Pages

Thursday 23 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 109 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 109 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 109

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 109

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 109 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

حیا ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے حیا کلاس سے نکلتی حور یا انار سے ملتی ایان نے اسکا راستہ روکا ۔

حیا جو ایان کو کوئی موقعہ نہیں دینا چاہتی تھی بنا سنے پیچھے کو پلٹی اور کلاس میں گھسی ۔ 

ایان بھی پیچھے ہی لپکا ۔ کب تک بھاگنے کا ارادہ ہے ۔۔۔؟ وہ اُسکو بازو سے دبوچتے اپنے سامنے کر گیا 

حیا جو اس سب کے لیے تیار نا تھی اُسکے اچانک سے کھنچنے پر مقابل کے سینے سے ٹکرائی ۔ 

“ لیو می ۔۔۔۔۔ وہ دبی آواز میں غرائی ۔ 

کیسے چھوڑو دوں ۔۔۔۔؟ ہاں ۔۔۔۔۔؟ تم نے میرے جذبات کے ساتھ کھیلا کیسے تمہیں جانے دوں ۔۔۔؟ 

وہ بھی کہاں سکون میں تھا اُسکی ان حرکتوں کی وجہ سے آج شادی والے مسلے میں الجھ رہا تھا ۔،

گھر پر شادی کی تیاریاں شروع کرنے کا سوچ لیا گیا تھا ۔،

وہ جب جب عائشہ یا ارم مان لوگوں سے یہ سنتا اُسکا پارہ ہائی ہو جاتا ۔ 

کیا ملا یہ سب کر کہ ۔۔۔۔؟ مجھے میرے سوالوں کے جواب چاہیے ۔ تم نے عابش کو میرے قریب کیوں کیا ۔۔ ؟؟؟ 

وہ دھاڑ بڑھی آواز میں گرجتے ساتھ ہی اُسکے بازوں پر سختی بڑھا گیا :۔ 

میں کسی کو تمہارے قریب نہیں کیا ، وہ خود تمہارے قریب ہوئی ۔ حیا بھی منہ کے بل چیخی ۔ 

“ ہو ۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔ تو تم مجھے یہ بتا سکتی ہو ، اُسکو کیسے علم ہوا کہ کوئی لڑکی مجھے خط لکھتے تنگ کرتی ہے ۔۔۔؟ 

وہ اُسکو مزید تکلیف دیتے سپاٹ ہوا تو حیا بازوں میں درد کی شدت محسوس کرتے پوری طرح لرزی

بولو نہ ۔۔۔۔۔؟؟ جواب دو ۔۔۔۔؟ وہ اُسکو نظریں چڑتے دیکھ ہلکے سے جھٹکا دیتے بے حد قریب کر گیا ؛۔ 

حیا کی سانس جیسے اٹکی ، وہ کہاں کبھی اس قدر کسی کے قریب ہوئی تھی وہ تو پہلی بار ایان کو ایسے دیکھ رہی تھی

تمہیں کیا لگا تھا ۔۔۔۔۔؟ تم مجھے بے وقوف بناؤ گئی اور پھر اچانک سے اپنی جگہ پر کسی دوسری لڑکی کو لے آو گئی 

تو میں ویسے ہی بےوقوف بنتا چلا جاؤں گا ۔۔۔۔؟ ویسے داد تو تمہیں دینی بنتی ہے ۔ کیا انئٹلجٹ دماغ پایا ہے ۔ ویسے مجھے بےوقوف بنانے کا خیال آیا کہاں سے تھا۔۔۔؟ ایان جیسے اپنا سارا غبارہ نکال دینا چاہتا تھا ۔ 

ایک بات تو بتاؤ ۔۔۔! تمہاری محبت سچی بھی تھی یا بس ۔۔۔۔ 

انف۔۔۔۔ اس سے پہلے ایان مزید آگے بڑھتا حیا کی آنکھیں بھیگی تھی جبکے وہ پوری قوت سے اُسکی گرفت کو توڑنے کی کوشش کرتے دھاڑی ۔ 

میں نے جو بھی کیا جیسے بھی کیا ، اب ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے ، عابش تم سے محبت کرتی ہے اور تم اُس سے ۔۔ 

جاؤ اور اپنی نئی آنے والی زندگی کی تیاری کرو ۔ وہ بہتی آنکھوں سے بولی تو ایان اُسکو تڑپتے دیکھ اک دم سے چھوڑ گیا ۔ 

کس نے کہا میں اُس سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔؟ حیا خان ۔۔۔۔۔ میری بات اپنے اس انئٹلجٹ دماغ میں اچھے سے بٹھا لو ۔ وہ اُسکے ماتھے کی پٹی کو چھوتے چباتے بولا 

حیا ایک قدم اٹھاتے پیچھے ہوئی تھی مبادا کہیں پھر سے اُسکو جکڑ نا لے ۔ 

 میں نے محبت صرف تم سے کی ہے ، وہ اُسکو پیچھے جاتے دیکھ ایک لمبا قدم اٹھاتے سارے فاصلے مٹا قریب تر کر گیا ۔

حیا تو محبت سن ساکت ہی ہو گئی ، کیا اُسکی محبت اُسکا نصیب بنے والی تھی ۔۔؟ 

عابش کو تم جیسے میرے قریب لائی تھی ویسے ہی اُسکو میری زندگی سے نکلنا ہوگا ، چونکہ یہ کبھی مت سوچنا کہ میں ۔۔۔۔ ایان خان اُس سے شادی کروں گا ۔

تم ابھی مجھے جانتی نہیں ہو ، میں وہ خان نہیں جو اپنی خوشی کو قربان کرتے بڑوں کا فاصلہ مان خاموش بیٹھ جاؤں ۔ 

اگر مجھے سب کے سامنے شادی سے انکار کرنا پڑا ۔۔۔ تو پھر تمہارا نام بتانے میں بھی میں پیچھے نہیں ہٹاؤں گا ۔ 

کچھ سمجھی ۔۔۔۔؟؟ وہ اُسکو بازو سے ہلکا سا جھٹکا دیتے گویا 

تو حیا جو شاک تھی اُسکا روایہ دیکھ کنفیوز ہوئی ۔ 

 “ تو مائے لو ۔۔۔۔ وہ اب کہ اُسکو بازو سے چھوڑ پیار سے گالوں کو تھپکا گیا ۔ تم جلدی اس کام پر لگو ، 

ہممم۔۔۔۔۔ وہ ساتھ ہی ہلکے سے مسکرایا تو حیا کا گلا اندر تک خشک ہوا 

ایک اور بات ۔۔۔ وہ جو جانے لگا تھا واپس سے اُسکے سامنے ہوا ، تمہیں پتا ہے مجھے تمہارے بارے میں کس نے بتایا ۔۔۔؟ کہ تم وہ لڑکی ہو ۔۔۔۔؟ 

حیا جو ڈر پیچھے ہوئی تھی اُسکے ایسے بولنے پر کان کھڑے کر گئی 

چلو چھوڑو تم جان کر کیا کرو گئی ۔۔۔؟ وہ خود سے نفی کرتے آرام سے کلاس سے نکلا تو حیا تیزی سے بیگ لیتے بھاگی ؛۔

“ واٹ ۔۔۔۔۔۔ اُسنے اتنا کچھ کہا ۔۔۔؟ انار تو حیران ہی رہ گئی تھی 

ایان بھائی تجھ سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔؟ یہ سب کب ہوا ۔۔۔؟ حور بھی الجھی تھی ۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا جو میں نے اپنے کانوں سے سنا تم لوگوں کو بتا دیا ۔ 

ابھی مجھے خوف آ رہا ہے ، میں کیسے شادی روک سکتی ہوں۔۔۔؟ عابش اُسکو چاہتی ہے ، حیا جو ٹنشن میں مبتلا ہوئی تھی ۔ منہ میں ناخن ڈالتے بولی 

کس نے اُسکی مدد کی ۔۔۔؟ انار نے حیا کی چھوڑی بات پوچھی ۔ 

اُسنے نام نہیں بتایا ، حیا ویسے ہی ناخن چباتے بولی 

حیرت ہے۔۔۔۔۔ ہم سے زیادہ انئٹلجٹ کون آ گیا جس نے تمہارا پتا لگا دیا ۔۔۔؟ انار تو پوری طرح حیران ہوئی تھی :۔

دیکھو حیا ۔۔۔۔ ابھی مزید زندگیوں کو الجھانے کی ضرورت نہیں، اگر ایان بھائی نے تمہیں بتا دیا ہے کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں نہ کہ تمہاری اسُ کزن سے ۔۔۔

تو بہتر یہی ہے کہ تم عابش کو ہٹا کر ایان بھائی کے ساتھ سیٹ ہو جاؤ  

حور نے اُسکو سمجھایا ۔ 

حور یہ سب تمہیں آسان لگ رہا ہے ۔۔۔؟ پورے خاندان میں یہ بات پتا ہے کہ ایان اور عابش کی شادی ہونے والی ہے ، 

ایسے میں کیسے ایک لڑکی کا رشتہ توڑ میرا رشتہ ایان سے تہ ہو جائے گا ۔۔؟ 

ایان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، حیا نے وہی لہجا لیتے کہا 

ٹھیک ہے آگے اب جو بھی تجھے کرنا ہے توں خود کرنا کیونکہ میں مزید تیرے ساتھ بےوقوف نہیں بن سکتی۔ 

حور نے صاف اپنا ہاتھ اٹھایا تو انار خاموشی سے حیا کے ساتھ بیٹھی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

کیوں فون کر رہی ہو ۔۔۔؟ برہان جو تقربیا پندرہ سے بیس بار فون کاٹ چکا تھا اب کہ چڑاتے فون اٹھاتے دھاڑنے والے انداز میں پوچھا ۔ 

آیت کو آئے ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو پہنچا تھا ، وہ ہر روز برہان کو کال کرتی مسلسل میسج کرتی ، مگر وہ اتنا ضدی ہو چکا تھا 

کہ نہ ہی کوئی میسج سی کرتا تھا اور نہ کال پک کرتا ہے ، آیت اُسکا یہ بےہیو دیکھ بہت پریشان ہو چکی تھی ؛۔ 

وہ دو بار ناز اماں کو بتا چکی تھی جبکے وہ اپنی ماں سے بھی شکوہ کر چکی تھی لیکن سب بڑوں نے اُسکو صبر کرنے کا بولا 

چونکہ سب جانتے تھے کہ برہان شاہ ضدی ہے اور ابھی غصے میں ایسے کر رہا ہے ، وہ خود ہی آئے گا ۔ 

 ابھی بھی آیت نے اُسکو سونے سے پہلے کال کی تھی ، کہ شاید فون اٹھا لے ۔۔۔

اور اُسکا اندازہ ٹھیک نکلا تھا ، وہ کال اٹھا چکا تھا بنا سلام دعا کے وہ پھنکارتے بھڑکا ، 

“ کیا میں کال نہیں کر سکتی ۔۔۔؟؟ آیت جس نے ایک ہفتے بعد اُسکی آواز سنی تھی اُسکی دھاڑ سن آنکھوں میں نمی بڑھ گئی ۔ 

“ جلدی بتاؤ کیوں کال کی ۔۔۔؟ وہ جو صوفے سے ٹیک لگائے سگریٹ نوش فرما رہا تھا اُسکی نم پڑتی آواز سن دل میں سکون پاتے آنکھیں بند کرتے سر پیچھے صوفے پر گرا گیا ۔ 

“ کیا اتنی جلدی میں ہو ۔۔۔ کہ میرے سے بات کرنے کا بھی ٹائم نہیں مل رہا ۔۔۔؟ برہان کی بے رخی اُسکی آنکھوں سے بہتے پانی کو گالوں پر بہا گیا ۔ 

ایسا ہی کچھ سمجھ لو ۔ وہ ترک بہ ترک بولا 

تم۔۔۔۔۔ آئے نہیں ۔۔۔۔۔؟؟ میں سمجھ گئی کہ تم ناراض ہو ۔ مگر کال پک نہیں کرتے اور نہ ہی مسیج کا جواب دیتے ہو ۔ یہ ظلم کیوں مجھ پر کر رہے ہو ۔۔۔؟ 

اُسکی آواز نم ہوتی بھاری ہوئی تو مقابل کی بند نیلی آنکھیں بے چین ہوتی کھولی ۔

“ خاموش کیوں ہو گئی ہو ۔۔۔۔؟ وہ اپنے بے چین دل کو قابو رکھتے سپاٹ آواز بناتے بولا 

تمہاری آواز سننا چاہتی تھی ، بس اسی لیے ۔ وہ اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کرتی بالوں کو کیچر سے آزاد کرتی بالنکی کی اوڑھ چلی ۔۔۔

سن لی ،۔۔۔۔ وہ بھی کہاں فون بند کرنا چاہتا تھا ، لیکن ابھی اُسکو تنگ کرنے کے لیے اُسکے دل میں یہ بٹھانے کے لیے کہ وہ ناراض ہے تنک کر کہہ گیا ۔ 

ہممم۔۔۔۔۔ وہ ہنکارہ ہی بھر سکی تھی جبکے آواز تو جیسے گلے میں ہی کہیں غائب ہوئی تھی۔۔

ٹھیک ہے ، وہ اتنا بولتے جیسے فون بند کرنے کو ہوا ؛۔

سنو ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ فون بند ہوتا آیت نے تیزی سے کہا ۔ 

مقابل کے لب ہلکے سے مسکرائے جبکے وہ واپس سے صوفے سے ٹیک لگا گیا ؛۔

“ میں نہیں جانتی کہ تم مجھے مس کر رہے ہو یا نہیں ، لیکن ۔۔۔۔۔ “ آئی ریری مس یو ۔۔۔۔۔ آئی ریری ۔۔۔۔ وہ نم ہوتی آواز میں بولتے ساتھ ہی رونا شروع ہوئی 

جبکے ساتھ ہی اگلے پل فون کاٹ اپنے رونے کی آواز منہ میں دبا گئی ۔

“ آیت ۔۔۔۔۔؟ وہ اُسکے رونے کی آواز سن چکا تھا جبکے بنا دیر کیے کال واپس سے ملائی ۔۔۔۔۔ 

“ تم رو رہی ہو ۔۔۔؟ ابھی ایک رنگ گئی تھی کہ وہ ویڈیو کال اٹھاتے چھوٹی سی لال ہوتی ناک کو پھولا گئی ۔؛۔

 “ کتنا مس کر رہی ہو ۔۔۔۔؟ وہ اُسکا بھیگا چہرہ اپنی نظروں میں بھرتے معنی خیز ہوا 

مجھے صرف اتنا پتا ہے جب مجھے تم سے محبت کا احساس نہیں تھا تب تم میرے لیے بنا کچھ کہے ہی سب کچھ کر دیتے تھے 

جب سے اپنی محبت کا اقرار کیا ہے ، تم نے سوائے روٹھنے کے ابھی تک کچھ اسپشل نہیں کیا ؛۔

وہ شکوہ آمیز لہجا لیتی بولی تو برہان نے صدمے سے اُسکو دیکھا ۔

اور رہی بات یاد کرنے کی ، اس سے پہلے کہ برہان کچھ بولتا وہ اپنے بکھرے بالوں کو شانوں سے پیچھے ہٹی بولی 

“ دن جب شروع ہوتا ہے تو فون کو دیکھتی ہوں کہ تم نے شاید کوئی کال یا میسج کا جواب دے دیا ہو ۔،

سارا دن تم سے دور ہو کر بھی تمہارے بارے میں سوچ رہی ہوں ساہیوال میں ہوتے ہوئے بھی میں یہاں دماغی غائب ہوں۔۔۔ 

ایسا لگ رہا ہے تم میری بری عادت بن گئے ہو، وہ عادت جو میں چھوڑ نہیں سکتی ۔ وہ بھیگی پلکوں کو فون کی اسکرین پر موجود ضدی شاہ کے چہرے پر ٹکا گئی 

آیت ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بنا بھی تو بری عادت ۔۔۔۔؟ وہ صدمے سے لاچارہ ہوتے گویا ۔ 

ہاں بری عادت ۔۔۔۔ بری عادتیں ہی تو ہوتی ہیں جو کبھی بھی چھوٹتی ہی نہیں چاہیے کچھ بھی ہو جائے انسان ختم تو ہو سکتا ہے لیکن اُسکی عادتیں کبھی بدل نہیں پاتی ۔ 

وہ ویسے ہی بولی تو برہان نے غور سے اُسکا چہرہ دیکھا ؛۔

کوئی جاؤ اب میں بات کرنے والی نہیں ، وہ دور تھا اُس سے لیکن پھر بھی اُسکی نظریں اُسکو جھلس رہی تھی وہ اتنا بولتے روٹھنے والے انداز میں منہ پھیر گئی 

آیت اپنی ان زلفیوں کو پیچھے کرو ، وہ جو محبت سے اُسکا دیدار کر رہا تھا اچانک سے بالوں کی لٹوں کو چہرے پر آتے دیکھ بھڑکا ۔۔۔۔

نہیں کروں گئی ، کیا کر لو گئے ۔۔؟ آیت کو بھی جیسے مزا آیا تھا ۔ 

خود آ کر ہٹا لو ، کر سکتے ہو ۔۔۔؟ آیت جس کے چہرے پر خوشی ٹپکی تھی ساتھ ہی ڈمپل نمایا کر گئی 

آیت ۔۔۔۔۔ وہ سینجدہ ہوا تھا جبکے غصے سے لمبی ناک مزید چمکی ۔ 

مسٹر عمران برہان شاہ ۔۔۔ اگر آپ کو اتنی تکلیف ہو رہی ہے تو خود آ کر میرے بالوں کو ہٹا دیں ، 

بائے ۔۔۔۔۔ وہ اتنا بولتی ساتھ ہی کھلھلاتی مسکراہٹ کے ساتھ فون بند کر گئی تو برہان اُسکے چہرے پر چھائی خوشی دیکھ لمبا سانس خارج کر گیا ؛۔ 

جانا ہی پڑے گا ، میں زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتا ضدی توڑنی ہو گئی وہ ویسے ہی صوفے سے ٹیک لگائے بڑبڑایا تو خود کی ضدی کا سوچ دل سے مسکرایا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

داتا بخش میری بات مان لے ، یہاں میرپور میں غفار چوہدری سے ملاقات کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔ 

ہم لاہور میں مل لیں گئے ابھی توں یہاں سے چل ، توں جانتا نہیں سلطان شاہ نے تجھے پکڑنے کا کام اپنے بیٹے سرحان شاہ کو دے دیا ہے ، جانتا ہے توں ۔۔۔۔ اُسکے آگے کام کرنے والے سبھی آدمی لوگ صفدر شاہ کے پالے غنڈے ہیں ۔ 

وہ تجھے کسی بھی حال میں زندہ پکڑنا چاہتے ہیں ، توں اپنی بیٹوں کا سوچ چل میرے بھائی ۔۔۔ 

قادی داتا بخش کو غفار چوہدری کے میرپور والے آفس میں جانے سے روک رہا تھا ۔ وہ دونوں اس وقت سڑک کو پارہ کرنے کی کوشش میں مگن تھے

دیکھ قادی ۔۔۔۔۔ میرے اوپر میرے مراد سائیں بابا کا بہت بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے ۔ میں جلد سے جلد چاہتا ہوں کہ سب کچھ ٹھیک کر دوں 

غفار چوہدری مراد سائیں کا خاص وکیل ہی نہیں اُسکا جگری دوست بھی تھا 

لندن میں جب میں میر مراد سائیں کے ساتھ گیا تھا تب اُس سے ملا بھی ۔۔۔

ابھی وہ یہاں میر مراد شاہ کی زمینوں اور جائیداد کا فیصلہ سنانے آیا ہے ۔ 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ غلط کر دے مجھے اُسکو سچائی بتانی ہے داتا بخش تہ کر کہ آیا تھا ۔ وہ موقعہ آتے ہی سڑک پار کرتے آگے بڑھا تو قادی خاموشی سے پیچھے ہی اُسکے لپکا ؛۔

اور جو تیری جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں ، ان سب کا کیا ۔۔۔؟ وہ اُسکے پیچھے بھاگتے ساتھ ہی قدم اٹھانا شروع ہوا تو پوچھا ۔ 

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں ان سب کو سچ بتا سکتا ہوں ، لیکن مسلۂ یہ ہے کہ ان کے آدمیوں میں ہی فیصل شاہ اور وقار شیزاری لوگوں کے آدمیوں چھپے ہوئے ہیں ۔ 

یہی وجہ ہے کہ میں پہلے ہی دنیا میں کسی چیز کا اعلان کرنا نہیں چاہتا 

وہ اتنا بولتے آگے بڑھتے دوسرا سڑک پار کر گیا تو قادی اپنا ماتھا صاف کرتے پیچھے ہی ہوا ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال ۔۔۔۔۔

کیا یہ سچ ہے ۔۔۔۔؟ فیصل شاہ جو اپنے بیٹے جمال کا انتظار کر رہا تھا ۔ فون پر اپنے خبری سے سن اک دم سے اٹھتے سے بیٹھا ۔۔۔۔

میری بات کان کھول کر سنو ، اس داتا بخش کو کسی بھی قمیت پر میرپور میں پکڑو ، یہ بچنا نہیں چاہیے ، 

فیصل شاہ کی حالت تو جیسے لرزی تھی ، وہ پوری طرح کانپ اٹھا تھا کہ داتا بخش ابھی تک زندہ ہے ۔ 

اُسکو لگا تھا کہ ابھی تک تو وہ مر گیا ہو گا اور اُسکے سبھی راز بھی چھپ گئے ہونگے ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ؛۔

داتا بخش ۔۔۔۔۔!! جمال جو فیصل شاہ سے دو دو ہاتھ کرنے آیا تھا ، داتا بخش نام سن چونکا ۔ 

ضرور یہ انسان میرے کسی کام آ سکتا ہے ، وہ بھی سوچ چکا تھا ۔ تبھی فیصل شاہ نے اپنے بیٹے کو دیکھا 

ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں، وہ جمال کو دیکھ تیزی سے فون رکھتے آگے بڑھا ۔ 

خبردار اگر تم نے میرے قریب آنے کی کوشش بھی کی تو ،۔۔۔ اس سے پہلے فیصل شاہ جمال کے گلے لگتا جمال نے ہاتھ ہوا میں سامنے اٹھاتے فیصل شاہ کو روکا ۔ 

دیکھو جمال ۔۔۔۔۔ ہم آرام سے بات کرتے ہیں چلو بیٹا ہم ہماری حویلی میں چلتے ہیں یہاں ۔۔۔۔۔ 

یہاں کیا مسلۂ ہے ۔۔۔۔؟ آپ اپنی حویلی چھوڑ یہاں شاہ ہاؤس میں ہی تو شفیٹ ہو گئے تھے ۔ 

ڈر لگ رہا ہے کہیں کوئی ہماری باتیں نہ سن لے ۔۔۔؟ جمال بھی جان بوجھ کر یہاں چلا آیا تھا ۔ 

وہ فیصل شاہ کو ڈرانا چاہتا تھا ، اسی لیے وہ ایسے بےہیو کر رہا تھا ؛۔ 

تمہیں کیا لگا تھا فیصل شاہ ۔۔۔۔ تم اپنی زندگی میں اتنے بڑے بڑے گناہ کر کہ آگے بڑھتے چلے جاؤ گئے تو کوئی تمہیں کچھ پوچھ نہیں سکے گا ،

یا پھر تمہیں کوئی پکڑ نہیں سکے گا ۔۔؟ کیا سوچ کر تم نے اتنا کچھ کیا ۔۔۔؟ 

ایک سوال کا جواب دو ۔۔۔۔۔! اور کتنے لوگوں کی جانیں لینے والے ہو ۔۔؟ 

جمال کا بھرا دل جیسے پھٹنے کو ہوا تھا فیصل شاہ جو اُسکے ایسے بولنے سے خوف میں پڑ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے جلدی سے روم کا ڈور لاک کیا ۔ 

دیکھو بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔ 

میں تمہارا بیٹا نہیں ۔ وہ سپاٹ ہوتا دھاڑا تو فیصل شاہ ڈرتے ایک قدم پیچھے ہوا ، اُسکی آنکھوں میں وہ جلتی آگ دیکھ گیا تھا جو کسی کو بھی تباد کر سکتی تھی ۔ 

میں صرف آئمہ کا بیٹا ہوں ، ُاس آئمہ کا جس کو تم نے استعمال کر کہ پھینک دیا ۔ 

اُس آئمہ کا ۔۔۔۔۔ جس کو تم نے جنت کوٹھے کی ملکہ بنایا تھا ۔ وہ قہر بھری نظروں سے آگ برساتے بھڑکا تو فیصل شاہ کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ؛۔

کیا ملا یہ سب کر کہ ۔۔۔۔۔؟ جمال کی آنکھیں جیسے بھری تھی ، تم نے میری ماں کا استعمال کیا ، کیا ہو جاتا اگر تم اُسکو عزت دے دیتے ۔۔۔۔ 

کیا تم اُسکو اُس گندہ سے نکال نہیں سکتے تھے ، تم چاہتے تو میری ماں کو عزت اور وقار دے سکتے تھے کیا مانگا تھا اُسنے تم سے ۔۔۔؟ جو تم نے اُسکا یہ حال کیا ۔۔؟ 

جمال بھیگے چہرے سے فیصل شاہ کا جیسے دل بند کرنے کو ہوا ۔ 

تم نے ۔۔۔۔ وحشی انسان تم نے ۔۔۔۔ میری ماں ہی نہیں بڑی امی کو بھی دھوکا دیا ہے۔ 

تم نے میری ماں پر جو ظلم کیا وہ کم تھا جو اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے تم نے آیت کا بچپن چھین لیا ، 

میں کبھی بھی تمہیں معاف نہیں کروں گا ، وہ اک دم سے اپنے آنسووں صاف کر گیا ۔ 

جتنے ظلم تم نے کیے ہیں ان سب کا حساب لوں گا ، کسی کے لیے تمہیں بخشوں گا نہیں ، اگر میری ماں مجھے زندہ نہ ملی تو خدا کی قسم فیصل شاہ تمہاری زندگی برباد کر دوں گا 

مجھے میری بہن اور ماں دونوں ہر صورت میں مل جائیں دعا کرو ۔ 

اگر وہ مل گئی تو تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں گا تمہارا سب کچھ ایسے ہی آباد رہے گا 

اگر وہ نہ ملی تو سمجھ لینا تمہاری موت تمہارے بہت قریب ہے وہ انگلی اٹھاتے دھاڑتے پھنکارا تو فیصل شاہ کا سانس جیسے گلے میں ہی اٹکا ۔

اسماء بیگم کو لگا تھا جیسے اُن کی زمین کسی نے پیروں تلے کھینچ لی ہو 

ان کے آنکھوں میں لاتعداد آنسو بھرے تھے ، وہ بے مرتے قدموں سے مڑی تھی 

آیت ،۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے گستاخ کانوں سے کیا سن گئی تھی آیت میری بچی ۔۔۔۔۔ وہ مشکل سے بول پائی تھی 

ان کا شوہر ایک جانور تھا ان کو جیسے یقین کرنا مشکل لگا ہو 

جمال جو روم سے نکلا تھا اسماء بیگم کو اپنے روم میں داخل ہوتے دیکھ چونکا ۔

کہیں انہوں نے کچھ سننا تو نہیں۔۔۔۔؟ وہ خود سے گھبرایا وہ ان کی زندگی برباد کرنا نہیں چاہتا تھا اُسکو اپنی اس بڑی امی سے محبت تھی جس نے ہمشیہ اُسکو محبت کی تھی ؛۔

میری ۔۔۔۔۔ بچی کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اسماء کا دل جیسے بند ہونے کو آیا 

“ یااللہ ۔۔۔۔۔ یہ سب سننے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئی ۔۔۔۔؟ اے میرے اللہ یہ کیا ظلم میری پھول سی بچی پر کر دیا ۔۔۔؟

جمال ۔۔۔۔ فیصل کا بیٹا ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ جیسے سبھی باتیں ذہین میں گھومتی چلی گئی ۔ 

وہ مرتے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں سے آیت کو کال ملا گئی وہ اُسکو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتی تھی ؛۔ 

اُن کے سینے میں جیسے درد اٹھا تھا وہ ایک ہاتھ دل پر رکھے 

آیت جو سو رہی تھی اچانک سے فون کی بیٹ سن منمناتے اٹھی ، کہ شاید برہان کی کال ہو ۔۔۔ 

وہ ویسے ہی آنکھیں بند بیڈ پر ہاتھ مارتی فون اٹھا گئی ، 

ہاں بولو ۔۔۔۔ ضدی شاہ ۔۔ بیوی کی یاد کیسے آ گئی ۔۔۔ 

وہ ویسے ہی اپنے دھیان میں بولی ۔ 

آیت ۔۔۔۔!! اسماء بیگم کی نم دھیمی پڑتی آواز سن آیت اک دم سے لیٹے سے بیٹھی ۔اور فون کان سے اتار دیکھا 

“ بڑی امی ۔۔۔۔۔ وہ نمبر دیکھ واپس سے فون کان سے لگا گئی ۔ بڑی امی ۔۔۔ اس وقت فون ۔۔۔؟ جانے کیوں اُسکا دل گھبرایا تھا ؛۔

آیت ۔۔۔۔۔ اسماء بیگم کی آواز مسلسل مدھم ہوتی جا رہی تھی ، آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے 

م۔۔۔۔ مجھے معاف ۔۔۔۔ کر دو ۔۔۔ میں تمہیں جانور سے ۔۔۔ بچ ۔۔۔۔ نہیں سکی ۔۔۔۔ اسماء بیگم جس کا دل درد سے کراہ اٹھا تھا 

اپنے دل پر ہاتھ کو سختی سے رکھے مشکل سے الفاظ ختم کر پائی تھی جبکے تھبی ان کی نظر سامنے جمال پر پڑی تھی ؛۔ 

جو ساکت تھا ۔ اسماء بیگم کے ہاتھ سے فون گرا تھا وہ جمال کو دیکھ ہلکے سے روتی مسکرائی اُسکو پاس آنے کا جیسے اشارہ کیا تھا

“ بڑی امی ۔۔۔ جمال ان کو دیکھ سمجھ گیا تھا کہ وہ سب کچھ سن چکی ہیں ۔ 

بڑی امی ۔۔۔ آیت اسماء بیگم کے منہ سے الفاظ سن شاک ہو چکی تھی ؛۔

آیت کی آنکھیں بھیگی تھی ، وہ بیڈ سے اٹھی تھی ، اسُکو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا بولے ۔ کیا اسماء امی کو سب کچھ پتا چل گیا ۔۔۔؟ وہ صرف اتنا ہی سوچ سکی تھی ؛۔۔

بڑی امی ۔۔۔۔۔ وہ فون کان سے لگائی بولی اُسکا دل جیسے خوف میں مبتلا ہوا ؛۔

ماما ۔۔۔۔۔۔ پاپا ۔۔۔ آیت دوپٹہ لیتی بھاگی تھی۔ اُسکو لگا تھا جیسے کچھ برا ہو گیا ہو ۔ 

ماما ۔۔۔۔ پاپا ۔۔۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کا دروازہ ٹھٹکانا شروع ہوئی تو اکرام جو سو رہے تھے آیت کی آوازیں سن تیزی سے بھاگے ۔

کیا ہوا ۔۔۔؟ وہ نیند سے بوجھل ہی اپنی بیٹی کو گلے لگا گئے تھے شبانہ بیگم بھی اپنی بیٹی کے قریب آئی 

پاپا ۔۔۔۔۔ مجھے شاہ ہاؤس جانا ہے ، مجھے لگتا ہے بڑی امی ٹھیک نہیں ہے ، انہوں نے مجھے کال کیا تھا وہ کچھ گھبرائی سی مجھے لگی ؛۔ 

پاپا پلیز مجھے ابھی ان کے پاس لے کر جائیں، آیت منتیں کرنا شروع ہوئی تو اکرام اور شبانہ نے اپنی بیٹا کا ٹھنڈ پڑتا چہرہ دیکھا ؛۔

آیت اس وقت بیٹا ۔.۔۔۔؟ شبانہ بیگم نے اُسکو سمجھانا چاہا ۔ 

ہاں اس وقت کال ابھی آئی تھی پلیز پاپا ۔۔۔ آپ مجھے سمجھتے ہیں نا ۔۔۔؟ میرا دل بیٹھے جا رہا ہے ۔ مجھے بڑی امی کے پاس جانا ہے ۔ وہ روتے مشکل سے بولی تو اکرام فورا سے جوتی پہنے گئے 

ٹھیک ہے میں بھی چلتی ہوں۔  شبانہ بیگم بھی اپنی بیٹی کو دیکھ گھبرائی ۔

مان ، ارم عائشہ لوگ بھی آیت کی آوازیں سن اٹھ چکے تھے۔ 

پاپا میں بھی چلتا ہوں مان اتنا بولتے گاڑی کی چابی لینے گیا تو آیت مان کے پیچھے ہی بھاگی ۔ 

“ یا اللہ توں ہی خیر کر ۔۔۔ یہاں کیا چل رہا ہے ۔۔۔ جیسے ہی گاڑی شاہ ہاؤس پہنچی شبانہ بیگم ایمولیس دیکھ بڑبڑائئ ۔

اکرام کو بھی کچھ برا ہونے کا احساس ہوا ۔ 

آیت گاڑی سے تیزی سے نکلی تھی ایک نظر وہ جہانگیر ( برہان کا بڑا بھائی ) اور اسلم شاہ لوگوں کو دیکھ گھر میں بھاگی ۔ 

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی سامنے ہی ہال میں حمیدہ بیگم لوگوں کو روتے دیکھ آیت کو لگا تھا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ۔ 

وہ ڈرتے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے آگے بڑھی تو سامنے ہی ہال میں اسماء بیگم کو بے خبر سوئے دیکھ منہ پر ہاتھ رکھ گئی ۔ 

آپا ۔۔۔۔۔۔ !! شبانہ بیگم جو پیچھے ہی تھی ، اسماء بیگم کو دیکھ ان کی طرف لپکی ، 

اسماء بیگم مر چکی تھی اور آیت کو کی زمین ہل چکی تھی وہ مرتے قدموں سے آگے بڑھی تھی ۔ 

کیا یہی انجام تھا ۔۔۔ سچ کے باہر آنے کا ۔۔۔؟ سبھی کے رونے کی آوازیں اونچی ہوئی تھی ، جمال جو سڑھیوں پر بیٹھا تھا صرف سوچ ہی سکا تھا  ،تبھی  بھیگی آنکھوں سے آیت کو دیکھ گیا ۔ 

آیت وہ کتنے مہینوں بعد اُسکو دیکھ رہا تھا ، جمال اُسکا چہرہ دیکھ بنا کچھ کہے لمبے لمبے ڈگ بڑھتے گھر سے نکلا ۔۔۔   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شاہ ۔۔۔۔۔ جنازہ گھر سے اٹھا لاؤ ۔ سلطان شاہ جو سبھی مردوں کے ساتھ بیٹھے تھے ، سرحان کو بولے تو ایان لوگ جو کھڑے تھے گھر کی طرف بڑھے ۔ 

برہان جو وضو کرتے ہٹا تھا ، سرحان لوگوں کو دیکھ پیچھے ہی گھر میں داخل ہوا ۔ 

“ بڑی امی ۔۔۔۔۔ کاش آپ مجھ سے بات کرتی ۔۔! آیت جو انکے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی ان کا چہرہ دیکھ دل میں بڑبڑائی ۔ 

حور کی رو رو کر حالت کافی خراب ہو چکی تھی ناز بیگم اپنی بہو کو سنبھالنے کا کام بھی ساتھ ہی کر رہی تھی ۔۔

جیسے بھی تھا حور کو ماں کی محبت اسماء بیگم سے ملی تھی وہ ان کو اپنی ماں سمجھتی ہی نہیں مانتی بھی تھی ۔۔۔

پیچھے ہٹا  جاؤ ۔۔۔۔۔۔ بیٹا جنازہ اٹھانے کا وقت ہو چکا ہے ، حمیدہ بیگم روتے آیت کو پیچھے جانے کا بول گئی تو آیت جو چار پائی کے ساتھ لگی بیٹھی تھی 

فیصل شاہ کو قریب آتے دیکھ نفرت انگیز آنکھوں سے اٹھی ۔ 

چھونا بھی نہیں میری بڑی امی کو ۔۔۔۔ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ۔۔ گھٹیا انسان ۔۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گئی نہیں ، آیت دھاڑتے ساتھ ہی فیصل شاہ کا گریبان پکڑ گئی 

پورے خاندان کی نگاہیں جو رونے پر مشکوک تھی ساکت ہوئی برہان آیت کو دیکھ تیزی سے آگے ہوا تھا فیصل شاہ نے آیت کی آنکھوں میں بہت کچھ دیکھا تھا ۔۔۔ 

آیت ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی برہان قریب آیا وہ آنکھیں بند کرتی نیچے گری ، برہان نے اُسکو سہارا دیتے پکڑا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پری پلیز کچھ کھا لو ۔۔۔ اسماء بیگم کی کہانی ختم ہو چکی تھی وہ اپنے شوہر کا اتنا بڑا ظلم برداشت نہیں کر سکی تھی اور اللہ کو پیاری ہو چکی تھی ۔ 

حور کے ساتھ ایک ننھی جان بھی تھی جو ابھی اُسکی زندگی میں آنی تھی ۔ 

سرحان اُسکو شاہ ہاؤس سے شاہوں حویلی لے آیا تھا تاکہ اُسکا خیال رکھ سکے 

مجھے بھول نہیں وہ خود کی اسماء بیگم کے ساتھ والی پکس دیکھتے بولی 

تو سرحان کھانے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے اُسکے قریب ہوا اور ایلبم کو اٹھاتے بند کیا ۔

حور ۔۔۔۔۔ جانے والے کو ہم روک نہیں سکتے ۔ میں صرف اتنا بولوں گا کہ جب بھی تم ان کو یاد کرو پڑھ کر بخش دینا ۔ 

ہم سب نے بھی وہی جانا ہے ، جانتا ہوں اسماء آنٹی تمہارے لیے کیا تھی ، لیکن ابھی تم کھانا نہیں کھاؤ گئی تو تمہارے ساتھ بچے پر بھی اثر پڑے گا ۔۔۔ 

وہ اُسکی آنکھوں سے آنسو چنتے بولا تو حور جو رو رہی تھی اُسکے سینے سے لگی۔ 

وہ اتنی جلدی کیوں چلی گئی ۔۔۔؟ یہ اچانک سے کیوں ہوا ۔۔۔۔؟ وہ بچوں کی مانند روتے بولنا شروع ہوئی تھی سرحان خاموشی سے اُسکے بالوں کو سہلانا شروع ہوا ۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آیت نے فیصل شاہ کو ایسے گریبان سے کیوں پکڑا تھا ۔۔؟ برہان کا دماغ مسلسل اُسی سین میں اٹکا تھا ۔

برہان سبھی لوگوں کے چہرے دیکھ گیا تھا جو سب آیت کی اس حرکت کو نوٹ کرتے سوچ میں پڑے تھے 

وہ ایک نظر فیصل شاہ کو دیکھ جو لوگوں میں بیٹھا ہمدردیاں حاصل کر رہا تھا اٹھا ۔۔ 

جمال جو ابھی وہاں آیا تھا برہان کو کھڑے دیکھ چوٹکی سی نگاہ اُس پر دوڑا گیا ۔ 

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ، دونوں کی آنکھوں میں بہت کچھ ظاہر ہو رہا تھا ۔ 

برہان آرام سے آگے بڑھا تو جمال ایک نظر فیصل شاہ کو دیکھتے اسلم شاہ کی طرف بڑھا ۔۔۔

میں میرپور جا رہا ہوں ، میرا  یہاں دم گھٹاتٹا ہے ، اپنے اُس گرے ہوئے بھائی کو بتا دینا کہ جو میں نے کہا ہے اُس پر عمل کرے ۔ اور ایک بات ۔۔۔۔ 

جمال جو جانے لگا تھا رکا۔ اُسکو یہ بھی بول دینا کہ بڑی امی نے اُسکی سبھی باتیں سن لی تھی ۔،

اُسکا نتیجہ یہ رہا ۔ ویسے تو اُس گرے انسان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، مگر پھر بھی اُسکو آگاہ کر دینا ۔،

کہ اُسکی زمین بہت جلد تنگ ہونے والی ہے ، جمال آیت کی آنکھوں میں جو نفرت دیکھ چکا تھا اُس سے وہ اندازہ لگا گیا تھا کہ آیت کو اپنا ماضی ابھی بھی یاد ہے ، 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

برہان ۔۔۔۔۔ بیٹا آیت کو کہیں باہر لے جاؤ ۔ ایسے کرو ۔۔۔ اُسکو حور کے پاس لے جاؤ ، حمیدہ بیگم جو آیت کے پاس سے ہی آئی تھی اپنے بیٹے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پیار سے بولی 

بخار اتار گیا ۔۔۔؟ وہ اُن کے ہاتھ چوم 

آیت ۔۔۔۔۔۔ کے بارے میں پوچھ گیا ۔ 

ابھی کچھ ٹھیک ہے ، تم دیکھو جا کر اُسکو ۔ وہ اپنے لال کو پیار کرتی بولی تو وہ سر ہلاتا آگے بڑھا ۔ 

جیسے ہی وہ روم میں داخل ہوا ، وہ سامنے ہی پول کے پاس بیٹھی نظر آئی 

وہ پانی میں ٹانگیں کیے گہری سوچ میں ڈوبے جانے کیا سوچ رہی تھی کہ برہان اُسکے قریب آتے بیٹھ گیا اُسکو علم بھی نا ہوا ؛۔ 

آیت ۔۔۔۔۔ وہ اُسکو دیکھتے ساتھ ہی اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھے اپنے ساتھ لگا گیا تو وہ چونکی ۔ 

جبکے اُسکے تحفظ بھرے احساس کو پاتے بھیگی آنکھیں بھنچ گئی ؛۔

برہان مجھے یہاں نہیں رہنا ۔ کیا ہم لاہور جا سکتے ہیں ۔۔۔؟ وہ التجائی لہجا لیے بولی تو وہ پوری طرح اُسکی طرف متوجہ ہوا 

جا سکتے ہیں ، یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ، وہ محبت سے اُسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر گیا تو اُسنے کالی سیاہ آنکھوں کی پھاڑ اٹھاتے اپنے شوہر کو دیکھا ۔ 

جو اُسکی خوشی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا تھا ، وہ سبھی ناراضگی ایک طرفہ رکھے اُسکو سکون دینے کا سوچے ہوئے تھا ۔ 

“ بڑی امی مجھے کہنا چاہتی تھی ، انہوں نے مجھے کال کیا تھا ، وہ خود سے بولی تو برہان نے غور سے اُسکا چہرہ دیکھا 

آیت ۔۔۔۔تم نے فیصل ماموں کو ایسے ۔۔۔۔ 

اگر وہ بڑی امی کے پاس ہوتے تو ہم ان کو ہسپتال لے کر جا سکتے تھے ۔ ان کی لاپرواہی کی وجہ سے آج بڑی امی ہم میں نہیں ہیں ۔۔۔

بس اسی لئے مجھے غصہ آ گیا ، وہ خود کو نارمل کرتے برہان کو بولی تو وہ شکی نگاہ اسُ پر ڈالتے خاموشی سے اپنے سینے سے لگا گیا ؛۔

ٹھیک ہے ، سرحان حور کو لے کر یہاں سے لاہور جانے والا ہے تم بھی اُسکے ساتھ چلی جاؤ ۔ 

میں یہاں کچھ دن ماما پاپا کے پاس رہنے والا ہوں ، ان کو میری ضرورت ہے ، وہ اُسکو ویسے ہی خود سے لگائے گویا 

پھر میں بھی یہاں ٹھیک ہوں، تمہارے ساتھ ہی جاؤں گئی ، وہ بچوں کی طرح منمناتی بولی تو وہ اُسکے انداز پر خاموشی سے مسکرا دیا ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فیصل شاہ تم کچھ دن مزید ٹھہرو یہاں ، ایسے اچانک سے کیوں جا رہے ہو ۔۔۔؟ ابھی تو مہینہ بھی نہیں ہوا ، 

سلمان شاہ فیصل شاہ کی میرپور جانے کی تیاری دیکھ حیران ہوئے تھے ۔ 

بھائی صاحب وہاں میرے کام روکے پڑے ہیں ، ابھی یہاں بیٹھ کر کیا کروں گا ۔ بیوی کا غم دل میں ہے ؛۔ 

آ جاؤں گا کچھ دن بعد وہ رونی صورت بناتے بولا تو برہان جو وہی چلا آ رہا تھا اپنے باپ کو دیکھتے ساتھ ہی براجمان ہوا ؛۔

چلو پھر فیصل شاہ جیسا تمہیں بہتر لگے ، سلمان شاہ خاموش ہوئے تو برہان فیصل شاہ کو اٹھتے دیکھ پیچھے ہی اٹھا ۔ 

ماموں ۔۔۔۔۔۔ وہ ان کو تیزی سے قدم اٹھاتے دیکھ پیچھے سے ہی آواز لگا گیا ؛۔

مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہے ، وہ دو ٹوک الفاظ بولتے آگے بڑھا تو فیصل شاہ اُسکو اکڑ کر جاتے دیکھ پیچھے ہی گیا ۔

بہت سی باتیں ہیں جو میرے دل میں بھری پڑی ہیں، ان کے جواب مجھے چاہیے ۔، لیکن بے فکر رہے میں کوئی جواب لینے نہیں آیا ۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ  بہت سے راز ہیں جو میرپور میں دبے ہوئے ہیں ، 

وہ وقت دور نہیں جب برہان شاہ ان تک پہنچ جائے گا ۔ آپ کو وان کرنا چاہتا ہوں ۔ کہ مجھ سے بچ کا رہنا ہے 

چونکہ آپ میرے نشانے پر ہیں ، وہ بنا لحاظ رکھے فیصل شاہ کو بولا تو فیصل شاہ برہان کے منہ سے راز اور سوچ میں ڈالنے والی باتیں سن گلا خشک کر گیا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

لائکس کم آتے ہیں ویڈیو پر ایسے کیوں کرتے ہو ۔۔۔؟ سبکرائب جنہوں نے نہیں کیا وہ سب کر دیں 

شکریہ 

مدیحہ شاہ  


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment