آگے قدم بڑھاتا ہوا وہ خضر کے سامنے آیا نظریں مسلسل حور پر تھی

"موبائل 2" 

ہاتھ میں پسٹل لیے اس نے خضر کو دیکھ کر غرا کر کہا۔ خضر نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھایا 

"موبائل"

اس نے آب حور کو مخاطب کر کے کہا 

"مم میرے پاس نہیں ہے" 

حور نے ڈرتے ہوئے الفاظ ادا کیے 

نقاب پوش نے پسٹل والے ہاتھ سے ان دونوں کو باقی لوگوں کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ حور وہاں پہنچتے ہی آسماء سے لپٹ گئی باقی سب کو ان تینوں نے کرسیوں پر بیٹھا دیا اور سب کے موبائل فون بھی اپنے قبضے میں کرلیے 

"دیکھو تم لوگوں کو جو بھی کچھ چاہیے وہ تم لوگ لے لو لیکن پلیز ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ میں کوآپریٹ کرنے کے لئے تیار ہوں"

ظفر مراد نے موقع محل دیکھا تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے

 آرام سے گویا ہوئے

"جو ہمیں چاہیے ہو گا وہ تو ہم لے ہی لیں گے 'کیسے بھی، اور کوآپریٹو تو اب تمھارے اچھے بھی کریں گے اس کی تم فکر نہ کرو"

ان میں سے ایک ظفر مراد کے قریب آ کر بولا  

ظفر مراد نے اپنا والڈ نکال کر آگے بڑھایا 

"کیا چاونی چور سمجھا ہوا ہے اور یہ کیا مسجد کا چندہ دے رہے ہو"

اس نقاب پوش نے والڈ دور اچھالتے ہوئے کہا  

"کیا۔۔۔ کیا چاہیے تم لوگوں کو"

ظفر مراد نے ضبط کرتے ہوئے بولا 

"یہ کی ہے نا اب کام کی بات, چیک بک نکالو جلدی"

اس نقاب پوش نے اپنی جیکٹ میں سے کاغذ اور پین نکالتے ہوئے چیک بک ظفر مراد کے ہاتھ سے لےلی

"سگنیچرز کرو اس پر"

اس نقاب پوش نے پیپر اور پین ظفر مراد کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا 

"کیا ہے آن پیپرز میں"

ظفر مراد نے پوچھا

"سوال نہیں سائن کرو جلدی"

تیز لہجے میں کہتے ہوئے پسٹل ظفر مراد کے سر پر تان لی 

"کیا کر رہے ہیں ظفر سائن کر دیں نا جلدی"

فاطمہ خوف زدہ ہوتے ہوئے بولیں

ظفر مراد پیپرز پڑھنے لگے وہ کوئی قانونی لیگل نوٹس تھا۔ جس میں لکھا ہوا تھا 

"میں ظفر مراد اپنی مرضی سے اپنے ہوش و حواس میں بغیر کسی دباؤ کے اپنے مرحوم دوست ساجد شاہ کی پراپرٹی کا حصہ جو کہ میرے پاس اس کی امانت تھا رقم کی صورت میں اس کے بیٹے شاہ زین کے حوالے کرتا ہوں"

یہ پڑھ کر ظفر مراد کی آنکھوں میں غصے کی ایک لہر دوڑی۔ انہیں ایک لمحہ نہیں لگا یہ سمجھنے میں ان کے سامنے کھڑا یہ نقاب پوش کون ہے  "تم"

وہ صرف اتنا بول سکے 

"ہاں میں" 

زین نے اپنا نقاب اتارا اس کی پشت سب لوگوں کی طرف تھی۔ نقاب اترنے سے کسی نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا 

"جلدی سائن کروں"

پسٹل ابھی بھی ظفر مراد کے ماتھے پر تھی

ساری خواتین سمیت ماہم ردا اور حور خوف سے رو رہی تھئں۔ کیوکہ بلال اور اشعر کی پسٹل کا رخ ان سب کی طرف تھا جب کہ زین نے پسٹل ہر مراد کے ماتھے پر رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مرے مرے ہاتھوں سے سگنیچر کردیئے۔۔۔ زین نے ظفر مراد کے ہاتھوں سے پیپرز لے کر ایک نظر پیپرز پر ڈالی اور چیک بگ ظفر مراد ک اگے کی اور سائن کا اشارہ کیا

اب زین کا چہرہ باقی سب لوگوں کی طرف تھا۔ جہاں خضر اس کا چہرہ دیکھ کر چونکا وہی حور کے سارے جسم کا خون خشک ہو گیا وہ باقاعدہ کپکپانے لگی وہ تو اسے بالکل ہی فراموش کرچکی تھی پیپرز ختم ہونے کے بعد اس نے سوچا تھا 'چلو اس گھٹیا شخص سے تو جان چھٹی جو اس کو نہ جانے کیوں ڈراتا تھا۔ مگر یہ کیا آج وہ پھر اس کے سامنے تھا وہ بری طرح خوفزدہ ہو گئی۔

آب کے زین کی بھی نظر حور کے اوپر پڑی اس کو دیکھ کر زین کو غصہ آنے لگا کتنے مزے سے وہ پول والی سائیڈ پر خضر کے ساتھ اکیلی تھی اس کے منع کرنے کے باوجود اور جب وہ اس کی طرف بڑھا تھا تو وہ کس طرح خضر کے پیچھے چھپ گئی تھی یہ چیز زین کو اور سلگا گئی 

دوبارہ ظفر مراد کی طرف مڑا اور بولا 

"یہ چیک پر تم نے کس حساب سے رقم لکھی ہے"

زین نے ظفر مراد سے پوچھا 

"اتنی ساری رقم کا بندوبست میں ایک ساتھ نہیں کرسکتا باقی کی رقم ارینج کرنے میں مجھے تھوڑا وقت چاہئیے"

"اب بھی ارینج نہیں ہوگا"

اب زین کی پسٹل کا رخ خضر کے اوپر تھا 

"کیا کر رہے ہیں ظفر یہ لوگ جو مانگ رہے ہیں آپ انہیں دے دیں"

فاطمہ نے باقاعدہ روتے ہوئے بولیں 

"میں صحیح کہہ رہا ہوں میری بات کا یقین کرو میرے پاس جتنی رقم تھی وہ میں نے اس چیک میں لکھ دی ہے۔ باقی رقم ارینج کرنے کے لئے مجھے پورا ایک دن لگے گا مجھے پلیز ایک دن کی مہلت دو میں تمھیں تمھاری ساری رقم دے دوں گا"

اب کے ظفر مراد بہت بے بسی سے بولے کیونکہ پسٹل ان کے بیٹے کے اوپر تھی 

"ٹھیک ہے پھر ہم 24 گھنٹے تک تمہارے اور تمہاری فیملی کے مہمان ہیں  یعنی ہم 24گھنٹے اسی فارم ہاؤس کے رہیں گے تمہاری فیملی اور تمہارے ساتھ۔ اگر کسی نے کوئی بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو وہ اپنی جان سے جائے گا یاد رہے"  

زین نے سب کو باور کرایا 

"سب اسی جگہ پر رہیں گے کوئی کہیں نہیں جائے گا۔۔۔ تم جو جاکر رات کا کھانا بناؤ اور بلال تم اس کے ساتھ جاو" 

اشعر نے پہلے سب کو وان کیا پھر خانساماں سے رات کا کھانا بنانے کے لئے بولا اور بلال کو اس کے ساتھ کچن بھیج  دیا۔ تاکہ خانساماں کوئی ہوشیای نہ دکھا سکے خود اشعر اور زین کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ 

سب لوگ لان میں ہی ان کے سامنے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے 

رات ہونے کی وجہ سے اب سردی بڑھ رہی تھی اتفاق سے حور اپنا سویٹر بس میں چھوڑ آئی تھی اور آسماء کی شال بھی بس میں ہی تھی۔  اسماء کو سردی لگ رہی تھی اور بار بار کھانسی ہو رہی تھی کیوکہ ان کو پہلے ہی فلو ہورہا تھا اب سردی لگنے کی وجہ سے مزید طبیعت خراب ہو رہی تھی 

"چچی کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے آپ کی"

خضر نے کھانستی ہوئی آسماء سے پوچھا

"ٹھنڈ کی وجہ سے شاید طبیعت خراب ہو رہی ہے، ماما کی شال بس میں ہے"

حور نے پریشانی سے خضر کو بتایا 

"کوئی بات نہیں میں لے آتا ہوں"

خضر اٹھتے ہوئے بولا 

"ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور شال بس میں ہے وہ لینے جانا ہے"

خضر نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا 

"زیادہ ہیرو بننے کی کوشش نہیں کرو اور چپ کر کے بیٹھ جاؤ"

اشعر نے خضر کو بولا خضر اپنے جبڑے بھینچ کر بیٹھ گیا 

"جاو تم شال لے کر آو بس سے"

اشعر نے حور کی طرف اشارہ کیا 

وہ کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اٹھی اور بس کی طرف جانے لگی بس میں پہنچی تو آخری والی سیٹ پر اس کا سویٹر اور شام دونوں رکھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں چیزیں لے کر جیسے ہی پلٹی وہ حور کے قریب کھڑا ہوا تھا دونوں چیزیں حور کے ہاتھ سے گر گئیں۔ وہ انکھوں میں سنجیدگی کا تاثر لیے حور کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

حور نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہاتھ بڑھا کر بس کے شیشے پر رکھ دیا اور جانے کا راستہ بن کر کے اس کی کوشش ناکام بنا دی ۔۔۔۔ خوف کے مارے حور کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں حور نے دوسری طرف سے نکلنے کی کوشش کی تو اس نے دوسرا ہاتھ بھی بس کے شیشے بھی رکھ دیا۔ ۔۔۔ دونوں ہاتھ بس پر رکھنے سے ایسا لگ رہا تھا حور پوری کی پوری اس کی باہوں کے حصار میں آگئی ہو مگر حور کی کمر بسر ٹکی ہوئی تھی وہ آپ بھی سنجیدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اب حور کو اپنا دل روکتا ہوا محسوس ہوا

_______

وہ مزید حور کے قریب آیا اور اپنی پسٹل سے اس کے چہرے پر آئی ہوئی لٹے پیچھے کرنے لگا حور بری طرح کانپ رہی تھی 

"میرے دو بار منع کرنے کے باوجود تم مجھے پھر اس کے ساتھ دکھی ہو اب بتاؤں تمہیں کیا سزا دوں؟

وہ پسٹل اس کے چہرے پر پھیرتا ہوا نیچے تھوڑی تک لایا پر پسٹل سے تھوڑی اونچی تھی۔ ایسا کرنے سے حور کا چہرہ اونچا ہوا اور مزید زین کے چہرے کے قریب آگیا 

حور اپنی پوری جان سے لرز گئی 

"پلیز مجھے معاف کر دو اب دوبارہ غلطی نہیں ہو گی" سردی کے موسم میں بھی حور کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے 

"معافی تو بالکل نہیں ملنے والی جب سزا ملے گی تبھی تم دوبارہ غلطی کرنے سے باز رہو گی نا" 

وہ نرم لہجے میں مسلسل حور کو گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا 

اب پسٹل تھوڑی سے نیچے گردن پر آگئی تھی۔۔۔۔ گردن سے مزید پسٹل نیچے ہوئی حور نے بےساختہ پسٹل کو پکڑا

"پلیز" 

وہ اتنا ہی کہہ سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی 

زین نے پسٹل نیچے کی اور خود بھی تھوڑا سائیڈ پر ہو گیا 

"آنسو صاف کرو اور سویٹر پہن کر نیچے آو جلدی"

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔ حور جب انسوں صاف کر کے واپس لان آئی تو خانساماں کھانا اور برتن لا رہا تھا حور نے اسماء کے پاس بیٹھ کر شال انہیں تھمائی، حور کے چہرے پر ابھی بھی ہواہیاں اڑی ہوئی تھی خضر حور کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا 

"تم ٹھیک ہو" حور کی نظریں بے ساختہ زین کے اوپر گئی۔ زین اسی کو دیکھ رہا تھا حور نے نظریں چرالیں اور خضر کی بات پر سر ہلانے پر اکتفاد کیا 

کھانا ٹینشن زدہ ماحول میں کھایا گیا کھانے میں مرچیں بہت زیادہ تھی مگر خوف کی وجہ سے پانی کی بوتل اٹھانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی کیونکہ پانی کی بوتل اشعر بلال اور زین کے پاس رکھی ہوئی تھی 

زین کی نظر حور کر پڑی تیز مرچوں سے   اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا زین نے پانی کا گلاس اور بوتل اٹھا کر حور کی طرف بڑھا دی

رات ہونے کی وجہ سے سردی کافی بڑھ گئی تھی جس کے باعث سب ایک بڑے ہال نما کمرے میں جمع ہوگئے وہی اپنے اپنے بستروں پر بلینکٹ لیکر بیٹھ گئے۔ نیند تو اس رات کسی کو نہیں آنی تھی۔۔۔۔ سب نے وہ رات سوتے جاگتے گزاری 

صبح ہوئی تو نیند میں بھی حور کو مسلسل کیسی کی نگاہیں اپنے اوپر محسوس ہوئی۔ حور نے آنکھیں کھولی تو  اس کی نگاہیں سامنے  کرسی پر بیٹھے شخص پر گئی وہ کرسی پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا پاؤں سامنے ٹیبل پر رکھے ہوئے اسمکنگ کرتے ہوئے مسلسل نیم وا آنکھوں سے حور کو دیکھ رہا تھا

حور اٹھ کر بیٹھ گئی اور شال اپنے گرد اچھی طرح لپیٹ لی۔ خضر کو اس شخص پر غصہ آ رہا تھا جو مسلسل حور کو دیکھے جا رہا تھا خضر مسلسل ضبط کر رہا تھا 

"اگر تم نے اپنا دیکھنے کا شغل بن نہیں کیا تو بیچاری کوئی یہی بے ہوش ہو جانا ہے"

اشعر کے بولنے پر زین نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر اشعر کو گھورا اور سگریٹ جوتے سے مسل کر باہر چلا گیا

"چلو باقی سب بھی اٹھو اور جلدی سے لان میں آؤ"

اشعر نے باقی سب لوگوں کو باہر  آنے کا بولا

لان میں ہلکی ہلکی دھوپ تھی وہیں سب نے ناشتہ کیا

"بلال تم یہ چیک لے کر جاؤ اور رقم لے کر آؤ"

اشعر اور زین وہی تھے۔ زین نے ظفر مراد کا موبائل دیا باقی کی رقم کے انتظام کے لئے کہا تو حور کو اچانک یاد آیا اس کا موبائل تو اس کے بیگ میں ہی ہے

"اگر کسی طرح پولیس۔۔۔۔۔ مگر زین کو دیکھ کر اپنے خیال کو جھٹک دیا مگر پھر تھوڑی دیر بعد یہ سوچ دماغ میں آئی شاید اس طرح سے ہم لوگ بچ جائے 

"بس حور تھوڑی سی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرنا ہے"

اس نے اپنے آپ کو دل ہی دل میں سمجھایا 

ہمت کر کے وہ واش روم کا کہہ کر روم میں گئی اس کا بیک سامنے ہی موجود تھا اس نے پھرتی سے بیگ سے  اپنا موبائل نکالا اور اپنے سویٹر کی جیب میں چھپالیا۔ 

واش روم بھں اسی روم میں تھا حور واش روم کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک زین اندر روم میں آگیا اسے دیکھ کر حور کا چہرہ فق ہوگیا

"کیا کر رہی تھی حور"

زین نے بغور اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا

"ووہ مم وہ واش روم" 

خوف کے مارے حور کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی زین چلتا ہوا حور کے قریب آیا 

"کیا چھپایا ہے تم نے ابھی"

زین مزید فاصلہ کم کرتے ہوئے بولا 

"مم میں نے نہیں کچھ نہیں"

وہ گردن نفی میں ہلاتے ہوئے ہکلائی 

زین نے اس کو دونوں بازوؤں سے تھاما اور ایک جھٹکے سے موڑ کر حور کا منہ دیوار کی طرف کر دیا۔ حور کی گھٹی چیخ نکل گئی

"شش آواز نہیں بالکل، جلدی سے بتاؤ کیا چھپایا ہے"

زین نے پسٹل حور کی کمر پر رکھتے ہوئے کہا 

"میں نے کچھ نہیں چھپایا"

اس نے مضبوطی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا اگر وہ سچ بتا دیتی تو یقینا وہ اس کو زندہ نہیں چھوڑتا اس لئے اپنی بات پر قائم رہی۔ اس وقت کو کوسا جب اس نے کال کرنے کا سوچا تھا 

"ٹھیک ہے ایسے نہیں بتاؤ گی یعنی تم چاہتی ہو کہ میں خود تمھاری تلاشی لو" 

زین اپنے ہونٹ حور کے کان کے قریب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولا 

"نہیں پلیز"

زین کی بات سن کر حور کی بند آنکھیں پوری طرح کھل گئی اور پلٹتے ہوئے اس نے سویٹر کی پوکٹ سے اپنا موبائیل نکال کر زین کی طرف بڑھایا کہیں وہ سچی میں اس کی تلاشی ہی نہ لے لے 

"آئی ایم سوری"

حور نے شرمندگی اور خوف سے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں 

"ہہم بار بار غلطی کرتی ہوں اور پھر معافی مانگتی ہوں یہ ٹھیک بات تو نہیں ہے نا حور" 

زین نے موبائل کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ بھی تھامتے ہوئے کہا 

"ای پرامس میں واقعی آئندہ کچھ نہیں کروں گی"

 وہ روتے ہوئے منت سماجت پر اتر آئی

"شش رو نہیں اسطرح انٹرسٹ اور بڑھے گا"

وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا

"کیا ہو رہا ہے یہاں پر"

خضر کی آواز پر دونوں چونکے زین نے مڑ کردیکھا خضر سامنے ہی کھڑا تھا 

"حور کیا کررہی ہوں یہاں پر"

خضر حور کا ہاتھ دیکھ رہا تھا جو کہ ابھی بھی زین کے ہاتھ میں تھا 

"دور رہو اس سے یہ میری ہونے والی منگیتر ہے"

خضر نے بنا خوف کے زین سے کہا اور اس کا ہاتھ زین سے چھڑا کر حور کو کمرے سے لے گیا 

زین نے غصہ سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی اگلے ہی لمحے زین نے بلال کو کال ملائی

"ہاں یار ہوگیا تمہارا کام بس آرہا ہوں تھوڑی دیر میں"

کال رسیو کرتے ہیں بلال نے کہا 

"ساتھ میں نکاح خواں کو بھی لیتے ہوئے آو بلال"

زین نے سنجیدہ لہجے میں کہا

"وہ کس لئے میرے بھائی" 

بلال نے موبائل کو کان سے ہٹا کر گھورا جیسے وہ موبائل نہیں زین ہو

"آف کورس نکاح کے لئے یار"

زین نے کال ڈسکنکٹ کردی اور باہر آ گیا 

****

فضا میں فائر کی آواز گونجی خوف سے سب خواتین کی چیخیں نکل گئی 

اشعر نے بھی چونک کر زین کو دیکھا زین نے پسٹل والا ہاتھ نیچے کیا اور بلند آواز میں کہا 

"اگر کسی نے بھی میری بات سے انکار کیا تو اگلی گولی اس کی کھوپڑی میں اتار دوں گا"

زین حور کی طرف موڑا 

"اور تم نکاح کے لئے تیار ہو جاؤ بہت شوق ہے نہ تمہیں منگنی کا اب منگنی نہیں ڈائریکٹ نکاح ہوگا"

زین نے حور کو گھورتے ہوئے کہا 

وہاں باقی سب کو سانپ سونگھ گیا اشعر بھی حیران ہوا

"یہ کیا سین ہے باس پلیننگ میں یہ کب شامل تھا"

اشعر نے ہلکی آواز میں کہا 

"ابھی بلال آئے گا تو سب پتہ چل جائے گا"

زین بولا 

"کس کا نکاح ہو رہا ہے یہاں پر اور کس سے"

ظفر مراد نے ناسمجھی کے عالم میں زین سے پوچھا 

"تمھاری بھتیجی کا نکاح ہو رہا ہے تمھارے بیٹے سے نہیں بلکہ مجھ سے"

زین نے سب کے سروں پر بم پھوڑا 

تھوڑی دیر خاموشی کے بعد سب سے پہلے خضر کو ہوش آیا 

"کیا فضول بکواس ہے یہ۔۔۔۔۔ تمہیں پیسوں سے مطلب ہے وہ لے کر جاؤ یہاں سے" 

بنا خوف کے خضر نے تیز آواز میں کہا

"مجھے جس چیز سے مطلب ہوگا وہ میں لے کر جاؤں گا اگر ہمت ہے تو روک کے دکھاؤ"

زین کو خضر کا مداخلت کرنا پسند نہیں آیا اس لیے اس نے چیلنج کرتے ہوئے کہا 

"تم اپنی حد سے نکل رہے ہو"

خضر نے غصے سے انگلی اٹھا کر کہا 

"او ہیرو بہت ہوگیے ڈائیلاگ جاکر کرسی پر بیٹھوں جلدی"

اب کے اشعر بولا 

"میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا"

خضر غصے سے چیخا

زین نے پسٹل اس کے ماتھے پر تان لی وہی اس کی آواز کو بریک لگا  

"مجھے تمہیں مارنے میں نہ ہی خوف محسوس ہوگا اور نہ ہی افسوس اگر زندگی چاہتے ہو تو شرافت سے چپ کر کے بیٹھ جاؤ"

زین اسے مارنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن دھمکانہ ضروری تھا 

ابھی زین اور بھی کچھ بولتا لیکن فاطمہ بیچ میں آگئی

"یہ کچھ نہیں بولے گا پلیز اس کے اوپر سے پسٹل ہٹا لو"

وہ خضر کو کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئ آہستہ سے بولیں

"اگر تمہیں اپنی فیملی کی عزت اور جان عزیز ہے خدا کا واسطہ ہے خاموش رہو، یہ خطرناک لوگ ہیں ان کے ہاتھ میں ہتھیار ہیں یہ جان لینے سے نہیں ڈرتے اور ہم بڑھاپے میں کوئی صدمہ برداشت نہیں کرسکتے"

"مگر امی وہ شخص حور کے ساتھ"

"بس خضر میں نے کہہ دیا! اگر تمہاری وجہ سے کسی کو یا تمہیں خود کو نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار تم ہوں گے اور میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی" 

فاطمہ نے خضر کی بات کاٹ کر اپنی بات مکمل کی

"بھابھی پلیز ایسے نہیں کہئے کوئی تو بچاو  میری حور کو"

اسماء نے روتے ہوئے کہا 

"اگر ہم نے ان کی بات نہیں مانی تو سب جان سے جائیں گے اور وہ صرف نکاح کا کہہ رہا ہے اس کے بعد ہم کوئی نہ کوئی حل تلاش کر ہی لیں گے"

سارہ نے بھی نرم لہجے میں آسماء کو سمجھانے کی کوشش کی

جب کہ روتے ہوئے آسماء یہ سوچنے لگی حور کی جگہ اگر ماہم ہوتی تو کیا سارہ تب بھی ییہں کرتی

ان سب کے درمیان ایک حور تھی اس تمام عرصے میں پتھر کی طرح بت بنی کھڑی رہی۔ کوئی کیا بول رہا ہے کوئی کیا کر رہا ہے اس کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا بلکہ اس کے خود کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا..

تھوڑا اور وقت گزرا تو بلال نکاح خواں کو لے کر آ گیا۔ فاطمہ نے خضر کو قسمیں دے کر چپ کر آیا ہوا تھا اور روتی ہوئی آسماء کو سارہ نے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا سارہ سے بار بار سمجھا رہی تھی اور تسلی دے رہی تھی جبکہ حور بالکل سن انداز میں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ماہم نے اس کو سر پر دوپٹہ اڑایا اور نکاح شروع ہوا 

زین کی طرف سے گواہوں میں اشعر اور بلال تھے جبکہ حور کی طرف سے تایا اور اس کے چچا۔ خضر اس سارے منظر کو بہت بے بسی سے ضبط کرکے دیکھتا رہا جب نکاح خواں نے حور سے پوچھا 

"آپ کو شاہ زین کے نکاح میں دیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے"

تو غائب دماغی سے نکاح خواں کو دیکھتی رہی اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا سب کے  ہونٹ ہل رہے تھے مگر آوازیں غائب تھیں۔۔۔۔۔ سب اسی کی طرف متوجہ تھے۔ جبھی فاطمہ تائی آگے بڑھ کر حور کے پاس آئیں اورحور کے کندھے پر ہاتھ سے دباؤ ڈال کر کہا 

"حور بیٹا جواب دو"

حور نے ایک نظر فاطمہ تائی کو دیکھا، وہ اسے اپنے بیٹے کی زندگی سے نکالنے کے لئے کس طرح اس کی زندگی داؤ پر لگا رہی تھی

"بولو بیٹا"

اب کے ہاتھ کا دباؤ پہلے سے زیادہ تھا۔ حور نے گردن ہلا کر "قبول ہے" کہا کسی روبوٹ کی طرح اس نے نکاح نامے پر سائن کیے قبول و ایجاد کے مراحل طے ہوئے اشعر اور بلال نے زین کو گلے لگایا وہی تایا اور چاچا حور کے سر پر ہاتھ رکھ کر کرسیوں پر بیٹھ گئےحور یوں ہی بت بنی بیٹھی رہی۔۔۔

ایسے ہی دوپہر سے شام اور شام سے رات ہو گئی۔۔۔۔ ٹینشن والے ماحول میں ہی خضر اسماء اور حور کے علاوہ سب نے رات کا کھانا کھایا۔ پہلے زین نے سوچا وہ حور کھانا کھانے کے لئے بولے مگر پھر کچھ سوچ کر اس نے اسے چھیڑنا مناسب نہیں سمجا صبح 9 بجے اسے اپنی باقی کی رقم مل جانی تھی اور انہیں اپنی منزل پر رواں ہونا تھا۔ آئے وہ تین تھے مگر ایک فرد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ زین نے سوچ لیا تھا وہ حور کو اپنے ساتھ لے کے جائے گا۔  نادیہ بیگم کو اس نے یہاں آنے سے دو دن پہلے ہی ھوسپٹل میں ایڈمٹ کروا دیا تھا۔ ویسے بھی ان کے ڈائلیسس ہورہے تھے اور ہسپتال میں انکی کیئر اچھی ہو رہی تھی۔ زین نے سوچا تھا کہ مناسب وقت پر وہ اماں کو حور سے اپنے نکاح کے بارے میں بتائے گا ویسے بھی وہ خوش ہی ہوتی۔ اصل کنفیوژن اسے حور کی تھی پتہ نہیں وہ کیسے ری ایکٹ کرے لیکن یہ کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا وہ اسے ہینڈل کر لے گا اسے یقین تھا۔ 

ویسے بھی اس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد بڑی بڑی پرابلم فیس کی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو تو اب اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا "پری" آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے کہا  اور لب مسکرائے 

"پتہ نہیں اسے شاہ یاد بھی ہو گا کہ نہیں"

یہی سوچتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ہونے میں ابھی تھوڑا ہی وقت ہے جب اشعر نے زین کو اٹھایا 

"بیٹا بہت خواب دیکھ لیے اب ہوش کی دنیا میں آ جاؤں"

زین میں آنکھیں کھول کر دیکھا تو ابھی پوری طرح ہو اجالا نہیں ہوا تھا برابر میں بلال بھی اونگ رہا تھا

"ویسے یار کیا مزے ہی تمہارے بھی، پکنک یہاں کون بنانے آیا تھا اور بنا کون رہا ہے"

اشعر نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ 

زین نے اسے گھورنے پر اکتفاد کیا اور سگریٹ سلگاتا ہوا وہ باہر نکل گیا خضر وہاں پہلے سے ہی موجود تھا چونک کر زین نے اسے دیکھا۔ خضر کی بھی نظر زین پر پڑی 

"تم حور کو چھوڑ دو پلیز وہ بہت معصوم ہے"

خضر نے بے بسی سے زین کو کہا 

"تمہیں اس کے غم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ویسے بھی اب وہ میری بیوی ہے تم دور رہو اس سے" 

زین کو اس کے منہ سے حور کا ذکر ناگوار گزرا تھا اپنی ناگواری چھپائے بغیر زین نے خضر کو اس کہ کل والے جملے لوٹایا 

"دیکھو تمہیں ہم سے جتنا پیسہ چاہیے تھا وہ تمہیں صبح تک مل جائے گا، اگر تمہیں مزید رقم چاہئے تو وہ میں تمہیں دونگا لیکن تم بدلے میں حور کو"

خضر کی بات مکمل ہونے سے پہلے زین نے خضر کا گریبان پکڑ تے ہوئے کہا 

"مجھے پیسوں کا لالچ دینے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی جو پیسہ میں نے تمہارے باپ سے لیا ہے وہ میرا ہی ہے جو تمہارے باپ نے دھوکے سے لیا تھا حقیقت جا کے اپنے باپ سے پوچھو"

زین نے ایک جھٹکے سے خضر کا گریبان چھوڑا 

اور ایک بات اور حور کو کسی بھی معاملے سے دور رکھوں میں دوبارہ تمہارے منہ سے اپنی بیوی کا نام نہیں سنوں گا"

زین نے اس کا گریبان سہی کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گیا

*****

صبح کا آغاز ہوا تو حور اپنے پاؤں سمیٹ کر بیٹھ گئی پوری ہی رات اس نے جاگ کر گزاری تھی آسماء کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ برابر میں ہی لیٹی ہوئی تھی

بلال ہال نما کمرے میں آیا اور بلند آواز میں کہا

"سب لوگ جلدی سے باہر آ جاؤ"

رقم پوری زین کو مل گئی تھی اب اس نے ظفر مراد کو اس کی فیملی کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔۔۔

یہی طے پایا گیا کہ پہلے وہ لوگ ظفر مراد کی فیملی کو بھیجیں گے، بعد میں رقم لے کر خود نکلیں گے۔ جانے کے وقت جب سب لوگ بس کی طرف بڑھ رہے تھے جب زین نے کہا 

"حور میرے ساتھ جائے گی"

زین نے حور کو بھی آسماء کے ساتھ بڑھتے ہوئے دیکھ کر بولا 

سب کے قدم وہی تھم گئے زین آگے بڑھا اور حور کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس کے عمل پر حور کو پہلی بار ہوش آیا اور اس کے منہ سے فقل ٹوٹا

"چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ہے"

اس نے زین کے ہاتھ سے اپنا بازو نکالتے ہوئے کہا مگر زین کی گرفت اس کے بازو پر اتنی ہلکی نہیں تھی کہ وہ آسانی سے چھڑا سکتی

خضر نے آگے بڑھنے کی کوشش کی فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا  

"چھوڑو میری بیٹی کو۔۔۔۔۔۔ پلیز بھائی صاحب دیکھیں یہ لوگ حور کو جانے نہیں دے رہے ہمارے ساتھ"

اسماء روتے ہوئے مسلسل بول رہی تھی وہ حور کی طرف بڑھنے لگی تو فاطمہ اور سارہ نے اس کو تھام لیا 

"آپ سب کو یہاں سے جانا ہے یا مزید یہاں پر رہنا ہے اور ویسے بھی آپ کی بیٹی کسی غیر کے پاس نہیں ہے اپنے شوہر کے پاس ہے"

اشعر کے بولنے پر سارہ آسماء کو سمجھانے لگی

"چلو آسماء نکلو یہاں سے اور کوئی مزید ہمارا نقصان نہ ہوجائے ہم یہاں سے نکلیں گے تبھی حور کو آزاد کروائیں گے" 

وہ آسماں کو لیے زبردستی بس کی طرف بڑھ گئی 

باقی سب لوگ بھی ان کے پیچھے تھے خضر نے بس میں چڑھنے سے پہلے مڑ کر حور کو دیکھا اور مسلسل روتے ہوئے اپنا بازو زین کے ہاتھ سے چھڑا رہی تھی۔ خضر کی نظر زین پر پڑی تو زین اسی کو دیکھ رہا تھا، اس کے ہاتھ کی گرفت حور کے بازو پر مزید مضبوط ہوگئی اور وہ حور کو وہاں سے لے کر کمرے میں چلے گیا۔ 

خضر تھکے ہوئے انداز میں بس میں چھوڑا اور بس وہاں سے روانہ ہو گئی 

****

"حور میری بات سنو"

وہ بالکل بے قابو ہو رہی تھی اسے زین کی کسی بات کا اثر نہیں ہورہا تھا وہ مسلسل زین کے ہاتھوں سے اپنا بازو چھڑانے کے لئے کبھی اس کے ہاتھ پر زور زور سے مار رہی تھی اور ناخنوں سے اس کے بازو نوچ رہی تھی وہ مسلسل زور زور سے چیخیں جا رہی تھی۔ 

"اپنے یہ پاگل پن کے مظاہرے بند کرو حور، نہیں تو تمہیں یہ سمجھانے میں مجھے دو منٹ نہیں لگیں گے کہ میں تم سے بڑا پاگل ہو"  زین نے اسے وان کرتے ہوئے کمرے میں لا کر اسے بیڈ پر پٹخا۔ 

مگر وہ اٹھ کر دوبارہ زین کی طرف بڑھی اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی اپنے رد عمل کا اظہار کرتی زین نے ایک ہاتھ سے اس کے دونوں بازو قابو میں کئے اور دوسرے ہاتھ سے حور کے گال پر ایک تھپڑ رسید کیا۔۔۔ 

حور کے منہ پر پڑنے والے تھپڑ نے حور کی بولتی بند کردی اور وہ وہی ساکت ہوگئی حور آنکھیں پھاڑ کر بے یقینی کے عالم میں سامنے کھڑے ہوئے شخص کو دیکھ رہی تھی 

"اگر اب دوبارہ تمہارے ہاتھ چلے یا زبان چلی تو دونوں کاٹ کر پھینک دوں گا"

زین اسکو دھمکاتا ہوا کمرے کا دروازہ بند کر کے وہاں سے چلے گیا اور حور گرنے کے انداز میں نیچے بیٹھ گئی 

تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کو وہاں سے نکلنا تھا۔ زین اشعر اور بلال کی طرف آیا 

"ان لوگوں کو یہاں سے نکلے ہوئے پندرہ منٹ ہو گئے ہیں اب ہم لوگوں کو بھی نکلنا چاہیے"

اشعر نے زین کو دیکھتے ہوئے کہا 

"ٹھیک ہے تم لوگ گاڑی نکالو میں حور کو لے کر آتا ہوں"

زین حور کے کمرے کی طرف گیا تو وہ فرش پر ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھی اسے حور پر ہاتھ اٹھانے کا افسوس ہوا اس لئے لہجے میں نرمی لاتے ہوئے بولا 

"چلو حور اٹھو اب ہمیں بھی چلنا ہے"

وہ حور کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا 

جیسے وہ ابھی اس کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہو گی حور نے ایک نظر اس کو دیکھا اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو اگنور کرکے آگے بڑھ گئی۔ زین ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈال کر اس کے پیچھے چلنے لگا 

باہر گاڑی میں اشعر اور بلال بیٹھے ہوئے تھے گاڑی اسٹارٹ کی ہوئی تھی وہ شاید ان دونوں کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ گیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا حور نے کھلے ہوئے گیٹ کو ایک لمحہ دیکھا اور پھر  بنا سوچے باہر کی طرف دوڑنا شروع کردیا 

وہ تیز ہوتی سانسوں اور تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ تیزی سے اس سنسان سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ اسے راستوں کا علم نہیں تھا بس اسے یہاں سے نکلنا تھا اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔ لیکن اب اس کی ہمت جواب دے گئی تھی اور پاؤں بری طرح دکھ چکے تھے لیکن اس نے ہمت نہیں ہارنی تھی۔ اس کی آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا آ رہا تھا مگر اسے یہ موقع نہیں گنوانا تھا۔۔۔اچانک کوئی اسکے سامنے آیا اور وہ اس چٹان نما چیز سے ٹکرا کر گرگئی اچانک اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تاریخ  میں جاتے ہوئے دماغ کے ساتھ جو آخری بات اس کو یاد تھی وہ یہ کہ اس کا بے ہوش وجود دو مضبوط بازوؤں کی گرفت میں ہے 

_______

آج تانیہ یونیورسٹی نہیں گئی تھی فضا اکیلے ہی یونیورسٹی سے گھر آ رہی تھی اچانک ایک بائیک تیز رفتار سے بالکل اس کے سامنے آکر رکی وہ ایک دم اچھل کے دور ہٹی

"کیا ہوا ڈر گیں تھی"

بلال ہیلمٹ اتارتا ہوا اس سے پوچھ رہا تھا 

"تو ڈرنے کی ہی بات تھی اگر میں ہٹتی نہیں تو بائیک تم نے میرے اوپر چڑھا دینی تھی"

فضا نے گھور کر اس سے کہا 

"میں ابھی کے ڈرنے کی بات نہیں کر رہا میں تو اس دن کی بات کر رہا ہوں"

اس نے دوبارہ ہاتھ سے پسٹل بنا کر فضا کے سر کا نشانہ لیا 

"تو کیا نہیں ڈرنا چاہیے تھا"

فضا نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا 

"چلو آؤ بیٹھو گھر چھوڑ دو"

بلال نے کہا 

"نہیں تم یہ جو خطرناک کام کر رہے ہو وہ چھوڑ دو"

فضا نے اسی کے انداز میں جواب دیا 

"ثانیہ بتا رہی تھی تم تین چار دن سے گھر نہیں آئ" 

بلال نے اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے کہا 

"کیا تم نے میرا انتظار کیا"

فضا نے بغور بلال کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا

"فضول میں شروع مت ہو جایا کرو سیدھی طرح اگر چلنا ہے تو بیٹھ جاؤ"

بلال نے سنجیدگی سے کہا 

فضا لمبا سانس کھینچ کر بلال کے پیچھے بائک پر بیٹھ گئی 

****

اشعر اپنے روم میں بیٹھا کرکٹ دیکھ رہا تھا  شازیہ)(ممی) اندر آئیں 

"ائیں ممی"

اشعر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا 

"ہاں بیٹا میں ہی آؤں گی تمہیں تو فرصت ہی نہیں تھوڑی دیر ماں کے پاس بھی آ کر بیٹھ جاؤ"

انہوں نے بیٹھتے ہوئے اشعر کی خبر لی

"ایسی بات تو نہ کریں جب میں گھر آیا تو آپ اس وقت سو رہی تھیں مجھے ڈسٹرب کرنا اچھا نہیں لگا" 

اشعر نے وضاحت دی

"یہ تم دو دن سے غائب کہاں تھے" 

شازیہ کا ابھی بھی اشعر کے کان کھینچنے کا ارادہ تھا  

"بس ممی دوستوں کے ساتھ پکنک  کا پروگرام  بن گیا تھا وہیں پر تھا"

اشعر نے ٹی وی کا والیوم سلو کرتے ہوئے کہا 

"اشعر اب تم اپنی لائف کو لے کر بالکل سیریز ہو جاؤ تم نے بہت عیاشیاں کرلی ہیں جاب ڈھونڈوں کوئی کب تک بھائی کما کر بھیجتا رہے گا، کل کو اس کی بھی شادی ہو جائے گی ساری زندگی تو تمہیں کماکر نہیں کھلائے گا"

‏انہوں نے آج اچھی طرح لیکچر دینا ضروری سمجھا

"کیا ممی آج آپ کا میری کلاس لینے کا ارادہ ہے"

اشعر نے منہ پھلاتے ہوئے کہا

"تو کیا مجھے ابھی بھی نہیں لینی چاہیے تمہاری کلاس کب سے تمہاری اسٹڈیز کمپلیٹ ہو گئی ہے اور تمہارا لاابالی پن ہی ختم نہیں ہو رہا"

انہوں نے اچھی خاصی اشعر کی درگت بنائی 

"اچھا نہ ڈھونڈ لوں گا جاب بھی بس آب ناراض نہ ہوں"

اشعر لاڈ سے ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا 

****

ظفر مراد اپنی فیملی کے ساتھ گھر پہنچے سب ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھے۔ ظفر مراد  کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا ان کا اتنا نقصان ہو گیا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کل کے لڑکے شاہ زین کو گولی سے اڑا دے۔ اسماء رو رو کے اب  تھک گئی تھی، خضر اور آسماء بھی اپنے اپنے نقصان کا سوچ رہے تھے۔ تھوڑی بہت مطمئن تھی وہ فاطمہ تھی وہ حیران تھیں اور خوش بھی جو کانٹا حور کی شکل میں ان کی زندگی میں آ گیا تھا وہ خود ہی راستے سے ہٹ گیا 

****

بلال فضا کو چھوڑ کر گھر پہنچا تو رضیہ خالہ (ثانیہ کی ساس) آئی ہوئی تھیں

"السلام علیکم خالہ کیسی ہیں آپ"

بلال ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا 

"جیتے رہو تم سناو کیسے ہو اور کہاں غائب ہو بیٹا"

انہوں نے پیار کرتے ہوئے بولا اور اپنے پاس بٹھایا 

"جی خالہ کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا آپ سنائیں اسجد بھائی کیسے ہیں"

 (خالہ کے بیٹے) جو کہ ثانیہ کا شوہر بھی تھا بلال نے اس کے بارے میں پوچھا

 "ہاں بیٹا اسجد ٹھیک ہے بس اسی کے سلسلے میں آئی تھی" 

انہوں نے بات کا آغاز کیا 

"میری بہن حیات ہوتی تو میں یہ بات ان سے کرتی بھائی صاحب بھی بس۔۔۔۔ اللہ انیہں زندگی دے اب تم ہی ہو بہنوں کے لئے ماں باپ کی جگہ اس مہینے اسجد کے سعودیہ سے واپس آنے کا ہو رہا ہے تو میں چاہتی ہوں نکاح تو ہوا وا ہے کیوں نہ سادگی سے شادی کردی جاے۔ تم بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ" 

وہ چپ ہوئیں انہوں نے رائے لینی چاہیی 

"خالا ابو کے بعد آپ میری بڑی ہے جو آپ کو بہتر لگے ہو کریں"

 بلال نے سعادت مندی سے جواب دیا 

حالات اتنے بہتر نہیں کہ مگر اب اتنے بدتر بھی نہیں تھے جو اپنی بہن کی شادی نہ کر سکے

*****

وہ سو رہی تھی اس کو اپنے پیٹ پر دباؤ سا محسوس ہوا جیسے کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پر رکھی ہو۔ انکھیں کھلنے پر اس کی نظر چھت پر گئی یہ کون سی جگہ ہے اس نے اپنے دماغ پر زور ڈالنا چاہا۔۔۔ سر گھما کر دیکھا تو اس کی نظر اپنے برابر میں لیٹے ہوئے زین پر گئی جو اس کے بہت قریب لیٹا ہوا تھا اور اس کا ہاتھ حور کے پیٹ پر تھا حور کی آنکھیں خوف سے پھیلی اور وہ ایک زور دار چیخ "آآآآْآآآ"

خود وہ اچھل کر بیڈ سے نیچے گری اور اس کی چیخوں سے زین کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ہڑبڑاتا ہوا اٹھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا پھر اس کی نظر نیچے گری حور پر پڑی  

"تم وہاں نیچے کیا کر رہی ہوں"

زین نے نیند سے بھری انکھوں میں حیرت سمائے ہوئے، بیڈ سے اٹھتے ہوئے حور کی سائیڈ پر آتے ہوئے کہا 

"تم میرے پاس کیا کر رہے تھے"

حور نے خوف زدہ ہو کر پوچھا وہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں نیچے بیٹھی ہوئی تھی 

"کیا کر رہے تھے۔۔۔۔ کیا مطلب؟ میں تو سو رہا تھا"

زین نے حور کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا 

"دور رہو مجھ سے"

وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔  

"دور۔ ۔۔۔  وہ کس خوشی میں شوہر ہو تمہارا پورا پورا حق رکھتا ہوں تم پر"  

زین نے حور کو جتانے والے انداز میں باور کرایا 

"گن پوانٹ پر نکاح کرا ہے تم نے، میں اس زبردستی کے رشتے کو نہیں مانتی ہوں"

اج حور کو پہلے کی بانسبت اس سے خوف محسوس نہیں ہوا بےخوفی سے بول کر وہ اٹھنے لگی

جبھی زین نے حور کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور زین کے اوپر گری 

"زبردستی کی ہی صحیح رشتہ تو ہے نہ تمہارا میرا۔ ماننا تو پڑے گا لازمی، نہیں تو منانا مجھے اچھے سے آتا ہے"

زین نے حور کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کر دیے اور حور کو مزید خود سے قریب کر کے کہا 

اب وہ اس کی گردن پر جھک رہا تھا حور نے اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش کی تو زین نے گھیرا مزید تنگ کردیا اور اپنے لب حور کی گردن پر رکھ دیے 

حور بری طرح تڑپ اٹھی اور زین کے سینے پر ہاتھ مار کر اس ہٹانے لگی۔ زین اسے مزید پریشان کرنے کا ارادہ ترک کرکے اٹھ کھڑا ہوا کمرے سے نکلنے سے پہلے یہ جتانا نہیں بھولا 

"مجھے یقین ہے اب تم کبھی بھی ہمارے رشتے کی حقیقت کو ماننے سے انکار نہیں کرو گی" 

حور شاک کی کیفیت میں وہی بیٹھی رہی اس کا چہرہ لال ہوچکا تھا۔ ۔۔۔۔۔ شرم کے مارے یا ضبط کے مارے یہ اس بھی نہیں سمجھ آیا 

"میں کیسے اس سے نڈر ہوکر بات کر رہی تھی، اب تو مجھے زیادہ ڈرنا چاہیے اس فضول آدمی سے۔ ۔۔۔ فضول آدمی بھی نہیں اچھا خاصا فضول آدمی یہ تو" 

کچن میں آکر زین نے اپنے اور حور کے لئے چائے کا پانی رکھا اور ناشتہ تیار کرکے روم میں آیا تو وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی 

"آجاؤ حور شاباش، ناشتہ کرلو" 

زین نے اسے نارمل انداز میں کہا، وہ حور سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے ان دونوں کے بیچ کچھ نہیں ہوا 

"مجھے کچھ نہیں کھانا" 

بھوک تو اسے بہت لگی ہوئی تھی کیوں نہ کہ کل صبح سے ہی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا مگر اس بدتمیز شخص کے سامنے اسے اپنی آنا بھی قائم رکھنے کی 

"تم اٹھ کر یہاں کرسی پر بیٹھ رہی ہو یا پھر میں آؤں"

ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر رکھ کر، وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا مگر جب دیکھا حور پر اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔۔تو وہ اٹھنے ہی  لگا حور جلدی سے اٹھ کر کرسی پر آ کر بیٹھ گئی وہ یقینا اس سے ڈر گئی تھی۔ حور کے ردعمل پر زین کو ہنسی آئی مگر اس نے چائے کا مگ چہرے کے آگے کر کے ہنسی چھپالی 

"سویٹ ہارٹ یہ ناشتہ گھورنے کے لئے نہیں رکھا ہے میں نے۔۔۔ جلدی سے  شروع ہوجاو، اچھی خاصی بڑی ہوگئی تم اور اب تو شادی شدہ بھی، یہ نخرے نہیں چلیں گے بالکل" 

حور کو ویسا ہی بیٹھا دیکھ کر زین بولا 

"بول تو ایسے رہا ہے جیسے پتہ نہیں  کتنے نخرے اٹھاتا آرہا ہے اب تک میرے" 

حور نے دل میں ہی اپنے اپ سے بولا،  منہ پر کیا کہتی بولتی تو وہ اسکی بند کر چکا تھا

"شاید تمھارا یہ ناشتہ میرے ہاتھوں سے کرنے کا دل کر رہا ہے" 

حور کو سوچوں میں گم دیکھ کر زین بولا

"کر تو رہی ہو" 

اتنا بول کر حور آئستہ آہستہ ناشتہ کرنے لگی 

 وہ شاید اس کے بیٹھے رہنے سے نروس ہو رہی تھی، جانتا تھا کل سے  حور نے کچھ نہیں کھایا اور وہ ابھی بھی اس کے سامنے کچھ نہیں کھائے گی اس لئے اپنا چائے گا مگ لےکر باہر آگیا تاکہ وہ آرام سے ناشتہ کرلے۔تھوڑی دیر بعد زین روم میں آیا 

"میں باہر جا رہا ہوں تھوڑی دیر ہو جائے گی دروازہ  باہر سے لاک ہے اس لئے کوئی بھی بیوقوفی کرنے کی ضرورت نہیں"

وہ کار کی کیز موبائل اٹھاتا ہوا بولا

"اور اگر کوئی بیوقوفی کی تو پنشمنٹ کے لئے تیار رہنا ہے"

حور کے پاس آکر اپنی دو انگلیوں سے اس کے گال چھو کر دھمکاتا ہوا باہر چلا گیا

"فضول آدمی" 

وہ ڈوپٹے سے اپنا گال رگرتے ہوئے بولی۔..


جاری ہے 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment