Pages

Wednesday 26 October 2022

Janoon e Ulfat Novel By Mehwish Ali Download Free

Janoon e Ulfat Novel By Mehwish Ali Download Free

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…


Janoon e Ulfat Novel By Mehwish Ali Download Free

Episode 3

"کیا ہوا؟" رات کے پہر اسے اکیلا ٹیرس پر کھڑا دیکھ کر دانیال آکر اسکے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔


"نن۔۔نہیں کچھ نہیں بس ایسے ہی آسمان کی سیاہی کی گہرائی کو دیکھ رہی ہوں۔" وہ انکی اچانک آمد سے ہڑبڑا کر ہوش میں آتی بمشکل مسکرائیں۔


"آسمان کی گہرائی کو دیکھ کر کیا معلوم کرنا چاہتی ہو؟" اسکے کندھوں کے گرد حصار ڈالتے انہوں نے بےلچک لہجے میں پوچھا۔ عائشہ کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔


"کچھ نہیں بس ایسے ہی دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ زندگی زیادہ گہری ہوتی ہے یا سیاہی۔" اسنے تھک کر اپنا سر انکے کندھے پر رکھا۔


انہوں نے اسکے سپید پڑتے چہرے کو بغور دیکھا۔ بلاشبہ وہ آج بھی کافی حسین تھی، بڑھتی عمر نے بھی اسکے حسن میں کوئی فرق نہیں ڈالا تھا۔ شاید وہ ان میں سے تھی جوکہ ہمیشہ جوان رہتے ہیں۔۔ اور عائشہ خان بھی دانیال خان کے سامنے ایک لڑکی لگتی تھی۔ اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے رہتے کوئی انہیں ماں نہیں بلکہ کافی دفعہ دریاب کو اسکی بہن کہہ کر مخاطب کرچکے تھے۔ جوکہ دریاب کے نزدیک کافی لطف انگیز تھا البتہ عائشہ شرمندہ ہوجاتیں خودبخود کہ وہ تین جوان بچوں کی ماں ہے انکی بہن نہیں۔۔۔


"دوائی کیوں نہیں لی؟" اسکے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے انہوں نے خامقشی کے طویل وقفے بعد استفسار کیا۔ عائشہ لب دانتوں میں دبا کر گہرا سانس بھر گئی۔۔

تو گویا انہیں معلوم پڑگیا۔۔


"ل۔۔لی تھی میں نے خان۔۔"

"ہاتھ میں لی تھی یا منہ میں؟" ابھی ایک سوال کا وہ مشکل سے جواب دے پائی تھی کہ اوپر دوسرا سوال تیار تھا۔ ابکی بار عائشہ کی جان ہاتھوں میں آگئی۔

اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا جس سے وہ انہیں مطمئن کر سکے۔ جانتی بھی تھی کہ وہ اسکے ہر انداز سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی کیا کرتی ہے پھر بھی جانے کیوں وہ ہر بار زندگی کو ختم کرنے کی ایک بچکانہ حرکت ضرور انجام دے پاتی ہیں تاکہ کوئی تو پایہ تکمیل پہنچے۔


"تمہیں کب سمجھ آئی گی خانم کہ زندگی کسی ایک پر ختم نہیں ہوتی! کیا میرے مرنے کے بعد سمجھو گی یا مجھے مار کر پھر اندازہ لگا پاؤ گی؟؟" دفعتاً وہ غصے سے بھڑک اٹھے۔۔


عائشہ کے آنسوؤں گالوں پر لڑکھ گئے۔۔

"مجھ۔۔سے نہیں جیا جاتا خان۔۔ مجھے یہ زندگی نہیں چاہیے جسنے ہمیشہ مجھے ناسور دیئے ہیں۔۔ کبھی کسی راہ میں تو کبھی کسی۔۔ میں ہمیشہ آپکو تکلیف دینے کا باعث بنی ہوں مجھے سے یہ زندگی نہیں گزاری جاتی۔۔" انکی بات سنتے ہی وہ اچانک ہذیانی انداز میں چیخ پڑی۔۔

پر بروقت دانیال خان نے اسے حصار میں لیکر اسکی جنونی کیفیت پر اپنے حصار تنگ کرتے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے اسکی چیخیں دبا دیں۔۔


"شش!" وہ سرخ آنکھوں سے اپنی قوت کا استعمال کرتے اسے کنٹرول کر رہے تھے جبکہ انکے حصار میں وہ ہمیشہ کی طرح دبکی چھپی بن پانی کی مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھی۔۔


"مم۔۔مجھے و۔۔وہ۔۔چاہیے۔۔خان۔۔۔مجھے۔۔وہ چاہیے۔۔ مجھے میرا دلآور خان لادیں۔۔ خان۔۔ مجھ پر زندگی تنگ ہورہی ہے مجھے سانسیں نہیں آتیں اسکے بغیر مجھے۔۔میرا دلآور لادیں۔۔خان" انکے سینے پر وحشت میں گھری مکے برساتی وہ رات کے اندھیرے میں پوری قوت سے چیخیں مار رہی تھی۔۔


دانیال خان آس پاس کوارٹر میں ملازمین کا خیال کرتے اسے زبردستی لیکر روم میں آگئے ساتھ ہی گلاس وال بند کرتے پردے برابر کردیئے جس سے روم کی چیخیں روم میں ہی گونجتی ہوئی رہ گئیں۔۔


"یہ سب دوائی نا لینے کا نتیجا ہے کتنا کہا ہے دوائی وقت پر لیا کرو پر تم سمجھتی ہو کبھی مجھے۔۔" اسے بےآواز تڑپتے بیڈ پر سسکیاں بھرتے دیکھ کر وہ جلدی سے دوائی نکالتے پانی کا گلاس بھر کر سرہانے آگئے۔۔


"خخ۔۔خان۔۔مم۔۔میرا۔۔دلآور۔۔نہیں۔۔مرسکتا۔خان۔۔و۔وہ زندہ ہے یہ ایک ماں کا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے۔۔۔آپ۔۔اسے ڈھونڈے خان۔۔۔" وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی دانیال خان نے زبردستی اسے دوائی کھلائی اور پانی پلاتے اسکا سر واپس تکیے پر رکھ دیا۔۔۔

اور اب اسکے ہاتھ سہلانے لگے۔۔ جبکہ انکے ایک بھی سوال کا وہ کوئی جواب نہیں دے رہے تھے خاموش تھے لب پیوست۔

وہ کیسے بتائیں اسے کہ وہ ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے اس نام کے وجود کو۔۔ اور ڈھونڈ بھی کیسے سکتے تھے جسنے انکی ہنستی مسکراتی ہوئی زندگی تباہ کردی۔۔

ان سے انکا غرور وقار فخر سب چھین لیا۔ ایک ہنستے مسکراتے ہوئے دانیال خان کو پتھر کا بت بنا دیا۔


"عرشیہ آئی؟؟"

کچھ دیر بعد اسکے کروٹ بدلنے پر انہوں نے پوچھا۔۔۔

"نہیں! میں نے صمصام کو کہا تھا، وہ اسے لیکر آرہا ہے صبح تک۔۔" اپنا چہرہ صاف کرتی وہ تکیے پر گال ٹکا کر بولی۔۔


"یہ صرف تمہاری اور اس نالائق کی بےجا سپورٹ کی وجہ سے میں نے اسے یہ اجازت دی تھی ورنہ وہ جانتی نہیں ابھی اپنے باپ کو ٹانگیں توڑ کر گھر میں بٹھا دوں گا۔ سمجھ کیا رکھا ہے اس اولاد نے مجھے۔ ابھی خاموش ہوں تو اسکا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔" وہ غصے غضب سے دھاڑ اٹھے۔


"مجھے معلوم نہیں تھا وہ مجھ سے محض ایک دن کی پرمیشن لیکر گئی تھی کہ شام کو آجائے گی۔۔" عائشہ نے کہتے لب دبا لیا۔۔۔

دانیال خان نے افسوس سے انکی پشت کو دیکھا۔

"ہماری اولاد ہماری تھی ہی کب جو تم اسکی باتوں میں آگئی؟ وہ بس چاہتے ہیں کسی طرح بھی یہ دونوں مریں تاکہ ہم اپنی زندگی اپنے انداز سے گزار سکیں۔" وہ سخت لہجے میں بولتے پاس پڑی کتاب کھول چلے تھے۔


عائشہ نے آہستہ سے اسکی جانب کروٹ لی اور انکے سخت پتھریلے تاثرات کو دیکھا۔

"خان وہ نادان ہے بس آپکو غصہ دلانہ چاہتی ہے معصوم ہے۔۔" وہ ماں تھی بچوں کیلئے ایسی بدگمانی برداشت نہیں کرپائی تبھی تڑپ کر ان سے بولی۔

دانیال خان نے کتاب سے نظریں اٹھا کر انکے بھیگے سرخ چہرے کو دیکھا۔

"میں نادانی کی کوئی تحریر دوبارہ دہرانا نہیں چاہتا خانم! اسلئے کل وہ آئے اسے صاف سمجھا دو کہ اگر اسے باپ کے سائے تلے رہنا ہے تو اسکے اصول کو ماننا ہوگا ان چاردیواریوں کو قید نہیں اپنا تحفظ سمجھنا ہوگا ورنہ مجھے ویسے بھی اس اولاد سے کوئی امید نہیں کہ آگے جاکر میرا نام روشن کریں گے۔دیگر صورت خود کو ابھی سے شادی کیلئے تیار کردے۔" وہ کہہ کر اٹھے اور سامنے ادھ کھلے ڈور کو بند کرنے کیلئے بڑھے۔


جبکہ راہ داری سے گزرتے دریاب انکے آخری فقرے سنتے سختی سے اپنے لب آپس میں پیوست کرچکے تھے کہ ماتھے کی رگیں ابھر آئیں۔۔


"معاف کیجئے گا ڈیڈ! پر ابھی میری بہن اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ اسکی شادی کردیں۔۔ اور رہی اسکے باہر رہنے کی بات تو کبھی بھول کر کچھ یقین کرلیا کریں اپنی اولاد کے کردار پر کیونکہ وہ آپکا ہی خون ہیں۔۔" دریاب انہیں ڈور بند کرتے دیکھ کر کہہ بنا نہیں رہ پایا۔۔


اسکی بات سن کر دانیال خان کے لبوں پر جو مسکراہٹ آئی تھی اسے دیکھتے دریاب کی نظریں خودبخود جھک آئیں۔۔

اور جھکتے ہی سیدھا "DD" ڈبل ڈی کے لاکیٹ پر پڑی۔۔

وہ اپنی ہی بات پر مزید دلیل دینے کیلئے لاجواب ہوگیا۔


"یہ فائل آج مکمل کرکے صمصام کو دیکر پھر آفس آنا کل۔" انہوں نے کہتے ڈور بن کردیا۔

دریاب گہرا سانس بھرتے اس لاکیٹ کو چھو کر رہ گیا۔

"سوری ڈیڈ پر ایک کی غلطی کا خمیازہ میں اپنی بہن کو بھگتنے نہیں دوں گا۔" وہ ڈور پر ایک نظر ڈالے آگے بڑھ گیا۔۔


البتہ ایک خوشی ابھی جو دل میں جاگ کر دھڑکنوں میں سرگوشیاں کرنے لگی تھی۔۔

وہ تھی، اس کرسٹل کے شیشے میں قید دو مضبوط گارڈز کے حصار میں کرسٹل کی شہزادی کی۔


"کیا ہوتا پھوپھا اگر اس نیلے گوڈزیلا کو پینڈنگ میں چھوڑ دیتے تو آج میرے راستے کتنے آسان ہوتے اپنی الفت کی ملکہ تک پہنچنے کیلئے۔ پر ہائے وہ آپکا ڈیول بیٹا سالا دو دلوں کا دشمن بس نہیں چلتا کسی لڑکی سے پھنسا کر ایسا خوار کروں کہ آئندہ کسی کے پیار کی راہ میں ڈیول نا بنے۔۔" وہ اپنا جلتا سینا مسلتا ہوا روم میں آگیا۔۔


اس بیچارے کو بھی صمصام پر خار کیوں نا آتے۔ وہ بالکل چھپائے بیٹھا تھا اس کرسٹل کی نیلی گڑیا کو جسکی ایک جھلک ہی دریاب خان کا چین سکون لوٹ لیتی تھی۔۔


بس نہیں چلتا کہ ساری پابندیاں توڑ کر اس پر اپنے نام کی مہر لگائے بانہوں میں بھینچ کر چھپا دے۔


پر ڈرتا تھا کہ خیالوں میں بھی اتنی شدتوں سے وہ ٹوٹ نا جائے۔۔ وہ ڈرتا تھا کہ وہ ریشم بن کر ریت کی طرح بانہوں سے پھسل نا جائے۔۔

کتنا دل تھا ان نیلی بڑی بڑی سی ساحرہ آنکھوں کو اسکے نام کی حیا سے جھکتے پلکوں کو لرزتے دیکھنے کی۔۔ پر دل چاہتا تھا جب یہ منظر آئے تب وہ مکمل اسکے دسترس میں ہو نا کوئی پابندی ہو نا ہی کوئی پیار کرنے والوں کا دشمن۔۔۔


"تمہیں تو قید کرنے کی جرات نہیں کرسکتا کہیں تم ٹوٹ نا جاؤ اپنے دیوانے کے ہاتھوں۔" وہ بیڈ پر پڑا چھت کو گھورتا ہوا اسکے نام کی سوچوں میں گم تھا۔


وہ کہنی بیڈ پر ٹکا کر سر ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھتے کروٹ بل پڑا اپنے بیڈ کو دیکھنے لگا۔

جہازی سائیز بیڈ سفید بیڈ شیٹ بغیر سلوٹوں والا وہ بیڈ اسکی ملکیت تھا اور وہ آنکھوں میں شریر خواب سجائے دیکھ رہا تھا کہ کب اسکی حصہ دار آئے گی۔ اس سے یہ اتنا بڑا بیڈ تنہا نہیں سنبھالا جارہا۔۔۔

پر توقیع کا نازک سا سراپا یاد کرکے خود ہی اپنی سوچ پر قہقہہ لگا اٹھا کہ وہ آئے گی بھی حصہ لینے تو لے گی کتنا۔۔


"بس تم آجاؤ جنونِ الفت! یہ بیڈ خود کور ہوجائے گا۔۔" ہنس کر سر جھٹکتے ہوئے وہ بیڈ سے اٹھا اور فریش ہونے کیلئے باتھ روم میں بڑھ گیا۔۔

"اسے کہتے ہیں شدید سنگل۔۔" دفعتاً وہ اپنی حالت پر خود قہقہہ لگا اٹھا۔

"رب کرے تجھ پر میری نظر کے علاوہ کسی کی نظر نا پڑے توقیع ورنہ تیرا یہ پاگل عاشق تباہی مچا دیگا۔۔ اگر تم میری دسترس میں نا آئی تو۔۔۔" چہرے سے پانی سمیٹتے وہ اپنی سرخ ہوتی آنکھیں آئینے میں دیکھتا خود سے ہم کلام تھا

ساتھ ہی پھر شاور کھول دیا۔


★☆☆☆☆☆★


"بہت خوشی ہوئی ہمیں آپکے ساتھ کام کرکے مسٹر زیدی!"

برج العرب ہوٹل کے سیکنڈ فلور کی راہداری سے گزرتے ہوئے دبئی پارٹی نے ساتھ چلتے صمصام زیدی سے اپنی فیلنگز کا اظہار کیا۔

صمصام کے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ جبکہ اسکے ساتھ چلتا اسکا کزن زیاف کھل کر خوشی سے مسکرایا۔

"ان شاءاللہ آپکو آئندہ بھی اس سے بڑھ کر خوشی ہوگی۔" صام کے کچھ کہنے سے پہلے زیاف نے خوشی سے کہا وہ مسکرادیئے۔


"کیوں نہیں مسٹر صمصام سے کام کرکے کس کو ناخوشی ہوسکتی ہے۔ نا صرف خوشی ہے بلکہ آنے والے وقت میں مسٹر زیدی کے ساتھ بزنس کی دنیا کے بادشاہ ہم ہوں گے۔" انہوں نے کہا سب نے گاڈ کی حامی چاہی

جبکہ ساتھ چلتا صام ان شاءاللہ کہہ کر رہ گیا کیونکہ باقی کی فارملٹیز زیاف ہی پوری کر رہا تھا۔


"تو اب آپکے کیا ارادے ہیں مسٹر زیدی؟" ساتھ چلتے مقابل پارٹی کی سی او (CO) مسکرا کر صام کو مخاطب کرنے لگی۔ سلیولیس وی (v) نیک شارٹ میکسی میں برج العرب ہوٹل کی سنہری روشنیوں میں اسکا سراپا مبہوت کرنے والا بہکادینے والا تھا۔

گورے وجود کے خدوخال کو وہ شارٹ میکسی کہاں ڈھانپ پارہی تھی۔ اسکی ناکامی کا فائدہ اٹھاتے کئی وہاں سے گزرتے منچلے اس منظر سے لطف اندوز ہوتے جارہے تھے۔

اور یہ سراہتی حوس میں ڈوبی نظریں آجکل کئی خواتین کیلئے خراج تحسین تھیں انکے بےانتہا حسن کی۔ اپنے محرم کیلئے خود کو چھپا کر رکھنا ایک جاہل سوچ بن چکی تھی۔ جس طرح سے کوئی نئی چیز کوئی کوئی نیا شاہکار لوگ بناتے لوگوں میں لاکر تعریف بٹورتے اپنے اسکیلز کو مزید پاور فل کرتے ہیں ویسے ہی دنیا کی %50 عورتیں اپنے وجود کی نمائش کروا کر لوگوں سے تعریف پاکر خود کو مزید جوان محسوس کرتی ہیں۔۔

پر وہ مقابل کو نہیں جانتی تھی کہ وہ کس ماں کا بیٹا ہے اور اسے ایسی عورتوں سے سخت گھن آتی تھی۔ جوکہ دعوت نامہ بن کر چلیں۔۔

اب بھی سامنے کھڑی وہ عورت اسکی آنکھوں میں جھانکتی اپنے حسن میں جکڑنا چاہتی تھی پر وہ انجان تھی کہ اپنی جوانی کی دہیلز تک آتے صمصام زیدی اس سے بڑے غضب کے حسن کے شاہکار ٹھکرا کر آیا تھا۔۔


"صامے مجھے باجی کی نیت نیک نہیں لگ رہی آگے تو سنبھال لے یارے ایسا نا ہو لینے کے دینے پڑ جائیں۔۔" پاس کھڑا زیاف اس عورت کی بہکی نگاہیں دیکھتا منہ پر ہاتھ پھیرتے اوپر جاتی لفٹ کو دیکھتا پھسپھسایا۔۔


"aishrah biwuduhi? madha turid 'an tas'al?"

(واضح طور بتائیں؟ کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟)

وہ مقامی زبان میں بولا سی او گہری مسکراہٹ سے باقی کو دیکھنے لگی۔

"'iidha kunt la tumanie , tanawul aleasha' maeana?"

(اگر آپکو برا نا لگے تو ایک ڈنر ہمارے ساتھ ہوجائے۔)

اسکی آفر سنتے صام نے زیاف کی طرف دیکھا پر اسکی سکیڑی آنکھوں کو پاکر اسنے ٹھٹھک کر اسکی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔


"صمصام وہ کہیں تمہاری کزن۔۔۔۔۔۔

"aetidharatun! waqt akhar"

(معذرت کسی اور وقت)


"زیاف تم انہیں لیکر نیچے ہال میں چلو میں وہی ملتا ہوں تمہیں۔"

"اور احتیاط سے میری ذاتیات کو زیر بحث بنانے سے پرہیز کرنا۔" وہ جانے سے پہلے ٹھہر کر اس سے بولا۔۔۔


باقیوں سے بیک وقت مخاطب ہوتا ہوا اس گلاس وال والی لفٹ میں موجود وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتا ہوا اوپر جاتی سیڑھیاں کی طرف بھاگا۔


وہ گرے کلر کے فور پیس سوٹ میں ملبوس سیاہ مہنگے شوز میں اپنے حلیے سے ہی کوئی بڑی شخصیت لگ رہا تھا اور اسکا اچانک یوں اندھا دھند سیڑھیوں سے بھاگنا آس پاس کے کتنے لوگ اسے دیکھتے بوکھلاتے سائیڈ ہورہے تھے۔


"سب ٹھیک ہے مسٹر زیدی کیوں اچانک ایسے بھاگے ہیں؟" ان لوگوں نے صام کے اچانک ری ایکشن پر گھبراتے زیاف سے دریافت کیا۔


"ٹھیک ہے سب آپ نیچے چلیں وہ وہیں آئے گا۔" وہ انہیں مطمئن کیئے نیچے لے جانے لگا۔

"پر پھر بھی کچھ تو ہوا ہوگا انہوں نے اچانک ڈنر سے کیوں انکار کردیا؟" سی او کافی پریشان تھی۔۔


"وہ دراصل آپ کو سن کر عجیب لگے گا بٹ ہی از ویمن الرجک" اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اسنے بمشکل یہ الفاظ ادا کیے۔۔

"واٹ؟" ساتھ چلتی اس عورت کو جانے کتنے وولٹ کا جھٹکا لگا۔۔

"یاہ وہ نامحرم عورتوں سے الرجک ہے، اسکی سانس پھول جاتی ہے اسے سمجھ کچھ نہیں آتا رنگت سرخ ہوجاتی ہے۔ آپ سمجھ نہیں پائیں گی پر وہ آپے سے باہر ہوکر اگلے انسان پر اٹیک کرسکتا ہے اس حالت میں۔۔" زیاف صرف اسے رازداری سے بتا رہا تھا۔

پر صام کی منع کے بعد بھی اسکی ذاتیات کو زیر بحث لارہا تھا۔ وہ زیاف ہی کیا جو صام کے کہنے پر مان جائے۔

اسکی گوہر فشاں سے اس عورت کی حالت دیکھنے والی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا پڑھا لکھا لڑکا ایک کامیاب مشہور معروف بزنس مین صمصام زیدی ایسے ٹیپکل سوچ کا مالک ہوگا۔


"سیرئیسلی؟؟؟" اسکا دل بجھ گیا ایک موم سی امید پر وہ بار بار پوچھ رہی تھی۔

"یاہ ڈارلنگ سیرئیسلی! میں کیوں اتنی حسین نوخیز لڑکی کا نازک دل توڑوں گا۔" اس اچھی خاصی عورت کو دیکھتا زیاف کمینے پن لگاوٹ سے بولا۔


"اوہ مائی گاڈ۔۔۔" اسکا سکتا طویل تھا جبکہ اسکے قریب اب گرمی کو محسوس کرتے زیاف سیدھا ہوتا نعوذباللہ پڑھتا آگے بڑھ گیا۔

★☆☆☆☆☆★


"کون ہو راستے سے ہٹو!" ٹیٹو میں سر سے پیر رنگے اس لڑکے نے شرٹ کے بٹن سے ہاتھ ہٹا کر اچانک مقابل آتے اس درازقامت وجود کو دیکھتے ناگواری سے کہا۔


صام چلتا ہوا اس لڑکے پاس آکر کھڑا ہوا جسکے کندھے پر سر رکھے بلاشبہ وہ عرشیہ ہی تھی۔

شانوں سے لڑکھتے دوپٹے، شارٹ بیلو فراک میں ننگے پاؤں بکھرے سنہری بالوں والی ہوش وحواس سے غافل لگ رہی تھی تبھی تو اتنی جرات سے کسی غیرمحرم کے کندھے پر سر رکھے پڑی تھی۔۔

پر مقابل کی آنکھوں میں لہو اتر آیا تھا یہ سب دیکھتے۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچنے سے نا صرف پھولے بازوؤں کی رگیں پھول چکی تھیں بلکہ ماتھے پر کتنی ہی سلوٹیں نمودار ہوتیں دماغ کی نسیں ابھر آئیں۔۔


"سامنے روم میں چلو۔۔" وہ ایک جھٹکے سے عرشیہ کے لڑکھتے بازو کو جکڑ کر اپنی طرف کھینچتا اسکے ٹیٹو سے رنگے بازو کو پکڑ کر سامنے اپنے روم کی طرف دھکیل چکا تھا۔

اسکے اچانک حملے تیوروں سے وہ لڑکا گھبرا گیا۔۔

"کون ہو تم اور اسے کیوں لے لیا ہے یہ کیا بدتمیزی ہے میں تم پر ہراسمنٹ کا کیس کروادوں گا۔" اسنے بگڑ کر صمصام سے کہا پر اس سے پہلے صام ایک بازو ارشیہ کی نازک کمر میں ڈالے اسے سنبھالتا ہوا اس لڑکے کے کالر کو مٹھی میں دبوچے ہوئے اپنے روم میں گھسیٹ لایا۔۔


"یہ کیا بدتمیزی ہے سر میں اسے ماہین کے کہنے پر روم میں چھوڑنے لایا تھا، پر روم نمبر بھول گیا ہوں اسلئے یہاں لیکر آرہا تھا آپ کچھ زدیادہ اوور ری ایکٹ کر رہے ہیں بغیر سچ جانے۔۔"

صام کے تیوروں سے وہ سمجھ چکا تھا ضرور اس لڑکی کا کوئی اپنا ہوگا اسلئے ہی ایسا خطرناک ری ایکشن ہے وہ سیدھا ہوتا غصے جھنجھلاہٹ سے بولا۔۔


صمصام نے ایک سردتند نظر اسکے چہرے پر ڈالتے ہاتھ پیچھے کرکے دروازہ بند کیا اور پھر اسی ہاتھ سے عرشیہ کی ٹھوڑی دبوچ کر اسکا لال لپسٹک سے رنگین منہ اپنی ناک کے قریب کیا جہاں سے صاف الکوحل کی بو آرہی تھی۔

شدید ناگواریت کی ایک لہر صمصام کے وجود میں دوڑ گئی۔ جبکہ اسکے ٹھوڑی دبوچنے پر عرشیہ نے کراہ کر اپنی موندیں آنکھیں کھولیں۔ اور سامنے دھندلا سا صام کا عکس دیکھتے وہ کھلکھلا اٹھی۔۔۔


"کنگ۔۔ککک۔۔کانگگ۔۔۔ہاہاہا۔۔" کھلکھلاتے ہوئے وہ کہتی دوسرے پل اپنا پنجا صام کے چہرے پر مار چکی تھی۔۔


"تم۔۔نہیں۔۔۔ہو نا۔۔۔کن۔۔کن۔۔کنگ۔۔کانگ۔۔۔" وہ اپنی لڑکھڑائی آواز میں ہنستی ہوئی اسکے چہرے کو ہاتھ سے محسوس کرتی یقین دہانی کر رہی تھی کہ وہ حقیقت ہے یا محض اسکی نظروں کا دھوکہ۔۔


"چار چار کک۔۔کنگ کاننگ۔۔" اسکا قہقہہ کھلکھلاہٹ فضا میں گونجی۔


"اسنے شراب اپنی خوشی سے پی ہوگی یقیناً؟" وہ عرشیہ کا ہاتھ چہرے سے ہٹا کر اسے دیوار کے سہارے کھڑا کر چکا تھا۔ پر وہ لڑکھ کر نیچے بیٹھتی ہوئی چلی گئی۔۔

اور عجیب بہکے لہجے میں اسے گالیوں سے بھی نواز رہی تھی یقیناً جوکہ اسے سامنے پاکر تو کبھی یہ جرات انجام نہیں دے سکتی تھی پر ہوش میں نا ہوتے وہ اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال رہی تھی۔


"تم۔۔تم۔۔ایک۔۔نمبرکے۔۔کمینے۔۔انسان۔۔ہو۔۔۔۔ میری سینڈلز کی ایڑی سے۔۔سخت۔۔۔آئی۔ہیٹ۔۔یو۔۔۔" وہ اپنے پاؤں کو ہاتھ لگاتی اپنے سینڈلز ڈھونڈنے کی کوشش میں تھی تاکہ سامنے کھڑے اس کنگ کانگ کے عکس کو دیکھا دے کہ تم کتنے برے ہو میری نظر میں۔۔


"مم۔۔مجھے کیا پتا میں تو بس اسے چھوڑنے آیا تھا آپ ماہین سے پوچھ لیں یہ اسکی ذمہ داری تھی اسکی پارٹی میں آئی تھی اور ہو سکتا ہے اسنے اپنی خوشی سے پی ہوگی۔۔میں تو بس اسے رونے چیخنے پر ماہین کے کہنے پہ اسے ہوٹل چھوڑنے آیا ہوں۔" اس لڑکے نے عرشیہ کی حالت دیکھتے گڑبڑا کر صفائی دی اور ساتھ ہی بند دروازے کی سمیت بڑھا پر اس سے پہلے سینے پر ہاتھ رکھ کر صام اسے پیچھے دھکیل چکا تھا۔۔


"بہت کول! کافی ایمپریسو بہانہ تھا۔۔ مے بی اسے چھوڑنے کے بعد تم باتھ لینے والے تھے اور تمہیں اتنی جلدی تھی کہ تم دور سے ہی اپنی شرٹ کے بٹن ساتھ کھولتے آرہے تھے۔۔

مجھے شک نہیں کہ بہت ترقی یافتہ ملک کے رہائشی ہو پر اتنی بھی کیا جلد بازی۔۔" وہ اپنے محصوص سرد لہجے میں گویا ہوتا ابرو اچکا کر اسکی سمیت بڑھا۔۔


"غغ۔۔غلط فہمی۔۔ ہے۔۔مجھے۔۔سینے پر خارش ہورہی تھی اسلئے میں وو۔۔وہاں۔۔۔بٹن۔۔کھول کر دیکھ رہا تھا۔۔" اسکی ہوائیاں اڑ گئیں اور وہ گبھراتا ہوا بولا ساتھ ہی پیچھے ہوا۔۔۔


"کوئی بات نہیں ہوتا ہے! آؤ میں تمہیں کھجا دیتا ہوں۔۔" اسنے مائنڈ نہیں کیا نا ہی اسکے ایسے تاثرات تھے کہ اسکے بٹن کھولنے پر اسنے مائنڈ کیا ہو۔۔

اس لڑکے نے الجھ کر اسے دیکھا۔۔۔ بھلا وہ کیوں کھجائے گا اسکا سینا۔۔

پر اسکے سمجھنے سے پہلے ہی آگے بڑھتے اس لڑکے کو حواس باختہ دیکھ کر در پہ در منہ پر مکے مارنے شروع کردیئے۔۔


"شٹ *** چھوڑو!!" اچانک اس حملے پر اس لڑکے کی چیخیں بلند ہوئیں۔۔


"بہت کھجلی ہورہی تھی تمہیں سینے میں۔۔ اب کھجا رہا ہوں تو چیخ کیوں رہے ہو۔۔" اسنے سینے پر لات مارتے اسے پیچھے صوفے پر گرادیا جس سے اسکی کراہ گونج گئی۔۔


"میری کیا غلطی تھی؟؟؟ پی تو اسنے تھی میں تو اسے چھوڑنے آیا تھا۔۔" وہ لڑکا غصے سے چیختا اپنے منہ سے خون صاف کرتے اٹھا۔


"تمہاری غلطی یہ تھی کہ تمہاری ہمت کیسی ہوئی ہماری عزت کی طرف غلیظ نظر اٹھانے کی۔۔" وہ اسے منہ پر ٹھا کر ساتھ مکا جڑتا ہوا دھاڑا۔۔

وہ لڑکا بلبلا کر پیچھے واپس جاگرا۔۔ اور بری طرح کراہنے لگا۔۔

"میں نے کوئی نظر نہیں رکھی اس پر یہ خود میرے گلے۔۔۔ وہ غصے سے چیختا پر اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی صام کی لات اسکے منہ پر پڑی۔۔


"خبردار ایک بھی لفظ ہماری عزت کے خلاف اٹھایا۔۔" اسکا منہ مٹھی میں دبوچتے ہوئے اسنے جھٹکے سے اسے کھڑا کیا اور اور زوردار تھپڑ اسکے گال پر مارتے ہوئے اسے دروازے کی طرف دھکیل دیا۔۔


"زیدی ہیں اپنے کردار سے زیادہ اپنی عزت کے کردار پر یقین رکھتے ہیں۔۔ تمہاری ایسی بکواس پر تمہارا سر کاٹ دوں گا۔۔۔" ایک لات اسکی پشت پر مارتے اسے روم سے دھڑام کے ساتھ باہر پھینک چکا تھا۔۔

جوکہ سیدھا روم سے باہر منہ بل گرتا ہوا چیخ اٹھا۔ لوگ اچانک اس افتاد پر گھبرائے کچھ چیخ کر سائیڈ ہوئے۔۔


"جاکر اب اپنے باپ پر ہراسمنٹ کا کیس کروانا جس نے تجھے زنانوں کی طرح پالا۔۔ اب اگر آئندہ مجھے کہیں نظر آئے تو ایسی جگہ کھجاؤں گا نا دکھا سکو گے نا چھپا۔۔۔" اسنے سرد لہجے میں کہتے ٹھا کے ساتھ دروازہ بند کیا۔۔

پر اسکے آخری جملے کو جسنے سنا قہقہوں کا طوفان مچ اٹھا راہ داری میں۔۔وہ لڑکا گالیاں بکتا اپنا سر جھکائے ہوئے وہاں سے بھاگا۔۔ پر جانے سے پہلے اسے روایتی دھمکیوں سے نوازنہ نہیں بھولا۔۔

کچھ لوگ نظرانداز کر رہے تھے تو کچھ معاملہ سمجھنے کی کوشش کرتے اس لڑکے کی اینجرڈ حالت کو دیکھ رہے تھے جوکہ کچھ دیر پہلے لڑکھائی عرشیہ کو ساتھ لارہا تھا اور اب لڑکھاتا ہوا خود کو سنبھال کر وہاں سے بھاگ رہا تھا۔۔


★☆☆☆☆☆★


"کہاں ہو تم؟"

دروازہ ٹھا کے ساتھ بند کرتے وہ روم میں داخل ہوتا عرشیہ کو اپنی جگہ پر نا پاکر غصے سے پاگل ہوتے دھاڑا۔۔

پر وہ اسے روم میں کہیں نظر نہیں آئی۔


"کہیں وہ اسٹوپڈ لڑکی باہر تو نہیں چلی گئی؟؟" اسنے پریشانی سے سوچا۔ باہر زیاف موجود تھا کیا سوچے گا یہ شراب کے نشے میں ٹن اسکی کزن تھی۔۔اور کچھ دیر پہلے جو لڑکے کے کندھے پر سر رکھے آرہی تھی وہ عرشیہ تھی واقعی میں۔۔


وہ کیا سوچے گا دوسری کی عورتوں کو ایسی حالت میں گھن بھری نظروں سے دیکھنے والے صمصام زیدی کے خاندان کی عورتوں کا یہ حال ہے۔۔

کیا عزت رہ جائے گی اسکے ماموں کی۔


"اگر ایسا کچھ تمہاری وجہ سے ہوا عرشیہ خان تو میں تمہاری لاش کو اسی ہوٹل کی دہلیز پر گاڑھ کر واپس جاؤں گا۔" وہ اپنے خطرناک تیوروں سے جان لینے کے در پر پہنچتا دروازہ کھول کر باہر نکلتا۔۔ دفعتاً اسے ٹھٹھکنا پڑا۔۔ کچھ آوازوں پر اسکی نظریں دروازے سے ہٹیں۔۔۔۔

اور اگلے پل اسکا سر گھوم گیا۔۔ کیونکہ نگاہوں کے سامنے ہی باتھ کے اندر سے گنگنانے کے ساتھ شاور کی آواز بھی ساتھ آرہی تھی۔۔۔


"عرشیہ!!!" کوئی شک شبہ تک نہیں تھا کہ وہ پشتو سونگ گانے والی عرشیہ ہی تھی۔۔

پر وہ اندر شاور تلے کیا کر رہی تھی۔ سوچ کر صمصام کی رگیں ایک بار پھر پھول گئیں دل کیا ابھی اس لڑکی کا گلا دبا کر اسکا قصہ یہیں ختم کرکے جائے۔۔


"عرشیہ کیا کر رہی ہو اندر سٹوپڈ!!!" ٹھا کے ساتھ اسنے دروازے پر ہاتھ مارا اور غیظ وغضب میں غرا کر پوچھا۔۔۔


"بھیگی۔۔بھیگی سڑکوں پر میں تیرا انتظار کروں۔۔" جواب کے بجائے معاً دروازے کے قریب اسکی بھیگی آواز گونجی۔۔۔


صام کی سرخ رنگت مزید دہک اٹھی۔ اور اسنے گہرا سانس بھرتے خود کو اپنے اعصاب کو پرسکون کیا ورنہ بس نہیں تھا اب اسے شوٹ کردے۔۔۔


"صام!!"

باتھ رقم کے دروازے کے قریب کھڑا وہ ابھی اسکا حل سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ہی اندر موجود دروازے کے قریب مشین سے زیاف کی شکل کے ساتھ آواز گونجی۔

وہ گھبرایا ہوا اسکے ڈور پر موجود ناک کر رہا تھا۔۔


اسکے برعکس صام بکھرے روم کی چیزوں اور باتھ روم میں گنگناتی عرشیہ کو دیکھتا چکرا گیا۔۔

"کس مصیبت کو گلے ڈال دیا۔۔" اسنے منہ پر ہاتھ پھیرتے بالوں کو مٹھی میں جکڑا۔ "وہ کیا سوچے گا کہ یہ ہے میری ماموں زاد؟؟؟"

"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ!" وہ مسلسل آتی آوازوں پر بپھر کر چیخا۔ پر مجال ہو اس پر اثر پڑے۔ وہ آج سالوں کی بھڑاس نکالنے والی تھی اور بڑے غصیلی انداز میں گانا گا کر اسے پاگل کر رہی تھی۔


جاری ہے۔۔ 







Mera dil pukare tujay by farwa khalid



یہ شخص سمجھتا کیا ہے خود کو. گھٹیا , لوفر , ایڈیٹ...

اِشمل غصے سے سٹاف روم سے اپنا پرس اُٹھاتی بڑبڑاتے ہوئے بولی.

جب اُسی وقت اُس کا فون بجا تھا.

غصے میں بنا انجان نمبر پر غور کیے اِشمل نے فون اٹینڈ کرتے کان سے لگایا تھا.

ہائے سویٹ ہارٹ کیسی ہو. کیسے لگے میرے فلاورز.

فون سپیکرز سے اُُبھرتی آواز سنتے اِشمل نے غصے سے دانت بھینچے تھے.

تمہارے پاس میرا نمبر کیسے آیا. اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اتنے فضول لفظوں سے پکارنے کی.

اِشمل سٹاف روم سے نکلتی غصے سے بولی.

نمبر کیا میں تو تمہارا سارا بائیو ڈیٹا معلوم کروا چکا ہوں ڈاکٹر. گلشن کالونی میں رہتی ہو. والد صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں. دو چھوٹے بہن بھائی ہیں. ہما اور احد. اور سچ اپنی ہونے والی ساسو ماں کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا میں. وہ ایک گھریلو سادہ سی خاتون ہیں.

اور رہی بات ایسے پکارنے کی تو اب بندہ اپنی ہونے والی بیوی کو اور کیسے پُکارے کوئی اچھا طریقہ ہے تمہارے پاس تو وہ ٹرائی کر لیتا ہوں میں.

آہان تفصیل سے اُس کی بات کا جواب دیتا اُسے مزید تپا گیا تھا.

یہ کیا بکواس ہے. جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہوسکتا.

اِشمل اُس سے اِس طرح سب گھروالوں کی بارے میں سن کر گھبراتے ہوئے بولی. وہ اُس کی سوچ سے بھی بڑھ کر شاطر ثابت ہوا تھا. شاید وہ اُسے کچھ زیادہ ہی ہلکے میں لے رہی تھی.

لیٹس سی پھر کس کی سوچ پوری ہوتی ہے. اور ہاں آئندہ یہ ریڈ کلر پہنے نظر نہ آؤ تم مجھے. اِس کلر میں تمہیں دیکھنے کا حق صرف میرا ہے.

اِشمل چلتی ہوئی باہر آچکی تھی جب آہان کی بات پر اُس نے جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھا تھا. جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑی بلیک شیشوں والی مرسڈیز پر پڑی تھی.

اِس طرح مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کروں. اگر میں سامنے آگیا توتمہارے لیے ہی مشکل ہوگی. ویسے بھی اِس کلر میں جتنی خوبصورت تم لگ رہی ہو مجھ پر خود پر کنٹرول کرنا کافی مشکل ہوجائے گا.

آہان اُس کے اِردگرد دیکھنے والی حرکت پر چوٹ کرتے بولا.

تم ایک انتہائی پاگل اور بےشرم انسان ہو. ایسی بے ہودہ باتیں اپنی گرل فرینڈز سے کرو جاکر تاکہ کوئی فائدہ بھی ہو. اور آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا.

اِشمل اُس کی باتوں پر غصے سے سُرخ ہوتی فون بند کرکے پرس میں رکھتی وہاں سے ہٹ گئی تھی. کیونکہ واقعی اِس شخص کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ابھی گاڑی سے نکل کر سامنے ہی نہ آجائے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


وہ گھر آکر بغیر کھانا کھائے سیدھی اپنے روم میں آگئی تھی. اور تب سے مسلسل کمرے میں پریشانی سے اِدھر سے اُدھر چکر لگارہی تھی. لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے.

تبھی موبائل وائبریٹ ہوا تھا سدرہ کا نمبر دیکھ کر اُس نے کال ریسیو کی تھی.

اِشمل کیا ہوا تم ہاسپٹل سے اِس طرح کیوں آگئی. یار اُس نے بکے ہی تو بھیجا ہے اِس میں اتنی پریشان ہونے والی کیا بات ہے. کب تک وہ ایسے کرے گا جب تمہاری طرف سے کوئی رسپونس نہیں آئے گا تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا.

سدرہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولی.

سدرہ یہ شخص ایسے ٹلنے والا نہیں ہے. تم نہیں جانتی وہ میرے بارے میں ایک ایک بات معلوم کروا چکا ہے مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے. وہ اِتنی آسانی سے میرا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے. میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا بابا ہارٹ پیشنٹ ہیں اُنہیں میں کسی صورت کوئی ٹینشن نہیں دے سکتی اور ماما وہ تو ویسے ہی ہر بات کی اتنی ٹینشن لیتی ہیں. اور ابھی تو ویسے بھی گھر میں میرے رشتے کی بات چل رہی ہے.تم جانتی تو ہونا.

اِشمل شدید پریشانی سے بولی.

ہمہ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو. بات تو واقعی پریشانی والی ہے. ویسے ایک آئیڈیا ہے میرے پاس کیا پتا کام کر جائے.

سدرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی.

ہاں تو بتاؤ جلدی.

اِشمل جلدی سے بولی

اب اگر اگلی بار اُس نے تم سے کانٹیکٹ کیا تو تم اُسے صاف لفظوں میں بتا دینا کہ تم انگیجڈ ہو اور بہت جلد تمہاری شادی ہونے والی ہے.

سدرہ کی بات پر اِشمل ایک پل کے لیے خاموش ہوئی تھی.

تمہیں کیا لگتا میرے ایسا کہنے سے وہ پیچھے ہٹ جائے گا.

اِشمل کچھ دیر کے بعد بولی.

اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتی پر ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے. کیا پتہ پیچھے ہٹ جائے.

اوکے دیکھتی ہوں پھر میں. بس اُس فضول شخص سے جان چھوٹ جائے میری.

اِشمل ناگواری سے بولی.

ویسے تم بھی ایک عجیب ہی لڑکی ہو باقی لڑکیاں جس بندے کا پیچھا کرتی ہیں. جس کے خواب دیکھتی ہیں. تم اُسی سے پیچھا چھوڑوانا چاہتی ہو.

سدرہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولی.

تو یہ بندہ اُنہیں لڑکیوں کو مبارک ہو مجھے نہیں چاہئے ایسا فضول شخص.

اِشمل اُس کی بات پر چڑتے ہوئے بولی.


Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid 

"مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔"

انشاء اُسے خفگی بھری نگاہوں سے گھورتے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ مگر اُس کے دروازے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی وھبان اُسے کلائی سے پکڑ کر کھینچتا دیوار کے ساتھ لگا گیا تھا۔۔۔۔

انشاء نے ہٹنا چاہا تھا مگر وھبان کو دونوں ہاتھ دائیں بائیں ٹکا کر پوری طرح خود پر حاوی ہوتا دیکھ وہ گھبرا کر مزید دیوار کے ساتھ جا چپکی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ اُس کے کافی قریب کھڑا تھا۔۔۔۔

"جب تک تم وہ ثبوت میرے حوالے نہیں کرو گی۔۔۔ یہاں سے ہلنے کے بارے میں سوچنا بھی مت۔۔۔۔"

وھبان اب کی بار سرد و سپاٹ لہجے میں وارن کرتے بولتا اُسے خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔

"مم۔۔۔۔ میں نے بتایا نا آپ کو۔۔۔ میرے پاس نہیں ہے کچھ بھی۔۔۔۔"

انشاء ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔۔۔

"اور اگر مجھے کچھ مل گیا تو۔۔۔۔۔"

وھبان نے سوالیہ کھوجتی نگاہیں اُس پر مرکوز کی تھیں۔۔۔

"آپ میری تلاشی لیں گے؟؟؟؟"

انشاء بے یقینی سے بولی۔۔۔

"آف کورس لینی پڑے گی۔۔۔۔ میرے پاس اِس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں مگر وہ سارے ثبوت خود ہی میرے حوالے کرکے مجھے ایسا کرنے سے روک سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

وھبان یوں بنا اجازت کسی لڑکی کو چھونے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔ اِسی وجہ سے نہ ہی اُس کا انشاء کی تلاشی لینے کا کوئی ارادہ تھا۔۔۔

وہ صرف اُسے اِس حوالے سے خوفزدہ کرکے اُس سے ثبوت لینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

"آپ ایسا نہیں کرسکتے یہ غلط ہے۔۔۔۔۔"

انشاء نے اُسے اپنی جانب ہاتھ بڑھاتے دیکھ روکنا چاہا تھا۔۔۔

"میرے کام میں اکثر ٹھیک نتائج لانے کے لیے غلط طریقوں کو اپنانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔"

وھبان چاہتا تھا کہ وہ خود اُسے سارے ثبوت دے دے۔۔۔۔

انشاء کا چہرا بالکل ریڈ ہوچکا تھا۔۔۔۔

"ایک منٹ۔۔۔۔ رکیں۔۔۔۔"

خفگی بھری سخت نگاہوں سے اُسے گھورتی آخر کار ہار مان گئی تھی۔۔۔۔

"دیتی ہوں میں۔۔۔۔ آپ پلیز اُدھر دیکھیں۔۔۔"

انشاء حامی بھرتے بولی۔۔۔۔ اُس نے بیک سائیڈ پر شرٹ کے نیچے بیگ کے اندر وہ سب پیپرز اور باقی چیزیں ڈال رکھی تھیں۔۔۔۔

وھبان اُس کی بات سمجھتا رُخ موڑ گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ انشاء ہی کیا جو اتنی آسانی سے ہار مان جائے۔۔۔۔

انشاء نے نگاہیں گھما کر اردگرد ہتھیار کے طور پر کوئی شے تلاشنی چاہی تھی۔۔۔ جب اُس کی نظر اپنے پیر کے بالکل ساتھ ہی پڑی اینٹ کی جانب گئی تھی۔۔۔۔

انشاء کا چہرا کھل اُٹھا تھا۔۔۔

اِس وقت وہ یہ بھول چکی تھی کہ مقابل شخص کون تھا۔۔۔۔ اور وہ اپنے دل میں اِس انسان کے لیے کیسے جذبے محسوس کرتی تھی۔۔۔ اُس کے لیے اِس وقت سب سے اہم کام یہ تمام ثبوت سہی سلامت اپنے ساتھی تک پہنچانا تھا ۔۔۔۔ جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

اُس نے جلدی سے جھک کر اینٹ اُٹھاتے کچھ فاصلے پر ہی رُخ موڑے کھڑے وھبان پر حملہ کردیا تھا۔۔۔۔ شاید وہ اِس وقت یہ بات فراموش کر چکی تھی کہ ایک ایجنٹ صرف آگے ہی نہیں بلکہ ہر طرف نگاہ رکھتا تھا۔۔۔

اپنے اردگرد ہوتی معمولی ترین موومنٹ جو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ جاتا تھا۔۔۔ وہ بھلا خود پر ہونے والے حملے سے کیسے بے خبر رہتا۔۔۔

انشاء وھبان کے سر پر اینٹ مار کر وار کرنے ہی والی تھی۔۔۔ جب وھبان نے اُسی لمحے پلٹتے انشاء کی کلائی دبوچ کر کمر کے پیچھے موڑتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔ وھبان کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ اُسے انشاء کی اِس غلطی نے کس قدر غصہ دلا دیا تھا۔۔۔

جبکہ انشاء کا چہرا خوف کے مارے بالکل زرد ہوچکا تھا۔۔۔

...........


ہناد محتشم اور باقی تمام ارکان کی میٹنگ جاری تھی۔۔۔۔ اردگرد سٹائلش لباس پہنے کھڑی اُن سب کی پی ایز دوسرے مالکان کو لجھانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔۔۔۔

کوٹھے پر ناچنے والی طوائفوں کو سب سے ذلت آمیز مخلوق سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔

اور وہاں جانے والوں کو ہوس کا پجاری۔۔۔۔

مگر معاشرے کی اِس پستی سے بہت کم لوگ کی آگاہ تھے جو اِن پڑھے لکھے معزز لوگوں کی محفلوں میں عورت کو نمائش کی طرح سجا کر معاشرے کا ناسور بنتی جارہی تھی۔۔۔۔۔

ہمیشہ اِن محفلوں کا حصہ رہنے والا اور عورتوں کو ایسے ہی ٹشو پیپرز کی طرح استعمال کرنے والا ہناد محتشم کا دل آج کیوں اِس محفل سے اچاٹ ہورہا تھا۔۔۔ وہ بالکل بھی سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔۔

اُس کا یہ رویہ میٹنگ میں موجود تمام افراد ہی نوٹ کررہے تھے۔۔۔۔ مگر بولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔۔۔۔

ہناد کے غصے سے وہاں بیٹھا ہر شخص بہت اچھے سے واقف تھا۔۔۔۔۔

جب کافی دیر بعد چوہدری ہاشم نے یہ گستاخی کرنے کی جرأت کر ہی لی تھی۔۔۔

"کیا ہوا ہناد صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔۔ سب خیریت ہے نا۔۔۔۔ میٹنگ اتنی رنگین ہے۔۔۔۔ جس تتلی پر ہاتھ رکھیں گے آپ کے سپرد کردی جائے گی۔۔۔۔۔ زرا تھوڑی خوش مزاجی تو دیکھائیں ہمیں۔۔۔۔۔ خاص طور پر آپ سے ملنے آئے ہیں ہم سب۔۔۔۔۔"

چوہدری ہاشم نے ہناد کی جانب مُڑتے انتہائی خوشدلی سے اُسے مخاطب کیا تھا۔۔۔۔۔

جس کے جواب میں اُسے ہناد کے سرد تاثرات کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں چوہدری صاحب۔۔۔۔ آپ اپنا دھیان دیں۔۔۔۔ دن بدن مارکیٹ میں آپ کے شیئرز گرتے جارہے ہیں۔۔۔ ایسے نہ ہو۔۔۔۔ اِن رنگین تتلیوں پر دھیان دیتے دیتے بہت جلد روڈ پر آنا پڑ جائے۔۔۔۔"

ہناد نے جوابی وار کرتے چوہدری ہاشم کو شرمندہ کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔ باقی سب کے چہرے کی استہزایہ مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ہناد کی بات اچھے سے سن چکے ہیں۔۔۔۔

لیکن چوہدری ہاشم کو تو اب جیسے ہناد محتشم سے منہ کی کھانے کی عادت ہوچکی تھی۔۔۔۔

اپنی بے عزتی کروانے کے بعد بھی باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔

"ویسے ہناد صاحب آپ کی وہ سیکرٹری نظر نہیں آرہی۔۔۔۔ اگر وہ بھی یہاں میٹنگ روم میں آجاتی تو یہاں کا ماحول اور بھی خوشگوار ہوجانا تھا اور ساتھ ہی آنکھوں کو بھی کافی حد تک ٹھنڈک مل جانی تھی۔۔۔۔۔ ویسے بھی یہ سیکرٹری نما شے ہوتی بھی تو اِسی خاطر ہیں۔۔۔۔"

چوہدری ہاشم کی زبان میں ایک بار سے کھجلی ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر اِس بار اُس نے ہناد کے بارے میں نہیں بلکہ آزفہ کے بارے میں غلط لفظ استعمال کیا تھا۔۔۔۔ وہ کیسے سن پاتا۔۔۔۔۔

"بکواس بند کرو اپنی گھٹیا شخص۔۔۔۔ میری سیکرٹری اِن سب کے جیسی نہیں ہے۔۔۔۔ اُس کے بارے میں دوبارہ کوئی بکواس کی تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔"

ہناد آگ بھگولا ہوتا ہاشم کو زور دار مکہ رسید کرتا کرسی کے ساتھ ہی سر کے بل پیچھے گر گیا تھا۔۔۔۔

"ہناد سر پلیز کام ڈاؤن۔۔۔۔۔"

ہناد کا خاص آدمی سجاول بھاگ کر قریب آتا ہناد کو دوبارہ چوہدری ہاشم پر ہاتھ اُٹھانے سے روک گیا تھا۔۔۔

چوہدری ہاشم سمیت کوئی بھی اِس صورتِ حال کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔۔۔۔

ایک معمولی سی سیکرٹری کے بارے میں کہی بات پر ایسا ری ایکشن۔۔۔۔۔ کوئی بھی ہناد محتشم سے اِس بات کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔

"نکال باہر پھینکو اِسے یہاں سے۔۔۔۔۔ آئندہ یہ میری نگاہوں کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔۔۔۔۔"

ہناد محتشم بمشکل باقی لوگوں کے سارے نیچے گری کرسی سے اُٹھتے چوہدری ہاشم کو خون آشام نگاہوں سے دیکھتا راہ میں آئی ہر شے کو ٹھوکر سے اُڑاتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔


Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid


تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Jaan E Bewafa Novel 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Jaan E Bewafa   written Rimsha Hayat . D Jaan E Bewafa   by  Rimsha  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support... 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

No comments:

Post a Comment