Pages

Wednesday 25 May 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 91 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 91 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 91

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 91

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 91 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

چاہو تو اند آ سکتے ہو ۔۔۔؟ حیا جو گاڑی سے نکلنے لگی تھی ، اُسکو اسٹینگ پر ہاتھ رکھے دیکھ سرسری سا کہا 

نہیں تم جاؤ ۔۔۔۔ میں تمہارا یہی انتظار کرتا ہوں ، ایان نے بہت آرام سے کہتے اُسکو جلدی جانے اور آنے کا جیسے گویا 

حیا آرام سے جواب دیتی گاڑی سے نکل آگے بڑھی ۔ 

کیسی ہو میڈم ۔۔۔؟؟ ارحم جو اپنی گاڑی سے نکل چلا تھا ، حیا کو آتے دیکھ اُسکے راستے میں حائل ہوتے دریافت کیا 

ایان جو ہنور اُسکو تک رہا تھا ۔ ارحم کو اُسکے راستے میں حائل دیکھ ماتھے پر بل ڈال گیا 

فحال ٹھیک ہوں ، تم بتاؤ آج یہاں کیسے ۔۔۔؟ 

حیا مسکراہٹ چہرے پر لاتے شانے اچکائے ساتھ ہی آگے کو قدم اٹھا گئی 

مجھے بس آج یاد کیا گیا تھا ، وہ بھی اُسکے ہمراہ آگے بڑھتے آنکھ دبا گیا تو حیا کھکھلا کر ہنسی ۔۔۔

ہمم۔۔۔ 

مطلب عالیہ نے بلایا ہے ۔۔؟ وہ دونوں جو آفس کی بلڈنگ میں داخل ہونے لگے

حیا نے بھرپور مزے لیتے شرارت سے پوچھا ۔تو ہلکے سے مسکرایا گیا

“ میرا مشورہ مانو اور اپنی ڈیوٹی پکی پکی یہاں کی کروا لو ۔ حیا جو ارحم کے ساتھ ہی آفس کا جائزہ لیتے باہر نکلی تھی چلتے چلتے اُسکو مشورے سے نوازہ 

اور اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا ۔۔۔؟ ارحم اپنی آنکھوں پر گلاسیز لگاتے سرسری سا بھنویں اچکائے کھڑا ہوا 

اس سے یہ ہوگا ۔ جو آج کل تم ہمارے لیے مفت کا کام کرتے ہو ، اُسکی تنخواہ مل جائے گئی 

حیا بھی آرام سے اپنے سینے پر پاتھ باندھتی وضاحت سے بولی ۔

 ویسے تمہارا خیال برا نہیں ہے ۔ ارحم اچھے سے سمجھا تھا ، جبکے ساتھ ہی اُسکی بات سے اگیری کیا 

میں چھوڑ دو ۔۔۔۔؟ ارحم جو گاڑی کی طرف جانے لگا تھا ساتھ ہی پوچھا 

“ نہیں میرے ساتھ کوئی ہے ۔ شکریہ ۔۔۔ حیا نے اشارہ کرتے خود بھی ایان کی طرف دیکھا تھا 

جو آنکھیں پھاڑ دونوں کو ہی تک رہا تھا ۔ نوائے فرینڈ ۔۔۔؟ ارحم نے گاڑی میں بیٹھے ایان کو دیکھ شرارت سے حیا کو ٹوکا 

ایسا کچھ نہیں ہے ، میرا دوست ہے اور ہونے والا جیجو ۔۔۔ حیا نے تیکے انداز میں بولتے ارحم کی زبان کو بریک لگائی 

لیکن اُسکو دیکھ کر تو مجھے کچھ یہی فیل ہوا ۔ ارحم جو گاڑی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ، اب کہ حیا کو دیکھتے سینجدگی سے گویا 

کیا لگ رہا ہے تمہیں ۔۔۔؟ حیا چونکی تھی ،

جیسے وہ ہمیں آنکھیں پھاڑ دیکھ رہا ہے ، 

اُس سے تو یہی لگتا ہے ۔ جیسے بدن میں آگ لگ چکی ہو ۔ 

ارحم نے کھل کر وضاحت پیش کی تو حیا نے آنکھوں سے اچھے سے ایان کے چہرے پر ٹکائی ۔ 

چشمہ اتارو اور پھر دیکھو ، ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اب جاؤ ۔۔۔ حیا دو ٹوک بولتی سپاٹ سے ہوتی آگے بڑھی 

تو ارحم ہلکے سے مسکراتا اونچی آواز میں سوری بول گیا ۔ حیا پلٹی تھی جبکے ایان نے بھی اچھے سے سوری سنا تھا ۔ 

پاگل نا ہو تو ۔۔۔!! حیا جو گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ، مسکراتے جوابا بڑبڑائی ۔

ایان نے اچھے سے اُسکے الفاظ سننے تھے ۔ اور تیکی سی نگاہ حیا کے آر پار گزاری ۔ 

یہ راستہ تو گھر کی طرف نہیں جاتا ۔۔۔۔!! حیا جو خاموش طاری کیے بیٹھی تھی 

گاڑی کو دوسرے راستے پر جاتے دیکھ دھیمے سے بولتے ایان کو مخاطب کیا 

بہت اچھے سے جانتا ہوں ، ہم گھر نہیں جا رہے ۔، مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ ایان جس کا چہرہ سپاٹ ہو چکا تھا ویسے ہی رعب دار لہجے میں بولتے گاڑی مزید تیزی کی 

حیا خاموش سی ہوتی باہر کی طرف دیکھ گئی ۔ اس کا منہ کیوں بنا ہوا ہے ۔۔؟ سرسری سا دل میں وہ سوچ الجھی 

بات کرنے کئلیے رات کے اوقات میں پارک سے بہتریں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ۔ 

ایان جو حیا کو لیتے پارک پہنچا تھا ۔ اب کہ اُسکے ساتھ قدم سے قدم اٹھاتے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ مستی کرتے دیکھ مسکراتے بولا 

ٹھیک کہا یہاں کا ماحول اپنی ہی ایک دنیا میں کھویا سا نظر آتا ہے ۔ حیا جس نے پارک میں چاروں اطراف نظریں ڈورائی تھی 

کچھ رومانٹک کپل دیکھ ہلکے سے مسکراتی جگہ پسند آنے کا مقابل کو بتا گئی 

وہ دونوں ویسے ہی چلتے ایک بنج تک پہنچے تھے ۔ کہ دونوں ہی آرام سے وہاں براجمان ہوئے ۔۔۔

بولو ۔۔۔۔ کیا ضروری بات کرنی تھی تمہیں ۔۔؟ حیا جس کو ایان کے ساتھ یہ لمحہ محبت کا احساس بخشنا شروع ہوا تھا 

تیزی سے مقابل کو پوچھا تاکہ وہ اس سحر سے نکل دور ہو جائے ۔ چونکہ اب وہ ایان کے احساس کو خود سے دور کر دینا چاہتی تھی 

“ میرا ایک دوست ہے ۔ اُسکا مسلۂ حل کرنا ہے ، ایان نے لمبا سانس بھرتے بات کا آگاہ کیا 

ایک لڑکی اُسکو بے انتہا چاہتی تھی ، وہ اکثر اُسکو تحفے بھجتی اور شرارتی انداز میں تنگ کرتی ۔۔۔ 

وہ اکثر اسُ سے پریشان رہتا ، بالکل میری طرح ،۔۔ ایان نے بولتے بولتے اب کہ اپنی طرف اشارہ کیا

تمہیں میرے بارے میں تو سب کچھ پتا ہی ہے ۔ اب یہی مسلۂ میرے دوست کا ہے ۔ ایان اسُکو حیران ہوتے دیکھ سرعت سی انداز میں گویا 

اب اُسکا مسلۂ یہ ہے ، کہ وہ اسُ لڑکی سے محبت کر بیٹھا ہے ۔ اور دوسری طرف اُسکی شادی تہ ہو گئی ہے ۔۔۔ 

اب وہ کیا کرے ۔۔۔؟ ایان نے بات خرم سے لہجے میں ختم کرتے آئی ابراچکائے ۔

مجھے کیا پتا ۔۔۔!! حیا جو کنفیوز ہو چکی تھی ، اپنے دل کی دھڑکنوں کو تیز ہوتے سن ہڑبڑاتے بولی 

ایسے کیسے تم کہہ سکتی ہو ۔۔ اگر یہی میرا مسلۂ ہوتا تو کیا تب بھی تم ایسے کہتی ۔۔۔؟ ایان اُسکی حالت کو غیر ہوتے دیکھ اچھے سے نوٹ کر گیا تھا 

“ میں کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ پلیز گھر چلو ۔ وہ تیزی سے بولتی اٹھ کھڑی ہوئی 

ایان بھی تیزی سے کھڑا ہوا تھا۔ 

کیوں نہیں کہہ سکتی ۔۔۔؟ اب کہ مقابل نے بازو سے پکڑتے اُسکو اپنی طرف مروجہ سا متوجہ کروایا 

“ لیو می ۔۔۔۔ وہ اُسکے ایسے پکڑنے پر تھمکلاتی بھڑکی 

“ سوری ۔۔۔ ایان نے فورا سے اُسکو چھوڑا تھا کیونکہ یہ اُسکا انداز یا طریقہ نہیں تھا ۔ 

تم مجھ سے بھاگ کیوں رہی ہو ۔۔۔؟ وہ خود کو نارمل کرتے سینجدہ انداز لیے بولا 

حیا کی آنکھیں پھیلی تھی ، وہ یہ کیا بول رہا تھا۔ اُسکو عجیب سا احساس ہوا 

“ می۔۔۔۔ میں کیوں بھاگوں گئی ۔۔؟ وہ لڑاکھڑائی انداز میں بولتے گلے کو سرسری سا ہاتھ لگاتے چھو گئی 

میں اچھے سے جانتا ہوں ؛۔ حیا تم کسی کو چاہتی ہو ۔ کون ہے وہ ۔۔۔؟ ایان نے اب کے جیسے اپنا پتا پھینکا تھا ۔ 

“ ک۔۔۔۔ 

جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرنا ، چونکہ میں یقین نہیں کروں گا ۔ نعمان تمہارے بھائی نے ہی مجھے یہ سب کچھ بتایا 

اُسکے مطابق تمہارا کسی نے دل توڑا ہے ، اور وہ کون جاہل انسان تھا ، مجھے پتا کرنے کا بولا گیا ہے۔ 

اب تم بتاؤ ۔۔؟؟ ایان اپنی بات مکمل کرتے بے نیازی سے واپس بنج پر بیٹھا ۔ 

وہ اپنا کام کر گزار تھا ۔ اب باری حیا کی تھی ، وہ بے یقینی سے اندھوں کی طرح ایان کو دیکھنا شروع ہوئی 

اُسکے آگے پیچھے کیا چل رہا تھا وہ اتنی بے خبر گھوم رہی تھی ، اسُکو جیسے خود پر غصہ آیا 

“ کیا ہوا ۔۔۔۔ کوئی جواب تو دو ۔۔۔؟ وہ اسُکو ویسے ہی بھوت بنے دیکھ اب کہ بنج کی ٹیک چھوڑ تھوڑا فکر والے انداز میں بولا 

وہ جانتا تھا کہ پوری کی پوری باری اُسکے ہاتھ میں ہے ، وہ تہ کر چکا تھا ، کہ حیا کے منہ سے اظہار کروائے گا۔ 

“ بھائی کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، کسی نے میرا ۔۔۔ دل نہیں توڑا ۔ حیا اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے سرسری سا اُسکی آنکھوں میں دیکھ بولی 

چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں ۔ پھر مجھے کب اپنے لور سے ملوا رہی ہو ۔۔۔؟ 

وہ واپس سے اسُکے مقابل کھڑا ہوا تھا ، اور از حد سینجدگی سے پوچھا 

“ کیا مطلب ہے۔۔۔؟؟ حیا حیرت سے منہ کھول گئی

اب تم نے خود کہا کہ بھائی کو غلط فہمی ہوئی ہے ، دل کسی نے نہیں توڑا ۔ 

صاف ظاہر ہوگیا کہ کوئی تو ہے ، جس کو چپکے چپکے بے انتہا محبت کی جا رہی تھی ۔ 

اب میرا ملنا تو بنتا ہے ۔۔۔؟ آخر تمہارا خاص دوست جو ٹھہرا ۔

سوچ کر بتا دینا کب ملوا رہی ہو ۔ ابھی کافی لیٹ ہو گیا ہے ، چلیں ۔۔۔؟ ایان اُسکو بولنے کے لیے منہ کھولتے دیکھ تیزی سے کہتے لب بھینچنے پر مجبور کر گیا 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

تو کیا سوچا زلیخا ۔۔۔۔ زندگی یا موت ۔۔؟ برہان جو اپنے چند آفس کے کاموں سے فارغ ہوتے بڑے فام ہاؤس آیا تھا 

زلیخا کے سامنے بیٹھتے ساتھ ہی سگریٹ منہ میں دباتے کمرے میں دھواں پھیلایا 

“ یہ کچھ بول کیوں نہیں رہی ۔۔۔؟ برہان اُسکو مدہوش سا حالت کو غیر ہوتے دیکھ اب کے سخت بھاری آواز میں پھنکاڑا 

“ سر یہ کچھ دن سے ٹھیک نہیں ہے ، ڈاکٹر کو چیک کروایا ہے ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ بخار ہے ۔۔۔ 

کھانے کہ بعد دوائی دی گئی ہے ۔ شاید اُسی کی وجہ سے وہ نیند میں مبتلا ہیں ۔ 

کاشف جو زلیخا کی دیکھ بھال کر رہا تھا ، اُس پر نگرانی کی پوری ذمہ داری ڈالی گئی تھی ، وہ برہان کے سخت انداز اور تنے چہرے کو دیکھ دھمیے سے گویا

زلیخا ۔۔۔! برہان کاشف کی بات سن سرد لمبا سا سانس خارج کرتے سگریٹ نیچے پھینک پاؤں سے مسل چئیر کی ٹیک چھوڑ تھوڑا آگے کو جھکا 

زلیخا نے فٹ سے آنکھیں کھولی تھی ، س۔۔۔سرکار ۔۔۔۔!! 

وہ ایک سے دو بار آنکھوں کو جھپکاتے پوری کھول غور سے برہان کو دیکھ گئی 

تو تم نے کیا تہ کیا ۔۔؟ زندگی یا موت ۔۔۔؟  برہان اُسکو ویسے ہی دیکھ آنکھوں سے اشارہ کرتے ہاشم کو پانی لانے کا کہا ۔۔۔۔

وہ تیزی سے گیا تھا ۔ اور زلیخا کو لاتے پانی کا گلاس پکڑا یا ۔۔

“ سرکار ۔۔۔۔ کس کے بارے میں آپ کو جاننا ہے ،۔۔؟ زلیخا کو تو اپنی زندگی سب سے زیادہ پیاری تھی 

وہ اچھے سے جانتی تھی کہ زندگی ہو گئی تو ہی وہ کچھ اور کرے گئی 

مجھے اسلم شاہ اور فیصل شاہ کے بارے میں سب ۔۔۔۔۔ کچھ ۔۔۔ اچھے سے جاننا ہے ۔۔ 

“ اسلم شاہ کو کب سے جانتی ہو ۔۔۔؟ پہلا سوال برہان نے اسلم شاہ کے بارے میں کیا تھا ۔ 

چونکہ جب بھی آیت کے ساتھ کچھ ہوا تھا پہلا نام اسلم شاہ کا ہی گونجا تھا ۔ اسی لیے برہان نے پہلا سوال اسلم شاہ پر پوچھا 

“ سرکار میں زیادہ تو اسلم شاہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ ہاں وہ اکثر کوٹھے پر آیا کرتا تھا ۔۔۔

کبھی اپنی ہوس مٹانے تو کبھی اپنے بھائی کے کاموں پر بریفنگ دینے ۔ 

زلیخا نے دو لفظ بولتے پوری بات ختم کی، تو برہان اتنا کم اسلم شاہ کا ذکر سن چونکا ۔ 

جبکے تبھی زلیخا چئیر سے نیچے گرنے کو ہوئی برہان نے تیزی سے اُسکو پکڑا تھا 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس ڈریس میں میں کچھ زیادہ چمک نہیں رہی ۔۔۔؟ وہ خود کو بلیک ڈریس میں دیکھ کنفیوز ہوئی ۔۔

بلیک لمبا فراک پہنے وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ پورا بلیک ڈیس گلے پر گولڈ کلر کی باریک سے کڑھائی کی گئی تھی 

اور ویسے ہی فراک کے نیچے ہلکے سے باریک گولڈ کڑھائی میں کام کیا گیا تھا ۔

جس نے بھی وہ ڈریس بنایا تھا لاجواب بنایا تھا ۔ 

“ آیت یہ کپڑوں کی نہیں تیری اپنی چمک ہے ، آیت جو غور سے خود کو دیکھنا شروع ہوئی تھی ، بھرپور جائزہ لیتے  دل کی آواز سن گئی 

وہ بلیک ڈریس میں مزید نکھر چکی تھی ، چلو ڈریس تو اچھا لگ رہا ہے ۔ 

لیکن ان بازوں کا کیا کروں ۔۔۔۔؟؟ یہ تو بے پردگی ہے۔ آیت خود کے بازوں کو دیکھ منمائی ۔

“ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔!! آیت ۔۔۔؟ توں اتنا کیوں سوچ رہی ہے ۔۔۔؟ اتنا تو توں برداشت کر لے آج ۔۔۔!!

دل نے ایک بار پھر سے جیسے اُسکو زیادہ سوچنے سے روکا ۔ 

جلدی تیار ہو جا ۔۔۔ کہیں ایسا نا ہو وہ سر پر آ کھڑا ہو جائے ۔ 

آیت کپڑوں کو گھورنا بند کرتی تیزی سے اپنے گنے لمبے بالوں کو آگے کی طرف گراتے پیچھے سے تنیوں کو پکڑتے باندھنا شروع ہوئی 

کتنا مشکل کام ہے یہ ۔ آیت جس کو تنایا باندھنے میں پانچ منٹ لگ گئے تھے لمبا سانس کھنچتے بڑبڑائی 

اب ان بالوں کا کیا کروں ۔۔۔؟ وہ منہ گول بناتی ہلکے سے ڈمپل گالوں پر نمایا کر گئی 

جبکے اگلے ہی پل جلدی سے برش اٹھایا تھا ، اور پھیرتے سوئیاں اٹھاتے بالوں کو سیٹ کرنا شروع کیا 

وہ تیزی سے سوئیاں سر پر لگاتے لگاتے روکی ۔ آج بال کھول دوں ۔۔۔؟ دل نے جیسے سوال کیا تھا ۔ 

اُسکے ہاتھ روکے تھے ۔ جبکے خود سے ہی وہ سوئیاں نکلنا شروع ہوئی 

کھولے چھوڑ دیتی ہوں ۔ وہ تیزی سے کام کرتے اب کہ پھر سے بالوں میں برش پھیر گئی ۔۔

کیا مصیبت ہے ۔ دوپٹے کے نیچے سے بال نظر آئیں گئے ۔۔۔ وہ سر پکڑ چئیر پر بیٹھی ۔ جبکے دل کیا تھا پہلے اچھے سے رو لے 

“ تھوڑے سے بال کاٹ دوں ۔۔؟ وہ خود کے بنے چہرے کو آئینے میں دیکھ دھیمے سے خود کو ہی پوچھ گئی ۔ 

آیت جس کو اپنے بالوں سے بے حد محبت تھی ، آج کاٹنے کو تیار ہوئے بنا سوچے کہ وہ کیا کر رہی ہے ۔ 

بال کاٹنا شروع ہوئی ، چلو یہ کام بھی ٹھیک ہو گیا ، وہ اپنے کمر تک آتے بالوں کو دیکھ ہلکے سے مسکرائی 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

“ بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔! سرحان جو حور کے لیے چئیر پیچھے کرتے اسُکو بٹھا گیا تھا 

ویسے ہی اُسکے قریب جھکتے سرگوشی کرتے کان کی لو تک کو سرخ کیا 

“ تھینکس ۔۔۔۔ وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو قابو رکھتے ہلکے سے مسکراتے دھمیے سے گوئی ۔۔

سرحان بھی آرام سے اپنی جگہ پر براجمان ہوا تھا ، ساتھ ہی دونوں نے کھانے کا آڈر دیا 

“ آج اتنی مہربانی کیسے ۔۔؟ سرحان اسُکو کنفیوز ہوتے دیکھ سرسری سے درتشگی انداز میں بولا 

تم ایسے ہی مجھ پر ٹونگ مارنے والے ہو۔۔؟ یا ابھی مجھے اپنے جلنے کا سچ بتاؤ گئے ۔۔۔؟ 

حور جو پہلے خاموشی اختیار کرنے لگی تھی ، غصے کو بٹھاتے بہت پیار سے مصعوم چہرہ بناتے طنزیہ تیر چلایا 

ٹھیک ہے شام خراب نہیں کرتے ، جیسے ہی ویٹر نے کھانا رکھنا شروع کیا ۔ 

دونوں نے ہی خاموشی کو اپنا سہارا بنایا ، “ آخر ناراض ہونا تو میرا بنتا ہے ۔۔۔! آخر اُس دن کیسے مجھ پر تیر چلائے تھے 

حور کا منہ بنا تھا جبکے ساتھ ہی اُسکو وہ دن یاد آیا تھا جب سرحان نے ناشتہ بناتے حور کو باتوں باتوں میں یہ احساس کروا دیا تھا 

کہ ابھی تک ان کا رشتہ ادھور ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حور میرپور چلی آئی 

کہاں کھو گئی ۔۔۔۔؟ سرحان نے چوٹکی بجاتے اُسکو ہوش میں آنے کا گویا

میں نے تمہارے ہوتے ہوئے کہاں کھونا ہے ۔ وہ زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر لاتے بولی 

“ ویسے تم نے بتایا نہیں ، آج رات کا کیا سین اون کرنے والی ہو ۔۔۔؟ سرحان جو کھانا کھانا شروع کر چکا تھا 

شرارت سے کہتے ساتھ ہی ایک آنکھ دبائی ۔ 

حور نے ہنور گھورتے مقابل کو دیکھا ، جو تم بولو ۔۔۔ 

جبکے اگلے ہی لمحے پلیٹ آگے کرتے بولا ۔ 

کیا سچ میں ۔۔۔؟ سرحان تو کھاتے کھاتے ہی پھنسنے لگا تھا۔ 

پانی پیو لو ۔۔۔۔!! حور نے جلدی سے گلاس پاس کیا تھا ۔ 

“ جو ابھی تم نے کہا تھا وہ مذاق تھا ۔۔۔؟ سرحان پانی ایک ہی سانس میں پیتے گلاس ٹیبل پر رکھتے سینجدہ ہوا 

تمہارا دل کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔؟ حور کھانے کے دوران ہی سرسری سی نگاہ اٹھاتے مقابل کو دیکھ الٹا سوال پوچھ گئی 

میں بہت کچھ اچھے سے سمجھ رہا ہوں ۔ وہ منصوعی ثرارت چہرے پر سجائے بروان آنکھیں پھیر گیا 

“ کیا تمہیں ہمارا رشتہ مظبوط نہیں لگتا ۔۔۔؟ حور نے بھی سینجدگی سے دریافت کرنا چاہا 

اس سوال کا یہاں کیا کام ۔۔۔؟ وہ شانے اچکائے دبی آواز میں رعب دار انداز لیے  بھڑکا

 رنگ ۔۔۔ 

تبھی حور کا فون بجا تھا ۔ وہ بنا دیر کیے فون پک کرتے کان سے لگا گئی 

سرحان نے کھا جانے والی نظر ڈالتے لب بھنچے ۔

“ حور ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے میں کھائی میں گرا گئی ہوں ۔پلیز میری ہیلپ کر ۔۔۔۔ 

حیا جو ایان کے ساتھ گھر واپس آ چکی تھی، اُسکی باتوں کو یاد کرتے کانپ اٹھی تھی 

اُسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ۔ جیسے ہی خیال حور کا آیا فون اٹھاتے نمبر گھومایا ۔۔۔

“ ہوا کیا ہے۔۔؟ حور جو سرحان کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

دھیمی آواز میں بولتے وہ ساتھ ہی چہرے پر سمائل سجاتے سرحان کو تک گئی 

 “ ایان کو میرے بارے میں سب کچھ پتا چل گیا کہ میں کسی کو چاہتی ہوں ؛۔ 

“ واٹ ۔۔۔۔ حور جو بہت اعتماد کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ، شاکڈ ہوتی بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی 

یہ بنا دیکھے کہ کھانا اُسکے سامنے پڑا ہوا ہے ، جیسے ہی وہ کھڑی ہوئی تھی 

ویسے ہی پستے کی ٹرے ٹھاک سے نیچے گری ، 

ابھی آس پاس کے ٹیبل پر بیٹھے لوگو سرحان اور حور کو دیکھ گئے ۔

 “ س۔۔۔ سوری ۔۔۔۔ حور ہڑبڑائی تھی ۔ جبکے پہلی بار ڈرتے سرحان کو دیکھا 

جو لب بھنچے ضبط کی انتہا کو پہنچا تھا ۔ 

اتنا ہی نہیں یار۔۔۔ اُسنے نے مجھ پر گمان کیا کہ نعمان بھائی بھی جانتے ہیں ۔ حیا رونے کو ہوئی تھی 

“ کیا بولے جا رہی ہو ۔۔؟ حور تو خود سن پوری طرح صدمے کی حالت کو پہنچی ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔۔؟ بھول سے میری جان نکلنا شروع ہو چکی ہے ۔ آیت گھڑی پر ٹائم دیکھتی ساتھ ہی پیٹ پر ہاتھ رکھ گئی ۔،۔

وہ مکمل تیار ہوتے دو گھنٹے سے اُسکا بے صبری سے انتظار کرتے سوکھ چکی تھی 

وہ  خود کو آئینے میں دیکھتے ایک بار پھر گھڑی پر ٹائم دیکھ گئی ، جو دس بجنے کا بتا رہی تھی ، چلو آیت اٹھ کر نماز ہی ادا کر لو ۔

“ یہ نواب لوگ ۔۔۔ وہ خود سے بولتے اٹھی تھی ، جبکے لب بھنچتی واش روم میں گھسی ۔ ۔۔۔۔

“ کہیں بھول تو نہیں گیا ۔۔۔۔؟ جائے نماز ہاتھ میں پکڑتے دل سے صدا آئی 

“ ایک بار فون ہی کر لے ۔ بے ساکت لب سے ادا ہوا تو وہ ٹیبل سے فون اٹھاتے کال ملا گئی ۔ 

“ دو فون رکھنے کا کیا فائدہ ۔۔۔۔؟ جب دونوں عین وقت پر بند ہی کرنے ہوتے ہیں ۔۔؟ 

غصے سے فون بیڈ کی طرف اچھالتے پھٹک سے جائے نماز بچھائی ۔ 

“ وہ نہیں آنے والا ۔۔۔۔پکا کام میں مصروف ہو گیا ہوگا ۔اسی لیے اتنی دیر ہو گئی ہے ۔ آیت جو اپنی نماز سے فارغ ہو چکی تھی 

جائے نماز رکھتے ایک بار پھر فون اٹھاتے نمبر ملایا کہ شاید اب فون اٹھا لے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 “ سائیں ۔۔۔ 

کیا کہا ڈاکٹر نے ۔۔۔۔؟ برہان جو فام ہاؤس میں ٹہل رہا تھا ۔ 

خادم کے سائیں پکارنے پر پلٹتے اسُکو غور سے دیکھا ۔ 

“ سائیں ۔۔۔ ڈاکٹر بول رہا ہے، آرام کرنے دو بخار ہے ، اُسکو سونے دو ۔ پسینا آئے گا تو ٹھیک ہو جائے گئی ۔ 

خادم نے تفیصل سے بتاتے برہان کو سکون کا سانس بخشا ۔ نہیں تو برہان کو لگا تھا کہیں زلیخا بتائے بنا ہی گزر نا جائے 

ٹھیک ہے ۔ جیسا ڈاکٹر نے کہا ہے ۔ ویسے ہی اُسکا خیال رکھو ۔ 

کاشف اب بالکل بھی اُسکو چئیر پر بٹھا کر باندھنے کی ضرورت نہیں ۔ 

اُسکو بیڈ پر ڈالو اور نگرانی اچھے سے کرو ۔ برہان سینجدگی سے بولتے کاشف کو کہہ آگے بڑھا 

تو خادم اور ہاشم بھی پیچھے ہی لپکے ۔

“ یہ اسلم شاہ کا نام اتنا کم کیوں اٹھایا جاتا ہے ۔۔۔؟ جبکے کام سبھی وہ کرتا ہے ۔ برہان روڈ کو دیکھتے اپنی سوچ میں گرا 

“ سائیں ۔۔۔ چھوٹی بی بی کی کال آئی ہوئی ہے ۔ خادم جس کے پاس برہان کا ایک فون تھا ۔ 

جس پر وہ اپنے کام کے سبھی نمبر رکھتا تھا ۔خادم کی آواز سن فون اُسکے ہاتھ سے لیا 

“ شام کو تیار رہنا ڈنر باہر کرے گئے ۔ جیسے ہی مس کال دیکھی ، اپنے کہے آواز یاد آئے ۔۔۔

“ مر گیا ۔۔۔۔ وہ اُسکو فون کو سیٹ پر سائیڈ میں رکھتے تیزی سے اپنا دوسرا فون جو اُسنے اپنے پاس رکھا تھا 

وہ نکال اون کیا ، جیسے ہی فون اون ہوا ۔ آیت کی کال وہاں بھی وصول ہوئی 

“ خادم گاڑی گھوماو۔ وہ ہڑبڑیا تھا ۔ پہلی بار اُسکو آیت کے غصے کے خوف نے آ گھیرا تھا ۔۔۔۔

“ برہان بیٹا وہ کسی بھی طرح تم سے بات کرنے والی نہیں ۔۔۔ 

برہان جو گھر پہنچنے والا تھا ، کیمرے یاد آتے تیزی سے ایپ کھول گیا 

سارا گھر خالی ہی نظر آیا تھا ۔ اس کا مطلب وہ روم میں ہے ۔ برہان سبھی جگہوں کا جائزہ لیتا بڑبڑایا

“ یہ کیا ہوا۔۔۔؟ ابھی وہ ویسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا کہ گھر کی لائٹس آف دیکھ اونچی آواز میں بولا 

لائٹ کیسے چلی گئی ۔۔۔۔؟ اب کہ وہ خادم کو گھور گیا۔،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یار وہی بول رہی ہوں جو میرے ساتھ ہوا ہے ، ابھی تم بتا دو میں کیا کروں ۔۔؟ 

حیا میں تجھے تھوڑی دیر بعد کال کرو ۔۔۔؟ حور سرحان کو کھانے سے اٹھتے دیکھ تیزی سے بولتی فون کاٹ گئی 

“ ایم سوری ۔۔۔۔!! حور نے تیزی سے بولا تھا ۔ 

چلو یہاں ۔۔۔! وہ دو ٹوک گویا تھا ۔

آیت سب کچھ مربوط خراب ہو گیا ۔ حور بے بسی سے بھرا چہرہ بناتے اُسکے پیچھے ہی بھاگی ۔۔

سرحان ۔۔۔۔ حور اُسکو اتنا تیز چلتے دیکھ اونچی آواز میں بولتے اپنی ہیل کو کھا جانے والے انداز میں گھور گئی 

تھوڑا آہستہ چلو ۔ یار ۔۔۔۔ کیا مسلۂ ہے تمہارا ۔۔۔؟ 

حیا کی کال تھی ، ضروری کام آ گیا تھا اُسکو ۔ حور نے پہلی بار جیسے اُسکو صفائی پیش کی تھی ۔۔۔

یہی مسلۂ ہے تمہارا ۔۔۔۔۔!!وہ اک دم سے پلٹا تھا ۔ حور جو اپنے دھیان میں تیزی سے قدم اٹھاتے بالکل اسُکے پیچھے چل رہی تھی ۔ 

اسُکے ایسے اچانک سے پلٹنے پر قریب آئی ، 

کہ جب بھی تم میرے ساتھ کہیں ہم مصروف ہوتی ہو ۔ تمہارا یہ کام درمیان میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے 

“ کیا تم آج میرے لیے اس شام اپنا فون آف نہیں کر سکتی تھی ۔۔؟ 

وہ تقربیا دھاڑنے والے انداز میں چیخا تو حور نے بیچارگی سے لاچارہ ہوتے آنکھیں پھیلائی ۔۔۔

“ حور کبھی تو میرے لیے بھی اپنے کچھ پل ان لوگوں سے دور نام کر دیا کرو ۔۔۔!! وہ اب کہ سرد لہجے میں کہتا گاڑی میں سوار ہوا ۔۔۔۔

جبکے حور کی آنکھیں بڑھی ، وہ بنا کچھ بولے گاڑی میں بیٹھی ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ اتنا اندھیر کیوں ہو گیا ہے ۔۔۔؟ آیت جو سونے کے لیے بیڈ پر لیٹی تھی ۔ 

اچانک سے کمرے کی لائٹ آف ہونے پر بڑبڑاتی اچھال کر بیڈ سے نیچے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

ف۔۔۔۔فون کہاں ہے ۔۔۔۔ می۔۔۔ میرا ۔۔۔ وہ گھپ اندھیرے میں گھبراتے چھوٹے چھوٹے قدم ٹیبل کی طرف اٹھائے ۔۔۔

گ۔۔۔۔گاڈرز۔۔۔۔۔ وہ اک دم سے چیخی تھی ، 

ک۔۔۔۔ کون ہے ۔۔۔؟ آیت کو لگا تھا جیسے کچھ آہٹ ہوئی ہو ، وہ پھنکاری لہجے میں گھبراہٹ سے گرجی 

آنکھوں سے آنسو بہتے گالوں پر سیلاب کی شکل میں نکلے۔ 

جلدی سے دیکھو ۔۔۔۔ !! برہان جو گھر میں داخل ہو چکا تھا۔ 

تیزی سے بھاگا تبھی گاڈرز جو پہلے ہی جرنٹر کو چلانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے 

برہان کی گرج دار آواز سن ہاتھ چلاتے اُسکو دیکھنا شروع ہوئے 

وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوتا سیدھا سڑھیوں کو پھلکتے اپنے روم میں داخل ہوا 

“ کو۔۔۔ 

آیت ۔۔۔۔برہان جو اپنے فون کی ٹارچ چلائے ہوئے ہی آیا تھا ُاسکو ٹیبل کے قریب ہاتھ مارتے دیکھ لپکا ۔ 

“ ب۔۔ برہان ۔۔۔۔ آیت جس کو لگا تھا اُسکی آنکھیں بند ہو جائے گئی 

روشنی کو دیکھ ساتھ ہی برہان کی آواز سن اُسکی طرف پلٹی 

مقابل نے تیزی سے اُسکو اپنے حصار میں قید کیا ۔

“ شش۔۔۔۔ ڈرو مت۔۔۔۔ میں آ گیا ہوں نا ۔۔۔۔ برہان اچھے سے جانتا تھا ، کہ آیت کا خوف ایک اندھیرہ بھی تھا 

اسی لیے اُسکو مظبوطی سے اپنے حصار میں بھنچا ۔۔

تبھی لائٹس اون ہوئی تھی ۔ برہان نیلی آنکھیں اٹھاتے لائٹس کو دیکھ گیا ۔ 

دیکھو لائٹس آ گئی ۔۔ برہان اُسکو ویسے ہی سسکیاں بھرے دیکھ پیار سے بولا  

“ روم میں ۔۔۔ کوئی تھا ۔۔۔ وہ کالی سیاہ آنکھیں روم کے چاروں اطراف گھوماتی دبی آواز میں برہان کو بولی 

کوئی نہیں تھا ، صرف تم تھی ۔ وہ  پیار سے اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے بولا 

“ تمہیں ۔۔۔۔۔ 

آیت یقین کرو میری جان ۔۔۔ میں سچ بول رہا ہوں ۔ اس سے پہلے آیت آگے کچھ بولتی وہ اُسکی بات کاٹ دھمیے سے سرگوشی نما انداز میں سحر چھوڑ گیا 

دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں خود کے لیے بے انتہا محبت ناچتی دیکھی تھی 

“ تم اتنے یقین سے کیسے بول سکتے ہو ۔۔؟ آیت اپنی بھیگی پلکوں کو جھپکاتے درتشگی سے بولتی چہرے پر سرخی پھیلا گئی

مقابل نے غور سے اُسکی بھیگی پلکیں دیکھی ، وہ کالی سیاہ آنکھوں کو کالے کاجل سے سجائے دل کی دھڑکنیں تیز کر گئی

اب کچھ یوں تھا ، کہ وہ پیار سے اُسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے کھڑا تھا 

اور وہ اُسکے حصار میں ویسے کی اپنے ہاتھوں کو مقابل کے پیچھے پیٹ پر لگائے چہرہ اٹھائے پوچھنے میں مصروف تھی 

“ کیونکہ یہاں پورے گھر میں تمہاری سیوٹ کے لیے کیمرے لگائے ہیں ۔

وہ ویسے ہی اُسکے چہرے کو دیکھتے محبت سے کوٹھے کے پھورے سے گال پر بہتے آنسو کو صاف کر گیا 

“ کیمرے ۔۔۔؟ وہ شاک سی ہوتی آنکھیں بڑی کر گئی 

برہان کو اُسکی سادگی پر بے اختیار پیار آیا تھا ، دل کیا تھا اُسکے چہرے کو چوم ڈالے ۔

“ یہ تم کیوں لگوائے ہیں ۔۔۔؟ وہ تیزی سے دور ہوئی تھی ۔ 

جبکے جیسے ہی خیال آیا کہ دوپٹہ پاس نہیں ہے ، واپس بیڈ کی طرف لپکی ،

مقابل جو اُسکو غور سے دیکھنے لگا تھا ، کہ  وہ کیا پہننے ہوئی ہے ، 

وہ بیڈ پر چڑھتے بیٹھ اسُکے ارمانوں پر پانی پھیر گئی ۔ 

وہ خیال  کو جھٹکتے پیچھے ہی بیڈ پر آتے بیٹھا ، 

تبھی وہ بنا دیکھے کمبل اوڑھتے لیٹی

“ آیت پلیز میری بات سنو ۔ وہ بیڈ پر بیٹھتے اب کے کمبل کھینچنا شروع ہوا 

مجھے کوئی بات نہیں کرنی ، اور ۔۔۔۔ وہ اک دم سے کمبل منہ سے ہٹاتی پھنکاری انداز میں مقابل کو پڑی 

خبر دار اگر اب پھر سے میرے کمبل کو کھینچنے کی کوشش کی تو ۔ 

وہ وان کرتی کروٹ لیتے بائیں طرف منہ کر گئی ، ہنور کروٹ بدلی تھی ، اس بار چہرہ باہر ہی رکھا 

“ میں کام میں پھنس گیا تھا ۔ یہ دیکھو آتے ہوئے میں کھانے کیلئے پیزا لگایا ۔ 

برہان جو خادم کو ڈور کے باہر دیکھ چکا تھا ، اٹھتے خادم سے بیگ لیتے واپس سے اُسکے قریب آتے بیٹھا ۔ 

آیت پلیز کھا لو ۔ تمہیں بھول لگی ہو گئی ، وہ اب کے التحا لیے گویا 

مجھے بھول نہیں ۔ تم کھاؤ اور جاؤ ۔۔۔ وہ کاٹ دار لہجے میں بھڑکی 

“ اگر اتنا ہی کام تھا ۔ تو پہلے کہا کیوں تھا۔۔۔؟ وہ مچلتی مچھلی کی مانند لیٹے سے پھر اٹھتے درتشگی لہجا لیے دھاڑی 

“ آج تو تمہاری سنی ، آگے سے یہ غلطی کبھی دوہرانے نہیں دوں گئی۔  وہ انگلی اٹھاتے چباتے اپنے غصے کی انتہا بتا گئی 

برہان جو خاموش سا بس اُسکو تکنے میں مگن ہوا تھا ۔

اب کہ غور سے اُسکے چہرے کو دیکھا ، وہ بلیک ڈریس نے قیامت ہی ڈھا رہی تھی 

اُسکے جالی دار بازو اچھے سے خوبصورت بازوں کی نمائش ظاہر کر رہی تھی 

وہ بنا دوپٹے کے مقابل کو مدہوش کرتی جیسے اپنی سحر میں جکڑنا شروع ہوئی تھی 

وہ کتنی مشکل سے دل پر قابو کیے بیٹھا تھا اس پل وہ صرف وہی جانتا تھا ۔

مقابل نے نظریں ادھر ادھر گھومانے سے گریز کرتے چہرے پر ٹکائی 

جو بجلیاں گرانے کو پہلے ہی تیار بیٹھا تھا ۔ کاجل سے سجی کالی سیاہ آنکھیں ، گلابی پھنکنی جیسے خوبصورت ہونٹ ، جیسے جیسے وہ بول رہی تھی گالوں پر ہلکے سے ڈمپل نمایاں ہوتے ساتھ ہی چھپنے کی کوشش کرتے 

مقابل نے فرصت سے جیسے بھرپور جائزہ لیا تھا ، وہ اُسکے کانوں میں پہننی چھوٹی بالیاں دیکھ ساتھ ہی کھولے گنے بال دیکھ گیا ، جس کو وہ اٹھاتے جوڑا بنانا شروع ہوئی تھی 

“ کھولے رہنے دو ۔۔۔ مقابل نے ویسے ہی کھوئے انداز میں ُاسکے ہاتھ پکڑتے روکا 

بالکل بھی نہیں۔۔۔ وہ ایک بھی پل ضائع کیے بنا مقابل کا ہاتھ جھٹکتی جوڑا بنا گئی 

“ میرے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہے نا ،۔؟ وہ اُسکو ویسے ہی خود کو نادیدواں کی طرح تکتے دیکھ دھاڑی 

تو وہ جلدی سے ہوش میں آتے پوری طرح متوجہ ہوتے سینجدہ ہوا 

“ آیت یہ کام اچانک سے آ گیا تھا ، یقین جانو ۔۔۔

مجھے کچھ نہیں جاننا ۔ تمہارے لیے تمہاری یہ کرسی اور اُسکے کام تمہیں مبارک ہو ز

اک بات بتاؤ ۔۔۔ کیا میں تمہارے ساتھ ہر روز باہر جاتی ہوں جو میں تمہیں بولنے کا موقعہ دوں ۔۔۔؟ 

جتنا مجھے یاد پڑ رہا ہے ، شاید ہم پہلی بار کہیں باہر جا رہے تھے ، لیکن نہیں وہ بھی تم نے اپنے کام کے نام شام کر دی 

 برہان شاہ کچھ بھی صفائی دینے کئ ضرورت نہیں ۔  میں اچھے سے سمجھ چکی ہوں 

آیت کا دل سچ میں جیسے تیش میں تپا تھا ، وہ کا قدر چاہ سے تیار ہوئی تھی 

کہ آج وہ ڈنر پر اُسکے ساتھ باہر جائے گئی ، سبھی چیزوں کا بیڑا غرق کر چکا تھا ۔ 

اب جاؤ اور مجھے سونے دو ۔ وہ ہاتھ جوڑتی مقابل کے کھولتے لب بھنچ گئی 

“ لگتا ہے ، مجھے اسپیشل ڈنر ارنیجٹ کرنا پڑے گا ۔۔۔!! وہ دل میں سوچ اٹھا تھا ۔ آیت ناراضگی اپنی جگہ پر رکھو 

پلیز یہ تو کھا لو ،۔۔۔؟ وہ ایک بار پھر بولتے التجائی لہجے میں فکر لیے بولا  

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

  

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment