Pages

Saturday 19 November 2022

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq By Toba Amir Episode 8 to 9

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq By Toba Amir Episode 8 to 9

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq By Toba Amir Episode 8'9

Novel Name: Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ihsq 

Writer Name: Toba Amir

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

کمرے میں آکے غازی نے کھانا شروع کیا کہ ھدیٰ کا میسج آگیا 

دے دیا کھانا ؟ نہوں نے یا کچن سے بھاگادیا ؟     غازی کو پڑھ کے ہنسی چھوٹ گئی اسنے ریپلائی دیا 

جی محترمہ دے دیا.     اور سینڈ 

اچھا یہ بتائیں آپ اتنی غلط بیانی سے کام کیوں لیتے ہیں اپنی ماما کے بارے میں.      پڑھ کے غازی افسردہ سا مسکرایا 

اور ریپلائی لکھنے لگا 

وہ پیار ہی نہیں کرتی مجھ سے.     اسنے لکھ بھیجا 

کیوں نہیں کرتی کوئی ماں ایسی نہیں ہوتی جو اپنی اولاد سے پیار نا کرے!      اسکی بات میں یقین بول رہا تھا 

اچھا وہ کیوں ؟     غازی نے بچکانہ سا سوال کیا 

کیوں کا جواب میں آپکو بعد میں دونگی پہلے آپ یہ بتائیں اس دنیا میں کتنی محبتیں ہیں رشتوں کے لحاظ سے ؟       عجیب سا سوال تھا مگر غازی مطلب سمجھ گیا تھا 

بے تحاشہ ہیں والدین کی اولاد سے بہن بھائیوں کی آپس میں چاچو ماموں پھوپھو وغیرہ الغرض ہر رشتے میں محبت ہے.    غازی نے پوری سمجھداری سے جواب دیا 

پھر بھی ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے ایک ماں اور بچے کی محبت کی مثال سے ہی اللہ کی محبت سمجھائی ہے پھر  ؟ بہن کی مثال سے کیوںنہ سمجھایا بھائی کی کیوں نہ لی ؟       اسکے میسج سے غازی لاجواب ہوا تھا 

ہممم.      اسکے پاس بس یہی جواب تھا 

زی ہممم نہیں کیوں کے ماں کی محبت ہر چیز سے بالاتر ہوتی یے ہر مفاد سے پاک ہوتی ہے اور ہوتی ضرور ہے!       غازی سمجھ گیا تھا مگر جواز باقی تھے 

ھدیٰ میں مر بھی رہا ہوں نہ میری ماں مجھے پوچھنے نہیں آتیں اور عثمان کے سر میں درد بھی ہو تب بھی اپنے ہاتھوں سے دبائیںگی.    غازی کو سوچ کے اب بھی برا لگا تھا 

یارا کیا پتہ انہیں آپکی طبیعت پتہ نہ لگتی ہو ؟      اسکے جواب پہ غازی ہنسا تھا 

اچھا اور اسکی لگ جاتی ہے ؟     غازی نے طنزیہ لکھا 

مے بی آپ کتنی بار پوچھنے جاتے ہیں انکی؟      ھدیٰ نے جوابی وار کیا تھا غازی لا جواب ہوا تھا اور وہ شاید جانتی تھی جواب تبھی اسنے اگلا میسج بھیجا 

آج آپ نے کام پہ جان ہے نا.؟    اسنے پوچھا تھا یا یاد دلایا تھا 

ہاں بلکل جانا ہے پر اب مجھے لگرہا ہے کے میرا دل نہیں کررہا.      اسنے میسج کے ساتھ ہنسنے والے ایموجیز بھیجے 

کیوں ؟   اسنے پوچھا ساتھ میں ٹیڑھے منہ والا ایموجی تھا 

پتہ نہیں دل ہر چیز سے اچاٹ رہتا ہے        غازی نے ریپلائی دیا 

آپ نے عصر پڑھی ہے ؟؟؟    اسنے پوچھا تھا 

نہیں ابھی تو ہوئی ہے.    غازی نے بہانہ گڑھا 

اور ظہر پڑھی تھی ؟     ھدیٰ نے پوچھا 

نہیں.      اسنے لکھ کے ہنسنے والے ایموجیز بنائے تو دوسری طرف سے غصے والے ایموجیز آیے 

پھر کہتے ہیں کہ دل نہیں لگتا ؟ دل کو غذا تو دیتے نہیں ہیں آپ!      اسکا ریپلائی پڑھ کے غازی ہنسا وہ دھونس جماتی اچھی لگتی تھی 

اچھا پڑھ کے ہی جاؤنگا کام پہ وعدہ!     غازی نے جلدی سے لکھا 

جائیں دونوں پڑھیں.        فجر میں وہ اسکو اٹھانے لگی تھی مگر باقی وہ گول کردیتا تھا اکثر 

اوکے جی!     غازی کہہ کہ اٹھ گیا 

                               ¤¤¤¤¤¤¤¤

مغرب پڑھ کے اسنے غازی کے لیے دعا کی پتہ نہیں کیوں وہ اسکا خیال کرنے لگی تھی اور دعا بھی 

اسنے آکے موبائل چیک کیا وہ ابھی تک نہیں آیا تھا پھر باہر آگئی

نور کچن سمیٹو ہر وقت تمھارے ہاتھ میں موبائل رہنے لگا ہے!      اماں نے اسے دیکھتے ہی کام باندھا 

جبکہ نور کا دماغ ایک جملے میں اٹکا 

ہر وقت تمھارے ہاتھ میں موبائل رہنے لگا ہے ؟     وہ نوٹ کرتی ہیں مطلب اسنے سر جھٹکا پھر کچن سمیٹ کے باہر آگئی پھر جھپٹ کے موبائل دیکھا مگر کوئی ریپلائی نہیں میسج بس ڈیلیور ہوا تھا 

مجھے کیا رہے بزی ہونہہ اچھا ہے.    اسنے بڑبڑا کے فون رکھا مگر دل جانتا تھا اسے کیا ؟ 

                                      ¤¤¤¤¤¤

انوگریشن کے وقت اور بعد بھی وہ ھدیٰ کی باتیں سوچ رہا تھا غائب دماغی سے سب سے مبارکباد وصول کی پھر اڈے پہ آگیا  اسنے نوٹیفیکشن میں سے میسج دیکھ لیا تھا سین نہیں گیا ہوگا

اڈے پہ آکے اسنے میسج دیکھا اور ریپلائی لکھنے لگا تھا کہ فوم بجنے لگا آشنا سا نمبر تھا مگر نام نہیں تھا اسنے اٹھا کے کان سے لگایا 

ہیلو غازی عثمان بول رہا ہوں امں کی طبیعت خراب ہورہی ہے تم ڈاکٹر عبداللہ کو فون کردو فوراً.     عثمان فون اٹھاتے ہی بولا اور جھٹ بند بھی کردیا 

بس کام آگیا اور یاد آگیا میں.    غازی نے بڑبڑا کے فون ملایا اور ڈاکٹر عبداللہ سے بات کر کے واپس ھدیٰ کی چیٹ کھولی جہاں وہ سین کر کے اگنور کرنے پہ غصہ کررہی تھی 

غازی نے مختصراً ماما والی بات بتائی تو اسنے توقع کے برعکس ردعمل ظاہر کیا 

ماما کی طبیعت خراب ہے تو آپ انکے پاس جائیں!     اور غازی نے طنزیہ سر جھٹکا سب ایسی کرتی ہیں شروع میں جیسے بہت پرواہ ہو شاید اسکا تجربہ اس معاملے میں بھی برا رہا تھا 

آپ جائیں میں کیا کہہ رہی ہوں.     آہ اور یہ دھونس جمانا!  وہ ہنسا 

میں کیوں جاوں؟ میرا کیا کام عثمان ہے وہاں.   اسنے عذر پیش کیا 

پھر جب وہ عثمان بھائی کا خیال رکھتی ہیں تو کیوں برا لگتا ہے ؟     اسکے جواب پہ غازی جہاں کا تہاں رہ گیا بات سچ تھی کڑوی ہی سہی... پھر اسنے اگلا پتہ پھینکا 

اچھا تاکہ خدانخواستہ کچھ ہوجائے تو مجھ پہ نام آجائے.     اسنے لکھ بھیجا 

اللہ نہ کرے جو کچھ ہو.     اسکا میسج آیا پھر فوراً اگلا 

آپ کو میری بات پہ یعنی یقین نہیں ہے؟   اسکا میسج پڑھ کے غازی حیران ہوا 

کونسی بات ھدیٰ ؟   اسنے بے اختیار پوچھا 

یہی کے جب میں نے بتایا آپکو کے شانی کی ڈیتھ کی وجہ آپ نہیں آپکا قصور نہیں آپکو اسکا یقین نہیں ہے ؟       اور غاازی کے دل میں سکون اترا ہاں وہ تو قصور وار ہے ہی نہیں!    

سوری.    شاہ غازی نے فوراً معذرت کی روحان ہوتا تو غش کھا کے گرتا 

اٹس اوکے اب جائیں اوت جاکے میسج کریں.    ھدیٰ کا جھٹ ریپلائی آیا 

اوکے.  غازی لکھ کے بند کرنے لگا تھا کہ اگلا ہی میسج آیا 

خیال سے زی!     اسکے لبوں کو دلفریب مسکراہٹ چھو گئی ہر طرف جیسے ایک ہی آواز تھی 

خیال سے زی..... 

خیال سے زی..... 

خیال سے زی.....

گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی گھر کے رستے پہ ڈال دی 

                                     ¤¤¤¤¤¤

گھر آتے ہی ھدیٰ کو میسج کیا اور کمرے کی طرف آگیا آج وہ اتنے عرصے بعد اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا تھا اسے لگا وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا سنے بستر پہ مسز شبیر لیٹی تھی اور ہاتھ پہ ڈرپ لگی ہوئی تھی عثمان ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے گیا تھا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا انکے پاس آیا پھر پاس پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا 

مسز شبیر پوری آنکھیں کھولے اسے ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ آٹھواں عجوبہ ہو 

اسنے پیچھے کرسی سے ٹیک لگایا اور موبائل نکال کے ھدیٰ کو میسج لکھا کیا کروں ؟     دوسری طرف اسکا فوراً ریپلائی آیا 

آپ انکا ہاتھ پکڑیں ان سے پوچھیں وہ کیسی ہیں ؟ 

اسنے ویسا ہی کیا تو وہ رو پڑی غازی ایک دم نروس ہوکے کھڑا ہوگیا 

ماما کیاہوا ؟   اسنے جلدی سے انکے قریب ہوتے ہوئے پوچھا 

شش...شانی شش..شانی..... وہ ہچکیوں کے درمیان بولیں تو غازی سمجھ گیا کے انہیں شانی یاد آرہا ہے بیشک اسنے ماما کے ہاتھوں کو پکڑ کے رکھا 

ماما شانی کے لیے دعا کریں نا ؟    وہی بات جو اسے کبھی ھدیٰ نے کہی تھی اسنے دھرائی تو انہوں نے چھوٹے بچوں کی طرح اثبات میں سر ہلایا اور آنکھیں بند کی غازی نے سر انکے پاس ہی ٹکا لیا اور ایک عرصے بعد غازی نے ماں کی خوشبو اور لمس محسوس کیا اسکا دل کیا انکے سینے سے لگ کے بے حد روئے مگر یہ آنکھیں تو قسم کھا چکی تھی رونا نہیں ہے کبھی یہ آنکھیں تو پتھر کی ہوگئی تھی مگر قسمیں ہی تو ٹوٹتی ہیں!  

                                        ¤¤¤¤¤

کھانا کھا کے عشاء پڑھ کے وہ سونے لیٹی تو غازی کا میسج بجا 

سوگئیں ؟    اسنے پوچھا تھا 

جی سوگئی.    نور نے میسج کے ساتھ ہنسنے والے ایموجیز بنائے 

پاگل!     دوسری طرف سے اسنے ریپلائی دیا تھا اور ساتھ ہنسنے والے ایموجیز 

ہاں جی خوش لگ رہے بڑے. ؟     اسے لگا وہ خوش ہے جبھی پوچھ لیا 

جی بہت زیادہ آج اپنی ماں کے لمس کو انکی خوشبو کو محسوس کر کے آیا ہوں.   اسکا جواب آیا 

اچھا جی مبارک ہو کیا ہوا تھا ؟    ھدیٰ کو تجسس ہوا تو غازی نے پوری بات بتائی 

زی آپ انکا خیال کیا کریں اسنے میسج بھیجا تو میسج سین ہوکے اگنور ہوا ھدیٰ نے دو رین میسجز بھیجے مگر جواب ندارد اور پھر اسنے غصے سے بند کردیا یہ لکھ کے مت دیں جواب اب نہیں چاہیئے

                اصلی پریشانی اسکے لیے صبح شروع ہوئی جب بھی جواب نہیں آیا تھا مگر لاسٹ سین اسکے بند کرنے کے 15 منٹ بعد کا لکھا آرہا تھا اسنے صبح چھ بجے ہی اسے کال کی تب بھی کوئی جواب نہیں وہ لگاتار کال کرنے لگی دوسری طرف سے پانچویں باری میں کال اٹھائی گئی

  ہیلو .....

________________

ہیلو ؟  نور نے بھی اسکے جواب میں یہی کہا 

کہاں تھے آپ ؟   اسنے بے اختیاری سے پوچھا 

ٹھیک تو ہیں مطلب آواز کیسی ہورہی ہے ؟    وہ ناجانے کیوں ڈر گئی تھی دوسری طرف سے اسکی بات سن کے نور کو غصہ چڑھا 

ہاں یار ھدیٰ آئی ایم سوری وہ میں سوگیا تھا اور فون آن تھا.....

وہ ہلکے سے ہنس کے بولا 

دفعہ ہوئیں میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہوگیا اسی جاکے سوگئے یا تو آپکو نیند نہیں آتی تھی!         اسے واقعی غصہ آیا تھا 

جبکہ دوسری طرف غازی ہنسا تھا اسکا ذہن ایک بات میں جیسے اٹک سا گیا تھا 

ویسے تو نیند نہیں آتی تھی ہاں وہ تو سو نہیں سکتا تھا اب وہ کیسے سونے لگا تھا ؟ 

سوری یارا..... وہ ہنسی روکنے کے چکر میں محال ہورہا تھا اسے ھدیٰ کا فکرمند ہونا بہت خوش کررہا تھا 

اچھا دفعہ ہوئیں.     کہہ کے وہ فون بند کرنے لگی جب غازی نے فوراً روکا 

 سنو تو!  اسکی آواز سن کے وہ واقعی رک گئی 

 بولیں!    اسنے منہ بنا کے کہا 

 فکر ہورہی تھی ؟     غازی کی شوخ آواز گونجی نور اب اٹھ کے باہر ٹیرس پہ آگئی تھی 

 جی نہیں!     اسنے بھی سہی سے لتاڑا 

 کیوں ہورہی تھی ؟    غازی نے سنی ان سنی کی 

 نہیں ہورہی تھی کہہ تو دیا!     اسے خوامخواہ غصہ چڑھا 

 اچھا لیکن کیوں نہیں ہورہی تھی ؟    غازی موڈ میں تھا 

 نیند پوری نہیں ہوئی شاید آپکی آپ میرے دادا لگے ہیں آپکی فکر کروں ؟      نور نروس ہورہی تھی تو اسی پہ چڑھائی کردی 

 کیوں صرف داداوں کی ہی فکر کرتے ہیں ؟    غازی نے شوخیہ لہجے میں کہا 

 نہیں یاد آیا بھائیوں کی بھی تو کرتے ہیں بھیا مجھے آپکی فکر کیسے نہیں ہوگی ؟    نور اور حساب چگتا نہ کرے تو نور کیسے ہوئی پھر ؟ 

 توبہ توبہ کتنا اول فول بولتی ہو لڑکی فوراً توبہ کرو!     دوسری طرف سے وہ تھو تھو کرتے ہوئے بولا تو نور کی ہنسی چھوٹی 

 میسج پہ بات کریں اب فجر پڑھ کے!     نور نے جواباً بات گھمادی 

 اوکے جو حکم اچھا لگا ویسے بات کر کہ.     غازی نے جاتے جاتے چوٹ کی 

 ہونہہ  ..   سرجھٹک کے اسے فون کاٹ دیا

  بیلنس اڑگیا سارا.     ماتھے پہ ہاتھ مار کے وہ اندر بھاگی 

                                 ¤¤¤¤¤¤¤¤

نماز ختم کر کے غازی اٹھنے ہی لگا تھا کے واپس بیٹھا اسنے کچھ سوچا تھا پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ناجانے کتنے عرصے بعد وہ خالی خولی نظروں سے ہاتھوں کو دیکھتا رہا معلوم نہیں کتنی دیر تک پھر چھت کو دیکھا 

اللہ تعالیٰ شانی کے بعد لگتا تھا سب کو کھودیا مجھے یہ شکوہ تھا تو نے مجھے ایک بھی ایسا شخص نہ دیا جو میرا خیال رکھے اب تو نے ھدیٰ کو مجھے دیا ہے محبت بھی تو نے میرے دل میں ڈالی ہے تو اس کے دل میں بھی ڈال دے اسے میرا کردے...... وہ بول رہا تھا مگر آواز کانوں تک بھی نہ جاتی تھی مگر اگر دعا کے لیے چینخنے کی ضرورت ہوتی تو کیا کبھی گونگوں کی دعا قبول ہوتی ؟ .....وہ چہرے پہ ہاتھ پھیرے بغیر اٹھ گیا 

پھر فون کی طرف آیا جہاں تین میسجز جگمگا رہے تھے

قرآن پڑھیں 

قرآن پڑھ کے آئیگا 

ایسے آئے تو بات نہیں کرونگی!  ....اسکے تینوں میسج پڑھ کو وہ ہنسا پھر قرآن لیکے بیٹھ گیا 

اسنے پھر سے ہی چھوٹی سی سورہ پڑھی اور واپس موبائل اٹھا لیا

ہاں تو آگیا اب بتائیں کیا کہہ رہہ تھیں آپ ؟     زی بات کو وہیں موڑنے لگے 

کچھ نہیں کہہ رہی تھی زی بھیا!     اسکا ریپلائی اسے تپا گیا 

اب بھیا نہیں کہنا!      اسنے غصے والے ایموجیز کے ساتھ میسج بھیجا 

کیوں ؟ کیا کہوں پھر ؟      اسکا ریپلائی آیا 

کچھ بھی یار ادھر بندے کے جذبات ابل رہے ہیں تمھیں احساس نہیں ہے ؟     اسنے ہمت کر کے لکھ بھیجا دوسری طرف اسکا ردعمل کیسا آنے والا تھا یہ غازی نہیں جانتا تھا 

                                         ¤¤¤¤¤¤

میسج پڑھتے ہی نور کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی اسے اندازہ نہیں تھا وہ.اس طرح کی بات کردے گا وہ التی پالتی مار کے صوفے پہ بیٹھ گئی پھر اسکے پچھلے میسج کا ریپلائی دے دیا 

اچھا ٹھیک ہے بھائی نہیں بولتی آپ بتائیں ماما کیسی ہیں ؟       اسنے میسج بھیجا 

دوسری طرف سے پہلے ہنسنے والے ایموجیز آئے پھر اگلا میسج 

میں رات کو ملا تھا بس آخری.       نور نے پڑھ کے اس پہ سو بار لعنت بھیجی خود سے یہ بندہ کبھی نیک عمل نہیں کرے گا ہونہہ .

نماز پڑھتی ہیں آپکی ماما ؟    اسنے عجیب سوال کیا 

ہاں مگر کیوں ؟    زی نے ناسمجھی سے سوال کیا 

جاگ گئی ہومگی وہ پھر آپ جائیں پوچھ کے آئیں 

مگر..... غازی کا میسج آیا اگلا میسج وہ لکھنے لگا مگر اسنے فٹافٹ اپنا میجس لکھا 

اگر مگر نہیں فوراً جائیں بیکار کی بحثیں نہیں.      نور کو عادت تھی وہ ہر اپنے مان چاہے شخص پہ حکم چلاتی تھی اس پہ بھی چلانے لگی مگر کب ؟ یہ بات اسکا دل نہیں جانتا تھا.      

                تبدیلی آ نہیں رہی ہے تبدیلی آگئی ہے 

                                       ¤¤¤¤¤¤¤¤

غازی نیچے آیا تو حیران رہ گیا اماں کے کمرے کی اور لاونج کی کی لائٹ کھلی تھی وہ زرا آگے آیا تو دیکھا ابا نماز پڑھ رہے تھے غازی کو یاد آیا اسکے ہاں سب ہی نمازی تھے وہ اماں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

اسنے ہلکے سے دروازہ کھولا اور اندر گیا اماں نے نماز کی طرح دوپٹہ باندھا ہوا تھا اور وہ جائے نماز پہ بیٹھی تھیں 

اسلام و علیکم.     اسننے ہلکی آواز میں کہا 

اماں نے اثبات میں سر ہلایا 

کیسی طبیعت ہے ؟     وہ کافی ہلکی آواز میں پوچھ رہا تھا 

اللہ کا شکر ہے اب تو ٹھیک ہوں..     انہوں نے ہلکے سے مسکرا کے جواب دیا 

اسی لمحے دروازہ کھلا اور ابا اندر آئے وہ بھی غازی کو دیکھ کے چونکے 

کیسے یاد آگئی اپنے باپ کے کمرے کی آپکو ؟      انہوں نے طنزیہ بات کہی مگر لہجہ بلکل سرد تھا 

بس اماں کی طبیعت پوچھنے آیا تھا.       اسنے ہلکے سے جواب دیا 

ہونہہ.     انہوں نے بیٹھتے ہوئے کہا 

جبکہ مسز شبیر نے اذکار مکمل کر کے غازی پہ پھونک دیے.  

 آپ لیٹیں گی ؟ ابھی ؟     اسنے پوچھا 

 نہیں.       اماں نے سر نفی میں ہلایا 

 چلیں میں فریش ہوکے آتا ہوں.      وہ اٹھ گیا 

 بدل نہیں گیا یہ ؟     شبیر صاحب نے مسز شبیر کو دیکھا جو ابھی بھی دروازے کو دیکھ رہی تھیں 

 ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں شاہ صاحب اسے پتہ نہیں کیا ہوا ہے ایک دم بدل گیا.    وہ ہلکے سے بولیں اور جائے نماز تہہ کر کے رکھنے لگیں 

 شبیر صاحب نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر منہ پھیر لیا 

                                     ¤¤¤¤¤¤¤

کیا ہورہا کے بڈی ؟    حانی سگریٹ پی رہا تھا جب اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے غازی نے پوچھا وہ چونک کے مڑا غازی نے اسکے ہاتھ سے سگریٹ نکال کے اپنے ہونٹوں سے لگائی تو روحان نے آنکھیں مسلیں اور چونکنے کی ایکٹنگ کی تو غازی ہنسا 

رک بھائی.    حانی ایک دم کھڑا ہوا پھر اسکے منہ پہ دو تین تھپڑ مارے اور منہ آگے پیچھے کر کے ہلایا غازی نے اسکے سینے پہ ہاتھ مار کے اسے پیچھے کیا 

ہٹ نہ بے!     اسنے مصنوعی غصے سے کہا

یار نہیں بھئی تو غازی نہیں ہے تو بلکل غازی ہے ہی نہیں تو اسکی فوٹو کاپی ہے!     وہ ہنس کے کہہ رہا تھا پھر ایک دم اسے گلے لگایا 

بھائی میرے خوش رہا کر.!!!!!  تیرے بغیر میرا کوئی نہیں ہے! 

غازی نے ہنس کے اسے پیچھے ہٹایا 

ہٹ نہ چپکو !     وہ ہنستے ہوئے بولا 

ہاں ہاں اب تول گئے نہ نئے لوگ ہم برے ہوگئے.     روحان فوراً دیسی دوست بنا تھا تو غازی مسکرا دیا 

آج شام میں جانا ہے کام پہ ؟    حانی نے پوچھا 

ہاں آجانا وہیں.      غازی نے کش لگا کے کہا 

ویسے اب تک کتنا بتایا ہے تو نے اسکو اپنے بارے میں ؟    روحان تمہید کے بغیر بات کرتا تھا سو پوچھا فوراً غازی کی آنکھوں میں ملال اترا اور خوف کے گہرے سائے لہرائے... 

نہیں.    اسنے سر جھکایا 

کیا کروں میں میں نہیں کھو سکتا اسے تو تو سوچ سکتا ہے میں رات کو سونے لگا ہوں مجھے سکون ملتا ہے اس سے بات کر کے میں اپنے گھر والوں کے قریب ہوگیا میں سکوں سے سوتا ہوں حانی میں کروٹیں نہیں بدلتا میں ماضی کو یاد نہیں کرتا میں سلیپنگ پلز نہیں کھاتا اب میرا سر نہیں دکھتا اب میں خود کو نہیں کوستا!  اب میں نہیں کھوسکتا میں اس زندگی میں جانے سے ڈرتا ہوں اب ڈرتا ہوں!       وہ ہلکی آواز میں بہت ضبط سے چینخ رہا تھا اسکی کنپٹیاں سرخ ہوگئیں تھی جبکہ روحان اسکی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جہاں اب لالی اتر رہی تھی جیاے کبھی شانی کے ذکر پہ اترتی تھی 

ریلیکس!   روحان نے اسے کندھوں سے پپکڑا تو وہ جیسے ڈھے سا گیا 

میں کیا کروں روحان میں کیوں تھا اتنا برا ؟   اسنے ہلکی سی آواز میں ہوچھا خوف کی جگہ دکھ نے لے لی تھی 

ریلیکس ہوجا غازی سب سہی ہوجائے گا !     روحان بس اتنا ہی کہہ سکا وہ اور کچھ کہتا بھی کیا 

روحان اگر اسے پتہ لگ گیا میں نے کتنی زندگیاں برباد کیں ہے وہ مجھے چھوڑ جائے گی میں کیا کروں میں کیا کروں ؟      وہ عام غازی اے بہت مختلف لگرہا تھا بکھرا بکھرا سا ان بچوں کی طرح جو اپنا پسندیدہ کھلونہ چھن جانے سے ڈرتے ہوں 

کچھ نہیں ہوگا میں کہہ رہا ہوں نا ؟ وہ تیری ہی رہے گی یم زبردستی اسے تیری زندگی میں لے آئینگے میں لے آؤنگا!    اسنے اسکو پھر سے گلے لگایا 

چل اب بھوک لگ رہی ہے چل شرافت سے!    غازی اسے دیکھ کے مسکرایا 

تجھے کب بھوک نہیں لگتی؟    غازی ھی فارم میں آیا تھا

ایسا کوئی وقت نہیں ہے میں سوتا بھی اسلئے ہوں کے کھانا کا خواب دیکھ سکوں..     روحان نے ترکی بہ ترکی ہنس کے جواب دیا 

                                 ¤¤¤¤¤¤¤¤

زبردست سے شوروم میں بنا شیشے کا آفس اور اس میں براجمان شہزادوں جیسی تمکنت کے ساتھ وہ شاہ غازی تھا (مگر افسوس شہزادہ موبائل میں لگا ہوا تھا)    روحان نے آگے بڑھ کے اسکے ہاتھ سے فون چھین لیا 

بس!       اسنے پورا ہاتھ اٹھا کے مسکرا کے کہا 

جبکہ غازی جسنے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا ایک دم چپ ہوگیا 

روحان نے میسجز دیکھے وہ ھدیٰ کے ہی تھے جو اسے کھانا تھوڑا سا کھانے پہ سنا رہی تھی روحان کی آنکھوں کی چمک ایک دم مانند پڑگئی اسنے فون واپس کردیا پھر پھیکا سا مسکرادیا اور تب غازی کو احساس ہوا کہ کیا ہوا تھا روحان کی سابقہ محبت بھی اسکے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھتی تھی 

یار وہ رمضان کہاں غائب ہے ؟     غازی نے فوراً بات بدلی 

پتہ نہیں بندہ روپوش ہوا ہے شاید.    وہ ہنس کے بولا وہ فوراً سنبھل گیا تھا 

یار ایک کام کہا ہے اسے اس نے جواب نہیں دیا.   غازی سگریٹ لبوں میں دبائی پھر ٹیک لگا کہ بیٹھ گیا کہ اسکا فون بجا اسنے نظر دوڑائی نمبر آشنا سا تھا مگر سیو نہیں تھا اسنے کان سے لگایا 

جی ابا ؟ جی جی اچھا اوکے.     کہہ کے اسنے فون واپس میز پہ ڈالا 

کیا کہہ رہے تھے ؟    حانی نے پوچھا 

ایویں کام دے تو دیا ہے مطمئن نہیں ہیں.      اسنے غصے سے سر جھٹکا 

غازی تجھے لگتا ہے اگر یہ لڑکی تجھ سے بات کرتی ہے تو ضروری نہیں ہے یہ ویسی ہی ہو.... میرا مطلب..... روحان بات نہیں سمجھا پارہا تھا جبکہ غازی سمجھ گیا تھا 

تو ٹھیک ہے چیک کرلیتے ہیں ؟ کیا خیال ہے ؟      اسنے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات کی 

بلکل .....ویسے ہی ؟    روحان نے اس سے پوچھا 

ہاں!     غازی نے سر اثبات میں ہلایا پھر باہر دیکھنے لگا.... اسکا دل عجیب کیفیت سے ڈھرک رہا تھا خدا کرے گانی کے اندیشے غلط ہوں!

بستر پہ لیٹی نور غازی کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی وہ اسکے بارے میں جانتی ہی کیا تھی اسکا اپنا نام اور فیملی کے بھی بس نام کیسے لوگ ہیں وہ سب کیا کاسٹ ہے کچھ بھی تو نہیں پتہ تھا اور جتنا جانتی تھی خدا جانے وہ بھی سچ تھا یا نہیں پھر کیسے اسکا دل بغاوت کررہا تھا ؟   اسنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پہ رکھے اور تصور میں اسکی شکل کو تفصیلی دیکھا اچھا تو ہے بندہ آئیڈیل بھی مگر.... پاپا ماما نہیں مانیں گے اسنے سوچا پھر استغفار پڑھ کے اٹھ گئی 

اللہ کی قسم ہے میرا دماغ خراب ہو گیا ہے!     اسنے خود کلامی کی اور آگے باہر نکل گئی کمرے سے 

اسلام وعلیکم..      ابا کو دیکھ کے اسنے سلام کیا انہوں نے فقط سر ہلا کے جواب دیا

پانی پلاؤ.     انہوں نے اسے اشارہ سے کہا 

اچھا.    سر اثبات میں ہلا کے وہ کچن کی طرف بڑھ گئی اور پانی لاکے دیا 

پھر اماں کو دیکھا وہ نماز پڑھ رہی تھیں اسنے سوچا نماز پڑھلے پھر خود ہی یہ سوچ کہ رد کردیا کے رات کو دیر سے پڑھونگی عشاء تو ویسے ہی دیر سے پڑھتے ہیں 

یہ اسکا معمول تھا وہ ہمیشا عشاء دیر سے پڑھتی تھی ابھی وہ اماں کے کمرے سے نکلی ہی تھی کے مزمل آتا دکھائی دیا 

کیا کام پڑگیا اب ؟    اسنے گھورا 

ابے جلدی آو ایک چیز دکھاوں.      اسنے اسے فٹافٹ بلایا تو نور پیچھے چلتی بنی 

دکھاو.   اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولی 

یہ دیکھو....  مزمل نے ایک ڈبہ آگے کیا جس میں لیڈیز واچ رکھی تھی پھر دوسرا جس میں جھمکیاں تھیں پھر تیسرا جس میں بہت خوبصورت سی رنگ تھی اور ساتھ ہی چوتھا جس میں خوبصورت سا بریسلیٹ تھا 

بیٹا کچھ اور بھی لیلتے کپڑے بھی نہیں دلاتے ہونگے تمھاری جی ایف کے ابا اسے وہ بھی خرید لیتے بوریا بستر کچھ رہ گیا تھا؟       نور جانتی تھی وہ کس کے لیے لایا ہے تو سہی سے ذلیل کیا 

بس جلو نہیں تم.      مزمل غصے سے بول کے سب اندر رکھنے لگا جناتا تھا وہ ایسا ہی کچھ کہے گی مگر کیا کریں عادت سے مجبور تھا وہ بھی بنتی ہی اسکی نور سے تھی 

لو اور کچھ نہیں رہ گیا اس سے جلوں میرے والدین الحمدللہ حیات ہیں وہ مجھے یہ سب دلاتے ہیں کسی سے لینے کی ضرورت نہیں وہ ہنس کے بولی اور پھر کمرے سے نکل گئی وہ پیچھے بڑبڑاتا رہا 

باجی چھوڑدو یہ برتن کام تم کرتی ہو طعنے اماں مجھے دیتی ہیں آئے گی نا صبح ماسی وہ دھولے گی برتن!      نور کچن میں جاکے فریحہ پہ چینخی 

ہاں خود بھی نہ کرو اور اسے بھی نہ کرنے دو ذرا دیکھو ماسیاں کیا سوچتی ہونگی اتنی بڑی گھوڑیاں ہیں گھر میں اور آرام کرتی رہتی ہیں ارے ہم جب تھے تمھاری عمر کے تو کوئی ماسی نہیں تھی خود کرتے تھے ہم سارا کام!       آہ یہ اماں کو کون وحی کرتا تھا پتہ نہیں نور نے وہاں سے بھی واک آوٹ ہونے میں عافیت جانی 

                                 ¤¤¤¤¤¤¤

غازی اڈے پہ چلنا ہے ؟      حانی نے آفس سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا 

نہیں یار گھر جاؤنگا.      غازی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے بولا 

کیوں بھائی اب گھر کیسے جانے لگا تو ؟     حانی نے اسے گھورا 

پتہ ہے تجھے. ....    غازی گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے نارمل انداز میں بولا 

ہاں جی پتہ ہے مجھے.    روحان سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے ہنسا 

تو ساتھ چلے گا ؟    غازی نے گاڑی روڈ پہ ڈال دی 

نہیں بھئی گھر اتار اماں مارینگی ورنہ.      وہ ہنستے ہوئے بولا 

چل سیٹ اے پھر یار کل سب مل کے اڈے پہ جمع ہوجاتے ہیں ؟     غازی نے پلین تشکیل دیا 

ہاں یہ ٹھیک ہے بلالے ویسے بھی لڑکے کافی دن سے شکائیتیں لیکے آرہے ہیں تو نے عادتیں بگاڑیں ہیں سب کی. ....   حانی نے سگریٹ جلا کہ ہونٹوں سے لگائی پھر کش لگا کے اسے غازی کی طرف بڑھا دیا جسکا کش غازی نے لگایا 

غازی.....  روحان سامنے دیکھتے ہوئے گویا ہوا

ہمممم بک....     غازی نے بھی بغیر دیکھے پوچھا 

رہتی کہاں ہے ھدیٰ ؟     روحان اب بھی باہر دیکھ رہا تھا مگر غازی نے اسے مڑ کے دیکھا اسے پتہ نہیں کیوں حانی کا ھدیٰ کا نام لینا برا لگا تھا 

کراچی میں.....     اسنے مختصراً بتایا 

اچھا.  دیکھا ہے تو نے اسے ؟    روحان نے پھر سے پوچھا 

ہاں ایک بار دیکھا تھا .     غازی نے گاڑی روحان کی گلی میں موڑی 

اچھا چلو ٹھیک ہے !    گھر آتے ہی روحان اترا پھر جھک کے کھڑکی میں جھانکا 

میں کام کردونگا تمھارا آر یو شیور تم کروانا چاہو گے ؟     اسنے احتیاطا پوچھا 

ہاں....  اور غازی جنتا تھا کے اسنے کتنے برے دل سے یہ بات کہی تھی واپسی کا پورا رستہ وہ یہی سوچتا رہا کے اسے منع کردے مگر پھر یہ ڈر بھی تھا کے ھدیٰ بھی ویسی لڑکی نہ ہو جیسے ساری گزری ہیں ہر ایک سے بات کرلینے والیں حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ھدیٰ نے کتنی مشکلوں سے اس سے بات کی تھی مگر دل میں اٹکی پھانس ایسے ہی نہیں نکل جاتی سوچوں میں گم کب گھر آگیا اسے اندازہ بھی نہیں ہوا وہ بے دلی سے گاڑی سے اترا اور کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اسنے فون نکالا سیڑھیوں پہ چڑھتے ہوئے اسنے چیٹ پڑھی 

کہاں رہ گئے ؟   

گھر چلے بھی جائیں اب!  

اماں سے مل لیگا اپنی.       اسکا آخری میسج دو منٹ پہلے کا تھا وہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے واپس پلٹا اور ایک ایک سیڑھی پھالانگتا نیچے اماں کے کمرے کی لائٹ کھلی تھی اسنے دروازہ کھٹکھٹایا 

سلام.    کہہ کے وہ اندر داخل ہوا 

وعلیکم اسلام....  ابا سامنے بستر پہ بیٹھے تھے اور اماں جائے نماز پہ 

کیسی طبیعت ہے ؟     اسنے کھڑے کھڑے پوچھا 

بہتر ہے....  امں نے مسکرا کے جواب دیا جبکہ ابا نے چشمہ سائیڈ پہ رکھ کے اسے دیکھا وہ باہر کے لیے مڑا ہی تھا ایک دم سے ابا نے اسے روکا 

غازی!      انکی آواز پہ وہ پلٹا 

کام کیسا تھا آج ؟     انہوں نے سرسری سا پوچھا 

سہی تھی.     وہ مدھم سا مسکرا کے بولا 

ہممم جاؤ.     کہہ کے وہ واپس موبائل کی طرف متوجہ ہوگئے 

                                  ¤¤¤¤¤¤¤

ماما پاہا کچھ چاہیئے آپکو ؟     نور نے دروازے پہ کھڑے کھڑے پوچھا کچھ دنوں سے یہ اسکا معمول بن گیا تھا وہ رات سونے سے پہلے ان سے ضرور پوچھتی تھی کے انہیں کچھ چاہئے یا نہیں 

نہیں بیٹا بس سب ہے اب سوجاؤ تم بھی شاباش.      امی نے اسے دیکھ کے کہا اور لیٹ گئیں 

شب بخیر.     کہہ کے وہ کمرے میں آگئی اپنے بستر پہ اچھل کے لیٹی اور موبائل اٹھالیا 

چین نہیں آئے گا تمھیں ؟    فریحہ کی شاید نیند خراب ہوئی تھی 

اچھا نہ سوجاؤ باجی ویسے طوفان آجائے یا آگ لگ جائے تمھاری نیند نہیں کھلتی اب ذرا سے جھٹکے سے اٹھ گئیں تم ہونہہ.      نور نے ہنستے ہوئے طنز مارے 

چپ رہو!      فریحہ نے غصے سے منہ موڑ لیا 

اوکے جی.       وہ مسکرا کے لیٹ گئی سر کے نیچے تکیہ رکھا ایک ہاتھ تکیہ کے نیچے جبکہ دوسرے میں موبائل اور اوپر سے کمبل اس طرح ڈالا کے وہ فون چلائے تو کسی کو نظر نہ آئے 

                                           ¤¤¤¤¤

غازی نے کمرے میں آتے ہی فون نکالا اور ھدیٰ کو ریپلائی کیا 

آچکا ہوں محترمہ !     دوسری طرف پیغام پہنچتے ہی سین ہوا تھا 

مبارک ہو !   پہلا میسج 

اماں سے مل لیے اپنی ؟    دوسرا بھی ساتھ 

جی مل آیا.    اسنے مسکراتے ایموجی کے ساتھ بھیجا 

کھانا کھایا آپ نے ؟     اسنے پوچھا 

جی کھالیا کام پہ.      زی نے ریپلائی بھیجا 

نماز پڑھی ؟   اسنے پھر سے پوچھا 

نہیں.   غازی نے ہنسنے والے ایموجی کے ساتھ بھیجا 

جائیں پڑھیں.     اسکا غصے والے ایموجی کے ساتھ ریپلائی آیا 

اوکے پر آپ سو نا جانا محترمہ.      غازی نے تنبییہ کی 

جی جی میں جاگ رہی ہوں....  اسکا ہمستے ایموجی کے ساتھ ریپلائی آیا جبکہ دوسری طرف نور بمشکل آنکھیں کھول رہی تھی اور بھینچ رہی تھی نیند کے مارے حالت خراب ہورہی تھی جبکہ یہ بندا اتنی دیر لگا رہا تھا 

غازی نے کپڑے بدلے اور نماز پڑھ کے اسے میسج کردیا 

آگیا محترمہ. ... دوسری طرد نور نے ریپلائی دیا 

مبارک!   غازی پڑھ کے مسکرایا پھر ریپلائی لکھا 

کھانا کھایا ؟     دوسری طرف سے اسکا جواب مثبت آیا تھا 

اچھا یار یہ پوچھنا تھا میں جب آفس میں ہوتا ہوں تو تم سے بات کرسکتا ہوں ؟؟؟     غازی نے ڈرتے ڈرتے لکھا 

اگر میں بولوں نہیں تو ؟    اسکا ریپلائی آیا ساتھ میں سوچنے والا ایموجی 

میں تب بھی کرونگا!    غازی نے لکھ بھیجا 

تو پھر.. ؟   اسکے میسج کے ساتھ ہنسنے والے ایموجیز آیے تو غازی مسکرادیا 

اچھا جی.!  کل سے کیا کرونگا.   اسنے لکھ بھیجا 

یار ویسے ھدیٰ مجھے نہیں سمجھ آتا میں تمھارا شکریہ کیسے ادا کروں...... اسنے سوچ سوچ کے ٹائپ کیا اور تکیہ بیڈ کے سرہانے لگا کے لیٹ گیا 

مت کریں کس نے کہا ہے کریں ؟     اسکا شوخیہ جواب آیا تو وہ ہنس دیا 

اچھا جی!     اسنے لکھ بھیجا تو دوسری طرف سے زبان چڑانے والا ایموجی آیا غازی ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے سوگیا جبکہ دوسری طرف وہ سمجھ گئی اسنے اللہ حافظ اور گڈ نائٹ کا میسج کیا تھا 

                                 ¤¤¤¤¤¤¤

صبح نور دیر سے اٹھی فریش ہوکے اسنے پہلے قضا نماز پڑھی اور موبائل چیک کیا وہاں غیر آشنا میسج سے نمبر تھا 

یار کل آئے گا ؟ میں پاس ہونے کی ٹریٹ دےرہا ہوں.     نور نے اچھبنے سے میسج پڑھا 

کون ؟    اسنے لکھ بھیجا شاید مزمل کا دوست ہوگا 

یار میں فرحان پہچانا نہیں تو نے ؟    اسی نمبر سے میسج آیا 

سوری رانگ نمبر نور نے لکھ کے موبائل رکھ دیا غازی ابھی تک اٹھا نہیں تھا یا اسکا میسج نہیں آیا تھا نور نے اسے سلام کا میسج کیا مگر وہ آفلائن تھا 

دواری طرف سے اس نمبر اے دوبارہ میسج آیا 

نہ جی ایسے کیسے رانگ نمبر مجھے پتہ ہے تم ھدیٰ ہو ؟    اسکا میسج پڑھ کے نور کا دماغ بھک سے اڑا ایک ہی شخص اسے ھدیٰ کہتا ہے اور وہ ہے غازی. !    

نور نے اسکو ریپلائی دینے کے بجائے غازی کی سم.پہ میسج کیا 

میر نمبر آپکے موبائل سے کہاں گیا ہے ؟ 

دوسری طرف سے اسکا ریپلائی آیا 

ھدیٰ کہاں جاسکتا ہے ؟    اور ساتھ میں حیران ہونت والے ایموجیز 

اسنے ساری بات بتائی 

محترمہ میسج واٹس ایپ پہ آیا ہے ؟     اسنے پوچھا تو اسنے ہاں لکھ دیا 

تو جیسے میں نے پتہ کیا تھا کوئی بھی کرسکتا ہے.   میسج کے ساتھ ناراض منہ والے ایموجیز 

سوری..... اسے واقعی احساس ہوا اسنے غلطی کی ہے 

مجھے دو نمبر میں نبٹ لونگا.   اسکا اگلا میسج آیا 

رہنے دیں میں.... اسنے ایک میسج بھیجا پھر اگلا لکھنے لگی تھی کہ اسکا تحکمانہ میسج آیا 

نمبر دو!    اور نور نے دے دیا پھر میسج نہیں آیا اس نمبر سے 

                                ¤¤¤¤¤¤¤

گدھے ھدیٰ کیوں لکھا!    اسنے غصے میں اسے میسج کیا اس کمینے سے اچھا پھنسوایا تھا اسے اانے سو بار لعنت بھیجی اسکی شکل پہ دوسری طرف سے وہ ہنسنے لگا 

کیا کرتا یار یاد نہیں رہا...

__________

 گدھے ھدیٰ کیوں لکھا!    اسنے غصے میں اسے میسج کیا اس کمینے نے اچھا پھنسوایا تھا اسے اسنے سو بار لعنت بھیجی اسکی شکل پہ دوسری طرف سے وہ ہنسنے لگا 

کیا کرتا یار یاد نہیں رہا.       روحان کا معصوم چہرے والے ایموجیز کے ساتھ میسج آیا تھا 

لعنت ہے تیری شکل پہ!     غازی نے غصے سے ریپلائی کیا پھر ساتھ ہی اگلا میسج لکھا 

شام میں دیکھتا ہوں تجھے تو میں عجیب انسان ہے ایک کام نہیں ہوا تجھ سے!    

اوکے باس مل لیتے ہیں.      روحان کا میسج آیا ساتھ میں ہنسنے والے ایموجیز 

                                     ¤¤¤¤¤¤

سالے کمینے ایک کام نہیں ہوا تجھ سے!     غازی جب سے آیا تھا اسے مار ہی رہا تھا مگر مجال ہے اسے ڈھیٹ پہ ذرا بھی اثر ہوا ہو وہ ہمسے ہی جارہا تھا جبکہ باقی سب منہ کھولے اس نئے ورژن والے غازی کو دیکھ رہے تھے جو پورا ہی بدلہ ہوا تھا 

سلام باس....  دو لڑکے اسکے سامنے آکے بیٹھے 

وعلیکم اسلام.      غازی نے حانی کی مار پیٹ روک کے انہیں دیکھا 

کیسے ہیں ؟    ان میں سے ایک نے پوچھا 

فٹ یار.      غازی نے ہاتھوں سے بال پیچھے کیے پھر بولا 

باس ایک مسئلہ ہے....  وہی والا دوبارہ بولا ورنی دوسرا لڑکا منہ بند کیے بیٹھا تھا 

بولو.....  سگریٹ جیب سے نکالتے ہوئے وہ شان بینیازی سے بولا 

یہ میرا دوست ہے اسکو ایک لڑکی پسند ہے مگر اسکے اور اسکے گھر والے نہیں مانتے..... غازی سر اثبات میں ہلا رہا تھا جبکہ حانی کو اتنی جمائیاں آچکی تھیں کہ بندہ گنتے گنتے تھک جائے اور غازی کے بقول وہ نکلی کی جمائیاں لیتا ہے تاکہ دوسرا اپنا مسئلہ لیکے خود رفو چکر ہوجائے (حانی کے بقول بلکل ٹھیک!)

ہاں تو ؟     غازی نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس دوسرے لڑکے کو دیکھا 

تو آپ باس کچھ کرو....  وہ لڑکا خوشامدی انداز میں بولا جبکہ روحان کے بقول مکھن لگایا 

میں بات کرلونگا.      غازی نے سگریٹ کا کش لگایا 

اوکے بس یہی کہرہے تھے.   وہ لڑکا مسکرا کے بولا 

اوکے.     غازی نے ہاتھ سے اشارہ کیا مطلب اب جاؤ 

وہ دونوں چلے گئے تب ہی باقی لڑکے آکے بیٹھ گئے اور سب نے باری باری اسکے بدلے رویہ پہ حیرانی ظاہر کی جبکہ غازی بس مسکرا کے سر جھٹکتا رہا اسکے ذہن میں ایک ہی چہرہ گھوم رہا تھا 

اسنے موبائل نکال کے میسج چیک کیا وہ آنلائن آرہی تھی مگر میسج نہیں تھا غازی کے دل کو پتی نہیں کیوں برا لگا 

کس سے لگی ہو ؟    اسنے لکھ بھیجا 

اس چڑیل سے.     اسنے ایک سکرین شاٹ بھیجا جس پہ اوپر چڑیل لکھا تھا جبکہ میسج پڑھ کے اندازہ ہورہا تھا اسکی کوئی دوست مبشرہ ہے 

اچھا جی....  غازی نے مسکرا کے لکھا 

یار میں بور ہورہا ہوں..... اسنے پھر سے لکھ بھیجا 

تو میں کیا کروں. ... وہاں سے ٹیڑھے منہ والے ایمجیز کے ساتھ ریپلائی آیا 

باتیں کرتے ہیں..... اسنے مسکرانے والے ایموجی کے ساتھ میسج لکھا 

کریں....  اسکا ریپلائی آیا 

آپ نے مغرب پڑھی ؟     لو جی کلاس شروع غازی نے ہنس کے سر جھٹکا 

نہیں محترمہ بھول گیا.     اسنے لکھ کے بھیجا 

فوراً جائیں.     اسکا حکمیہ میسج 

اچھا جاتا ہوں...بس بات نہ کرنا بھگاتی رہنا.       غازی نے غصے والا ایموجی بھیجا تو اسکے ہنسنے والے ایموجی آئے غازی نماز پڑحنے اٹھا اور گدی سے پکڑ کے روحان کو بھی اٹھا دیا 

چل تو بھی  ...   

میں کیوں بھئی تجھے کہہ رہی ہے نا....  روحان میسنا بنا 

شرافت کا مظاہرہ کر منہ توڑ دونگا اٹھ چل...     غازی نے اسے گھسیٹ کے لے گیا 

                                      ¤¤¤¤¤¤

نور یار کھانا دے دو!  مزمل آتے ہی کام لگانے لگا 

فریحی باجی سے لیلو ! نور ٹس سے مس نا ہوئی 

باجییییییی کھانا دے دووو..... اسنے وہیں سے آواز لگائی 

میں کام کررہی ہوں نور سے ہی کہو.      فریحہ نے کچن سے ہی آواز لگائی 

چلو نور کھانا دو بھائی کو فوراً.      نکمو کی طرح بیٹھی رہتی ہو ہر وقت

اماں اللہ کو مانیں صبح سے کام کروارہی ہیں اور کہتی ہیں کوئی کام نہیں کیا ؟     نور کو تپ چڑھی 

کیا.کیا ہے تم نے صبح سے ؟     انہوں نے تیوری چڑھائی نور نے کام گنوانے شروع کیے تو وہ بات کاٹ کے بولیں 

دیکھو کیسے کام گنوارہی ہے پھر میں بتاؤں میں نے کیا کیا کیا یے ؟      اماں نے روائیتی انداز اپنایا 

لو خود تو کہہ رہی تھی بتاو کیا کیا ہے اب بتانے لگی تو اہنے کام گنوانے لگ گئیں...  نور نے ہنس کے کہا تو مزمل کی بھی ہنسی چھوٹی جبکہ اماں کی چپل نے پرواز پکڑی کے نور بھاگ گئی 

                                         ¤¤¤¤¤¤

آگیا محترمہ.......  غازی نے اسے میسج لکھا 

مبارک ہو..... اسکا وہی نارمل ریپلائی آیا 

کیا کررہی ہو ؟    اسنے پوچھا 

آپ سے بات....  ٹیڑھا ریپلائی آیا جبکہ روحان منہ پہ ہاتھ رکھ کے ہنسی دبا رہا تھا 

منہ نہ لگ....  اسے غصے سے گھور کے کہہ کر غازی واپس فون کی طرف متوجہ ہوگیا 

اچھا اسکے علاوہ ؟     غازی نے پوچھا 

کچھ نہیں کرتی یار میں ایک نمبر کی نکمی ہوں ابھی بس لڑ جھگڑ کے کھانا دے کے آئی ہوں بس بھائی کو.      اسکی صاف گوئی پہ جہاں روحان کی ہنسی چھوٹی وہاں غازی بھی مسکرایا 

پاگل ہے یار یہ پوری.... روحان نے ہنس کے کہا تو غازی نے اسے گھورا 

معافی حضرت!     حانی نے فوراً کان پکڑے اسی وقت رمضان آیا 

سلام!     اسے دیکھ کے حانی کے منہ میں کرواہٹ گھل گئی جبکہ غازی اٹھ کے اچھے سے ملا پتہ نہیں کیوں مگر وہ حانی کو اچھا نہیں لگتا تھا 

کہاں غائب ہو ایک کام کہا تھا ؟     غازی نے ایک اور سگریٹ ہونٹوں سے لگایا 

ہاں باس وہ تو ہوگیا اصل میں کسی کام سے گیا ہوا تھا اور جو آپنے پوچھا تھا وہ.میں اسی دن بتادیتا مگر آپ غصے میں تھے یار اصل میں وہ جو لڑکی تھی اسکا کافی دن سے افئیر تھا اس لڑکے کے ساتھ اور اب اچانک اسنے ریلیشن ختم کردیا تو یہ لڑکا اسے دھمکا رہا تھا....... رمضان بول رہا تھا جبکہ غازی کے ارد گرد دھماکے ہورہے تھے حد ہوتی ہے جھوٹ کی بھی اسکا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا 

اچھا ٹھیک ہے.     اسنے سر جھٹکا جبکہ روحان سمجھ چکا تھا کے غازی  بری طرح ہرٹ ہوا تھا 

چل یار گھر بھوک لگی ہے کچھ کھانے چلتے ہیں.     روحان اسے اٹھاتے ہوئے بولا 

ارے ببب..باس آج پینی نہیں ہے ؟    رمضان ایک دم بوکھلا کے بولا 

نہیں آج نہیں ہمیں جانا ہے.   روحان ایک دم غازی کے بولنے سے پہلے بولا تو غازی نے اسے گھورا پتہ نہیں وہ رمضان سے اتنا بدظن کیوں رہتا تھا 

ہاں یار جانا ہے.   غازی نے ہاتھ ملایا جبکہ حانی نے اسکی بھی زحمت نہ کی 

رمضان نے بالوں کو ہاتھوں میں جکڑا پتہ نہیں اسے کیوں اتنا برا لگا تھا 

                                     ¤¤¤¤¤¤¤

کیا ہوگیا یے حانی اتنی کیوں ہٹتی ہے تیری رمضان سے ؟      غازی نے حیرانی سے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا 

میری تو نہیں ہٹتی ویسے بھی ھدیٰ سے بات کرے گا یا پیئے گا تو ؟     حانی نے سر جھٹک کے جواب دیا 

جلتا ہے ؟     غازی نے مسکراہٹ دبائی 

میں کونسا تیری محبوبہ ہوں ؟  روحان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو غازی نے قہقہہ مارا 

آج گھر کھانا نہیں کھایا ہار تو ھدیٰ نے جینا حرام کردینا ہے تو بھی گھر جا اور وہاں جاکے کھا..... غازی گانے کی دھن پہ سر ہلا کے کہہ رہا تھا 

اچھا اتنا ڈرتا ہے تو ؟   حانی ہنسا 

نہیں یار کہتی ہے اپنے گھر والوں کے ساتھ کھایا کر بات وات کیا کرو..... غازی نے اسکی بات دھرائی 

سہی تو کہتی ہے یار تیری فیملی ہے.... روحان نے بھی اپنا حصہ ڈالا 

اچھا جی..... غازی نے کمال فرمانبرداری سے سر جھٹکا تو روحان ہنسا 

مت سدھرنا تو.....  غازی بھی ہنسا پھر اسے گھر اتارا اور اپنے گھر کی طرف گاڑی موڑدی تبھی میسجز بجے اسنے دیکھا تو ھدیٰ کے تھے 

کہاں ہے؟؟

جناب ؟؟     غازی پڑھ کے مسکرایا 

ڈرائیو کررہا ہوں..    غازی نے لکھ بھیجا تو اسکے غصے والے ایموجی آئے اور بڑا سا میسج اسکے ساتھ ہی 

ڈرائیو کے دوران موبائل مت چلایا کریں رکھیں اب مجھے بھی ریپلائی مت دی گا گھر جاتے ہی میسج کردیگا....  حالانکہ وہ ایک میسج توڑ توڑ کے لکھتی تھی مگر یہ اسنے پورا ہی لکھا تھا 

غازے نے اوکے کی جگہ خالی k لکھا اور گاڑی ریش ڈرائیو کرتے ہوئے گھر پینچ گیا اور دروازے پہ ہی اسے میسج کیا پہنچ گیا یارا کھانا وغیرہ کھالوں پھر بات کرتا ہوں.      اسنے میسج کیا تو اسکا بھی اوکے آیا 

                                       ¤¤¤¤¤¤

کھانے کی میز پہ آج رات کو غازی کی.آمد غیر متوقع تھی ورنہ وہ اکثر باہر ہی کھاتا تھا اسے دیکھ کے اماں کو خوشی ہوئی ہوئی تو ابا اور عثمان کو بھی تھی مگر وہ تاثرات چھپا گئے جبکہ اماں نے اسکا اظہار اسکی خاطر مدارت کر کے کیا کھانا کھا کے وہ تینوں ہی کام کی بات کرنے لگے پھر چائے وغیرہ سب نے پی غازی کا دل بہت پرسکون تھا امآج اسے لگ رہا تھا اسکی ایک فیملی بھی ہے وہ گاہے بگاہے موبائل پہ میسج کر کے ھدیٰ کو بھی بتا رہا تھا وہ بھی اسکی خوشی میں خوش تھی اور غازی کو تو جیسے لگ رہا تھا اسکی زندگی مکمل ہوگئی تھی ( قابل غور : لگ رہا تھا.......

جاری ہے 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq   written by Toba Amir.  Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq  by Toba Amir  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment