Pages

Monday 18 July 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode118 Part 2 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode118 Part 2 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 118 Part 2  

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 118 Part 2

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 118 ( پارٹ 2 ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“شاباش ۔۔۔۔۔!! سرشار کو جیسے ہی خبر ملی کام ہوگیا ۔ چہکتا وہ اپنے آدمیوں کو شاباشی دے گیا ؛۔

کام ہوگیا ۔ برہان شاہ کی بیوی اور بہن دونوں اپنے قبضے میں ہیں ؛۔

سرشار نے خوشی سے بہروز کو بتایا تو وہ دونوں تیزی سے اٹھتے گاڑیوں کی طرف بڑھے ۔ 

یہ بھائی کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔؟ عاطف جو ابھی حویلی کے اندرونی گیٹ سے باہر آیا تھا پورچ سے گاڑیوں کو باہر جاتے دیکھ بڑبڑایا ۔۔۔۔ 

جبکے وہ ویسے ہی سر کھجاتے ہوئے اپنی گاڑی میں سوار ہوتے نکلا ؛۔

“ ماشااللّہ ۔۔۔۔۔۔ کیا کمال کا حسن پایا ہے ۔ بہروز جو سرشار کے ساتھ فیکڑی پہنچا تھا ؛۔

حور کے سراپے پر نظر ڈالتے وہ اپنے سینے پر ہاتھ پھیر گیا ۔ 

“ بیوی تو کمال کی حسن والی ۔۔۔۔۔۔ 

یہ بہن ہے ۔ سرشار نے اُسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اُسکی آنکھیں جیسے کھولی ۔۔۔ 

“ ہو ۔۔۔۔ آئی سی ۔۔۔۔ وہ مسکراتے آگے بڑھا ۔ دونوں کو رسیوں سے باندھتے زمین پر بوریوں کے ساتھ لگاتے پھینکا گیا تھا ۔۔۔۔ 

اس کا مطلب ۔۔۔۔ بیوی یہ ہے ۔۔۔؟ وہ نقاب میں بند آنکھیں دیکھ ماتھے پر لائن ڈالے سرشار سے دریافت کر گیا ؛۔

“ ظاہری بات ہے ۔ بہن کے علاوہ دوسری والی لڑکی بیوی ہی ہوگئی ۔ 

میں نے کبھی اُسکی بیوی نہیں دیکھی ، پہلی بار ہی دیکھ رہا ہوں ۔ سرشار نے تفیصل سے وضاحت دی ؛۔

“ ہو ۔۔۔۔ اسکا چہرہ ایسے نقاب میں کیوں ہے ۔۔؟ بہروز الجھا تھا ۔ جبکے وہ ویسے ہی چلتے آگے بڑھا تھا ؛۔

سرشار نے بھی قدم آگے بڑھائے ۔ دونوں نیچے بیٹھے تھے ۔ 

بہروز نے تھوڑا سا ہاتھ آگے بڑھاتے آیت کا نقاب اُسکے شفاف چہرے سے ہٹایا ۔ 

“ حسن کی شاہکار ۔۔۔۔۔بہروز تو آیت پر جیسے فدا ہونے کو ہوا ؛۔ 

سرشار بھی آنکھیں گاڑھے آیت کا معصوم شفاف چہرہ تکنا شروع ہوا تھا ۔کوئی شک نہیں تھا ۔ کہ برہان شاہ کے پاس دنیا کا انمول خزانہ تھا ۔

سرشار کا دل کیا وہ آیت کو چھو کر دیکھے ۔ 

برہان شاہ کی بیوی تو ۔۔۔۔ بہت ہی اعلی قسم کا مال لگ رہی ہے ۔۔!! 

بہروز کا دل جیسے اچھالنا شروع ہوا ۔ سرشار بنا پلکیں جھپکائے آیت کو دیکھتے تھوڑا سا آگے ہوا ۔

 دور ہٹو ۔۔۔۔۔ کتوں ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ آیت کے قریب جاتا یا اُسکو ہاتھ لگاتا حور جو اچانک سے ہوش میں آئی تھی ۔ 

سرشار کو باندھی لاتوں سے ہی پاؤں مارتے اُسکو بیٹھے سے گرا گئی ۔ 

بہروز بھی اُسکے ایسے گرنے سے ہاتھ لگتے نیچے گرا ۔ دونوں نے خونخووار نظروں سے حور کو گھورا ۔ 

حور مسلسل پھڑپھڑانا شروع ہوئی ۔ تاکہ خود کو رسیوں سے آزاد کروا سکے :۔

“ تم گھٹیا انسان کبھی باز نہیں آو گئے ۔ اس بار تمہارا وہ حال کروں گئی کہ جان کی پناہ مانگو گئے ۔ 

حور سرشار کو کھا جانے والے انداز میں گھورتی چیخی ۔ تو آیت جو بہوش تھی ، آہستہ آہستہ ہوش میں آنا شروع ہوئی ؛۔

جیسے ہی اُسکو پوری طرح ہوش آیا ، تو سامنے انجان مردوں کو دیکھ ڈرتے بوریوں کے ساتھ مزید لگاتے پیچھے کو گھسنے کی کوشش کی ۔ 

“ دیکھ سرشار ۔۔۔۔ حسن کی شاہکار بلبل اٹھ گئی ۔ بہروز نے حور کو اگنور کرتے غیصت سے آیت کی کالی سیاہ بڑی آنکھوں کو دیکھا ۔ لمبی گنی پلکیں ڈر سے کبھی بہروز پر پڑتی تو کبھی سرشار پر ڈالتی۔۔۔۔

 “ کون ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔؟ آیت گھبراتے مشکل سے چیختی ۔ 

“ آیت ۔۔۔۔۔ ریلکس ۔۔۔۔۔ یہی ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔ حور نے آیت کو اپنی طرف متوجہ کرتے یاددہانی کروانی چاہیے ۔ 

آیت نے حیرانگی سے حور کی طرف پلکیں اٹھائی تھی ۔ جبکے اُسکو بھی خود کے ساتھ رسیوں میں جکڑے دیکھ لرزی ۔ 

“ ماشااللّہ ۔۔۔۔۔۔ کیا پیار ہے ۔ سرشار حور کی ادا اور انداز پر داد دئیے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔

“ ہائے ۔۔۔۔ بہروز آیت کے قریب ہوا تھا ۔ جبکے ساتھ ہی آگے ہوتے آیت کو مزید خوفزدہ کیا ۔ 

“ میں بہروز چوہان ۔ برہان کا نیا دشمن ۔ جانتی ہو ۔۔۔؟ تمہارے شوہر نے میرے بھائی کو قتل کیا ۔ 

اب اُسکا بدلا لینے کے لیے مجھے تمہیں یہاں لانا پڑا ۔ میں نے تو سوچا تھا ۔ کہ تمہیں پہلی فرصت میں ہی ختم کر دوں گا ۔ 

مگر افسوس ۔۔۔۔ میں غلط تھا ۔ میں تمہارا یہ سادہ کا خوبصورت چہرہ دیکھ فدا ہو گیا ۔ 

دل چاہتا ہے ، تمہارے قریب آ کر تمہیں خود میں ۔۔۔۔ 

“ دور ہٹ کمنیے انسان۔۔۔۔۔ حور کا خون کھولنے لگا تھا ۔ وہ ویسے ہی خود کو تھوڑا سا گھیسٹتے آگے ہوئی اور اُسکو پوری قوت لگاتے پیر مارتے آیت سے دور کیا ۔ 

“ یو ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے حور کی طرف لپکا ۔ 

یہاں کیا چل رہا ہے ۔۔۔۔؟ اس سے پہلے بہروز حور سے کچھ کہتا وقار شیزاری وہاں داخل ہوتے ہی دونوں لڑکوں کو وہاں سے اٹھنے کا جیسے حکم سعا کر گئے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

داتا بخش ۔۔۔۔۔ جمال داتا بخش کو زخمی حالت میں دیکھ اُسکی طرف لپکا ۔ 

جبکے داتا بخش جو آنکھیں بوندے اپنے درد کو برادشت کر رہا تھا ۔ 

کھپکھپاتے مشکل سے بھیگی سرخ ملائل آنکھیں کھولتے سامنے نوجوان کو دیکھا ؛۔

“ یہ سب کس نے کیا ۔۔۔؟ وہ اُسکی رسیاں کھولنا شروع ہوا تھا ۔ 

فکر نہیں کرو ۔، تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ اُسکی رسیاں کھولتے فکر مندی دکھاتے ساتھ ہی اُسکو حوصلہ دے گیا ؛۔

“ داتا بخش میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا ۔ میری ماں اور بہن کہاں ہے ۔۔۔؟ 

مجھے ان سے ملنا ہے ، وہ کہاں ہے ۔ میں پاگل کی طرح اپنی ماں کو تلاش کر رہا ہوں ۔۔۔ 

جمال کی آنکھیں جیسے بہنے کو تیار ہوئی تھی ۔وہ بچوں کی طرح داتا بخش کا ہاتھ پکڑ گیا ۔۔۔۔۔

“ کون ماں ۔۔۔۔؟ تم کون ہو ۔۔۔؟ کس کی بات کر رہے ہو ۔۔۔؟ داتا بخش پوری طرح الجھ چکا تھا ؛۔

میں ۔۔۔ جمال شاہ ۔۔۔ آئمہ کا بیٹا ۔۔۔۔ میں سب کچھ ماضی کا جان گیا ہوں ۔ میری ماں کون تھی ۔ میرا باپ کون ہے آخر کے الفاظ وہ چباتے رگیں تن بولا ،

مجھے پتا چلا تھا ، میری ماں آخری بار اپنی جان بچاتے تمہارے پاس آئی تھی ؛۔

 دیکھو ۔۔۔۔ داتا بخش ۔۔۔ مجھے ایک بار میری ماں سے ملوا دو ۔ میں اُسکو دیکھنا چاہتا ہوں، 

چاہتا ہوں ، وہ اپنے بیٹے کو دیکھ قرار پا جائے ۔ میں جان گیا ہوں کہ مجھے میری ماں سے چھینا گیا تھا ۔

جمال اب مسلسل رونا شروع ہوا تھا ، اُسکا ہاتھ مظبوطی سے تھامے التجا کر رہا تھا ؛۔ 

وہ اڑ کر اپنی ماں کے سینے سے لگنا چاہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا جو وہ سوچتی تھی وہ سچ ثابت کر دے ؛۔

کہ اُسکا بیٹا اُسکے پاس خود چل کر آیا ہے ۔ 

داتا بخش جو اسُکی باتیں سن ساکت ہو چکا تھا ، بے یقنیی سے دیکھا ۔

کہ جمال آئمہ کا بیٹا خود اپنی ماں کا پوچھ رہا ہے ۔ جبکے اُسکی تڑپ اور باتیں سن داتا بخش کی آنکھیں برسنا شروع ہوئی ؛۔

 “ آپ روئیں نئیں ۔ میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا ۔ بس مجھے میری ماں اور بہن سے ملنا ہے ۔ 

جمال با مشکل بولتے داتا بخش کی آنکھیں صاف کر گیا ۔ 

“ بہت ۔۔۔ دیر ہو گئی ۔۔۔۔ بیٹا ۔۔۔۔ سب کچھ ختم ہو گیا ۔ تمہاری ماں۔۔۔۔ داتا بخش بولتے بولتے خاموش ہوتے بلک بلک رونا شروع ہوئے ۔ 

جمال کے آنکھوں جیسے خشک ہوئے تھے ، وہ کچھ بھی برا سوچنا نہیں چاہتا تھا ؛۔

“ میری ماں کہاں ہے ۔۔۔۔؟ وہ خود پر ضبط کرتے مشکل سے داتا بخش کی آنکھوں میں دیکھتے سوال پوچھ گیا ؛۔

مجھے میری ماں سے ملنا ہے ۔ جمال نے اب کہ داتا بخش کو کندھوں سے پکڑتے جھنجھلاڑا ۔۔۔ 

“ تمہاری ماں مر چکی ہے ۔ مر گئی میری بہن ۔۔۔۔ شدت سے اُسکو تمہارا انتظار تھا ۔ مر گئی وہ ۔۔۔۔۔ داتا بخش کے رونے میں مزید تیزی ابھری ؛۔

جبکے جمال جو نیچے بیٹھا تھا ۔ اک دم گرا ۔ اور داتا بخش سے دور ہوا ؛۔

“ نہ۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔ میری ماں مجھ سے ملے بنا نہیں جا سکتی ۔۔۔ 

وہ سپاٹ چہرہ لیے دھاڑتے داتا بخش کے قریب ہوا ۔ 

تم ۔۔۔ جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔۔ وہ اپنے بیٹے سے ملے بنا کیسے جا سکتی ہے ۔۔؟ وہ چیختے ساتھ ہی داتا بخش کو زور سے ہلا گیا ۔۔۔

 “ وہ اُسی دن مر گئی تھی ۔ جس دن تیرے باپ فیصل شاہ نے اُسکو مارنے کا حکم دیا تھا ۔۔۔ 

وہ میرے پاس پہنچ گئی تھی ۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی ۔

“  ماضی “  

“ آئمہ ۔۔۔۔۔۔ میری بہن۔۔۔۔ جیسے ہی داتا بخش آئمہ کے قریب پہنچا “ 

 روتے اُسکو خون میں لت پت دیکھ وہ تڑپ اٹھا ۔ وہ زخمی مسکراہٹ چہرے پر لیے مسکرائی ؛

“ بھائی ۔۔۔۔ میرا سب کچھ ختم ہو گیا ۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ۔ میری بات دھیان سے سنوں۔۔۔۔ 

وہ مشکل سے بول پا رہی تھی ، سانس اٹکنا شروع ہو چکا تھا ؛۔

وعدہ کرو ۔۔۔۔ مجھ سے میری بیٹی کو اپنے بیٹی بنا کر رکھو گئے ۔ میں اپنی اس کلی کو تمہارے حوالے کر جا رہی ہوں ؛۔ 

“ وعدد کرو مجھ سے ۔۔۔۔ میری بیٹی کے باپ بن کر اُسکو اس دنیا کی ہر خوشی دو گئے ۔۔۔” 

کبھی بھی اس پر فیصل شاہ کا سایہ پڑنے نہیں دو گئے ۔ وہ خون سے بھرا ہاتھ داتا بخش کے سامنے کرتے کہہ رہی تھی 

اور داتا بخش روتے اُسکو دیکھ رہا تھا ۔ بھائی ۔۔۔ وعدہ کرو ۔۔۔۔ میرے بیٹے کو میری ہر تکلیف بتاؤ گئے ۔ 

میں چاہتی ہوں ۔ وہ جب تمہارے پاس آئے تو تم اُسکو میری تڑپ کا بتاو

میں چاہتی ہوں۔ کسی کو خبر نا ملے کہ میں کہاں چلی گئی ۔ مجھے چھپے سے دفنا دینا ۔ فیصل شاہ کو بھی علم نا ہو سکے ۔  

میرے بیٹے۔۔۔۔۔ ابھی وہ آگے کچھ کہتی کہ اُسکی سانس ٹوٹ جاتی ہے ۔ روح جسم سے نکل پرواز کر جاتی ہے ؛۔

“ جیسا تمہاری ماں چاہتی تھی ۔ میں نے بالکل ویسے ہی کیا ۔ 

تمہاری بہن ۔۔۔۔ پریشہ اب میری بیٹی ہے ۔میں نے کبھی بھی اُسکو یہ پتا لگنے نہیں دیا کہ میں اُسکا باپ نہیں ہوں ؛۔

جمال شاہ جو بے جان ہوتا خود کو محسوس کرنا شروع ہوا تھا ۔،پریشہ سن اُسکو لاہور کا واقعہ یاد کروا گیا ،،

تبھی اُسکے سامنے پریشہ کا چہرہ آیا تھا ۔وہ کتنی معصوم تھی ۔

“ فیصل شاہ نے اتنا ہی ظلم نہیں کیا ۔ میری بہن مر گئی تو وہ پھر بھی باز نا آیا ۔ اُسنے مجھ سے میرے مالک کو قتل کروانے کے لیے میری بیٹوں کو اغواء کرتے اپنی باندھیاں بنا لیا ؛۔

“ جانتے ہو اُسنے کیا کیا ۔۔۔۔؟ وہ صرف قاتل ہی نہیں وہ ایک جانور ہے ۔ جانور ۔۔۔ داتا بخش کی آنکھیں لال ہوئی تھی ۔ 

اُسنے آٹھ سال پہلے ۔۔۔۔۔ میری پریشہ چودہ سال کی نازک سی کلی  ۔۔۔۔ اپنی سگی بیٹی کی عزت تار تار کر ڈالی ۔ 

شاہ ہاؤس میں اپنی ہی بیٹی کا ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ داتا بخش بلک روتے دھاڑے مارنا شروع ہوا تھا :۔

جمال شاہ جو ابھی ماں کے صدمے سے نا نکلا تھا ۔ آٹھ سال پہلے کا سن ساکت ہوتے داتا بخش کو دیکھا ؛۔

وہ اکرام کی بیٹی سمجھ میری پریشہ کو نوچ کھا گیا ، میں اُسکو اپنے ہاتھوں سے مار کر ہی جاؤں گا ؛۔

داتا بخش نے بے دردی سے آنسو صاف کیے تو جمال بنا کچھ کہے وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بڑھتے گیا ؛۔

اُسکا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا تھا ۔ وہ پاگل کی طرح فیصل شاہ کو فیکڑی میں دھونڈنا شروع ہوا ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جیسے جیسے سبھی لوگو کیمرے میں آخر کی چلتی ویڈیو دیکھ رہے تھے 

سب کی آنکھوں میں غصہ اور خون اتارنا شروع ہوا ۔ سلطان شاہ اور صفدر کی آنکھیں بھیگی تھی۔ 

“ دیکھا بھائی ۔۔۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔۔ میری بہن کو ۔۔۔ کتنی بے رحم ۔۔۔۔ صفدر شاہ کا دل جیسے تڑپ اٹھا تھا ؛۔

سلطان شاہ جو مسلسل رو رہے تھے ، تڑپ کر صفدر شاہ کو گلے لگایا ۔ 

فیصل شاہ کا سر اُسکی گردن سے الگ کر دوں گا ۔ اُسکو تڑپتے تڑپتے ہوئے ماروں گا ۔ 

سلطان شاہ چیخ اٹھے تھے ۔ فام ہاوس میں اُن کی آواز کسی طوفان کی طرح گونجی ۔۔۔۔۔

سرحان جس کی آنکھیں بن آواز کے بہنا شروع ہوئی تھی ، جنت اور مراد کی حالت دیکھ وہ مٹھیاں بھنچ چکا تھا ؛۔

رگیں تن چکی تھی ، وہ آنکھوں میں وحشت لیے وہاں سے نکلا تھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

جو کام کرنے والے ہیں ، وہ کرو ۔۔۔ اس لڑکی کی ویڈیو بناؤ اور اُس برہان شاہ کو سینڈ کرو ۔

تاکہ مچھلی خود ہمارے جال میں پھنس جائے۔ ہمیں آج ہی برہان شاہ کو لمبی نیند سُولنا ہے ۔ 

وقار شیزاری نے اُنکو جیسے اُنکا مقصد یاد کروایا ؛۔

سرشار تیزی سے جیسے اپنے ہوش میں آیا تھا ۔ وہ ایسے بہک جائے وہ کبھی بھی یہ ہونے نہیں دے سکتا تھا ؛۔

لیکن آیت کی کشش اُسکو اکسا رہی تھی ۔ بہروز ایک قہر بھری نظر حور پر ڈالتے آیت کی طرف بڑھا ۔ 

“ بابا سرکار اک بات کہوں ۔۔۔۔ شاہوں کے خاندان کی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ 

سرشار آیت کو اپنی نگاہوں میں قید کرتا ساتھ ہی مونچھوں کو تلاو دے گیا ؛۔

“ ہاتھ مت لگانا ۔۔۔ حور چیخی تھی جبکے آیت بھی خوف کے سائے چہرے پر گہرے کر گئی ؛۔ 

“ چل جانے من ۔۔۔۔۔ تجھے یہاں اسکے ساتھ تھوڑی بیٹھنا ہے ۔ وہ بولتا آیت کے پیروں کی رسیاں کھول گیا ؛۔ 

آیت نے غصے سے چار ہوتے اُسکو پیر مارتے خود سے دور کرنا چاہا ؛۔

وہ گون پہنے ہوئی تھی ، سر پر حجاب موجود تھا ۔ وہ پوری طرح گھبرا اٹھی تھی ؛۔

“ کیا بات ہے ۔۔۔۔۔ بہزور جو نیچے گرا تھا ۔ واپس سے اٹھتے اُسکے سامنے ہوا ۔

“ آئی لائک ۔۔۔۔ وہ ویسے ہی آیت کے قریب جاتے اُسکو بازو سے پکڑ کھڑا کر گیا ؛:۔۔۔۔

آیت کے ہاتھ اُسکی پست پر پیچھے باندھے ہوئے تھے ۔ وہ کراہ اٹھی تھی 

اُسکو خوف آیا تھا ۔ ایک غیر مرد اُسکو چھو رہا تھا ، آنکھیں بھیگنا شروع ہوئی تھی ؛۔

تبھی سرشار فون کو اون کرتے ویڈیو بنانا شروع ہوا ۔ حور پیچھے چیخ رہی تھی ۔ مگر یہاں کون سا کسی کو فکر تھی ؛۔ 

ویڈیو بناتے سرشار نے برہان کے فون پر سینڈ کی ۔۔۔۔ 

کام ہو گیا ۔۔۔۔ سرشار مسکرایا تو بہزور بھی مسکراتے آیت کے گال کو چھو گیا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بتاؤ مجھے ۔۔۔۔۔۔ جمال اندھا دھند فیصل شاہ کے آدمیوں کو پھیٹنا شروع ہوا ۔ 

جمال داتا بخش کو ہسپتال اپنے آدمیوں سے کہتا بھیج چکا تھا ۔؛

ابھی بس کسی طرح فیصل شاہ پر اپنی نفرت کا اظہار کرتے اُسکو ختم کرنا اُسکا جنون بنا ۔۔ 

“ سرکار ۔۔۔۔۔۔ وہ دوسری جنگلوں والی فیکڑی میں گئے ہیں جو بند ہے ، وقار شیزاری لوگوں کا وہاں اڈا ہے ؛۔

ایک آدمی نے ڈرتے ڈرتے روتے زخمی حالت میں جلدی سے بتایا ۔ 

تاکہ وہ ان کی جان بخش دے ۔ وہ ایک دم سے ڈنڈا پھینکتے گاڑی پر سوار ہوا 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 سرشار شیزاری۔۔۔۔۔۔۔ !! برہان جو اکیلا ہی فیصل شاہ کے میرپور والے گھر گیا تھا ؛۔ 

ابھی وہاں سے وہ نکلا تھا ۔ کہ سرشار کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھ وہ آگ بھگولہ ہو گیا ۔ 

خون کتنی تیز سپیڈ سے گردش کرنے لگا تھا ۔ یہ صرف اُس وقت اُسکے جسم کو ہی اندازہ ہوا تھا ؛۔

وہ وہاں سے نکل اب سیدھا فیکڑی پہنچا تھا ۔ جہاں انہوں نے اُسکو اکیلے آنے کا کہا تھا ۔۔۔۔ 

وہ پہلے ہی نتہا تھا ۔ اسی لیے طوفان کی سپیٹڈ سے ڈرائیونگ کرتے وہاں پہنچا تھا ؛۔

ابھی وہ فیکڑی میں داخل ہوا تھا ۔ سرشار لوگ جنہوں نے ہر جگہ کیمرے لگائے تھے ۔ 

اُسکو فیکڑی میں داخل ہوتے ساتھ ہی چیختے دیکھ وہ سب مسکرائے ۔ 

ابھی برہان وہاں چلتے سیدھا ایک ہال میں داخل ہوا تھا ۔ کہ سامنے ہی وہ آیت اور حور کو رسیوں سے باندھے منہ پر پٹیوں سے جکڑے دیکھ وہ لرزا اٹھا ؛۔

وہ فل سپیٹڈ سے بھاگا ۔ آیت اور حور جس کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھی ؛۔

اُسکو آگے آنے سے روکنے کا آنکھوں اور سر ہلانے سے منع کرنا شروع ہوئی تھی ۔ 

وہ کہاں ان کی یہ باتیں سمجھ پا رہا تھا ۔ ابھی تو صرف ان کو تکلیف میں دیکھ وہ دل کو قابو میں رکھتے لپکا تھا ؛۔ 

اس سے پہلے وہ ان تک پہنچتا ۔ نیچے جو تاروں کا جال بچھایا گیا تھا ۔ 

وہ ان میں پھنسا ۔ اور تبھی اُسکی ٹانگیں تاروں میں جکڑی اور ساتھ ہی وہ ہوا میں الٹ لٹکا ؛۔

ہاہاہاہ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی برہان ٹکا ۔۔۔ سرشار لوگوں کے قہہقے گونجے ۔۔۔ 

وہ بے انتہا خوش ہوئے تھے ۔ جبکے تیزی سے اٹھتے سب ہال میں داخل ہوئے ۔ 

ان کے سبھی آدمی بھی الرٹ ہوتے اپنی پوزیشن پر کھڑے ہوئے ؛۔

“ کیسا لگا ہمارا سرپرائز ۔۔۔۔۔؟؟ سرشار قہقہہ لگاتے برہان کے سامنے آیا تھا ۔

برہان جو الٹ تھا ۔ جھولتے ان سب کو دیکھا ۔ 

ایک اور سرپرائز ہے ۔ ملنا چاہو گئے ۔۔؟ سرشار نے بے دردی سے برہان کو بالوں سے پکڑتے پوچھا ۔۔؟ 

“ ہائے مائے ڈئیر فرینڈ ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے سرشار کچھ کہتا بہروز چوہان وہاں سامنے آتا سگار کا کش بھرتے گویا ؛۔

برہان کا چہرہ جیسے پہلے سپاٹ تھا ویسے ہی رہا ۔ جیسے کوئی فرق یا جھٹکا اُسکو نہ لگا ہو ۔ 

آج میرے سبھی بدلے پورے ہونگیں ۔ برہان شاہ ۔۔۔۔ وہ نفرت بھرے لہجے میں چیختے ساتھ ہی برہان پر مکے برسنا شروع کیے ۔۔۔ 

آیت حور تڑپی تھی ۔ جبکے خود کو کھولنے کی کوشش بھی کیا ۔ 

آج میں تمہارا وہی حال کروں گا ، جو تم نے میرے بھائی کا کیا تھا ۔ 

وہ اپنی شرٹ اتارتے پھینک چکا تھا ۔ وہ اچھا خاصا باڈی بلڈر تھا ۔ وہ ہاتھوں کو مٹھیوں کی طرح بھنچتے برہان پر در پہ در مارنا شروع ہوا ۔ 

برہان جس کے ہاتھ کھولے تھے ۔ وہ بھی آگے سے ویسے ہی لٹکاتے بہروز کو مارنا شروع ہوا ۔ 

سرشار نے جلدی سے اپنے آدمیوں کو اُسکے ہاتھ باندھنے کا حکم کیا ؛۔ 

آدمیوں نے تیزی سے برہان کے ہاتھ قابو کرتے مشکل سے باندھے ۔ 

بہروز چوہان ۔۔۔۔ تجھے کیا لگا میں ڈر گیا ۔۔؟ میں برہان شاہ ہوں۔۔۔ اتنی سی چیزوں سے ڈرنے والا نہیں ۔ 

تمہارے بھائی سے بھی باتر موت تجھے دوں گا ۔ آج تم سب کی زندگیوں کا آخری دن ہے ۔۔۔ 

خود کے لئے دعا کر لو ۔ کیونکہ میں کسی کو بھی موقعہ پھر دینے والا نہیں ۔ 

وہ بلند دھاڑتے سخت لہجے میں پھنکارا ۔ تو سب نے طنزیہ سمائل پاس کی ؛۔

“ جیسے کہا ہو ۔ سامنے موت تجھ پر ٹکا رہی ہے ۔ اور توبہ کرنے کا ہمیں موقعہ دے رہا ہے ۔۔۔؟ “ 

وقار شیزاری جو خاموشی سے ابھی لڑکوں کے کام دیکھ رہا تھا ۔، فون نکالتے وہاں سے گیا تاکہ فیصل شاہ کو بلوا سکے ؛۔

“ توں مجھے مارے گا ۔۔۔؟ میں تیرا وہ حال کروں گا ، برہان شاہ ۔۔۔ کہ تیری روح بھی مجھ سے پناہ مانگے گئی ؛۔

بہروز جس کو برہان کی باتیں کسی تیر کی طرح چھبی تھی ۔ وہ جنوانی ہوتا برہان پر ٹوٹ چکا تھا ۔ 

برہان کے چہرے سے خون بہتا زمین پر گرنا شروع ہوا ، برہان چاہ کر بھی آزاد نہیں ہو پا رہا تھا ؛۔

سرحان جو طوفان کی طرح خبر ملتے فیکڑی پہنچا تھا ۔ اپنے آدمیوں کو دبے پاؤں اندر جانے کا اشارہ کیا ؛۔ 

سرحان جیسے ہی گھر سے طوفان کی طرح نکلا تو خادم اور ہاشم لوگ گھبرائے اُسکے راستے میں حائل ہوئے ؛۔

اور سرحان کو آیت کی ویڈیو دکھائی ۔ وہ شاک ہوتا سیدھا ان سب کے ہمراہ فیکڑی پہنچا تھا ۔۔۔ 

سرشار کو پتا تھا ، برہان کے پاس دو فون ہوتے ہیں ۔ وہ غلطی کر بیٹھا تھا ۔ اُسنے ایک پر سینڈ کرنے کی بجائے ویڈیو اور لکھا میسج دونوں فون پر سینڈ کر دیا ؛۔ 

جس وجہ سے خادم کو پتا چل گیا ۔ ابھی وہ سب اپنی پسٹل گن کو لوڈ کرتے دبے پاؤں اندر داخل ہونے لگے ۔ 

کہ سامنے ہی برہان کی گاڑی کو دیکھ وہ سب سمجھ گئے کہ برہان بھی یہی ہے ۔ 

وقار شیزاری جو کیمرے والے روم میں آیا تھا ، فیصل شاہ کو کہتے مڑا کہ سامنے ہی سرحان سمت ان کے آدمیوں کو دیکھ سرشار لوگوں کو پکار گیا ؛۔

وہ سب ان کو ایسے آتے دیکھ طنزیہ ہنسے ۔ 

لگتا ہے ۔ بابا سرکار ۔۔۔۔ آج شاہوں خاندان تباد ہونے والا ہے ؛۔

سلطان شاہ کا بیٹا بھی یہاں خود چلا آیا ۔ سرشار کی خوشی کی کوئی انتہا نا رہی تھی ۔ 

مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے ، آج ایک بار پھر قسمت ہم پر مہربان ہونے والی ہے ۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ہماری جیت ہونے والی ہے ؛۔ 

وقار شیزاری بھی بے حد خوش ہوا تھا ۔ جبکے تبھی بہروز نے پلان بنایا اور سب آدمیوں کو الرٹ کیا ؛۔

سرحان لوگ جیسے ہی فیکڑی میں داخل ہوئے، سبھی آدمی چاروں اطراف پھیلے ۔ 

سرحان آہستہ سے چلتا ہال میں داخل ہوا ۔ تو سامنے ہی آیت ، حور نظر آئی ان کے منہ بند کیے گئے تھے : 

وہ لوگ ان کے سامنے ہی منصوبہ بندی بناتے اور جال بچھاتے ، لیکن وہ چاہ کر بھی ان کو ٹھیک سے بتا نہیں پاتی ؛۔

سرحان ان کو دیکھ ٹھٹکا ۔ جبکے ابھی وہ ان کو دیکھتے تھوڑا سا آگے بڑھا تھا ۔، کہ برہان کو الٹا خون سے لت پت دیکھ وہ شاک ہوا ۔۔۔۔ 

برہان ۔۔۔۔۔ وہ بےیقنی کی حالت میں تھا ۔ کہ اچانک سے اُسکے سر پر زور سے وار کرتے بہروز چوہان نے سرحان کو دن میں تار دکھائے ۔ 

اُسکا گن نیچے گر چکا تھا ؛ وہ زمین بوس ہوتا چلا گیا ۔ باندھو اُسکو بھی ۔۔۔ وہ اپنے آدمیوں کو اشارہ کر گیا ؛۔ 

خادم لوگ جو باہر تھے ۔ ان پر سرشار کے آدمیوں نے اندھا دھند گولیاں برسنا شروع کی ۔۔۔ 

وہ لوگ نیچے تھے کہ اوپر سے ہی گولیاں چلنی شروع ہوئی کاشف اور ہاشم ایک طرف سے ہوتے آگے بڑھے جبکے ساتھ ہی جوابی کاروائی بھی کی ؛۔

لیکن خادم کے سیدھے گولی لگتے وہ نیچے گر چکا تھا ، وہ اپنے ہوش سے بیگانہ ہو گیا تھا ؛۔

ہاشم اور کاشف کے ہمراہ برہان کے چند وہ آدمی جن کو اُسنے خود تیار کیا تھا ۔

انہوں نے بھرپور طریقے سے وار کیے ۔ فیکڑی میں گولیاں چلنے سے ہر طرف دھواں ہی دھواں ہو گیا تھا ؛۔ 

کوئی کسی کو ٹھیک سے دیکھ نہئں سکتا تھا ۔ بہروز چوہان بھی اُسی طرف آیا تھا :۔ 

فائرنگ رک چکی تھی ۔ کیونکہ کوئی کسی کو دیکھ نہیں پا رہا تھا ؛۔ 

ہاشم آگے بڑھا ہی تھا ۔ کہ سامنے سے بہروز چوہان سے ٹکرایا ، 

دونوں میں کافی لڑائی ہوئی کبھی وہ اُسکو مارتا تو کبھی ہاشم بھی اپنی باڈی کا ہنر دکھاتا ۔ 

آہ ۔۔۔۔۔ ہاشم ابھی بہروز کو مار رہا تھا کہ اچانک سے سر پر چوٹ لگنے سے پیچھے مڑا سرشار نے زور سے ایک بار پھر سے گن مارتے اُسکو نیچے گرایا ؛۔

“ برہان سر ۔۔۔۔ کاشف جو ہال میں داخل ہو چکا تھا ۔ برہان کو دیکھ اُسکی طرف لپکا ۔ جبکے سرحان کو بھی باندھا جا چکا تھا ؛۔ 

حور تڑپتے اُسکو اپنی طرف آنے کا بول گئی تو وہ تیزی سے حور اور آیت کے قریب آیا ۔۔۔۔ 

آ۔۔۔۔ہا۔۔۔ جیسے ہی کاشف نے دونوں کی پٹیاں اتاری ۔ دونوں نے لمبے لمبے سانس بھرتے خود کی حالت کو درست کرنا چاہا ۔

میرے ہاتھ ۔۔۔ کھولو ۔۔۔ جلدی کرو ۔۔۔ حور نے کاشف کو اشارہ کیا کہ وہ تیزی سے حور کے ہاتھ کھولنا شروع ہوا ۔

ابھی رسی دھیلئ ہوئی تھی ۔ کہ لوگوں کے پیروں کی آہٹ سن سب کی نظریں ڈور پر گئی ۔۔۔ 

کاشف ۔۔۔ ان سب کا تم اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ تم جلدی سے چھپ جاؤ ۔ حور نے اسُکو روکتے ساتھ ہی چھپانے کا کہا ۔۔۔ 

تو وہ سمجھ داری سے کام لیتے بھاگ کر کہیں جاتے چھپ گیا ، 

“ آج تو کمال پہ کمال ہو گیا ۔، آج لگتا ہے جیسے عید کا سما ہو ۔ وقار شیزاری کی خوشی دگنی ہوئی تھی ۔

سلطان شاہ سے بھی حساب کتاب برابر ہو جائیں گئے ۔ وہ یہ سوچ کر ہی جھوم اٹھا تھا ۔۔۔ 

بھئی ان مردوں کو ہوش میں تو لاؤ ۔ ان کو یہاں دیکھنے کے لیے تھوڑا لائے ہیں ۔ 

وقار شیزاری اپنی چئیر پر براجمان ہوتا چہکتے گویا ۔ 

 تبھی سرشار کے حکم پر ان کے آدمیوں نے الٹے لٹکے ہوئے برہان اور سامنے زنجیروں میں جکڑے سرحان پر پانی کی بالٹیاں انڈھیاں ۔۔۔ 

برہان اک دم سے اتنے زور سے پانی پکڑنے پر نیلی آنکھیں کھول گیا ؛۔

جبکے سرحان پر ایک اور پالٹی ڈالتے اُسکو ہوش میں لایا گیا ۔ 

حور مسلسل دھیرے سے اپنے ہاتھوں کو رسیوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ آیت بھی خاموش بیٹھی فحال منہ میں پڑھنا شروع ہوئی تھی ؛۔

کاشف جو چھپ گیا تھا ۔ ضبط کرتے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا :۔

“ وقار شیزاری ۔۔۔۔۔جیسے ہی سرحان کے ہوش بہلا ہوئے وہ منہ کے بل خود کو ان زنجیروں سے نکالنے کی کوشش کرتے چیخا ۔۔۔ 

ہاہاہہہا۔۔۔۔۔۔ اُسکی ہمت کو لاچارہ ہوتے دیکھ وقار شیزاری کا قہقہہ گونجا ۔ 

ابھی تو کھیل شروع کیا ہے ۔ سرحان شاہ ۔۔۔ وہ ویسے ہی بیٹھے بولا تو آدمیوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑتے سرحان کو مارنا شروع کیا ؛۔

وہ لوگ ان کو پوری طرح کمزور ، زخمی کر دینا چاہتے تھے ۔ 

حور کی آنکھیں بھری تھی ۔ جبکے آیت بھی روتے مشکل سے دیکھ پا رہی تھی ؛۔

وقار شیزاری،۔۔۔ اگر ہمت ہے تو مجھے کھولو ۔۔۔۔ 

ایک بار بہروز چوہان میرے ہاتھ کھول پھر دیکھ میں تیرا کیا حال کرتا ہوں ز 

برہان زخمی ہو چکا تھا لیکن پھر بھی بلند آواز میں دھاڑتے اپنی برداشت بتائی ۔

ہمیں پاگل سمجھ رہا ہے۔۔۔؟ ہم تجھے ایسے ہی مرتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سرشار کھا جانے والے انداز میں برہان کا منہ دبوچتے بولا 

اچھا ۔۔۔ تو تجھ میں ابھی بھی ہمت ہے ۔۔۔؟ تجھے کیا لگتا ہے ۔ برہان شاہ میں نہیں جانتا کہ تیری جان کہاں بستی ہے ۔۔؟ بہروز بھی برہان کے قریب ہوا تھا ؛۔

بس کرو ۔۔۔ وقار شیزاری اپنے آدمیوں سے بولتا ان کو رکنے کا اشارہ کر گیا 

ایک ہی بار میں ختم نہیں کرنا ، تڑپا تڑپا کر خون بہا کر ختم کرنا ہے 

وقار شیزاری سرحان کے چہرے سے خون نکلتے اُسکے کپڑوں میں جذب ہوتے دیکھ غیصباک انداز میں بولا ۔ 

توں کبھی بھی میری جان تک نہیں پہنچ سکتا ، توں جتنی مرضی کوشش کر لے ۔ 

برہان نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا تو وہ طنزیہ مسکرایا ۔ 

اچھا ۔۔۔۔ چلو ابھی دیکھتے ہیں ، ایک تماشہ لگاتا ہوں۔ انجوائے کرنا ۔بہروز برہان کو اپنی طرف غور سے دیکھنے کا اشارہ کرتا آیت اور حور کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ 

برہان جو اُسکو دیکھ رہا تھا ۔ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس بار بہت کچھ جان کر آیا ہے ؛۔

بہروز چوہان ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ آیت کو ہاتھ لگاتا برہان بلند آواز میں دھاڑتے سب کو خوفزدہ کر گیا ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔۔ برہان شاہ ۔۔۔۔۔ توں تو پہلے ہی کانپ اٹھا ۔ 

ابھی تو تماشہ شروع ہونے لگا ہے ۔ وہ ایک گہری نظر آیت پر ڈالتے برہان کا غصہ بڑھا گیا ۔۔۔ 

جبکے تبھی وہ جھکا تھا اور آیت کی رسیاں کھولتے اُسکو بازو سے پکڑتے کھڑا کیا ۔

 آیت نے اُسکو خود سے دور اور خود کو چھڑوانے کی کوشش کی تھی ؛۔

بہروز چوہان ۔۔۔۔۔ برہان بن مچھلی کی طرح تڑپا تھا ۔ تبھی وہ غیص مسکراہٹ اچھالتے آیت کا ڈوپتہ جو وہ حجاب کی طرح اوڑھے ہوئے تھے ۔ 

اتار پھینک گیا ۔ دور ہٹ سالے ۔۔۔۔ “ سرحان بھی مچالا تھا ۔ 

آیت کی آنکھیں بھیگی تھی ، جبکے وہ خوف میں گھیری ۔ کیا ہو رہا تھا اُسکے ساتھ جیسے دماغ ماوف ہونے کو ہوا ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔۔۔ برہان شاہ ۔۔۔ بس نہیں چل رہا ۔۔۔؟ 

جان نکلی رہی ہے نا۔۔۔؟ وہ آیت کو ویسے ہی بازو سے پکڑتے گھسیٹنا شروع ہوا تھا 

سرشار سمت وقار شیزاری اور ان کے سبھی آدمیوں کے قہہقے گونجے ۔ 

میں تیری بڈی بڈی کر دوں گا ۔ برہان کی آنکھیں لال سرخ ہوتی وحشت میں مبتلا ہوئی ۔۔۔ 

ہاہاہا۔۔۔۔ پہلے خود کو آزاد تو کروا لے ۔ سرشار نے بھی حصے ڈالا تھا ۔ 

یہ کیا اس نے اوڑھ رکھا ہے ، اتار اس کا یہ کالا لباس ۔۔۔۔ نظر ہم بھی تو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈا بوجھائیں۔ 

سرشار بھی آیت کی طرف قدم اٹھا چکا تھا ۔ ویسے ایک بات ماننی پڑے گئی ۔،

تمہارے خاندان کی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ وہ عاطف کی بیوی نادیہ ۔۔۔ کیا حسن تھا اُسکا بھی ۔،

اگر وہ اُسکو رات مان جاتی تو میری خوبصورت رات گزرتی ۔،

کمبخت ۔۔۔۔ وہ کمرے سے بھاگ نکلی ۔ بہروز نے قہقہہ لگاتے افسردگی سے کہا ۔ تو سرشار مسکرایا تو وقار شیزاری ٹھٹکا ۔ 

“ لیکن داد دینی پڑے گی برہان شاہ ۔۔۔۔ کیا بیوی چھپا رکھی تھی ۔ وہ غیصت سے آیت کے گال کو چھونا شروع ہوا ۔

آہ ۔۔۔۔۔ 

تبھی آیت نے ہمت کرتے پیر اٹھاتے اُسکے وار کیا ۔ جہاں وار کیا تھا اُسکے بعد بہروز کا کھڑا ہونا مشکل ہو چکا تھا ۔ 

شاباش ۔۔۔۔۔ آیت ۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔ توں کر سکتی ہے :۔ حور کا قہقہہ نکلا تو ساتھ ہی اُسکی ہمت بڑھانی چاہی ۔ 

تیری اتنی جرات ۔۔۔۔؟ سرشار بہروز کو تکلیف میں دیکھ آیت کو بالوں سے پکڑ کھینچ گیا ۔۔۔ 

چٹاح ۔۔۔۔۔ 

تبھی اُسنے بے دردی سے آیت کے منہ تھپڑ برسانے شروع کیا ۔ 

برہان کو لگا تھا جیسے اُسکی جان پر کوئی گولیاں چلا رہا ہو وہ الٹے لٹکے ہوئے تڑپ رہا تھا ۔۔۔ 

ابھی تیزی ساری اکڑ نکلتا ہوں۔ وہ اتنا بولتے آیت کو عبایا اتارنے کے لئے پھاڑنا شروع ہوا ۔۔۔ 

کاشف جو ضبط لیے بیٹھا تھا ۔ اپنے باس کی عزت پر اٹھنے والی نگاہوں کو دیکھ گن لوڈ کر چکا تھا ۔ 

ٹھاہ!!!!!!!!

آہ ۔۔۔۔۔ جیسے ہی کاشف نے وہی سے بیٹھے گولی چلائی وہ سیدھی سرشار کے ہاتھ میں چھبی ۔۔۔ 

وہ درد سے کراہ اٹھا تھا ۔ آیت جو اُسکے تھپڑوں سے ہی نڈھال ہو گئی تھی 

منہ سے نکلتے خون کو دیکھ دیکھ وہی گری ۔ وہ بہوش ہو چکی تھی ، 

گولی کس نے چلائی ۔۔۔؟ سب الرٹ ہوئے تھے ۔،جبکے اپنے آدمیوں کو جائزہ لینے کا بولا ۔ 

اس لڑکی کو تو ۔۔۔ بہروز پھر سے آیت کی طرف بڑھا ۔ 

ٹھاہ!!!!!!!! 

اس سے پہلے وہ آیت کو ہاتھ لگاتا اب کہ گیٹ کے پاس سے داخل ہوتے عاطف شاہ نے قہر لیے سب کو دیکھا تھا ؛۔

“ خبردار اگر اُس کے پاس بھی گئے ۔ وہ دھاڑتے بہروز پر بندوق تنے قریب آیا ۔ 

عاطف ۔۔۔ یہ کیا کر رہا ہے توں۔۔۔؟ یہ ہمارے دشمن ہے ۔۔۔!! 

سرشار چیخا تھا ۔ جبکے وہ اُسکو دیکھ حیران بھی ہوا ۔

دشمن یہ سب نہیں تم ہو ۔۔۔۔ جلاد انسان ۔۔۔ تیری جان لے لوں گا ۔، وہ دھاڑا تھا اور ساتھ ہی اُسکے پیر پر  گولی چلاتے سرشار کو زمین پر بٹھایا ۔ 

 میں نے اُس دن تجھ پر یقین کیا ۔ توں نے میرے ساتھ کیا کیا ۔۔۔؟ توں خود کو میرا بھائی بولتا ہے ۔ 

وہ میرے بچے کی ماں بنے والی تھی ، کیا کیا تم نے ۔۔۔؟ میری بیوی پر الزام لگاتے اُسکو مجھ سے دور کر دیا ۔ 

وہ معصوم تھی ، وہ سچ کہہ رہی تھی ۔ عاطف کا چہرہ بھیگا تھا۔ جبکے اُسکے منہ سے یہ سب سن سرشار شاک ہوا ۔ 

عاطف ۔۔۔۔ تمہاری اتنی ہمت ۔۔ اپنے بڑے بھائی پر گولی چلائی ۔ وقار شیزاری اُسکے قریب گئے ۔ 

یہ میرا بھائی نہیں ہو سکتا ۔ اس نے مجھے ختم کر دیا ، ان کو بتایا تھا میں نے کہ میں نادیہ کو لاہور لے کر جا رہا ہوں 

انہوں نے مجھ سے میری ہر خوشی چھین لی۔ وہ روتا سرشار کو کوسنا شروع ہوا ۔ 

کاشف چپکے سے اپنی جگہ سے نکلتے دبے پاؤں آگے بڑھا ۔ اور آہستہ سے چلتے وہ اُس ہال کے دوسرے راستے سے نکلتے باہر گیا ۔ 

میں جان سے مار دوں گا ۔اس سے پہلے وہ گولی چلاتا بہروز نے اُسکے ایک مکہ گردن پر مارتے اُسکو نیچے گرایا ۔ 

وہ اپنے ہوش سے بیگانہ ہوا تھا ، وقار شیزاری نے سرشار کی طرف گھور کر دیکھا تھا جیسے نظروں سے ہی کہا ہو 

دیکھ لیا ۔۔۔۔ سچ اُسکے سامنے آ گیا ۔ بابا سرکار ۔،۔۔  

“ لو بھئی اس محفل کا مین کھلاڑی بھی آ گیا ۔ اس سے پہلے سرشار کچھ بولتا وقار شیزاری فیصل شاہ کو آتے دیکھ اونچی آواز میں بولا ۔۔۔ 

حور کے ہاتھ کھل چکے تھے وہ ویسے ہی خاموشی سے بیٹھی چونکہ ابھی سب کا دھیان فیصل شاہ کی طرف تھا ۔ 

وہ کوئی بھی جلد بازی دکھاتے ہوئے کام خراب کرنا نہیں چاہتی تھی ۔ 

 برہان بھی غصے کو ٹھنڈا رکھتے عقل کا استعمال کرنا شروع ہوا تھا ۔

وہ جان گیا تھا کہ اُسکو غصے سے نہیں عقل مندی سے کام لینا ہوگا۔ 

اگر وہ ایسے ہی غصہ کرے گا تو وہ لوگ زیادہ آیت اور حور کو تکلیف دینا شروع ہونگیں۔۔۔۔

ابھی تک سب کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔۔۔! کس چیز کا انتظار کر رہے ہو تم سب ۔۔۔؟ 

ماروں ان سب کو اور ان کی کہانی یہی ختم کرو ۔ فیصل شاہ کوفت سے برہان اور سرحان کو دیکھ بولا 

وہ جانتا تھا کہ برہان کو یقیناً سب کو پتا چل گیا ہے ، اسی لیے وہ اتنا غصہ دکھا رہا تھا ۔ 

وہ کوئی بھی دیر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا جلد سے جلد برہان مر جائے اس سے پہلے کہ وہ اُسکا موت کا فرشتہ بنے ۔ 

“ کیسے ہو ۔۔۔ برہان شاہ ۔۔۔؟ مجھ سے ملنا کر کیسا لگا ۔۔۔؟ فیصل شاہ برہان کے قریب گیا تھا

آہ۔۔۔۔۔  

تبھی برہان نے ویسے ہی لٹکے ہوئے اپنا سر زور سے فیصل شاہ کے سر میں دے مارا ۔۔۔۔ 

ارے ۔۔۔ دھیان سے فیصل شاہ ۔۔۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں لگتا ہے تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔۔ 

ڈر کی وجہ سے حالت ٹائٹ ہوئی پڑی ہے ۔ فکر نہیں کرو آج سب حساب برابر ہونگیں ۔ 

توں نے جتنی بے رحمی سے میری ماں اور باپ کو مارا میں اُس سے دگنی بے رحمی سے تجھے ماروں گا ۔ 

فیصل شاہ کے ناک سے خون نکلا تو وہ غصےسے برہان کو گھور گیا : 

تبھی اُسکی رسی تو تھوڑا ڈھیل دیتے پانی جو اُسکے نیچے رکھا گیا تھا ، اُس میں سر منہ ڈوبایا۔۔۔ 

توں مجھے مارے گا ۔۔۔؟ وہ پانی میں سے اُسکا سر اٹھاتے واپس سے ڈوبی لگوا گیا ۔ 

کاشف ہاشم اور خادم کے اُسکا رومال باندھتے اپنے ساتھ لایا تھا ۔ 

وہ سب لوگ برہان کی طرف لگے ہوئے تھے ،جبکے کاشف لوگ آہستہ سے سرحان والی سائیڈ پر گئے تھے ۔۔۔ 

جیسے تیرے ماں باپ کو مارا اب تم بہن بھائی کے ساتھ اس سرحان شاہ  کو بھی ختم کروں گا ۔ 

بہت تنگ کیا ہے تم لوگوں نے ۔ جب دیکھو اپنی طاقت دکھاتے رہے ہو ۔ 

فیصل شاہ برہان کا چہرہ پانی سے اوپر اٹھاتے دھاڑتے بولا ۔ 

تجھے اگر میں نے ویسی موت نا دی جیسی توں نے میری ماں کو دی میرا نام برہان شاہ نہیں ۔۔۔ 

وہ بھی گرجدار لہجے میں پھنکارا ۔ 

ابھی بھی توں ہٹ نہیں رہا ۔ وہ غصے سے برہان کے چہرے پر مکے مارتا ساتھ ہی دھاڑتے اُسکا خون سے لت پت چہرہ پانی میں ڈبو گیا ۔ 

آیت جو بہوش تھی ۔ آہستہ سے آنکھیں کھولتے ساتھ ہی بھاری ہوتا سر اٹھا گئی :، جیسے ہی سامنے دیکھا 

فیصل شاہ کو دیکھتے وہ باقی سب کو دیکھنا شروع ہوئی جو اُسکے آگے کھڑے اُسی طرف تماشہ دیکھ رہے تھے 

وہ دھیرے سے اٹھی تھی۔ حور نے اُسکو دوسری طرف جانے کا اشارہ کیا ۔ 

وہ جوتی پیروں سے نکالتے آرام سے اٹھی تھی ۔ کاشف لوگوں نے آیت کو دیکھا تھا ۔ 

وہ گن ہاتھ میں دباتے وہاں سے سب کی نظروں سے بچتے غائب ہوئی ۔ 

حور بھی اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔ اور ویسے ہی آیت کے پیچھے نکلی ۔ سرحان دیکھ خوش ہوا تھا ۔ 

دونوں لڑکیاں وہاں سے نکل چکی تھی ۔ اُسکو اب کسی چیز کا خوف نہیں تھا ۔ 

آیت ۔۔۔۔ حور آیت پاس جاتے ہی اُسکو چہرے کو دیکھنا شروع ہوئی

توں ٹھیک ہے ۔۔۔۔؟ وہ فکرمندی سے اُسکے منہ سے نکلتے خون کو دیکھ پوچھ گئی ۔ 

مجھے ایسے لگ رہا ہے ۔ جیسے یہاں کچھ بہت برا ہونے والا ہے ، ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔ برہان ۔۔۔ آیت بولتے بولتے روئی تو حور نے اُسکو خود سے لگایا ۔ 

“ آیت برا تو ہوگا ۔لیکن ہمارے ساتھ نہیں ۔ آج فیصل شاہ کی کہانی ختم ہو گئی۔ 

حور کی آنکھوں میں بھی خون بھرا تھا ۔ وہ اتنا کہتی اُسکو خود میں بھنچ گئی ؛۔

ہمیں کسی طرح جان کو کھولنا ہے ۔ رسی اوپر سے باندھی گئی ہے تو ہمیں اوپر جانا ہوگا ۔ 

وہ اتنا کہتی آیت کو ویسے ہی لیتے اوپر کی طرف بڑھی ۔ 

“ میں جانتا ہوں تیرے جان کس میں ہے ۔توں بھی اپنے باپ کی طرح ہے ۔ 

مجھے خود پر بہت غصہ ہے کہ میں نے پہلے ہی کیوں نہیں سوچا کہ تیری عادتیں ایسے ہی مراد سے نہیں مل سکتی 

کوئی تو وجہ ہو سکتی ہے ۔ اگر مجھے تھوڑا سا بھی اندازہ ہو جاتا خدا کی قسم تجھے اُسی وقت مار دیتا ۔۔۔۔ 

کوئی نہیں دیر تو ابھی بھی نہیں ہوئی ۔ اس بار بھی وہی سب کچھ کروں گا ۔ 

لیکن اس بار تیری بیوی کو اکیلا مارنا نہیں ، تجھے بہت سے راز بھی بتایا ہوں

میری پہلے دن سے تیری بیوی پر نظر تھی ۔ اف کیا خدا نے بنایا ہے اُسکو ۔۔۔ 

فکر نہئں ۔۔۔ میں اُسکو ماروں گا نہیں ۔ بلکے تجھے مار کر اُسکو اپنے کوٹھے کی شان بناؤں گا ۔۔۔ 

وہ جان بوجھ کر ایسے بولا تھا ، تاکہ اُسکے بدن میں آگ لگے ۔ 

ویسے مجھے ایک بار اُسکے حسن کا نظارہ کرنا چاہیے ، آخر کتنے سالوں بعد اُسکو ایسے جوانی کے حسن میں دیکھوں گا ۔ 

وہ اتنا بولتے برہان کو ویسے ہی چھوڑ سب سے آیت کا پوچھ گیا ۔،

وہ رہی ۔۔۔۔۔ سرشار کہتا ساتھ ہی مڑا تھا ۔ خالی جگہ دیکھ ٹھٹکا ۔ 

یہ لڑکیاں کہاں گئی ۔۔۔۔؟ وہ دھاڑا تھا ۔ چونکہ حور بھی اپنی جگہ پر نہیں تھی ۔ 

جلدی ڈھونڈوں سالوں۔۔۔۔۔ تم لوگوں کو نگرانی کے لیے یہاں رکھا ہے وہ گن نکالتے غصے سے چیخا تو سبھی بھاگے ۔۔۔ 

بہروز وقار فیصل وہ سب بھی بھاگے ۔ 

ہمیں کسی طرح ابھی سرحان سر کو کھولنا ہوگا۔ ان کو کھولنا آسان ہے ۔ برہان سر کو بعد میں دیکھتے ہیں۔ 

ان کی حالت کافی خراب لگ رہی ہے ۔ ہاشم بولتے دبے پاؤں آگے بڑھا تھا ۔

اور جاتے ہی سرحان کی زنجیروں کا نشانہ باندھتے فائز نکلا ۔،

سرشار پلٹا تھا ۔ اس سے پہلے وہ کوئی گولی چلاتا کاشف لوگوں نے بھی گولیاں چلانی شروع کی

سرشار تیزی سے ڈبوں کے پیچھے چھپا ۔ سرحان کی زنجیریں ٹوٹی ہی تھی ۔،

کہ حور اور آیت نے اوپر دو غنڈوں کو مارتے تاروں والی جگہ پر جاتے تاروں کو دیوار پہ باندھے کیل سے کھولنا شروع کیا ۔

جیسے ہی تار کھولی دونوں نے زور لگاتے اُسکو آہستہ آہستہ نیچے کیا ۔ 

برہان جس کی آنکھیں بند ہو رہی تھی ۔ تار نیچے جاتے دیکھ ہاشم کو آواز دی 

وہ تیزی سے چاقو برہان کی طرف اچھال گیا ۔ برہان نے چاقو کو جس طرح پکڑا تھا ۔ وہ دیکھ سرشار شاک ہوا ۔ 

چونکہ اُسکے ہاتھ باندھے ہوئے تھے ۔ برہان نے ویسے ہی تار پر چاقو مارا تو تار ٹوٹتے وہ نیچے زمین پر دھر سے گرا ۔

ہاتھ ویسے ہی باندھے ہوئے تھے ، خادم تیزی سے برہان کی طرف لپکا ؛۔

آہ ۔۔۔۔۔ 

حور جو نیچے دیکھ رہی تھی بہروز نے بالوں سے دونوں کو پکڑتے دوسری طرف پھینکا ۔ 

حور کے پیٹ میں درد اٹھا تھا ۔ وہ مشکل سے خود کے پیٹ کو نیچے لگنے سے بچا پائی تھی۔۔۔۔  

اس لڑکی کو یہی چھوڑ دے ۔ فیصل شاہ بہروز کو بولتے آیت کی طرف بڑھا ۔ 

توں چل ۔۔۔ وہ حور کو بالوں سے کھنچتے کھڑا کرتے ساتھ گھسیٹنا شروع ہوا ۔

آیت فیصل شاہ کو دیکھ کانپی ، جیسے بھی تھا وہ ماضی والا خوف آج بھی ختم نہیں کر پائی تھی ۔،

اُسکے ہاتھ پیر یکدم ٹھنڈے پڑے تھے ۔ وہ ویسے ہی پیچھے کو کھسکی تھی ۔ 

یہاں کیا چل رہا ہے ۔۔۔۔؟ وقار شیزاری جو واپس ہال میں داخل ہوا ۔ 

سب کچھ دیکھ ٹھٹکا ، تبھی برہان بھی آزاد ہوتے گن ہاتھ میں دبا چکا تھا ؛۔

سرحان بھی آگے بڑھا تھا ۔،میں بتاتا ہوں وہ کہتے ساتھ ہی وقار شیزاری کو گردن سے دبوچ گیا ۔

عاطف بھی ہوش میں آیا تھا ۔ وہ اچانک سے ہال کا نقشہ اتنا بدلا دیکھ حیران ہوا ۔ 

برہان نے بنا دیکھے دو آدمیوں کو گولیاں مارتے قدم سرشار شیزاری سے کی طرف بڑھائے ۔۔۔۔۔ 

بہت شوق ہے تجھے ۔۔۔۔۔ سرشار جو دوسری طرف گولیاں چلانےمیں مگن ہوا تھا ۔ برہان چاقو کا استعمال کرتے اُسکے کندھے پر وار کر گیا ۔ 

آہ ۔۔۔۔۔ وہ تڑپتے پلٹا تھا ۔ جبکے 

سکی چیخی پورے ہال میں گونجی تھی ۔ 

تبھی دوسری طرف سرحان نے وقار شیزاری پر مکے برساتے اسُکا سر دیوار میں دے مارا ۔۔۔۔ 

جیسے ہی وقار شیزاری کا سر لگا وہ پورا گھوم اٹھا ۔ سرحان کے راستے میں ایک غنڈہ آیا تو وہ اُسکو بھی اچھے سے صاف کرنا شروع ہوا ۔۔۔۔

بہت شوق ہے میری بیوی ۔۔۔۔ پر ہاتھ ڈالنے کا ۔۔۔؟؟وہ جنونی سے ہوتا اُسکا چہرہ دبوچتے چاقو کندھے سے نکال اُسکے ہاتھوں پہ دے پہ دے مارنا شروع ہوا 

وہ تڑپتے نیچے گرا تھا ۔ جبکے اُسکی چیخیں گونجنا شروع ہوئی ۔ توں میرا انتظار کر ۔۔۔ واپس آتا ہوں۔ 

اُسکو اچانک سے آیت اور حور یاد آئی تھی ۔ سرحان بھی ہال سے نکلتے دوسری طرف بھاگ ۔۔۔۔ 

برہان سرشار کو ویسے ہی تڑپ میں چھوڑ آگے بڑھا ، وہ خود کی حالت کو اگنور کرتے صرف جنونی سا بھاگا ۔

“ کیا ہوا ۔۔۔۔ آیت ۔۔۔۔ تم مجھ سے ڈر رہی ہو ۔۔۔؟ 

کیوں ۔۔۔۔؟ وہ آیت کے قریب نیچے بیٹھا تھا ۔ جبکے آیت کی سانس بند ہونا شروع ہوئی ۔۔” 

وہ پھر بھی ہمت کرتے فیصل شاہ کو لات مارتی اٹھی اور بھاگی ۔،

وہ ویسے ہی بھاگتے سامنے والا ڈور کھول فیکڑی سے باہر نکلی ۔ 

فیصل شاہ سب کچھ بھول آیت کے پیچھے لپکا ۔ برہان جو مشکل سے ہر جگہ آیت کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ 

اب کہ اُسکو آواز دیتے پکارنا شروع ہوا ۔ اُسکو فیصل شاہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

میں جانتا ہوں آیت تم یہاں ہو ۔۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ تمہیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں تو تمہارا ماموں ہوں نا ۔۔۔ 

وہ لاتعداد گاڑیوں کے آگے پیچھے دیکھتے ساتھ ہی آیت کو کہنا شروع ہوا 

آیت نے اپنا سانس بند کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔” جبکے ڈنڈا دیکھ وہ اُسکو اٹھا چکی تھی ۔ 

مجھے پتا ہے ۔ تمہیں آٹھ سال پہلے کا سب کچھ یاد ہے : آو ایک بار ۔۔۔ میں اس بار کوئی زبردستی نہئں کروں گا۔ 

آیت اُسکی آواز اپنے قریب سے آتے سن مظبوط ہوتے غصے سے آنکھیں بھنچ گئی ۔ 

اُس رات ۔۔۔۔۔ 

بکواس بند کرو ۔۔۔ آیت چیختی غصے سے ڈنڈا مارتے اُسکو نیچے گرا گئی ۔ 

میں تیزی جان لے لوں گئی ۔ وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی وہ ویسے ہی پوری طاقت لگائے اُسکو اندھا دھند مارنا شروع ہوئی ۔۔۔۔ 

کتنی ہی دیر وہ اُسکو ایسے ہی مارتی رہی ، جب تھک گئی تو اُسکے قریب ہی گر گئی ۔ جبکے اُسکا آنسووں سے چہرہ بھیگا ۔ 

فیصل شاہ کی حالت خراب ہوئی تھی اتنی مار کر وہ اپنا سر گھمتا ہوا محسوس کرنا شروع ہوا۔۔۔ 

تجھے جو لگتا ہے نا۔۔۔۔۔ کہ آٹھ سال پہلے توں نے میرے ساتھ کیا ۔۔۔ 

فیصل شاہ ۔۔۔۔ توں نے زیادتی میرے ساتھ نہیں داتا بخش کی بیٹی پریشہ جو کہ داتا بخش کی آئمہ نامی بہن کی بیٹی تھی ۔  

اُسکے ساتھ کی ہے ۔ آیت پھولے سانس سے بولتی فیصل شاہ کو جیسے پورا ہوش میں لا گئی ۔۔۔ 

“ یہ کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔؟ آئمہ کی بیٹی ۔۔۔؟ وہ اک دم سے اٹھتے بیٹھا تھا ۔

جبکے آیت بھی تیزی سے اٹھتے کھڑی ہوئی ، تاکہ بھاگ سکے ۔۔۔ 

آہ ۔۔۔۔ !!! بتا مجھے توں جھوٹ کیوں بول رہی ہے ، میں نے تجھے ۔۔۔ 

میں جھوٹ نہیں وہی بتا رہی ہوں جو سچ ہے ۔توں نے پریشہ داتا بخش کی بیٹی کے ساتھ برا کیا ۔ 

“ خدا تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ آیت اپنے بالوں میں درد محسوس کرتی چیختے بولی ۔،

فیصل شاہ ۔۔۔۔ برہان جو اُسی ڈور سے باہر آیا تھا ۔ فیصل شاہ کو آیت کے بالوں سے پکڑے دیکھ جنونی انداز میں بھاگا ۔،

وہ اک دم سے گرجدار دھاڑ سن دو قدم کی بجائے  چار قدم آیت سے دور ہوا

آیت ۔۔۔۔ برہان کو دیکھ روتے نیچے گری تھی ۔ جبکے اُسکی آنکھیں مزید جھلکنا شروع ہوئی ۔۔۔۔ 

 توں مجھے مارے گا ۔۔۔؟ سرشار جو درد سے بلک رہا تھا ، عاطف کو دیکھتے پوچھا ۔ 

مار دوں گا ۔ آپ کو ہمشیہ کے لیے وہ کہتا ساتھ ہی گولی چلا گیا ۔ 

سرشار جس کے سینے پر گولی لگی تھی بے یقینی سے اپنے بھائی کو دیکھا 

 سرشار ۔۔۔۔۔ وقار شیزاری اپنے جوان بیٹے کو گرتے دیکھ بھاگا ۔ 

عاطف بیٹھتے رونا شروع ہوا تھا ۔ کاش آپ نے میرے ساتھ ایسا نا کیا ہوتا۔ 

عاطف ۔۔۔۔ اُسکا باپ روتے ساتھ ہی عاطف کو گھور گیا سرشار کی سانس ٹوٹی تھی اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا ۔

کیا قسمت پائی تھی ، جس بھائی کا سرشار نے اتنا کیا تھا وہی اُسکی موت بن کر سامنے آیا سرشار کی موت اُسکے بھائی کے ہاتھوں لکھی تھی ، 

آہ ۔۔۔۔ بہت ہمت ہے تجھ میں ۔۔؟ بہروز حور کو خود کو مارنے کئ کوشش کرتے دیکھ حور کے بال کھینچ گیا ۔ 

تبھی سرحان وہاں ناز ہوا تھا ۔ اور غصے سے بہروز کی طرف لپکا ؛۔

حور سرحان اور بہروز کو آپس میں لڑتے دیکھ اپنے پیٹ سے درد محسوس کرتی وہی نیچے بیٹھی تھی ؛۔

تجھے تیرے بھائی کا بدلا لینا تھا ۔ سرحان نے اپنی شرٹ نکالی ۔ آ۔۔۔۔ مجھ سے لے بدلا ۔۔۔۔ 

جانتا ہے تیرے بھائی کو میں نے وہ موت دی تھی ۔ سرحان شاہ نے ۔۔۔۔ اور میرے ہی حکم پر تیرے بھائی کی لاش پھینکی گئی ۔ 

تاکہ تجھے اُسکا منہ دیکھنا بھی نصیب نا ہو ۔ سرحان رگیں تنے ہی غرایا تو بہروز چوہان غصے سے اُسکی طرف بڑھا ؛۔

تیری اتنی ہمت ۔۔۔۔ برہان اندھا دھند فیصل شاہ کو مارنا شروع ہوا ۔

توں نے میری آیت کو چھوا جیسے ۔۔؟ وہ جنونی سا ہوتا دھاڑا ۔    

توں نے میری ماں کے ساتھ کیا کیا تھا ۔۔۔؟ وہ اُسکا خون سے لت پت چہرہ اٹھاتے دریافت کر گیا ۔،

ہاں ۔۔۔۔ وہ اک دم سے اٹھا تھا ۔ آیت اُسکی دھاڑ سن ساتھ عمل دیکھ رہی تھی ۔ 

ایسے ہی چاقو لیا تھا نہ ۔۔؟ وہ نیلی آنکھیں اُس پر گاڑھے ساتھ پوچھنا شروع ہوا 

فیصل شاہ کو خوف آیا تھا برہان سے ۔ نہ۔۔۔

مجھے،۔۔ معاف ۔۔۔۔ اس سے پہلے فیصل شاہ آگے کچھ بولتا برہان نے اُسکی گردن پر ویسے ہی چلایا جیسے اُسنے جنت کی گردن پر چلایا تھا ۔ 

وہ تڑپ کر اٹھتے بھاگا ۔ برہان نے زیادہ زور سے وار نہیں کیا تھا وہ جان بوجھ کر اُسکو یہ تکلیف اور وہی اذیت دیتے محسوس کروانا چاہتا تھا )۔

سرحان ابھی بہروز کو مار رہا تھا ، کہ حور نے چیختے سرحان کو آواز دی ۔ 

وہ اُسکو چھوڑ اُسکی طرف لپکا ۔ جبکے بہروز تیز تیز سانس لینا شروع ہوا 

“ کیا ہوا ۔۔۔ پری ۔۔۔۔ وہ بے چین سا ہوتا اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر گیا ۔

مجھے ۔۔۔ درد ہو رہا ہے ۔ کہیں ،۔۔ وہ خوف سے لرزی تو سرحان اُسکو اپنی بانہوں میں اٹھاتے بھاگا ۔

میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ۔ میرے بچوں کو ان دشمنوں نے آپس میں لڑا دیا ۔ 

وقار شیزاری اپنے بیٹے کی لاش دیکھ غصے سے اٹھتے گن لیتے باہر کی طرف لپکا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

اگلی قسط کل پوسٹ ہو گئی سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ 


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment