Pages

Friday 21 October 2022

Naseeb E Nasheman By Ishu Khan New Urdu Sneak Novel

Naseeb E Nasheman By Ishu Khan New  Urdu Sneak Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Naseeb E Nasheman

صبح صادق کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس پر کسی بھی قسم کا خوشگوار تاثر چھوڑنے پر ناکام ہو رہیتھی۔ بڑے اور گھنے درختوں کے بیچ میں بنی اس سڑک پر چلتے ہوئے اسے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقتہونے کو آیا تھا لیکن آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں اس سنسان راستے اورخوف میں مبتلا کر دینے والی خاموشی میں ایک سال کی بچی کو سینے سے لگائے ، کندھے پر بلیک بیگڈالے مسلسل چلنے کی وجہ سے اب اس کے پاؤں شدید درد کرنے لگے تھے۔ کالے عبایہ اور نقاب میں ڈر وخوف سے بہتا ہوا پسینہ اسے اب نڈھال کر دینے کو تھا۔ رات تین بجے سے شروع ہوا یہ سفر اسے منزلتک پہنچاتا یا نہیں اسے اندازہ نہیں تھا۔ 

درختوں کے بعد فصلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے رک کر اس جگہ کو ٹھیک سے دیکھنے کی کوششکی مگر سر میں اٹھتے شدید درد اور گم ہوتے حواسوں نے اس کا اس کوشش میں ساتھ نہ دیا۔ بمشکلچکراتے سر کو قابو کر کے آنکھیں جھپکیں تو دور دور تک پھیلی فصلیں اور دائیں طرف موجود ویرانٹیوب ویل نظر آیا جسے دیکھ کر اسے اپنے گلے میں شدید پیاس سے خشکی اترتی محسوس ہوئی۔ اسسے نظر ہٹا کر سامنے سیدھ میں نظر ڈالی دور کوئی دس منٹ کے فاصلے پر موجود عمارت کی دیواروںکا رنگ اس کے گورنمنٹ اسکول ہونے کی نشان دہی کر رہا تھا جس کا مطلب تھا آبادی والا علاقہ زیادہدور نہیں تھا۔ اسے یک گونہ سکون ملا۔ 

اس جگہ کے نام کے سوا وہ ہر ایک چیز سے نا آشنا تھی۔ ابھی اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آگے کوئیاپنا موجود بھی تھا یا وہ سیراب کے پیچھے اتنا سفر طے کر کے آئی تھی۔ 

” یا اللّٰهرحم فرما۔“ مسجد میں نماز کے بعد ہونے والی قرآن مجید کی آیات کی تلاوت شروع ہوئی تو اسکے خشک لبوں نے جنبش کی اور اس کے ساتھ ہی ایک شفاف موتی آنکھ سے نکل کر نقاب میں جذب ہوگیا۔ 

اس نے آج سے تین ماہ پہلے ان حالات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا مگر زندگی کا تغیر انسان کو کہاںسے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ ڈر و خوف کے سائے تلے وہ آگے قدم بڑھانے لگی۔ بوائز گورنمنٹ اسکول کے آگےنہر تھی جس پر بنے پل کی دوسری جانب کچھ فاصلے پر ایک گاؤں نظر آ رہا تھا۔ 

دو تین گھر عبور کرنے کے بعد اسے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر غالباً اپنے کام پر جاتے نظر آئے۔اس سے آگے ایک گھر کے ساتھ کچرے کا بڑا سا ڈھیر لگا ہوا تھا اس کے علاوہ بھی کئی گھروں کے باہرگندگی پھیلی ہوئی تھی۔ لکڑی کے کھلے دروازوں سے عورتیں کام کرتی نظر آ رہی تھیں۔ دائیں جانب ایکآدمی اس جگہ پر موجود واحد دکان کا دروازہ کھول کر اپنے کام کا آغاز کر رہا تھا۔ 

سامنے گیارہ بارہ سال کے دو لڑکے سینے سے قرآن مجید کو لگائے گزرے تو انگیزہ نے لبوں پر زبان پھیرتےہوئے انہیں پکارا۔  

” سنو۔

” جی۔“ وہ دونوں اس کے قریب آئے۔ 

” آپ کو زین آفریدی صاحب کے گھر کا پتا ہے ؟“ انگیزہ نے پوچھا۔ 

” آپ کون ہیں ؟“ ان دونوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ 

” میں ان کی رشتے دار ہوں کیا آپ مجھے ان کے گھر کا بتا دیں گے ؟“ اس کے کندھے سے لگی عنایہ ابکسمسانے لگی تھی۔ 

” ان کا گھر تو ساتھ والے علاقے میں ہے ، میں آپ کو لے جاؤں وہاں ؟“ ان میں سے ایک لڑکا بولا۔

” ہوں۔“ انگیزہ نے سر کو ہلایا۔ 

” نمیر ، تم میرا قرآن پاک گھر لے جاؤ اور اماں کو بتا دینا میں تھوڑی دیر میں گ

Wo Ishq Masoom Sa By Zainab Noor

Novel Name : Wo Ishq Masoom Sa

Writer Name : Zainab Noor

New Upcoming :  Complete 



"سانس لیتے ہیں جو زندگی کیلیے دل وہ سارے پریشان ہیں

پورے ہوتے نہیں پھر بھی دیکھے بہت خواب آنکھوں پے حیران ہیں "

نور اس انسان کو چاہنے لگ گئی تھی بہت بغیر یہ سوچے سمجھے کہ وہ اس کا ھو گا یا نہیں اور محبت میں سوچ سمجھ کہاں ہوتی ہے ۔یہی تو ایک جذبہ ہے جو سب سے زیادہ شفا ف ہوتا ہے اور انسان خود کو کسی ذات سے منسلک کر لیتا ہے نور کا بھی کچھ یہی حال تھا یہ جانتے ہوے بھی کے وہ شخص اس طرح کے ہر جذبے سے عاری ہے نور اس سے محبت کی جنگ لڑنے کے لئے تیار ھو گئی ۔اور اگر دل سے کسی کو چاہو تو انسان کبھی ہار نہیں سکتا کبھی بھی نہیں ۔اور نور نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی ھو وہ علیم سے بات کرے گی

آج نور کو یونی سے اوف تھا اس لئے وہ زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہی ۔نور بیٹا سمن نے نور کو آواز دی جی ماما نور بولی بیٹا فارغ ھو کر آ جاؤ میں مارکیٹ جا رہی ہوں تھوڑا کام ہے تم بھی آ جاؤ اپنے لئے پارٹی کا ڈریس لے لینا ۔نور کی نیکسٹ ویک پارٹی تھی اور نور نے مما کو پہلے ہی بتا دیا تھا ۔

نور جلدی سے تیار ہوئی اور مارکیٹ کے لئے نکل گئی ۔نور بیٹا یہ بلیو فراک دیکھو تو کافی دلکش لگ رہا ہے سمن نور سے مخاطب ہوئی ۔

نور نے کندھے اوچکا ئے اور بولی ٹھیک ہے لیکن کچھ سوچتے ہی اسکی آنکھوں میں خوشی کی چمک اٹھی اور اس نے وہ بلیو ڈریس لینے کا فیصلہ کیا ۔اس نے علیم کو زیادہ تر بلیو شرٹ میں دیکھا تھا اور وہ اس میں خاصا ہینڈ سم لگتا تھا ویسے تو نور کو وہ ہر انداز میں ہی اچھا لگتا تھا ۔اور مشی کا بھی ڈریس کلر سیم تھا تو اس نے بلیو ڈریس لے لیا ۔


"وہ آ ئے ہیں محفل میں کچھ تو خاص ہونا چاہئے بتائے؟؟؟؟

جان پیش کریں یا کچھ اور ہونا چاہیے "


آج نور کی پارٹی تھی اور وہ بلیو ڈریس میں کافی دلکش لگ رہی تھی ۔وہ حجاب ہی کرتی تھی ہمیشہ اس لئے آج بھی حجاب میں تھی ۔تیار ھو کر وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر مشی کا انتظار کرنے لگی ۔ارے واہ آج تو میڈم پہچانی نہیں جا رہی مشی اس سے آتے ہی مخاطب ہوئی کسے مارنے کا ارادہ ہے مشی یہ پوچتھے ہی زور زور سے ہنسنے لگ گئی اور نور بھی ساتھ میں ہی ہنسنے لگ گئی ۔

انکے ڈیپارٹمنٹ کی ویلکم تھی لیکن پھر بھی یونی میں کافی رش تھا ۔venue پہنچ کر وہ پارٹی ہا ل کی جانب بڑھنے لگی ۔نور کی نظر ساتھ گزرنے والے شخص پر پڑی جو کے نیوی بلیو تھری پیس ڈریس میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا اس نے نور کی جانب نہیں دیکھا اور نور اس شخص سے اپنی نظریں ہی نا ہٹا سکی نور ابھی گم تھی خیال میں کے مشی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی نور میڈم کہاں کھو گئی ۔کچھ نہیں بس ایسے ہی نور ُبڑ ُبڑ ا ئی چلو اندر ہا ل میں چلتے ہیں نور اسے اندر لے آئی ہال بہت خوبصورت انداز میں سجا یا ہوا تھا اور کافی اچھا لگ رہا تھا ۔

فنکشن کا آغاز ھو چکا تھا سپیچ اور باقی سب بھی قابل تعریف تھا ۔نور کی نظریں ہر لمحہ کسی کو تلاش کر رہی تھی ۔۔لیکن اس نے فنکشن کو بھی خوب انجوائے کیا ۔فنکشن ختم ہوتے ہی سب لوگ اسٹاپ کی جانب بڑھنے لگے ۔نور اور مشی نے بھی اسٹاپ کا رخ اختیار کر لیا ۔

مشی اپنے پاپا کے ساتھ چلی گئی لیکن نور ابھی انتظار کر رہی تھی روحیل بھائی کو شاید کوئی کام تھا اس لئے وہ لیٹ ھو گئے ۔نور نظریں جما ئے انکا انتظار کر رہی تھی ۔اچانک اس نے اپنی جانب ایک شخص کو بڑھتے دیکھا پتہ نہیں وہ کون تھا لیکن نور کو یہ اندازہ ھو گیا کے وہ اسکی جانب آ رہا ہے ۔کیا بات ہے میڈم بہت حسین لگ رہی ہیں ۔

نور یہ بات سن کر حواس کھو بیٹھی اور غصے سے لال پیلی ہونے لگی ۔کون ھو تم اور کیا بکواس کر رہے ھو تمہیں تمیز نہیں ہے کے کسی لڑکی سے کیسے بات کی جاتی ہے نور ۔ہاں نہیں ہے تمیز اس لئے تو آپ کے پاس آیا ہوں آپ سیکھا دو ۔اسکی یہ بات سنتے ہی نور طیش میں آ گئی آؤ دیکھا نا تاؤ ایک تھپڑ اسکی گال پر رسید کر دیا اور مسکراتے ہوئے کہا کے اب تمہیں ہمیشہ یاد رہے گا کے کیسے کسی عورت سے بات کی جاتی ہے ۔وہ آدمی غصے میں آ گیا اور نور کی جانب بڑھنے لگا نور کی دھڑکنوں کی رفتار تیز ھو رہی تھی ۔اسے کوئی ارد گرد نظر بھی نہیں آیا وہ پریشان ھو گئی ۔۔


-------------#######------------


ہر وقت وہ شخص اندھیرے میں بیٹھا رہتا ۔جیسے دنیا سے اسے کوئی لگاؤ ہی نہیں رہا تھا ۔ہر چیز اسکے لئے تکلیف کا با عث تھی ۔اب اسے احساس ہوتا تھا کے اپنی محبت کو کھو دینا کس قدر تکلیف دیتا ہے زندگی میں کسی کا ساتھ پا کر بھی دل میں ایک خلا ہمیشہ رہتا ہے اور وہ محبت کو پا کر ہی پورا ھو سکتا ہے


------------######--------------


نور خوف کے مارے قدم پیچھے ہٹا رہی تھی اور اسے اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ھو رہی تھی ۔وہ آدمی آگے بڑھ کر اسے غصے سے پکڑنے لگا نور خود کو چھڑا نے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ناکام رہی ۔اتنے میں اسے زنا ٹ سے تھپڑ کی آواز آئ اس نے فورا آنکھیں کھولی تو وہ دنگ رہ گئی تھی ۔اس شخص نے اسسے تھپڑ مار کر زمین بوس کر دیا اور بولا کے آج کے بعد تجھے یاد رہے گا کے عورت کی عزت کیسے کرتے ہیں ۔وہ آدمی اٹھا اور بھاگ گیا وہاں سے نور اس سب کو بہت زیادہ حیران پریشان ھو کر دیکھ رہی تھی ۔۔

اب علیم اسے سبق سیکھا کر نور کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح نور اسے بنا پلک جھپکے دیکھتی رہی ۔۔اور اس شخص کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا ۔نور آپ کہاں گم رہتی ھو کچھ ہوش بھی ہوتا ہے کے نہیں وہ غصے میں اسے بول رہا تھا لیکن نور کو اسکا یوں غصہ کرنا برا نا لگتا کیوں کے وہ ہر مشکل میں اس کا محسن بن کر سامنے آ جاتا اور نور کے حواس اڑا دیتا ۔نور نے سر جھٹکا اور بولی جی میں سمجھی نہیں ؟؟؟میڈم ہوش میں رہا کرے اسکو غصے سے دیکھا اور اسکا ہاتھ کھینچ کر آگے کیا یہ رہا آپکا کارڈ نیکسٹ ٹائم خیال کرئے گا ۔

یہ کہ کے وہ ساتھ کھڑا ھو گیا نور کو اچھا لگا لیکن وہ خاموش ہی رہی ۔اتنی دیر میں نور کے بھائی بھی آ گئے نور انکی طرف بڑھی اور وہ شخص واپس چلا گیا نور نے اسے پلٹ کر دیکھا لیکن اس نے نہیں دیکھا اور وہ چلی گئی ۔کیا بھائی اتنی دیر کب سے انتظار کر رہی ہوں نور بولی ۔ہاں بس تھوڑا بزی تھا سوری ۔کوئی بات نہیں بھائی نور ہلکا سا مسکرائی ۔نور نے گھر آتے ہی چینج کیا اور ماما سے حال چال پوچھا اور نماز پڑھ کر رب کا شکر ادا کیا کے اسکی وجہ سے وہ بچ گئی آج اس کے لبوں پے انجانی سی دعا آئ

"یارب جسے میرے محسن بنا کر بھیجا ہے اس کو ساری زندگی کے لئے میرا کر دے "

اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ اور وہ سونے کے لئے چلی گئی ۔موبائل فون پر میسج رنگ ہوئی ۔وہ دیکھ کر مسکرائی ۔۔اور میسج پڑھنے لگ گئی ۔آپکا ہاتھ کیسا ہے؟؟؟؟ نور کو یہ میسج پڑھ کر یقین نہیں آیا کے اسے کیسے پتہ چلا کہ اس کے ہاتھ پے چوٹ لگی ہے ۔نور کو کارڈ دیتے وقت علیم نے اس کا ہاتھ دیکھ لیا تھا شاید چوڑی ٹوٹ جانے کی وجہ سے کٹ لگ گیا تھا ۔جی اب بہتر ہے نور نے رپلائے کیا ۔سوری نور میں کچھ زیادہ ہی غصہ کر گیا لیکن میں کیا کروں میں اسا ہی ہوں روڈ ٹائپ انسان ۔جی کوئی بات نہیں نور نے جواب دیا اس سے پہلے کے وہ مزید بات کرتی اسکا میسج آ گیا اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ ۔نور مسکرائی اور سونے کے لئے لیٹ گئی ۔۔۔۔دماغ میں وہی منظر اور چہرہ بار بار گردش کر رہا تھا




" سنو لڑکی مجھ سے سیدھی بات کیا کرو ۔۔۔۔"  

"وہ اوپر سارے روم لاک ہیں اس لئیے میں اینا اور بریڈلی لیونگ روم شئیر  کریں گئے ۔۔۔" 

" تمہارا دماغ درست ہے ؟؟ اوہ گاڈ یعنی اگر میں نہیں  آتا تو تم ایک نامحرم کے ساتھ روم شئیر کرتی ۔۔۔۔" وہ غرایا اور ایک جھٹکے سے اسے اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے لئیے مخصوص کمرے میں لا کر اسے صوفے پر بٹھایا 

" تم ایک نہایت ہی بیوقوف لڑکی ہو !! " وہ اسے کہتا ہوا اندر کیبنٹ کی طرف بڑھا اور فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس کے پاس آیا جو لنگڑاتے ہوئے صوفے سے اٹھ کر بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر جا رہی تھی 

" کہاں جا رہی ہو ؟؟ " وہ اس کے سامنے آکر رستہ روکتے ہوئے بولا 

" پلیز میرا راستہ چھوڑیں !! مجھے یہاں نہیں رکنا ۔۔مجھے ۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔۔۔۔" وہ روتے ہوئے بضد ہوئی 

شہریار نے بغور اس کو دیکھا بنا دوپٹہ کے بنا سر ڈھکے وہ  پہلی بار اس کے سامنے کھڑی تھی ریشمی سلکی بال پونی سے پوری طرح سے کھل  اس کی کمر کو ڈھکے ہوئے تھے اس نے میکانیکی انداز میں  سویرا کے بالوں کو  اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔

" تم نے کس کی اجازت سے بال کٹوائے ۔۔۔۔" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

" بال تو نہیں کٹوائے ۔۔۔۔" وہ بوکھلائی 

" پہلے تماری بال کمر سے نیچے تک آتے تھے اور اب صرف کمر تک آرہے ہیں ۔۔۔۔" وہ بولنے کے بعد خود بھی حیران رہ گیا اس نے بھلا سویرا کے بال کب نوٹ کئیے کہ ذرا سی تبدیلی بھی بھانپ گیا تھا 

" پلیز میرا راستہ چھوڑیں مجھے جانا ہے ۔۔۔۔۔" وہ اس کی خود پر جمی نظروں کے ارتکاز کو برداشت نہیں کر پارہی تھی 

" سنو لڑکی !!! " وہ اس کے قریب ہوا 

" تمہارا پر راستہ مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ہی ختم ہوتا ہے اس بات کو اپنے دماغ میں اچھی طرح سے بٹھا لو ۔۔۔۔۔" اس نے سویرا کو جکڑ کر اپنے بازوؤں میں سنبھالا اور اسے بیڈ پر تقریباً پٹخنے والے انداز میں لٹایا ۔۔

" اب اگر تم ادھر سے ہلی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا ۔۔۔۔" وہ غرایا 

سویرا اس کا غصہ دیکھ کر چپ چاپ ہو گئی اب شہریار نے اس کا پیر تھام کر جوتا اتارا  اس کا پیر سوج رہا تھا اس نے تاسف سے اس کے سوجے ہوئے پیر کو دیکھا اور فرسٹ ایڈ باکس سے مرہم نکلا۔

وہ غور سے سلپ کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی جب اس کا پیر غلط طریقے سے سیڑھی پر پڑا اس سے پہلے وہ لڑھک کر نیچے گرتی جب سامنے سے ایک ینگ گڈ لکنگ سا بمشکل بیس سال کا بندہ تیزی سے تین تین سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔ 

سویرا گھبرا گئی تھی اس کے ہاتھ سے کتابیں چھوٹ کر نیچے جا گری تھیں ۔۔

کوئی  شام ادھار دو

"دانیہ!دانیہ! رکو یار۔" دانیہ اقرار غزنوی تیزی سے اپنی کتابیں سینے سے لگائے سیڑھیاں اتر رہی تھی جب ایک بھاری گھمبیر،مضطرب مانوس سی آواز سن کر وہ ساکت سی رہ گئی۔

اس نے آہستگی سے اپنا سر گھما کر دائیں جانب دیکھا۔ اونچا لمبا، ہینڈسم جس کی ایک جھلک پر ڈپارٹمنٹ تو کیا ساری یونیورسٹی کی لڑکیاں مرتی تھیں۔ وہ بہزاد غزنوی اس کی سمت آرہا تھا۔

حسب معمول بہزاد غزنوی کو دیکھ کر کئی اسٹوڈنٹس اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے گھیر چکے تھے۔ کل رات ہی جیوپیٹر گروپ کا ایک اور کامیاب کانسرٹ ہوا تھا اور بہزاد غزنوی اس گروپ کا لیڈ سنگر تھا۔ جو این ای ڈی یونیورسٹی میں فائنل ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا لیکن اکثر اوقات اپنے بینڈ کے ممبرز کے ساتھ کراچی یونیورسٹی میں ہی پایا جاتا تھا۔

دانیہ نے ایک تھکی ہوئی سانس خارج کی۔یہ فینز کے جھمیلے یونہی ان دونوں کے درمیان ہمیشہ آجاتا تھا یوں جیسے کوئی خلیج حائل ہوجائے


"دانیہ اقرار!" آنرز سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ نازک سی دانیہ، حساس بھی حد درجہ کی تھی اور اپنے تایا زاد "بہزاد غزنوی" کے بینڈ کیلئے شاعری بھی وہی کرتی تھی۔ یعنی ان کے گانوں کے لیرکس وہی لکھتی تھی۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ کیا کبھی بہزاد غزنوی کو اس کی خاموش محبت کا احساس ہوگا؟ کیا وہ کبھی اسے بھی اتنی ہی اہمیت دے پائے گا، جتنی وہ میوزک کو دیتا ہے؟ جو بھی تھا وہ اسی امید پر جی رہی تھی کہ کبھی نا کبھی تو اسے دانیہ کے جذبات نظر آئیں گے۔

"دانیہ!" وہ سب سے پیچھا چھڑوا کر اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔اس وقت فینڈم سے زیادہ دانیہ سے بات کرنا ضروری تھا۔

"سنو! آج وہ۔۔۔۔۔۔" اس نے اپنے کانوں کے پیچھے کھجلی کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔

"پریکٹس پر جانا ہے؟" دانیہ نے اس کی ادھوری بات کا مطلب سمجھتے ہوئے سوال کیا۔وہ یونہی بنا کہے اسکی ادھوری باتوں کا مطلب جان لیا کرتی تھی تو بہزاد بھی وقت ضائع نہیں کیا کرتا تھا۔

"ہاں یار! تم ذرا گھر میں ہٹلر کو سنبھال لینا۔ میں دیر سے آؤں گا۔" وہ اپنے پاپا کا ذکر کررہا تھا



"شیور! میں دیکھ لوں گی۔" وہ نرمی سے بولی۔

"سنو میں میسج کروں گا تو گیٹ کھول دینا اور سونا نہیں، مجھے تم سے ایک اہم بات کرنی ہے۔" وہ ہدایات دیتا ہوا ریلنگ سے جمپ لگا کر نیچے کود گیا۔بات ختم ہوگئی تھی اب ٹھہرنا غیر ضروری تھا۔

بہزاد غزنوی کے جانے کے بعد دانیہ گہرا سانس بھرتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر نیچے لابی میں اپنے لاکر کے پاس آئی۔

بہزاد یونہی تھا بات ختم ہوئی نہیں اور اسے جانے کی پڑی نہیں پر وہ جو ایک بار اس کے دل میں اترا تھا تو دل سے اترنا بھول گیا تھا۔





شدت ازقلم میرب حیات
بکواس بند کرو ورنہ خون پی جاؤں گا تمہارا۔۔!" اسے پیچھے دھکا دیتے وقار عالم شاہ دہاڑے۔
"ایسا کرنے سے فقط آپ کی بہن بیوہ ہو جائے گی لیکن یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ زہرہ میری بیوی ہے۔۔!" اپنے سینے سے نادیدہ گرد جھاڑتے ہوئے وہ مضبوط لہجے میں بولتا حدیبہ کو کمزور کر گیا تھا۔ وہ بے دم سی ہوتی خواتین کے نرغے میں بیٹھتی چلی گئی۔۔
"میں۔۔ سید ذوالفقار عالم شاہ۔۔ اپنے بھتیجے فدا حسین کو، ایک غیر نسل لڑکی سے نکاح کرنے کی پاداش میں اپنی جائیداد اور چھوٹی حویلی کی گدی نشینی سے عاق کرتا ہوں۔۔!" اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ بلند آواز میں بولے۔ سعیدہ بی بی کی ویران آنکھوں سے دو آنسو آہستگی سے نکلتے ان کے رخسار نم کر گئے تھے۔
"چونکہ تم نے ایک سید زادی پر ایک کم ذات لڑکی کو ترجیح دی ہے۔۔ لہٰذا اس حویلی کی روایات کو توڑنے کے جرم میں، میں حدیبہ شاہ کی تم سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔۔ رہی بات اس ملازمہ کی تو، اسے لے کر تم اس حویلی کی حدود سے جا سکتے ہو۔۔!" اس کی جانب سے رخ موڑ کر کہتے وہ اس کے جسم سے روح کھینچ چکے تھے۔

"ہرگز نہیں۔۔ مجھے آپکا فیصلہ قبول نہیں ہے۔۔ حدیبہ شاہ میری بیوی ہے اور میں اس پر مکمل حق رکھتا ہوں۔۔!!" بے قرار ہوتا وہ چلایا۔


"میں آپ کے ظلم و ستم ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔۔!" اپنی کلائی چھڑوانے کی کوشش کرتی وہ پھنکاری۔
"میں تم پر وہ روایتی سے ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔۔ بس تمہیں رفتہ رفتہ موت کی جانب دھکیل دوں گا۔۔ یہ کھیل تھوڑا مشکل ہوگا لیکن مجھے پتہ ہے تم یہ کر لو گی۔۔ آخر کو تم ایک قابل لڑکی ہو۔۔!" ایک جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑتا وہ پرسکون انداز میں بولا تو اس کی سیاہ آنکھوں کی سختی سے بے حال ہوتی علیشہ کے اندر خوف چیخا تھا۔ اس کی بھوری آنکھیں پھر سے بھر آنے لگیں لیکن اس نے جلدی سے پلکیں جھپکائیں پھر سر اثبات میں ہلایا۔
"یہ تو وقت بتائے گا کہ کون کس کو کہاں دھکیلے گا۔۔" خود کو سنبھالتی وہ جھلستے ہوئے لہجے میں بولی۔
"میں تم پر سانسیں حرام کردوں گا علیشہ چوہان۔۔!" وہ سفاکی سے گویا ہوا۔۔
"
میں آپ کو ناکوں چنے چبوا دوں گی سردار شمس البدر لغاری۔۔!" وہ دو بدو غرائی تھی۔

Shiddat By Meerab Hayat Complete Novel



"میں معافی چاہتی ہوں سرکار لیکن میری بچی ابھی معصوم ہے۔۔!" وہ روتے ہوئے گڑگڑائی۔

"ہونہہ۔۔ شوہر کے بغیر اولاد پیدا کرنے والی عورت معصوم کب سے ہوگئی بی بی۔۔؟؟ اتنی نا سمجھ تو نہیں ہو تم۔۔!" مائی کرماں کی طرف پلٹتے وہ چنگھاڑے۔۔ مائی کرماں دوپٹے سے چہرہ ڈھانپتی روتی چلی گئی۔

"تمہاری بیٹی سے تین مرتبہ سوال کیا جائے گا۔۔ اگر جواب دینِ اسلام کی رُو کے مطابق نہ ہوا۔۔ تو شریعت کے مطابق اسے سزا دی جائے گی اور تم۔۔۔۔" وہ سختی سے کہتے کہتے رکے۔۔ لفظ سزا پر جہاں مائی کرماں کے دل پر ہاتھ پڑا تھا وہیں ناجیہ بیگم کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ اُن کی نگاہوں کے سامنے زہرہ کا نازک وجود گھوم گیا۔۔ کیا وہ برداشت کرپائے گی سزا۔۔؟ وہ سزا جو شریعت کے مطابق تھی۔۔!!!!!




"تم جو بھی ہو۔۔ مجھے تمہارے ریسرچ ورک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔میرا راستہ چھوڑ دو۔۔!" وہ مروت کا دامن تھامے بڑی تمیز سے بولا۔ اس کے کورے جواب پر سیثلی نے ہونٹ سکیڑے۔

"لگتا ہے آج تمہارا موڈ کچھ زیادہ ہی خراب ہے لیکن تم ناراض مت ہو پلیز۔۔ میں کل آجاؤں گی۔۔!" وہ سرینڈر کرنے والے انداز میں بولتی فوراً اس کے سامنے سے ہٹی۔

"میرا موڈ نہیں، میں خود خراب ہوں اس لیے دوبارہ میرے راستے میں آ کر اپنا وقت ضائع مت کرنا۔!" منصب نے بڑی بے مروتی سے اسے آگاہ کیا۔ سیثلی کے پلٹتے قدم رکے۔

"آئی نو تم بہت ہاٹ ہو۔۔ اور ممی کہتی ہیں ہاٹ اینڈ ہینڈسم بوائز بہت نخریلے ہوتے ہیں بٹ نو وری۔۔ میں مینیج کر لوں گی۔۔!" پھر سے اس کے قریب ہوتی وہ سر دھنتے ہوئے بولی تو اس کی صاف گوئی پر منصب کی گندمی رنگت میں کچھ سرخائی واضح ہوئی۔

"تمہیں نہیں لگتا تم بہت بولڈ ہو۔۔!" منصب دانت پیس کر بولا۔

"یاہ بٹ اٹس مائے کلچر ناں۔۔!" وہ برا منائے بغیر کندھے اچکا کر بولی...


 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Wo Ishq Masoom Sa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Ishq Masoom Sa written Zainab Noor.Wo Ishq Masoom Sa by Zainab Noor is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment